حافظ محمد ادریس


دنیا واقعی ایک عالمی گائوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی اہم واقعہ یا حادثہ رونما ہوجائے، ہر شہر اور قصبے بلکہ گائوں اور گوٹھ میں ذرائع ابلاغ پوری تفصیلات و تصاویر بروقت پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت عالمی خبروں میں ایک نمایاں ترین خبر مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کے صدارتی انتخابات اور ان کے مابعد کے حالات و واقعات ہیں۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے  کے لیے کینیا کے سیاسی و معاشرتی پس منظر کا مختصر مطالعہ مفید رہے گا۔

کینیا، براعظم افریقہ کا اہم اور مرکزی کردار کا حامل ملک ہے جہاں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور فوج کبھی ایوانِ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکی۔ اس ملک نے انگریزی استعمار سے سخت جدوجہد اور گوریلا جنگ کے بعد ۱۲دسمبر ۱۹۶۳ء کو آزادی حاصل کی تھی۔ اس وقت کینیا کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے متجاوز ہے۔ خوب صورت ساحلوں، قابلِ دید جزائر اور انتہائی دل فریب پہاڑی مقامات کے علاوہ گھنے جنگلوں اور ہر طرح کے جنگلی جانوروں (wild life)کی وجہ سے یہ ملک دنیا بھر کے سیاحوں کا بھی مرکز ہے۔ پھر موسم اتنا پُرکشش کہ ۱۲ مہینے نہ شدت کی گرمی نہ یخ بستہ سردی، یہاں کے دن اور رات تقریباً سال بھر برابر رہتے ہیں۔

ملک کی آزادی کے بعد پہلا سربراہِ مملکت باباے قوم، مزے جوموکنیاٹا(Mzee Jomo Kenyatta) منتخب ہوا، جسے پوری قوم کا اعتماد اور قابلِ رشک مقبولیت حاصل تھی جو اس کے آخری لمحے تک برقرار رہی۔ وہ اپنی وفات (۱۹۷۸ئ) تک بلاشرکت غیرے ملک کا سربراہ رہا۔ دستور کے مطابق ہر پانچ سال بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخاب ہوتے رہے لیکن ملک میں کثیرالجماعتی سیاست ممنوع تھی۔ ایک ہی پارٹی کینیا افریقن نیشنل یونین (KANU) حکمران رہی۔ صدر کنیاٹا کے مقابلے پر کبھی کسی نے کاغذات نامزدگی داخل ہی نہیں کیے تھے، البتہ پارلیمان میں کانو کے ارکان آپس میں مقابلہ کرتے اور تقریباً آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے پارلیمان میں پہنچتے تھے۔

آزادی کے بعد ملک کا پہلا نائب صدر، موجودہ اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ (Raila Odinga) کا باپ اوڈنگہ اوگِنگہ (Oginga) تھا۔ آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد صدر اور نائب صدر کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں اوڈنگہ کو پس دیوارِ زنداں بھیج دیا گیا۔ کنیاٹا نے زندگی کے آخری برسوں میں اپنے حریف کو جیل سے رہا کردیا مگر وہ مؤثر شخصیت ہونے کے باوجود بدلے ہوئے حالات میں سیاسی میدان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کرسکا۔ کنیاٹا کی اچانک وفات (۱۹۷۸ئ) کے بعد نائب صدر ڈینیل ارپ موئی (Daniel Arapmoi) دستور کے مطابق قائم مقام صدر بن گیا، جو کنیاٹا کے زمانے میں محض ایک نمایشی نائب صدر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ موئی نے آہستہ آہستہ اپنی گرفت اتنی مضبوط کرلی کہ نہ صرف حکمران سیاسی پارٹی کانو بلکہ تمام حکومتی اور نیم حکومتی اداروں پر بھی اپنے قبیلے اور من پسند لوگوں کو مسلط کردیا۔ کرپشن اس قدر بڑھی کہ لوگ بلبلا اُٹھے۔ صدر موئی کے خلاف ۱۹۸۲ء میں جونیر افسروں کی طرف سے ناکام فوجی بغاوت ہوئی، جسے اس وقت کے مسلمان آرمی چیف جنرل محمود محمد کی طرف سے کچل دیا گیا تھا۔ اس سے موئی کے حوصلے اور من مانی مزید بڑھ گئی۔

۱۹۹۳ء میں صدر موئی کے چوتھی بار منتخب ہونے کے بعد ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی بالآخر ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ لوگوں نے کثیرالجماعتی سیاست کے لیے مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کو سختی سے کچلنے کی حکومتی کوشش کے باوجود، ان میں مسلسل شدت آتی چلی گئی اور ملک کا بڑا قبیلہ (کیکویو(Kikuyu)، پہلے صدر کنیاٹا اور موجودہ صدر کیباکی (Kibaki) کا قبیلہ)   پوری طرح حکومت کے خلاف منظم ہوگیا۔ موجودہ صدر شروع میں موئی کے ساتھ نائب صدر کے فرائض ادا کرتا رہا تھا۔ موئی نے اسے برخاست کردیا اور نسبتاً چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملاکر حکومت بچانے کی پالیسی اختیار کی۔ ۱۹۹۹ء میں احتجاجی تحریک کامیاب ہوگئی اور کثیرالجماعتی سیاست کا آغاز ہوا، مگر انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے حکمران پارٹی ہی برسرِاقتدار رہی۔

صدر موئی کا تعلق کالن جین (Kalenjin) قبیلے سے تھا، جو آبادی کا ۱۲ فی صد ہے۔ کینیا میں ۵۰ سے زائد قبائلی اور لسانی گروپ ہیں لیکن تقریباً ۷۵ فی صد آبادی پانچ بڑے قبائل پر مشتمل ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے گروپ مل کر ۲۵ فی صدبنتے ہیں۔ سب سے بڑا قبیلہ موجودہ صدر موائی (Mwai) کیباکی کا ہے (

۲۲ فی صد)، دوسرے نمبر پر لوہیا (Luhya)، ( ۱۴ فی صد)، تیسرے نمبر پر اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ کا قبیلہ لوئو (Luo) ( ۱۳ فی صد)، چوتھے نمبر پر کالن جین (۱۲ فی صد) اور پانچویں نمبر پر کامبا (Kamba) ( ۱۱ فی صد) ہے۔ موائی کیباکی  ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں حکمران کانو پارٹی کے صدارتی امیداوار اوصرو کنیاٹا (باباے قوم کا بیٹا) کے مقابلے پر رائیلہ اوڈنگہ اور دیگر گروپوں کی مدد سے جیتا تھا۔ اس نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اپنے پیش رو سے بھی زیادہ کرپشن کی مگر اسے امریکا کی اشیرباد حاصل رہی۔ اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور کانو کو بھی اپنا حلیف بنا لیا۔ مگر اس کے قریبی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ انھوں نے اس کے خلاف نئی پارٹی، اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ بناکر تحریک شروع کردی۔

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں تین امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں نمایاں دو ہی تھے یعنی موائی کیباکی (حکمران نیشنل یونٹی پارٹی) رائیلا اوڈنگہ (اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ) ملک کی سابقہ حکمران پارٹی کانو، موائی کیباکی کی حلیف ہے لیکن وہ اب بے اثر ہوچکی ہے۔ انتخابات میں واضح طور پر اوڈنگہ جیت رہا تھا۔ تمام سروے رپورٹس اور مبصرین کے مطابق اس کی جیت یقینی تھی مگر انتخابات میں بے پناہ دھاندلی اور جھرلو استعمال کیا گیا۔ الیکشن اتھارٹی نے خود بھی نتائج کو مشکوک بنا دیا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن صحافیوں کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے۔ وہ سارے سوالات کے جواب ہی نہ دے سکے۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کرکے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔

انتخابات کے بعد فوری طور پر امریکا نے کینیا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور امریکا کی نمایندہ جنڈائی فریزر (Jenday Frazer) حکومت اور اپوزیشن میں مصالحت کرانے کے لیے نیروبی پہنچ گئی اور اب تک اس کام میں سرگرمِ عمل ہے۔ اسی طرح سے آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی (OAU) کے سربراہ اور گھانا کے صدر جان کفور (John Kufour) بھی مصالحت کنندہ کے طور پر نیروبی پہنچے۔ نیلسن منڈیلا اور بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو جنوبی افریقہ سے نیروبی وارد ہوئے۔ ان سب لوگوں نے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی کوشش کی مگر تاحال کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔ صدر کیباکی کے خلاف عوامی لہر اتنی مضبوط ہے کہ امریکی دبائواور دیگر سفارت کاروں کی کوششوں کے باوجود حزبِ اختلاف اور عوام دھاندلی سے جیتنے والے صدر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔صدر کیباکی نے متنازعہ انتخابات کے بعد اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے قومی حکومت کے قیام کا بھی اعلان کردیا، کابینہ میں دیگر پارٹیوں کو نمایندگی دینے کا وعدہ بھی۔ انھوں نے ایک کابینہ کا تقرر بھی کردیا مگر ان کے مدّمقابل رائیلا اوڈنگہ نے اسے جعلی صدر کی جعلی کابینہ کہہ کر مسترد کردیا۔ اپوزیشن کا موقف واضح، دوٹوک، یک نکاتی اورحتمی ہے کہ غاصب اور انتخابی نتائج کے چور سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ملک کے حالات دگرگوں ہیں اور تمام افریقی ممالک کے لوگ ان کا تجسس سے مطالعہ کررہے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد لوگ ہنگاموں کے دوران پولیس کی گولیوں سے، یا عوامی بلووں کے نتیجے میں مارے جاچکے ہیں، جب کہ کینیا کے وزیرخزانہ ایموس کیمونیا (Amos Kimunya) کے بقول مالی نقصان کا تخمینہ ایک بلین ڈالر ہے اور اربوں شلنگ کی جایدادیں نذرِ آتش ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے تازہ ترین سروے میں تین لاکھ لوگ گھروں سے بے گھر بتائے گئے ہیں اور ابھی تک بڑے شہروں میں زندگی معمول پر نہیں آئی۔ رائیلا اوڈنگہ انقلابی ذہن رکھنے والا ہنگامہ پرور لیڈر ہے، جب کہ موائی کیباکی، امریکا کا منظور نظر۔ ارپ موئی کے خلاف کیباکی کا بڑا حامی رائیلا ہی تھا۔ کیباکی نے گذشتہ پانچ سالوں میں امریکی اشاروں پر جنرل پرویز مشرف کی طرح نام نہاد دہشت گردی کے خلاف ملک میں کئی کریک ڈائون کیے ہیں۔

ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تمام چھوٹے قبائل بالخصوص سواحلی اور شمال مشرقی علاقوں میں بسنے والے مسلمان پوری طرح اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کی حقیقی آبادی کو ہمیشہ گھٹاکر بیان کیا گیا ہے۔ عملاً اس ملک میں مسلمان ۲۵ سے ۳۰ فی صد ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیباکی امریکی کٹھ پتلی ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں امریکا کے خلاف شدید عوامی نفرت پائی جاتی ہے۔ مسلم اُمہ میں جو عمومی بیداری نظر آتی ہے، افریقی ممالک میں بھی اس کی ایک نمایاں لہر محسوس کی جارہی ہے۔ نوجوان اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں بحیثیت مسلم کمیونٹی فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی پارٹی اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ میں ساحلی علاقوں سے ایک اُبھرتا ہوا نوجوان نجیب بلالہ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ وہ اپوزیشن لیڈر اوڈنگہ کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے اور بعض سیاسی مبصرین کی راے میں اگر اوڈنگہ منتخب ہوجاتا ہے تو نجیب بلالہ یا کسی دوسرے مسلمان لیڈر کے نائب صدر یا کم از کم اہم وزارتوں میں سے کسی وزارت پر آنے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ کینیا کی اپوزیشن اس لحاظ سے قابلِ تحسین ہے کہ مقامی طور پر حکومت کی پُرتشدد کارروائیوں اور بیرونی طور پر سفارتی دبائو کے باوجود وہ کسی ناروا ڈیل یا دبائو کے ذریعے اپنے حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ نعرہ اب کینیا میں ہر بچے بوڑھے کی زبان پر ہے کہ غاصب حکومت نامنظور، غاصب سے مذاکرات نامنظور۔ اس نعرے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی پیغام پنہاں ہے۔

مصر پر طویل عرصے تک فراعنہ حکمران رہے۔ مصر کے ان حکمرانوں کے مظالم تاریخ ہی میں نہیں‘ سابقہ الہامی کتب اور قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ دورِجدید کے مسلمان مصری حکمرانوں نے اس مسلمان ملک کو سرزمینِ فراعنہ اور خود کو ابناے فراعنہ کہنے میں   فخر محسوس کیا۔ آج اسی فرعونی دَور کی یادیں مصر میں تازہ کی جارہی ہیں۔ اخوان ایک دفعہ پھر حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ ہیں مگر سرزمین مصر بحیثیت مجموعی بھی تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے۔ اخوان المسلمون‘ عرب دنیا سے اٹھنے والی وہ اسلامی تحریک ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی تربیت کی ہے۔ اخوان نے اسلام کے جامع تصور کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اُجاگر کیا ہے اور معاشرتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں عالمِ عرب کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مصر میں قائم ہونے والی یہ تحریک‘ آج عالمِ عرب ہی نہیں‘ پوری دنیا میں معروف اور ایک حقیقت ہے۔

غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ہردور میں ابتلا و آزمایش سے ہمت و استقامت سے گزرتے رہے ہیں مگر دورِ جدید میں اخوان المسلمون نے عزیمت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے وہ قرونِ اولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ ابتلا و آزمایش کا یہ سلسلہ تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں کے جذبۂ ایثار و قربانی پر کہ جو مستبد حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجاے راہِ عزیمت پر مسلسل چراغ جلاتے جارہے ہیں۔ حسن البنا‘ عبدالقادر عودہ اور سیدقطب کی شہادت‘ حسن الہضیبی‘ عمرتلمسانی‘ محمد حامد ابوالنصر‘ مصطفی مشہور اور ہزاروں اخوانیوں کی قیدوبند کی ناقابلِ بیان صعوبتیں ان کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ عمرتلمسانی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ طاغوت کے مظالم کے سامنے اہلِ حق کا ڈٹ جانا اور جھکنے سے انکار کردینا‘ طاغوت کی شکست اور حق کی فتح ہے‘ اگرچہ اہلِ حق اس جدوجہد میں جان ہی سے کیوں نہ گزر جائیں!

تازہ ترین فرعونی کوڑا‘ جو صرف اخوان ہی پر نہیں‘ بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت پر برسایا گیا ہے‘ بہت خطرناک اور دُور رس نتائج کا حامل ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما‘ مرشدعام کے نائب دوم‘ انجینیرخیرت الشاطر سمیت ۳۰ کے قریب تجارتی و کاروباری فرموں کے اخوانی مالکان کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان کے تجارتی اداروں اور ان کے ذاتی و شراکت داروں کے مشترکہ اثاثہ جات کو بھی منجمد کردیا گیاہے۔ ان کاروباری لوگوں کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ اخوان کے سیکڑوں سیاسی کارکنان پہلے ہی سے جیلوں میں مقید ہیں۔ ہنگامی قوانین کے ذریعے حکومت مصر نے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد‘ بہت سے سیاسی مخالفین بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو تسلسل کے ساتھ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کالے قوانین کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مصر کے وکلا بلکہ ججوں نے بھی    شدید احتجاج کیا ہے۔ ججوں کے حکومتی ایما پر فیصلے کرنے سے اجتناب کی وجہ سے حکومت‘ خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کرکے ان لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔

حالیہ گرفتاریوں کے نتیجے میں چونکہ ملک کے معروف تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار گرفتار کیے گئے اور ان کے اداروں پر قبضہ کرکے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں‘ اس لیے مصر سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ بیرونِ ملک بھجوا رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۲۱ارب مصری پائونڈ کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ غیرجانب دار تجارتی حلقے بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ملک کے تمام ایوان ہاے صنعت و تجارت نے اس صورتِ حال کو ملک کی معاشی تباہی اور مصری عوام کے معاشی قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ ثقہ اخباری اطلاعات کے مطابق مصر میں سکیورٹی فورسز نے ۴۵ جاسوسی نیٹ ورک پکڑے ہیں‘ جو صہیونی و صلیبی اداروں نے قائم کررکھے ہیں اور ان کا مقصدمصر کی سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔ مگر طُرفہ تماشا ہے کہ ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجاے اُلٹا اخوان کوہدفِ انتقام بنایا گیا ہے۔

اخوان کے مرشدِ عام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ہتھکنڈوں کو بوکھلاہٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی و دینی اصولوں کے مطابق بھی پابندیاں لگانے اور قیدوبند کے مراحل سے گزارنے کا یہ عمل ناپسندیدہ ہے اور ملک کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دستور کو حکمرانوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخوان‘ سیاسی و معاشی کسی سطح پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ یہ ساری کارروائی امریکی دبائو کے تحت کی گئی ہے۔ امریکا اخوان کی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں ان کے مضبوط گروپ کی وجہ سے اخوان کو خطرہ سمجھتا ہے۔(نیوزویک‘ عربی اڈیشن‘۲۷ فروری ۲۰۰۷ء)

ترکی کے اخبار المساء سے گفتگو کرتے ہوئے مرشدعام نے کہا کہ جن اداروں بالخصوص اخوان کے راہنما حسن مالک کی فرم پر پابندی لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی ساکھ اور اپنے شفاف و کامیاب کاروبار کی وجہ سے اتنے مقبول تھے کہ مصر ہی نہیں‘ مصر سے باہر کے سرمایہ کار اور شراکت دار بھی ان میں سرمایہ لگائے ہوئے تھے‘ حتیٰ کے ترکی کی کئی کاروباری کمپنیوں نے بھی مصر کے ان اداروں میں حصص خرید رکھے تھے۔ یہ مصر کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور متزلزل اخلاقی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کی حکومتی کوشش ہے‘ جسے کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص درست قرار نہیں دے سکتا۔ مرشدعام نے حسنی مبارک اور ان کی حکومت کی غیر قانونی کارروائیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں حکومت نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۵ ہزار بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ۳۰۰ کے قریب لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیںدلوائی گئی ہیں۔

مصر میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف کافی بے چینی اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ اخوان کے مجلہ رسالہ الاخوان (شمارہ ۴۹۵‘ مارچ ۲۰۰۷ء) نے مختلف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن میں گرفتار شدگان کی خدمات اور صلاحیتوں کا تذکرہ ہے اور نہایت مؤثر انداز میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ صحافت پرقدغن کے باوجود اب ایسے وسائل و ذرائع موجود ہیں کہ لوگ ان کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔

روزنامہ ڈان لاہور نے آئی پی ایس نیوز سروس کے حوالے سے ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء کو ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس کے مطابق ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۹معروف صنعت کاروں اور تاجروں کو غیرقانونی طور پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا‘ جب کہ ایک دن قبل ان میں سے بعض کو مصر کی ایک عدالت نے سابقہ مقدمات سے رہا کیا تھا۔ حسنی مبارک نے ۱۵جنوری ۲۰۰۷ء کو ایک اعلان کیا‘ جس کے مطابق اخوان کو مصر کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری صدر نے اخوان کے دینی تشخص کو خطرے کی علامت قراردیا۔

مصر کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے نزدیک ۲۰۰۵ء کے انتخاباتِ عام میں حکومتی جبر اور پابندیوں کے باوجود اخوان نے پارلیمنٹ کی ۲۰ فی صد نشستوں پر جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اس نے پوری دنیا کو حیرت اور مصری حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اخوان کی مقبولیت میں ایک بڑا سبب ان کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ متمول کاروباری ادارے ان فلاحی خدمات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے ذمہ دار اور قانونی امور کے ماہر اخوانی راہنما صبحی صالح نے اس حکومتی اقدام کو امریکا اور اس کے زیراثر مسلمان حکومتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگ کا ایک محاذ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس کو بھی معاشی لحاظ سے اپاہج کیا گیا‘ اب مصر میں اخوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔

اخوان کے نائب مرشدعام اوّل ڈاکٹر محمدحبیب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیے جا تے رہے ہیں۔ گذشتہ ۲۵ برسوں سے ملک پر ہنگامی قوانین کی تلوار لٹک رہی ہے اور انھی کو بنیاد بناکر تازہ حملہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کے لیے حکمران طبقہ ہر لحاظ سے خطرہ ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کی مجوزہ دستوری ترامیم کے خلاف اخوان کی احتجاجی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے وہ ہماری معاشی شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے تمام کام قانون کے دائروں میں ہیں اور ہمارے کاروبار شفاف ہیں۔  ہم پر ہمیشہ اوچھے حملے ہوتے رہے ہیں مگر اللہ نے ہمیں ہر مرتبہ سرخ رو کیا ہے اور ہم مصر کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک بنانے کی کوششیں کسی صورت ترک نہیں کرسکتے۔(المجتمع، ۱۷فروری ۲۰۰۷ء)

مرشدعام نے تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصر کی سیاست میں تحمل و برداشت کے علَم بردار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پروگراموں کے ساتھ صرف اسلام چندپروگرام رکھنے والی قوتوں کو ہی اختلاف نہیں بلکہ تمام لبرل‘ سیکولر اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی ہے۔ مذہبی پاپائیت (تھیاکریسی) کا الزام لگانے والے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

مصر کے ججوں کی تنظیم کے صدر جسٹس زکریا عبدالعزیز نے ایک بیان میں حکومت کی دستوری ترامیم پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دستور کی دفعہ ۸۸ اور ۱۷۳ میں جو ترمیمات کر رہی ہے‘ وہ دراصل مصری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور انھیں آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ مصر کی عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا جو قانونی و دستوری حق حاصل ہے‘ اسے ختم کرکے محض مبصر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۱۶۵-۱۶۶ کی صریح خلاف ورزی ہے۔    یہ دفعات عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا مستقل اختیار دیتی ہیں۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو بھی حرفِ تنقید بنایا جس کے مطابق جوڈیشل کونسل کو ختم کرکے ہرسطح کی عدالت کے چیف پر مشتمل ایک نئی کونسل بنائی جارہی ہے جو آزادانہ فیصلے نہیں کرسکے گی۔(المجتمع‘ عدد ۱۷۳۹ )

مصر میں کاروباری اداروں پر لگائی جانے والے حالیہ پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے بعض فلاحی تنظیمات پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات اور اداروں کو منجمد و مقفل کرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کے سب حکمران باہر کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔  یہ صورتِ حال کسی خوش حال اور مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اُمت مسلمہ کو اس     اہانت آمیز صورت سے نکلنے کے لیے پُرامن مگر منظم و مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ اخوان کی قیادت نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے۔

قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘انسانوں کے لیے قیامت تک کا منہج اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔قرآن نے جہاں کائنات کے وسیع وعریض عناصر سے استشہاد کرکے انسان کے لیے سامانِ عبرت فراہم کیا ہے‘وہیں انسانی تاریخ کو بھی عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے بطور سبق پیش فرمایا ہے۔تاریخ کے متعلق قرآنی فلسفہ کئی آیات میں بیان ہوا ہے۔بطور مثال سورہ اعراف کی ایک آیت کا مختصر سا حصہ اس مضمون کی بہترین تشریح کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہے: فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن(الاعراف ۷:۱۷۶)’’تم ان کو یہ حکایات سناتے رہو شاید یہ غوروفکر کریں‘‘۔

غوروفکر اور نصیحت وعبرت کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم ماضی اور حال کے مستبد حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔یہاں بھی قرآن ہی کا تبصرہ پیش خدمت ہے جو جامع اور ابدی ہے: کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِثْلَ قَوْلِھِمْط(البقرہ ۲:۱۱۸) ’’ایسی ہی باتیں (اور کام) ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ان سب اگلے پچھلے گمراہوں کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں‘‘۔

حکمران انتہائی نازک طبع لوگ ہوتے ہیں‘ وہ کسی مخالفت کو تو کہاں برداشت کریں گے بقول حافظ شیرازی’’ تابِ سخن بھی نہیں رکھتے‘‘۔مخالفین کوکو لہو میں پیل دینا‘آگ میںجلا ڈالنا‘  تختۂ دار پر لٹکا دینا اور بدترین قسم کے انتقامی ہتھکنڈوں سے خوف وہراس کی فضامستقل پیدا کیے رکھنا‘ حکمرانوں کے مزاج شاہی کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔بات بات پہ اندھی قوت کا استعمال‘ریاستی طاقت کو حرکت میں لانے کی ظالمانہ دھمکیاں اور جھوٹ کے زہریلے پروپیگنڈے کا سہارا لے کر مخالفین کی کردار کشی‘ ظالم حکمرانوں کے نزدیک ان کے اقتدار کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔معاشی استحصال‘معاشرتی بائیکاٹ‘حوصلہ شکنی کے لیے استہزا‘مخالفین کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے‘ ان کی غربت کا مذاق اور اس کے مقابل اپنی قوت‘دولت‘حشمت اور لامحدود وسائل پر فخرومباہات ‘پنداروانانیت کے اس مہلک مرض کے لیے نسخۂ شفا قرار پاتے ہیں۔قرآن ان اور ان سے بھی زیادہ مذموم اوصاف کا تذکرہ کرکے‘ ان حکمرانوں کے عبرت ناک انجام سے باخبر کرتا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ النمل بادشاہوں کی قوت اور باہمی آویزش کا ایک دل چسپ تاریخی واقعہ پیش کرتی ہے۔ایک جانب تورسولِ خدا حضرت سلیمان ؑ حکمران ہیں‘دوسری جانب یمن کے متمدن اور طاقت ور خطّے میں ایک بت پرست خاتون ملکۂ سبا تخت پر براجمان ہے۔حضرت سلیمان ؑ کی طرف سے ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی توایک اہم اور ہنگامی اجلاس میں اس نے اپنے وزرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’اے سردارانِ قوم! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو‘میں کسی معاملے کا فیصلہ تمھارے بغیر نہیں کرتی ہوں‘‘۔ اُنھوں نے جواب دیا’’ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے‘‘۔ملکہ نے کہا کہ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔میں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں‘پھر دیکھتی ہوں میرے ایلچی کیا جواب لے کر آتے ہیں‘‘۔ (آیت ۳۲-۳۵)

سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات ونتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی۔اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل وذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کردیتے ہیں‘اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انھیںکچل کر رکھ دیتے ہیں‘اس کے افراد میں غلامی‘خوشامد‘ایک دوسرے کی کاٹ‘ایک دوسرے کی جاسوسی‘ فاتح کی نقالی‘اپنی تہذیب کی تحقیر‘فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں‘اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اُجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔(تفہیم القرآن‘ سوم‘ ص ۵۷۳)

ملکۂ سباء کا یہ دانش مندانہ تجزیہ جہاں اس کی عقل وفہم کا پتا دیتا ہے ‘وہیں انسانی تاریخ کا یہ پہلو بھی واضح کرتا ہے کہ خدا سے برگشتہ اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بے خوف حکمرانوں کے ہاتھوں عزتیں برباد ہوتی اور مال وجان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔انسانی تاریخ کا پورا نچوڑ بھی یہی ہے۔آج بھی پوری دنیا میں یہی کھیل جاری ہے۔امریکا اور اس کے اتحادی نیز بھارت اور اسرائیل اس کی زندہ مثالیں ہیں۔طاقت جس طرح کی بھی ہو وہ انسان کو خودسر‘    سنگ دل‘ اور ظالم بنانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ہاں‘ اس طاقت کے ساتھ خدا خوفی‘احساسِ آخرت اور جواب دہی کا تصور شامل ہوتو انسان حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔معاشی ومعاشرتی اور ذہنی وجسمانی قوت سبھی بڑا امتحان ہوتی ہیں مگر سیاسی وحکومتی طاقت کا معاملہ سبھی سے زیادہ شدید اور فتنہ سامان ثابت ہوتا ہے۔

حکمران اور مقتدر طبقے اللہ کی دی ہوئی مہلت کو اپنی قوت کا کمال سمجھتے ہیں۔ خلق خدا کی جان لے لینا ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔قوم نوح کے مقتدر طبقے نے سیدنا نوحؑ کو قتل اور سنگسار کردینے کی بار بار دھمکیاں دیں اور کئی بار ان پر حملہ آور ہوئے۔قرآن نے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے ۔ سورۂ قمرمیں ارشاد ہے ’’(قوم نوح نے) ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑکا اور دھمکایا گیا‘‘(آیت ۹)۔سورۂ شعراء کے مطابق اس قوم نے حضرت نوحؑ کو ان الفاظ میں دھمکی دی’’اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہوکر رہے گا‘‘(آیت ۱۱۴)۔ آیت میں ’’مرجومین‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ پھٹکارے ہوئے بھی ہے اور سنگسار کیے ہوئے بھی ہوسکتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ان کی قوم نے قتل کی دھمکی دی اور ان کے خلاف سازش تیار کی۔سورہ نمل کی آیات ۴۹ تا ۵۲ میں اس پورے واقعے کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے ’’اُس شہر میں نوجتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔انھوں نے آپس میں کہا’’خدا کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے‘ہم بالکل سچ کہتے ہیں‘‘۔یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میںجو وہ کرتے تھے‘اس میں ایک نشان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘۔

سید مودودی ؒ نے ان آیات کی تفسیر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کاموازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

[ولی سے مراد]حضرت صالحؑ کے قبیلے کا سردارہے‘جس کو قدیم قبائلی رسم ورواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا۔یہ وہی پوزیشن ہے جو نبیؐ کے زمانے میں آپؐ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی۔کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرتؐ کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابوطالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں گے۔

[قومِ ثمود کی سازش] بعینہٖ اُسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبیؐ کے خلاف سوچتے رہتے تھے‘اور بالآخر یہی سازش انھوں نے ہجرت کے موقع پر حضوؐر کو قتل کرنے کے لیے کی‘یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ مل کر آپؐ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو۔

[دوسری طرف ہوا یوں کہ] قبل اس کے کہ وہ اپنے طے شدہ وقت پر حضرت صالحؑ کے ہاں شب خون مارتے‘اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب بھیج دیا اور نہ صرف وہ‘ بلکہ ان کی پوری قوم تباہ ہوگئی۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ سازش ان لوگوں نے اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کے بعد کی تھی۔سورۂ ہود میں ذکر آتا ہے کہ جب انھوں نے اونٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالحؑ نے انھیں نوٹس دیا کہ بس تین دن مزے کرلو‘اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا(فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰـثَۃَ اَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍo  ھود۱۱:۶۵)۔اس پر شاید انھوں نے سوچا ہوگا کہ صالحؑ کا عذابِ موعود  تو آئے چاہے نہ آئے‘ہم لگے ہاتھوں اونٹنی کے ساتھ اس کا کام بھی کیوں نہ تمام کردیں۔چنانچہ اغلب یہ ہے کہ  انھوں نے شب خون مارنے کے لیے وہی رات تجویز کی ہوگی جس رات عذاب آنا تھا اور قبل اس کے کہ ان کا ہاتھ حضرت صالحؑ پر پڑتا خدا کا زبردست ہاتھ ان پر پڑ گیا۔ (تفہیم القرآن‘ جلد ۳‘ ص ۵۸۴-۵۸۵)

یہ انسانی تاریخ کے بہ تکرار رونما ہونے والے واقعات ہیں جو قدیم دور میں تو پورے جتھے اور باغی عوام کو ملیامیٹ کر دیتے تھے مگر جدید دور میں بھی ظالم اپنے مظالم کا کچھ نہ کچھ مزا دنیا میں چکھ ہی لیتے ہیں۔پھر بھی کوئی عبرت نہیں پکڑتا‘ہر آمر مطلق یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے قبل جو گرفت میں آگئے تھے‘بے وقوف تھے‘میں تو بڑا جزرس‘محتاط اور منصوبہ ساز ہوں۔میں کیسے پکڑ ا جائوں گا‘ مگر سارے دریچے بند کردینے کے باوجود‘ وہ اپنی تباہی کا سبب بننے والے دریچے کو بند کرنا بھول جاتا ہے۔

حضرت نوحؑ اور حضرت صالحؑ کو قتل کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر حضرت ابراہیم ؑ کو تو عملاً قتل کرنے کے لیے آگ میںپھینک دیا گیاتھا۔وقت کے مستبد حکمران نمرود کے دربار سے قرآن کے الفاظ میں یہ فیصلہ صادر ہوا’’انھوں نے کہا جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خدائوںکی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے‘‘۔ (الانبیائ۲۱:۶۸)

مستبد حکمران اپنی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں مگر اللہ کی قدرت ِ کاملہ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو سب منصوبے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔چنانچہ‘ اس منصوبے کی ناکامی کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے’’ ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا  ابراہیم ؑ پر۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ برائی کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کردیا‘ اور ہم اُسے اور لوط ؑکو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں‘‘۔(الانبیاء ۲۱:۶۸-۷۱)

فرعون کا ذکر قرآن میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے کیونکہ قرآن نے موسٰی ؑ کی جدوجہد کا بھرپور تعار ف کرایا ہے۔قرآن کے مطابق ’’فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔(القصص۲۸: ۴)

بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کرنے کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔مثلاًسورہ البقرہ ۲:۴۹‘ الاعراف ۷:۱۴۱‘ ابراہیم ۱۴:۶‘ القصص ۲۸:۴۔اسی طرح اس نے اپنے درباری جادوگروں کو بھی ان کے ایمان لانے کے بعد پھانسی لگا دیا تھا۔اس موقع پر فرعون نے وہی گھسی پٹی دلیل پیش کی جو ظلم کرنے والے حکمران ہر دور میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں اس کا تذکرہ کئی مقامات پر آیا ہے۔یہاں ہم سورۃ الاعراف سے یہ مضمون نقل کرتے ہیں۔ ’’فرعون نے کہا’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی‘ تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے  بے دخل کردو۔اچھا‘ تو اس کا نتیجہ اب تمھیں معلوم ہواجاتا ہے۔میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھائوں گا‘‘۔انھوںنے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ توجس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا۔ اے رب!ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماںبردار ہوں‘‘۔ (آیات ۱۲۳ تا ۱۲۶)اس کے علاوہ ملاحظہ فرمائیے: طہٰ۲۰:۵۷-۷۶‘ الشعراء ۲۶: ۳۴-۵۱۔

ظلم اور ظالم کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔پتّا بھی ہلے تو ظالم سمجھتا ہے کہ جان پر بن گئی۔ذرا سی حرکت کہیں سے محسوس ہو تو اسے سازش اور حکومت کا تختہ الٹنے کا ’’خطرناک منصوبہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔واقعہ مذکورہ میں قرآن کے بیان کے مطابق فرعون کے اس سارے ظلم کے باوجود مخلص مومن‘ موت سے ڈر کر کفر کی جانب پلٹنے کے بجاے موت قبول کرنے پر تیار ہوگئے اور اللہ نے ان کو ایسی ثابت قدمی بخشی جو مثال بن گئی۔اس مثال کا اتباع اہل حق ہر دور میں کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک کہ آج کا دورِ انحطاط بھی اس سے خالی نہیں ہے۔عالم اسلام میں غیر ملکی حملہ آوروں اور نام نہاد مسلمان آمروں کے مقابلے پر جگہ جگہ استقامت اور مضبوط کردار کی یہ شمعیں روشن ہیں۔اسی مصر میں قدیم فرعون نے اہلِ ایمان کو تختۂ دار پر لٹکایا تھا جہاں دور جدید کے فراعنہ کے ہاتھوں عبدالقادر عودہ شہید اور اُن کے رفقا سیدقطب شہید اور آج کئی دیگر اہل حق پھانسی گھاٹ کی یہ منزلیں جرأت واستقامت کے ساتھ سرکرتے چلے آرہے ہیں۔فلسطین کی مقدس سرزمین‘انبیا وآئمہ اور صحابہ کا مسکن عراق‘ اہلِ عزیمت کا وطن افغانستان‘ جنت نظیر وادیٔ کشمیراور کوہ قاف کے بلند ہمت شیشانیوں کا مولد چیچنیا اسی تابناک تاریخ کا تسلسل بن کر ظلم اور ظالم کی ہزیمت کا اعلان کررہے ہیں۔اس موقع پر وادیٔ نیل کے پرعزم اسلامی راہ نما جناب سید عمر تلمسانی ؒ کا یہ فقرہ شدت سے یاد آرہا ہے کہ ’’ظالم کے سامنے مظلوم کا جھکنے سے انکار کردینا دراصل ظالم کی شکست اور مظلوم کی فتح ہوتی ہے اگرچہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔

فرعون نے حضرت موسٰی ؑ کو بھی کئی بار قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ موسیٰ زمیں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے قرآن کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں’’ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: چھوڑو مجھے‘ میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمھارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میںفساد برپا کرے گا‘‘(المومن۴۰:۲۶)۔ اس کے جواب میں پیغمبرحق سیدنا موسٰی ؑ خوف زدہ ہونے کے بجاے ان الفاظ میں نعرۂ حق بلند فرماتے ہیں ’’موسٰی ؑ نے کہا میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں‘جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا‘اپنے رب اور تمھارے رب کی پناہ لے لی ہے‘‘۔ (المومن ۴۰: ۲۷)

فرعون اپنے سارے لائو لشکر اور قوت کے باوجود موسٰی ؑ کو دھمکیاں تو دیتا رہا مگر آپ پر ہاتھ اٹھانے کی اسے کبھی ہمت وجرأت نہ ہوئی۔فرعون نے دنیا کے دیگر قدیم وجدید رعونت پسند حکمرانوں کی طرح موسٰی ؑکو حقیر اور بے وقعت ثابت کرنے کی بھی کوشش کی‘ اپنی دولت وحشمت پر فخروغرور اور موسٰی ؑکی غربت کا مذاق اس کے نزدیک اس دعوت اور داعی کو ہلکا کرنے کا ذریعہ تھا مگر حقیقت میں یہ اس کی اپنی ہی کم ظرفی تھی کیونکہ اس طرح حق کا استخفاف کسی دور میں ممکن نہیں ہوا۔ قرآن اس سارے واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔’’ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا ’’لوگو! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے‘اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل وحقیر ہے اور اپنی بات کھول کر بیان نہیں کرسکتا؟کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟‘‘اُس (فرعون) نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں (قومِ فرعون) نے اس کی اطاعت کی‘درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔آخر کار جب انھوں نے ہمیں غضب ناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا‘‘۔(الزخرف ۴۳:۵۱ -۵۵)

حضور اکرمؐ کو بھی آپؐ کے دور کے منکرین حق نے ہرطرح ہراساں کرنا چاہا۔ڈرایا دھمکایا‘ قتل کی سازشیں تیار کیں‘قید اور جلا وطنی کی دھمکیاں دیں‘مگر آنحضوؐر اپنی بات پر ڈٹے رہے۔اس صورت حال کا نقشہ قرآن کی سورۂ الانفال میں یوں کھینچا گیا ہے۔’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب منکرین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیںیا جلاوطن کردیں۔وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ‘‘۔(آیت ۳۰)

آج عالمی نقشے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ساری تاریخ خود کو دہراتی نظر آتی ہے۔قتل عام‘ جلانا‘ پھانسی چڑھانا ‘بچوں کا قتل‘معاشی قتل‘استہزا‘جھوٹا پروپیگنڈہ اورکردار کشی‘جلا وطنی اور وسائل پر قبضہ سارے مناظر موجود ہیں۔اس کائنات کا مالک کتنا حلیم اور واسع ہے۔انسان کو کتنی ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ وہ جب رسی کھنچنے پر آئے تو ذرا دیر نہیں لگتی اس کا ارشاد ہے’’قومِ عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے‘وہ ان سے زیادہ زورآور ہے۔وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے‘‘۔(حم السجدہ ۴۱:۱۵)

آج کے دور میں ہیروشیما‘ناگاساکی اوراس کے بعد مظالم کی ایک طویل داستان ‘گیس میمرز‘نیپام بم‘ڈیزی کٹرز‘کیمیکل اور بائیو ہتھیار جس بے دردی اورظلم کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں‘وہ دورِجدید کے بظاہر اور بزعمِ خویش مہذب انسان کی خونخواری‘درندگی اور خدا سے بغاوت کا نمایاں نمونہ ہیں۔آبادیوں کی آبادیاں جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دینا‘انسانوں کو بلکہ ان کی آنے والی نسلوں تک کو معذور‘اپاہج اور ناکارہ کردینے کے لیے نت نئے ہتھیاروں کی ایجاد ایک دیوانگی کا روپ دھار چکی ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن مجید قدیم قوموں کا حوالہ دیتا ہے کہ وہ آگ کی خندقیں تیار کرکے اہل ایمان کو ان میں بھون ڈالتے تھے۔سورۂ البروج کا یہ مضمون دل دہلا دینے والا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ‘اور اُس دن کی جس دن کا وعدہ کیاگیا ہے‘اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے‘(اُس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی‘ جب کہ وہ اُس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے تھے‘اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہیں تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے   جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے‘اور وہ    خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے‘ یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور اُن کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے‘‘۔ (البروج ۸۵:۱-۱۰)

ان آیات کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ اور دیگر متقدمین آئمہ تفسیر نے کافی تفصیلات لکھی ہیں۔دور جدید کے عظیم مفسر قرآن سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی شرح وبسط کے ساتھ ان آیات کے تفسیری حاشیے لکھے ہیں۔ وہ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کرایمان لانے والے لوگوں کو اُس میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے اُن کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ اُن پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے‘ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ایک‘ برجوں والے آسمان کی۔ دوسرے‘روز قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اُس ساری مخلوق کی جو اُن مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر وذلیل انسان کہاں بچ سکتے ہیں۔دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا نے اُن لوگوں پر جو ظلم کرنا چاہا کرلیا‘مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اُس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح اِن ظالموں نے اُن بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اُسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ اِن کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔

گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔

ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومیؓ نے رسول ؐاللہ سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔اُس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کردے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا۔مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی(جو غالباً پیروانِ مسیحؑ میں سے تھا) ملنے لگا‘اور اس کی باتوں سے متاثر ہوکر ایمان لے آیا حتیٰ کہ اس کی تربیت سے  صاحبِ کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا ‘پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا‘مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اُس پر کارگر نہ ہوا۔آخرکار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمعِ  عام میں بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار‘ میںمر جائوں گا۔چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا۔اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اُس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا۔اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے ‘ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیااس کو آگ میں پھکوا دیا۔ (احمد‘مسلم‘ترمذی‘ابن جریر‘عبدالرزاق‘ابن ابی شیبہ‘طبرانی‘عبد بن حُمَید)

دوسرا واقعہ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہوگئے۔بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کردیا ہے۔لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا‘یہاں تک کہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پِھکواتا چلا گیا جس نے اِسے ماننے سے انکار کیا۔حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اُسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔(ابن جریر)

تیسرا واقعہ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے    بنی اسرائیل کو دین ِموسٰی ؑ سے پھر جانے پر مجبور کیا یہاں تک کہ انھوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں اُن لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔(ابن جریر‘عبد بن حُمَید)

سب سے مشہور واقعہ نجران کاہے جسے ابن ہشام‘طبری‘ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مؤرخین نے بیان کیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر(یمن)کا بادشاہ تبان اسعد ابوکرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہوکر اس نے دین ِیہود قبول کرلیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔اس کا بیٹا ذونواس‘ اس کا جانشین ہوا اور اُس نے نجران پر جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا‘حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کردے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسٰی ؑ کے اصل دین پر قائم تھے)۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین ِیہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کیا۔اس پر   اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور  بہت سوں کو قتل کردیا‘یہاں تک کہ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار آدمی مارے گئے۔اہل نجران میں سے ایک شخص دَوس بن ذُوثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کی رو سے اُس نے قیصر روم کے پاس جاکر‘اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس جاکر اس ظلم کی شکایت کی۔پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو لکھا ‘اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ آخرکار حبش کی ۷۰ ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی‘ ذونواس مارا گیا‘یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ‘اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۵-۲۹۷)

ظالم حکمرانوں اور ظلم کی بساط پر قرآن حکیم کا یہ تبصرہ ایک کھلی حقیقت‘ تاریخی شہادت اور اہلِ عقل و دانش کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک موقع پر ایک ایسی ہی کھلی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جو انجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتا ہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش [سر ہلاتی بکری] کی طرح اس پر سر ہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اورفی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔ (رُوداد کل پاکستان اجتماع جماعت اسلامی پاکستان‘ لاہور‘ اختتامی خطاب‘ ۱۹۶۳ئ‘ ص ۷۷-۷۸)

سورت (انڈیا) کے ایک گائوں میں یکم جولائی ۱۹۱۸ء کو ایک بچہ نے آنکھ کھولی جس کا نام والدین نے احمد رکھا۔ خاندانی نام احمد حسین دیدات تھا۔ خاندان کاروباری پس منظر رکھتا تھا مگر جنگِ عظیم نے اکثر کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ میمن برادری اور سورتی آبادی کا ایک حصہ جنوبی افریقہ میں مقیم تھا اور وہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔ اس خاندان کے سربراہ حسین دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدایش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ احمد دیدات بھی ۹ سال کی عمر میں اپنے باپ کے پاس نیٹال (جنوبی افریقہ) پہنچ گئے۔ ان کی والدہ اور باقی افراد خانہ سورت ہی میں مقیم تھے۔ والدہ اپنے بیٹے کی روانگی کے چند ہی ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ شیخ دیدات اپنی والدہ کا تذکرہ جب بھی کرتے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔

احمد دیدات کی تعلیم کچھ بھی نہ تھی مگر وہ بلا کے ذہین تھے۔ انھوں نے سٹینڈرڈ سکس (چھٹی کلاس) تک پڑھا مگر اپنے طور پر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے‘ پڑھنے کا عمل جاری رکھا۔ چھوٹی عمر ہی سے ایک سٹور میں ملازمت کرلی۔ اس علاقے میں بہت سے عیسائی مشن اور گرجاگھر سرگرمِ عمل تھے۔ پادری اور راہبہ خواتین اسٹور پر خریداری کے لیے آتے تو ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔ کم سن احمد دیدات بڑا پکا مسلمان تھا۔ وہ اُن مبلغین سے سوال کرتا مگر اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا مگر اس سے زیادہ عیسائیت پر تحقیق شروع کر دی۔ بائیبل کو لفظ بہ لفظ حفظ کرنا کسی عیسائی بشپ کے بھی بس میں نہیں مگر احمد دیدات نے یہ کارنامہ کردکھایا۔ مولانا رحمت اللہ کی کتاب اظہار الحق نے احمد دیدات کی بڑی رہنمائی کی۔

ملازمت اور کاروبار کے بجاے قدرت نے اس ذہین مسلمان نوجوان کو اسلام کا مبلغ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تحقیق کرتا رہا اور سفیدفام اقلیت کے نظامِ جبر اور نسلی امتیاز کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود نہایت جرأت اور دھڑلے سے بڑے بڑے پادریوں کو چیلنج کرنے لگا۔ پادریوں کو اپنی قادر الکلامی کا بڑا پندار تھا۔ وہ اس ’’انڈین بوائے‘‘ کے مقابلے پر مناظرے کے میدان میں اترے تو دنیا حیران رہ گئی کہ بڑے بڑے بت یوں بے بس ہو کر دھڑام سے زمین بوس ہونے لگے کہ حضرت ابراہیم ؑکی تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ شیخ دیدات نے انگریزی زبان میںکمال حاصل کیا اور پیدایشی طور پر وہ تھے بھی شعلہ نوا خطیب۔ ان کا خطاب سماں باندھ دیتا تھا اور ہمیشہ وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مناظروں کی روداد بھی لکھنا شروع کر دی۔ اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے علاوہ خود جارحانہ انداز اپناکر عیسائی مشنریوں پر بائیبل ہی کے حوالوں سے ایسے اعتراضات کیے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ اب تک ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ یہ انداز دعوت کے لیے کتنا مفید ہے‘ مگر ایک مرتبہ شیخ احمد دیدات نے خود اس کے جواب میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے جس استحصالی اور نہایت جبرورعونت کے نظام میں انھوں نے اسلام کا دفاع شروع کیا تھا اس کے معروضی حالات ایسے تھے کہ کوئی اور چارئہ کار نہ تھا۔

۱۹۴۰ء تک احمد دیدات جنوب افریقی ممالک میں معروف مبلغ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں ہندو اثرات بھی خاصے تھے اور مسٹرگاندھی نے تو اپنی سیاسی سوچ اور جدوجہد آزادی کا سارا منصوبہ بھی وہیں سے شروع کیا تھا۔ احمد دیدات جس طرح اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے میں محنت کررہے تھے اسی طرح تحریکِ پاکستان کی بھی اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کھل کر حمایت کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو احمد دیدات پاکستان آگئے۔ تین سال یہاں مقیم رہے مگر محسوس کیا کہ ان کے لیے مفید کردارادا کرنے کے لیے جنوبی افریقہ ہی بہترین سرزمین ہے۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔

شیخ احمد دیدات نے ایک تحقیقی و تعلیمی ادارہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے نام سے برائمار (جنوبی افریقہ) میں قائم کیا جہاں سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے اور عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تعلیم حاصل کی۔ بلاشبہہ اس ادارے کی بڑی خدمات ہیں۔ ڈربن میں ایک جامع مسجد اور اسلامک پروپیگشن سنٹر کا قیام بھی مرحوم کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ہزاروں تقاریر کی وڈیو اور آڈیو کیسٹس دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دو درجن کے قریب ان کی کتب   کئی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ انھوں نے دنیا بھر میں سفر کیا۔ کئی ممالک نے ان کو ویزا دینے سے بھی انکار کیا۔ انھوں نے ویٹی کن میں پوپ جان پال سے ملاقات کی اور امریکا میں کئی عیسائی مناظرین سے مباحثے کیے۔ امریکا میں جمی سواگرٹ کے ساتھ ان کا مناظرہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔

خدمت و تبلیغ اسلام کے اعتراف کے طور پر مرحوم کو ۱۹۸۶ء میں کنگ فیصل عالمی انعام ملا۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں جاکر جو لیکچر دیے ان کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کا ہیرو اور باباے قوم نیلسن منڈیلا ان کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ میں سفیدفام سر پر غرور جنگِ آزادی کے نتیجے ہی میں سرنگوں ہوا مگر اس پر اوّلین چرکے احمد دیدات ہی نے لگائے تھے۔ منڈیلااپنے دورِ صدارت میں شیخ دیدات سے قریبی رابطہ رکھتا تھا۔

شیخ دیدات پر ۱۹۹۶ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ان کا نچلا دھڑ تقریباً مکمل طور پر     جامد ہوگیا تھا‘ زبان بھی بند ہوگئی مگر وہ ایک خاص مشین کے ذریعے اشاروں سے بات چیت  کرتے تھے۔ مئی ۱۹۹۷ء میں جب میں جنوبی افریقہ گیا تو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات سے بھی پہلے سے تعارف تھا۔ انھوںنے استقبال کیا اور فوراً شیخ کے کمرے میں لے گئے۔ انھوں نے پہچان لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے کئی سوالات کیے۔ ان کے ہاں عیادت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے۔ میں نے شیخ دیدات کے ساتھ کینیا‘ تنزانیہ ‘ پاکستان اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان میں کچھ وقت گزارا تھا۔ وہ سارے واقعات انھیں یاد تھے۔ ۹سال تک اس تکلیف دہ مرض کے ساتھ وہ زندہ رہے اور ۸۷ سال کی عمر میں ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو     خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔

عالمِ اسلام کی معروف عالمہ‘ مبلغہ اور دعوتِ اسلامی کی مجسم تصویر سیدہ زینب الغزالی (۱۹۱۷ئ-۲۰۰۵ئ) ۸۸سال کی عمر میں ایک پُرآشوب‘ ابتلا و آزمایش سے بھرپور‘ عزیمت و عظمت سے مالا مال اور ہر لحاظ سے سعید و کامیاب زندگی گزار کر ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جاملیں ___ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

زینب الغزالی مصر کے ایک گائوں میتِ عمر میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیداہوئیں۔ ان کے والد بہت نیک نہاد مسلمان اور تاریخِ اسلام سے گہراشغف رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے زینب کے سامنے تاریخِ اسلام اور سیرتِ صحابیاتؓ کے زریں واقعات کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہد صفت صحابیہ نُسیبہ بنتِ کعبؓ کو ان کے جہادی کارناموں کی وجہ سے اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا۔ زینب الغزالیؒ کے عنفوانِ شباب میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ نوجوان زینب نے امام حسن البنّا کی دعوت کو اپنے دل کی آواز جانا اور اس دعوت کا حصہ بن گئیں۔ امام حسن البنّا سے اپنے بھائی کی معیت میں ملاقات کی اور انھی کی ہدایت پر ۱۹۴۸ء میں خواتین کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا جو امام البنّا سے ملاقات سے قبل بھی وہ کر رہی تھیں۔ مردوں میں امام البنّا نے تحریک کی بنیاد رکھی تو خواتین میں یہ کارنامہ زینب الغزالی کے حصے میں آیا۔

زینب الغزالی نے خود ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا نام سیدات مسلمات تھا‘ جب کہ اخوان کا حلقہ خواتین اخوات مسلمات کے نام سے کام کر رہا تھا۔ کچھ حکمتوں اور مصالح کی وجہ سے انھوں نے اپنی تنظیم کو ختم کرنے یا اخوات میں ضم کرنے کے بجاے اسی نام سے کام جاری رکھا مگر اخوان سے بھرپور تعاون بھی کرتی رہیں۔ وہ بہت اچھی منتظم اور امام حسن البنّا ہی کی طرح نہایت مؤثر خطیبہ تھیں جو خواتین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے میںکامیاب ہوئیں۔ یہ اخوان کی تحریک کا   دل چسپ تاریخی واقعہ ہے کہ جب امام حسن البنّا نے سیدہ زینب کو اخوات میں شامل ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے دلائل کے ساتھ انھیں قائل کیا کہ الگ تنظیم کے بھی کچھ فوائد ہیں۔ جب ۱۹۴۸ء میں سیدہ زینب نے اخوان پر ابتلا کو دیکھا تو امام البنّا کو پیش کش کی کہ وہ اخوات میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ اس موقع پر امام نے ان کو ہدایت دی اور قائل کیا کہ وہ اس تنظیم کو قائم رکھیں۔ یہ دونوں فیصلے اپنے اپنے وقت پر حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔سیدات مسلمات تحریکی سوچ اور مکمل یک سوئی کے ساتھ مظلوموں کی امداد اور حاجت مندوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اہم کام کرتی تھیں۔ دورِ ابتلا میں نہایت حکمت اور خاموشی کے ساتھ ان عظیم خواتین نے اخوانی گھرانوں کو بڑا سہارا دیے رکھا۔

زینب الغزالی نے اپنی رودادِ ابتلا میں ایسے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ رونگٹے کھڑے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ امام حسن البنّا کی شہادت سے قبل ان کو کسی نے بتا دیا تھا کہ حکومت کے کیا عزائم ہیں۔ شاہ فاروق کے عہد میں امام کی شہادت اور بعد میں فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے طالع آزما کرنل جمال عبدالناصر کے اخوان کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے کے حالات و واقعات انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔ اس دورِ ابتلا میں سیدہ زینب نے اخوان کے گھرانوں کی امداد اور دعوت کے میدان میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی داعیانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کیا۔ وہ عورت تھیں مگر اللہ نے ان کو بے پناہ قوتِ ارادی اور عزمِ صمیم سے مالا مال کررکھا تھا۔ اخوان کے چھے قائدین ۱۹۵۴ء میں تختہ دار پر شہید کر دیے گئے۔ باقی ماندہ لوگ مرشدِعام دوم حسن الہضیبی کے ساتھ بدترین زنداں خانوں میں اذیت و کرب کی زندگی گزار رہے تھے۔ جیل سے باہر مردوں کے محاذ پر سید قطب اور خواتین کے حلقوں میں سیدہ زینب نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ سید قطب کو بھی ۱۹۵۶ء میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پہ لٹکائے گئے۔

زینب الغزالی کی بھی نگرانی کی جاتی رہی تھی۔ ان کی گرفتاری ۲۰ اگست ۱۹۶۵ء کو بغاوت ہی کی فردِ جرم کے تحت عمل میں آئی۔ ایام حُیاتی (اُردو ترجمہ رودادِ قفس از مولانا خلیل احمد حامدیؒ) میں مرحومہ نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے مظالم بیان کیے ہیں۔ ان پر کتے چھوڑے گئے جو ان کو بھنبھوڑتے رہے‘ ان کو تازیانے مار مار کر لہولہان کر دیا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی‘ ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ وضو اور پینے کے لیے پانی تک نہ دیا گیا۔ رفعِ حاجت کے لیے بیت الخلا جانا بھی ممنوع تھا اور یہ کیفیت کئی روز تک رہی۔ آفرین ہے اس خاتون کی ہمت و عزیمت پر کہ ظالم ظلم توڑتے توڑتے تھک گئے مگراس نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ ترغیب کا ہرجال بھی پھیلایا گیا اور ترہیب کا آخری حربہ تک بھی استعمال میں لایا گیا۔ ان کے فالج زدہ خاوند محمدسالم کی کنپٹی پہ پستول رکھ کر محبوس و مظلوم زینب کے طلاق نامے پر دستخط کرنے پر مجبورکیا گیا۔ ان سے زبردستی دستخط کرائے جا رہے تھے توان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’اے اللہ تو گواہ رہ‘ میں نے اپنی بیوی زینب الغزالی الجبیلی کو طلاق نہیں دی‘‘۔ (رودادِ قفس‘ ص ۲۷۵)

انھیں عمرقید کی سزا سنائی گئی مگر ناصر کی موت کے بعد سادات نے اخوانی زندانیوں کو رہا کرنا شروع کیا تو ۹ اگست ۱۹۷۱ء کو سیدہ زینب کی رہائی کا پروانہ جاری ہوگیا۔ اس وقت جیل میں ان کے ساتھ سید قطب کی عظیم بہن محترمہ حمیدہ قطب بھی مقید تھیں۔ زینب الغزالی نے حمیدہ قطب کو جیل میں چھوڑ کر رہا ہونے سے انکار کر دیا مگر کارندوں نے انھیں زبردستی جیل سے نکال باہر کیا اور عظیم سید قطب کی عظیم بہن نے بھی انھیں تسلی دی کہ وہ اطمینان سے جائیں‘ حمیدہ کے حوصلے اللہ کی توفیق سے پست نہ ہوں گے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۲-۳۰۳)

محترمہ زینب الغزالی کو چار مرتبہ خواب میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ جیل میں آنحضوؐر نے ان کو ان کے پیدایشی نام سے تین مرتبہ پکارا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا نام زینب غزالی رکھا گیا تھا‘ الغزالی بعد میں معروف ہوگیا۔ آنحضوؐر نے زینب غزالی ہی کہہ کر پکارا اور تسلی دی کہ وہ آنحضوؐر کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں (ایضاً‘ ص ۷۸-۷۹)۔ یہ عظیم ترین اعزاز ہے۔

جیل سے رہائی کے بعد محترمہ زینب الغزالی اپنی وفات تک اخوان کی قیادت میں نمایاں شخصیت رہیں۔ امام حسن الہضیبیؒ‘ سید عمرتلمسانیؒ ،جناب محمد حامد ابوالنصرؒ، استاذ مصطفی مشہورؒ، جناب مامون الہضیبیؒ اور موجودہ مرشدعام الاخ محمد مہدی عاکف سبھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے۔ وہ اخوان کی تحریک میں اس وقت مادرِ مشفق کا مقام رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ تھی۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

عراق میں مارچ ۲۰۰۳ء سے امریکا کی ڈیڑھ لاکھ فوج موجود ہے۔ ۲۰مارچ ۲۰۰۵ء کو قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر‘ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے‘ ان کے مطابق دو سالوں میں۱۵۲۰ امریکی مارے گئے‘ ۱۱ ہزار ۲ سو شدید زخمی اور معذور ہوئے‘ جب کہ جنگی صورتِ حال‘ موت اور گوریلا حملوں کے خوف سے ایک لاکھ امریکی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ماہرین جنگ کے تجزیوں کے مطابق عراق میں اپنی مدت قیام مکمل کرکے واپس جانے والے فوجیوں میں دوبارہ کسی محاذ پر جاکر لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی (روزنامہ ڈان‘ ۲۰ مارچ ۲۰۰۵ئ)۔ واضح رہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ امریکا اپنی فوجیوں کی ہلاکتیں چھپاتا ہے۔

عراق کو آزادی دلانے کے لیے آنے والا امریکا‘ عراقیوں کے لیے صدام سے سوگنا بدتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت‘ انتخابات‘ دستورساز اسمبلی‘ دستور سازی اور عراقیوں کی حکومت کے پردے میں امریکا اپنی حکمت عملی کے تحت اپنے منصوبوں اور سازشوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن اسے اپنے اندازوں سے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اے ایف پی کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے جو تفصیل دی ہے‘ اس کے مطابق  امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ صدام کے حامیوں سے خطرہ نہیں‘ اس لیے ان سے لڑنے کے بجاے امریکی اور اتحادی فوجوںکو مذہبی انتہاپسندوں ہی سے لڑنے کو ترجیحِ اول بنانا ہوگا۔ (ڈان‘ ۹مئی۲۰۰۵ئ)

امریکی حکومت اور اس کے عراق میں متعینہ جرنیل ‘جعفری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگجو گوریلا قوتوں سے سختی سے نمٹے۔ حکومت کی کامیابی کے لیے نظرآنا چاہیے کہ وہ واقعی کچھ کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کے ترجمان اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کافی مزاحمت کاروں کو ہلاک کرکے اور بڑی تعداد میں اسلحے کے ذخیروں پر قبضہ کرلیا ہے مگر امریکی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جنرل جارج کیسی کا کہنا ہے کہ ابومصعب الزقاوی کی کارروائیاں روز افزوں ہیں اور شام کی سرحد سے غیرملکی مداخلت کار عراق میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عبوری وزیراعظم ابراہیم جعفری کے ترجمان لیث قبہ نے اپنی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان قائم کرنے اور شورش پسندوں کو قابو کرنے کے لیے امریکی جرنیلوں سے مشورے مسلسل جاری رہتے ہیں۔ تاہم امریکی جرنیل اور عراق کی کٹھ پتلی حکومت کوئی مثبت نتیجہ آج تک حاصل نہیں کرسکے۔ (مضمون جوناتھن فائنر اور بریڈلے گراہم‘ روزنامہ ڈان‘ ۱۵ مئی ۲۰۰۵ئ)

دوسری طرف‘ نومنتخب اسمبلی کو اس سال کے اختتام تک دستور بنانا ہے ورنہ یہ تحلیل ہوجائے گی۔ دستور بن جانے کے بعد‘ نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ ملک میں ۴۰ سے ۴۵ فی صد تک سنی ہیں مگر ان کو کرد اور عرب قومیتوں میں تقسیم کر کے ۲۰ فی صد کردسنیوں کو اس تعداد سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ سنی جماعت سنی عرب حزب اسلامی کے ترجمان ناصرالعانی نے مطالبہ کیا ہے کہ دستور سازی کے لیے نام نہاد پارلیمنٹ کے بجاے تمام گروپوں کے مستند نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی جائے‘ ورنہ دستور تسلیم نہیں کیا جائے گا (ڈان‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)۔ پارلیمنٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل جو ۵۵ رکنی کمیٹی قائم کی ہے اس میں صرف دو سنی ارکان شامل ہیں۔ ابراہیم جعفری نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنیوں کے جذبات کا احترام کریں گے۔  سنی جماعت بااثر ہے اور اسے شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سابق عبوری وزیراعظم ایاد علاوی اور مشیربراے قومی سلامتی قاسم دائود نے بھی جو شیعہ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ دستوری کمیٹی کا بھی ممبر ہیں‘ سنیوں کے مذکورہ بالا مطالبے کی پُرزور تائید کی ہے۔ یہ کمیٹی اپنا مجوزہ مسودہ ۱۵ اگست تک تیار کرنے کی پابند ہے۔ یہ مسودہ مجلس کی منظوری سے ۱۵اکتوبر تک قومی استصواب راے (ریفرنڈم) کے لیے پیش کیا جائے گا۔

قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر ‘ یہ جائزے لیے جارہے ہیں کہ کس نے کیا حاصل کیا۔ متحدہ عرب امارات کے معروف عربی اخبار الخلیج میں ایک عرب تجزیہ نگار عبدالالہ بلقزیز نے ۲۰مارچ کو اپنے مضمون ’’عراق جنگ کے دو سال‘‘ میں لکھا ہے کہ تیل کے تاجروں‘ بش‘ ڈک چینی اور ان کے رفقاے کار نے اپنے اہداف میں سے تین حاصل کر لیے ہیں۔ پہلا ہدف تیل کی دولت پر قبضہ تھا جو پورا ہوچکا اور وہ سارے اخراجات مع منافع یہاں سے حاصل کررہے ہیں۔ دوسرا ہدف اسرائیل کا تحفظ تھا‘ اس کے حصول کے لیے بھی وہ بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘ اور تیسرا ہدف عراق کی تقسیم تھی جو سنی‘ شیعہ اور کرد میں کردی گئی ہے۔ امریکی عوام کو اس سے کیا ملتا ہے؟ اس کا جواب بہت جلد دنیا کے سامنے آجائے گا کیونکہ تیل کی دولت تو یہ دہشت گرد امریکی حکمران خود ہی ہضم کررہے ہیں۔

وقتی طور پر تیل کی دولت پر قبضے کے باوجود ‘عراق میں امریکا کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:

۱- امریکا اور بحیثیت مجموعی استعمار کی تاریخ بتاتی ہے کہ حریت پسند قوموں پر استعماری تسلط کبھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ویت نام‘ کمبوڈیا‘ کوریا‘ جنوبی افریقہ‘ الجزائر اور بہت سی دیگر مثالیں بالکل واضح ہیں۔

۲- عراق میں مزاحمت بے پناہ قربانیوں کے بعد بڑھ رہی ہے‘ کم ہونے کے دُور دُور تک آثار نظر نہیں آتے۔

۳- قابض فوجوں کے پاس قبضے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے‘ اس لیے ان کے حوصلے سارے مادی وسائل کے باوجود پست ہوچکے ہیں۔

۴- قابض فوجوں نے قیدیوں پر ابوغریب اور دیگر جیلوں میں جو ننگ ِانسانیت مظالم ڈھائے ہیں‘ عالمی راے عامہ اس پر شدید غم و غصے اور امریکا سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں خود امریکی راے عامہ بھی شامل ہے۔ امریکا کے دو ماہرین سروے ڈیموکریٹ پیٹرہارٹ اور ری پبلکن بِل میک انٹرف نے بتایا ہے کہ امریکی ووٹر عراق پر امریکی پالیسی سے نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس ساری صورت حال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عراقی قوم اس آزمایش سے کندن بن کر نکلے گی۔ عراق سے مقامی آمریت کا خاتمہ تو ہوگیا ہے‘ اب بیرونی قبضہ بھی ختم ہوگا۔ اگر عراق حقیقی جمہوریت کے راستے پر چلا تو اس سے اسلامی قوتوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

امریکی حکومت نے مصر کی معروف دینی و اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے باقاعدہ رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور کے ایک قومی اخبار نے اپنے نمایندہ مقیم نیویارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل خبر شائع کی ہے:’’امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مصر کی کالعدم اسلامی تنظیم اخوان المسلمون سے براہ راست اور مستقل بنیادوں پر مذاکرات کیے جائیں۔ بش انتظامیہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اخوان المسلمون مصر کی سب سے زیادہ طاقت ور تنظیم ہے۔ قاہرہ کے ایک مغربی سفارت کار نے معتبر عربی اخبار الشرق الاوسط کوبتایا کہ امریکا سمجھ چکا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون تنظیم اپوزیشن کی ایک طاقت ور تنظیم کا کردار ادا کر رہی ہے‘ لہٰذا بش انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اخوان المسلمون کے نمایندوں کو واشنگٹن مدعو کر کے ان سے مذاکرات کیے جائیں اور مصر میں اصلاحات کے سلسلے میں اخوان المسلمون سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بات چیت کی جائے‘‘۔ (نواے وقت‘ ۶اپریل ۲۰۰۵ئ)

امریکا اور برطانیہ نے اخوان کو ہمیشہ ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم اور مغربی تہذیب سے متنفر بنیاد پرستوں کا ٹولہ قرار دیا ہے۔ اخوان کے رہنمائوں نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالے سے بہت سے دل چسپ واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ اخوان کے تیسرے مرشدعام سید عمر تلمسانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

امام حسن البناؒ دو مرتبہ انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ دونوں مرتبہ غیرملکی استعمار کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اُس دور کے وزیراعظم نحاس پاشا مرحوم سے حکومتِ برطانیہ نے مطالبہ کیا کہ وہ امام کو انتخاب لڑنے سے منع کر دیں۔ چنانچہ وزیراعظم نے اُنھیں ملاقات کے لیے میناہائوس بلایا۔ امام نے انتخاب سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ اس پر نحاس پاشا نے امام کو بتایا کہ برطانیہ کی جانب سے دھمکی ملی ہے کہ اس صورت میں مصر کو زبردست خطرے کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ آپ نے ملک ووطن کی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے انتخاب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

دوسری مرتبہ بھی استعماری نظام نے آپ کو انتخاب سے باہر رکھنے کی پوری کوشش کی مگر آپ نے اس بار دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ غیر جانب دار حلقوں کے مطابق راے دہندگان نے بھاری اکثریت سے امام کے حق میں ووٹ ڈالے‘ مگر انتظامیہ نے ووٹوںکی گنتی کے دوران ایسا خوف و ہراس پھیلایا اور ایسی دھاندلی کی کہ جس کی   کوئی مثال نہیں ملتی۔ یوں آپ کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا۔ (یادوں کی امانت‘ ص ۱۶۱)

دوسری جگہ عمر تلمسانی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’مصر میں نقراشی پاشا کی وزارت کے دوران مغربی ممالک کے سب سفیر ایک جگہ جمع ہوئے اور انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں وزیراعظم سے اخوان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ نقراشی پاشا نے اخوان پر پابندی لگادی۔ یہ پہلی پابندی تھی‘ اس کے بعد تو ہماری تاریخ پابندیوں ہی کی تاریخ بن کر رہ گئی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۵۰)

اخوان کے چوتھے مرشدعام محمد حامد ابوالنصرؒ نے اپنے احساسات کا تذکرہ یوں کیا ہے: ’’برطانوی سفارت خانے سے مجھے ایک خط ملا جس کے مطابق سفارت خانے کے نمایندے میجرلینڈل مجھ سے ملاقات کے آرزومند تھے۔ میں نے خط کا جواب دینے سے پہلے امام حسن البنا سے اس کی اجازت مانگی۔ انھوں نے مجھے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔ ساتھ ہی اخوان کی پالیسی پر مشتمل ایک خط مجھے برطانوی سفارت کاروں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اس ملاقات میں کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں برسبیل تذکرہ میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ برطانوی سفارت خانے میں اخوان المسلمون کے متعلق ایک البم تیار کیا گیاتھا جس میں امام حسن البنا کی تصویر کے نیچے انگریزی کی ایک عبارت لکھی ہوئی تھی: ’’مشرق وسطیٰ کا خطرناک ترین آدمی‘‘۔ (وادی نیل کا قافلہ سخت جان‘ ص ۴۷-۵۱)

اب مصر میں نصف صدی کے بعد پہلی مرتبہ یہ امید پیداہوئی ہے کہ ملک کے صدارتی انتخاب میں ایک ہی امیدوار (جو کہ کرنل ناصر کے وقت سے ہمیشہ برسراقتدار صدر ہی ہوا کرتا ہے) کے بجاے ایک سے زاید امیدواران میدان میں اتر سکیں۔ کرنل ناصر‘ انور السادات اور حسنی مبارک نے بالترتیب مصر پر ۱۷ سال‘۱۲ سال اور ۲۴ سال تک حکمرانی کی۔ آخر الذکر ابھی تک تخت پر براجمان ہیں۔ ان کے دونوں پیش رو موت ہی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے ورنہ جیتے جی انھوں نے کسی کو مدمقابل آنے کی اجازت نہ دی۔ یوں مصر میں صدارتی انتخاب دراصل ’’ریفرنڈم‘‘ ہوتا ہے۔

آمریت کبھی آسانی سے قوموں کی جان نہیں چھوڑا کرتی۔ اس وقت حکمران ٹولے کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ ملک کے اندر حسنی مبارک اور ان کے چیلوں کے خلاف شدید نفرت ہے۔ عالمی تناظر میں کثیرجماعتی انتخابی نظام کے لیے دبائو بھی ہے لیکن مغرب کو ’’بنیاد پرستوں‘‘ کا بیلٹ کے ذریعے منتخب ہونا بھی کسی صورت قبول نہیں۔ ترکی اور الجزائر اس کے کھلے ثبوت ہیں جہاں نام نہاد مغربی جمہوریت پسندوں نے پوری ڈھٹائی اور منافقت سے عوام کے واضح مینڈیٹ کو ’’جمہوریت کی شکست‘‘ قرار دے کر ’’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘‘ کے معکوس معنی متعین کر دیے تھے۔

مصر کے صدارتی اور عام انتخابات سے قبل وہاں کی بارکونسل کے حالیہ انتخابات کے نتائج بھی ہوا کے رخ کا پتا دیتے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون پر قانوناً آج بھی پابندی عائد ہے۔ وہ ملکی انتخابات میں اخوان کے نام پر حصہ نہیں لے سکتے‘ البتہ آزادانہ حیثیت میں یا کسی دوسری اپوزیشن پارٹی کے ممبر کے طور پر انتخاب لڑسکتے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اخوان کے تقریباً تین درجن ارکان اسی انداز میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پیشہ ورانہ تنظیمیں‘ یعنی بار کونسلیں‘ انجینیروں‘ ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی یونینوں اور سوسائٹیوں میں بھی اخوان کی نمایندگی بھرپور ہے کیونکہ ان تنظیموں میں کسی بھی نام سے انتخاب لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

مصرمیں گذشتہ سال بار کونسل کے ناظم اعلیٰ‘ اخوان کے پہلے مرشدعام امام حسن البناشہیدؒ کے بیٹے سیف الاسلام البنا ایڈوکیٹ تھے۔ اس مرتبہ اخوان نے حزب الوطنی اور بعض دیگر گروپوں سے اتحاد کر کے یہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ کل ۲۴ ارکان ملک بھر سے منتخب کیے جاتے ہیں جو بعد میں صدر‘ سیکرٹری اور ایگزیکٹو کونسل وغیرہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ مقابلہ کانٹے دار تھا۔ ایک   جانب اخوان اور حزب الوطنی کے امیدواران تھے تو دوسری جانب حکومتی پارٹی اور ناصری جماعت کا اتحاد میدان میں تھا۔ ایک گروپ کی قیادت سیف الاسلام البنا کر رہے تھے‘ دوسرے کے رہنما سامح عاشور تھے۔

عرب دنیا کے تمام پڑھے لکھے لوگوں بالخصوص شعبہ قانون و عدل سے تعلق رکھنے والے افراد کی نگاہیں ۱۲ مارچ ۲۰۰۵ء پر لگی تھیں۔ اس مرتبہ ان انتخابات کو مغرب میں بھی بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ مصر میں کل رجسٹرڈ وکلا کی تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ اخوان نے اپنی حکمت عملی بہت حکمت و تدبر کے ساتھ مرتب کی‘ وہ شراکت کے اصول پر میدان میں اترے۔ کل ۲۴امیدواران کی فہرست میں اخوان کے ۱۰ وکلا اور دیگر پارٹیوں کے ۱۴ وکلا کا نام دیا گیا تھا۔ شام کو نتائج کا اعلان ہوا تو اخوان کے گروپ سے ۱۵ امیدوار کامیاب قرار پائے‘ جب کہ حکومتی اور ناصری اتحاد نے باقی ۹ نشستیں جیت لیں۔ نتائج کی پہلی دل چسپ بات یہ ہے کہ مصری بار کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور وہ یہ کہ سابقہ بار کے ناظم اعلیٰ سیف الاسلام البنا ۳۶ ہزار ۹ سو ووٹ حاصل کر کے ممبر منتخب ہوئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کل ۷۵ ہزار کے قریب پڑنے والے ووٹوں میں سے ۱۲ ہزار ۲ سو ۳۳ ووٹ مسترد ہوئے۔ اگر یہ ووٹ مسترد نہ ہوتے تو شاید نتائج حکومتی اتحاد کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوتے (وکلا جیسی برادری کے اتنی بڑی تعداد میں ووٹوں کا مسترد ہونا بھی حیرت کی بات ہے)۔ (المجتمع کویت ‘شمارہ ۱۶۴۴‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ۔ مزید تفصیلات اخوان کی ویب سائٹ www.ikwanonline.net پر دیکھی جاسکتی ہیں)

ان انتخابی نتائج سے حکومت بھی پریشان ہے اور ان کے مغربی سرپرست بھی خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں۔ مصر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکا چند برسوں سے اعلانات کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکا کے عرب اور مسلم دنیا میں جمہوری نظام کی حمایت کرنے کے دعوے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک الگ سوال ہے مگر اس شور و ہنگامے میں موروثی حکمران اور مستبد آمرانہ حکومتیں اپنی جگہ لرزہ براندام ضرور ہیں۔ حسنی مبارک ایک تسلسل کے ساتھ مغربی دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات اور آزادانہ ماحول کا نتیجہ مصر اور خطے کے دیگر ممالک میں بنیاد پرستوں کی جیت کی صورت میں نکلے گا۔ اٹلی‘ فرانس اور امریکا کے تمام ابلاغی اداروں سے حسنی مبارک کا یہ الارم نشرہوچکا ہے۔

اس سال فروری کے آخر میں حسنی مبارک نے بعض دستوری ترامیم کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے مطابق آئین کی دفعہ ۷۶ میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی انتخاب میں دیگر امیدواروں کو بھی شرکت کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس انتخاب کا طریق کار اور قواعد کیا ہوں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اخوان المسلمون نے صدر کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مکتب ارشاد سے مشاورت اور غوروخوض کے بعد قاہرہ میں ۲۳ مارچ کو مطالبات پر مشتمل ایک جامع بیان جاری کیا‘ جسے عالم عرب و غرب کے پریس میں نمایاں جگہ ملی۔ اس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:

۱- ایمرجنسی کا فوری اور مکمل خاتمہ۔ ایک ایسی فضا کا قیام جس میں حقیقی جمہوریت پنپ سکے۔ عام جلسے جلوسوں کی آزادی‘ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے جسمانی و نفسیاتی تشدد کا مکمل خاتمہ۔

۲- تمام خصوصی عدالتوں اور قوانین کا مکمل خاتمہ‘ بالخصوص پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ اور   ٹریڈ یونینز لا وغیرہ کا خاتمہ جن کی وجہ سے موجودہ سیاسی جمود طاری ہے۔ اخبارات و جرائد کے اجرا اور بلاقید و تفریق سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی آزادی۔

۳- ایسے آزاد ماحول اور فضا کا قیام جس میں مکمل طور پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو اور قوم کی اصل رائے سامنے آسکے۔ صاف شفاف انتخابی فہرستوں کی تیاری‘ قومی شناختی کارڈوں کے اجرا کی جلد تکمیل‘ انتخابات کے تمام مراحل کی عدلیہ کے زیرنگرانی تکمیل‘ انتخابی عمل میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کا کلی سدباب اور امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کی مکمل آزادی۔

۴- دستور کے آرٹیکل ۷۶ اور صدارتی انتخابات سے متعلق دیگر دفعات کے لیے صدر کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جائے۔ دو مرتبہ سے زاید صدارتی میعاد کے لیے امیدوار بننے پر پابندی لگائی جائے اور عرصۂ صدارت کو چار برس تک محدود کر دیا جائے۔

ان مطالبات کے آئینے میں مصر کی موجودہ تصویر صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ابھی ان مطالبات کے نتائج و عواقب کے بارے میں سیاسی و فکری حلقے ردعمل اور تجزیے پیش کر رہے تھے کہ دستور کے آرٹیکل ۷۶ میں مثبت اور عوامی جذبات کی ترجمان ترمیم کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ صدر حسنی مبارک نے ترمیم کا ایسا تصور پیش کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ترمیم بھی کی جائے گی‘ مگر اپنی صدارت کے لیے خطرہ بننے والے ہر امیدوار کا راستہ بھی روکا جائے گا۔ یوں یہ کثیر امیدواری انتخاب ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔

دوسری طرف حکومتی سطح پر پروپیگنڈے کا ہتھیار بھی خوب استعمال ہورہا ہے (جس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں بھی کرتے ہیں)۔ حسنی مبارک نے اعلان کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو بیرونی ممالک سے لاکھوں کروڑوں پونڈ آنے شروع ہوگئے ہیں تاکہ مصر کی حکومت کو غیرمستحکم کیا جائے۔ ایسی صورت میں دوسرے امیدوار کی ترمیم پر دوبارہ غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور کام یہ کیا گیا کہ اخوان کے نائب مرشد عام اور سیاسی معاملات کے نگران ڈاکٹر محمد حبیب کی طرف سے یہ بیان میڈیا میں پھیلا دیا گیا کہ انھوں نے صدرحسنی مبارک یا ان کے بیٹے جمال مبارک کے بطور امیدوار میدان میں آنے کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر محمد حبیب نے زوردار الفاظ میں اس کی   تردید کی مگر اس وقت تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دُور و نزدیک زہر پھیلا چکی تھی۔ (المجتمع‘ شمارہ۱۶۴۵‘ ۸ اپریل ۲۰۰۵ئ)

حکومتی بدنیتی سامنے آجانے کے بعد کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف مزاحمت کا پروگرام بنایا ہے۔ بائیں بازو کی تنظیم سوشلسٹ پارٹی نے اپنے اس نعرے کی بنیاد پر کہ حسنی مبارک کی امیدواری کسی صورت منظور نہیں‘ قاہرہ میں ایک بڑے اجتماعی مظاہرے کا اہتمام کیا۔ حکومت نے اس میں زیادہ رکاوٹ نہیں ڈالی۔اسی طرح حزب الوطنی نے بھی مظاہرہ کیا اور اسے بھی بلاروک ٹوک مظاہرہ کرنے دیا گیا۔ اس کے برعکس اخوان نے ۲۷ مارچ کو پارلیمنٹ کے سامنے پُرامن اور خاموش مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تو اوپر سے نیچے تک پوری مشینری حرکت میں آگئی اور اس مظاہرے کو ناکام بنانے کے لیے پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔ اخوان کے اہم رہنمائوں کو مظاہرے سے قبل ہی پکڑ کر تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے دیگر مقامات سے آنے والوں کے لیے راستے مسدود کر دیے گئے۔ مختلف بڑے شہروں میں سے  ۶۰اہم رہنما رات کی تاریکی میں گھروں سے گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیے گئے (گویا سب جگہ ایک ہی طریق کار ہے)۔ اس کے باوجود اخوان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

اخوان کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مظاہرے سے ایک دن قبل ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق مصری پارلیمنٹ کے سامنے پرامن اور خاموش مظاہرہ ضرور کریں گے۔ جو لوگ رکاوٹوں کی وجہ سے وہاں پہنچنے میں کامیاب نہ ہوں وہ عوامی جلسوں کے لیے مختص معروف میدانوں میں خاموش مظاہرہ کریں گے۔ چنانچہ پارلیمنٹ پہنچنے والے راستوں کو بند کرنے کے باوجود ہزاروں لوگ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان میں نائب مرشد عام اول  ڈاکٹر محمد حبیب بھی شامل تھے۔ ۱۰ ہزار مسلح دستوں نے قاہرہ میں بری طرح خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کے علاوہ قاہرہ کے تین دیگر میدانوں میں بھی ہزاروں لوگ مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ان میں خاص طور پر قاہرہ کے مرکزی حصے کا میدان رمسیس ثانی اور میدان  سیدہ زینب قابلِ ذکر ہیں جو ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے۔ مظاہرے کے بعد ڈاکٹر محمد حبیب نے کویت کے رسالے المجتمع سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اشتعال کے باوجود ہمارے مظاہرے مکمل طور پر پُرامن رہے۔ ہم نے پابندیاں قبول کرنے سے انکار کیا اور جبر کی  قوتوں کے مقابلے پر اپنے سیاسی صبروتحمل اور نظم و ضبط کے ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دستوری ترمیم کے متعلق حکومتی دھوکے بازیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ تحریک کفایہ بائیں بازو کے عناصر پر مشتمل سیاسی جماعت ہے۔ اس کا نعرہ ہے ’’بہت ہوگیا!‘‘ (حسنی مبارک اب نہیں)‘ یعنی Enough is enough۔قاہرہ کے آئی جی پولیس نیبل العزبی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن کی جماعت تحریک کفایہ کے ۳۰ مارچ کے مظاہرے کو بھی قوت کے ساتھ روک دیں گے۔

ایک روز قبل مصر کی تمام بڑی یونی ورسٹیوں میں طلبہ نے بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں ازھر‘ عین شمس‘ اسیوط‘ قاہرہ‘ منیا‘ منصورہ یونی ورسٹیاں شامل ہیں۔ طلبہ دستور میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ اور حسنی مبارک کے بیٹے کو نیا صدر بنانے کی مخالفت کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں طلبہ یونینوں پر عرصہ دراز سے عائد پابندی کے خلاف بھی سراپا احتجاج تھے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان میں سے ہر ایک مظاہرے میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی۔

اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اخوان کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھ کر اس خطے کے لیے کوئی خاص سازش تیار کرنا چاہتا ہے۔ اخوان مغرب کے لیے کبھی بھی قابلِ قبول نہیں رہے۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتدال پسند‘ پُرامن اور جمہوری اقدار کے  علم بردار ہیں۔ امریکا کو وہ لوگ قبول ہیں جو اس کی پالیسیوں کو لے کر چلنے والے ہوں خواہ وہ موروثی بادشاہ ہوں‘ فوجی آمر ہوں یا نام نہاد سیکولر سیاست دان۔ عرب دنیا کے مسائل کا حقیقی حل منصفانہ جمہوریت ہے‘ مگر وہ کب اور کیسے آئے گی‘ یہ سوال اپنا جواب چاہتا ہے۔

عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ جبر کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے‘ تاہم ابھی منزل کافی دُور ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ آمریت اپنے پیچھے موروثی آمریت چھوڑ جاتی ہے تو مغرب   اسے برداشت کر لیتا ہے‘ مثلاً شام کے حافظ الاسد کی جانشینی بشارالاسد کے حصے میں آئی۔ لیبیا کے معمر قذافی نے اپنے بعد اپنے بیٹے سیف الاسلام القذافی کو تیار کرلیا ہے اور مصر کے حسنی مبارک اپنے بیٹے کو جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ شاہی حکومتوں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اُردن کے     شاہ حسین کے ربع صدی سے زیادہ ولی عہد کے طور پر معروف بھائی شہزادہ حسن بن طلال بیک جنبش قلم اس منصب سے محروم کر دیے گئے اور مغرب نواز شہزادہ عبداللہ تخت پر براجمان ہوگئے۔ ان سب واقعات کے باوجود لوگوں کی نظریں مصر پر جمی ہوئی ہیں جہاں اخوان ایک مضبوط سیاسی قوت کی حیثیت سے موجود ہیں۔ تبدیلی کا آغاز شاید مصر سے ہو اور اللہ کی توفیق اور عوامی تائید سے کامیابی حاصل ہو۔

۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء پیر کا دن تھا۔ اس سے ایک روز قبل پوری دنیا میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں نے اپنی عید (کرسمس) بڑے اہتمام اور تزک و احتشام سے منائی تھی۔ مال دار ملکوں کے سیاح‘ مرد وخواتین سیاحت کے مقامات اور سمندری ساحلوں پر تعطیلات کے مزے لوٹ رہے تھے اور مزے لوٹنے کا ان کا جو انداز ہے‘ اس کا بھرپور اہتمام تھا۔ سالِ نو کی آمد کا پوری دنیا میں شدت سے انتظار تھا۔ سال نو کے جشن جس انداز میںمنائے جاتے ہیں ان کے لیے مادی دنیا اور اس کی لذتوں میں غرق عالمی آبادی اتنے پاپڑ بیلتی اور اس قدر انتظامات کرتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں مشرق کی جانب سے سورج نے ۲۶ دسمبر کے دن کا اعلان کیا ہی تھا کہ ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ بحرہند کی تہوں کے نیچے ایک ہولناک زلزلے نے انگڑائی لی‘ سمندر بپھر گیا اور موت ہر جانب رقص کرنے لگی۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک ہی نام ہر جانب گونج رہا تھا ’’سونامی‘‘۔

لوگ سونامی کی خون آشام تباہ کاریوں کی خبریں خوف و ہراس کے ساتھ سن رہے تھے اور سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان تھے۔ ہرشخص ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا ’’سونامی‘‘ کیا ہے۔ سونامی دراصل جاپانی زبان کا لفظ ہے جو تباہ کن سمندری طوفان اور زلزلے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جاپان ان خطوں میں شامل ہے جہاں تاریخ کے بدترین سمندری زلزلے اور طوفان تباہی مچاتے رہے ہیں۔ جاپان میں ۱۹۰۶ء میں ایک سمندری طوفان آیا تھا جس میں صرف اس ملک کے ایک لاکھ ۴۵ ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ زلزلوں کے ریکارڈ کے مطابق ۱۹۰۶ء کا سمندری زلزلہ جس نے یہ تباہی مچائی اتنا خوفناک تھا کہ اس کے لیے یہ لفظ ایجاد ہوا۔

یہ سمندر اور زمین بلکہ کائنات کی ہر چیز اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کر دی ہے مگر ان سب کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ انسان بڑا ترقی یافتہ اور خود کو نہایت طاقت ور سمجھتا ہے مگر حقیقت میں بے بس اور کمزور سی مخلوق ہے۔ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ عافیت میں زندگی گزر رہی ہو تو انسان کبھی اس امر پر غور بھی نہیں کرتا کہ یہ تسخیرشدہ کائنات کسی پہلو سے ذرا اپنی ہیئت بدل لے تو کیا ہو جائے گا۔ سونامی کی تباہ کاریوں کی پوری تفاصیل ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں مگر یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے اور کروڑوں بے گھر ہوگئے۔ ملکوں کے ملک اور ان کی منظم حکومتیں ہل کر رہ گئیں۔ اس طرح حادثے کا ایک پہلو تو واقعاتی ہے جس کی جزئیات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں مگر ایک پہلو اخلاقی و طبیعیاتی بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھائو اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنھیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو‘‘۔ (النحل۱۶:۱۴)

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’تمھارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمھاری کشتی چلاتا ہے تاکہ اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمھارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو‘ وہ سب گم ہوجاتے ہیں مگر جب وہ تم کو بچاکر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھرائو کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم ا س سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پائو؟ کیا تمھیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمھاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمھیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمھارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۶۶-۶۹)

سونامی جس نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا وہی ’’سخت طوفانی ہوا‘‘ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ملتا ہے۔ انسان کے لیے ان واقعات میں بڑی عبرت ہے مگر بدقسمتی سے کم ہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ بحرہند کے جن جن علاقوں میں یہ تباہی پھیلی ہے وہاں پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم موجود نہیں ہے‘ جب کہ بحراوقیانوس میں ایسا انتظام کیا گیا ہے مگر اس انتظام کے باوجود وہاں بھی جب ناگہانی آفت آجاتی ہے تو انسان کی بے بسی نوشتۂ دیوار بن جاتی ہے۔ سونامی کے اس طوفان نے جنوبی ایشیا‘ مشرق بعید اور افریقہ کے ممالک میں تباہی مچائی ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں آنے والے زلزلوں میں سے یہ ایک بدترین اور مہلک ترین زلزلہ تھا۔ اس سے انڈونیشیا‘ سری لنکا‘ بھارت‘ تھائی لینڈ اور مالدیپ میں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے‘ جب کہ بحرہند کے دور دراز جزیرے سیشلز تک ان لہروں نے تباہی مچائی ہے۔

انڈونیشیا کا جزیرہ آچے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہ مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں پر مسلمان ممالک اور بالخصوص پاکستان سے جانے والے الخدمت کے وفد نے جو حالات دیکھے ہیں وہ انتہائی دلخراش ہیں۔ الخدمت کے ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے وفد کو انڈونیشیا کی اسلامی جماعت ’’جسٹس پارٹی‘‘ کے رضاکاروں کی امداد اور تعاون بھی حاصل ہے مگر یہ بات انتہائی المناک ہے کہ مغربی دنیا کی این جی اوز اب تک کوئی قابلِ ذکر خدمت سرانجام نہیں  دے سکیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہاں امریکی فوجیوںکی آمد اور کارکردگی ہے۔ امریکا نے اس ناگہانی مصیبت میں جس قلیل امداد (عراق کا ڈیڑھ دن کا خرچ) کا اعلان کیا تھا‘ اس کے ساتھ یہ اڑنگا لگا دیا کہ اس امریکی امداد کو اپنی فوج کے ذریعے استعمال کرے گا۔

امریکی فوج کے بارے میں انڈونیشیا کی حکومت اور آچے کی مقامی آبادی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انڈونیشی نائب صدر نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج کو جلد از جلد واپس بلا لے۔ اندازہ ہے کہ امریکی امداد کے علاوہ بلکہ یواین او کے فنڈ سے مزید رقوم ان فوجیوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہوجائیں گی۔

نیویارک ٹائمز نے جین پرلیز (Jane Perlez) کی رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا ہے کہ تین بحری جنگی جہاز سان ڈیگو سے ۲ ہزار امریکی میرین عراق منتقل کر رہے تھے مگر ان سب کو بھی انڈونیشیا بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ کالم نگار نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان جہازوں کو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجاے فوجیوں کو وہاں بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ بہرحال سیاسی فیصلے ہیں۔ ۲۰ ہزار کے قریب امریکی فوجی یہاں براجمان ہیں۔

زلزلے کی خبر ملتے ہی امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے مصیبت زدگان کی امداد کے لیے قوم سے اپیل کی۔ ہر بستی اور محلے میں کیمپ لگ گئے۔ لوگوں نے حسبِ توفیق الخدمت کے ان کیمپوں میں امدادی رقوم جمع کرانا شروع کر دیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور الخدمت کا ایک چھ رکنی وفد امداد لے کر انڈونیشیا روانہ ہوگیا۔الخدمت کے وفد نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ امریکی فوجی کسی کام میںکوئی حصہ نہیں لے رہے بلکہ آرام سے اپنے مقامات پر پڑے ہیں۔ عیسائی مشنری امداد کے بہانے آچے میں مسلمانوں کے یتیم بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کو عیسائی بنانے پر لگے ہوئے ہیں‘ جب کہ مسلمان رضاکار تنظیموں کو وہاں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ عیسائی تنظیمیں ہر جانب سرگرمِ عمل ہیں اور رقم اقوام متحدہ اور مسلمان ممالک کی استعمال کر رہی ہیں۔

اللہ نے اپنے انبیا کے ذریعے انسانوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ ان کی غفلت‘ بغاوت‘ نافرمانی اور ظلم و عدوان پر وہ ایک حد تک مہلت دیتا ہے مگر کبھی کبھار وہ رسی کھینچ بھی لیتا ہے۔ ظالموں کے لیے یہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے مگر اس میں بے گناہ بھی آجاتے ہیں‘ ان کے حق میں یہ ابتلا شمار ہوتی ہے اور اس ابتلا پر اللہ کے ہاں اجر ملتا ہے۔ اس قیامت صغریٰ کے بعد متاثرین کی طرف سے مختلف قسم کے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ کچھ لوگ مسلم اور غیرمسلم آبادیوں میں سے یکساں برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے انسانی ظلم و زیادتی پر تنبیہہ اور سرزنش ہے۔ کچھ لوگ اُلٹا خدا کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر غور کرے تو یہ تمام مصائب اس کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ تو بہت سے گناہوں پر اپنے عفوودرگزر کی وجہ سے پردہ ڈال دیتا ہے اور ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے: ’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے‘ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے‘ اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجزکر دینے والے نہیں ہو‘ اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و مددگار نہیں رکھتے‘‘۔ (الشوریٰ ۴۲:۳۰-۳۱)

متاثرہ علاقوں میں کئی معجزات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اللہ نے کئی لوگوں کو یوں بچا لیا ہے کہ ان کے بچ جانے کی کوئی توجیہہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ کسی غیرمرئی قوت نے انھیں محفوظ رکھا ہے۔ یہ غیرمرئی قوت مغرب و مشرق کے مادہ پرست انسانوں کے لیے اجنبی ہوسکتی ہے۔ مگر اس کائنات کے سمیع و بصیر خالق پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے اس میں کوئی اچنبھا نہیں بلکہ ایمان افروز نشانی ہے۔ کئی مساجد میلوں تک تباہ ہوجانے والے علاقوں میں اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ جوں کی توں کھڑی ہیں جو ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ مغربی میڈیا بالخصوص اے ایف پی اور رائٹر کے حوالے سے ایسی بہت سی خبریں اور فیچر سامنے آئے ہیں جن میں اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آچے (انڈونیشیا) کی ان عظیم الشان مساجد کے بارے میں اے ایف پی کے الفاظ ہیں:

Indonesia's indestructible mosques defy quake tidal waves.

یعنی انڈونیشیا کی مضبوط مساجد زلزلے کی منہ زور لہروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ ان علاقوں میں مساجد میں پناہ لینے کی وجہ سے محفوظ رہ گئے۔ جس سونامی تباہ کار ریلے نے بستیوں کی بستیاں نگل لیں اور عمارتوں کے نام و نشان تک مٹ گئے‘ اس کے سامنے ان مساجد کا اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا ایک ایمان افروز واقعہ اور ان کے معماروں کی مہارت و احتیاط کی دلیل ہے۔ کئی سال قبل مجھے ایک مرتبہ افریقہ کے ملک زامبیا میں ایک یونانی نومسلم ملا تھا۔ میں نے اس سے اس کے قبولِ اسلام کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ ترکی میں استنبول کی نیلی مسجد  (blue mosque) نے اسے مسلمان بنا دیا۔ اس مسجد کی خوب صورتی‘ شان اور مہارت دیکھ کر اس کے دل نے گواہی دی کہ اس عبادت خانے کی تعمیر کرنے والے اور اس میں عبادت کرنے والے جھوٹے لوگ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح کے واقعات آہستہ آہستہ ان علاقوں سے بھی موصول ہورہے ہیں۔

اللہ نے اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے اور اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ خود کو اپنی آزاد مرضی سے اللہ کے احکام کا تابع (مسخر) بنا دے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے عظیم الشان انعام ملے گا‘ بصورت دیگر اسے شدید عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ یہ انعام اور پکڑ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میںہوگی مگر اس زندگی میں اللہ انسانوں کو جھنجھوڑتا رہتا ہے تاکہ وہ اس کی  طرف پلٹ آئیں۔ اس کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ  کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے‘ شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔ (السجدہ۳۲:۲۱)

سونامی کے اس حادثۂ جاں کاہ پر جہاں اظہارِ غم کرنا انسانی اور بشری تقاضا ہے وہیں متاثرین کی امداد اور بحالیاتی انسانی اور دینی فرض ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا‘ انسانیت کو اس تناظر میں اصلاحِ احوال کی دعوت دینا اور بغاوت و سرکشی کی روش ترک کرنے کی سنجیدہ کوشش اور منصوبہ بندی بھی بہت ضروری ہے۔ ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے ناطے داعیانِ الی الخیر قرار دیے گئے ہیں۔ ہمارا فرض منصبی امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ آج کا دور ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کا دور ہے۔ اُمت کے تمام ذی شعور لوگوں کو انسانیت سے دردِ دل کے ساتھ اپیل کرنی چاہیے کہ وہ اپنا مقام پہچانیں‘ اپنے خالق و مالک کو پہچانیں اور خود کو مالکِ حقیقی کا خلیفہ ثابت کریں۔

تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے حکمرانوں اور اہلِ ثروت نے مادہ پرستی کی دوڑ اور عیش و عشرت کے ریکارڈ قائم کرنے میں ایک دوسرے کا خوب مقابلہ کیا ہے‘ تاہم عرب ممالک کے ان مال دار مسلمان حکمرانوں نے کسی نہ کسی انداز میں خود کو اسلام کا خادم ثابت کرنے کی بھی ضرور کوشش کی ہے۔ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر اور بحرین کے مختلف ادارے دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات‘ لٹریچر اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے خاصے خطیر بجٹ مختص کرتے ہیں۔ لیبیا بھی تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں بھی ملک کے مقتدر حاکم اعلیٰ کرنل معمر القذافی نے سرکاری سرپرستی میں انقلاب کے بعد ایک تنظیم  ۱۹۷۲ء میں قائم کی جس کا نام جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ ہے۔ انگریزی میں اسے World Islamic Call Society لکھا جاتا ہے جس کا مخفف وکس (wicks) ہے۔

رابطہ عالم اسلامی اور دارالافتا کے انداز میں اس تنظیم نے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے مبعوثین‘ معلمین اور دعاۃ مقرر کیے‘ مدارس قائم کیے اور لٹریچر پھیلانے کے علاوہ رفاہی کاموں کے ذریعے اپنے ملک کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم کے بانی تو خود قذافی صاحب ہیں مگر اس کے پہلے سیکرٹری جنرل اور روح رواں شیخ محمود صبحی صاحب تھے۔ شیخ محمود وضع قطع اور لباس سے بھی روایتی عالمِ دین نظر آتے تھے۔ اب اس طرح کا    ایک بھی شخص لیبیا میںنظر نہ آیا۔ آج کل اُس تنظیم کے سیکرٹری جنرل قذافی صاحب کے قریبی ساتھی‘ معتمد اور لیبیا کی ایک مؤثر و طاقت ور شخصیت الشیخ ڈاکٹر محمد احمد شریف ہیں۔ یہ تنظیم ہر چار سال بعد اپنی عالمی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ گذشتہ کئی چارسالہ کانفرنسیں دیگر ممالک میں منعقد ہوتی رہی ہیں کیونکہ لیبیا آنے جانے میں بھی مہمانوں کو مشکلات تھیں اور اشیاے ضروریہ کی فراہمی میں دقت کی وجہ سے یہاں ان کی مہمان نوازی بھی محال تھی۔ اس مرتبہ پابندیاں ہٹنے کے بعد یہ کانفرنس طرابلس میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چار روزہ کانفرنس کی تاریخیں ۲۵ تا ۲۹نومبر ۲۰۰۴ء طے ہوئیں۔ سابقہ کانفرنس جکارتہ میں منعقد ہوئی تھی۔

شیخ محمود صبحی صاحب کے دور میں کئی مرتبہ لیبیا کی کانفرنسوں میں شرکت کا دعوت نامہ ملتا رہا مگر میں بوجوہ معذرت ہی کرتا رہا۔ اس مرتبہ مجھے جماعت اسلامی کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت کی ہدایت کا حکم ملا تو سوچا کہ لیبیا کے بدلے ہوئے حالات کا کچھ مطالعہ کرنے کا بھی موقع مل جائے گا اور مختلف ممالک سے آنے والے پرانے دوستوں سے بھی ملاقات کی سبیل نکل آئے گی۔ خواہش کے پہلے حصے کا محدود ہی موقع مل سکا کیونکہ ایک تو وقت مختصر تھا اور وہ سارا کانفرنس کے طے شدہ اجلاسوں میں شرکت ہی کے لیے مختص تھا۔ دوسرے‘ ہمارا قیام طرابلس ہی میں تھا‘ کہیں اور جانے کا موقع اور وقت دستیاب نہ تھا۔ تیسرے‘ یہ معاشرہ اپنی بعض اسلامی اور بدوی خوبیوں کے باوجود خاصا جکڑا ہوا اور محدود ہے۔ اشتراکی خصوصیات اور یک جماعتی نظام کی جملہ ’’برکات‘‘ یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہر شخص دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سہما ہوا اور خوف زدہ معاشرہ کبھی کھلے اور بے تکلف ماحول سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً معلومات خاصی محدود اور چھنی چھنائی ہوتی ہیں۔ صحافت بہت ترقی یافتہ نہیں ہے۔ لیبیا کا سرکاری ٹی وی الجماھیریہ بھی بالکل محدود نوعیت کی معلومات اور کنٹرولڈ پروگراموں پر مشتمل نشریات و ابلاغیات فراہم کرتا ہے۔ قطر کا الجزیرہ چینل یہاں مقبول ہے اور آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کانفرنس میں دنیا کے تقریباً ۱۲۵ ممالک سے مندوبین مدعو تھے۔ مرد بھی تھے اور خواتین بھی اور کانفرنس بالکل مخلوط نوعیت کی تھی۔ ایسی اسلامی کانفرنس راقم نے زندگی میں    پہلی مرتبہ دیکھی۔ مردوں اور عورتوں کو کانفرنسوں میں شریک تو دیکھا تھا مگر حدود‘ نشستوں کا تعین ہمیشہ ملحوظ رہا۔ اس کانفرنس کا رنگ بالکل دوسرا تھا۔ اس پر تفصیلاً لکھنے کا یہ موقع نہیں۔ غیرملکی مندوبین کی تعداد ۳۵۰ سے زائد تھی۔ کئی ممالک سے ایک سے زائد تنظیموں کی نمایندگی تھی۔ تنظیموں کی تعداد ۲۰۰ سے زائد تھی۔ پاکستان سے مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ راجا ظفرالحق اور راقم کے علاوہ حکمران پارٹی کے حافظ طاہر اشرفی اور جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر شریک تھے‘ جب کہ اہم مہمانوں میں افغانستان کے دو سابق صدور صبغۃ اللہ مجددی اور پروفیسربرہان الدین ربانی‘ تنزانیہ کے سابق صدر علی حسن موینیی اور کئی ممالک کے سابق اور موجودہ وزرا کے نام نظر آئے۔ اتفاق سے افغانستان اور تنزانیہ کے سابق صدور سے پرانی ملاقات تھی۔ جناب علی حسن سے تجدید ملاقات بہت مفید رہی۔ انھوں نے کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اب انھوں نے عملی سیاست چھوڑ دی ہے اور خود کو دعوتِ اسلام کے لیے وقف کر دیا ہے۔

کانفرنس کا ایجنڈا پہلے سے طے شدہ تھا۔ تنظیم کی کارکردگی رپورٹ‘ عالمی جدوجہد اور سرگرمیوں کا جائزہ‘ سرمایہ کاری کے منصوبے اور ان کی رپورٹ‘ لیبیا میں قائم الکلیۃ الاسلامیہ اور دیگر بیرون ملک قائم ہزاروں تعلیمی و نشریاتی اداروں کا تعارف سامنے آیا۔ مختلف لیکچر بھی ہوئے مگر سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت تھا۔ کانفرنس کا افتتاح کرنل قذافی صاحب کی نیابت میں سیرالیون کے پہلے مسلمان صدر احمد تیجانی کعبہ نے کیا۔ قذافی صاحب ملک میں موجود تھے مگر وہ کانفرنس میں تشریف نہیں لائے۔ افتتاحی سیشن میں فلپائن کے نائب صدر‘ پوپ جان پال کے نمایندے‘ قبطی چرچ مصر کے آرچ بشپ کے نائب اور یونانی گرجا کے چیف کے نمایندے نے بھی شرکت کی اور خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا۔ مختلف اجلاس مختلف اہم عالمی شخصیات کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ ان میں کوئی ایشیائی ریجن سے نہیں تھا۔ کسی بھی صدر کا صدارتی خطاب پروگرام میں شامل نہ تھا۔ ہر صدر محض مقررین کے نام پکارنے اور انھیں وقت کی تحدید اور یاد دہانی کا فرض ادا کرتا رہا۔ آخری سیشن میں ۳۶ رکنی مجلس انتظامیہ کا انتخاب بصورت تقرر عمل میں آیا۔ پاکستان سے پہلے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ممبر تھے۔ اس مرتبہ راجا ظفرالحق کو شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد احمد شریف حسب سابق سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ پڑھا گیا اور اس تجویز کو بڑی پذیرائی ملی کہ ’’قائد انقلاب‘‘ کو ان کی خدماتِ جلیلہ پر مبارک باد کا تار بھیجا جائے۔ پاکستان کے معروف عالم دین اور تنظیم کے بانی رکن مولانا علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے لیے اسٹیج سے خصوصی طور پر دعاے مغفرت کرائی گئی۔ کانفرنس میں اسلام کو دین گوسفنداں کے طور پر پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا مگر سامعین جہاد کے حقیقی معنوں سے آشنا تھے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا رہا جودل چسپ اور ایمان افروز تھا۔

یہ توکانفرنس کے متعلق چند اشارات تھے۔ اب عمومی مطالعے اور تاثرات کے حوالے سے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

لیبیا شمال مغربی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ اس ملک کی تاریخ تابناک ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کی اہم اصلاحی و تجدیدی سنّوسی تحریک کا مولد و مرکز اور ہماری تاریخ جہاد کے عظیم بطلِ جلیل عمر المختار کا مسکن و موطن ہونے کا اعزاز اس ملک کو حاصل ہے۔ ملک کا رقبہ ۱۷لاکھ ۵۹ ہزار مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان سے تقریباً دگنا ہے‘جب کہ آبادی صرف ۵۶ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس آبادی کا بھی بیشتر حصہ دو بڑے شہروں دارالحکومت طرابلس (۲۴ لاکھ افراد) اور بن غازی (ساڑھے سات لاکھ) میں آباد ہے۔ باقی ماندہ آبادی چھوٹے چھوٹے قصبات اور نخلستانوں میں مقیم ہے۔

ملک میں یک جماعتی نظام رائج ہے۔ یکم ستمبر ۱۹۶۹ء سے لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کی حکومت ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی شخصیت اور ایک ہی نام زبانوں اور ذہنوں میں جاگزین ہے اور یہ قائد‘ فاتح الاخ معمرقذافی کاہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور انتظامیہ کے دیگر عہدے سبھی موجود ہیں مگر کوئی اجنبی چند ایام کے لیے یہاں مقیم رہنے کے باوجود ذرائع ابلاغ سے مشکل ہی سے کسی نام سے مانوس ہوسکتا ہے۔ الاخ القائد کے بعد اگر کوئی دوسرا نام سامنے آتا بھی ہے تو وہ خانوادئہ قذافی کا ’’ہونہار‘‘ نوخیز سپوت سیف الاسلام القذافی ہے۔

لیبیا کے انقلاب ستمبر‘ جسے مقبول اصطلاح میں انقلابِ فاتح کہا جاتاہے‘ کے وقت ملک کی آبادی ۲۰ لاکھ سے بھی کم تھی۔ اس وقت پٹرولیم کی دولت دریافت ہوئے ۱۱ سال بیت گئے تھے اور ملک میں خوش حالی کا دور شروع ہوگیا تھا‘ تاہم عام آدمی اور بالخصوص فوجی جوان و افسران عدمِ اطمینان کا شکار تھے۔ ۲۷ سالہ کرنل معمر قذافی نے ملک کے تاجدار شاہ ادریس سنوسی کا   تختہ الٹ کر ملک میں یکم ستمبر ۱۹۶۹ء کو فوجی راج قائم کر دیا۔ لیبیا بادشاہت سے آزاد ہو کر فوجی تسلط کے ’’مزے لوٹنے‘‘ لگا۔ قذافی صاحب نے آخر کار اسے جماھیریہ (جمہوریہ) لیبیا بنا دیا۔ اس کے نام کے ساتھ سوشلسٹ‘ اسلامی اور عرب وغیرہ کے سابقے لاحقے لگتے اور اترتے رہے مگر جماھیریہ کا جھومرمسلسل اس کے ماتھے پر درخشاں رہا۔

معمر قذافی صاحب نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ پیپلز کانگرس (پارلیمنٹ) وجود میں آئی۔ سیاسی جماعت قائم کی گئی۔ کمیونٹی مراکز بنے اور یک جماعتی نظام کے ذریعے نیچے سے اوپر تک نمایندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ جماھیریہ کی جمہوریت ہمارے دورِ ایوبی کی بنیادی جمہوریتوں‘ سابقہ کمیونسٹ روس کے نظامِ جماعت (پولٹ بیورو) اور انڈونیشیا کے فوجی دورکے نظامِ حکمرانی کا ملغوبہ ہے۔

پولٹ بیورو کے طرز پر حکمران جماعت ملک کا نظام چلا رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر کوئی جماعت بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ طرابلس کی سڑکوں پرسب سے زیادہ مقبول اور عام نظرآنے والا نعرہ چاکنگ یا بینرز اور ہینگرز کی صورت میں ’’فاتح ابداً‘‘ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک فقرے سیاسی فکر کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عام فقرہ طرابلس کی دیواروں پر آپ کو نظرآئے گا: من تحزّب فقد خان‘ یعنی جس کسی نے (یک) جماعتی نظام کے اندر گروہ بندی کی کوشش کی‘ گویا اس نے خیانت کا ارتکاب کیا۔

معمر قذافی ایک حکمران ہی نہیں ’’مفکر‘‘ بھی ہیں اور ’’مبلغ‘‘ و ’’داعی‘‘ بھی۔ انھوں نے اس صحرائی ملک کے عوام کو نئی سوچ اور جہت سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ عالمی راہنما بننے کا داعیہ اور عزم رکھتے تھے۔ سرخ کتاب کی طرز پر سبز کتاب (Green Book) مرتب کی۔ ان کے ایک قریبی مشیر کے بقول‘ عالم اسلام نے ان کو مایوس کیا۔ پھر انھوں نے عرب ممالک کو متحد و منظم کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور محنت کی مگر یہ تو مینڈکوں کی پنسیری تولنے جیسا ناممکن عمل   ثابت ہوا۔ آخرکار ان کی توجہ براعظم افریقہ پر مرتکز ہوئی۔ برطانیہ میں مقیم ان کے ایک مشیر نے جس کا اپنا پس منظر بھی افریقی ہے‘ ان کے اس نئے تصور کی بہت تحسین کی اور کہا کہ عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں اقدارِ مشترک کم اور تضادات زیادہ ہیں‘ جب کہ افریقہ میں (اس کے بقول) غربت‘ پس ماندگی‘ محرومی‘ بیماری اور جہالت مشترک ہیں۔ قذافی صاحب مبلغ بھی ہیں اور شارحِ دین بھی۔ وہ اپنے صحرائی خیمہ ہائوس میں خود ہی نماز کی امامت کراتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق غیر مسلموں کو اپنی دعوت سے مسلمان بھی بناتے ہیں۔ میڈیا یہ مناظر پوری باقاعدگی سے دکھاتا ہے۔ ہمیں بھی ایسا ایک منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ آٹھ مرد اور دو خواتین نے ان کے خیمے میں بیرونی مہمانوں کی موجودگی میں ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یہ سب افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدور تھے جو یہاں تلاشِ معاش کے لیے مقیم ہیں۔

کرنل قذافی کی قیادت میں لیبیا نے گذشتہ ۳۵ سالوں میں بڑے بڑے تجربات کیے ہیں۔ کئی ممالک سے اتحاد و وفاق کی کوششیں ہوئیں۔ وفاق و وصال ختم ہوا تو عناد و محاذ آرائی کا مرحلہ آیا۔ سب سے اہم معاملہ مغربی بلاک اور خصوصاً امریکا سے محاذ آرائی سے متعلق ہے۔ اس کاڈراپ سین بھی عجیب ہے۔ برطانیہ کی کامیاب سفارت کاری کے طفیل اور امریکا کے عراق میں جمہوریت و آزادی کی مہم جوئی کے بالواسطہ نتائج و ثمرات کے نتیجے میں قذافی صاحب نے ’’مدبرانہ‘‘ فیصلہ کیا کہ محاذآرائی اور تصادم کی پالیسی ترک کرکے مکالمہ و مذاکرہ اور افہام و تفہیم کی راہ نکالی جائے۔ ہتھیاروں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ہتھیار بنانے کا جنون چھوڑ کر پرامن بقاے باہمی بلکہ گاندھی جی کے نظریے کے مطابق اہنسا (عدمِ تشدد) ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اسے آزمانے میں کیا ہرج ہے۔

لیبیا پر اس کی سابقہ پالیسیوں کی وجہ سے کم و بیش ۱۳ برس تک امریکی دبائو کے تحت  اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مکمل معاشی مقاطعہ اور گوناگوں پابندیوں کا زمانہ خاصا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ تیل کی دولت کے باوجود معاشی حالات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ لیبیا کے دینار کی قیمت مایوس کن حد تک گر گئی۔ اشیاے ضروریہ حتیٰ کہ عام مشروبات تک کی دستیابی ناممکن ہوگئی‘ دوائوں کا حصول بھی ایک پریشان کن دردِسر کی صورت اختیار کرگیا۔ اہلِ لیبیا کے لیے سفر اوردنیا میں اِدھر اُدھر جانے آنے کے راستے مسدود ہوکررہ گئے۔ افراطِ زر اور کرپشن نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ صورت حال عالمی مقاطعہ ختم ہونے کے بعد ہنوز کسی حد تک قائم ہے۔ طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی احساس ہوتا ہے کہ کسی تیل پیدا کرنے والے مال دار ملک کی بجاے تیسری دنیا کے کسی مفلوک الحال علاقے میں آپہنچے ہیں۔ سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ ہے اور عام آدمی عسرت میں زندگی گزار رہا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کے علاوہ کئی اور کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ گزربسر کر سکیں۔

حکومت نے زرعی شعبے کو ترقی دینے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے مگر ملک بنیادی طور پر زرعی ماحول نہیں رکھتا۔ زمین زرخیزتو ہے مگر پانی دستیاب نہیں۔ بارشوں پر دارومدار ہے اور بارشوں کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔دارالحکومت کے گرد و نواح کے مضافاتی علاقوںمیں زیتون‘ انگور‘ مالٹے اور نارنجی کے چھوٹے چھوٹے باغات دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مرکز شہر سے ہوائی اڈے تک جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں جانب بھی باغات ہیں۔ شہر کے مرکزی حصے میں بلندوبالا عمارتیں‘ بنکوں کے دفاتر‘ سرکاری عمارتیں اور وزارتوں کے ہیڈ کوارٹر تیل کی دولت کا تاثر دیتے ہیں۔دارالحکومت کے بیشتر بڑے بڑے ہوٹل سمندر کے کنارے واقع ہیں۔ ہمارا قیام فندق باب البحرمیں تھا۔ اس کے جوار میں فندق باب المدینہ اور فندق باب الجدید واقع ہیں‘ جب کہ ذرا فاصلے پر فندق المہاری کی بلندوبالا اور نسبتاً جدید عمارت سیاحوں کا مرکز ہے۔

لیبیا کے عام لوگوں بالخصوص انقلاب کے بعد کی نسل کے نوجوانوں کی بڑی تعداد فوجی تربیت سے گزری ہے۔ کئی شعبوں میں پاکستان کی طرح فوجی جوان و افسران خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا رویہ عموماً سخت اور ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا ہوتا ہے۔ پرانی نسل کے لوگ مقابلتاً زیادہ مذہبی اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔

فقہی مسلک مالکی ہے مگر صوفیا کا معاشرے پر بڑا گہرا اثر ہے۔ تیجانی‘ شاذلی‘ قادریہ اور کسی حد تک دیگر سلسلہ ہاے تصوف سے وابستگان مساجد میں نمازوں کے بعد بلند آواز سے ذکر اللہ کرتے ہیں جو مسنون دعائوں اور کلامِ نبویؐ کے الفاظ و اوراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نہایت   خوش آیند بات ہے۔ مذہبی حلقوں میں جامعۃ الازہر کا بھی بڑا اثر ہے۔ مسجدوں کے ائمہ اور خطبا میں کوئی ایک بھی باریش نظر نہ آیا۔ یہ نئی تبدیلی ہے۔ شاہی دورِ حکومت میں ایسا نہ تھا۔ خود     شاہ ادریس کی بھی مکمل اور مسنون ڈاڑھی تھی۔ جمعیت اسلامی کے پہلے سیکرٹری جنرل جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا برعظیم کے مسلمان علما کی تصویر تھے مگر اب وہ سب کچھ قصۂ پارینہ ہے۔

ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد باصلاحیت نوجوانوں کو تحقیق کے عمل سے گزارنا اور علومِ اسلامیہ و عصریہ میں اسلام کی ترجمانی کے قابل بنانا تھا۔ اس کام کے بارے میں سوچ و بچار ہوتی رہی مگر عملاً اس کا آغاز نہ ہوسکا۔ آخرکار ایک مشاورت میں طے پایا کہ پہلا قدم اگرچہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھایا جاتا ہے مگر منزل تک پہنچنے کے لیے پہلا قدم ہی اولین ترجیح اور تقاضا ہوتا ہے۔ اس سوچ کے بعد پہلا قدم اٹھانے کا فیصلہ ہوگیا۔

ابتدائی مرحلے میں تین ماہ کا تصنیفی و تربیتی اقامتی پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اشتہار کے ذریعے ایم اے پاس یا اس کے برابر دینی تعلیم کے حامل نوجوانوں کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ۲۵ درخواستیں موصول ہوئیں۔ انٹرویو کے بعد آٹھ نوجوانوں کا انتخاب ہوا جنھوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔

۱۴ اپریل سے ۱۴ جولائی ۲۰۰۴ء تک تحقیقی و تصنیفی تربیتی پروگرام ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ لاہور میں منعقد کیا گیا۔ اس میں عربی‘ انگریزی‘ فارسی (ابتدائی) کی تعلیم دی گئی۔  درست اردو لکھنے کی مشق کرائی گئی۔ مختلف موضوعات پر مہمان مقررین نے ایک گھنٹے سے دوگھنٹے تک کے لیکچر دیے۔ سوال و جواب کی نشست بھی ہر خطاب کے بعد ہوئی۔ بیشتر خطابات ریکارڈ کیے گئے۔ درجن بھر منتخب کتب کا مطالعہ کرایا گیا۔ ان میں تنقیحات‘ تفہیمات (اول)‘ سنت کی آئینی حیثیت‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘ محسن انسانیتؐ‘ مشاہدات‘ رسائل و مسائل اور چند ادبی کتب شامل ہیں۔

شرکا لاہور کی کئی اہم لائبریریوں میں گئے اور مختلف تحریکی رہنمائوں کے ساتھ نشستیں بھی ہوئیں۔ ان میں امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ نائب امرا‘ قیم جماعت اور محترم میاں طفیل محمد خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ مختلف تقاریب کی رپورٹنگ کی مشق کرائی گئی‘ مختلف مسائل اور موضوعات پر مدیرانِ اخبارات کے نام خطوط اور مضامین لکھوائے گئے۔ ان میں سے کئی ایک اخبارات اور رسائل میں شائع بھی ہوگئے۔

آخری ہفتے میں طے شدہ موضوعات پر مقالے لکھنے کے لیے شرکا کو پورا وقت دیا گیا‘ تاہم ان کا قیام ادارے ہی میں رہا۔ الحمدللہ مقالے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تین ماہ کی مختصر مدت میں شرکا نے کافی منازل کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس سارے پروگرام میں ادارے کے تمام احباب و رفقا نے بھرپور حصہ لیا مگر اس کے روحِ رواں ڈائرکٹر ریسرچ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے۔ یہ پہلا قدم تھا لیکن اس سے دوسرے قدم اور پھر اگلا قدم اٹھانے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ آگے کے مراحل کے لیے مشاورت جاری ہے۔

جن موضوعات پر مقالہ جات لکھے گئے ان کا تعارف بھی مفید ہوگا۔ ذیل میں ہرمقالے کا عنوان مع مقالہ نگار کا نام درج کیا جاتا ہے:

دینی مدارس کا محدود کردار‘ اسباب‘ اثرات(عرفان عادل)‘ پاکستان میں عیسائیت کا فروغ (محمد ریاض)‘ پاکستان میں تحریک حقوق نسواں (محمد رمضان راشد)‘ نصاب تعلیم میں تبدیلیاں (حمیداللہ خٹک)‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں: اغراض و مقاصد اور اسلام دشمنی (شیخ افتخار احمد)‘ خانہ بدوش اور ان میں دعوتِ اسلامی (محمد رفیق)‘ منبرومحراب: انقلاب کا پیش خیمہ (حافظ محمد ہاشم)‘ انقلاب کی راہ (عبدالجبار بھٹی)۔

ان مقالہ جات کی تدوین کر کے اخبارات اور رسائل میں اشاعت کے لیے بھی ارسال کیا جائے گا۔

عالمِ اسلام پر امریکی یلغار نے ایک طوفان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یوں تو ہر مسلمان ہی مشکوک اور مشتبہ اور ہر مسلم ملک ’خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے مگر بعض خطے خصوصی توجہ کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ یمن بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی طرح یمنی حکومت امریکا کی حامی‘ اتحادی اور نام نہاد ’خاتمۂ دہشت گردی‘ منصوبے میں فعال کردار ادا کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر امریکی قیادت کو ابھی تک مکمل اطمینان اور یک سوئی نہیں ہے۔       وقتاً فوقتاًذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے یہودی اور امریکی انتظامیہ میں گھسے ہوئے ان کے شاگرد یہ شوشہ بھی چھوڑتے رہتے ہیں کہ عالمِ جدید کے خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ اسامہ بن لادن کا آبائی مسکن یمن ہی میں ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے کہ بن لادن خاندان سعودی عرب کے بہت سے دیگر طاقتور‘ مال دار اور بااثر خاندانوں کی طرح اصلاً حضرموت (یمن) سے تعلق رکھتا ہے مگر یمن کو نشانۂ انتقام بنانے کے لیے یہ دور کی کوڑی ہے۔

سعودی عرب کے جنوب میں واقع ۵ لاکھ ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ اور ایک کروڑ ۷۰لاکھ سے زاید آبادی پر مشتمل جمہوریہ یمن میں اس وقت مختلف علاقوں میں حکومتی فوج اور  مسلح سرکاری اہل کاروں کا مقابلہ سرکاری ذرائع کے مطابق ’القاعدہ‘ کے جنگجوئوں سے جاری ہے اور دونوں جانب کا بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اس شورش کا مرکز یمن کے صدر مقام صنعاء سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب صعدہ کے صوبے میں واقع ہے جو قبائلی مزاج‘ روایات اور پہاڑی جغرافیائی ماحول رکھتا ہے۔ مران کے پہاڑ امریکا مخالف عناصر کی پناہ گاہ ہیں اور ایک مذہبی رہنما حسن بدرالدین الحوثی ان کی قیادت کر رہا ہے۔ وہ زیدی شیعہ مسلک کا نمایندہ ہے اور حکومتی الزامات کے مطابق اس کا رابطہ ایک جانب لبنان کی شیعہ جہادی تنظیم حزب اللہ سے اور دوسری جانب اسامہ بن لادن سے ہے۔ یمن کی حکومت اس خانہ جنگی میں وسائل‘ مالی اور افرادی قوت ضائع کرنے کے ساتھ راے عامہ کی نفرت کا بھی شکار ہو رہی ہے‘ مگر امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ابھی   صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت القاعدہ کو موثرانداز میں کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

الحوثی کا تعلق حزب اللہ سے جوڑنے کا دعویٰ خود صدرِ یمن نے علما سے ملاقات کے دوران کیا تھا مگر حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے کھلے عام اس کی تردید کر دی ہے (بحوالہ انٹرپریس نیوز سروس‘ روزنامہ ڈان‘ ۹ جولائی ۲۰۰۴ئ)۔ جہاں تک القاعدہ سے ان کا ناطہ جوڑنے کا معاملہ ہے وہ بھی محل نظر ہے اور امریکی و برطانوی ایجنسیوں کی عراقی ہتھیاروں کے متعلق رپورٹوں کی طرح نہایت غلط معلومات پر مبنی نظرآتاہے۔ الحوثی اور القاعدہ کا نام جن لوگوں کو دیا گیا ہے‘ ان کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔  الحوثی کے پورے سیٹ اپ کا جو تعارف اسلام آن لائن پر دستیاب ہے وہ ان دعوئوں کا منہ چڑاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ الحوثی کی طرح یمن کے سنی علما بھی امریکیوں سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کرتے رہتے ہیں۔ ان کو القاعدہ اور اسامہ کے ساتھی شمار کر کے پکڑا بھی گیا ہے اور گوانتاناموبے کے علاوہ افغانستان‘ مصر اور خود امریکا میں بھی ان کی نظربندی کی خبریں اب ساری دنیا میں گونج رہی ہیں۔

۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد یمن پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پکڑدھکڑ فوراً شروع ہوگئی۔ ردعمل کے طور پر یمن میں امریکی مشنریوں کو یمنی عوام نے قتل کیا‘ امریکی بحری جہاز کول اور فرنچ ٹینکر لمبرگ پر حملے ہوئے۔ چنانچہ القاعدہ کے شبہے میں کئی لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ان میں سے ۱۵ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں میں مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ عدالت نے سماعت کی اجازت بھی دے دی ہے۔ (ڈان‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۴ء )

یمنی پارلیمنٹ میں اگرچہ صدر کی جماعت حکمران پیپلز کانگریس کو اکثریت حاصل ہے مگر اپوزیشن بھی خاصی مضبوط ہے اور اس کے نمایندگان حکومتی ارکان سے کہیں زیادہ بیدارمغز‘ محنتی اور تعلیم یافتہ ہیں۔ پھر حکومت کی امریکا نواز پالیسی نے اسلامی گروپ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے سیاسی منشور میں کئی امور میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔

قطر کے’اسلام آن لائن‘ نیٹ ڈاٹ‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق: ’’وزیر داخلہ رشاد العلیمی نے بیان دیا کہ حالیہ جھڑپوں میں صعدہ کے علاقے میں ۱۱۸ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ یہ جھڑپیں الحوثی کے مسلح دستوں کے مقابلے پر ۲۰ جون کو شروع ہوئی تھیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ ان جھڑپوں میں ۳۲ جوان اور افسران کام آئے ہیں‘ جب کہ ۸۶ انتہاپسند بھی مارے گئے ہیں‘‘۔

جب وزیرداخلہ یہ بیان دے رہے تھے اس وقت فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اطلاع دی کہ الحوثی کے حامیوں نے جھڑپوں کے دوران سات مزید حکومتی کارندمے قتل کر دیے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ وزیرداخلہ نے اپنے پارلیمانی بیان میں یہ بھی کہا کہ الحوثی کے تمام ساتھیوں کو ماہانہ ۲۰۰ ڈالر معاوضہ ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی خطرناک بیرونی قوت ان کی مالی امداد کر رہی ہے۔ وزیرموصوف اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پارلیمان میں پیش نہ کر سکے۔ حزب مخالف کے رکن پارلیمان سلطان الفنوانی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس نازک اور اہم مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی مقرر کردی ہے جو الحوثی سے مذاکرات کرے گی اور ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دے گی۔

حسن بدر الدین یمن میں تو کافی عرصے سے جانی پہچانی شخصیت تھی مگر اسے زیادہ عالمی شہرت حالیہ واقعات ہی سے ملی ہے۔ یہ سیاسی جماعت حزب الحق میں شامل تھا۔ اس کی عمر اس وقت ۴۵ سال ہے۔ حزب الحق کے ٹکٹ پر وہ ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۷ء تک رکن پارلیمان رہا۔ پھر اس نے سیاسی جماعت چھوڑ کر ’الشباب المومن‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کرلی۔ ان کا نعرہ ’’مرگ بر امریکا‘ مرگ بر اسرائیل‘ لعنت بر یہود‘ فتح اسلام‘‘ تھا۔ پہلے یہ تعلیمی اداروں میں منظم ہوئے۔ پھر صعدہ کے علاقے میں دینی مدارس اور جامعات قائم کیں۔ شروع میں انھیں نہ صرف بے ضرر تنظیم سمجھا گیا بلکہ حکومت نے ان کی تعلیمی ضروریات کے لیے ان سے تعاون بھی کیا‘ خود صدرِمملکت نے حال ہی میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

قدس پریس کے حوالے سے اسلام آن لائن نے بیان کیا ہے کہ اسلامی جماعت’ ’التجمع الیمنی للاصلاح‘‘ کے اثرات زائل کرنے اور شیخ عبدالمجید زندانی کے سیاسی رسوخ کو محدود کرنے کے لیے حکومت کچھ عرصے سے ایسی مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھی۔

عراق میں مقتدیٰ الصدر بھی اچانک جہادی منظر پرنمودار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھاگیا۔ وہ ابھی ۴۰سال سے بھی کم عمرکا نوجوان ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی الحوثی چھا گیا ہے۔ اس کی عمر ۴۵سال ہے۔ دونوں علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی وزیرداخلہ کے بیان مطابق الحوثی کو مہدی المنتظرمانا جاتا ہے اور اس کے پیروکار اس کی مکمل وفاداری و اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۱۹۹۴ء کی یمنی خانہ جنگی اور سیاسی بدامنی کے خاتمے کے لیے جن قوتوں نے حکومت کے ساتھ دیا تھا اور یمن کے اتحاد کے نعرے کو عوامی پذیرائی ملی تھی‘ وہ سب حکومت کی موجودہ پالیسی کے شدید مخالف ہیں۔ الاصلاح کے بانی رہنما اور یمن کی معروف یونی ورسٹی جامعہ الایمان کے روحانی پیشوا شیخ عبدالمجیدزندانی اگرچہ یمن کے اندر مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں مگر وہ سیاسی مظاہروں کے ذریعے امریکا کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی مدد سے عراقی عوام کی حمایت کے فریضے سے کبھی غافل نہیں رہے۔ وہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے صدرِ مملکت کا نسلی تعلق ہے اور تجزیہ نگاروں کی آرا اس بارے میں مختلف ہیںکہ دونوںمیں سے اس بہت بڑے قبیلے کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔ صنعاء اور دیگر شہروں میں الاصلاح کے پلیٹ فارم سے عوامی مظاہرے اور ملین مارچ کی کامیاب حکمت عملی اور قوت کا مظاہرہ الاصلاح کی قوت اور شیخ زندانی کی کرشمہ ساز شخصیت کا تعارف اور اعتراف ہے۔ شیخ زندانی نے عملاً جہادِ افغانستان میں حصہ لیا تھا اور اسامہ بن لادن کے قریب ترین ساتھی بلکہ اکانومسٹکے الفاظ میں روحانی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔

شیخ عبدالمجید زندانی بارہا پاکستان آچکے ہیں۔ ان کا سیاسی منشور بالکل واضح ہے۔ وہ زیرزمین سرگرمیوں یا مسلمان معاشرے میں مسلح جدوجہد کو درست قرار نہیں دیتے۔ یمن میں آبادی کی کل تعداد سے تین گنا بندوقوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور یمنی نظام نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اکانومسٹ کے نمایندے مقیم قاہرہ نے ۴ جنوری ۲۰۰۳ء کی اپنی ایک رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا: ’’دنیا کا سب سے زیادہ بدقسمت شخص وہ ہے جسے شیر پر سواری کرنی پڑے یا پھر اسے یمن کا حکمران بنا دیا جائے۔ یہ ضرب المثل اس وقت کی ہے جب یمن میں اس کے شہریوں کی تعداد سے بندوقوں کی تعداد زیادہ تھی…‘‘

اسلام آن لائن کے مطابق شیخ زندانی بڑے محتاط ہیں مگر حکمت کے ساتھ اپنا جرأت مندانہ موقف اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف احتجاج ہر روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں انتہا پسندی اور مسلح جدوجہد کی اصل وجوہات کو نہ حکومت یمن درخور اعتنا سمجھتی ہے‘ نہ ان کے امریکی سرپرست ہی اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا کی یہ سرشت ہے کہ جو اس کے سامنے بچھتا چلا جائے وہ اسے دباتا چلا جاتا ہے‘ جو ڈٹ جائے‘ اس سے گفت و شنید اور مذاکرات کرتا ہے۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کی صدرِ یمن سے حالیہ ملاقات اور امریکا کی طرف سے اس مطالبے کو کہ حکومت مزید آہنی شکنجہ استعمال کرے‘ علما اور قوم پرست لیڈروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک امریکی افسر کا لب و لہجہ ایک وائسرائے کا سا تھا‘ جب کہ صدرِمملکت سرتسلیم خم کیے چلے جارہے تھے۔ادھر یمن کے علما نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ حکومت ملک میں امن قائم کرنے کے بجاے اسے بدامنی کے حوالے کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ایک جانب پارلیمانی مصالحتی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور دوسری جانب حکومتی اہل کاروں نے حسن الحوثی کے نائب اور سابق رکن پارلیمان عبداللہ عیظہ الرزامی کو قتل کر دیا ہے۔ یہ صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی حکومت پاکستان نے ہمارے قبائلی علاقوں وانا اور جنوبی وزیرستان میں پیدا کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ڈرامے کا ڈائریکٹر ایک ہی ہے‘ ایکٹر مختلف ہیں۔

مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے (جنوری ۱۹۷۴ئ) میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ متحارب عرب ریاستوں میں سے مصر اپنی قوت اور تعداد کے لحاظ سے اہم ملک تھا۔ مصری قوم نے اس ذلت آمیز معاہدے کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مصر کو جتنا بھی سیکولر‘ جدید‘ لبرل اور مغرب زدہ بنانے کی حکومتی اور عالمی کاوشیں ہوئی ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب مصر کی اسلامی تحریک کے وسیع اثرات‘ منظم جدوجہد اور بحیثیت مجموعی‘ مصر کے عام مسلمان شہری کی اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت اپنے مطلوبہ مذموم نتائج حاصل نہیں کر سکیں۔ مصری اداروں میں اسرائیل کے سرکاری سطح کے اثر و رسوخ کو ایک مصری‘ خواہ تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہو یا نہ ہو‘ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

صدر محمد انوار السادات نے ناصری آمریت کے بعد اگرچہ ملک میں بنیادی حقوق بحال کر کے جمہوریت تو رائج نہیں کی تھی مگر سابقہ ادوار کے شدید جبروتشددکے مقابلے میں کچھ کمی ضرور آگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں اخوان المسلمون کی اعلیٰ قیادت اور کارکنان جو سیکڑوں کی تعداد میں گذشتہ ۱۹ سالوں سے جیلوں میں بدترین قسم کے مظالم کا شکار تھے‘ رہا کر دیے گئے۔ اس کے باوجود سادات کا یہودیوں کی ناجائز ریاست کو قانوناً تسلیم کرلینا ملک بھر میں اس کے بہت بڑے جرم کی نظر سے دیکھا گیا اور مظلوم و بے گھر فلسطینی عوام سے انسانی اور اسلامی ہمدردی کا یہی تقاضا بھی تھا۔ تاہم‘ اخوان کے نزدیک اس بدترین فیصلے کے باوجود حکومت کے خلاف کوئی غیرقانونی اقدام کرنے کا جواز نہ تھا۔ اخوان نے قانونی حدود کے اندر احتجاج کیا مگر ایک اور انتہا پسند گروپ ’جماعت التکفیر والھجرہ‘ کے نوجوانوں نے سادات کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کو ۶اکتوبر ۱۹۸۱ء کو ایک نوجوان خالد اسلامبولی نے عملی جامہ پہنایا۔ (اخوان کے موقف کے لیے دیکھیے مرشدِعام سید عمرتلمسانی کی یادداشتیں‘ یادوں کی امانت‘ باب پنجم)

اس موقع پر بھی اخوان کے خلاف بہت واویلا ہوا‘ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی مگر ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا‘ کیونکہ قاتل نے پوری ذمہ داری کے ساتھ قتل کا اعتراف کیا اور اس کا کوئی تعلق اخوان کے ساتھ نہ مل سکا تھا۔ اخوان نے قانونی حدود کے اندر ہمیشہ اس فیصلے کے خلاف صداے احتجاج بلند کی۔ یہودیوں کے فلسطین میں مظالم اور صہیونی منصوبوں میں پیش رفت کے خلاف بھی اخوان مسلسل زبان‘ قلم اور راے عامہ کے ذریعے نکیر کرتے رہے۔ پارلیمان میں بھی اخوان کے ارکان ہمیشہ بدعنوانی‘ حکومتی اہل کاروں کی نااہلی‘ انتظامیہ کے ظلم و ستم اور عوامی نوعیت کے دیگر مسائل‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ زراعت و تجارت کی بدحالی پر احتجاج کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اندر اسرائیلی حکومت کے مظالم کے خلاف توجہ دلائو نوٹس‘ تحاریکِ التوا‘ تحاریکِ استحقاق‘ قراردادوں اور تقاریر کے ذریعے مصری عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مصر کے معاملات میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ بلکہ مداخلت پر بھی اخوان کی پارلیمان میں کارکردگی بہت نمایاں رہی۔ واضح رہے کہ اخوان پر اگرچہ قانوناً پابندی ہے مگر ان کے قابلِ لحاظ افراد آزاد حیثیت میں یا بعض انتخابات میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچتے رہے ہیں۔

یہودی ریاست اور اس کے سرپرست امریکہ نے ہمیشہ اخوان کی ان ’گستاخیوں‘کو تشویش کی نظر سے دیکھا اور انھیں ’حدود کا پابند‘ بنانے کے احکامات مصری حکمرانوں کو وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہے۔ شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کی شہادتوں پر بھی اخوان نے پُرزور احتجاج کیا‘ اور رفاہ پر تباہ کن صہیونی حملوں کی بھی زوردار انداز میں مذمت کی۔ اخوان کے ارکان پارلیمان اور دیگر اہم اور فعال شخصیات کے خلاف صہیونی لابی کئی سالوں سے سرگرم عمل تھی۔ کافی عرصے سے فضا بن رہی تھی کہ اخوان پر ہاتھ ڈالا جائے۔

صدر حسنی مبارک نے واشنگٹن پوسٹ (۲۲ مارچ ۲۰۰۳ئ) کو اپنے انٹرویو میں گذشتہ سال کھل کر کہا تھا کہ ’’اگر مصر میں کھلی آزادیاں دے دی جائیں تو حالات خطرناک صورت اختیار کرلیں گے۔ کٹر مذہبی عناصر‘ بالخصوص اخوان اداروں پر چھا جائیں گے‘‘۔ یہی بات یہودی مسلسل کہے چلے جا رہے ہیں۔ گویا صدر حسنی مبارک نے خود مغرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا کہ آزادیوں اور جمہوری حقوق کا مطالبہ کرو گے تو ہمارے ساتھ تم بھی پچھتائو گے۔ صدر حسنی مبارک نے اس سال ۱۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو سکندریہ میں جدید اصلاحات کے موضوع پر ایک کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے زوردار الفاظ میں اس تصور کو رد کر دیا کہ شدت پسند مذہبی افکار کو پنپنے کا موقع دیا جائے (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۰۴‘ ۱۱ جون ۲۰۰۴ئ)۔ اپنے سابقہ دورئہ یورپ میں بھی وہ جگہ جگہ الجزائر کی مثال دے کر مکمل آزادیوں کے خطرات سے یورپ اور مغرب کو ڈراتے رہے ہیں۔ عرب اخبارات نے اٹلی کے اخبار لاریبوبلیکا کی ۵ مارچ ۲۰۰۴ء کی اشاعت کے حوالے سے ان کا جو انٹرویو شائع کیا ہے وہ خطرے کی کئی گھنٹیاں بجاتا سنائی دیتا ہے۔

اس دوران ناصری آمریت کے ابتدائی دور میں کیے جانے والے کئی اقدامات کی ریہرسل بھی دیکھنے میں آئی۔ اخوان اور دیگر باخبر حلقے سمجھ رہے تھے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اخوان کے ایک سابق رکن انجینیرابوالعلا ماضی کی قیادت میں ایک نئی ’معتدل، لبرل‘ سیاسی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے جس کا نام ’حزب الوسط‘ تجویز کیا گیا ہے۔ مصری پارلیمان کا موسمِ گرما کا اجلاس جاری تھا۔ اس میں ۷۵ ارکان نے حکومت سے سوال کیا کہ وہ اصلاح کے نام پر پکنے والی کھچڑی کے بارے میں ایوان اور قوم کو کچھ بتائے۔ بے چارے وزرا بتا تو کیا سکتے تھے‘ اس کے چند روز بعد ۱۵ مئی کو اخوان کے ۵۸ اہم رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

گرفتاری کے ساتھ ہی ان کے خاندانوں کو بھوکا مارنے اور ان کے کاروباری شراکت داروں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کی کمپنیاں‘ تجارتی ادارے‘ فارمیسیاں اور سرمایہ کاری کے تمام ذرائع پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ واضح رہے کہ یہ تمام ارکان اپنے اپنے پیشہ ورانہ شعبوں میں مہارت کی اعلیٰ مثال بھی ہیں اور کئی خاندانوں کو اپنے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور شراکت کی بنیاد پر سہارا دیے ہوئے تھے۔ اخوان کے لوگ اپنے کاروبار ہمیشہ کامیابی اور دیانت سے چلاتے رہے ہیں اور حکومت نے جب بھی ان پر ظلم کا کوڑا برسایا ہے‘ اس پہلو کو بھی خصوصی ہدف بنانا ضروری سمجھا گیا ہے۔ آج پھر مصری حکومت کی طرف سے یہ ظلم ایسے وقت میں ڈھایا گیا ہے جب اخوان صہیونی شیطانی حملوں کے مدمقابل نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کر رہے تھے بلکہ حکومتِ مصر کو بھی مضبوط موقف اپنانے پر اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔ انھوں نے عراق میں امریکی مظالم کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور تمام عرب و مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اسلامی فریضے کی ادایگی کے لیے متحدہ موقف اپنائیں۔

گرفتار شدگان کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا؟ مصری پارلیمنٹ کی دفاع‘ امن و امان اور عوامی حقوق کی مجلس قائمہ نے جب ان نظربندوں سے جیل میں ملاقات کی تو ان کے بقول ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ عراق کی ابوغریب جیل ہی کی طرح یہاں ان پاکیزہ صفت ابناے وطن کے ساتھ ان کی اپنی سرکاری مشینری نے ناقابلِ بیان مظالم ڈھائے تھے۔ ان ارکان پارلیمنٹ میں حکومتی جماعت اور دیگر پارٹیوں کے نمایندے شامل تھے۔ کمیٹی کے سربراہ انجینیرفتحی قزمان تھے‘ جب کہ ارکان میں بریگیڈیئر حازم حمادی‘ بریگیڈیئر بدر القاضی‘ ڈاکٹر ایمن نور‘ حمدین صباحی‘ طلعت سادات‘ ڈاکٹر محمد مرسٰی (اخوان کے پارلیمانی گروپ لیڈر) کے نام تھے۔ تمام ارکان نے قاہرہ کے جنوب میں واقع تاریخی اور بدنامِ زمانہ جیل خانے لیمان طرہ فارم کا ۹ جون ۲۰۰۴ء کی شام کو معائنہ کیا۔ یہ بدترین قسم کا عقوبت خانہ ہے۔ اخوان کی تاریخ جاننے والے اچھی طرح باخبر ہیں کہ ناصر کے دور میں بھی یہاں اخوان پر قیامت ڈھائی گئی تھی۔ اس کی دلدوز تفصیلات اخوان کے تیسرے مرشدعام عمر تلمسانیؒ کی یادداشتوں یادوں کی امانت اور چوتھے مرشدِعام سید محمد حامد ابوالنصرؒ کی خودنوشت تحریکی داستانِ حیات وادی نیل کا قافلہ سخت جان کے علاوہ ڈاکٹر محمود عبدالحلیم مرحوم (سابق شیخ ازھر) کی ضخیم کتاب تاریخ اخوان المسلمون کی دونوں جلدوں میں مختلف مقامات پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

اس ملاقات میں کمیٹی کے ارکان کے علاوہ اخوان کے دیگر ۱۴ ارکانِ پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ پارٹیوں کی تقسیم سے قطع نظر کمیٹی کے جملہ ارکان کی رائے میں تمام نظربندوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ‘ غیر انسانی‘ اذیت ناک اور توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ اکثر کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ سبھی کے جسم پر بدترین تعذیب کے نشانات پائے گئے۔ بعض ان صدمات اور بجلی کے جھٹکوں کی وجہ سے اپنے اعصاب اور حواس تک کھو چکے تھے۔ عرب اخبارات اور مختلف ویب سائٹس پر اس کی مکمل تفصیلات سامنے آئی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں۔(شرق الاوسط‘ لندن‘    ۱۵ جون ۲۰۰۴ئ۔  القدس العربی‘ ۱۷جون ۲۰۰۴ئ۔ الدعوۃ ویب سائٹ‘ www.aldaawah.org ‘۱۷ جون ۲۰۰۴ئ)

نظربندوں کو اذیت پہنچانے کے لیے مختلف اصطلاحات اور خفیہ الفاظ ایجاد کیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک تھا: ’استاکوزا‘۔ اس کا مطلب تھا کہ سر سے لے کر پائوں تک تمام جسم اور بالخصوص نازک اعضا کو بجلی کے جھٹکے دیے جائیں۔ ایک حکم ہوتا تھا: ’ابوغریب کا تجربہ دہرائو‘۔ اس کے نتیجے میں بجلی کے جھٹکوں والی سلاخیں جسم کے نازک حصوں میں داخل کی جاتی تھیں اور ایسے ایسے مذموم ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن کا بیان بھی یہاں ممکن نہیں۔ صبحی صالح ایڈووکیٹ (صدر اسکندریہ بار ایسوسی ایشن) جس نے انٹرنیشنل وکلا پینل کے ہمراہ ابوغریب جیل کا معائنہ کیا تھا‘ اپنے بیان میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ لیمان طرہ جیل کے مظالم نے ابوغریب جیل اور گوانٹاناموبے کے عقوبت خانوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ پھر اس نے اخوان کے ان نظربندوں پر مظالم کے دردناک واقعات بیان کیے۔ ان کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر چھت سے لٹکا دیا گیا جس کے نتیجے میں کئی نظربندوں کی کلائی کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں مگر ان کو کسی قسم کے علاج معالجے کی کوئی سہولت حاصل نہ تھی۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ وکلا‘ پروفیسر‘ علما‘ سابق امیدوارانِ پارلیمنٹ اور پی ایچ ڈی حضرات ہیں۔ (الدعوہ‘ حوالہ مذکورہ بالا)

ان سب مظالم سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ایک قیمتی انسانی جان کو اذیتیں پہنچا پہنچا کر شہید کردیا گیا۔ اس کا انگ انگ زخمی تھا اور ہر ہڈی پسلی توڑ دی گئی۔ یہ عظیم انسان ۴۶ سالہ انجینیراکرم زہیری شہیدؒ ہے جو جامِ شہادت نوش کر کے زندۂ جاوید ہوگیا‘ مگر یہ سوال اُمت کے سامنے چھوڑ گیا کہ یہ مظالم کب تک برداشت کیے جاتے رہیں گے!

اکرم زہیری شہیدؒ دیگر اخوان کے ساتھ ۱۵ مئی ۲۰۰۴ء کو گرفتار کیے گئے۔ وہ شوگر کے مریض تھے۔ انھیں اپنے ساتھ کوئی دوا رکھنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ تفتیش کے دوران تشدد کے نتیجے میں ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔ ان کے ساتھیوں نے جیل حکام کو بار بار اس جانب متوجہ کیا مگر بے سود۔ جب حالت زیادہ خراب ہوئی تو انھیں جیل کے ہسپتال میں لے گئے مگر وہاں علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہ تھی۔ جب انھیں وزارت داخلہ کے ہسپتال قاہرہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو ایسی ایمبولینس میں انھیں بھیجا گیا جو نہایت خستہ حال تھی۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں ۔ راستے میں خراب گاڑی اور غیرمحتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے وہ کئی بار گرے اور ان کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔

اخوان کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر محمد مرسیٰ کے بیان کے مطابق ۱۰ دن تک انجینیراکرم زہیری موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہے مگر ان کا نہ کوئی مناسب علاج کیا گیا نہ انھیں کسی معالج کی خدمات حاصل ہوسکیں۔ بدھ کے دن ۹ جون ۲۰۰۴ء کو فجر کے وقت اکرم زہیری شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر ان مصیبتوں سے نجات پاگئے۔ ان کا تعلق اسکندریہ سے تھا۔ وہ سول انجینیرتھے اور انجینیرکونسل کے شعبہ منصوبہ بندی کے صدر تھے۔ ۱۹۸۴ء میں وہ طلبہ کی انجینیرنگ کونسل کے صدر اور ۱۹۸۵ء میں اسکندریہ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ شہید نے اپنے پیچھے دو بیٹے‘ ایک بیٹی اور بیوہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ ان کے بچے ابھی اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ انجینیراکرم زہیری شہیدؒ کی کمپنی جو جبراً بند کردی گئی ہے‘ کا بہت اچھا کام تھا۔ یہ زمینوں اور مکانوں کی خرید وفروخت اور تعمیرات کی پرائیویٹ رجسٹرڈ کمپنی تھی۔

شہید کے خاندان اوراسکندریہ کے اخوان کی خواہش تھی کہ ان کا جنازہ جمعرات ۱۰ جون کو بعد نماز ظہر پڑھا جاتا۔ مگر امن و امان قائم رکھنے کے ٹھیکیدار حکمرانوں نے حکم صادر کیا کہ جنازہ رات ہی کو پڑھا جائے گا۔ چنانچہ شام کو جیل سے شہید کا جسدِخاکی ان کے گھر پہنچنے کے تین چار گھنٹے بعد رات کو ۱۰ بجے ان کا جنازہ اٹھا۔ جنازے کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں خوف و ہراس پیدا کر رہی تھیں۔ ۵ ہزار نمازی جنازے کے ساتھ چل رہے تھے۔ اخوان کی قیادت میں سے استاد جمعہ امین عبدالعزیز‘ ڈاکٹر محمود عزت‘ جناب مسعود السبحی‘ ڈاکٹر ابراہیم زعفرانی‘ استاد حسن محمد ابراہیم (رکن پارلیمان)‘ انجینیرصابر عبدالصادق (رکن پارلیمان) اس موقع پر موجود تھے۔ سب لوگوں کی زبان پر اللہ کی حمدوثنا‘ شہید کے درجات کی بلندی کے لیے دعا اور پسماندگان کے لیے صبرواجر کی مناجات تھی۔ اس موقع پر استاد جمعہ امین نے بہت رقت انگیزخطاب کیا۔ اخوان کو حسب سابق صبر کی تلقین کی‘ پسماندگان کے لیے دعائوں اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا اور کہا کہ جن لوگوں نے اکرم کو اذیتیں پہنچائی ہیں انھوں نے اپنے لیے ذلت و رسوائی اور عذاب کا سودا کیا ہے‘ مگر اللہ نے اکرم کو شہادت عظمیٰ کا تاج پہنا دیا ہے۔

گرفتار شدہ اخوان ابھی تک جیل میں ہیں۔ یہ نظربند اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ مصر بلکہ پورے عالمِ عرب میں اپنی قابلیت و صلاحیت کی وجہ سے معروف شخصیات کے مالک ہیں۔ شہید اکرم عبدالعزیز کے علاوہ اہم شخصیات میں محمد اسامہ‘ ڈاکٹر جمال نثار‘ مدحت الحداد‘ جمال ماضی‘ابراہیم زویل‘ حمزہ صبری حمزہ‘ محمدی السید (سابق امیداوار پارلیمان)‘ حمدی سلیمان ایڈوکیٹ‘ ڈاکٹر مصطفی الغنیمی‘ ڈاکٹر محمد رمضان‘ ڈاکٹر محمد المھدی اور ڈاکٹر عاشور الحلوانی جیسے نابغۂ روزگار فرزندانِ اسلام شامل ہیں۔ ان میں سے بعض نظربندوں بالخصوص محمد اسامہ کی حالت تشویش ناک ہے۔

اخوان کے مرشدعام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر اپنے فوری ردعمل میں شدید غم و الم اور غصے کا اظہار کیا اور مصری حکومت کے اس فیصلے کو صہیونی اور امریکی جارح قوتوں کو خوش کرنے کی مذموم حرکت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخوان کی تاریخ قربانیوں اور صبرواستقامت سے بھری پڑی ہے۔ ہم تمام حالات کا پامردی سے مقابلہ کریں گے۔ اکرم زہیری کی شہادت پر بھی انھوں نے اخوان کو صبروتحمل اور عزیمت کی تلقین فرمائی اور کہا کہ اکرم کو اللہ نے شہادت کی کرامت عطا فرما دی ہے۔

ایک برادر اسلامی ملک میں یہ کچھ ہو جائے اور کہیں سے کوئی احتجاج نہ ہو‘ یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے۔ غم تو اس بات کا کیا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان اور عراق میں خود آکر مظالم کی انتہا کر رہا ہے لیکن اُمت مسلمہ کی جانب سے اسے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آرہی ہے (بلکہ آگے بڑھ کر تعاون پیش کیا جا رہا ہے) لیکن مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں اپنے پٹھوئوں کے ذریعے جو کچھ کروا رہا ہے‘ کیا اسے بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے گا؟ موجودہ صلیبی جنگ کا تقاضا ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی خاموش رہنے اور بیٹھنے کے بجاے‘ میدان میں نکلے اور اپنا فرض ادا کرے۔ منظم گروہ‘ اتنا منظم احتجاج تو کرسکتے ہیں کہ ظالم کو اپنی گرفت ڈھیلی کرنا پڑے۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت کو اس طرف توجہ کرنا چاہیے۔