سراج الحق


 آپ معاشرے کے وہ منتخب، سنجیدہ اور فہمیدہ لوگ ہیں ، جو اپنے اپنے شعبۂ علم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دلی مبارک باد اور بھرپور تحسین کے مستحق ہیں کہ اسلام کے غلبے اور ملک و ملّت کی فلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ پھر یہ حقیقت بھی اپنے ذہن میں تازہ رکھتے ہیں کہ  علّامہ محمد اقبال جیسے عاشقِ قرآن اور عاشقِ رسولؐ نے اس مملکت کا تصور پیش کیا۔ قائداعظمؒ ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لائے، اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے قیامِ پاکستان کے بعد اسے ایک واضح نظریاتی اور آئینی سمت دی۔

ہم آج جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس میں دنیا کی فکری سمت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ دنیا کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی اور میڈیا کی یلغار نے معاشرے کی قدروں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ طریقۂ تعلیم اور معیارِ تعلیم کے زاویے بدل گئے ہیں۔ سرمایے کی گردش نے سوچ، فکر اور نظریات کو تبدیل کر دیا ہے۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے  خاص طور پر ہمارے معاشرے کو تتربتر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اچھی حکمرانی ایک خواب لگتا ہے۔ معاشرتی نظم و ضبط زوال پذیر ہے۔ دورِحاضر کے ان چیلنجوں سے آج کا پاکستان اور اسلامی تحریک بھی اسی شدت سے دوچار ہیں۔ ان سے نکلنے کے لیے ایک نقشۂ کار کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اہلِ علم آپس میں ملیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ ہوں۔ پھر درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے لیے باہم مشورہ کریں۔

علم، اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس لیے جو صاحب ِ علم ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ علم کی اس روشنی کو اللہ کی اطاعت اور بندوں کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔

اسی طرح علم کا تعلق دعوت سے بھی ہے۔ دعوت نام ہے اسلام کی طرف بلانے اور دلائل کے ساتھ اسے اللہ کے بندوں کے سامنے پیش کرنے کا، اور زندگی کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرنے کا۔ اسی طرح دعوت نام ہے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کا۔ اسلام کا علم جتنا زیادہ پھیلے گا، شہادتِ حق کا کام اسی قدر آسان ہوگا اور عوام الناس اسی رفتار سے اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے آئیں گے۔

سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کی سطح پرکوئی پیش رفت، علمی جدوجہد کے بغیر نہیں کی جاسکتی، اور سیاسی کامیابی بھی دراصل علمی محاذ پر کامیابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسلام کا غلبہ   علمی خدمت کے بغیر ممکن نہیں۔ اصحابِ علم و دانش کی قیادت، فکری رہنمائی اور علمی لحاظ سے برتری کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اِسی فرض اور ذمہ داری کا شعور اُجاگر کرنا موجودہ زمانے کا سب سے اہم چیلنج ہے۔

مستقبل میں تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک ِ اسلامی ایک علمی تحریک کے طور پر اپنی نظریاتی ساکھ کو ٹھوس بنیادوں پر مضبوط کرے، اپنے کارکنان اور اپنی قیادت کو    علمی لحاظ سے مضبوط بنائے اور حق کی دعوت کو علم و دلیل کی قوت سے پیش کرے۔

پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحریک اسلامی کی جدوجہد سے وابستگی رکھنے والے تحقیق کاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کی اشاعت کریں، باطل کے جھاڑ جھنکار کی صفائی کریں اور ایمان و یقین کی فضا کو چاروں طرف پھیلائیں۔ ان شاء اللہ، اس سے اسلام غالب ہوگا، معاشرے کی اصلاح ہوگی، سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت اور مملکت کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی۔

آج کی دُنیا پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر بے پناہ مادی ترقی اور روز مرہ سہولتوں کی دست یابی کے باوجود انسانیت سسک رہی ہے، پریشان ہے، خوف زدہ ہے اور مایوس بھی۔ ان تکلیف دہ مسائل کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا کا نظامِ کار اور تبدیلی کا عمل توحید کے بنیادی تصورات پر مبنی نہیں ہے۔توحید سے انکار درحقیقت آخرت کی جواب دہی سے انکار ہے۔ یہ کمزوری یا بیماری ہی دراصل انسانی دُکھوں کا مرکز ہے۔ ہمیں توحید ، توحید کے پیغام اور توحید کے تقاضوں کو اپنے ایمان، اپنے علم اور اپنے طرزِ زندگی کا محور بنانا ہے۔

مولانا مودودی  نے تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط  میں ایک جگہ فرمایا ہے: ’’دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہے اُن کو اعلیٰ درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادی وسائل کے ساتھ عقلی اور فکری طاقتیں اور علمی و فنی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کردینا اور کامیابی کے ساتھ چلا لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ سادہ لوح خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں اس سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے گہری بصیرت اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دانش مندی اور معاملہ فہمی درکار ہے‘‘۔

اس پس منظر میں تحقیق،تحریر، مکالمے اور دانش کی دنیا سے تعلق رکھنے والے قابلِ قدر افراد سے تحریک اور اُمت کی بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ انھیں رجحان ساز طبقے کی حیثیت سے رہنمائی کرنی ہے اور یہ کام کم از کم حسب ذیل نکات کی صورت میں ضرور کیا جانا چاہیے:

  •  علم، تحقیق اور فکر کی دنیا میں اسلامی رجحانات کا فروغ اور غیر اسلامی فکری تصورات کا دلیل سے مقابلہ۔
  •  تحریک اسلامی کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں علمی کام کے ذریعے قوت فراہم کرنا۔
  •  سیکولرزم ایک جارح نظریے کے طور پر ایمان، اخلاق، تہذیب بلکہ قومی سلامتی پر حملہ آور ہے۔ اس یلغار کا احساس اور شافی جواب ۔
  •  مختلف پالیسیوں پر اسلام کی منشا کے مطابق موقف پیش کرنا۔
  • تعلیم، نصاب، تعلیمی انتظامیات اور تدریس کے ماحول میں اسلام کے عادلانہ ، فکری اور رفاہی رجحانات کا فروغ۔
  • ملک میں عمومی سطح پر تحقیق کے ذوق کی آبیاری اور اپنے تحقیقی یا دل چسپی کے میدانوں میں اسلامی فکر کی بنیاد پر تحقیق و تجزیے کی ترویج۔
  •  اسلام کا دفاع اور شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے جدوجہد ۔
  • عربی، انگریزی میں کام کرنے کے ساتھ خود مقامی زبانوں میں بھی کام کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسلام کے عطا کردہ فہم کا تقاضا بھی ہے اور دعوت کا ذریعہ بھی۔ اسلامی افکار و علوم کے تحت اعلیٰ درجے کا فکری اور اطلاقی کام ۔
  • پاکستان کا نظامِ حکومت اور نظامِ ریاست آپ کی توجہ اور مطالعے کا موضوع رہنا چاہیے۔ آج ہماری معاشی پالیسی ہو یا ماحولیاتی پالیسی، یہ سب غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، اُن کا حل ڈھوندنے کے لیے بھی ہمیں مغرب، عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی بنک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ پالیسی سازی کے مباحث ملک کے پالیسی سازاداروں، حکومتی ایوانوں اور قومی تحقیقی اداروں میں موضوعِ بحث نہیں بنتے۔ یہاں تک کہ قانون سازی جیساحساس کام بھی پارلیمنٹ میں اپنی اصل روح کے ساتھ نہیں ہوپاتا۔

اس صورتِ حال میں ملک و ملّت کی آیندہ نسلوں کی ذمہ داری آپ کے سوا کون اُٹھا سکتا ہے کہ نوخیز نسل کے فکروعمل کو اسلام کی روح کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس ضرورت کو اپنی تعلیم وتربیت کی بنا پر آپ ہی پورا کرسکتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی علمی کاوشیں تحریک اسلامی کی جدوجہد کا جزولاینفک بنیں۔ جماعت کے مرکزی شعبۂ تحقیق و تجزیہ اور ادارہ معارفِ اسلامی کراچی اور لاہور سے آپ کا براہِ راست تعلق بنے، تاکہ آپ کا تحقیقی کام تحریک اسلامی اور اسلامی و خوش حال پاکستان کے لیے ممدومعاون ثابت ہو۔

سانحۂ پشاورایسا الم ناک اور اندوہناک سانحہ ہے جس سے پوری قوم سوگوار ہے۔اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کلیوں کو ایسے مسلا جا سکتا ہے، پھولوں کو ایسے روندا جاسکتا ہے۔ ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ۱۳۴بچوں سمیت ۱۴۴؍افراد شہیدکو کیا ،۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی حملے میں شہید ہوئیں۔ قطار میں کھڑے کیے گئے بچے زورزور سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا ورد کرتے اور اللہ کے واسطے دیتے رہے، آسمان کی طرف دیکھتے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ جوڑتے رہے لیکن انھیں معاف نہیں کیا گیا۔سب سے پہلی گولی اسلامیات کے استاد کو لگی۔ پھول جیسے بچے جن میں سے بعض قرآن کریم کے حافظ تھے۔ ان معصوم بچوں کے چہرے دیکھ کریوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ معصوم فرشتے ہیں جنھیں سفید کپڑوں میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی بچوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے بچے سامنے پڑے ہیں۔

قومی المیے کا تقاضا

حالیہ تاریخ میں بدامنی سے سب سے زیادہ نقصان پشاور شہر کو پہنچاہے۔ گذشتہ تین عشروں سے اس کے گلی کوچوں اور گلیوں بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔سابق سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تولاکھوں افغان مہاجرین نے ادھرکا رُخ کیا۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا بدلہ روسی ایجنٹوں نے پشاور سے لیا اور اس کے معصوم شہری انتقام کا نشانہ بنے۔ امریکا، ناٹو فوجوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تو اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان پشاور کو ہوا۔ یہاں کے شہریوں نے کئی بار انسانی چیتھڑوں کو دیواروں، درختوں اور شاخوں پر دیکھاہے۔ یہ کبھی پھولوں کا شہر تھا،لیکن گذ شتہ تین عشروں سے افغانستان میں استعماری قوتوں کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے اس کے چوک، چوراہے اور گلیاں اور بازار خون رنگ ہوگئے ہیں۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد کے آرپار گذشتہ تین عشروں میں اتنا بارود اور ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سینیر ڈاکٹروں کے ایک گروپ کاریسرچ کے بعد کہناہے کہ: ’’اس علاقے میں بعض ایسی بیماریاں اور علامات مریضوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہاں کی زمین اورپہاڑوں کے پتھروں، درختوں اورپانی کے چشموں نے جنگی ہتھیاروں کا اتنا زہریلا مواد جذب کیا ہے کہ آیندہ ۳۰۰سال تک اس کے اثرات رہیں گے‘‘۔ یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جو اب تک نظروں سے پوشیدہ ہے اور کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

آرمی پبلک اسکول جہاں یہ قیامت ٹوٹی،پشاور کے حساس ترین علاقے میں واقع ہے۔ وہاں سے چند گز کے فاصلے پر سرکاری دفاتر ہیں، گورنر ہاوس، وزیر اعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ ہے۔ وہاں بغیر کسی رکاوٹ کے دہشت گردوں کے پہنچ جانے اور بڑے پیمانے پر بے گناہ بچوں کے  قتلِ عام نے عوام الناس کے ذہنوں میں بے شمار سوالات پیدا کیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اوران کے بے شمار ادارے حادثات کے بعد توچند دنوں کے لیے متحرک ہوتے ہیں لیکن ایسے حادثات کا قبل از وقت اِدراک کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ سانحے کے اگلے دن وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلایا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مل کر پشاور کا دورہ کیا، ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سب ایک ہوجائیں۔ اگر اس موقعے پر بھی سیاسی قیادت ایک نہ ہوتی تو پھرکبھی آپس میں مل بیٹھنا ممکن نہ ہوتا۔

قصاص میں زندگی ھے!

سربراہی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے قیام امن اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ ہماری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملک میں استحکام اورقیام امن کے لیے عدل و انصاف کی حکمرانی ضروری ہے۔ قصاص اللہ کا حکم ہے مگر یورپی یونین کے دبائو کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اسے عملاً نافذ اور حدود اللہ پر عمل درآمد کیاجانا چاہیے، اوریہ مناسب موقع ہے کہ آئین کی جن اسلامی دفعات کوعملی طور پر معطل کیا گیا ہے، انھیں بحال کیا جائے۔ ہماری تجاویز کا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیرمقدم کیا۔ قانون نافذ کرنے میں کسی قسم کے بیرونی دبائو کو یکسر مسترد کر دینا چاہیے۔قصاص اللہ تعالی کا حکم ہے اورقرآن مجید میں اسے زندگی قرار دیا گیا ہے:

وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۹)عقل و خرد رکھنے والو!تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔

جب کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے اورجرم ثابت ہوجاتا ہے تو صدر پاکستان ، ریاست اورحکومت کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزا کو معاف کر دے یا اس پر عمل درآمد نہ کرے۔ قاتل کو معاف کرنے کا حق وارث کاہے ،ریاست یا اس کے سربراہ کا نہیں۔ حکومت صلح کی کوشش کرواسکتی ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں یورپ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے حدوداللہ کو معطل کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں جب حدود اللہ کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو یورپ سے متاثر بعض عناصراس پر واویلا کرتے ہیں کہ ملک کو اسلامی شریعت کے نفاذ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے تمام عناصر کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کی منزل اسلامی نظام ہی ہے۔ مسلمانان پاکستان کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی نظام قابلِ قبول نہیںہے۔ اسلامی نظام سے ہی ملک کو خوش حالی و ترقی نصیب ہوگی۔ اسلامی پاکستان بنے گا تو امن آئے گا،رزق میں کشادگی ہو گی اورقوم کے اندر وحدت پیدا ہوگی۔

دھشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع پالیسی

اس اجلاس میں ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر پورے اخلاص کے ساتھ ۲۰۱۵ء کو امن کا سال قرار دیتے ہوئے سیاسی قیادت اور قوم اس کے لیے یکسو ہو جائیں تو امن کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر وزیراعظم کو قیام امن کے لیے اعتماد اور مینڈیٹ دیا گیا۔اب یہ وزیراعظم اور حکومت کا امتحان ہے کہ وہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسا جائز راستہ اختیار کرے کہ اس کے نتیجے میں   امن یقینی ہوجائے۔ حکومت کا اولین کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی قوم ،اپنے بچوں اورمائوں بہنوں کو تحفظ دے۔ یہ ذمہ داری مرکزی حکومت کی بھی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کی بھی ۔ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم نہ کرپانا، کسی ایک حکومت یا ادارے کی نہیں ، سب کی اجتماعی ناکامی ہے ۔ پوری قوم کی نظریں اس وقت وفاقی حکومت پر ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اپنی کمزوریوں اور غلطیوںکا جائزہ لیں اور ان کے ازالے کی فوری کوشش کریں تاکہ آیندہ اس طرح کا کوئی روح فرسا واقعہ نہ ہو۔ ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ ہر سانحے اور حادثے کے بعد کچھ عرصے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اورادارے متحرک ہو جاتے ہیں لیکن پھرسانحے کو بھلا دیا جاتا ہے اور معمول کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ سانحات اور حادثات کے تدارک کے لیے جامع لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے اور قیام امن کے لیے امریکا اور یورپ کے بجاے اللہ تعالی اور اپنی قوم اور آئین و قانون کی طرف دیکھنا چاہیے۔

اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے بعد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے،اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی سے ایک ممبر لیا گیاہے۔ جماعت اسلامی کی نمایندگی قومی اسمبلی میں اس کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے جماعت اسلامی نے اپنی تجاویز کمیٹی میں پیش کی ہیں۔ہمارے خیال میں اس واقعے کی وجہ سے چند نمایشی اور وقتی اقدامات کے بجاے پورے سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کا مقابلہ یک رُخی حکمت عملی سے نہ ہوگا بلکہ اس کے لیے کثیرجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ قوت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے۔

حدود کا نفاذ حکومت کی ذمہ داری

مسلمانوں کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ ایک اور حدیث میں آنحضوؐرنے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کرنے کے لیے اُقتل پورا نہیں کہا، صرف اُق کہہ کر ارادہ کیا اورابھی بات مکمل نہیں کی تو وہ بھی قتل میں شریک ہے ۔نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تلوار یا تیر لے کر مسلمان کی طرف اشارہ نہ کرو، اس سے بھی اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی حدیث میں آپؐنے فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو ان باتوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔کسی انسان کا قتل آنحضوؐر کو اتنا ناپسند تھا کہ جب ایک جنگ کے دوران بھی صحابی نے کلمہ پڑھ لینے والے دشمن کو قتل کیاتو آپؐ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور صحابی کو بلا کر پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تواسے قتل کیوں کیا؟ صحابی نے جواب دیا کہ حضوؐر اس نے توخوف کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا تو نبی مہربانؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ حضور نبی کریمؐ نے جنگ کے بھی آداب سکھائے اور اس کے اصول متعین فرمائے کہ خواتین ، بچوںاور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ،پودوںاور فصلوں کو تباہ نہ کرنا، عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا، دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کرنا، کسی کی شکل کو نہ بگاڑنا۔

اصولی طور پر کسی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کا حق کسی فرد یا کسی جماعت اور گروہ کو نہیں ہے، یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح حدود جاری اور تعزیرات قائم کرنابھی ریاست اور حکومت کے ذمے ہے۔کوئی فرد یا گروہ کسی چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا۔ اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں معاشرے میں انتقامی جذبات پروان چڑھتے ہیں اور پورا معاشرہ فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ برائی دیکھ کر ہاتھ سے منع کرنے کا حکم بھی حکومت کے لیے ہے۔جو حکومت میں نہیں ہے اور جس کی ذمہ داری نہیں ہے اس کا کام دعوت دینا ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے منع کرنا ہے، اوراگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں نفرت اور ناگواری کا اظہار کرنا ہے۔ ایک انسانی معاشرے میں ریاست کا کام ریاست کو کرنا ہے اوربحیثیت فرد ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ اگر کسی تنظیم اور گروہ نے من مانی کرتے ہوئے ازخود اپنے آپ کو قاضی کے منصب پر فائز کر لیا اوراپنی عدالتیں لگا کر سزائیں دینا شروع کر دیں، تو اس سے معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا اورہر چوک اور چوراہے اور ہر گلی اور بازارمیں خون خرابہ ہوگا اور پورا ملک دار الفساد بن جائے گا۔

استعماری سازشیں اور ھدف

جنگ عظیم اول کے بعد عالمِ اسلام کو استعماری طاقتوں نے تقسیم در تقسیم کیا ،اور برطانیہ ، فرانس، اٹلی اوردیگر ممالک نے مسلم ممالک پر قبضے کیے۔ فرانس اور برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی اور خطے کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے۔ اس تقسیم کا مقصد آزاد مسلم ممالک کے درمیان خانہ جنگی کروانا اور ان کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔  خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں پہنچائے گئے۔ جب مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر خطے میں ایسے لوگ اٹھے جنھوں نے ان استعماری طاقتوںکے خلاف طویل جدوجہد کرکے آزادی کی شمعوں کو روشن اور خوابیدہ مسلمانوں کو بیدارکیا۔پاکستان سے لیبیا تک آزاد ممالک وجود میں آگئے۔ اقوام متحدہ کے نقشے پر جگہ جگہ مسلم ریاستیں نمودار ہوئیں اور انھوں نے وحدت و ترقی کا سفر شروع کیا۔ ان ریاستوں میں قدرت کے عنایت کردہ پوشیدہ ذخائر تھے۔ تیل کے سمندر اور سونے وہیرے جواہرات کے ذخائر دریافت ہوئے۔

ترقی و خوش حالی کی طرف مسلمانوں کا گلوبل مارچ شروع ہوا تو سامراجی قوتوں نے پہلا وار پاکستان پر کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ عراق، جہاں کی فوج اور کرنسی دونوں مضبوط تھیں، اسے پہلے ایران اور پھر کویت سے لڑا یااورپھر اس پر براہ راست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اورکارپٹ بمباری کے ذریعے وہاں کی فوج کو منتشر اور وحدت کو پارہ پارہ کیا۔عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دی اور شیعہ سُنّی فسادات شروع کروا کر ملک کو تقسیم کر دیا۔ افغانستان نے روسیوں کے خلاف طویل جہاد میں ۱۵لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی، مگر ابھی شہدا کا خون خشک نہیں ہوا تھا اورافغان قوم نے آزادی کی بہار نہیں دیکھی تھی کہ اس پر بھی ۵۲-بی بم بار طیاروں سے بمباری ہوئی اور ۴۶ممالک کی فوجوں نے امریکی قیادت میں افغانستان کو قبرستان بنادیا۔ لیبیا میں براہ راست کارروائی کرکے وہاں نظام کو درہم برہم کیا گیااور اس وقت وہاں پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ ہر طرف یہی استعماری قوتیں مدد دے رہی ہیں اوران کی سازشوں سے اس وقت تقریباً اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں۔

عالمی استعماری قوتیں ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کر تی رہی ہیں اور ہر جگہ بادشاہوں اور فوجی آمریت کو سپورٹ کیاہے۔ آمرانہ حکمرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مفیدمطلب حکومتوں کو بروے کار لایاگیا ہے۔ جہاں بھی عوام حق راے دہی کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہاں اسے سازشوں کے ذریعے سبوتاژکر دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں جیت گیامگر اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کی منزل اسلام تھی۔فوج کے ذریعے وہاں جمہوریت کا گلا دباکر ۸۰ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور تبصرہ کیا گیا کہ دو سَروں والا سانپ ہے جس کے ایک سر پر ووٹ ہے اور دوسرے پر گولی۔مصرکو طویل عرصے کے بعد جمہوری حکمران ملا تو اس کے خلاف سازش کی گئی اورفوج کو استعمال کرکے ہزاروں کارکنان کو شہید کرنے کے بعد صدر محمدمرسی کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔پاکستان میں بھی امریکا اور یورپ نے ہمیشہ فوجی آمریت کی حمایت کی۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو ترجیح اور جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹروں کوزیادہ امداد دی۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ فوائد نہیں لیے جاسکتے جو ڈکٹیٹر سے لیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری حکومت، عوام اور اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، جب کہ ڈکٹیٹرکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور وہ مغرب کا محتاج ہوتا ہے۔

امریکا اور اس کے مغربی حواری چاہتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں جنگ ہواور مسلمان آگے بڑھ کر تعلیم وترقی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجاے آپس میں دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے سے لڑکر تباہ ہوتے رہیں۔ اس وقت جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے تو یہ ان کی باقاعدہ طویل منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ امریکا اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں۔ جنگ ہوتو ان کی اسلحہ انڈسٹری ترقی پاتی اور زرمبادلہ کماتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کتاب اور دلیل کی قوت ہے اور مغرب کی جنگی مشینری کا مقابلہ اسی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکا و یورپ کی سازش کا شکار ہونے کے بجاے نئی نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے اور لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو آبادکیا جائے۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ان کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ مغرب کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان کے پاس عدل و انصاف پرمبنی اسلامی نظام ہے۔

راہِ نجات

انسان کی جسمانی و روحانی اور معاشرتی و معاشی اور تہذیبی ضرورتوں کوصرف اسلام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کا پسندیدہ نظام اور عدل و انصاف کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

اِعْدِلُوْا قف ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (المائدہ۵:۸) عدل کرو،    یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت ہے اس پر اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے۔

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاوُہ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۳)رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

بڑے عذاب جہنم کا اعلان اور غضب و لعنت اس لیے ہے کہ اللہ رب العالمین بحیثیت خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور جو مخلوق کو نقصان پہنچاتا ہے ، اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ جس نے ایک نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا تو یہ ایسے ہی جیسے اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا ہو، اور جس نے ایک انسان کو بچایا تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا :

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط  وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

قرآن کریم میںبارہا جہنم کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ اس حدیث ِمبارکہ کے مفہوم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جہنم میں آگ کے بہت بڑے بڑے گڑھے ہیں اور ہر گڑھا بذات خود ایک عذاب ہے لیکن ہر گڑھا اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے کہ میرے پڑوس میں آگ سے بچا۔ جہنم ایسی جگہ ہے جہاں آگ دوسری آگ سے پناہ مانگتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو کائنات میں اپنا خلیفہ بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اسے کائنات اور اپنے پورے نظام میں وی آئی پی کا درجہ دیا ہے ، توجو بھی اس کو ذلیل اور رُسوا کرتا ہے، اس پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کرتا اور انھیں اپنا بندہ اور غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے،   اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا۔

عزمِ نَو کی ضرورت

ملت اسلامیہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص اس وقت بہت بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہے۔ قتل و غارت گری کا ایک بازار ہے جو اسلام کے نام پر سجایا گیا ہے ۔ جو ذبح ہو رہا ہے وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کا ورد کر رہا ہے اور جس نے اس کے گلے پر چھری رکھی ہے وہ بھی لا الٰہ الا اللّٰہ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کتنا مظلوم ہو گیا ہے اور دینِ رحمت کو کیسے یرغمال بنا لیا گیا ہے؟ سارے عالم کے لیے سراپارحمت وشفقت نبی کی امت کا آج یہ حال ہو گیا ہے۔ اس چہرے کے ساتھ دنیا کو اسلام کی دعوت کیسے دی جائے گی؟جب بھی پشاور جیسا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایک مخصوص لابی اسے اسلام اور مذہب کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ مذہب اس سارے معاملے میں بذاتِ خود مظلوم ہے ۔ دین تو نام ہی انسان کے عقیدے اور جان و مال کی حفاظت کا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے۔

سانحۂ پشاور کے بعد ہم نے قوم سے اپیل کی کہ اپنے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں کہ مسلمان پر جب بھی سخت وقت آتا ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دعا و التجا کے ذریعے اس سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چھت نہیں کہ جہاں پناہ لی جائے۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ خوشی کے لمحے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اورتکلیف کے لمحے میں صبراور دعا کرتا ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ ان بچوں کی شہادتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ وطن عزیزکو امن کا تحفہ اورسکون کی نعمت عطا فرمائے ۔

بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم ہمیں ایک طویل جدوجہد درپیش ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر ہمیں آبادی کے ۵۰ فی صد سے زائدنوجوان نسل کو اسلام کا حقیقی پیغام دینا ہے اور اسے منظم کرنا ہے۔ شرح تعلیم میں اضافہ کرنا ہے اور سکول اور کالجوں کے علاوہ مساجد کو بھی عبادت کے ساتھ تعلیم کا مرکز بنانا ہے۔ رنگ ، نسل، علاقے، زبان اور مسلک کی بنیاد پر اختلافات ختم کرکے اپنی قوم کو ایک امت بنانا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے دل پر دستک دی جائے اور اسے ذہن نشین کرایا جائے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے۔ اس نظام سے بے وفائی کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک خطرات سے دوچار ہے۔

ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے اور تحریک پاکستان کا وعدہ ایفا کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ ہماری منزل ایک خوش حال    اور ترقی یافتہ پاکستان ہے، اور یہ اسلامی پاکستان ہی سے ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک  کے مؤثر ادارے اور مراعات یافتہ طبقے موجودہ صورتِ حال اور اسٹیٹس کو کے ساتھ ہیں اور سیاست و جمہوریت اور ریاست و حکومت کو انھوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ بنک غریبوں کا استحصال کرکے اسی اسٹیٹس کو ،کو آکسیجن مہیا کرتا ہے،اور نام نہاد آزاد میڈیا اسی کو مسلط رکھنے میں پیش پیش ہے مگرہمیں اپنے رحمان و رحیم رب کے اس وعدے پر کامل یقین ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ۔

اس فانی دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔نبی کریم نیکی کا بہترین نمونہ تھے۔ اس لیے ہمیں ان کے اُمتی ہونے کے حیثیت سے ہر لمحے نہ صرف خود نیکی اختیار کرنی ہے بلکہ نیکی کا حکم بھی دینا ہے۔ برائی سے    خود بھی رُکنا ہے اور دوسروں کوبھی روکنا ہے۔ جس کلمہ توحید کی بنیاد پر یہ ملک بنا تھا__ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہَ مُحَمَدٌ رَّسُوْلُ اللّہ اس کا مقصد بھی نیکی عام کرنا اور بدی کی روک تھام کرناہے۔  ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرفخر ہے۔ آئیے ہم مل کر ان پر دل کی گہرائیوں سے درود و سلام پیش کریں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت ِوسط، یعنی اعتدال والی امت کا درجہ دیا ہے۔ ایک ایسی امت جو انصاف پسند ہو ، جو حق کی نصیحت کرنی والی ہو اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط قوت ہو۔ ظلم کو روکنا اور ظلم کو ہونے سے بچانا دونوں اس امت کے فرائض میں شامل ہیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ  الْمُنْکَرِ تُؤْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔ہمارا گھر اسلام کامرکز اور جنت کا نمونہ ہونا چاہیے۔ جہاں والدین کواحترام ملے۔ بڑوں کو عزت ملے۔ بچوں کو شفقت ملے اور جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بنیں۔ ایک گھر ہمار ا یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔۔ہمیں اس کی عافیت اور بہتری بھی مطلوب ہے۔ ہمیں اس گھر میں بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نافذ کرنا ہے۔

ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس اجتماع عام کا انعقاد کیا۔ ہم نے تجدید عہد کرنے کے لیے اپنے بھائیو، بہنو ،جوانوںاوربزرگو ں کویہاں مشورے کے لیے بلایا۔ میں نے آج تک وہ جذبہ نہیں دیکھا جو آج میں دیکھ رہاہوں۔تاکہ اس ملک میں انصاف کے قیام اورحق کی گواہی قائم ہوجائے۔ اجتماع عام کاانعقاد ایک غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ ہمارے پاس نہ وسائل تھے اور نہ خفیہ قوتوں کی آشیر باد۔ہم نے صرف اللہ کے نام پر سب کو یہاں اکٹھا کیا۔ تحریک پاکستان کے نام پر سب کو اکٹھا کیا۔

اس اجتماع کے انعقاد کے لیے کارکنان جماعت اسلامی، مرد و خواتین سب نے دن رات  اَن تھک محنت کی۔یہاں ہم سب اللہ کی رضا کے لیے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آپ یہاں سے محبت ، اخوت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔

 قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ تحریک پاکستان اُس وقت شروع ہو گئی تھی جب ہندستان میں پہلا مسلمان داخل ہواتھا۔ تحریک پاکستان برسو ں جا ری تھی مگر قراردادِ پاکستان۱۹۴۰ء میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں مملکت پاکستان کا واضح نقشہ رکھ دیا گیا اور مرکز اور محور قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔ مغرب زدہ لوگ آج بھی قائد اعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے حالانکہ قائد اعظم، پاکستان کو اسلام اور جمہوریت کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر ؐاسلام نے ہمار ے لیے بنایا ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی فرمایاتھا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے جائیںگے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گاکیونکہ ہم ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک امت کے پیروکار ہیں‘‘۔

مؤرخ پاکستان ڈاکٹر صفدر محمود نے …… آج میں یہ بات بڑے واضح طو ر پر کہنا چاہتا ہوںکہ تحریک پاکستان میںاس وقت تیزی آئی تھی جب ۱۹۴۵ء میں یہ نعرہ لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا  لا اللہ الا اللہ۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ دو سال کی قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آگیا۔ یہ تھی طاقت لا اللہ الا اللہ کی۔ اور آج سب لوگ جان لیں لیںکہ اس ملک کا مستقبل ان الحکم الااللہ ہے یہاں کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ قائد اعظم کی اس مسجد میں کوئی دوسرا اِزم نافذ کر سکتا ہے۔

قائد اعظم ؒ نے تو پاکستان اسلام اور جمہوریت کے لیے بنایا مگر یہاں نہ اسلام کو نافذ ہونے دیا گیا اور نہ جمہوریت کو۔ قائداعظم کی وفات کے بعد اس ملک پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، سول اور ملٹری ڈکٹیٹروں نے بار بار شب خون مارا۔اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں۔شہری آزادیاں سلب کیں اور قومی خزانے کو لوٹنا شروع کیا۔ ۱۹۵۴ئمیں غلام محمد نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۶ئمیں پہلا آئین بنا لیکن اس کو چلنے نہیں دیا گیا اور ایوب خانی مارشل لا آگیا۔ ۱۹۶۲ء میں دوسرا آئین بنا اور یحییٰ خان کا مارشل لا آگیا۔ اس عرصے میں اس ملک میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے اور سیاسی جماعتوں کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اخبارات پر پابندی لگائی گئی۔ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ئمیں جب پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج کو اسٹیبلشمنٹ اور مفاد پرست جاگیرداروں نے قبول نہیں کیا۔ عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا۔ اقتدار اکثریتی جماعت کو سپر د نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا۔

۱۹۷۳میں تیسرا آئین بنا۔ یہ وہ متفقہ آئین تھا جس میں چاروں صوبوں اور ملک کی تمام جماعتوں نے دستخط کیے۔ اس میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیاگیا۔اس دستور میں قرار داد مقاصد شامل ہے۔ اس آئین میں وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس آئین کے مطابق کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ، اس آئین کے مطابق قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ، عربی زبان کو سکھانااور اس آئین کے مطابق اسلام کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس آئین کے مطابق کوئی طالع آزماجمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا، میرٹ کو ختم نہیں کر سکتا ،بنیاد ی حقوق کوختم نہیں کرسکتا ، شہری آزادیوں کو ختم نہیں کر سکتا ،اظہار راے کو ختم نہیں کر سکتا عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کر سکتا ، ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتا اور آزادیِ اظہار کو بھی ختم نہیں کرسکتا۔ اس آئین میں صوبوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وسائل کی تقسیم کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو فیصلوں کا اختیار دیا گیاہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیاہے۔ شفاف انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کی گارنٹی دی گئی ہے مگر کیا یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔۱۹۹۹ئمیںپرویز مشرف نے ایک مرتبہ آئین کو توڑنے کا گناہ کیا۔ اور پھر دوسری مرتبہ ۲۰۰۷ئمیںبندوق کے زو ر پر آئین کو پامال کیا اور ملک کی عزت کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے سپرد کیا۔اپنی بہنو ںاور بھائیوںکوڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔آج بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور کئی پاکستانی امریکا کے جیلوں میں پرویز مشرف کی وجہ سے پڑے ہوئے ہیں۔سیکڑوں پاکستانی لاپتا ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے اندر آپریشن کے ذریعے بلوچوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پہاڑوں پر چڑھ کر گوریلاجنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہندستان کے ساتھ ساز باز کر کے مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالا اور لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے بے وفائی کی۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھائی۔ جو قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ پر قابض ہے اور وہ ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ، بے حیائی کا سیلاب بہایا گیا اور ملک کے تعلیمی نصاب کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب  وہ اپنے اقتدار سے ہٹا تو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔   وی آئی پی بنایا گیا۔ یہ دنیا کا واحدملک ہے کہ جہاں ملک توڑنے والوںکو ، آئین توڑنے والوں کو ، اپنی بہنوںکو بیچنے والوں کو اور اپنی فضائیں دشمنوں کو دینے والوں کو وی آئی پی بنا کر رکھا جاتاہے اور جب وہ مرتے ہیں تو پاکستان کے جھنڈے میں ان کو دفنایا جاتا ہے۔

آئین کی بار بار پامالی سے یہ ملک بھی ٹوٹا ، اس کے ادارے بھی تباہ ہوئے۔ یہ آئین کئی مرتبہ  بے توقیر ہوا۔ اس ملک میں نہ اسلام کو آنے دیا گیا ، نہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے دی گئی۔ جس کے پاس دولت تھی یا بندوق، اُس نے اس ملک کے عوام کا ستیاناس کر دیا۔ اس ملک کی بنیادیں ہلادیں۔ اس ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ اسلامی حقوق، معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق سے محروم کیا۔ تعلیم سے محروم کیا۔ صحت سے محروم کیا۔ اچھے ماحول سے محروم کیا۔ خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ ہسپتال اور سکولوں میں طبقاتی نظام لایا گیا۔ مزدوروں کو حق نہیں دیا گیا ، بچوں سے مشقت کروائی گئی۔ ان کو اپنا غلام سمجھا گیا۔ اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے آمروں اور مفاد پرستوں کے ساتھ مل کرپاکستان کی بیوروکریسی کو تباہ کیا، پولیس کو تباہ کیا ،ٹیکسوں کے نظام کو تباہ کیا ، کرپشن کو عام کیا ، اقرباء پروری کو عام کیا ، طبقاتی نظام کو دوام بخشااور سارے اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ آج ملک کا کوئی بھی ادارہ چوروں اور لٹیروں سے ، ظالموں اور استحصالیوں سے خالی نہیں۔ ہر طرف وی آئی پی کلچر کا راج ہے۔ تھانوں میں ، عدالتوں میں ، ہسپتالوں میں ، سکولوں میں ، دفتروں میں۔ دوسری طرف اس ملک کو اس مٹھی بھر اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کیا۔ مذہبی منافرت پھیلائی ، مسلکی جھگڑے پیدا کیے ، فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی اور سیاسی انتشار پیدا کیا۔ کسی کو اقتدار میںلائے اورکسی کو محروم کیا۔ انتخابات ، پارلیمنٹ اورقومی اداروں کو بے وقعت کیا۔ اپنے اقتدار کو دوام پخشنے کے لیے امریکی دہشت گردی کا ساتھ دیا۔ معاشی نظام کو بر باد کر کے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی۔ مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔ سی این جی کو نایاب کردیا۔ گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کردیا۔ کرایے بڑھ گئے ، فیسیں بڑھ گئیں۔ہر طرف بھوک کے سائیے نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف غربت ناچ رہی ہے۔ ہر طرف لاقانونیت ہے ، بھتے ہیں ، کمیشن ہے اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔ کیا یہ قائد اعظم ؒ کی خوابوں کی تعبیر ہے ؟ کیا اس کے لیے مسلمانوں نے قربانی دی تھی ؟ کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟   

سوات آپریشن کے دوران لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بنایا گیا اور کیمپوں میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اب فاٹا میں اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کیاجارہا ہے۔ ۹ لاکھ قبائلی پاکستانی اپنے ہی ملک میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ خواتین جو حیا کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں جاتی تھیں ان کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج امریکا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہندستان کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے خلاف آپریشن متاثر ہو گیا ہے۔ میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ قبائلی پاکستانی ہیں ان کی تذلیل بند کی جائے اور ان کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔ اور ان کو اپنے گھروں کو عزت کے ساتھ جانے دو۔ قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ازالہ کرواور امریکا کی جنگ سے باہر نکلو۔

اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے اقتدار میں باریاں لگائی ہوئی ہے۔ ایک اقتدار میںآجاتا ہے تو دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتاہے۔ یہ اقتدار پرستوں کی جائنٹ فیملی ہے جس میں میڈیابھی ان کے قدموں کے اندر بیٹھتا ہے۔ دولت کی ریل پیل میں حق اور سچ سامنے نہیں آتا۔

ایسے میں اس ملک کے اندر ہم امید کی کرن دکھانے کے لیے اجتماع عام کر رہے ہیں تاکہ قائد اعظم کے نامکمل مشن کو اور پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ تحریک پاکستان کا دوبارہ آغاز ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ قائد اعظم کے مشنـ اسلام، جمہوریت اور عوام کی فلاح کوپوراکریں جس ملک کا قیام اسلامی بنیادوں اور اسلامی جذبوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح اس کا تحفظ ، اس کی سلامتی اور آزادی بھی اسلام کے سچے اور عادلانہ نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم اس ملک کو اسلامی اورخوش حال پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں پر طبقاتی تقسیم ختم ہو، کرپشن ، ناانصافی ، ظلم و زیادتی ، جہالت اورغربت ختم ہو۔ ہماری تحریک پاکستان کے ذریعے اختیارات اور اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کو سپرد کرنے کے لیے نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قومی زبان کو ترویج دیں گے اور مقابلہ کا امتحان بھی قومی زبان میں کرائیں گے۔ تحریک پاکستان کی اس تحریک میں ہم صوبائیت اور علاقائی تعصبات کو ختم کریں گے۔ غیر مسلم برادری کے حقوق دوسرے شہریوں کے برابرہوں گے۔ ان کو مذہبی اور معاشی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ ہم تحریک پاکستان کی اس تحریک میں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کر کے آمریت کی ہر شکل کو بے نقاب کریں گے۔ ہم دھاندلی سے بننی والی حکومتوںکو بے نقاب کریں گے۔ ہم سیاستدانوں کی خریدوفروخت کی گھنائونی سازشوںکو طشت ازبام کریں گے۔ ہم عوام کو ظاہری اور باطنی حکومتوں کا فرق سمجھائیں گے۔ اس لیے میں پاکستان کے ہر مرد اور عورت کو ،ہر پاکستانی کو ، ہر نوجوان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تحریک پاکستان کی اس نئی جدوجہد کا حصہ بنے پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے ، اسلامی ریاست بنانے کے لیے اور خوش حال پاکستان بنانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔

 میں ہر پاکستانی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کی خاطر تحریک پاکستان کا پیغام گھر گھر تک پہنچائیں۔یہ ہماری تقدیر کا سوال ہے ،یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ میں پاکستان کے عوام کو کہتا ہوں، اور سب سے کہتا ہوںکہ ہم نے جو عوامی ایجنڈا آپ کو دیا ہے۔ یہ قومی ایجنڈا ہے ، یہ پاکستان کو بچانے کا ایجنڈا ہے۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کو راستہ دے دو تاکہ یہ ملک ترقی کر جائے۔ہماری جدوجہد سیاسی ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان لشکر کشی کے ذریعے سے حاصل نہیںکیا تھا نہ گوریلا جنگ کے ذریعے سے بلکہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہدکے بعد حاصل کیا گیا تھا اور ہم بھی عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سے قائد اعظم کے وژن کے مطابق پُرامن ذرائع سے پاکستان کو حقیقی اسلامی ، جمہوری ، سیاسی اور پروگریسو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھو کہ تمھاری جاگیریں اور تمھارا پیسہ اور تمھاری طاقت صدانہیں رہے گی۔ نا م صرف  اللہ کا  رہے گا ، اسی اللہ تعالیٰ کا حکم چلے گا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام۶ :۵۷)

نائن الیون کے بعد امریکا نے ہمارے ملک پر ایک علانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گیاتھا۔ عالمی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکا اور نیٹو فورسز نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ جوان قتل ہو گئے۔ اس پر بس نہیں کیا بلکہ امریکا نے پاکستان میں ایک خفیہ جنگ مسلط کی۔ جن کی وجہ سے داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا۔ ۵۵ہزار پاکستانی شہید ہوگئے مگر امریکا اب بھی قلعہ بند ہو کر افغانستان پر قابض ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی آزادی ، سلامتی اور خودمختاری کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ افغان اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کر کے اپنی آزادی کو امریکا سے واپس لیں گے۔

 تحریک پاکستان کے آغازِ نو پر میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی دنیا کے کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ہم سب کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ ہم امریکا کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ امریکی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف ہیں جو وہ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہم یورپ و امریکا سے اچھے تعلقات برابری کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ ہم بین المذاہب مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام مذاہب کااحترام کرتے ہیںاور ہر قسم کے عالمی تعصب کے مخالف ہیں۔

ہم امریکا اور یورپ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی جنگ کو ختم کریں۔ اگر تم دنیا میں امن لانا چاہتے ہو اور لڑنا چاہتے ہو تو غربت ،جہالت اور ناخواندگی کے خلا ف لڑو۔

 جماعت اسلامی پاکستان تمام اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو اولیت دیتی ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میںلاکھوں پاکستانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جویہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ہم ان کا احترام اور ان کے احسان مند ہیں۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ اس کو بات چیت اور نیک جذبوں سے حل کیا جائے۔ اخوان المسلمین اور حماس کے بارے میں بعض دوست ممالک کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیںکہ مسلم امت کی خاطر اپنے بھائیوں اور اپنی طاقت کو تقسیم نہ کریں اور متحد ہوجائیں۔ ہم اسرائیل کی فلسطین اور فلسطینی بچوں ، عورتوں اوربوڑھوں پر اور سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور قبلہ اول کی آزادی تک فلسطینی عوام کی حمایت کرتے رہیں گے۔

ہم ہمسایہ ممالک ، چین ایران ، افغانستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم ہندستان کے ساتھ بھی اچھے اور دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں مگر تعلقات، کشمیر کی قیمت پر نہیں ہو ں گے۔ پیاز اور ٹماٹر ڈپلومیسی یا کرکٹ ڈپلومیسی سے بہتر نہیں ہوں گے۔ جنوب مشرق ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے حل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر  میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ کشمیریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ مَیں کشمیر کے مسلمانوں کو پیغام دیناچاہتا ہوںکہ آپ کی جدوجہد زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد ہے۔ آپ کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت اور طویل جدوجہد پر پاکستان کے عوام آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیںاور امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب سری نگر اسلامی پاکستان کا گرمائی دارالخلافہ بنے گا۔

جماعت اسلامی نے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان پر ہندستان نے حملہ کیا اور جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے ہندستان کی تربیت یافتہ فورس کے خلاف مادروطن کی حفاظت کی۔ ہزاروں نوجوان بھارتی فوج اور ان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فوج نے ہتھیار ڈال دیئے مگر ایک طرف ہمارے ملک میں بعض لوگوں نے مادر وطن کی حفاظت پر جماعت اسلامی کو طعنے دئیے تو دوسری طرف بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو آزادی دشمن اور پاکستان دوست قرار دیا اور آج ۴۴سال گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوںکو جھوٹے مقدمات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ہم حسینہ واجد کے انتقام کی مذمت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت اگر جرم ہے تو پھر کل کیوں اس مادرِ وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے کوئی تیار ہو گا۔

 یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی معاملہ ہے۔ عالمی معاہدوں کا تقدس ہوتا ہے  ایک طرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اور دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ عالمی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ کیا بنگلہ دیش کو اس لیے تسلیم کیا تھا کہ وہ عالمی معاہدوں سے روگردانی کر ے اور ظلم اور فاشزم کا ثبوت دے۔

ملکی بحران کا اصل سبب

سوال یہ ہے کہ نظام کیسے تبدیل ہوگا؟

مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا کہ پُرامن آئینی جدوجہد کرو، ذہنوں کو تبدیل کرو، انسان کو اندر سے تبدیل کرو، پھر عوام کو منظم کرو اور قیادت مہیا کرو۔ منتشر معاشرے کو ایک کرنا، عوام کو روشنی دینا، عوام کو منزل دینا یہ قیادت کا کام ہے۔ ہم زیرزمین سازشوں، گوریلا جنگ یا ڈنڈے کے زور پر یقین نہیںرکھتے۔ دلوں کی دنیا کو تبدیل کریں تو معاشرہ تبدیل ہوگا۔ اگر آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا۔ خیالات اور خواہشوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اچھا اخلاق اور کردار ہماری قوت ہیں۔

مَیں کارکنانِ جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ سورج کی طرح کرنیں بکھیرو، چاند اور تاروں کی طرح جگمگانا سیکھو، گلاب کے پھول بنو اور کردار کی خوشبو تقسیم کرو۔ ان شاء اللہ خلقِ خدا تمھارے گرد جمع ہوجائے گی۔معاشرے کے خدمت گار بنو۔ یتیموں، مسکینوں، بیوائوں اور بوڑھوں کا سہارا بنو۔ مظلوموں کی آواز بنو اور ان کی دُعا بنو۔ خالق کو راضی کرنا ہے تو مخلوقِ خدا کی خدمت کرو۔

ہم جانتے ہیں کرپٹ اشرافیہ نے صرف پاکستان کو منزل سے ڈی ریل ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیوروکریسی کو بھی کرپٹ کیا، پولیس کا نظام بھی تباہ کیا۔ ٹیکس کا نظام عوام کو نچوڑنے کا اور اِن کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے اس ملک میں کرپشن، اقرباپروری اور طبقاتی نظام کو دوام دیا۔ ریلوے غریبوں کی سواری ہے، اس کو تباہ کیا۔ کرپشن کی وجہ سے ہی پی آئی اے کو مفلوج کیا۔ پارلیمنٹ پر عوام کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ مظلوم کو سننے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ چور اور لٹیروں کو پکڑنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔

پاکستان کے آئین میں اللہ کی بادشاہت اور انسانوں کی خلافت کو تسلیم کیا گیا ہے مگر یہاں منافقت کا نظام ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کا نظام ہے، جاگیرداروں کا نظام ہے، امریکی وفاداروں کا نظام ہے۔ اللہ کا نظام کہیں نظر نہیں آتا اور نہ خلافت کا نظام نظر آتا ہے۔ آئینِ پاکستان قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سارا معاشی نظام سود پر چلتا ہے۔ سود تو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے۔

ہم آئینِ پاکستان کے ساتھ ہیں اس لیے کہ اس آئین نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے۔ اس میں اللہ کی حاکمیت کو اقتدارِاعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کا آئین ختم ہوا تو فساد کی قوتیں دوبارہ ایسا متفقہ دستور نہیں بننے دیں گی۔ وفاقی شرعی عدالت ختم ہوجائے گی۔ پھر صوبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ یہاں سامراجی قوتیں ہمیشہ غیرجمہوری نظام کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس ملک کا تشخص بدل ڈالیں، اور اس ملک کو بھارت کا غلام بنا ڈالیں۔ ان کے لیے ایک ڈکٹیٹر سے سودا کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں مسئلہ آئین کا نہیں، قیادت کا اور قیادت کی بے عملی کا ہے۔ عوام کو جب موقع ملتا ہے تو انھی لوگوں کو جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیتے ہیں جنھیں بعد میں جھولیاں بھرکر بددعائیں دیتے ہیں۔ خود ہی سانپوں کے منہ میں دودھ ڈالتے یں اور جب وہ اژدھا بن کر ڈستے ہیں تو پھر خوب روتے بھی ہیں۔

ان اژدھوں نے آپ کو دبایا ہوا ہے۔ یہی سانپ خزانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مقصد پاکستان کو سبوتاژ کیا اور پاکستان کے جغرافیے کو بھی۔ چین اور ملایشیا کو اچھی قیادت ملی تو ترقی کرگئے اور ایشیا کے ٹائیگر بن گئے۔ یہاں استحصالی طبقے نے خود کو امیر اور آپ کو غریب بنایا۔ انھوں نے ہماری صنعت کو تباہ کیا۔ انھوں ہماری زراعت کو تباہ کیا۔ ان کی وجہ سے غریب اور مزدور فاقوں کا شکار ہیں۔ ان کے بچے باہر پڑھتے او رہمارے بچے گندگی کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ ان کو ووٹ دیتے ہیں اور وہ آپ کو بجلی اور گیس کے ظالمانہ بل بھیجتے ہیں اور     یہ وی وی آئی پی کلچر تو یہودیوں کا ہے۔ کیا اس ملک میں ہم سب برابر نہیں ہیں؟ ہسپتالوں میں،   ہوٹلوں میں، دفاتر میں، ہر جگہ وی آئی پی کلچر ہے۔ محمود اور ایاز کب ایک صف میں نظر آئیں گے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو تعلیمی اداروں میں طالب علم ، ہسپتالوں میں بیمار، اور عدالتوں میں ہرمظلوم وی آئی پی ہوگا۔ ہم موجودہ وی آئی پی  کلچر کو ختم کریں گے تو لوگ خود کہہ اُٹھیں گے کہ  ع

رہے نہ کوئی عالی جاہ ، لا الٰہ الا اللہ

قومی ایجنڈا

ہمیں قوم کو روشنی کے گرد اکٹھا کرنا ہے، اُمید کی شمع روشن کرنی ہے۔ میں محروموں کو، مظلوموں، مزدوروں اور مجبوروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی عام آدمیوں اور غریب عوام کی اصل جماعت ہے۔ یہاں موروثی اور خاندانی سیاست نہیں ہے۔ یہاں کوئی گدی نشین نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر مٹی بھر کر پٹ اشرافیہ کی کرپٹ فیملی کا مقابلہ کریں۔ اسلامی پاکستان کے لیے، جمہوری پاکستان کے لیے، فلاحی پاکستان کے لیے، پروگریسیو پاکستان کے لیے ایک ہوجائیں تاکہ محمود و ایاز ایک صف میں نظر آئیں۔

مَیں عوامی ایجنڈے میں یہاں ہر فرد کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہوں۔ فرد خوش حال ہوگا تو قوم خوش حال ہوگی، پھر ریاست بھی خوش حال ہوگی۔ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہاں پرانے سیاسی کھلاڑیوں اور سیاسی پنڈت بڑے مضبوط ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں، امریکا ان کے ساتھ ہے اور میڈیا پر بھی ان ہی کا بول بالا ہے۔

ہمارے پڑوس چین میں غریب کسان جاگیرداروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور انقلاب برپا کر دیا۔ فرانس میں مزدور ساہوکاروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور کامیاب ہوگئے۔ ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں نے ۱۸، ۱۸ بار ایک ایک گھر پر دستک دی اور کامیاب ہوگئے۔ ہم تو ۱۸کروڑ ہیں۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے ساتھ ایک شان دار ماضی ہے۔ اگر عوام بیدار ہوگئے تو کوئی ہماراراستہ نہیں روک سکتا۔

  •  روزگار کی فراھمی اور بے روزگاروں کے لیے الاؤنس: ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں ، مگر یہ کارآمد نہیں ہیں، اور نہ ان سے روزگار ملتا ہے۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں ہے کہ وہ ہر بے روزگار نوجوان کو باعزت روزگار دے یا بے روزگاری الائونس۔ ہمارے ہنرمند اور قابل نوجوان روزگار کی تلاش میں باہر کیوں بھاگ رہے ہیں۔ حکومت ان کو بلاسود قرضے کیوں نہیں دیتی۔ نظام ایسا بنایا ہے کہ پھر معاف بھی ہوجاتے ہیں۔

جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ہر بے روزگار ہنرمند نوجوان کو روزگار دیں گے ، اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الائونس دیں گے۔

  • مفت تعلیم اور اُردو ذریعۂ تعلیم:کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے پیارے پھول جیسے بچوں کے لیے سکول میں کرسیاں نہیں ہیں، ان کے لیے ٹاٹ اور چٹائیاں نہیں ہیں اور استاد بھی نہیں ہے۔ جب کہ اعلیٰ طبقے کے لیے ’اے لیول‘  ’او لیول‘ ، اوکسفرڈ اور کیمبرج کا نظام ہے۔ کیا غریب آدمی کسی اچھے سکول یا کالج میں پڑھ سکتا ہے؟

ہمارا عزم ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو یکساں نظامِ تعلیم کو رواج دیںگے۔ جس سکول میں وزیراعظم کا بیٹا پڑھے گا اسی میں مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی پڑھے گا۔ یکساں ماحول ہوگا تو پتا چل جائے گا کہ کون ہیرو ہے اور کون زیرو؟

ہمارے معاشرے میں ۵۱ فی صد خواتین ہیں۔ اس شرح سے ان کے لیے سکول، کالج  اور یونی ورسٹیاں بھی ہونی چاہییں مگر تنگ نظر حکومتوں نے ان کو بھی تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر رہ جاتے ہیںیا نکل جاتے ہیں۔

ہم غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرکے تعلیم کو مفت اور عام کریںگے۔ میٹرک تک تعلیم لازمی ہوگی۔ تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہونا چاہیے اور قومی اور علاقائی زبانوں کو ان کا قرار واقعی مقام ملنا چاہیے۔ انگریزی اہم ہے لیکن انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانا اوراس کی بالادستی قائم کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ انگریزی زبان کی بادشاہت میں کروڑوں نوجوان زندگی کی دوڑ میں پیچھے  رہ جاتے ہیں۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی پاکستان میں علم کے نور سے منور پاکستان میں تعلیم مرکز اور محور ہوگی۔

  • مفت علاج: ملک کے ہسپتالوں کا کیا حال ہے؟ پرائیویٹ ہسپتال مہنگے، جب کہ سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہیں ہیں، نہ ڈاکٹر ہے نہ دوائیاں، نہ مریضوں کے لیے بستر اور خدمت گار۔ وہاں بھی کرپشن نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ اسمبلی ممبران کے ایک دانت پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں،وہ بھی لندن میں۔ دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں سردرد کی دوا بھی ملتی۔ غریب یہاں بھی اپنی موت کا انتظار کرتا ہے مگر وہ بھی اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔

اسلامی فلاحی حکومت قائم ہوگی تو بڑی بیماریوں کا علاج مفت کریں گے۔

  • پیداوار میں مزدور اور کسان کی شراکت: ملک کے لیے قربانی عام آدمی دیتا ہے، خون پسینہ بہاتا ہے۔ ہماری بلندوبالا عمارتیں غریب بناتا ہے اور ان عمارتوں میں رہتا کوئی اور ہے۔ کھیت ان کی وجہ سے لہلہاتے ہیں مگر ان کی پیداوار کھاتا کوئی اور ہے۔ کارخانوں میں پسینہ بہاتا ہے مگر منافع کوئی اور لے جاتا ہے۔ اسلامی پاکستان میں کارخانوں کے منافعے میں مزدورشریک ہوگا اور جاگیرداروں اور زمین داروں کی پیداوار امیں کسان اور ہاری شریک ہوگا۔
  • غریبوں کے لیے سستی اشیا کی فراھمی: ہمارا عزم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہوگی۔ اس طرح ہر وہ پاکستانی جس کی ماہانہ آمدن ۳۰ہزار سے کم ہو اس کو آٹا، دال، چاول، گھی، چینی اور چائے پر سبسڈی دیں گے۔ عیش اور عشرت کی چیزوں پر ٹیکس لگائیں گے۔ غریب کا پیٹ بھی روٹی چاہتا ہے۔ وہ اپنے بچے کے ہاتھ میں قلم اور کتاب چاہتا ہے۔ عزت کی زندگی اور رہنے کو ایک چھت چاہتا ہے۔
  • عمر رسیدہ لوگوں کے لیے الاؤنس:عمر رسیدہ لوگ آخری عمر میں اپنے آپ کو زمین پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ نہ ان کی سوشل لائف ہوتی ہے، نہ بڑھاپے کے اخراجات کا کوئی انتظام اور اس طرح وہ موت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ان کو ان کی زندگی آسان بنانے کے لیے اولڈ ایج سوشل الائونس دیں گے۔
  • ائمہ مساجد کے لیے تنخواہ: پاکستان میں لاکھوں مساجد ہیں، یہاں آئمہ پانچ وقت قوم کی امامت کرتے ہیں، بچوں کو پڑھاتے ہیں، مساجد کو سنبھالتے ہیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو پاکستان کے دوسرے محکموں کی طرح ان کے لیے بھی تنخواہیں مقرر کرے گی اور یہی مساجد عبادت کے مراکز تو ہیں ہی، علمی مراکز بھی بنیں گے۔ منبر ومحراب کو قوم کو منظم کرنے کے لیے متحد کرنے کے لیے اور علم کے نور کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
  • غیرمسلموں کے لیے تحفظ: میں غیرمسلم پاکستانیوں کو بھی یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی حکومت میں تمھاری جان و مال اور عز ت و آبرو کو تحفظ حاصل ہوگا۔ آج کی طرح کوئی تمھیں جھوٹے الزام لگاکر آگ کی نذر نہیں کرسکے گا۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں مذہبی اقلیتوں کو سب سے زیادہ تحفظ اگر ملا ہے تو مسلم حکمرانی میں ملا ہے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس مسلمان نے کسی غیرمسلم کا حق مارا یا اسے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا، قیامت میں اس مسلمان کے خلاف دعویٰ لے کر خود مَیں کھڑاہوں گا‘‘۔

اللہ اللہ! جس غیرمسلم کی طرف سے وکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، کیا ہم اسے تکلیف دے سکتے ہیں۔ ملک کے وسائل پر آپ کا بھی اسی طرح حق ہے جس طرح مسلمانوں کا ہے۔

  • سود کے خلاف اعلانِ جنگ: سود اور سودی کاروبار نے معاشرے میں تصادم پیدا کیا ہے۔ ہم سود کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ بنک مال داروں کو قرضے دیتے ہیں لیکن جھونپڑی والوں کو، گھر بنانے والوں کو قرضہ نہیں دیتے۔ بچوں کو تعلیم کے لیے قرضہ نہیں دیتے۔۵۱ فی صد عورتوں کو قرضے نہیں دیتے۔ ہم اس سودی نظام کو مُردہ باد کہتے ہیں۔

اسلامی حکومت قائم ہوگی تو بنکوں کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل جائیں گے۔ حکومت اسلام کے معاشی نظام کو اپنائے گی تو عام آدمی ترقی کرے گا۔

ہم حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ سود کے حوالے سے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے ورنہ ہم عوام سے سودی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کریں گے۔ سودی نظام کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ عالمی بنک کے قرضے بھی امیروں پر خرچ ہوتے ہیں اور ہتھکڑیاں غریبوں کو پہنائی جاتی ہیں۔ ہم زکوٰۃ کا نظام نافذ کریں گے کہ ہر بیوہ اور یتیم کی کفالت کا سامان ہوسکے۔ غریب کے لیے مفت علاج کا انتظام ہوسکے اور جو مظلوم عدالت میں اپنا فیصلہ، اپنا کیس خود نہیں چلا سکتا تو سرکار ان کو یہ سہولت دے گی۔

  • ناجائز جاگیروں کی غربا میں تقسیم: جس ملک میں بھی جاگیرداری نظام ہے، وہاں انسان ترقی نہیں کرسکتا۔ یہاں انگریزوں نے جن غلاموں کو غداری کے عوض بڑی بڑی جاگیریں دی تھیں، ہم ان کو واپس لے کر غریبوں میں تقسیم کریںگے اور قومی خزانے کو جس نے بھی لوٹا ہے اس کا احتساب کریں گے، اس کے ساتھ حساب کتاب کریں گے۔
  • منصفانہ انتخابات اور متناسب نمایندگی: ہم چاہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل پوری انتخابی نظام کی اوور ہالنگ کی جائے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔ عوام الیکشن کے نام پر سلیکشن قبول نہیں کریں گے۔ بیلٹ بکس پر ووٹرز کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ خدا کے لیے عوام کے فیصلے عوام کو کرنے دیں۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن سے پہلے صوبے اور علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہاں ظاہری حکومت ایک ہے اور باطنی حکومت دوسری اور جب دونوں ایک پیج پر نہیں ہوتے تو عوام بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا بھی حیران ہوتی ہے کہ ظاہر حکومت سے معاہدے کرے یا باطنی سے۔ الیکشن کا راستہ ہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ جب پُرامن جدوجہد کے راستے بند ہوجاتے ہیں پھر مسلح جتھے بنتے ہیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ متناسب نمایندگی کی بنیاد پر الیکشن ہو تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ موجودہ طریقے میں پارٹی اور لیڈر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ متناسب نمایندگی میں لوگ پارٹی کو ووٹ دیں گے، منشور کو ووٹ دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگ آئیں گے۔ پھر ہر کوئی نہیں کہے گا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔

  • آزاد خارجہ پالیسی: ہم آزادخارجہ پالیسی کے قائل ہیں۔ تمام ممالک سے دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں اور خصوصیت سے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بھی قائل ہیں۔ ہم دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کے بھی قائل ہیں لیکن وہ آقا اور ہم غلام کی حیثیت سے ہوں، اس خارجہ پالیسی کو ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص اور ملک کے مفادات کا تحفظ ہماری خارجہ پالیسی کا اصل ہدف ہوگا۔

قوم سے اپیل

ہم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں حاکمیت اور شریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور حکومت عوام کے مخلص بندوں کی۔ اس مقصد کے لیے عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارے پاس وژن ہے، ہمارے پاس مخلص ماہرین کارکنان کی ٹیم ہے۔ ہم عوام کے تعاون سے ’اسٹیٹس کو‘ کو شکست دیں گے۔

جماعت اسلامی ہی تبدیلی لاسکتی ہے۔ کرپشن کا سومنات ہم ہی توڑ سکتے ہیں۔ ہم نے ہردور میں قربانی دی ہے۔ پاکستان کی محبت میں جماعت اسلامی کے قائدین کے جنازے جیلوں سے نکل رہے ہیں۔ ہم زلزلوں اور سیلاب کی مصیبت میں عوام کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا    ؎

سر جلائے ہیں مشعلوں کی طرح

یوں بھی لوگوں کی رہبری کی ہے

ہمارا ایجنڈا قوم نے قبول کیاتو ہم آپ کو ایک ایسی حکومت دیں گے جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا۔ ایک ایسی حکومت جس کا وزیراعظم ۱۸کروڑ عوام کی قیادت کرسکے۔ مسجد میں امامت بھی کرسکے اور اقوام متحدہ میں ایک ارب مسلمانوں کی نمایندگی بھی کرسکے۔    مَیں ساری جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خاطر ہمارے ایجنڈے کو تسلیم کرلیں تاکہ یہ ملک ترقی کرسکے۔ یہ پارٹی کا نہیں، قومی ایجنڈا ہے۔

میرے بھائیو اور دوستو!

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا جو پودا لگایا گیا تھا، وہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ جو قطر ہ تھا وہ اب ایک سمندر بن گیا ہے۔ یہ ذرّہ اب فولادی چٹان بن گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے رہنما نبی آخرالزمانؐ ہیں۔ ہم حق پر ہیں۔ ہمیں حق کے ساتھ چلنا ہے،    حق کے ساتھ جینا ہے، اور حق کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔