مراد علوی


دین کے دفاع کے دعوے لے کر اُٹھنے والے بعض لوگوں نے دوسروں کی تردید اور اپنے حوالے سے دعوئوں کی وہ مثالیں پیش کی ہیں کہ پڑھ کر دل دُکھتا ہے۔ یہاں اسی طرح کی ایک مثال پیش خدمت ہے:
تعبیر کی غلطی کے مصنف مولانا وحید الدین خان نے دعویٰ فرمایا کہ: ’یہ کتاب لکھ کر میں نے اسلاف ِ امت کا دفاع کیا ہے‘۔ خان صاحب کے ہاں اس قسم کے دعوئوں پر مبنی واقعات بڑی تعداد میں ملتے ہیں، اور وہ اپنی اکثر کاوشوں کو بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ الٰہی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔۱  بعض اوقات ان کا یہی رویہ عجیب صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ادارے، سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS: Centre for Peace and Spirituality International)کی ٹیم کے بارے میں ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس کو ’اخوان رسول‘ قرار دیا ہے:
’’ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے، جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبرؐ اسلام نے ان کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسولؓ کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اسی طرح اخوان رسول بھی کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ ہوں گے، بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے، جس پر رسولؐ اور اصحابِ رسولؓ کھڑے تھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ ’اخوانِ رسول‘ کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں، جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں رد عمل کی تحریکیں تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں، جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوکر، قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف ’سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک‘۲    میں پائی جاتی ہے۔ تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گئے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیحؑ کا حواری بننا، پیغمبر آخر الزماںؐ کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے، وہ تاریخ کا خاتمہ (end of history) ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اس موقعے کو پالیا، اس نے سب کچھ پالیا اور جس نے اس موقعے کو کھودیا، اس نے سب کچھ کھودیا‘‘۔۳ 
خان صاحب کے ہاں ایسے واقعات کمی نہیں ہے، اور ایسےعرفانی دعوے آپ کی  تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں ہمارے پیشِ نظر ان کی کتاب تعبیر کی غلطی سے اسلافِ امت کا تعلق واضح کرنا ہے کہ خود موصوف، اسلافِ امت کے مقابل کہاں کھڑے ہیں؟ مذکورہ کتاب دراصل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) پر تنقید کی غرض سے لکھی گئی ہے۔ اُوپر کی سطور میں ذکر ہوا کہ اس کتاب کو بھی انھوں نے ’الٰہی منصوبہ قرار دے کر اسلافِ امت پر احسان‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔خان صاحب کے مطابق مولانا مودودی کی سیاسی فکر اسلافِ امت سے انحراف اور ان کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے۔۴  تاہم، یہ رُوداد   دل چسپ ہے۔ وہ مذکورہ کتاب لکھنے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

’’میرے لیے یہ احساس ساری دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر لذیذ ہے کہ میری یہ کتاب اسلاف کے اوپر وارد ہونے والے اعتراض کی مدافعت ہے۔ میں اپنے عاجز اور ناتواں وجود کے ساتھ، ان کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے جو ۷مارچ ۱۹۶۳ء کو پیش آیا۔ ان دنوں میں [مولانا مودودی کی کتاب]  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کے استدلالات کی تحقیق کے سلسلے میں بے حد مشغول تھا۔ دارالمصنّفین اعظم گڑھ کے کتب خانے کا وسطی کمرہ ہے، چاروں طرف تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، علمِ کلام اور لغت کی ایک درجن سے زیادہ الماریاں دیوار سے لگی ہوئی رکھی ہیں۔ ایک بجے دن کا وقت ہے۔ کتب خانے کے بیرونی دروازے بند ہوچکے ہیں، اور تمام لوگ دوپہر کے وقفے میں اپنے اپنے ٹھکانوں کو جاچکے ہیں۔ مکمل تنہائی کا ماحول ہے جس میں ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف کتابیں۔ مسلسل مطالعے کی وجہ سے اس وقت میری کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے میرے سارے بدن کا خون نچوڑ لیا ہو۔ تفسیر ابن جریر کی ایک جلد دیکھ کر میں اٹھا کہ اس کو الماری میں رکھ کر دوسری کتاب نکالوں، مگر اُٹھا تو کمزوری کی وجہ سے چکّر آگیا، اور سمت بھول گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کدھر جاؤں اور کس الماری سے کتاب نکالوں؟ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آیا تو معلوم ہوا کہ متعلقہ الماری فلاں سمت میں ہے۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد جب میں نے اپنے ہواس [حواس]کو یک جا کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میں زیر بحث نظریے کے بارے میں اسلافِ امت سے تبادلۂ خیال کرنے کے لیےبہت دُور چلا گیا تھا اور چلتے چلتے تھک گیا۔ مگر اس کمزوری اور تکان کے باوجود مجھے یہ سوچ کر خوشی ہورہی تھی کہ مجھے ان کی راے معلوم ہوگئی ہے، اور اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کی طرف سے پورے اعتماد کے ساتھ زیرِ بحث تصورکی تردید کر سکوں۔ مجھے ایسا نظر آیا گویا یہ تمام الماریاں اور ان میں بھری ہوئی کتابیں اسلاف کی روحیں ہیں، جو میرے پیچھے کھڑی ہیں اور اپنے کمزور ہاتھوں اور کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ ان کی طرف سے مدافعت کرنے کے لیے جارہاہوں۔ یہ سوچ کر اتنی خوشی ہوئی کہ تکان اور بھوک پیاس سب بھول گئی اور میں دوبارہ مغرب تک کے لیے اپنے مطالعے میں مشغول ہوگیا‘‘۔ ۵  

خان صاحب نے اسلافِ امت کے ساتھ محبت کا اظہار بہت عقیدت مندانہ اسلوب میں کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ایسا اظہارِ عقیدت دیکھ کر قاری کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔  مزید یہ کہ خان صاحب کے عقیدت مندوں سے جب بھی  تعبیر کی غلطی کے موضوع پر گفتگو ہوئی، انھوں نے سب سے پہلے اسی واقعے کا حوالہ دیا۔ لیکن وہ یہ بات نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں کہ خود خان صاحب کا اپنا پورا نتیجۂ فکر کہاں تک اسلاف امت سے موافق ہے؟ وہ مسائل جو مسلم روایت میں اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے صدیوں پہلے لوگ اسلاف امت سے الگ ہوئے، خان صاحب نے انھی مسائل میں نہایت ناہموار بلکہ تکلیف دہ اسلوب میں اختلاف کیا ہے۔ جیسے موصوف کا تصورِ جہاد مکمل طور پر مسلم روایت سے ہٹا ہوا ہے۔ شتمِ رسول کے مسئلے پر آپ اسلافِ اُمت کے بالکل مقابلے پر کھڑے ہیں، اور اس کی بہت ساری مثالیں آپ کی تحریروں میں موجود ہیں۔ مزید برآں موافقت تو بعد کی بات ہے،     خان صاحب تو اسلافِ امت کے حوالے سے غیرتہذیب یافتہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ ۶ 
فقہ اور فقہاے کرام کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حج کے مسائل جو قرآن و حدیث میں ہیں، وہ اتنے کم ہیں کہ چند صفحات میں لکھے جاسکتے ہیں، مگر فقہا نے دوسری عبادات کی طرح حج کے بے شمار مسائل وضع کر رکھے ہیں ۷    جن کا احاطہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس ’اضافہ‘ کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ’حجاج کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے‘ مگر اس استدلال میں کوئی وزن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی مسائل پڑھ کر کوئی شخص نہ نماز پڑھ سکتا ہے، نہ حج کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے جو دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے نماز کے مفصل احکام بتانے کے بجاے یہ فرمایا: صَلُّو کما رایتمونی اصلی۔ یہی اصل طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہؓ نے نماز پڑھی، صحابہؓ کو دیکھ کر تابعینؒ نے، تابعینؒ کو دیکھ کر تبع تابعینؒ نے۔ اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا جارہا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس صرف فقہ کے نام نہاد تفصیلی مسائل ہوتے تو لوگ کبھی صحیح نماز نہ پڑھ سکتے۔ امام ابو حنیفہ اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مگر [ان کے شاگرد] وکیع کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان سے کہا کہ میں نے مناسک کی ادایگی میں پانچ غلطیاں کیں۔ پھر ایک حجام نے مجھے بتایا۔۸
اوپر خان صاحب بیان کرچکے ہیں کہ: مولانا مودودی کی تعبیر، اسلاف کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پھر اسلاف سے تبادلۂ خیال کرکے ان کی مدافعت کا دعویٰ بھی کرچکے۔ لیکن یہاں پر خود انھوں نے فقہا کی صدیوں کی محنت کو ’وضع مسائل‘ سے موسوم کیا ہے۔ جناب خان صاحب نے نماز کے مسئلے پر جو بحث کی ہے، اگرچہ اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں ہے، تاہم اس پر مختصراََ عرض ہے کہ آپ کا یہ فرمانا قانونی مسائل سے بے خبری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ پھر خان صاحب نے ایک جگہ دین کی روایتی تعبیر و تشریح کو دین کے اُوپر’گرد و غبار‘ اور آمیزش  قرار دیا ہے۔ ۹البتہ ان کی کتابوں میں ’تجدید دین‘ اسلاف امت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انھوں نے مسلم روایت کو ہر پہلو سے رگیدا ہے۔ اسی سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
’’یہ کہنا صحیح ہوگا کہ فقہ اور تصوف اور علمِ کلام کی شکل میں جو اضافے اسلام میں ہوئے،  ان کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ قرآن کا سِرا امت کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ان اضافوں نے دین کو ایک قسم کا فن بنا دیا۔ کتابِ الٰہی میں جو چیز سادہ اور فطری انداز میں بتائی گئی تھی، اس میں اپنی طرف سے موشگافیاں کرکے نئے نئے مسئلے پیدا کیے اور بطور خود بے شمار اصطلاحات وضع کیں تاکہ ان کو فنی انداز میں بیان کیا جاسکے‘‘۔ ۰

اس استدلال پر مزید لکھتے ہیں:’’ایک خالی الذہن شخص ہمارے اسلامی کتب خانے کو دیکھے تو وہ حیرت انگیز طور پر ایک اختلاف کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ دین منزل اور دین مدون کا اختلاف ہے، جو بہت بڑے پیمانے پر اسلام کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ خدا کا دین قرآن و حدیث میں ایک سادہ اور فطری چیز نظر آتا ہے۔ وہ دلوں کو گرماتا ہے اور عقل میں جِلا پیدا کرتا ہے۔ مگر یہی الٰہی علوم جب انسانی کتابوں میں مدون ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں، تو اچانک وہ ایک ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جس میں خشک بحثوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں نہ دلوں کے لیے گرمی ہے اور نہ عقل کے لیے روشنی۔ قرآن میں بھی  فقہ ہے مگر وہ کنز الدقائق (ابوالبرکات نسفی) کی فقہ سے مختلف ہے‘‘۔؎  ۱۱
خان صاحب آگے چل کر فقہا کو یہودی فریسوں سے تشبیہ دیتے ہیں:’’ آج پیغمبر آخر الزماںؐ کی امت خود انھی ’اصر و اغلال‘ کے نیچے دب چکی ہے۔ ان کے فقہا اور مشائخ نے اسلام میں وہ سارے اضافے کر ڈالے ہیں، جو یہودی فقیہوں اور فریسوں نے شریعت موسوی میں کیے تھے۔ آج اسلام کی تجدید کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسلام کو ان تمام اضافوں سے پاک کردیا جائے۔ جب تک یہ کام نہ ہو، اسلام زندہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔؎۱۲
دراصل یہ متجددین کی وہ قطعیت بیانی ہے، جس سے ان کو فقہا کا فہمِ دین ’شریعت سازی‘ اور ’دین میں آمیزش‘ لگتی ہے ، اور اپنے موقف کو منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔؎  ۱۳
خان صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فقہا، محدثین اور متکلمین کی کاوشیں بہ یک بینی و دوگوش رد کردی جائیں، جب کہ دوسری طرف موصوف نے مولانا مودودیؒ پر تنقید کرتے ہوئے انھی حضرات سے اپنا فکری رشتہ ظاہر کرکے خود کو اسلافِ امت کے وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ؎  ۱۴   خان صاحب کی تحریروں میں امت کے بڑے ائمہ کے لیے عزت کے الفاظ نہیں ملتے۔ جہاں بھی فقہا اور محدثین کا ذکر کرتے ہیں، تو نہایت طنزیہ اسلوب اپناتے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں صرف ان کی اس دلیل کا تعارف کرانا تھا کہ جس میں انھوں نے خود کو ’اسلاف کا ترجمان‘ ظاہر کیا ہے اور خود انھوں نے اسلاف کے بارے میں کیا لکھا ہے  ع
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
_______________
۱-       مثال کے طور پر وحید الدین خان اپنے مضمون: ’خواب پورا ہوگیا‘ میں لکھتے ہیں:’’ یہ کام عینِ خدا کے منصوبے کے تحت اپنی تکمیل کو پہنچا۔ آج جب میں نے تذکیر القرآن کو مکمل کیا تو میرے دل نے کہا: جو کام مجھے کرنا تھا وہ کام آج پورا ہوگیا۔ اب ان شاءاللہ خدا کے دین پر کوئی شخص پردہ نہ ڈال سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ ( ماہنامہ الرسالہ  ، دہلی،اکتوبر۱۹۸۶ ء ، ص ۲۶) 
۲-    یہاں پر خان صاحب نے اپنی ٹیم کو ’تحریک‘ کا نام دیا ہے، حالاں کہ ان کو اس اصطلاح سے سخت چڑہے۔
۳-    سی پی ایس انٹرنیشنل، وحید الدین خان مشمولہ: ماہنامہ تذکیر، ستمبر۲۰۰۶ ء، ص۴۲ (یاد رہے تذکیر، دہلی سے شائع ہونے والے، وحید الدین صاحب کے ماہنامہ الرسالہ  کا پاکستانی ایڈیشن ہوا کرتا تھا۔)
۴-    اقامتِ دین کا قرآنی مستدل سورئہ شوریٰ ۴۲،آیت ۱۳ شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ…… ہے۔ اس پر مولانا نے بعض اعتراضات کیے ہیں۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے سلف کی آرا نقل کر کے یہ واضح کیا ہے کہ: سلف کے ہاں بھی اس آیت کی تفسیر مولانا مودودی سے مختلف نہیں ہے۔ دیکھیے: اقامتِ دین اور نفاذِ شریعتؒ (نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، ۲۰۱۲ء)
۵-    وحید الدین خان، تعبیر کی غلطی، لاہور، دارالتذکیر، اگست ۱۹۶۲ء، ص ۱۴-۱۵
۶-    خان صاحب نے فقہا اور محدثین میں سب سے زیادہ بے زاری بلکہ نفرت کا اظہار امام ابن تیمیہؒ (م: ۷۲۸ھ) کے بارے میں کیا ہے۔ اپنی کتاب شتمِ رسول کا مسئلہ' میں امام ابن تیمیہ کے بارے میں سخت تکلیف دہ اسلوب اختیار کیا ہے (دیکھیے: شتمِ رسول کا مسئلہ، لاہور: دارالتذکیر ۱۹۹۷ء ، ص۱۰۴-۱۱۳)۔ اختلاف خان صاحب کا حق ہے، لیکن امام ابن تیمیہؒ جیسی جلیل القدر شخصیت، فقیہ اور محدث کے لیے، طفلانہ جملے لکھنا حددرجہ ناانصافی ہے۔ چند ماہ پیش تر بھی امام ابن تیمیہؒ کو اسی پیرایے میں مخاطب کیا تھا ۔ (دیکھیے: الرسالہ ،دہلی، اپریل ۲۰۱۸ء)
۷-    اصولِ فقہ سے ان متجدّدین کی بے خبری کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے۔ 
۸-    الرسالہ ( جولائی ۱۹۸۴ء)، ص ۳۷۔ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ قصہ، محض ایک افسانہ ہے ۔ دیکھیے: محمد انور شاہ ابن معظم شاہ کشمیری، العرف الشذی شرح سنن الترمذی (بیروت، داراحیاء التراث العربی)، ج ۲، ص ۲۷۰-۲۷۱
۹-    وحید الدین خان، تجدید دین ،لاہور، دارالتذکیر، ۲۰۰۳ء، ص ۱۷،۱۸
۱۰-    ایضاً، ص ۷۱        ۱۱-   ایضاً، ص ۷۳        ۱۲-   ایضاً، ص۷۵
۱۳-    اپنے فہم کو وحی و الہام سے کم حیثیت میں نہیں دیکھتے۔ بالکل اسی طرح خان صاحب بھی اپنے فہمِ دین کو واحدحق سمجھتے ہیں۔ جناب محمد عمار خان ناصر، موصوف صاحب کی اس قطعیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا [وحید الدین خان ] کے زاویۂ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب ولہجہ اور اسلوب ’رایی صواب یحتمل الخطا ورایھم  خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجاے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے، اور وہ اپنے زاویۂ نگاہ کو ایک ’نقطۂ نظر‘ سمجھنے کے بجاے ’واحد درست طرزِ فکر‘ قرار دینے پر اصرار میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں… افسوس ہے کہ اس ذہنی رویے نے اب ایک ایسا رُخ اختیار کر لیا ہے، جس سے ہماری راے میں نہ صرف مولانا [وحیدالدین خان]کی پوری جدوجہد کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ خود دین کے حوالے سے ایک بے حد خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے‘‘۔(مضمون:’سی پی ایس انٹرنیشنل کسی نئے فتنے کی تمہید‘ ، ماہ نامہ الشریعہ   ، گوجرنوالہ، اکتوبر۲۰۰۶ء، ص۲۵)
۱۴-       خان صاحب کی فکر ایک لحاظ سے مولانا مودودیؒ کی مخالفت سے وجود میں آئی ہے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے دین میں اجتماعیت سے ہر سطح پر انکار کردیا۔ تعبیر کی غلطی کے اثر سے مولانا سیّدابوالحسن علی ندویؒ (۱۹۱۴ء-۱۹۹۹) اور مولانا محمد منظور نعمانی ؒ(۱۹۰۵ء- ۱۹۹۷ء) بھی محفوظ نہ رہے۔ تاہم، وہ اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت پر جس شدت کے ساتھ زور دیتے ہیں بالکل اسی طرح روحانیت حاصل کرنے کے لیے پوری دینی روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیتے ہیں۔ اوپر ذکر ہوا ہے کہ خان صاحب کی کتاب تجدیدِ دین' دینی روایت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ خان صاحب، جیّد فقہا کی کاوشوں کو دین پر اضافہ سمجھتے ہیں، دینی روایت سے بے زاری کی اس سے کیا بڑی بات ہوسکتی ہے۔ بہ تکرار عرض ہے کہ وحیدالدین صاحب نے مولانا مودودی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے عمل کو ’اسلافِ امت‘ کا دفاع قرار دیا تھا۔ تاہم، ایک جگہ سلف کے فہم پر طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حامل کتاب قوم میں یہ زوال اس وقت آتا ہے،جب کہ خدا کے دین کو ’فن‘ بنا دیا گیا ہو۔ فن نام ہے کسی حقیقت کو ناپ تول کی زبان میں متعین کرنے کا۔ اب چوں کہ اندرونی حقیقت ناپ تول کی گرفت میں نہیں آتی، وہ صرف بعض ظاہری پہلوؤں کو بیان کرسکتی ہے، اس لیے جب کسی قوم کے اندر ا س قسم کے فنون ترقی کرتے ہیں تو ظاہری بحثوں والے دین کے ماہرین تو ان کے یہاں خوب پیدا ہوتے ہیں، مگر ایسے لوگ ناپید ہوجاتے ہیں، جو کیفیت والے دین سے آشنا ہوں۔ عبادت جو دل کی گھلاوٹ کا نام ہے، فقہی ناپ تول کے ایک ظاہری عمل کا نام رہ جاتی ہے۔ روحانیت جو خدا اور آخرت کی سطح پر جینے کا نام ہے، اس کے مقامات عملیاتی ورزشوں سے طے ہونے لگتے ہیں۔ دعوتِ دین جو دراصل بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا اظہار ہے، وہ تقریر اور تحریر، مناظرہ اور احتجاج، حتیٰ کہ ہڑبونگ اور توڑپھوڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے، وغیرہ‘‘۔ (تجدیدِ دین، ص۱۹-۲۰)

اس کتاب پر ایک طبقے نے تحسینی بیانات دیے، تاہم معاصرین کا یہ ردعمل بھی ملاحظہ کیجیے: lلندن کے معروف روزنامے Times  (۱۵نومبر ۱۸۸۳ء، ص۲) نے تبصرہ کیا: ’’یہ کتاب محض عیسائی کینہ پروری اور عمومی نفرت انگیزی کی نشرواشاعت ہے‘‘۔اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں عربی کے پروفیسر ڈیوڈ سیمویل مارگولیتھ (۱۸۵۸ء-۱۹۴۰ء) کے بقول: ’’یہ ایک اعتراف شدہ متعصبانہ تحریر ہے‘‘۔ (محمد اینڈ رایز آف اسلام، ۱۹۰۵ء) سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء-۱۹۲۸ء) کے مطابق: ’’میور، اسلام کا تسلیم شدہ دشمن ہے‘‘۔(اسپرٹ آف اسلام، لندن، ۱۸۹۱ء) ۔ ادارہ


گذشتہ دو صدیوں سے رومیوں نے مسلمانوں کو پہلے تو سیاسی طور پر پسپا کیا۔پھر اس سے بھی زیادہ غم ناک پہلو مسلمانوں کی فکری و نظریاتی پسپائی تھی۔ مسلمان مغرب کے شمشیر بکف حملہ آوروں کے سامنے سرنگوں ہونے کے ساتھ ہی ساتھ تحقیق کے میدانوں میں بھی شکست خوردہ ہوگئے۔ 
یورپی اقوام مادی فتح کے ساتھ فکری میدانِ کار زار میں بھی کود پڑیں اور خالص دینی موضوعات کو تختۂ مشق بنانے کے لیے مسلمانوں ہی کی صفوں سے بھی اپنی ’فوج‘ بھرتی کرنا شروع کی۔ ان معاندانہ کوششوں کا ہدف نمایاں طور پر سیرتِ رسولؐ اور جہاد تھا اور ہے۔ ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ ’’اسلام کو تمام تر غلبہ تلوار کے زور پر ملا ہے اور اسلام خون ریزی سکھاتا ہے‘‘۔ اس نوع کے اعتراضات کا تعلق چوں کہ زیادہ تر سیرت پاکؐ سے تھا، اس لیے مغربی مصّنفین نے بڑے اہتمام سے اس موضوع پر لکھا۔ ۱۸۶۱ء میں لندن سے ایسے اعتراضات پر مبنی ایک ضخیم کتاب The Life of Mahomet   l،سر ولیم میور ( ۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء)نے لکھی، جو اس وقت یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر تھے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر یورپی ذہن کی جانب سے ایک ’چارج شیٹ‘ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کتاب میں لگائے گئے الزامات سے مسلمان بہت بے چین ہوئے۔ تاہم، اس کتاب کا اوّلین جواب دینے کی رضاکارانہ ذمہ داری سرسیّد احمد خان (۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء) نے لی۔ اور اس مقصد کے لیے سرسیّد۱۸۶۹ء میں انگلستان گئے۔۲  ولیم میور کی کتاب کی پہلی جلد کا جواب کتاب کی صورت میں مرتب کر کے۱۸۷۰ء میں لندن ہی سے انگریزی ایڈیشن Eassays on the Life of Muhammad  شائع کی۔۳ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں جہاد سے متعلق مباحث سے کوئی خاص تعرض نہیں کیا گیا (ویسے بھی ولیم میور نے اپنی کتاب کی تیسری اور چوتھی جلدوں میں جہاد کے متعلق مباحث چھیڑے ہیں)۔ بعض مقامات پر اس حوالے سے ضمنی باتیں مل جاتی ہیں۔ اسلام پر جبر و اکراہ کے الزام کے جوابات دیے ہیں۔ 
لیکن جنابِ سرسیّداحمد کا اسلوبِ بیان مستشرقین سے ملتا جلتا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’جس اصول پر حضرت موسٰی نے کافروں پر تلوار کھینچی تھی اور یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک خدا کے حکم سے وہ تلوار کھینچی گئی تھی کہ تمام کافروں اور بت پرستوں کو بغیر کسی استثنا کے قتل و غارت اور نیست ونابود کردیں۔ اس اصول پر مذہب اسلام نے کبھی تلوار کو میان سے نہیں نکالا۔ اس نے کبھی تمام کافروں اور بت پرستوں کے نیست و نابود کرنے کا یا کسی کو تلوار کی دھار سے مجبور کرکے اسلام قبلوانے کا ارادہ نہیں کیا۔ ہاں، بلاشبہہ اسلام نے بھی تلوار کو نکالا مگر دوسرے مقصد سے، یعنی خدا پرستوں کے امن اور ان کی جان و مال کی حفاظت اور ان کو خدا پرستی کا موقع ملنے کو، اور یہ ایک ایسا منصفانہ اصول ہے جس پر کوئی شخص کسی قسم کا الزام نہیں لگا سکتا‘‘۔ ۴
یہ وہی اسلوب ہے جس سے عموماََ مستشرقین، انبیا کرامؑ کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سرسیّد نے پوری کتاب میں الزامی جواب دینے کے لیے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کے برعکس الطاف حسین حالی ( ۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء) خطباتِ احمدیہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دوسری خصوصیت اس کتاب کی یہ ہے کہ سرسیّد نے اس کتاب میں مناظرہ کے اس مخاصمانہ طریقے کی جگہ جو مسلمانوں میں عموماََ دائر و سائر ہے اور جس سے فریقِ مخالف کے دل میں بجاے رغبت کے نفرت اور بجاے آشتی کے ضد پیدا ہوتی ہے، ایک ایسا دوستانہ اور بے تعصبانہ طریقہ اختیار کیا ہے جو کسی کو ناگوار نہیں معلوم ہوتا اور مسلمانوں کے لیے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جس کی پیروی کرنے کی نہایت ضرورت تھی۔ ۵
جناب الطاف حسین حالی کی یہ محض ایک غیر محتاط اور غیرمنصفانہ دلیل ہے۔ اگر چہ سرسیّد کا بنیادی مقصد ’ولایت‘ [تاج برطانیہ] کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنے کے لیے بہت سی معذرتیں پیش کرنا تھا۔ سرسیّد خطباتِ احمدیہ  کی اشاعت کے بعد ۲۷سال تک زندہ رہے، لیکن معلوم نہیں ہوسکا کہ انھوں نے ولیم میور کی بقیہ تین جلدوں کا جواب کیوں نہ لکھا۔ تاہم، سیرتِ نگاری پر سرسیّد کے افکار نے بعد کے اہل قلم پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔ اس دور میں اس قافلے کے آخری نقیب مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) تھے۔ ولیم میور کی جانب سے جہاد پر اعتراضات کا تفصیلی جواب مولوی چراغ علی (۱۸۴۴ء-۱۸۹۵ء) کے حصے میں آیا، اور انھوں نے تحقیق الجہاد ۶ کے نام سے کتاب تصنیف کی۔ جب ۱۸۷۰ء میں سرسیّد ہندستان واپس آئے، تو اسی سال دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سرسیّد نے اس سے قبل۱۸۶۴ء میں غازی پوری میں ’سائنٹی فک سوسائٹی‘ قائم کی، جس کا بنیادی مقصد مغربی علوم کو اردو زبان میں ترجمہ کرنا تھا۔ چراغ علی صاحب چوں کہ زبانوں میں کافی مہارت رکھتے تھے، اس لیے مذکورہ ملاقات کے بعد سرسیّد نے ترجمے کے منصوبوں کی ذمہ داری ان پر ڈالی۔ منصوبہ ترجمہ کے مالی اخراجات ریاست حیدر آباد دکن برداشت کرتی تھی۔ اس لیے بعدازاں سرسیّد کی تجویز پر چراغ علی صاحب ریاست حیدر آباد میں کئی اہم مناصب پر فائز رہے۔ دونوں کی رفاقت بہت مضبوط تھی۔ ۷
چراغ علی صاحب نے اپنی کتاب تحقیق الجہاد کو بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ سرسیّد کے نام منسوب کر کے ۱۸۸۵ء میں شائع کیا۔ تاہم، انگریزی اشاعت کے بعد چراغ علی صاحب نے سرسیّد کو کتاب کا اردو ترجمہ کرنے میں مدد طلب کی۔ سرسیّد نے جواب میں لکھا کہ: ’’اُردو میں اس کی اشاعت مناسب نہیں ہے، کیوں لوگ آپ کے مقصد کو نہیں سمجھیں گے۔ علی گڑھ میں پہلے سے آپ کے خلاف مخاصمانہ ماحول پیدا ہوچکا ہے اور حیدر آباد کے لوگ علی گڑھ والوں سے بھی زیادہ جاہل ہیں۔ اگر اردو میں اس کی اشاعت ہوگئی، تو آپ کے خلاف نفرت کی زہریلی فضا قائم ہوجائے گی‘‘۔ ۸  خواجہ غلام الثقلین نے اس کتاب کا اردو ترجمہ ۱۹۱۳ء میں کرکے پانی پت سے شائع کیا۔ اس بحث سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ چراغ علی صاحب کی کتاب دراصل اس سلسلے کی کڑی تھی، جس کا آغاز سرسیّد احمد خاں نے کیا تھا۔  ۹
تحقیق الجہاد کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی جنگیں لڑی تھیں وہ تمام دفاعی تھیں‘۔ اس خطے میں چراغ علی صاحب پہلے آدمی ہیں، جنھوں نے ’دفاعی‘ اور ’اقدامی جہاد‘ کی تقسیم متعارف کرائی، جس کا اثر بعدازاں اکابر سیرت نگاروں تک کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے شبلی نعمانی بھی اپنی معرکہ آرا کتاب سیرت النبیؐ   میں ’دفاعی‘ اور ’اقدامی‘ اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں، اور وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات کا تجزیہ کرتے ہیں،  تو ان کے نزدیک تمام جنگیں دفاعی ہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ جہاد کے حوالے سے یہ تقسیم اسلامی قانون سے قریب نہیں ہے۔ 
سرسیّد صاحب نے اپنے رفقا کے ہمراہ مغرب کو جواب تو دے دیا، لیکن اپنی صفائی بحیثیت مجرم کے پیش کی۔ اہلِ مغرب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے ’’تو ان حضرات نے سرے انکار کردیا کہ ’’اسلام اور تلوار کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح وہ تمام نزاعی مسائل زیرِ بحث آئے، جو آج بھی زندہ موضوعات ہیں۔ اسیرانِ جنگ، غلامی، مالِ غنیمت، متحارب اور مفتوح اقوام سے تعلق، جزیہ کی وصولی اور اس نوع کے تمام مسائل میں سرسیّد کی فکری روایت اس وقت سے تاحال دور ازکار تاویلات میں مصروف کار ہے۔ 
اس مختصر پس منظر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاد کے مسئلے پر اس خطے میں یہ ایک نئی فکر پروان چڑھی۔ ایک جانب اہل مغرب کا تعصب تھا اور دوسری جانب معذرت خواہ اہل قلم۔ اس گھٹاٹوپ ماحول میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)پہلے آدمی ہیں، جنھوں نے بغیر کسی معذرت خواہی کے، مخالفین کے اتہامات کا جواب دیا۔ اس موضوع پر مولانامودودی کی معرکہ آرا کتاب کا پس منظر ایک واقعہ بنا۔
۲۰ویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کی بعض تحریکیں اٹھیں جن کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو تہذیبی اور سماجی سطح پر کمزور کرنا تھا۔ انھی میں سے ایک ’شدھی تحریک‘ بھی تھی۔ یہ تحریک اس نظریے کی بنیاد پر بنی کہ ہندستان کے لوگ دراصل ہندو ہیں۔ اس لیے جو لوگ دوسرے مذاہب پر ایمان لائے ہیں، ان کو دوبارہ شدھی بنا دینا چاہیے۔ ۱۰  اس مقصد کے لیے ’شدھی تحریک‘ نے  مختلف طریقے اختیار کیے، اور آخر کار نسل پرست برہمن کھلی دشمنی پر اتر آئے۔ بالآخر مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانا شروع کیا۔ یہ دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ شدھی تحریک کے لیڈروں نے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کھلم کھلا گستاخیاں شروع کردیں۔
۲۳  دسمبر ۱۹۲۶ء کو اس تحریک کے بانی سوامی شردھا نند (۱۸۵۶ء-۱۹۲۶ء) کو عبدالرشید نامی ایک مسلمان نے قتل کردیا۔۱۱ اس سے مسلمانوں کے خلاف ماحول ابتر ہوگیا۔ایک بار پھر ہندوؤں نے اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کا آغازکیا۔ مظاہروں سے ہندستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ تاہم، تصورِ جہاد ایک بار پھر جلسوں اور اخباروں میں اعتراضات کی زد میں آگیا۔ اس بار ہندوؤں کی نفرت اور تعصب نے ایسی شدت اختیار کی کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بڑے بڑے دانش ور بھی اس سے بچ نہ سکے۔ 
گاندھی جی (۱۸۶۹ء-۱۹۴۸ء) جو بڑے صائب الراے آدمی تصور کیے جاتے تھے، انھوں نے اپنی نفرت کا اظہار سوامی کے تعزیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کیا کہ: ’’عبدالرشید اس قتل کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جنھوں نے نفرت پھیلا کر اس کو قتل پر اُکسایا۔۱۲  اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے، جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘۔۱۳ اخبار الجمیعۃ(۱۹۲۷ء) کے اداریوں سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ فسادپرور ہندو اس وقت کس قسم کا زہریلا پروپیگنڈا کررہے تھے۔ 
سیّد موودوی لکھتے ہیں:’’ہندوؤں نے اس سلسلے میں جو رکیک اور غلط پروپیگنڈا شروع کیا ہے، اس میں ایک طرف تو ان کے لیڈر گورنمنٹ کو دھمکی دے رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو مرعوب کرنا اور خوف دلانا چاہتے ہیں۔ ہندو اخبارات نے جو روش اختیار کی ہے اور ماتمی جلسوں میں جو زہریلی تقریریں کی جارہی ہیں، وہ نہایت خطرناک اور امن سوز ہیں۔ جہاں تک اظہارِ غم اور ہمدردی کا معاملہ ہے،[تو] اظہارِ ماتم کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایک مرتکب جرم کےساتھ (جوابھی تک متحقق نہیں کہ کون ہے) ساری مسلمان قوم کو موردِ طعن و تشنیع بنایا جائے، بلکہ اس پر بھی قناعت نہ کرکے مذہب اسلام کے خلاف بھی سب و شتم کا بازار گرم کردیا جائے۔ سڑکوں پر سرِ راہ بھجن گاتے پھرنا اور ماتمی جلسوں میں مساجد پر اوم [ایشور]کے جھنڈے گاڑنے کا اعلان کرنا، تمام مسلمانوں کے شدھ [پاک]کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا، مسلمانوں سے داڑھی منڈانے اور چوٹی رکھوانے کا مطالبہ کرنا، ہندوجاتی [ہندو قوم]کے نوجوانوں کو مرنے کے لیے تیار کرنا، یہ آخر کون سی تہذیب و شائستگی ہے؟۱۴
[الجمعیۃ، ۱۰ جنوری ۱۹۲۷ء ہی میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:] ’’ایک مہاشہ صاحب کے ارشادات ملاحظہ ہوں، جو ۷جنوری کے [اخبار] تیج میں شائع ہوئے ہیں:’۱۸ویں صدی کے آخری دس سالوں میں مختلف یورپین ممالک کے رہزن، قزاق، لٹیرے، جانباز ڈاکو، لچے، لقے، شہدے، شاہین چور، حرام زادے جنھیں اخلاق و شائستگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا، مہلک و تباہ کن آلات اور سمیات سے مسلّح ہوکر اپنے اپنے گھروں سے چل کر ایشیا میں وارد ہوئے۔ انھوں نے کمزور اقوام کو تباہ کیا اور اپنے حلقۂ غلامی میں لاکر ان کے ممالک میں لوٹ مار مچادی، سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا، ان کی نظیر صفحہ تاریخ میں مسلم غنڈا پن اور ظلم و سفاکی کے سوا اور کوئی نہیں ملتی ہے۔ عرب کے وحشی بربریوں کے گروہوں کے گروہ جو محمدصاحب کے جانشینوں کی فتوحات کے نشوں سے سرشار و سرمست تھے، زیادہ اراضی پر قابض و متمکن ہونے اور نئی چراگاہوں پر متصرف ہونے کی حرص میں ہاتھوں میں قرآن و تلوار لیے ہوئے ایران اور ہندستان کے فی مابین علاقے کو ٹڈی [دَل]کی طرح برباد کرنے کے لیے چڑھ دوڑے تھے اور سَبھَیتَا [تہذیب]جو کہ دوہزار سالوں سے چلی آتی تھی، ایسے وحشی و سفاک بربریت مجسم دشمن سے دوچار ہوئی، جس کو ہنر و فنون لطیفہ، لٹریچر یا حُسن و خوبی کی قدر نہیں تھی۔ اس دشمنِ انسانیت عدو کا نعرہ جنگ، تباہی و بربادی ہی تھا۔ ہندستان میں داخل ہوکر ان بدباطن بربریوں نے بودھوں کے مَٹھوں [تعلیمی مراکز]اور دھرم اَستھانوں [مندروں] کو ملیامیٹ کردیا۔ تعلیم کے مراکز غنڈا گردی و شہدے پن کے مرکزوں میں تبدیل ہوگئے۔ بھارت ورش [ہندستان]نے بودھ اُتم دھرم [اعلیٰ بدھ مذہب]کھودیا اور بودھ پرجا [عوام]کو لاکھوں کی تعداد میں جبراً عرب کے دین میں تبدیل کیا گیا۔ اس وقت ہندستان میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا، مگر آج سات کروڑ مسلمان ہیں‘‘۔۱۵
مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’ممکن ہے اس تحریر کو ایک شخصی تحریر کہا جائے، لیکن لاہور کے اخبار سوراجیہ کی اس تحریر کے متعلق کیا کہا جائے گا، جو کسی شخص کا ذاتی اخبار نہیں بلکہ [انڈین نیشنل] کانگریس کی سرپرستی میں نکل رہا ہے:مسلمانانِ ہند کی تواریخ کسی بھی پہلو میں شان دار نہیں، نہ انھوں نے کوئی فلاسفر پیدا کیا ہے اور نہ ہی کوئی سائنس دان، نہ کوئی حقیقی دھرماتما [فیاض]اور نہ ہی کوئی جاںباز محب وطن، بلکہ وقتاً فوقتاً انھوں نے اپنی بربریت اور وحشیانہ پن کا ہی ثبوت دیا ہے اور اس کا واحد کارن [مقصد] ان کا مذہبی کٹر پن، عدمِ رواداری، تنگ دلی اور غلط خیالات ہیں‘‘۔۱۶
 ان حالات میں جس تصور کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرایا گیا، وہ جہاد ہے۔  برطانوی ہند کے طول و عرض میں اسی زبان میں آگ کے شعلے بلند کرتے اور لاوا اُگلتے پروپیگنڈے کی زد میں اسلام اور مسلمان تھے۔
انھی دنوں مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء-۱۹۳۱ء)۱۷ نے جامع مسجد دہلی میں خطبہ دیتے ہوئے حسرت سے کہا:’’ کاش! کوئی بندۂ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کوئی کتاب لکھے، جو مخالفین کے سارے اعتراضات و الزامات کو رفع کرکے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کردے‘‘۔۱۸
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ: ’’تقریر سننے والوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں‘‘۔ مولانا جوہرؔ کی اس آرزو نے سیّد مودودی کو مہمیز دی اور اس موضوع پر لکھنے کا آغاز کیا۔ سیّد مودودی ان دنوں جمعیت العلما کے سہ روزہ اخبار الجمیعۃ، دہلی کے ایڈیٹر تھے، اور روزِ اول (دسمبر۱۹۲۴ء) سے دسمبر۱۹۲۸ء تک ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔۱۹ 
اسی پرچے میں اسلامی قانونِ جنگ پر مولانا مودودی نے یہ سلسلہ وار مضامین بہ عنوان ’کیا اسلام خوں ریزی سکھاتا ہے؟‘ لکھنا شروع کیا، تو جمعیۃ العلما کے ناظم مولانا احمد سعید نے، اس سلسلہ تحریر کے تعارف میں یہ سطور قلم بند کیں:’’دنیا میں حقیقی امن و صلح کا پیغام اگر کوئی مذہب لایا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ مگر عداوت اور بغض کا بُرا ہو کہ اس نے مخالفین اسلام کی آنکھوں کو ایسا اندھا کردیا ہے کہ اُن کو یہ روشنی نظر نہیں آتی، اور وہ برابر اسلام کی تعلیم کو خونی تعلیم اور اسلام کو خونی مذہب کہتے ہیں۔ مخالفین اسلام کے  غلط پروپیگنڈے کی قلعی کھولنے اور اسلام کی حقیقی اور سچّی تعلیم کو واضح کرنے کے لیے جمعیۃ العلما کے اخبار الجمیعۃ میں ایک پُر از معلومات سلسلۂ مضامین شروع کیا جارہا ہے، جو مخالفین کے لیے مشعل ہدایت اور مسلمانوں کے لیے بصیرت کا ذریعہ ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح و جنگ کے احکام کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق پڑھیں اور سمجھیں اور ہندستان کے تمام قومی و مذہبی معاملات میں سچی رہنمائی سے مستفید ہوں، تو فوراً ۲  فروری۱۹۲۷ء سے اخبار الجمیعۃ کو التزام سے پڑھیے اور اپنے احباب و اقربا کو پڑھائیے اور سُنایئے۔ ہر مسلمان کا قومی اور مذہبی فرض ہے کہ حق کی اس آواز کو دوسرے مسلمانوں تک پہنچا دے۔ بالخصوص اس وقت ائمہ مساجد کی اسلامی خدمت یہی ہے کہ جمعہ کے روز الجمیعۃ کے مضامین مسلمانوں کو سنا کر اُن میں اسلامی تعلیم کی سچی واقفیت پیدا کریں، تاکہ وہ عام مسلمانوں کا طبقۂ مخالفین کی تلبیس کی مضرتوں سے محفوظ رہے۔ الجمیعۃکی توسیع اشاعت بھی طریقِ حق میں سے ایک مفید اور نتیجہ خیز طریقہ ہے‘‘۔ ۲۰
جب الجمعیۃ  میں ۲۳، ۲۴ قسطیں چھپ چکیں تو اندازہ ہوا کہ اتنے بڑے موضوع کو اخباری صفحات پر نبھانا ممکن نہیں۔ اس لیے مولانا مودودی نے اقساط کی اشاعت روک دی۔۲۱ اور پھر اس سلسلۂ مضامین کو مفصل مباحث کے ساتھ کتابی صورت میں مرتب کرکے دارالمصنّفین کے  سپرد کیا۔ بالآخر یہ مضامین علّامہ سیّد سلیمان ندوی [۱۸۸۴ء-۱۹۵۳ء] کے تجویز کردہ عنوان الجہاد فی الاسلام کے تحت ۱۹۳۰ء میں وہیں سے شائع ہوئے۔ سیّدمودودی نے دارالمصنّفین کے سامنے بعض شرائط رکھی تھیں، جس کا ذکر سیّد سلیمان ندوی نے مجلس دارالمصنّفین کے رکن   مولانا عبدالماجد دریابادی سے ایک خط میں کیا:’’ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے اسلام اور جنگ پر سلسلۂ مضمون لکھا تھا اور الجمیعۃ میں شائع ہوا تھا، اس موصوف نے مع اضافہ ابواب کثیر تین ساڑھے تین سو صفحوں کی ایک کتاب لکھی ہے، جو معیار کے مطابق اور پُر معلومات ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کو دارالمصنّفین شائع کرے اور اس کے معاوضے میں وہ ان کو دائمی رکن بنائے اور اپنی مطبوعات سالانہ معارف ان کو دیا جائے‘‘۔ ۲۲
دسمبر۱۹۲۹ء کے معارف میں الجہاد فی الاسلام کے بارے مولانا سیّد سلیمان ندوی نے لکھا:’’دارالمصنّفین سے امسال زیرِ طبع ایک کتاب اسلام اور اس کے قوانینِ جنگ ہے، جس میں اسلام کی رواداری، جہاد اور اس کے اسباب و اغراض دوسری قوموں کے حقوق، ان سے لڑائی اور صلح کے احکام، دوسرے مذاہب اور موجودہ متمدن حکومتوں کے قوانینِ جنگ سے مقابلہ اور موازنہ، یہ کتاب شاید ۵۰۰ صفحات پر ختم ہو۔ آدھی سے زیادہ چھپ چکی ہے۔ شاید دو مہینے میں پوری ہوسکے‘‘۔ ۲۳
کتاب کی اشاعت کے بعد ماہ نامہ معارف  کے مدیر جناب سیّد سلیمان ندوی، الجہاد فی الاسلام کے مختصر تعارف میں لکھا:’’سالِ گذشتہ کی طرف سے اس مہینے جو نئی کتابیں چھپ کر تیار ہورہی ہیں، ان میں تیسری کتاب کا نام الجہاد فی الاسلام ہے، اس کے مؤلف ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ تقریباً ۵۰۰ صفحات میں یہ کتاب تمام ہوئی ہے۔ اس میں اسلامی جہاد کے اصول و مسائل، معترضین کے جوابات، مخالفین کے شکوک و شبہات کی تردید، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور بودھوں کے اصول سے ان کا مقابلہ اور یورپ کے موجودہ قوانینِ جنگ پر تبصرہ اور جہاد کے اسلامی قوانین سے ان کا موازنہ ہے۔ عربی اور انگریزی کی بہترین مستند کتابوں کے حوالوں سے یہ لکھی گئی ہے۔ خیال ہے کہ اس ضروری مسئلے پر اس سے زیادہ مدلل، مبرہن اور مبسوط کتاب اب تک نہیں لکھی گئی‘‘۔  ۲۴
ہندستان کے مشاہیر اہل علم و فکر میں اس کتاب نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) نظریۂ جہاد میں دل چسپی رکھتے تھے اور اہل قلم کو اس موضوع پر لکھنے کے لیے اُبھارتے رہتے تھے۔ ۲۵ جب 'الجہاد فی الاسلام ان تک پہنچی تو فرمایا: 
’اس [کتاب] کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا، بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں، اُنھیں کسی تاویل یا تعبیر کے بغیر، بڑے کرّوفر سے پیش کیا ہے‘۔ ۲۶
دارالاسلام کے منصوبے کے لیے سیّد مودودی کے انتخاب کا ذریعہ بھی یہ کتاب بنی تھی:
'سید نذیر نیازی (م:۱۹۰۰ء-۱۹۸۱ء) راوی ہیں کہ علامہ [محمد اقبال] نے چودھری نیاز علی خاں[۱۸۸۰ء-۱۹۷۶ء] سے ’دارالاسلام‘ کے ’مرد کار‘ کی فراہمی کے بارے میں کہا: 
’حیدرآباد [دکن] سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام   مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انھیں ’دارالاسلام‘ آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے وہ دعوت قبول کرلیں گے‘۔ ۲۷
جن حضرات کو اس زمانے میں کتاب پڑھنے کا موقع ملا، ہر کسی نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔ مثال کے طور پر رئیس احمد جعفری [۱۹۰۸ء-۱۹۶۸ء]لکھتے ہیں:’’بچپن سے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار و دماغی زورِ قلم اور متوازن راے کا سکہ دل پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وہی صحافی تھا جس نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں جمعیۃ العلما کے ترجمان الجمیعۃ کی عنانِ ادارت ہاتھ میں لی اور اسے بام عروج پر پہنچایا، ہندستان کے بلند پایہ اخبارات کی صفِ اوّل میں پہنچادیا، سوامی شردھانند کے [واقعۂ] قتل کے بعد جس نے ’اسلام اور تشدد کا مسلک‘ کے موضوع پر اتنے عالمانہ سیر حاصل اور بلند پایہ مقالات لکھے کہ دھوم مچ گئی، مخالفین تک داد دینے پر مجبور ہوگئے‘‘۔  ۲۸
سیّد مودودی لکھتے ہیں:’’میں نے جب دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو ایک خاص مذہبی ماحول میرے سامنے تھا، جس کی بہت سی چیزیں مجھ کو اپیل نہیں کرتی تھیں۔ خوش قسمتی سے میری ابتدائی تعلیم عربی زبان ہی میں ہوئی تھی اور اسلامی علوم کی ابتدائی کتابیں میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ جب میں قرآن اور حدیث کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہوں تو مجھے جاننا چاہیے کہ وہ اسلام کیا ہے جو قرآن و حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس مطالعے کے دوران میں مَیں نشان بھی لگاتا گیا اور نوٹس بھی لیتا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اسلام فی الواقع کیا ہے؟ اس مطالعے نے تفصیلی اور تحقیقی شکل اس وقت اختیار کی جب میں نے 'الجہاد فی الاسلام لکھنی شروع کی‘‘۔ ۲۹
 یہ وہ تصنیف ہے جس نے خود سیّد مودودی کے اندر انقلاب برپا کیا اور انھوں نے صحافت کو خیر باد کہہ کر احیاے اسلام کے لیے جدوجہد شروع کی، جس نے بعد میں جماعت اسلامی کو وجود بخشا۔ جسٹس ملک غلام علی [۱۹۲۰ء-۲۶ستمبر۱۹۹۴ء] کے بقول 'الجہاد فی الاسلام کے بارے میں سیّد مودودی نے ایک مرتبہ خود فرمایا: ’’اس کتاب نے سب سے زیادہ فائدہ خود مجھے پہنچایا ہے۔ میں نے جب اس کتاب کے لکھنے کا ارادہ کیا تھا، تو میرے اندر دینی حمیت سے زیادہ قومی حمیت کا جذبہ کام کررہا تھا، لیکن تالیف و تحقیق کے دوران میں جب مجھے ایک ترتیب کے ساتھ اسلام کے اساسی نظریات اور اس کے تفصیلی احکامات کا غور سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ میں نہ صرف نظامِ شریعت کا فہم اور اس کی حقانیت کا غیر متزلزل یقین اُبھر آیا، بلکہ اس نظام کے احیا کا ولولہ بھی مجھ میں پیدا ہوگیا اور اس کے لیے کام کرنے کا طریقہ بھی میری سمجھ میں آگیا۔ اس کے بعد میں نے اخبار نویسی کے مروج اور پامال راستے کو خیر باد کہنے کی ٹھان لی۔ الجمیعۃ سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ طے کیا کہ صحافت کی دنیا میں اگر آیندہ قدم رکھوں گا، تو صرف اس شرط پر، کہ اسے دینِ حق کی خدمت کا ذریعہ بناؤں۔ اس کے بعد مزید پانچ سال تک پھر صرف مطالعہ، لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کا کام کرتا رہا‘‘۔  ۳۰
اس شاہکار تصنیف نے بے شمار لوگوں کی زندگیاں سنواری ہوں گی۔ یہاں ہم صرف جناب شورش کاشمیری (۱۹۱۷ء-۲۵؍اکتوبر۱۹۷۵ء) کے احوال نقل کر رہے ہیں جو مجلس احرار کے رہنما کی حیثیت سے ساہیوال سنٹرل جیل میں قید تھے۔ ان کے ساتھ بعض معروف کمیونسٹ لیڈر بھی اسیر تھے۔ شورش صاحب لکھتے ہیں:’’میں نے [جیل ہی میں] مختلف پروفیسروں سے کمیونزم پڑھنا شروع کیا۔ دو سال تک پڑھتا رہا اور سچ تو یہ ہے کہ میری ذہنی بنیادیں ہل گئیں۔ میں خدا کے وجود سے لے کر عام اخلاقی اقدار تک کے عقیدے میں ڈانواں ڈول ہوگیا۔میں نے قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت ترک کردی، کیوں کہ میں سمجھتا تھا کہ مطلب جانے بغیر اس کی تلاوت بے فائدہ ہے۔ خداوند تبارک و تعالیٰ کو (نعوذ باللہ)  فرصت کے قہقہوں کا موضوع سمجھتا تھا۔ اور ہر اس مسئلے کی تضحیک میں خوشی ہوتی، جو مذہب کے’غیر عقلی‘ وجود سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے مجھے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک ضخیم تصنیف 'الجہاد فی الاسلامبھجوائی۔ میں نے سرورق دیکھا اور کتاب کو سرہانے رکھ چھوڑا۔ کچھ دنوں بعد میرا [سنٹرل] جیل خانے کے سپرنٹنڈنٹ سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اس نے مجھے تنہائی میں بھیج دیا اور مارکسزم کے موضوع کی تمام کتابیں روک لیں۔ میں نے اصرار کیا، لیکن وہ نہ مانا۔ جب دوچار دن بے مطالعہ تنہائی میں گزر گئے تو میں نے محض دفع الوقتی کے لیے 'الجہاد فی الاسلام طلب کی۔ سپرنٹنڈنٹ ہندو تھا، اس لیے مذہبی کتاب سمجھ کر بھیج دینے پر راضی ہوگیا۔ میں نے تین دن میں تمام کتاب پڑھ ڈالی۔ یہ مطالعہ آنکھوں کی مشغولیت تک محدود رہا۔ دماغ میں اس کا ایک دھندلا سا نقش ہی قائم ہوسکا، البتہ دل نے ایک لطیف اثر قبول کیا۔ اب میں نے کتاب کے ۲۰صفحے بلا ناغہ پڑھنا اور ان پر اپنے فہم کے مطابق سوچنا شروع کیا۔ جب میں کتاب ختم کرچکا، تو مجھے اپنے دماغ و دل میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہوئی۔ میں نے قیدِ تنہائی سے نکلتے ہی کمیونزم اور سوشلزم کے معلّمین سے بحث و مذاکرہ شروع کردیا۔ جب وہ میری زبان سے اسلام کی تصریحات سنتے، تو اپنے سوالات بھول جاتے اور انھیں حیرت ہوتی کہ اسلام کا مفہوم مروجہ اصطلاحِ مذہب سے کتنا مختلف ہے‘‘۔ ۳۱
معلوم نہیں کتنے اور گُم نام لوگ ہوں گے، جن کی زندگیاں اس تصنیف کی بہ دولت اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوں گی۔ تاہم، استعماری دور میں مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ جس ذہنی ارتداد سے گزر رہا تھا، اس طبقے کو سیّد مودودی کی غیر معمولی طاقت ِانشا نے ان نازک حالات میں بہت بڑا سہارا دیا۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ سیّد مودودی سے قبل، ہندستان میں جتنے اہلِ قلم نے جہاد پر قلم اٹھایا، ان تمام نے اپنا مقدمہ مجرم کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنی صفائی پیش کی۔ ہر ایک نے معذرت خواہی اختیار کی۔ سیّد مودودی کے بارے میں بہت واضح ہے لیکن علامہ اقبال نے بھی وہ شہادت دی ہے کہ یہ ایسی تصنیف ہے جو عذر خواہی سے پاک ہے۔ استادِ محترم جناب ڈاکٹر محمدمشتاق احمد کی روایت ہے کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری(۱۹۳۲ء-۲۰۱۶ء) کہا کرتے تھے کہ: ’’سیّد مودودی جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں ختم کرنے نکلے تھے لیکن کمال یہ ہے کہ عذر خواہی سے بالکل احتراز کیا‘‘۔ بلاشبہہ یہی اس تصنیف سے سب سے بڑی خوبی ہے۔  


حواشی

۱-     مولانا شبلی نعمانی کے دور تک مستشرقین کی جتنی کتابیں منظرِ عام پر آئی تھیں،  ان کی فہرست مولانا شبلی نے سیرت النبیؐ  میں دی ہے۔ سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی،( اعظم گڑھ، دارالمصنّفین، ۱۹۷۴ء)، ج۱،ص ۹۲-۹۵
۲-      انگلستان کے سفر کا ایک مقصد اس کتاب کا جواب دینا بھی تھا۔ اس کتاب کو لکھنے میں انھوں نے بہت صعوبتیں اٹھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا الطاف حسین حالیؔ، حیاتِ جاوید (دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۳۹ء)، حصّہ دوم، ص ۱۲۰-۱۱۹۔اس کتاب کی تفصیلی روداد کے لیے دیکھیے: مسافرانِ لندن، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی [۱۸۹۳ء-۱۹۷۲ء] (لاہور: مجلسں ترقیِ ادب، ۲۰۰۹ء)۔
۳-     سرسیّد نے کتاب خطباتِ احمدیہ  اردو میں لکھی تھی۔ اس کو آپ کے صاحبزادے جسٹس سیّد محمود [۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء] نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، دیکھیے:The New Encyclopedia Britannica، جلداوّل(یونی ورسٹی آف شکاگو، ۱۹۸۵ء)، ص ۱۶۴
۴-    خطباتِ احمدیہ بہت بعد (۱۸۸۷ء) میں شائع ہوئی۔ یاد رہے ولیم میور کی کتاب کا پہلے انگریزی سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا، یعنی سرسیّد کے پڑھنے کا اصل ماخذ فارسی کتاب تھا۔ ثریا حسین، سرسیّد احمد خان اور ان کا عہد، (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاوس، ۱۹۹۳ء)، ص۱۱۳۔ سرسیّد کی انگریزی زبان سے ناواقفیت کی شہادت خطباتِ احمدیہ  میں بھی مذکور ہے۔ دیکھیے: سرسیّد احمد خان، خطباتِ احمدیہ،(کراچی: نفیس اکیڈمی، ۱۹۶۴ء)
۵-      خطباتِ احمدیہ، ص ۲۲۵
۶-      حیاتِ جاوید، حصّہ دوم، ص ۱۲۵۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر الزامی جواب کے طور پر جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ بھی نازیبا ہے۔اصل میں یہ کتاب چراغ علی نے انگریزی میں اس عنوان سے لکھی: A Critical Exposition of Popular Jihad،(کلکتہ: تھیکرسپنک اینڈ کمپنی، ۱۸۸۵ء)
۷-    چراغ علی کی وفات پر سرسیّد نے بہت گہرے غم کا اظہار کیا تھا۔ ملاحظہ ہو: شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، مقالاتِ سرسیّد ، (کلب روڈ لاہور: مجلس ترقی ادب،۱۹۶۵ء)، ص ۷۸۱
۸-      سرسیّد احمد خان، مکتوبات، (لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۸۶ء)، ص ۳۷۰
۹-      مزید دیکھیے:وحیدالرحمان، The Religious Thought of Moulvi Chiragh Ali،تحقیقی مقالہ براے ایم اے (مانٹریال: میک گل یونی ورسٹی، ۱۹۸۲ء)
۱۰-    اس کا لفظی مطلب ہے پاک کرنا، یعنی جو لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں انھیں دوبارہ ہندو بنا کر پاک کرنا۔
۱۱-    عبدالرشید کے متعلق سیّد مودودی کے الجمیعۃ ۱۹۲۷ء کے مضامین میں تفصیل موجود ہے۔ جنھیں  مضامین جناب خلیل احمد حامدی[۱۹۲۹ء-۲۴نومبر ۱۹۹۴ء] نے آفتابِ تازہ  کے نام سے مرتب کیا ہے: سیّدابوالاعلیٰ مودودی، آفتابِ تازہ، ( لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۹۳ء) ۔ سیّد مودودی نے لکھا ہے کہ: اس وقت تمام مسلمان زعما نے سوامی جی کے قتل کی شدید مذمت کی تھی، لیکن ہندوئوں نے اسی روز مجنونانہ انتقام لے لیا، اور مسلمانوں پر حملہ کرکے پانچ لوگ زخمی کیے۔ ایک غریب مسلمان مفتی محبوب علی کو شہید کردیا۔(آفتابِ تازہ، ص ۲۳)۔ عدالت نے مفتی محبوب علی کے قتل میں گرفتار ملزمان کو رہا کردیا (ایضاً، ص ۱۱۷) ہندوؤں نے بار بار یہ الزام لگایا کہ سوامی جی کو مسلمانوں نے ایک سازش کے تحت قتل کردیا ہے لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے، بالآخر عبدالرشید کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی جانب سے خرابی دماغ کا عذر پیش کیا گیا، جس کو کسی تحقیقات نے غلط ثابت نہیں کیا (ایضاً، ص۶۷)
۱۲-    وی جی ڈیسائی، A Gandhi Anthology Book،اوّل، (احمدآباد: نواجیون پبلشنگ، ہائوس، ۱۹۵۸ء)، ص ۱۲
۱۳-    ’سیّدابوالاعلیٰ مودودی‘، الجہاد فی الاسلام، (اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، ۱۹۳۰ء)، ص ۸؛ محمدیوسف بُھٹہ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں (لاہور: ادارہ معارفِ اسلامی، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء)، ص۲۵۱
   ۱۴-    ’ہندوؤں کا امن سوز پروپیگنڈا‘، سیّد مودودی، الجمیعۃ، ۱۰جنوری ۱۹۲۷ء، بہ حوالہ آفتابِ تازہ، ص ۲۵
۱۵-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،آفتابِ تازہ، مرتبہ: خلیل احمد حامدی، ص ۲۷    
۱۶-      ایضاً، ص ۲۸
۱۷-     ہندوؤں نے مولانا محمدعلی جوہرؔ کے خلاف بھی خوب پروپیگنڈا کیا کہ عبدالرشید کو اُکسانے میں وہ بھی شریک ہیں، سیّد مودودی نے الجمیعۃ، ۲۲ جنوری ۱۹۲۷ء میں اخبار ارجن کے مضمون کا حوالہ دیا ہے: گذشتہ چھے ماہ میں دہلی کے مسلمان اخبارات نے سوامی جی کے برخلاف حد درجہ کا زہریلا اندولن جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مولانا محمد علی کے اخبار 'ہمدرد نے بھی سوامی جی کے برخلاف مسلمانوں کو خوب بھڑکایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی متعصب مسلمانوں کا یہ وشواس ہوگیا کہ سوامی جی کا قتل کرنا ثواب کا کام ہے‘‘۔(آفتابِ تازہ، ص ۳۹)
۱۸-    جسٹس ملک غلام علی کے مطابق سیّد مودودی نے خود مولانا محمد علی جوہرؔ کی آرزو کو بیان کیا ہے: یہ غوغا آرائی ایک مدّت تک بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ مولانا محمد علی مرحوم نے ان بہتان تراشیوں سے تنگ آکر جامع مسجد دہلی میں ایک تقریر کی اور آبدیدہ ہوکر کہا کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرتا۔ تقریر سننے والوں میں ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں‘‘۔ (مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص ۲۵۱-۲۵۲)
۱۹-     ڈاکٹر ایچ بی خان کے مطابق سیّد مودودی نے ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو الجمیعۃ  کی ادارت سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ ایچ بی خان کے نام مکتوب میں مولانا مودودی نے بھی اس تاریخ کی تصدیق کی ہے۔ (تذکرہ سیّد مودودی، اوّل، مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد، (لاہور، ادارہ معارف اسلامی، اپریل ۱۹۸۶ء)، ص ۱۸۵، ۱۸۶۔خود نوشت، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مشمولہ: نقوش آپ بیتی نمبر، [مدیر: محمد طفیل، ۱۹۲۳ء-۴ جولائی۱۹۸۶ء]، ( لاہور: ادارہ فروغِ اردو، جون ۱۹۶۴ء)، ص ۱۲۹۱۔  تفصیل کے لیے دیکھیے: تذکرہ سیّد مودودی، دوم، ۱۹۹۸ء [مقالہ:صفت برق چمکتا ہے ترا فکربلند، از پروفیسر سیّد محمد سلیم: ۱۹۲۲ء- ۲۷؍اکتوبر ۲۰۰۰ء]،ص ۱۴۳-۱۴۸
۲۰-    اخبار الجمیعۃ، ۲فروری، ۱۹۲۷ء، بہ حوالہ: وثائق مودودی، مرتبہ: سلیم منصورخالد(لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۸۴ء)، ص ۸۰
۲۱-    ڈاکٹر سفیراختر، مقالہ: ’مولانا مودودی اور معارف‘، در تذکرہ سیّد مودودی،اوّل (اپریل۱۹۸۶ء، حوالہ مذکور)، ص ۱۶۴
۲۲-     عبدالماجد دریابادی (مرتب)، مکتوباتِ سلیمانی، (لکھنؤ: صدق جدید بک ایجنسی ۱۹۹۳ء)، حصہ اول، ص۲۴۵۔ ڈاکٹر سفیراختر، حوالہ بالا۔
۲۳-      ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، دسمبر ۱۹۲۹ء ،ص ۴۰۳
۲۴-     ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۳۰ء، ص ۲-۳
۲۵-      بشیر احمد ڈار (مرتب)، انوارِ اقبال (کراچی: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۶۷ء)، ص ۳۱۸
۲۶-      ہفت روزہ چٹان، لاہور، ۲۵؍ اپریل ۱۹۵۴ء بہ حوالہ: ڈاکٹر سفیراختر: بیاد سیّد مودودی، (دارالمعارف، لوہسرشرفو، ۱۹۹۸ء)ص۱۶
۲۷-    ہفت روزہ ایشیا، لاہور، [مدیر: چودھری غلام جیلانی- ۱۹۲۱ء- ۱۸جنوری ۱۹۹۰ء] ۱۷؍ اپریل ۱۹۶۹، نیز رحیم بخش شاہین،[۱۹۴۲ء-۱۸جولائی ۱۹۹۸ء]، اوراقِ گم گشتہ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۷۵، ص ۸۶
۲۸-      رئیس احمد جعفری، دید و شنید، ( کراچی: رئیس احمد جعفری اکیڈمی ۱۹۸۴ء)، ص ۵۶
۲۹-      سید ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات ،مرتبہ: سلیم منصور خالد(لاہور: البدر پبلی کیشنز، نومبر ۲۰۰۹ء)، ص۲۵۳ 
۳۰-    مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص ۲۵۲-۲۵۳    
۳۱-    ایضاً، ص ۳۸۳