ڈاکٹر سمیر یونس /ترجمہ: ارشاد الرحمن


دنیا میں کتنے غریب ہیں جو غربت میں ہی زندگی پوری کرجاتے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں جن کو بیماری کی حالت میں ہی موت آجاتی ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ظالموں کے ظلم کی چکّی میں پستے رہتے ہیں، وہ اپنی اس مظلومانہ کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنے بیمار بیٹے کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کئی بیٹے کی دنیاوی ناکامی پر کُڑھتے رہتے ہیں اور کئی بیٹے کی غلطیوں اور بے راہ روی سے شاکی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ تو ایسے ہیں جن کو بیٹے چھوڑ گئے ہیں اور ماں باپ بڑھاپے کی معذورانہ زندگی بڑی بے چارگی اور بے بسی میں گزار رہے ہیں۔ اس بھری دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کی گردن پر دوسروں کے مال کی لوٹ کھسوٹ اور حق تلفی کا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ اس طرح کے دیگر بے شمار مسائل اور پریشانیاں انسانوں کو درپیش ہیں۔ کیا ان حالات اور کیفیات کو بدلنے اور انھیں اَنمول بنانے کی کوئی راہ موجود ہے؟ کیا ان مسائل سے نبٹنے کا کوئی طریقہ ہے؟ کیا کس مپرسی کی زندگی کو خوش حالی کے لمحات میں نہیں بدلا جاسکتا؟

اللہ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی کسی بھی پریشانی سے محفوظ فرمائے۔ تاہم اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ زندگی تنگی اور تکلیف، عُسر اور یُسر، خوشی اور غمی، الم و حُزن اور مسرت و شادمانی جیسے بے شمار ملے جلے حالات و کیفیات کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر خدانخواستہ اطمینان وسکون کے بجاے پریشان کُن حالات کا سامنا ہے، تو ان حالات کی سنگینی اور شدت کو کسی حد تک کم کرنا، اجروثواب کے اعتبار سے اپنے نامۂ اعمال کا ارفع و اعلیٰ عمل بنانا، حتیٰ کہ اس کیفیت سے نکلنے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ایک صاحب ِ ایمان انسان کے پاس مواقع موجود ہیں۔ فکرواعتقاد اور جہدو عمل کو بروے کار لاکر ان کیفیات سے گزرنا اور ان کو انگیز کرنا نہ صرف ممکن ہے، بلکہ یہ مسلمان کی اعتقادی اور فکری زندگی کا ناگزیر تقاضا ہے۔

خدانخواستہ اگر آپ فقروفاقہ میں مبتلا ہیں تو ذرا سوچیے کہ کچھ اور لوگ بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کسی نے قرض لے رکھا ہے تو یہ قرض اس کے لیے دن کو ذلت اور رات کو غم کا سبب ہے۔اگر آپ کے پاس ذرائع آمدورفت موجود نہیں ہیں تو نظر دوڑایئے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پائوں بھی نہیں کہ وہ چل سکیں۔ اگر آپ بیماری کے باعث تکلیف میں ہیں تو غور کیجیے کہ کتنے ہی بیمار ایسے ہیں جو برسوں سے صاحب ِ فراش ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ اُن کا مرض دائمی ہے۔ اُس سے شفایاب ہونا دنیاوی اسباب کے اعتبار سے ناممکن ہے۔ بیماری اگر اس قدر شدید ہے کہ اُس کی تاب لانا اور اسے برداشت کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہورہا تو یہ بات جان لیجیے کہ اس مرض میں آپ کا صبر اور شکر آپ کے گناہوں کو مٹا ڈالے گا۔ آپ کی حسنات کو بڑھا دے گا اور آپ کے درجات کو بلند کردے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے کہ اگر واقعتا آپ نے صبر سے کام لیا تو آپ اللہ رحمن و رحیم کے محبوب اور پسندیدہ ہیں کیونکہ اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُسے آزمایش میں ڈال کر اُس کا امتحان لیتا ہے۔

اللہ نہ کرے کہ آپ ظلم کا شکار ہوں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر آپ صبر اور حوصلے سے کام لیجیے، بے ہمتی اور بے دلی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ ظالم کا مقابلہ کیجیے اور اپنے رب کو مدد اور نصرت کے لیے پکاریئے۔ آپ کا رب ہی تو اصل طاقت ور، غالب و زبردست ہے۔ وہی اپنے بندوں پر قابو پاسکتا اور انھیں سزا سے دوچار کرسکتا ہے۔ سب انسان اُس کے سامنے کمزور و ناتواں اور مجبور و بے بس ہیں۔ یہ یقین رکھیے کہ اللہ بزرگ وبرتر آپ کا دفاع کرے گا، وہ ظالموں کے ظلم سے غافل نہیں ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o (ابراھیم ۱۴:۴۲) ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے، جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘‘۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تو مظلوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اُس کی دعا آسمان تک پہنچ کر رہے گی اور اللہ اس کی نصرت فرمائے گا، بلکہ لسانِ نبوت کے فرمودہ الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے دعاے مظلوم کی قبولیت و نصرت پر قسم اُٹھائی ہے: ’’مجھے میری عزت و عظمت اور جلال و قدرت کی قسم! اے مظلوم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی کروں‘‘۔(جامع ترمذی)

خدا نہ کرے کہ آپ کسی ناخوش گوار حادثے میں اپنے بیٹے سے محروم ہوگئے ہوں۔  آپ دیکھیے کہ کئی تو ایسے ہیں کہ وہ ایک ہی حادثے میں اپنی ساری اولاد سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اگر آپ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے اپنے اُوپر ظلم کربیٹھے ہیں تو مایوس نہ ہوں،  اپنے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگ کر اس کی طرف پلٹ آئیں۔ پریشان نہ ہوں، آپ کا رب تو بار بار معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ وہ نہ صرف معاف کرنے والا ہے بلکہ تمام تر گناہوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیتا ہے۔ گناہوں کی صورت میں اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے لیے وہ غفّار ہے۔ اُس نے گناہگاروں کو یہ خوش خبری دی ہے اور انھیں مایوسی و نااُمیدی سے منع فرمایا ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دو کہ میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔

اگر آپ دوسروں کے حق میں خطاکے مرتکب ہوئے ہیں تو معذرت کرنے اور معافی مانگنے میں جلدی کیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کا یہ عمل کوئی شکست اور پسپائی نہیں ہے، بلکہ ایک اعزاز اور فضیلت ہے۔ حق کا اعتراف کرلینا ایک فضیلت ہے اور غلطی پر معافی مانگنا ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ معافی مانگنے سے اُس کا دل خوش ہوتا ہے جس کے حق میں آپ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کسی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُس سے معافی مانگنے کا عمل ہرمعاشرے میں لوگوں کے درمیان کشادہ دلی اور قوتِ برداشت پیدا کرتا ہے۔ دوسروں کو راضی اور خوش کرنے کا فن سیکھیے۔ خوش اعتقادی کو معمول بنایئے۔ آدمی ہر کام کو خوش اعتقادی کی نگاہ سے دیکھے گا یا پھر بدشگونی اور بدفالی کے نقطۂ نظر سے۔ آپ خوش اعتقاد لوگوں میں شمار ہونے کو ترجیح دیجیے۔ خوش اعتقاد لوگ ہر مشکل میں کوئی ایسا موقع دیکھتے ہیں جس کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ بدشگونی کے عادی لوگ اس رویے سے کچھ حاصل کرنے کے بجاے بہت کچھ کھو بیٹھنے کی راہ پر  چلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ ساری زندگی غم و اندوہ اور محرومی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ ناکامی اور تلخی کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں۔

خدانخواستہ اگر آپ ان میں سے کسی بھی سلبی اور منفی کیفیت میں مبتلا ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ بے صبری و بے ہمتی اور حزن و اَلم سے بچنے کی کوشش کریں۔ یہ چیز انسان کے اندر قلق و اضطراب اور بے دلی و کم ہمتی پیدا کرتی ہے۔لہٰذا آپ بے صبری کا مظاہرہ نہ کیجیے کیونکہ  بے صبری اور مایوسی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کے لیے ناکامی، نااُمیدی اور نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ بے صبری کھوئی ہوئی چیز کو واپس نہیں لاسکتی، کسی مرنے والے کو زندہ نہیں کرسکتی۔ بے صبری کا مظاہرہ تو قضاوقدر پر اعتراض کے مترادف ہے، اور کبھی کوئی قضاوقدر کو ٹال نہیں سکا۔ آپ کی بے صبری کا فائدہ آپ کے مخالفین کو ہوگا۔ آپ سے بُغض رکھنے والے اور حسد کرنے والے اس سے راحت محسوس کریں گے مگر آپ کے دکھ درد کی الم ناکی میں اضافہ ہوگا۔ بے صبری کے اظہار سے آپ کا چہرہ مرجھا جائے گا، چہرے کی چمک اور تازگی جاتی رہے گی، اور بالآخر یہ ساری کیفیات مل کر آپ کی صحت اور جسم و جان پر منفی اثرات ڈالیں گی۔

ایک مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ بے صبری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کا فیصلہ (قضا) ہرصورت نافذ ہوکر رہتا ہے اور جو مقدر ہوچکا اور لکھا جاچکا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کیونکہ قضاوقدرکو لکھنے والے قلم رکھ دیے گئے ہیں اور صفحات کی سیاہی خشک ہوچکی ہے۔ آپ رحمت ِ عالمؐ کے ان الفاظ کو بار بار دُہرائیں اور ان پر غور بھی فرمائیں کہ: ’’جان رکھو کہ اگر ساری کی ساری اُمت تجھے کوئی نفع پہنچانے کے لیے یک جا ہوجائے تو وہ اُس کے علاوہ کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سارے کے سارے تجھے کوئی نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو اس کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیری قسمت میں لکھ رکھا ہے‘‘۔ (ترمذی)

رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: ’’جان رکھو کہ جو نقصان اور مصیبت تمھیں پہنچی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی، اور جو ٹل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی‘‘۔ (احمد، داؤد)

یہ وہ حقائق ہیں جن کا اقرار شریعت اسلام نے الصادق المصدوق نبی کریمؐ کی لسانِ مبارک سے کرایا ہے۔ لہٰذا ان حقائق پر ایمان رکھنا نفس کے سکون اور دل کے اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔

اگر آپ کسی چیز سے محرومی کی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں تو آپ بے صبری کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ جس ذات نے آپ کو اس آزمایش میں ڈالا ہے وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔ آپ کے لیے تو جودوسخا کا مالک اللہ ہی کافی ہے۔ وہ محبت جس کا بدل دنیا و مافیہا بھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان دونوں نعمتوں کے درمیان تو کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ جس نے تمھیں ایک نعمت چھین کر آزمایا ہے اُس نے اتنی نعمتیں تمھیں عطا کر رکھی ہیں کہ اُن کا شمار ممکن نہیں۔ نعمتیں عطا کرنے والے اللہ نے حق فرمایا ہے کہ: وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ o  (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی    بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔

کسی بھی دکھ تکلیف میں بے صبری نہ دکھایئے کیونکہ دکھ، تکلیف اور غم و الم کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے، مرض اور بیماری زائل ہوسکتی ہے، گناہ معاف ہوسکتے ہیں، قرض ادا ہوسکتا ہے،اسیر رہائی پاسکتا ہے، غائب واپس لوٹ سکتا ہے، فقیر امیر ہوسکتا ہے، اور دنوں کا اُلٹ پھیر ہوسکتا ہے، کیونکہ خالقِ کائنات کا کہنا ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

  • عملی تدابیر: اگر کوئی ناگوار تکلیف پہنچی ہے، کوئی تنگی درپیش ہے، یا کوئی گہرا زخم لگ گیا ہے، تو اس کیفیت سے نکلنے کے راستے تلاش کیجیے۔ ان راستوں میں سب سے اہم یہ ہیں:
  •  استغفار: اگر آپ کو رب کے سامنے اپنے گناہوں، کوتاہیوں اور لغزشوں پر معافی مانگنے کی توفیق مل گئی تو سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ فرما رکھا ہے۔ استغفار اور ذکر کا اجروثواب اضافی ہے۔ آپ کا عملِ استغفار آپ کے لیے بہت بڑی خیر کا باعث بن جائے گا۔ حضرت نوحؑ نے اس کے الٰہی انعامات یوں بیان کیے ہیں: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًا o (نوح ۷۱:۱۰-۱۲) ’’میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اوراولاد سے نوازے گا۔ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا‘‘۔

۲- تسبیح: یہ وہ ذریعہ اور راستہ ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلَوْلَآ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ o لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o (الصافات ۳۷: ۱۴۳-۱۴۴) ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روزِ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا‘‘۔

  •  دُعا: احادیث ِرسولؐ سے واضح ہوتا ہے کہ دعا اور تقدیر دونوں آپس میں لڑتی رہتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تقدیر کو صرف دعا ہی سے ٹالا جاسکتا ہے‘‘ (احمد، ترمذی )۔ یہ بھی فرمایا: ’’جو مصیبت آگئی ہے اور جو ابھی آنی ہے دعا دونوں میں فائدہ دیتی ہے۔ مصیبت آئے گی تو دعا اُس کے سامنے کھڑی ہوجائے گی۔ پھر دونوں قیامت تک لڑتی رہیں گی‘‘۔ (حاکم)
  •  مصیبت زدوں کی زیارت: اپنے آس پاس مصیبت میں مبتلا لوگوں کو ملنا اور اُن کی داستان سننا آپ کی مصیبت کو ہلکا کردے گا۔ آپ سمجھیںگے کہ میں تو بہت سے مصیبت زدوں کی نسبت بدرجہا عافیت میں ہوں۔ اگر یہ مصیبت دین کے کسی معاملے میں نہیں ہے تو پھر آپ اس کو جھیلنے کی اپنے اندر ہمت پیدا کرلیں گے۔ کیونکہ یہ بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ خیر کہاں ہے! ہوسکتا ہے آپ کی پسندیدہ شے میں آپ کے لیے خیر نہ ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی ناپسندیدہ شے میں آپ کے لیے خیر ہو۔ صبر سے کام لینے والوں کے لیے خوش خبری سے آپ کو بھی خوش ہونا چاہیے: قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہٖ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ ط وَّاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ ط اِِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابo(الزمر ۳۹:۱۰) ’’(اے نبیؐ!) کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
  •  صبر سے مدد: خدا نہ کرے کہ آپ دعوتِ دین کے معاملے میں کسی مصیبت سے دوچار ہوجائیں لیکن اگر ایسا ہوجائے تو جب تک آپ توحید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے آپ سراسر خیر کے حق دار ہوں گے۔ توحید ہی وہ کلمۂ حق ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت کی زندگی میں ثابت قدم رکھے گا۔ یہی کلمہ ٹیڑھی راہ کے مقابلے میں راہِ مستقیم پر آپ کو ثبات عطا کرے گا، انحراف کے مقابلے میں راہِ عدل پر آپ کو استقامت بخشے گا اور ضلالت کے مقابلے میں راہِ ہدایت پر گامزن رکھے گا: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ج وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ قف وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ o (ابراہیم ۱۴:۲۷) ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے، اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے‘‘۔

صبر سے لو لگایئے کہ آپ کے شایانِ شان یہی ہے، کیونکہ اللہ آپ کے ساتھ ہے اور قرآن آپ کے پاس ہے تاکہ آپ اپنے دل کو صبروثبات دلا سکیں۔

آپ بے صبری کا مظاہرہ کیوں کریں گے، کیا اللہ نے آپ کو دل و زبان عطا نہیں کر رکھے کہ آپ اُن کے ذریعے، اپنے رب سے دعا گو رہیں۔ آپ سے بے صبری کا مظاہرہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ آپ کی روحانی و جسمانی راحت تو آپ کی نماز میں ہے۔ رسولِ کریمؐ کو جب بھی کوئی معاملہ پریشان کرتا تو آپؐ نماز کا سہارا لیتے اور فوراً نماز ادا فرماتے۔ اپنے مؤذن حضرت بلالؓ سے کہتے: ’’بلال! اُٹھ کر اذان کہو اور نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچائو!‘‘ (ابوداؤد)

آپ ہمت کیوں ہاریںگے ، آپ کے بس میں ہے کہ آپ صدقہ کرسکتے ہیں، خواہ کھجور کا آدھا حصہ ہی ہو، یاکوئی اچھی بات ہی ہو، یا خندہ پیشانی اور مسکراہٹ ہی ہو؟ آپ بے ہمت نہیں ہوسکتے کیونکہ اچھے کام انجام دینا آپ کے بس میں ہے، نفع بخش کام کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق قائم رکھیے، کامیابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ کے لیے نماز ادا کیجیے، اس کی تسبیح کرتے رہیے اور اپنے رب کے اس وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے اُس سے دعا کیجیے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ط فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔(یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔

  •  رب کو پکاریئے!: جب راستے تنگ ہوجائیں، رابطے ٹوٹ جائیں، اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود آپ کے لیے تنگ ہوجائے، آپ کی تدابیر کارگر نہ رہیں تو پھر اپنے اللہ کوپکاریئے۔

جب دنیاوی اسباب کی رسیاں ٹوٹ جائیں تو جان رکھیے کہ اللہ کی رسی کا تعلق اپنے بندوں سے کبھی نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے دل کی حضوری کے ساتھ اپنے رب کو آواز دیجیے: یااللہ!

جب حسرتوں نے آپ کا دل توڑ کے رکھ دیا ہو اور حزن و اَلم نے آپ کو چور کر دیا ہو تو پھر پکاریئے: یااللہ!

جب معاملہ اپنی سنگینی کی انتہا کو پہنچ جائے اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو اپنے خالق کو پکاریئے: یااللہ!

جب سینہ تنگی محسوس کرے اور زبان سے کچھ ادا نہ ہو، قدم اُٹھیں تو لڑکھڑا جائیں اور معاملات مشکل تر ہوجائیں تو پھر اپنے رب کو ندا دیجیے اور دل کی گہرائیوں سے پکاریئے: یااللہ!

جب انسان اپنے اور تمھارے درمیان کے تمام دروازے بند کردیں تو یاد رکھیے کہ تمھارے ربِ کریم، رحمن و رحیم، عطا و سخا اور جود وکرم کے مالکِ حقیقی کا دروازہ ہمیشہ اُس شخص کے لیے کھلا ہوتا ہے جو اپنے رب کے اُوپر پختہ یقین رکھتا ہو۔

ایسی کیفیاتِ الم انگیز میں راتوں کو جاگیے، نالۂ نیم شبی سے وضو کیجیے اور اپنے ہاتھوں کو    آہ و زاری کے ساتھ رب کے سامنے پھیلا دیجیے۔اپنی زبان کو اسماے الٰہی کے ذکر سے تر رکھیے۔ ایک بار تجربہ کرکے تو دیکھیے آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں رسائی کی لذت کی چاٹ نہ لگ جائے تو کہنا۔ آپ کے اعصاب راحت محسوس کریںگے، آپ کے جذبات میں ٹھیرائو آجائے گا، آپ کا اضطراب اور بے چینی زائل ہوجائے گی، آپ کا ایمان مزید پختہ ہوگا، آپ کا دل سکون محسوس کرے گا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ’’خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔

جب تک آپ مسکرا نہیں لیتے تب تک خوشی کا انتظار مت کیجیے، بلکہ خوش ہونے کے لیے مسکرایئے۔ آپ پریشانیوں میں کیوں گھلتے ہیں، جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ تدبیر کا مالک تو    اللہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اُس پر کڑھنے اور رنجیدہ ہونے کا کیا فائدہ، اللہ کو ہرچیز معلوم ہے۔ آپ اطمینان رکھیے کہ اُس وقت تک آپ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں جب تک اللہ پر آپ کا توکّل بہترین ہے۔اپنی زبان سے پہلے اپنے دل سے یہ بات کہلوایئے کہ: وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ o (مومن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپردکرتا ہوں، وہ ا پنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔

(ماہنامہ المجتمع، کویت، عدد ۲۰۲۸، فروری ۲۰۱۴ئ)