اکتوبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر ۲۰۰۴ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (فتح کے بعد) خیبر میں پڑائو کیا (خیبر کا آدھا حصہ جنگ اور آدھا حصہ سمجھوتے کے ساتھ فتح ہوا تھا)۔ خیبر کے سردار بڑے منہ زور اور سخت مذہبی قسم کے آدمی تھے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے محمدؐ! کیا آپؐ کے لیے جائز ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں‘ ہمارے پھلوں کو کھائیں‘ ہماری عورتوں کو ماریں؟ یہ سوال پیش بندی کے طور پر کیا گیا تھا (واقعہ صرف گدھوں کو ذبح کر کے ان کے گوشت کے پکانے کا پیش آیا تھا‘ باقی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ صرف اس کے کچھ آثار نظر آئے تھے۔ گدھوں کے گوشت کی حرمت اس کے بعد آگئی۔ چنانچہ پکا ہوا گوشت ضائع کر دیا گیا)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال کا سن کر ناراض ہوئے۔ آپؐ نے فوری طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے حضرت ابن عوفؓ کو بلایا اور فرمایا: اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائو اور اعلان کرو: جنت میں داخلہ حلال نہیں مگر مومن کے لیے‘ اور اعلان کرو کہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوجائیں۔ چنانچہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوگئے۔

آپؐ نے نماز پڑھائی۔ پھر کھڑے ہوکر خطاب فرمایا: کیا تم میں سے ایک شخص اپنے تخت پر بیٹھے یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے نہیں حرام کیا مگر اس چیز کو جسے قرآن میں حرام کیا گیا ہے (گدھے کے گوشت کی حرمت کا ذکر قرآن پاک میں نہیں ہے)۔ سنو! میں نے وعظ بھی کیے ہیں اور احکام بھی دیے ہیں اور بہت سی چیزوں سے روکا ہے۔ وہ بھی قرآنی احکام کے مانند یا اس سے بھی زیادہ تاکید کی حامل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال نہیں کیا کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہوجائو‘ ان کی عورتوں کو مارو‘ اور ان کے پھلوں کو کھانے کی اجازت نہیں دی‘ جب کہ وہ اس سمجھوتے کا پاس بھی کریں جو انھوں نے تمھارے ساتھ کیا ہے۔ (ابوداؤد)

ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہییں تاکہ اس کو واقع ہونے سے روکا جا سکے۔ مستعد‘فعال اور عدل کے لیے فکرمند قیادت ایسا ہی کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنگامی بنیادوں پر صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے لرزہ طاری کر دینے والا خطاب فرمایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آیا۔ آج کی مہذب دنیا میں لاکھوں انسانوں کو بموںاور میزائلوں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بعد میں جب واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بلاجواز اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر تھا تو اس پر صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہمیں اس پر افسوس ہے!‘‘ کیا یہ انصاف ہے؟

دوسری بات یہ سامنے آئی کہ یہ سمجھنا کہ جو قرآن نے حرام کیا ہے‘ بس صرف وہی حرام ہے‘      غلط ہے۔ رسول اکرمؐ کی شارع کی حیثیت ہے اور آپؐ نے بھی احکامات دیے ہیں۔

حضرت عبدالرحمن بن عجلان ؓسے روایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کیا تم اس بات سے عاجز ہو کہ ابوضمضم کی طرح ہوجائو؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ابوضمضم کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزری ہوئی اُمتوں میں سے ایک شخص تھا۔ جب صبح ہوتی تھی تو کہتا: ’’اے اللہ! میں نے اپنی عزت کی پامالی اس آدمی کو معاف کر دی ہے جو مجھے گالی دے‘‘۔(ابوداؤد)

جب کسی کو گالی دی جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور جواب در جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اگر پہلے ہی قدم پر معاف کر دیا جائے تو بناے فساد ہی نہ پڑے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی ایک شخص کے طریقے کو بطور نمونہ پیش فرمایا۔ ہم میں سے ہر شخص‘ دل کو اتنا بڑا کر لے کہ صبح ہوتے ہی اس دن کی زیادتیاں پیشگی معاف کر دے تو زندگی امن و سکون کا گہوارہ ہو جائے۔ بدلہ لینے کے جذبے پر قابو پانا اصل بات ہے۔

حضرت جابر بن سلیمؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک شخصیت تشریف فرما ہیں‘ لوگ ان کے پاس آتے ہیں‘ ان کی بات سنتے ہیں‘ مانتے ہیں اور عملی جامہ پہنانے کے جذبے سے واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ معلوم کرکے میں بھی حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: علیک السلام یارسول اللّٰہ۔ آپؐ نے فرمایا: یوں نہ کہو یہ تو مُردوں کو سلام ہے۔ اس کی بجاے السلام علیک کہو۔ میں نے پوچھا: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس اللہ کا رسول ہوں کہ جب تجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو تم اس کو پکارتے ہو اور وہ تمھاری مصیبت کو دُور کرتا ہے‘ جب تم پر قحط پڑے تو تم اسے پکارتے ہو تو وہ زمین کو سرسبزی اور شادابی عطا فرماتا ہے‘ اور اگر تم جنگل و بیاباں میں ہو اور تمھاری اونٹنی گم ہوجائے تو تم اسے پکارتے ہو اور وہ تمھیں اونٹنی لوٹا دیتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی آزاد‘ کسی غلام‘ کسی اونٹ اور کسی بکری کو گالی نہ دی۔

یہ عام رواج سا ہے کہ کسی بزرگ سے ملاقات کرتے ہیں تو رخصت ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ: مجھے کوئی نصیحت کریں۔ اس موقع پر سننے والا متوجہ ہوتا ہے اور اس کا امکان ہوتا ہے کہ جو نصیحت کی جائے گی‘ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس لیے ضرور کوئی مفید بات کہنا چاہیے۔ شخص کے حالات سے واقف ہوں تو اس کی مناسبت سے کوئی کام کی بات یا کوئی عمومی نصیحت کر دی جائے۔ کوئی ایسی نظری بات نہ کہی جائے جو قابلِ عمل نہ ہو۔ مثال کے طور پر آپ کسی دکان دار کو کہہ سکتے ہیں کہ قسمیں نہ کھایا کرو۔ جس طرح رسولؐ اللہ نے محض یہ بات کہی کہ کسی کو گالی نہ دینا۔ یقینا اس بات کا کوئی پس منظر ہوگا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میری والدہ دین شرک پر قائم تھیں‘ میں انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت ہوئی‘ مجھے دکھ ہوا۔ میں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا‘ وہ انکار کرتی رہتی تھیں۔ آج میں نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے مجھ سے آپؐ کے بارے ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت آئی۔ آپؐ اللہ سے دعا کیجیے کہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سن کر میں خوش ہوگیا۔ گھر کی طرف واپس ہوا‘ قریب پہنچا تو دروازے کو بند پایا‘ لیکن والدہ نے میرے جوتوں کی آہٹ سن لی۔ انھوں نے مجھے آواز دی‘ ابوہریرہ‘ ٹھیرجائو! میں نے پانی گرنے کی آواز سنی‘ سمجھ گیا کہ والدہ غسل کر رہی ہیں۔ والدہ نے غسل کرلیا‘ کپڑے پہنے اور پھر اس قدر جلدی سے دروازے کی طرف بڑھیں کہ سر پر چادر نہ لے سکیں‘ دروازہ کھولتے ہی کہا: ابوہریرہ! اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ۔یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری سنانے کے لیے فوراً آپؐ کی طرف واپس ہوا اور مارے خوشی کے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ حاضر ہوا تو عرض کیا: یارسول اللہ! خوش خبری قبول کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی ہے۔ ابوہریرہ کی ماں کو اس نے ہدایت دے دی ہے۔ آپؐ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کلماتِ خیر سے نوازا۔ میں نے عرض کیا یارسول ؐاللہ! دعا کیجیے کہ اللہ مجھے اور میری والدہ کو اپنے مومن بندوں کا اور انھیں ہمارا محبوب بنا دے۔ رسولؐ اللہ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ! اپنے پیارے بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا اور مومنین کو ان کا محبوب بنا دے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جو مومن بھی میرے متعلق سنتا ہے یا مجھے دیکھتا ہے‘ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔(مسلم)

یہ روایت از دل خیزد بر دل‘ یعنی دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی طرح دل میں ایسی آگ سلگ رہی ہو کہ بے قرار اور مضطرب کر دے‘ غم زدہ کر دے اور آنکھوں کو اشکبار اور دل کو تڑپا دے تو وہ رنگ لاتی ہے۔ بندے کے بس میں جو کچھ ہو‘ وہ کر گزرے تو پھر وہ ذات جس کے بس میں سب کچھ ہے‘ اپنے بندوں کی کوتاہیوں کو بھلاکر ان کو راضی کر دیتا ہے۔

ایمان کے لیے تڑپ کے بعد دوسری تڑپ اگر ہے تو وہ ایمان والوں کی محبت اور ان کی محبوبیت۔ ایمان کی توفیق ہوتو وہ ایمان والوں کی محبت کے لیے تڑپا دے گی اس کے حصول کے لیے آہ و زاری ہوگی اور دعائیں ہوں گی اور دوسروں سے کروائی بھی جائیں گی۔ مومنین کے ساتھ کھڑا ہونے پر خوشی ہوگی اور کفار کے ساتھ مل جانا ‘ناگوار ہوگا۔