خلیل الرحمٰن چشتی


سورۃ الفاتحہ، قرآنِ مجید کی پہلی سورۃ ہے۔ دُنیا کی کئی زبانوں میں اور دُنیاکے کئی ملکوں کے سیکڑوںعلما نے اس کی تفسیر لکھی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد (وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد) نے عام ڈگر سے ہٹ کر سورئہ فاتحہ کے بنیادی موضوعات کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھانے کے لیے انگریزی داں نوجوان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہ جہاں اسلام کو سمجھنے کے خواہش مند غیرمسلموں کے لیے بے حد مفید ہے، وہیں ہراُس مسلمان طالب علم کےلیے بھی مفید ہے، جو عربی اور اُردو سے بہت کم واقف اور انگریزی میڈیم کے مدارس کا تعلیم یافتہ ہے۔

ابتدا میں دس صفحات پر مشتمل ایک عالمانہ مقدمہ ہے، جو دوسرے مذاہب کی کتابوں کے مقابلے میں قرآن کی اصلی محفوظ زبان اور کلامِ الٰہی کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ پھرقرآنی اصطلاحات سےبحث کی گئی ہے۔ پہلی آیت کے سلسلے میں لفظ اِلٰہَ  کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلام میں خدا کے تصورکو دوسرے مذاہب کے تصورات سے موازنہ کرکے سمجھایا گیا ہے۔ قاری کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے: کیا ایک سے زیادہ خدا ہوسکتے ہیں؟ کیا خالق اور مخلوق برابرہو سکتے ہیں؟ کیا غیراللہ نے کوئی چیز پیدا کر کے دکھائی ہے؟توحید کی جامعیت کے تصور سے انسانی عقل و خرد پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

قرآن کا آغاز بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ سے ہوا ہے۔ اللہ کے نام سے ہر کام کا آغاز کرنے سے انسان کے عقل و شعور پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کس طرح اُس کی ذات میں عاجزی، انکساری اور شائستگی پیدا ہوتی ہے؟ کس طرح انسان اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوکر اُس سے اپنا گہرا تعلق قائم کرلیتا ہے؟ اسمِ مبالغہ الرَّحمٰن  اور اسمِ صفت الرَّحیم سے کس طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات بالخصوص انسان سے اپنی لامحدودمحبت کا اظہار ہوتا ہے؟ کس طرح اللہ تعالیٰ سے ذہنی، قلبی اور جذباتی تعلق قائم ہوتا ہے؟ کس طرح انسان کے اندر ایک معتدل نفسیاتی کیفیت جنم لیتی ہے؟ اور کس طرح ایک متواضع شخصیت پروان چڑھتی ہے؟یہاں ایسے ہر سوال کا جواب ملتا جاتا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد ایک معلّم، ایک مربی اور ایک مزکی کی حیثیت سے، آہستہ آہستہ قاری کے دل میں بنیادی نکات اور فکر کو راسخ کرتے جاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا قاری پچھلی باتوں  اور نکات کو اچھی طرح سمجھ کر دل و دماغ میں بٹھاتا اور آگے بڑھتا جائے۔

الْحَمْدُلِلّٰہِ  کو وہ تعریف اور شکر کی ایک کامل ثقافت گردانتے ہیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کئی خدائوں کے درمیان کوئی بڑا خدا نہیں ہے، بلکہ اَحَد   سب سے یگانہ، سب سے مختلف، ماورائے عقل طاقت ور خدا ہے، جس کا صحیح صحیح اِدراک علمِ وحی کے ذریعے دیئے گئے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ حسنیٰ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ رحم کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ربوبیت سے مربوط کر کے پیش کرتے ہیں۔ عبد اور معبود کے فرق کو واضح کر کے عبادت کا جامع مفہوم سامنے رکھتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عدالت کی تشریح کرتے ہیں۔ روزِ جزا و سزا، اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عدل کا لازمی مقتضا ہے۔ انصاف ہوکر رہے گا۔ اپنے قاری کو سمجھاتے ہیں کہ یہاں الدِّیْن  کا لفظ اگرچہ جزا و سزا اور روزِقیامت کےلیے استعمال ہوا ہے، لیکن یہ ایک ایسا نظامِ حیات ہے، جس کی تکمیل کی جاچکی ہے۔ سورۃ المائدہ کی تیسری آیت کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ اس مکمل دین میں کتربیونت نہیں ہوسکتی۔

پھر تین نکات میں خلاصہ اس طرح پیش کرتے ہیں: ۱-انسان کی اُخروی کا میابی کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل درآمد پر منحصر ہے۔ ۲- انسان کو خیروشر کی آزادی یعنی اخلاقی اختیار  سپرد کیا گیا ہے۔ ۳- خدائے رحمٰن و رحیم کے علاوہ کوئی اور قیامت کے دن فیصلہ نہ کرسکے گا۔

انسان کا یہ اَخلاقی اختیار، اُسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے۔ عقیدئہ توحید کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرے۔ یہی سیدھا دین ہے۔ اُسی پروردگار سے ہدایت طلب کرے۔ اُسی کی بات مانے۔ وہی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے، جو خالق بھی ہے، ربّ بھی ہے، معبود بھی ہے اور حاکم بھی۔ پھر وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’عبودیت‘ دراصل    اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور توکّل کا نام ہے کہ تمام معاملات اپنے خالق کے سپرد کر دیئے جائیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ اللہ کے تمام انبیائے کرام علیہم السلام، اللہ کے ’عبد‘ ہوتے ہیں۔ وہ کوئی خدائی میں شریک نہیں ہوتے۔ یہاں وہ دیگر مذاہب کی افراط و تفریط کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ  کا مطلب شرک سے بے زاری ہے اور اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ ہم اپنے تنہا خالق اور اپنے اکیلے ربّ کے علاوہ، کسی اور کی غلامی اور اطاعت اختیارنہیں کرسکتے۔

ڈاکٹرانیس احمد سوال اُٹھاتے ہیں کہ اپنی پانچوں نمازوں میں اپنے خدا کے سامنے اس بات کے بار بار اعتراف کے باوجود کہ ہم اُس کے غلام اور اُس کے وفادار ہیں، اُسی کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں۔ بھلا ہم کس طرح رنگ و نسل اور زبان وقوم کے نام نہاد دوسرے خدائوں کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ یہاں قرآن انسانی عقل کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ثقافتی بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کر کے دیکھے۔ عقل اور نری جذباتیت انسان کو سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتی۔ یہ خدا ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ وہ ہدایت فراہم کرے۔ خدائی ہدایت ہی انسان کو ابدی حقیقتوں سے آشکار کرسکتی ہے۔

اپنے عقلی استدلال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہدایت کا ماخذ و منبع صحیح اور مستند علم ہو۔ وہ علمِ الٰہی کی روشنی میں انسان کو ہدایت کے لیے ایک پوری ثقافت کی تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے، جو انسان کو خدائے علیم و خبیر کی وحی پر مشتمل اَبدی ہدایت اور توحید کا راستہ دکھاتا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد آخر میں دل سوزی سے سمجھاتے ہیں کہ دین ابتدا سے ایک ہی رہا ہے۔ اُس کی اَخلاقی بنیادیں اور معیار کبھی نہیں بدلے۔ یہ راستہ ہمیشہ سے روشن اور نمایاں رہا ہے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ کون رہے ہیں؟ اور کن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے؟ کتاب کے آخری حصے میں انھوں نے نو نکات پر مشتمل عملی تجاویز بیان کی ہیں: lانسان شکر کا رویہ اختیار کرے lاللہ کی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے یک رنگی اختیار کرے lاللہ کی پیہم نوازشوں پر ہمیشہ شکر کی طرف مائل اور متوجہ رہےl اللہ تعالیٰ کی صفت ِ رحمانیت اور صفت ِرحیمیت پر مکمل اعتقاد بھی رکھے اور بھروسا بھی lاپنی توحید کی تصدیق اپنے رویوں سے ثابت کرے lانسانوں کے بنائے ہوئے خودساختہ نظریات سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلے lموت کے بعد کی زندگی پر اپنے یقین اور اعتماد کی باربار تصدیق و تائید کرتا رہے lاللہ ہی  سے مسلسل ہدایت اور مدد طلب کرے lہر اُس کام سے دُور رہے ، جواللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

پروفیسر صاحب نے دین اسلام کے جامع تصورکو نہایت عمدگی کے ساتھ عصرحاضر کی زبان میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب اُن نوجوانوں کے شکوک و شبہات کو دُور کرنے میں ان شاء اللہ ضرور مددگار ثابت ہوگی، جو آج اکیسویں صدی میں الحاد اور تشکیک و تذبذب میں گرفتار ہیں، یا پھر مذاہب ِ عالم کی افراتفری دیکھ کر حیران و پریشان ہیں۔

امریکا، کینیڈا، یورپ، جنوبی افریقا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی ہند وغیرہ جیسے ممالک میں اور جہاں جہاں مسلمانوں کے بچّے کالجوں میں اسلام کے اصلی ماخذ اور اصلی زبان سے محروم کر دیے گئے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب اسلام فہمی کا دروازہ کھولتی ہے اور ابتدا ہی میں اُن کو غلط فہمیوں سے دُور کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت کو اُن کے دل ودماغ پر نقش کر دیتی ہے۔

یہ کتاب Reflections on Surah Al-Fatihah کے عنوان سے (۶۸ صفحات) دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر (برطانیہ) اور قرآن ہائوس نیروبی (کینیا) نے شائع کی ہے۔

تمام دنیاوی امور میں اﷲ تعالیٰ ہی حَاکِم (ruler) اور شَارِع (law giver)ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ اعلیٰ (sovereign) ہے۔ اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ کافی نہیں ہے کہ وہ خَالِق (creator)ہے اور ربّ (sustainer) ہے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اُسے خالق بھی تسلیم کیا جائے اور ربّ  بھی، مالک بھی تسلیم کیا جائے اور بادشاہ بھی، صاحبِ تصرّف بھی تسلیم کیا جائے اور حاکم اور شارع بھی۔ آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے ، کیونکہ ’تکوینی اقتدار‘ کے ساتھ ساتھ ’تشریعی اقتدار ‘بھی اﷲ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اسی کو توحید تشریع یا توحید حاکمیت کہا جاسکتا ہے۔ جو ہستی آسمانوں پر حکمرانی کر رہی ہے ، صرف اُسی کو ہی اِس کرۂ ارض پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔

ہمارے دور میں‘ جب کہ جمہوریت اور سیکولرزم کی صدائیں ہر طرف بلند ہو رہی ہیں اور اسلامی عقائد اور اسلامی ثقافت و تہذیب پر تابڑ توڑ حملے مسلسل کیے جارہے ہیں ، ہر پڑھے لکھے مسلمان کے لیے لازمی اور ضروری ہوگیا ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی (توحیدِ تشریع) کے عقیدے کو  ٹھیک ٹھیک سمجھے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کو صرف خالق ہی نہیں‘ بلکہ رب بھی تسلیم کیا جائے۔ خالق و رب ہی نہیں‘ بلکہ اُسے حاکم اور شارع بھی تسلیم کیا جائے۔ بحیثیت حاکم اور بحیثیت شارع نہ صرف اُس کی تکوینی حاکمیت تسلیم کی جائے بلکہ تشریعی حاکمیت کو بھی مانا جائے۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ وہ اِسلام کو عیسائیت کی طرح چرچ اور مسجد میں محدود کر دے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے مطابق دنیا میں کہیں کوئی حکومتِ الٰہیہ قائم ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک میں عدالتی نظام قائم ہو۔ وہ تو چاہتا ہے کہ سُود پر مشتمل معاشی نظام کو مسلمان ردّ نہ کر دیں اور غیر سودی نظامِ معیشت کو اپنے اپنے ملکوں میں رائج اور نافذ کریں۔

مغربی جمہوریت ، ایک مادر پدر آزاد جمہوریت ہے، جو کسی روحانی اور اَخلاقی حدود و قیود کی پابند نہیں۔ اس میں عوام کو اور عوام کے منتخب نمایندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کرسکیں۔ اسلام ایسی آزاد جمہوریت کا قائل نہیں۔ جمہوریت میں عوام الناس کی رائے کو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے ، یا عوام کے منتخب نمایندوں کی رائے کو پارلیمنٹ میں دیکھا جاتا ہے۔

دستورِ پاکستان میں قراردادِ مقاصد کے ذریعے حاکمیتِ الٰہیہ کو تسلیم کیا گیا ہے‘ اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے اِسے دستور کا ایک مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر اُس قانون کا جائزہ لے ، جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ یہ چیز مغرب کی نگاہ میں بری طرح کھٹکتی ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی یہ کوشش ہے کہ اِس دستور کو ترکی کی طرح سیکولر بنا دیا جائے۔

حاکمیت الٰھی اور سیکولرزم

سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت یا لادینیت نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ سیکولرزم مذہب کو گھر ، مسجد اور عبادت خانوں  تک محدود کر دیتا ہے۔ سیکولرزم کا توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اُلوہیت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ، لیکن وہ توحیدِ تشریع‘ یعنی حاکمیت الٰہی کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام اور سیکولرزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

سیکولرزم یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں اسلامی سزائیں (حدود) نافذ ہوں۔ سود پر پابندی ہو ، موسیقی اور رقص پر پابندی ہو ، عریانی اور فحاشی پر پابندی ہو ، البتہ سیکولرزم عبادات کی اجازت دیتا ہے ، چنانچہ وہ تصوف کو پروان چڑھاتا ہے جس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ مغرب کی سیکولر دنیا کے نزدیک تصوف ایک ایسا فلسفہ ہے ، جس سے اُن کے سیاسی اور مالی مفادات پر زد نہیں پڑتی اور وہ تصوف کے ساتھ پُرامن بقاے باہمی کے اُصولوں پر کار بند رہ سکتی ہے۔ اس کے برخلاف سیکولرزم کی اسلامی شریعت (Islamic Law) سے ازلی دشمنی ہے۔ سیکولرزم کے نقطۂ نظر سے فوج داری قوانین ، معاشی قوانین ، عائلی قوانین وغیرہ میں ، خدا اور مذہب کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان تمام امور میں عوام کی رائے ، اُن کی خواہشاتِ نفس اور اُن کے نمایندوں کی رائے ہی حاکمِ اعلیٰ ہے۔

ہر مسلمان پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جس اللہ نے ہمیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اُسی نے چورکا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں روزوں اور حج کا حکم دیا ہے ، اُسی نے امیروں سے زکوٰۃ وصول کرنے‘ غیر شادی شدہ زانی مرد و خواتین کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ زانی مرد وخواتین کو رجم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں سچ بولنے کا اور امانتوں کا پاس و لحاظ کرنے کا حکم دیا ہے ، اُسی نے ہمیں وصیت اور وراثت کے احکام دیے ہیں۔ اُسی نے سود ، فحاشی ، عریانی اور زنا کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے بعض کو قبول کر کے ، بعض کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسلام کو صرف ذاتی اعمال تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ اسلام ایک نظامِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ شارع ہے ، وہ عبادات کا بھی حکم دیتا ہے اور معاشرتی قوانین کا بھی، وہ معاشی قوانین کا بھی حکم دیتا ہے اور اَخلاقیات کی تعلیم بھی۔ وہ ایک مضبوط اجتماعیت پر مبنی ریاست (state) کا حکم بھی دیتا ہے ، جہاں اسلام کا نظامِ عدل رائج ہو۔

توحیدِ حاکمیت

حکمرانی ، اقتدار اور بادشاہت ، اللہ ہی کی ہے ، جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اِس حقیقت کا نام ’توحیدِ ملوکیت ‘ ہے۔ اِسی کا دوسرا نام ’توحیدِ حاکمیت‘ ہے۔درج ذیل آیات پر غور کیجیے:

لَـہُ الْمُلْکُ  لَآ  اِلٰـہَ اِلَّا  ھُوَ ج (الزمر ۳۹: ۶) بادشاہی اسی کی ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔

لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔

وَلَـمْ  یَـکُنْ  لَّـہٗ  شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان ۲۵:۲) بادشاہی میں اُس کا کوئی شریک نہیں (وہ تنہا حکومت کر رہا ہے)۔

بِیَدِہٖ  مَـلَـکُوْتُ  کُلِّ  شَیْئٍ (یٰٓس ۳۶:۸۳) ہر چیزکی بادشاہی ، اسی کے ہاتھ میں ہے۔

مَلِکِ  النَّاسِ o (الناس ۱۱۴:۲) انسانوں کا بادشاہ ہے۔

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo (الشورٰی ۴۲:۴۹) زمین اور آسمانوں کی بادشاہی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔

خیال رہے کہ زمین کی بادشاہت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ فرعونوں ، نمرودوں اور بالادست ریاستوں کے حکمرانوں کو سوپر پاور سمجھنا شرک فی الملوکیت ہے۔ کمزور مسلمان ، کافروں کی قوت سے مرعوب ہو جاتے ہیں ، لیکن اللہ نے ہمیں قرآن میں حکم دیا ہے کہ:

لَا یَـغُـرَّنَّـکَ تَـقَـلُّبُ الَّذِینَ کَـفَرُوْا فِـی الْبِلاَدِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶) دنیا کے ملکوں میں ، خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت ، تمھیں کسی دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔

ہمارے زمانے میں بھی ، جب کمزور مسلمان امریکہ کی عراق پر ، اور روس کی شیشان کے شہر گروزنی پر بمباری ، تسلّط اور مسلمانوں کی مسکینی ، بدحالی ، شکست خوردگی، بے بسی اور لاچاری کے مناظر کو اخبارات میں پڑھتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو ان بڑی طاقتوں کے جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر اُمّتِ مسلمہ کے مستقبل سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے وہ شیر ، جن کی نگاہوں میں اﷲ کی قوت ، طاقت ، اقتدار ، بادشاہی اور ملوکیت سمائی رہتی ہے ، دنیا کی طاقتوں کو تنکے سے بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ خود کو اﷲ کی فوج کا سپاہی سمجھ کر باطل کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ اﷲ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اﷲ ہی کو تنہا صاحبِ اقتدار سمجھتے ہیں۔ اُسی سے ڈرتے ہیں۔ یہی توحیدِ حاکمیت یا توحیدِ ملوکیت ہے۔

توحیدِ تشریع ، توحیدِ حاکمیت کے حوالے سے ، درج ذیل نکات پر مشتمل قرآنی آیات پر غور کیجیے:

خالق ھی کو حکم و امر کا حق حاصل ھے

اَلَالَـہُ  الْخَلْقُ  وَالْاَمْرُ ط تَبٰـرَکَ  اللّٰہُ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَ o (الاعراف ۷:۵۴) سن لو ! اُسی کی ’ خلق‘ ہے اور اسی کا ’اَمر‘ ہے ، بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

اِس آیت سے معلوم ہوا کہ خالق ہی کو‘ حاکم و آمر ہونے کا حق حاصل ہے۔

بَلْ لِّـلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْـعًا ط(الرعد ۱۳:۳۱) بلکہ سارا اَمرو اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

یُـدَبِّـرُ الْاَمْرَ ط (یونس ۱۰:۳) (اللہ ہی) کائنات کا انتظام چلا رہا ہے (اَوامر اور اَحکامات کی تدبیر کر رہا ہے)۔

یَـتَـنَـزَّلُ الْاَمْرُ بَـیْـنَـھُنَّ لِتَـعْـلَمُوْٓا  اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لا (الطلاق ۶۵:۱۲) ان (زمین اور آسمانوں ) کے درمیان ’حکم‘ نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی خالق بھی ہے اور حاکم بھی۔ اللہ ایسا حاکم ہے ، جس کے ہاتھ میں سارے اختیارات ہیں۔اللہ ہی مدبّر ہستی ہے۔ وہ ایسا مدبّر ہے ، جو اپنی حکمت اور دانائی کو اپنی قدرت اور طاقت سے دنیا میں نافذ کر کے رہتا ہے۔

اِسی لیے اُسے بہترین حاکم خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ اور اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ کہا گیا۔

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المآئدۃ۵:۴۴) اور جو لو گ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔

(قرآن میں دوسری جگہ ایسے لوگوں کو فاسق اور ظالم بھی کہا گیا ہے۔)

اِنِ  الْحُکْمُ  اِلَّا  لِلّٰہِ ط (الانعام ۶:۵۷) فیصلے (حکم) کا سارا اختیار ، اللہ ہی کو ہے۔

اَلَالَہُ الْحُکْمُ قف وَ ھُوَ اَسْرَعُ الحٰسِبِیْنَ (الانعام ۶:۶۲) خبردار ہو جائو ! فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ اور وہ حساب لینے میںبہت تیز ہے۔

مندرجہ بالا آیات میں مشرکینِ مکہ کے خود ساختہ قوانینِ حلال و حرام کا اِبطال بھی کیا گیا ہے۔   سورئہ شوریٰ میں ، اللہ تعالیٰ نے اِن سے سوال کیا ہے:

اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَـا لَـمْ یَـاْذَنْ بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱) کیا ان کے کچھ شریک خدا ہیں ، جنھوں نے ان کے لیے وہ دین ٹھیرایا ہے ، جس کا اذن اللہ نے نہیں دیا۔

سورئہ شوریٰ کی اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱- مشرکین مکہ کا عقیدہ تھا کہ شرکاء  (یعنی الِھۃ ، غیرُ اللّٰہ اور مِن دُونِ اللّٰہ) نے دین کی شریعت سازی کی ہے۔

۲-مشرکینِ مکہ کے اس عقیدے اور اس شریعت کی اللہ تعالیٰ نے ہرگز اجازت نہیں دی۔

۳- الدین سے مُراد ، محکومیت ، اِطاعت ، سپردگی اور بندگی ہے ، جس میں اِسلام کے سارے احکام بھی شامل ہوتے ہیں ، اور اِس جنس کی ساری دیگر چیزیں بھی۔

۴- شَرَعُوْا لَھُمْ ’’ اُن کے لیے قانون سازی کی ‘‘ سے مُراد ، حلال و حرام کے احکام اور وہ دیگر تمام احکام ہیں ، جو احکامِ الٰہی سے متصادم ہوتے ہیں۔

وَھُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ز وَلَـہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o (القصص ۲۸:۷۰) اور وہ اللہ ہی ہے، جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ، دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے تعریف ہے۔ حکم دینا ، اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے۔

بھترین حاکم

اللہ تعالیٰ نہ صرف حاکم ہے ، بلکہ خَیْرُ الْحَاکِمِیْن ہے ، اَحکمُ الْحَاکِمِیْن ہے۔ وہ  خَیْرُ الْفَاصِلِین ہے۔ فرمایا گیا :

وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ o (الاعراف ۷:۸۷) اور وہی (اللہ) سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

اَلَـیْسَ  اللّٰہُ  بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o (التین ۹۵:۸) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟

حتمی فیصلہ

دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ بعض عدالتیں ماتحت ہوتی ہیں اور اُن کے اوپر بڑی عدالتیں ہوتی ہیں جنھیں ہم سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کہتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو بڑی عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا آخری حاکم ہے ، جس کے فیصلوں کے بعد کوئی اُن میں ترمیم نہیں کر سکتا‘ اِضافہ نہیں کر سکتا اور نظرثانی نہیں کر سکتا۔ وہ آخری اتھارٹی ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مقدمات کئی کئی سالوں تک لٹکتے رہتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فی الفور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ فرمایا گیا:

وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَـقِّبَ لِحُکْمِہٖ ط وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (الرعد ۱۳:۴۱) اللہ حکومت کر رہا ہے ، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

بھترین فیصلہ کرنے والا

وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّـقَوْمٍ یُّـوْقِـنُـوْنَo (المآئدۃ ۵:۵۰) اللہ پر یقین رکھنے والوں کے نزدیک ، اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟

مشورے سے بے نیاز

دنیا کی عدالتوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ جج ہوتے ہیں اور جیوری کے کئی ممبر ہوتے ہیں ، جج آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ بعض اوقات فیصلے متفقہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت اِن سب سے مختلف ہے۔ اُس کے فیصلے تمام تر عدل پر مبنی ہوتے ہیں ، جس میں غلطی کا کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ اُس کی شہادت مکمل ہوتی ہے۔ اُس کا علم ہر چیز پر محیط ہوتا ہے۔ وہ نیتوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ اُسے اپنی حکومت میں اور اپنے احکامِ حکومت میں نہ کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے فیصلوں میں شریک کرتا ہے۔ یہی بات سورۃ الکھف میں بیان کی گئی ہے:

وَلَا  یُشْرِکُ  فِیْ  حُکْمِـہٖٓ  اَحَدًا o (الکھف ۱۸:۲۶) اور وہ اپنی حکومت اور اپنے احکامِ حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

معلوم ہوا کہ وہ اپنے حکم و اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا ، کیونکہ وہ خود علیم و حکیم ہے ، اُسے کسی اور سے مشورے کی حاجت نہیں۔

حاکمِ مطلق

اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ مطلق ہے۔ وہ کسی کے دبائو میں نہیں ہے‘ نہ وہ کسی کے ڈر سے عدل و انصاف کا خون کرتا ہے‘ اور نہ کسی کی محبت اور مروّت میں ظلم پر مبنی فیصلہ کرتا ہے۔ دنیا کی عدالتوں پر اور عدالتوں کے فیصلوں پر ظالم حکمرانوں اور دیگر لوگوں کا دبائو ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ عدل سے اِنحراف کرتی ہیں۔ لیکن یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں۔ فرمایا گیا:

اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْـدُ o (المآئدۃ ۵:۱) یقینا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔

اصل شارع اور قانون ساز

صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل شارع ہے۔ صرف اُسی کے فیصلے حق پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور وہی ایک ہستی ایسی ہے ، جو ۱۰۰ فی صد صحیح فیصلے کر سکتی ہے۔قرآن کہتا ہے:

اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ط یَـقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَـیْـرُ الْفٰصِلِیْـنَ o (الانعام ۶:۵۷) نہیں ہے کسی اور کا فیصلہ اور قانون ، مگر اللہ کا (یعنی فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے) ، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَـعْـبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُط (یوسف ۱۲:۴۰) فرماںروائی اور اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ، اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا ، تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو!

تکوینی اور تشریعی حاکمیت

زمین و آسمان میں اُسی کی حکومت ہے‘ یعنی تکوینی حکومت بھی اُسی کی ہے اور تشریعی حکومت بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ جبری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہے اور اِختیاری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہونی چاہیے۔ تکوینی حکومت بھی ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور اُس کی شریعت بھی عیب سے پاک ہے۔ چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے ، اسی لیے ہر دو دائروں میں اس کے احکام کامل علم اور کامل حکمت پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ اس نکتے کو سورۃ الزخرف میں کھولا گیا ہے:

وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّ فِـیْ الْاَرْضِ اِلٰـہٌ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ o (الزخرف ۴۳:۸۴) وہی ایک ، آسمان میں بھی اِلٰہ ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ ، اور وہی حکیم و علیم ہے۔

  •  تکوینی حاکمیت کی مثالیں: کون و مکان میں اُسی کی حکومت ہے۔ سورج اور چاند اُسی کے حکم سے گردش کرتے ہیں۔ کائنات کے اندر توازن اُسی کا قائم کردہ ہے۔ ہمارے اپنے جسم میں ہمارا اپنا دل ، اُسی کے حکم سے دھڑکتا ہے۔ دل کی دھڑکن پر خود ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہمارے بال اور ناخن ہم سے پوچھ کر نہیں بڑھتے۔ یہ اُس کی تکوینی اور جبری حکومت کی مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں ہمیں اِس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں:

وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۷) آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔

  •  تشریعی حاکمیت کی مثالیں: اللہ نے اِنسان کو آزادیِ اختیار عطا کی ہے اور پھر اُسے اپنے تشریعی احکام بھی عطا کیے ہیں اور اِنسان کو حکم دیا ہے کہ اِس اختیاری دائرے میں بھی ہم اُس کی شریعت پر عمل کریں۔ چنانچہ کہا گیا :

وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۹) انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تو لو ! اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو !

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ص (النور ۲۴:۲) زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو!

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ  فَاقْطَعُوْآ  اَیْدِیَھُمَا (المآئدۃ۵:۳۸) اور چور خواہ عورت ہو یا مرد ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو !

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْـقِصَاصُ فِی الـْقَتْلٰی ط اَلـْحُرُّ بِالْـحُرِّ وَالْـعَبْدُ بِالْـعَبْدِ  وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط (البقرۃ ۲:۱۷۸) تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں ، قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے ، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط (البقرۃ ۲:۲۷۵) حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔

معلوم ہوا کہ سود کی حرمت ، جان کے بدلے جان کے قصاص کا حکم ، چوروں اور زنا کرنے والوں کی سزائیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ سب اُسی کا تشریعی قانون ہے۔

رسولؐ بہی شریعت کے تابع

شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی عطا کردہ شریعت و قانون کے مطابق‘ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمایا گیا:

وَ اِنْ حَکَمْتَ فَـاحْکُمْ  بَـیْـنَھُمْ  بِالْقِسْطِ ط (المآئدۃ ۵: ۴۲) اور (اے نبیؐ !)  فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو!

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَـیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْـعَـدْلِط (النسآء ۴: ۵۸) اور (اے مسلمانو! ) جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو!

نزولِ قرآن کا مقصد

قرآنِ مجید میں نازل کردہ وحیِ جلی اور اَحادیث میں بیان کردہ وحیِ خفی ، دونوں کے نزول کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ علیم و حکیم عادل اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دنیاوی فیصلے کیے جائیں۔ کہا گیا :

اِنَّـآ اَنْـزَلْـنَــآ اِلَـیْکَ  الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِـتَحْکُمَ بَـیْنَ  النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط (النسآء ۴: ۱۰۵) اے نبیؐ ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے، تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو!

احکامِ شریعت سے پھلوتھی

سچے اور مخلص مسلمان اللہ تعالیٰ کو شارع مان کر ، اُس کی شریعت کے قوانین کے مطابق ہی سارے فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے تمام اِختلافی معاملات کو قرآن و سنت کی طرف پھیرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف ، منافقین اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے فیصلوں سے پہلوتہی کرتے ہیں اور    جی چراتے ہیں۔ سورۂ آل عمران میں منافقین کی اِس روش پر روشنی ڈالی گئی ہے:

یُدْعَوْنَ  اِلٰی  کِتٰبِ اللّٰہِ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ ثُـمَّ  یَـتَـوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّـنْـھُمْ (اٰلِ عمرٰن ۳: ۲۳) اُنھیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے ، تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے ، تو ان میں سے ایک فریق اِس سے پہلو تہی کرتا ہے۔

احکامِ الٰھی کے نفاذ میں رکاوٹ

سچے اور مخلص مسلمانوں ، ججوں اور حکمرانوں پر ، ہمیشہ اہلِ باطل کا دبائو ہوتا ہے کہ وہ    اہلِ باطل کی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں اور اللہ کے قانون کو پسِ پشت ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی واضح طور پر حکم دیا کہ وہ مَا اَنْـزَلَ اللّٰہُ کے مطابق فیصلے کریں‘ اور لوگوں کی خواہشات (اَھْوَآئَ ھُمْ)کی پیروی نہ کریں۔ معلوم ہوا کہ تحکیمِ اِلٰہی کے راستے میں ، اہلِ باطل کی خواہشاتِ نفسانی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

وَاَنِ احْکُمْ بَـیْـنَھُمْ  بِمَآ  اَنْـزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَـتَّبِعْ  اَھْوَآئَ ھُمْ (المآئدۃ ۵:۴۹) اے نبی ؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ، اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو! اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔

فَاحْکُمْ بَـیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَـتَّبِعِ الْھَوٰی (صٓ ۳۸:۲۶) لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر ! اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر!

مسلمانوں کا شعار سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا

منافقین کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ، سچے اور مخلص مسلمان ، اللہ تعالیٰ کی شریعت کے فیصلوں کو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا  کہہ کر قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا:

اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِـہٖ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ اَنْ یَّـقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط (النور ۲۴:۵۱) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں ، تاکہ رسول ؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔

کیا قانونِ جاھلیت کے طالب ھو!

ہمارے حکیم خالق نے ، ہماری بھلائی کے لیے ، قرآن و سنت میں ، حکمت پر مبنی احکام  عطا فرمائے ہیں۔ اِن حکیمانہ احکام و قوانین سے ہٹ کر جو لوگ فیصلہ چاہتے ہیں وہ گویا جاہلیت کے قوانین اور ایامِ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں۔ یہی وہ سوال ہے ، جو  سورئہ مائدہ میں اُٹھایا گیاہے۔ حُکْمُ اللّٰہ کے مقابلے میں حُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃ ہوتا ہے ، جو باپ دادا کی رسومات اور بدعات پر مشتمل ہوتا ہے۔

اَفَحُکْمَ  الْجَاہِلِـیَّـۃِ  یَـبْـغُوْنَط (المآئدۃ ۵:۵۰) تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟

منافقین کی روش

اپنے وقت کی ظالم و جابر ، سرکش و متکبر ، بے لگام قوتیں ، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے ، مخلص مسلمانوں پر اپنے ظالم قوانین مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، لیکن سچے مسلمان ، طاغوت کی عدالت کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور وہ اپنے تمام اِختلافی معاملات کے لیے  مَا اَنْزَلَ اللّٰہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف منافقین ، اپنے دنیاوی فائدوں کے لیے اپنے معاملات کے فیصلوں کے لیے طاغوتی عدالتوں سے فریاد کرتے ہیں۔ فرمایا گیا :

یُرِیْـدُوْنَ  اَنْ  یَّـتَحَاکَمُوْٓا  اِلَی الطَّاغُوْتِ  وَقَـدْ  اُمِرُوْٓا  اَنْ  یَّـکْـفُرُوْا  بِـہٖط (النسآء۴:۶۰) مگر (یہ منافقین ) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے ’طاغوت کی طرف‘ رجوع کریں ، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہاں غیر اسلامی قوانین اور غیر اسلامی عدالتوں کو طاغوت کہا گیا ہے ، جو اللہ کے نازل کردہ احکام سے متصادم ہوتی ہیں۔

غَیْرُ اللّٰہ کی اطاعت کی ممانعت

ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو حَکَم، یعنی جج تسلیم کرے ، جب کہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے نازل کردہ تفصیلی کتاب موجود ہے۔ چنانچہ خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ سوال کرایا گیا :

اَفَغَیْرَ  اللّٰہِ  اَبْـتَـغِیْ  حَکَمًا  وَّھُوَ  الَّذِیْٓ اَنْـزَلَ اِلَـیْـکُمُ الْـکِتٰبَ  مُفَصَّلًا ط (الانعام ۶: ۱۱۴) تو کیا میں اللہ کے سوا ، کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ؟ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمھاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟

قانون سازی کی بنیاد

سورۂ ممتحنہ میں دارالاسلام کی شہریت کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ دارُ الکفر اور دارُالاسلام میں مقیم افراد کے حق مہرکے تبادلے کے احکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ہجرت کرنے والی خواتین کو جانچنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اِن نئی مہاجرات میں کوئی جاسوس ہو۔ ان تمام احکام کو اللہ کا حکم (حُکْمُ اللّٰہ)کہا گیا۔ یہ سارے قوانین اللہ کے علم اور اللہ کی حکمت و دانائی پر مبنی ہیں۔ اِن قوانین کا مقصد بھی اِسلامی ریاست کو مضبوط کرنا اور مسلمانوں کے اِجتماعی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَـیْـنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo (الممتحنۃ ۶۰:۱۰) یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ریاست اور شہریت کے قوانین بھی توحیدِ حاکمیت‘ یعنی تشریع کا حصہ ہیں۔

اللّٰہ کے قوانین کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے

سورئہ مائدہ میں مَا اَنْـزَلَ اللّٰہکے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو الْکَافِرُوْن اور الظَّالِمُوْن اور الْفَاسِقُوْن کہا گیا ہے۔ فرمایا گیا :

وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ  بِمَآ اَنْـزَلَ  اللّٰہُ  فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ o (المآئدۃ ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔

وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ o (۵:۴۵)

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں۔

وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ  اللّٰہُ  فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ o (۵:۴۷)

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی فاسق و گناہ گار ہیں۔

حلال و حرام کا تعیّن

چیزوں کو حلال یا حرام کرنا بھی ، اللہ تعالیٰ کا تشریعی اختیار ہے ، چنانچہ فرمایا گیا:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط (النحل ۱۶:۱۱۶) اور یہ جو تمھاری زبانیں ، جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر ، اللہ پر جھوٹ نہ باندھو!

اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۶) جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں ، وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔

قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّـنْـہُ حَرَاماً وَّ حَلٰلاً ط قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَo (یونس ۱۰: ۵۹) اے نبی ؐ ! ان سے کہیے ! تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمھارے لیے اتارا تھا ، اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرالیا۔ ان سے پوچھیے ! اللہ نے کیا تم کو اس کی اجازت دی تھی ؟

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج(التحریم ۶۶:۱) اے نبی ؐ ! آپؐ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں ، جو اللہ نے آپؐ کے لیے حلال کی ہے؟

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط (المآئدۃ ۵:۸۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جو پاک چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں ، انھیں حرام نہ کر لو‘ اور حد سے تجاوز نہ کرو۔

مشرکینِ مکہ کا شِرک فی التشریع

مشرکینِ مکہ توحیدِ خالقیت اور توحیدِ ربوبیت کے قائل تھے ، لیکن توحیدِ اُلُوہیت اور  توحیدِ حاکمیت یعنی توحیدِ تشریع کے منکر تھے۔ سورئہ انعام میں ان کے شِرک فی التشریع کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کے عین برعکس توحید فی التشریع کی وضاحت کی ہے۔

مشرکینِ مکہ کے شرک فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:

۱-مشرکینِ مکہ اپنی کھیتیوں اور اپنے چوپایوں میں اللہ کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے اور اپنے دیگرشرکا کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے۔(الانعام ۶:۱۳۶)

۲- بعض مویشیوں اور بعض کھیتیوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ممنوع ہیں۔ (۶:۱۳۸)

۳-بعض چوپایوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سواری حرام ہے اور بعض پر یہ اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ (۶: ۱۳۸)

۴- بعض جانوروں کے پیٹ میں پائے جانے والے (زندہ) بچوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ صرف اُن کے مردوں کے لیے حلال ہیں اور عورتوں کے لیے حرام ہیں ، البتہ اگر یہ بچہ مُردہ پیدا ہوتا تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے حلال ہو جاتا۔

توحید فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:

۱- اُن جانوروں کا گوشت جائز ہے ، جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (۶:۱۱۸)

۲-اُن جانوروں کا گوشت ناجائز بھی ہے اور فسق بھی ، جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ (۶:۱۲۱)

۳- مُردار ، بہتا خون ، سور کا گوشت اور وہ جانور ، جو غَیرُ اللّٰہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو‘ کے سوا وحی میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ (۶:۱۴۵)

۴- شرک ، والدین کی نافرمانی ، اولاد کا قتل ، ظاہری اور باطنی فحاشی ، اور قتلِ نفس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھیرایا ہے۔ (۶:۱۵۱)

شریعت ساز اور قانون ساز

مندرجہ ذیل آیت پر غور کیجیے اور اَرباب، یَعْـبُدُوا اور اِلٰہ کے الفاظ پر خصوصی توجہ فرمائیے:

اِتَّخَذُوْٓا اَ حْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَطسُبْحٰنَہُ (التوبۃ ۹:۳۱)

انھوں نے (یعنی یہودیوں نے) ا پنے علما اور درویشوں کو ، اللہ کے سوا ، اپنا رَب بنا لیا ہے ا ور اسی طرح (عیسائیوں نے ) مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک ’معبود‘ کے سوا کسی کی ’عبادت‘ (بندگی) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ، وہ جس کے سوا ، کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے‘ بے عیب پاک ہستی ہے۔

اس آیت میں‘ علما اور درویشوں کی عبادت سے مراد، ان کی اطاعت ہے۔ قرآن و سنت کے مقابلے میں ، علما ، صوفیا، تارکُ الدّنیا فقرا (رُھبان) اور گوشہ نشینوں کے ارشادات کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا، شِرک فی الحکم ہے۔ قرآن و سنت کے حلال وحرام کے اُصولوں کو ترک کر کے ، اَحبار (علما) اور رُھبان (راہب صوفیا) کے تصنیف کردہ حلال و حرام کوماننا بھی شرک ہے اور اُن کو  اَرباب بنانے کے مترادف ہے ، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں نبی کریم ؐ نے حضرت عدی ؓ بن حاتم سے وضاحت فرمائی۔

اجتھاد کے ذریعے قانون سازی

فقہاے امت ، علماے کرام اور ماہرینِ قانونِ شریعتِ اِسلامی ، ذیلی اور فروعی امور میں ، قرآن و سنت کے سائے تلے ، نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کر سکتے ہیں۔ لیکن اجتہاد کے صحیح ہونے کے لیے تین شرائط ضروری ہیں:

۱- اجتہاد کسی نصِ قرآنی کے خلاف نہ ہو۔

۲- اجتہاد کسی حدیثِ متواتر اور حدیثِ صحیح کے خلاف نہ ہو۔

۳- اجتہاد اجماعِ امت کے خلاف نہ ہو۔

مغربی جمھوریت اور تشریعی توحید

عوام کے بااعتماد نمایندوں کے ذریعے نظامِ سلطنت کو چلانا جمہوریت ہے۔ اسلام اس کا مخالف نہیں۔ ظاہر ہے خلفاے راشدین ؓ بھی صحابہ کرام ؓ کے بااعتماد نمایندے تھے اور انھوں نے بلاجبرو اِکراہ ‘ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، لیکن ’ مغربی جمہوریت ‘ ایک بالکل مختلف چیز ہے۔

مغربی جمہوریت کی رو سے ، عوام کے با اعتماد نمایندوں کی اکثریت کو پارلیمنٹ یا اسمبلی میں خدائی قانون اور تشریعی قوانین میں تغیر و تبدل کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ   شرک فی التشریع ہے۔ اسلام پارلیمنٹ کی ایسی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ البتہ اگر پارلیمنٹ ، خدائی قانون اور تشریعی قوانین کے ماتحت رہ کر ، فروعی معاملات میں مندرجہ بالا تین شرائط کے مطابق قانون سازی کرے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

 

جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کی آمد پہلی صدی ہجری ہی میں ہو گئی تھی۔ محمد بن قاسم دورِ اموی (۴۰ - ۱۳۲ئ) ہی کی یادگار تھے۔ غزنوی، غوری اور خلجی ادوار میں صوفیاے کرام نے دعوت و تبلیغ کی شمع روشن کیے رکھی، جن کی کوششوں سے ہزاروں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ سولھویں صدی عیسوی (۹۳۱ھ) میں مغلیہ دور بادشاہت کا آغاز ہوا، لیکن اپنی اٹھان کے ساتھ ہی دین الٰہی کے فتنے سے دوچار ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کے مقابلے کے لیے ایک ہستی کا انتخاب کیا، جو تاریخ میں مجدد الف ثانی ؒ (۱۵۶۴ء - ۱۶۲۴ئ) کے نام سے مشہور ہے۔ اگر اس فتنے کا بروقت مقابلہ نہ کیا جاتا تو آج اس علاقے کے مسلمانوں کی شاید یہ صورت بھی نہ ہوتی اور وہ اپنے تشخص سے کلی طور پر محروم ہوجاتے۔ مجدد صاحب کے انتقال کے لگ بھگ ۸۰ سال بعد مغلیہ سلطنت کے دورِ زوال میں، کمال حاصل کرنے والی ایک اور ہستی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۷۰۳ء - ۱۷۶۳ئ) کی ذاتِ گرامی تھی۔

شاہ ولی ؒاللہ ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ان کے ٹھیک ۲۰۰سال بعد ۱۹۰۳ء میں‘ آج سے ٹھیک ۱۰۰ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک اور ہستی کا انتخاب کیا، جس سے نئی دنیا اور نئے حالات میں تجدید و اقامت دین کا ایک منفرد کارنامہ مطلوب تھا۔ یہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی ذاتِ والا صفات تھی۔

مجددین کی تاریخ اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر نظر ڈالیے۔ معلوم ہوگا کہ اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انھیں راہ عمل اختیار کرنا پڑی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بن مروان بن حکم (۱۰۱ھ) کے پیشِ نظر اموی خلافت کی اصلاح تھی۔ ان سے پہلے خلافت کو ملوکیت سے بچانے کے لیے بعض متدین ہستیوں نے سیاسی محاذ پر اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھی، جن میں امام حسینؓ (۶۱ھ)، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (۷۳ھ) حضرت زید بن علی بن امام حسین بن علیؓ (۱۲۲ھ) اور حضرت محمدبن عبداللہ بن حسن بن امام حسن بن علی (۱۴۵ھ) المعروف بالنفس الزکیہ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں۔

  •  امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کے پیشِ نظر سوادِ اعظم اور سبیل المومنین سے ہٹ کر انتہا پسندانہ نظریات قائم کرنے والوں کے عقائد کی اصلاح اور ہٹ دھرموں کی ضد سے امت کو بچانا مقصود تھا، جسے فقہ الاکبر کا نام دیا گیا۔ اس زمانے کا عراق فتنوں اور شورشوں کا مرکز تھا۔ جہمیہ، قدریہ، جبریہ، خوارج، روافض، مرجہ ‘کن کن کا سدباب مطلوب نہ تھا۔
  •  امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) عباسی خلافت کی بے اعتدالیوں کے مقابلے میں سینہ سپر رہے، تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں۔
  •  امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کا مقابلہ نام نہاد ’عقل پرستوں‘ سے تھا، وہ دفاعِ سنت کے لیے اٹھے اور ناصرالسنہ کہلائے۔
  •  امام احمدؒ (۲۴۱ھ) کے زمانے تک معتزلہ، عباسی حکومت میں گہرا اثر و رسوخ حاصل کر چکے تھے۔ خلقِ قرآن کا فتنہ ان کی خام عقلیت ہی کا شاہکار تھا۔
  • اعتزال کے تابوت میں آخری اور پائے دار کیل ٹھونکنے اور امتِ مسلمہ کو سنت کی شاہراہ پر استوار رکھنے کا رنامہ محدثین کے حصے میں آیا۔ یہ بلند پایہ ہستیاں امام بخاریؒ (۲۵۶ھ)، امام مسلمؒ (۲۶۱ھ)، امام احمدؒ (۲۴۱ھ) ، امام اسحٰق بن راہویہؒ (۲۳۸ھ)، امام دارمیؒ (۲۵۵ھ)، امام ابن ماجہؒ (۲۷۳ھ)، امام ابودائودؒ (۲۷۵ھ)، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ)، امام نسائی  ؒ(۳۰۳ھ)، امام ابن خزیمہؒ (۳۱۱ھ)، اما م طبری ؒ(۳۱۰ھ)، امام دار قطنیؒ (۳۸۵ھ)، امام طبرانی ؒ (۳۶۰ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) اور خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ) وغیرہ کی ہیں۔
  •  امام غزالی ؒ (۵۰۵ھ) کا بنیادی کام یونانی فلسفے کا ابطال، قوانین اخلاق کی وسیع پیمانے پر تہذیب و اشاعت اور اجتہاد کے دروازے کو دوبارہ کھولنا تھا، جو چوتھی صدی ہجری کے بعد تقلیدِ شخصی کی پابندیوں کے غوغاے رستا خیز کی نذر ہو چکا تھا۔
  • امام ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) کا دور: فتنۂ تاتار، عقیدہ وحدۃالوجود، منصوریت اور باطنیت سے عبارت تھا۔ امام صاحب نے اپنے نقلی اور عقلی دلائل سے ایک ایک فتنے کا ابطال کیا۔ قرآن و سنت پر ان کی نظر زیادہ عمیق تھی۔ امام تیمیہؒ بنیادی طور پر حنبلی تھے، لیکن کتاب وسنت پر کامل عبور اور خدا داد تفقہ اور شعور نے انھیں مجتہد مطلق کے مقام پر فائز کر دیا۔ یہ نہ صرف عالم تھے بلکہ راہِ حق میں سخت قربانیاں دینے کے لیے ہر دم تیار مجاہد بھی تھے۔
  •  حافظ ابن حجر ؒعسقلانی (۸۵۲ھ) نے علم حدیث کے میدان میں وہ عظیم الشان علمی سرمایہ چھوڑ ا کہ بالاتفاق امیر المومنین فی الحدیث کہلائے۔
  •  جلال الدین السیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے تمام علوم و فنون پر بنیادی کتابیں تصنیف کیں۔

غرض یہ کہ تشریح، تفہیم ‘تعبیر اور تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ان شاء اﷲ جاری رہے گا۔

شاہ ولی ؒاللہ صاحب کی ولادت کے تین سال بعد ہی اورنگ زیب عالم گیر کا ۱۷۰۷ء میں انتقال ہوگیا۔ شاہ صاحب نے مغلیہ دور کی یہ سات حکومتیں دیکھیں: ۱- بہادر شاہ اول، جو شیعہ ہو چکے تھے۔ ۲- جہاندار شاہ، ۳- فرخ سیئر، ۴۔ محمد شاہ رنگیلے کا ۲۹ سالہ دور، ۵۔ احمد شاہ، ۶- عالم گیر ثانی اور، ۷۔شاہ عالم ثانی کا دور۔

برعظیم پاک و ہند کے مسلمان، شاہ ولی ؒاللہ صاحب کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ آپ کی عالی ظرفی، آپ کا سیاسی شعور‘ احکام شریعت کی حکمتوں پر آپ کی نظر، مغلیہ دور کی خرابیوں کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ، علم حدیث سے بے پناہ شغف، فقہی مسائل میں اقرب الی الکتاب والسنہ کی جستجو، غرض بے پناہ پہلو ہیں، جن کی وجہ سے آپ بجا طور ’امام الہند‘ کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ شاہ صاحب کا انتقال ۱۷۶۳ء میں ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ولادت (۱۹۰۳ئ) تک یہ عرصہ ۱۴۰ سالوں پر محیط ہے۔

مولانا مودودیؒ کے کارناموں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ان ۱۴۰ سالوں میں مسلمان کس قسم کے حالات سے دوچار ہوتے رہے؟ اس اثنا میں کون سے اہم لوگ پیدا ہوئے؟ کون سی تحریکیں برپا ہوئیں اور کون سے رجحانات مسلم فکر پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہے؟

۱۷۶۴ء میں مسلمانوں نے انگریزوں سے شکست کھا کر معاہدہ کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا   اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا گیا۔ اکبر شاہ ثانی کا ۳۱ سالہ دور حکومت اور ان کے فرزند ارجمند بہادر شاہ ظفر کا ۲۰سالہ دور عملاً انگریزوں کی عمل داری سے عبارت ہے۔ ۱۸۵۷ء میں یہ رہی سہی حکومت بھی جاتی رہی اور تاجِ برطانیہ کو مکمل بالادستی حاصل ہو گئی اور اس کا ’وائس رائے‘ نظام حکومت چلانے لگا۔ ۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء کا یہ پُر آشوب ۹۰ سالہ دور اپنے اندر فتح و شکست، سپردگی و استقامت، محکومیت اور بیرونی تسلط کے خلاف جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد، مسلمانوں کی قیادت نے نئے حالات میں مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی۔ اس سے پہلے ۱۸۳۱ء میں سید احمد شہیدؒ بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی تحریک بھی سکھوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ٹھیک نو سال بعد ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ٹھیک ۹سال بعد ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ کے اداروں کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر یونی ورسٹی میں تبدیل ہو گئی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت کے نظریات دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘۷۰ سال میں اس تحریک نے عالمی اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کی فکر بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔

سرسید احمد خان کے جذبۂ تعمیر ملت کو سب نے سراہا، لیکن جب انھوں نے انیسویں صدی کے بعض خام سائنسی نظریات کی بنیاد پر صحیح اسناد پر مشتمل احادیث کا انکار کیا اور جنات اور ملائکہ کی  من مانی تاویل و تفسیر بیان کی تو علماے حق کی طرف سے ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سائنس اور جدید علوم سے مرعوبیت کی یہ ایک واضح علامت تھی۔

۱۸۹۴ء میں دارالعلوم ندوۃالعلما کا قیام عمل میں آیا۔ شبلی نعمانی  ؒاس کے روح رواں تھے۔ وہ علی گڑھ سے مایوس ہو کر اعظم گڑھ آ چکے تھے۔ شبلی نے تصنیف وتالیف و تحقیق کا نہ صرف خود اعلیٰ معیار قائم کیا، بلکہ لائق شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کر دی۔ دارالمصنفین کی کتابوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا۔ چنانچہ  سیرت البنیؐ، سیرت الصحابہ، سیرت الصحابیات، سیرت التابعین، سیرت الفقہا ، سیرت المحدثینوغیرہ  تصنیف کی گئیں۔ ان کتابوں نے لوگوں کو صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ابتدائی جذبوں کو سمجھنے اور بدعتوں سے دور رہنے کا پختہ سبق دیا۔

مولانا مودودی ؒنے ۷۶ سال کی عمر پائی اور ۱۹۷۹ء میں انتقال فرمایا۔ ان کی زندگی کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۰۳ء سے ۱۹۴۷ء کا ۴۴ سالہ دور‘ جو قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے پر مشتمل ہے‘ اور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۹ء کا ۳۷ سالہ دور جو قیام پاکستان کے بعد کے زمانے پر محیط ہے۔ پہلے دور میں انھوں نے علمی اور فکری محاذ پر زبردست جہاد کیا اور دوسرے دور میں علمی اور فکری میدان کے علاوہ عملی اور سیاسی میدان میں استقامت کے بلند مینار تعمیر کیے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انھیں قادیانی مسئلہ کی تصنیف پر موت کی سزا سنائی گئی، جس پر بوجوہ عمل در آمد نہ ہوسکا۔ انھیں اپنے مبنی برحق ہونے، رب سے ملاقات کرنے اور اس کی مرضی پر کامل شرح صدر تھا۔ شاعر نے یوں ہی نہیں کہہ دیا   ع

سزاے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا

مولانا مودودیؒ کی فکر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے تاریخِ اسلام، تاریخ تجدید، تاریخ اجتہاد اور تاریخ علوم اسلامی کے علاوہ اٹھارھویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران دنیا میں برپا ہونے والی دیگر تحریکوں کا مطالعہ ضروری ہوگا۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد کے یورپ اور نئی دنیا (امریکہ) کی آبادکاری اور اس کی مادی ترقی اور اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام اور پھر اس کے بعد مارکس اور اینگلز کے نظریات پر مبنی اشتراکی حکومتوں کی تاسیس، سیکولرزم، لبرلزم اور مالتھس کے نظریات کی روشنی میں تحدید نسل (Birth Control) کی تحریک اور عالمِ اسلام پر مغربی استعمار کے نتیجے میں اس کے مضراثرات کا جائزہ لیے بغیر مولانا کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہو گا۔

بڑی شخصیتیں روزروز نہیں پیدا ہوتیں۔ مولانا کی بعض کتابوں کے انگریزی تراجم کا دیباچہ خود مولانا نے راست انگریزی میں لکھا ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی تحریر کا ملکہ بھی انھیں حاصل تھا۔ خداداد ذہانت اور سخت محنت اور مسلسل جستجو نے ابوالاعلیٰ کو امامِ وقت بنا دیا۔

مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے خود مجھے بتایا کہ مولانا مودودی کی اسیری کے بعد جب انھیں قائم مقام امیر مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے مولانا کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کے میز کی دراز کھولی تو اس میں ایک مسودہ دیکھا۔ یہ سنن ابی داؤد کے مضامین کا اشاریہ (انڈکس) تھا، جس میں نہ جانے مولانا کو کتنا عرصہ لگا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج تک ایسی قیمتی چیزکی اشاعت کا مرحلہ نہیں آیا۔

مولانا مودودیؒ نہ صرف ذہین ہیں، بلکہ جفاکش بھی ہیں۔ ذہین لوگوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ نسبتاً کام چور ہوتے ہیں، لیکن جہاں ذہانت اور جفاکشی کا امتزاج ہو جائے، وہاں نورٌ علٰی نورکی کیفیت ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا کام نہ صرف انسائیکلوپیڈیائی قسم کا ہے، بلکہ قریباً ہر میدان میں وہ بلندیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ وہ مفسر ہیں، حدیث میں ان کی نگاہ عمیق ہے۔ متکلم ہیں، داعی اور مبلغ ہیں۔ مصلح ہیں، گہرا سماجی، سیاسی اور معاشی شعور رکھتے ہیں۔ وہ تجدید کے قائل ہیں، تجدد کے نہیں۔ وہ فقیہ ہیں، ان کی عقل، وحی پر مشتمل علم کی تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں امام شافعیؒ کی طرح استدلال کی قوت ہوتی ہے، لیکن اعتزال کے عیب سے پاک ہے۔ وہ مؤرخ بھی ہیں اور مزکی بھی۔ مولانا مودودیؒ نے اصولوں اور کلیات میں کہیں مداہنت اور چشم پوشی کا مظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کا شمار لاَ یَخَافُونَ لَوْ مَۃَ لاَ ئِمٍ میں ہے۔ وہ حق کے اظہار میں عوامی مقبولیت کے مجروح ہو جانے کی پروا تک نہیں کرتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو قرآن و سنت کی روشنی میں افراد، اشخاص، نظریات و رجحانات، اداروں اور تحریکوں کو جانچنے، پرکھنے اور تولنے کا تنقیدی شعور عطا کرتی ہیں۔ عقیدت اور احترام کا صحیح شعور فراہم کرتی ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفاداری کو اولین اہمیت دینے کا سبق سکھاتی ہیں۔ بزرگ اور نیک انسانوں کے درجات کا صحیح تعین کرتی ہیں۔ قرآنی حکم لاتَغْلُوا فِی دِیْنِکُمْ کے مطابق، اسے غلو سے بچاتی ہیں۔ نہ صرف مقابر پرستی، بلکہ اکابر پرستی سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی توحید بہت جامع ہے۔ ان کی تحریریں  توحید ذات، توحید اسماء و صفات، توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور تکوینی توحید کے علاوہ توحید حاکمیت اور تشریعی توحید راسخ کرتی ہیں۔ شریعت کی مستقل، پائے دار اور ابدی تعلیمات کو نئے زمانے اور نئے حالات پر منطبق کرنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔

  • تحریر میں ہم آہنگی:  مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں باہمی تناقض و تضاد کم سے کم پایا جاتا ہے۔ یہ دراصل اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ خود مصنف کے ذہن میں یہ بات کس حد تک واضح ہے۔ ایک بڑے عالم دین کی مثال پیش کرنا چاہوں گا، وہ جب بدعات کے خلاف لکھتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہندستان میں ابن تیمیہؒ کا قلم رواں ہو گیا ہے لیکن یہی بزرگ جب تصوف کی حمایت میں لکھتے تو ایک سے بڑھ کر ایک ضعیف حدیث لے آتے اور بعض اوقات خود اپنے لکھے ہوئے کے خلاف لکھ جاتے۔ یہ عیب ہر انسان میں ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا کلام ہی اس سے پاک ہے:  لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo (النساء ۴:۸۲) ’’اگر قرآن کسی غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے‘‘۔

حالات کی تبدیلی اور خیالات کی تبدیلی سے بھی ابتدائی تحریروں سے آخری زمانے کی تحریر مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا مودودی ؒکے ہا ں اس قسم کی چیزیں کم، بہت ہی کم ہیں اور بنیادی اصولوں میں تو بالکل نہیں ہیں، البتہ حکمت عملی میں ہیں جو ہر گز عیوب میں شمار نہیں کی جاسکتیں۔

  • مولانا مودودیؒ کا ترجمۂ قرآن: مولانا مودودیؒ کی ایک شاہکار چیز ان کا ترجمہ ہے، جسے وہ ’ترجمانی‘ کا نام دیتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒنے بھی بعد میں یہی انداز ِ ترجمانی اختیار کیا ہے۔ دونوں ترجموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لیجیے، کئی باتیں مشترک ملیں گی۔ دونوں نظم کا خیال رکھتے ہیں۔ دونوں پیراگراف کی تقسیم کے قائل ہیں۔ دونوں محذوفات کو (قوسین میں یا بلاقوسین  علی الترتیب) کھولتے ہیں۔ سلاست اور روانی میں مولانا مودودیؒ فائق ہیں‘ جب کہ مولانا اصلاحیؒ بعض اوقات عربی اور فارسی کے بعض غیر مانوس الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔

علماے ادب نے واؤ (و) کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں، جیسے عطفیہ، استنافیہ، قسمیہ، حالیہ، زائدہ براے تاکید، بمعنی فاے تعقیب وغیرہ وغیرہ۔ میں نے تفہیم القرآن میں حرف وائو (و) کے ترجمے کا جائزہ لیا تو کھلا کہ مولانا مودودی ؒنے سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل مختلف ترجمے کیے ہیں:

اور، مگر، جب کہ، حالانکہ، درانحالیکہ، رہا، رہی، رہے، بھی، اور پھر، جو، یا، ہی اور جو، لیکن، نیز، اس لیے کہ، البتہ، ورنہ، دوسری طرف، آخرِکار، اسی طرح۔

اس طرح بعض اوقات ’واؤ‘کے ترجمے کو حذف کر دیا ہے، ورنہ عبارت سلیس نہ رہتی‘ جیسے: وکلوا وشربواکا ترجمہ کھائو پیو۔ جو لوگ بلاغت زبان کا ذوق رکھتے ہیں وہ ہر گزبے مزہ نہ ہوں گے اگر ان دو ترجموں کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں گے۔ ترجمہ کرنے والوں کے لیے بھی ان دونوں ترجموں میں بہت کچھ رہنمائی ہے      ؎

دردِ سر ہوتا ہے‘ بے رنگ نہ فریاد کریں

بلبلیں مجھ سے گلستان کا سبق یاد کریں

مولانا مودودیؒ کے اس ترجمے نے برعظیم کے مسلمانوں کو خالق کائنات اور اس کے کلام سے جوڑنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سورۃ الممتحنہ کی پہلی آیت کے ترجمے پر غور کیجیے۔ مولانا نے عربی ترتیب کو اردو ترتیب میں یکسر بدل دیا، ورنہ اردو میں تعقید پیدا ہو جاتی۔  اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِھَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ کے ترجمے کو پہلے رکھ دیا، جس کی وجہ سے اردو داں آدمی کے لیے مضمون پانی ہو گیا۔

  • تفہیم القرآن: چھ جلدوں پر مشتمل اس تفسیر کی پہلی دو جلدوں میں بہت زیادہ اختصار پایا جاتا ہے اور تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ تیسری جلد سے یہ اپنی اصل اٹھان کی طرف مائل بہ پرواز ہے‘ جس کا تسلسل آخر تک قائم ہے۔ مولانا ہمیشہ خود کو طالب علم سمجھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹی جلد بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مسافرِ قلم تھکا نہیں، اس کا ذوق و شوق اور اس کا جذبۂ صادق بڑھتا ہی گیا۔

ہر سورہ کی تفسیر سے پہلے، زمانۂ نزول کے بارے میں تحقیق ملتی ہے، پھر ہر سورہ کے موضوع اورمضمون کی وضاحت۔ مولانا مودودیؒ سورتوں کی تمہید صحیح اور مستند تاریخی واقعات سے اس طرح بیان کرتے ہیں، کہ اس کے مطالعے کے بعد سورہ کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔

مولانا کو اوائل عمری ہی سے مناسبتِ علم حدیث رہی ہے۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے جامع ترمذی اور موطا امام مالک کی سند حاصل کی، چنانچہ ساری تفسیر مستند احادیث سے مزین ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی ضعیف یا موضوع حدیث نادانستہ در آئی ہو۔ عبدالوکیل علوی صاحب نے ان تمام احادیث کی تخریج کر کے تفہیم الاحادیث کے نام سے آٹھ جلدوں میں مرتب کر دیا ہے۔

احکام میں بلاتعصب چاروں فقہی مذاہب کی تفصیلات درج کرتے ہیں۔  ہدایہ، المَدَّونہ، الرّسالۃ، کتاب الام، المغنی، بدائع الصنائع، المحلیّٰ، المنہاج، الفقہ علی المذاہب الاربعہ وغیرہ سے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری مختلف مذاہب کے درمیان اصول میں اتحاد اور فروع میں اختلاف رائے کے ساتھ باہمی رواداری اور یکجہتی کا سبق سیکھتا ہے۔

تفہیم القرآن جدید ذہن کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ زبان بہت شستہ اور رواں ہے۔ دلّی کا محاورہ ‘انگریزی کے اُن الفاظ کے ساتھ مل کر (جواب اردو میں شامل ہو گئے ہیں) عجیب لطف پیدا کرتا ہے۔

اس تفسیر میں بیسویں صدی کے تمام فتنوں کا رد موجود ہے، جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مولانا کی تنقید بہت سخت ہوتی ہے، لیکن زبان شائستہ۔ ’آپ‘ سے نیچے نہیں آتے۔ اہلِ تشیع کے عقائد پر بہت ہی لطیف انداز میں سوالات اٹھا تے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے قرآنی قصص کی وضاحت کے لیے یہ مناسب سمجھا کہ بنظرِ خویش ارضِ قرآن کا مشاہدہ کیا جائے۔ چنانچہ ان سے متعلق نہایت مفید نقشے اور فوٹو فراہم کیے گئے ہیں۔ غزوات نبویؐ کے نقشہ جات سے سیرت البنیؐ کے بعض واقعات کا منظر آنکھوں میں سمٹ آتا ہے۔

یہ تفسیر‘ دین کا کلی تصور پیش کرتی ہے۔ فلسفۂ اقتصادیات و عمرانیات کے حوالے سے     عدلِ اجتماعی کا جامع تصور۔

اس تفسیر کی سب سے اہم خصوصیت اس کا دعوتی مزاج ہے۔ قوانین شریعت کی حکمتوں کو کھول کر جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرتی ہے۔ قرآن و حدیث پر کامل ایمان و ایقان کے ساتھ قاری کو اس دور میں ایک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل کرنے کے لیے ابھارتی ہے۔

اس تفسیر کی ایک اہم خصوصیت اس کا انڈکس  (اشاریہ) ہے۔ دین کے ایک ابتدائی  طالب علم کے لیے یہ’ فہرست مضامین‘ نہایت مفید ہے۔ اس کو دیکھ کر اور اس کے ذریعے، تفسیر اور آیاتِ قرآنی کی طرف رجوع کر کے وہ بہت ساری ان غلط فہمیوں کو دور کر سکتے ہیں، جو اس فتنہ پرور دور نے ہمارے ذہن میں پیدا کی ہیں۔ علومِ قرآن سے دل چسپی رکھنے والا ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جو مشکل عربی الفاظ اور پرانی عبارتوں سے نابلد ہوتا ہے، اس کے لیے تفہیم القرآن پہلی سیڑھی ہے، اس کے مطالعے کے بعد دیگر تفاسیر کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے۔

  • قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: مولانا مودودیؒ کی ہر کتاب اپنی جگہ  لاجواب ہوتی ہے۔ قاری کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کی بہترین کتاب کون سی ہے؟  تفہیم القرآن میں تفصیل ہے اور اس کتاب میں ایجاز و اختصار۔ لیکن یہ وہ اہم کتاب ہے، جو قرآن فہمی کے لیے ایک بنیا د کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر زبان میں ’لفظ‘ ایک سے زیادہ مفہومات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔  رب، الٰہ، عبادت اور  دین کے الفاظ بھی عربی زبان میں مختلف معنوں میں مستعمل ہیں۔ مولانا نے لسان العرب وغیرہ سے  پہلے الفاظ کی لغوی تحقیق درج کی ہے، پھر ایک ایک لفظ کے مختلف مقامات پر سیاق وسباق کی روشنی میں مخصوص مفہوم کا تعین کیا ہے۔

میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے بلکہ کئی مرتبہ پڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھ پر ہر مرتبہ نئے آفاق کا انکشاف ہوتا رہا ہے۔ مجھے جانے پہچانے راستوں میں بھی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ جانے مستقبل میں کتنے اور نئے مناظر دیکھنے کو ملیں۔ ہر مرتبہ میرے دل سے مولانا مودودیؒ کے لیے دعائیں نکلی ہیں۔ انھوں نے کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے ہمارے سامنے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔

مولانا مودودی ؒکے بعض معاصر علما نے اس کتاب کی بعض عبارتوں پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اس سے تَعَلّیِ کا پہلو نکلتا ہے کہ قرآن کو بس انھوں ہی نے سمجھا ہے‘ کسی اور نے نہیں۔ مولانا بھی انسان ہی تھے، نبیِ معصوم نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، اور اعلیٰ درجات عطا فرمائے‘ لیکن مقامِ شکر ہے کہ الحمدللہ کسی عالم نے بھی یہ ثابت نہیں کیا کہ ان الفاظ کے جو مختلف مفہوم، مولانا مودودیؒ نے عربی لغت اور عربی محاورے کے مطابق بیان کیے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں۔ ایک بزرگ نے لکھا کہ سورۃ الزخرف کی آیت:  ھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ ط (۴۳:۸۴)کا جو مفہوم مولانا نے بیان کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ ان محترم ناقد نے دوسرا متبادل مفہوم بھی نہیں بیان کیا، جو ان کے نزدیک صحیح ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبیؐ کی آخری جلد میں، مولانا مودودیؒ کے برآمد کردہ مفہوم کی تائید کی ہے اگرچہ وہاں مولانا مودودیؒ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ تواردِ تعبیر ہے۔

اس کتاب کی افادیت اور بڑھ جائے گی اگر کوئی صاحب علم اس کی شرح لکھیں۔ ذیلی عنوانات قائم کریں۔ قوسین میں جا بجا انگریزی مترادفات درج کرتے جائیں اور مزید مثالوں کا اضافہ کریں تاکہ درمیانی درجے کے قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکیں‘ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ۔

دینی مدارس میں دورۂ تفسیر سے پہلے، امام ابن تیمیہؒ کا  مقدمہ التفسیر‘ حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کی الفوزالکبیر اور مولانا مودودیؒ کی  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ان تینوں کتابوں کو سبقاً سبقاً پڑھایا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے بعض رسائل بھی تفسیر کا طالب علم پڑھ لے تو تعبیر کے چاروں اسکولوں کا احاطہ ہو جائے گا اور وہ بہتر انداز میں قرآن کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گا۔

  • تجدید واحیاے دین: مولانا نے ۱۹۳۹ء میں‘ جب کہ وہ صرف ۳۶ سال کے تھے، یہ معرکہ آرا کتاب لکھی۔ یہ تاریخِ دعوت و عزیمت اور تاریخ اصلاح و تجدید کی مختصر ترین روداد ہے۔  کم سے کم لفظوں میں ۱۲‘ ۱۳ صدیوں کی تاریخ بیان کر کے تبصرہ کرنا دیدۂ بینا ہی سے ممکن ہے بچوں کا کھیل نہیں۔ جماعت اسلامی کا قیام اس کی اشاعت کے دو سال بعد ہوا۔ یہ مضامین قبل ازیں ایک موقر رسالے الفرقان میں شائع ہو چکے تھے ۔

امام غزالی   ؒکے تجدیدی کارناموں کی تفصیل اور بعض امور پر نقد ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ احیاء العلوم کی احادیث پر کلام کرنا ۳۰ کے عشرے میں انتہائی جرأت مندانہ بات تھی۔ مشہور محدث محمد ناصرالدین البانی  ؒ نے اب اس اہم ترین کتاب کی احادیث کی تخریج کر دی ہے، جس نے بلاشبہہ اخلاقیات کی تعمیر و تشکیل میں چھٹی صدی سے ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کے کمالات سے اردوداں طبقے کو روشناس کرانے کا سہرا بھی مولانا مودودی ؒہی کے سرہے۔ علامہ شبلی نعمانی  ؒ تک امام ابن تیمیہؒ کی کتابوں کی رسائی اخیر عمر میں ہوئی، جس کا اعتراف انھوں نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ علم کا سمندر ہیں۔ ایک حلقے نے ان کی بعض تصانیف کا ترجمہ کر کے شائع کیا ہے، لیکن ابھی بہت سے گوشوں سے برعظیم کا عام قاری لاعلم ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے اپنی دو آخری تصانیف علوم القرآن (اول و دوم) اور تقلید و اجتہاد میں ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔

تجدید و احیاے دین اسلامی تحریکوں کو اپنی سرگرمیوں اور اپنی حکمت عملی کا بار بار جائزہ لینے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور اعتدال و توازن کی شاہراہ سے ہٹ جانے کے اندیشوں کے بارے میں ہمیشہ رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اسلامی خلافت، دراصل اقتدار اور تقویٰ کے امتزاج کا نام ہے۔ ان دونوں کے درمیان جب بھی افتراق ہو گا، دنیاوی (یعنی سیکولر) سیاست اور تصوف کے انتہا پسندانہ رجحانات جنم لیتے رہیں گے۔

  • مولانا مودودیؒ کے تجدیدی کام کا دائرہ: مولانا مودودیؒ کے تجدیدی کام کے بے شمار پہلو ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہاں ۱۳ اہم امور پر مختصر اًروشنی ڈالی جائے۔

۱-  فتنہ قومیت کا مقابلہ: بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں یہ فتنہ اٹھا اور علما کی صف سے اٹھا۔ اقبال بھی تڑپ تڑپ گئے۔ انھیں مجبوراً نہ صرف لکھنا پڑا، بلکہ شائع بھی کرنا پڑا   ؎

ان تازہ خدائوں میں نیا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

کہا جا رہا تھا، موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ علامہ اقبال ؒ(۱۹۳۸ئ) کی شاعری کو بیسویں صدی کا علم کلام کہا گیا ہے اور صحیح کہا گیا ہے۔ لیکن شاعرانہ رموز‘ تلمیحات اور کنایات پر مشتمل علم کلام سے ، استدلال کی قوت سے لیس تحریر اور قرآن و سنت کے نقلی دلائل کے علاوہ شعور عصر حاضر سے مزین عقل سلیم پر مبنی علم کلام یقینا مختلف ہے۔ یہ سعادت مولانا مودودیؒ کے حصے میں آئی۔ بلاشبہہ وہ بیسویں صدی کے عظیم متکلم ہیں۔

۲-  فتنۂ  انکار حدیث کا مقابلہ: منکرین حدیث ہر زمانے میں پائے گئے ہیں۔ مولانا مودودی ؒکے دور کے منکر حدیث، اصل میں اشتراکیت سے مرعوب تھے۔ مولانا نے ان کی کھوکھلی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے سب سے پہلے بنیاد پر ضرب لگائی اور خود قرآن سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد ان کے اہم ترین اعتراض : ’قرآن کی طرح سنت کتابی شکل میں محفوظ نہیں ہے‘ کا بہت ہی تفصیل سے جواب دیا کہ سنت ایک لمحے کے لیے بھی امت مسلمہ سے غائب نہیں ہوئی۔ صحابہ کرامؓ اس پر عامل رہے۔ اسے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں رائج کرتے رہے۔ قاضی اور مفتی اس کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ تابعین اور تبع تابعین اس کے ناقل، عامل اور مبلغ رہے۔ فقہا نے اس کی اساس پر قانون و فقہ کی تدوین کی اور محدثین نے ان گہرپاروں کو مختلف ملکوں‘ شہروں اور قبیلوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابی شکل میں محفوظ کر دیا۔ پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے تمام جزوی اعتراضات کے مسکت جوابات دیے۔  سنت کی آئینی حیثیت اور  رسائل و مسائل میں اس موضوع پر مباحث کا بغور جائزہ لیجیے۔ آپ پر یہ بات روشن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ کتنا عظیم کارنامہ ہے۔

۳-  فتنۂ قادیان کا مقابلہ: اس فتنے کے مقابلے میں بلاشبہہ ہزاروں علما نے بھی جرأت و استقامت سے جدوجہد کی۔ لیکن مولانا نے اپنے مخصوص استدلالی انداز میں اس فتنے کا تعاقب کیا۔

نبیِ کاذب اور ان کے خانوادے کی اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے قطع نظر، مولانا نے اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز کیے رکھی کہ کیا رسول ؐ کے بعد کوئی نبی یا رسول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ سورۃالاحزاب کا ضمیمہ دیکھ لیجیے، ۱۴۰۰ سال کے علما‘ فقہا‘ محدثین و مفسرین کے اقوال نقل کر کے  قرآنی الفاظ خاتم النبیینکی تاویل و تعبیر پر اُمت ِمسلمہ کا اجماع ثابت کیا۔

علاوہ ازیں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں کو نقل کر کے ثابت کیا کہ یہ کس درجے کی حامل ہیں اور کلام نبوت سے ایسے فرد کو کوئی علاقہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سمجھنے میں آپ دشواری محسوس کریں تو ذرا اس موضوع پر لکھی جانے والی بے شمار تحریروں کا مطالعہ کیجیے اور پھر مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو دیکھیے‘ آپ ہمارے موقف سے اختلاف کی گنجایش نہ پا سکیں گے۔

۴-  اسلام کی غیر معذرت خواہانہ تشریح: اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے ابتدا ہی میں ایسے اسباب فراہم کر دیتا ہے کہ وہ اپنی منزل کی طرف بآسانی گامزن ہو جائے۔

آج سے ۹۰- ۱۰۰ سال پہلے کے زمانے کو چشمِ تصور سے دیکھیے۔ تعلیم کے کیا مواقع حاصل تھے۔ ایک انتہائی ذہین و فہیم لڑکا جو عام لڑکوں سے بہت ممتاز ہے، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں پڑھ کر ہضم کر لینا چاہتا ہے۔ لائبریریوں کو دماغ میں اتار لینا چاہتا ہے۔ مسلسل آگے پڑھنا چاہتا ہے۔ مختلف علما سے مل کر خصوصی وقت حاصل کرتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ان کے گھر پہنچ جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان سے کتب پڑھتا چلا جاتا ہے۔

۱۹۱۴ء میں اس لڑکے کی عمر صرف ۱۱ سال تھی، مولوی کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے کی لگن اسے مولوی محمد فاضل مرحوم کے پاس لے جاتی ہے۔ دلّی میں مولانا عبدالسلام نیازیؒ سے استفادے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ، تاریخ، ادب، سیاست، فلسفہ، تنقید، ثقافت وغیرہ وغیرہ کتنے ہی علوم ہیں، جنھیں وہ پانی کی طرح پی جانا چاہتا ہے۔

الجہاد فی الاسلام مولانا مودودیؒ کی پہلی کتاب ہے جو شائع تو ۱۹۲۷ء میں ہوئی جب مولانا صرف ۲۴ سال کے تھے لیکن ذرا اس کتاب کا پس منظر دیکھیے۔ وہ  گیتا، رامائن، مہابھارت وغیرہ اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔  بائیبل اور تلمود کا مطالعہ ہو چکا تھا۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کے ہاں جامع ترمذی اور موطا امام مالک کے درس کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔

۱۹۲۳ء میں۱۹ سال کی عمر میں یہ نوجوان جمعیت علماے ہند کے اخبار الجمیعۃ کا مدیر بنادیا جاتا ہے۔ کیا ۱۸‘۱۹ برس کا نو عمر لڑکا، اتنے بڑے علما کے اخبار میں کسی حادثے کے نتیجے میں مدیر بن گیا تھا؟ ایسا حادثہ تو دو چار ماہ کے لیے گوارا کیا جا سکتا ہے، تین چار سال تک یہ ذمہ داری دینا ناممکن بات ہے۔ یہ نوجوان پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں سے بخوبی واقف ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال اور مولانا محمد علی جوہرؒ اور تحریک خلافت کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ۱۹۲۶ء میں ۲۳ سال کی عمر میں دارالعلوم فتح پور دہلی سے سندِ فراغت حاصل کر لیتا ہے۔

ذرا  الجہاد فی الاسلام کے اوراق پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ یہ نوجوان قرآن سے کیسے استدلال کرتا ہے، فضائل و ترغیب کے علاوہ فرضیت و مشروعیت کے لیے کیسے مستند احادیث نقل کرتا چلاجاتا ہے؟ دوسرے مذاہب سے قانونِ صلح و جنگ کے اقوال کس طرح نقل کرتا ہے۔ لیکن یہ نوجوان ایک جگہ بھی اسلام پر شرمندہ نہیں ہے، نہ قرآن سے شرمندہ، نہ احادیث سے شرمندہ‘ بلکہ وہ اسلام کو من و عن پیش کرتا ہے، غیر معذرت خواہانہ انداز میں - اور پھر بتاتا ہے کہ جہاد، انسانیت کے لیے رحمت ہے، شرپسندوں کی سرکوبی اور عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ کے نبیوں، رسولوں اور رباَّنِیُّون کی سنت ہے۔

یہ ابتدائی عزم، یہ حوصلہ، یہ جرأت، یہ بے خوفی اور یہ غیر معذرتی انداز، اللہ کے فضل و کرم سے آخری سانس تک قائم رہا۔ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا، کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے اس عظیم خدمت کو قبول فرمائے۔  

۵-  اشتراکی فتنے کا مقابلہ: پچھلے مجدّدین کے ادوار میں یونانی فلسفے کا مقابلہ درپیش تھا۔ مولانا مودودیؒ کا دور استعماریت، اشتراکیت اور سرمایہ داری کا دور تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں اشتراکی نظریات منظر عام پر آئے۔ ۱۸۴۸ء میں  اشتراکی منشور منظور ہوا۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس جو ایک جرمن یہودی تھا انتقال کر گیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘ ۷۰ سال میں انھی نظریات پر مبنی دوبڑی سلطنتیں معرض وجود میں آگئیں۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہو۔ ۱۹۳۴ء میں چین کے اندر مائوزے تنگ نے ’طویل مارچ‘ کیا۔ ہندستان میں بھی اس تحریک نے جڑ پکڑی، جس کی تائید میں ناول لکھے گئے اور نظمیں تخلیق ہوئیں، ترانے گائے گئے اور ڈرامے سٹیج ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں سجاد ظہیر نے ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کی بنیاد رکھی اور ۱۹۳۶ء میں ’’انجمن ترقی پسندمصنفین‘‘ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس سیلاب بلا خیز کی نذر علما بھی ہونے لگے۔ مولانا عبیداﷲ سندھی مرحوم و مغفور، شاہ ولی ؒ اللہ صاحب کا نام لے کر روس سے واپسی کے بعد  ہندستانی قومیت، اشتراکیت اور اسلام کا ملغوبہ بنا کر معجون ِ مرکب کی طرح پیش کرنے لگے۔ ایک اور

صاحب ِعلم کا خیال تھا کہ موجودہ زمانے میں اشتراکیت اور اسلام کے امتزاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

علی گڑھ جیسی جگہ میں اس کے اثرات بہت تیزی سے پھیلے۔ اسلام اور اسلامی شعائر کا کھلے عام مذاق اڑایا جانے لگا۔ بعض علما بھی یہ سمجھنے لگے کہ: آخر اسلام کے اعتقادی تصورات اور نظام عبادت سے اشتراکیت کے اقتصادی تصورات کی کیا لڑائی ہے؟ مولانا مودودیؒ اس فتنے کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ قرآن کی معاشی تعلیمات پر مبنی کتاب لکھی۔ چن چن کر احادیث سے وضاحت کی کہ اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے۔ اسلام شخصی ملکیت کا حق دیتا ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان سے اس کی یہ آزادی چھین لے۔

۶-  سرمایہ داری اورسود کے فتنے کا خاتمہ: اشتراکیوں نے مولانا مودودی ؒکے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا۔ ان کا شمار ’’دائیں بازو‘‘ میں کیا۔ امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا۔ لیکن اسلام کا یہ سپاہی نہ اشتراکیت کا اسیر تھا اور نہ سرمایہ داری کا پابند۔ وہ خالص اور ٹھیٹھ اسلام کا قائل تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسلام ایک مکمل خدائی نظام ہے، اور یہ کسی خارجی انسانی پیوندکاری کا محتاج نہیں۔ یہ وحی پر مشتمل تعلیمات پر قائم ہے۔ ان کی کتاب  سود کے مباحث کا جائزہ لیجیے، جو تقسیم ہند کے وقت لکھی گئی۔

آج دنیا میں جہاں کہیں غیر سودی بنک کاری کی بات ہو رہی ہے‘ اس ڈور کے سرے مولانا مودودیؒ سے مل جاتے ہیں۔ مولانا کی فکر سے متاثر افراد نے ان جیسے عزم و اعتماد کو اختیار کرتے ہوئے اس طاغوتی اقتصادی نظام کے خلاف علم جہاد بلند کیے رکھا‘ اور غیر سودی نظام کے قیام کے لیے بنک کاروں اور مسلم سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی وغیرہ کانام بطور ہراول دستہ لیا جاسکتا ہے     ؎

گرمدعی حسد سے نہ دے داد، تو نہ دے

آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

۷-  اسلامی نظام تعلیم کے خدوخال کی وضاحت: نظام تعلیم کے حوالے سے بھی مولانا مودودیؒ کی فکر زیادہ گہری اور زیادہ عمیق ہے۔ وہ تمام اسلامی اور اقتصادی علوم کے علاوہ سائنسی علوم کو بھی اسلام میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر، سرسید احمد خان کی فکر سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اور نام نہاد ’اسلامی سکول‘ دراصل سرسید ہی کی فکر کی عملی تعبیر ہیں۔ سرسید کے تعلیمی ڈھانچے میں دینیات اور جدید علوم الگ الگ رہتے ہیں، ملتے نہیں۔ آیت قرآنی:  بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْـغِـیٰنِ o ( الرحمٰن۵۵:۲۰)‘ کے مصداق یہ دو دریا ہیں، جن کے درمیان ایک آڑ ہے۔ دینیات کا پروفیسر سود کو حرام بتاتا ہے‘ اور معاشیات کا پروفیسر کہتا ہے کہ اس کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ اسلامیات کا استاد کہتا ہے تم آدمؑ کی اولاد ہو‘ اور حیاتیات (بیالوجی) کا استاد کہتا ہے کہ تم بندر سے ہو۔ اس تضاد تعلیم کی پروردہ نسل ذہنی انتشار اور افتراق کاشکار رہی ہے۔

مولانا مودودیؒ چاہتے تھے کہ سماجی علوم (سوشل ساینسز) اور طبیعی علوم (فزیکل ساینسز)‘  یعنی فزکس، کیمسٹری، عمرانیات، اقتصادیات،جیالوجی (علم طبقات الارض)، فلکیات اور سائنس کے دیگر شعبوں کی کتابیں قرآن و سنت کی روشنی میں لکھی جائیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، احادیث وحی خفی پر مشتمل ہیں۔ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور سائنس حقیقت کی تلاش میں سفر پیہم کا نام ہے۔ کائنات کی تحقیق و جستجو کا مسافر ان تمام میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ کائنات فہمی سے قرآن فہمی میں اور قرآن فہمی سے کائنات فہمی میں مدد ملتی ہے۔ ان میں باہمی اختلاف ناممکن ہے اور بالفرض کہیں اس کا شبہہ بھی وارد ہو جائے تو یہ انسان کی کم فہمی اور کج فہمی اور تطابق کی صلاحیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری درسی کتابوں کے مصنف جدید ترین تحقیقات اور انکشافات سے کام لیتے ہوئے ایسی نصابی کتابیں مرتب کریں، جن میں قرآن و سنت کا آمیزہ (blend) ہو۔ طلبہ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جائے کہ قرآنی حقائق بدل نہیں سکتے اور نہ غلط ثابت کیے جا سکتے ہیں‘ بلکہ سائنس بدلتی رہتی ہے اور اپنے سابقہ موقف سے بار بار رجوع کرتی رہی ہے اور رجوع کرتی رہے گی، اور اس میں اس کی عافیت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک اصولی شاہراہ قائم کردی ہے۔ اس شاہراہ پر کام کو آگے بڑھانا اس میدان کے ماہرین کا کام ہے۔

۸-  تصوف پر جامع تنقید اور اس کی اصلاح: تصوف پر مولانا مودودی ؒنے بہت کم لکھا، لیکن جو کچھ لکھا اس میں تمام اصولی اور بنیادی باتیں آ گئی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کو اس اصطلاح سے کدّ نہیں ہے     ؎

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

البتہ وہ صوفیانہ رموز و اشارات سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں۔ احسان، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے عنوان سے گہرپارے ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ اپنے مخالفین، معاصرین، اور معترضین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ ’احسان‘ کا رہا ہے۔ کسی دینی مسئلے میں مولانا کو جہاں اختلاف کرنا پڑا، وہاں ذاتی باتوں سے ہٹ کر مولانا نے تنقید کی ہے لیکن بات ذاتیات تک پہنچنے لگی تو قلم اور زبان کو روک لیا۔ وہ احسان کے نہ صرف قائل تھے بلکہ صحیح معنوں میں اس پر عامل بھی تھے۔ ان کے بعض قریبی رفقا سے ان کی شب بیداری اور ذکر و تسبیح و مناجات کا انکشاف ہوا ہے‘ وہ ریاکاری سے کوسوں دُور تھے۔

۹-  فقہی مسائل میں اعتدال کا رویہ: مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک اہم خصوصیت فقہی مسائل میں اعتدال ہے۔ قدیم مسائل میں وہ تعبیر و تشریح کے اختلاف کو نہ صرف روا رکھتے ہیں‘ بلکہ لوگوں کو تحمل، برداشت اور کشادہ دلی کا مشورہ دیتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں وہ تمام فقہی مسالک کی آرا بلاتعصب نقل کرتے ہیں۔ مجھے شمالی امریکہ میں عربوں اور اخوان المسلمون کے حلقے میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، میں مختلف تفاسیر اور بالخصوص تفہیم القرآن کو پڑھ کر جاتا۔ مجھے وہاں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے برخلاف ہمارے دوسرے ساتھی جو صرف مخصوص قسم کی کتابیں پڑھ کر شریک حلقہ ہوتے انھیں دیگر مسالک و مذاہب کی باتیں نہ صرف حیران بلکہ بہت حد تک پریشان کر دیتیں۔ پانچ پانچ، دس دس دس سال کی رفاقت کے باوجود فکری بُعد دور نہ ہونے پایا۔

مولانا مودودیؒ کا قاری وسیع النظر اور وسیع القلب ہو جاتا ہے، اپنے تنگ فقہی دائرے سے نکل کر اسلام کی آفاقیت اور عالم گیریت میں ضم ہو جاتا ہے۔ بعض فقہی مسائل میں وہ اجتہاد سے کام لیتے، وہ کہتے کہ جب میں تحقیق کرتا ہوں تو اقرب الی الکتاب والسنہ کی پیروی کرتا ہوں اور جب مجھے اس کا وقت اور موقع نہیں ملتا تو مذہب حنفی کا اتباع کرتا ہوں۔ دیکھیے یہ کس قدر مثبت رجحان ہے۔ نہ ہر پرانی چیز کو رد کیا اور نہ تحقیق و اجتہاد کے دروازے کو بند کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے  الانصاف میں لکھا ہے کہ چوتھی صدی کے بعد احناف، مالکیہ اور حنابلہ میں مجتہدین فی المذاہب بہت کم پیدا ہوئے‘جب کہ شوافع میں بہت ہوئے اور مسلسل ہوتے رہے، جس کی بنیادی وجہ ان کا علم حدیث سے گہرا شغف اور انہماک تھا۔

برعظیم ہندو پاک کے حنفی علما میں مولانا عبدالحی لکھنویؒ (م: ۱۸۶۶ئ) علامہ انور شاہ کشمیری (م: ۱۹۳۴ئ)، مولانا اشرف علی تھانویؒ (م: ۱۹۴۳ئ) وغیرہ نے دلیل کی قوت کی بنا پر یا مصلحت عامہ کے پیش نظر بعض مسائل میں حنفی مذہب کو ترک کر کے مالکی اور شافعی یا حنبلی مذہب کے مطابق فتوی ٰ دیا ہے‘ یا اپنی ترجیحی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مودودی ؒنے بھی جرابوں پر مسح اور جمع بین الصلاتین جیسے مسائل میں یہی روش اختیار کی ہے۔

جدید مسائل میں مولانا نے نئی راہیں متعین کی ہیں۔ لائوڈ سپیکر ہی کا مسئلہ لیجیے۔ ہندستان کے ایک نہایت ہی قابل احترام اور صاحب علم و تقویٰ بزرگ سے ان کا اختلاف ہوا۔ مولانا نے انتہائی احترام اور کمال درجے کی شائستگی کے ساتھ ان کے ساتھ اختلاف کیا‘ جب کہ ہر دو طرف دلائل قوی اور جذبے صادق تھے۔ لیکن مولانا مودودیؒ کا مؤقف اصح تھا۔ خواتین کے بعض مسائل کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مالکیہ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ ذرا مولانا مودودیؒ کی حقوق الزوجین اٹھا کر دیکھیے، ان مظلومات کی کس عمدہ انداز میں دادرسی ہوئی ہے۔

مولانا کے اس منہج کو مولانا کے بعد ملک غلام علی مرحوم نے اپنایا۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی بعض مسائل میں حنفی مسلک ترک کر کے دیگر فقہا کی آرا کو ترجیح دی ہے، جنھیں  جدید فقہی مسائل اور فقہی مقالات (اول و دوم) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی کتاب اجتہاد و تقلید کا بغائر مطالعہ کیجیے‘ مولانا مودودی ؒکے اصول منہج سے اتفاق مل جائے گا۔

ہر لمحہ بدلتی ہوئی دنیا میں، جو عالم دین اور مفتی، علوم دینیہ پر مہارت کے باوجود اگر عصر حاضر کے بہتر شعور سے محروم رہے گا تو اس سے جدید فقہی مسائل میں بالخصوص اقتصادی اور طبی معاملات میں امت مسلمہ کی رہنمائی کا کام احسن انداز میں ممکن نہیں ہو گا۔

۱۰-  جدید نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے محفوظ رکھنا: مولانا مودودیؒ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی علوم و افکار اورجدید سائنس اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت سے نجات دلائی ہے۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کو ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، مقصد نہیں۔  پردہ مولانا کی وہ شاہکار تصنیف ہے (جس کے بعض اعداد وشمار اب پرانے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود) آج بھی جس کے مطالعے کے بعد مغرب زدہ خواتین جن میں ایمان کی رمق اور چنگاری موجود ہے‘ اپنے آپ کو ستر اور حجاب کی برکتوں سے مالا مال کر سکتی ہیں۔ اس کتاب نے کئی زندگیوں کے اندر انقلاب برپا کیا۔

اس کتاب کے دوسرے حصے میں مولانا نے جو ادبی زبان استعمال کی ہے اس پر اردو ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ فتنۂ خوشبو‘ فتنۂ لباس وغیرہ کے عنوان سے جو پیراگراف ہیں، انھیں میں اپنے دوستوں کو بار بار پڑھ کر سناتا ہوں اور کسی مرصع غزل یا مربوط نظم کی طرح داد وصول کرتا ہوں۔ تنقیحات کے مضامین نے تو کتنے ہی باکمال اور خدا ترس بزرگوں کو مولانا کی تحریروں کا شیدا بنا دیا۔

۱۱-  دین کا جامع تصور: مولانا مودودیؒ کا ایک اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام کی حیثیت سے پیش کیا۔ رہبانیت نے اس کو محض عبادات تک محدود کرنے کی کوشش کی اور اشتراکیوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے    اس قسم کی ساری گرد صاف کر کے اس کی اصل تصویر دکھا دی۔ قرآن و سنت کی تمام تعلیمات        بے کم و کاست پیش کیں، نہ اس سے زیادہ، نہ اس سے کم۔ یہ دین عقائد، احکام، عبادات، معاشرت، معیشت، احکامِ صلح و جنگ، حکومت و فرمانروائی، عدالت و قضا، ا جتماعی عدل، معاملات وغیرہ وغیرہ، غرض ان تمام چیزوں پر محیط ہے، جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ یہ خالقِ کائنات کا تجویز کردہ دین ہے اور اس طرزِ حیات کے علاوہ کوئی اور منہج اسے قابلِ قبول نہیں ہے۔

مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں حضرت ابوبکرؓ کی ثابت قدمی کا اعادہ کرتے ہوئے، دن کے اجالے میں اور بھری دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ میرے جیتے جی اس دین میں کانٹ چھانٹ اور کتربیونت نہیں ہو سکتی (جیسا کہ رسول ؐ کے انتقال کے بعد، بعض اہل ثروت نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا‘ مگر حضرت ابوبکرؓ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے تھے)۔ اسلام نہ کانٹ چھانٹ پسند کرتا ہے اور نہ پیوندکاری۔ یہ ایک خالص چیز ہے۔  اَلَالِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُط (الزمر ۳۹:۳)’’یاد رکھو کہ اطاعت ِخالص کا سزا وار اﷲ ہی ہے‘‘۔

۱۲-  مختلف مکاتب فکر کے علما کو اصولی موقف پر جمع کرنا: اس ناچیز کے خیال میں مولانا مودودیؒ کے کارناموں میں سب سے اہم کارنامہ جس کی آج بھی ہمیں سخت ضرورت اور احتیاج ہے، وہ مختلف المسالک علما کو فروعی اختلافات کے باوجود نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے لیے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنا ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر (اگست ۱۹۴۱ئ) میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے علما فقہی اور کلامی مسائل میں میری شخصی اور ذاتی رائے کے پابند نہیں ہوں گے، بلکہ وہ اپنی تحقیق و آرا میں آزاد ہوں گے۔

مولانا مودودیؒ کے قلم کی قوت اور تحریر کی تاثیر تھی کہ بے شمار جدید تعلیم یافتہ افراد، جن میں انجینئر، سائنس دان، ڈاکٹر، ماہرین معیشت، قانون دان، ادیب، اساتذہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کتاب و سنت کے وارث علما جیسے l دارالعلوم دیوبند سے: مولانا محمد منظور نعمانی، مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل،مولانا محمد چراغ (گوجرانوالہ) مولانا عامر عثمانی، مولانا معین الدین خٹک‘ مولانا مفتی محمد یوسف وغیرہ،

  • مدرسۃ الاصلاح، سراے میر، اعظم گڑھ سے: مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا اختراحسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا عبدالحسیب اصلاحی، مولانا عبدالعلیم اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، مولانا حامد علی، مولانا محمد یوسف اصلاحی وغیرہ۔
  • ندوۃالعلما سے: مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا سید سلمان ندوی ایڈیٹر الـدعوۃ، مولانا مطیع اللہ کوثر یزدانی ندوی وغیرہ۔
  • جامعۃدارالعلوم عمر آباد (جنوبی ہند) سے: مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید امین عمری‘ مولانا عبدالرحمن عمری (ابوالبیان حماد)،
  • مظاہرالعلوم سہارن پور سے: شیخ التفسیر مولانا زکریا قدوسی مظاہری، مولانا مظاہرالحق مظاہری، مولانامحمد عزیز مظاہری، مولانا گلزار احمد مظاہری وغیرہ۔
  • اہل حدیث علما سے: شیخ الحدیث مولانا عبدالغفار حسن، حکیم محمد عبداﷲ ‘حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا شمس پیرزادہ وغیرہ۔
  • پھلواروی شریف‘ بہار سے: مولانا سید احمدعروج قادری وغیرہ شامل ہیں۔ جو سب جوق در جوق جماعت سے وابستہ ہوتے گئے۔ بعض علما کو یہاں تک کہتے سنا گیا کہ ہم کانگریس میں تھے اگر ہم مولانا مودودی کی تحریریں نہ پڑھتے تو شاید ہماری موت کفر پر ہوتی۔

یہ صلابت فکر اور ترجیحات کا یہ صحیح تعین اور مزاج کا یہ اعتدال علما کو مشترک اور متفق علیہ باتوں پر ڈٹ جانے اور صحابہ کرامؓ کی طرح جزوی اختلافات کے باوجود باہم شیر وشکر ہو جانے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے اور دشمنان دین کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اتحاد ملت کا یہ سبق سورۂ آل عمران کا عمود ہے۔ کافروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سورہ میں تین بنیادی ہدایات دی ہیں۔

  •  اولاً، اہل کتاب کو اسلام کی دعوت، ان سے مباحثہ، مکالمہ مجادلہ حسن، مناظرہ، اور مباہلہ کی ہدایات ۔l ثانیاً، اہل کتاب کی سازشوں اور شرپسندی سے خود محفوظ رہنے اور دوسرے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا اور l ثالثاً‘ مسلمانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق‘ حبل اللہ سے اجتماعی اعتصام، صبر اور تقویٰ کا التزام اور احد کی شکست سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت ہے۔

فروعی اور اجتہادی مسائل میں مولانا مودودیؒ نہ تو خود اپنی ذاتی رائے سے دست بردار ہوتے ہیں، جن کی بنیاد خود ان کی تحقیق ہوتی ہے اور نہ دوسرے علما کو اپنی آرا ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ البتہ اجتماعی امور میں وہ سب کو مشترک موقف اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور خود بھی ہمیشہ اس کے پابند رہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے علما کو یہ سبق دیا ہے کہ وہ باہمی محبت اور احترام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے علما نے جماعت اسلامی میں شامل رہ کر، اپنی تحقیق کی روشنی میں عقیدت اور احترام کے باوجود، غلو سے بچتے ہوئے، مولانا مودودیؒ سے اختلاف کرنے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ یہاں مولانا چراغ  ؒ، مولانا معین الدینؒ خٹک، مفتی سیاح الدین کاکاخیلؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے، اور یہی ہر بڑے عالم اور محقق کے شایانِ شان ہے۔

ہمیں مولانا مودودیؒ سے محبت ہے بلکہ شدید محبت، اور یہ محبت لِلّٰہ ہے، اور ان کی اسلامی خدمات کی وجہ سے ہے۔ وہ ہمارے محسن ہیں، لیکن ان سے زیادہ ہماری وفاداری رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے، جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے لیے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور دنیا کے دیگر تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں (متفق علیہ)۔ اور ان سے زیادہ ہماری محبت اپنے خالق اور مالک سے ہے‘ جس کے بارے میں قرآن مجید خبر دیتا ہے:  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًا لِّلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ خود مولاناؒ نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ مَا قال کو دیکھو،  مَنْ قَال کو مت دیکھو۔ ہمیں ہر قسم کے تعصب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے محکم نصوص اور دلیل کی قوت پر نگاہ رکھنی چاہیے۔

مولانا مودودیؒ اپنے قاری کی تربیت کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں کہ وہ شریعت کے    منشا و مزاج کو پا کر‘ اپنی فکر میں مسائل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ لیتا ہے۔ لکیر کے اس طرف وہ مسائل ہیں جن میں تمسّک اور اعتصام لازمی ہے اور دوسری طرف وہ مسائل ہیں جہاں لچک، نرمی، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔ اور یہی امت وسط کے اقتصاد و اعتدال کی راہ ہے۔

۱۳- آئینی اور جمہوری راستہ: مولانا مودودیؒ نے عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کو خفیہ جدوجہد کے بجاے آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی دنیا کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ مولانا کا مشورہ کس قدر صحیح اور صائب تھا۔ مغربی دنیا اپنے باطنی حسد کے باوجود آئینی اور جمہوری اسلامی تحریکوں کا راستہ بند کرنے کا کوئی اخلاقی جواز ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسلامی دعوت کو کھلم کھلا اور علی الاعلان ہونا چاہیے، اور یہی انبیا کا منہج ہے۔

جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر سے متعلق گفتگو میں‘ اکثر لوگ بحث کو غلط رخ دے دیتے ہیں۔ یہاں دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

۱- اس گفتگو اور بحث کا مقصد‘ ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تزکیہ نفس کی اہمیت اور افادیت کا انکار کریں‘ اور نفس کے فتنوں کے بارے میں‘ چوکنا نہ رہیں اور نفس کے شر سے پناہ نہ مانگیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن مجید نے‘ جہاد نفس کے بجائے‘ تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اصطلاحات کے بارے میں‘ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ    ؎

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

قرآن مجید کی روشنی میں انسانی نفس سرکش ہو کر الٰہ بن سکتا ہے (الفرقان ۲۵:۴۳)۔ قرآن مجید نے ہمیں ان لوگوں کی (بالخصوص ایسے حکمرانوں کی) اطاعت سے روکا ہے‘ جن کا قلب غافل ہے‘ جو خواہشاتِ نفس کے غلام ہیں اور جن کے اوامر و احکامات‘ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ (الکہف۱۸:۲۸)

۲- کافروں سے جہاد ہی‘ جہادِ اکبر ہے۔ اس جہاد کو‘ جہادِ اصغر کہنا ایک عظیم فتنہ ہے۔ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات میں‘ مغرب نے جس طرح‘ جہادِ اسلامی کے خلاف‘ اپنے الیکٹرونک میڈیا پر مہم شروع کر رکھی ہے اور مختلف مسلمان ممالک میں‘ اسلامی تحریکوں کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے ہرقسم کی سازشیں روا رکھی جارہی ہیں‘ وہ کسی باخبر‘ غیرت مند مسلمان سے مخفی نہیں۔ ان حالات میں‘ ہمارے مسلمان حکمرانوں کو (حیرت ہے وہ بھی مسلمان فوجی حکمرانوں کو) ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ ضعیف اور موضوع مواد فراہم کرتے ہیں‘ تاکہ نصوصِ قطعیہ (قرآن و سنت صحیحہ) کی تخفیف اور تحقیر ہو سکے اور دین کے مسلمات اور مہمات اختلافی بن جائیں۔

اس موضوع پر‘ سب سے اچھی اور سیرحاصل بحث‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے کی ہے‘ جو ان کے فتاویٰ جلد ۱۱‘ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۱ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے‘ دلائل نقل و عقل سے‘ ثابت کیا ہے کہ مندرجہ بالا روایت کی کوئی اصل نہیں ہے (لاَ اَصْلَ لَہٗ) اور اہل علم و دانش میں سے کسی نے بھی‘ اس کو حضورؐ کے اعمال و اقوال کے طور پر روایت نہیں کیا ہے۔ جہادِ کفار ہی‘ جہادِ اکبر ہے اور یہی اعظم اور افضل اعمال میں سے ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کے دلائل حسب ذیل ہیں:

۱-  قرآن نے واضح طور پر‘ قاعدین پر مجاہدین کی فضیلت بیان کی ہے (النساء ۴: ۹۵)

۲-  جہاد‘ حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کی تعمیر سے بھی افضل ہے (التوبہ ۹:۱۹)

۳- امام صاحبؒ نے کئی احادیث نقل کی ہیں‘ جن سے جہاد کی افضلیت اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ خوفِ طوالت سے انھیں درج نہیں کیا جا رہا ہے۔

عصرِحاضر کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے اپنے مشہور سلسلے کی جلد ۵‘ حدیث نمبر ۲۴۶۰ میں اس کی تخریج کی ہے اور اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ‘ اس کی دو سندیں ہیں‘ جس کا ذکر ملا علی قاریؒ کے حوالے سے مارچ کے ترجمان القرآن(’’مدیر کے نام‘‘)میں پہلے ہو چکا ہے۔

۱- پہلی روایت کا ذکر‘ امام بیہقی  ؒاور امام شافعیؒ نے کیا ہے۔ اس کی سند کے تینوں راوی ضعیف ہیں (ابن حجر)۔ الف: عیسیٰ بن ابراہیم ؒ (البرکی)۔ یہ صدوق ہیں لیکن بسااوقات وہم کا شکار ہو جاتے ہیں‘ جو ان کے ضعف پر دلیل ہے‘  لَیْسَ بِجَیِّدٍ۔ ب:  لیث ابن ابی سلیم اختلاط کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔ ج: یحییٰ بن یعلی (الاسلمی) بھی ضعیف ہیں۔ د: البتہ بقیہ راوی ٹھیک ہیں۔

۲- خطیب بغدادیؒ نے تاریخ میں‘ جو روایت نقل کی ہے‘ اس کی سندکے تین راویوں کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:

الف: الحسن بن ہاشم کے بارے میں‘ البانی ؒکو تفصیلات نہیں ملیں۔ یہ گمنام ہیں۔ ب: یحییٰ بن ابی العلا سے مراد‘ شاید یحییٰ بن العلا الکذاب ہے (ظن غالب یہی ہے کہ یحییٰ بن ابی العلا ہی یحییٰ بن یعلی ضعیف ہیں‘ جن کا ذکر اُوپر کی سند میں ہوا ہے)۔ ج: لیث تو ضعیف ہیں ہی‘ جن کا ذکراُوپر ہو چکا ہے۔

عظیم مفکر‘ متکلم‘ مفسر اور الجہاد فی الاسلام جیسی بے مثال کتاب کے مصنف‘ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ الحمدللہ اس روایت کو‘ ضعیف ہی قرار دیا ہے‘ صحیح تو قرار نہیں دیا جیساکہ امام بیہقی ؒوغیرہ نے کہا ہے‘ اس میں کیا اشکال ہے؟ کیا مولانا مودودیؒ مرحوم نے‘ اس ضعیف روایت سے‘ (جس کو بعض علما نے باطل اور بعض علما نے منکر اور بعض علما نے لاَ اَصْلَ لَہٗ  کہا ہے) وہ مطلب نکالا ہے‘ جو آج ہمارے بعض فوجی حکمران‘ مغرب کی جنگی قوت اور طاغوتی بالادستی سے مرعوب ہو کر‘ نکال رہے ہیں؟

ایک ایسی ضعیف سند پر مشتمل روایت کی بنیاد پر‘ قرآن و سنت کے محکم نصوص و دلائل کو نظرانداز کر کے‘ افضل چیز کی تحقیر اور تخفیف کرنا‘ دین کے بنیادی مزاج میں تحریف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور مسلم حکمرانوں اور بالخصوص فوجی افسران کو‘ قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں‘ جہادکے صحیح تصور کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


عاصم نعمانی

اس حدیث کو مولانا مودودیؒ نے وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج ۲۲:۷۸) کے تحت متن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں اسی آیت کے تحت متن کے ساتھ حدیث بیان کی ہے اور امام بیہقی  ؒکا حوالہ دیا ہے‘ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ امام بیہقی  ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ضعف ہے۔کنز العمال میںمتذکرہ حدیث دو جگہ بیان ہوئی ہے: حدیث نمبر ۱۱۲۶۰ و نمبر ۱۱۷۷۹۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ البغداد میں ۵۲۳‘ ۵۲۴‘ ج ۱۳ پر نقل کی ہے۔ امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی ؒنے الدرر المنتثرہ میں اسے درج فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیرکشاف زمخشریؒ، تفسیر الکبیر امام الفخر الرازی‘ اور تفسیر بیضاویمیں بھی اس حدیث کو درج کیا گیا ہے۔ اسے باطل قرار دینا مناسب نہیں۔


عتیق الرحمٰن صدیقی

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن‘ جلد سوم میں یہ حدیث یقینا نقل کی ہے مگر اس کے استنادی پہلو پر کچھ بھی نہیں کہا بلکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ’’ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے‘ جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۲۵۴)۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے جس مفہوم میں اس حدیث کا ذکرکیا تھا مولانا مودودیؒ کی مذکورہ وضاحت اس فلسفے کی نفی کرتی ہے۔