ڈاکٹر محمد اقبال خان


کریمیا:

جزیرہ نما کریمیا بحیرۂ اسود (Black Sea)کے ساحل پر واقع دنیا کے  خوب صورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔ موجودہ یوکرائن کی حدود میں شامل یہ مسلم ریاست تاریخی اعتبار سے ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہی ہے ۔سابق سوویت یونین میں دو طرح کے تاتار مسلمان آباد ہیں۔ ان میں کریمیا کے تاتار اور قازان کے تاتار مسلمان دو مختلف علاقوں میں آباد رہے ہیں۔کریمیا کے تاتاروں کوکریمیا سے نکال دیا گیا اور انھیں سابق سوویت یونین کی مختلف ریاستوں میں جبراً  ـ ہجرت پر مجبور کیاگیا۔

کریمیا کا رقبہ ۲ہزار۷سو مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور دنیا کا خوب صورت ترین ساحل سمندر اور ساحلی شہر سوچی کریمیا میں واقع ہے ۔یہاں پر قدرتی و سائل کے ساتھ ساتھ ٹورسٹ انڈسٹری بہت نمایاں اور دنیا کے ہر علاقے سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہے۔ گرمیوں کے چھے ماہ سوچی اور اس کے گرد و نواح سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے کریمیا کے تاتاروں نے نہ صرف یوکرائن اور روس کے بڑے علاقے پر حکومت کی ہے،بلکہ پولینڈ کا ایک بڑا علاقہ بھی کریمیا کی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ یہاں کے تاتاروں نے ماسکو پر بھی کئی مرتبہ چڑھائی کی، جب کہ روسی بادشاہ ماسکو چھوڑ کر فرار بھی ہو گیا تھا۔ ماسکو کی تباہی کے یہ مناظر دیکھنے کے لیے سیاح کئی سالوں تک دُور دُور سے آتے رہے۔

۱۴۷۵ء میں کریمیا خلافت عثمانیہ میں شامل ہو گیا اور ماسکو کے بادشاہ زار کو کریمیا کے تاتاریوں نے ہفتہ وار مسجد میں آنے اور انتظامات دیکھنے کا پابند بنایا۔ خلافت عثمانیہ کے کمزور پڑتے ہی روسی حکمرانوں نے کریمیا کے مسلمانوں کو زیر اثر لانے کی کوشش کی اور آخر کار۱۷۸۳ء میں کریمیا پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں اور کریمیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکی منتقل ہو گئی۔ روسی حکمرانوں نے روس کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں روسیوں کو کریمیا منتقل کیا۔ یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق کریمیا میں مسلمانوں کی تعداد صرف  ایک لاکھ ۸۶ہزار رہ گئی،جب کہ اس وقت مسلمان کل آبادی کا ۱ء۳۴ فی صد تھے۔ چونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جارحیت کا عمل جاری رہا، اس لیے آہستہ آہستہ مزید مسلمان کریمیا چھوڑ کر چلے گئے اور یوں روسیوں نے اس مسلم ریاست پر اپنے پنجے گاڑ لیے۔

کمیونسٹ انقلاب کے بعد کریمیا  کے مسلمان جبر و تسلط کا شکار رہے۔ جب سٹالن نے ۱۹۴۴ء میں کریمیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی، تو اس جزیرہ نما کے سارے کے سارے مسلمانوں کو مال گاڑیوں میں بھر کر ازبکستان اور سائبیریا روانہ کر دیا گیا۔ جہاں انتہائی نامساعد حالات میں بھوک و پیاس، سردی اور تشدد سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی اور بچے کھچے مسلمان روسی ریاستوں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں سٹالن کی موت کے بعد خرشچیف برسرِ اقتدار آئے اور انھوں نے کریمیا کو یوکرائن کا حصہ بنا دیا۔

سوویت یونین کے کمزور پڑتے ہی کریمیا کے مسلمانوں نے واپس کریمیا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ روسی آبادی نے بھرپور مخالفت کی اور بہت سے تاتاریوں کو واپس اپنے علاقوں میں آنے سے روکے رکھا۔ تاہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی تاتاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کریمیا پہنچ گئی۔ اب کریمیا میں ۷۰فی صد سے زائدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ۳لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔موجودہ روسی قبضے نے مقامی تاتاری آبادی کو بڑا مضطرب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن کے خلاف تاتاری مسلمان زیادہ جذبات نہیں رکھتے۔ روس اور یوکرائن کی اس جنگ کے جو بھی نتائج ہوں مجموعی طور پر مسلمان زیادہ متاثر ہوں گے۔ کیوںکہ تاتاریوں کی زبان مختلف ہے، مذہب اور تہذیب جدا ہے، جب کہ روسی اور یوکرائن ایک قوم اور بڑی حد تک ایک ہی زبان بولنے والے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا اتحاد بھی رہا ہے۔

روس کا یوکرائن، بیلارس اور پولینڈ پر قبضہ اسی صورت میں ممکن ہو سکا تھا، جب روسیوں نے تاتاری مسلمانوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ۱۹-۱۹۱۸ء میں یوکرائن کو سابق سوویت یونین کا حصہ بنایا گیا ۔ کریمیا چونکہ یوکرائن کا حصہ تھا، اس لیے ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریمیا یوکرائن کا حصہ ہی رہا ۔ یوکرائن نے کریمیا کو ایک نیم خود مختار ریاست کے طورپر قائم رکھا۔ اس طرح کریمیا میں تین قومیں روسی، یوکرائنی اور مسلمان آباد ہیں، جب کہ بقیہ اقوام وسطی ایشیائی ممالک، یہودی اور چیچن کی قلیل تعداد بھی آباد ہے۔

یوکرائن:

یوکرائن کا کل رقبہ۶لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جب کہ اس کی آبادی تقریباً ۴کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ اس آبادی کا تقریباً ۳۰فی صد روسیوں پر مشتمل ہے اور روس کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بھی یوکرانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔۱۹۹۱ء میں یوکرائن میں ایک بڑا ایٹمی پلانٹ چرنوبل کے مقام پر موجود تھا۔ یوکرائن کے پاس بڑی تعداد میں ایٹمی اسلحہ اور میزائل موجود تھے۔ ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں روس امریکا اور برطانیہ نے یوکرائن کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری لی تھی، یوکرائن ایٹمی ہتھیار رکھ سکے گا۔ دوسری طرف یوکرائن ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے روس کو بڑی تعداد میں زرعی اجناس فراہم کرتا رہا ہے۔ یوکرائن میں بھاری صنعت بھی کافی حد تک ترقی پاچکی ہے۔یوکرائن سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں روس کے بعد سب سے بڑا صنعتی ملک سمجھا جاتا ہے۔ یوکرائن میں تیل اور گیس کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا اس ضرورت کو بھی ایک معاہدے کے تحت روس پوری کر رہا تھا۔

روس یوکرائن تنازع:

یوکرائن کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ بنے۔ یورپی ممالک اور امریکا بھی اس خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف روس یوکرائن کی اس خواہش کا سخت مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس یوکرائن کی حکومت کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے اور کسی طور بھی یوکرائن کو مکمل خودمختاری دینے کا حامی نہیں ہے ۔یوں روس اور یوکرائن کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا اور امریکا نے یوکرائن کی سر زمین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ جب ویکٹر یانو کوچ یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے تو روس نے سکھ کا سانس لیا اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے یانوکوچ کا ساتھ دیا۔ ویکٹریانوکوچ نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکا سے کنارہ کشی اختیار کی اور امریکا ،ناٹو اور یورپی ممالک کے ساتھ تعاون کے معاہدے سے انکار کر دیا۔ یورپی اقوام اور امریکا کے ایما پرحزب اختلاف جوبنیادی طور پر قوم پرستوں پر مشتمل تھی ، سڑکوں پر نکل آئی اور صدر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر کار  وہ صدر ویکٹریانوکوچ کو یوکرائن بدر کر کے روس میں پناہ لینے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

روس کے حکام اور بالخصوص صدر ولادی میر پوٹن دوبارہ سویت یونین کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ سابق سوویت یونین کی کوئی ریاست بھی روسی فوجی قوت کا سامنا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور روسی منصوبہ بندی کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کریمیا پر قبضے سے دوہفتے قبل، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کریمیا پر روسی قبضے کو خارج از امکان کہا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ روسی فوج کریمیا کے علاقو ں میں موجود ہے،تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ عام لوگ ہیں جو روسی فوجی وردی کو پسند کرتے ہیں، اور چند دنوں بعد ہی آسانی سے روسیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف روسی افواج یوکرائن کی مشرقی اور جنوب مشرقی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے یہ سرحدی علاقے روسی آبادی پر مشتمل ہیں اور یہاں سے یوکرائن کے علاقوں میں داخل ہونا آسان بھی ہے اور بآسانی یوکرائن کے بڑے حصے کو زیر قبضہ لایا بھی جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر روس نے یوکرائن پر چڑھائی کی تو ناٹو افواج کی مزاحمت کا اندیشہ ہے۔

یورپی یونین میں تیل اور گیس کے صدر Kherman Vanrompe نے برسلز(بلجیم) میں کہا ہے کہ روس یورپ کی گیس کی ۳۲فی صد ضرویات فراہم کرتا ہے ،جب کہ ۳۵فی صد تیل بھی روس فراہم کرتا ہے۔ یورپی یونین تین ماہ کے اندر اندر اپنی گیس اور تیل کی ضروریات متبادل ذرائع سے پورا کرنے کا اہتمام کرے گا اور روس سے تیل اور گیس کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ساتھ روس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ روسی کمپنیوں کی یورپ تک رسائی معطل کر دی جائے گی اور روس کو یوکرائن میں مداخلت کے عوض خطرناک معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ادھر امریکا نے اہم روسی شخصیات اور روسی صدر کے قریبی ساتھیوں پر ویزے کی پابندی عائد کر دی ہے اور اس طرح روس اور یوکرائن کی یہ لڑائی عالمی امن کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ کریمیا کے تاتارجو خدا خدا کر کے اپنے گھروں کو آباد کرنے لگے تھے ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہونے والے ہیں۔ روسی حکام نے ابھی سے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ روسی حکام نے تاتاری مسلمانوں کی مجلس کے صدر جمیل مصطفی کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ کئی تاتاری مسلمان نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات بھی زبانِ زد عام ہیں۔ دوسری جانب یوکرائن کی طرف سے مسلح مزاحمت بہت کمزور ہو گی اِلا یہ کہ یورپی یونین یا ناٹو ان کی مدد کو پہنچیں۔ بہرحال یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روسی افواج بغیر مسلح مزاحمت کے واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔

روس کی اندرونی صورت حال بھی خلفشار سے دوچار نظر آتی ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا ۱۴سالہ دور اقتدار پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور کسی خاص قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں تھا مگر اب اپنے دورِحکومت کو دوام دینے میں سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کی اہم شخصیات اور تجزیہ نگار ان کے حالیہ اقدام پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نقادوں اور مخالفین کو  جن میں یونی ورسٹی پروفیسر اور صحافی شامل ہیں، جیل بھیج دیا گیا ہے۔ روس کے قومی جرنلسٹ پوری مستاض کو صدر پوٹن کے خلاف اداریہ لکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ روسی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے خطرناک جنگ میں کود پڑا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک کے اندر اور سرحدوں پر مزاحمت شروع ہونے والی ہے۔ ایک مشہور خاتون صحافی اور ادیب الیستکایا نے روسی صدر کے حالیہ اقدامات پر کڑی  تنقید کی ہے۔انھوں نے یوکرائن اور کریمیا کے عوام پر صدرپوٹن کے خلاف شدید ردعمل کے اظہار کے لیے زور دیا ہے۔

۲۰۰۰ء-۲۰۰۵ء تک صدر پوٹن کے مشیر خاص سرگئی لاروف(Sargi Larov) نے صدر کے کردار اور شخصیت پر شدید تنقید کی ہے۔ لاروف نے ایک خفیہ روسی منصوبے کا ذکر کیا ہے جسے ۲۰۰۸ء میں تیار کیا گیا تھا اور جس کے مطابق روس اپنی سرحدوں کے قریب تمام ممالک پر اور  خاص طور پر سابق سوویت ریاستوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی قسم کے مغربی اثر و رسوخ کو رد کرتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یوکرائن کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور اس کی موجودہ سیاسی و معاشی قوت بکھر جائے گی۔ اس طرح روسی سرحدوں پر واقع علاقوں پر روسی تسلط قائم کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

روسی حکام اس منصوبے پر عمل کرنے کے بعد تمام ملحقہ علاقوں میں نیم خود مختار ریاستیں قائم کریں گے اور ان ریاستوں کے معاشی و سائل براہ راست روس کے زیر استعمال رہیں گے۔ سرگئی لاروف کے مطابق روس اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا ہے، جب کہ یوکرائن کو مسلح مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلح مزاحمت کی صورت میں ہی ناٹو افواج یوکرائن کی مدد کو آئیں گی۔

سرگئی لاروف اپنی شہرئہ آفاق تصنیف میں فن لینڈ کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اگر  فن لینڈ اسٹالن کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہدنہ کرتا تو آج ایک آزاد اور خود مختار ملک نہ ہوتا‘‘۔ اسی طرح روس میں موجودہ حزب مخالف کے سیاست دانوں بہ شمول ولیرو نوادروسکی (Valirio Novadrovsky)  نے بھی روسی صدر کی توسیع پسندانہ عزائم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے خلاف یوکرائن کو مسلح جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے کہ اگر یو کرائن نے روسی افواج کا مقابلہ نہ کیا تو یوکرائن اپنے آپ کو ٹکڑوں اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے لیے تیار سمجھے۔ اس تقسیم در تقسیم کے جہاں یوکرائن کو نقصانات ہوںگے وہاں روسی عوام اور ملک کو بھی سیاسی، معاشرتی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

روس کو جہاں بیرونی تنقید اور پابندیوں کا سامنا ہے وہاں اندرونی طور پر بھی روسی حکومت کو پڑوسی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روسی تاریخ میں کسی بھی حکومت کے خلاف یوں کھل کر اظہار راے پہلے کبھی نہیں کیاگیا جس طرح اس دفعہ روسی جارحیت کے خلاف اندرونی طور پر لوگ صف آرا ہو گئے ہیں۔

ادھرکریمیا کے مسلمانوں نے اپنے تشخص اور علاقائی سا لمیت کے لیے عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور ان کی اس آواز کو روس کے اندر، سابق سوویت ریاستوں اور یورپی ممالک نے حق بجانب قرار دیا ہے۔ روسی صدر کا کریمیا پر قبضہ محض اتفاقیہ عمل نہیں ہے بلکہ پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق ہے۔کریمیا کے مسلمانوں کے حق میں مسلم دنیا اور غیر مسلم طاقتوں نے کبھی کوئی کمزور آواز بھی نہیں بلند کی اور یوں مسلم ممالک کا میڈیا، صحافتی ادارے، دانش ور اور حکومتیں مکمل خاموشی کے ساتھ اس مسلم ریاست کے تباہ ہونے پر راضی نظر آتے ہیں۔

حالیہ واقعات ، حقائق کی روشنی میں:

تمام تر مغربی دباؤ اور حربوں کے باوجود روس کریمیا اور یوکرائن سے متعلق اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لایا۔ ۱۶؍اپریل۲۰۱۴ء کی پریس کانفرنس اور بعد میں بیان کردہ روسی پالیسی جسے نہ صرف پالیسی کے تسلسل کا مظہر کہا جاتا ہے، بلکہ روسی صدر، وزیر خارجہ اور روسی پارلیمنٹ کے بیش تر ارکان نے اپنے پالیسی بیانات میں روس کا کریمیا پر اپنا حق تاریخی اعتبار سے اور حالیہ واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ روسی عوام میں حالیہ امریکی اور مغربی پابندیوں سے متعلق جواضطراب پایا جاتا ہے، اسے تحلیل کرنے کے لیے تمام پارلیمانی کمیٹیوں نے ایک بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ادھر روسی پارلیمنٹ نے روسی صدر کو یوکرائن پر فوجی چڑھائی کرنے اور روسی سفیر کو امریکا سے واپس بلانے کا اختیار دے دیا ہے۔صدر ولادی میر پوٹن نے روسی آئین کے آرٹیکل ۱۰۲کے مطابق روسی افواج کی یوکرائن پر چڑھائی کو بالکل حق بجانب قرار دیا ہے۔

۱۷؍اپریل۲۰۱۴ء کے بیان میں صدر کے ترجمان نے واضح کیا کہ روسی افواج کسی وقت بھی یوکرائن کے اندر داخل ہو کر کارروائی کر سکتی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روسی افواج پہلے بھی بڑی تعداد میں یوکرائن کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور پیش قدمی کے لیے منتظر ہیں۔اس سلسلے میں روسی ترجمان نے کسی احتیاط کے بغیر اپنی آیندہ کی منصوبہ بندی بیان کرتے ہوئے تمام تر مغربی دباؤ کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔اُدھر کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم اور ان کے نتائج کو کچھ ملکوں نے تسلیم کر کے روسی موقف کی تائید کی ہے۔ اس ریفرنڈم کو شروع میں ۱۸ملکوں نے تسلیم کیا تھا لیکن اب یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ چین نے بھی انتہائی محتاط انداز میں امریکا اور مغربی قوتوں کو رشین فیڈریشن اور یوکرائن کے تنازعے میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ روس کے خلاف امریکا اور مغربی پابندیوںکو، جن میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ،انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔

برسلز میں یورپی نمایندوں کا اجلاس اور ان کے فیصلے جن میں روسی مفادات کو نقصان پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، روس پر قابلِ ذکر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔روسی موقف گو کہ بڑا متزلزل رہا ہے کہ کریمیا ۱۹۵۴ء میں غیر منصفانہ طور پر روس سے الگ کیا گیا تھا اور   روس اپنے لوگوں کا وہ جہاں کہیں بھی ہوں دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، کو مغربی طاقتوں نے مسترد کیا ہے، تاہم کریمیا کے لوگوں نے اپنے ریفرنڈم سے بھی اس کی تائید کی ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر مسٹر پوری کلامینکا نے جنیوا میں سفارت کاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں برملا کہا ہے کہ روس عنقریب یوکرائن پر پوری فوجی قوت کے ساتھ حملہ کرنے والا ہے۔

۱۹؍اپریل۲۰۱۴ء کو روس نواز حکومت نے کریمیا میں اپنی پوزیشنوں (ٹھکانوں) کو مستحکم کرتے ہوئے متحدہ یوکرائن کے سپاہیوں کو گرفتار کیا ہے اور دارالحکومت سیمفراپول (Simferopol)  کو تمام یوکرائن فوجیوں سے پاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح مقامی مسلمان آبادی جو کبھی بھی زیر تسلط رہنے پر راضی نہ ہو سکی، یوکرائن کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے روس کی غلامی میں منتقل ہو رہی ہے۔ بحیرئہ اسود پر واقع جزیرہ نما کریمیا میں ایک بڑا روسی فوجی کارروان بھی ۱۹؍اپریل کو داخل ہو چکا ہے، جسے نوزائیدہ روس نواز ملیشیا کی حمایت حاصل ہے اور جسے کریمیا میں بڑے پیمانے پر حال ہی میں منظم کیا گیا ہے۔ اس ملیشیا کے لیڈروں کی بڑی تعداد مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یوکرائن سے آنے والے تمام بحری جہازوں کو بھی روسی بحریہ کی مدد سے روک دیا گیا ہے۔

سیمفراپول میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے کریمیا چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر ۲۰؍اپریل کو یوکرائن کے وزیر اعظم Arseniy Yat Senyukنے کیف میں کریمیا میں امن قائم کرنے کے لیے یوکرائن کے مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے دورۂ امریکا کے بعد یوکرائن کی حکومت کی واضح پالیسی وضع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

روسی صدر کے توسیع پسندانہ عزائم سے کریمیا کے مسلمان پوری طرح باخبر نہ ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کریمیا کے اتحاد کا خیر مقدم کر رہے ہیں، اور روسی افواج نے سابقہ مسلمان لڑاکا گروہوں کو متحد کر کے یوکرائن کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ ادھر روس کے مسلم بورڈ نے روسی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کریمین تاتار بورڈ کو روسی حمایت پر تیار کر لیا ہے۔ اس طرح روسی حکام نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کے خلاف اُبھارنے کی منظم کوششیں شروع کر دی ہیں (ماسکو ٹائمز، ۱۹-۲۰؍اپریل ۲۰۱۴ء)، جب کہ مسلم حکومتوں نے کریمیا کے مسلمانوں اور مسلم ریاست کی بندر بانٹ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں کریمیا کے مسلمان اپنے آپ کو نہ صرف تنہا و بے بس سمجھتے ہیں بلکہ مسلم حکومتوں کی بے حسی پر انتہائی مایوس بھی ہیں۔ (بہرام بالکی،Eurasia، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء)