اگست ۲۰۲۱

فہرست مضامین

مولانا مودودیؒ کی پکار اور جماعت کی تاسیس!

سلیم منصور خالد | اگست ۲۰۲۱ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

وہ اگست ۱۹۴۱ء تھا اور یہ اگست ۲۰۲۱ء ہے۔

۸۰برس پہلے ایک بیج بویا گیا، جس سے کونپل پھوٹی ، اور پھر ہر کونپل پھل لائی۔ تب پکارنے والا ایک تھا اور اس کی پکار پر لپکنے والے چند ایک تھے۔ اُس آغاز کے وقت پہلا اور واحد ذریعہ ایک رسالہ تھا، ماہ نامہ ترجمان القرآن!

دُنیا بھر کے انسانوں، تمام مسلمانوں اور برصغیر [آج کے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت]  کے باشندوں کی زندگی اور زندگی کے مسائل، اسی ترجمان القرآن میں مسلسل زیربحث تھے۔ کثیرجہتی موضوعات پر کلام کرنے والے، سوئے ہوئوں کو جگانے، اور پھر جاگنے والوں کو راستہ بتانے والے، اللہ کے ایک بندے سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ ان کے مدلل، مربوط اور بھرپور تجزیے نے ایک اسلامی تحریک برپا کرنے کی ضرورت واضح کردی تھی:

  • اسلام کا مقصد، زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ کُلی و اساسی تغیر صرف اُسی طریق پر ممکن ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمایا تھا۔
  • تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے، وہ نہ تو اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۶۰ھ/ مارچ ۱۹۴۱ء،ص ۸۳)

صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے ترجمان القرآن میں ، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان  القرآن سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا:

اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے آدمی موجود ہیں ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے(ص ۱۰۱)۔

اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو یکم شعبان ۱۳۶۰ھ /۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونے کی دعوت دی گئی اور اس اجتماع کا مقام طے تھا: مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کرائے کا مکان، متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ، لاہور___ یہیں پر ماہ نامہ ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا۔ دُوردراز سے آنے والے پہلے ہی چل پڑے اور کچھ حضرات ۲۸ رجب سے ہی آنا شروع ہوگئے تھے۔ یکم شعبان تک ان فرزانوں کی تعداد ساٹھ ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے اور جب ایک تحریک کا آغاز ہوا تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے۔

یکم شعبان کا دن باہم تعارف اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ مولانا مودودیؒ ان افراد کے  سوالات کے جواب دے رہے تھے اور آنے والے یکسو ہورہے تھے۔


تاسیسی اجتماع کا آغاز

پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ ، ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا دن روشن ہوا۔

جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودیؒ ابتدائی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ انھوں نے زندگی اور مقصد ِ زندگی کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

دین کوتحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامدو ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے ، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ادارہ دارالاسلام کا قیام [مارچ ۱۹۳۸ء] اس سلسلے کا پہلا قدم اُٹھایا گیا، اوراُس وقت صرف چار آدمی رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت بہت حقیرسمجھا گیا، مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک، دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲۱۳)

اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق

اس مرحلے پر پیش نظر تحریکِ اسلامی اور دوسری تحریکوں کے درمیان اصولی فرق کو دوٹوک الفاظ میں مولانا مودودی نے یوں بیان کیا:

مسلمانوں میں عموماً، جو تحریکیں اُٹھتی رہی ہیں، اور جو اَب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیے:

  • اُن میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دُنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے، لیکن ہم، عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اُٹھ رہے ہیں، اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
  • اُن میں ہرقسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کرلیے گئے کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو [عملاً] ’مسلمان‘ ہی ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک بہ کثرت ایسے آدمی ان جماعتوں میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے، تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔
  • ان تحریکوں کی نظر صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے، جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیرمسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں اُلٹی سدراہ بن گئی ہیں۔(ایضاً، ص۲۱۴، ۲۱۵)

پھر اپنے اس خطاب میں مولانا مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں:

  • ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اُٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے، جو انبیا علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ ’جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے‘ من شذ شذ فی النار [وہ جہنّم کے لائق ہے]۔یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے اُلجھنے میں کھپ جاتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۱۵)
  • دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جس کو اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق ان کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدینؓ کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قِلَادہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخرکار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
  • ہم کو ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے.... اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک ’فرقہ‘ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں (ایضاً، ص ۲۱۵، ۲۱۶)۔

تحریکِ اسلامی کا میدانِ عمل

پھر مولانا مودودی نے بڑے اختصار اور جامعیت سے تحریک ِ اسلامی کے دائرۂ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا فرمائی:

  • جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔
  • اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہرچیزجس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہٰذا، اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہرانسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص، جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضل اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں، اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔
  • البتہ، یہ بات ہراس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے، وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہرچیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے۔ اس کو اگرکوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں [الانفال ۸:۱۶] … لہٰذا، جو قدم بڑھائو اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے (ایضاً، ص ۲۱۵-۲۱۷)۔

ایک داعی دین کی ذمہ داری

جماعت اسلامی کی باقاعدہ تشکیل سے چند گھنٹے پہلے اس خطاب میں مولانا مودودی صاف صاف لفظوں میں کام اور ذمہ داری کے سمجھانے کے بعدفرماتے ہیں:

  • میرا کام آپ کو ایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا تھا، اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظامِ جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد مَیں آپ میں کا ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے، اور پھریہ اس امیر کا کام ہے کہ آیندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔
  • میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آیندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی آخرکار لیڈر بھی ہونا چاہیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے، اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب ِ عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔
  •  درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے، کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو، اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیراسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو.... لہٰذا جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آیندہ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے، اس کی اطاعت اور خیرخواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہرفردِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا(ایضاً، ص ۲۱۷، ۲۱۸)۔

جماعت کی تشکیل کا لمحہ

۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے روز مولانا مودودی نے ان احباب کے اجتماع میں اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دو روز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اس کا اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ان احباب کے اجتماع میں سب نے اس بحث میں حصہ لیا۔ شام آتے آتے ہرضروری مسئلہ زیربحث آکر طے ہوچکا تھا۔

اس کے بعد سب سے پہلے سیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت: اَشْھَدُ  اَنْ  لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ  اَنَّ  مُحَمَّدًا  رَّسُوْلُ اللہِ پڑھتے ہوئے کہا:’’لوگو، گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔

پھر محمد منظور نعمانی صاحب کھڑے ہوئے، اورآپ نے بھی مولانا مودودی کی طرح تجدید ِایمان کا اعلان کیا۔ پھر ایک ایک کرکے دوسرے افراد اُٹھے، اور اسی طرح تجدیدِ ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے وقت رقّت طاری ہوگئی تھی۔ہرشخص احساسِ ذمہ داری سے کانپ رہا تھا۔

اللہ کو اور حاضرین کو گواہ بنانے والے ان خوش نصیبوں کی تعداد ۷۵ تھی۔ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا۔


۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء ، ۳شعبان ۱۳۶۰ھ کے صبح آٹھ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا۔

سب سے پہلے جماعت کے مختلف اُمور کے ضمن میں ہررکن سے مولانا مودودی نے براہِ راست دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت کے کس شعبے میں اور کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔

اجتماعی زندگی کے بنیادی تقاضے

جب یہ فہرست مکمل ہوگئی تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی تاسیسی ارکان سے مخاطب ہوئے:

’’اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند  اہم باتیں بیان کروں گا:

  • پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہرفرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداًفرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی، یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دُنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے، وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں: تَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ص  وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص [المائدہ ۵:۲۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو]۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔

                        جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دُنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بُت نہ بننےدیا جائے،اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔

                        اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور منکر میں صرف عدمِ تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن، دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ لے۔

                        البتہ، آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے (ایضاً، ص ۲۲۰-۲۲۱)۔

  • تیسری بات یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھہ بندیاں، نجویٰ (Canvassing)، عہدوں کی اُمیدواری، حمیت ِجاہلیہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگراسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیںہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
  • چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہارکرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے، اور جو کسی مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتا ہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے۔ اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے، اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے، تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے (ایضاً، ص ۲۲۱، ۲۲۲)۔
  •  پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ   یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ  کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو، یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیربحث رہتا۔ اُس میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا، اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگرجب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا، تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود  فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مُصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخرکار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا‘‘ (ایضاً، ص۲۲۲)۔

پھر یہاں پر مولانا مودودی نے ارکانِ جماعت کو متوجہ کیا کہ وہ مرحلہ آگیا ہے، جب انھیں اپنے قافلے کا ایک سربراہ منتخب کرنا ہے۔ اس موقعے پر صاف صاف لفظوں میں یہ ہدایت فرمائی:

  • امیرکے انتخاب میں آپ کو جو اُمور ملحوظ رکھنے چاہییں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا اُمیدوار ہو، اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس شخص میں اس کارِعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا، وہ کبھی اس بار کو اُٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا، وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں، مگرکسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیے....
  • اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے، جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے، اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے۔ بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑتوڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے، وہی برسرِاقتدار آتا ہے...  
  • مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب ِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے، اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے.... اگر آپ کسی کو خداترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے۔ اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خداترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اُس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے۔(ایضاً، ص ۲۲۲، ۲۲۳)

مذکورہ بالا تقریر کے بعد ۳شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء) کو دوپہر تک ارکانِ جماعت کے درمیان امیرجماعت کے انتخاب کی مختلف صورتوں کا مسئلہ زیربحث رہا:

  • ایک خیال یہ تھا کہ فی الحال عارضی طور پر امیرمنتخب کیا جائے اور مستقل امیر کے انتخاب کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔
  • دوسری رائے تھی کہ ابھی سرے سے کوئی امیر منتخب نہیں ہونا چاہیے بلکہ چند افراد پر مشتمل ایک مجلس کو اختیارات دے دیئے جائیں اور اس مجلس کا ایک صدر منتخب کرلیا جائے۔
  • تیسری رائے یہ تھی کہ جماعت، بلاامیر بالکل ہی بے اصل چیز ہے۔ اگر ایک تحریک کا آغاز،قیادت کے بغیر یا کسی عارضی قیادت کی بنیاد پر ہوگا تو ایسے کمزور، سُست، ڈھیلے ڈھالے آغاز کا اس عظیم نصب العین سے کچھ میل نہیں بنتا، اور نہ اس سے کوئی تحریک برپا ہوسکتی ہے۔

جب بحث نے طول پکڑا اور بڑے اجتماع میں کوئی اتفاق رائے حاصل نہ ہوسکا تو تینوں گروہوں نے یہ مسئلہ سات افراد کی ایک منتخب مجلس کے سپرد کر دیا۔ اس سات رکنی مجلس میں مولانا مودودی شامل نہیں تھے۔ یہ مجلس بحث و تمحیص کی تمام منازل سے گزر کر، ایک متفقہ نتیجے پر پہنچی کہ تحریک سربراہ کے بغیر نہ ہو، جماعت بلاامیرنہ رہے۔ مجلس کی تجویز، محمدمنظورنعمانی صاحب نے شام چاربجے اجتماع میں پڑھ کرسنائی اور ’’پوری جماعت نے اسے متفقہ طور پر قبول کرتے ہوئے طے کیا کہ اسے دستورِ جماعت میں باقاعدہ دفعہ دہم کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے‘‘۔جب یہ فیصلہ ہوگیا تو سبھی نے متفقہ طور پر مولانا مودودی کو اپنا امیرمنتخب کرلیا۔

امیر جماعت کا انتخاب اور پہلا خطاب

یہ ۳ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۷؍اگست۱۹۴۱ء ہی کا دن تھا۔ بیعت کا رسمی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے سب نے دستور ِ جماعت کی دفعہ دہم کے مطابق اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کیا۔ منظرایک بار پھر گذشتہ شام کا تھا۔ لوگ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے اور التجا کی کہ وہ اس جماعت کو اس کے نصب العین کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تب بحیثیت امیرجماعت مولانا مودودی کا یہ اوّلین خطاب تھا:

میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنےوالا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِعظیم کا بارمیرے اُوپر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ مجھےاس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے.... میں اپنی حدوسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو، اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھےسیدھاکرنے کی کوشش کرے۔(ایضاً، ص ۲۲۷)

مولانا مودودی نے امیر پر جماعت کا، اور جماعت پرامیر کا حق ان لفظوں میں بیان کیا:

آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں۔ ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں۔ جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کردوں، جس کے لیے جماعت اُٹھی ہے۔

اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پرچلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، نیک مشوروں اور امکانی امدادو اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے.... مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں کہ اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں بلکہ اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔

البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرےلیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دُنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔(ایضاً، ص ۲۲۷، ۲۲۸)

اس خطاب کے آخر میں، مولانا مودودیؒ نے ایک نہایت بنیادی بات واضح کرکے بہت سی غلط فہمیوں کے امکانات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے فرمایا:

آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردینا چاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بناپر اختیار کیا ہے۔ جو اصحاب ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتےرہے ہیں، وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ بات صاف کردینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آیندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیرجماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہلِ علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اسی کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہاررائے کی آزادی سلب ہوجائے۔

ارکانِ جماعت کو مَیں خداوند برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص، فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی، جسے میں نے اپنی تحقیق کی بناپر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلاتحقیق، میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہرشخص کے لیے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں، وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں،وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پرعمل کریں۔ نیز ان معاملات میں لوگ مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے۔(ایضاً، ص ۲۲۸، ۲۲۹)


۴شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۸؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے تشکیل کے بعد پہلا دن تھا۔

بنیادی شعبہ جات اور تقسیم کار

امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ سے مل کر (جن کا انتخاب انھوں نے گذشتہ شام ۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو کرلیا تھا) ابتدائی طور پر کام کو پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایا:

  • شعبۂ علمی و تعلیمی کا کام یہ ہوگا:اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ اور عملی اور تاریخی پہلوئوں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرے۔ دُنیا کے دوسرے نظاماتِ فکروعمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے، اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے، جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرسکے۔ ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے، جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو ، اور دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر درس گاہ قائم کرکے آیندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
  •  شعبۂ نشرواشاعت: شعبۂ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے، اس شعبے کا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ ریڈنگ روم اور بُک ڈپو قائم کرے۔
  • شعبۂ تنظیم جماعت کے فرائض ہوں گے: کارکنوں کو ہدایات دینا،انفرادی شکل میں موجود ارکان، مقامی جماعتوں اور جماعت کے نصب العین کی طرف بڑھنے والے حلقوں سے مکمل رابطہ رکھنا۔ رفتار کا جائزہ لیتےرہنا (ایضاً، ص ۲۲۹-۲۳۱)۔
  •   شعبۂ مالیات کے کام کا آغاز۷۴ روپے چودہ آنے کی نقد رقم سے ہوا، جو اسے ادارہ دارالاسلام کی طرف سے ملی۔ ۱۹۳۸ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے لیے مولانا مودودی نے اپنی تمام کتابیں (الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات کے سوا) وقف کر دی تھیں۔ اب اس ادارے میں موجود کتب (مالیت -/۲۰۱۴ روپے) اور تاجروں اور ایجنٹوں کے ذمہ واجب الادا رقوم (۱۳۵۶ روپے دو آنے) بھی جماعت اسلامی کے شعبہ مالیات کا اثاثہ قرارپائیں۔ جماعت کے ذی استطاعت ارکان پر لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ، جس قدر مالی ایثار کرسکتے ہوں کریں۔ رہے جماعت سے باہر کے لوگ، تو اگر وہ بخوشی اور بلاشرط خود کوئی مدد دینا چاہیں، تو قبول کرلی جائے۔ لیکن کوئی بڑی سے بڑی مالی اعانت بھی اس صورت میں قبول نہ کی جائے، جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ اس کے معاوضے میں جماعت کی پالیسی پر اثرڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ص ۴۰،۴۱)
  • شعبۂ دعوت و تبلیغ جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے، اور دراصل کامیابی کا انحصار ہی اس شعبے کی کارگزاری پر ہے۔ہرشخص جو جماعت اسلامی کا رکن ہو، لازمی طورپراس شعبے کا کارکن ہوگا۔ اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسرکرنی ہوگی۔اس کے لیے لازم ہوگا کہ جہاں، جس حلقے میں بھی اس کی پہنچ ہوسکتی ہو، نصب العین کی طرف دعوت دے اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے۔

                        اس شعبے میں کام کرنے کے لیے آٹھ مختلف حلقے معین کر دیے جائیں، اور جماعت کا ہرکارکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انھی حلقوں میں تبلیغ کرے، جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ حلقے ہیں:(۱)جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور کالجوں کا حلقہ (۲) علمائے کرام اور مدارسِ عربیہ کا حلقہ (۳) صوفیا اور مشائخ طریقت کا حلقہ (۴) سیاسی جماعتوں کا حلقہ (۵) شہری عوام کا حلقہ (۶) دیہاتی عوام کا حلقہ (۷) عورتوں کا حلقہ (۸)غیرمسلموں کا حلقہ(رُوداد، اوّل، ص ۴۲،۴۳)۔

امیرجماعت کی ہدایات

جماعت اسلامی کے لائحہ عمل سے متعلق جب ان شعبوں کا تعین اور اعلان کر دیا گیا، تو امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے حاضرین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت کے ارکان کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ان کو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔ اپنی نمازیں الگ نہ پڑھیے،بحثیں اور مناظرے نہ کیجیے۔ جہاں تحقیق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور مخالفت کی بناپر اس تحریک [یعنی جماعت]کو معرضِ بحث میں لایا جائے، وہاں صبروضبط سے کام لیجیے۔ خصوصاً جہاں میری ذات پر حملے کیے جائیں، وہاں تو ہرگز مدافعت نہ کیجیے۔ میں نہ خود اپنی مدافعت کرتا ہوں اور نہ اپنے رفیقوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اس فضول کام میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں ضائع کریں۔ البتہ جہاں کوئی شخص سنجیدگی سے طالب تحقیق ہو، وہاں اپنی تائید میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔مگر جب بحث میں گرمی آتی محسوس ہو تو سلسلۂ بحث بند کر دیجیے، کیونکہ مناظرہ وہ بلا ہے، جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں۔(ترجمان القرآن، ایضاً، ص ۲۳۸)

بحیثیت مسلمان کے ایک ذمہ دارانہ زندگی شروع کرنے کا اور اس سے کلمۂ شہادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت میں جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساسِ ذمہ داری دلا کر اَزسرِنو  کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔ اس تجدید ِایمان کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو عہد اس کے اور خدا کے درمیان پہلے موجود تھا، آج وہ اسے تازہ اور خالص اور مضبوط کر رہا ہے۔  تجدیدِ ایمان کے موقعے پر یہ بات ہرنئے داخل ہونے والے رکن کے ذہن نشین کردینی چاہیے کہ یہ دراصل زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح ہے، آج سے تمھاری ایک بامقصد اور ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔(ایضاً، ص ۲۳۵، ۲۳۶)
  • جو شخص جماعت میں داخل ہو، اُس کو تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا بیش تر حصہ پڑھوا دیا جائے، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوئوں سے واقف ہوجائے، اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھنا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں، تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔
  •  ہرجگہ [ہفتے میں ایک بار] ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لیا جائے، آیندہ کام کے لیے باہمی مشورے سے تجاویز سوچی جائیں۔ بیت المال کے حسابات دیکھے جائیں، اور تحریک کے لٹریچر کے متعلق کوئی نئی چیز شائع ہوئی ہو تو، اس کا مطالعہ کیا جائے۔
  • جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ ان چیزوں کو بار بار، زیادہ سے زیادہ گہری نظرسے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو، جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو، وہاں درسِ قرآن شروع کر دیا جائے۔
  • اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، فرض عبادات کے ماسوا نفلی عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے، اور صدقات وہ چیزیں ہیں، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ریا نہ پیدا ہو۔ نماز سمجھ کرپڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سےدُہرارہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نمازپڑھتےوقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کر رہے ہیں، کہیں آپ کا عمل ان کے خلاف تو نہیں ہے، اور آپ کا اقرار جھوٹا تو نہیں ہے۔ اس محاسبۂ نفس میں اپنی جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں، ان پر استغفار کیجیے اور آیندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • جماعت کے ارکان [اور کارکنان]کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر، بہت بڑے کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لیے ہرشخص کو جو اس جماعت میں شامل ہو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلقِ خدا کے سامنے بھی اس کی ذمہ داری بہت سخت ہے۔ جس بستی میں بھی آپ لوگ موجود ہوں، وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہییں، بلکہ آپ کو بلندیٔ اخلاق، پاکیزگیٔ سیرت اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کے لیے سبب گمراہی بن جائے گی۔
  • تحریک اسلامی کا ایک خاص مزاج اور مخصوص طریق کار ہے، جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں اُن [دوسری] تحریکوں کی جان ہیں، مگر اس تحریک [اسلامی] کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ یہاں کا طریق کار قرآن اور سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرتوں سے سیکھیے، اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انھیں ہانکتے پھریں۔
  • آپ کو یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گردوپیش کی اجتماعی زندگی کو حقیقت ِ اسلامی کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو، اسے مٹانے میں جان و مال کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں، وہ پچھلے اندازِ تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں۔ جو محرّر [لکھنے والے] ہیں، انھیں بھی غیرذمہ دارانہ اندازِ تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہیے، جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
  • مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے نزاعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیے۔ بالکل یک سُو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے۔ جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے، اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔
  • تبلیغ میں حکمت اور موعظۂ حسنہ کو ملحوظ رکھیے: ’حکمت‘ یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں۔ اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں۔ اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔’موعظۂ حسنہ‘ یہ ہے کہ جس [کے سامنے] آپ تبلیغ کریں، اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہِ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو.... یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ دعوت الی الخیر سننے یا کسی نصیحت کو قبول کرنے کے موڈ میں نہ ہو، اس وقت اسے دعوت دینا، یا ایک وقت میں جتنی خوراک وہ قبول کرسکتا ہو، اس سے زیادہ خوراک اس کے اندر اُتارنے کی کوشش کرنا، بجائے مفید اثر ڈالنے کے، اُلٹا خراب اثر ڈالتا ہے۔ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیے۔(ایضاً، ص ۲۳۶-۲۴۰)

۵ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۹؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے اس تاسیسی اجتماع کا آخری دن تھا۔امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ کے مشورے سے جماعت کے ابتدائی پروگرام سے متعلق کچھ اُمور طے کیے، اور یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ آنے والے یہ چند فرزانے ایمان، رہنمائی اور جذبوں کی دولت لے کر ہندستان بھر میں پھیل گئے۔


اجتماع میں آنے والوں کا سلسلہ یومِ تاسیس ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے بعد بھی جاری رہا۔ اس کا اشارہ  ترجمان القرآن کے ان اشارات سے ملتا ہے، جو اجتماع کے بعد لکھےگئے:

جماعت اسلامی کی تشکیل کا استقبال مختلف حلقوں میں مختلف طور پرہوا ہے:

__ کچھ اللہ کے بندے تو ایسے ملتے ہیں، جو اس چیز سے واقف ہوتے ہی اسے اس طرح قبول کرتے ہیں، گویا کہ وہ پہلے ہی سے اس کے طالب تھے۔

__کچھ دوسرے لوگ اس پر غور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے شبہات پیش کر کے مزید توضیح چاہتے ہیں۔

__ کچھ اور لوگوں کے دل نے گواہی دی ہے کہ مخالفت کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو یہی ہے۔

__ اور ایک گروہ کثیر، انتظار کی روش کو ترجیح دے رہا ہے۔

__یہ سب مختلف قسم کے استقبال، خلافِ توقع نہیں ہیں، پہلے ہی ان کا اندازہ تھا۔

البتہ جو چیز ہمارے اندازے سے بڑھ کر نکلی، وہ لبیک کہنے والوں کی تعداداور اُن کی کیفیت ہے۔ [غیرمنقسم]ہندستان کے اس قبرستان میں مشکل ہی سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ اس طرز کے ایک نظام کو قبول کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ آدمی ابتدا ہی میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

__یہ بات اور بھی کم متوقع تھی کہ اس چیز پر لبیک کہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو روح و ضمیر کی ان قتل گاہوں سے سند ِ موت لے کر نکلے تھے، جن کو کالج اور یونی ورسٹی کہتے ہیں۔

__ ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہمت افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے،  ان میں سے اکثر کے طرزِ اقدام سے احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں اُتررہے ہیں بلکہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ وضع احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدا کی راہ میں اُٹھے پھر پیچھے نہ پلٹے:ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲)

داعی تحریک ِ اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مذکورہ بالا خطبات میں بیان کردہ اہداف اور ہدایات میں نشانِ منزل بھی ہے، اور منزل کے راستے کا نقشہ بھی۔ ان کلمات میں راستوں کی رکاوٹیں بھی درج ہیں اور عزم و ہمت کے مینار بھی روشن ہیں۔ دردِ دل میں ڈوبی اس رہنمائی میں تنظیم و تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے احتسابِ ذات اور احتسابِ تحریک کا پورا نصاب بھی صاف صاف درج ہے۔

 آج ۸۰ برس ہوچکے ہیں۔ اس کاروانِ شوق کو منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، جموں و کشمیر میں فکری یگانگت، مگر یکسرطور پر الگ الگ تنظیمی وجود  کے باوجود، حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ اب پرچم تیسری نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لارہاہے، قربانیاں دے رہا ہے، ہر رکاوٹ میں سےراستے نکال کر منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مگر داعی کی پکار اور تاسیسِ جماعت کے مخاطب آج ہم خود اہلِ قافلہ ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہردیکھنے والا دیکھ لے، اور ہر تولنے والا تول لے: قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے!