سلیم منصور خالد


جب کوئی ہم نفس، ہم مقصد ساتھی زندگی کا سفر مکمل کر کے چلاجاتا ہے تو بہت کچھ کھونے کے صدمے، تنہائی اور اجنبیت کے احساس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوستی کی نعمت تو۳۰برس کی عمر سے پہلے ہی ملتی ہے، بعد میں ممکن ہے بہت سے اچھے لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہوں، لیکن دوستی کی تعریف پہ کم ہی پورے اُترتے ہیں۔ انسانی زندگی، دوستی کی خوشبو سے معطر نہ ہو تو وہ بجاے خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے، او ر بے بسی کا پہاڑ اپنی ہیبت طاری کرتا دکھائی دینے لگتاہے۔

صفدر علی چودھری اپنے منصب اور مصروفیات کے اعتبار سے جماعت اسلامی پاکستان کے ناظمِ نشرواشاعت تھے، لیکن مزاجاً وہ دوستیاں بنانے اور پالنے والے شخص تھے__ سب کے دوست اور سب سے دوستی۔ ہرفرد کا اپنا تجربہ ہوگا۔ راقم کے سامنے مشاہدات و تعلقات کی ایک کہکشاں ہے، اور اس ’منوہر‘ بھائی کے طرزِ تعلقات، مقصد کی لگن اور ایثار و قربانی کے پہلو اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ انھیں بیان کرنا مشکل اور ان کی شدت و گہرائی کو لفظوں میں سمونا مشکل ترین عمل ہے۔

صفدر چودھری صاحب فی الحقیقت کارکن تھے اور ایسا کارکن کہ جس میں قیادت کی صلاحیت تو موجود ہو مگر وہ کارکن کی حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھنا نہ چاہے۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’میں نہ صاحب ِ قلم ہوں، نہ عالم ہوں، نہ کچھ صحافتی تجربہ رکھتا ہوں، اور نہ مکالمے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود نعیم صدیقی صاحب اور مصباح الاسلام فاروقی صاحب کی نشست پر دھکا دے کر بٹھا دیا گیا ہوں‘‘۔

سوال کیا:

’’جب یہ ذمہ داری پڑگئی ہے تو پھر اسے نبھانے کا ڈھنگ کیسے اپنایا ہے؟‘‘ جواب میں کہنے لگے: ’’اس زیادتی کا ایک ہی حل سوچا ہے کہ اس میدان میں بھاگ بھاگ کر لکھنے والوں کی خدمت کروں، اگر کوئی میرے مقصد ِ زندگی کی تائید میں ایک جملہ بھی لکھے تو اس کا خادم بن جائوں اور اگر وہ سنگ زنی کرے تو اس کے پتھر کو چُوم کر ایک طرف رکھ دوں اور کہوں: میرے بھائی! مزا نہیں آیا، ایک اور مگر ذرا زور سے۔ ممکن ہے وہ اس صبر کے نتیجے میں شرمندہ ہوکر دوسرا پتھر نہ مارے اور مارے تو زیادہ شدت سے نہ مارے‘‘۔

یہ گفتگو ۱۹۷۲ء کے نومبر میں ہوئی تھی، جب میں سالِ سوم کا طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا کارکن تھا۔ تب وہاں سے البدر  کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ مولانا مودودیؒ کو لکھا کہ رسالے کے لیے پیغام عنایت کریں۔ جوابی پیغام ڈاک کے ذریعے نہیں آیا، بلکہ دستی طور پر دینے کے لیے صفدر صاحب بس کا سفر کرکے تشریف لائے۔ میری حیرانی و ندامت دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’بھائی، میں نے رضاکارانہ طور پر یہ اپنی ذمہ داری   سمجھ رکھی ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے ساتھی کی موجودگی دیکھوں تو اُس سے جاکر ملوں‘‘۔ یہ سن کر مَیں مزید زیربار ہوگیا کیوں کہ یہاں لکھنے پڑھنے والی تو کوئی بات نہیں تھی، مگر وہ سراب کو دیکھ کر نکل پڑے تھے۔ بہرحال، اُس روز سے دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ آخر دم تک برقرار رہا اور اس سارے عرصے میں کبھی دُوری محسوس نہ ہوئی۔

جب مَیں لاہور آگیا تو دیکھا کہ مولانا مودودی اُن سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ صفدرصاحب دبے دبے لفظوں میں بے تکلفی سے باتیں کرتے اور انتہا درجے کی برخورداریت سے خدمت کرتے۔ کتنی ہی بار وہ مولانا کے پاس مجھے لے کر گئے اور ان کے ساتھ مولانا کی شفقت ِپدری دیکھ کر رشک آتا۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت [۱۹۷۲ء- ۱۹۷۷ء] سخت تکلیف دہ اور خوف و دہشت کی علامت بلکہ سراپا دَورِ فسطائیت تھا۔ یہ زمانہ صحافت کے لیے بڑی کٹھن بلکہ تاریک رات کا ہم معنی تھا۔ آزمایش میں گھِرے صحافیوں کی دل جوئی کے لیے صفدر صاحب اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر جیلوں، حوالاتوں اور ان کے اہلِ خانہ تک پہنچتے۔ اس ضمن میں ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے حامی یا مخالف کی کوئی تفریق نہ تھی، وہ سبھی کے لیے سراپا خدمت ہوتے۔

صفدر صاحب کی ذمہ داری تو نشرواشاعت کی تھی، لیکن وہ بہ یک وقت غیراعلان شدہ  ناظم تنظیم اور سیاسی و سماجی رابطہ کار بھی تھے، بلکہ درست لفظوں میں وہ ناظم خدمت ِ خلق اور ناظم مہمان داری بھی تھے۔ منصورہ میں ان کا گھر اسلامی جمعیت طلبہ کے دُور دراز سے آنے والے کارکنوں کے لیے ’نعمت کدہ‘، اسلامی جمعیت طالبات کے لیے ’اپنا گھر‘، صحافیوں کی بے تکلفانہ گفتگو کے لیے ’پریس کلب‘، بیماروں کے لواحقین کی رہنمائی کے لیے ’پڑائو‘، حتیٰ کہ جماعت کے کارکنوں کا تعاقب کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ٹھنڈا پانی پلانے کی ’سبیل‘ تھا!

وہ صحافی برادری کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے اور اس مقصد کے لیے ذاتی سطح پہ مالی طور پر زیربار ہونے سے بھی نہ گھبراتے۔ کئی بار ناظمِ مالیات (پہلے شیخ فقیر حسین صاحب ، پھر مسعود احمد خاں صاحب اور ابراہیم صاحب) کو خبردار کرتے دیکھا اور سنا: ’’صفدرصاحب، آپ پر قرض چڑ ھ گیا ہے اور آپ اگلے مہینے کا اعزاز یہ بھی لے چکے ہیں، کیسے اُتاریں گے یہ قرض؟‘‘

قصّہ دراصل یہ ہوتا کہ کسی صحافی بھائی کے والدین کی عیادت کرنے جاتے تو صفدربھائی  علاج کے لیے کچھ رقم دے آتے، کسی کی شادی پر جاتے تو کوئی تحفہ پیش کردیتے۔ ایسے تحفے وصول کرنے والے صحافی سمجھتے تھے یا سمجھتے ہوں گے کہ یہ ’جماعت کے کسی فنڈ‘ سے ہورہا ہے، لاریب، جماعت نے اپنے بجٹ میں ایسا کوئی فنڈ نہیں رکھا تھا۔ صفدر صاحب یہ سب کچھ اپنے  بیوی بچوں کے حق اور اپنی ضروریاتِ زندگی کی قربانی دے کر ایسا بار بار کرتے تھے۔ وہ اس خدمت کا کہیں تذکرہ بھی نہ کرتے کہ کسی کی عزتِ نفس زیربار نہ ہو، مگر قربت کے سبب ہم کبھی کبھی معاملہ جان لیتے۔

یہ منظر میرے مشاہدے میں کئی مرتبہ آیا کہ صحافی بھائیوں کا ایک حلقہ تو بے تکلفانہ احترام سے انھیں پکارتا اور دوسرا گاہے بے تکلفانہ بدتمیزی سے مخاطب ہوتا۔ ایک روز میں نے جل کر کہا: ’’صفدر صاحب، فلاں صاحب نے جس توہین آمیز طریقے سے آپ کو پکارا ہے، میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہے‘‘۔ ایک دم میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور سینے سے لگاکر کہنے لگے:’ایک بات ذہن میں رکھیں، یہ شہر ہے۔ جب میں نے مولانا کی ہدایت پر اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو اسی وقت خوب سوچ سمجھ لیا تھا کہ: ’’عزّت، نامی چیز تو ایک اضافی شے ہے، جو آپ کو اپنے گائوں برادری ہی میں مل سکتی ہے۔ یہاں تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ہوگا، اس لیے یہ دونوں کھانے پڑیں گے۔ مجھے عزّت عزیز ہوتی تو اپنے گائوں میں، اپنی برادری ہی میں رہتا۔ اس لیے عزّت کی توقع کسی سے نہیں رکھتا۔ کوئی عزّت کرے تو اس کی مہربانی، نہ کرے تو جہاں رہے خوش رہے۔ آپ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے پلے بھی اسی بات کو باندھ رکھیں، زندگی کا سفر اچھا کٹے گا‘‘۔ اور پھر اپنا روایتی گھٹاگھٹا قہقہہ فضا میں بکھیر دیا۔

ان کا گھر، وقت بے وقت، اِکا دُکا یا بڑی تعداد میں، تحریکی دوستوں کی مہمان نوازی کا مرکز بنا رہتا۔ ایک روز بے چین ہوکر میں نے پوچھا: ’’چلیے، آپ تو یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، مگر آپ کے بیوی بچوں کا کیا قصور کہ انھیں رات دن چولھے کچن میں جھونکے رکھتے ہیں اور ان کے حقِ زندگی کی زبردستی قربانی لیتے ہیں؟ گھر والے دوپہر یا رات گئے آرام کر رہے ہوتے ہیں تو چائے روٹیاں پکانے کے لیے اُٹھا دیتے ہیں، بچے کمرے میں سوئے ہوتے ہیں تو انھیں بے آرام کرکے اندر دھکیل دیتے ہیں۔ یہ بڑی نامناسب بات ہے‘‘۔

کہنے لگے: ’’اس گھر میں ہم سب ایک ہیں، جس میٹھی آگ میں مَیں جلوں گا، اس کی تپش سے بھلا وہ کس طرح الگ رہ سکتے ہیں؟‘‘ پھر مسکرا کر کہنے لگے: ’’وہ بھی خوش رہتے ہیں کہ میں خوش ہوں، اور آپ بھی آکرخوش ہوا کریں‘‘۔ اسی بناپر قاضی حسین احمد مرحوم ، صفدرصاحب کے گھر کو ’خوش حال گھرانا‘ کہا کرتے تھے۔

شعبہ نشرواشاعت میں ہم نے کئی پوسٹر تیار کیے، بہت سے پمفلٹ اور کئی بیانات لکھے۔ پوسٹر کی تیاری اور کتابت کے لیے وہ کاتب اور ڈیزائنر کو اپنی جیب سے اضافی طور پر بھی ہدیہ دیا کرتے تھے کہ: ’’تخلیق کار کی تالیف ِ قلب ضروری ہے‘‘۔ البتہ کاغذ کے تاجروں سے رقم کم کرانے کے لیے متعدد دکانوں پر جاکر باقاعدہ بحث کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے اجتماعِ ارکان کے موقعے پر ایک پوسٹر تیار کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپتے ہوئے کہا: ’’اس پر کیا خاص بات لکھی جائے؟‘‘ عرض کیا:’’اس بار پوسٹر پر آیت دیتے ہیں: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً‘‘۔ صفدرصاحب نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے کے لیے کوئی آئیڈیا ہمارے ذہن میں نہیں تھا، بس پوسٹر کی تیاری پیش نظر تھی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علم اور محترم دوست سیّد مبین الرحمٰن صاحب کے پاس حاضر ہوا، اور مدعا بیان کیا۔ مبین صاحب نے دو تین روز بعد پوسٹر تیار کیا۔ چاند اور خانہ کعبہ کے ساتھ آیت ِ مقدسہ کو ایک خاص اسلوب میں نقش کیا۔ میں جب پوسٹر کا یہ ڈیزائن لے کر منصورہ آیا ، تو اسے دیکھ کر صفدرصاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کھینچ کر گھر لے گئے، بڑے جوش سے کھانا کھلایا اور ڈیزائن کو دیکھ کر بار بار کہتے رہے: ’’سبحان اللہ! سبحان اللہ!‘‘

میں نے پوچھا: ’’کیا ہوگیا ہے؟ ڈیزائن ہی تو ہے‘‘۔ کہنے لگے: ’’جماعت اسلامی کا مونوگرام نہیں تھا۔ آج جماعت کو اپنا مونوگرام (طغرا) مل گیا ہے۔ میں اسے چلا دوں گا‘‘۔ صفدر صاحب نے اسے بڑے تسلسل کے ساتھ جماعت اسلامی کی مطبوعات پر شائع کرنا شروع کر دیا۔ ایک سال میں یہ ڈیزائن اتنا استعمال کیا کہ اس کے بعد سے یہ جماعت اسلامی پاکستان کی پہچان اور جماعت کا پارٹی مونوگرام بن گیا ہے___ سیّد مبین الرحمٰن کا ڈیزائن اور صفدر صاحب کا انتخاب۔

صفدر صاحب کی شخصیت جہاں خلوص سے سرشار تھی، وہیں ان کے چہرے پر ہرآن موجِ تبسم کھیلتی تھی۔۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ان کا جوانِ رعنا، دوسرا بیٹا مظفرنعیم، جہادِ کشمیر میں حصہ لیتے ہوئے سوپور میں شہید ہوگیا۔ وہ ہمارے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوا تھا۔ سروقامت، سدابہار مسکراہٹ اور اپنی پیاری شخصیت کے باعث جدائی کا گہرا گھائو لگاگیا۔ ہم احباب گریۂ جدائی پر قابو نہ رکھ سکے، مگر صفدر صاحب سب کو اس وقار سے دلاسہ دے رہے تھے کہ نہ آنسو اور نہ آہیں بلکہ خلوصِ نظر کا وقا ر انھیں تھامے رہا۔

تحریکیں اور خاص طور پر نظریاتی تحریکیں ایسے ہی کارکنوں کے دم سے آباد، شاداب اور ثمربار بنتی ہیں۔ صفدر صاحب پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد، ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ناظم نشرواشاعت رہے (ازاں بعد ناظم تعلقاتِ عامہ اور پھر جنوری ۱۹۹۰ء سے جولائی ۱۹۹۶ء تک ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے)۔ ۱۹برس کی نظامت میں، بطور ناظم نشرواشاعت اُن کے زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھے محض چند سطری وضاحتی سے بیان آئے۔ اس گریزپائی و بے نیازی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’کارکن بیان نہیں دیا کرتا، یہ کام قیادت کا ہے‘‘۔ خلوص و محبت کی یہ گھنگھور گھٹا جو ۱۹۴۱ء میں  ضلع جالندھر کے گائوں کرتارپور (بابا گورونانک کا مقامِ وفات) سے اُٹھی تھی، برستے برستے ۱۳جنوری ۲۰۱۸ء کو لاہور میں چھٹ گئی۔ لیکن یہ گھٹا جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا زندگی بھر اپنی جان گھلانے، دوسروں کی عزت کرنے اور احترام بانٹنے والے کارکن دمِ واپسیں اور زمانۂ معذوری میں محبت، توجہ اور احترام کا بھی کچھ حق رکھتے ہیں؟

سرزمین بنگال کی قسمت میں قربانی، سازش اور ظلم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندوئوں کے ظلم سہتے ہوئے بنگالی مسلمانوں نے گراں قدرقربانیاںپیش کیں اور غیرت و حمیت پر آنچ نہ آنے دی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انھی ہندوئوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قوت نے خودسپردگی کا ایک ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انھیں تاحال سکون اور قومی خوداختیاری کی دولت سے محروم رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی عوامی لیگی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن پر یہ معروضات پیش ہیں:

o

اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو عوامی لیگی حکومت مسلسل نشانۂ ستم بنائے ہوئے ہے ، لیکن ستمبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی پر عتاب کا نیا وار کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کی اچانک پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۲۷ستمبر کو ضلع پبنہ کی سانتھیا تحصیل کے امیرمستفیض الرحمٰن فیروز اور جماعت اسلامی کی حلقہ خواتین کی فعال کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرلیا۔ اسی طرح ضلع سرسنگدی کی تحصیل پولاش کے امیر مولانا امجد حسین کو بھی زیرحراست لے لیا گیا۔

۹؍اکتوبر کو نمازِ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے، حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد، نائب امیر و سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پروار اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، محمد شاہ جہاں (امیرچٹاگانگ)، نذرالاسلام، سیف الاسلام، جعفرصادق اور نذرالاسلام ثانی کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی نے تمام حکومتی مظالم، دھاندلیوں اور خوف ناک زیادتیوں کے باوجود جمہوری، پُرامن اور ایک اصولی پارٹی کے طور پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ ان قائدین کو گرفتار کرتے وقت الزام یہ لگایا گیا کہ ’’ڈھاکا کے ایک گھر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جارہا تھا‘‘، جب کہ جماعت کے ترجمان نے اس شرم ناک الزام کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ ایک گھر کے احاطے میں سماجی تقریب میں شریک تھے، خفیہ یا تخریب کاری جیسے گھنائونے الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو جھوٹے الزامات اور غیرمنصفانہ اور یک طرفہ مقدمات میں مطیع الرحمٰن نظامی سمیت جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں (سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزمان خان، اسسٹنٹ سیکرٹری عبدالقادر مُلّا، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن میرقاسم علی) کو پھانسی پر لٹکادیا گیا، مگر جماعت نے کوئی غیرقانونی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور جو پُرامن احتجاج کیے، ان میں بھی جماعت کے بہت سے کارکنوں کو حکومت کے ایما پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر شہید مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے بعد منتخب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد صاحب نے بوجوہ بڑے جلسوں میں شرکت سے گذشتہ پورے سال کے دوران میں اجتناب برتا ہے، مگر اس کے باوجود انھی پر شرم ناک الزام لگانا، حکومتی حلقوں کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘۔ یاد رہے ۲۰۱۳ء سے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ: ’’جب تک وہ اپنے دستور اور منشور کو سیکولر نہیں بناتی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘‘۔

جناب مقبول احمد کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی نے سابق ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مجیب الرحمٰن کو قائم مقام امیر اور جناب اے ٹی ایم معصوم کو قائم مقام سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔

۹؍اکتوبر ہی کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے تین لیڈروں کی نظرثانی کی اپیلوں پر کارروائی ۲۱نومبر تک ملتوی کی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں اے ٹی ایم اظہرالاسلام، سیّدمحمد قیصر اور عبدالسبحان کو بنگلہ دیش کی خصوصی [جعلی] عدالتیں سزاے موت کی سزا سنا چکی ہیں۔ (روزنامہ ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)

قائم مقام امیرجماعت اسلامی کی اپیل پر ۱۲؍اکتوبر کو پورے ملک میں پُرامن ہڑتال کی گئی۔ابتدا میں تو نہیں، البتہ ہڑتال کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا (NTV ڈھاکا، ۱۲؍اکتوبر)۔ اسی دوران میں جماعت کے بہت سے احتجاجی کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا گیا۔ نیڑو تحصیل کے امیر ماسٹر نذرالاسلام ، سراج گنج کے امیر پروفیسر شاہدالاسلام اور رنگ پور سے تین مقامی لیڈروں کو پولیس نے اُٹھا لیا۔ ۱۵؍اکتوبر کو ست خیرا میں جماعت کے امیر پروفیسر عبدالغفار کو گرفتار کرلیا۔  اسی طرح کومیلا کے امیر قاضی دین محمد سمیت گیارہ ارکان، چاندپورسے امیرجماعت محمد حسین اور یہیں سے حلقہ خواتین کی ناظمہ فردوسی سلطانہ اور سیکرٹری فرزانہ اختر کو قید کر دیا گیا۔یاد رہے ریمانڈ کا پروانہ لے کر کارکنوں کو پولیس ٹارچر سیلز میں لے جاتی اور انسانیت سوز مظالم ڈھاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ظلم پر میڈیا خاموش، عدالت تماشائی اور قوم بے بس نظر آتی ہے۔

جماعت اسلامی کے ۸۰ سالہ امیر جماعت مقبول احمد کی جیل میں صحت بُری طرح خراب ہے۔ وہ ذیابیطس ، بلڈپریشر اور امراضِ دل میں مبتلا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کے باعث ان کے لیے سیدھے کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سخت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے روزانہ فزیوتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات میں بے قاعدگی، پرہیزی خوراک کے خاتمے اور جسمانی مشق کی کمی کے باعث ان کی صحت بگڑ گئی ہے، مگر حکومت آج ۲۵؍اکتوبر تک انھیں ہسپتال بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔

حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے اخلاق اور جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ۱۸؍اکتوبر کو ڈھاکا سے اسلامی جمعیت طالبات بنگلہ دیش (اسلامی چھاترو شنگھستا) کی ۲۱ کارکنان اور عہدے داران کو درسِ قرآن کی ہفتہ وار کلاس سے گرفتار کرلیا۔ یہ طالبات اعلیٰ درجوں میں میڈیکل، سماجیات اور انجینیرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ اس ’روشن خیال اور لبرل‘ حکومت کے مطالبے پر ڈھاکا ہائی کورٹ نے طالبات کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا، اور دو روز کے ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا۔

راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے آٹھ کارکنان کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا الزام لگایا۔ اسلامی چھاتروشبر کے مرکزی صدر یاسین عرفات نے اس پر کہا ہے کہ: ’’ایک غیرقانونی حکومت، اندھی قوت کے نشے میں بدمست ہوکر گھٹیا الزام لگاتے ہوئے اخلاق، قانون اور قومی اداروں کو تباہ کررہی ہے۔ یہ گرفتاریاں، تشدد اور پھانسیاں تحریک ِ اسلامی کا راستہ نہیں روک سکتیں‘‘۔

o

حسینہ واجد حکومت نے پہلے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی باج گزار بناکر اس سے   خاص طور پر ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کی کارروائی کی تائید اور انصاف کے قتل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح کام لیا۔ یوں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے آنکھیں بند کرکے، نام نہاد خصوصی ٹریبونلی فیصلوں پر ایک ایک کر کے عمل کرایا اور جماعت اسلامی کے پانچ رہنمائوں اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی پر لٹکا دیا، جب کہ قائدتحریک اسلامی پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دو رفقا کو   جیل کے اندر ہی موت کی وادی میں اُتار دیا۔ حالیہ عرصے میں اسی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے سات ججوں سمیت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی ۱۶ویں ترمیم کو اس کی اصل شکل میں نامنظور کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۱۷ء کو ۷۹۹صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا اور ۳؍اگست ۲۰۱۷ء کو ۳۹نکاتی فارمولا تجویز کرتے ہوئے متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔

عوامی لیگی حکومت کی طرف سے دراصل یہ ترمیم اس مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ :’’آیندہ پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مواخذہ (impeachment) کرسکیں گے‘‘۔ فیصلے کے  متن میں چیف جسٹس نے ایک جگہ ۱۹۷۱ء کے ہنگامی حالات میں شیخ مجیب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’وہ جدوجہد فردِ واحد کا ثمر نہیں تھی بلکہ اس میں پوری قوم نے حصہ لیا تھا‘‘۔ اس جملے کو عوامی لیگ نے مجیب کی توہین قرار دے کر چیف جسٹس کے خلاف مخالفانہ بلکہ توہین آمیز مہم چلانے اور دبائو بڑھانے کا آغاز کیا ،تاکہ وہ استعفا دیں۔

یہ مسئلہ اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جب جسٹس سنہا نے چند روز قبل ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیا کہ: ’’ہمیں جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تو وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا ہے، لیکن کیا وہاں پر سپریم کورٹ کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘ اس جملے کا میڈیا پہ آنا تھا کہ حسینہ واجد نے اسی روز شدید غصے اور برہمی میں چیف جسٹس سنہا کا نام لیے بغیر کہا:’’اسے اب سپریم کورٹ چھوڑنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا موازنہ کیا ہے۔ کسی معاملے میں پاکستان کی مثال پیش کرنا ہمارے لیے توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت فعل ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’عوام کی عدالت زیادہ بڑی عدالت ہے۔ کوئی فرد عوام کی عدالت کو نظرانداز نہیں کرسکتا، میں عوام ہی کی عدالت سے انصاف کی طالب ہوں‘‘۔ حسینہ واجد کے مذکورہ بیان کے چند گھنٹوں بعد ۱۹۶۹ء کی عوامی لیگی اسٹوڈنٹ لیڈر موتیا چودھری،  جو آج کل وزیرزراعت ہیں، نے بیان داغا: ’’چیف جسٹس کو ملک چھوڑ دینا چاہیے یا پھر دماغی امراض کے ہسپتال سےعلاج کرانا چاہیے‘‘۔ اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی مذمت کی کہ: ’’عوامی لیگی حکومت نے عملاً چیف جسٹس کو قیدی بنا رکھا ہے‘‘۔ (India TV News Desk، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)

ڈھائی ماہ پر پھیلی اس دھماچوکڑی کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو چیف جسٹس سنہا نے ایک ماہ کی رخصت پر آسٹریلیا جاتے ہوئے اخبار نویسوں کو چند سطروں پر مشتمل یہ تحریر دی: ’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ صحت مند ہوں۔ میں بھاگ نہیں رہا بلکہ واپس آئوں گا۔ اگرچہ مجھے حکومتی رویے سے دُکھ پہنچا ہے لیکن عدلیہ کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنا کردارادا کروں گا‘‘ (ڈیلی نیوایج، ۱۴؍اکتوبر)۔ چیف جسٹس کی پرواز کے صرف تین گھنٹے بعد ان کے خلاف گیارہ الزامات کی فہرست جاری کردی گئی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے ان الزامات کی موجودگی میں چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)

مزید یہ کہ قائم مقام چیف جسٹس محمد عبدالوہاب میاں نے چیف جسٹس سریندرکمار سنہا کے آسٹریلیا روانہ ہونے کے ۴۸گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ۲۵اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر تبادلے کر دیے ہیں۔ ان عدالتی افسروںمیں جسٹس سنہا کے قریبی رفقا شامل ہیں۔ اس اقدام سے ایک ہی روز قبل وزیرقانون انیس الحق اور اٹارنی جنرل محبوب عالم نے بیان دیا تھا کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس تمام اقدامات اور فیصلے کرسکتا ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶؍اکتوبر)

جماعت اسلامی  کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم معصوم نے اس صورتِ حال کو: ’’عدالتی معاملات میں حکومت کی سیاسی، حکومتی اور غیراخلاقی مداخلت قرار دیا، اور کہا کہ دراصل حسینہ حکومت عدالتی افسروں، ججوں اور عدالتی عمل پر مکمل گرفت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘،جب کہ   قائم مقام چیف جسٹس نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ: ’’جسٹس سنہا کو جاتے جاتے منصب کے احترام میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘‘ (ڈیلی اسٹار ، ۱۷؍اکتوبر)۔ پیش نظر رہے کہ جسٹس سنہا نے ڈھائی ماہ تک عوامی لیگی طوفانی پروپیگنڈے، گندے کارٹونوں اور گھنائونے الزامات کے جواب میں صرف یہی تین جملے لکھے۔

اس صورتِ حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے، بھارت اپنی نوآبادی بنگلہ دیش کا نظام ٹھیک طور سے نہیں چلنے دینا چاہتا۔ اس کی یہی کوشش ہے کہ ۱۶کروڑ آبادی کا یہ ملک ہرآن کسی نہ کسی افراتفری کا شکار رہے ، تاکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں وہ ایک مجبور اور غیرمستحکم ریاست کے طور پر تاجِ دہلی کا دست ِ نگر رہے۔ اس آئینے میں، اس خطّے ہی کے نہیں بلکہ خود   عرب دنیا کے نام نہاد علاقائی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب بڑی طاقت ، نفرت کے بل پر نام نہاد آزادی دلاتی ہے تو بنیادی کنٹرول اپنے ہاتھ ہی میں رکھتی ہے۔ اپنی ملّت سے غداری کرنے والوں کو محض علامتی اختیار دیتی ہے اور لیلاے اقتدار سے نہیں نوازتی۔

o

 بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک برما (میانمار) میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل جاری ہے۔ اس دوران عوامی لیگی حکومت نے بھی عزت، آبرو اور جان بچاکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل کر موت کی لہروں کے سپرد کیا۔ تاہم، گذشتہ چندماہ میں بنگلہ دیشی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی، جس کا بڑا سبب عالمی اور ملکی راے عامہ کا دبائو بھی تھا۔

روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف راے عامہ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حتی المقدور کوششیں شروع کیں۔ جماعت اسلامی کے امیرمقبول احمد نے روہنگیا مسلمانوں کی ناقابلِ بیان صورتِ حال، میانمار حکومت، میانماری فوج اور بدھ بھکشوئوں کی جانب سے بدترین قتل و غارت گری و بے چارگی پر دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم وطن اہلِ درد سے اپیل کی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، دنیابھر کے مؤثر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ مقبول احمد صاحب نے اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیامسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کو رُکوانے میں وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ میں عالمی تنظیموں، مسلمان ملکوں اور رفاہی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مدد  کے لیے تڑپتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کا ہاتھ بٹائیں۔ اس بحران میں پوری بنگلہ دیشی قوم یک آواز اور ہم قدم ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲ستمبر ۲۰۱۷ء)

عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) کے مطابق:’’ ۲۰ستمبر تک میانمار میں مسلمانوں کے ۲۴۴ گائوں مکمل طور پر تباہ کردیے گئے تھے‘‘(ڈیلی نیونیشن، ۲۰ستمبر)۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ۵لاکھ ۳۶ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش آچکے ہیں۔  اسی دوران حسینہ واجد کے سیاسی مشیر حسان توفیق امام نے مغالطہ انگیزی پیدا کرتے ہوئے کہا:  ’اراکان روہنگیا مجاہدین آزادی‘، بنگلہ دیش اور برما دونوں کے دشمن ہیں، ہم انھیں قدم نہیں جمانے دیں گے‘‘(مِزما نیوز،میانمار، ۲۱ستمبر)۔ اس کاغذی تنظیم کا تذکرہ کرکے بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان کے دُکھ درد میں اضافہ کیا۔ یہ  طرزِ بیان بھارت کی بی جے پی، آر ایس ایس اور برمی فوج کا ہے، جسے ڈھاکا حکومت نے اپنی طرف سے  نشر کیا۔ حسینہ واجد حکومت کے اسی دوغلے پن کو نظام احمد نے اپنے مضمون: ’ڈھاکا دہلی رومانس  اینڈ روہنگیا‘ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا(ڈیلی آبزرور ، ۲۰ستمبر)۔ پھر ۲۰ روز بعد روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تین رفاہی تنظیموں: مسلم ایڈ بنگلہ دیش ، اسلامک ریلیف اور علامہ فضل اللہ فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی اور صحافیوں نے اس انتہائی اقدام کا سبب جاننا چاہا، تو ڈائرکٹر رجسٹریشن نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)

درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت ، جہاں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِ زار کے نام پر دنیا سے مدد حاصل کر رہی ہے، وہیں نہ صرف عالمی سطح کی بلکہ مقامی رفاہی تنظیموں کو بھی ان کی مدد کے لیے ہاتھ بٹانے سے روک رہی ہے۔ روزانہ کوئی نئے سے نیا حکم نامہ آکر، بے لوث خادموں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صحافتی حلقے یہ بات برملا کہتے ہیں کہ: ’’ستمبر سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر قیدوبند کی حالیہ یلغار کے پیچھے ایک یہ سبب بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اَن تھک کوششوں سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا پول کھل نہ جائے‘‘۔

کسی قوم، معاشرے یا اجتماعیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہوتا ہے کہ اس میں اصحابِ علم و دانش کی فراوانی ہوتی ہے اور ارباب تدبر و تفکر کا وجود پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی اجتماعیت میں یہ جنس گراں مایہ کم ہو یا موجود ہی نہ ہو، تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، چاہے ظاہربین نظریں اس کی شان و شوکت، ہائوہو اور کثرتِ تعداد سے کتنا ہی دھوکا کھا بیٹھیں۔

مسلم اُمہ کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریک ِ احیاے اسلام کے لیے خاص طور پر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ایسی ہی سرمایۂ ملّت ہستی تھی۔ ایک صاحب ِ علم و فضل اور تحریک ِ پاکستان سے وابستہ عظیم شخصیت مولانا ظفراحمد انصاری صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستہ ہوئے، اور اس تنظیم کی علمی، فکری اور تہذیبی تشکیل کا بنیادی کردار ادا کرنے والی سہ رکنی ٹیم (دو ارکان خرم مراد اور خورشیداحمد) میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ جمعیت کا انگریزی ترجمان Student's Voice درحقیقت خورشیداحمد صاحب اور ظفرصاحب کی رفاقت کا چشمۂ فیض تھا۔ اسی عرصے میں جناب خرم مراد، جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو جمعیت کے دستور کی تدوین و تشکیل کا بنیادی کام بڑی جاں کاہی کے ساتھ اسی سہ رکنی ٹیم نے انجام دیا۔

 ظفراسحاق تعلیم مکمل کرکے تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہوئے۔ گیارہ برس کراچی یونی ورسٹی میں پڑھایا، ڈاکٹریٹ کے لیے میک گل یونی ورسٹی کینیڈا گئے اور پھر تدریس و تحقیق کے لیے بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دیں۔ دل و جان، فکروخیال اور مال و حال کی دولت لیے زندگی کی آخری ساعت تک تحریک ِ اسلامی کا حصہ بنے رہے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنا میدانِ کار، جلسہ اور جلوس کے بجاے تعلیم، تربیت، تحقیق اور رابطے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اور پوری زندگی اسی مورچے پر ڈٹے رہے اور اسی عالم میں ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو رحلت فرمائی، انا للّٰہ  وانا الیہ راجعون۔

ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی کے مدیر جناب سیّد عزیز الرحمٰن شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے قارئین کو ایسی دل کش، علم پرور او ر تہذیب و شائستگی سے مملو شخصیت سے متعارف کرانے کے لیے یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے۔ وہ آغاز میں لکھتے ہیں: ’’یہ اشاعت دراصل ڈاکٹر صاحب کو ایک طالب علمانہ خراجِ عقیدت ہے، اور بس۔ گزرنے والوں کو یاد رکھنا اور بھول جانے والوں کو  ان گزرے ہوئوں کی یاد دلاتے رہنا… اور کسی اِدعا کے بغیر یہ خدمت انجام دینا، اس اشاعت [کا مقصد] ہے… حضرت ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور متنوع بھی۔ ہم اس کا احاطہ تو کیا، سرسری تذکرہ بھی نہیں کرسکے۔ یہ صرف ابتدائی نوعیت کا یادنامہ ہے‘‘(ص۹)۔ ہمارے خیال میں یہ سرسری تذکرہ نہیں بلکہ بے قدری اور مردم ناشناسی کے سنگین ماحول میں، ایک بھرپور خراجِ عقیدت ہے، جس پر جناب عزیز الرحمٰن مبارک باد کے مستحق ہیں۔

یہ خصوصی شمارہ جناب ظفر اسحاق انصاریؒ کی یاد میں مطبوعہ اور کچھ غیرمطبوعہ مضامین کے علاوہ ان کی چند تحریروں، کچھ دیباچوں اور خطوط پر مشتمل ہے۔ مشمولہ مضامین کی خوشبو کا رچائو، شخصی خوبیوں کے اعتراف کا بہائو اور ایک رشکِ دوراں شخصیت کی اُلفت، قاری کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ ان احوال و آثار پر مشتمل ۲۸مضامین میں سے چند اقتباسات مطالعے کے لیے حاضر ہیں:

ظفرصاحب کے ۶۷ برس کے رفیق لبیب، پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں:  ’’راجا بھائی [ظفراسحاق] اور خرم بھائی، تحریکِ اسلامی میں میرے پیش رو ہی نہیں بلکہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ڈاکٹرسیّد سلمان ندوی نے بتایا ہے: ’’وہ مجلسی آدمی نہیں تھے، لیکن علمی راے پیش کرنے اور مدلل گفتگو کا عمدہ سلیقہ رکھتے تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا… [جو] قرآنِ کریم کے چند بہترین انگریزی ترجموں میں سے ایک ہے‘‘ (ص ۳۹، ۴۰)۔ پروفیسر خورشید احمد کے بقول: ’’مولانا مودودی نے ترجمۂ قرآن، اُردوے مبین میں کیا تھا، اور ظفراسحاق نے اسے انگریزیِ مبین میں ڈھال دیا، جو ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے‘‘۔ (ص ۵۱)

طبعی طور پر: ’’[ظفرصاحب] ان چند افراد میں سے ایک تھے، جو اکثر و بیش تر وقت، کسی گہری سوچ بچار اور اسے احاطۂ تحریر میں لانے میں صرف فرماتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنا سرمایۂ تحریر، صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر حافظ افتخار احمد،ص ۲۵)۔   ایک کرم فرما کہتے ہیں: ’’ان کی دل چسپی صرف فقہی احکام تک محدود نہیں تھی، وہ دین کے تمام بنیادی تصورات کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے تھے‘‘ (ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ص ۷۲)۔  سچی بات یہ ہے کہ: ’’انصاری صاحب کا شمار اہلِ علم کے قبیلے کے ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے، جو جدید مغربی علوم اور افکار و علومِ اسلامی دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں‘‘ (احمد حاطب صدیقی، ص ۱۴۸)۔ اسی طرح مفتی محمد زاہد بیان کرتے ہیں: ’’ان کے انہماکِ علمی کا اندازہ تو ان کے علمی و تحقیقی کام کی وسعت اور گہرائی سے لگایا جاسکتا ہے… ایک طرف تو علم و تحقیق میں فنائیت کی حدتک پہنچا ہوا   یہ انہماک، دوسری طرف ملنساری اور خوش خلقی ایسی کہ اس علمی انہماک نے خشکی نام کی کوئی چیز ان [کے مزاج] میں پیدا نہیں ہونے دی‘‘ (ص ۸۳)۔ پھر یہ کہ: ’’وہ زندگی کے آخری لمحات تک علمی کام کرتے اور دوسروں کو علمی کام پر [لگاتے] رہے۔ شدید بیماری کے زمانے میں بھی انھوں نے علمی کام مکمل کیے‘‘۔ (علی طارق، ص ۱۵۹)

کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔ نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں: ’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)

خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میںنے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔

تہذیبی ترفع ظفرصاحب کی شخصیت کا امتیازی پہلو تھا: ’’سلام میں پہل، مسکرا کر ملنا، محبت سے مصافحہ اور تمام متعلقین کے حال اَحوال دریافت کرنا ان کی مخصوص عادتیں تھیں…ایک مرتبہ جب وہ بہ طور صدرِ جامعہ (بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی) فرائض انجام دے رہے تھے، اطلاع ملی کہ طلبہ کے احتجاجی جلوس میں مخلوط ماحول دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کا انھوں نے فوری نوٹس لیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آیندہ اس قسم کا ماحول جامعہ میں برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ (ڈاکٹر سہیل حسن، ص۷۹)۔ اور یہ کہ: ’’ڈاکٹر صاحب بلاشبہہ ایسے خوش نصیبوں میں سے تھے، جو حق کو دائرۂ شعور کا زندہ مرکز بنا لیتے ہیں اور خیر کو دائرۂ وجود کا… بارہا دیکھا کہ کسی نے منہ پر ان کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ابتدائی فقرہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔اپنی مدح سننے سے گریز کا یہ عمل رسمی عاجزی کے ساتھ نہیں، بلکہ بے تکلفی اور قدرے ناگواری کے ساتھ ہوا کرتا تھا‘‘ (احمد جاوید، ص ۴۴)۔  پھر یہ کہ: ’’ایک بہترین انسان اور تحقیق و تعلیم میں ہمہ تن مشغول رہنے والی شخصیت تھے، جو کسی طبعی علالت کو علمی و تحقیقی کام میں سنگِ گراں نہیں بننے دیتے تھے‘‘۔ (ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ص ۹۱)

طبیعت میں ایسی انسان پروری، شگفتگی اور دل آویزی کہ: ’’یوں ہی خیال آتا ہے کہ اگر مولانا مودودی صاحب کے پیش کردہ نظریا ت کے نتیجے میں [ظفراسحاق] انصاری صاحب جیسے لوگ پیدا ہونے لگیں، تو ہم جیسے [تصوف کے طرف دار] لوگ اسی پر مطمئن ہوجائیں، کیوںکہ تصوف کا منشا بھی تو یہی ہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہو، جس میں انسان انسان کی ڈھال بنے، اس کے لیے تلوار نہ بن جائے‘‘۔ (ڈاکٹر نجیبہ عارف، ص ۱۱۹)

قرآنِ عظیم سے محبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شیفتگی کے مظاہر ان کی زندگی میں کئی حوالوں سے سامنے آتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب انتہائی رقیق القلب تھے۔ میں نے خود دیکھا جب ایک محفل میں نعت ِ رسولؐ پڑھی جارہی تھی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘ (ڈاکٹر ضیاء الدین رحمانی، ص ۱۴۶)۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمٰن لکھتے ہیں: ’’نعتیہ اشعار سناتے وقت ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے والہانہ عشق کے غماز ہوا کرتے تھے۔ گاہے کوئی پسندیدہ شعر سنانے کو جی چاہتا تو دفتر بلواتے اور محبت سے سناتے۔ ایک مرتبہ آسی جونپوری کا ایک شعر رندھی ہوئی آواز میں سنایا  ؎

وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد

تیرے نام کی رَٹ ہے ، خدا کے نام کے بعد

ایک مرتبہ طلب فرمایا اور ماہرالقادری کا یہ شعر سنایا:

تاروں سے یہ کہہ دو کوچ کریں، خورشید منور آتے ہیں

قوموں کے پیمبر آ تو چکے، اب سب کے پیمبر آتے ہیں

(ص ۶۷)

وہ ایک بہترین مترجم، شان دار مصنّف،اعلیٰ پاے کے دانش ور، شفیق استاد اور نجیب الطرفین انسان تھے۔ کارِ تحقیق اور اشاعت ِ دین ہی کے جذبے نے انھیں اُردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر دسترس کے حصول پہ اُبھارا۔ان کی وفات پر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے دُکھ کا اظہار اس آہ کی صورت میں کیا: ’’ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری رخصت ہوئے تو اربابِ صحافت اور سیاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کسی نے ایک کان سے سنا بھی، تو دوسرے سے اُڑا دیا۔ نہ صدر مملکت کا کوئی بیان نظر سے گزرا، نہ وزیراعظم کی توجہ ہوئی، اور  سراج صاحب بھی لاتعلق نظر آئے… شوروغوغا کو زندگی سمجھ لینے والے معاشرے بالآخر کہاں پہنچ جاتے ہیں، یہ جانے والے کے لیے نہیں، یہاں رہ جانے والوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے‘‘۔ (ص ۹۶)

اس مختصر تبصراتی مضمون میں اسی قدر ذکرِ یار ممکن ہے، جب کہ راہروانِ عشق، اس داستانِ لذیذ کو مذکورہ اشاعت کے مطالعے ہی سے آویزئہ گوش بنا سکتے ہیں۔ [اشاعت ِ خاص، ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی]، مدیر:سیّد عزیز الرحمٰن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز ۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰- ۰۲۱۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

ہر موسم کے اپنے پھل اور ہر زمانے کے اپنے ’نمونے‘ (ماڈل) ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے کا نمونہ ’بیانیہ‘ سے منسوب ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ایک غیر معروف مصنف کی شرانگیزی کو ایجابی طور پر اپنے ’بیانیہ‘ میں پیش کیا اور ایمن الظواہری سے منسوب قول دہرایا: ’’سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں، جنھوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی… [سید قطب] کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے‘‘۔

یہ نقل کرنے کے بعد ندیم صاحب نے لکھا ہے: ’’میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ [ان] کی کتاب معالم فی الطریق  کا اردو ترجمہ میں نے بچپن میں پڑھا [تھا، جس] کے تعارف میں لکھا ہے، جب فوجی عدالت نے سید قطب سے پوچھا کہ اُن کے اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ’لافرق‘ (کوئی فرق نہیں ہے)‘‘۔ موصوف نے اپنے ’بیانیے‘ میں زور پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے: ’’میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دور جدید میں جہادی اور تکفیری سوچ کے بانی سید قطب ہیں… اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں، اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔دیکھیے، اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے؟ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ’لافرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، ۱۵؍اپریل۲۰۱۷ء)

درحقیقت یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے، جس میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہورہی ہے، اس کا منبع سیّد قطب شہید اور اخوان المسلمون کی فکر ہے۔ چوںکہ سیّدقطب نے اپنے آپ کو مولانا مودودی کا ہم خیال قرار دیا ہے، اس لیے جماعت اسلامی والے اس ’مذموم سوچ‘ سے اپنی علیحدگی کی وضاحت کریں ورنہ وہ بھی اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔

کسی فرد کے لکھنے اور بولنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ موصوف اپنے ہر اس کالم میں، جو وہ اہلِ مذہب کی ’اصلاح‘ کے جذبے سے لکھتے ہیں، ان میں اِدعا کی کثافت اور سرزنش کا انداز پایا جاتا ہے، اور اکثر احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ انھوں نے اس تحریر میں ہوشیاری بلکہ سفاکی سے، مغرب کے اُس بیانیے کو دُہرا ڈالا ہے، جسے وہ گذشتہ ۲۵برس سے ہر آن مسلم دانش کے سرتھوپے چلے جا رہا ہے، اور سید قطب شہید کو حالیہ زمانے کی تمام ’دہشت گردی کا مرکز‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔

مولانا مودودی اور سیّد قطب شہید کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ان دونوں حضرات نے کبھی تکفیر اور کفرسازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے تکفیری فکر کی ترویج  یا تائید کی ہے؟ جس طرح سید مودودیؒ کے بارے میں برعظیم جنوبی ایشیا کا کوئی باشعور شخص یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح سید قطب شہید کا لٹریچر ان الزامات کا جواب خود دیتا ہے۔

ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں:یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مومن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کوقتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مومن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میںذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو… وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا… جو شخص، مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے… اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علماے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہے‘‘… (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۳۶ء)

ہم دیکھتے ہیں، سیّد قطب شہید نے سہ طرفہ جبر، یعنی: مغربی سامراجی سازشیوں،اشتراکیت کے پرچم برداروں اور عرب قوم پرستی کے نشے میں مدہوش عرب فوجی حاکموں کا جبر دیکھا اور اس کا سامنا بھی کیا، مگر اس کے باوجود سید قطب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ: ’’میرے ہم نواؤ، اُٹھو اور سوشلسٹ عرب قوم پرست ڈکٹیٹر ناصر کی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو قتل کر ڈالو‘‘۔ نہ یہ کہا کہ: ’’جہاں کوئی امریکی یا یہودی نظر آئے، اسے پھڑکا دو‘‘۔ نہ انھوں نے اُس جاہلیت کوجو اشتراکیت، سرمایہ دارانہ مادہ پرستی اور نسلی قوم پرستی کے مرکب سے سرطان کا پھوڑا بن چکی ہے اور اس نے نوعِ انسانی کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے بارے میں کہا کہ: ’’اِس کے فرستادوں کو اڑا دو‘‘۔ ہرگز نہیں، بلکہ انھوںنے اس کے لیے دعوت، تنظیم اور اخلاقی تربیت ہی کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔

دوسری طرف مولانا مودودی نے اپنے عزیز از جاںکارکنوں [اللہ بخش ۱۹۶۳ء لاہور، محمدعبدالمالک ۱۹۶۹ء ڈھاکہ ، ڈاکٹر نذیراحمد۱۹۷۲ ء ڈیرہ غازی خان] کی لاشیں اُٹھا کر بھی بار بار یہی تلقین کی: ’’ہم نے کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیںکرنا، دعوت کا راستہ ہی اصلاح اور تبدیلی کا راستہ ہے۔ ہم نے کسی سازش کا حصہ نہیں بننا اور آئینی و جمہوری راستے ہی سے منزل کی طرف گامزن رہنا ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے ۹مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب میں ہدایت فرمائی تھی: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے‘‘ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲)۔جماعت اسلامی تو اگست ۱۹۴۱ء میں بنی، لیکن مولانا مودودی کی وہ تحریریں، جو انھوں نے اپنے دورِ نوجوانی میں اخبارات مسلم اور الجمعیۃ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۸ء کے زمانے میں لکھیں، ان میں بھی تشدد کے عمل کی تائید و تحسین نہیں کی، بلکہ گرفت اور مذمت کی۔

کالم نگار نے جماعت اسلامی کو اپنا ’موقف واضح‘ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تاریخ، عمل اور اس کا دستور اس پر واضح ہیں۔ ’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘ کی دفعہ ۵ (شق۳،۴) میں درج ہے: ’’جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔(دستور، ص ۱۵)

اسی طرح سیّد قطب کے فکری وارثوں، یعنی الاخوان المسلمون نے کبھی بغاوت اور تکفیر اور قتل و غارت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کا یہ تاریخ ساز جملہ اخوانی فکر کا حقیقی عکاس ہے، جو انھوں نے اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں فرمایا تھا کہ: ’’ہم پُر امن ہیں، پُرامن رہیں گے، اور ہمارا پُرامن رہنا تمھاری گولیوں اور توپوں سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوگا‘‘۔ مرشد عام اور ان کے ۴۵ ہزار جاں نثار آج بھی، مصر کی جیلوں میں صبر و ثبات کا نشان بن کر ہمارے معذرت خواہی کے دل دادہ دانش وروںکی تخیل آفرینی کا عملی جواب ہیں۔

سیّد قطب شہید نے اپنی کتاب معالم فی الطریق  میں یہ اصولی بات بیان کی ہے: ’’اسلام، جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرسکتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریے کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریے پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا۔ اسلام رہے گا یا جاہلیت‘‘ (اردو ترجمہ: جادہ و منزل، ص ۳۶۴-۳۶۵)۔ یہ اصولی بات سیّدقطب نے قرآن اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبّع میں کہی ہے، جس کی بازگشت صحابہؓ اور صلحاؒ کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو‘‘ (البقرہ۲: ۴۲)۔ مزید فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، ان مشرکوں کے علی الرغم‘‘ (التوبہ۹:۳۳)۔ یہ ابدی حقیقت قرآن میں موجود ہے تو سیّدقطب اپنی شہادت کے ۵۰سال بعد بھی کیوں گردن زدنی ہیں؟

اگر ایمن ظواہری نے اپنی صواب دید پر یہ کہا ہے کہ انھوں نے سیّد قطب کی تحریروں سے اپنی منزل کا سراغ پایا ہے، تو کسی بھی فرد کی جانب سے ایسا من مانا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی میں خوارج نے ایک منفی رول ادا کیا تھا اور آج منکرینِ حدیث یا درست لفظوں میں امریکی مرضی کے مطابق ’اسلام پیش کرنے والے‘ بھی قرآن ہی کو اپنے لیے ’ذریعۂ رہنمائی‘ قرار دینے کا دعویٰ کرکے اُمت کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ تو اب کیا یہ کہا جائے گا کہ خارجیوں اور منکرینِ  حدیث کی جدید ترین قسموں کا ذمہ دار (نعوذباللہ) قرآن ہے؟ اگر ایک فرد، سیّدقطب شہید یا علامہ محمد اقبال یا مولانامودودی کی تحریروں سے وہ شگوفہ نکالتا ہے، کہ جس پودے کو کبھی انھوں نے پانی دیا ہی نہیں تھا، تو وہ، ایسے کم فہم فرد یا شرانگیز گروہ کی حرکات کے کیسے ذمہ دار قرار پاتے ہیں؟

معذرت خواہ دانش ور، نہ تو سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو جان سکتے ہیں، نہ وہ زمان و مکان اُن کے تجزیے کی گرفت میں آسکتے ہیں، جن میں انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ شکوک و شبہات کی فصلیں بونے والے قلم کار، بھلا نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں؟ یک قطبی امریکی سامراجی عہد میں سانس لینے والے ’مغرب زدہ علما‘ کے لیے انسانی حقوق، امن، عدل، رواداری کے کاغذی الفاظ میں ’بڑی قوت‘ ہے، مگر ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی کوئی آوازکانوں سے نہیں ٹکراتی۔

ہمارے  ان پارا صفت قلم کاروں کو نہ توسامراجی سلطنتوں میں وسعت لانے والی مغربی سامراجی طاقتیں یاد آتی ہیں ، نہ اقوامِ متحدہ کی بارگاہ سے نازل ہونے اور قتل و غارت مسلط کرنے والی خونیں قراردادیں متوجہ کرتی ہیں، اورنہ ڈیزی کٹر اور بموں کی ماں یاد آتی ہے۔یاد آتا ہے تو بس یہ کہ کسی طرح شرق و غرب کے غاصبوں کو چیلنج کرنے والی کوئی آہ، چیخ بن کر فضا کو نہ چیر دے۔

یہی کالم نگار اس سے قبل متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام کی سیاسی تعبیر موجودہ المیے کی ذمہ دار ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پہلے انھی اصحابِ قلم کی تحریروں نے وہ قیامت کیوں نہ ڈھائی، جو آج ان کے سر تھوپی جارہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مظلوم مفکرین نے نہ وہ ’نظریہ‘ دیا تھا اور نہ وہ ’تنظیمیں‘ بنائی تھیں، جنھیں آج ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل یہ دانستہ مغالطہ انگیزی اس حقیقی مجرم اور سامراج کو بچانے کی یاوہ گوئی ہے، جس سے اصل قاتل سے توجہ ہٹاکر قتل اور آلۂ قتل کو، خود مقتول کے ذمے لگایا جارہا ہے۔

اہلِ صدق و صفا جانتے ہیں کہ ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے اگرچہ سیدقطب شہید دل اور سیّد مودودی دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کی باتوں کو آخری سند نہیں مانتے، یہ مقام تو صرف کلام اللہ اور سنت اور حدیث رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔

دنیا نے ظلم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ظالم، ظلم کی آخری حدوں کو چھونے کا کھیل پوری شدت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے بنگلہ دیش کا ہر دن ظلم کی نئی داستان لیے طلوع ہوتا ہے۔ یوں تو اُس سرزمین پر برپا ظلم کی ان داستانوں کے کئی عنوان ہیں، تاہم یہاں چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:

جیل میں یوسف علی کی رحلت

۱۸؍نومبر کو جماعت اسلامی جمال پور کے ۸۵ سالہ بزرگ رہنما ایس ایم یوسف علی، قید کے دوران ڈھاکا میڈیکل کالج میں انتقال کر گئے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل انھیں بنگلہ دیشی ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی تھی۔

مرحوم یوسف علی ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کے جمال پور سے قومی اسمبلی کے لیے اُمیدوار تھے۔ اُن دنوں وہ سنگھ جانی باہمکھی ہائی اسکول جمال پور میں ہیڈماسٹر تھے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی وہ مسلسل اسی اسکول میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس پورے زمانے میں ان کے خلاف کبھی کوئی فوجداری یا جنگی جرم کی نہ کوئی بات سنی گئی اور نہ کسی نے ان پر الزام لگایا اور نہ کہیں کوئی معمولی درجے کا مقدمہ ہی درج کیا گیا۔

۲۰۱۳ء میں یوسف علی صاحب کو ۸۲سال کی عمر میں ایک روز انھیں اچانک قید کر کے ڈھاکا سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر خانہ زاد مقدمے کے تحت پہلے جنگی ملزم بنایا اور ۲۰۱۶ء میں جنگی مجرم قرار دے کر عمربھر کے لیے قید کی سزا سنا دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ظالموں کی قید سے رہائی دلا دی، انا   للّٰہ     وانا    الیہ     رٰجعون۔

اس سے ٹھیک ۲۴ روز قبل اسی طرح کا ایک اور افسوس ناک واقعہ یہ رُونما ہوا کہ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو مسلم لیگ کے ۸۵سالہ سلیمان مُلّا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ۶۵سالہ ادریس علی کے خلاف متنازعہ ٹریبونل میں مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوا۔ ۲۶؍ اکتوبر کو سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے ٹریبونل کو آگاہ کیا: ’’مسلم لیگ شریعت پور سے تعلق رکھنے والے  امن کمیٹی سے وابستہ ملزم سلیمان مُلّا کا گذشتہ رات جیل میں انتقال ہوگیا ہے۔ جس پر ٹریبونل نے یکم نومبر تک مقدمے کی سماعت ملتوی کردی‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۲۷؍اکتوبر)

اس سے پیش تر بھی بنگلہ دیش کی قاتل حکومت اور سفاک عدالت کے ہاتھوں تین اور رہنما اسی طرح موت کی آغوش میں چلے گئے، جن میں:

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ۸۵سالہ بزرگ رہنما عبدالعلیم خان کو ۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی گئی تھی، وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریض تھے۔ اسی مرض میں قید کے دوران ۲۹؍اگست ۲۰۱۴ء کو انتقال کرگئے۔

جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اے کے ایم یوسف (پ:۱۹ مارچ ۱۹۲۶ء) کو قید کے دوران مذکورہ ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی۔ انھوں نے ۸۷برس کی عمر میں جیل ہی میں ۲فروری ۲۰۱۴ء کو رحلت فرمائی۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر اور عالم اسلام کے مایہ ناز فرزند پروفیسر غلام اعظم (پ:۷نومبر ۱۹۲۲ء) کو اس ٹریبونل نے ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کے روز ’موت تک سزاے قید‘ سنائی تھی۔ پروفیسر صاحب نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ۹۱برس کی عمر میں دورانِ اسیری انتقال فرمایا۔

دوسری طرف ۲۶؍اکتوبر کو بنگلہ دیشی فورسز اور پولیس نے بہیمانہ کارروائی کرکے ضلع جھیناہدہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے سات کارکنوں کو شہید کر دیا۔ اس طرح گذشتہ چار ماہ کے دوران اسی ضلع سے تحریکِ اسلامی کے ۱۴کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ (’BD جماعت‘ ، ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)

نومنتخب امیرجماعت کے خلاف مہم

۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو خفیہ بیلٹ کے ذریعے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ۴۰ہزار ارکان نے جناب مقبول احمد کو امیرجماعت منتخب کیا۔ مقبول احمد، فینی کے ایک معروف مقامی اسکول میں بطورِ استاد ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اُن کے بارے میں والدین، بچوں اور اساتذہ کی راے ہے کہ وہ ایک شریف النفس انسان، متوازن، مشفق عالم اور سراپا معلم ہیں۔ جب امیرجماعت  مطیع الرحمٰن نظامی کو حکومت نے قید کر دیا تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے انھیں چھے برس (۲۰۱۱ء-۲۰۱۶ء) تک بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر جماعت مقرر کیا۔

مقبول احمد صاحب جیسے ہی امیرجماعت منتخب ہوئے تو اگلے ہی روز انٹرنیٹ پر کسی نے     یہ جملہ اُچھالا: ’’مقبول احمد بھی جنگی مجرم ہیں‘‘۔ پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر جعلی کہانیوں اور   جھوٹے الزامات کی ایک طوفانی مہم برپا کر دی گئی اور انھیں ’جنگی جرائم‘ میں گھیرنے کے لیے دائرہ تنگ کیا جانے لگا، حالانکہ ۱۹۷۱ء میں وہ جماعت کے کوئی نمایاں فرد نہیں تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ قائم مقام امارت کے پورے چھے برس ہی میں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۱ء تک مقبول صاحب کو کبھی کسی فوجداری الزام کا سزاوار قرار نہ دیا گیا۔

چونکہ یہ سب کام اس منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کو کسی بھی اعتبار سے قدم جمانے نہ دیے جائیں۔ اس لیے مقبول احمد صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے ۲۲ویں روز ’جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت‘ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نورالاسلام نے ضلع فینی کا دورہ شروع کیا۔ یہاں پر جماعت کے مخالف اخبار کی یہ رپورٹ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے: ’’نورالاسلام نے منگل کی سہ پہر سرکٹ ہائوس پہنچ کر جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد کے خلاف ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کی تلاش کا آغاز کیا‘‘ (ڈھاکا ٹربیون، ۸نومبر ۲۰۱۶ء)۔

پھر عوامی لیگی لیڈر میر عبدالحنان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا:’’ہم مقبول احمد کے خلاف شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور اس کے لیے انٹرنیٹ، اخبارات پر گردش کرنے والی رپورٹوں کو بنیاد بنارہے ہیں‘‘(ڈھاکا ٹربیون، ۱۵نومبر ۲۰۱۶ء)۔سوال یہ ہے کہ اگر اُن پر واقعی ایک نہیں بلکہ ۱۰ہندوئوں کو قتل کرنے کا الزام تھا،تو اس جنگی جرم کے خلاف ۴۶ برس تک کیوں کسی نے آواز نہ اُٹھائی؟ کس فائل میں یہ کیس دبا ہوا تھا، کہ اس کی تلاش کا آغاز پانچویں عشرے میں کیا جارہا ہے؟ مقتولین کے کسی وارث نے کیوں ۴۶برس تک کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی؟ ان سوالوںکا جواب دینے کے بجاے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل یہی پروپیگنڈا کرکے جماعت کی قیادت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت کے حامل قانون دان بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کا     یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل اپنے قیام کے پہلے روز سے سیاسی انتقام اور عدل و انصاف کے قتل کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ مہینے بنگلہ دیشی وزیرخارجہ محمدشہریار عالم نے اسٹیٹس پارٹیز کی ۱۵ویں اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب ہمیں جنگی جرائم کے لیے عالمی سطح پر عدالت لگانے کے لیے ماضی کا رواج ترک کر دینا چاہیے، اور ملکی سطح پر ہی ایسے مقدمات چلانے کے رواج کو فروغ دینا چاہیے‘‘۔ یہ بیان عالمی انصاف اور عدالتی روح سے متصادم ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی حکومت کی بدنیتی آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی دوران میں بنگلہ دیشی حکومت کی انتقامی سوچ نے جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر مقبول احمد کو بے بنیاد الزامات اور مقدمات کے گرداب میں پھنسانے کا عمل شروع کر دیا۔ وہ ہے بنگلہ دیش کہ جہاں ایک گھنائونے عدالتی ڈرامے میں انصاف کا قتل اور جماعت اسلامی سے انتقام ہرقیمت پر‘‘۔(ہوفنگسٹن پوسٹ، ۲۲نومبر ۲۰۱۶ء)

چند پہلو یہ بھی ملاحظہ کیجیے:

  •   بھارت ویسے تو بنگلہ دیشی شہریوں کے بھارت میں داخلے کے لیے نہایت سخت پابندیاں لگائے ہوئے ہے، لیکن اس ریاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے طویل المیعاد منصوبے پر  عمل پیرا بھی ہے، جس کا نمایاں محاذ وہاں کی پڑھی لکھی قوت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ مثال    کے طور پر : ’’ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمشنر نے بنگلہ دیش سے کم از کم ۱۸سال کی عمر کے اُن تمام طالب علموں کو، جو بھارتی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، جملہ پابندیوں اور ویزے کی رسمیات سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیشی طالب علم درخواست دیں تو انھیں فوراً بھارتی ویزا جاری کر دیا جائے گا‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۹؍اکتوبر)

یہ چیز بھارت کے سیاسی عزائم اور مستقبل بینی کی دلیل ہے، جس میں عالمِ اسلام اور    خود پاکستان کے لیے سبق موجود ہے کہ وہ اپنی یونی ورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طالب علموں کے لیے وظائف کا اجرا کرکے انھیں اُمت سے جوڑنے کی بامعنی کوشش کریں۔

  •   ڈھاکا یونی ورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ابوالبرکات (ماسکو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے بڑے زوردار انداز سے اپنی تحقیق پیش کی ہے: ’’بنگلہ دیش سے روزانہ ۶۳۲ ہندو بھارت منتقل ہورہے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ ۳لاکھ ۳۰ ہزار ۶ سو ۱۲ بنتی ہے۔ ۱۹۷۱ سے قبل ۷۰۵ ہندو مشرقی پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے جاتے تھے۔ ۱۹۷۱ء سے ۱۹۸۱ء کے دوران یہ تعداد ۵۱۲؍افراد روزانہ تھی۔ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء کے دوران ۴۳۸ اور ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران ۷۷۴ ہندو بنگلہ دیش کو خیرباد کہہ رہے تھے۔ اس لیے میری تحقیق کے مطابق ۳۰سال بعد بنگلہ دیش کی سرزمین پر کوئی ہندو شہری باقی نہیں رہے گا‘‘۔ (ڈھاکا ٹربیون، ۲۰نومبر ۲۰۱۶ء)

یہ بے سروپا تحقیق جہاں مذکورہ پروفیسر کی ناقص معلومات کی دلیل ہے، وہیں خود بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو انتقام کا ہتھیار تھمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس بیان نے بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلم ہندو آبادیوں کے مابین تنائو کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خصوصاً برما کے مسلمان مہاجرین اور آسام میں مسلمانوں کے لیے سخت ناخوش گوار صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ’تحقیق ‘ کمیونسٹ بہی خواہوں کی ذہنی اُپج اور انتشار پروری کی منفرد مثال ہے (مخصوص این جی اوز کی جانب سے وقتاً فوقتاً اسی نوعیت کا پروپیگنڈا سندھ میں ہندو آبادی کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اور بھارت میں حقائق جانے بغیر مسلمانوں کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ: ’’تم مسلمان پاکستان میں ہندوئوں کو تنگ کر رہے ہو‘‘۔ حالانکہ سندھ میں اس نوعیت کی کوئی فضا نہیں)۔

یہ ’تحقیق‘ اس پس منظر میں اُچھالی گئی ہے کہ ۳۰؍اکتوبر کو برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں پر حملے ہوئے، جن پر پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کی ہندو آبادی میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات میں، عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی شرانگیز کوشش کی، جسے نہ صرف جماعت اسلامی نے مسترد کیا بلکہ مظلوم ہندوئوں کی بحالی کے لیے کوششیں کیں۔ دوسری طرف ڈھاکا کے ایک میڈیا ہائوس کی تحقیق کے مطابق: ’’برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں میں اور دکانوں پر حملے کا سرغنہ عوامی لیگی   ممبر پارلیمنٹ عبدالمقتدر چودھری ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۲نومبر ۲۰۱۶ء)

  •   بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کس نوعیت کے برادرانہ معاشی تعلقات ہیں؟ اس کی جھلک بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے: ’’۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء ہر دوممالک میں ۵ء۳۴ بلین ڈالر کی تجارت ہوئی، جس کے تحت انڈیا سے بنگلہ دیش کو ۴ء۷۷۶ بلین ڈالر اور     بنگلہ دیش سے بھارت کو ۵۶۴ملین ڈالر کی اشیا بھیجی گئیں‘‘ (روزنامہ فرسٹ پوسٹ، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)۔یہ چیز بذاتِ خود اس امر کی دلیل ہے کہ بنگلہ دیش ، بھارت کی محض ایک منڈی ہے۔
  •   عوامی لیگ کے بزرگ رہنما اور سابق وزیر عبدالرزاق نے سارک کلچرل سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے دستور میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دینے کی شق محض اسٹرے ٹیجک مجبوری ہے، جسے ہم کسی بھی وقت نکال باہر کریں گے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء)۔اس سے عوامی لیگ کی سوچ اور عزائم نمایاں ہوجاتے ہیں۔
  •   اخبار نے خبر دی کہ حسینہ واجد نے ان ۲ہزار بھارتی فوجیوں کو اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا جو ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران پاکستان کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔یاد رہے کہ NDTV کی رپورٹ (۱۶دسمبر ۲۰۱۱ء) کے مطابق: ’’۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر ۳ہزار ۹سو بھارتی فوجی ہلاک اور ۹ہزار ۸سو۵۱ زخمی ہوئے تھے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۰نومبر ۲۰۱۶ء)

مذکورہ خبر پڑھ کر بنگلہ دیش کے قیام کو مکتی باہنی کا کارنامہ سمجھنے والوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ دراصل مشرقی پاکستان کو چاروں طرف سے بھارتی فوجی یلغار کا سامنا تھا، اور ان کا مقابلہ پاکستان کے محض ۳۵ہزار جوان کر رہے تھے، جو عملاً آٹھ ماہ سے محصور تھے، جنھیں نہ تازہ کمک حاصل تھی، نہ اسلحے کی وافر کھیپ میسر تھی، بلکہ سفارتی و ابلاغی سطح پر بھارتی اور اشتراکی پروپیگنڈے کی زد میں تھے۔ گذشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا ڈھاکا میں یہ اعلان کہ پاکستان توڑنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا، اور بنگلہ دیشی وزیراعظم کی یہ سپاس گزاری کہ: ’’ہم آنجہانی بھارتی فوجیوں کو اعزازت سے نوازیں گے‘‘، اصل کہانی بیان کرتے ہیں۔

یہ تمام پہلو بنگلہ دیش کی قومی اور سماجی زندگی پر چھائےظلم کے گہرے بادلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انصاف کے نام پر قتل کی داستانیں سناتے اور محکومی کی زنجیروں کی جھنکارکا پتا دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ظلم کا دریا بہے جا رہا ہے۔ ظالم بے حیا ہوتا ہے اور ہٹ دھرم بھی۔ یہی رویہ بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض ایک غیر نمایندہ ٹولہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہاں کے مسلمان اپنے لہو کے گھونٹ پیتے ہوئے، بے بسی کے عالم میں دنیاے اسلام اور عالمی ضمیر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

سرزمینِ بنگال پر تحریکِ اسلامی نے ۱۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو ڈھاکا یونی ورسٹی سے اپنے پہلے شہید محمد عبدالمالک کی میت اُٹھائی تھی، تو داعیِ تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا تھا: ’’اس راہ میں یہ پہلی شہادت تو ہوسکتی ہے آخری نہیں‘‘۔

درحقیقت وہ مستقبل بین نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کی سرزمین پر بے دینی، بنگلہ قوم پرستی، اشتراکیت اور ہندو انتہا پسندی نے جس زہر کا بیج بویا ہے، اس کے زہریلے پودے معلوم نہیں اور کتنے حق پرستوں کا لہو پئیں گے۔

اکانومسٹ (لندن) نے  Poisoning the well: Bangladesh کے زیرعنوان  بجاطور پر لکھا تھا:

اس ہفتے کے اختتام پر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ، جماعت اسلامی کے سب سے بڑے مالی معاون کی زندگی کے خاتمے کا راستہ صاف کردے گی، وہ جماعت جو بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اسلامی پارٹی ہے۔ ایک عدالت [؟] نے میرقاسم علی کو ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے علیحدگی کی مزاحمت کرنے پر سزاے موت دے رکھی ہے۔ ان کو پھانسی دینے کا عمل، بے بنیاد (flawed) مقدموں کے سلسلے کی ایک کڑی کو مکمل کرے گا، جسے حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے شروع کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کی تقریباً تمام قیادت کو چور دروازے سے پکڑ کر ڈھاکا سنٹرل جیل میں قید کررکھا ہے۔ …اصول کی بات ہے کہ ظالمانہ آمریت، انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے۔ اس طرح کانٹوں سے لتھڑا ’انصاف‘ بنگلہ دیش کو زہریلے کنویں پر کھڑا کرنے جا رہا ہے کہ جہاں سے اسے زہر کے گھونٹ ہی پینا پڑیں گے۔(۲۶؍اگست ۲۰۱۶ء)

اور پھر بنگلہ دیش کی ’سپریم کورٹ‘ نے ۳۰؍اگست کو نام نہاد عدالتی ٹریبونل کے اُس فیصلے (۲نومبر ۲۰۱۴ء) کی توثیق کرتے ہوئے نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی، جس کے تحت میرقاسم علی کو سزاے موت سنائی گئی تھی۔ میرقاسم علی کے وکیل خوندکر محبوب حسین نے عدالت کے صدردروازے پر کھڑے ہوکر واشگاف الفاظ میں کہا:

یہ جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں پر مبنی ایک فیصلہ ہے۔ مستقبل میں اور مستقبل کی نسلوں میں جو افراد شعبہ عدل و انصاف میں خدمات انجام دیں گے، ان کے سامنے یہ سوال ،جواب طلب رہے گا کہ کیا واقعی یہ فیصلہ جائز تھا؟ (ڈیلی اسٹار، یکم ستمبر۲۰۱۶ء)

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اسی لمحے اخباری نمایندے سے کہا: ’’یہ حکومت ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو ایک ایک کرکے پھانسی کے گھاٹ اُتار رہی ہے، اور میرقاسم علی کو بھی اسی سفاکی کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔ حالاں کہ یہ تمام مقدمات جھوٹے، الزامات جعلی اور گواہان کِذب و افترا کی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سپریم کورٹ حکومت کے خانہ ساز گواہوں اور جعلی ریکارڈ پر مبنی الزامات اورغیرعدالتی عمل پر مبنی فیصلوں کی توثیق کیے جارہی ہے۔ میرقاسم علی ۱۹۷۱ء کے پورے زمانے میں ڈھاکا میں تھے، لیکن ان پر قائم شدہ اور اب سزا کی بنیاد بنائے جانے والے مقدمے چٹاگانگ میں، اور چٹاگانگ ہی کے حوالے سے قائم کیے گئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس جھوٹے ڈرامے کے لیے، جھوٹے ڈرامائی گواہوں کو تیار کیا اور ان جعلی گواہوں کو وکلاے صفائی کی جرح سے بچاکر میرقاسم کی موت کے لیے مرضی کا فیصلہ لیا گیا ہے، جسے کوئی بھی باضمیر فرد قبول نہیں کرسکتا‘‘۔ (جماعت ویب: ۳۰؍اگست)

یورپی پارلیمنٹ کے ۳۵ ممبران نے حسینہ واجد کو ایک مشترکہ خط میں لکھا: ’’ہم اپنی اس فکرمندی کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے تحت بنگلہ دیش میں ایک مقامی اور غیرقانونی عدالت میں عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑاتے عمل کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ہم   بنگلہ دیش حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی پر باربار متوجہ کر رہے ہیں، اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ آپ کا خصوصی ٹریبونل عدل، قانون اور بین الاقوامی قانون کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اُترتا، لیکن آپ کے ہاں سے اس عدالت کے نام پر اب تک ۱۷؍افراد کو موت کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، (جن میں سے کچھ پھانسی پاچکے ہیں، کچھ جیلوں میں پھانسی کے منتظر ہیں اور کچھ بیرونِ ملک ہیں)۔ ہم خبردار کرتے ہیں کہ جب تک بنگلہ دیشی انتظامیہ، شفاف عدالتی اور قانونی عمل کے ذریعے میرقاسم علی کے مقدمے کو نہیں سن لیتی، اس وقت تک انھیں انتہائی سزا دینے سے اجتناب برتے۔ اسی طرح ہم میرقاسم علی کے بیٹے بیرسٹر میراحمد بن قاسم کے غیرقانونی اغوا و گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، جو اپنے والد کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک بات ہے کہ اس نوجوان وکیل کو ۹؍اگست [۲۰۱۶ء] سے غائب کرکے، اپنے والد کی وکالت کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ ہم احمد بن قاسم کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں‘‘۔ (۳۵؍ارکانِ پارلیمنٹ کے دستخط)

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان ۳۵؍افراد میں کسی ایک فرد کو پاکستانی نہیں کہہ سکتے، کوئی ایک فرد بھی بنگلہ دیشی نہیں، اور کوئی ایک ممبر مسلمان بھی نہیں۔ یہ معزز ارکان پارلیمنٹ،    (جو یورپ کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں) صرف عدل اور انصاف اور انسانیت کے نام پر، بھارت نواز حسینہ واجد کو توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ گھنائونے اقدامات سے گریز کرے۔

۳ستمبر کی صبح عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ایک طویل بیان میں، میرقاسم علی کے مقدمے میں بدنیتی اور عدالتی معاملات میں قانون شکنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ’’سیاسی انتقام بازی کے بجاے قانونی طریق کار کو اختیار کیا اور دنیا بھر کے تسلیم شدہ قانونی اصولوں کو اپنایا جائے‘‘۔ مگر کہاں؟ ڈھاکا کے ایوانِ اقتدار میں ایک ہی زبان بولی جارہی ہے: ’موت!‘

قاسم پور سنٹرل جیل نمبر۲ ڈھاکا کے سپرنٹنڈنٹ پرشانتا کمار نے ۲ستمبر کو۱۱بجے اپنی جیل میں قید میرقاسم علی کو پیغام دیا کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ اگر اپیل نہیں کریں گے تو کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے‘‘۔ میرقاسم علی نے بڑے پُرسکون انداز میں موصوف کو جواب دیا: ’’کس جرم پر رحم کی اپیل؟ اور کس سے رحم کی اپیل؟ میں کسی صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا، جب کہ مَیں نے ایسا کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے‘‘۔ پرشانتاکمار نے  سہ پہر کے وقت یہ بات ڈھاکا     ٹربیون کے نمایندے کو بتائی۔

پھر سپرنٹنڈنٹ نے ساڑھے تین بجے سہ پہر میرقاسم علی کے اہلِ خانہ کو اس امر کی اطلاع دے دی کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کی رعایت نہ لینے کے سبب وہ آخری ملاقات کے لیے تیار ہوں‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈھاکا سے شمال کی جانب ۴۰کلومیٹر دُور قاسم پور جیل میں پھانسی دینے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔

میرقاسم کی اہلیہ نے آخری ملاقات کے بعد کہا: ’’مَیں اپنے اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میرقاسم کو پھانسی دینے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ میرقاسم بے گناہ ہیں اور اسلام کے لیے جان دے رہے ہیں‘‘۔

آخرکار اس دنیا میں کالے قانون کے علَم برداروں اور کالی حکمرانی کے سوداگروں نے ۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے نوبجے رات میرقاسم علی کو پھانسی دے دی___      اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی میت پونے تین بجے گائوں مانگ گنج پالا پہنچائی گئی، جہاں ساڑھے تین بجے تدفین عمل میں آئی۔ بنگلہ دیش بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔

میرقاسم علی ۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء کو مانک گنج میں پیدا ہوئے اور ہائی اسکول میں ۱۹۶۷ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستگی اختیار کی۔ چند برسوں بعد اس کے رکن بن گئے۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے گائوں چلے گئے اور پھر ڈھاکا آکر تعلیم کی مکمل کی۔ ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی تاسیس کی۔

میرقاسم علی رفاہِ عام کے کاموں میں ایک بڑی سرگرم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ڈائرکٹر تھے۔ دگنتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین تھے، جس کے زیرانتظام بنگلہ دیش کا مشہور نجی چینل ’دگنتا ٹی وی‘ کام کر رہا تھا۔ انھوں نے ’ابن سینا ٹرسٹ‘ کے نام سے ایک بڑا نیک نام ادارہ قائم کیا۔ ’اسلامی انشورنس‘ کے نظام کی داغ بیل ڈالی۔ نظامت ِ دینی مدارس قائم کر کے دینی تعلیم کے نظام کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کیا۔ تعمیرِ مساجد کے لیے تنظیم قائم کی۔  بنگلہ دیش میں رابطہ عالمِ اسلامی کے مرکزی رہنما تھے۔ وہ بنگلہ دیش کی ایسی اوّلین شخصیت تھے، جس نے بڑے پیمانے پر غریبوں کے لیے معیاری ادویات کی مفت اور نہایت سستے داموں ترسیل کا خودکار نظام تشکیل دیا۔

دیانت، محنت، لگن اور حُسنِ سلوک پر مبنی انتظامی صلاحیت کے بل پر، وہ بلاشبہہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ ایک امیرترین شخص تھے، لیکن انھوں نےاپنی دولت کو اپنی آسایش و آرام پر خرچ کرنے کے بجاے جماعت اسلامی کے رفاہی کاموں، یتیموں اور مسکینوں کی امداد کے علاوہ دعوتی کاموں پر خرچ کرنے کو ترجیح دی۔ کروڑپتی انسان ہونے کے باوجود معمولی مکان میں نہایت قلیل سہولیات کے ساتھ قناعت کی زندگی بسر کی۔

۲۰۰۹ء کے بعد جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو، عوامی لیگی حکومت نے جسمانی، تعلیمی اور کاروباری سطح پر بدترین ظلم کا نشانہ بنایا۔ کارکنوں کو بے روزگار کیا۔ بہت سوں کو دانستہ طور پر   دائمی معذوری کے غار میں دھکیل کر زندگی اجیرن بنادی۔ لیکن ایسے ہرکارکن کے لیے میرقاسم علی، ان کی اہلیہ، ان کے بیٹے اور ان کی بیٹیاں ایک دست گیر، ہمدرد اور دردآشنا رفیق کے طور پر،    ایک مالی سرپرست اور شفیق معاون کی شکل میں حتی الوسع اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے رہے۔    ان کے بارے میں برطانیہ کے اخبار نے درست لکھا: ’’میرقاسم نے جماعت اسلامی کو اس بحرانی صورتِ حال میں کھڑا رہنے کے لیے گراں قدر رقوم دیں‘‘۔(ڈیلی میل، ۳ستمبر ۲۰۱۶ء)

ایسی بے لوثی اور اتنی بے مثال قربانی کا نُور، ظلم کے سوداگروں کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنا منہ  نوچ کر رہ جائیں۔ مادہ پرستی میں ڈوبی معاشرت میں ایسا سخی، نہ ان کے تصور میں آسکتا تھا اور نہ وہ اسے برداشت کرسکتے تھے۔ آخر شیطان نے یہی فیصلہ کیا کہ: ’’اس کی جان ہی لی جائے کہ یہ جیل میں قید رہنے کے باوجود، وسائل کو دوسروں پر لُٹا رہا ہے۔ اس کے اداروں کو تباہ اور اس کی جان کو ختم کرنا ہی ’روشن خیالی‘ ہوگی‘‘۔

غربت و ناداری سے برسرِجنگ اس سپہ سالار نے رسولِؐ رحمت کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے، رحمت کی چھائوں سے سبھی کو سیراب کیا، جن میں: مسلمان، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے سبھی شامل تھے۔ ان کا یہ جگمگاتا کردار، بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ تھا۔ اندھیروں کے پجاریوں کے لیے شاید یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ اس مشعل کو گُل کردیں۔

حالات کا دھارا بتاتا ہے کہ ظلم کی اس داستان کو ابھی: lشہید عبدالقادر مُلّا [۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء]l شہید قمرالزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]l شہید علی احسن محمد مجاہد [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء] lشہید صلاح الدین قادر چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]l شہید مطیع الرحمٰن نظامی [۱۱مئی ۲۰۱۶ء] اور lشہید میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء] تک نہیں رُکنا تھا، اس لیے یہ بادِ سموم اپنی زہر ناکیوں کے ساتھ اپنے رُوپ بدل بدل کر موجود ہے۔

ایک طرف غم کا یہ پہاڑ اور دوسری جانب میرقاسم بھائی کی شہادت کے اگلے روز بنگلہ دیشی وزیرداخلہ اسدالزماں کا یہ بیان کہ: ’’حکومت وہ تمام اقدامات اُٹھا رہی ہے، جن کے تحت اسلامی چھاترو شبر پر پابندی عائد کر دی جائے گی‘‘(روزنامہ پروتھم آلو، ۵ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ ایسے اقدامات جنگل کے قانون اور پاگل پن کے مترادف ہوں گے، جنھیں سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے: ’’یہ سیکولر فاشسٹوں کی جاہلیت پر مبنی وحشت کے سوا کچھ نہیں، گویا کہ آج کا ’روشن خیال‘ ذہن، اپنے آپ کو تاریکی کے کنویں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

میرقاسم کی شہادت کے چوتھے روز یعنی ۷ستمبر کو بنگلہ دیشی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور انیس الحق نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا:’’حکومت بڑی عرق ریزی سے ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں کو ضبط کرنے کا قانون بنارہی ہے‘‘۔ اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا: ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں اور دولت کو ضبط کرکے ۱۹۷۱ء کے متاثرین میں تقسیم کیا جائے‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)

یاد رہے، دو نام نہاد جنگی ٹربیونلوں نے اب تک ۲۶فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ ۵۰ کے مقدمات چل رہے ہیں، جب کہ ۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ مذکورہ بالا وزیرقانون نے کہا: اسلامی قانونِ وراثت کے تحت ’مجرموں‘ کے وارثوں میں جایدادیں تقسیم ہوچکی ہیں، جنھیں موجودہ قانون کے تحت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جنگی جرائم کے تحت ایک نیا قانون وضع کر کے یہ وسائل ان کے وارثوں سے واپس ضبط کرلیے جائیں‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)۔اگلے روز یہی وزیرقانون کہتے ہیں: ’’جنگی جرائم کے مجرموں کے بچے معصوم نہیں ہیں۔ وہ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں، مگر ہم ان کو بھی نہیں چھوڑیںگے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۹ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس سنگ دلی پر کیا تبصرہ کیا جائے!

نئی دہلی حکومت کے تابع بنگلہ دیشی آلۂ کار انتظامیہ اس کے سوا اور کر ہی کیا سکتی ہے کہ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے قوم کو تقسیم، پریشان اور متحارب رکھے۔ اسی ذریعے سے بھارت کے لیے سہولت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ ۱۶کروڑ کے بنگلہ دیش کو معاشی و صنعتی ترقی سے محروم اور اپنی تجارتی منڈی بنائے رکھے۔ باہمی فساد کو بنیاد بنا کر اپنی فوجی و سیاسی موجودگی کا جواز قائم کیے رکھے۔

ہماری یہ فکرمندی بے وزن بھی نہیں ہے۔ بھارت جو اپنے تئیں دنیا کی سب سے ’بڑی سیکولرجمہوریہ‘ کہلاتا ہے،وہ عدل کے قتل اور جمہوریت کی بربادی کی ’دہکتی چتا‘ بنگلہ دیش کے بارے میںیہ کہتا ہے:’’بھارتی حکومت بنگلہ دیش میں، ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کے مقدمات کی بھرپور تائید کرتی ہے‘‘ (وایکاس سروپ، ترجمان وزارتِ خارجہ، دی ہندستان ٹائمز، ۱۰ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس بیان میں پوشیدہ ڈھٹائی سے کون صاحب ِ نظر انکار کرسکتا ہے۔

اس پر بنگلہ دیش جماعت اسلامی مرکزی شوریٰ کے رکن حمید الرحمان آزاد نے جواب میں کہا: ’’بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں متنازع مقدمات کی حمایت کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ بھارت جنگی جرائم کے نام پر جماعت اسلامی کی قیادت کو چُن چُن کر مارنے کے اس شیطانی منصوبے کی تائید کر کے: جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کو قتل کرنے کا طرف دار ہے‘‘۔ (جماعت ویب: ۱۱ستمبر ۲۰۱۶ء)

مزید ظلم و زیادتی کا یہ پہلو کہ حسینہ واجد حکومت کی ہدایت پر بنگلہ دیش یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے ۲۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو تمام یونی ورسٹیوں کے نام یہ حکم نامہ جاری کیا:’’ یونی ورسٹی کیمپس میں اسلامی جمعیت طالبات [اسلامی چھاتری شنگھستا] کی جملہ سرگرمیوں کو سختی سے روک دیا جائے‘‘۔

ان تکلیف دہ حالات میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد اور ادارے نبردآزما ہیں۔

               

’’کیا بنگلہ دیش ایک آزاد مسلم ریاست ہے؟‘‘ اس اہم سوال کا جواب قدم قدم پر نفی میںملتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کے انسانیت سوز اقدامات سے ہر آن یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ بنگلہ دیش، بھارت کی ایک مقبوضہ ریاست کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر پر حکمران محبوبہ مفتی ہے تو بنگلہ دیش کی حاکم حسینہ واجد ہے۔ دونوں جگہوں پر مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والی ان حکومتوں کی سرپرست نئی دہلی سرکار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو لوگوں کو براہِ راست بھارتی کنٹرول نظر آتا ہے، تاہم ہر آنے والا دن اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی و خودمختاری بھی ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی کہ جہاں ہروہ معاہدہ اور ہر وہ حکم مانا اور نافذ کیا جا رہا ہے، جو نئی دہلی حکومت کے نزدیک ’بھارتی سلامتی‘ کا ضامن ہے۔ اس تناظر میں کون کہتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک آزاد، جمہوری، مسلم ریاست ہے؟

اس مضمون میں بنگلہ دیش کی افسوس ناک اور ناقابلِ بیان صورت حال مختلف حوالوں سے پیش کی جارہی ہے، جس سے کسی حد تک معروضی حالات کا اندازہ لگانا ممکن ہو سکے گا۔

دینی امور میں مداخلت

حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش کی مساجد سے لائوڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’صرف مسجد کے اندر ہی اذان دی جائے، کیونکہ اس سے معاشرتی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘‘۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی نے اس حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’اس جاہلانہ قدم کا تعلق لوگوں کی نہیں بلکہ حسینہ کی سلامتی سے ہے۔ ملک میں نہ صرف یہ کہ مسلمان، حکومتی وحشت کا شکار ہیں بلکہ خود ہندو بھی اس کی یک جماعتی آمریت سے عاجز ہیں، جس میں اسٹوڈنٹس لیگ کی غنڈا گردی عروج پر ہے‘‘۔ (۲۹جون کے بنگلہ دیشی اخبارات)

پھر ۱۳ روز بعدحسینہ واجد حکومت نے طے کیا کہ: ’’۱۵جولائی۲۰۱۶ء سے تمام مساجد میں خطباتِ جمعہ اور دروس قرآن کی محفلوں کے وعظوں کو مانیٹر کیا جائے گا۔ اسلامک فائونڈیشن بنگلہ دیش کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش کی ۲ لاکھ ۵۰ہزار مساجد میں نمازِ جمعہ کے خطبات دیے جاتے ہیں۔ اسلامک فائونڈیشن کے ڈائریکٹر صمیم افضل نے کہا کہ ہمارے ۷۰ہزار کارکن ان خطبوں کا ریکارڈ رکھا کریں گے،جب کہ حکومتی وزیر امیر حسین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں خطبوں کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیے ہم جن لوگوں کی مدد لیں گے، ان میں سماجی کارکن اور سیاسی پارٹیوں کے کارندے شامل ہوں گے‘‘۔ (ڈیلی اتفاق، ۱۳جولائی۲۰۱۶ئ)

جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے عوامی لیگی کابینہ کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’حکومت عام لوگوں کے مذہبی حقوق پر ڈاکا زنی پر اتر آئی ہے، اور نام نہاد سماجی و سیاسی کارکنوں کی مدد سے ایک بدترین آمریت قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہے، جسے قوم کا کوئی بھی باشعور فرد برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ (بی ڈی جماعت ویب، ۱۳جولائی)

رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق: ۱۰ نقاب پوشوں کے گروپ نے ضلع چواڈانگا میں عبادت گزار آٹھ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کے سر اور داڑھی کے بال کاٹ دیے۔ غالباً ان نقاب پوشوں کا تعلق آزاد خیال اور لبرل عناصر سے ہے‘‘۔ (رائٹر، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)، جب کہ جماعت اسلامی اور  بی این پی کے ذرائع کو یقین ہے کہ ان دہشت گردوں میں اسٹوڈنٹس لیگ کے کارکن شامل تھے۔

حکومتی پارٹی عوامی لیگ کی حمایت یافتہ اسٹوڈنٹس لیگ کے ظلم و تشدد کی داستانیں تو ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں، تاہم انھوںنے ایک قدم آگے بڑھ کر ڈھاکا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عارفین صدیقی کو ان کے گھر میں قید کرکے مرکزی دروازے پر تالہ ڈال دیا اور گھیراائو کرکے زبردستی استعفا لکھنے کے لیے دبائو ڈالا اور ہاتھوں میں جوتے اٹھا کر وائس چانسلر کے خلاف نعرے بلند کیے۔ ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ یونی ورسٹی کے سووینیر میں صدر ضیاء الرحمن کو بنگلہ دیش کا پہلا صدر لکھ دیا گیا تھا۔ یہ گھیرائو پانچ گھنٹے تک جاری رہا (بی ڈی نیوز۲۴، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)۔ یہ لوگ جب کسی استاد کا احترام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، تو ان کے نزدیک کسی مخالف کے لیے کیا جذبۂ ہمدردی ہوسکتا ہے!

جماعت اسلامی کو نظر انداز کرنے کی مھم

جماعت اسلامی کو گھیرنے کے لیے بھارتی لابی کس کس انداز سے کام کر رہی ہے، اس کا اندازہ ان مختلف کوششوں سے لگایا جا سکتا ہے، جن کے زور سے بی این پی کو دھکیلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر خالدہ ضیا کی پارٹی کے لیڈر ظفراللہ چودھری نے ایک کانفرنس کے دوران میں اپنی سربراہ سے کہا کہ: ’’جماعت اسلامی کو وہ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے نکال دیں‘‘ مگر خالدہ ضیا نے جوابی تقریر میں اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ملک کو محفوظ بنانے اور قانون کی حکمرانی لانے کے لیے ہم اور جماعت اسلامی مل کر جدوجہد کریں گے‘‘۔ (بی ڈی نیوز،۲۴  کام، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)

اس کے چند روز بعد بی این پی کے حامی انجینیروں اور ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے خالدہ ضیا سے مطالبہ کیا کہ: ’’۱۹۷۱ء کے حوالے سے جماعت اسلامی قوم سے معافی مانگے تو اس کے ساتھ چلا جائے‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۱۶؍جولائی)۔ دوسری جانب بی این پی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن حنان شاہ نے کہا: ’’بی این پی شدید دبائو میں ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو اتحاد سے الگ کرے، مگر ہماری سربراہ کا موقف ہے کہ ہم قوم کو متحد رکھنا چاہتے ہیں، منتشر نہیں کرنا چاہتے‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۱۶جولائی)۔ انھی حنان شاہ نے کہا: ’’جماعت اسلامی کی بطور سیاسی انتخابی پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے۔ عوامی لیگ نے گذشتہ بجٹ سیشن (جون) میںکہا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دیں گے، مگر ابھی تک کیوں پابندی نہیں لگائی گئی؟ حکومت ہم سے جماعت کی علیحدگی کی خواہش رکھنے کے بجاے، خود ہی اس پر پابندی عائد کرے‘‘۔ (یونائیٹڈ نیوز آف بنگلہ دیش UNB، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)

بی ڈی نیوز کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’خالدہ ضیا کو جماعت اسلامی سے الگ کرنے کے لیے بی این پی کے مؤثر افراد کا گروپ مسلسل کوشش کر رہا ہے، اور اب یوں لگتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک گروپوں کے تعاون کو حاصل کرنے کے لیے خالدہ ضیا مجبور ہوجائیں گی کہ جماعت کو ۲۰پارٹی اتحاد سے الگ کر دیا جائے‘‘ (بی ڈی نیوز۲۴، ۲۶جولائی)۔  بی این پی کے مرکزی دفتر میں امریکی، برطانوی، سعودی، ہسپانوی، ناروین، آسٹریلوی، جاپانی، انڈونیشی، جرمن اور اقوام متحدہ کے سفارت کاروںنے خالدہ ضیا سے ملاقات میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندی کے حوالے سے بریفنگ کے دوران سوال اٹھایا کہ: ’’آپ جماعت اسلامی سے اپنے  ربط و تعلق کہ وضاحت کریں؟‘‘ بیگم خالدہ ضیا نے جواب میں کہا کہ: ’’جماعت ایک اسلامی پارٹی ہے اور ہمارا ان سے اتحاد انتخابی تعاون، ملک میں جمہوری عمل اور عدل کی حکمرانی کی بحالی کے لیے ہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار،۲۸جولائی ۲۰۱۶ئ)

داخلی اور خارجی سطح پر بی این پی پر اس نوعیت دبائو کے باوجود: ’’بیگم خالدہ ضیا، جماعت اسلامی سے علیحدہ راستے اختیار کرنے میں مزاحمت کر رہی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پارلیمنٹ کی ۱۰۰ سے زیادہ نشستوں پر وہ جماعت اسلامی ہی کے ووٹ بنک سے کامیاب ہو سکتی ہیں‘‘ (ڈیلی سٹار، ۱۷جولائی۲۰۱۶ئ)۔ مگر حکومتی ذرائع اور بھارتی اثرات کے تابع ایک لابی اس مقصد کے لیے بی این پی میںمسلسل متحرک ہے، جس کی ایک مثال درج ذیل واقعہ ہے:

بی این پی کے ایک لیڈر اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عمادالدین احمد نے یکم اگست کو بطور پارٹی ترجمان بیان دیا تھا: ’’ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ جماعت کو اتحاد سے الگ کر دیا جائے گا، کیونکہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘‘۔ اس سے اگلے روز جماعتِ اسلامی کے   مرکز نے بی این پی سے وضاحت طلب کی، جس پر، پارٹی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر نے کہا: ’’یہ ان کے ذاتی خیالات تھے۔ نہ وہ پارٹی کے ترجمان ہیں اور نہ یہ پارٹی کا موقف ہے۔    ہم قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، تقسیم کرنا نہیں چاہتے، جماعت اسلامی اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے اور رہے گا‘‘۔ (روزنامہ اتفاق، ڈھاکا، ۴؍اگست۲۰۱۶ئ)

یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور بی این پی کا اتحاد حکومت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جس نے مشترکہ طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’حسینہ واجد حکومت، بھارت کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کو سیاسی، معاشی اور سفارتی سطح پر اس سطح تک دھکیلنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش ’سکم‘ جیسے بے مایہ اور بے حیثیت ملک کی سطح پر آگرے گا۔    دنیا بھر کے ممالک بنگلہ دیش میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں بات کررہے ہیں، مگر دنیا کے صرف دو ممالک بھارت اور روس نے آج تک یہاں جمہوریت کے تحفظ اور بحالی کا رسمی تذکرہ تک نہیں کیا‘‘۔ (روزنامہ نیا دگنتا ، ڈھاکا، ۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)

ایک ماہ بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ: ’’ہم نے بھارتی ریاستوں آسام، میگھالایا اور تری پورہ وغیرہ کو بھارت سے براہِ راست تیل اور مال برداری کی خاطر بنگلہ دیش کی سرزمین سے راہداری کی سہولت دے دی ہے‘‘ (انڈی پنڈنٹ، ۹؍اگست۲۰۱۶ئ)۔ اس پر بنگلہ دیش کے صحافتی، سیاسی اور دانش ور حلقوں نے احتجاج کیا کہ:’’ دوستی یک طرفہ مفادات کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاہدے میں بنگلہ دیش کے مفادات کا خون کیا گیا ہے‘‘۔ مگر حکومت نے تمام سیاسی اور اخباری حلقوں کے احتجاج کو مسترد کردیا۔ (دی نیوایج، ۲۱؍اگست ۲۰۱۶ئ)

بیکری کا خونیں واقعہ

یکم جولائی کی رات ڈھاکا کی ایک بیکری میںکچھ مسلح حملہ آوروں نے گھس کر ۲۴؍افراد کو قتل کردیا، جوابی کارروائی میں چھے حملہ آور مارے گئے۔ مگر حکومت کی پراپیگنڈا مشینری نے فوراً اس واقعے میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کو ملوث قرار دے دیا۔ بعدازاں بنگلہ دیشی وزیر داخلہ نے پاکستان کو بھی اس بہیمانہ واقعے کا ذمہ دار قرار دے ڈالا، لیکن ایک ہی روز بعد جب مارے جانے والے حملہ آوروں کی لاشوں کی شناخت کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک حملہ آور رومین امتیاز، خود ڈھاکا عوامی لیگی لیڈر امتیاز خان بابل کا بیٹا ہے، جو داعش سے وابستہ تھا۔ (بی ڈی نیوز، ۴؍جولائی)۔ اس سب کے باوجود عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو مسلسل الزامی حملوں کا نشانہ بنائے رکھا، حالانکہ اس نوعیت کا کوئی اشارہ تک موجود نہیں پایا گیا۔ البتہ اس حکومتی آواز میں کشور گنج کے سرکاری مولوی فریدالدین مسعود نے آواز ملائی اور جماعت کو موردِ الزام قرار دیا۔  جس کی جماعت اسلامی کی قیادت نے سخت الفاظ میں مذمت کی (بی ڈی جماعت، ۱۱؍جولائی)۔ ازاں بعد ایک مہینہ گزرا تو اسلام آباد میں بنگلہ دیشی ہائی کمشنر طارق احسن نے کہا: ’’بیکری حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں پایا گیا‘‘۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)

ایک طرف یہ منظر ہے تو دوسری جانب امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری براے جنوبی و مرکزی ایشیا نشاڈیسائی نے ڈھاکا پہنچ کر کہا کہ: ’’امریکا، بنگلہ دیش کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بچانے کے لیے مدد فراہم کرنے پر تیار ہے‘‘(بی ڈی نیوز۲۴،۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)۔ اور اس سے اگلے ہی روز ڈھاکا میں امریکا، بھارت اور بنگلہ دیش نے اس مسئلے پر باہم تعاون کے لیے سیرحاصل گفتگو کی (ایضاً، ۱۱جولائی۲۰۱۶ئ)۔ ہمارا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے مختلف واقعات کے ایک سلسلے کو پھیلا کر بھارت یہ چاہتا ہے کہ عوامی لیگ کے ذریعے بنگلہ دیش کو مختلف نوعیت کے ایسے دو طرفہ معاہدوں میں جکڑ دے، جن کی بنیاد پر وقت بے وقت بنگلہ دیش میں دراندازی کا بڑا دروازہ کھل جائے۔یکم جولائی کے اندوہ ناک واقعے کے کرداروں کو جاننے کے باوجود عوامی لیگی مشینری اور وزارتی ٹیم نے جماعت اسلامی کو اس میںملوث کرنے کی روش برقرار رکھی، جس کے خلاف ۲۶جولائی کو جماعت نے تفصیلی جواب دیا۔ اسی عرصے میں روزنامہ اتفاق (بنگلہ) اور ڈیلی انڈی پنڈنٹ نے اپنی اشاعتوں میں جماعت اسلامی کے خلاف زہر اگلا، جسے جماعت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’اگر اس حوالے سے حکومت اور ان اخبارات کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ عدالت میں پیش کرے‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۲۶جولائی ۲۰۱۶ئ)

مثال کے طور پر بیکری کے واقعے کے فوراً بعد نئی دہلی سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ: ’’بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کا معاہدہ ہونا چاہیے‘‘۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے خالدہ ضیا حکومت پر بھی دبائو ڈالا تھا، مگر ان کی حکومت نے داخلی خود مختاری کے تحفظ کی خاطر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم اب دوبارہ نئی دہلی سرکار اس معاہدے کے لیے سرگرم ہے کہ بھارت اور بھارت کی دوست حکومت کے لیے ایسا کرنے کی غرض سے حالات سازگار ہیں۔ (روزنامہ دکن ہیرالڈ، ۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)۔ آخر کار بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ عوامی لیگی حکومت ہی کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۳ء کے معاہدے میں ترمیم کرکے اس شق کا اضافہ کرا لیا کہ: ’’اگر ایک جج، مجسٹریٹ یا کوئی ٹربیونل یا کوئی اتھارٹی کسی فرد کے بارے میں وارنٹ جاری کرے، اور  ان دونوں ملکوں کا کوئی فرد، ان میں سے کسی ملک میں موجود ہو، تو اس فرد کو اس کے ملک کے سپرد کیا جائے گا، تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جا سکے‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۱۹جولائی۲۰۱۶ئ)

جماعت اسلامی، ھدف!

ایک بھارتی مضمون نگار، چرانمے کارلیکر نے بنگلہ دیش کے حوالے سے جہاں بہت سی  بے ربط اور بے جواز باتیںلکھی ہیں، وہیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا ہے (دیکھیے: دی پانیر، نئی دہلی، ۶؍اگست ۲۰۱۶ئ)۔ بھارت سے اس نوعیت کی پراپیگنڈا مہم کا صاف مطلب یہی ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت ایک ہی نوعیت کے ہدف پر اور ایک ہی لب و لہجے میں کام کررہے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا نے جماعت اسلامی کے خلاف ایک تفصیلی مضمون میں امریکی ماہرین سماجیات و سیاسیات کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نظریے کو جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ جماعت ایک متوازن اور ماڈریٹ سیاسی پارٹی ہے،   یہ ایسی سیاسی تحریک نہیں جو خلافت نافذ کرنے کی داعی ہو‘‘۔ (۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)

۶؍اگست ۲۰۱۶ء بنگلہ روزنامہ امادرشوموئی  نے وزیر داخلہ اسدالزماں کے حوالے سے بیکری سانحے میں جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم مرحوم، میر قاسم علی اور مولانا دلاور حسین سعیدی کے بیٹوں کو ملوث قرار دینے کی خبر شائع کی۔ جماعت کے مرکزی سیکرٹری نشرو اشاعت تسنیم عالم نے اس بیان کو گمراہ کن اور بدترین جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا، کہ اگر حکومت کے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے تو وہ میڈیا اور عدالت میں پیش کرے۔ (بی ڈی جماعت:۷؍اگست ۲۰۱۶ئ)

۱۵؍اگست، جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل غلام پروار میاںنے حکومتی وزیر مزمل الحق کے اس بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا، جس میں موصوف نے ۱۴؍اگست کو پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’جماعت اسلامی پر عنقریب پابندی عائد کر کے اس کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات ضبط کر لیے جائیں گے۔ وزیر کا یہ بیان مکمل طور پر غیر قانونی، غیرمنطقی اور غیر اخلاقی ہے۔ جماعت اسلامی ایک ذمہ دار پارٹی کی حیثیت سے ملک کے قوانین کا احترام اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، تو اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے کا کوئی جمہوری اور قانونی جواز نہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت:۱۶؍اگست ۲۰۱۶ئ)

اسلامی بنک بنگلہ دیش جسے عوامی لیگ صرف اس لیے تباہ کرنے اور اس کے اثاثے لوٹنے میںمصروف ہے کہ اس کا آغاز کرنے والے لوگوں میں سے کچھ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اس کے بارے میں ویکلی ہالی ڈے نے رپورٹ کیا ہے: ’’اسلامی بنک بنگلہ دیش کی سرمایہ کاری اور محفوظ رقم (ڈپازٹ) ۶لاکھ ۵۰ ہزار ملین ٹکا ہے، جو ۳۰جون تک ۵لاکھ۷۰ ہزار ملین ٹکا تھی۔  بنک نے زرمبادلہ میںکاروبار ۴لاکھ ۵۰ہزار ملین ٹکا میں کیا۔ جس کے برآمدات میں ایک لاکھ ۷۰ہزار ملین ٹکا اور درآمدات میں ایک لاکھ ۲۵ہزار ملین ٹکا تھے۔ بیرون ملک سے ایک لاکھ ۵۵ہزار ملین ٹکا کی ترسیلات بطور زرمبادلہ وصول کرکے قومی معیشت کا حصہ بنانے میںمعاونت کی۔ بنک کے کھاتہ داروں کی تعداد ۵ئ۱۱ ملین ہے، یہ تعداد ملک کے مجموعی کھاتہ داروں کا ۱۴فی صد ہے، اور دنیا میں اسلامی بنکوں کے کھاتہ داروں میں یہ تعداد ۲۵فی صد ہے۔ یہ معلومات صرف گذشتہ چھے ماہ کی ہیں‘‘۔ (Weekly Holiday، ۲۹جولائی ۲۰۱۶ئ)۔ اسی بنک کو برباد کرنے میں عوامی لیگ کے مقامی لیڈر، صحافی اور وزیر پیش پیش ہیں۔

۹؍اگست، ضلع بھاگر گھاٹ کے مقام مورول گنج میں، گورنمنٹ اسکول کے سابق پرنسپل ظہیرالحق کو جماعت اسلامی سے وابستگی کے جرم میں بری طرح مجروح کیا گیا اور اب وہ ہسپتال میں بہت خراب حالت میں داخل ہیں۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق انھیں عوامی لیگی غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے، جو بلا روک ٹوک ظلم و تشدد کیے جا رہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت:۱۰؍اگست ۲۰۱۶ئ)

جماعت کے گرفتار شدہ حامیوں میں کئی افراد کے بارے میں حکومت اس امرکا اعتراف ہی نہیں کرتی کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ حامد الرحمان نے بیان دیا ہے کہ: ’کشور گنج سے جماعت کی شوریٰ کے رکن پروفیسر مصدق علی کو ایک عرصے سے پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے، مگر وہ ان کی تحویل سے مسلسل انکار کیے جارہی ہے، جس پر ہمیں خدشہ ہے کہ انھیں ماوراے عدالت شہید کر دیا جائے گا۔ اسی طرح بیناپل (جیسور) سے اسلامی چھاتروشبر کے رہنما رضوان احمد کی گرفتاری کا ریکارڈ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے، جس پر ان کے والدین اور ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی المیہ ہوجائے گا۔ ‘‘ (بی ڈی جماعت، ۹؍اگست ۲۰۱۶ئ)

یہ کیسی سفاک حکمران عورت ہے کہ جو انسانوں کا خون پینے کے بعد بھی انھیں بخشنے کو تیار نہیں۔ اس چیز کا ایک ثبوت وہ تہمت ہے، جو ۲۱؍اگست کو تقریر کرتے ہوئے لگائی: ’’۲۱؍اگست ۲۰۰۴ء کو عوامی لیگ کے جلسے میں پھٹنے والا گرنیڈ حملہ علی احسن مجاہد نے کرایا تھا‘‘۔ (بنگلہ دیش ٹربیون، ۲۲؍اگست)۔ جماعت کے ترجمان حامد الرحمان نے اس افسوس ناک الزام کی سختی سے تردید کی ، اور کہاکہ جھوٹے مقدمات میں علی احسن مجاہد کی جان لینے کے بعد تو انھیں جھوٹی الزام تراشیوں سے معاف کر دو۔

عالمی سطح پر ردِ عمل

وائس آف امریکا (VOA) نے بنگلہ دیش میں حکومتی درندگی پر ۲۸جون۲۰۱۶ء کو ایک طویل رپورٹ نشر کی، جس کے چند حصے حسب ذیل ہیں:

انسانی حقوق کے گروپ اس امر پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیشی حفاظتی مشینری، خاص طور پر ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB)ظالمانہ طریقے سے لوگوں کو اٹھاتی، تشدد کرتی اور آخر کار اپنی تحویل میں قتل کر دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے یومِ یکجہتی مظلوماں کے موقعے پر ڈھاکا میں انسانی حقوق کی تنظیم ’ادھیکار‘ نے بتایا کہ: گذشتہ چند برسوں کے دوران میں ۱۱۶۹؍افراد کو بنگلہ دیش کی سرکاری ایجنسیوں نے ماوراے عدالت قتل کیا ہے، جب کہ اس سال صرف جون کے مہینے میں ۲۴؍افراد کو اس بہیمانہ طریقے سے مارا گیا ہے۔ ’ادھیکار‘ کے سیکرٹری عدیل الرحمان خاں کے بقول: قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کے عمل نے عدل و انصاف کا خون کرکے رکھ دیا ہے اور مزید   یہ کہ قانون نافذ کرنے والے سرکاری افسران بالفعل مجرمانہ ذہنیت اور اقدامات کے مہرے بن چکے ہیں۔ ماوراے عدالتی قتل و غارت گری حکومت کی پہچان بن چکی ہے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش، مہذب دنیا کے سامنے ایک بدنما داغ سے زیادہ کچھ پہچان نہیں رکھتا‘‘۔ انسانی حقوق کے علَم بردار اشرف الزماں کے بقول: ’’قانون کی حکمرانی کی جگہ بندوق کی حکمرانی کا دوسرا نام بنگلہ دیش ہے، جہاں نظر بندوں اور قیدیوں کو حکومت ماوراے عدالت قتل کرتی اور اسے پولیس مقابلے کا نام دیتی ہے‘‘۔ ایشیا ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے اپنامشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’سیاسی مخالفین کو دہشت زدہ اور گرفتار کرنے کے علاوہ غائب کرنے اور عدالتی کارروائی کے بغیر مار دینے کی بہت سی مثالیں بنگلہ دیش میں پائی جاتی ہیں۔  عوامی لیگ حکومت ’ریب‘ کو اپنے سیاسی مخالفین کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق ’ریب‘ کی صورت میں عوامی لیگی حکومت نے ایک منظم ’ڈیتھ اسکواڈ‘ بنا رکھا ہے، جسے عدل و انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس لیے ’ریب‘ کو لگام دینے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کے اس پورے کھیل کو ختم کرنا ہوگا‘‘۔ (VOA، ۲۸جون۲۰۱۶ئ)

اسی موضوع پر جارج ٹائون یونی ورسٹی کے اسکول آف فارن سروس کی پروفیسر کرسٹین فیر (Chritine Fair) نے ایک نشریے میں کہا ہے: ’’حسینہ حکومت: بی این پی اور جماعت اسلامی کی  کمر توڑنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہے اور اپنی اس یلغار پر کسی بھی تنقید و تبصرے کو سننے کی ہرگز روادار نہیں۔ اس حکومت کو حزب اختلاف کے ۱۲ہزار سے زیادہ کارکنوں کو پکڑنے اور جیلوںمیں  بند کرنے میں زیادہ دل چسپی ہے، مگر حقیقی معنوں میں انتہا پسندوں کو گرفت میں لانے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ میں سوال کرتی ہوں کہ کیا واقعی حسینہ واجد، دہشت گردی کے اژدہے سے نمٹنا چاہتی ہے یا اپنا پورا زور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں لگا دینا چاہتی ہے؟ یہ امر ذہن نشین رہے کہ بنگلہ دیش میں بہرحال جماعت اسلامی کے لیے حمایت بلند سطح پر ہے۔ (Support for Jamaat e Islami is actually realy high in Bangladesh)۔ مگر [حسینہ واجد] اس سوچ کی اسیر ہے کہ اس عوامی حمایت یافتہ پارٹی [یعنی جماعت اسلامی] کی ملک سے آنتیں تک نکال کے (eviscelate) رکھ دے۔ جماعت اسلامی کو کسی دہشت گردی میں شامل سمجھنا، یا اسے جنگی جرائم میں قصور وار قرار دینا، ایک بے ہودہ (absurd) مفروضے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا‘‘۔ (پروگرام، ایشیا ویکلی‘ وائس آف امریکا، ۹جولائی۲۰۱۶ئ)

انٹر نیشنل کرائسز گروپ (ICG) نے اس الزامی مہم پر برملا کہا: ’’بنگلہ دیش کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے لازم ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت ملک سے بی این پی اور جماعت اسلامی کو بے جواز الزام تراشی، پولیس کے سیاسی استعمال، ماوراے عدالتی قتل، غنڈا گردی کا نشانہ بنانے اور ختم کردینے کے خبط سے نکلے۔ اگر حکومت اس راستے پر نہیں چلے گی تو ملک یقینی طور پر بدامنی بلکہ تباہی کی جانب لڑھکتا جائے گا‘‘۔ (انٹرنیشنل کرائسز گروپ،۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)

۱۰؍اگست، ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے بنگلہ دیش میں سیاسی کارکنوں کے اغوا، گرفتاریوں، قتل اور ان کے لواحقین کو معلومات نہ دینے کے ظالمانہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ (پروگریس بنگلہ دیش، ۱۱؍اگست)

۱۷؍اگست،دی بار کونسل اور بار ہیومن رائٹس کمیٹی آف انگلینڈ (BHRC) نے بیرسٹر احمد  بن قاسم کی گرفتاری کے خلاف بنگلہ دیشی حکومت کو مشترکہ احتجاجی مراسلہ ارسال کرتے ہوئے لکھاہے:’’بیرسٹر احمد اپنے والد میر قاسم علی کے وکیل بھی ہیں، جنھیں ایک متنازع عدالت سے عدل و انصاف کے منافی کارروائی کرکے سزاے موت سنائی گئی ہے۔ بیرسٹر احمد کی گرفتاری  انصاف و عدالت کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش ہے، اس لیے ان کو فوراً رہا کیا جائے۔ (پالی ٹیکس ہوم، ۱۸؍اگست۲۰۱۶ئ)

اقوامِ متحدہ انسانی حقوق (UNHR) کے ماہرین نے بنگلہ دیش میں سزاے موت پر  عمل درآمد کے منتظر قیدی میرقاسم علی کے مقدمے کو دوبارہ انصاف کے عالمی معیار کے مطابق چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ (UNHR) کا خط، ۲۳؍اگست ۲۰۱۶ئ)

’جنگی جرائم‘ کے مقدمات کا ڈراما

آئی سی ٹی ٹربیونل نمبر۱ نے ۱۹۷۱ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے ’جرم‘ میں ۱۷جولائی کو ضلع میمن سنگھ کے ناظم محمد اشرف حسین (۶۴سال) محمد عبدالمنان (۶۶سال) محمدعبدالباری(۶۲ سال) کو عدالت میں عدم موجودگی کے دوران سزاے موت سنائی ہے، جب کہ محمدشمس الحق(۷۵ سال)، ایس ایم یوسف علی (۸۳سال)، شریف احمد(۷۱سال)، ہارون (۵۸سال) اور محمد عبدالہاشم(۶۵ سال) کو موت واقع ہونے تک جیل ہی میں قید رکھنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ (ڈیلی نیوایج، ڈیلی اسٹار، ۱۸جولائی۲۰۱۶ئ)

۹؍اگست سابق رکن پارلیمنٹ شوکت حسین (جوماضی میں جماعت اسلامی اور پھر بی این پی سے وابستہ رہے) کو جنگی جرائم کی عدالت نے موت تک جیل میں رکھنے کی سزا سنا دی۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اگست ۲۰۱۶ئ)

سات مزید لوگوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا آغاز کیا گیا ہے، جن میں حسب ذیل حضرات شامل ہیں: ممبر پارلیمنٹ ایم اے حنان(۸۰سال)، رفیق سجاد(۶۲سال)، غلام شبیر احمد (۶۹سال) میزان الرحمان(۶۳سال)، ہرمز علی(۷۳ سال)، عبدالستار(۶۴ سال)، فخرالزمان (۶۱ سال)، غلام ربّانی(۶۳ سال) ۔ان میں سے آخری دونوں افراد گرفتار نہیں ہو سکے، جب کہ باقی جیل میں قید ہیں۔ (ڈیلی سٹار، ۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)

بنگلہ دیش کی نام نہاد خصوصی عدالت نے سندر گنج سے جماعت اسلامی کے جن لیڈروں پر جنگی جرائم کے مقدمے چلانے کا اعلان کیا، ان میں یہ حضرات شامل ہیں: ابو صالح محمد عبدالعزیز (۶۵سال)، روح الامین الیاس(۶۱سال)، عبداللطیف(۶۱ سال)، ابومسلم محمد علی (۶۱سال) نجم الہدیٰ(۶۰سال)، عبدالرحیم میاں(۶۲سال) ۔(ڈھاکا ٹریبیون، ۲۹جون۲۰۱۶ئ)

۲؍اگست کو یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستانی فوج سے وابستہ ایک سابق بنگالی آفیسر محمد شاہد اللہ (عمر۷۲سال) کو ’جنگی جرائم‘ کے نام پر گرفتار کر کے خصوصی ٹربیونل (ICT) میںمقدمہ چلا جا رہا ہے۔ شاہد اللہ ۱۹۷۱ء میں کومیلا چھائونی میں بطور پاکستانی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ (ڈیلی اسٹار، ۳؍اگست۲۰۱۶ئ)

نواکھالی سے تعلق رکھنے والے قیدیوں: امیر علی(۷۰سال)، محمد زین العابدین (۷۳سال)، ابوالکلام منصور(۶۷سال) اور محمد عبدالقدوس(۸۴سال) پر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں جنگی جرائم کے مقدمے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ (ڈیلی اسٹار، ۸؍اگست ۲۰۱۶ئ)

میمن سنگھ سے عبدالرحیم(۸۰سال)، جمال الدین(۷۵سال)، عبدالسلام منشی (۷۱سال)، راج علی فقیر(۶۵سال) کو ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۹؍اگست ۲۰۱۶ئ)

ماوراے عدالت قتل کے واقعات

یکم جولائی کو پولیس نے اسلامی چھاتروشبر کے دو رہنمائوں کو اپنی تحویل کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا۔ یاد رہے ضلع جیندسے اسلامی چھاترو شبر کے صدر شاہد المحمود اور اسی ضلع میں پولی ٹکنیک کالج یونٹ کے نظام انیس الرحمان کو بالترتیب ۱۳ اور ۱۶جون کو بلاجواز گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پولیس اور انتظامیہ مسلسل انکار کرتی رہی کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن ۳۰جون اور یکم جولائی کی درمیانی شب اچانک تھانہ تل باڑیاں میں ان طالب علموں کی میتوں کو رکھ کر یہ کہانی مشہور کردی کہ: ’’یہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)

اسلامی چھاتروشبر جیندہ کے رہنما اور اسلامک یونی ورسٹی کشتیا میں عربی لٹریچر کے طالب علم ۲۲ سالہ سیف الاسلام کو پولیس نے ۱۰روز قبل گرفتار کیا اور پھر ۱۸جولائی کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں گولی مارکر شہید کر دیا۔ (بی ڈی جماعت، ۱۹جولائی۲۰۱۶ئ)

۱۲؍اگست کو ’’جماعت اسلامی ہاریناکنڈا (ضلع جنیدہ) کے امیر مولانا ادریس علی کو   آٹھ روز قبل پولیس گرفتار کرکے لے گئی تھی، لیکن بار بار پوچھنے پر ان کے بارے میں کوئی جواب نہ دیا گیا اور آج مضافات میں گولیوں سے چھلنی ان کی لاش ملی۔ قائم مقام امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد نے اس سفاکانہ قتل کی شدید لفظوں میںمذمت کی‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۱۳؍اگست)

جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کی گرفتاریاں

مندرجہ بالا تاریخ وار چند خبروں کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ پورے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے وابستگان کے لیے دہشت اور ریاستی فسطائیت کی ہولناک فضا قائم ہے۔ جس کا شکار بزرگ، نوجوان، خواتین اور طالبات ہیں۔ یہ ایسی فضا ہے، جس میں ہرکارکن اس دبائو میں ہے کہ شاید اگلے لمحے مجھے بھی گرفتار نہ کرلیا جائے، یا اس کارکن کے وابستگان یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عزیز شاید آج گھر آہی نہ سکے۔

اسی ضمن میں مزید چند خبریں ملاحظہ کیجیے:

۲۸جون، بینی پور گائوں سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے ۱۵کارکنوں کو  خفیہ پولیس اٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، تاحال ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

۳۰جون، چپائی نواب گنج سے جماعت، شبر کے ۱۵کارکنوں کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔

راجشاہی شہر سے جماعت اسلامی کے ۱۱کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا (۱۲جولائی۲۰۱۶ئ) 

 ۲۵جولائی کو راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے لیڈر جسیم الدین کو پولیس نے اٹھایا، لیکن دو دن گزر جانے کے باوجود کسی جگہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ پولیس کی قید میں ہیں۔ اس پر جماعت نے سخت تشویش کا اظہار کیا، مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ۲۷جولائی)

جماعت اسلامی لکشم پور سے وابستہ ۱۱خواتین کو گھروں سے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا ۔(ڈیلی سن، ۲۳جولائی۲۰۱۶ئ)

۲۶جولائی کو سلہٹ کے مختلف مقامات سے اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) سے منسلک طالبات کو گھروں سے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا، اور ان کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر شہریوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا (بی ڈی جماعت، ۲۷جولائی)

۲۷جولائی کو وکٹوریہ گورنمنٹ کالج کومیلا سے اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ تین طالبات کو گرفتار کر لیا۔ (روزنامہ فنانشل ایکسپریس، ۲۸جولائی ۲۰۱۶ئ)

۱۴ جولائی کو تنگائل سے جماعت اسلامی کی بزرگ خاتون حمیرا بیگم اور ان کے بیٹے امان اللہ سرکار (صدر اسلامی چھاتر و شبر شمالی دیناج پور) کو گرفتار کر لیا گیا۔

کبیر ہاٹ، نواکھالی کے امام حافظ بلال حسین کو جمعے کے خطبے کے دوران اس وقت گرفتار کر لیاگیا جب انھوںنے حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید کی۔ (ڈھاکا ٹریبیون، ۲۴جولائی۲۰۱۶ئ)

۲۹جولائی کو ماگورا ضلعی جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت علی اور اسلامی چھاتروشبر کے مقامی صدر الامین کو گرفتار کر لیا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۳۰جولائی)

یکم اگست کو ضلع چاپیا نواب گنج سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے ۲۱لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۲؍اگست)

۲؍اگست کو ڈھاکا کے مدھو باغ علاقے سے اسلامی چھاتروشبر کے ۱۴کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ۳؍اگست)

۳؍اگست کو جماعت اسلامی راج شاہی کے امیر عبدالہاشم سمیت جماعت اسلامی کے آٹھ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۴؍اگست)

۵؍اگست کو ست کانیا (ضلع چٹاگانگ) سے جماعت کے امیر محمد واجد علی اور جماعت کے آٹھ بزرگ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی روز ضلع جیسور اسلامی چھاتروشبر کے سیکرٹری اسرائیل حسین اور روح الامین کے ہمراہ چھے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اسرائیل حسین اور روح الامین کو گولی مار کر زخمی کر دیا، جنھیں زخمی حالت میں ہسپتال داخل کرایا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۶؍اگست)

۵؍اگست کو جماعت اسلامی اور چھاتروشبر کے مزید ۱۸کارکنوں کو ٹھاکر گائوں، چاندی پور، نعمت پور سے گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۶؍اگست)

۶؍اگست کو جماعت اسلامی جے پور ہاٹ کے امیر عطاء الرحمان (۶۸سال)،آفس سیکرٹری فرید حسین اور گانجا چھارا سے جماعت کی شوریٰ کے رکن محمد مصلح الدین (۵۲سال) کو بھی گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۷؍اگست)

۷؍اگست کو جماعت اسلامی کے چھے کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ (ڈیلی سن، ۸؍اگست)

۹؍اگست کو پولیس نے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما، اسلامی چھاتروشبر کے تاسیسی ناظم اعلیٰ اور موت کی سزا سنائے جانے والے میر قاسم علی کے بیٹے بیرسٹر میر احمد بن قاسم کو گرفتار کرلیا۔ اس حوالے سے ان کی اہلیہ تہمینہ اخترنے بتایا کہ: ’’پانچ افراد نے رات کے پچھلے پہر دروازہ کھٹکھٹایا اور دروازہ کھولتے ہی انھیں دبوچ کر سفید رنگ کی گاڑی میں دھکیلا او رلے گئے‘‘۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۰؍اگست)

۱۰؍اگست کو ست خیرا سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے تین کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی سن، ۱۱؍اگست)

۱۴؍اگست کو ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیرسٹر میرقاسم علی اور بی این پی کے لیڈر ہمام قادر چودھری کی غیر قانونی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا ہے۔ (نیا دگنتا، ۱۵؍اگست)

۱۲؍اگست کو سراج گنج سے جماعت کے پانچ کارکنوں اور جماعت اسلامی ہی کی ایک بزرگ خاتون کو گرفتار کیا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۱۳؍اگست)

۱۴؍اگست کو شاہ جہان پور کے امیر جماعت مولانا عبدالسلام اور چاندپور کے امیر جماعت عبدالرشید کو گرفتار کیا گیا۔ (بی ڈی جماعت:۱۵؍اگست)

۱۵؍اگست کو ست خیرا سے جماعت اور چھاترو شبر کے تین کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ (ڈیلی سن، ۱۶؍اگست)

خوف اور دہشت کی اس فضا کے باوجود ۱۶؍اگست، بیرسٹر میر احمد بن قاسم اور جماعت وشبر کے دیگر معلوم اور نا معلوم قیدیوں کے بارے میں بنگلہ دیش میں پُرامن احتجاج کیا گیا۔ جس میں ڈھاکا، چٹاگانگ، کھلنا، سلہٹ، راج شاہی، رنگ پور، باری سال، غازپور، اور کومیلا میں بڑی بڑی ریلیاں نکلیں۔ (بی ڈی جماعت،۱۷؍اگست)

۲۰؍اگستکو ڈھاکا میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۱۸ کارکنوں پر سپیشل پاور ایکٹ، کے تحت مقدمے قائم کرکے انھیں حوالات میں بند کر دیا گیا۔ (دی اسٹار، ۲۱؍اگست)

۲۰؍اگست کو راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاتروشبر کے ۱۳کارکنوں: عبدالحق مانک، شریف الاسلام، مہدی حسن، انصار الحق، مشتاق احمد، عبدالصبور، فہد عالم، ابوالخیر، یوسف علی، سراج الاسلام، لقمان حسین، ریحان حسین اور ساجد کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت قید کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ ہاسٹل کے امام مسجد ثناء اللہ بھی قیدکر لیے گئے۔ (دی اسٹار، ۲۱؍اگست)

۲۰؍اگست کو جنیدہ ضلع کے مختلف مقامات سے اسلامی چھاتروشبر اور جماعت اسلامی کے ۲۱کارکن گرفتار ہوئے۔ (ڈیلی سن، ۲۱؍اگست)

۲۲؍اگست کی رات پونے بارہ بجے پروفیسر غلام اعظم مرحوم کے بیٹے (ریٹائرڈ) بریگیڈیر جنرل عبداللہ الامان اعظمی کو خفیہ پولیس نے گرفتار کر لیا۔ (روزنامہ نیادگنتا، ۲۳؍اگست)

آزادی اظھار پہ پابندی

۵؍اگست کو حکومت نے جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کے ۳۵’نیوزپورٹل‘ بلاک کر دیے۔ یاد رہیکہ اس سے قبل عوامی لیگی حکومت ’چینل ون‘ دگنتا ٹیلی ویژن، اسلامک ٹیلی ویژن اور روزنامہ امارادیش پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نام نہاد آمرانہ حکومت، کوئی بھی اختلافی نقطۂ نظر سننے کی تاب نہیں لا سکتی۔ (بی ڈی جماعت، ۶؍اگست)

۸؍اگست کو پولیس نے بنگلہ میل۲۴ ڈاٹ کام، ویب سائٹ کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور موجود صحافیوں کو گرفتار کر کے نظر بند اور ویب سائٹ کو بند کرا دیا۔ (ڈیلی میل، لندن، ۹؍اگست)

۱۹؍اگست کو ۸۱ سالہ بزرگ برطانوی صحافی شفیق رحمان، جنھیں حسینہ واجد کے بیٹے کو قتل کرنے کی سازش کا کردار قرار دیتے ہوئے سزاے موت سنائی گئی ہے۔ جیل میں ان کی صحت نہایت خراب ہے۔ ان کے بیٹے نے کہا ہے کہ میرے والد ایک بے بنیاد مقدمے کے نتیجے میں پھانسی گھاٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی موت سے دوچار ہونے کی سرحد پر ہیں‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۰؍اگست)

۱۶؍اگست کو چٹاگانگ یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامیات اور شعبہ عربی کی لائبریریوں سے مولانا مودودی اور ذاکر نائیک کی تمام کتب اور پمفلٹ ضبط کر کے، ریکارڈ سے خارج کردیے گئے۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۷؍اگست)

۲؍اگست کو بنگلہ دیشی حکومت نے طے کیا ہے کہ پورے بنگلہ دیش میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے منسوب ’پیس انٹرنیشنل اسکول سسٹم‘ کو بند کر دیا جائے۔ (روزنامہ ڈھاکا ٹریبیون، ۳؍اگست)

۱۹؍اگست شہید مطیع الرحمان نظامی کی اہلیہ شمس النہار نظامی کے زیر انتظام چلنے والے اسلامک انٹرنیشنل اسکول سے جماعت اسلامی کے ۱۸ کارکنوں کو گرفتار کر لیا، جو مذکورہ اسکول میں شعبہ تدریس اور انتظامات سے وابستہ تھے۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۲۰؍اگست)

بنگلہ دیش کی حکومت کس درجے اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کا گلا گھونٹنے پر تلی ہوئی ہے، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اطلاعات حسن الحق کے بقول: ’’ہم ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں جماعت اسلامی کے حامی استادوں اور طرف دار طالب علموں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ [پاکستان کے خلاف بدترین پراپیگنڈا کرنے والے بدنام زمانہ کردار] شہریار کبیر نے کہا: ’’بی این پی اور جماعت اسلامی کے حامی اہل ثروت نے نارتھ سائوتھ یونی ورسٹی (NSU)قائم کی تھی، جس کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی میں پروفیسر غلام اعظم کے دو بیٹے کیوں پڑھا رہے ہیں؟ جب کہ مطیع الرحمن نظامی کی اہلیہ کی سربراہی میں مینار یونی ورسٹی کیسے چل رہی ہے‘‘؟ (ڈیلی سٹار، ۲۴جولائی۲۰۱۶ئ)

اسی طرح بنگلہ دیش حکومت نے اس فیصلے کا اعلان کیا ہے کہ جن جن لوگوں کے خلاف  جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں، یا جن افراد پر مقدمات چلنے کے بعد سزائیں نافذ ہو چکی ہیں، ان کے نام فلیٹوں یا پلاٹوں کی ملکیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے سے کئی رہنمائوں کے پس ماندگان و لواحقین براہ راست متاثر اور بے گھر کیے جا رہے ہیں (روزنامہ ڈھاکا ٹریبیون، ۱۴جولائی)۔اس اعلان پر قمر الزمان شہید کے بیٹے حسن اقبال نے کہا: ’’میرے والدِ محترم نے پلاٹ ایک صحافی اور مناب زمین  کے ایڈیٹر مطیع الرحمان سے خریدا تھا، حالانکہ وہ خود ماہ نامہ   سنار بنگلہ کے ایڈیٹر اور نیشنل پریس کلب کے سنیئر ممبر تھے‘‘۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۸جولائی۲۰۱۶ئ)

یہ بہیمانہ اعلان تو ہے سرکاری سطح کا، مگر بنگلہ دیش میں اور خود ڈھاکا میں بھی جماعت اسلامی  کے کئی کارکنوں کے گھروں پر یہ پوسٹر لگائے گئے ہیں کہ: ’’یہ گھر اور ملک چھوڑ کر چلے جائو، ہم تمھاری زندگی کی ضمانت نہیں دیتے‘‘۔ اور جب جماعت کے ایسے متاثرین نے سول انتظامیہ اور پولیس کو رپورٹ درج کرنے کے لیے کہا تو جواب ملا: ’’ہم کیا کریں‘‘۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں جماعت کے فعال کارکنوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔

۲۵جولائی کو حسینہ واجد نے عمومی دہشت پھیلانے اور نفرت پیدا کرنے کے لیے براہِ راست ایک بیان میںکہا کہ: ’’اگست میں جماعت اسلامی کے حامی افراد کچھ مشہور تعلیمی اداروں پر حملے کرکے میر قاسم علی کو رہا کرانے کی کوشش کریں گے‘‘(ڈیلی اسٹار، ۲۶جولائی۲۰۱۶ئ)۔ جماعت اسلامی نے اس احمقانہ بیان کو فوراً مسترد کردیا۔

۲۲؍اگست کو بنگلہ دیش کی کابینہ نے ایک قانون کی منظوری دی، جس کے تحت بنگلہ دیش کی ’جنگ ۱۹۷۱ئ‘ یا شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں کوئی مخالفانہ یا تنقیدی بات لکھنے، چھاپنے یا بولنے کی سزا عمرقید اور ایک کروڑ ٹکا جرمانہ ہوگا (ڈیلی اسٹار، ۲۳؍اگست ۲۰۱۶ئ)۔ اس قانون کا واضح مقصد ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے مظالم، لُوٹ مار اور شیخ مجیب کے فیصلوں پر ہرقسم کے نقدوتبصرے کا باب بند کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کا زمانہ ایسے فسطائی قانون کو قبول کرسکتا ہے؟

برطانوی رکن پارلیمنٹ سائمن ڈنکزک (Simon Danczuk) نے بڑی دردمندی سے کہا: ’’اس بات کے ناقابل تردید ثبوت قدم قدم پر پھیلے نظر آتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی ہے‘‘۔ ویسٹ منسٹر ہال، لندن میں خطاب کرتے ہوئے انھوںنے مزید کہا: ’’میں گذشتہ دنوں بنگلہ دیش میں تھا، جہاںمعلوم ہوا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بیلٹ بکس پہلے ہی سے حکومتی پارٹی کے حق میں ووٹوں سے بھرے دیکھے گئے، اور اس سے زیادہ صدمہ انگیز بات یہ تھی کہ مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کے نام ہی بہت سی جگہوں پر بیلٹ پہ طبع نہیں کیے گئے تھے، اور پھر انھیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی‘‘۔ (یو این بی، ۳۰جون۲۰۱۶ئ)

نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو قید کرنے، بلاجواز نظربند رکھنے، حتیٰ کہ انھیں دنیا سے غائب تک کردینے کا شرم ناک ریکارڈ رکھتی ہے۔ بیرسٹر میر احمد بن قاسم اور ہمام قادر چودھری کی گرفتاری اس کی تازہ ترین مثال ہے جن کے بارے میں حکومت کسی قسم کی اطلاع دینے سے انکاری ہے۔ اس چیز سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان قیدیوں کی جان کو خطرہ ہے، کیونکہ حسینہ واجد حکومت کا اس ضمن میں بہت بُرا ریکارڈ ہے‘‘۔(اداریہ، نیویارک ٹائمز، ۲۴؍اگست ۲۰۱۶ئ)

o

جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے اہلِ پاکستان کے سامنے باربار یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش کو اپنے بہیمانہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کا مسلسل کام کرے گا۔ بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے تھوڑے عرصے بعد پاکستانی فوج کے ۱۹۵؍ افسروں اور جوانوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلانے کا اعلان ، ہمارے خدشے کی تصدیق کرتا ہے۔ ابھی گذشتہ ماہ جولائی میں ایک بار پھر وزیرقانون انیس الحق نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ: ’’ہم نے ایک کمیٹی بنادی ہے، جو پاکستانی فوج کے ۱۹۵؍ افسروں کے خلاف جنگی جرائم کے ثبوت اکٹھے کرے گی۔ پھر ان کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد ان پرمقدمہ چلائے گی‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۸جولائی۲۰۱۶ئ)

یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ’جرائم‘ ۱۹۷۱ء میں ہوئے اور ثبوت ۲۰۱۶ء میں اکٹھے کرنے کی مہم شروع ہورہی ہے۔ یہ بات بذات خود ایک دلیل ہے، کہ ان کے پاس ثبوت موجود نہیں بلکہ ثبوت گھڑنے ہوں گے۔ یہی کام جماعت اسلامی کے ان مظلومین کے مقدمات میںکیا جا رہا ہے، جنھیں ۴۲سال بعد ’مقدموں کے ثبوت جمع‘ کرکے پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے مسئلے پر پاکستانی حکومت اور مقتدر قوتوں کی بے حسی، لاتعلقی یا مجرمانہ غفلت کے سبب، اب آہستہ آہستہ خود انھی کو ایسے ’ڈراما مقدمات‘ کا کردار بنایا جا رہا ہے۔ پورا امکان ہے کہ اس بے ہودگی میں بنگلہ دیشی اور بھارتی کاذبین کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان سے ’روشن خیال‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے نام نہاد علَم بردار شعبدہ بازوں اور میڈیا پر تاریخ کا قتلِ عام کرنے والوں کا تعاون بھی حاصل ہوگا (اور وہ تائید کنندگان اسی طرح اے گریڈ درجات کا مزے لوٹیں گے، جس طرح ایم کیو ایم لطف اندوز ہوتی چلی آرہی ہے)۔

برعظیم جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں ۹فروری ۲۰۱۶ء ایک یادگار دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز بھارت کی ممتاز ترین دانش گاہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، دہلی میں نوجوان نسل نے پرانی اور خوار سیاست گری کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، اس یونی ورسٹی میں کمیونسٹ پارٹی کی حلیف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA)، اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں ۲۰۰۵ء سے اب تک مسلسل کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اس کے ووٹروں میں  ہندو انتہاپسندی اور مریضانہ برہمنی قوم پرستی کو مسترد کرنے والوں میں مسلم، ہندو، سکھ اور عیسائی طلبہ و طالبات کی اکثریت شامل ہے۔

۹فروری کو جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے مظلوم کشمیری مسلمان، افضل گرو کا یومِ شہادت منایا گیا۔ جس میں برملا کہا گیا کہ:’’ افضل گرو دہشت گرد نہیں تھا، اسے عدالتی اور ریاستی سطح پر قتل کیا گیا تھا‘‘۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو ہزاروں طلبہ و طالبات فلک شگاف نعروں میں ظلم کے خاتمے کے ترانے گا رہے تھے۔ اسی دوران میں حکمران بی جے پی کے حامیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور اس تصادم میں متعدد طالب علم زخمی ہوگئے۔

اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیاکمار نے ظلم اور دہشت، معاشی استحصال اور زبان بندی کے کلچر کی غلامی سے آزادی کے حصول کا اعلان کیا، مگر حکومتی عناصر نے اس لفظِ ’آزادی‘ کو خودبخود بھارت سے آزادی کا جامہ پہنا کر صدر یونین کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔

یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، جس پر آسام سے لے کر سری نگر تک اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، دانش وروں اور وکلا کی بڑی تعداد نے حکومتی اقدامات اور فسطائیت کی کھلے لفظوں میں مذمت کی۔ بھارت کی ۴۰۰ یونی ورسٹیوں کے طالب علموں نے احتجاجی جلسے منعقد کیے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قابلِ احترام اور مسلّمہ۶۴دانش وروں نے مظلوم طلبہ سے یک جہتی کے لیے دستخطی مہم چلائی۔   قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ روے سخن مختلف ہونے کے باوجود یہ واقعہ ہراعتبار سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی یا ان کے ساتھ روا ظلم پر ردعمل کا حوالہ رکھتا ہے۔ جس کے لیے  بھارت کی نئی نسل: کانگریسی اور جن سنگھی سوچ کو مسترد کرکے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ اس پس منظر میں اس واقعے کو Game Changer کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے، جس کے دامن میں ایک نئی سوچ کی کونپل پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔

اس واقعے کو جموں اور کشمیر کے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں سے ملا کر دیکھا جائے، جن میں اب سے دو سال قبل فاضل ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ:

بھارت کی جانب سے جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا ایک غلط دعویٰ ہے کیونکہ جس اسمبلی نے بھارت کے ساتھ اسے جوڑنے کی بات کی تھی، وہ محض معاہداتی تھی، دائمی نہیں تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عوام کی مرضی اور کیے گئے معاہداتی عہدنامے کے تحت اس کے مستقبل کا تعین باقی ہے۔

یہ واقعات بھارتی حکمرانوں اور عالمی حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، بایں ہمہ اُمید کم ہے کہ ان کی بند آنکھیں کھلیں۔ وجہ یہ ہے کہ تنگ نظر ذہن ہمدردی، رواداری، فیاضی، آزادی، مروت جیسے لفظوں ہی سے ناآشنا ہوتا ہے، چہ جائیکہ وہ ان کے مفہوم کو سمجھے اور اُسے عملی زندگی میں اختیار کرنے کی طرف مائل ہو۔ مودی حکمرانی جس رُخ پر چل رہی ہے اس کے لیے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، یا نہرو یونی ورسٹی، یا کُل ہند یونی ورسٹیوں کے طلبہ کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اس تازیانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، جب تک وہ اتنا زوردار نہ ہو کہ مودی کے پائوں اُکھاڑ دے۔ چونکہ فوری طور پر یہ مشکل ہے، اس لیے بھارتی مقتدرہ ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ دوسری طرف ۹فروری کے مذکورہ بالا واقعے کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں، دانش وروں، صحافیوں اور بہ زعمِ خویش عالمی ضمیر کے رکھوالوں کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ دوستی کی رٹ لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کن سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ ان سے وفا کی توقع رکھتے ہیں ’’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔ وہ تو اپنوں سے بھی وفا کے روادار نہیں!

بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں:  داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:

  •  بنگلہ دیش کے تعلیمی اداروں میں عوامی لیگ کی حامی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس لیگ: ظالمانہ اقدامات، تشدد، اغوا، انتقام، قتل، بھتہ خوری، ہاسٹلوں کی سیٹوں کی فروخت، داخلوں میں خردبرد اور زنا بالجبر کے واقعات میں ملوث ہے، مگر پولیس اسٹیشن ان پر کوئی مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ماہرین تعلیم اسے ’دہشت گرد اسٹودنٹس لیگ‘ کے نام سے پکارتے ہیں، مگر حسینہ واجد اسے ’میرے بیٹے‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔
  •  ڈھاکا یونین آف جرنلسٹ کے ایک گروپ نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے اخبارات و ذرائع ابلاغ: روزنامہ سنگرام، روزنامہ نیادگنتا، ہفت روزہ سوناربنگلہ،دگنتا ٹیلی ویژن میڈیا ہائوسز وغیرہ کی رکنیت منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ (روزنامہ نیوایج، ۳۰نومبر۲۰۱۵ئ)
  •  حکومتی سرپرستی میں اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ ان بے بنیاد خبروںکی اشاعتی مہم شروع کی ہے کہ: ’’جماعت کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات ہیں‘‘۔ جماعت اسلامی نے ان بے بنیاد، شرانگیز اور بدنیتی پر مبنی خبروں کی پُرزور تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ثبوت کے ساتھ کسی بھی غیرجانب دار فورم پر سامنے آکر بات کرے اور الزام ثابت کرے۔ ہم جمہوری،دعوتی اور رفاہی تنظیم ہیں اور ایسے کسی بھی تعلق یا تشدد پسندانہ فعل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ (۳۰ نومبر)
  •  بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی (جنھیں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو  سزاے موت سنائی گئی)کو پھانسی دینے کے لیے عوامی لیگ حکومت کردار کشی اور انصاف کے قتل پر مبنی اس مہم کو میڈیا، اخبارات اور مختلف سطحوں پر حکومتی اجتماعات کے ذریعے بڑھاوا دے رہی ہے (جماعت ویب، ۶دسمبر)، جب کہ ۶جنوری ۲۰۱۶ء کو انھیں سزاے موت دینے کا حتمی فیصلہ آرہا ہے۔(بی ڈی نیوز24، ۸دسمبر)
  •  یہی نہیں بلکہ اس انسانیت سوز مہم میں شدت پیدا کرنے کے لیے مذہبی طبقے سے بھی چند افراد کی کمک حاصل کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے شولاکیا عیدگاہ کے امام مولانا فریدالدین مسعود صاحب کو میدان میں لایا اور پریس کانفرنسیں کرائی گئی ہیں، جنھوں نے جماعت پر پابندی لگانے اور اس کے تمام متعلقہ اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔جماعت نے ان کی یاوہ گوئی کا مدلل رد جاری کیا ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے اللہ کا خوف دلایا ہے  (جماعت ویب، ۹دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔اسی پر بس نہیں ہوا، بلکہ: ’’۱۹دسمبر کو بنگلہ دیش کے انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس لائنز میں پولیس اہل کاروں کا بڑا دربار منعقد کیا، جہاں مولانا فریدالدین مسعود صاحب کو : ’بنگلہ دیش میں دہشت گردی کا خاتمہ‘ کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی۔ دراصل یہ خطبہ موضوع پر کم اور جماعت اسلامی پر سفاکانہ فتویٰ بازی اور جماعت کو کچل دینے کا بدنما نمونہ تھا۔(ایضاً، ۲۰ دسمبر)
  •  انھی دنوں میں قائم کی گئی تنظیم’بنگلہ دیش سیکٹرز کمانڈر فورم‘ کے چیئرمین جنرل (ریٹائرڈ) کے ایم سیف اللہ نے کہا: ’’بنگلہ دیش کو پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح پر سفارتی تعلقات نہیں رکھنے چاہییں۔ ہمیں تیزی سے جنگی مقدمات کو نمٹا کر زیرمقدمہ افراد کو پھانسی دینی چاہیے۔ موصوف کی  تقریر کے دوران ڈھاکا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر عارفین صدیقی بھی اسٹیج پر موجود تھے(بی ڈی نیوز24، یکم دسمبر)۔’’ڈھاکا یونی ورسٹی نے پاکستان کے ساتھ اساتذہ و طلبہ کے تبادلے اور کھیلوں، ثقافتی پروگراموں سے متعلق تمام تعلقات کو ختم کرنے کے اعلان کر دیا ہے‘‘۔ (نیو ایج، ۱۵دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  •  عوامی لیگ کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے کبھی بھی تعلق رکھنے والے افراد کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا جائے (روزنامہ ڈیلی اسٹار، یکم دسمبر)۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کی انتخابی رجسٹریشن منسوخ کردی ہے، اس طرح جماعت اپنے اُمیدوار نامزد کرنے کے حق سے محروم ہے، اور اس کے افراد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل میں کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔(ڈھاکا ٹربیون، ۱۰ دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  •  اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ(IBBL) کے اثاثہ جات اور بنکاری کو تباہ کرنے کے لیے حکومت مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ دیگر پابندیوں کے علاوہ گذشتہ دنوں بنک کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائرکٹر نورالاسلام کو بنگلہ دیش [اسٹیٹ] بنک نے برطرف کر دیا ہے، کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے (روزنامہ ڈھاکا ٹربیون، ۷دسمبر)۔دوسری جانب جب حزب ِاختلاف نے حکومت پر تنقید کی کہ اس نے: ’’جماعت اسلامی کے اس بنک سے رقم اینٹھی تھی‘‘، تو منصوبہ بندی کے وزیرمصطفی کمال نے کہا: ’’ہم نے چار سال پہلے اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ سے ایک سو ملین روپے (پاکستانی ۱۳کروڑ روپے) ورلڈکرکٹ کپ کے لیے حاصل کیے تھے، جنھیں تزئین و آرایش پر خرچ کیا گیاتھا (بی ڈی نیوز24، ۱۵ دسمبر)۔موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسینہ واجد نے ایک جانب یہ خطیر رقم جبری طور پر حاصل کی اور دوسری طرف یہی حکومت اس بنک کے اثاثہ جات کو ہڑپ کرنے کے لیے روز نئے احکامات جاری کر رہی ہے۔
  • جہازرانی کے وزیر شاہ جہان خاں نے اعلان کیا ہے کہ: ’’ہم نے ۵۰۱؍ ارکان پر مشتمل ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹرائل کمیٹی‘ قائم کردی ہے، جس کے تحت پاکستان کے ۱۹۵؍ اعلیٰ فوجی افسروں پر جنگی جرائم کا علامتی مقدمہ چلایا جائے گا اور بنگلہ دیش کی آزادی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں میں جماعت اسلامی، اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] اور ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے تعاون کرنے والے افراد کو بنگلہ دیش سے ختم (eliminate) کردیا جائے گا (ڈھاکا ٹربیون، ۱۹دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔ وزیر ’اُمورِ جنگ ِآزادی‘ معظم الحق نے اعلان کیا ہے کہ ’’حکومت ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والے مجرموں کے وسائل اور جایدادوں کو ضبط کرنے کے لیے قانون میں بنیادی تبدیلی کر رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے جماعت پر پابندی عائد کی جائے گی‘‘ (روزنامہ اتفاق، ڈھاکا، ۱۶دسمبر)۔ اور مطالبہ کیا ہے: ’’پاکستان، بنگلہ دیش کو اثاثہ جات کی مد میں ایک کھرب اور ۸۰؍ارب روپے ادا کرے۔(ڈھاکا ٹربیون، ۱۶ دسمبر )
  •  اسلامی چھاترو شبر بنگلہ دیش کے سات ارکان کو ۲۰، ۲۰سال قیدبامشقت سزا سنادی گئی (۲دسمبر۲۰۱۵ئ)۔ جماعت اور شبر کے رہنمائوں کو چٹاگانگ جیل سے رہا ہوتے ہی گرفتار کر کے دوبارہ جیل میں دھکیل دیا گیا(۱۱دسمبر)۔ نلفاماری اور ست خیرا سے جماعت کے مزید ۴۲ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا (ڈیلی اسٹار، ۱۰ دسمبر)۔سیتاکندا (چٹاگانگ) میں جماعت کے رہنما محمد عثمان کو عوامی لیگیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا (جماعت ویب، ۱۶دسمبر)۔ ۱۹دسمبر کو جے پور ہاٹ ضلع سے اسلامی چھاترو شبر کے جب تین قائدین بس میں سوار ہو رہے تھے تو اس دوران میں پولیس نے بلااشتعال گولیاں برساکر ضلعی ناظم ابوذرغفاری اور سیکرٹری جنرل محمدعلی کو مجروح کر دیا۔ وہ اس وقت ہسپتال میں نازک صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
  •   بیگم فریدہ خاتون جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، اور وہ کشتیا تحصیل کی وائس چیئرپرسن ہیں، انھیں احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کو پھانسی دیے جانے والے شہید عبدالقادر مُلّا کی کچی قبر کے سرہانے لگے کتبے کو بھی عوامی لیگی کارکنوں نے اُکھاڑ پھینکا ہے۔
  •  جماعت کے سیکرٹری جنرل کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سے، ۱۸نومبرسے حکومت ِ بنگلہ دیش نے سوشل میڈیا (فیس بک، وایبر، وٹس ایپ) کو بلاک کر دیا ہے، جب کہ گوگل اور یوٹیوب کو ’سیکورٹی‘ کے نام پر پابند بنانے کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔(ڈھاکا ٹربیون، ۶دسمبر)

اس صورتِ حال پر عالمی ردعمل بھی سامنے آیا:

  • یورپی پارلیمنٹ (EP) نے عوامی لیگ کی غیرانسانی حکمرانی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متعدد قراردادیں منظور کیں۔ بنگلہ دیش کے چند اخبارات نے ان کا متن شائع کیا ہے،   جن کے مطابق: ’’بنگلہ دیش حکومت، حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے ارکان کو ماوراے عدالت قتل اور لاپتا کرنے کی سرگرمیوں میں خطرناک حد تک ملوث قرار دی جارہی ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ حزبِ مخالف کے کارکنوں اور رہنمائوں کو غیرقانونی حبس بے جا میں رکھنے سے باز آئے۔ ان میں سے جن افراد کو غائب کرنے یا ماوراے عدالت قتل کرنے کے الزامات ہیں، ان معاملات کی فی الفور تحقیقات کرائی جائے۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل  علی احسن مجاہد اور بی این پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن صلاح الدین قادر کی بہیمانہ پھانسی کی سزا پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، برملا اعلان کرتی ہے کہ کرائمز ٹریبونل کے نام پر چلائے جانے والے پورے معاملے، اس کے قانونی اور عدالتی معیار، اس کے طریق کار اور سزائوں کے اعلان پر اسے شدید تحفظات ہیں‘‘۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ڈھاکا، ۲۶ نومبر ۲۰۱۵ئ)
  • امریکی کانگریس آف ہیومن رائٹس کمیشن (USCHRC)کے مطابق: ’’کانگریس کے رکن جیمز میک گورن، شریکِ چیئرمین ’ٹوم لینٹن ہیومن رائٹس کمیشن‘ نے چھے متعلقہ انجمنوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’بنگلہ دیش میں شہری اور سیاسی حقوق کو بُری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کے پُرامن سیاسی جلوسوں کو طاقت سے کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو بڑے پیمانے پر قید یا موت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور جو لوگ انسانی حقوق کی بربادی کے اس منظرنامے میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں تشدد، دھمکی اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے لیڈر علی احسن مجاہد اور بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر چودھری کو جو پھانسی دی گئی ہے ، اس بارے میں قابلِ اعتماد مبصرین، جن میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ شامل ہیں، نے کہا ہے کہ یہ مقدمہ اور مقدمے کی کارروائی منصفانہ عدالتی کارروائی کے کسی بھی مسلّمہ معیار پر پوری نہیں اُترتی‘‘۔(نیادگنتا ،۶دسمبر)
  • ’ایشین ہیومن رائٹس کمیشن‘ (AHRC) اور ’ایشین فیڈریشن اگینسٹ انواینٹری ڈس اپیرینس‘ (AFAID) نے مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’بنگلہ دیش میں گذشتہ ۱۱ ماہ کے دوران ۵۹؍افراد کو جبری طور پر غائب کر دیا گیا ہے، جن کی ذمہ داری سے کسی بھی صورت حسینہ حکومت دامن نہیں چھڑا سکتی۔(روزنامہ نیو ایج ،۷دسمبر)
  • امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر ۳۰ نومبر کو پاکستان بھر میں جلسے اور سیمی نار منعقد کیے گئے، جن میں بنگلہ دیش میں روا رکھے جانے والے مظالم کی مذمت کی گئی اور عالمی ضمیر سے اپیل کی گئی کہ وہ عدل و انصاف کے اس کھلم کھلا قتل کو روکے۔ اسی طرح پاکستان کے سابق وزیرداخلہ سینیٹررحمن ملک نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل (UNHRC)کے ہائی کمشنر کو   خط لکھا ہے: ’’جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور بی این پی کے  مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کے عدالتی قتل کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے، اور اس مقصد کے لیے اعلیٰ اختیاراتی وفد ڈھاکا بھیج کر اس سارے معاملے کی تحقیقات کی جائے‘‘۔ نیز: ’’بھارت کی مسلح جارحیت اور براہِ راست مداخلت ہی دسمبر۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کو وجود میں لانے کا سبب بنی اور اس امر کے لیے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی، وزیردفاع جگ جیون، جنرل مانک شاہ اور اب وزیراعظم نریندرا مودی کے بیانات واضح ثبوت ہیں۔(دی نیوز، اسلام آباد، ۲دسمبر)

خود مشرقی اور مغربی بنگال میں حالات کو کس زاویے سے دیکھا جا رہا ہے، اس کا اندازہ ان سطور سے کیا جاسکتا ہے:

  •  پروفیسر کامران رضا چودھری (براک یونی ورسٹی، ڈھاکا) نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ: بنگال کے عوام گذشتہ ۲۰۰ برس، یعنی جب سے انگریزوں نے یہاں قدم رکھے، پابندیوں اور کھلے میدان میں کام کرنے سے روکنے پر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں جدید تعلیم یافتگان، کسان، مزدور، علما اور حتیٰ کہ صوفی بزرگ بھی اسی راستے پر گام زن رہے ہیں۔ ایسی تاریخ رکھنے والے خطے میں، جماعت اسلامی جیسی تنظیم کو، جو انتخابی عمل اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، اسے دیوار سے لگانے اور سیاسی میدان سے خارج کرنے کا نتیجہ تباہی اور تشدد کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہ نکلے گا‘‘۔ (بینارز نیوز، ۱۰ دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  • بنگلہ دیش کے ویکلی ہالیڈے (۱۱دسمبر ۲۰۱۵ئ) نے کلکتہ کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف (۲۸ نومبر ۲۰۱۵ئ) سے معروف بنگالی مؤرخ رام چندر گوہا کا تجزیہ شائع کیا ہے کہ: ’’شیخ حسینہ اور اس کی پارٹی کا عروج اپنے زوال کی جانب گامزن ہے، اور اس کا انجام کچھ زیادہ دُور نہیں۔ حسینہ واجد اور اس کے مشیروں کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے، کہ وہ جس یک جماعتی آمرانہ نظام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، وہ یہاں قائم نہیں ہوسکے گا۔ گذشتہ صدی میں نازی بھی ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور صرف ۱۲برس ہی اقتدار میں رہ سکے تھے، ہزاروں برس اقتدار پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔ میں ۲۲ اور ۲۳نومبر کو علی احسن مجاہد کی پھانسی کے دنوں میں ڈھاکا میں تھا۔ حکومت نے پوری قوت لگاکر عوامی احتجاج کو دبا دیا تھا، لیکن اس دبانے کو کامیابی سمجھنا حاکموں کے لیے بے فائدہ بلکہ عبرت ناک ثابت ہوگا‘‘۔

ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)

ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر    من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو  پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔

ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب،   روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)

یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!

آج ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء ہے۔

گزری رات میں حکمرانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ: ’’بھارتی جارحیت اور قومی غداری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں‘‘۔اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے دفتر کے آس پاس جمعیت اور البدر کے کارکن اکٹھے ہیں۔ سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا۔ ساڑھے ۲۳ برس کا ایک نوجوان، اپنے چاروں طرف کھڑے ساتھیوں کی طرف نظر دوڑاتا ہے۔ اگرچہ چند سسکیاں سنائی دے رہی ہیں، مگر وہ نوجوان پوری خوداعتمادی سے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں سے مخاطب ہوتا ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o

مجاہد ساتھیو!         

ہمارے جسم و جان صرف اور صرف اسلام کے لیے ہیں۔

ہم نے اسلام ہی کی خاطر وہ کردار ادا کیا، جسے ہم خدا کی کتاب اور سنتِ رسولؐ کے مطابق درست جانتے تھے۔ ہم نے پاکستان کو معبود سمجھ کر نہیں، مسجد سمجھ کر اپنے سروں کی فصل اور اپنے مستقبل کو اس پر نچھاور کیا ہے۔

ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دوسرے لوگ ہمارے اس کردار کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ جسے قبول کرنا ہے وہ تو جانتا ہی ہے کہ ہمارے سامنے صرف اس کی مرضی تھی۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ ہم سربکف نکل کھڑے ہوں۔ آزمایش کی اس گھڑی میں ہم نے اسی سے مدد مانگی اور اسی کے بھروسے پر اس نازک گھڑی سے نمٹنے کی کوشش کی۔

اے مظلوم پاکستان کے مجبور بیٹو!

ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہونے والا ہے، ہم گزرے ہوئے کل میں اُس سے واقف تھے اور آج ہم اُس سے بھی واقف ہیں جو آنے والا کل ہمارے لیے لے کر آئے گا۔ ہم نہ اپنے گزرے ہوئے دنوں پر شرمندہ ہیں اور نہ آنے والے کل سے مایوس ہیں۔ آزمایش خدا کی سنت ہے اور ہمیں سکھایا گیا ہے کہ آزمایش سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ لیکن، جب وہ مسلط ہوجائے تو سرخروئی کی دُعا اور کامرانی کی اُمید کے ساتھ خدا کے حضور جھک جانا چاہیے۔

آج کا سورج ایک کڑے امتحان کے ساتھ طلوع ہوا ہے اور آنے والا کل دہکتے انگاروں کی بارش کے ساتھ نمودار ہونے والا ہے۔ ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہے اور ان آزمایشوں سے ایک صاحب ِ ایمان جیسے عزم اور صبر کے ساتھ گزرنا ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ اس راہ میں جان دے دینا وہ عظیم ترین سعادت ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اپنے رب سے اپنی جانوں کے عوض جنت کا سودا کرنے سے پہلے ہم نے خوب سوچ سمجھ نہیں لیا تھا؟

آزمایش کی یہ گھڑی اُس ابدی دنیا کی کامرانیوںکی بشارت بھی ہے۔ اس لیے ان کڑی ساعتوں کا سامنا ایمان، عزم اور استقلال کی دُعا سے کیجیے کہ ایمان اور عزم کو کبھی فنا نہیں۔

اے دنیا بھر کی کامرانیوں سے بڑھ کر عزیز دوستو!

آپ آج بھی وقت کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ اقامت ِ دین، شہادتِ حق اور اسلامی انقلاب کے لیے ان زندگیوں کی حفاظت آپ پر فرض ہے۔

اگر آپ کے گھروں کی دہلیزیں آپ کے لیے بند اور راحت کدوں کی وسعتیں آپ کے لیے تنگ کردی جائیں تو ہجرت کر جایئے کہ ہجرت، وفا کے راستے کا لازمی سفر ہے۔ ہجرت خدا کے آخری رسولؐ کی سنت ہے۔

ہجرت کی تکلیفوں اور اذیتوں میں قرآن، نماز اور سیرتِ رسولؐ و سیرتِ صحابہؓ سے روشنی حاصل کیجیے کہ زندگی کا ظلمت کدہ انھی سے منور ہوسکتا ہے۔

___ اور مت بھولیے ، آپ ہی روشنی کے امانت دار ہیں۔ قرآن، سیرت اور کردار روشنی ہے، جہاں بھی رہیے اسی کے چراغ روشن کیجیے۔

اے میرے بھائیو!

کسے معلوم کہ کل ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون کس سے مل پائے؟ وہاں تو ملاقات یقینا ہوگی، مگر اِس دنیا میں بکھر جانے سے پہلے ان چہروں کو جی بھر کر دیکھ لو، اور ان سینوں سے آخری بار معانقے کرلو کہ شاید یہ سب ایک بار پھر یہاں اس طرح جمع نہ ہوسکیں، سواے اس کے کہ ہمارا رب چاہے، اور وہ چاہے تو ہم یہاں پھر بھی مل سکتے ہیں۔

ساتھیو، دوستو اور بھائیو!

اب ہمیں ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے۔

اپنے حواس مجتمع کیجیے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

آیئے! ہم ایک دوسرے کو دعائوں کے ساتھ رخصت کریں، فی امان اللّٰہ!

ایک طرف ہتھیار ڈالنے کی تیاری ہورہی تھی اور دوسری جانب یہ خطاب۔ خطاب ختم ہونے پر البدر کے کیڈٹ بھیگی پلکوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔   یہ سب ساتھی اپنے قائد کو پہلے الوداع ہونے پر اصرار کر رہے تھے، مگر وہ اس بات پر چٹان کی طرح جم گیاکہ: ’’میں آخری فرد ہوں، جو آپ سب کے روانہ ہونے کے بعد اس جگہ سے ہلے گا‘‘۔ اصرار بڑھا تو اس نوجوان نے کہا: ’’دوستو، میں مجبوراً آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ ہجرتوں پر چلے جایئے‘‘۔ اور تمام مجاہد اَن دیکھی راہوں پر چل نکلے۔

یہ نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے آخری ناظم شہید علی احسن محمد مجاہد تھے، جو قیامِ پاکستان کے ۱۰ ماہ بعد ۲۳جون ۱۹۴۸ء کو فریدپور میں پیدا ہوئے۔ وہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طالب علم تھے۔ انھیں ۲؍اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر (م:۱۵ستمبر۱۹۷۲ئ) نے مشرقی پاکستان میں جمعیت کا صوبائی ناظم مقرر کیا تھا۔ یاد رہے علی احسن ’البدر‘ کے صوبائی کمانڈر نہیں تھے۔

اپنی تحریر میں ، ’مَیں‘ کا لفظ استعمال کرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ لیکن آج یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے اس تقریر کے اجزا ان دوستوں سے مل کر قلم بند کیے، جو ان کرب و بلا کے لمحوں میں یہ تقریر سن رہے تھے۔ پھر دسمبر ۱۹۸۰ء میں ڈھاکہ پہنچ کر علی احسن محمد مجاہدبھائی کو یہ تقریر سنائی۔ یہ تقریر سناتے ہوئے جب ایک ایک جملے پر لرزتے ہوئے جملہ زبان سے ادا کرنے میں بے بس ہوجاتا تو علی احسن بھائی مجھے سینے سے لگاکر، اپنے ہاتھ سے میرے آنسو پونچھتے۔ میں حیران تھا کہ علی احسن بھائی کا ملکوتی چہرہ پُرسکون انداز سے اپنے اندر چھپے طوفان کو کس ضبط سے سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ تقریر میری مرتّبہ کتاب البدر میں اکتوبر ۱۹۸۵ء (ص ۱۷۶-۱۷۸) میں شائع ہوچکی ہے۔ کالی دیوی اور سزاے موت دینے والے ٹریبونل نے اس تقریر کو بھی فردِ جرم (چارج شیٹ) کا حصہ بنایا تھا۔ یہ تقریر زمان و مکان کی قید ختم کرتی، ہمیں ڈھاکہ سے اُٹھا کر ۱۴۰۰برس پہلے میدانِ بدر میں لے جاتی ہے۔ اس تقریر میں علی احسن کے ایمان، اعتماد اور مستقبل بینی کو اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی میں اپنے ہاتھ کی لکیریں!

o

سرزمینِ پاکستان پر علی احسن مجاہد کی ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کی صبح ڈھاکہ میں اس آخری تقریر کو، بنگلہ دیش میں ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ء کی رات ۱۲بج کر ۵۵منٹ پر ڈھاکہ ہی میں الوداعی خطاب سمجھ کر، دوبارہ پڑھا، سمجھا اور لفظ لفظ پر خوب غور کیا ۔ بقول نعیم صدیقی مرحوم : 

میرے خیال میں آتے ہیں جب وطن کے شہید

تو سوچتا ہوں کہ اپنی یہ زندگی کیا ہے

سنا تھا خونِ شہیداں سے پھوٹتی ہے سحر

تو میرے گرد یہ دیوارِ تیرگی کیا ہے

کل کا مشرقی پاکستان آج کا بنگلہ دیش ہے۔کل جہاں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور سب سے پہلے دو قومی نظریہ مجسم صورت میں اُبھرا تھا، آج وہ اسی برہمنی سامراج کے خونیں پنجوں میں پھڑپھڑاتے پرندے کے مانند ہے۔ جہاں بھارت نے عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن (م:۱۵؍اگست ۱۹۷۵ئ) کی مدد سے نہ صرف پاکستان توڑا بلکہ خود اپنی قوم کو ایک ایسی غلامی کی دلدل میں دھکیلا تھا، جہاں آج علامتی طور پر بنگلہ دیش کا پرچم تو موجود ہے اور کہنے کو، ایک بنگالی حکومت بھی، مگر عملاً اس کا اقتدارِ اعلیٰ بھارتی بدنامِ زمانہ ’را‘ کے ڈائرکٹریٹ کے ہاتھ میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک دوسرے شیخ، شیخ عبداللہ (م: ۸ستمبر۱۹۸۲ئ)نے بظاہر کشمیر کا اختیار حاصل کرنے کا ڈراما رچایا، لیکن اہلِ کشمیر آج بھی اسی برہمنی سامراج کے شکنجے میں قربانیاں دے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد شہید کا جرم کیا تھا؟

اگر  واقعی وہ اُن جرائم کے مرتکب تھے، جنھیں ’را‘ کے اہل کاروں نے مرتب کیا ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ’مجرم‘ کو خود اُس کے علاقے کے لوگوں نے کیوں ۴۳برس تک  اپنے درمیان قبول کیا؟ کیوں اُس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا؟ کیوں اسے رکنِ اسمبلی منتخب کیا؟ کیوں اسے بطور ’وزیرسماجی بہبود‘ (۲۰۰۱ئ-۲۰۰۷ئ)کام کرنے دیا؟ کیوں عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن کے دورِاقتدار ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۵ء اور بعدازاں حسینہ واجد کے پہلے دورِحکومت میں مقدمہ نہ چلایا؟___ اس المیے کا واحد جواب یہ ہے کہ وہ ایسے کسی جرم میں شریک نہیں تھے۔  اگر ایسا ہوتا تو جنرل حسین محمد ارشاد کے دورِ آمریت (دسمبر۱۹۸۳ئ-دسمبر ۱۹۹۰ئ) میں جمہوریت کی بحالی اور دستوری ترامیم کے لیے عوامی لیگ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوکر جدوجہد نہ کرتی۔

اب ذرا دیکھیے: علی احسن مجاہد کو ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا گیا، ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کو     چارج شیٹ مرتب کی گئی۔ ۲۱جون ۲۰۱۲ء کو الزامات متعین کر کے نام نہاد ٹریبونل میں پیش کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پورے ۱۹۷۱ء میں، اور پھر ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سے لے کر ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کے درمیانی عرصے میں علی احسن مجاہد کے خلاف کسی تھانے میں ان جرائم کی نسبت سے ایک سطر بھی درج نہیں، اور نہ کسی عدالت میں مذکورہ کسی الزام پر مبنی کوئی ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہوا۔ پھر یہ سب اچانک کیوں ہوا؟

اس جعلی عدالت نے، جسے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عدالتی عمل کے پاسداروں نے کھلے لفظوں میں مسترد کردیا ہے، اسی عدالت نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو علی احسن مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ علی احسن نے اُسی وقت عدالت کی کرسی پر بیٹھے نام نہاد جج کو مخاطب کر کے کہا تھا: ’یہ سب جھوٹ ہے اور تمھارا فیصلہ بھی جھوٹ ہے، سو فی صد جھوٹ‘۔ ازاں بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی، جو ۱۶ جولائی ۲۰۱۵ء کو مسترد ہوگئی۔ پھر ۱۸نومبر کو اسی عدالت نے نظرثانی کی درخواست بھی خارج کر دی، اور ۲۱، ۲۲ نومبر کی درمیانی رات سچائی کا قتل کر دیا گیا۔

ہمیں اس وحشت انگیزی کے پس منظر میں کارفرما محرکات کو دیکھنا چاہیے جو بین الاقوامی اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی ایجنڈے کے حامل ہیں۔ اس میں اوّلین محرک تو اسلامی تہذیبی رشتے پر حملہ ہے، اور دوسرا فوری سبب بھارت کے معاشی مفادات کا تحفظ ہے۔ غور کیجیے کہ: ’’آج بنگلہ دیش میں ۵ لاکھ بھارتی کارکن کام کر رہے ہیں۔ (اور بنگلہ دیش، بھارت کے ایک صوبے اترپردیش سے بھی چھوٹا خطۂ ارضی ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری کے وہ ہولناک ڈیرے ہیں، مگر) عرب امارات، امریکا، سعودی عرب اور برطانیہ کے بعد جس ملک سے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھارت منتقل ہوتا ہے، وہ یہی ’آزاد‘ بنگلہ دیش ہے (طیب حسین، ڈیلی اسٹار، ۸مارچ ۲۰۱۵ئ)۔ قبل ازیں یہی بات ڈھاکہ کا اخبار دی نیونیشن (۲۸فروری ۲۰۱۴ئ) لکھ چکا ہے۔ دونوں اخبارات بتاتے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیشی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۷۱۶ئ۳ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ بنگلہ دیش سے بھارت کی طرف بہہ جاتا ہے، جب کہ اس سے دوگنی رقم غیرقانونی ہنڈی کے ذریعے بھارت منتقل ہوتی ہے [گویا کہ تقریباً ۸؍ارب امریکی ڈالر جو: ۶ کھرب اور ۲۴؍ارب بنگلہ دیشی روپے (ٹکے) بنتے ہیں]۔ اس رقم کا بڑا حصہ تجارت، صنعت اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والی این جی اوز میں بھارتی کارندوں کی تنخواہوں کی صورت میں بھارت منتقل ہوتا ہے‘‘ (ذرا یہاں پاکستان میں متحرک مخصوص نظریاتی ’این جی اوز‘ پر نظر ڈال کر دیکھیے، کچھ نہ کچھ ’طبق ضرور روشن‘ ہوں گے)۔

نکتے کی یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ایک طرف بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی، اس بھارتی معاشی یلغار اور غلامی کے سامنے رکاوٹ کھڑی کر رہی تھی اور دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ صحافی اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین کے بقول:  ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران، بطور مشیر پارلیمانی اُمور یہ دیوار کھڑی کر دی تھی کہ ہم بھارت کے ٹاٹا گروپ کو بنگلہ دیش میں ۳؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کرنے دیں گے، اور وہ اس میں کامیاب رہے‘‘۔ (دیکھیے Progress Bangladesh، ۲۱ نومبر ۲۰۱۵ئ)

اگرچہ دیگر نظریاتی، سیاسی اور عالمی اہمیت کے اُمور بھی اس اہتمامِ قتلِ بہاراں میں شامل ہیں، مگر بنیادی طور پر بھارت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی معاشی چراگاہ بنگلہ دیش میں رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں تو اس نے ۱۹۷۱ء کے بعد دوسری بار ۲۰۰۸ء سے میں بنگلہ دیشی معاشرے کو خونیں تصادم میں دھکیلنے کے لیے عوامی لیگ سے مدد مانگی، اور آج یہ سارا کھیل، کسی بنگلہ دیشی قومی مفاد میں نہیں بلکہ بھارت کے معاشی اور سیاسی مفاد میں کھیلا جا رہا ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز اِس طرح مسلسل سیاسی آویزش پیدا کر کے، مقامی سطح پر معاشی استحکام کی بنیادوں کو ہلامارنے اور لوگوں کو باہم لڑانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پھر نریندرا مودی جیسے دہشت گرد کی برہمنی یلغار اس فساد میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

صلاح الدین قادر چودھری (جو ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو چٹاگانگ میں پیدا ہوئے) کے والد ِ گرامی فضل القادر چودھری (۲۶ مارچ ۱۹۱۹ئ-۱۷جولائی۱۹۷۳ئ) چٹاگانگ سے تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما اور قائداعظم کے دست ِ راست تھے۔ وہ نوجوانی سے لے کر آخری سانس تک صرف مسلم لیگ ہی سے وابستہ رہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مکتی باہنی نے انھیں گرفتار کر کے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ’پاکستان مُردہ باد‘ کا نعرہ بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور آخری روز ان کو خنجر مار کر شہید کردیا گیا۔ انھی فضل القادر چودھری شہید کے بیٹے صلاح الدین قادر چودھری نہ صرف بنگلہ دیش کی مسلم قومی شناخت کے علَم بردار تھے، بلکہ بھارت کے معاشی و سیاسی مفادات کے سامنے ایک مضبوط چٹان بھی تھے، اس لیے انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

صلاح الدین قادر شہید کو ۱۶دسمبر ۲۰۱۰ء کی رات گرفتار کیا گیا۔ ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء کو چارج شیٹ جاری کی گئی اور ۴؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ چارج شیٹ نام نہاد خصوصی عدالت میں پیش کی گئی۔  حکومت نے ان کے خلاف ۴۱ خانہ زاد گواہ پیش کیے، لیکن ان جعلی گواہوں کے جواب میں صلاح الدین قادر  نے ۲۰گواہوں کی فہرست پیش کی، جن میں سے صرف پانچ گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت مل سکی۔ پھر چار گواہان کو مختصر ترین وقت میں سننے کے بعد پانچویں گواہ کو سننے سے انکار کردیا گیا۔ صلاح الدین نے ۱۹۷۱ء کے حوالے سے alibi (موقع واردات پہ عدم موجودگی) کے آٹھ گواہوں کے نام پیش کیے تو ان ناموں کی فہرست کو صرف پانچ منٹ کی سماعت کے بعد مسترد کر دیا گیا۔ پھر پاکستان کے سابق قائم مقام صدر اور سابق وزیراعظم محمد میاں سومرو، سابق وفاقی وزیر ریلوے اسحاق خاں خاکوانی، روزنامہ ڈان کی چیف ایڈیٹر عنبرہارون سہگل، منیب ارجمند خاں اور ریاض احمد جیسی قابلِ احترام شخصیات نے حلفیہ یہ گواہی دینے کے لیے ڈھاکہ جانا چاہا کہ: ’’صلاح الدین قادر ۱۹۷۱ء میں پاکستان میں تھے‘‘ تو اُن افراد کے بنگلہ دیش میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ معززین اس بات کے گواہ ہیں کہ صلاح الدین قادر، ۲۹ مارچ سے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک مغربی پاکستان کے شہروں لاہور اور کراچی میں مقیم تھے، مگر اس نام نہاد خصوصی عدالت نے ایک نہ سنی، ایک گواہ کو بھی پیش نہ ہونے دیا۔

یوں ایک جعلی عدالت نے، جعلی مقدمے کی، جعلی کارروائی کا ڈراما رچا کر یکم اکتوبر ۲۰۱۳ء کو صلاح الدین قادر چودھری کو سزاے موت سنا دی۔ ۲۹جولائی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا اور ۱۸نومبر ۲۰۱۵ء کو نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی۔ ۱۹۷۹ء سے ۲۰۱۲ء کے عرصے میں، چٹاگانگ سے چھے مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے صلاح الدین قادر ۲۱،۲۲نومبر کی درمیانی رات، حسینہ واجد کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔

جوں ہی ۱۸نومبر کو دونوں رہنمائوں کی اپیلیں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیں، تو ۱۹نومبر کو انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے علی احسن محمدمجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کے لیے اس سزا پر ردعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا: ’’جماعت اسلامی کے علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر کی سزاے موت کے اعلانات کو [بنگلہ دیشی] حکام فی الفور معطل کریں اور ان فیصلوں کو غیر جانب دارانہ نظرثانی کے عمل سے گزاریں۔ بلاشبہہ ۱۹۷۱ء کے حوالے سے نازک اُمور کی جانچ ہونی چاہیے، مگر مقدمات کو انصاف کے عالمی، مسلّمہ اور عادلانہ معیارات کے مطابق چلانا چاہیے۔ مقدموں کی غیرعادلانہ کارروائی سے کبھی انصاف حاصل نہیں ہوسکتا اور خاص طور پر جب سزاے موت دیے جانے کا معاملہ ہو تو مسئلے کی نزاکت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ، سابق امریکی سفیر اسٹیفن رپ کے اس بیان کو وزن دیتا ہے کہ مجاہد اور چودھری کے مقدموں پر فیصلہ درحقیقت اسقاطِ عدل (miscarriage of justice) ہے۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۰نومبر ۲۰۱۵ئ)

علی احسن محمد مجاہد کے بیٹے نے ۱۹نومبر ہی کو اعلان کر دیا تھا کہ: ’’ہمارے عظیم والد نے اپنی ساری زندگی میں کوئی اخلاقی یا فوج داری جرم نہیں کیا ہے۔ وہ بے گناہ ہیں، انھیں صرف حق گوئی، دین داری کی سزا دی گئی ہے، اس لیے وہ رحم کی کوئی اپیل نہیں کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کٹھ پتلی حسینہ حکومت نے ۲۱نومبر کی سہ پہر سے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ: ’’دونوں لیڈروں نے صدر سے رحم کی اپیل کی ہے‘‘۔ ایک جانب ان مظلوموں پر ظلم کی انتہا اور دوسری جانب انھیں پھانسی دینے سے قبل نمک پاشی کے لیے یہ گھنائونا مذاق۔ بہرحال جوں ہی رات کے سایے گہرے ہوئے تو ڈھاکہ اور تمام بڑے شہروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پولیس اور بنگلہ دیش ریپڈ بٹالین نے پوزیشنیں سنبھالنا شروع کردیں۔ دونوں لیڈروں کے اہلِ خانہ کو آخری ملاقات کا نوٹس دیا گیا ۔ الوداعی ملاقات کے بعد علی احسن کے بیٹے نے جیل کے گیٹ پر حکومتی پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے بیان دیا: ’’جب ہمارے والد نے جرم کیا ہی نہیں تو معافی کی اپیل کیسی؟‘‘اور صلاح الدین قادر کے بیٹے ہمام قادر نے جیل سے باہر نکل کر بتایا: ’’ہمارے والد نے کوئی جرم نہیں کیا، اس لیے انھوں نے کسی سے رحم کی اپیل نہیں کی‘‘۔

’بی ڈی نیوز ۲۴‘ کے نمایندے کو پھانسی گھاٹ پر آخری لمحوں کے گواہ پولیس افسر نے بتایا: ’’پھانسی کے تختے پر قدم رکھتے وقت صلاح الدین قادر اور علی احسن مجاہد، دونوں ہی نہایت پُرسکون تھے۔ ان دونوں کو پھانسی کے ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑا کیا گیا‘‘۔ اور ڈپٹی کمشنر کے بقول: ’’دونوں خاموشی سے پھانسی کے پھندے کی جگہ جاکر کھڑے ہوئے۔ جب ان کی گردنوں میں رسہ ڈالا جا رہا تھا، تو دونوں نے لمحے بھر کے لیے بھی گردن ہلا کر کسی منفی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور پھر ایک ہی لمحے میں دونوں کو (بنگلہ دیش کے وقت کے مطابق رات ۱۲بج کر ۵۵ منٹ، پاکستان میں رات ۱۱بج کر ۵۵ منٹ پر) تختۂ دار پر کھینچ دیا گیا‘‘۔ (۲۲نومبر ، صبح ۶بجے، بی ڈی نیوز۲۴)

دونوں قائدین کے عدالتی قتل کی اگلی صبح حسینہ واجد نے بڑی خوشی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی تو چٹاگانگ سے عوامی لیگی ممبر نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حسینہ نے پھانسیاں دے کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، یہ ٹوٹ تو سکتی ہے، مگر جھک نہیں سکتی‘‘(بی ڈی نیوز،۲۲نومبر)۔ پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ سزاے موت دراصل انصاف کا قتل، اخلاقیات، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم اس سلسلے میں کچھ نہ کرسکے‘‘۔ جس کے جواب میں: ’’کٹھ پتلی وزیراعظم حسینہ واجد نے کابینہ کا اجلاس شروع ہوتے ہی، پھانسیوں پر خوشی کا اظہار کیا اور بنگلہ دیشی برقی ذرائع ابلاغ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کے خاندانوں اور پس ماندگان کے دکھ درد کو کیوں سکرین پر پیش کیا ہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۳نومبر ، شام ۴بجے)

اگرچہ دنیا بھر میں اس ظلم پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم ۴۰ممالک کے علما کی عالمی تنظیم ’رابطہ علماے اہلِ سنت‘ استنبول نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے: ’’بنگلہ دیش میں حکومت غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراسلامی اقدامات کرتے ہوئے محب ِ وطن افراد اور تحریکِ اسلامی کے قائدین کے خلاف انتقامی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صلاح الدین قادر اور    علی احسن محمد مجاہد کا خون تمام مسلم ممالک،اسلامی تنظیموں اور پوری ملت ِ اسلامیہ کی گردن پر ہے، جنھوں نے اس عرصے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ہم ہر صاحب ِ فکر اور ہر ذمہ دار فرد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کی معاونت کے لیے ہرممکن اقدام کریں‘‘۔ (الجزیرہ نیٹ، ۲۳ نومبر ۲۰۱۵ئ)

۲۲نومبر کو پورے بنگلہ دیش کے بڑے شہروں اور قصبوں میں دونوں شہیدوں کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر مقررین نے کہا: ’’ان شہیدوں کا کوئی قصور نہیں تھا، سب الزامات بدنیتی پر مبنی تھے، تاکہ بنگلہ دیش کو ایک خودمختار اسلامی اور معاشی اعتبار سے مستحکم ملک بننے سے روکا جاسکے۔ دشمن بھارت یہ دونوں باتیں ہضم نہیں کرسکتا، اس لیے اُس کی آلۂ کار اور غیرنمایندہ عوامی لیگی حکومت بھارت کی خوش نودی کے لیے اپنے ہی بیٹوں کے خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے بھی معاشرے کی اصلاح، ترقی اور خودمختاری کے لیے کام کررہی تھی، ہم آیندہ بھی اسے بھارتی غلامی سے بچانے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔یہ شہادتیں ہمارا راستہ روک نہیں سکتیں، بلکہ ہمیں ان سے اور زیادہ یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔ ایک بندئہ مومن کی زندگی کا مقصد صرف اسی کی رضا ہے۔ ہم اپنی جدوجہد پُرامن، دعوتی اور جمہوری انداز سے جاری رکھیں گے‘‘۔

۲۳نومبر کو جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی۔ کئی شہروں میں بھرپور ہڑتال رہی، تاہم ہڑتال کو روکنے کے لیے، جماعت اسلامی اور ’اسلامی چھاترو شبر‘ (اسلامی جمعیت طلبہ) کے رہنمائوں کے گھروں کو (بھارت میں بجرنگ دل، شیوسینا اور آر ایس ایس کے فسادیوں کی طرح) رات ہی سے عوامی لیگی غنڈوں نے گھیر لیا، تاکہ مؤثر احتجاج کو روکا جاسکے۔ متعدد کارکنوں کو گھروں سے نکلتے ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سیکڑوں کو گرفتار کرلیا۔کئی رہنمائوں کے گھروں کے سامنے لائوڈاسپیکر پر اعلانات کیے جاتے رہے: ’’تم گھروں کو خالی کرو، اور بنگلہ دیش چھوڑ دو‘‘۔ جیسور کالج ہاسٹل میں اسلامی چھاترو شبر کے دو لیڈروں حبیب اللہ اور قمرالحسن کو لاٹھیاں مارمار کر شہید کردیا اور باقی کا سامان اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔ ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ تاہم، جماعت اسلامی کی جانب سے ہڑتال کی اس اپیل میں بی این پی شامل نہیں ہوئی، حالانکہ صلاح الدین قادر چودھری بی این پی کے مرکزی لیڈر تھے۔انھوں نے  اپنے اہلِ خانہ سے ۲۰ نومبر کی ملاقات میں اپنی پارٹی کے اس رویے پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے افسوس ہے، بی این پی نے یک جہتی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘۔ اور اپنے اہلِ خانہ سے کہا کہ: ’’آپ آیندہ جماعت اسلامی ہی کے ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔

بنگلہ دیشی وزیرقانون انیس الحق نے ۲۴نومبر کو کہا ہے کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس کی متعلقہ پارٹیوں پر جامع پابندی کے لیے، حکومت انتظامی حکم نامہ جاری کرنے کے بجاے باقاعدہ دستوری ترمیم پر کام کر رہی ہے، اور ’خصوصی عدالت‘ سے فیصلہ لینے کے لیے ریفرنس دائر کر رہی ہے تاکہ جماعت اسلامی، اس کی برادر اور اسلامی آئیڈیالوجی پر مبنی تنظیموں پر بنگلہ دیش میں مستقل طور پر پابندی عائد کردی جائے‘‘۔د وسری جانب ۲۵نومبر کو وزارتِ خزانہ نے بنک آف بنگلہ دیش سے کہا کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس سے وابستہ تنظیموں، اور منسلک افراد کے بنکوں، انشورنس کمپنیوں، جایداد خرید و فروخت کے اداروں، ہسپتالوں، کلینکوں ، اسکولوں اور تدریسی اداروں کے لین دین پر کڑی نگاہ رکھ کر رپورٹ مرتب کی جائے، تاکہ مالیاتی پابندی کو مؤثر بنایا جاسکے‘‘۔

بہ ظاہر حالات سخت خراب ہیں اور سیکولر فسطائیت کی گرفت بھی نظر آتی ہے۔ مگر ان شاء اللہ ظلم کی یہ سیاہ رات زیادہ طول نہیں کھینچ سکے گی۔

بلاشبہہ قومی ریاستیں اپنی خود مختار حیثیت سے، اپنے شہریوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا حق رکھتی ہیں۔ لیکن کیا، قوموں کی زندگی اور ان کے وجود کے لیے محض ’معاشی نفع‘ ہی آخری معیار ہوتا ہے؟ دنیا میں قوموں کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ کئی حوالوں سے محض معاشی فلاح کو اوّلین حیثیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تاریخی، تہذیبی، نظریاتی یا فکری پس منظر اور اس سے وابستہ امور بین الاقوامی تعلقات میں فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ اکثر یہ پہلو حد درجہ غالب رہتا ہے، جب کہ معاشی پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔

گذشتہ دنوں (۱۶،۱۷؍اگست) بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی بنیادیں موجود ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کے پروان چڑھتے بلکہ پرجوش بڑھتے ہوئے تعلقات میں بھارتی قومی مقاصد اور عرب یا مسلم دنیا کے مفادات و مقاصد، کون سی نزاکت رکھتے ہیں؟

یوں تو شروع ہی سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ایک خفیہ تاریخ ۱۹۵۰ء سے موجود تھی، جب اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور عملاً تجارتی اور عسکری میدانوں میں تعاون بھی ایک حقیقت تھا۔ نام نہاد ’ناوابستہ ممالک تنظیم‘ (NAM) کا رکن ہونے کی بنا پر بھارت نے ان تعلقات کو چھپائے رکھا۔ مگر ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑنے کی مہم میںبھارت نے کھل کراسرائیل سے مدد مانگی اور اپنے یہودی جرنیل جنرل جیکب کو اس مقصد کے لیے صہیونیوں سے تعاون لینے کی  ذمہ داری سونپی۔ تاہم، گذشتہ ۱۰برسوںکے دوران میں ’بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی کی ایک لہر، منظر پہ چھائی نظر آتی ہے، جس میں اسلحے کی خرید، جنگی تربیت، تحقیقاتی تعاون اور جوہری مہارتوں کے تبادلے میں حد درجہ ابھار آیا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مختصر رپورٹ India  Israel Defense Co-operation کے مطالعے سے کئی پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر الویت سنگھ نے لکھی ہے، اور بارالانا یونی ورسٹی، اسرائیل کے ’دی بیگن سادات سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، کے تحقیقی مجلے Perspectives (۲۷؍جنوری۲۰۱۴ئ) نے شائع کی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے بھارت نے اسرائیل سے ’ری کونا سینس اینڈ آبزرویشن سسٹم‘ (LORROS) خرید کر مقبوضہ کشمیر میں جابجا نصب کیے ہیں، تاکہ کشمیری جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے ۸لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ایک ایک کشمیری کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔

اسی طرح عالمی امور کے ماہر بھارتی نژاد کنشک تھاروا نے ۳؍اگست۲۰۱۴ء کو الجزیرہ امریکا کے لیے اپنے تجزیے میں بھارت اسرائیل تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’ان دونوں ممالک کے درمیان خصوصی تعلقات ہیں اور ان کا ہدف بھی ایک ہے۔ اسرائیل، روس کے بعد دوسرے نمبر پر بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔مزید برآں اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہی ہے۔ بھارت نے بڑی چابکدستی سے عربوں میں دوستی کے تعلقات کی جڑوں کو گہرا کیا ہے، مگر اب تک وہ عرب ممالک پر زور ڈال کر، پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا‘‘۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں نریندرا مودی کے دورئہ اسرائیل کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے یکم جون ۲۰۱۵ء کو اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتی وزیراعظم کے دورئہ اسرائیل کا پروگرام طے کرلیا گیا ہے، جس میں دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کو اوّلیت حاصل ہوگی، اور یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا‘‘۔ اب اگر عرب شیوخ اور راجے امریکی معاشرت میں، صہیونیوں سے بے زار شہریوں کی اصطلاح ’Jew‘ اور ’Black Jew‘کو سامنے رکھیں تو انھیں بخوبی علم ہو جائے گا کہ ’کالے یہودیوں‘ سے مراد بھارتی قوم پرست لیے جاتے ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ۲۶؍جنوری۲۰۰۶ء کو حرمین شریفین کے خادم    شاہ عبداللہ مرحوم نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی سالانہ پریڈ منعقدہ نئی دہلی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ تب انھوں نے بھارتی سرزمین پر بھارت کو کسی ’دہشت گردی سے محفوظ رکھنے‘ کی خواہش کا اتنا پرزور اظہار کیا تھا کہ بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے ان خیالات کو واضح اور متعین طور پر: ’’کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف سعودی حکومت کے عزم اور دہلی سرکار کی ظالم حکومت سے طرف داری‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات سے حریت کانفرنس اور مظلومانِ کشمیر کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ازاں بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ’سعودی بھارت دفاعی تعاون کا معاہدہ‘ طے پایا۔ یہ چیزیں خصوصاً گذشتہ ۱۰برسوں میں تیزی سے پروان چڑھیں اور  انھی کے پس منظر میںمودی کے حالیہ دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ’بھارت سعودی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری‘ کی بنیاد شاہ عبداللہ نے جنوری۲۰۰۶ء میں نئی دہلی میں ’اعلانِ دہلی‘ کے ذریعے رکھی تھی، اور پھر ۲۰۱۰ء میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سعودیہ کے دورے کے دوران ’اعلانِ ریاض‘ کے ذریعے اسے کئی درجے آگے بڑھا دیا تھا۔ شاہ عبداللہ نے شاہ فہد کے انتقال کے بعد اگست ۲۰۰۵ء میں زمام کار سنبھالی تھی اور گذشتہ۵۱برسوں کے دوران وہ  پہلے سعودی حاکم تھے، جنھوں نے (ساڑھے پانچ ماہ بعد ہی) ان تعلقات کا سنگ بنیاد رکھا۔  (دی اکانومک ٹائمز ، ۲۳؍جنوری۲۰۱۵ئ)

پھر چند برسوں بعد ریاست اومان نے بھی بھارت سے ’فوجی تعاون کا معاہدہ‘ کیا، جس سے بحیرۂ عرب میں بھارت کے قدم اورپھیل گئے۔شرق اوسط میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹرے ٹیجک وسعت پذیری پر، دی نیویارک ٹائمز کے خصوصی نمایندے کبیر تانیجا نے لکھا ہے: ’’نئی دہلی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں دوحہ (قطر) میں نہایت مہنگے اور اپنی نوعیت کے منفرد (one of a kind)  دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ایسا معاہدہ آج تک کسی اور ملک سے نہیں کیا، جس کے تحت بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قطر کے اثاثہ جات (assets) اور مفادات (interests)کو لاحق بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔‘‘ (The Diplomat، ۸؍مارچ۲۰۱۵ئ)

یہاں دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست قطر کو بیرونی خطرات کس سے لاحق ہو سکتے ہیں: کیا ایران سے؟ سعودی عرب سے؟ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے؟ یا امریکاسے؟ فرض کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ملک قطر پر چڑھ دوڑتا ہے تو کیا بھارت، مذکورہ ممالک سے اپنے گہرے تعلقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قطر کا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا، یا اس کاغذی معاہدے کا اکلوتا مقصد اربوں ڈالر اینٹھنے کا کھیل ہی کھیلنا ہے؟

سعودی گزٹ  (۱۷؍اگست۲۰۱۵ئ) نے بتایا ہے کہ: ’’بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کا آغازوہاں کی عظیم مسجد میں قدم رکھتے ہوئے کیا، جہاں شیخ زید بن سلطان کی قبر ہے۔ گذشتہ ۳۴ برسوں میں یہ پہلا بھارتی وزیراعظم ہے، جس نے اس ملک کا دورہ کیا ہے۔‘‘ اس پر دل چسپ تبصرہ خود بھارت میں ہوا، جہاں تمام مسلم مکاتبِ فکر کے نمایندہ پلیٹ فارم: ’’مسلم پرسنل لابورڈ‘ کے سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا کہ مودی، ہندستان کی کسی مسجد کا دورہ کرتے‘‘ (روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ درحقیقت اس ایک جملے میں مولانارحمانی نے شہید بابری مسجد کی چیخ اور ہندوانتہا پسندوں کے دست شرانگیز میں پھڑپھڑاتی کئی مسجدوں کا نوحہ بیان کیا ہے۔ گلف نیوز (۱۶؍اگست) کو انٹریو دیتے ہوئے مودی نے ایک طرح دار جملہ یہ بھی کہا: ’’متحدہ عرب امارات میں ایک چھوٹا بھارت ہے۔‘‘ سعودی گزٹ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’’سات ریاستوں کے اس ملک میں ۲۶لاکھ بھارتی ماہرین اور کارکن بستے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں، اور یہاں سے ۱۴؍ارب ڈالر سالانہ بھارت لے جاتے ہیں۔‘‘ یاد رہے اسی دورے میں مودی کو سرزمین عرب پر مندر بنانے کے لیے شاہانِ امارات نے زمین کا بڑا ٹکڑا دے کر، وہاں فتح مکہ کے چودہ سوسال بعد پہلا ’بت کدہ‘ بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس پر بجاطور پر کئی عرب علما نے سخت احتجاج کیا ہے۔

دبئی کرکٹ گرائونڈ میں تقریباً ۵۰ ہزار بھارتی باشندوں سے خطاب کے دوران مسلم کشی کے دیوتا نریندرا مودی نے پاکستان پر سنگین حملے کرتے ہوئے کہا: ’’اچھی دہشت گردی یا بُری دہشت گردی نہیں چلے گی۔ تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم دہشت گردوں کے ساتھ ہو یا انسانیت کے ساتھ؟ ہم سارک کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہیں جو رخنہ اندازی کر رہے ہیں، اور پھر سارک کے تمام ممالک کے نام دہرائے، مگر ان ناموں میں پاکستان کا نام نہیں لیا (خلیج ٹائمز، ہندستان ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ مودی نے اس تقریر میں شرانگیزی کی حد تک پاکستان کا خاکہ اُڑانے کی کوشش کی ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے اسی تقریر کی رپورٹ میں لکھا ہے: ’’مودی نے پاکستان پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں کو دہشت گردی کی ’پناہ گاہ‘ کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے، حالانکہ پاکستان نہ صرف ان الزامات کی تردید کرتا ہے، بلکہ وہ خود بدترین دہشت گردی سے متاثر ہے‘‘ (WST، ۱۸؍اگست)۔ گویا کہ مودی نے اس دورے میں پاکستان اور اس سے وابستہ مسائل کو نفرت انگیز طریقے سے نشانہ بنانا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھا۔

مودی کے دورے کے اختتام پر ۳۱ نکاتی مشترکہ اعلامیے کو دیکھیں تو اس کے پانچ نکات (۲،۳، ۴، ۵، ۱۶) دراصل ایک ہی نکتہ ہیں: ’’مذہب کا غلط استعمال، برداشت، امن، دہشت گردی کا خاتمہ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ، اس ضمن میں اقوامِ متحدہ میں بھارتی مجوزہ ضابطے کی تائید‘‘ وغیرہ۔ یہاں پر پھر دھیان اس طرف جاتا ہے کہ امارات میں تو کوئی دہشت گردی ہو نہیں رہی، البتہ بھارت کے ہاں بغاوت اور خوداختیاریت کی داخلی تحریکیں یقینا مضبوط ہیں، جنھیں بھارت ’دہشت گردی‘ کہتا ہے۔ اسی طرح عرب دنیا میں بھارتی مسلمان مزدور اپنی کمائی سے دین اسلام کے آخری قلعے، مدرسے اور مساجد محفوظ کرنے کے لیے ایثار کرتے ہیں، ان کی رقوم کو بند کرنے کے لیے بھی اسی اعلامیے کا کوڑا برسایا جائے گا۔ برہمن بنیے نے کمال ہوشیاری سے ’دہشت گردی‘ کا سکّہ رائج الوقت اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے عربوں کا کندھا استعمال کیا ہے۔

عرب دنیا میں بھارت سے گہرے تعلقات کے علم بردار طبقے یہ دلیل پورے زورو شور سے پیش کرتے ہیں کہ: ’’بھارت میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، اس لیے ہم کس طرح اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘‘ عرب محبانِ بھارت کی دلیل جزوی طور پر درست ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود بھارت میں یہی مسلمان، جن کی تعداد گن گن کر بھارت، عربوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے، وہ بھارت کی فیصلہ سازی، حکومت اور ریاستی ڈھانچے میں کیا وزن، حیثیت اور مقام رکھتے ہیں؟

ہند کی ۱۸فی صد آبادی رکھنے کے باوجود یہ مسلمان، جن کا واسطہ دے کر تعلق بنایا یا تعلق بڑھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے، بے وزن ہی نہیں، بڑی حدتک بے حیثیت بھی ہیں۔ وہاں ان کا جو وجود ہے، وہ دینی مدارس، دینی جماعتوں، مسلم رفاہی اور تعلیمی اداروں کے بل بوتے پر ہے، اور جو وزن ہے وہ جنوبی ریاستوں میں ان کی آزادانہ معاشی ترقی کی بنیاد پر۔ وگرنہ کانگریس سے لے کر راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کی دہشت گرد سیاسی قیادت تک زیر اقتدار ۲۰کروڑ مسلمانوں کی قسمت کو چند حوالوں سے بخوبی جانچا جا سکتا ہے: یعنی بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد اور ممبئی میںمسلم نسل کشی (جس کی قیادت یا سرپرستی مسٹر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے کی)، آزادی سے لے کر اب تک ۳۰ہزار مسلم کش فسادات، گذشتہ آٹھ برسوں سے اب تک پورے ہند میں ذہین اور متحرک مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے ڈال دینے کا عمل، مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے ’گھر واپسی مہم‘، ۱۹۷۱ء میں پاکستان پر فوج کشی اور ۶۸ برسوں سے ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین فوجی یلغار اور مسلم خواتین کی بڑے پیمانے پر بے حرمتی۔ یہ چند مثالیں بھارتی سیاسی قیادت کی ’مسلم دوستی‘ کے زندہ ثبوت ہیں۔ اور اگر ثناء خوانِ تقدیسِ بھارت، ۹مارچ ۲۰۰۵ء کو ، جسٹس راجندرسچر کی سربراہی میں قائم سات رکنی اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ (۱۷؍نومبر۲۰۰۶ئ) کو چشم ہوش سے پڑھ لیں، تو انھیں بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی، معاشی قتل عام، سماجی اور انسانی تذلیل کے بہت سے ثبوت مل جائیں گے (حالانکہ خود مسلمان اس رپورٹ کو بھی ادھورا سچ کہتے ہیں)۔ اسی طرح یہی لوگ چند کتابیں بھی مطالعہ کرلیں: قیدی نمبر۱۰۰، از انجم زمرد حبیب (کشمیری تحریکِ آزادی سے وابستہ خاتون جس نے زندگی کا قیمتی حصہ تہاڑ جیل میں گزارا)۔ آپریشن اکشردھام از  راجیو یادویو اور شاہ نواز عالم، گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے از مفتی عبدالقیوم، اور کرکرے کے قاتل کون؟ ایس ایم مشرف (سابق انسپکٹر جنرل پولیس مہاراشٹر) تو یہ بھارت کے ’من موہنے چہرے‘ کو عرب پالیسی سازوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آخرالذکر کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ایک ہندو پولیس افسر ہیمنت کرکرے نے کس طرح جواں مردی، انسان دوستی اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اُن اصل ہندو انتہاپسند قاتلوں کو بے نقاب کردیا تھا، جو ہرقسم کی دہشت گردی کرتے اور الزام اُلٹا مسلمانوں کے سر دھرتے ہیں۔ اس ہندو پولیس افسر کو اس ’جرم‘ کی پاداش میں ممبئی کے مشہور اور نام نہاد ’حادثے‘ کے دوران قتل کردیا گیا۔

بھارت کے اس ڈپلومیٹک حملے کا تقاضا ہے کہ جہاں مسلم دنیا کے تحقیقی ادارے معروضی انداز سے گواہی پیش کریں، وہیں مسلم حکومتوںکو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ یہ کام محض ملازمانہ ذہنیت رکھنے والے سفارت کار نہیں کرسکتے۔

جنوری اور فروری۱۹۶۶ء میں خصوصی عدالت کی کار روائی میں سیّد قطب اور ان کے رفقا کو زبردستی، اعتراف جرم کرانے کے لیے جبر و تشدد اور اعضا شکنی کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے ان واقعات کی تائید ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ کی رپورٹ میںبھی شائع ہوئی تھی۔ اس تنظیم کو نہ اخوان سے کوئی دل چسپی تھی،اور نہ مصری حکومت سے کوئی دشمنی۔

’’ایمنسٹی انٹر نیشنل بڑے افسوس سے اس امر کا اظہار کرتی ہے:

                ۱-            ایک خصوصی قانون کے تحت مصر کے صدر کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سیاسی وجوہ کی بنا پر جس شخص کو چاہے، مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک خاص عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے جج صدر خود نامزد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملزم کی قسمت کا فیصلہ صدر خود کرتا ہے۔

                ۲-            فوجی جیلوں میں ملزموں پر بے تحاشا مظالم توڑے گئے، لیکن عدالت میں ان کا ذکر کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس مقدمے کے مشہور نظر بند سیّد قطب نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا، تو عدالت نے یہ کہہ کر روک دیا: ’’تمام ملزمان جھوٹے ہیں، ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

                ۳-            سیّد قطب اور دوسرے اخوانی نظر بندوں کو اپنی صفائی کے لیے وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

                ۴-            اس خاص عدالت کے سامنے ملزموں پر تشدد کا سوال ہوا، تو کارروائی بند کمرے میں ہونے لگی۔ اخباری نامہ نگاروں کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔

                ۵-            ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس سے یہ اعلان کرتی ہے کہ عدالتی کارروائی سے ان مظالم کی تصدیق ہوتی ہے جس کا اظہار نظر بندوں کی طرف سے کیا گیا۔ نیز مصر کے عدالتی نظام کی غیر جانب داری بھی مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ یہ کارروائی اس اعتبار سے بھی غیر تسلی بخش ہے کہ سماعت کے وقت ملزم جسمانی اعتبار سے صحت مند نہیں تھے۔ بعض مقدمات میں تو ایک ملزم کو صرف دو منٹ کا وقت دیا گیا۔

یہ تمام حقائق مصری قانونِ انصاف کی غیر جانب داری کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ لازم ہے کہ حکومت ملزموں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے اور کھلے عام منصفانہ مقدمے کی کارروائی کا موقع دے۔

۹؍اپریل۱۹۶۶ء کو اس ٹربیونل نے صحافیوں کا داخلہ بھی کمرۂ سماعت میں روک دیا۔ کیونکہ سیّد قطب کے حوالے سے تشدد کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔ جوں ہی کار روائی شروع ہوئی تو فوجی جج محمد فواد الدجوی غصّے میںسیّد قطب پر برس پڑے: ’’یہ سب جھوٹ ہے‘‘۔ ۱۲؍اپریل کو جب معالم فی الطریق (جادہ و منزل) زیر بحث لائی گئی، تو اس موقعے پر یہی جج مختلف جملے پڑھ کر آگے بڑھے، تو سیّد قطب نے وضاحت کے لیے کھڑے ہو کرجواب دینا چاہا۔ مگرجج نے انھیں بولنے کی اجازت نہ دی اور کہا: ’’ہر بات واضح ہے‘‘۔ دوسری بار سیّد قطب نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟‘‘ لیکن روزنامہ الاہرام  کے مطابق جج نے بولنے کی اجازت دینے کے بجاے کہا: ’’یہ بات بھی سزا کی مستحق ہے‘‘۔ تیسری بار صفائی پیش کرنے کی کوشش میں سیّد قطب کی زبان سے بس اتنا جملہ ہی نکل پایا تھا کہ: ’’یہ سب میں نے نہیں کہا‘‘ تو جج صاحب انھیں وہیں ٹوک کر، بہتان تراشی اور طنزو استہزا پر مبنی جملوں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ سیّد قطب نے چوتھی بار کہا: ’’مجھے اپنی بات تو کہنے کی اجازت دی جائے‘‘، مگرجج نے اس بات کا جواب دینے کے بجاے محمد یوسف ہواش کو طلب کرنے کا آرڈر جاری کر دیا تو سیّدقطب نے پھر کہا: ’’ایک منٹ‘‘ لیکن جج نے بات کرنے سے روک دیا۔ (روزنامہ الاہرام، قاہرہ ۱۱-۱۳؍اپریل۱۹۶۶ئ)

اخوان کے ان اکابرملزموں کی پیروی کرنے والا کوئی وکیل اس نام نہاد عدالت میں موجود نہیں تھا۔ ’فرانسیسی نیشنل بار ایسوسی ایشن‘ کے سابق صدر ولیم تھروپ اور ممتاز قانون دان اے جے ایم ونڈال اور مراکش کے دو سابق وزراے قانون اور متعدد نامور وکلا نے مقدمے کی پیروی کے لیے اجازت چاہی، جسے اس عدالت نے مسترد کر دیا۔ سوڈان سے وکلا رضاکارانہ طور پر قاہرہ پہنچے اور قاہرہ ایسوسی ایشن سے رجسٹریشن حاصل کر کے جونہی عدالت پہنچے، تو انھیں پولیس نے تشدد کرکے عدالت کے احاطے سے بھگا دیا اور فوراً مصر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

سزاے موت پر ردعمل

اسی ’ترقی پسند‘ ،’روشن خیال‘، اور قوم پرست فوجی عدالت نے ۲۲؍اگست ۱۹۶۶ء کو     سیّد قطب، محمدیوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل کے لیے سزاے موت کا حکم سنا دیا۔

  •   یہ فیصلہ سنتے ہی سیّدقطب نے بڑے باوقار انداز سے ججوں کو مخاطب کرکے فرمایا:

مجھے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ اس مرتبہ حکومت میرے سر کی طالب ہے۔ مجھے نہ اس پر افسوس ہے اور نہ اپنی موت کا رنج، بلکہ میں خوش ہوں کہ اپنے مقصد کے لیے جان دے رہا ہوں۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا کہ ہم راہ راست پر تھے یا کہ حکومت؟

  •  سیّد مودودی: اسی روز لاہور سے سیّد مودودی نے حسب ذیل بیان جاری فرمایا:

قاہرہ کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں اخوان المسلمون کے خلاف   عدالتی کارروائی کا جو ڈراما ہو رہا تھا، اس کے نتیجے میں عالمِ اسلامی کے نہایت ممتاز مفکر، عالم اور صاحبِ قلم سیّد قطب اور چھے دوسرے اصحاب کے لیے سزاے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور باقی ۲۸؍اشخاص کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۵۴ء میں صدر ناصر کی حکومت دنیاے اسلام کی ایک نہایت قیمتی شخصیت سید عبدالقادر عودہ کو اپنی سیاسی اغراض پر قربان کر چکی ہے، جن کی کتاب اسلامی قانونِ تعزیرات کو آج تمام اہل علم خراجِ تحسین ادا کر رہے ہیں۔

اب پھر ایک دوسری قیمتی شخصیت کو انھی اغراض کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، جس کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی اور جس کی تفسیر فی ظلال القرآن اسلامی لٹریچر میں ہمیشہ یاد گار رہنے والی چیزیں ہیں۔ درحقیقت یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ مصر کے حکمران ایسے نازک وقت میں، جب کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات عرب اور اہلِ عرب کے خلاف روز بروز ترقی پر ہیں، اپنی ساری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صرف کیے جا رہے ہیں۔

اس وقت ضرورت ہے کہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے سے ان حکمرانوں پر اس روش سے باز آجانے کے لیے اخلاقی دبائو ڈالا جائے۔ جس عدالتی کارروائی کو انھوں نے اخوان پر یہ ظلم ڈھانے کے لیے بہانہ بنایا ہے، اس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری طرح   بے نقاب کر چکی ہے، اور صدر ناصر کے سوا کوئی شخص بھی یہ باور نہ کرے گا کہ اس    نام نہاد عدالت میں فی الواقع یہ مظلوم لوگ مجرم ثابت ہوئے ہیں۔

پھر ۲۶؍اگست کو مولانا مودودی نے مصری صدر کے نام یہ اپیل ارسال کی:’’سیّد قطب دنیاے اسلام کا مشترک سرمایہ ہیں۔ خدارا، اس قیمتی مسلمان کی زندگی کو ختم نہ کیجیے‘‘۔

۲۶؍اگست ہی کو نومسلمہ مریم جمیلہ نے مصری صدر ناصرکے نام برقی خط بھیجا: ’’آپ کے پاکستانی بھائی، سیّد قطب اور دوسرے اخوانی رہنمائوں کو سزاے موت سناے جانے کے فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار اور شدید احتجاج کرتے ہیں۔ خدانخواستہ، آپ کے ہاتھوں ان کی موت دنیاے عرب ہی نہیں بلکہ دنیاے اسلام کے لیے ایک ناقابلِ تلافی علمی اور تہذیبی نقصان ہوگا۔ اگر آپ نے اس سزا پر نظر ثانی نہ کی، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔

پوری دنیا سے سیّدقطب کی رہائی کے لیے اپیلیں شروع ہو گئیں، البتہ پاکستان اور ہندستان میں مضبوط مذہبی تعلیمی روایت رکھنے والے مکتب فکر کے چند حضرات نے ناصر کے اقدامات کی تائید کی۔ یہ ناصر حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے دنیابھر کی کمیونسٹ پراپیگنڈا مشینری کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس غوغا آرائی نے ناصر کو ہیرو بنائے رکھا، حالانکہ وہ اپنی قوم اور مسلمانوں کے لیے دہشت، ظلم، ذلت اور شکست خوردگی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

آخری ملاقات

سیّد قطب کی سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب، اپنے بڑے بھائی کی شہادت سے ایک رات پہلے کی رُوداد بیان کرتی ہیں:

۲۸؍اگست۱۹۶۶ء کی رات، جب کہ میں جیل ہی میں تھی، جیلر صفوت نے مجھے طلب کیا اور کہا: ’’یہ دیکھو تمھارے بھائی کی موت کا آرڈر، اسے کل پھانسی دے دی جائے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ تمھارا بھائی سیّد ہماری بات کا جواب ’ہاں‘ میں دے۔ اگر وہ جواب ’ہاں‘ میں نہیں دے گا تو صرف تم اپنا بھائی نہیں ضائع کر دو گی، بلکہ ہم اور مصر بھی اسے کھو دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسے پھانسی دی جائے، ہم اسے بچانا چاہتے ہیں۔ اسے سمجھانے اور بچانے میں صرف تم ہماری مدد کر سکتی ہو۔ تم سیّد سے یہ بات لکھوا دو: ’’ہماری تحریک کا تعلق کسی نامعلوم گروپ سے ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’یہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی ،اور خود ناصر کو بھی معلوم ہے کہ اخوان کا تعلق کسی ملکی یا غیر ملکی ناپسندیدہ گروپ سے نہیں ہے، تو پھر میں یہ بات کیوں اپنے بھائی سے کہوں؟‘‘

جیلر نے کہا: ’’تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا تعلق کسی ایسے ناپسندیدہ گروہ سے نہیں ہے اور آپ اچھے لوگ ہیں، لیکن سیّد کو بچانے کے لیے ہمیں اس تحریر کی ضرورت ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’اس بات پر بھائی کا جواب مجھے معلوم ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان تک یہ بات پہنچا دیتی ہوں‘‘۔

جیلر نے عملے سے کہا: ’’اسے سیّد قطب کے پاس لے چلیں‘‘۔

میں نے جیلر اور عملے کی موجودگی ہی میں بھائی تک پیغام پہنچایا۔

بھائی سیّد نے میرے چہرے کی طرف اس طرح دیکھا کہ گویا پوچھ رہے ہوں: ’’کیا تم بھی یہی چاہتی ہو یا یہ چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے اشارے سے ان کو بتایا: ’’یہ چاہتے ہیں‘‘۔

پھر بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’خدا کی قسم! اگر یہ بات سچی ہوتی تو میں لکھ دیتا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے یہ کہنے اور لکھنے سے نہ روک پاتی، لیکن چونکہ یہ بات ہے ہی سراسر جھوٹ، اس لیے میں کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔

جیلر صفوت نے سیّد بھائی سے کہا: ’’اچھا، تو پھر آپ کی یہی راے ہے؟‘‘

سیّد بھائی نے کہا: ’’ہاں، یہی ہے‘‘۔

جیلر مجھے یہ کہہ کر چلا گیا: ’’اپنے بھائی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ لو‘‘۔

اب ہم دونوں بہن بھائی اکیلے تھے، اور یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ میں نے بھائی کو بتایا کہ: ’’اس نے مجھے طلب کرکے کیا آرڈر دکھائے، اور کیا بات کی، اور میں نے کیا جواب دیا‘‘۔

سیّد بھائی نے ساری بات سننے کے بعد براہ راست مجھ سے پوچھا: ’’کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ میں وہ بات لکھ دوں جو یہ چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے بھائی کو ایمان اور دکھ سے لبریز ایک حرفی جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔

پھر سیّد بھائی نے کہا: ’’زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، یہ نہ میری زندگی میں کمی کر سکتے ہیں اور نہ اضافہ، مجھے وہی منظور ہے جو اللہ کو منظور ہے‘‘۔

شھادت کے لمحے

اب یہاں پر مصری جیل خانہ جات پولیس کے دو اہل کار بھائیوں کی یادداشت پیش کی جا رہی ہے، کہ جب وہ ۲۹؍اگست۱۹۶۶ء کے روز سیّد قطب کی پھانسی کے وقت موقعے پر موجود تھے۔ یہ روایت محمد عبدالعزیز المسند نے تحریر کی ہے:

’’جس چیز نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا، وہ یہ مناظر تھے‘‘۔

ہم ہر رات فوجی جیل [قاہرہ] میں بوڑھے اور جوان قیدی وصول کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ: ’’یہ یہودیوں کے ساتھی، بڑے خطر ناک اور غدار ہیں، ان سے تمام راز اگلوانے ضروری ہیں، اور یہ کام صرف تشدد ہی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔

ان قیدیوں کو ہم جیل جانے میں کوڑوں اور چھڑیوں سے اتنا مارتے کہ ان کے جسموں کی رنگت تبدیل ہو جاتی۔ یہ کام کرتے وقت ہمیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہم ایک مقدس قومی   ذمہ داری ادا کررہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم نے ہمیشہ یہ بھی دیکھا کہ وہ ’غدار‘ راتوں میں مسلسل اللہ کو پکارتے تھے اور سختی سے نمازوں کی پابندی کرتے تھے۔

ان میں سے کچھ تو بدترین تشدد اور وحشی کتوں کے جبڑوں میں نوچے جانے کے سبب موت کے گھاٹ اتر گئے، لیکن حیرت ناک منظر یہ تھا کہ وہ پھر بھی مسکراتے اور مسلسل اللہ کا نام لیتے رہے۔ یہ دیکھ کر ہم کبھی کبھار اس شک میں پڑ جاتے کہ ہمیں حکام بالا نے جو بتایا ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ: ’’اتنے پختہ ایمان اوریقین رکھنے والے یہ لوگ ملک کے غدار اور یہودی دشمنوں کے ساتھی ہو سکتے ہیں‘‘۔ میں نے اور میرے بھائی نے فوجی حکام کا یہ رویہ دیکھ کر طے کیا کہ ہم ممکن حد تک ان قیدیوں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں گے۔

کچھ ہی مدت بعد قید خانے کے اس حصے سے تبدیل کرکے ہماری ڈیوٹی ایک ایسی کوٹھڑی پر لگائی گئی، جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ: ’’اس میں سب سے خطر ناک قیدی اور ان تمام مجرموں کا سرغنہ قید ہے، جس کا نام سیّد قطب ہے‘‘۔ اس قیدی کی کوٹھڑی پرتعینات ہوئے، تو ہم نے دیکھا کہ اب تک اس شخص پر اتنا تشدد کیا جا چکا تھا کہ اس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تک مشکل تھا۔

اسی نگرانی کے دوران میں ایک رات اس خطر ناک قیدی کی پھانسی کے احکامات موصول ہوئے، اور احکامات آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس شخص کے پاس ایک سرکاری مولوی صاحب کو لایا گیا، جنھوں نے اس قیدی سے کہا: ’’اپنے گناہوں کی توبہ کرلو‘‘۔ جواب میں قیدی نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا، بس ایک گہری نگاہ سے ان مولوی صاحب کا چہرہ دیکھا، اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

اگلی صبح سرکاری احکامات کے مطابق ہم دونوں اس قیدی کے ہاتھ باندھ کر، کوٹھڑی سے باہر ایک بندگاڑی میں لے گئے۔ اس گاڑی میں دو قیدی پہلے سے موجود تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد یہ گاڑی پھانسی گھاٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ ہمارے پیچھے کچھ مصری فوجی گاڑیاں تھیں، جو قیدیوں کو غالباً فرار ہونے سے باز رکھنے کے لیے ساتھ ساتھ آ رہی تھیں (حالانکہ ہم جیل کی چاردیواری کے اندر ہی تھے)۔ اس فوجی قافلے میں شامل ہر سپاہی نے ذاتی پستول کے ساتھ اپنی اپنی پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔

جلّاد ان قیدیوں کو پھانسی دینے کے لیے تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ مخصوص پھانسی گھاٹ کے تختے پر کھڑا کرکے، دوسرے دو ساتھیوں کے ساتھ اس خاص شخص کی آنکھیں کالی پٹیوں سے باندھی اور گردن میں رسا ڈال دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند جلّاد، اس شخص اور اس کے دو ساتھیوں کے قدموں تلے تختے کو گرانے کے احکامات کا منتظر تھا۔ اس حکم کے لیے بطور علامت، ایک کالے جھنڈے کو لہرایا جانا تھا۔

ہم صاف لفظوں میں سن رہے تھے کہ وہ تینوں قیدی تختۂ دار پر بلندآواز میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے جنت میں ملنے کی خوش خبری کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اور بار بار کہہ رہے تھے: اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد[اللہ عظیم ہے اور تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں]۔

ان دردناک اور سانس روک دینے والے لمحات میں ہم نے ایک فوجی گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جوں ہی ہمارے قریب پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھلا، تو اس میں سے ایک اعلیٰ فوجی افسر نمودار ہوا، جس نے بلند آواز میں، جلّاد کو فوراً پیچھے ہٹنے کو کہا۔

وہ افسر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیّد کی طرف بڑھا اور اس کی گردن سے رسا ہٹانے اورآنکھوں سے پٹی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر کپکپاتی آواز میں سیّد سے یوں مخاطب ہوا: ’’میرے بھائی سیّد، میں تمھارے پاس رحم دل صدر [جمال ناصر]کی طرف سے زندگی کا تحفہ لایا ہوں۔ صرف ایک جملہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو موت سے بچا سکتا ہے‘‘۔

اس نے سیّد کے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک کاپی کھولی اور کہا:

’میرے بھائی، تم صرف یہ جملہ لکھ دو، ’میں نے غلطی کی تھی اور میں معافی مانگتا ہوں۔‘

سیّد کے چہرے پر ایک ناقابل بیان مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ افسر کی طرف دیکھا اور  حیران کن طور پر، مطمئن لہجے میں افسر سے مخاطب ہو کر کہا:

’’نہیں، کبھی نہیں۔ میں اس عارضی زندگی کو، ہمیشہ کی زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔

فوجی افسر نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا: ’’سیّد، اس کا مطلب صرف موت ہے‘‘۔

سیّد نے جواب دیا: ’’اللہ کے راستے میں موت کو خوش آمدید، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘۔

یہ جواب سیّد کے عقیدے کی پختگی ظاہر کرتا تھا۔ اس سے زیادہ مکالمے کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔ افسر نے جلاد کو پھانسی لگانے کے لیے پکارتے ہوئے اشارا کیا۔ اس آخری لمحے میں ان کی زبانوں سے جو جملہ نکلا، وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے:  لا اِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔

اورپلک جھپکنے سے پہلے سیّد قطب اور ان کے دونوں ساتھیوں کے جسم، لٹکتے رسّوں پر جھول گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

شھادت پر سیّد مودودی کا کرب

[چودھری غلام جیلانی روایت کرتے ہیں]’’ریڈیو پاکستان سے سیّد قطب کی شہادت کی خبر سنتے ہی میں بے چین ہو کر، دکھی دل کے ساتھ مولانا مودودی کے گھر اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر۵۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ساتھ ہو لیے۔ مولانا نے ہمیں معمول کے خلاف اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا: میں اور مولانا گلزار احمد ایک جانب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مولانا کے چہرے سے شگفتگی غائب تھی۔

مولانا گلزاراحمد مظاہری نے کہا: ’’مولانا، شہداے اخوان کی تعزیت آپ سے نہ کی جائے تو اور کس سے کی جائے؟‘‘

مجھے یاد آیا، ایک بار مولانا نے شگفتہ انداز میں فرمایا تھا: ’’مجھ میں ایک بہت بڑا عیب ہے، اور وہ یہ کہ میرا چہرہ میری داخلی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیتا‘‘… لیکن آج یہ پہلا موقع تھا کہ دل کا حزن اور طبیعت کا ملال مولانا کے چہرے اور آواز سے مترشح تھا۔

مولانا نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی کو محبوب رکھتا ہے تو اسے اِسی راہ سے اپنے پاس بلاتا ہے‘‘۔

مجھے یکا یک ایسا محسوس ہوا کہ گویا مولانا کے الفاظ ان کے آنسوئوں میں بھیگ رہے ہیں۔ کمرے میں سناٹا سا طاری تھا۔ پنکھا چل رہا تھا، لیکن روح کی انگیٹھی گویا دہکنے لگی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا، جیسے مولانا نے آج اپنے پاسبانِ فکر کو رخصت دے دی تھی، اور اب وہاں فقط ایک  بندۂ مومن کا دل تھا، جو اپنے ہمراہی کے غم میں ڈوب رہا تھا۔

قدرے توقف کے بعد مولانا مودودی نے فرمایا:

میرا توکل سے برا حال ہو رہا ہے۔ آج صبح [۲۹؍اگست۱۹۶۶ئ] جب میں ناشتہ کرکے اپنے دفتر میں کام کرنے کے لیے آیا، تو مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا گویا مجھ پر depression [افسردگی]سا طاری ہو رہا ہے۔ میں نے اخبار اٹھا کر پڑھنا چاہا، لیکن میرا دماغ، میری نگاہوں کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہے؟ ذہن منتشر تھا اور کوشش کے باوجود کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے روشنی گل کر دی اور بستر پر لیٹ گیا۔ دوپہر کے قریب اٹھا، تو بھی کیفیت میں وہی اضمحلال رچا ہوا تھا۔ اتنے میں [بیٹے] محمدفاروق نے آکر اطلاع دی کہ ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ سیّد قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ تب میں سمجھا کہ مجھ پر یہ depression کیوں طاری تھا۔ جس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل اچانک بیٹھ رہا ہے، تو غالباً وہ وہی وقت تھا ، جب سیّد قطب کو تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہوگا۔

یہاں پہنچ کر مولانا مودودی کی آواز شدتِ جذبات سے بالکل رُندھ گئی۔ ہم خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا نے اچانک میز پر پڑے کاغذات کی جانب ہاتھ بڑھا دیا، اور ہم سمجھ گئے کہ مولانا اس موضوع پر کچھ زیادہ بول کر اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں کرنا چاہتے اور زندگی کی مہلت کو اسی خالق کی راہ میں صرف کرنے کو مطلوب سمجھتے ہیں‘‘۔

۲۹؍اگست، سہ پہر ریڈیو پر سیّد قطب اور ان کے دوساتھیوں کو پھانسی دیے جانے کی خبر سن کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اخبارات کو یہ بیان دیا:

آج صدر ناصر نے سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر پوری دنیاے اسلام کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں ، اور اسلامی تاریخ میں اپنے لیے ایک ایسی جگہ پیدا کر لی ہے، جو کسی کے لیے باعث ِعزت نہیں ہو سکتی۔ مصری حکومت کے سارے پراپیگنڈے کے باوجود آج کوئی شخص بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام اور عدلِ اجتماعی) کا مصنّف واقعی سزاے موت کا مستحق مجرم تھا۔ اس فعل پر دشمنانِ اسلام تو ضرور خوش ہوں گے، مگر کوئی مسلمان اس پر ہرگز خوش نہیں ہو سکتا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان شہیدوں کی قربانیاں قبول فرمائے، اور مصر کی سرزمین کو زیادہ عرصے تک عدل و انصاف کی نعمت سے محروم نہ رکھے۔

o

یاد رہے، خود سیّد قطب، مولانا مودودی کے علمی و فکری اثاثے کے دل و جان سے قدر دان تھے۔ انھوں نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس کا والہانہ اعتراف کیا ہے۔ یہاں پر صرف دو اقتباس دیے جاتے ہیں:

  •  ان قیمتی اور دقیق مباحث کو سمجھنے کے لیے مسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ان تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے، جو سود، اسلام اور جدید معاشی نظاموں کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔
  • اسلام میں جہاد کی حقیقت اور دین اسلام کی حقیقت کو بیان کرنے میں ہماری مدد وہ مختصر مگر گراں قدر پمفلٹ کرتا ہے، جس کو ہمارے لیے مسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مہیا کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے: جہاد فی سبیل اللہ۔ ضروری ہے کہ ہم اس کے چند طویل اقتباسات یہاں نقل کریں، کیونکہ تحریک اسلامی کی تعمیر کے اس اہم اور دور رس نتائج کے حامل موضوع سے وہ قاری نظر نہیں بچا سکتا، جو اس موضوع کو واضح اور صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہو۔

اخوان المسلمون کے رہنمائوں کو جب موت کی سزائیں سنائی گئیں، تو پورا عالم اسلام غم و اندوہ کی تصویر بن کر تھرا اٹھا، یہ اس کا پہلا رد عمل تھا۔ دوسرا رد عمل یہ تھاکہ وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ اور  آخر وقت تک میں مصر کے ارباب اختیار کو اس ہولناک گناہ کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کی، مگر مشیت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا۔ جن نفوسِ قدسیہ کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کی سعادت  لکھ دی تھی، وہ عالم اسلام کے احتجاج کی بنا پر اس سعادت سے کیوں کر محروم کیے جا سکتے تھے؟ اور جن کے لیے عذاب الٰہی کانوشتہ لکھا جا چکا تھا، وہ اس نوشتے کی پاداش سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔

سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کے لیے یقینا موت کا ایک دن مقرر تھا۔ ان کی زندگی کے ساغر کے لبریز ہو کر چھلک جانے کی ایک ساعت متعین تھی، اس میں نہ تقدیم ہو سکتی تھی، نہ تاخیر۔ ان خادمان حق نے اپنی زندگیاں دینِ حق کی خدمت میں بسر کی تھیں اور وقت آگیا تھا کہ ان کے حسنِ عمل کو قبولیت حاصل ہو: قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ لَنَا(التوبہ۹:۵۱) ’’ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی(بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے شہادت لکھ رکھی تھی۔ لہٰذا، بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عالم آخرت کا سفر اختیار کرنے کے بجاے وہ شہادت کا تاج سر پر رکھے، رحمت کے فرشتوں کے دوشِ سعادت پر سوار ہو کر اپنے پروردگار کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ اس اعتبار سے سیّد قطب نہایت خوش قسمت تھے۔

سیّد قطب کی شہادت پر اہلِ حق اس لیے غم زدہ نہیں ہوئے تھے کہ وہ موت کی آغوش میں چلے گئے، موت کی آغوش میں تو ہر شخص کو جو پیدا ہوا ہے، جانا ہے۔ افسوس اور غم اس پرہوا کہ اسلام اور عالمِ اسلام ان کی خدمات سے محروم ہوگیا۔ افسوس ان کی موت کا نہیں، افسوس عالم اسلام کی  بے بسی کا ہوا۔ یہ شہیدانِ حق خوش نصیب تھے۔ بدنصیب تو وہ تھے جو اپنے زعم میں یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی راہ سے چند کانٹوں کو ہٹادیا ہے۔ کیا خوب کہا تھا، آل فرعون کے ایک آدمی نے، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہ:

اے میری قوم کے برسراقتدار لوگو، آج تمھیں ملک میں اقتدار حاصل ہے اور تم جو چاہو کر سکتے ہو، مگر یہ تو بتائو کہ خدا کے عذاب سے تمھیں کون بچائے گا، جب کہ وہ آئے گا۔

سیّد قطب اور ان کے رفقا پر تشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اور انھیں پھانسی کے پھندوں پر لٹکانے والے ذلت کی زندگی جئے اور ذلت کی موت مرے۔

اس بندۂ مومن کی یہ صدا ہزاروں برس سے مسلسل فضاے بسیط میں گونج رہی ہے۔ یہ صدا ہر اس موقعے پر نشۂ اقتدار میں بدمست ان لوگوں کو جھنجھوڑتی ہے، جو اس چند روزہ زندگی کے مزے کی خاطر خدا کے دین کی طرف بلانے والوں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اپنے اقتدار کی اندھی، بہری اور حیوانی طاقت سے کام لیتے ہیں۔

مغربی پراپیگنڈے کی حقیقت

پروفیسر جان کیلورٹ( شعبہ تاریخ، گیریگٹن یونی ورسٹی، اوماہا، ریاست ہزاسکا) کو سیّدقطب پر تخصّص حاصل ہے۔ وہ ان کے بارے میں مغرب کے منفی پراپیگنڈے کا جواب دیتے ہیں: ۲۰۱۰ء میں کولمبیا یونی ورسٹی سے شائع شدہ اپنی کتاب Sayyid Qutb and the Origins of Radical Islamism [سیّد قطب اور انقلابی اسلام]میں لکھتے ہیں:

مصر کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا سادا سا نوجوان سیّدقطب، پہلے پہل ایک سیکولر قوم پرست تھا، مگر مطالعے اور حالات کے معروضی مشاہدے نے اسے تبدیل کردیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے مصلح بن کر سامنے آیا۔ امریکا کے سفر نے سیّدقطب کو مشتعل نہیں کیا، بلکہ ان کے اسلامی سماجی، معاشی اور سیاسی مطالعے کو اور زیادہ دلائل و تقویت فراہم کی۔ درحقیقت سیّدقطب کے انقلابی تصورات کی تشکیل کا بنیادی قصّہ یہ ہے کہ: مغربی سامراجی اور مابعد نوآبادیاتی دھونس کے خلاف جدوجہد نے انھیں ظلم کے خلاف ابھارا، جس میں وہ سامراجیت، اشتراکیت، قوم پرستی اور سرد جنگ کے جبر کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔

سیّد قطب نے مطالعہ قرآن سے دل بستگی اور ایثار و قربانی کا سبق حاصل کیا۔ تاہم، ان کے انقلابی تصورات کی تشکیل میں دو چیزوں کو بنیادی دخل حاصل ہے: پہلا یہ کہ عصرِ حاضر اوراس کے افکار و نظریات کا وسیع تنقیدی مطالعہ۔ دوسرا یہ کہ آمرِ مطلق ناصر کے ہاتھوں مصر کی جیلوں میں اخوان کے کارکنوں پر ہولناک مظالم۔ اس کے باوجود سیّدقطب کے ہاں ’تصورجاہلیت‘ میں کہیں یہ بات شامل نہیں ہے کہ جاہلیت زدہ یا بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جائے۔ اس لیے سیّدقطب کو نائن الیون یا القاعدہ سے جوڑنا، مغربی دانش وروں اور مقتدر قوتوں کی کم فہمی اور کج روی ہے۔

یاد رہے کہ مصر کے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ (۱۹۱۱ئ- ۲۰۰۶ئ) نے برملا اعتراف کیا: ’’مجھے تاریکی اور ظلمت سے نکالنے والی ہستی سیّدقطب ہی تھے‘‘۔ علامہ عبدالعزیز بن باز (۱۹۱۰ئ-۱۹۹۹ئ)کہتے ہیں: ’’سیّدقطب راہ خدا کے داعی تھے۔ جب اللہ نے ان کو سیدھا راستہ دکھایا تو انھوں نے قرآن کریم سے خوب لو لگائی‘‘۔

سیّد قطب شہید کی اخوان المسلمون سے وابستگی سے پہلے کس کو معلوم تھا کہ یہ نوجوان دنیا کی عظیم اسلامی شخصیت ہوگا، اسلام کو اس کے ذریعے روحانی طاقت حاصل ہو گی۔ اسے اصلاح معاشرہ اور اشاعت ِ اسلام کی عظیم تحریک کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوگی۔

بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے سیّد قطب ایک جانب اپنی تین بہنوں: نفیسہ قطب، امینہ قطب، حمیدہ قطب اور اکلوتے بھائی محمد قطب کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کی جانب متوجہ  رہے اور باقی وقت ملازمت، صحافت اور قومی جدوجہد میں مصروف رہے۔ ۴۴برس کی عمر میں  اخوان المسلمون سے منسلک ہوئے اور ۴۷برس کی عمر میں دس سال قید بامشقت میں جکڑ دیے گئے۔ ۵۷برس کی عمر میں رہا ہوئے اور ۵۸برس کی عمر میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ اسی دوران ۵۹برس اور ۱۱ ماہ کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرکے حیاتِ جاوداں پاگئے۔ ان کٹھن شب وروز میں وہ شادی نہ کر پائے۔ اس دنیا میں ان کی اولاد ان کی ۲۵کتب اور ان سے فیض پانے والے لاکھوں فرزندانِ اسلام ہیں۔

سیّد قطب گندمی رنگ، درمیانی قامت، اکہرے بدن،بڑی بڑی روشن آنکھوں اور  کشادہ پیشانی کے مالک تھے۔ یہاں ان کے بھائی بہنوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:

  • نفیسہ قطب(۱۹۰۴ئ)، سیّد قطب کی بڑی بہن تھیں، ان کے شوہر بکر شافع تھے۔ اولاد میں چار بیٹے: محمد، فتحی، رفعت اور عزمی تھے، جب کہ دو بیٹیاں: فتحیہ اور مدیحہ تھیں۔ نفیسہ سمیت ان کا پورا خاندان اخوان سے منسلک تھا۔ یہ بھی صدر ناصر کی قید میں رہیں۔ ۱۹۶۵ء کے دوران جیل میں سیّدقطب کے سامنے ان کے بھانجے رفعت ابن نفیسہ کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ رفعت بی ایس سی جیالوجی (ارضیات) تھے، جب کہ چھوٹے بھانجے عزمی ابن نفیسہ پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ان کا جاں بر ہونا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
  • محمد قطب(۲۲؍اپریل۱۹۱۹ئ، اسیوط، مصر-۴؍اپریل۲۰۱۴ئ، المعلاۃ، مکہ مکرمہ) سیّدقطب سے ۱۳ برس چھوٹے ایک ہی بھائی تھے۔ ۱۹۴۰ء میں قاہرہ یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ پھر تعلیم وتربیت اور نفسیات کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا۔ متعدد بار جیل میں رہے، اوربہت زیادہ تشدد برداشت بھی کیا، بلکہ ایک عرصے تک مشہور رہا کہ شہید کر دیے گئے ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں رہا ہوئے۔جلاوطنی کی زندگی کا پورا عرصہ سعودی عرب میںگزارا، جہاں اعلیٰ یونی ورسٹیوں سے منسلک رہے۔ پروفیسر محمد قطب کا یہ قول بہت وسعت رکھتا ہے: ’’صرف سمع و اطاعت پر تربیت دینا ’سپاہی‘ اور ’کارکن‘ تو پیدا کر دے گا، مگر قیادت پیدا نہیں کرے گا‘‘۔ پھریہ کہ: ’’ہمارا سب سے بنیادی اور سب سے بڑا مسئلہ لوگوں پر حکم لگانا نہیں، بلکہ لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے‘‘۔ انھیں ۱۹۸۸ء میں ’شاہ فیصل عالمی ایوارڈ‘ ملا، جب کہ انھوں نے ۳۶علمی کتب تحریر کیں۔
  • دوسری بہن امینہ قطب (۱۹۲۷ئ- ۷؍جنوری۲۰۰۷ئ)، سیّد قطب سے ۲۱ برس چھوٹی تھیں اور ان کے قیام امریکا کے دوران اخوان سے وابستہ ہو چکی تھیں۔ بہت ذہین، ادیبہ، شاعرہ اور افسانہ نگار تھیں۔ ان کی تخلیقات معروف ادبی رسالوں میں شائع ہوتیں۔ افسانوں کے دومجموعے تیارالحیاہ (زندگی کا راستہ) فی الطریق (راستے میں) اور دیوان رسائل الٰی شہید شائع ہوئے۔ زندگی کا ایک حصہ جیل میں گزرا۔ ڈاکٹر محمد کمال سنانیری سے طویل عرصے تک نسبت رہی۔ ۲۰برس کی قید گزارنے والے ڈاکٹر کمال نے پیغام بھیجا: ’’میری رہائی کا کچھ پتا نہیں، آپ نکاح کر لیں‘‘۔ امینہ قطب نے جواب بھیجا: ’’میں انتظار کروں گی‘‘۔ اس طرح جب ڈاکٹر کمال رہا ہوئے تو وہ ۵۰ برس کی تھیں۔ نکاح کے چند برسوں بعد ڈاکٹر کمال دوبارہ گرفتار کرکے شہید کردیے گئے۔
  • تیسری بہن حمیدہ قطب(۱۹۳۷ئ-۱۷؍جولائی۲۰۱۲ئ)، سیّد قطب سے ۳۰ برس چھوٹی تھیں، اور یہ بھی سیّد قطب سے پہلے اخوان سے منسلک ہو چکی تھیں۔ ۱۹۵۴ء میں اخوان پر داروگیر کے زمانے میں، اخوان کے متاثرہ خاندانوں کی دیکھ بھال اور مدد کے لیے متحرک تھیں۔ اسی دوران میں گرفتار ہوئیں، انھیں اخوانی خواتین سے رابطہ کاری پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر ۱۹۶۵ء میں دوبارہ گرفتار کر لی گئیں اور سخت اذیت اور تشدد کے عمل سے گزریں۔ ۱۰ سال قید بامشقت سنائی گئی۔ سیّد قطب کی شہادت ان کی اسی قید کے دوران میں ہوئی، تاہم ۱۹۷۲ء میں رہا ہوئیں تو ان کا نکاح اخوان کے معروف اسکالر اور مصنف ڈاکٹر حمدی مسعود سے ہوا۔

صبحِ نو طلوع ھونے کو ھے!

شہادت سے کچھ عرصہ پہلے سیّد قطب شہید نے عزم و ایمان کے جذبات سے لبریز یہ اشعار کہے تھے:

اے میرے دوست! تو قید و بند میں بھی آزاد ہے،

توسب رکاوٹوں کے باوجود آزاد ہے،

اگر تو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے ہے،

توپھر بندوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں،

اے میرے دوست! تاریکی کے لشکر فنا ہو کر رہیں گے،

اور دنیا میں صبحِ نو طلوع ہو کر رہے گی،

تو اپنی روح کو روشن اور منور ہونے تو دے،

وہ دیکھ! دور سے صبح ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہے،

میرے بھائی! تیرے دل پر فریب کا ایک کمزور اور ناکارہ سا تیر آکر لگا،

یہ تیر تھکے ہوئے بازوئوں نے تیری طرف نشانہ بنا کر پھینکا تھا۔

ان شاء اللہ، یہ [ظالم ]بازو ایک روز کٹ جائیں گے،

لہٰذا، تو صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھ۔

اُس منّوردن کے بعد یہ[ظالم] بازو، شیروں کے مسکن تک نہ پہنچ سکیں گے۔

میرے بھائی! تیری ہتھیلیوں سے خون کے فوارے ابل رہے ہیں،

تیرے ہاتھوں نے ان حقیر زنجیروں کے اندر شل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

تیرے ہاتھوں کی قربانی نے عرشِ اعلیٰ پر قبولیت پائی ہے

یہ ہاتھ، اس مہندی سے گل رنگ ہوں گے،جو کبھی بے رنگ نہ ہو گی۔

میرے ہم دم! آنسو بہاکر میری قبر کو ان سے تر نہ کرنا،

بلکہ میری ہڈیوں سے، تاریک راہوں میں بھٹکنے والوں کے لیے شمع روشن کرنا،

اے میرے دوست! میں معرکۂ حق سے ہرگز نہیں اکتایا،

او رمیں نے ہتھیار ہرگز نہیں ڈالے،

اگرچہ جہالت اور تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر ہی لیں،

تب بھی مجھے صبحِ روشن کے طلوع ہونے کا پختہ یقین ہے!

اللہ نے ہمیں اپنی دعوت کے لیے منتخب کیا ہے،

ہم اُس کے راستے پر ضرور گام زن رہیں گے۔

ہم میں سے کچھ نے جان دے کر اپنی نذر پوری کر دی،

اور کچھ، اس راہ وفا میں اپنے عہد و پیمان پر قائم ہیں۔

میں بھی اپنے رب اور اس کے دین پر خود کو نچھاور کر دوں گا،

اور یقین و ایمان کے ساتھ اس راہ پہ چلتا رہوں گا،

پھر اِس دنیا میں کامرانی سے بہرہ ور ہوں گا، یا

اللہ کے پاس ابدی حیات سے ہم کنار ہوں گا!