ڈاکٹر محمد ہمایوں یعقوب


کہتے ہیں کہ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کا چہرہ اُترا ہوا ہے، کسی کا بگڑا ہوا ہے، کسی کا چہرہ تمتا رہا ہے تو کسی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ کسی کے چہرے کا رنگ سرخ ہے تو کسی کا زرد وغیرہ۔ انسانی چہرے صرف اس دنیا میں ہی بدلتے رنگوں اور کیفیات کے ساتھ نہ ہوں گے بلکہ آخر ت میں بھی اس طرح کے مناظر دکھائی دیں گے۔ اس کی منظرکشی قرآنِ پاک میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔

نیکوکاروں کے چھرے

وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ط ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۷) رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو ان کو اللہ کے دامنِ رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے۔

یہ بھی فرمایا گیا: یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ  (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) ’’کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے‘‘۔ کہیں فرمایا گیا کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ o لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ o (الغاشیہ ۸۸:۸-۹) ’’کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے‘‘۔ اسی طرح ایمان والوں کے چہروں کا حال دنیا میں بھی بیان کیا گیا کہ سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح ۴۸:۲۹) ’’سجود کے اثرا ت ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں‘‘۔

صاحب ِ ایمان لوگوں کے چہروں کا حال قیامت کے روز کیا ہوگا؟ یہ منظر بھی دیکھ لیں: تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِo(المصطففین۸۳:۲۴) ’’ان کے چہروں پر تم خوش حالی کی رونق محسوس کرو گے‘‘۔گویا ایمان داروں کے چہرے ان کی دلی کیفیات کا مظہر ہوں گے۔    اس کا اثر ان کے پُررونق اور چمکتے دمکتے چہروں سے خوب خوب عیاں ہوگا۔

مجرمین کے چھرے

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ o ( اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت پانے کے بعد تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا۔ اچھا! اس کفرانِ نعمت کے صلے میں عذاب کا مزا چکھو۔

یعنی کفار و مجرمین کے چہروں سے جہالت و گمراہی کی سیاہی ٹپک رہی ہوگی اور ہیبت و دبدبے کی وجہ سے ان کی رنگت اُڑی جارہی ہوگی۔ چنانچہ فرمایا گیا: کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْھُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا ط (یونس ۱۰:۲۷) ’’ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ:  وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُھُمْ مُّسْوَدَّۃٌ  ط (الزمر ۳۹:۶۰) ’’آج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھ لو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے‘‘۔

عذاب کو دیکھ کر چھرے کے تاثرات

منکرینِ حق جب روزِ قیامت عذاب کو دیکھ لیں گے، انھیں اپنی شامت صاف دکھائی دینے لگے گی اور پھر ان کے چہرے بھی ان کی دلی کیفیت کی چغلی کھا رہے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے کہ دنیا میں وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز، بڑی بڑی جاگیروں کے مالک، سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ عیش و عشرت میں پلے بڑھے۔یہی مال و دولت، عیش و عشرت ان کے قبولِ حق کی راہ میں دیوار ثابت ہوا۔ آخرت میں جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی انھیں صاف دکھائی دے گا تو چہرے بھی عجیب منظر پیش کر رہے ہوں گے۔

آیئے ان چہروں کا حال جاننے کے لیے قرآنِ حکیم کی ورق گردانی کیجیے۔ فرمایا گیا: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ oعَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ o (الغاشیہ۸۸:۲-۳) ’’کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوںگے، سخت مشقت کر رہے ہوں گے، تھکے جاتے ہوں گے‘‘۔ اسی طرح فرمایا گیا: وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ o تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِھَا فَاقِرَۃٌ o (القیامۃ۷۵:۲۴-۲۵) ’’اور کچھ چہرے اُداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ کمرتوڑ برتائو ہونے والا ہے‘‘۔ مزید تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ: فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْفَۃً سِیُٓـئَتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (الملک۶۷:۲۷) ’’پھر جب یہ اس چیز کو قریب دیکھ لیں گے تو ان سب لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے‘‘۔ یہ حالت ان کی دنیا میں بھی ہوتی تھی۔ جب وہ کلامِ پاک سنتے تھے ، بجاے اس کے کہ وہ اس سے نصیحت قبول کریں اُلٹا وہ ان کے لیے گراں ثابت ہوتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا:وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَ ط (الحج ۲۲:۷۲) ’’اور  جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں‘‘۔

اب آخرت میں محض ان کے چہرے ہی خوف زدہ نہیں ہوں گے بلکہ خوف و ہراس اور ہذیان کی عجیب کیفیت ہوگی جس کا عبرت ناک منظر اس آیت مبارکہ میں دکھائی دیتا ہے کہ:

لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَ اَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ ط (ابراھیم ۱۴:۴۳) اس دن جب یہ حال ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں۔

دنیا میں منکرین کے چھرے

قرآنِ حکیم منکرین کے چہروں کا حال بھی بیان کرتاہے جو حق کی صدا اور نیکی کی پکار سن کر بگڑنے لگتے ہیں اور قرآن کی باتیں ان کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں۔ اس حالت کا جو نقشہ  سورئہ حج کی آیت ۷۲ میں کھینچا گیا ہے وہ اُوپر گزر چکا ہے۔ دیگر مقامات پر بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:

قُلْ ھُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ o اَنْتُمْ عَنْہُ مُعْرِضُوْنَ o(صٓ۳۸:۶۷-۶۸) ان سے کہو یہ ایک بڑی خبر ہے جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو۔

فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ o (المدثر۷۴:۴۹) آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔

اسی منہ پھیرنے اور حق سے انکار کی سزا تو جہنم ہے جس کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ:   لَا  یَصْلٰھَآ اِِلَّا الْاَشْقَی o الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (الیل : ۹۲:۱۵-۱۶) ’’اس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا‘‘۔ یہ بھی فرمایا گیا: فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ  (المدثر ۷۴:۴۹)  ’’آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘۔

ان چہروں کا کچھ بھی عبرت ناک انجام ہوسکتا ہے جیساکہ فرمایا گیا کہ وَاِِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَھُمْ تَبْدِیلًا o(الدھر۷۶:۲۸) ’’اور ہم جب چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں‘‘۔ آخرت میں ایسے بدبخت چہرے ہی الم ناک اور رُسوا کن عذاب سے دوچار ہوں گے۔

بدبخت چھروں کا عبرت ناک انجام

عذاب النار تو ہے ہی سخت ترین اور دُکھ دینے والا عذاب۔ قیامت کے دن جب جسم کے دیگر اعضا اس بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے تو چہرے بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ: تَلْفَحُ وُجُوْہَھُمُ النَّارُ وَھُمْ فِیْھَا کٰلِحُوْنَ o(المومنون۲۳:۱۰۴) ’’آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل آئیں گے‘‘۔ گویا جس طرح جانور کی سری آگ پر جھلسائی جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کے چہرے آگ کے سپرد کیے جائیں گے، حتیٰ کہ گوشت گل کر جبڑے سامنے اُبھر آئیں گے۔ اسی طرح فرمایا گیا :

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَاo(احزاب ۳۳:۶۶)  جس روز ان کے چہرے آگ پر اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے ا س وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی۔

اور یہ حال ان کا اس لیے ہوگا کہ انھوں نے دنیا میں نیکیوں کے بجاے بُرائیاں ہی کمائی ہوں گی۔ چنانچہ فرمایا گیا:

وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارط (النمل ۲۷:۹۰) اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔

اور یہی نہیں بلکہ ان کی پیٹھیں بھی عذاب کا شکار ہوں گی۔لَا یَکُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْھِھِمُ النَّارَ (الانبیاء ۲۱:۳۹) ’’جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچاسکیں گے نہ پیٹھیں‘‘۔ چہروں کو صرف آگ کا سامنا ہی نہیں کرنا ہوگا بلکہ عذاب کی دیگر صورتیں بھی ہوں گی: اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْہِہٖ سُوٓئَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط (الزمر ۳۹:۲۴) ’’اب اس شخص کی بدحالی کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا ‘‘۔اور اس عذاب کی صورت کا نقشہ بھی یوں کھینچا گیا ہے کہ: فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ (محمد ۴۷:۲۷) ’’پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انھیں لے جائیں گے‘‘۔

پھر آگ کا عذاب اس پر مستزاد ہوگا اور ذلت آمیز طریقے سے انھیں آگ کے سپرد کیا جائے گا۔ چنانچہ فرمایا گیا: یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِھِمْ ط ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ (القمر۵۴:۴۸) ’’جس روز یہ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے اس روز ان سے کہا جائے گا اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا‘‘۔

چھرہ اندرونی کیفیت کا عکاس

انسانی چہرہ دل کی اندرونی کیفیت کی واضح عکاسی کرتا ہے اور دل کا چور آشکارا کردیتاہے ، چاہے وہ اپنے جذبات و احساسات کوکتنا ہی دباتا پھرے۔ چنانچہ کہاگیا کہ: یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیمٰھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاَقْدَامِ o (الرحمٰن۵۵:۴۱) ’’مجرمین وہاں اپنے چہرے سے پہچان لیے جائیںگے اور انھیں پیشانی کے بال اور پائوں سے پکڑپکڑ کر گھسیٹا جائے گا‘‘۔

ظاہر ہے کہ جب کچھ چہرے اداس اور کچھ سیاہ، کسی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوں، کچھ خوف زدہ اور کچھ بگڑے ہوئے، جب کہ دوسری طرف کچھ چہرے روشن، بارونق اور خوش باش ہوں گے تو خود ہی واضح ہوجائے گا کہ مومنین کون ہیں اور مجرمین کون؟

ھمارے چھرے اور ھماری روش

آج ہمیں کوئی پروا نہیں ہے کہ کل ہمارا انجام کیاہوگا! بدی سے رشتہ استوار کیے ہوئے ہیں اور حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ہماری اسی روش کا نقشہ اس آیت مبارکہ میں کھینچا گیا ہے :

اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُکِبًّا عَلٰی وَجْہِہٖٓ اَہْدٰٓی اَمَّنْ یَمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(الملک۶۷: ۲۲) بھلا سوچو جو شخص اوندھے منہ چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اُٹھائے ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو۔

اسی طرح ظالموں کی عادات کا ذکر کیا گیا ہے کہ: وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا ط (السجدہ۳۲: ۲۲) ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیرلے‘‘۔ اس روش کا انجام تو پھر ظاہر ہے کہ جہنم ہی ہوگا۔ چنانچہ فرمایا گیا: اِِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ o فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ o (الغاشیہ ۸۸:۲۳-۲۴) ’’البتہ جو شخص منہ موڑے گا اورانکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا‘‘۔

انسانی چھرہ - حساس مقام

انسان اپنے چہرے کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معمولی سا داغ اور ذرا سا نشان بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔ تل، کیل اور مہاسے جیسی چھوٹی اور معمولی چیز بھی اسے ناگوار گزرتی ہے۔ اسی طرح منہ پر طمانچے رسید کرنے میں بھی وہ بڑی توہین خیال کرتا ہے۔ اسلام میں بھی چہرے پر مارنے کی ممانعت ہے، حتیٰ کہ جانوروں کے چہرے پر مارنے کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ چہرے کے معاملے میں اتنا حساس ہونے کے باوجود اپنے چہرے کو آگ کی لپٹ، جہنم کی لُو، دوزخ کے دھوئیں اور عذاب کی تپش سے بچانے کے معاملے میں وہ اتنا لاپروا کیوں ہے؟ آخرت کا ایسا ہولناک منظر کہ جب خود ہمارا چہرہ بھی ہمارے کرتوتوں کی چغلی کھارہا ہو، ایسے میں بھی ہم اتنے بے خوف اور لاپرواہیں، آخر کیوں؟

رب کو منہ دکہانا ھے !

جی ہاں! وہ دن بھی آنے والا ہے کہ جب ہم اپنے رب کو منہ دکھائیں گے، لیکن کیا ہمارے اعمال بھی ایسے ہیں کہ ہم منہ دکھانے کے قابل ہوں؟ اس کا جواب ہمیں اپنی آنکھیں بند ہونے اور دل کی دھڑکنیں رُکنے سے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے۔