انسانی زندگی، عناصر کے اعتدال کا نام ہے۔ خود نظامِ عالم اسی اعتدال پر قائم ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تمام تکوینی امور میں توازن و اعتدال سے مکمل کار فرما نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے خاص اسلوب میں مثالیں دے کر اور انداز بدل بدل کر اس جانب بار بار متوجہ کیا ہے۔ ایک مقام پر تو بہت واضح الفاظ میں فرمایا:
تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔(الملک ۶۷:۳-۴)
اسلام یہی حکم عملی زندگی کی تمام تشریعی ہدایات میں بھی عطا فرماتا ہے۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی کو زندگی کا حسن قرار دیتا ہے، تاکہ انسانی اعمال اسی اعتدال سے مزین ہو کر معاشرے کی تعمیر اور آخرت کی کام یابی کے موجب بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حسنِ اعتدال کی وضاحت اپنے احوال اور اپنے افعال سے فرمائی ہے۔
مشہور واقعہ ہے کہ تین حضرات ازواجِ مطہراتؓ کے پاس آئے اور آپؐ کے معمولاتِ عبادت کے بارے میں معلوم کیا۔ جب اس کی تفصیلات ان کے سامنے رکھی گئیں تو انھوں نے اسے کم جانا اور کہا کہ کہاں ہم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’میں تو رات بھر نماز میں مصروف رہا کروں گا‘‘۔ دوسرے نے کہا: ’’میں تمام عمر روزے سے رہوں گا، اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا‘‘، اور تیسرا شخص بولا:’’ میں کبھی شادی نہیں کروں گا‘‘۔ یہ سب آپؐ کے علم میں آیا توآپؐ نے ان تینوں صحابہؓ کے بارے میں فرمایا:
لوگوں کو کیا ہوگیا کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، روزے کا ناغہ بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔( مسلم، ج۲، ص ۳۲۸، رقم: ۱۴۰۱)
اس واقعے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے اور سنت کی وضاحت بھی فرمائی ہے، اور راہِ اعتدال کی عملی تشریح بھی، اور اس کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں جادئہ اعتدال سے ہٹنے والوں کو تنبیہ بھی فرمائی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بارے میں اس قدر سختی فرمائی ہے: ’’اپنے افعال اور اقوال میں حد سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے‘‘۔( مسلم، ج۴، رقم:۲۶۷۰)
انسانی زندگی دو حوالوں سے عبارت ہے: ایک اس کا جسمانی وجود، اور دوسری اس کی روحانی قوت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی راہ نمائی ان دونوں حوالوں سے فرمائی ہے، اور حیات انسانی کے ان دونوں شعبوں میں ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی روحانی تربیت بھی کرسکتا ہے، اور جسمانی و بدنی تنظیم بھی۔ اس تربیت کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ایسے آداب تلقین فرمائے گئے ہیں، جو اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کمانے کھانے اور رہن سہن کے ہر پہلو سے متعلق مکمل احاطہ فرماتے ہیں۔ ان تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ جب انسان مزاج کے اعتبار سے اعتدال پر قائم ہو جاتا ہے، پھر نہ تو وہ رہبانیت کی طرف جھکائو رکھتا ہے اور نہ خالص مادیت اس کی انسانی تگ و دو کا حاصل اور مقصد حیات ٹھیرتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم روزِ محشر کفار کی پشیمانی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے :
کافر بار بار تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے کہ وہ (خوب) کھالیں اور فائدہ اٹھالیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔ بہت جلد ان کو (حقیقت) معلوم ہو جائے گی۔(الحجر۱۵: ۲، ۳)
اسلام کی تعلیمات تو اس قدر واضح ہیں کہ اس مسئلے پر دنیا کا کوئی نظام اور مذہب ایسی دوٹوک ہدایات اپنے دامن میں نہیں رکھتا۔ قرآن کریم میں ہے:
اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر اور دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر، اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ بن۔ یقینا اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ ( القصص۲۸: ۷۷)
زندہ رہنے کے لیے کھانے کا اصول
قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرماتا ہے:
اور جو کافر ہیں وہ ( دنیا میں کچھ ) فائدہ اٹھارہے ہیں اور وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہے۔( محمد۴۷: ۱۲)
اسلام نے کھانے پینے میں خاص طور پر احتیاط کی تعلیم دی ہے اور ’خوردن براے زیستن‘ (زندہ رہنے کے لیے کھانا) کا اصول عطا فرمایا ہے۔ کھانا پینا انسانی ضرورت ہے، لیکن ضرورت کو مقصد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، اور اگر یہ غلطی کر لی جائے تو پھر انسان کا حیوانیت کے درجے سے بلند ہونا ممکن نہیں رہتا: ’’اور ہم تمھیںضرور آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور آپؐ صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۵۵)
اس بنا پر رزق میں کمی، کاروباری نقصان، ملازمت میں ترقی کا نہ ہونا، بیماریاں، اپنے پیاروں کا اُٹھ جانا سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے ہے، اور محض آزمایش ہے۔ یہ نہ سزا ہے، نہ پکڑ ہے، نہ ہمارے اچھے ہونے کی علامت ہے، نہ برے ہونے کی۔ ہمارے اچھے یا بُرے ہونے کا فیصلہ تو اس آزمایش کے بعد ہوگا۔ یہ تو دنیا میں آنے والے ہر شخص کے لیے مقدر کردیا گیا ہے۔ اس لیے انعام کے وقت شکر اور کسی مشکل کے وقت صبر ہی انسان کو کام یاب بناتا ہے، اور اُخروی زندگی میں سرخ رو کرتا ہے۔ (سیّد عزیز الرحمٰن: قرآن کیا کہتا ہے؟ کراچی، زوار اکیڈمی، ۲۰۱۳ء، ص ۳۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کھانے پینے میں احتیاط کی بھی تعلیم دی ہے اور ’زیستن براے خوردن‘ کے رویے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا:’’جو لوگ دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیرہیں، روزِ آخرت وہی سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے‘‘۔ (بزار)
اس طرح اب یہ بات پوری طرح پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کثرتِ طعام انسان کے لذت کام و دہن کا بہانہ تو ہے، عملی طور پر چوں کہ یہ غیر فطری ہے، اسی لیے انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ اسی تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھیے:
انسان کو تو اتنا کھانا کافی ہے، جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ کھانا ہی چاہتا ہے تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک حصہ پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے (خالی) رکھے۔(ابن ماجہ، ج۴، رقم: ۳۳۴۹)
گویا یہ ایسا برتن ہے، جس کا بھرنا اچھی علامت نہیں۔ اس بات کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور واقعے میں تمثیلی انداز میں بھی فرمائی ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک کافر ایک بار رسول اکرمؐ کا مہمان ہوا تو آپؐ نے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ دودھ نکالا گیا تو مہمان اسے پی گیا۔ پھر دوسری بکری لائی گئی اور اس کا بھی دودھ کافر مہمان پی گیا، پھر بھی اسے شکم سیری نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اکیلے اس کی خوراک بن گیا۔ صبح کو وہ مسلمان ہوگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دودھ دوہنے کا حکم دیا، چناںچہ ایک بکری کا دودھ تو وہ شخص پی گیا لیکن دوسری بکری کا دودھ ختم نہ کرسکا۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن ایک معدے میں نوش کرتا ہے، جب کہ کافر سات معدوں میں پیتا ہے۔ (مسلم، ج۳، رقم: ۲۰۶۱)
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ کی ایک اور روایت میں فرمایا:
اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور طلبِ (رزق) میں اعتدال سے کام لو۔ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا رزق پورا پورا وصول نہ کرلے، اور اگر کبھی رزق کے حصول میں دیر ہو جائے تو بھی اللہ سے ڈرو۔ کوشش میں اعتدال سے کام لو، جو رزق حلال ہو اسے لے لو اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو۔ (ابن ماجہ، ج۳، رقم:۲۱۴۴)
یعنی طلب رزقِ حلال عبادت ہے، مگر ضرورت کی حد تک۔ اگر اسے مقصد حیات بنا لیا جائے، اور زندہ رہنے کا واحد جواز کمانے اور ہر طرح کمانے میں تلاش کیا جائے تو یہ عمل انسان کو جادئہ اعتدال سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔
رزق حلال میں لگنا اور اس کی تگ و دو کرنا یہ (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔( طبرانی، ج۱۰، ص ۷۴)
اگر یہ فرض ادا نہیں ہوگا تو اتنا ہی گناہ ہوگا، جتنا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان کی ضرورتیں انسان کی پیدایش کے فوراً بعد ہی اس کے ساتھ منسلک کردی گئی ہیں کہ ان کو بہ ہر صورت پورا کرنا ہے۔ اگر آپ ان ضرورتوں کی تکمیل حلال طریقے سے نہیں کریں گے تو حرام طریقے سے کریں گے، لیکن حرام طریقے سے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو یقینا پھر ہمیں حلال طریقے کی طرف جانا چاہیے۔ جب حلال طریقے کی طرف جانا ہمارے لیے لازمی ہے تو یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے گی تو اس میں ہمیں ان شاء اللہ ثواب ملے گا (قرآن کیا کہتا ہے؟، ص ۲۴- ۲۵)۔ دوسری جانب اسلام کمانے میں اعتدال کی تلقین فرماتا ہے، جس کی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔
اس کائنات میں ایسے نظریات اور خیالات بھی موجود ہیں، جو فطرت کے خلاف عمل ہی کو کام یابی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔یہ جسم کے مطالبات کو کچل کر راحت تلاش کرتے ہیں اور روح کو جسم کے مقابل رکھ کر سوچتے ہیں۔ یہی وہ رخنہ ہے، جس سے ’رہبانیت‘ انسانی زندگی میں داخل ہوتی ہے۔ اسلام سے اس تصور کا دور کا بھی علاقہ نہیں۔
’رہبانیت‘ انسانی فطرت سے بے اعتنائی اور اس سے جنگ کا نام ہے۔ جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدایش کا حصہ بنادی ہے، اس سے لڑنا کیسے مفید ہوسکتا ہے؟ اسی لیے اسلام انسانی فطرت سے لڑنے کے بجاے اس کا حق ادا کرنے اور اس راستے میں اعتدال سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ رہبانیت عیسائیت کی اپنی اختیار کردہ راہ ہے، فرمایا:
اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی تھی، ہم نے ان پر واجب نہیں کی تھی، لیکن انھوں نے رضاے الٰہی کے لیے اس کو اختیار کیا تھا۔ سو، انھوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔ پھر بھی ہم نے ان میں سے ایمان داروں کو اُن کا اجر دیا اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(الحدید۵۷: ۲۷)
’رہبانیت‘ نے برائیوں کے سوا معاشرے کو کچھ نہیں دیا۔ دونوں مقام پر نامکمل انسان انسانی فطرت سے جنگ کرتے اور معاشرے کو برائیوں میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶)
کمانے کے بعد خرچ کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ ہر مذہب، مسلک اور نظام میں کمانے کے کچھ نہ کچھ آداب مقرر ہیں۔ اپنے آپ کو آسمانی ہدایت سے یک سر آزاد قرار دینے والے معاشرے بھی اس سلسلے میں ایک ریاستی نظام پر یقین ضرور رکھتے ہیں، اور اسی کے دائرے میں رہتے ہوئے دولت کمانے اور مادیت کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ تاہم، کمانے کے بعد خرچ کیسے کیا جائے؟ اس بارے میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب اور تمام نظام ہاے حیات خاموش ہیں۔
اسلام نے اس حوالے سے مکمل وضاحت کے ساتھ ایک نظام قائم کیا ہے، جس کی بنیاد ان دو اصطلاحات پر ہے: اسراف اور تبذیر۔
السَّرْفُ تَجَاوُزُ الْحَدِّ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَفْعَلُہٗ الْاِنْسَانُ (المفردات، ص۲۳) لغت میں ہر انسانی فعل میں حد سے تجاوز کرنے کو اسراف کہتے ہیں۔
اور سفیان بن عیینہ اسراف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اللہ کی اطاعت کے کاموں کے علاوہ جو کچھ بھی تم خرچ کروگے وہ اسراف ہے، خواہ وہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ (موسوعۃ نضرۃ النعیم، ص۳۸۸۴)
اسی طرح مناوی سے اسراف کی اصطلاحی تعریف اس طرح منقول ہے: الْاِسْرَافُ ھُوَالْاِبْعَادُ فِیْ مُجَاوَزَۃِ الْحَدّ ( نضرۃ النعیم، ص ۳۸۸۵) ’’اسراف حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔
جرجانی نے اسراف کی یہ تعریف کی ہے: ھُوَ اَنْ یَاْکُلَ الرَّجُلُ مَالَایَحِلُّ لَہٗ اَوْ یَاْکُلُ مِمَّا یَحِلُّ لَہٗ فَوْقَ الْاِعْتِدَالِ وَمِقْدَارِ الْحَاجَۃِ ( ایضاً) ’’اسراف یہ ہے کہ انسان وہ کچھ کھائے جو اس کے لیے حلال نہیں، یا حلال تو ہے مگر وہ اعتدال اور ضرورت سے زیادہ کھائے‘‘۔
’تبذیر‘ کی اصطلاحی تعریف امام شافعی سے اس طرح منقول ہے: التَّبْذِیْرُ اِنْفَاقُ الْمَالِ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ، وَلَا تَبْذِیْرَ فِیْ عَمَلِ الْخَیْرِ (تفسیر قرطبی، ج۱، ص۲۴۷) تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ نیک کام میں تبذیر نہیں ہوتی۔
قرطبی کہتے ہیں: ھُوَ النَّفْقَۃُ فِیْ غَیْرِ وُجُوْہِ الْبِّرِ الَّتِیْ یَتَقَرَّبُ بِھَا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی (نضرۃ النعیم، ص۴۱۱۴) ’’تبذیر سے مراد نیک کاموں کے سواکسی ایسے کام میں خرچ کرنا ہے جس سے مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا نہ ہو‘‘۔
مجاہد کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنا سارا مال حق کے راستے میں خرچ کردے تو یہ تبذیر نہیں اور اگر وہ گناہ کے کام میں ایک مد، یعنی ایک سیر غلہ بھی خرچ کرے تو یہ تبذیر ہے۔ (صفوۃ التفاسیر، ج۲، ص ۱۳۹)
قتادہ کہتے ہیں کہ تبذیر اللہ کی نافرمانی اور ناحق اور فساد کے لیے خرچ کرنے کا نام ہے۔(ایضاً)
اسراف تو کسی جائز کام میںضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ (نضرۃ النعیم،ص۴۱۱۴)
اسراف کی وضاحت کے حوالے سے ایک نہایت اہم روایت ذخیرئہ حدیث میں ہمیں اور ملتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:’’ میںمحتاج ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے او رمیں ایک یتیم کا سرپرست ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا:
کُلْ مِنْ مَالِ یَتِیْمِکَ غَیْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَاذِرٍ وَلَامُتَأَثِلٍّ (ابوداؤد، ج۳، ص۳۶، رقم: ۲۸۷۲) اپنے یتیم کے مال میں سے کھا، اسراف اور فضول خرچی اور اس کے مال سے پونجی بنائے بغیر۔
یہاں سبق آموز بات یہ ہے کہ یتیم کی کفالت جہاں اسلام میں ایک نہایت اہم فریضہ اور باعث اجر کام ہے، وہیں اس سلسلے میں بھی فضول خرچی، یعنی اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ گویا اعتدال اور توازن کا دامن ہر صورت میں تھامنا ضروری ہے۔
آپؐ کی ذات بابرکات نے اس سلسلے میں بھی اپنی امت کے لیے بہترین نمونۂ عمل چھوڑا ہے۔ آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اور فقر وفاقے کی حالت میں نہایت صبر وشکر سے اپنے فرائض منصبی ادا کیے، باوجود اس کے کہ آپؐ کو تمام سہولتیں میسر آسکتی تھیں۔ یوں آپؐ کا فقر اختیاری تھا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَــبِیْتُ اللَّیَالِیْ الْمُتَتَابِعَۃِ طَاوِیًا وَاَھْلُہٗ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً وَکَانَ اَکْـثَرُ خُبْزِھِمْ خُبْزَالشَّعِیْرِ (ترمذی، ج۴، رقم: ۲۳۶۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے گھر والے کئی کئی رات خالی پیٹ سوتے تھے، گھر میں رات کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اور ان لوگوں کی خوراک اکثر جو کی روٹی ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران وفات تک کبھی دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی۔ (الشفا،ج۱،ص۸۲)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا گیا، کیوںکہ آپؐ کا دوسرا جوڑا ہوتا ہی نہ تھا جو تہہ کرکے رکھا جاتا۔ (ایضاً)
آپؐ نے معاشرتی اُونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے، اور مساوات واعتدال کا درس دیا ہے۔ جاہ ومال کی غیر ضروری نمایش کاواحد مقصد اپنی برتری کااظہار ہوتاہے۔ اس قسم کی منفی سوچ معاشرے کی وحدت اور اجتماعیت کو ختم کرکے اتحاد واتفاق پرمبنی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے آپؐ نے آرایش پرتو پابندی عائد نہیں کی، لیکن نمایش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے تاکہ معاشرتی وقار نمایش پسندوں کا شکار نہ ہوسکے۔ چناںچہ عبادت وریاضت، کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک ہر مقام پرـ آپ ؐکے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اگرہرمعاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرتی وحدت اور مساوات خود بہ خود قائم ہوسکتی ہے ۔
انسا ن نمایش کی ابتدا عموماً اپنے لباس سے کرتاہے۔ آپؐ نے اس بارے میں اعتدال پر مبنی ہدایات فرمائیں ۔ آپؐ نے جہاں ایک طرف غربا وفقرا کو ان کے لباس سے قطعِ نظر ان کے باطنی حالات کے پیش نظر قبولیت کی سند عطا فرمائی، وہیں مال دار افراد کو بھی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کاحکم دیا، تاکہ افراط وتفریط کے مابین توازن قائم ہو سکے اور اعتدال کاقیام عمل میں آسکے۔ چناںچہ آپؐ نے فرمایا:’’کتنے ہی پراگندا حال چیتھڑوں میں ملبوس انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اﷲ کی قسم کھالیں تو اﷲتعالیٰ اس کو پورا کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ج ۵ ، رقم: ۳۸۸۰)
آپؐ نے خود کس حالت میں زندگی بسر کی ؟ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی گواہی ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو دردا اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہما سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی، اورخدا کی قسم کھا کر کہا کہ اﷲ کے رسولؐ نے انھی دوکپڑوں میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی تھی۔ (بخاری، ج۴، ص ۲۱ ۔ابن ماجہ، ج۴، ص ۴۸۷، رقم: ۳۵۵۰)
دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی :’’اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگر وہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۱۰۷۸)
اسی طرح ایک شخص کو میلے کچلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتاکہ کپڑے دھولیا کرے۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم :۴۰۶۲ )
ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس کے بدن پرپھٹا پرانا لباس تھا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا : کس قسم کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اﷲنے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :’’جب اﷲ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو اﷲ کی نعمت اور سخاوت کااثر بھی ظاہر کر‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۰۶۳)
تاہم، اسلام نے خوش پوشاکی کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہوجانے والی آرایش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمایش اور دکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے، کیوںکہ یہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اﷲتعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گااور اس میں آگ بھڑکائے گا‘‘۔ (ابن ماجہ، رقم: ۳۶۰۷)
زیورات خواتین کی فطری خواہش ہے ۔ آپؐ نے اس فطری تقاضے پرپابندی عائد نہیں کی، البتہ افراط سے وہاں بھی منع فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے عورتو! کیا زیور بنانے کے لیے تمھارے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ خبر دار ! جو عورت بھی سونے کا زیور بنائے گی اور اس کے ذریعے زینت کا اظہار کرے گی اسے اسی زیور سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔(ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۲۳۷)
یہ وعید ان عورتوں کے لیے ہے جو زیورات کی دیوانی ہوتی ہیں اور جور نگ و نُور کے سیلاب میں کھو کر فرائض اورحقوق سے غافل ہوجاتی ہیں ۔
مال دار حضرات کاسب سے زیادہ زور تعمیرات میں صرف ہوتا ہے، اور اس موقعے پرعموماً حد اعتدال کوبرقرار نہیں ر کھا جاتا۔ اس کا ایک مقصد نمایش کے علاوہ عیش کو شی اور آرام طلبی ہوتا ہے۔ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب گو رنر بناکر روانہ فرمایا تو یہ نصیحت بھی کی :’’عیش کوشی سے دور رہنا، کیونکہ اللہ کے بندے آرام طلب نہیں ہوتے‘‘۔ (احمد، ج۵، ص ۲۴۴)
یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سونے اورچاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام فرمادیا اور مردوں کے لیے حریر وریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔
اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا:’’ میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے، انواع واقسام کے مشروبات استعمال کریں گے، اورطرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے، اور منہ پھاڑ پھاڑ کر باتیں بنائیں گے۔ یہی لوگ میری امت کے بدترین افراد ہوں گے‘‘۔ (المعجم الکبیر، ج۱، ص ۱۰۷ )
خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپؐ کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا۔ اسی طرح آپؐ کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتاتھا۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا تو آپؐ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔ (سیّدعزیز الرحمٰن، ’تعلیمات نبویؐ اور آج کے زندہ مسائل‘، القلم، فرحان ٹیرس، کراچی، مئی ۲۰۰۵ء)
اعتدال اور توازن کا حکم صرف کھانے پینے، کمانے اور معاشرتی امور تک محدد نہیں ہے۔ یہ حکم انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ چناںچہ دین کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے کا حکم بہ راہ راست قرآن کریم میں دیا گیا، اور یہاں غلو سے مراد بھی حد سے بڑھنا ہے۔ دین کے معاملے میں غلو اور حدود سے تجاوز کرنا سخت ناپسندیدہ ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النساء۴:۱۷۱)’’تم اپنے دین کے معاملے میں غلو نہ کرو‘‘۔
اس غلو کا نتیجہ بھی شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے، اور جو لوگ غلو سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ پھر اعتدال سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اس سے بھی منع فرمایا: ’’تم دین میں غلو سے بچو، کیوںکہ، پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴،رقم: ۴۹۰۴)
اسی طرح شدت پسندی بھی عدم توازن کی علامت ہے۔ اعتدال اور توازن پر کار بند شخص کسی حوالے سے شدت پسند نہیں ہوسکتا۔ قرآن و سنت کی پوری تعلیمات اور اسوئہ حسنہ کا پیغام اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے دین کے معاملے میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ تمھارے اُوپر سختی کی جائے گی، کیوںکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی، پھر اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ ان ہی لوگوں کے باقیات ہیں جو گرجوں اور خانقاہوں میں نظر آتی ہیں۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۹۰۴)
یہ حقیقت ہے کہ حُسنِ اعتدال اور توازن ہی حیات انسانی کا حسن ہے، اور اسی کے ذریعے ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے بسر ہوسکتی ہے، جس پر ہماری اخروی دائمی زندگی کا مدار اور انحصار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین!