ایچ عبد الرقیب


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کا ہرکام  منصوبہ بند، حکمت و تدبر اور فہم و فراست سے لبریزہوتاتھا۔آپ ؐ نے جنگ بدرکے موقع پر جو منصوبہ بندی کی وہ سیرت کی کتابوںمیں محفوظ ہے کہ سب سے پہلے آپ ؐ نے دو افراد مقررکیے، جنھیں ملک شام سے آنے والے مشرکینِ مکہ کے کارواںکی آمدکی اطلاع دینے پر مامورکیا۔ مدینہ سے روانہ ہوئے توآپؐ نے شمال کے بجائے مدینہ کے جنوب کی طرف کوچ کیا تاکہ وہ دشمن تک پہنچنے سے پہلے کسی محفوظ مقام پر پہنچ سکیں۔ آپؐ نے مناسب جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے کنویںکے قریب پڑاؤ ڈالا۔ دشمن کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک نگراں دستہ بھیجا۔ دو آدمیوں کو گرفتار کرکے ان سے دشمنوںکی تعداد کے ساتھ یہ بھی معلوم کیا کہ کون کون سے سردار آئے ہوئے ہیں؟ آپؐ کے اصحاب کی تعداد ۳۱۳ تھی۔ مختلف حصوں میں انھیں تقسیم کیا۔ فوج کا مقدمہ، میسرہ، میمنہ وغیرہ ترتیب دیا، اس کے سردار مقرر کیے، پھر احتیاطی تدابیرا ختیار کیں۔ ایک جھونپڑی تیار کی، تاکہ آپ وہاں سے فوج کی حرکات پر نظر رکھ سکیں اوراس جھونپڑی کی حفاظت کا بھی انتظام کیا۔ دو تیز رفتار اونٹنیاں تیار رکھیں، تاکہ حالات خراب ہوں تو حفا ظتی تدابیر پر عمل در آمد کیا جاسکے۔

پھراللہ کے حضور سربہ سجود ہوئے اور تاریخی دعاکی۔ اس کے بعد باہر نکلے، فوج کو خطاب فرمایا، ان کے دلوں میں ولولہ انگیز جذبہ پیدا کیا۔ یہ کچھ تفصیلات ہیں جوجنگ سے پہلے کی منصوبہ بندی کی مختصرتصویرپیش کرتی ہیں۔ بدر کے میدان میں کیسے جنگ ہوئی،اس کے بعد کیاواقعات پیش آئے؟ یہ اوراس کے علاوہ سیرت کے مختلف واقعات میں آپؐ کی فہم وفراست اورمنصوبہ بندی کے نادرنمونے ملتے ہیں۔

دعوتِ دین کاکام منصوبہ بندی چاہتا ہے

دعوتِ دین کا کام تواس کے بغیرہوہی نہیں سکتا۔ دعوتِ دین کاکام ایک غیرمعمولی کام ہے اورا س کام کو کرنے کے لیے ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ہمیں مرحلہ وار،اس کی میعاداورمقدارمقررکرکے آگے بڑھنا ہوگا اور درمیانی مدت میں ٹھیر کرجائزہ لیناہوگا کہ ہم نے جواہداف مقررکیے ہیں کیاوہ کافی ہیں؟ اور جوذرائع اختیارکررہے ہیں کیاوہ مفیداورنتیجہ خیزثابت ہورہے ہیں؟اس میں کمی یاخامی ہو تو اس کو دُورکرکے آگے بڑھنا چاہیے ،اہداف کا تعین اوراحتساب کا عمل دونوں ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہیے۔

منصوبہ بندی میں ترجیحات مقرر ہوتی ہیں،جوکام کومرحلہ وارکرنے میں مدد دیتی ہیں۔ بعض کام اوّلین اہمیت کے اورناگزیر ہوتے ہیں،اس کے بغیر منصوبہ کی طرف پیش قدمی نہیں ہوسکتی۔منصوبہ بندی میں بعض امورکی منصوبہ بندی طویل المیعاد بنیادوں پر کی جاتی ہے اوربعض امورکی ایک قریبی متعین میعاد کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبہ بندی باقاعدہ اورزمانے وحالات کے تقاضوں کے مطابق ہو۔

دعوتِ دین کا آخری مرحلہ اوراس کی تکمیل اظہاردین یا دین اسلام کے غلبے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ ہماراہدف ہے جوایک طویل ،صبرآزمااورنتیجہ سے بے پرواہوکرکرنے کاکام ہے۔ یہاں چند گزارشات دعوت کی منصوبہ بندی کے متعلق پیش کی جارہی ہیں:

داعی افراد کی تیاری

سب سے پہلا اوربنیادی کام یہ ہے کہ امت مسلمہ کے ہرفردمیں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ داعی ہے اورا س پیغام کا امین ہے، جواس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سپردکیاہے۔ آپؐ نے اپنے آخری حج میں اس کے ذمے یہ کام کیاتھا کہ وہ تمام انسانوںتک اپنے قول وعمل کے ذریعے اللہ کا پیغام بالکل اسی طرح پہنچائے،جس طرح خودآپؐ نے اس تک پہنچایاتھا۔دعوت کاکام کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ پوری امت کاہے اوریہ امت داعی امت ہے۔ اسے خودکواورتمام انسانوں کوجہنم کی آگ سے بچانااورجنت کی ابدی کامرانیوںسے ہم کنارکرناہے۔ اُمت مسلمہ نے اپنے دورِ زوال میں اس کام سے غفلت برتی،جس کی وجہ سے آج اسے ذلت و رُسوائی سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ دعوت کی تڑپ اوراس پیغام کو پہنچانے کی فکر اگر امت کے ہرفرد میں پیدا ہو جائے تو دعوت کا یہ کام بہتے ہوئے پانی کی طرح اپنی راہیں خود متعین کرلے گا اور غیب سے نصرتِ خدا وندی حاصل ہوگی۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس امت میں داعیوں کا ایک گروہ تیار کرنا ہوگا، جو دعوت کی تڑپ رکھتے ہوں، دعوت کے مزاج ومنہاج کو بھی سمجھتے ہوں اور اس راہ کی آزمایشوں کو صبروہمت سے انگیز کرسکتے ہوں۔ ہماری سب سے اہم ترجیح ’’صلاحیت اور صالحیت والے افرادکی تیاری‘‘ ہونی چاہیے۔

مخاطب قوم کی نفسیات اور رجحانات کو سمجھنا

دوسری اہم بات مخاطب قوم کی نفسیات،نظریات اوررجحانات کوسمجھنا ہے۔فریقِ ثانی کی پسند اورناپسند کوجانناہے۔ آج ہمارا معاشرہ بہت سی ہندو روایات اور جاہلیت کی متعدد رسوم اور توہمات کا شکار ہوکر، دین سے بہت دُور جاپڑاہے۔ اسے سمجھنے کے لیے خود اس معاشرے سے قریب ہونے کی ضرورت ہے، ذاتی روابط سے اسے جاننے کی کوشش ہونی چاہیے۔مثال کے طورپر آج عیسائی مشنری تربیتی اداروںمیں جوعیسائی مبلغ تیارہوتے ہیں، ان کے نصاب میں دیگرمذاہب کے تعلق سے اسباق ہوتے ہیں اورچند ہفتے ان مبلغین کومتعلقہ مذہب کی سوسائٹی میں رکھ کرحقیقی صورت حال سے واقفیت حاصل کرائی جاتی ہے۔

ہر سال امریکا کے Olaf کالج سے طلبہ و طالبات کا ایک گروپ اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ، چنئی آتا ہے اور تقریباً پورا دن اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے میں گزارتا ہے۔ ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور دین حنیف کی سادہ اور سچی تعلیمات کو اس کے سامنے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ الحمد للہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور اس کے مفید اور مثبت نتائج رونما ہوئے ہیں۔

مخاطب قوم کی زبان سے اچھی طرح واقفیت اوراس پر عبورحاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ تھا کہ یُخَاطِبُ کُلَّ قَبِیْلَۃٍ  بِلِسَانِہَا وَیُحَاوِرُہَا بِلُغَـتِہَا    (الرحیق المختوم، صفی الرحمان مبارک پوری، ج۹، ص ۴۷۸)’’آپ ہر قبیلہ سے اس کی زبان میں گفتگوفرماتے اوراسی زبان کے محاورے استعمال فرماتے‘‘۔

دعوت کے کام کی اہمیت کے پیش نظراردوزبان ہی کافی نہیں ہے بلکہ مقامی زبانیں سیکھنے اوران میں ادبی کمال پیدا کرنے اور ان میں کلام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

موجودہ دور میں کسی قوم کے رجحانات اورنظریات کو جاننے کے لیے شماریاتی جائزے (Statical Survey)کرائے جاتے ہیں۔ اس فن کے ذریعے سے بھی مخاطب قوم کی نفسیات اور رجحانات کو سمجھاجاسکتاہے۔ پھر نومسلم حضرات کے حالات زندگی سے بھی اس کا پتہ لگایاجاسکتاہے۔

غیرمسلموں سے تعلقات موجودہ دورکی ضرورت

دعوتِ دین کاکام اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں میں بھی پوری لگن سے کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے غیرمسلموںسے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نفرت، اجنبیت اورتعصب کی جودیواریں برسوںسے کھڑی ہوئی ہیں، انھیں منہدم کرکے بے لوث انسانی روابط قائم کیے جائیں۔ ہم دنیوی امورومعاملات کے لیے مختلف حیثیتوںسے روابط رکھنے پر مجبور ہیں،لیکن ہمارے درمیان برسوںسے غیرمسلم بھائی بہن رہتے ہیں،تعلقات بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں مگردینی نقطۂ نظر سے ہم نے ان تک پیغام حق کبھی نہیں پہنچایا۔ ان کے دکھ درد میں کام آنا، ان کی خوشیوں میں شامل ہونا،انھیں مفید مشورے دینااوران کے اعتماد اورحُسن ظن کوحاصل کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں تحفے تحائف کا لین دین بھی مفید اور مؤثرثابت ہوسکتا ہے۔ الفاروق  میں علامہ شبلی نعمانیؒ نے حضرت عمر فاروقؓ کا قول نقل کیا ہے کہ زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں مسکین سے مراد ان کے نزدیک غیر مسلم فقراء اور مستحق تھے۔ بعض مشہور اہلِ علم جیسے ابو میسرہؒ، عمربن میمونؒ اور عمر بن شرحبیلؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ صدقۂ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ بعض فقہائے کرام نے غیرمسلموںکوقربانی کا گوشت دیناجائز اور موجودہ حالات میں مستحب اورمستحسن قرار دیا ہے۔ تعلقات میں خوش گواری پیداکرنے اورروابط قائم کرنے کے جو بھی ذرائع اور معروف طریقے ہوں انھیں بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ

اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے کئی قسم کی غلط فہمیاں غیرمسلموں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ دعوتِ دین کی منصوبہ بندی میں ان غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ الناس اعداء لما جہلوا ’’لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے وہ نہیں جانتے‘‘۔ اسلام کے عدم مطالعہ،  غلط اورجھوٹے پروپیگنڈے اور خود مسلمانوں کے غلط کردار اور رویے کی وجہ سے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔اگرچہ پہلے بھی صورت کچھ اچھی نہ تھی، لیکن نائن الیون کے بعداسلام کو  دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوشش اپنے برگ و بار لارہی ہے۔ اسی طرح ایک غلط تصور ’وحدت ادیان‘کاہے کہ ’’تمام مذاہب ظاہری فرق کے باوجودحقیقت میں ایک ہیں۔وہ ایک ہی مشترک منزل کی طرف جانے کے متعدد راستے ہیں‘‘۔اس معاملے میں ہمیں اسلام کی صحیح ترجمانی کرنی ہوگی اوراسلام کودین حق اور نجات کا واحد حل ثابت کرنے کی حکمت ودانائی سے کوشش کرنی چاہیے۔ مذاہب کے بنیادی اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام (Respect) کرنے اور ایک دوسرے کوسمجھنے اورآپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔

مناظرہ کے بجائے مکالمہ کی ضرورت

اسلام اورمسلمانوںکے تعلق سے غلط فہمیوںکودورکرنے کے لیے انفرادی روابط، وفود کے ذریعے ملاقاتیں ،بالمشافہ گفتگوئیں، سمپوزیم، سیمینار، تقاریر و خطابات، کارنر میٹنگیںوغیرہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ مختلف مذہبی لیڈروں اورقائدین کے درمیان مذاکرات بھی اس سلسلے میں مفید اور مؤثرثابت ہوسکتے ہیں۔ مستشرقین اورآریہ سماجیوں نے ماضی میں اسلام اورپیغمبر اسلامؐ پر رکیک حملے کیے توہمارے علمائے کرام نے عیسائی پادریوں اور ہندو رہنماؤںسے مناظرے کیے اورکئی ایک کوشکست بھی دی۔اس قسم کے مناظروںسے اسلام کی عظمت ورفعت اورمسلمانوںمیں اعتماد اورحوصلہ توپیداہوتاہے، لیکن اس کے باوجود فریق ثانی کو اسلام کا قائل نہیں کرایا جاسکتا، کیوںکہ مناظرے میں ایک فریق ہارتااوردوسراجیتتاہے، جب کہ دعوت کا کام دلوں اور دماغوں کومتاثرکرنا اورمدعوکے دل میں داعی سے انس پیداکرنا اوراس کے دل و دماغ میں سوالات پیداکرکے اسے سوچنے اورغوروفکرکرنے کا موقع دینا ہے۔اس لیے آج کے دور میں مناظرہ (Debate) کے بجائے مکالمہ(Dialogue)کی ضرورت ہے۔ مکالمے ومذاکرے میں فریق کے دلائل کوسننا ،   اس کے اچھے نکات کی تعریف کرنااوربعض اختلافی باتوںپر دلائل کے ساتھ گفتگوکرنا ضروری ہے۔ مکالمے میں اپنی بات کوپوری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کرنا ایک فن ہے اوراپنی بات کی مؤثر انداز میں ترسیل کرنا(Effective Communication)دور جدید کا ایک آرٹ ہے ۔ ہماری دعوتی منصوبہ بندی میں اس قسم کے ماہرین کو تیارکرنا بھی ضروری ہے۔

دوسری بیعت عقبہ کے بعد رسولؐ نے مدینہ کے سرداروںکی فرمایش پر کہ ان کے پاس ایسا معلم بھیجیں، جو انھیں اسلام کی تعلیم دے۔ آپؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیجا جو بہت ہی مخلص اور ماہرنفسیات صحابی تھے۔لوگوںکواسلام پرآمادہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیتیں ان میں موجود تھیں۔

حضرت مصعب بن عمیرؓ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے کچھ لوگوں کو اسلام کی دعوت سے روشناس کرا رہے تھے کہ قبیلۂ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر دونوں وہاں پہنچے۔ اسید جو دراصل اپنے قبیلے کے سردار اور سب سے زیادہ حلیم اور بردبار اور صاحب فضل و کمال شخصیت تھے ، حضرت مصعبؓ کی دعوتی سرگرمیوں سے سخت ناراض تھے اور اپنا نیزہ اٹھا کر آئے تھے۔

انھوں نےحضرت مصعبؓ کے پاس پہنچ کر سخت لہجے میں کہا:’ تم لوگوں کو ہمارے محلے میں آنے اور ہمارے کمزور لوگوں کو گمراہ کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ ‘مصعبؓ نے بڑے ہی خلوص اور دل کش لہجے میں مخاطب کر کے کہا: ’اے سردار، کیا آپ پسند کریں گے کہ میں آپ کے سامنے بھی اچھی بات پیش کروں؟‘۔ ’وہ کون سی بات ہے؟‘ اسید نے پوچھا۔

’آپ اطمینان سے یہاں تشریف رکھیں اور غور سے ہماری باتیں سنیں۔ اگر پسند آئیں تو قبول کر لیجیے گا اور ناپسند ہوں تو ہم یہاں سے واپس چلے جائیں گے اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے‘ حضرت معصبؓ نے فرمایا۔

’ تم نے انصاف کی بات کہی۔‘ یہ کہتے ہوئے اسید اپنا نیزہ زمین پر گاڑ کر وہیں بیٹھ گئے۔ پھر جب حضرت مصعبؓ نے انھیں اسلام کی حقیقت سمجھائی اور قرآن کریم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں تو ان کی پیشانی پر پڑی ہوئی شکنیں دور ہوگئیں اور چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور وہ بول اٹھے کہ ہم اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔

قصہ گوئی (Story Telling)آج کے دورمیں افکار کو پھیلانے اور سمجھانے کا اسی طرح ایک بہترین ذریعہ سمجھا جاتاہے جس طرح ماضی میں تھا۔ یہاں تک کہ جدیدمینجمنٹ کے کورس میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن میں بھی قصص موجودہیں اورسورۂ یوسف کوتواحسن القصص قرار دیا گیاہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ نے بھی تمثیل اور قصّے کے ذریعے دین وشریعت کے مقاصدومنہاج کو ساری انسانیت کے سامنے پیش کیا اور صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی اوردعوت کا ذریعہ بھی بنایا۔ ان سب کو آسان اور عام فہم اندازمیں پیش کیاجائے تودعوت کے میدان میں مؤثر پیش رفت ہوسکتی ہے۔

مشترکہ امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ تعاون

دعوتِ دین کومؤثربنانے میں غیرمسلموںسے تعاون اورمشترک امورمیں مل جل کر کام کرنے کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔بھلائیوںکے فروغ، برائیوںکے ازالے،سماجی ا ور  معاشی مسائل کے حل کے لیے باہم تعاون واشتراک کی صورتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے: تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ  ص  (المائدۃ۵:۲) کے تحت رشوت خوری، شراب، جوا اور خواتین پر ظلم وستم وغیرہ جیسے منکرات، صحت وصفائی، عفت وپاکیزگی اور خواندگی وغیرہ جیسے مسائل میں ہمیں ان کے ساتھ مل کرکام کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس سے ان کو یہ احساس دلایا جاسکے گا کہ اسلام ساری انسانیت کاخیرخواہ ہے اوریہ دین ربّ العالمین کا ہے اور اس کے پیغمبررحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ ان مشترک کاموںکی وجہ سے روابط بڑھیں گے ۔ ایک دوسرے کوسمجھنے، غلط فہمیوںکودُورکرنے کا موقع ملے گا اور مسلمانوںکی حقیقی تصویر سامنے آئے گی کہ یہ انسانوںکے حقیقی خیر خواہ ہیں،جس سے دعوتِ دین کے کام میں بڑی مدد ملے گی۔

سیرتِ رسولؐ میں ’حلف الفضول‘کا ذکر آتا ہے جو جاہلیت کے دور میں شہر مکہ کے  صاحب ِدل و دردمند لوگوں نے مظلومین کی امداد کے لیے ایک انجمن بنائی۔ اس میں شریک لوگ متحدہوکر رضاکارانہ طور سے اپنے شہر میں مظلوموں کی مدد کرتے، ظالموں سے ان کا حق دلاتے اور انھیں ظلم سے باز رکھتے تھے۔ اس معاہدے میں شرکت آپ کی ابتدائی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ ہے اور آپ کی قومی زندگی (پبلک لائف) کا اولین سنگ میل ہے۔ سیرت نگاروں نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں حلف لینے میں شریک تھا اور سرخ اونٹوں کے گلے کے عوض بھی اس شرکت کے اعزاز سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا، اور اگر اب زمانۂ اسلام میں بھی مجھے کوئی اس کی دہائی دے کر پکارے تو اس کی مدد کو دوڑ کر جاؤں گا۔

 ’حلف الفضول‘ کی تفصیلات کی روشنی میں آج کے دور میں عدل و قسط کے قیام اور ظلم و استحصال کے خلاف (غیر مسلموں کے ساتھ مل کر) مشترکہ طور پر فورم تشکیل دیں اور اس طرح سنت نبویؐ کی پیروی میں ان بنیادی انسانی اقدار کو اجاگر کر کے دین حق کی تعلیمات کو معاشرے کے تمام طبقات میں واضح طور پر عملی شکل میں پیش کرسکتے ہیں۔

دین کا جامع تصورپیش کیاجائے

اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ ملت میں رائج ’تصوردین‘کوکتاب وسنت کے مطابق صحیح رخ دیاجائے۔عام طورپر ’دین داری‘ اسی کوسمجھاجاتاہے کہ آدمی ذکروعبادات کا اہتمام کرے اوردنیوی کاروبارسے دوررہے ۔یہ تصوردراصل عجمی یا ویدانتی تصوف اور رہبانیت کاہے۔ اس کے برعکس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:

الْمُوْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی اٰذَاھُمْ خَیْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَایَصْبِرُعَلٰی اَذَاہُمْ (ابن ماجہ، کتاب الفتن باب الصبر، علی البلاء، حدیث: ۴۰۳۰) وہ مسلمان جو عوام سے میل جول رکھتا ہے اوران کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کوبرداشت کرتا ہے، وہ یقینا اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ عوام سے روابط رکھتا ہے اورنہ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرتا ہے۔

فرمانِ رسولؐ میں لفظ ’الناس‘ قابل غور ہے۔

دعوت اسلامی کے سلسلے میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے مزاج میں خیرپسندی اور خیرخواہانہ جذبات کے فروغ کی پیہم کوشش کی جائے۔ جذباتی ردعمل کی بجائے مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے، عجلت پسندی کے بجائے دوراندیشی سے کام لینے کی عادت ڈالی جائے۔ اسی طرح یہ بات بھی ضرو ری ہے کہ اختلافی اورفروعی مسائل میں لوگوں کے ساتھ نرمی برتی جائے اوراساسی واصولی باتوں کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔آپ ؐ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایاتھا:تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہوجواہل کتاب ہیں۔انھیں پہلے توحیدورسالت کی دعوتِ دینا،جب وہ مان لیں کہ اللہ ایک ہے اورمحمدؐ اس کے رسول ہیں تو پھر انھیں بتاناکہ ان پر اللہ نے زکوٰۃ فرض کی ہے (متفق علیہ)۔ یوں آپ ؐنے بتدریج کام کرنے کی ہدایت فرمائی۔اسی طرح مسلکی، گروہی اورجماعتی تعصبات اوراختلافات سے بلند ہوکر مبادیات دین کی طرف دعوت کا رخ کیاجائے۔دین کوآسان بنا کرپیش کیاجائے اورافراط و تفریط کی بجائے راہِ اعتدال کی طرف توجہ مرکوزکی جائے۔

دعوتِ دین کے کام میں قرآن وسنت سے راہ نمائی

قرآن حکیم کتاب دعوت ہے اورنبی کریمؐ داعی اعظم ہیں۔دعوتِ دین کے لیے خالص دعوتی نقطۂ نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آیات کے نزول کا پس منظراورداعی اعظم ؐکا اس سلسلے میں اسوہ وعمل پیش نظر رہنا چاہیے۔ آج کے درپیش مسائل میں اللہ کی کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ہمیں اس پر غور و فکر کرنا اورلائحۂ عمل کا نقشہ بنانا ضروری ہے۔

مثال کے طور پر حضرت موسٰیؑاور حضرت ہارونؑ کی طرف سے فرعون جیسے جابر بادشاہ کے سامنے دعوت حق دینے کے موقع پر اللہ کی ہدایت کہ نرمی سے بات کرو، حضرت یوسف ؑکا قید خانے میں قیدیوں کے ساتھ دعوتی گفتگو کرنا، حضرت ابراہیمؑ کا اپنے باپ اور قبیلے کے لوگوں کے ساتھ رویہ، اورحضرت یونسؑ کے واقعہ کے پس منظر و غیرہ کو سامنے رکھنے سے ہمیں دعوتی کاموں میں رہنمائی حاصل ہوگی۔

قرآن حکیم کی طرح اسوۂ رسولؐ سے بھی روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپؐ نے مختلف کاموں کے لیے خود مشرکین وکفار سے بھی مختلف مواقع پر مدد حاصل کی ہے۔ مثلاً: آپؐ ، مطعم بن عدی کی حمایت میں مکہ میں داخل ہوئے۔ عبد اللہ بن اریقط کو ہجرت کے پُرخطر سفر کے لیے رہنما بنایا، اور غزوۂ بدر کے بعد دوسری بار نجاشی کے دربار میں عمربن امیہ المضری کو سفیر بنا کر بھیجا۔ اس طرح کیا آج ہم بھی اپنے دعوتی کاموںکے لیے مشرکوںاورکافروںسے مدد حاصل نہیں کرسکتے؟ کیا اس حکمت رسولؐ میں ہمارے لیے کوئی روشنی نہیں؟ عقبۂ ثانی کے بعدآپؐ نے بارہ آدمیوں کو جو بارہ قبیلوں کے نمایندے تھے، اپنی طرف سے نقیب یا سردار مقرر کیااوران میں سے ایک فرد کو ان کا سردار بنایا۔ ان کی فرمائش پر حضرت مصعب بن عمیرؓ کودین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔ کیا اس سے دعوت کے لیے تنظیم کی ضرورت کا احساس نہیں پیداہوتا؟

دعوتِ دین اورخواتین

دعوتِ دین کی منصوبہ بندی میں جہاں مردوںکاحصہ ہے وہیں خواتین کے لیے بھی بھرپور منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہؓ کی جانب سے آپؐ کے لیے تسلی کے کلمات ، کارِ دعوت میں خواتین کی جانب سے ہم رکابی کی بہترین مثال ہیں۔ حضرت اُم سلمہؓ کا حدیبیہ کے موقع پر نبیؐ کومشورہ دینااورحضرت عائشہ ؓکا فقیہانہ کارنامہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ کارِ نبوت کی تکمیل و ترویج میں خواتین کا بھی بڑااہم رول رہاہے۔مکہ سے ہجرت حبشہ کی ساری داستان اور نجاشی کے دربار میں کفارمکہ کے سفیروںکی آمد، ان کی ریشہ دوانیوںکی تفصیلات، نجاشی اورحضرت جعفر طیارؓ کے مکالمے کے متاثرکن واقعات کا خاکہ حضرت ام سلمہؓ نے روایت کیا ہے جو تاریخ دعوت و عزیمت کا درخشاں باب ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر جو مشورہ حضرت اُم سلمہؓ نے آپؐ کو دیا ہے، اس سے بھی ان کی ذہانت ،معاملہ فہمی اور غیرمعمولی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم ایسا رول خواتین کودینے کے لیے تیار ہیں؟

دورِ اوّل کے بعد بھی بہت سی روشن مثالیں ہیں، تاہم چغتائی خاندان مسلمانوںکا سب سے بڑادشمن تھا، مگر ہلاکوخان کی مسلمان بیوی نے اسے سب سے پہلے اسلام سے متعارف کیا اور اسی کے اثرسے مبارک شاہ اور براق خان مسلمان ہوئے۔ تاتاری فوجوںکے ہزارہا سپاہی اپنے ساتھ جن مسلم خواتین کولے گئے تھے، انھوں نے اسلام کو چھوڑ کر اپنے کافر شوہروں کے مذاہب کو اختیار کرنے کے بجائے اپنے شوہروں اور ان کے اکثر بچوں کو مسلمان کر لیا اور انھی کی بدولت تمام بلادِ تاتار میں اسلام پھیل گیا۔ آج بھی یورپ اورامریکا میں خاص طورپر ۱۱؍ ستمبر کے بعد مردوں سے زیادہ خواتین، اسلام کی دعوت قبول کر رہی ہیں۔ انھیں اسلام میں اپنی عزت وعفت کی حفاظت اور حقوق کے حصول کی رو شنی اورپر سکون خاندان کی چاشنی نظر آتی ہے۔ اس کے لیے مسلم خواتین میں بھی داعیہ ہونے کاجذبۂ صادق ابھارنے اورنومسلم خواتین کے مسائل کوحل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

دعوت اور خدمتِ خلق

دعوتِ دین کی منصوبہ بندی میں ایک اہم کام خدمت خلق کواس کا صحیح مقام دیناہے۔ آج مسلمانوںکی زیادہ ترتوجہ عالی شان مساجدکی تعمیر جیسے امورتک ہی محدود ہے،جب کہ بھوکوں کو کھاناکھلانا،ننگوںکوکپڑاپہنانا،قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوںکواس سے چھٹکارا دلانا، نادار بن بیاہی لڑکیوںکے نکاح کا انتظام کرنا،بیواؤںکی مددکرنا، ارضی وسماوی آفات اور وبائی امراض کے وقت بلاتفریق مذہب وملت فائدہ پہنچانا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج، جب کہ تعلیم اور علاج معالجہ ایک نفع بخش تجارت کی حیثیت اختیارکرچکاہے اورصرف مال دار طبقے کے لوگوں تک ہی اس کا فائدہ پہنچ رہاہے۔اس میدان میں آگے بڑھ کرخدمت خلق کے ذریعے دعوتِ دین کے لیے نرم گوشے پیداکیے جاسکتے ہیں۔یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ دوسری اقوام،  خاص طورپر عیسائی برسوں سے یہ کام کررہے ہیں اورعیسائیت کے فروغ کے لیے اس کے اثرات بھی معاشروں میں ظاہرہورہے ہیں۔کیا ہم رحمۃ للعالمینؐ کے امتی بھی ایسا نہیں کرسکتے؟

دعوتِ دین کے جدید ذرائع

دعوتِ دین کے منصوبے میں معاشرے کے مختلف طبقوںکے لیے الگ الگ اندازسے اثرانداز ہونے کی ضرورت پر بھی غوروخوض کرناہوگا۔ہمارےمعاشروں میں ایک قابلِ لحاظ تعداد ناخواندہ اورکم تعلیم یافتہ لوگوںپر مشتمل ہے، جنھیں لکھنے پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے لیے اسلام کے مختلف پہلوؤںکو ڈی وی ڈیز کے ذریعے اجاگرکیاجاسکتاہے ۔اسی طرح پڑھے لکھے احباب کے لیے ان کے ذہن وفہم کوسامنے رکھ کر خاص لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز میڈیا کے اصحاب سے دوستی کرکے بھی مفیدنتائج برآمدکیے جاسکتے ہیں۔

جدیدذرائع ابلاغ نے دعوتِ دین کو وسیع طور پر پہنچانے کااچھا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک دور آئے گا کہ اسلام ہرکچے پکے گھر میں پہنچے گا۔ آج ایسا ممکن ہے۔ اس کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا صحیح اور بھرپور استعمال ہونا چاہیے۔ کمپیوٹر دورِ جدید میں قلم کی ایک اعلیٰ شکل ہے اور دعوتِ دین اور اپنی بات کو مؤثر اور بہ عجلت پہنچانے کا ایک مفید ذریعہ ہے، جو اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعے سے بھی ہم اپنی بات کو لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو گھر بیٹھے پوری دنیا میں پہنچا سکتے ہیں اور تبادلۂ خیال کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔

بلاشبہہ ان جدید ذرائع میں فحاشی، عریانی اور گندگی کی بھر مار اور اختلاط مردوزن کی وجہ سے دین دار طبقوں میں اس کے استعمال کے سلسلے میں کافی تردُّد پایا جاتا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں شرح صدرکے لیے اسوۂ رسولؐ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ نے ’عکاظ ‘کے میلے میں پہنچ کراپنی بات رکھی۔ اسی طرح آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر ’یاصباحا‘کی آوازبلندکی، لیکن اسی دورمیں اس کام میں جوقباحت موجودتھی اسے دور کرکے اس ذریعے کااستعمال کیا،یعنی ’نذیرعریاں‘(برہنہ ڈرانے والا)۔ جاہلیت میں کوئی اہم خبر دینی ہوتی تواس پہاڑی پر ایک شخص بالکل برہنہ ہوکر لوگوںکواس سے آگاہ کرتا تھا۔آپؐ نے کپڑے اتارے بغیراس ذریعۂ پیغام رسانی کو دعوتِ دین کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی ہمیں جدید ذرائع وسائل کودنیوی قباحتوںسے پاک کرکے وحی الٰہی اور پیغام محمدیؐ کو دنیاکے سامنے پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ امیدہے کہ ہمارے علمائے کرام اس ضمن میں سنجیدگی سے غوروفکر فرمائیں گے اور جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے حدودو قیودکا مناسب انداز میں جائزہ لیں گے۔ دنیا جائز اور ناجائز کے دوکناروں پر کھڑی ہے۔ کیا دعوتِ دین اور کارِ رسالت کے لیے ان کے درمیان کوئی بیچ کی راہ نکالی نہیں جاسکتی؟

دُور اندیشی اور مستقبل بینی کی ضرورت

دعوتِ دین کی منصوبہ بندی جہاں دردمندی چاہتی ہے،وہیں دوراندیشی اورمستقبل بینی کی بھی دعوت دیتی ہے ۔سیرتِ نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرمؐ نے افراد ، حالات اور ضروریات کے پیش نظرمختلف فیصلے کیے ،ان سب میں دعوت وعمل کے لیے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ بعض قبائل کے قبول اسلام کے واقعات اس کی تائید میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن افسوس اس نبویؐ دوراندیشی اورمستقبل بینی کوبھول جانے کی وجہ سے مسلمان اسلام کی ترویج واشاعت کی راہ میں خود رکاوٹ بن گئے اوربن رہے ہیں۔

 دعوت کی منصوبہ بندی کے لیے ملت کے ہر فرد کو اپنے اندرداعی ہونے کاشعور اوراس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنے قول وعمل میں صحیح اسلامی کردار کی تصویربننے کاعزم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اپنے خاندان اوراپنی معاشرت کوتضادات سے پاک کرکے ایک مثالی معاشرہ بنانے کی سعی وجہد کرنی چاہیے اورملک کے مختلف افراد کواپنی ذاتی وشخصی پسند و ناپسند اورمختلف جماعتوں، مسلکوں اور طبقوں کواپنے محدود دائرے سے باہر نکل کر اتحاد فکر و عمل کا نمونہ بننا چاہیے۔