ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

یہود و نصاریٰ سے دوستی

سید قطب | ستمبر ۲۰۰۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے--- یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

بہتر ہے کہ ہم پہلے یہ واضح کر دیں کہ اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ سے جس ’’ولایت‘‘ کی، اللہ نے ممانعت کی ہے‘ اس کا مفہوم کیا ہے۔ ] وَلِیٌّ ،جس کی جمع اولیاء ہے‘ ولایہٗ سے بناہے۔ ولی کے معنی ہیں‘ دوست‘ محبت کرنے والا‘ مددگار‘ رفیق‘ حلیف‘ سرپرست‘ مطیع‘ذمہ دار‘ صاحب ِ امر۔ اور ولایت کے معنی ہیں‘ دوستی‘ محبت‘ رفاقت‘ سرپرستی‘ مدد‘ تحالف‘ اطاعت۔ مترجم[

اس آیت میں ’’ولایت‘‘سے مراد یہود و نصاریٰ کی مدد‘ اُن کے ساتھ عہدوپیمان اور تحالف ہے۔ اِس لفظ کا یہاں یہ مفہوم نہیں ہے کہ اُن کے دین کے سلسلے میں اُن کی پیروی نہ کی جائے‘ کیونکہ یہ بات بالکل بعید از قیاس ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں‘ جو دین کے معاملے میں یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوں۔ یہ صرف تحالف اور تعاون اور نصرت کی دوستی ہے‘ جس کا معاملہ مسلمانوں پر مشتبہ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ جائز ہے کیونکہ مفادات اور تعلقات کے یہ رشتے عملاً پہلے سے موجود تھے۔ اسلام سے قبل عربوں اوریہود کے مابین تحالف و تعاون کے روابط قائم تھے اور مدینہ میں اسلامی نظام کے قائم ہونے کے ابتدائی دور میں بھی اِس طرح کے معاہدے موجود تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ممنوع قرار دیا اور انھیں توڑنے کا حکم دیا--- یہ اُس وقت‘ جب کہ یہ واضح ہوگیا کہ مدینہ کے مسلمانوں اور یہود کے مابین اِس طرح کے روابط کا برقرار رہنا عملاً ناممکن ہے۔ ]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ آتے ہی اسلامی ریاست قائم کی اور یہود کے مختلف قبیلوں کو‘ جو مدینہ میں پہلے سے رہ رہے تھے ‘ مسلمانوں کا حلیف بنایا۔ یہ اس لیے کہ صلح و جنگ اور امنِ عامہ جیسے امور میں اُن کے اور مسلمانوں کے مابین تعاون ہو اور وہ اسلام کے قریب آسکیں‘ لیکن یہود ان معاہدوں کو مسلسل توڑتے رہے اور مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر مسلمانوں کو جنگ کی آگ میں جھونکتے رہے‘ یہاں تک کہ جب اُن کی اسلام دشمنی حد سے بڑھ گئی اور وہ مسلمانوں کے لیے شدید ترین خطرہ بن گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحالف کے یہ رشتے --- جن کا برقرار رکھنا یہود نے ناممکن بنا دیا تھا--- توڑ  دیے اور انھیں مدینہ سے نکال دیا۔مترجم[

ولایت کا یہ مفہوم قرآنی تعبیرات میں معروف و متعین ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں اور اُن مسلمانوں کے مابین جو ہجرت کر کے دارالاسلام نہیں آئے تھے‘ تعلقات کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَالَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْ ئٍ (الانفال ۸:۷۲) ’’تمھارا اُن سے ولایت کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

اسلامی نظام کا قیام ‘ اسلام کا مقصود

اہل کتاب کے ساتھ اسلام کی نرمی و فراخ دلی ایک شے ہے اور انھیں ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) بنانا بالکل دوسری شے‘ لیکن یہ دونوں باتیں بعض مسلمانوں کے ذہن میں گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں‘ جن کے نفوس پر اس دین کی حقیقت اور دنیا میں اس کا کردار پوری طرح واضح نہیں ہو سکا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اسلام ایک عملی نظام کو برپا کرنے کی تحریک ہے‘ تاکہ اسلامی فکر کے مطابق ایک نظام عملاً وجود میں آکر قائم و غالب ہوسکے۔ یہ اسلامی فکر اپنی فطرت و طبیعت کی رو سے اُن تمام افکار و تصورات سے مختلف ہے‘ جن سے نوعِ انسانی واقف ہے‘ اور اسی لیے مخالف افکار اور طریقہ ہاے زندگی سے اُس کا تصادم ہوتا ہے ‘ جس طرح کہ اس کا تصادم لوگوں کی خواہشاتِ نفس اور خدائی نظامِ زندگی سے انحراف و بغاوت اور فسق و فجور سے ہوتا ہے۔ وہ ان سب سے ایک ایسی جنگ میں مصروف ہوجاتا ہے‘ جس سے بچنے کی کوئی تدبیر اور جس سے کوئی مفرنہیں--- یہ تصادم اور یہ جنگ اس لیے ہے کہ (غلط افکار اور نظام ہاے زندگی کی جگہ) وہ جدید عملی نظام وجود میں آجائے‘ جسے اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مؤثر ایجابی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے۔

جن مسلمانوں کے فکرونظر میں یہ دونوں باتیں گڈمڈ ہوگئی ہیں‘ وہ درحقیقت اسلام اور اسلامی عقیدے کا واضح اور نکھرا ہوا تصور نہیں رکھتے۔ انھیں حق و باطل کی فطرت اور اِس جنگ میں اہل کتاب کے موقف کی فطرت کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ قرآن کی اُن واضح و صریح نصوص سے بھی غافل ہیں‘ جو اس سلسلے میں وارد ہیں--- اہل کتاب کے معاملے میں نرمی و فراخ دلی برتی جائے اور جس مسلم معاشرے میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے حقوق کی ضمانت اور تحفظ ہو‘ اسلام کی اِس دعوت و تعلیم کو وہ اہل کتاب سے دوستی و رفاقت رکھنے کے ساتھ گڈمڈ کرتے ہیں‘ حالانکہ مومن کی دوستی اللہ کے لیے‘ اُس کے رسولؐ کے لیے اور مسلم جماعت کے لیے مخصوص ہے۔وہ قرآن کریم کے اس بیان کو بھی بھولے ہوئے ہیں کہ مسلم جماعت سے جنگ کرنے کے معاملے میں اہل کتاب ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہوتے ہیں۔ یہ اُن کی مستقل اور دائمی صفت ہے۔ وہ مسلمان سے اس کے اسلام کی بنا پر بُغض و عناد رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے صرف اُس وقت راضی ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے دین کو چھوڑ کر اُن کے دین کے پیروہوجائیں۔ ] وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتیّٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (البقرہ ۲:۱۲۰) ’’یہودی اور عیسائی تم سے راضی نہیں ہو سکتے‘ جب تک کہ تم اُن کے دین کے پیرو نہ بن جائو‘‘[۔ وہ اسلام اور مسلم جماعت سے جنگ کرنے پر تلے رہتے ہیں:  قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ج وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُط (اٰل عمران۳:۱۱۸) ’’بُغض اُن کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ شدید تر ہے‘‘۔

بلاشبہہ مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ نرمی و فراخ دلی سے پیش آئیں لیکن اِس کے ساتھ مسلمانوں کو اِس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ تحالف اور دوستی کا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے منفرد و یکتا نظام کو قائم کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کریں گے‘ وہ اہلِ کتاب کے راستے کے ساتھ کبھی یکجا نہ ہوگا۔ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کتنی ہی فراخ دلی اور دوستی کا مظاہرہ کریں‘ اس کا یہ نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ وہ اِس بات کو راضی و خوشی برداشت کرلیں کہ مسلمان اپنے دین پر برقرار رہیں اور اپنے نظام کو دنیا میں غالب کریں۔ ان کے ساتھ فیاضانہ رویے کا یہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں سے جنگ کرنے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار نہ ہوں۔

مسلمانوں کی سادہ لوحی

کتنی بڑی سادہ لوحی اور کتنی بڑی غفلت کی ہے یہ بات کہ ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ کفار و ملحدین کے مقابلے میں دین کو غالب کرنے میں ہمارا اور اہلِ کتاب کا راستہ ایک ہوسکتا ہے ‘ جس پر دونوں گامزن ہوں‘ حالانکہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا معاملہ ہوتا ہے‘ وہ ہمیشہ کفار و ملحدین کے ساتھ ہوتے ہیں۔

ان صاف اور واضح حقائق کو ہم میں سے کچھ سادہ لوح اِس زمانے اور ہرزمانے میں نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ مادّیت و الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم زمین میں اہل کتاب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہم سب مذہب کے ماننے والے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں قرآن کی تصریحات اور تاریخ کے سبق‘ سب کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ آخر وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف مشرکینِ عرب کو اُبھارا اور متحد کیا تھا اور اُن کے معاون و ناصر بنے تھے‘ وہ اہلِ کتاب ہی تو تھے جنھوں نے ۲۰۰ سال تک مسلمانوں کے خلاف شدید صلیبی جنگیںکی تھیں‘ وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے اُندلس میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھا کر بیخ و بُن سے اُن کا صفایا کر دیا تھا‘ وہ اہل کتاب ہی تھے جنھوں نے فلسطین سے مسلمان عربوں کو مار مار کر نکالا تھا اور اُن کی جگہ یہود کو لابسایا تھا اور اس معاملے میں انھوں نے الحاد اور مادیت کے ساتھ پورا تعاون کیا تھا‘ یہ اہلِ کتاب ہی ہیں‘ جو حبشہ‘ صومالیہ‘ اریٹیریا اورالجزائر‘ ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیںاور اُن کی جمعیت کو منتشرکر رہے ہیں۔ اور ہاں‘ یہ اہل کتاب ہی تو ہیں جو یوگوسلاویہ‘ چین‘ ترکستان‘ ہندستان اور ہر جگہ مسلمانوں کی جمعیت کو منتشر کرنے اور اُن پر مظالم ڈھانے میں الحاد‘ مادّیت اور بت پرستی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ]اور اب یہ فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے[ ۔

اِس سب کے باوجود ہم میں ایسے لوگ اُبھر کر سامنے آتے ہیں‘ جو قرآن کی قطعی تصریحات و تعلیمات سے مکمل ناواقفیت و دُوری کے باعث یہ خیال کرتے ہیں کہ اِلحادی مادّیت کے خلاف جنگ کرنے میں ہمارے اور اہلِ کتاب کے مابین دوستی اور نصرت و تعاون کے روابط قائم ہوسکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں‘ جو قرآن کو نہیں پڑھتے‘ اور پڑھتے ہیں تو اسلام کی‘ فراخ دلی اور نرمی کی تعلیم--- جو اسلام کی خصوصیت و فطرت ہے--- اُن کے ذہن میں اہل کتاب سے دوستی کی بات کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہے‘ جب کہ اہلِ کتاب کی دوستی سے اسلام نے مسلمانوں کو روکا ہے۔

اسلام اُن کے احساسات وجذبات میں پیوست نہیں ہے‘ نہ اس پہلو سے کہ وہ واحد عقیدہ اور دین ہے‘ جو اللہ کے یہاں مقبول ہے اور جس کے سوا کوئی دین اللہ کے یہاں مقبول نہیں‘ اور نہ اِس پہلو سے کہ وہ ایک ایجابی تحریک ہے‘ جس کا ہدف زمین میں ایک نیا عملی نظام--- اسلامی نظام--- قائم کرنا ہے۔ یہ مقصدآج بھی اہلِ کتاب کی عداوتوں اور مخالفتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے‘ جس طرح کہ کل بنا تھا۔ یہ ایک ایسا موقف ہے‘ جس میں تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی اس سلسلے میں ان کا واحد فطری و طبیعی موقف ہے۔

ہم اِن لوگوں کو قرآنی ہدایت سے اِس غفلت یا اُسے نظرانداز کرنے کی حالت میں رہنے دیتے ہیں اور آگے بڑھ کر خود قرآن کی اِس صریح ہدایت پر غوروخوض کرتے ہیں:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ م بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) نہ بنائو۔ وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

آیت میں ندا کا رخ ابتداً مدینہ کی اولین مسلم جماعت کی طرف ہے لیکن اسی کے ساتھ اُسی دم اُس کا رخ ہر مسلم جماعت کی طرف ہے‘ جو تاقیامت زمین کے کسی بھی حصے میں رہتی ہو۔      فی الحقیقت اِس ندا کا رخ ہر اُس شخص کی طرف ہے‘ جس پر الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی صفت منطبق ہوتی ہو۔

اہلِ ایمان کو اِس بات کی ندا اور دعوت دینے کی اُس وقت ضرورت یہ تھی کہ مدینہ کے کچھ مسلمانوں اور کچھ اہل کتاب --- خصوصاً یہود--- کے مابین قطعِ تعلق پوری طرح اور قطعی طور پر نہ تھا‘ ان کے مابین دوستی‘ تحالف اور معاش اور معاملات کے ‘ نیز پڑوس اور صحبت و رفاقت کے تعلقات پہلے سے موجود تھے۔

اسلام سے قبل عربوں میں سے اہلِ مدینہ اور اہلِ یہود کے مابین خصوصیت سے جو تاریخی‘اقتصادی اور اجتماعی صورتِ حال تھی‘ اس میں یہ سب کچھ ہونا ایک فطری بات تھی۔ اس صورتِ حال کی موجودگی میں یہود کو اِس دین اور اِس دین کے ماننے والوں کے خلاف ہر طرح کی سازشوں کے سلسلے میں اپنا ناپاک رول ادا کرنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل تھے۔یہود کی اِن سازشوں کو قرآن کی بہت سی آیات میں گنایا اور بے نقاب کیاگیا ہے۔

قرآن اس لیے آیا کہ وہ مسلمان کو اُس جنگ کے سلسلے میں‘ جو اُسے اپنے عقیدے اور دین کے تحت لازماً لڑنی ہے‘ ضروری معرفت اور فہم بخشے تاکہ عملی و واقعاتی زندگی میں اُس کا جدید نظام ظہور پذیر ہو سکے‘ اور اس لیے بھی کہ مسلمان کے قلب وضمیر میں اُن لوگوں سے‘ جن کا تعلق مسلم جماعت سے نہیں اور جو اُس کے مخصوص پرچم کے تحت نہیں‘ قطع تعلق اور کامل جدائی کے جذبات پروان چڑھیں۔ اس قطعِ تعلق کے نتیجے میں وہ اخلاقی فیاضی و بردباری‘ جو مسلمان کی دائمی صفت ہے‘ ممنوع قرار نہیں پاتی‘ البتہ وہ دوستی و رفاقت ممنوع ہوجاتی ہے جو مسلمان کے دل میں صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے لیے ہونی چاہیے۔ جنگ کی حقیقت کا یہ ضروری فہم اور (اہل کتاب سے) یہ قطعِ تعلق‘ دونوں‘ ہر ملک اور ہر دور میں مسلمان کے لیے لازمی و ناگزیر ہیں۔

ایک دوسرے کے مددگار

بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے‘ جس کا وقت اور زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اہلِ کتاب کسی بھی ملک اور کسی بھی تاریخ میں اُمت مسلمہ کے رفیق اور دوست نہیں تھے۔ صدیوں پر صدیاں گزر کر اِس قولِ صادق کی سچائی کو ثابت کرتی رہیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی رفاقت و نصرت اختیار کی‘ انھوں نے پوری تاریخ میں‘ زمین کے ہرگوشے میں‘ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہ قاعدہ ایک بار بھی نہیں ٹوٹا‘ زمین پر وہی کچھ واقع ہوتا رہا‘ جسے قرآن نے منفرد واقعے کے طور پر نہیں‘ دائمی صفت کے طور پر بیان کیا تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:  بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ جملہ اسمیہ ہے‘یہ محض ایک اندازِ بیان نہیں ہے۔ یہ پیرایۂ بیان اِس لیے اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ یہ اہلِ کتاب کا دائمی اور بنیادی وصف ہے۔

اِس کے بعد اِس بنیادی حقیقت پر قرآن اُس کے لازمی نتیجے کو مرتب کرتا ہے۔ یہود و نصاریٰ جب (مسلمانوں کے خلاف) ایک دوسرے کے دوست ہیں تو جو شخص اُن سے رفاقت و نصرت کا تعلق رکھتا ہے‘ وہ انھی میں کا ایک فرد ہے۔ مسلم صف کا جو فرد اُن سے دوستی و رفاقت اختیار کرتا ہے‘ وہ فی الحقیقت اپنے آپ کو مسلم صف سے سے منقطع کر لیتا ہے اوراِس صف کا‘ جو بنیادی وصف ہے‘ یعنی اسلام‘ اس کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکتا ہے اور دوسری صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہی اِس بنیادی حقیقت کاطبیعی و واقعاتی نتیجہ ہے: وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ،(۵:۵۱) ’’تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘ وہ انھی میں سے ہے‘‘۔

وہ اپنے اوپر‘ اللہ کے دین پر‘ اور مسلم جماعت پر ظلم کرنے والا ہے۔ اُس کے اِس ظلم کے باعث اللہ تعالیٰ اُسے یہود و نصاریٰ کے--- جنھیں اُس نے اپنی دوستی و رفاقت سے نوازا--- زمرے میں داخل فرمائے گا۔ اُس کی راہ نمائی حق کی طرف نہ فرمائے گا اور اُسے مسلمان صف میں واپس نہ لائے گا:  اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵:۵۱) ’’یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

مدینہ کی مسلم جماعت کے لیے یقینا یہ شدید تحذیروتنبیہہ تھی‘ لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں‘ بلاشبہہ یہ شدید تحذیر و تنبیہہ ہے‘ مگر واقعاتی حقیقت کی مکمل آئینہ دار ہے۔ ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان یہود و نصاریٰ سے دوستی اور نصرت و تعاون کی پینگیں بڑھائے--- جب کہ یہود و نصاریٰ (مسلمانوں کے خلاف) باہم رفیق اور ایک دوسرے کے حامی و ناصر ہیں--- اور اس کا ایمان و اسلام برقرار ہے‘ اور وہ اُس مسلم صف کا ایک فرد بنا رہے جس کی دوستی صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہلِ ایمان سے ہوتی ہے۔ یہ متضاد سمتوں میں جانے والے دو راستے ہیں۔

مسلمان کا فیصلہ کُن موقف کامل یقین کے ساتھ یہ ہے کہ اُس کے ‘اور اُن لوگوں کے مابین‘ جو اسلام کے ماسوا دوسرے نظام ہاے زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اسلامی پرچم کے ماسوا دوسرے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں‘ کامل دُوری ہونی چاہیے۔ اگر اِس موقف میں کمزوری رونما ہوتی ہے تو پھر مسلمان کی وسعت و طاقت میں یہ بات نہیں رہے گی کہ وہ اُس عظیم اسلامی تحریک کا کوئی بیش قیمت کام انجام دے سکے‘ جس کا اولین ہدف یہ ہے کہ زمین پر ایک منفرد و یکتا نظام قائم ہو‘ جو دوسرے تمام نظاموں سے یکسرمختلف ہے اور ایسے تصورات پر مبنی ہے جو دوسرے افکار و تصورات سے یکسر مختلف ہیں۔

اسلامی نظام کا قیام ناگزیر ہے

مسلمان کا پختہ یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کُن موقف ہی اسے اِس امر کے لیے آمادہ و مجبور کرتا ہے کہ وہ پُرمشقت گھاٹیوں‘ کمرتوڑ تکالیف‘ شدید مخالفتوں‘ پریشان کُن سازشوں اور بدترین شدائد و آلام کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانوںکے لیے اللہ کے پسند کردہ نظامِ زندگی کو قائم و غالب کرنے کا بارِگراں اٹھائے۔ ان مصائب و شدائد کے ساتھ اِس بارگراں کو اٹھانا اتنا دشوار ہوتا ہے کہ بسااوقات انسان کی وسعت و طاقت اور اُس کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے۔ اگر اِس نظام کو قائم کیے بغیر دوسرے جاہلی نظاموں سے ‘ جو زمین میں قائم ہیں--- خواہ وہ شرک و بت پرستی کے نمایندے ہوں یا اہلِ کتاب کی کج روی و انحراف کے کھلے کھلے الحاد کے--- کام چل سکتا ہو تو اسلامی نظام کے سلسلے میں اتنی مشقتیں جھیلنے سے کیا فائدہ؟ بلکہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی کیا ضرورت؟ جب کہ اہلِ کتاب اور دوسرے کفار و مشرکین کے نظام ہاے حیات اور اسلامی نظام کے مابین تھوڑا سا فرق ہو‘ جس پر مصالحت اور صلح و آشتی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہو۔

جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان قرب پیدا کرنے اور اُن کے ساتھ فراخ دلی و رواداری اختیار کرنے کے نام پر اِن مذاہب کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے قطعِ موالات و نصرت کے رویے‘ اور دونوں کے درمیان قطعی جدائی کی روش کو ختم یا کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ وہ رواداری کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین بس یہی آخری دین ہے۔ رواداری ذاتی و شخصی امور و معاملات میں ہوتی ہے‘ اعتقادی تصورات اور اجتماعی نظام میں نہیں۔ یہ لوگ مسلمان کے قلب و ضمیر میں پیوست اس یقین کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام کے سوا کوئی دین مقبول نہیں۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی شکل میں موجود خدائی نظامِ حیات کو دنیا میں قائم و غالب کرے‘ اِس نظام کے بدل کے طور پر کسی نظام کو قبول نہ کرے‘ اور نہ اس میں کسی ترمیم کا--- خواہ وہ معمولی سی کیوں نہ ہو--- روادار ہو۔ مسلمان کا یہ یقین خود قرآن کا پیدا کردہ ہے‘ قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُقف(اٰل عمران۳:۱۹) دین اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے!

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنہُ ج (اٰل عمران۳:۸۵) اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین اختیار کرنا چاہے‘ اس کا یہ دین ہرگز قبول نہیں ہوگا۔

وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَط (المائدہ ۵:۴۹) اور اُن سے ہوشیار رہو‘ مبادا وہ تمھیں کسی حکم سے‘ جو اللہ نے نازل کیا ہے‘ پھسلا دیں۔

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱)  اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے۔

قرآن کی بات فیصلہ کُن ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُسی کو اپنائے‘ اُسے ڈھلمل یقین رکھنے والوں کی بے یقینی اور یقین و ایمان کو کمزور کرنے کی اُن کی روش سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ: سید حامد علیؒ، ج ۴‘ ص ۴۵۵-۴۶۲)