ڈاکٹر نجم عباس


بیرم بلچی نے اپنی کتاب Islam in Central Asia and The Caucasus Since the Fall of the Soviat Union [اشتراکی روس کے زوال کے بعد وسطی ایشیا اور قفقاز میں اسلام] میں اس خطے میں اسلامی تہذیب کے احیا کے امکانات کی نسبت سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران رُونما ہونے والی تبدیلیاں، جو ان ممالک کی آزادی کے بعد سامنے آئیں، ان کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔اشتراکی روس کے انہدام کے بعد روسی فیڈریشن اور نوآزاد مسلم ریاستیں اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں کہ دیگر مسلم ممالک مثلاً ایران، ترکی اور مصر وغیرہ کی نظریاتی تحریکیں کس طرح اس خطے پر اثرانداز ہوسکتی ہیں؟ پہلے عشرے میں ان کے رجحانات اور تجربات میں ایک تدریجی ارتقا پایا گیا۔ یہ ممالک پہلے تو اپنی کھوئی ہوئی پہچان حاصل کرنے کے لیے محتاط انداز سے آگے بڑھے، اور اسلامی احیائی قوتوں سے مزاحمت پر منتج ہوئے (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کے نزدیک مسلم شناخت ایک محدود زاویہ رکھتی ہے، ان کا یہ غلط مفروضہ ایک وہم کے سوا کچھ نہیں ہے (ص۲)۔

اپنی آزادی کے آغاز ہی سے وسطی ایشیا کی حکمران مسلم قیادت نے ایک جزئی اور محدود قسم کے رویے کو فروغ دیا، جو ان کی مفاداتی ترجیحات سے ہم آہنگ تھا۔ ازبکستان نے معاشرے کی تنظیم میں دینی رجحانات کو اپنی گرفت میں رکھا (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ یہ منہج صر ف ازبکستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیگر مسلم ریاستوں میں بھی کم وبیش ایسے ہی معاملات اور رویوں کو برتا گیا (ص۱۱۵)۔ ازبکستان تو ایک واضح مثال ہے کہ کیسے وہاں اشتراکی روس ہی کے تربیت یافتہ افراد کی موجودگی میں، کس طرح مذہبی اُمور سے نبٹنے کے لیے صف بندی کی گئی، جس سے ایک نیا قومی تشخص وجود میں آیا (ص ۱۱۴، ۱۱۵)۔

وسطی ایشیا کی سیاسی قیادت کی شروع سے یہ کوشش رہی کہ کس طرح اپنے عوام کو دینی رجحانات کے اثرات سے دُور رکھا جائے۔ عام طور پر اس حوالے سے ترکی کو مصطفیٰ کمال ماڈل کی نسبت سے دیکھا گیا، کہ ترکی نے اسلامی اثرات کو کھرچنے اور روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے اور کس طرح اسلامی پیش قدمی کے سامنے مزاحمتیں کھڑی کی تھیں (ص۵۱)۔ یہ کتاب ان ریاستوں میں اجتماعی دینی میراث کو اَزسرنو مرتب کرنے کی منظم کاوشوں کو سامنے لاتی ہے، جس کے تحت خاص طور پر دین کے محدود مطالعے کے ساتھ، دین کی ایک بانجھ اور بے فیض تعبیر کو فروغ دیا گیا اور اس کی بنیاد خوف، ہیجان اور بسااوقات خیالی روایات پر رکھی گئی۔ ایسے قوانین اور ضابطوں کو بروئے کار لایا گیا، جو مذہب اسلام کے فروغ کے آگے بند باندھ سکیں (ص ۱۲۹)۔

ہرچند کہ ایران اپنے شمالی پڑوسیوں میں خاص دل چسپی رکھتا تھا، لیکن ایران کے حوالے سے ایک عمومی سلبی تاثر کی وجہ سے ایران کو ان ممالک میں نفوذ کے ضمن میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہ مل سکی۔ جن لوگوں کے فکروخیال اور شخصیتوں کی آبیاری اشتراکی روس کےدورمیں ہوئی تھی، وہ آج تک بیرونی اثرات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں اور ان کے لیے اب بھی سیکولرزم، الحاد یا لادینیت ہی سب سے پسندیدہ نظریہ ہے، جس کی ڈھال کے پیچھے وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں (ص۹۱)۔

کتاب کے مصنف نے عربوں کے حوالے سے عموماً اورسعودی عرب کے حوالے سے خصوصاً ایک تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے، جس سے اس کا مقصد ’سلفی اثرات‘ کے فروغ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور لکھا ہے کہ ازبکستان میں سعودی اثرات کے حوالے سے کافی منفی رویے پائے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سعودی عرب کی دینی روایات کو ’رجعت پسندی‘ اور قبائلی معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان وسطی ایشیائی مسلم ممالک نے حج کے سفرپر پابندی لگارکھی ہے۔ اس کا مقصد اپنے عوام کے آزاد انہ سفر پر پابندی ہے، تاکہ ان کے شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کے نتیجے میں دینی و تحریکی خیالات اور نظریات کے آنے اور ان کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ یوں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے نسبت رکھنے والے تمام نظریات اور دینی رجحانات کے فروغ کو ناممکن بنایا جاسکے (ص ۱۰۷)۔

 ان وسطی ایشیائی مسلم حکمرانوں کو یہ بھی خوف لاحق رہا ہے کہ ’’حاجی مکہ سے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے احساسات سے سرشار ہوکر لوٹیں گے، اور یہی فکر اپنے دیگر ہم وطن لوگوں میں بھی منتقل کردیں گے، جس سے وسطی ایشیا میں پائی جانے والی ازبک اکائی بتدریج منتشر ہوجائے گی اور بالآخر ازبک حکام اس مزاحمتی سوچ کے سامنے بے اثر ہوجائیں گے‘‘ (ص ۱۴۰)۔

اس طرح وسطی ایشیا کی ریاستیں ’اسلامی شدت پسندی‘ کا خطرہ کھڑا کرکے دینی رویوں کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر ادارے نہ صرف شدت پسندی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے مقابلے میں ایک غیرسیاسی اور معتدل مذہبی تعبیر کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ کتاب وسطی ایشیا اور قفقاز کے خطے میں، ۱۹۹۱ء میں آزادی کے بعد سے دینی رویوں اور رجحانات میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید ماخذ ہے۔ مصنف نے اپنے مشاہدات،علمی حقائق اور تجزیات بیان کیے ہیں، جن سے وسطی ایشیا کی قیادت کے اقدامات اور اپنے خطے کی دیگر قوتوں سے تعلقات کے بارے میں ان کی سوچ اور ترجیحات سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔یہ کتاب ہرسٹ اینڈ کمپنی لندن نے شائع کی ہے، جو ۲۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ (مسلم ورلڈ بک ریویو، جلد۴۲،شمارہ۱، ص ۴۴)