عامر اشرف


ہمارے اور آپ کے بچےسوشل میڈیااورموبائل کے دور میں بڑےخطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ بے راہ روی نے مغربی معاشرے کو بے شمار خباثتیں تحفے میں دی ہیں۔ اس بے لگام جنسی آزادی کے نتائج اُن کے سامنے ہیں۔اب ہمارے یہاں بھی وہ چیزیں ہورہی ہیں کہ جن کا معاشرتی بگاڑ کی راہیں ہموار کرنے میں کلیدی کردار ہے۔

پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاسی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہیں بڑھتا ہوا اخلاقی انحطاط ہمارے لیے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ جنسی اخلاقی جرائم مغربی دنیا کے لیے تو زیادہ تعجب کا باعث نہ تھے، مگر ہمارے معاشرے میں ان مکروہ افعال کی وجہ سے معاشرتی تنزلی عیاں ہوتی جارہی ہے۔ عام آدمی تو کجا، مذہبی ذہن رکھنے والا بھی محفوظ نہیں۔ یہ مغربی تہذیب اور جدیدیت کے اثرات کا شاخسانہ ہے۔ معروف ادیب اور جدید فلسفے پر گہری نظر رکھنے والے دانش وَر احمدجاوید صاحب کا یہ فرمان گہری معنویت رکھتا ہے:’’جدیدیت ہمارے مذہبی حلیے کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اندر سے ماڈرنائز کرچکی ہے‘‘۔

اس سے بڑھ کر صدمہ انگیز یہ بات ہے کہ احساسِ زیاں کا بھی شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ جدیدیت کی مصنوعی دنیا میں بے لگام ٹیلی ویژن اور اس کے بعد اب آزاد اور کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے بغیر سمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وہ تباہی مچارہے ہیں، جس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کا اخلاقی و سماجی مستقبل خطرے میں ہے۔ ہرروز ٹیلی ویژن اسکرین پرجنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، حالانکہ ان واقعات کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو رپورٹ نہیں کی جاتی ہے۔۱۷جون ۲۰۲۱ء کی خبر کے مطابق: ’’بنوں میں دو افراد نے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اس کے والد سے ۷۰ ہزار روپے مانگے اور نہ دینے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی‘‘۔ بظاہر یہ صرف ایک واقعہ ہے۔اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بچوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ایک گروہ کا انکشاف ہوا تھا جس کا سرغنہ مبینہ طور پرایک پولیس اہلکار نکلا تھا، جس میں ملزم اپنے ہدف بچوں کو پہلے چپس اور کولڈ ڈرنک پلا کر دوستی کرتا تھا۔ایسے واقعات کم و بیش ہرچھوٹے بڑے شہر اور دیہات و قصبات تک میں کسی نہ کسی شکل میں رُونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے طاقت ور نیٹ ورک سے منسلک ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کچھ عرصے بعد رہا ہوجاتے ہیں ۔

معاصر انگریزی اخبار ڈان کی اردو ویب سائٹ نےماضی میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق بچوں سے زیادتی کو دنیا بھر میں اہم مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ ۵۰ لاکھ ۱۵سے ۱۹ برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بچوں کا بہت بڑی تعداد میں لاوارث ہونا بھی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی قابلِ لحاظ تعداد بھی اس ناسور کا شکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ ۷۰ہزار بچے ’جنسی تجارت‘ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ متاثرہ بچے بہت سے دوسرے بچوں کے لیے بھی عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بن جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا کام صرف انفرادی بگاڑ اور ہوس کے نتیجے میں نہیں ہورہا بلکہ معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ اب یہ کام پیسے کمانے کے لیے ہورہا ہے ،پوری دنیا میں ایک انڈسٹری بن گئی ہے ۔

پاکستان میں بھی اس وقت جسم فروشی کا منظم کاروبار ہورہا ہے، یہاں تک کے اس کاروبار میں بچوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان واقعات میں تیزی سے اضافے کا سبب کیا ہے ؟اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کی عریاں اور زیادتی پر مبنی فلموں کی صنعت ہر روز پھیل رہی ہے۔ اگرچہ کسی بھی ملک میں اس گھنائونے فعل کی اجازت نہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے یہ کاروبار ایک سو کھرب سے زائد سالانہ رقم کے ساتھ دُنیا بھر میں روز افزوں ہے۔چائلڈ پروٹیکشن فنڈ کے مطابق گھروں تک محدود انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کے لیے ایسے منفی رجحانات رکھنے والے افراد کی موجودگی بڑا خطرہ ہے اور خود انٹرنیٹ بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہوگیا ہے۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی اخلاق باختہ فلموں کی تیاری کے لیے ترقی پذیر دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ ان میں نیپال، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا۔ یہ شخص اس کاروبار میں ملوث تھا۔ اس شخص کے قبضے سے ۶۵ہزار وڈیو کلپس اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں۔اسی طرح فروری ۲۰۲۱ء کے مہینے میں ایکسپریس نیوزکے مطابق ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل نے ’چائلڈ پورن‘ کاروبار سے منسلک ملزم کومتاثرہ بچے کی نشان دہی پر ایک اہم ہاؤسنگ سوسائٹی سے چھاپہ مارکر گرفتارکیا اورملزم کے قبضے سے سیکڑوں کی تعداد میں بچوں کی نازیبا تصاویراورویڈیوکلپ برآمد کیے تھے۔

یہ امرواقعہ ہے کہ کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میںزیادتی کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاً ۵ سے ۱۱سال ہوتی ہے۔ اس گندے کھیل سے وابستہ لوگ بچوں کو بہلا پھسلا کر نہ صرف غلط تصاویر لیتے ہیں، بلکہ بچوں سے یہ بھی معلوم کرتے ہیں کہ اں کی رہایش کہاں ہے ،والدین گھر میں موجود ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکا کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز (NSCA) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ ’’بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہوسکتا ہے۔ اس کی بایولوجیکل وجوہ بھی ہوتی ہیں، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہے، اسے بچوں کے چہرے متوجہ کرتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر میری ایل مزید بتاتی ہیں کہ ’’بچپن میں جنسی حملے کا شکار بھی کسی دوسرے بچے کو شکار بنا سکتا ہے۔اور پھر اخلاق باختہ ویڈیوز دیکھنا بھی اس جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ پھر نشے کے شکار افراد، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ انتقاماً اس چیز میں ملوث ہوسکتے ہیں، لیکن ان سب محرکات کے باوجود آپ کسی ایک بھی وجہ کو اہم یا بنیادی وجہ نہیں کہہ سکتے۔ بچوں پر اخلاق باختہ ویڈیو میں ملوث افراد بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ عمومی طور پر یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور بچے کے کسی واقف کار کو اُکسا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں‘‘۔

اب سوال یہ ہے کہ مغرب کے اس ’عطاکردہ عذاب‘ سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ جنسی تعلیم کو اس مسئلے کا حل قرار دیا جارہا ہے۔ کیا یہ علاج ہے یا جرائم کے اصل سبب سے فرار کا راستہ؟کیونکہ امریکا، لاطینی امریکا، اور یورپ وغیرہ میں جہاں جنسی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں بھی بہت خوفناک صورتِ حال ہے ،یعنی جہاں یہ تعلیم ہے، وہاں بچوںکا زیادہ استحصال ہے۔

وزیراعظم عمران خان ٹیلی فون کے ذریعے عوام کے سوالات کے جوابات دینے کے پروگرام میں دیہی سندھ سے ایک شہری نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’آئے روز بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں، آپ کی حکومت نے کون سا قانون بنایا ہے؟ اور آج تک کسی کو سرعام پھانسی ملتی نہیں دیکھی‘‘۔ اس پر وزیراعظم نے بتایاکہ ’’زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت آرڈننس لائے ہیں، لیکن اس گھنائونے رویے اور جرائم کی روک تھام کے لیے صرف آرڈننس کافی نہیں، معاشرے کو بھی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ فیملی سسٹم کو بچانے کے لیے دین اسلام نے ہمیں پردے کا درس دیا۔ اسلام کے پردے کے نظریے کے پیچھے فیملی سسٹم بچانا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جب آپ معاشرے میں فحاشی پھیلائیں گے تو جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ یورپ میں اب فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے صدرایردوان سے بات کی اور ترک ڈرامے کو یہاں لایا‘‘۔

وزیر اعظم کی بات بالکل درست ہے کہ محض آرڈننس اور ’زینب الرٹ‘ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جہاں ایک عام آدمی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، وہیں سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے۔ ریاست کی ناک کے نیچے گھنائونے جرائم ہورہے ہیں، بین الاقوامی جرائم پیشہ افراد پاکستان میں کھل کھیل رہے ہیں۔ ہمارے بچے اُن کے نشانے پر ہیں،فحش لٹریچر کی بھرمار ہے،فحش فلموں پر مشتمل سی ڈیز سرعام بکتی ہیں، انٹرنیٹ پر بھی فحش مواد بکثرت موجود ہے ،اوران کی روک تھام کے لیے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا اور انھیں سزا دلوانا ضروری ہے۔پھراس کے ساتھ بے لگام میڈیا پر ہاتھ ڈالنا اور فحش جنسی مواد کی روک تھام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔دوسری طرف والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے قریب رہیں۔ ان کے دوست بنیں۔ ماں ،باپ اور اولاد کے درمیان دُوری ہوتی ہے تو جرائم پیشہ ان کے قریب ہوتے ہیں۔لہٰذا، یہ بات طے ہے کہ معاشرے میں اخلاقی بگاڑ اور جنسی جرائم کو ختم کرنے کے لیے ریاست اور معاشرے دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔