قاضی حسین احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس امر سے کوئی صاحب ِ نظر انکار نہیں کرے گا کہ اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر ایک شدید بحران سے دوچارہے اور اسے اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ایک مخلص، دیانت دار، ہر دل عزیز،محنتی،با صلاحیت اور جرأت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔

یہ مخلص اور دیانت دار قیادت کہاں سے آئے گی جو قوم کی نیّا کو طوفانی موجوں کی کشاکش اور تھپیڑوں سے صحیح و سالم نکال کر کنارے پر لگا دے؟ اگر آپ پاکستان کی ۵۸ سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ قیادت سول اور فوجی بیوروکریسی یا ہماری اشرافیہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کی ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے ہمیں ملک کے عوام کی طرف رجوع کرنا پڑے گااور انھیں ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔    اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب ہدایت میںیہ اٹل اصول بیان کیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳: ۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

اسی بات کو مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے     ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

عوام میں اپنی حالت بدلنے کا خیال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام میں اپنی حالت کے بدلنے کی خواہش موجود بھی ہے یا نہیں؟

ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کی آرزوئیں اور امنگیں بیدار نہ ہوں اور جب تک ان کے دلوں میں تمنائیں انگڑائیاں نہ لیں اس وقت تک کوئی قوم عمل پر آمادہ نہیں ہوسکتی۔اسی لیے مرگِ آرزو اور زندہ تمناؤں کی موت ہی کو کسی قوم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے مایوسی اور نا امیدی کو زوال علم و عرفان کہاہے     ؎

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

اقبالؒ نے رموزِ بے خودی میں اسلام کے بنیادی ارکان میں پہلے رکن توحید کے ضمن میں ایک باب درج ذیل عنوان کے تحت باندھا ہے، در معنی ایں کہ یاس و حزن وخوف   ام الخبائث است و قاطع حیات ، و توحید ازالہ ایںامراضِِ خبیثہ می کند (اس معنی کی وضاحت میں کہ ناامیدی اور غم اور خوف ام الخبائث اور زندگی کا خاتمہ کرنے والے ہیںاور توحید ان امراض خبیثہ کا علاج ہے۔)

فارسی کی اس نظم میں اقبال ؒ نے بہت خوب صورتی سے قرآنی آیات سے کلمات لے کر  پرو دیے ہیں۔فرمایا    ؎

مرگ را ساماں ز قطعِ آرزوست

زندگانی محکم از لَاتَقْنَطُوْا ست

آرزو کا خاتمہ موت کا سامان فراہم کرتا ہے،جبکہ زندگی کو لاتقنطوا سے استحکام نصیب ہوتا ہے۔

اس شعر میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) اے نبیؐ! کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

آگے فرماتے ہیں    ؎

اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر

از نبیؐ تعلیم لَاتَحْزَنْ بگیر

اے غم کے زنداں میں قیدی کی زندگی بسر کرنے والے، نبی کریمؐ سے لاتحزن کی تعلیم حاصل کرلو۔

اس میںاقبالؒ نے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے:

اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰیط وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبہ ۹:۴۰) تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا،جب وہ صرف دومیں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوںغار میں تھے،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ’’غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو  نظرنہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔

اس سے آگے اقبالؒ نے فرمایا    ؎

چوں کلیمے سوے فرعونے رود

قلبِ او از لَاتَخَفْ محکم شود

جب ایک کلیم ایک فرعون کی طرف جاتا ہے تو اس کا دل  ’لاتخف‘ سے مضبوط ہوتا ہے۔

اس شعر میں قرآن کریم میں مذکورحضرت موسٰی ؑاور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے واقعے کا ذکر ہے ، جب ان دونوں کو فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے عرض کی کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی پر اتر آئے گا اور سرکشی اختیار کرے گا،تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: لَا تَخَافَـآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶)’’ڈرو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں‘‘۔

دوسرے موقع پر جب فرعون کے جادوگروں کے سحر کی وجہ سے رسیاںحضرت موسٰی ؑ کو چلتے پھرتے سانپ نظرآنے لگیں تو انھوں نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘ تو اللہ نے کہاکہ خوف مت کھاؤ ، تم غالب رہوگے۔ قرآن مجید نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی ہے:

قَالُوْا یٰـمُوْسٰٓی اِمَّـآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّـآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی o قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ج فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعَصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۵-۶۸) جادوگر بولے: ’’موسٰی ؑ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں‘‘؟ موسٰی ؑ نے کہا، ’’نہیں،تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادوکے زور سے موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسٰی ؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ہم نے کہا ــ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا‘‘۔

اس نظم کا خاتمہ اس خوب صورت بیت پر کیا گیا ہے    ؎

ہر کہ رمزِ مصطفیؐ فہمیدہ است

شرک را در خوف مضمر دیدہ است

جس نے مصطفیؐ کی تعلیم کی اصل روح کو سمجھا ہے اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا خوف ’شرک‘ ہے۔

قرآن کریم کی کئی آیات میں ایمان اور عمل صالح سے آراستہ لوگوں کی صفات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸) ’’ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔

تبدیلی پیدا کرنے کے لیے پوری قوم کے دلوں میں تمناؤں اور آرزوؤں کو بیدار کرنے کے لیے انھیں یاس و قنوطیت ، ناامیدی اور خوف سے نکال کر ایمان و یقین کے اسلحے سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ اس سحر کا پردہ چاک کرنا پڑے گا کہ امریکا اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ ملی بھگت کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ حقیقی تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹ امریکا اور استعماری طاقتیں اور ان کی آلۂ کارسول و ملٹری بیوروکریسی اور ملک کا طبقۂ اشرافیہ ہے۔ ان سے نجات کا ذریعہ اللہ پر ایمان‘ اور بھروسا‘ منزل کا صحیح شعور‘ ہمہ گیر عوامی بیداری کی جدوجہد اور عوام میں سے ایسی مخلص اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانے کی ہمہ جہت کوشش جو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کے لیے موجودہ حکمران ٹولے سے نجات اوّلین شرط اور ضرورت ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ قوت کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے جو حقیقی حاکم اورکارفرما ہے۔ اسباب و وسائل بلاشبہہ ہر جدوجہد کے لیے ضروری ہیں لیکن آخری فیصلہ دنیاوی اور ظاہری عوامل پر نہیں‘ اللہ کے حکم اور ارادے کے مطابق ہوتا ہے اور ہم اس کے طالب ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (ٰاٰل عمرٰن ۳: ۲۶) کہو، خدایا، ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

دوسروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت دینے والے کارکنوں کے اپنے سینے میں چراغِ آرزو روشن ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روشن مستقبل کا واضح نقشہ دل و دماغ میں سجا ہوا ہو۔ اس نقشے کے بنیادی خدوخال واضح ہوں اور دعوت دینے والے کارکن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنا ذوقِ یقین دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے انھیں اپنے اخلاص کا قائل کرسکے۔لوگوں کو کسی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنوں کے اخلاص کا یقین ہوگا تو وہ ایسی تحریک میں شامل ہونے اور اس کی خاطر قربانی دینے پرآمادہ ہوسکیں گے۔

روشن مستقبل کے خاکے میں سب سے زیادہ اہمیت ’عدل وانصاف‘ کی ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

لوگوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ جس طرح معاشرتی اور معاشی طورپرظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ہم اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے انھیں پکار رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مخلص نوجوانوں، ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں اور ظلم کی چکی میں پسنے والے غلاموں کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے برگزیدہ ساتھیوں کے بارے میں یقین ہوگیاتھا کہ یہ لوگ انھیں ان جیسے انسانوں کے ظلم اور جبر سے نکالنے کے لیے اٹھے ہیں۔ اسلامی تحریک کایہ بنیادی مقصد ایرانی فوج کے سپہ سالار کے سامنے ایک صحابی رسولؐ ربعی بن عامرؓنے ان خوب صورت اور جامع الفاظ میں بیان کیا:

جِئْنَاکُمْ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَۃِ رَبِّ الْعِبَادِ وَ مِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ وَمِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا اِلٰی وَسَعَۃِ الْاٰخِرَۃِ-

ہم تمھاری طرف اس لیے آئے ہیں کہ تمھیں بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کردیں اور باطل نظاموں کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کے زیر سایہ لے آئیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں داخل کردیں۔

صحابیؓ کے اس قول میں ایرانیوں کو یہ یقین دلایا گیاتھا کہ مسلمان انھیں غلام بنانے اور ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں آزاد کرانے اور عزت دلانے کے لیے آئے ہیں اور انھیں مادی دنیا کی تنگ سوچ سے نکال کر آخرت کی ابدی زندگی کا تصور اور یقین دینے کے لیے آئے ہیں۔

زندگی کا یہی وسیع تصور اور یقین تھا جس نے صحابہ کرامؓ کی مختصر جماعت کو ایک سیلِ رواں میں ڈھال دیا اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میںانھوں نے اس دور کی معلوم دنیا کے تقریباً نصف حصے کو اسلام کے نظامِ عدل کے پرچم تلے منظم کرلیا، اور جہاں بھی ان کے مبارک قدم پہنچے وہ جگہ آج تک عالم اسلام کا قلب تصور ہوتی ہے۔

دنیا کو آج پھر معرکۂ روح و بدن درپیش ہے۔ اس معرکے میںہماری اصل قوت اللہ پرکامل ایمان اورسچا یقین ہے۔ اسی ایمان اور یقینِ کامل سے تمنائیں زندہ و بیدار ہوتی ہیں اورآرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ دوسری چیز عشقِ مصطفیؐ ہے اور یہ بھی قوت کا بہت بڑا خزانہ ہے اور ہمارے عوام کے دل قوت کے اس سرچشمے سے مالا مال ہیں۔ یہ قوت دلوں میں تمناؤں کو بیدار کرنے والی ہے۔ایک شاعرنے اس بات کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے    ؎

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو

ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمھی تو ہو

اور اقبال ؒ نے فرمایا:

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ از خاکش بروید آرزو

یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہا است

یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است

ہر جگہ جو آپ کو جہان ِ رنگ و بو نظر آتا ہے ،جس کے وجود سے آرزوئیں جنم لیتی ہیں یا تو وہ نور مصطفیؐ کے فیض سے سیراب ہے یا ابھی مصطفیؐکی تلاش میں ہے۔

اللہ پر کامل ایمان اور عشق مصطفیؐ کی قوت سے سرشار ہو کرہم انسانیت کی خدمت اور سارے جہاںکی تعمیر نو کے لیے اٹھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ہم پوری انسانیت کے خیر خواہ ہیں اور اپنی قوم کی خیرخواہی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں، اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اخلاص وخیرخواہی کا پیغام لے کراپنی قوم کے پاس جائیں گے تو ہماری یہ خیرخواہی اور اخلاص ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گا۔ اگرچہ ہمارے مخالفین جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنے اور باطل کو حق کا جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کی قوت کو بالآخر فتح عطا فرماتاہے۔


جماعت اسلامی نے سالِ رواں کو دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ہمہ گیر عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو استعماری قوتوں اور ان کی آلہ کار     نفس پرست قیادت سے نجات دلا کر ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کا تحفہ اور ایک عادلانہ نظام کا ہدیہ دے سکیں۔

بعض لوگوں کے خیال میں دعوت اور اس طرح کی تحریک چلانے میں تضاد ہے حالانکہ حضور نبی کریمؐ کی سیرتِ طیبہ سے عیاں ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے انھوں نے عوامی تحریک کو ذریعہ بنایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزیرہ نماے عرب کی مسلمان آبادی کومتحرک کرنے کے بعد میدان عرفات میںجمع کرکے حج کے اس مبارک سفر کو دین کی تعلیم کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسلام کے ابتدائی ایام تھے، جاہلی تہذیب کے مقابلے میںخالص توحید کی بناپر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس مرحلے پر اس کے بنیادی خدوخال کو اجاگر کرنے اور اس کے اصول و مبادی واضح کرنے کی ضرورت تھی‘ چنانچہ ایک نئی قوم کی داغ بیل رکھنے اور  عوام الناس کو اس کا شعور دینے کے لیے حج کے سفر کو ذریعہ بنایا گیا۔ متعدد صحابہؓ کا قول ہے کہ انھوں نے دین کے اکثر مسائل اس سفر میں سیکھے۔عوامی تحرک کو اگر صحیح نہج اور اسلامی خطوط پر چلایا جائے تو یہ دعوتِ اسلامی کو عام کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ بنے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماراہرکارکن اس عوامی تحریک کا خلوص اور اسلامی جذبے کے ساتھ حصہ بنے، اس کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی تجاویز سے مقامی قیادت کو آگاہ کرے اور ہر چھوٹی بڑی آبادی میں عورتوں اور بچوں سمیت پوری آبادی بالخصوص نوجوانوں کو متحرک کردے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پرعوام کو   منظم کردیں۔ اس کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں‘ اسکولوں‘کالجوں اور دینی مدارس کے عام طلبہ کو طلبہ محاذ کے پرچم تلے منظم کردیں، شباب ملّی کی تنظیم ملک بھر کے نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں کو اعلیٰ مقاصد کا شعور دلانے کا بیڑا اٹھائے۔اوراساتذہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینیروں، تاجروں، مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیںاپنے اپنے طبقے کے لوگوںکو اعلیٰ مقاصد کی خاطرمتحرک کرنے کے لیے کنونشن، کارنر میٹنگ اور چھوٹی بڑی نشستوں کا اہتمام کریں۔

اسی طرح بازاروں اور گلی کوچوں میں عوام الناس کو متوجہ کرکے ان کے سامنے پانچ پانچ منٹ کی چھوٹی چھوٹی تقریریں کرنے کے لیے نوجوان عوامی مقررین کے گروپ تشکیل دیے جائیں۔   یہ مقررین عوام الناس کوموجودہ زبوں حالی سے نکال کر بلندی اور رفعت تک جانے کے سفر پر آمادہ کریں، انھیں اپنے ساتھ منظم جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت و تلقین کریں اور عملاً انھیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ عوام کو محلوں اور گاؤں کی سطح سے اٹھا کر تحصیل اور ضلع کی سطح کے جلسوں میں اور بالآخر بڑے شہروں کے جلسوں میں لے جائیں اور ان کے جوش و جذبے کو اس حد تک بڑھا دیں کہ وہ قومی سطح کی ملک گیر تحریک کو منزل تک پہنچانے کے لیے دل وجان سے آمادہ ہوجائیں۔ تحریک چلانے والے کارکنوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس تحریک میں ناکامی کا کوئی تصور موجود   نہیں ہے۔

اس تحریک کا مقصد امت کو انھی مقاصد کے لیے منظم کرنا ہوگا جس کے لیے اسے  ’اُمت ِوسط‘ قرار دے کر عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے کا فریضہ اللہ کی طرف سے سپرد کیا گیاتھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲: ۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوَسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

یہ عوامی تحریک آئینی اور قانونی حدود کے اندر ہوگی۔اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ مکمل طورپر پرامن ہو اور ہر طرح کی توڑ پھوڑ سے اجتناب کرکے اسے قوم کی تنظیم اور اتحاد کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ جبر کی طاقتوں کو کوئی بہانہ نہ ملے کہ وہ تشدد کرکے اس تحریک کا راستہ     روک سکیں۔ اسمبلیوں کا فلور بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مفید ہے لیکن ایک موقع ایسا آسکتا ہے جب اسمبلیوں سے باہر آکر عوام کی صفوں میںشامل ہونا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا۔اس وقت تک اسمبلیوں کے اندر عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے لیکن ممبرانِ اسمبلی کے استعفے قیادت کے پاس جمع کرانا ضروری ہے تاکہ جب بھی مناسب موقع ہو اور جب بھی حالات کا تقاضا ہو، یہ استعفے پیش کردیے جائیں۔

پرویز مشرف کی حکومت سراسرناجائز اور غیر آئینی ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے اپنے آپ کو دوبارہ منتخب کروانا چاہتا ہے۔ یہ صراحتاً ایک غیر آئینی راستہ ہے لیکن جن لوگوں نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر اپنا ضمیرو ایمان فروخت کردیا ہے اور ان کے مفادات اس غیر اخلاقی اورغیر قانونی نظام سے وابستہ ہیں، وہ کسی بھی ذلت کو گواراکر نے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی خیر خواہی رکھنے والے تمام عناصر کا فرض ہے کہ وہ اس کھلے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔

کسی بڑی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے کہ قیادت اور کارکنان قربانیوں کے لیے تیار ہوں۔ جبر کے ہتھکنڈے توڑنے کے لیے ہمارے بھائی فلسطین،عراق،چیچنیا،کشمیر اورافغانستان میں لازوال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی قربانیاں دینے کا تقاضاکرتے ہیں۔ یہ قربانیاں مختلف نوعیت کی ہیں، یہ جدوجہد بھی مختلف نوعیت کی ہے، اس میں ظلم و جور کی طاقتوں کے سامنے صبر،ہمت اور حوصلے کا ہتھیار لے کرپُرامن جدوجہد کے مختلف النوع طریقے آزمانے پڑیں گے۔بڑے پیمانے پرگرفتاریاںپیش کرنا اور ظالم حکمرانوں کے ظلم کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرعوام بڑی تعداد میں منظم ہوکر نکلیں گے تو بہت ممکن ہے کہ کسی کو لاٹھی اور گولی سے کام لینے کی ہمت نہ ہو سکے لیکن کارکنوں کو جبر کے ان ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور سب سے پہلے ہر سطح کی قیادت کو قربانی دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

ہم اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی استعمار اور اس کی حواری قیادت سے نجات حاصل کرنے اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے ظلم کی جگہ اسلام کا نظام عدل و انصاف نافذ کرنے کے لیے اس طرح کی تحریک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔لیکن اس تحریک کو کس انداز میں چلایا جائے، کن مراحل سے اس تحریک کو گزارا جائے اور اس کو کس انداز میں منزل تک پہنچایا جائے؟ اس کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت ہے،اورخود حضور نبی کریمؐ کو اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تلقین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ - (ٰاٰل عمران ۳: ۱۵۹) اور ان کوبھی شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔

مشاورت کا یہ نظام الحمد للہ اسلامی تحریکوں کا خاصہ ہے اور اسی مشاورت کے نتیجے میں حکیمانہ طرز عمل سامنے آتا ہے۔ اسلامی تحریک کی قیادت پوری قوم کو یقین دلاتی ہے کہ حکمت اور دانش کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ اللہ کے بھروسے اور توکّل پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

 کچھ لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی قوتیں موجودہ فوجی حکمرانوں کو صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے پر مجبور کریں گی۔ ضمنی انتخابات کے بعد پورے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات جس نہج پر کروائے گئے ہیں ان سے بھی اگرکچھ لوگوں کی غلط فہمی دور نہیں ہوئی تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ عوام کو موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں انتخابات کا راستہ دکھاکر خود اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور غیر ملکی آقا جن مقاصد کے لیے موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کررہے ہیں، یہ عناصر بھی انھی غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے عوام دشمن اور قومی خودمختاری و سالمیت کے منافی مقاصد کے لیے آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔عوام کو اس طرح کے عناصر کے خفیہ ہتھکنڈوں اور سازشی کردار سے باخبر رکھنا محب وطن عناصر کا فرض ہے۔

ملک کے اندر اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیںجو موجودہ حکمرانوںکے لادین اور امریکا کی خواہشات سے مطابقت رکھنے والے ایجنڈے سے متفق ہیں لیکن محض اقتدار میں شراکت کی خاطراور اپنی بدعنوانی اور خیانت کو چھپانے اور قانون کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لیے ان کی مخالفت پر آمادہ ہیں۔اس طرح کے عناصر اس وقت بھی کسی تحریک کے لیے مخلصانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آیندہ بھی ان کے تعاون پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کویہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں دونوں نے جن غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا، اگر آیندہ انھیں موقع ملا تو وہ ان سے اجتناب کریں گے اورپاکستانی آئین کی اصل روح کے ساتھ وفا کرکے اپنے اختیارات اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ استعمال کریں گے، فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی سازباز میں شریک ہوں گے،عدلیہ کی آزادی کا احترام کریں گے اور آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کا اہتمام کریں گے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اس عہد اور میثاق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگرچہ ان کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ آئین کا حلف اٹھانے کے باوجود انھوں نے نہ اس سے وفا کی تھی ، نہ اپنے حلیفوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا تھااور نہ  اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق دے کہ وہ ملک کوآمریت سے نجات دلانے کے لیے عوامی اسلامی قوتوں کا ساتھ دیں۔

شنگھائی میں روس اور چین کے ساتھ ایران، پاکستان، افغانستان،تاجکستان،قازقستان اور ازبکستان کے سربراہوں کی کانفرنس علاقے کو امریکا کے چنگل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی ممالک کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کی درخواست بھی کی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت امریکا کے چنگل میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور دونوں کے حکمرانوں نے اس طرح کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ واقعی اس چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان تو عملاً نیٹو افواج کے قبضے میں ہے اور پاکستانی حکومت امریکا کے پاکستان مخالف اقدامات کے باوجود پوری ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ وہ امریکا کی صف اول کی حلیف ہے۔ نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ داخلہ اور تعلیمی و معاشی پالیسیوں میں بھی امریکا کے احکام اور اس کی ہدایات پر مکمل عمل درآمد ہورہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ عالمی بنک نے چار سال کے لیے پاکستان کو آسان شرائط کے ساتھ ساڑھے چھے ارب ڈالر کاقرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ قوم کواور اس کی آیندہ نسلوں کو قرضے کی یہ زنجیریں پہنانے کے بعدایک آزاد خارجہ پالیسی اور امریکی مداخلت سے نجات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

حکومت پاکستان کے اس رویے کے تضادات ہر صاحبِ عقل پر عیاں ہیںاور جب تک امریکی چنگل سے نکلنے کی واضح تدابیراختیار نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک یقین سے نہیں     کہا جاسکتا کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے میں واقعی مخلص ہے۔

حکومت کی موجودہ پالیسی امریکا کے تابع مہمل بن کر رہنے کی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں ایک خوف ناک صورت حال سے دوچار ہے، اس تناظر میں وہاں غیر ملکی مداخلت کا خطرہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقے میںہماری فوج کو جس طرح الجھا دیا گیا ہے اس سے ملکی سالمیت کو ایک فوری خطرہ درپیش ہے اور اس صورت حال کا فوری تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت کو تبدیل کردیا جائے، لیکن ایک جرنیل کے جانے کے بعد دوسرے جرنیل کے آنے سے حقیقی اور عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ کچھ آزمائے ہوئے لوگوں کے درمیان اقتدار کی گردش سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ حقیقی تبدیلی ایسی قیادت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جس کو عوام الناس اپنے اجتماعی ارادے سے اقتدار سونپیں اور منظم ہو کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اس کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور وہ قیادت ملک کے تمام اداروں میںعوامی امنگوںکے مطابق بنیادی تبدیلیاں لائے۔

اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایک ایسی تبدیلی جو اس کے فرسودہ ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے عوام کو جلد اور مفت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادے اور جب تک مظلوم کو ظالم کے مقابلے میں انصاف نہ ملے اس کو حکمرانوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حق حاصل ہو۔حدودقوانین پر بحث کے دوران علماے کرام کے پینل نے برموقع صحیح نشان دہی کی کہ حدود قوانین میں سقم نہیں ہے بلکہ بنیادی خرابی عدالت اور پولیس کے نظام میں ہے جس کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

ملک کے معاشی نظام کو اس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی وسائل پرپہلا حق غریب کا تسلیم کرلیا جائے اور جب تک ایک ایک غریب اور بے نوا آدمی کی روٹی ،کپڑے،   مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں اس وقت تک طبقۂ امراکی ضروریات کو مؤخر کردیا جائے۔

ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو یک رنگ کر دیا جائے اور اسلامی اقدار پر مبنی اخلاقی تعلیم و تربیت کو تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنا دیا جائے کہ قوم کی اخلاقی  تعلیم و تربیت اور علم و تحقیق اور ایما و اختراع کی اعلیٰ صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ذریعے ہی اسے  عروج اور سربلندی کے سفر پر مسلسل آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

ملک سے بے روزگاری کو ختم کرکے عوام کو مفید اور مثبت سرگرمیوں میں مشغول کردینا، ملکی تعمیرنو کے لیے قوم کو ہنرمند بنانا اور اس کے علم و ہنر کو منظم منصوبوںکے ذریعے ملک کی ترقی میں استعمال کرنا ایک محب وطن اور محب قوم عوامی قیادت کا اولین فرض ہے۔

ان اعلیٰ مقاصد کاشعور دے کرپوری قوم کو بڑے پیمانے پر قومی تعمیر نو کی خاطر خوابِ گراں سے بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے اور اس میں عملی طورپر ہمارا ساتھ دیجیے۔آپ اللہ کے راستے میں ایک قدم آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مزید راستے کھول دے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ج (العنکبوت ۲۹:۶۹) اور جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

اور جب آپ اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خاطر مخلصانہ جدوجہد کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت آپ کے شامل حال ہوگی، اور بالآخر دنیامیںکامیابی اورآخرت میں جنت کی نعمتیں آپ کے حصے میں آئیں گی۔اللہ رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o  (الصف ۶۱: ۱۲-۱۳) اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیںعطا فرمائے گا۔   یہ ہے بڑی کامیابی۔اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

ہر مسلمان کامقصدِ زندگی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے اور وہ اپنے رب کا سامنا ایسی صورت میں کرے کہ وہ اس سے راضی ہو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائے۔ رب کی رضا کا راستہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور اسوۂ حسنہ پر عمل ہے۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَـثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱)

درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ یہ ان کی دعوت کا اصل اور بنیادی نکتہ ہے۔

قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف ۱۲:۱۰۸)

تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔

جن لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور ایمان لے آئے‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور انھیں ایک منظم اُمت بنایا جسے اللہ نے خیراُمت قرار دیا۔

ھُوَ الَّذِیْ بَعَـثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الجمعہ ۶۲:۲)

وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے‘ اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

اس خیر اُمت کے تمام افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ یہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں‘ نیکی کا حکم کریں اور بدی سے روکیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

ان کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ یہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے علم بردار بن جائیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

اور فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور قرآن کریم کی مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں جماعت اسلامی پاکستان نے اسلامی دعوت اور اس کے طریق کار کو چار نکات میں بیان کیا ہے:

۱- تطھیر و تعمیر افکار ‘یعنی عقیدہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کو پوری طرح ذہن نشین کرنا۔

۲- تعمیر سیرت اور تنظیم‘ یعنی دعوت قبول کرنے والے تمام لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرنا اور انھیں ایک قوی اور منظم جماعت کی شکل دینا۔

۳- اس منظم جماعت کو اصلاح معاشرہ ‘یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رکھنا۔

۴- اس منظم جماعت کے ذریعے عام مسلمانوں کو ساتھ ملانا تاکہ انقلاب قیادت کے ذریعے معاشرے کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جو فساد پھیلانے والے نہ ہوں بلکہ اصلاح کرنے والے ہوں۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ اپنی یہ دعوت ملک کے ہر فرد تک پہنچائیں۔ اس کے لیے صرف زبانی تلقین کافی نہیں بلکہ کارکنوں کا خود اس دعوت کا عملی نمونہ بن جانا‘ اس دعوت کو عام کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔

جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے سالانہ اجلاس میں اس سال کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کا بنیادی اور اہم کام یہ ہے کہ قوم کے ہر گھر تک جماعت اسلامی کی یہ بنیادی چار نکاتی دعوت پہنچائی جائے۔ سالانہ منصوبۂ عمل کو ہر کارکن اور ذمہ دار غور سے پڑھ لے اور دیکھ لے کہ اس منصوبۂ عمل میںاس کے کرنے کا کام کیا ہے۔ اگر ہر کارکن اور ہر ذمہ دار اپنے حصے کا کام کرے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی اور سمجھ لے کہ سالانہ منصوبے پر اس نے اپنی حد تک کام مکمل کرلیا۔ مرکزی‘ صوبائی ‘ ضلعی اور مقامی ذمہ داران پر خصوصی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ ہاے کار کے کام پورے سال پر پھیلا کر اپنی ڈائریوں میں لکھ لیں۔ اسی طرح تمام شعبوں کے ذمہ داران بھی اپنے اپنے شعبے کے کام پورے سال پر پھیلا دیں۔

منصوبۂ عمل بناکر اس کو نظرانداز کردینے سے خدانخواستہ کہیں ہم اس آیت کے مصداق نہ ٹھیرجائیں جس کے مخاطب مومنین ہی کا گروہ ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ o (الصف ۶۱:۲-۳)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔

مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی کی ہر سطح کی قیادت اور اس کے تمام کارکن اس منصوبۂ عمل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اور اس سال کو دعوتِ اسلامی کا سال بنانے کے لیے تن من دھن کی قربانی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


دعوت ہمارے پیارے رسولؐ کی سب سے بڑی سنت ہے

انھوں نے ساری زندگی دعوت میں لگا دی‘ ہم بھی لگا دیں

آپ کا وقت‘ آپ کا مال‘ آپ کی صلاحیت‘ آپ کے روابط‘ رشتے و تعلقات‘ سب میں اس سال سب سے بڑا حصہ دعوت کے لیے نکالیں

نقطۂ نظر درست کرلیں‘ تجاویز خود سامنے آئیں گی‘ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کا زلزلہ اپنے ساتھ عبرت کا بہت سارا سامان لے کر آیا۔ اس عظیم سانحے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آزاد کشمیر کی ایک خاتون نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جس گھر کی ایک ایک چیز کو میںنے بڑے پیار سے مدتوں میں سجایا تھا مجھے ایسا لگا کہ اس کی دیواریں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ جب میں کمرے کی ایک دیوار سے بچنے کے لیے بھاگی تو دوسری اور تیسری دیوار بھی میرے اوپر گرنے لگی اور بڑی مشکل سے میں جان بچاکر جب باہر نکلی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ساری عمر ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہی۔ یوں دنیا کی زندگی کی حقیقت میرے اوپر کھل گئی کہ یہ آزمایش کے چند دن ہیں اور اللہ راحت و آسایش اور تکلیف و مصیبت دونوں میں ہمیں آزماتا ہے کہ ہم کیا طرزعمل اختیار کریں۔

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ o (انبیا ۲۱:۳۵)

ہر جان دار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط (الحدید ۵۷:۲۲)

کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔

زندہ اور بیدار اور حقیقت شناس لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ سخت مصیبت اور المناک سانحوں کے مواقع پر بھی اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نکلنے کی تدابیر سوچتے ہیں اور ان تدابیر پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو زلزلے کے شدید نقصانات کے وقت بھی حوصلہ دیا‘ کچھ بندوں نے ہمت کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ فوت ہونے والوں کا جنازہ پڑھنے‘ انھیں دفنانے اور زخمیوں کا علاج کرنے کا کام فوری طور پر شروع کر دیا۔ بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد میں یہ کام فوری طور پر جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے کارکنوں نے شروع کیا۔ حزب المجاہدین کے کارکن اور پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) کے کارکن جو موقع پر موجود تھے فوری طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔ بعض اللہ کے بندے اپنے بیٹے بیٹیوں اور والدین کی تدفین سے فارغ ہو کر فوری طور پر اس خدمت میں لگ گئے۔ انھوں نے عزم و ہمت کی لازوال کہانیاں نقش کیں۔

بالاکوٹ کے ۸۲سالہ بزرگ رکن جماعت حاجی غلام حبیب کی پوری تیسری نسل اللہ کو پیاری ہوگئی۔ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں سب رخصت ہوگئیں لیکن انھوں نے بچے ہوئے لوگوں کی خدمت کے لیے کمر کس لی۔ امیرجماعت اسلامی ضلع باغ‘ عثمان انور صاحب اپنی والدہ اور بیٹی دونوں کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد ریلیف کیمپ میں حاضر ہوگئے۔ مظفرآباد کے شیخ عقیل الرحمن صاحب اپنے بیٹے اور چودھری ابراہیم صاحب اپنی جوان بیٹی کی تدفین سے فارغ ہوکر ریلیف کیمپ کے انتظامات میں لگ گئے۔

مظفرآباد میں پیما کے ڈاکٹر محمد اقبال اپنے بہت سے قریب ترین رشتہ داروں کا غم سینے میں دبائے ہوئے فوری طور پر خیموں کے نیچے ہسپتال قائم کرنے اور زخمیوں کے آپریشن کرنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مظفرآباد سے سٹیلائٹ ٹیلی فون کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ساتھیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی سے آگاہ کیا اور انھیں فوری طور پر مدد کے لیے پہنچنے کا پیغام دیا۔ مصیبت کی گھڑی کے دلخراش واقعات سامنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ایک عورت کو ملبے کے ایک بڑے سلیب کے نیچے سے زندہ نکالنے کے لیے انھیں آری سے اس کا ہاتھ کاٹنا پڑا۔ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کے خاندان کے ۲۲افراد اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن وہ ہمہ تن اور مجسم خدمت بن گئے۔ جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘اسلامی جمعیت طالبات‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان‘ پاکستان انجینیرز فورم‘ تنظیم اساتذہ پاکستان‘ شباب ملّی اور دوسری دینی جماعتوں جماعت الدعوۃ‘ الرشید ٹرسٹ‘ ایدھی فائونڈیشن نے پوری پاکستانی قوم کی نمایندگی کی۔ پاکستان بھر کے عوام نے زخمیوں کے علاج اور زلزلے میں بچنے والے بے خانماں اور بے سروسامان لوگوں کی مدد کے لیے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ان تنظیموں نے اسی جوش و جذبے کو ایک مثبت سمت عطا کی اور امداد کو مستحقین تک پہنچانے کا قابلِ اعتماد وسیلہ بن گئے۔

زلزلے کے چند لمحوں کے اندر آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے پانچ اضلاع میں حکومت کا پورا ڈھانچا مفلوج ہوگیا۔ سرحدوں پر متعین اور کیمپوں میں مقیم فوج کے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انتظامیہ اور فوج میں یہ سکت نہیں رہی کہ وہ کسی کی مدد کو پہنچ سکیں۔ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کی رہایش گاہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں۔ پولیس کا سارا نظام تتربتر ہوگیا۔ ایسے عالم میں جماعت اسلامی کا منظم نیٹ ورک بروے کار آیا اور اچانک سانحے سے پیدا ہونے والے خلا کو اس نے پُرکردیا۔

اس سانحے نے کچھ خدشات اور اہم سوالات کو جنم دیا۔ آزاد کشمیر میں متعین فوج سرحدوں کی نگرانی کے لیے متعین ہے۔ یہ فوج چھائونیوں میں مقیم فوج کی طرح نہیں ہے بلکہ مورچہ بند (deployed army) ہے۔ اس کی گھڑی گھڑی کی خبر فوج کے ہائی کمان کو ہونی چاہیے اور فوجی ماہرین کے کہنے کے مطابق زلزلے میں فوج پر جو بیتی اس کی خبر پوری فوج کے تمام متعلقہ حلقوںتک زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں پہنچنی چاہیے تھی لیکن فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان صاحب سانحے کے ۹ گھنٹے بعد انٹرویو میں کہتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین صاحب کہتے ہیں کہ میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں‘ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ تک ہے۔ کیا فوجی حکمران بے خبر تھے یا یہ ان کی پالیسی تھی؟ دونوں صورتیں عوام کو گہری تشویش میں مبتلا کرنے والی اورافواج پاکستان کی قیادت کے بارے میں بے اعتمادی پیدا کرنے والی ہیں۔ وزیراطلاعات   شیخ رشیداحمد نے بھی کہا کہ میڈیا نقصانات کو بڑھا چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔

جنرل پرویز مشرف بیرونی امداد کے بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں بیرونی امداد کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کافی امداد پہنچ گئی ہے‘ جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل چیخ رہے تھے: نقصانات کا اندازہ سونامی سے زیادہ ہے اور امداد کی فراہمی قطعی ناکافی ہے۔ بعد کے دنوں میں خود جنرل پرویز مشرف بھی کہنے لگے کہ      بین الاقوامی برادری اور دولت مند ممالک نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس تضاد بیانی سے بھی فوجی حکمرانوں کی نااہلی جھلکتی ہے۔

زلزلے کی مصیبت پر ۱۰‘ ۱۵ دن گزرنے کے بعد بھی ایسے گوشے موجود تھے جہاں تک فوج کے افراد نہیں پہنچ سکے۔ افواج پاکستان کے ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ فوج کو جب مارچ کا حکم دیا جاتا ہے تو تیسرے دن اسے تمام مقامات تک پہنچنا چاہیے خواہ وہ کتنے ہی دُور دراز اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں۔ دسویں روز تک دُور دراز مقامات تک نہ پہنچ سکنا بھی تشویش ناک ہے۔

حکومتی میڈیا نے اسلامی ممالک خاص طور سے سعودی عرب‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے فیاضانہ اور فراخ دلانہ تعاون کو کماحقہ اُجاگر نہیں کیا حالانکہ اس موقع پر اُمت مسلمہ نے اپنے ایک جسدِواحد ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور نہ صرف حکومتوں نے بلکہ مسلم عوام نے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ زلزلے کے پہلے ہی ہفتے میں مصر‘ ملایشیا‘ سنگاپور‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ افغانستان‘ سوڈان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان ڈاکٹروں کے وفود زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ چارٹرڈ طیاروں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ادویات‘ خیمے اور کمبل پہنچ گئے لیکن اسلامی ممالک کی امداد کو اجاگر کرنے کے بجاے حکومت اور میڈیا اسرائیل اور بھارت سے امداد کی پیش کش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے حالانکہ عملاً اسرائیل سے کوئی مدد نہیں پہنچی اور بھارت کی امداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

دنیابھر کے مسلمانوں نے جس طرح پاکستانی مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی جھلک نظر آئی‘ جس میں آپؐ نے فرمایا:

اہلِ ایمان تمھیں آپس میں ایک دوسرے سے ایسی محبت کرنے والے‘ ایسے رحم کرنے والے‘ ایسے پیار کرنے والے نظر آئیں گے جیسے ایک جسدواحد ہوں جس کے ایک عضو کو جب کوئی گزند پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کے لیے بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک کے سیکولر حکمران اور لادین طبقہ مغرب کی دوستی کے شوق میں اور اسلامی نظریۂ حیات سے جان چھڑانے کے لیے مسلسل کہہ رہا ہے کہ اُمت کہاں ہے؟ where is Ummah?

اس موقع پر اُمت نے ثابت کیا کہ وہ موجود ہے‘ زندہ جسم کی مانند ہے اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ مجھے سوڈان‘ مصر‘ ترکی‘ ملیشیا‘ ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کے وفود کے ممبران نے کہا کہ ہمارے ممالک میں عوام کا ردعمل اس طرح سامنے آیا جیسے ان کے اپنے ملک کے اندر یہ آفت نازل ہوئی ہے‘ اور اگر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت متاثرین کی بحالی کے لیے ان ممالک کے عوام سے مدد مانگی جائے تو لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔

زلزلے کے ابتدائی ایام میں خیموں کی شدید کمی تھی اور بیرون ملک سے خیمے پہنچانے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ فوج کے باخبر حلقوں کے کہنے کے مطابق پاکستان میں فوج کے افراد کی تعداد تقریباً ۶ لاکھ ہے۔ اس تعداد کے لیے ہر ۱۲ افراد پر ایک خیمہ‘ یعنی ۵۰ ہزار خیمے ہر وقت سٹور میں موجود رہنے چاہییں۔ ۲۰ ہزار فوجی افسران کے لیے ایک بڑا خیمہ اور ایک چھوٹا خیمہ فی افسر دوخیموں کے حساب سے ۴۰ہزار خیمے مزید موجود رہنے چاہییں۔ ان کے علاوہ ریزرو کے حساب سے جوانوں اور افسروں کے لیے مزید ۴۰ ہزار خیمے ہونے چاہییں۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ لاکھ خیمے فوج کے سٹور میں موجود ہونا چاہییں تھے تاکہ اگر جنگ کے موقع پر کسی وقت فوج کو نکلنے کا حکم ملے تو وہ فوری طور پر میدان میں خیمہ زن ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصیبت کے وقت یہ خیمے کہاں تھے؟

حکومتی میڈیا پر دینی جماعتوں کے کارکنوں کی خدمات کو نظرانداز کیا گیا۔ بعض سیکولر گروہوں کی معمولی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا‘ حالانکہ لوگوں کے جذبۂ خدمت کو مہمیز دینے کے لیے ضروری تھا کہ جو لوگ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور دُوردراز‘ دشوارگزار علاقوں تک پہنچ کر خیمے‘ گرم کپڑے‘ کمبل اور خوراک کا سامان پہنچا رہے ہیں ان کی خدمات کو زیادہ اُجاگر کیا جاتا۔ فوج کے افراد تو جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ اپنے فرض منصبی کے تحت اس کے لیے مامور ہیں اور اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ فرض منصبی کو ادا کرنا بھی قابلِ ستایش ہے لیکن ان سے زیادہ قابلِ ستایش وہ لوگ ہیں جو خالص اللہ کی رضا اور مخلوق کی خدمت کے جذبے کے تحت گھربار چھوڑ کر بغیر کسی دنیاوی اجر اور معاوضے کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اس مصیبت کو بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قوم کی خدمت کے جذبے کو سراہنے میں کوتاہی برتی۔

۸ اکتوبر کے زلزلے کے وقت مَیں پشاور میں اپنے مکان کے ایک کمرے میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کے بعد میں کھلے صحن میں نکلا۔ میرے بیٹے انس فرحان بھی اپنے چھے ماہ کے بیٹے اسامہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ صحن میں آگئے۔ زلزلہ گزر جانے کے بعد جب ہم واپس کمرے میں آئے تو میرے بیٹے کی زبان سے نکلا کہ نہ جانے یہ زلزلہ کہاں کہاں کتنی تباہی لے کر آیا ہوگا۔ زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ ان کی تشویش بجا تھی۔ چند منٹ بعد اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ میں بھی پشاور سے اسلام آباد آگیا۔ مارگلہ ٹاور جانے سے پہلے مجھے اطلاعات مل چکی تھیں کہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے وسیع علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ زلزلے کے دو گھنٹے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور سینیروزیر سراج الحق   ہیلی کاپٹر پر زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے پر تھے۔ سراج الحق صاحب نے وسیع علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورت حال سے آگاہ کیا۔ مظفرآباد سے اگلے روز پیر صلاح الدین صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ دریاے نیلم کے دونوں جانب پہاڑ ٹوٹ کر دریاے نیلم میں گرے ہیں اور اس نے تقریباً ۲۴ گھنٹے تک دریاے نیلم کے پانی کے سامنے بند باندھے رکھا ہے۔ فوج کا نثار کیمپ ملبے میں تبدیل ہوگیا ہے اور تقریباً ۳۰۰ فوجی اس کے نیچے دب گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم ہائوس کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹی‘ ہسپتال اور سرکاری عمارتیں سب زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ مظفرآباد شہر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صورت حال کا جائزہ لینے اور فوری امدادی کارروائیوں کے لیے ۹ اکتوبر کو منصورہ میں جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان صاحب کو امدادی کارروائیوں کی مہم کا انچارج بنا دیاگیاجو پیرانہ سالی کے باوجود خدمت اور محنت کی علامت ہیں۔ ملک بھر سے برادر تنظیموں اور جماعت کی اعلیٰ قیادت کا ایک اجلاس ۱۰ اکتوبر کو اسلام آباد میں بلا لیا گیا۔

چونکہ زلزلے کی وجہ سے پورے علاقے کے ہسپتال منہدم ہوگئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی دراڑیں پڑگئی تھیں اور مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے ان کے اندر کام ممکن نہیں تھا‘ اس لیے ’پیما‘ کے ڈاکٹروں نے جماعت اسلامی اور الخدمت کے کارکنوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے تعاون سے فوری طور پر ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹ گرام‘ مظفرآباد‘ باغ اور راولاکوٹ میں خیموں کے اندر عارضی ہسپتال قائم کر دیے تھے۔ سرکاری اور فوجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بھی عارضی طور پر انھی ہسپتالوں میں کام شروع کر دیا تھا۔

۱۰ اکتوبر کے اجلاس میں راولپنڈی اسلام آباد میں مرکزی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈاکٹرحفیظ الرحمن‘ سید بلال اور نورالباری کو ان کا انچارج مقرر کیا گیا۔ مانسہرہ اور مظفرآباد میں صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے لیے دو ذیلی کیمپ بنا دیے گئے۔ مانسہرہ کے کیمپ کے ذیلی کیمپ بالاکوٹ‘ ایبٹ آباد‘ بٹگرام‘ الائی‘ تھاکوٹ‘ کوائی‘ پارس‘ شانگلہ اور بشام سمیت تقریباً ۳۰ مقامات پر بنا دیے گئے‘ جب کہ مظفرآباد کے علاوہ باغ اور راولاکوٹ میں بھی بڑے مرکزی کیمپ اور آزادکشمیر کے چپے چپے تک امداد پہنچانے کے لیے کارکنوں کی ٹیمیں متعین کر دی گئیں۔ جماعت اسلامی کے تقریباً ۱۰ہزار کارکنوں نے ان کیمپوں میں شب و روز ڈیوٹی دی اور ہماری خدمت کی شناخت کو مستحکم کیا۔

اللہ کا شکر ہے کہ ان خدمات کا اعتراف ہر اس ادارے اور ہر فرد نے کیا جس نے ان علاقوں کو دیکھا یا دورہ کیا۔ قبائلی علاقوں سے مرکزی وزیر ڈاکٹر جی جے (گلاب جمال) قومی اسمبلی میں میری نشست پر آئے اور کہا کہ انھوں نے ۱۵ روز تک متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے اور جہاں بھی سڑک کھلی ہے وہاں پہنچ گئے‘ اور انھوں نے دیکھا کہ جہاں بھی وہ گئے الخدمت فائونڈیشن کے کارکن ان کے جانے سے پہلے وہاں موجود تھے اور خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے اور پورے علاقے سے مکمل طور پر باخبر اور آگاہ تھے اور لوگوں کی اور امداد کرنے والوں کی مدد اور رہنمائی کررہے تھے۔

جنرل حمیدگل صاحب نے مجھے لکھا کہ انھوں نے الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کی تنظیم اور خدمت کے جذبے کا مشاہدہ متاثرہ علاقے میں خود پہنچ کر کیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ جماعت ملک میں بڑے سماجی انقلاب کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خط میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے رہنما نے جماعت کے کارکنوں کے جذبۂ خدمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آڑے وقت میں مدد کے لیے آنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ ملک بھر کے انصاف پسند کالم نویسوں نے جماعت کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بعض لوگوں کو ناجائز طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور دوسروں کی خدمات کو نظرانداز کرنے کے مجرمانہ فعل پر ان کا ضمیر ملامت کر رہا ہے لیکن دبائو کے تحت یہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

اس سے یہ خطرناک حقیقت واضح ہوگئی کہ میڈیا کے اس دور میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کے بجاے میڈیا حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر بنانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے‘ یعنی یہ معلومات (information) کے بجاے غلط معلومات (disinformation) کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن کریم میں خبردار کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ o (الحجرات۴۹:۶)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تمھارے پاس ایک ناقابل اعتماد شخص کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ بے خبری اور غلط معلومات کی بناپر تم کسی گروہ کو نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے ہی کیے پر نادم ہو جائو۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بڑے سانحے کے موقع پر نہ صرف حکومتی الیکٹرانک میڈیا بلکہ بعض پرائیویٹ نیوز چینل بھی امدادی کارروائیوں کی حقیقی صورت حال کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے جس سے نہ صرف خدمت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ عوام کی غلط رہنمائی کی گئی اور انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ان اداروں نے اپنی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ حقائق تو بالآخر لوگوں کے سامنے آہی جاتے ہیں۔

امدادی کارروائیوں میں تاخیر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پوری قوم میں فوج سمیت ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لیے نہ کوئی ادارہ ہے نہ کوئی لائحہ عمل (working plan) تیار ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کے مرکزی شہر میں مارگلہ ٹاور جیسی بڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ پرویز مشرف اور وزیراعظم سمیت بڑی بڑی شخصیات دو تین روز تک تماشے کے لیے آتے رہے اور ملبہ اٹھانے کے لیے فقط کرایہ کے دو بلڈوزر اور کچھ رضاکار موجود تھے۔ آخری چارئہ کار کے طور پر بیرون ملک سے زندگی کے بچے کھچے آثار معلوم کرنے کے لیے کچھ کارکن آلات اور تربیت یافتہ کتے لے کر آئے جن کی مدد سے چند افراد کو زندہ نکالا جاسکا۔ اگر حکومت کے پاس کوئی Disaster Management Planموجود ہوتا تو اسلام آباد کے اندر ہی مارگلہ کے پہاڑوں میں کام کرنے والے ہزاروں ماہر مزدوروں اور پہاڑ کو کاٹنے کا کام کرنے والے ٹھیکے داروں اور ان کے پاس مہیا مشینری کی مدد سے پورے مارگلہ ٹاور کے ملبے کو چند گھنٹوں کے اندر اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ایک مجلس میں یہ بات سامنے آئی تو مجلس میں موجود ایک ٹھیکے دار نے اعتراف کیا کہ اگر یہ تجویز بروقت اس کے ذہن میں آتی یا کوئی فرد اس کو اس طرف متوجہ کرتا تو ہزاروں کارکنوں پر مشتمل پوری فورس کو اس کام پر لگایا جاسکتا تھا۔ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں شہری ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کی حالت زار کا بے بسی کے ساتھ تماشا کرتے رہے۔

مستقبل میں اس طرح کے سانحوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہزاروں کارکنوں پر مشتمل ایک ریسکیو سکواڈ بنایا جائے جو ضرورت کے وقت فوری طور پر متحرک ہوجائے۔ اس کے پاس ہر طرح کا سامان موجود ہو یا اس کے فوری حصول کا طریقہ معلوم ہو۔ حکومت کے علاوہ خدمت خلق کا کام کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ تربیت یافتہ کارکنوں کی اس طرح کی ٹیمیں منظم کریں جو آفات سماوی اور امن اور جنگ کے وقت کام آسکیں۔

امدادی کارروائیوں کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور امدادی سامان کو حقیقی مستحقین تک پہنچانے کے لیے منظم جماعتوں کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہوں اور جن کی شاخیں ہر گلی کوچے میں قائم ہوں۔ کچھ تنظیمیں جن پر لوگوں کا اعتماد تو موجود ہے اور جو دیانت دار اور مخلص لوگوں کی قائم کی ہوئی ہیں ایسی ہیں جن کا انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک عوام میں موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے تنخواہ دار کارکنوں کے ذریعے سامان تو پہنچا دیتے ہیں لیکن مستحقین تک سامان کو پہنچانے کا انتظام ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ اپنا سامان ان لوگوں کے حوالے کر دیں جن کے پاس مستحقین تک پہنچنے کا نظام موجود ہے‘ مثلاً ایدھی فائونڈیشن کے ٹرک سڑک پر کھڑے ہوجاتے تھے اور لوگوں کو سامان لے جانے کے لیے بلا لیتے تھے۔ ٹرکوں سے سامان لوگوں کی طرف پھینک دیا جاتا تھا۔ اس سے ایک تو بدنما منظر بنتا تھا کہ لوگوں کا ہجوم سامان حاصل کرنے کے لیے بے ہنگم بھکاریوں کی طرح سامان کی طرف لپک رہا ہے‘ دوسرا پیشہ ور چھیناجھپٹی کرنے والوں کو دوسروں کا حق چھیننے کا موقع ملتا تھا۔ اس صورت میں حیادار سفیدپوش مصیبت زدگان کے لیے ضروری سامان خوراک حاصل کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پورے ملک میں بڑی حد تک یہ ضرورت پوری کر دی ہے۔ یہ ہرگلی کوچے میں موجود ہیں۔ دیانت دار اور فرض شناس مرد اور خواتین سب مل کر کام کرتے ہیں۔ ضرورت کے وقت فوری طور پر میدان میں نکل آتے ہیں۔ لیکن ابھی جماعت کو بھی اپنے اداروں کو مزید منظم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ ملک کے طول و عرض کے ہر گلی کوچے میں الخدمت فائونڈیشن کی ممبرسازی کر کے عوام کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور پوری قوم کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی پروگرام بنانا چاہیے۔

اس وقت اہم ترین مسئلہ تعلیمی اداروں کی بحالی کا ہے۔ مساجد کے منہدم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فوری طورپر مساجد کی تعمیرنو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں مسجدمکتب کے ذریعے بچوں کی تعلیم کا فوری انتظام‘ بیٹھک اسکولوں کا بڑے پیمانے پر اجرا‘ تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام اسکولوں کے سلسلے کا احیا‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور سرکاری اسکولوں کو دوبارہ منظم کرنے میں امداد کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔

اس وقت ایک فوری ضرورت متاثرہ لوگوں کو حوصلہ اور ہمت کرکے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرنے کی ہے۔ بحیثیت مسلمان کے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور خاص طور پر لوگوں کو تلقین کرنا کہ مصیبت کی گھڑی میں صبر کرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ الحمدللّٰہ الذی لا یحمد علی مکروہ سواہ، اس اللہ کا شکر ہے جس کے سوا مشکل میں کسی کی تعریف نہیں کی جاتی‘ یعنی اللہ جس حال میں بھی رکھے بندہ اس پر اپنے رب کا شکرگزار ہو۔ بقول اقبال   ؎

در رہ حق ہرچہ پیش آید نکوست

مرحبا نامہربانی ہائے دوست

اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی آئے اچھا ہے۔ حبیب کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آئے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

لوگوں کو نفسیاتی طور پر بحال اور اُن کی تمنائوں اور آرزوئوں کو ازسرِنو بیدار کرنے کے لیے اور انھیں رجوع الی اللہ کی تلقین کرنے کے لیے اور لغو اور فضول سرگرمیوں سے مثبت اور مفید مشاغل کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک سماجی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی نے پُرعزم اور باہمت ‘خداترس کارکنوں کو متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ خواتین نے لوگوں کو اِس مصیبت کی گھڑی میں عزم و ہمت سے کام لینے اور اُن کی نفسیاتی بحالی کے لیے اُمیدنو کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جسے مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔

سیکولر اور لادین طبقے میں رجوع الی اللہ کے رجحان سے تشویش پیدا ہوگئی۔ استحصالی طبقے نے ہمیشہ لوگوں کے سفلی جذبات اور ہوا و ہوس کی خواہشات کو اُبھار کر لوگوں کے اخلاق و کردار اور ان کے اموال پر ڈاکا ڈالاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس اپنی اولاد کی بنیادی ضروریات ‘ چھپر‘ خوراک‘ پوشاک‘ تعلیم اور علاج کی رقم تو نہیں ہوتی لیکن جھونپڑی میں بھی ڈش انٹینا لگانے اور وی سی آر پر کرایہ کی فحش فلمیں خریدنے پر محنت کی کمائی ضائع کی جاتی ہے۔ غریب اور محنت کش طبقے میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے۔

لاہور میں ورلڈ فیسٹیول کے نام سے عین اس وقت جب رجوع الی اللہ کے لیے تلقین کی جارہی ہے لہوولعب کے ایک بڑے میلے کی تیاری ہے۔ دنیابھر سے موسیقار اور رقص و سرود کے گروپوں کو دعوت دی گئی ہے۔ زلزلے کے صدمے سے دوچار ہونے والی قوم کو دوبارہ رقص و سرود میں مشغول کرکے غم غلط کرنے اور جھوٹی خوشیاں منانے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ مادہ پرست لوگ اپنے اس نظریے کا پرچار کر رہے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے نوجوان لڑلے لڑکیاں آلاتِ موسیقی ہاتھوں میں تھامے مغربی لباس اور مغربی شعار اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ کی رضا‘ آخرت کی بھلائی اور مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی محبت کے بجاے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھار کر زلزلہ زدگان کی مدد کی اپیل کی جارہی ہے تاکہ خدا ترسی کے جذبے کے تحت جو مثبت دینی رجحانات پیدا ہوئے ہیں‘ اِن کا قلع قمع کیا جاسکے۔ حالانکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی محبت‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بندگانِ خدا کی محبت کے جذبات کو مہمیز دی جائے۔

مظفرآباد میں عیدالفطر کے موقع پر ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ روح پرور منظر دیکھا کہ مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کے دل شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز ہیں۔ آنکھیں پُرنم ہیں لیکن پُرنم آنکھوں سے وہ ہمارا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی عید ان کے درمیان منانے کو ترجیح دی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرنے کے لیے یونی ورسٹی کے ملبے کے اوپر جمع ہیں جس کے نیچے سیکڑوں جوان‘ طلبہ اور طالبات جاں بحق ہوچکے تھے۔ لوگ آپس میں مصافحہ کر رہے ہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ غربا اور مستحقین میں ضرورت کی چیزیں تقسیم کر رہے ہیں۔ خیموں میں بچوں سے مل رہے ہیں‘ ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ حقیقی خوشی کا وہ تصور ہے جو اسلام نے عطا کیا ہے۔جنسی خواہشات کو مہمیز دینے والا رقص و سرود خوشی نہیں بلکہ انحطاط کا پیغام دیتا ہے۔ بقول اقبال    ؎

میں تجھ کو بتاتا ہوں‘ تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل‘ طائوس و رباب آخر

جب قومیں ترقی اور عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں شمشیر اور تیروتفنگ ہوتا ہے لیکن جب وہ انحطاط پذیر ہوتی ہیں تو ان کے پاس طائوس و رباب ہوتا ہے۔

آزمایش کے ان لمحات میں قوم کو متحد کرنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔ پوری قوم میں ہمدردی اور یک جہتی کا رجحان تھا۔ فوجی حکمران کے جذبۂ حب الوطنی کا امتحان تھا۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہوںکا اجلاس بلایا جائے اور بحالی و امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک جامع‘ شفاف اور متفقہ پروگرام بنایا جائے لیکن  ع  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

فوجی حکمران نے اس سنہرے موقع کو ضائع کر دیا اور اس موقع کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ اور دستوری اداروں کو یکسرنظرانداز کردیا گیا۔ اپنے نامزد وزیراعظم اور کٹھ پتلی کابینہ اور کٹھ پتلی حکمران جماعت کو بھی کسی قابل نہیں سمجھا گیا۔ متنازعہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر بحالی کے پورے کام کو فوج کے جرنیلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ انھیں ہر طرح کی عدالتی چارہ جوئی سے مبرا قرار دیا گیا۔ اور غضب ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو ملک کے پورے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ رقم پر تصرف رکھتا ہے اسے محض ایک انتظامی حکم کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ یہ کام آرڈی ننس کے ذریعے کیا جاتا جسے نافذ کرنے کے بے محابا اختیارات صدر کو حاصل ہیں۔ لیکن غالباً خطرہ یہ تھا کہ اس آرڈی ننس کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنا ہوگا جو انتظامی آرڈر کے لیے ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ کی اس سے زیادہ بے وقعتی کا تصور بھی محال ہے۔ اب تو ڈونرز کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ریلیف اتھارٹی کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔

دوسری طرف زلزلے کو اسرائیل اور بھارت سے پینگیں بڑھانے کے لیے دوسری طرف استعمال کیا گیا۔ تمام اداروں کو نظرانداز کر کے ناٹو کی فوجوں کو بلانے کا فیصلہ فردِواحد نے اپنی مرضی سے کرڈالا اور یہ تک نہ دیکھا کہ ناٹو کا دستہ امریکی کمانڈر کے تحت کام کر رہا ہے پاکستان کی فوج کے تحت نہیں اور اس کے ایک ہزار افراد کے دستے میں ڈاکٹر اور انجینیرصرف ۱۵۰ کے قریب ہیں‘ باقی فوجی کون سے محاذ کو سرکر رہے ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔

کنٹرول لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے گئے جس سے ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے۔ محب وطن عناصر کو بجاطور پر تشویش لاحق ہے کہ کیا ناٹو کی فوجیں واپس جائیں گی یا یہ افواج وسیع تر مشرق وسطیٰ (Greator Middle East) کے امریکی نظریے کے تحت پورے عالمِ اسلام کو اپنی آماجگاہ بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستانی علاقے کو مستقر بنانے پر اصرار کریں گی۔ اگر یہ واپس جانے سے انکار کردیں تو کیا ہماری حکومت میں یہ ہمت اور طاقت ہے کہ انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہ افواج ایسے علاقے میں تعینات ہیں جو ہمارے ملک کا حساس ترین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بھارت‘ چین اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں قریب ہی ہماری ایٹمی تنصیبات ہیں۔ یہ چند ماہ میں ساری حساس معلومات اکٹھی کر کے کسی بھی وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ غالباً اس کا ذکر کرتے ہوئے کونڈولیزا رائس نے ایوان نمایندگان میں کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان میں غیرمحفوظ ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے پاس ہنگامی منصوبہ (contingency plan) موجود ہے۔

ملک کو گوناگوں خطرناک اور مستقبل کی غیریقینی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی یک جہتی کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے موقع پر ہنگامی صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ سیاست میں مداخلت نے فوج کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنی اصلاح کرسکے اور اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف کماحقہ توجہ دے سکے۔

اس مقصد کے لیے اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو قوم کو ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے تیار کرسکے تاکہ آئینی ادارے نئے سرے سے منظم ہوسکیں‘ عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے‘ سیاسی بنیادیں مستحکم ہوں اور آئین کے مطابق ہر ادارہ اور ہرطبقہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ یہ وقت ہے کہ فردِ واحد کی آمریت سے ملک کو نجات دلائی جائے اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے پوری قوم متفقہ جدوجہد کرے۔

یہاں پاکستان بھر میں مخیر حضرات تاجروں‘ صنعت کاروں اور عوام کے جذبۂ انفاق کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے امدادی کارکنوں اور اداروں کی پشتیبانی کی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا۔ امدادی کام ان مخیرحضرات کے خوش دلانہ مالی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہمیں کسی موقعے پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں نے خود نقد رقوم‘ خیمے‘ ترپال‘ کمبل‘ لحاف‘ گرم کپڑے‘ بستر اور سامانِ خوراک بہم پہنچایا۔ سیور فوڈ والوں نے مسلسل صبح شام ہزاروں افراد کو کھانا فراہم کیا۔ لاکھوں لوگوں کو صبح و شام ہمارے کیمپوں میں خوراک مہیا کی جاتی رہی اور اللہ کے فضل اور عوام کے تعاون سے ہمارے ہاں سے کوئی بھی فرد خالی ہاتھ یا بھوکے پیٹ واپس نہیں لوٹا۔

لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مجھے چار لاکھ روپے کا چیک متاثرین کو جاڑوں کی ٹھنڈسے بچانے کے لیے تھرمل سوٹ خریدنے کے لیے دیا۔ میں نے جب کراچی میں اپنے صنعت کار دوستوں سے تھرمل سوٹ کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے بغیر قیمت کے مجھے ایک ماہ کے اندر ۵۰ ہزار تھرمل سوٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے بنتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تاجروں نے مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے ساڑھے چار کروڑ روپے کی ضروری ادویات کا ایک جہاز بھیجا۔ سعودی عرب کے دوستوں نے تقریباً ۱۲ ہزار خیموں اور کروڑوں روپے کی ادویات کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز فراہم کی۔ اسلامی تحریک کی دنیا بھر کی تنظیموں نے مصر‘سوڈان‘ امریکا اور یورپ سے امداد فراہم کی۔ یوکے اسلامک مشن نے زلزلے کے پہلے ہی روز گرانقدر عطیہ بھیجا جو باعث برکت بنا۔ اسی جذبۂ انفاق کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سات سو گنا بڑھا کر دے گا۔

پاکستانی فوج کے بجٹ کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے والے حسابات سے مستثنیٰ ہیں۔ سلامتی کونسل کے تحت زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے جو ادارہ قائم کیا گیا اور جسے مکمل طور پر فوج کے جرنیلوں کے سپرد کر دیا گیا اس کے بارے میں بھی اسی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ وہ عوامی نمایندوں اور عدالتوں کے سامنے جواب دہی سے مستثنیٰ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کسی ایسی کمیٹی میں شمولیت سے معذرت ظاہر کی جس کو سلامتی کونسل کے قائم کردہ ادارے پر مکمل بالادستی حاصل نہ ہو۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف یہ ہے کہ سارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ کی کمیٹی کے قیام کی کوئی افادیت یا مصرف نہیں ہے۔ ملک کے اندر حزبِ اختلاف کے شکوک و شبہات اور تمام معاملات میں فوجی عمل دخل اور      عوامی نمایندوں کے احتساب سے بالاتر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب غیرملکی امداد دینے والے (donors)بھی کھلم کھلا فوجی حکمرانوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکومت کے نمایندوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک حسابات کو شفاف نہیں بنایا جاتا اس وقت تک امداد دینے والے ممالک مدد دینے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے۔

ان کے مطالبے پر پرویز مشرف حکومت نے کسی تیسری ایجنسی کے سامنے حسابات رکھنے  کا عندیہ پیش کیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اپنی قوم کے عوامی نمایندوں کے سامنے حسابات دینے سے کترانے والے اپنی افواج کے زیراہتمام خرچ ہونے والے حسابات کا آڈٹ کسی تیسری ایجنسی سے کروانے کے لیے تیار ہیں۔ فوجی حکمران جس طرح ملک کی آزادی اور خودمختاری سے بتدریج دست بردار ہو رہے ہیں یہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔

بحالی کے سلسلے میں اب تک جو عملی تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں عام دیہاتی آبادی کی بحالی کی یہ تجویز فوری طور پر قابلِ عمل ہے کہ ایک خاندان کو اپنی چھت اور دیواریں سیدھی کرنے کے لیے ۲۰‘ ۲۵ ہزار روپے دیے جائیں۔ اپنی ضرورت کے لیے جنگل کی عمارتی لکڑی کاٹنے کی اجازت حکومت نے دے دی ہے۔ اگر دیہاتی علاقے میں آرے کی مشین اور مستری فراہم کیے جائیں تو لوہے کی چادروں اور لکڑی اور گرے مکان کے ملبے سے تھوڑی سی محنت اور ہمت کے ساتھ اپنے گھر کو قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر دیہاتی علاقے میں ایک گائے اور دو بھیڑیں خریدنے اور اپنی کھیتی کو کاشت کرنے کے لیے سہولت فراہم کردی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ۶۰ہزار روپے میں ایک خاندان کو ابتدائی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار ڈالر اگر ایک فرد فراہم کرے تو وہ ایک غریب خاندان کو سہارا دے سکتا ہے۔ یہ مواخاۃ کی تحریک کا ایک طریقہ ہے اور دو خاندانوں کے سربراہوں کو اس طرح آپس میں ایک دوسرے سے متعارف کرایا جا سکتا ہے تاکہ ایک سربراہ دوسرے خاندان کو سہارا دے کر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا حق ادا کرسکے۔

پاکستان انجینیرز فورم نے اسٹیل کے فریم اور فائبر گلاس کی چھت اور دیواروں کے ایک ایسے مکان کا ڈیزائن اور ماڈل بھی پیش کیا ہے جو فوری طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ایک کمرے اور غسل خانے‘ باورچی خانے پر مشتمل ایک چھوٹا مکان ایک لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جائے تو یہ رقم ۸۰ہزار روپے تک نیچے لائی جاسکتی ہے۔ بعض اداروں نے    پیش کش کی ہے کہ وہ سو دو سو مکانات‘ ایک اسکول اور ایک ہسپتال اور ایک مسجد پر مشتمل ایک چھوٹی سی کالونی بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یورپ میں مکین ترک باشندوں کی تنظیم ملی گورش نے بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد کے علاقوں میں اس طرح کی تین کالونیاں بنانے کے لیے چار یا پانچ لاکھ یورو (تقریباً چار یا پانچ کروڑ) کا عطیہ دینے کی پیش کش کی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ ایک منظم طریقے سے یہ کام شروع ہونے کے بعد بہت سے مخیرحضرات اور برادر تنظیموں کی طرف سے مسلسل مزید امداد کی پیش کش آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الخدمت فائونڈیشن اور دوسری برادر تنظیمیں مل کر فیلڈ میں اپنے کام کو مربوط اور منظم کریں۔

اس تباہی سے خیر نکالنے کا راستہ یہی ہے کہ بحالی کا کام مربوط طریقے سے ایک منصوبے کے مطابق کیا جائے اور متاثرہ لوگوں کو بحالی کے اس پورے کام میں اس مرحلے پر شریک کیا جائے اور انھیں اصل درس یہی دیا جائے کہ بحالی کے اس کام میں اصل عنصر ان کی اپنی ہمت‘ محنت اور امداد باہمی ہے۔ باہر کے لوگ انھیں سہارا دے سکتے ہیں لیکن اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ان کا اپنا فرض ہے۔

اگریہ کام خالصتاًاللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو اللہ کی نصرت شاملِ حال ہوگی اور یہ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کا ازالہ بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری حقیر خدمات کو قبول فرمائے اور ہماری کوتاہیوں کو      بخش دے۔آمین!

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کے طویل ادوار میں عوام کے جمہوری حقوق کی صورت حال دگرگوں نظر آتی ہے۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں ایک ایسے نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے جس میں فردِ واحد کلی اختیارات کا مالک ہے ۔ وہی افواج کا سربراہ ہے‘ وہی مملکت کا بااختیار صدر ہے‘ وہی قومی سلامتی کونسل کا صدر نشین ہے ‘غرض وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے۔ ہر اہم معاملے میںآخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ داخلی اور خارجی تمام امور میں حکومتی اعیان و انصار اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے ۔ وزیراعظم اس کا ایک نمایندہ ہے ۔حکومتی پارٹیاں اس کے گرد متحدہیں اور اس کی ہر پالیسی اور ہر اقدام کی مویّد ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد یا ادارے کی یہ مجال نہیں کہ کسی بھی اہم معاملے میں وہ کوئی آخری اور حتمی فیصلہ کرسکے ۔

فوجی اصطلاح میں اسے Unity of Commandکہتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے مطابق یہ صورتِ حال ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت ہے ۔ پرویز مشرف صاحب کے ان کلی اختیارات کا منبع وہ فوجی انقلاب ہے جو پاکستانی فوج نے اس وقت برپا کیا جب پرویز مشرف صاحب ہوائی جہاز کے ذریعے بیرون ملک دورے سے واپس آ رہے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم نے ان کے ہوائی جہازکو رُخ موڑنے کا حکم دے دیا تھا ۔ کورکمانڈروں کے اجتماعی فیصلے کے تحت وزیراعظم کا یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا اور اس طرح ایک فوجی انقلاب برپا ہوگیا ۔

سابقہ حکومت کی غلطیاں اور موجودہ حکمران

بلاشبہہ حالات کو یہاں تک لانے میں میاں نوازشریف صاحب کی غلطیاں بھی شامل تھیں۔ میاں صاحب بھی کلی اختیارات کے آرزومند تھے۔ پہلی بار جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی کے تحت وزیر اعظم بنے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مختار کل بننا چاہتے تھے۔ ہم نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ ان عزائم کو چھوڑ کر ایک مہذب اور شائستہ جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالیں۔ کلی اختیارات فقط اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہیں‘جس کا علم کامل ہے‘ جو سمیع وبصیر‘جو  علیم و خبیر ہے اور جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کے اقتدار کی کنجیاں ہیں اور وہی بادشاہی کا مالک ہے۔

ہم نے اُن سے یہ بھی گزارش کی کہ ملک و ملّت کا مفاد آئینی ضابطوں کی پابندی میں ہے۔ تقسیم کار کے لیے اداروں کی تشکیل کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کردیں۔ انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے کرنے کے لیے عدلیہ کی بالا دستی کو دل سے تسلیم کریں ۔ قرآن و سنت کو آخری مرجع تسلیم کرکے تنازعات کو اللہ اور رسولؐ کے احکام کے مطابق حل کرنے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہوں ۔میاں نوازشریف یہ برادرانہ مشورہ قبول کرنے کے بجاے ہم سے ناراض ہوگئے۔ مجبوراً ہم اسلامی جمہوری اتحاد سے علاحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد میاں صاحب کا اقتدار بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا۔ اب معلوم نہیں کہ میاں صاحب نے اس ساری صورتِ حال سے کہاں تک سبق حاصل کیا ہے۔

اپنا کام نکالنے کے لیے امریکا اور اس کے مغربی حواریوں نے پرویزمشرف صاحب کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام ملا ہے ۔ پرویز مشرف کے گرد جو سیاسی عناصر اکٹھے ہوئے ہیں وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں ‘ انھیں فوجی اقتدار کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ لوگ نواز شریف اور بے نظیر کی واپسی سے خائف ہیں اور پرویز مشرف کی وردی کے بغیر نوازشریف اور بے نظیر کو باہر رکھنا انھیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ انھیں خوف ہے کہ جب پرویز مشرف اپنا فوجی عہدہ چھوڑ دیں گے اور ملک میں آئین بحال ہوجائے گا ‘ عدالتیں کام کرنے لگیں گی ‘ سیاسی جماعتیں مکمل طور پر آزاد ہوجائیںگی تو فوج کی چھتری کے ذریعے حاصل شدہ تحفظ باقی نہیں رہے گا اور ان کی شامت آجائے گی ۔ اس لیے یہ پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ان کی ناجائز اور غیر آئینی حکومت کو قانونی جوازفراہم کرنے کے لیے ہر ذلت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔

امریکا کے جمھوریت پسندی کے دعوے کی حقیقت

امریکی حکومت اپنے وقتی مصالح کی خاطر نہایت ڈھٹائی سے اپنی جمہوریت پسندی کے دعووں کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ منافقت اور دہرے معیار کا جو مظاہرہ امریکی کارپرداز ان پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے کررہے ہیں‘ اس سے امریکا کی خود غرضی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس کے چہرے سے منافقت کا نقاب مکمل طور پر اتر گیا ہے ۔

عالمی طاقت کی حیثیت سے روس کی پسپائی کے بعد امریکا ایک ایسے عالمی نظام (New World Order) کاعلم بردار بن گیا ہے جس کی قیادت‘ وہ چاہتا ہے کہ مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہو ‘ وہ پوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہو‘ تمام اقوام اس کے تابع ہوں‘ اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی لونڈ ی ہو اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر وہ باقی دنیا پر سیاسی ‘معاشی ‘ ثقافتی ‘تعلیمی اور معاشرتی ہمہ گیر غلبہ حاصل کرلے۔ اس ہمہ گیر غلبے کی خاطر وہ ہر حربے کو استعمال میں لانا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ کسی طرف سے امریکا کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس کے تدارک کے لیے وہ پیشگی حملے  (pre-emptive attack) کو وہ اپنے لیے جائز سمجھتا ہے ۔

  • لادین نظام تعلیم کے نفاذ کی کوششیں: مسلمان ممالک میںلادین نظام رائج کرنا اور اس کے لیے مسلمان ممالک کے نصاب تعلیم سے قرآن و سنت کی تعلیمات کو خارج کرنا امریکا کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان میں پرنس کریم آغاخان کو ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تعلیم کی عالم گیریت (Globlisation of Education) پر بھارت میں کریم آغا خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی کا اخبار دعوت رقم طراز ہے :

گذشتہ دنوں بین الاقوامی شہرت یافتہ آغاخان فائونڈیشن کے سربراہ کریم آغاخان ہندستان کے دورے پر آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسماعیلی خوجہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہیں مگر دل چسپ امر یہ ہے کہ ان کا مولدومسکن ہندستان یا ایران نہیں ہے اور نہ مشرق کی کوئی سرزمین اور خطہ ء ارضی ان کی جاے رہایش و پیدایش ہے بلکہ دور دراز علاقے یعنی دیار مغرب کا ایک نہایت اہم حصہ فرانس ان کا مرکز و محور ہے ۔ یہ امر اس سے کہیں زیادہ دل چسپی کا باعث ہے کہ وہ رہتے تو فرانس یعنی مغرب میں ہیں ۔مگر ان کا دل مشرقیوں کے لیے دھڑکتا ہے ‘اس لیے کہ ان کی بیشتر معلوم سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا مرکز یہی خطہ ہے۔ ان کی معلوم سرگرمیاں ‘دلچسپیاں اور فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ کلچر اور تعلیم سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ برصغیر کو اپنی کرم فرمائیوں سے اکثر نوازتے رہتے ہیں اور خاص خاص موقعوں پر نہایت خاص مقاصد کے تحت ادھر کا رخ کرتے ہیں اور جب بھی یہاں آتے ہیں‘ ان کی زبردست پذیرائی ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک کیا جاتا ہے جو کسی سربراہِ مملکت کے ساتھ ہوتا ہے۔ گویا حکومت ِہند اور اس خطے کی دوسری حکومتوں کو ان کے مقام و مرتبے کاپورا پورا ادراک ہے ۔ وہ ان کے مقاصد اور مشن سے بھی آگاہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی جب وہ یہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیاگیا۔ وہ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے خاص مہمان رہے اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انھیں آغاخان فائونڈیشن کی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کے میدانوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی تنظیم سماجی ‘ تعلیمی اور حفظان صحت کے میدانوں میں کام کررہی ہے او راب وہ اپنا دائرہ کار بڑھاناچاہتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آغاخان فائونڈیشن فی الحال گجرات اور مہاراشٹر میں سرگرم عمل تھا مگر اب وہ مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح فائونڈیشن نے تعلیم نسواں کو بھی اپنی توجہ کا خصوصی ہدف بنایا ہے ۔ انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے نمایندے کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے اہداف و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جس طرح بنیاد پرستی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے‘ وہ ان کی تشویش کا ایک مرکز ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ سختی اور مزاج کی ناہمواری دور ہو۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کو عام کرنے سے یہ چیز ختم کی جاسکتی ہے ۔ علم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا‘ ناگہانی آفتوں میں بھی یہ بڑا سہارا بنتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہی ان کی اور ان کے فرقے کی اصل قوت ہے ‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کوآج کے تقاضوں یعنی عصری تقاضوں کا جس طرح ساتھ دینا چاہیے تھا‘ ہندستان میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے ۔

گلوبلائزیشن کا عمل جس طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے اور وہاں جس رفتار کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا ہے تعلیم کے میدان میں بالخصوص ہندستان میں وہ چیز مفقود ہے ‘ گویا ان کے مطابق جس طرح معاشی میدان میں گلوبلائزیشن کے اصول کو اپنایا گیا ہے اور دوسرے میدانوں میں جس طرح اس کوتسلیم کرلیا گیا ہے ‘ ٹھیک اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی اس اصول کو نہ صرف متعار ف کرانے کی ضرورت ہے بلکہ اس پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس کے بغیر دنیا کا او رخاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ ناممکن ہے ۔ اگر ہندستان اور اس جیسے دوسرے کمزور اور پس ماندہ ملکوں کو ترقی کرنی ہے تو انھیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے ایک نہایت اہم پیغام یہ بھی دیا ہے کہ روح عصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق روح عصر یہ ہے کہ ایک عالمی آفاقی انسانی برادری جنم لے رہی ہے جس کا منبع نظم وانصرام ایک دستور ہوگا یعنی یہ عالمی و آفاقی اور انسانی برادری ایک دستور کے ماتحت ہوگی ‘ اس میں جغرافیائی حالات اور مختلف قبائلی و نسلی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے‘ اس کا جتنا جلدادراک کرلیا جائے‘ دنیا کے لیے اتنا بہتر ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب قومی ریاستوں (Nation-States)کا دور قصۂ پارینہ ہوگیا ‘ اب عالمی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے ‘کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہو کر رہنا ہے ‘ اگر ا س کوتسلیم کرلیا جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے تو تصادم اور تخریب سے بچا جاسکتا ہے۔(سہ روزہ دعوت‘دہلی‘   یکم دسمبر۲۰۰۴ئ)

  • پاک بہارت مشترکہ تعلیمی نصاب: جنرل پرویز مشرف ایک بھارتی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلے پاکستان اور بھارت کے مشترک تعلیمی نصاب کی پیش کش کرچکے ہیں۔پاکستان کے لاکھوں طلبہ پہلے ہی او (O) اور اے (A)لیول کے ا متحان دے رہے ہیں اور اس طرح اپنے قومی نصاب کی پابندی سے آزاد ہوچکے ہیں۔ جو رہی سہی کسر باقی ہے‘ اسے آغاخان بورڈ کے ذریعے پورا کرنے کے ارادے ہیں۔ مغرب اور امریکا پاکستان کے تعلیمی نصاب اور دینی مدارس میں اسلامی نظام تعلیم کو دہشت گردی کی جڑ سمجھتے ہیں۔ وہ اس نظام کو ختم یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے سے شہادت اور جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کو خارج کرنا ممکن نہیں ہے۔ واشنگٹن ٹائمزمیں ایک امریکی دانش ور اپنے ایک مضمون میں صراحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی کی جڑ خود قرآن کریم کی تعلیمات ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ایک دہشت گرداور انتہا پسند اقلیت نے مسلمانوں اور اسلام کو یرغمال بنارکھا ہے بلکہ اصل مسئلہ خودقرآنی تعلیمات کا پیدا کردہ ہے ۔ لہذا مسئلے کا حل یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر اعتدال پسندمسلمانوں کو آمادہ کیا جائے ۔ اس طرح کے دانش وروں کے زیر اثر امریکی حکومت ایک طرف مسلمان ممالک میں پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی پشت پناہی کررہی ہے جو ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ (Enlightened Moderation)کے نام پر اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے N.G.Os (غیر سرکاری اداروں )پر بے دریغ روپیا خرچ کررہے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے کثیرالقومی تجارتی کمپنیوں کی وسیع افراد ی قوت اور ڈھانچا اور ان کے وسائل بھی استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ بھی انھی بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ جو دن رات اشتہارات کے ذریعے اسلامی ثقافت کو تبدیل کرنے اور مغربی اور ہندوانہ ثقافت کو ترویج دینے کا شیطانی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
  • مغربی اقدر کا فروغ اور تعلیمی نظام میں تبدیلی : امریکا کے مشہور تھنک ٹینک بروکنگز کے دانش ور اسٹیفن کوہن اپنی زیر طبع کتاب  The Idea of Pakistanمیں لکھتے ہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکا کا مخالف (adversary) ہے‘ جب کہ امریکا کو اپنے فوری مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ طویل عرصے کے مدمقابل اور مخالف ہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی توانا ئی کا مالک ہے اور اس کی یہ صلاحیت امریکی عزائم اور علاقے میں اس کے مفادات کے لیے کسی وقت خطرہ بن سکتی ہے‘ جب کہ دوسری وجہ اسلامی نظریے سے پاکستان کی وابستگی ہے ۔ لہٰذا اسٹیفن کوہن تجویز پیش کرتا ہے کہ لمبے عرصے کے خطرات سے بچنے کے لیے‘ امریکا یہ حکمت عملی اختیار کرے کہ مختصر عرصے میں پاکستان کو جو امداد دینا ضروری ہو‘ وہ امداد اس شرط کے ساتھ مشروط ہو کہ پاکستان اپنا نظام تعلیم و تربیت مغربی اقدار کے مطابق کردے اور اس سے قرآن و سنت پر مبنی تعلیمات نکال دے اوراپنے ایٹمی پروگرام کو roll back(لپیٹ) کردے۔

ایک یورپی ادارے(ICMG) International Crisis Management Groupنے قرآن و سنت پر مبنی تعلیما ت کو نفرت انگیز مواد (hatred material)قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے نصاب تعلیم سے اس مواد کو خارج کردے۔ ہلیری کلنٹن نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف اپنے ملک کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور دینی مدارس کو مکمل طور پر حکومت کی تحویل میں لے کر اس کے نصاب کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وہ ایک سوملین ڈالر کی رقم کو قطعی ناکافی سمجھتا ہے جس کی پیش کش اس وقت حکومت امریکا نے کررکھی ہے ۔ ہیلری کلنٹن نے سفارش کی ہے کہ اس مقصد کی خاطر حکومت پاکستان کو کم ازکم   پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دی جائے ۔

ملکی عدمِ استحکام

درج بالا گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ قارئین کے سامنے حالات کا وہ رخ پیش کردیا جائے جن کا اس وقت عالم اسلام اور پاکستان کو سامنا ہے۔  پرویز مشرف کی آمرانہ روش جہاں پاکستان کے داخلی حالات کے پیش نظر خطرناک ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے نظام کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ہماری آزادی و خودمختاری اور ہمارے قومی و ملی تشخص او راسلامی نظریاتی بنیاد کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ اس وقت پرویز مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی جنگ ہمارے ملک کے اندر تک پہنچ گئی ہے ۔ وزیرستان میں قبائل اور فوج میں آویزش ہے‘جب کہ دوسرے قبائلی علاقوں میں بھی فوج پہنچ گئی ہے اور شدیدخطرہ ہے کہ فوج اور قبائل کی یہ آویزش پورے قبائلی علاقے میں پھیل جائے ۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے مجاہدین قبائلی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اگر پاکستانی فوج ان کا صفایا نہیں کرے گی تو امریکی افواج کی براہ راست مداخلت کا خطرہ ہے ۔امریکی افواج کی مداخلت کو روکنے کے لیے اپنے عوام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی منطق کو کوئی بھی جرات مند محب وطن فرد قبول نہیں کرسکتا ۔

پرویز مشرف صاحب نے بلوچ قبائل کو جس لہجے میں دھمکی دی ہے‘ وہ لہجہ دشمن ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کسی گروہ کے لیے چاہے وہ کتنا ہی منحرف ہوچکا ہو‘یہ لہجہ استعمال کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔ داخلی مسائل ہمیشہ سیاسی گفت و شنید اور لچک دار رویے سے حل کیے جاتے ہیں لیکن فوجی آمر اس سیاسی دانش سے محروم ہوتا ہے ۔ بلوچستان کے بعض سرداروں کو حکومت کے بدعنوان کارپردازوں نے جو چھوٹ دے رکھی ہے اور قبائل کے عام افراد کو جس طرح ان کے رحم وکرم پر دے دیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں بلوچ قبائل میں ایک مستحکم اور پایدار جمہوری کلچر کی نشو و نما نہیں ہوسکتی ۔ یہی حال صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جو لا وا پک رہا ہے‘ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔ فوجی آمریت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کو درپیش خطرات

کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہنی مون ختم ہونے کے قریب ہے۔ اعتماد بحال کرنے کے اقدامات (CBM)کے حوالے سے جو مذاکرات شروع کیے گئے تھے‘ بگلیہار ڈیم کے مذاکرات ناکام ہونے سے ان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے ۔ بھارت یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ۔وہ اب تک اسی پرانی رٹ پر قائم ہے کہ پوری ریاست بشمول شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر‘ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔پرویز مشرف صاحب امریکا کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے زعم میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انھوں نے کشمیرکے سات ٹکڑے کردینے کی ایک متبادل تجویز پیش کردی‘جب کہ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔

کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ایک تاریخ ہے اور اس موقف کی مستحکم بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ تقسیم ہند کے نامکمل حصے کے طور پر جب تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت یہ تنازع حل نہیں ہوپاتا‘اس وقت تک یہ ایجنڈا نامکمل ہے۔ اس قانونی بنیاد کے بغیر بھارت اسے علاحدگی پسندوں کی ایک تحریک قرار دے گا اور بھارت میں اس طرح کی بیس سے زیادہ تحریکیں موجود ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ ان تحریکوں سے کلی طور پر الگ نوعیت کا ہے ۔ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا ۔ بھارت کا قبضہ ظالمانہ ‘ناجائز اور غیر اخلاقی ہے اور اس کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ایک جائز جدوجہد ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دنیا کی تمام آزاد ی پسند اقوام کا فرض ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوںکا ساتھ دیں ۔ اگر اقوام عالم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ایک تو بھارت کے ساتھ ان کے تجارتی اور سیاسی مفادات کی وابستگی ہے اور دوسری وجہ خود پاکستان کے حکمرانوں کی سفارتی اور اخلاقی کمزوری ہے ۔

پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ ابتدا سے یہاں اکثر حکومتوں نے اپنے ملک کے عوام کی آزادیوں اور حقوق کو چھیننے اور دبانے کی کوشش کی ہے ۔ پرویز مشرف کی حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومتوں کے تسلسل کا حصہ ہے ۔اس طرح کی حکومتوں میں اخلاقی جرات کا فقدان ہوتا ہے ۔ جس حکومت نے خود اپنے عوام کے حقوق کو غصب کررکھے ہوں‘ وہ کسی دوسرے ملک کی  بے انصافیوں اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کیونکر آواز اٹھا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان‘ بھارت کے خلاف عالمی سطح پرایک موثر سفارتی مہم چلانے میں اسی وجہ سے ناکام رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں شہری آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔

فوج کو متنازع بنانے کی پالیسی

اس وقت پاکستان کو ان مخدوش حالات سے نکالنے اور اسے ایک مستحکم سیاسی او رمعاشی بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے عوام پر آپڑی ہے ۔ پرویز مشرف نے فوج کے ادارے کو سیاست میں بری طرح ملوث کر دیا ہے۔جو ادارہ سیاست میں اس قدر دھنس جائے اس میں اختلافات پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ۔ قومی سلامتی کونسل کے ادارے کی مخالفت خود ایس ایم ظفر نے کی ہے جو ایم ایم اے کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کے قانونی مشیر تھے۔ انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس ادارے میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لیڈر  آمنے سامنے بیٹھے ہوں اور افواج پاکستان کے سرکردہ سربراہ بھی ان کے ساتھ ہوں‘ تو اس ادارے میں ان کاایک طرف جھکائو اور اختلاف راے ایک بدیہی امر ہے ۔

جنرل پرویزمشرف کی وجہ سے عوام میں فوجی ادارے کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ فوجی حکومت ملّی اور قومی امراض کا مداوا نہیں کرسکتی۔پرویز مشرف کے خلاف تحریک صرف اس کی ذات تک محدودنہیں ہے بلکہ عوام کی طرف سے فوجی ادارے کو سیاسی ادارے کے طورپر مسترد کرنے کی تحریک ہے۔ پرویزمشرف کے بعد کسی اور جرنیل کی مداخلت بھی برداشت نہیںکی جائے گی ۔

موجودہ تحریک کے مراحل

حالیہ تحریک کے پہلے مرحلے میں ہم نے عوام کو یہ ہدف دیا ہے کہ ملکی سیاست سے فوج کوفارغ کرنے کا عزم کرلیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پہلے ہی سے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا لازمی ہے کہ آئین کی مکمل پاسداری کا عہدکریں‘ نہ خود آئین کے کسی بنیادی کلیے کو توڑنے کی کوشش کریں اور نہ فوج کو یہ موقع دیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور بدعنوانیوں کو بہانہ بناکر آئینی ضابطوں کو معطل کرسکیں۔ماضی میں سول حکومتوں کی ناکامی اور ان کے خلاف عوامی تحریکوں کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے آئینی ضابطوں کو پامال کیا اور مطلق العنان حکومتیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ذوالفقار علی بھٹو ‘بے نظیر بھٹواور نواز شریف صاحب کے خلاف اس لیے تحریکیں اٹھیں کہ انھوں نے اسی شاخ کو کاٹ ڈالا تھا جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی حکومتیں جمہورکی طاقت اور راے عامہ کی قوت سے چلتی ہیں۔ جب وہ عوامی امنگوں کو نظر انداز کرکے قانون اور آئینی ضابطوں کو توڑنے کے درپے ہوجاتی ہیں تو وہ خود اپنی بنیادوں پر کلہاڑا چلاتی ہیں اور فوج کے طالع آزما‘خود غرض اوربڑی طاقتوں کے آلہ کار جرنیل اس موقع کو غنیمت جان کر قومی وسائل کو خوانِ یغما سمجھ کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔

مستقبل میں کسی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس حد تک عوام کو ایک مخلص قیادت کے گرد جمع کرسکتے ہیں اور کس حد تک انھیں آخری منزل تک متحرک رکھنے کا ولولہ دے سکتے ہیں ۔ماضی میں تحریک چلانے والے قائدین کی نظر بھی آخری منزل کی بجاے موجودحکمران سے نجات حاصل کرنے تک محدود رہی‘ اس لیے عوام نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے پر ختم کردی ۔ قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کی جگہ ضیاء الحق کو قبول کرلیا اور بے نظیر اور نوازشریف کے بعد وہ پرویز مشرف کے جھانسے میں آگئے ۔موجودہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک مہذب‘ جمہوری‘ شائستہ اور آئین کی پابند اور عدالتوں کااحترام کرنے والی اسلامی جمہوری حکومت قائم نہ ہوجائے۔

تحریک ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرکر زور پکڑتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں قیادت یکسوئی کے ساتھ اہداف متعین کرکے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ عوام کو ایک واضح پروگرام دے کر پکارتی ہے ۔ قیادت کی پکار پر متعلقہ سیاسی اور دینی جماعتوں کے کارکن لبیک کہتے ہیں۔کارکن اپنی قیادت کی رہنمائی میں قربانی دیتے ہیں اور پھر عوام میدان میں نکلتے ہیں ۔اس وقت ہم اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ مجلسِ عمل کے کارکن اپنی قیادت کی پکار پر میدان میں ہیں ۔حج اور عید کے بعد ان شاء اللہ قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ہی عوام کا جم غفیر بھی پرویز مشرف کی غیر آئینی اور بلا جواز حکومت کے خلاف میدان میں آئے گا ۔ لوگ پرویزمشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔

عراق اورافغانستان میں امریکا جو مظالم ڈھا رہا ہے اور اس نے مسلمان عوام کو نئے سرے سے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑنے کے لیے جال پھیلایا ہے‘ عوام پرویز مشرف کی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں جو ملک کو امریکا کا طفیلی لادین ملک بنانے پر تلی ہوئی ہے۔عوام میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانی کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں ۔ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں مخلوط معاشرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور جس طرح ہمارے خاندانی نظام اورہمارے معاشرتی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے‘ عوام اس سے اظہار بیزاری اور نفرت کرتے ہیں ۔ پرویز مشرف اور اس کے نامزد وزیراعظم کے دعوئوں کے علی الرغم ملک کے عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے‘ ملک میں ہرسو بدامنی ‘ڈاکا زنی اور افراتفری ہے او رعوام اس صورتِ حال کے خلاف کسی بڑی تحریک کے انتظار میں ہیں ۔

متحدہ حزبِ اختلاف

حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی باہمی اتحاد کے لیے مشترک بنیادوں کی تلاش میں ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکو سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اپوزیشن جماعتوں کو مشترک بنیادفراہم کرتا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ اور بعض دوسری جماعتیں  مطالبہ کر رہی ہیں کہ مجلسِ عمل سترھویں آئینی ترمیم سے اعلان بیزاری کر دے لیکن چونکہ سترھویں آئینی ترمیم کاتقاضا پورا کرنے سے خود پرویز مشرف نے راہِ فرار اختیار کی ہے اور عملاً اس دستوری عہد کے ایک حصے کو من مانے طور پر منسوخ کر دیا ہے‘ اس لیے مجلسِ عمل کو بھی قانوناً اور اخلاقاً سترھویں ترمیم سے اعلان بیزاری کرنے میں کوئی عار نہیں ہے ۔

اس وقت حزبِ مخالف کی جماعتیں ا س بات پر متفق ہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت ناجائز‘غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔اس کی جگہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک منتخب او رجائز حکومت کے قیام کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟ اس کے لیے عافیت کا راستہ تو یہی تھا کہ پرویز مشرف سترھویں ترمیم کو قبول کرکے اپنے عہدکا پاس کرتے اور فوج کی سربراہی سے دست بردار ہوکر جمہوریت کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کرتے‘ لیکن ان کواللہ نے عزت کا یہ راستہ اختیار کرنے کی توفیق نہیں دی ۔اب عوام  انھیں صدر نہ چیف آف آرمی سٹاف قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دونوں عہدوں سے مستعفی ہوجائیں ۔ آئین کے مطابق اس صورت میں عبوری سربراہ چیئرمین سینٹ ہوگا اور قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کا نمایندہ وزیر اعظم ہوگا ۔ لیکن کیا موجودہ حکمران پارٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پرویز مشرف کے بغیر اپنی یک جہتی کو برقرار رکھ سکے ؟

حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ!

حزبِ مخالف کی جماعتیں اور خاص طورپر متحدہ مجلسِ عمل‘ حکمران جماعت کودعوت دیتی ہے کہ وہ اس امکان پر غور کرے اور اس سے قبل کہ عوامی سیلاب سب کچھ بہالے جائے‘ وہ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے آئینی راستے کو قبول کرے ۔ مجلسِ عمل کے ساتھ معاہدہ‘ حکمران جماعت اور فوج کے اہم سرکردہ افراد نے کیاتھا اور پرویز مشرف کے ساتھ حکمران جماعت اور فوج کے ہر اہم سرکردہ عناصر سب بد عہدی کا شکار ہوئے ہیں۔اس بد عہدی کے سبب قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے عوامی جدوجہد کا وہی راستہ اختیار کرے جس کی تازہ ترین مثال یوکرائن کے عوام نے پیش کی ہے اور اس سے کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن اور یوراگوئے میں جس کا تجربہ ہو چکا ہے۔

اس تحریک میں مسلمان خواتین کا کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکی عالمی نظام کے تحت کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامی قوانین کے خلاف اکسایا جائے ۔ مغربی تہذیب نے عورت کی جوگت بنائی ہے جس طرح اس کا لباس اتروا کر اس کو رسوا کیاگیا ہے اور جس طرح آزادی اور حقوق کے نام پر دھوکا دے کر اسے مردوں کے تفنن طبع اور جنسی ہوس کاذریعہ بنایا گیا ہے‘ وہ مسلمان خاتون سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔مسلمان خواتین ہماری تہذیب اور ہماری نئی نسل کے اخلاق و کردار کی محافظ ہیں ۔مسلمان خواتین میں قرآن کریم کی تعلیمات سے آگہی حاصل کرنے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی مجالس میں شرکت کا جو شوق آج پایا جاتا ہے‘ یہ اسلامی تہذیب کے احیا کی بڑی علامتوں میں سے ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا بڑا ذریعہ خاندانی نظام اور گھر کی حفاظت ہے اور خواتین کاجہاد یہی ہے کہ اسلامی معاشرے کے اس بنیادی قلعے کی حفاظت کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں اور اس کے لیے قرآن کریم کی تعلیمات کو ذریعہ بنائیں ۔

ملک اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ غفلت اور لاپروائی کی گنجایش نہیں۔ حکمرانوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو لہوولعب میں مبتلا کر کے حقیقی مسائل سے غافل کردیا جائے۔ وہ بھول جائیں کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے اور کن عظیم مقاصد کے لیے حاصل  کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قوم غافل نہیں‘ بیدار ہے۔ اسے اپنے مقاصد کا شعور اور احساس ہے۔ وہ ان مقاصد کے لیے قربانیاں دینا جانتی ہے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کی آواز پر لبیک کہے گی۔ مرد اور عورت سب اٹھیں گے اور ایک ایسی تحریک برپا ہوگی جس کے نتیجے میں ملک صحیح سمت میں سفر شروع کرے گا اور بالآخر اپنی حقیقی منزل کو پالے گا۔ ان شاء اللہ!

یہ اجتماع اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے منعقد ہوا ہے۔ ہمیں یہ اجتماع پاکستان کے قلب لاہور میں مینارپاکستان پر منعقد کرنا تھا جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی‘ جس کے سامنے مسلمانوں کی عظمت کی نشانی بادشاہی مسجد ہے‘ جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال کا مزار ہے۔ لاہور کو مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کے لیے مرکز بنایا تھا۔ اس شہر لاہور کے باشندے ملک بھر سے آنے والوں کی میزبانی کے لیے بے چین و بے قرار تھے‘ لیکن حکومت نے آخری دنوں میں ہمیں اجتماع عام منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہم چاہتے تو اس کے باوجود بھی اجتماع کر سکتے تھے لیکن ہم نے تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا‘ حالانکہ حکومت نے یہی نقشہ بنایا تھا کہ ہم تصادم کے راستے پر چل پڑیں۔ اس طرح ہم نے حکومت کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور فیصلہ کیا کہ اُس صوبے میں جہاں متحدہ مجلس عمل نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اور جس نے جہاد افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں یہ اجتماع منعقد کریں۔

اجتماع عام کا مرکزی موضوع وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام کتابوں میں اور قرآن پاک میں بھی ہمارا نام مسلم رکھا ہے جو اللہ کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جو شریعت نافذ کی وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں اور جدوجہد سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ ہمارے لیے مکمل اور غالب دین چھوڑا گیا ہے۔ اس دین کے ہم امین ہیں۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس دین کے نفاذ کے لیے کیا کوشش کی اور کیا قربانیاں دیں۔

ہمیں شہادت حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ اُمت کا فریضہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کی علم بردار بن کر اٹھے۔ یہ اُمت دہشت گرد اُمت نہیں ہے‘ یہ عدل و انصاف اور امن و امان کی ضامن اُمت ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ آج (جمعہ یکم اکتوبر) کو سیالکوٹ کی ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا ہے اور ۲۰ سے زائد مسلمان شہید ہوگئے ہیں۔ یہ اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے۔

آج فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور شیشان میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم ہے۔ ہمیں دشمنانِ اسلام کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ لوگوں کو خیر کی طرف بلانا اور عدل و انصاف کا قیام ہم پر فرض ہے۔ یہ کام اکیلے نہیں متحد ہوکر کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی‘ اخوان المسلمون‘ علماے کرام‘ دینی جماعتیں اور تبلیغی جماعتیں اس فریضے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنائی ہے۔

جماعت اسلامی خالصتاً اور کلیتاً وہی دعوت لے کر اٹھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ہم اس میں نہ کسی کمی بیشی کے مجاز ہیں نہ ہم نے اس میں کوئی کمی بیشی کی ہے۔ ہمارا     اول و آخر حوالہ قرآن و سنت ہے۔ہم لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلاتے ہیں۔ دنیا کے مسلمان کسی ایک لیڈر پر نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر متحد ہوسکتے ہیںاور متحد ہیں۔ یہ اجتماع عام اُمت مسلمہ کا اجتماع ہے۔ دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کا گلدستہ بن گیا ہے۔ ہماری حقیقی زندگی اسلام ہے اور اسلام ایک ہی ہے‘ کوئی لبرل اور ماڈریٹ اسلام نہیں۔

رب العالمین کی طرف سے رحمت للعالمینؐ جو پیغام لے کر آئے ہیں ہم اُس کے داعی ہیں۔ اس پیغام کو بالآخر غالب آنا ہے۔ حق قوت اور روشنی عطا کرتا ہے‘ ہم پوری دنیا کو ایک بستی سمجھتے ہیں۔ ہمارے رسولؐ پوری عالمِ انسانیت کے لیے آئے تھے۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہم سب میں عزت دار وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ عورتوں کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ وہ اللہ کے راستے پر چلیں اور حق و عدل کی علم بردار بنیں۔

جنرل مشرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے ماڈریٹ اسلام اور لبرل اسلام جیسی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام نے منکرات کو حرام قرار دیا ہے اور عریانی و فحاشی کا سختی سے مخالف ہے۔ اسلام میں فوجی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ جنرل مشرف‘ اتاترک اور صدربش جیسے لوگ اسے تبدیل نہیں کرسکتے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صدمسلم اکثریت والا کشمیرجب بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بھی دہشت گردی ہے۔ اس طرح فلسطین میں یہودیوں کو بسایا گیا اور کہا گیا کہ یہ اسرائیل ہے‘ اسے تسلیم کر لو اور جو تسلیم نہیں کرے گا وہ دہشت گرد ہے۔ شیشان‘ عراق‘ افغانستان میں ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔ یہ استعماری طاقتیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں اور ہمیں ہی دہشت گرد قرار دے رہی ہیں۔

میں یہ بات بھی واضح کرناچاہتا ہوں کہ ہم پوری انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر امریکا اسلام سے کوئی مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو ہم سے مکالمہ کرے۔ جنرل مشرف اسلام اور عالمِ اسلام کے نمایندے نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ملک کے جمہوری و آئینی اداروں پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے۔ ہم سول معاملات میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کو سیکولر بنایا جا رہا ہے‘ دینی مدارس میں مداخلت کی جا رہی ہے‘ پاک فوج کو امریکا کا کرائے کا پٹھو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے تصادم کے بجاے مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے ۱۷ویں آئینی ترمیم پر معاہدہ کیا جس کے مطابق قومی سلامتی کونسل کو آئین سے نکالا گیا اور صدر جنرل مشرف نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک وردی اتارنے کا وعدہ کیا‘ لیکن اب ہمارے ساتھ دھوکا دہی کی جا رہی ہے‘ جب کہ مجلس عمل نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ جنرل مشرف فریب دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے ۱۴ کروڑ عوام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ۳۱دسمبر کے بعد جنرل مشرف کو ایک دن کے لیے بھی صدر نہیں مانیں گے۔ ہم انھیں دستور کی خلاف ورزیوں کا مرتکب اور دستور کو نظرانداز کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والا قرار دیں گے۔ ملک کو بچانے کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

موجودہ حکمران امریکا کو خوش کرنے کے لیے وزیرستان اور وانا کے عوام پر بمباری کرارہے ہیں‘ یہ سب کچھ فوج کے مورال کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھارت‘ اسرائیل اور امریکا سب کی سازش شامل ہے۔ قبائلی علاقوں میں کوئی القاعدہ نہیں‘ وہ مقامی لوگ ہیں جنھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ آپریشن ملک کے آزادی پسند عوام کے خلاف ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ امریکا کی دہشت گردی میں اس کا اتحادی بننا ہے۔ اسلام دہشت گرد نہیں ہے۔ قرآن کریم نے تو ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا ہے۔ ہم نے ایٹم بم بنایا ہے لیکن یہ کسی مظلوم و معصوم پر گرانے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تاریخ تو امریکا کی ہے جس نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے تھے۔

امریکا ہمارے پُرامن ایٹمی پروگرام کو بند کرا رہا ہے۔ وہ کشمیر میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد کا درجہ دلا کر اس خطے میں بھارت کی اس طرح بالادستی چاہتا ہے جس طرح عرب ممالک میں اسرائیل کو بالادست بنا رہا ہے‘ اور اب ہمارا حکمران اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ہم فلسطین کی ایک انچ زمین پر بھی اسرائیل کے قبضے کو قبول نہیں کرتے اور نہ کشمیر کا سودا کرنے کی ہی کسی کو اجازت دیں گے۔

جنرل پرویز مشرف جو آمرانہ اقدامات کر رہے ہیں‘ ان کے خاتمے کا وقت قریب آگیا ہے۔ میں اے آر ڈی والوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اگر وہ ۱۷ویں ترمیم کے خلاف ہیں تو دستورمیں تبدیلی آئینی طریقے سے ہی ہوگی‘ تاہم قرارداد مقاصد‘ قادیانیوں کے خلاف دفعات‘ اسلامی اور حدود سے متعلق دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے پر سب متفق ہیں ‘ اور جن پر اتفاق نہیں ہے انھیں افہام و تفہیم سے آئینی طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ ہم ۱۷ویں ترمیم پر کوئی معذرت نہیں کرتے۔ ہم نے اس کے ذریعے ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا اور صدر کو وردی اتارنے کی ڈیڈ لائن طے کرائی۔ یہ ہماری کامیابی ہے۔ اے آر ڈی‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور پونم سے ہم کہتے ہیں کہ اگر یہاں انصاف اور دستور کے مطابق حکومت چلانا ہے تو مل کر فیصلہ کرلیں کہ فوجی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ ہم تو فیصلہ کرچکے ہیں کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد جنرل مشرف کو وردی میں صدر نہیں رہنے دیں گے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا حقیقی اقتدار موجودہ جمہوری اداروں کی طرف منتقل ہوجائے گا؟ کیا پرویز مشرف صاحب سترھویں ترمیمی بل کی منظوری کے بعد‘ دستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر کی آخری تاریخ سے قبل چھوڑدیں گے یا کلی اقتدار سے چمٹے رہنے پر اصرار کریں گے ؟ کیا پاکستان کو ایک دیانتدار‘اہل اور ملک و ملت کا حقیقی دردرکھنے والی قیادت میسر آسکے گی ؟ کیا امریکا ‘بھارت اور اسرائیل کی ملی بھگت کے مقابلے میں ہم اپنی قومی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ہم امریکا کے ساتھ نتھی ہونے پر مجبور ہیں یا امریکا سے جان چھڑا کر آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنانے کے مواقع موجود ہیں ؟

ہم کوشش کریں گے کہ ان اہم سوالات سے متعلق مسائل کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کریں۔

برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بظاہر تو اقتدار مسلم لیگ کی طرف منتقل ہوا لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوری کی وجہ سے اقتدار کلی طور پر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ (انتظامیہ)کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور بالآخر یہ نوبت آئی کہ جنرل محمد ایوب خاں نے اسکندرمرزا کے ساتھ مل کر فوجی قبضے کے ذریعے سیاسی بساط ہی لپیٹ دی۔ایوب خان کے بعد یحییٰ خان اور یحییٰ خان کے بعد مشرقی پاکستان گنوا کے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی فوج ہی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار پھر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے فوج کی طرف منتقل ہوگیا اور اسی فوجی دورِ حکومت میں نواز شریف کو متعارف کرایا گیا ۔ بے نظیر اور نوازشریف کے تجربات کے بعد فوج نے پرویز مشرف کے ذریعے ایک بارپھر اقتدار براہ راست سنبھال لیا۔

اس طرح پاکستان کی پوری تاریخ پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی حقیقی مالک پاکستان کی فوجی اور سول انتظامیہ (establishment)ہے جو وقتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً سیاستدانوں میں سے پسند کے کچھ لوگوں کو بھی شریکِ اقتدار کرلیتی ہے لیکن اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ حقیقی اقتدار عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل ہو ۔ موجودہ حکمران پارٹی بناتے وقت بھی اس کا انتظام کیا گیا ہے کہ اس کی قیادت میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہ آسکے جو فوجی قیادت سے آزاد ہو کر ملک و قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہو۔ چودھری شجاعت حسین علالت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ ملک و قوم کی قیادت کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ اسی لیے انھوں نے محض چند مہینے کی وزارت عظمیٰ پر بخوشی اکتفا کرلیا ۔ اس سے قبل وہ اپنی علالت ہی کی وجہ سے میر ظفر اللہ خاں جمالی کی وزارت عظمیٰ پر رضا مند ہوگئے تھے۔

شوکت عزیز صاحب بنیادی طور پر ایک ٹیکنوکریٹ ہیں ۔ ساری زندگی ملک سے باہر گزاری ہے ۔ ان کا سیاسی میدان کا تجربہ پرویز مشرف کے دور تک محدود ہے ۔وہ پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور جن حلقوں کو ان کے انتخاب لڑنے کے لیے پسند کیا گیا ہے وہاں ان کی کامیابی کا انحصار جاگیرداروں اور وڈیروں کی حمایت پر ہے ۔ یہ امر محل نظر ہے کہ کیا وہ پرویز مشرف کی سرپرستی کے بغیر بھی سیاسی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں ۔

پرویز مشرف صاحب نے ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ق) کو کسی حقیقی عوامی اور سیاسی قیادت سے محروم رکھا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے اتحادیوں میں اگرایک دوشخصیات ایسی ہیں بھی کہ وہ ذاتی لحاظ سے قیادت کی اہل ہیں تو وہ مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں ہیں ۔البتہ چودھری شجاعت حسین صاحب علالت کے باوجود اپنی برادری کے اثرات‘ وسائل‘ اور اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنا پر اس بات کے اہل ضرور ہیں کہ اپنے کسی سیاسی حریف کو موجودہ اسمبلی میں اقتدار تک پہنچنے سے روک سکیں ۔

ان حالات میں فوجی وردی اتارنے کے باوجود‘ اقتدار پرویز مشرف کے پاس رہے گا۔ شوکت عزیز ان کی وفاداری اورا طاعت پر مجبور ہوںگے اور چودھری برادران دونوںکو سیاسی پشتیبانی مہیاکرتے رہیں گے ۔امریکی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے پرویز مشرف اور شوکت عزیزقومی مصلحتوں اور مفادات پر سودا بازی کرتے رہیں گے ‘جس کے نتیجے میں عوام کی بے چینی بڑھے گی اور عوام کی طرف سے اپوزیشن پر خصوصاً ایم ایم اے پر‘ پرویز مشرف حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے دبائو بڑھے گا ۔

ان حالات میں ملک کو کسی ہیجانی صورت حال سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسائل کا آئینی اور قانونی حل نکالنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی گروہ میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ طرفین ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں جس کے نتیجے میں تصادم ناگزیر ہوجائے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ پرویز مشرف صاحب خوش دلی سے آئین کاتقاضا پورا کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ اس سے فوج میں بھی اطمینان پیدا ہوگا اور پرویز مشرف صاحب کو بھی ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس کی شکایت انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے کہ ان پر حملے میں فوج کے نچلی سطح کے کچھ لوگوں کاہاتھ تھا ۔ اس کے برعکس اگر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ فوجی عہدہ برقرار رکھنے پر اصرار کریں گے تو تشدد کا راستہ اختیارکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ۳۱دسمبرکے بعد فوجی عہدہ برقرار رکھنا آئین کو پس پشت ڈال کر اپنے ہی قائم کردہ جمہوری نظام پر وار کرنے کے مترادف ہوگا جس کے بعد جمہوری قوتوں کے پاس پرویز مشرف کے خلاف  ایجی ٹیشن کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس ایجی ٹیشن کا نتیجہ جو بھی نکلے‘ لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ اس کے بعد پرویز مشرف صاحب کے لیے اقتدار پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا اور   ایوب خان اور یحییٰ خان کی طرح ان کے اپنے ہی ساتھی ان سے معذرت کرسکتے ہیں کہ ان کا   یہ رویہ نہ قوم کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ملک کے دوسرے اداروں کے لیے۔ چنانچہ ملک و قوم اور   خود پرویز مشرف کے لیے عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ وردی اتار کر ایک سویلین صدر بننے پر اکتفا کرلیں ۔ اگر شوکت عزیز وزیراعظم بن جائیں تو دونوں مل کر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ۲۰۰۷ء تک آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حکومتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور اپوزیشن جماعتیں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے تیاری کریں۔

قومی جذبات کا احترام

اس صورت میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت عا فیت کے ساتھ اسی وقت چل سکتی ہے کہ وہ حساس معاملات میں قومی جذبات کا احترام کریں۔ حساس معاملات میں نیوکلئیر پروگرام سب سے اہم ہے اور اس پر ملک و قوم کی سلامتی کا انحصار ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہمارا دار و مدار اسی صلاحیت پر ہے۔یہ ملک و قوم اور ہماری فوج کے لیے بین الاقوامی برادری میں افتخار کا باعث ہے ۔

امریکا نے کھلم کھلا ہمیں ایک ایٹمی طاقت ماننے سے انکار کیا ہے ۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے ۔ ہماری اس صلاحیت کو اسرائیل نے بھی اپنے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور بین الاقوامی صہیونی لابی اس پروگرام کے خلاف سرگرم ہے۔ عبدالقدیر خان سمیت ہمارے بہت سے سائنس دانوں کو اس ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے کے جرم میں  اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا ہے اور ایٹمی پھیلائو (nuclear proliferation)کا الزام لگا کر پاکستان کو بھی غیر ذمہ دار ملک قرار دینے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ایٹمی پروگرام پر دبائو میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ پرویز مشرف کی وفاداری اور دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود‘ اور اس امر کے باوجود کہ پاکستا ن کو نیٹوسے باہر امریکا کا اہم اتحادی قرار دیا گیا ہے‘ اس اتحادی پر اس وقت تک اعتماد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام کو امریکا کے معائنے کے لیے کھول نہ دیں اور اس پر بین الاقوامی کنٹرول کو قبول نہ کرلیں ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام پر ایک حد سے زیادہ مفاہمت نہیں کرسکتے۔ اگر کشمیر یا ایٹمی پروگرام پر قومی پالیسی سے انحراف کیاجائے گا یا اسرائیل کوتسلیم کرنے ‘عراق اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے اپنی فوجوں کو ملوث کرنے‘ یا قبائلی علاقوں میں امریکی دبائو کے تحت عریاں فوجی قوت استعمال کرنے کے قبیل کے اقدامات کیے جائیں گے تو حکومت کو اندرونی سیاسی ایجی ٹیشن اور بڑی عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا خارجہ پالیسی سے آگے بڑھ کر اب تعلیمی اور ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی اپنی مرضی منوانے پر تلا ہوا ہے ۔پرویز مشرف کے مطلق العنان دور حکومت میں جب ابھی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آئی تھی‘ زبیدہ جلال صاحبہ کی معرفت امریکی آشیر باد کے ساتھ اہم تعلیمی شعبوں میں آغاخان فائونڈیشن کو عمل دخل دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۰۰۶ء میں ملک بھر میں ہر تعلیمی ادارے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے ادارے کا آغاخان فائونڈیشن کے قائم کیے ہوئے تعلیمی بورڈ سے الحاق کر لے۔ آغاخان فائونڈیشن کے بورڈ کو یوایس ایڈ (U.S. Aid)کی مالی پشتیبانی حاصل ہوگی جس کی شہ پر وہ خود سے منسلک اداروں کو بظاہربہتر سہولتیں مہیا کرکے انھیں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقدار اپنانے اور بچوں کو اسلامی تہذیب سے نا آشنا کرکے مغربی تہذیب کا خوگر بنانے پر آمادہ کرسکے گا ۔ اس طرح نظام تعلیم کو سیکولر بنانے اور نئی نسل کو اسلامی نظریے کے بجاے سیکولر نظریات کی طرف دھکیلنے کی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا پروگرام ہے ۔

اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ابھی سے پرویز مشرف صاحب اپنی تقریروں اور انٹرویوزمیں اظہار خیال فرمارہے ہیں کہ اسلام سیکولرازم کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔پرویز مشرف صاحب کے اعتدال پسند اسلام (Moderate Islam)کی تو یہ توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ خود قرآن کریم نے امت مسلمہ کو امت وسط (اعتدال والی قوم ) قرار دیا ہے مگر ان کے اس ارشاد کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام میں سیکولرازم کی گنجایش ہے کیونکہ سیکولرازم نام ہی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کے اخراج کا ہے ‘ جب کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے ‘ زندگی  بسر کرنے کا سلیقہ ہے اور بقول اقبال دین دنیا کے دروازے کی کنجی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا ہے:’’از کلیددین دردنیا کشاد‘‘۔

اسلام کا مطالبہ ہے کہ اسے قبول کرنا ہے تو پورے کاپورا قبول کرلو۔اسلام کے بعض حصوں کو قبول اور بعض کو رد کرنے کی کوئی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے ۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج  فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط (البقرہ ۲:۸۵) ’’توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں‘ ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟‘‘

حدود قوانین اور توہین رسالت ؐکے قانون کو مغربی اقوام کے دبائو کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر انھوں نے پسپائی اختیار کی اور اسلام کے راستے کو چھوڑکر اپنے نظام تعلیم اور تہذیب و ثقافت اور قوانین کو مغربی تہذیب کے رنگ میںرنگنے کے راستے پر چل پڑے تو وہ خود اپنے خلاف احتجاج اور ایجی ٹیشن کو دعوت دیں گے ۔

مغربی اقوام اور خصوصاً امریکا کا ایک مطالبہ دینی مدارس کے آزادانہ نظام کو ختم کرکے ان کو حکومتی کنٹرول میں دینا ہے ۔مغربی میڈیا میں دینی مدارس کے خلاف زبردست مہم چلائی جارہی ہے اور دینی مدارس کو دہشت گردی اور تشدد کا منبع قرار دیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی اور جہاد کو ہم معنی قرارد یا جارہا ہے اور اس بہانے قرآنی تعلیمات کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس کے لیے آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو حکومت بھی اس حد تک امریکا کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی اسے اپنی قوم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا کے دبائو کے تحت اس طرح کی پالیسی بنانے والی حکومت ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی خود ذمہ دار ہوگی اور امن و امان کی خرابی کے ساتھ اقتصادی ترقی کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ آج دنیا میں ہزاروں ارب ڈالر اس انتظار میں ہیں کہ انھیں کسی ترقی پذیر ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور سیاسی استحکام ملے تو یہ پورا سرمایہ وہاں منتقل کردیا جائے ۔ خود پاکستانی شہری اپنا سرمایہ اور اپنی مہارت (skill)اپنے ملک کی طرف اس وقت منتقل کریں گے جب ا ن کو یقین ہوگا کہ ملک سیاسی طور پر مستحکم ہے اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہے ۔ یہ حالات   اس وقت پیداہوسکتے ہیں جب حکومت اور عوام میں ہم آہنگی ہو اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو۔جو حکومت اپنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے پرتل جائے‘ وہ امن کی بجاے بد امنی کو دعوت دے گی ۔ چنانچہ وزیر ستان میں طاقت کے استعمال کانتیجہ حکومت نے دیکھ لیا ۔ اب پاکستانی فوج اپنے آپ کو خود اپنی قوم میں اجنبی محسوس کررہی ہے ۔ چھائونیوں کے گرد دیواروں کو اونچا کیا جا رہا ہے اور فوجی افسران حفاظتی دستوں کی نگرانی کے بغیر اپنے گھرسے باہر نہیں نکلتے ۔ پرویز مشرف صاحب جس راستے سے گزرتے ہیں‘ اس پورے راستے پر گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور عملاً کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ یہ سب عوام کی مرضی کے خلاف پالیسیاں بنانے کے شاخسانے ہیں۔ ان حالات میں ملک نہ اقتصادی طور پر ترقی کرسکتا ہے‘ نہ اس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ اس کی امن و امان کی صورت حال کو درست کیا جاسکتا ہے۔

بہتری کے لیے اقدامات

اب ہم اپنے سوالات کے اصل جواب کی طرف آتے ہیں۔ اگرپاکستان کی فوج‘ یہاں کے سیاست دان اور قومی دانش ور خلوصِ نیت کے ساتھ ملک و ملّت کو موجودہ گمبھیر صورت حال سے نکالنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات کے ذریعے قوم کی کشتی بھنور سے نکالی جاسکتی ہے:

۱-            پرویز مشرف صاحب چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑتے ہوئے اسے فوج کے کسی مستحق اور اہل جنرل کے سپردکردیں جو سیاسی عزائم کی بجاے قومی دفاع پر پوری توجہ مرتکز کردے‘ اور فوج کو ملک کی اندرونی صورت حال میں فریق بنانے کی بجاے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کردے ۔

۲-            نیوکلئیرپروگرام کی حفاظت اور اسے ترقی دینے کی پالیسی پر سختی سے پابندی کا اعلان کیاجائے۔

۳-            پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تسلیم کرکے اقتدار اس کی طرف منتقل کردیا جائے اور پارلیمنٹ سے بالا تر اداروں کا خاتمہ کرکے صدر اور سکیورٹی کونسل کے ادارے اور فوج سمیت تمام اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کردیا جائے ۔ اس بنیادی اصول کو قوم ‘ سیاست دان‘    حکومتی پارٹی اور اپوزیشن دل سے تسلیم کرلیں اور اس کا احترام کریں۔

۴-            پرویز مشرف صاحب اور حکمران پارٹی کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں جو ملک کے اسلامی نظریے کے منافی ہو‘ جس کو ملک کے عوام خوش دلی سے قبول کرنے سے انکار ی ہوں اور جو قومی پالیسی اور قومی امنگوں کے منافی ہو ۔

۵-            کشمیر کی قومی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے علاوہ کسی دوسرے حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔

۶-            فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اعلان و اقرارکیا جائے اور بیت المقدس سمیت فلسطین پر اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔

۷-            عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو ختم کرکے عراق اور افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کوبحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ کسی بھی صورت پاکستانی فوج یا نمایندے عراق نہ بھیجے جائیں۔

۸-            دینی مدارس میں ناجائز حکومتی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے اور امریکی دبائو کے تحت تعلیمی منہج کو تبدیل کرنے سے احترازکیاجائے۔

۹-            حدود قوانین اور توہین رسالتؐ کے قوانین کو چھیڑنے سے احترازکیا جائے۔

۱۰-         آیندہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپوزیشن کے مشورے سے عمل میں لائی جائے۔ جس الیکشن کمیشن پر اپوزیشن عدم اعتماد کا اظہار کرے‘ اسے تبدیل کردیا جائے تاکہ انتقال اقتدار عوام کی آزادمرضی سے عمل میں آئے اور عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا جائے ۔

اگر حکومت ان تجاویز پر خوش دلی سے عمل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو قدرتی طور پر اپوزیشن سے بھی مثبت رویے کی توقع کی جاسکتی ہے بلکہ وہ اقتصادی‘ اخلاقی اور سیاسی میدان میں ترقی کے کاموں میں حکومت سے تعاون کرے گی۔ اس صورت میں ملک و قوم کی کشتی نئے آنے والے طوفانی دور میں بحفاظت پار ہوسکتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کے راستے کھل سکتے ہیں ۔ ملک کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عافیت کا یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر قومی مفادپر مبنی اس پالیسی پر اتفاق ہوجائے تو ہم بھارت ‘اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ کے باوجود خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور قومی مصلحتوں کی حفاظت کی خاطر آزادخارجہ اور داخلہ پالیسیاں بناسکتے ہیں اور ملکی دفاع کی خاطر عوام ‘فوج اور حکومت کا مل اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔جمہوری طرز حکومت کا حسن یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قومی مفادکی خاطر اکٹھی ہوجاتی ہیں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا مل کر مقابلہ کرتی ہیں ۔


کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر پارٹی کا اصل ہدف اپنی قوم کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔قومی فلاح و بہبود کے لیے قومی سلامتی اولیں ضرورت ہے اور قومی سلامتی کی خاطر حکومت‘ فوج اور عوام میں ہم آہنگی ضروری ہے ۔ یہ ہم آہنگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ملک کے تمام ادارے صدق دل سے پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم ہمارا اسلامی نظریہ ہے ۔  قومی اسمبلی اور سینیٹ کے غیر مسلم ممبران سمیت ملک کے تمام اہم اداروں کے افراد پاکستان کے اسلامی نظریے کے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے ہیں ۔ دستور کی پابندی اور اس کی حفاظت کرنے کا حلف ہماری افواج کے سربراہان ‘ہمارے صدر‘ وزیراعظم اوراعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دستور کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں ہمارا سیاسی نظام کئی بار تلپٹ ہوچکا ہے ۔

ہماری افواج میں بھی اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے اپنی تاریخ اور اسلامی نظریے سے وابستگی‘ مضبوط اقتصادی ڈھانچا اور مضبوط اداروں کا قیام ضروری ہے ۔    یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم دستور کی پابندی کا عہد کریں جس کی بنیاد نظریہ اسلام ‘ جمہوریت ‘وفاقیت اور عدلیہ کی آزادی پر رکھی گئی ہے ۔

اس وقت پوری قوم میں اپنے مستقبل کے بارے میں جو فکرمندی پائی جاتی ہے‘ اس فکرمندی اور تشویش کو امید کی شمع روشن کرکے یقین محکم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔یاس اور حزن‘ مایوسی اور ناامیدی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ انسان کی قوت عمل کو مفلوج کردیتی ہے‘ جب کہ امیداور یقین مضمحل قوتوں میں بھی جان ڈال دیتی ہے ۔اس لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے: یسرواولا تعسروا بشروا ولاتنفروا’’آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں مت پیدا کرو‘خوشخبریاں سنائو اور لوگوں کو متنفرمت کرو‘‘۔

اللہ رب العالمین کا قرآن کریم میں تاکیداً حکم ہے:

لاتقنطوامن رحمۃ اللّٰہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ‘‘۔لاتیئسوامن روح اللّٰہ،’اللہ کے رحم سے ناامید نہ ہوں‘۔لاتخافواولاتحزنوا ،’نہ خوف کرو اور نہ غم کرو‘۔لاتخف،’ خوف مت کرو‘۔ لاتحزن، ’غم مت کرو‘۔

یہی تعلیم ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے دی ہے ۔ وہ امید کے شاعر تھے ۔ یاس اور حزن کوانھوں نے مثنوی اسرارخودی میں ام الخبائث قرار دیا ہے اور فرمایا ہے     ؎

نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

۱۱ جولائی کو علامہ یوسف قرضاوی کی دعوت پر لندن میں علما کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ۲۰۰ سے زائد علما نے اس میں شرکت کی ۔اکثریت عرب ممالک کی تھی۔ کانفرنس نے علما کے اتحاد کی ایک عالمی تنظیم بنائی ہے ‘ جودینی اور سیاسی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرے گی ۔ علامہ یوسف قرضاوی کو اس کا متفقہ طور پر صدر منتخب کیا گیا ۔ ایران کے آیت اللہ تسخیری‘عمان کے مفتی شیخ احمد الخلیلی اور الجزائر کے شیخ محمد بن بیہ نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔۲۰ افراد پر مشتمل ایک ’مجلس امنا‘ (Trustees Council)تشکیل دی گئی۔ اس میں پاکستان سے جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی صاحب کا نام شامل ہے ۔ ۳۰ افراد کی ایک نگران کونسل بھی تشکیل دی گئی جس میں پاکستان سے راقم الحروف کا نام شامل ہے ۔

علما کی یہ کانفرنس ان کوششوں کا حصہ ہے جو مسلمانوں کے اتحادکے لیے کی جا رہی ہیں ۔ اس وقت امت مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان کی طرف سے بولنے والااور ان کی نمایندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے ‘ جب کہ انھیں دہشت گردی اور تشدد کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ امت کو متحد کرنے کے لیے خلافت کااحیا ہی حقیقی راستہ ہے کیونکہ اسلام دین و دنیا یا دین و سیاست کی تفریق کو قبول نہیں کرتا‘ لیکن جب تک ایک ایسی مضبوط سیاسی اور دینی قوت ظاہر نہیں ہوتی جو مسلمانوں کو سیاسی اور دینی دونوں لحاظ سے متحد کرکے ان کی رہنمائی اور نمایندگی کا حق ادا کرسکے اورپوری امت کو ایک ہی سیاسی اور دینی قیادت کے گرد جمع کرسکے‘ اس وقت تک ترجمانی کے لیے کوئی فورم بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چنانچہ علما نے اپنے دائرہ کار میں متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تنظیم دنیا کو بتاسکتی ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔اس سلسلے میں بلاشبہہ پاکستان سے متحدہ مجلس عمل کو پہل کرنے کی فضیلت حاصل ہے۔

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

پاکستان کے مستقبل کا منظر اس وقت دھندلا گیا جب ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک رات جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر بش کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان‘ انٹیلی جنس‘ لاجسٹک سپورٹ اور فضائی حدود کے آزادانہ استعمال کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس طرح امریکا کا فرنٹ لائن حلیف بننے کا اعلان کر دیا اور اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح انھوں نے پاکستان کو بچالیا اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ اگر کل کشمیر کے مجاہدین کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسی طرح کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ہمارا خون ہے۔ ہم کسی طرح بھی کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے‘‘۔ لیکن جو یوٹرن (u-turn) افغانستان پر امریکی حملے کے وقت لیا گیا تھا‘ اس کے نتیجے کے طور پر حکومت پاکستان کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بھی بالآخر’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اب عملاً حکومت کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس یوٹرن یا قلابازی کے نتیجے ہی میں اب حکومت پاکستان نے اپنے سائنس دانوں کی تذلیل کی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کے ’’بہترین مفاد‘‘ اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے پارلیمنٹ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے چار خطرات کی نشان دہی کی تھی:

                ۱-            پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مزاحمت کرنے والوں یا القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے۔

                ۲-            پاکستان ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے۔

                ۳-            پاکستان‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی کا مرتکب ہے۔

                ۴-            پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند مذہبی معاشرہ ہے۔

جنرل پرویز مشرف اپنی پالیسیوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی فوجوں کا حلیف اور پشتی بان ہے‘ اور یہ باور کرانے کے لیے وہ ان تمام عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے جن پر افغانستان میں مزاحمت کی حمایت کا الزام ہے۔ ان میں وزیرستان اور مہمند کے قبائل اور پاکستان میں واقع دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف صاحب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے محض ایک مبہم الزام کو  رفع کرنے کی خاطر پاکستان کی فوج کو مغربی سرحد پر آباد قبائل اور پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام سے لڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکا کا الزام تو رفع نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے اندر انتشار پھیل جائے گا اور فوج اپنے فطری حلیفوں کی حریف بن جائے گی۔ یہ دشمن کا کھیل ہے جو پاکستان کی فوج کو عوام‘ قبائل اور دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کر کے اس کے عزم و حوصلے اور مورال کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو امریکی‘ برطانوی جاسوسی اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی (IAEA) نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ لیبیا‘ ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی امریکا نے الزام لگایا تھا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگان کے حملوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ لیکن عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود آج تک عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں یا ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت اس وقت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے ‘اور برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں تو وہ عراق پر حملے کی حمایت نہ کرتے۔ خود صدر بش کو اس سلسلے میں غلط بیانی کرنے اور قوم اور کانگریس کو گمراہ کرنے کے الزام سے سابقہ درپیش ہے۔

جارحانہ عزائم رکھنے والی استعماری طاقتیں کمزور اقوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہمیشہ اُلٹے سیدھے بہانے تراشتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران‘ بالخصوص پرویزمشرف صاحب‘ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کو حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی بجاے چند سائنس دانوں کی ذاتی حرص کا نتیجہ قرار دے کر بین الاقوامی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسی کے نتیجے میں خود پاکستان کے انگریزی پریس میں افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ سائنس دانوں کے لیے تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں تھا‘ اور اگر محض سائنس دانوں نے یہ کام کیا ہے تو یہ پاکستان اور اس کے سلامتی کے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس بنیاد پر خود پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹمی ٹکنالوجی جیسے حساس اداروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا نے اسے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے نیوکلیئر کلب کا ممبرنہیں بنائے گا۔ اسرائیل اور بھارت کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کو امریکا نے اپنی حکمت عملیوں کا حلیف  (strategic partner)قرار دیا ہے اور وہ اسے چین کی طاقت کو روکنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی ہتھیار خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اور بھارت کے مقابلے کے لیے اگر اس کے پاس یہ دفاعی ہتھیار موجود نہ ہو تو طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور جنوبی ایشیا کا امن برقرار نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ یہ اسرائیل کے سر پر منڈلانے والا ایک مستقل خطرہ ہے۔ کولن پاول نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کے خطرات سے آزاد اور بے فکر کرنے کا پابند ہے۔

پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوری دنیا کے سامنے ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے ’’جرم‘‘ کا ’’اعتراف‘‘ کروا کر خود پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ امریکا کو جب بھی افغانستان سے فراغت ملے گی اور اسے پاکستان کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی‘ تو وہ اسی شہادت کو بنیاد بنائے گا اورپاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں فریق ٹھیرا کر اسی بنیاد پر پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہم امریکا کے حلیف رہیںگے؟ کیا ہم امریکا کے اس طرح کے مطالبے کے سامنے بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا جواز پیش کر کے سرتسلیم خم کر دیں گے؟ اس وقت حکمرانوں سے فوری طور پر اس بنیادی سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوال کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سوال ایک عملی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کیا ہم امریکا‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے واقعی بے بس ہیں؟ یا ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی متبادل راستہ سوچ رکھا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کشمیر اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر طاقت کے طور پر پاکستان کو اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ سائنس دانوں کی تذلیل کرکے ہم نے اختیار کیا ہے‘ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا راستہ نہیں ہے بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا راستہ ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی نکتے کے طور پر لیا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہونے میں یہی سدراہ ہے۔ دوسرے نکات میں سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک‘ تجارتی تعلقات کی بحالی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ شامل ہے۔ سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک ’دریائوں کا مسئلہ‘ سب مسئلۂ کشمیر کے شاخسانے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا قومی موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے‘ جب کہ بھارت مصر ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اب تک کا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارتی وفود آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ پاکستانی وفد نے تو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پوری تیاری کر کے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کی ہیں‘ لیکن بھارتی وفود نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف ہی کو دہرایا ہے۔

جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس‘ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ اور حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر ’’جمود ٹوٹنے‘‘ کی جو فضا پیدا کی ہے‘ بظاہر اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آئے۔ حکومت پاکستان نے اپوزیشن کو اپنی خوش فہمی کی وجوہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کا انکار ہے۔ اگر بین الاقوامی دبائو کے تحت اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کر کے باہمی اعتماد بحال کرنے کے بہانے دوسرے امور کو اولیت دی جائے گی تو اسے قومی مفادات اور مصلحتوں کے خلاف اور کشمیریوںسے بے وفائی قرار دیا جائے گا۔ جب تک کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک مظفرآباد‘ سری نگر روڈ کھولنا اور اس پر بس چلانا کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنا ہے‘ اور کشمیر کے مستقل تقسیم اور  مسلم اکثریت کے ایک بڑے اور خوب صورت علاقے اور پورے پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا یہ ’’حل‘‘ نہ کشمیریوں کو قبول ہے‘ نہ پاکستانیوں کو‘ اور نہ اس طرح مسئلہ حل ہی ہوسکے گا۔ نہ امن قائم ہوگا‘ نہ تعلقات بحال ہوں گے‘ البتہ حکومت پاکستان ایک بار پھر اپنی کوتاہ اندیشی‘ بے ہمتی اور بودے پن کا ثبوت فراہم کرے گی۔ یہ امریکا کے اور بھارت کے سامنے بھی اپنی بے بسی کا مظاہرہ ہوگا اور اس کے بعد پاکستانی فوج اپنے موجودہ حجم کا جواز ہی کھو دے گی۔

ہمیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ’’پاکستان انتہاپسند مذہبی معاشرہ نہیں ہے‘‘ پرویز مشرف حکومت کہیں پاکستان کے بنیادی نظریہ اسلام ہی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ حال ہی میں انھوں نے حدود قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پر اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے مقام کے حوالے سے جو کمیشن بنا ہے ‘اس میں ایسے لوگوںکو شامل کیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی      ترقی پسندی اور ماڈرن ازم کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ میں ۲۰ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی ہیں اور ہماری دیہی کونسلوں میں بھی خواتین کی نمایندگی کو لازمی قرار دیا ہے۔

اسی طرح اقلیتوں کو نہ صرف مخلوط انتخاب کے ذریعے عمومی نمایندوں کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ ساتھ ہی دہری نمایندگی کے طور پر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ یہ عمل خود مغرب کے مسلمہ معروف جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک (امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ) میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ امریکا میں تقریباً ۷۰لاکھ مسلمان بستے ہیں لیکن ان کی کانگریس میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۶ فی صد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان موجود نہیں ہے‘ جب کہ پاکستان میں ۳فی صد اقلیتوں میں سے ہر ایک اقلیت کو قومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جداگانہ طرزانتخاب کو منسوخ کرکے مخلوط طرزانتخاب بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی طور پر مغرب میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا واویلا کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے لیے قرآنی حدود کے قوانین اور توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا جھوٹا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔

پرویز مشرف صاحب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اعتدال پسند ہے۔ دراصل مغربی میڈیا نے بدنیتی کی بنا پرحقائق کو نظرانداز کرکے  یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم انتہاپسند ہیں (اسلام کا تو بنیادی مزاج ہی اعتدال و توازن کا ہے)۔

ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں نے غلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ بات شاید اس لیے کہی تھی کہ غلام خود تو فکروعمل کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ اس لیے اب یہ آزاد لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلاموں کے لیے سوچیںاور منصوبہ بندی کریں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ‘ آزاد لوگوں کی یہ ذمہ داری‘ سفیدفام لوگوں کی ذمہ دار بن گئی اور اب نئے عالمی نظام کے تحت یہ      ’’ذمہ داری‘‘ امریکا کو منتقل ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے مسلمان ممالک کے حکمران امریکی آقائوں کے اشاروں پر چلتے ہیں کہ اس طرح انھیں مزید برسرِاقتدار رہنے اور اپنی قوموں کا استحصال کرنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے گی۔

امریکا کی علانیہ پالیسی ہے کہ اسے کسی ملک میں مداخلت کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ وہ کسی ملک سے بزعم خویش کوئی خطرہ محسوس کرے تواس خطرے سے محفوظ ہونے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ (pre-emptive strike) کرسکتا ہے‘ اور اس طرح کرنے کے لیے اسے اقوامِ متحدہ یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سرکش ریاست (rougue state)کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ ہرطرح کے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق آج صرف امریکا ہی ایک حقیقی سرکش ریاست ہے۔ افغانستان اور عراق پر جارحانہ قبضہ کرنے کے بعد اب اس نے ایران کو بھی مارچ کے آخر تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کلیتاً ختم کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس ایٹمی ایندھن بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ نہ صرف اس صلاحیت کو برقرار رکھے گا بلکہ بین الاقوامی منڈی میں ایٹمی ایندھن کو فروخت بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران کے لیے ایک اعزاز اور باعث افتخار ہے اور کوئی بھی ملک اپنے اعزاز اور اپنے مفاد اور مصلحت سے دستبردار نہیں ہوتا۔

ایرانی وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد ہمارے سامنے مستقبل کا خطرناک نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے قبل ایران میں مداخلت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان کی طرح اپنے اس مسلمان پڑوسی کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ (اور پھر اپنی باری کا انتظار کرے گا) ‘یا آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر باہمی دفاع کا کوئی اہتمام کرے گا؟ امریکا نے چین پر بھی ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا الزام عائد کرکے پاکستان‘ ایران اور چین میں تعاون کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔

بڑھتے ہوئے امریکی استعمار سے انسانیت کو بچانے کے لیے تیاری کرنے اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نئے راستوں کی تلاش‘ ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مفاہمت کی دعوت دے اور انتقامی رویے چھوڑ کر (تمام سیاسی رہنمائوں سمیت) وسیع ترمشاورت کا اہتمام کرے‘ تاکہ باہمی اعتماد و مفاہمت کے ذریعے بڑے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر سوچی جا سکیں۔


سترھویں ترمیمی بل کے پاس ہونے پر یہ پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا ہوگیا ہے اور مجلس عمل نے وردی میں صدر کو قبول کرکے فوجی مداخلت کو آئینی جواز فراہم کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجلس عمل نے سترھواں ترمیمی بل پاس کیا ہے‘ ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کا ابتدا سے یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے‘ اس لیے انھوں نے ایل ایف او کی صورت میں آئین میں جو ترامیم کی ہیں‘ وہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے انھیں منظور کرانا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ان کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ صرف وہی ترامیم آئین کا حصہ متصور ہوں گی جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائیں گی۔ وزیراعظم ہائوس میں تمام پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں (جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بشمول اے آرڈی بھی شریک تھے) ایل ایف او کے سات متنازعہ نکات کی نشان دہی کی گئی:

                ۱-            ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔

                ۲-            ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا انتخاب آئینی نہیں ہے۔

                ۳-            آئینی دفعات کو معطل کرکے ایل ایف او کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے عہدے کو یکجا کرنے کی گنجایش نکالی گئی ہے۔ یہ غیر آئینی بات ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات کا بحال ہونا آئین کی بحالی کا لازمی تقاضا ہے۔

                ۴-            ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع ناقابلِ قبول ہے۔

                ۵-            بلدیاتی انتخاب اور پولیس آرڈر ۲۰۰۲ء صوبائی دائرہ کار ہے‘ اسے واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔

                ۶-            قومی سلامتی کونسل کے ادارے کو آئین سے نکال دیا جائے۔

                ۷-            ۵۸-۲‘بی کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیرمشروط اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

تقریباً چار ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ ان مذاکرات میں آخری دو تین نشستوں کے علاوہ اے آر ڈی کی جماعتوں نے بھی پوری دل چسپی سے حصہ لیا اور جو سمجھوتہ ہوا ہے‘ بڑی حد تک ان کے مندوبین کو بھی اس سے اتفاق تھا۔ ہم نے اپنے سمجھوتے کے نکات کسی مرحلے پر بھی چھپاکر نہیں رکھے اور مذاکرات کی نشستوں کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے تمام ممبران کو باقاعدہ باخبر کرتے رہے اور پریس کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کرتے رہے۔

چنانچہ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہم نے بڑی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوالیا ہے اور اس سال کے آخر تک جب جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف نہیںرہیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں باقی نہیں رہا۔ کچھ لوگ یہ شبہہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف آئینی تقاضے کو پورا نہیں کریں گے اور آئین کو نظرانداز کرکے دونوں عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے‘ لیکن اگر پرویز مشرف یہ کرنے کی    کوشش کریں گے‘ تو یہ ایک نیا مارشل لا ہوگا اور نئے مارشل لا کی صورت میں پرویز مشرف کو   خود دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ فوج پہلے ہی کافی بدنام ہوچکی ہے‘ اور ماضی میں فوج کی مداخلت اس مرحلے پر ہوئی ہے جب سیاست دان اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور لوگ خود فوج کی مداخلت کا مطالبہ کرنے لگے۔

اس وقت صورت حال برعکس ہے۔ فوج کی مداخلت سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور ان کی واپسی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ یہ بات لوگوں کے سامنے کھل کر آرہی ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی پر رائے کے لحاظ سے ملک میں اصل حزبِ اختلاف متحدہ مجلس عمل ہی ہے جس کا اختلاف‘ نہ ذاتیات پر مبنی ہے‘ نہ اقتدار کے حصول تک محدود ہے ‘اور نہ کسی کی جلاوطنی یا عدالتی مقدمات کی بناپر ہی ہے بلکہ اصولی طور پر حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوںسے بنیادی اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ اختلاف رفتہ رفتہ لوگوں پر واضح ہو رہا ہے اور مخالفانہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔

بِسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

صدر مجلس‘معزز مہمانان گرامی‘ اورخواتین و حضرات!

سب سے پہلے میں قطرکے امیرشیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کا یو ایس اسلامک ورلڈ فورم کے انعقاد اور عالم اسلام اور امریکہ کی ممتاز شخصیات کے اس باوقار اجتماع سے خطاب کا موقع فراہم کرنے پر شکر گزار ہوں۔ امریکہ اورمسلم معاشروںکے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جواب تلاش کرنا واقعی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بروکنگز کے سبان سنٹر کا یہ     نیا اقدام امریکہ کے اسکالرز اور پالیسی سازوں کے اس احساس کا غماز ہے کہ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات ضروری ہیں‘ اور ایک ارب ۴۰ کروڑ مسلمانوں اور دنیا کی بڑی طاقت کے درمیان    ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال غیرضروری ہے۔ میرے خیال میں اس سال کا اس سے اچھا آغازاور نہیں ہو سکتا کہ اقوامِ متحدہ اسے تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے مختص کردے۔

سامعین کرام! ہم مانتے ہیں کہ امریکہ آج کرہ ارض پر سب سے زیادہ بااثر اور باوسائل قوت ہے اور سردجنگ کے خاتمے کے بعد سے واحد عالمی قوت بن گیا ہے۔ اس کی عسکری طاقت سارے کرئہ ارض پر محیط ہے اور آگ برسانے کی وہ طاقت اس نے حاصل کرلی ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ قریباً ۵ کھرب ڈالر دفاع اور سیکورٹی پر خرچ کرتا ہے جو ساری دنیا کے دفاعی اخراجات کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا پر اس کا معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی اثر چھایا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے خطے میں امریکی پالیسیوں اور منصوبوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کو بھی ایک قوت سمجھنا چاہیے۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں ہونی چاہیے کہ مسلمان انسانی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں جو ۵۶ آزاد ممالک میں اکثریت اور بشمول امریکہ باقی دنیا میں ایک نمایاں اقلیت ہیں۔ عالمِ اسلام کو بڑی اسٹرے ٹیجک‘ سیاسی اور اقتصادی اہمیت حاصل ہے۔ حکومتوں اور داخلہ و خارجہ روابط کی ناکامی کے باوجود  مسلم عوام پُرعزم ہیں اور ہر اس کوشش کی مزاحمت کرتے ہیں جو ان کی آزادی و خودمختاری اور دینی معاملات میں مداخلت کرے۔

اسی تناظر میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ ہماری رائے ہے کہ ان تعلقات کو باہمی احترام‘ مکالمے‘ افہام و تفہیم اور عدل‘ کثیرجہتی اور بقاے باہمی پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی بنیاد بننا چاہیے۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالمِ اسلام اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ زیادہ دوستانہ نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات اور انھیں پروان چڑھانے کے اسباب کا غیرجانب دارانہ تجزیہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں طرف بہت سی غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں لیکن میری نگاہ میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات میں سب سے اہم عامل ان  اعلیٰ اخلاقی اقدار جن کا امریکہ علمبردار ہے اور عالمِ اسلام سے تعلقات میں امریکی حکومتوں کے طرزِعمل میں پایا جانے والا تضاد ہے۔ جب ہم امریکہ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں      عالمِ اسلام میں شخصی حکومتوں کی امریکی تائید‘ یک طرفہ پابندیاں‘ تجارتی بندشیں‘ اسٹرے ٹیجک دفاعی تنصیبات کے معائنے اور علاقائی تصادموں میں مخالفانہ رویہ عام نظرآتے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کی پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے آزاد ممالک کو اپنے ایجنڈے پر راضی کرنا بھی ہمارے تعلقات میں ناراضی اور نفرت پیدا کرتا ہے۔      خارجہ پالیسی کے یہ تمام حربے دو آزاد اور خودمختار مسلم ممالک افغانستان اور عراق پر حالیہ    کھلے حملے اور قبضے کے لیے استعمال کیے گئے۔

معزز سامعین!

یہ بہت اہم ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز سمجھیں کہ امریکہ کو باقی دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے۔ امریکہ کے استعماری خواب یا کردار کو فروغ دینے والی پالیسیاں   راے عامہ کے لیے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہیں اور یہ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اکیسویں صدی میں اجارہ داری‘ استبداد اور تسلط کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تنہا طاقت‘ پیشگی حملے‘ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جیسے گوانٹانامو جزیرے میں یا امریکی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہیں‘ اقوامِ متحدہ کو خاطر میں نہ لانا یااس کی قراردادوں کو نظرانداز نہ کرنا‘ نائن الیون کے بعد سے طاقت کے استعمال پر فریفتگی وہ فعل ہیں جو عالمی رائے‘ وژن اور اقدار کے خلاف ہیں۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری مہذب دنیا حتیٰ کہ امریکہ کے بانی سب اس کے خلاف ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی‘ جمہوریت اور فرد کی بہبود سارے بنی نوع انسان کی مشترکہ اقدار ہیں۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کے اقدامات‘ سیکورٹی اور انسانی بھلائی مشترکہ مقاصد ہیں لیکن یہ اعلیٰ اقدار اس وقت اپنا مفہوم کھوبیٹھتی ہیں جب انھیں حملوں اور کمزور قوموں کے وسائل‘ طرزِ زندگی اور اقدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔     گذشتہ دو برس سے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے‘ اس نے عالمِ اسلام میں بڑے پیمانے پر بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر اور چیچنیا کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو جس طرح دہشت گرد تحریکیں کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے‘ اس سے امریکی پالیسیوں کے دوہرے معیار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ جب ہم مسلمان عورتوں اور بچوں کو فلسطین‘ کشمیر‘چیچنیا‘ عراق اور افغانستان میں اپنے ہی گھروں کے ملبے پر بیٹھے روتے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پر دہشت گردی کا الزام کیسے لگ سکتا ہے۔

معزز سامعین!

ہم اُمت مسلمہ کے نمایندوں کی حیثیت سے عالمی لیڈروں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم امن‘ خوش حالی اور سارے بنی نوع انسان کی آزادی کے لیے فکرمند ہیں۔ ہم سارے انسانوں کو ایک برادری سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

کسی عربی کو غیر عربی (عجمی) پر یا غیر عربی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر‘ یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم سب آدم ؑکی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔

ہم عالم گیر انسانی برادری پر یقین رکھتے ہیں اور اسلا م کو ماننے والوں پر اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانیت کی خدمت فرض ہے۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النسائ۴:۱۳۵) ’

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَیَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا‘ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

اب یہ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اپنے اِن عظیم رہنمائوں کی اقدار کی طرف پلٹناچاہیے: جیفرسن آزادی و جمہوریت کا علم بردار تھا جسے بیسویں صدی کے حریت پسندوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں پسندکیا‘ ولسن کے اصولوں میں حق خودارادیت ناقابلِ انکار حق قرار دیا گیا ہے‘ فرینکلن روز ویلٹ کی تیسری دنیا میں استعمار مخالف جدوجہد کی تائید نے مظلوم اقوام کو جذبہ دیا ہے --- یا امریکہ اخلاقی ساکھ سے محروم وحشیانہ قوت پر انحصار کی موجودہ روش جاری رکھ سکتا ہے جو امریکہ کو اس کے اپنے دوستوں اور یورپ کے اتحادیوں میں بھی تنہا کرسکتی ہے‘ مسلم دنیا کو ایک طرف چھوڑ دیجیے۔

اہل علم اور دانش ور حضرات سے میری اپیل ہے کہ تاریخ کے اس نازک دور میں ان مسائل پر اخلاقی و اصولی موقف اپنائیں اور امریکی پالیسی کو مثبت سمت کی طرف لے جانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ یہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ ایسے ذہین لوگوں نے کچھ کام نہ کیا‘ یا وہ ناکام ہوئے کیونکہ ان میں سچ کہنے‘ عدل قائم کرنے اور امریکہ کی جنگ آزادی کے بنیادی اصولوں کو فروغ دینے کی اخلاقی جرأت نہ تھی۔

خواتین و حضرات! میں یہ اہم موقع فراہم کرنے پر ایک بار پھرآپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں ایسے انسان پیدا کرتا ہے‘ جو حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی‘ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور انھیں گمراہی اور انحراف سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشیت ِ حق سے اُمت مسلمہ میں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی  ؒکے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا ہے:

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

مولانا مودودیؒ نے بھی عہدحاضرمیں اُمت کی بیداری اور دین کی طرف اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ وہ قرآن و سنت اور علومِ اسلامیہ کے دیگر سرچشموں سے علم وعرفان کا نور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وفلسفے کی تہہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ انھوں نے تجزیے اور دلیل کا راستہ اختیار کیا‘ عصرِحاضر کے علم کلام سے استفادہ کیا اور اسے اسلامی علم کلام کے سانچے میں ڈھال کر اظہار و بیان کا منفرد اسلوب اختیار کیا۔ ان پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو پہلے صاف اور عام فہم سوال میں خود ڈھالتے تھے‘ پھر اس کا تجزیہ کرکے بالکل آسان پیرایے میں‘ بنیادی اہمیت کے معاملات کو کھول کھول کر بیان کر دیتے تھے۔ اسلامی نظامِ زندگی خلافتِ راشدہؓ کے بعد رفتہ رفتہ گردش لیل و نہار اور حاشیہ در حاشیہ کتابوں کے انبار میں نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ تاہم‘ مولانا مودودیؒ نے اسلامی نظام زندگی کو انسانی ہدایت کے ایک واضح لائحہ عمل کے طور پر متعارف کروایا۔

مسلمانوں کے ہاں مغربی تہذیب کی حاکمانہ برتری نے عوام و خواص کے ذہنوں کو زبردست قسم کی ذہنی غلامی سے دوچار کر دیا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جدید اسلوب اور نہایت مؤثرانداز میں تنقیحات کے مضامین کے ذریعے اس تہذیب کے فکری تار و پود بکھیر دیے۔ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو ایمان سے سرشار اور عقلی و علمی دلائل سے مسلح کیا۔ مزید یہ کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات‘ یکساں طور پر ایک فاضل اور ایک عام فرد کے ذہن نشین کرا دیں۔

خطبات اور دینیات بنیادی طور پر عام فرد کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں اور دعوتِ حق اور بلکہ فہم دین کے لیے یہ نہایت درجہ بنیادی اور سب سے زیادہ قیمتی کتب ہیں۔ یہ وہ کتب ہیں‘ جو فرد کا رشتہ خالق ارض و سما سے جوڑتی ہیں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا درس دیتی ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی شک و شبہے سے بالاتر طمانیت قلب والا تعلق جڑ جائے تو پھر زندگی کے آیندہ مراحل اس سعادت و رحمت کے راستے پر ہی گزرتے ہیں۔ ان کتب کے بعد میں اسلامی عبادات پر تحقیقی نظرکو مطالعے کا نہایت اہم جز سمجھتا ہوں۔

مولانا مودودی کے لٹریچر میں اس کے بعد جس خطبے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو بے شمار کتابوں پر بھاری ہے‘ اس کا نام اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ مولانا مودودی نے یہ تقریر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے فرمائی تھی۔ عصرِحاضر کے اسلامی لٹریچر کو اس تقریر نے اپنی گرفت میں لے کر ایک منزل کا سراغ دیا۔ افغانستان کے عظیم انقلابی اور دانش ور منہاج الدین ’گہیز‘ شہید ]م: ۱۹۷۲ئ[ نے مجھے بتایا کہ : ’’اس تقریر (فارسی ترجمہ: برنامہ انقلاب اسلامی) نے میرے ذہن کے تمام دریچے کھول دیے ہیں اور میرے تمام اشکالات کا جواب دے دیا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ منہاج الدین گہیزؒپہلے ایک قوم پرست رہنما تھے‘ اور اس کتاب کے مطالعے کے بعد اسلام کے داعی بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ مولانا مودودی کی یہ مختصر تحریریں انسانوں کی زندگیاں بدل دینے کا ذریعہ بنیں۔ اسی طرح مولانا کی تقریر  شہادتِ حق نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو اللہ کی راہ پر لگا دیا۔

مولانا مودودی پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل تھا کہ اُن کے ذہن میں اسلامی نظام کا خاکہ اور نقشۂ کار ایک ترتیب سے ‘ دواور دو چار کی طرح واضح تھا ۔ وہ اس معاملے میں بڑے یکسو تھے کہ ایک معاشرے کو اسلامی معاشرے میں کیسے ڈھالا جائے؟ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ اس کا    عملی ڈھانچا کیا ہے؟ اور کن چیزوں کو کس ترتیب سے لانا چاہیے؟ انھوں نے اسی ترتیب سے    یہ سبق لوگوں کو ذہن نشین کرا دیا۔

اسی دور میں امام حسن البنا شہید نے مصر میں ایک دوسرے انداز میں کام شروع کیا۔ بعدازاں ان کے ایک حلقہ بگوش سید قطبؒ کی بلندپایہ علمی تحریروں نے نوجوان نسل کو بڑی کثرت سے اسلام کے انقلابی پہلو کی طرف متوجہ کیا۔ ترکی میں بدیع الزماں سعید نورسی مرحوم نے دعوت‘ تربیت اور مزاحمت کی ایک منفرد تحریک برپا کی۔ ہمارے یہاں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کے ہاں حزب اللہ اور نظم اسلامی جماعت کا تصور‘ مولانا مودودی کے تصورِ جماعت اسلامی سے ملتا جلتا ہے اور پھر علامہ اقبال کے پورے کلام میں بھی اُمت مسلمہ کو نہایت دل نشین انداز میں قرآن و سنت ہی کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔

اسلام میں رہبانیت کی گنجایش نہیں ہے‘ بلکہ اسلام ایک نظام زندگی کے طور پر‘ دعوت‘ عدل اور قوت کے ساتھ اُبھرتا نظر آتا ہے۔ اس تصورکے حوالے سے علامہ اقبال کی اسرارخودی اور  رموز بے خودی میرے نزدیک مرکزی شان کی حامل ہیں۔ اسرارِخودی میں ایک مسلمان فرد کے کردار کے بنیادی عناصر اور اس کے تقاضے بتائے گئے ہیں‘ جب کہ رموز بے خودی میں علامہ اقبال نے واضح کیا ہے کہ اس کردار کے لوگوں کو ایک اسلامی قوم میں کن اصولوں کے ذریعے ڈھالا جاتا ہے۔ اس پیغام کو انھوں نے اپنی معروف نظم ’ترانہ ملی‘ میں جس عمدہ اور پُرتاثیر پیرایے میں پیش کیا ہے‘ وہ پڑھنے اور درس لینے سے تعلق رکھتا ہے     ؎

چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

علامہ اقبال شعرکی زبان میں بات کرتے تھے‘ اس لیے کلام اقبال سے اسلامی نظام زندگی کی دعوت سامنے آنے کے باوجود عملی اور منطقی انداز سے ذہن نشین نہیں ہو سکتا تھا۔ شعرکا تاثر فرد کو سوچنے پر اُبھارتا‘ شعر کا مضمون اور آہنگ طبیعت میں وجد لاتا ہے۔ اسلام کے نظام حیات کے تصور کو اقبال نے خواب سے بڑھ کر جذبے میں ڈھالا‘ جب کہ مولانا مودودی نے ترتیب کے ساتھ ایک مربوط تحریر اور ایک نکھرے پروگرام میں اسے مدلل انداز میں بیان کر دیا۔

علامہ اقبال نے اپنے قارئین کے ذہنوں میں ایک بیداری پیدا کی جس کے بعد ان بیدار ضمیر لوگوں کو ایک اجتماعیت کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو مولانا مودودی نے پورا کیا۔ انھوں نے بتایا: منتشر نیکی اور اعلیٰ جذبے کو جب تک اجتماعی طاقت میں نہیں بدلا جاتا‘ وہ جذبہ اور نیکی محض ایک اعلیٰ قدر تو ہوسکتی ہے‘ مگر مثبت قوت نہیں قرار دی جا سکتی۔ اس کے مقابلے میں ابلیسی طاقت منظم بھی ہے اور موثر بھی۔ اس کی پشت پر افراد‘ اداروں اور ریاستوں کی طاقت ہے۔ مولانا مودودی نے خدا سے غافل اور ظلم پر مبنی اس جاہلیت کا جواب دینے کے لیے واضح مقصد اور شفاف طریق کار پر مشتمل ایک تحریک برپا کی۔ یہ کام انھوں نے محض تحریریں لکھ دینے کی حد تک نہیں کیا‘ بلکہ انھوں نے قرآنی حکم کے تحت اسے بنیان مرصوص بنانے کے لیے ایک ایک تنکا اکٹھا کر کے آشیانہ بنایا۔ ایک ایک فرد کو مجتمع کر کے قافلہ ترتیب دیا۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ایک حکم کے سائے میں مطلوب اور معتدل نظامِ فکر پیش کیا۔ میں اس کارنامہ عظیم کا کسی بزرگ ہستی سے کوئی موازنہ کیے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ عصرحاضر میں یہ کاوش‘ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان ہے جس کے لیے اُس نے اپنے بندے سیدابوالاعلیٰ مودودی کو خدمت کے لیے چنا ۔

جیسا کہ پہلے کہا گیاہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اسلامی نظم جماعت کا تصور پیش فرمایا‘ لیکن بہت جلد وہ خود ایک سیکولر نظم جماعت کا حصہ بن گئے۔ اس اقدام کو مولانا مودودی نے ایک المیہ قرار دیا اور فرمایا کہ: مولانا ابوالکلام آزادؒ اس اُمت کے فکری اور عملی دکھوں کا علاج کرنے کے لیے ایک معالج کے طور پر آئے‘ لیکن کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے مایوس ہوکر اس مریض کو لاعلاج قرار دے کر چھوڑ دیا۔ مگر میں تو اس مریض کا معالج نہیں بلکہ تیماردار ہوں۔ معالج چھوڑنا چاہے تو چھوڑ دے‘ لیکن تیماردار اپنے مریض کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ مولانا مودودیؒ کے اس قول میں کوئی دعویٰ ،تعلّی اور فخر کی بات نہیں ہے‘ بلکہ دل سوزی‘ ہمدردی اور ذمہ داری کی دعوت ہے۔

گذشتہ صدی کے آغاز میں مسلم اُمہ کس حال میں تھی‘ اس کا تذکرہ اگر بچشم تر پڑھنا ہو   تو خواجہ الطاف حسین خالی مرحوم کی مسّدس پڑھیں تواُمت کی حالت ِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  مسّدسمیں تفصیل کے ساتھ مسلم اُمہ کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے بالکل ہی متصل علامہ اقبال ایک مجاہدانہ لہجے میں کہتے ہیں    ؎

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہوگا

اقبال نے روتے ہوئے لوگوں کے آنسو پونچھے اور انھیں حوصلہ دے کر کھڑا کیا۔ ان ہمت شکن حالات میں کھنڈرات پر کھڑے ہو کر مولانا مودودی نے اُمید کا دامن پکڑا اور ملبے کے ڈھیر سے اینٹیں چن چن کر عمارت کی تعمیر شروع کی‘ اور نظم جماعت قائم کیا۔ بلند ہمتی کے ذریعے اگلے سو سال کا صاف سیدھا نقشہ بنا کر پیش کر دیا۔ یاد رہے کہ لمبے عرصے کا منصوبہ بنانا اور صبروہمت سے منصوبے کے خدوخال واضح کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مستقبل بینی اور مستقبل کی منصوبہ سازی کا کوئی رواج نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ’’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر‘‘ ہی نہیں دکھاتا‘ بلکہ پورا اور ایک واضح منظر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے‘ اور مولانا مودودی اس منظر تک پہنچنے کے لیے راستے کی مشکلات و مصائب سے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ انھیں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا لائحہ عمل بھی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے عصرِحاضر میں احیاے اسلام کی تحریک کے یہ دونوں بڑے نام یعنی علامہ اقبال اور مولانا مودودی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُمت کو پکارتے ہیں۔ اگر کوئی کھلی آنکھوں کے ساتھ علامہ اقبال کے شعری کلیات اور مولانا مودودی کی کتب کو بغور پڑھ لے تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ ان کی پکار ایمان اور عمل کی پکار ہے‘ جہاد اور اجتہاد کی پکار ہے‘ ایثار اور اقدام کی پکار ہے‘ عدل اور امن کی پکار ہے‘ اُمت اور اتحاد اُمت کی پکار ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے گہرے غوروفکر سے کام لیا اور بہت سے اصحاب سے یہ مشاورت کی کہ آیا جماعت بنائی بھی جائے یا نہیں؟ پھر جب جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا توآپ نے جماعت اس لیے بنائی کہ:’’منظم شر کا مقابلہ منظم نیکی ہی کر سکتی ہے‘‘۔ آپ نے صاف طور پر کہا: ہماری دعوت‘ دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اسوہ حسنہ کی طرف دعوت ہے۔ ہماری دعوت اپنے بانی یا جماعت کی طرف نہیں‘ مقصد کی طرف ہے۔ جماعت صرف ایک ذریعہ ہے‘ مقصد نہیں ہے۔ مقصد قرآن کریم سے لیا گیا ہے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے۔ طریق کار سنت سے لیا گیا ہے کہ وہی آئیڈیل ہے اور وہی معیارِ حق ہے۔

مولانا مودودی نے جماعت کو کوئی فرقہ‘ گروہ یا مسلک نہیں بننے دیا‘بلکہ تمام مسلمہ مکاتب فکر کے افراد کو دعوت دی کہ وہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں۔ پاکستان بنانے اور پاکستان کا دفاع کرنے کے لیے اگر تمام مکاتب فکر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پاکستان کو اس کا مقصدِ وجود دلانے کے لیے آخر کیوں وہ ٹکڑیوں میں تقسیم رہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا ‘کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نئی فکر دینے والے یا کوئی نیا راستہ تجویز کرنے والے نہیں ہیں‘ بلکہ وہ قرآن کی فکر کا تذکرہ کرنے اور اس فکر کے راستے کی نشاندہی کرنے والے‘   اللہ تعالیٰ کے ایک عاجز بندے ہیں۔ مولانا مودودی یہی کہتے تھے: آپ میری فکر نہ کریں‘ اور نہ میرے دفاع کے بارے میں پریشان ہوں بلکہ آپ مقصدِ زندگی کی فکر کریں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستے پر چلنے کی فکر کریں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان تعصبات سے نکالنے کی کوشش کریں کہ جس نے انھیں کفرواستعمار کے سامنے تر نوالہ بنا دیا ہے۔

وہ کہتے تھے : جن تعصبات میں مسلم جماعتیں مبتلا ہوگئی ہیں‘ انھیں اس دلدل سے نکالیں‘ اور اصلاحی جماعتیں فرقہ بندی کی بندگلی میں پھنس کر رہ گئی ہیں‘ انھیں قرآن و سنت کی دعوت کی طرف بلائیں اور اس الجھن سے چھٹکارا دلادیں۔ اس لیے میرے نزدیک فکرِمودودی بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے۔ اسی تسلسل میں یہ بات بھی بالکل واضح رہنی چاہیے کہ معیارِحق اور رہنمائی کا اول و آخر مرکز‘ قرآن و سنت ہیں۔ ماضی میں مختلف دینی تحریکیں شخصی سطح پر غلو کا شکار ہوگئی تھیں اور فی زمانہ مولانا مودودی نے برملا فرمایا کہ مجھے معیار مت سمجھیے۔ انھوں نے کھلے دل کے ساتھ لوگوں کو بلایا اور اپنی بجاے اصل مراکز دعوت کی طرف رواں دواں کر دیا۔ انھوںنے زندگی بھر جماعت کو اپنی تحریروں کا پابند نہیں بنایا‘ البتہ جماعت نے جو فیصلے کیے‘ کارکنان کو اس کی پابندی کرنے کے لیے کہا اور جب جماعت نے فیصلے میں تبدیلی کی تو انھوں نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ وہ اپنی تحقیقات کو بھی حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں پیری مریدی‘ یا خادم و مخدوم اور آقا و کارکن کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔بلاشبہہ مولانا مودودی کی کتب روشنی کا ایک مینار ہیں‘ لیکن روشنی کا واحد مرکز یہ نہیں ہیں۔ اسی لیے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کے نصابات میں آپ کو دکھائی دے گا کہ مولانا کی تو آدھی کتب بھی مطالعے کے لیے لازم نہیں ہیں۔ وہ ہمارے محسن ہیں اور ہم ان کے زیراحسان ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے رہے۔ خود انھوں نے مسلم تاریخ پر جس طرح احتسابی نگاہ ڈالی‘ بالکل اسی طرح وہ بھی آنے والے تمام لوگوں کی طرح اسلام کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔

تیسرا پہلو جس کی طرف ہمیں آج توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ وہ مسلم اُمت کا حالِ زار ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جب ہوش سنبھالا‘ اُس وقت برطانوی استعمار نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط قائم کر رکھا تھا اور مسلم دنیا کا کم و بیش سارا ہی علاقہ محکوم تھا۔ بظاہر جو ممالک آزاد دکھائی دیتے تھے‘ وہ بھی بالواسطہ طور پر برطانیہ یا یورپی اقوام کے زیرنگین تھے۔ مولانا مودودی نے اس وقت یہ بنیادی سوال اٹھایا:

مسلم دنیا کو اسلامی دنیا اور مسلم معاشرے کو اسلامی معاشرہ کیسے بنایا جائے؟

حقیقت میں یہ بڑے بنیادی سوالات تھے جن پر انھوں نے بحث کی۔ انھوں نے مرض سے پہلے مرض کے اسباب اور مرض کی شدت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مولانا مودودی کی وہ تمام تحریریں جو ۱۹۴۰ء سے پہلے انھوں نے لکھی تھیں‘ ان میں استعمار کے چہرے کو بے نقاب کرنے اور مسلم دنیا کو بیدار کرنے کا پورا لائحہ عمل موجود ہے۔ ایک بڑے معرکے سے دوچار لوگوں کو‘ چند سو صفحات پر مشتمل یہ تحریریں پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ استعمار کی دنیاوی کامیابی اور دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کی بے کسی کا سبب کیا ہے؟اس مطالعے سے قاری کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس تسلّط اورجال کو توڑنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

مولانا مودودی ؒ نے خطبات کے ایک حصے حقیقت جہاد میں یہ بڑی پتے کی بات تحریر فرمائی ہے کہ: ’’حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔ اور یہ تقریر انھوں نے ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کی تھی جب ہندستان غیرمنقسم تھا اور پاکستان کا وجود نہیں تھا۔ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ تب انھوں نے فرمایا اگر اقتدار اور اختیار کے سرچشموں پر خدا کے باغی‘ خائن اور انسانیت کے دشمن لوگ بیٹھے ہوں گے تو انسانیت کبھی سکون اور عدل سے ہم کنار نہیں ہوپائے گی۔ اسی لیے آج حالات جس قدر خراب ہیں‘ ان میں کھلے عام‘ افہام و تفہیم سے‘    دلیل اور اجتماعیت سے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مسلم دنیا میں حکومتی مناصب پر فائز لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ دنیاوی طاقتوں کا ڈر اور خوف دل سے نکال دیں۔ ڈر اور خوف تو صرف مالکِ حقیقی کا ہونا چاہیے۔

مولانا مودودی نے اس کے لیے خفیہ کام کرنے سے منع فرمایا کہ خفیہ تنظیمیں اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتیں اور دنیا بھر کا بوجھ اُن پر ڈال دیا جائے تو وہ اس کی وضاحت تک کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ مولانا نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیشہ منع فرمایا اور جماعت کا دستور انھی کی رہنمائی میں بنا جس نے پُرتشدد کارروائی کے لیے جماعت کے دروازے بند کر دیے۔ اس لیے ردعمل کی سیاست‘ تشدد کے عمل اور تشدد کی طرف داری سے بچنا تحریک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا مودودی نے پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس رباط (۱۹۶۹ئ) میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بطور لائحہ عمل جو رہنمائی دی تھی‘ اسے آج کی اسلامی تحریکات اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس طرح اُٹھائیں کہ ان کی قومی حکومتوں کو اس پر عمل درآمد کی راہیں سوچنی پڑیں۔

اقتصادی تعاون‘ باہم ویزے میں نرمی‘ میڈیا کی سطح پر تعاون‘ مشترکہ دفاع‘ قومی وسائل پر کنٹرول‘ تعلیمی پروگراموں میں باہم تبادلہ‘ ان سب پہلوئوں پر اپنے ملکوں اور ان کے قائدین کو تعاون کے لیے اُبھارنا چاہیے۔

مزید یہ کہ ایک ماڈل اسلامی دستور کا ڈھانچا تمام ممالک کے لیے بناکر پیش کرنا چاہیے جس میں بالکل بنیادی نکات ہوں۔ اور پھر اس کی روشنی میں ہر ملک کا تفصیلی دستور تجویز کرنا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک علمی یا اکیڈمک قسم کی کاوش ہے‘ لیکن میرے نزدیک ایسی دستاویزات ایک بڑے انقلاب اور ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔

مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چھوٹی بڑی ضروریات زندگی کا سوال نہیں اٹھایا تھا بلکہ اس ریاست کے عقیدے‘ مقاصد اور اہداف کا سوال اٹھایا تھا۔ آج اندازہ ہوتا ہے کہ چند سطروں کی ’قرارداد مقاصد’ اور پھر ’علما کے ۲۲ نکات‘ پاکستان کی ریاست کے دستور اور قانون سازی کی تاریخ میں کتنی اہم اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان دونوں دستاویزات کی تیاری اور منظوری میں‘ مولانا مودودی نے جو کلیدی رول ادا کیا‘ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے۔

علم اور عمل‘ ایمان اور جستجو‘ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی تمام تر جدوجہد کا محور تھے۔ آج ہمیں نہ صرف اہلِ وطن بلکہ پوری اُمت کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔