ستمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

دہشت گردی کے الزام اور اُمت مسلمہ

قاضی حسین احمد | ستمبر۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔