سیّد سعادت اللہ حسینی o


اس تحریر میں علمی و فکری سطح پر پیش آمدہ مسائل کی مناسبت سے ایک محتاط تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جو  اہلِ علم ، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے غوروفکر کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔ زندگی کا ہرلمحہ نئے سوال لے کر آتا ہے۔ اس لیے فکر، تجزیے اور مکالمے کا باب کبھی بند نہیں ہوتا، اور وہ اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتا ہے۔ ایسی خود احتسابی کو مؤثر اور شافی جواب کا پیش خیمہ بننا چاہیے۔ (ادارہ)

ہماری تحریک کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ فکری سرمایہ ہمارا اہم ترین سرمایہ ہے اور ہمارے کام کی نوعیت بنیادی طور پر فکری و نظریاتی ہے۔ اس ملک میں ایک طویل عرصے تک ہمیں نظریاتی محاذ پر ایک لمبی فکری لڑائی لڑنی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بالکل ابتدا میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ:

اب اسلام اگر دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں، جو فکر ونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں، جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔

اس طرح تحقیق و اکتشاف کا کام ہمارا اہم ترین کام قرار پاتا ہے اور فکرونظر کا محاذ ہمارا  اہم ترین محاذ ہے۔ ایک فکری و نظریاتی تحریک کے لیے یہ کام ’خطِ زندگی‘ (لائف لائن) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کئی ضروری کاموں میں سے ایک کام نہیں ہے، بلکہ ہماری ترقی اور پسپائی، زندگی اور موت اس اساسی کام پر منحصر ہے۔فکری تحریکیں انتشار سے مرتی ہیں اور نہ ملّت قلت ِ وسائل اور دشمنوں کے ظلم و جبر سے موت کے گھاٹ اُترتی ہے، بلکہ فکری و نظریاتی تحریکوں کی موت، فکری پسپائی سے ہوتی ہے یا فکری جمود سے۔ اسی لیے یہ فکری کام ہمارے لیے ’خط ِ زندگی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے جتنا یہ ضروری ہے کہ ہم تنظیم کی توسیع و استحکام اور دیگر تنظیمی و تحریکی تقاضوں پر غوروفکر کریں اور اس کے لیے نشستیں کریں، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے فکری اثاثے کی حقیقی صورتِ حال کو بھی، اپنے سنجیدہ جائزے اور بحث و گفتگو کا موضوع بنائیں۔ اس کے لیے بار بار نشستیں ہونی چاہییں، اور سرجوڑ کر اپنے فکری تقاضوں کی تکمیل پر غور کرنا چاہیے۔

اس وقت دنیاکی صورت حال بھی بہت بدل چکی ہے۔ اب اسلام ساری دنیا میں ایک سنجیدہ علمی اور سیاسی موضوع بن گیا ہے۔ اہلِ اسلام کا یہ دعویٰ کہ: ’’اسلام مسائلِ انسانیت کا واحد حل ہے‘‘، اب کوئی ایسا دعویٰ بھی نہیں رہا ہے کہ جسے لوگ چند دیوانوں کی بڑ کہہ کر نظرانداز کرسکیں۔ اب یہ دعویٰ دانش گاہوں سے لے کر عالمی سطح کے تحقیقی اداروں تک، اور قانون سازی کے ایوانوں سے لے کر عالمی سطح کی سفارتی محفلوں تک، ہر جگہ سنجیدہ مباحث کا موضوع بن گیا ہے۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ جب مسلمان مفکرین کو پڑھنے والے اور ان سے متاثر ہونے والے، راسخ العقیدہ اور عقیدت مند مسلمان ہی ہوا کرتے تھے۔ آپ پر نقدوجرح بھی کرتے تھے تو مسلمان علما اور مسلمان مفکرین ہی کرتے تھے۔ دنیا ہمیں بس مسلمانوں کے ایک شدت پسند گروہ کی حیثیت سے دیکھتی تھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بھی معاصر علمی دنیا کو مخاطب کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے کی جرأت کم ہی کی تھی۔ ہم مغرب پر اور اسلام مخالف خیالات پر تنقید ضرور کرتے تھے، لیکن اس تنقید کے مخاطب بھی مسلمان ہی ہوا کرتے تھے اور مقصد بس یہ ہوتا تھا کہ: ’’مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے اور اسلام پر ان کے یقین و اعتماد کو بڑھایا جائے‘‘۔

اب منظر نامہ مختلف ہے۔ آپ چاہنے، نہ چاہنے کے باوجود، پوری کی پوری دنیا کو مخاطب کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا آپ کی باتوں کو اپنے علمی معیارات کے مطابق جانچنے اور نقدو جرح کرنے کا حق حاصل کرچکی ہے۔ اب عالمی اداروں میں صرف اسلامی تحریکات کے اثرات، مسلمانوں میں ان کی پوزیشن، قومی سلامتی سے ان کے تعلق وغیرہ پر ہی ریسرچ اور تجزیے نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان کے موقف، خیالات، ان کے تجویز کردہ حل اور ان کا وژن بھی زیربحث آرہا ہے۔

یہ صورت حال خوش آیند تو ہے، لیکن ہمیں بڑی ذمہ دارانہ اور نازک پوزیشن میں کھڑا کردیتی ہے۔ ’تاریخ کے سیمی نار ہال‘ میں ہم ۳۰۰سال سے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور اب کنوینر نے ہمارے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں بولنے کے لیے مدعو کر لیا ہے۔ اب ہمیں بولنا اور دنیا کو قائل کرنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بولنے کے لیے تیار ہیں؟ اس ’سیمی نار‘ میں جہاں فرانسس فوکویاما [پ: ۱۹۵۲ئ] اور نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ] اپنا موقف لیے بیٹھے ہیں، کیا ہم اپنی بات پیش کرسکتے ہیں؟ ان معروضات کا مقصد اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔

میں ذرا ماضی میں جانا چاہتا ہوں۔ اس خطۂ ارضی پر ایک تاریخ ساز جگہ واقع ہے: ایک چھوٹی سی مسجد، جس کے کمروں میں کبھی ترجمان القرآن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ۷۰برس پہلے، ایک شخص نے یہاں بیٹھ کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ساری علمی دنیا کو چیلنج کیا تھا۔ یاد کیجیے، مولانا مودودیؒ کے زمانے میں بھی بڑے بڑے اکابر علما دانش ورموجود تھے۔ ابوالکلام آزاد، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا اشرف علی تھانوی، لیکن مولانا مودودیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ انھوں نے صرف مسلمانوں کو مخاطب نہیں بنایا، بلکہ اپنے عہد سے خطاب کیا۔ اپنے زمانے کی پوری علمی دنیا کو خطاب کیا۔ اس کے لیے انھوں نے روایتی طرزِبیان اختیار نہیں کیا، بلکہ وہ لب و لہجہ اور وہ زبان استعمال کی، جو معاصر علمی دنیا کی زبان تھی۔ فقہ و کلام کے ان مسائل تک خود کو محدود نہیں رکھا، جن پر مسلمانوں کی محفلوں میں بحثیں ہوا کرتی تھیں، بلکہ ان موضوعات کو چھیڑا جن پر معاصر دنیا مکالمہ کرنا چاہتی تھی۔

آج ہم اسی تحریک کا حصہ ہیں۔ تاریخ کے ایک نازک موڑ پر، اس عظیم تحریک کے ورثے کی امانت ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تحریکی فکر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹھیر سی گئی ہے۔ آج ہمارے کام بڑھ رہے ہیں، سماجی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، وسائل بھی بڑھ رہے ہیں، لیکن شاید فکر ترقی نہیں کر رہی ہے۔ خود ہم نے اپنے سفر میں جو نئے موڑ لیے ہیں اور نئی حکمت عملیاں وضع کی ہیں، ان کی پشت پر بھی [غالباً] مضبوط اور مرتب افکار اور منظم خیالات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے فکری پراگندگی اور انتشار کے آثار ہماری صفوں میں نظر آنے لگے ہیں۔

اور جہاں تک دنیا سے ہمارے فکری تعلق کی بات ہے ، دنیا کو دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی نیا اور منفرد آئیڈیا نہیں ہے۔ ان درخشاں افکار (brilliant ideas) کی بلاشبہہ آج بھی اہمیت ہے، جو ہمارے اوّلین مفکرین ہمیں دے گئے ہیں اور ہم انھی آئیڈیاز کے سہارے آج بھی اپنی فکری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں افکار و خیالات اور نقشہ ہاے کار کا یہ مختصر اور قدیم سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ دنیا ہمہ تن گوش ہے کہ ہم بولیں اور ہم حیران ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں؟ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بہت سی اُلجھنوں کی جڑ اور بہت سے مسائل کی ماں ہے۔ اگر ہم ایک فکری تحریک کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں اور یقینا زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس مسئلے کو بھرپور اہمیت دینا ہوگی اور اس کے حل کے لیے اپنی قوتوں اور وسائل کا ایک قابلِ لحاظ حصہ صرف کرنا ہوگا۔

فکری کام کی جب بھی بات ہوتی ہے تو ہم: کچھ موضوعات تجویز کر دیتے ہیں، کچھ ترجمے، کچھ جمع و ترتیب اور کچھ صحافتی قسم کے مقالے پیش کردیتے ہیں۔ یہ کام دنیا کے ہر ادارے میں چل رہے ہیں۔ ہر مدرسے میں یہ کام ہو رہا ہے۔ اگر ایک فکری تحریک بھی اسی کام پر اکتفا کرلے تو اس کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی سیاسی بحث کو ہم کیوں آگے نہیں بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دے سکے، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہنمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔

مولانا مودودیؒ نے جدید زمانے کے اہم مسائل کو موضوع بنایا۔ انھوں نے مسلم دنیا اور مغرب کے تجربات کو سامنے رکھ کر، قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت رکھنے والی فکری کسوٹی کی بنیاد پر ، ان مسائل کے تجزیے کا ایک منفرد طریق کار (methodology) ایجاد کیا۔ ان کی تحریروں سے، ان کی عمیق فکر، وسیع علم ، قرآن و حدیث اور ان کے انطباق کا گہرا شعور اور مغربی افکار اور تاریخ کی تنقیدی بصیرت جھلکتی ہے۔ ان کی انھی خصوصیات نے زندگی کے مسائل کے تئیں مسلمانوں کے اپروچ کو ایک نئی تازگی اور زندگی بخشی ہے، اور ان کے پیغام میں ایک وسیع تر اپیل پیدا کی ہے۔ ان کا اثر، تنظیموں اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ ان کی حیثیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے (فکری) باپ کی سی ہے۔ اور ایک مفکر اور مصنف کی حیثیت سے بلاشبہہ وہ ہمارے عہد کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے جلیل القدر مسلمان رہنما ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ عصرِحاضر کو مخاطب کرنے کا یہ حوصلہ اور سلیقہ مولانا مودودیؒ کے بعد جاری نہیں رہ سکا۔ معیار کی بات تو چھوڑیئے کہ مولانا مودودیؒ جیسے مصنّفین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن ہم اس اسلوب، زبان اور طرز کو بھی جاری نہیں رکھ سکے ، جو جدید علمی دنیا سمجھتی ہے اور اکثر ہم نے علما کا وہ روایتی طرزِ بیان اختیار کرلیا ہے، جو صرف دین دار مسلمان سمجھ سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری کتابوں پر دنیا کے علمی حلقوں نے دھیان دینا چھوڑ دیا۔ تحریکی حلقوں میں غالباً صرف معاشیات میں نجات اللہ صدیقی صاحب کی تخلیقات نے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور پاکستان میں محدود پیمانے پر خرم مراد مرحوم اور خورشیداحمد صاحب کی باتیں کسی درجے میں عالمی یونی ورسٹیوں اور دانش گاہوں کو متوجہ کرسکی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری بقیہ کتابیں صرف مسلمان اور اکثر کتابیں صرف تحریکی حلقے ہی پڑھتے ہیں؟ خود ہی لکھنے اور خود ہی پڑھنے کا عمل ایک بند گروہ کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے، کسی زندہ اور عالم گیر مشن رکھنے والی تحریک کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ ایک عالم گیر پیغام کی حامل، ہمہ گیر نظریاتی تحریک کی حیثیت سے ہمارا ہدف تو یہ ہونا چاہیے، کہ ہم اس سطح سے بات کریں جس سطح سے امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ نے بات کی تھی، یا   کارل مارکس، سگمنڈ فرائڈ، مثل فوکو اور ژاک دریدا نے بات کی تھی کہ ان لوگوں نے جو کچھ کہا پوری علمی دنیا نے اسے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ آخر ہم کیوں ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے؟ اور آج ہماری اصل ضرورت ایسی ہی چونکا دینے والی باتیں کہنے کی ہے۔ دنیا کا بڑھتا ہوا نظریاتی خلا آئیڈیاز کی مانگ کررہا ہے۔ دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصورِ جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کارآمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ہے لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں:

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیّار

پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے ، نے جدتِ کردار

دنیا کو ہے اُس مہدیِ رحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار

ہماری ضرورت کسی لیپاپوتی یا سطحی کام سے پوری ہونے والی نہیں۔ ہمیں اس کام کی ضرورت ہے جو زلزلۂ افکار پیدا کردے۔ شاید بات بہت بڑی ہوگی۔ بے شک آج ہمارے پاس ایسی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ ہم اس سطح کا کام کرسکیں۔ لیکن اس کام کا ہم خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ اس خواب کو اپنی اگلی نسلوں کو منتقل تو کرسکتے ہیں اور اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی تیاری تو کرسکتے ہیں، تاکہ ہم یہ کام کماحقہٗ نہ بھی کرسکیں تو کم از کم ہماری اگلی نسل اس کام کے لیے کھڑی ہوجائے یا ان کی اگلی نسل کھڑی ہوجائے۔ اس کے لیے چھوٹے اور کارگر اقدامات کی ابتدا کو بھی ذریعہ بنایئے اور اُونچے خواب دیکھنے اور ان خوابوں کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تیاری کا محرک بھی بنایئے۔

ہم اس وقیع تحریک کو صرف روزمرہ کی تجاویز کی نذر نہ کردیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہو کہ ہمارے یہاں زیادہ اہم اور وسیع تر موضوعات زیربحث آئیں۔ ہم یہاں نئی کتابوں کی نہیں، نئے فلسفوں کی فکر کریں، نئے مثالی نمونوں (paradigms) کی اُپج کے طریقے ڈھو نڈیں۔ ان ضروریات کا تعیین کریں، جن کی تکمیل کے لیے ہم کو اُچھوتے خیالات اور منفرد آئیڈیاز کی ضرورت ہے، اور یہ بھی سوچیں کہ یہ آئیڈیاز کیسے پیدا ہوں گے؟

ہمیں تحریک کی انھی فکری ضروریات کی تکمیل کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو باتیں یہاں عرض کی ہیں، ان کی فوری تکمیل ممکن نہیں ہے۔ یہ مقاصد بہت طویل اور صبرآزما جدوجہد چاہتے ہیں۔ فوری طور پر ہمارے پیش نظر چند ذیلی اہداف ہیں:

  •  پھلا ھدف: یہ ہے کہ تحریک میں علمی و فکری کاموں کی اہمیت کا احساس تقویت پائے۔ کچھ لوگ خصوصاً کچھ ذہین نوجوان پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ اس کام کی طرف متوجہ ہوں۔ انھیں کام، مستقل رہنمائی اور تحریک ملتی رہے۔ ان کی فکری کاوشیں سامنے آتی رہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ملک بھر سے اہلِ علم اور متلاشیانِ علم کی ایک تعداد کو کارِ تحقیق سے منسلک رکھیں۔
  •  دوسرا ھدف: یہ ہے کہ تحریک کی علمی و فکری ضروریات کے تعلق سے ہمارا ذہن صاف ہو۔ ان ضرورتوں پر اِدھر اُدھر باتیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن کوئی متعین بات ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری فوری اور طویل المیعاد علمی و فکری ضرورتوں پر مباحث ہوں اور آیندہ ایک آدھ سال کے اندر، ان ضروریات پر ہمیں یکسوئی حاصل ہوجائے اور نقشہ اُبھر کر پوری شفافیت کے ساتھ سامنے آجائے۔ اسی نقشے کے مطابق ہم اپنے اسکالرز سے کام لے سکیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جزئیات اور تفصیلات (details) سے زیادہ وسیع تر تصویر (broad picture) پر مباحث ہوں اور ہماری ضروریات کی اصولی تفصیلات واضح ہوجائیں۔
  •  تیسرا ھدف: یہ ہے کہ تحریک کے اندر جس طرح عملی،دعوتی خدمت سے متعلق اور سیاسی و سماجی حرکیت (movement)میں ارتقا ہوا ہے، فکری و علمی حرکیت کا ماحول بھی افزایش پائے۔ اور اس کام کی فکر اور اس پر توجہ کی فضا بنے۔ اس کے لیے ہم ان شاء اللہ ان سیمی ناروں سے مدد لیں گے جو ملک کے مختلف علاقوںمیں مختلف موضوعات پر ہم منعقد کرتے رہیں گے۔

ان تینوں فوری اہداف کی تکمیل میں تحریک کا بھرپور تعاون مطلوب رہے گا، جس کے لیے اپنے حلقۂ اثر سے ذہین اسکالرز کو جوڑنا اور پوری تحریک میں علمی ماحول کی افزایش ہے۔

یہ کام دھیرے دھیرے ہی ترقی کرے گا۔ ہمارے اہلِ علم بزرگ اس قدر متنوع کاموں کے دبائو میں ہیں کہ ان کی توجہ کھینچنے کے لیے اس کام پر کم از کم اتنا سماجی دبائو ضروری ہے، جتنا دیگر کاموں کے لیے مطلوب ہے۔ تحریک میں فضا بنے گی تو یہ دبائو بھی پیدا ہوگا۔

پہلے قدم کے طور پر ہمیں ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے ہیں:

                ۱-            مختلف زمروں (categories) میں کون سے اُمور ابھی تحریکی لٹریچر میں تشنہ ہیں؟

                ۲-            گذشتہ ۵۰برس میں ایسی کون سی علمی ترقیاں ہوئی ہیں، جن کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے اور تحریکی لٹریچر اس پہلو سے ناکافی ہے؟

                ۳-            دنیا میں سماجی، سیاسی و دیگر تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ کون سے نئے مسائل اور سوالات پیدا ہوئے ہیں جن کے حوالے سے تحریکی لٹریچر میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے؟

                ۴-            کن اُمور میں ہمارے موقف پر اب نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟

                ۵-            تحریکی لٹریچر کو عصری تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اور اس ذیل میں عملی پروگرام کیا ہوسکتا ہے؟