اکتوبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۰۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

رمضان میں قیامِ اللیل

سوال : براہِ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:

۱-  علماے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اول وقت میں (عشاء کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت موکدہ کفایہ ہے‘ یعنی اگر کسی محلے میں تراویح یا جماعت نہ ادا کی جائے تو اہلِ محلہ گنہگار ہوں گے اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمے سے ترکِ جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے میں کیوں‘ ایسا نہیں ہوا؟ اور اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح باجماعت نہ پڑھنے کی وجہ سے گنہگار تھے؟

۲- کیا نمازِ تراویح اول وقت میں سونے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے؟ کیا سحری کے وقت تراویح پڑھنے والا فضیلت و اولیت سے محروم ہوجائے گا؟ اگر محروم ہوجائے گا تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ التی تنامون عنھا افضل من التی تقومون؟

۳-  کیا رمضان میں نمازِ تہجد سے تراویح افضل ہے؟ اگر ایک آدمی رمضان میں عشاء پڑھ کر سو رہے اور تراویح پڑھے بغیر رات کو تہجد پڑھے (جب کہ تہجد کے لیے خود قرآن مجید میں صراحتاً ترغیب دلائی گئی ہے اور تراویح کو یہ مقام حاصل نہیں) تو اس کے لیے کوئی گناہ تو لازم نہ آئے گا؟ واضح رہے کہ تراویح اور تہجد دونوں کو نبھانا مشکل ہے۔

۴-  کیا تراویح کے بعد وتر بھی جماعت سے پڑھنے چاہییں؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تراویح سے پہلے وتر پڑھ لے اور رات کے آخری حصے میں تراویح ادا کرلے؟

۵-  تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟ کیا صحیح احادیث میں آٹھ‘ ۲۰‘ ۳۸ یا ۴۰ رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟

۶-  کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ ماذال بکم التی رایت من صنیعکم خشیت ان یکتب علیکم ولو کتب علیکم ماقتم بہ فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صلوٰۃ الــمرء فی بیتہ الالصلٰوۃ المکتوبۃ تو وہ اسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟

جواب : تراویح کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱-            نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے زمانوں کی بہ نسبت رمضان کے زمانے میں قیامِ اللیل کے لیے زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز آپؐؐ کو بہت محبوب تھی۔

۲-            صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں تین رات نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر یہ فرما کر اسے چھوڑ دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تراویح میں جماعت مسنون ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تراویح فرض کے درجہ میں نہیں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگ ایک پسندیدہ سنت کے طور پر تراویح پڑھتے رہیں مگر بالکل فرض کی طرح لازم نہ سمجھ لیں۔

۳-            تمام روایات کو جمع کرنے سے جو چیز حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی وہ اول وقت تھی نہ کہ آخر وقت میں۔ اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ ۲۰(اگرچہ ایک روایت ۲۰ کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت کی بہ نسبت ضعیف ہے)۔ اور یہ کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد واپس جاکر اپنے طور پر مزید کچھ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ وہ مزید رکعتیں کتنی ہوتی تھیں؟ اس کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں ملتی۔ لیکن بعد میں جو حضرت عمرؓ نے ۲۰ رکعتیں پڑھنے کا طریقہ رائج کیا اور تمام صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا‘ اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ زائد رکعتیں ۱۲ ہوتی تھیں۔

۴-            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانے تک باقاعدہ ایک جماعت میں سب لوگوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج نہ تھا‘ بلکہ لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں میں پڑھتے تھے یا مسجد میں متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ اسی تفرق کو دُور کر کے سب لوگوں کو ایک جماعت کی شکل میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس یہ حجت موجود تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تین بار جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی۔ اس لیے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے کو یہ فرما کر بند کیا تھا کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر جانے کے بعد اس امر کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا کہ کسی کے فعل سے یہ چیز فرض قرار پاسکے گی‘ اس لیے حضرت عمرؓ نے ایک سنت اور مندوب چیز کی حیثیت سے اس کو جاری کر دیا۔ یہ حضرت عمرؓ کے تفقہ کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ انھوں نے شارع کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور اُمت میں ایک صحیح طریقے کو رائج فرما دیا۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا اس پر اعتراض نہ کرنا‘ بلکہ بسروچشم اسے قبول کر لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ شارع کے اس منشا کو بھی ٹھیک ٹھیک پورا کیا گیا کہ ’’اسے فرض کے درجہ میں نہ کر دیا جائے‘‘۔ چنانچہ کم از کم ایک بار تو ان کا خود تراویح میں شریک نہ ہونا ثابت ہے‘ جب کہ وہ عبدالرحمنؓ بن عبد کے ساتھ نکلے اور مسجد میں لوگوں کو تراویح پڑھتے دیکھ کر اظہار تحسین فرمایا۔

۵-            حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باتفاق صحابہ ۲۰رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور اسی کی پیروی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی ہوئی۔ تینوں خلفا کا اس پر اتفاق اور پھر صحابہؓ کا اس میں اختلاف نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لوگ تراویح کی ۲۰ ہی رکعتوں کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒاور امام احمدؒ تینوں ۲۰ ہی رکعت کے قائل ہیں‘ اور ایک قول امام مالکؒ کا بھی اسی کے حق میں ہے۔ دائود ظاہریؒ نے بھی اسی کو سنت ثابتہ تسلیم کیا ہے۔

۶-  حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت ابان بن عثمان نے ۲۰ کے بجاے ۳۶ رکعتیں پڑھنے کا جو طریقہ شروع کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی تحقیق خلفاے راشدین کی تحقیق کے  خلاف تھی‘ بلکہ ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ مکہ سے باہر کے لوگ ثواب میں اہلِ مکہ کے برابر ہوجائیں۔ اہلِ مکہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ تراویح کی ہر چار رکعتوں کے بعد کعبے کا طواف کرتے تھے۔ان  دونوں بزرگوں نے ہر طواف کے بدلے چار رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ یہ طریقہ چونکہ اہلِ مدینہ میں رائج تھا اور امام مالکؒ اہلِ مدینہ کے عمل کو سند سمجھتے تھے‘ اس لیے انھوں نے بعد میں ۲۰کے بجاے ۳۶ کے حق میں فتویٰ دیا۔

۷-            علما جس بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جس بستی یا محلے میں سرے سے نماز تراویح باجماعت ادا ہی نہ کی جائے اس کے سب لوگ گناہ گار ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تراویح ایک سنت الاسلام ہے جو عہدِخلافت راشدہ سے تمام اُمت میں جاری ہے۔ ایسے ایک اسلامی طریقے کو چھوڑ دینا اور بستی کے سارے ہی مسلمانوں کا مل کر چھوڑ دینا‘ دین سے ایک عام بے پروائی کی علامت ہے جس کو گوارا کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ وہاں سے تمام اسلامی طریقوں کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر جو معارضہ آپ نے کیا ہے اس کا جواب اوپر نمبر۴ میں گزر چکا ہے۔

۸-            اس امر میں اختلاف ہے کہ تراویح کے لیے افضل وقت کون سا ہے‘ عشاء کا وقت یا تہجد کا؟ دلائل دونوں کے حق میں ہیں‘ مگر زیادہ تر رجحان آخر وقت ہی کی طرف ہے۔ البتہ اول وقت کی ترجیح کے لیے یہ بات بہت وزنی ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اول وقت ہی کی تراویح پڑھ سکتے ہیں۔ آخر وقت اختیار کرنے کی صورت میں اُمت کے سواداعظم کا اس ثواب سے محروم رہ جانا ایک بڑا نقصان ہے۔ اور اگر چند صلحا آخر وقت کی فضیلت سے مستفید ہونے کی خاطر اول وقت کی جماعت میں شریک نہ ہوں تو اس سے یہ اندیشہ ہے کہ عوام الناس یا تو ان صلحا سے بدگمان ہوں‘ یا ان کی عدمِ شرکت کی وجہ سے خود ہی تراویح چھوڑ بیٹھیں۔ یا پھر ان صلحا کو اپنی تہجدخوانی کا ڈھنڈورا پیٹنے پر مجبور ہونا پڑے۔ ھذا ما عندی والعلم عنداللّٰہ وھو اعلم بالصواب۔ (مولانا مودودیؒ، رسائل ومسائل‘ ج ۲‘ ص ۱۶۵-۱۶۹)

معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصول تعلیم: ایک وضاحت

س: ’’رسائل و مسائل‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے (ص ۹۵-۹۷) لکھا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ’’ایمان کی نشوونما‘‘ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی اور مخلوط تعلیم کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اداروں میں professional ethics نافذ کیے جائیں۔ لیکن اگر ہم قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں تو یہ بات صریحاً اور واضح طور پر ملتی ہے کہ نامحرم مرد اور نامحرم عورت اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ اسلام میں عورت کو محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایسے میں کیا مخلوط تعلیم جہالت کی علامت نہیں ہے؟ مگر ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اصل بات رویوں (attitudes)کی ہے۔ میں خود دو سال سے مخلوط تعلیم میں پڑھ رہا ہوں۔ کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ مخلوط تعلیم میں بھی وہ مرحلہ آئے کہ ’’ایمان کی نشوونما‘ ہوسکے اور ایک مثالی معاشرہ قائم ہوسکے۔

اگر مخلوط تعلیم حرام نہیں ہے تو کیا یہ مباح ہے یا مکروہ؟ براہِ مہربانی اس الجھن کی وضاحت کیجیے تاکہ ہم جو اِس مخلوط تعلیم کے سب سے بڑھ کر مخالف ہیں‘ اپنا ہدف قائم کرلیں کہ ہمیں مخلوط تعلیم ختم کرنی ہے یا پھر مخلوط اداروں میں ethics کو لاگو کرنا ہے؟

ج:  آپ نے ’’معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصول تعلیم‘‘(اگست ۲۰۰۴ئ) سے اختلاف کیا ہے جو ایک صحت مند روایت ہے۔ لیکن حوالہ دیتے وقت نہ سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھا ہے اور نہ ہی امانتِ تحریر کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ براہِ کرم دوبارہ جواب کا مطالعہ فرمائیں اور تلاش کریں کہ آپ نے جو الفاظ جواب سے منسوب کیے ہیں یعنی ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی‘ یا ’’مخلوط تعلیم کو حرام قرار نہیں دیاجا سکتا‘‘جواب میں کس جگہ استعمال کیے گئے ہیں۔ الفاظ کو سیاق و سباق سے جدا کر کے آپ جو مفہوم نکالنا چاہتے ہوں‘ اس کے لیے آپ آزاد ہیں لیکن کسی دوسرے کو quoteکرنے کے آداب کا خیال ضرور رکھیں۔ ایسا نہ کرنا اسلامی رویے کے منافی ہے۔

جو بات جواب میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عبوری دور میں جب آپ کے پاس الگ الگ تدریسی ادارے نہ ہوں کیا کیا جائے؟ کیا جب تک طالبات کے لیے الگ میڈیکل کالج نہ ہوں‘ ان کے لیے میڈیکل تعلیم کا حصول ممنوع کر دیا جائے؟ یا حتی الامکان یہ کوشش کی جائے‘ اس عبوری دور میں ان کے اخلاق و عمل کو اسلامی تعلیمات سے مزین کیا جائے اور اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے رویے کو متاثر کیا جائے۔

اگر ایک فرد میں حق کی طلب ہو یا حق کی طلب پیدا کر دی جائے تو ایک مخلوط اور ناموافق ماحول میں بھی ہر لمحے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ تندی بادمخالف سے گھبراتے ہیں اور بہتے ہوئے پانی کے ساتھ بہنے ہی میں اپنی سالمیت سمجھتے ہیں وہ کبھی بلندیوں کی طرف پرواز نہیں کر سکتے۔ بلاشبہہ تحریکاتِ اسلامی کے اہداف میں یہ بات شامل ہے اور انھیں اس پر فخر ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کی جگہ جداگانہ تعلیم کے نظام کو رائج کرنا چاہتی ہیں اور ان سے وابستہ افراد جہاں بھی ہیں اس ہدف کے حصول کو مقصدِحیات سمجھتے ہیں لیکن جب تک ایسے ادارے وجود میں نہ آئیں‘ نامساعد حالات کے باوجود تعلیم کا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ اگر کسی مقام پر مسجد نہ ہو تو کیا اہلِ ایمان نماز پڑھنا مؤخر کردیں گے یا مسجد کی تعمیر کی جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ نماز بھی اداکرتے رہیں گے۔

مجھے آپ کی اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ اسلامی اخلاقی تعلیمات‘ یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کا ایسے ماحول میں نافذ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس ملک عزیز کی نصف صدی سے زیادہ عمرمیں ہمارے اکثر میڈیکل کالج مخلوط تعلیم پر چل رہے ہیں اور اسی ماحول میں اس ملک کی بیٹیوں نے اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایم بی بی ایس کیا ہے اور ایسے ہی   بے شمار طلبہ نے اخلاق‘ جہاد اور پاکیزگی کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ ایسے اساتذہ بھی آج زندہ موجود ہیں جو اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ میڈیکل کالجوں میں تدریس کے فرائض اداکررہے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف طبی کالج میں بعض معلمات حجاب کے ساتھ طب کی تعلیم دیتی ہیں‘ جب کہ طالبات کے لیے اسکارف کا استعمال لازمی ہے۔ اخلاقی ضابطے کے نفاذ کے لیے ایمان و یقین کے ساتھ عزم کی ضرورت ہے اور یہ ہر حال میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مطلوبہ منزل جداگانہ تعلیم ہی ہے اور رہے گی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)