سینیٹر ایس ایم ظفر


میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں محترم ملک نصراللہ خان عزیز، مدیر ایشیا کی وساطت سے ہوئی۔ ملک صاحب اور ہم پارک لین لاہور میں ہمسایے تھے۔ ایک دن میاں طفیل محمد صاحب، ملک صاحب کے گھر آئے ہوئے تھے۔ جب وہ میاں صاحب کو الوداع کرنے گھر سے باہر سڑک پر آئے تو میں    بھی وکالت کی وردی پہنے سائیکل پکڑے اپنے گھر سے باہر نکل رہا تھا۔ ملک صاحب نے محترم میاں طفیل محمد صاحب سے میرا تعارف کرواتے ہوئے جہاں مجھے ’ہونہار وکیل‘ کہا، وہاں میرے والدمحترم کشفی شاہ نظام کا خصوصی ذکر کیا کہ: ’’ان کا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے بذریعہ خط کتابت رابطہ رہا ہے‘‘۔ نہ معلوم میری وکالت کی ’وردی‘ نے (یاد رہے ابتدائی زندگی میں میاں صاحب بھی پیشۂ وکالت سے منسلک تھے)یا پھر میرے والد صاحب اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے درمیان رابطے کے حوالے نے ان کو میری جانب متوجہ کیا اور نہایت مشفقانہ انداز میں دریافت کیا : ’’وکالت کیسی چل رہی ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’محنت کر رہا ہوں‘‘۔

ایک مسکراہٹ کے ساتھ میاں صاحب کہنے لگے: ’’کبھی کبھار مل لیا کریں‘‘۔

یہ خوب صورت ابتدا تھی۔ اس کے بعد مجھے ان سے کئی بار مختصر اور طویل ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ میاں صاحب سے ایک طویل ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب میں شاہ جمال کالونی میں رہایش پذیر ہوا، اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی رہایش گاہ بھی میرے گھر کے قریب واقع تھی۔ میں ان سے ملنے اور ان کے خیالات سے مستفید ہونے کے لیے چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں اکثر میاں صاحب کو تشریف فرما دیکھا کرتا تھا۔ اب میرا شمار اچھے وکلا میں ہونے لگا تھا اور میاں صاحب نے مولانامودودی سے ایک بار کہا: ’’آج تو یہ بڑے کامیاب وکیل بن گئے ہیں، لیکن میں نے ان کو اس وقت دیکھا تھا، جب یہ سائیکل پر سوار قانون کی کتابیں اُٹھائے عدالت کے لیے روانہ ہو رہے تھے‘‘۔

ان ملاقاتوں کے دوران میں میرے ذہن میں یہ تاثر اُبھرا کہ میاں طفیل محمد صاحب  نہ صرف جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، بلکہ وہ مولانا مودودی سے اتنی قربت اور عقیدت رکھتے ہیں کہ کئی بار ان کے درمیان مرشد اور مرید والی کیفیت دکھائی دیتی۔ یہ تاثر کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ جیسا انھوں نے خود کہا ہے کہ: ’’میرا یہ غالب احساس رہا کہ جماعت اسلامی میں آیا نہیں بلکہ مجھے کوئی قوت گھسیٹ کر اس طرف لائی ہے‘‘۔ وہ جماعت کی طرف کیا آئے، جماعت کی خدمت میں ساری زندگی صرف کردی۔ انھیں جماعت کے مختلف مناصب تفویض ہوئے، تین بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر [۱۹۷۲ئ-۱۹۸۷ئ] بنے اور پھر خرابی صحت کی وجہ سے ازخود دست بردار ہوکر جماعت کے ایک معزز رکن بن کر زندگی [۱۹۸۷ئ-۲۰۰۹ء ] بسر کی۔

مولانا مودودی کی وفات پر حسرت سے، لیکن اپنے عزم کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا: ’’مولانا آپ ہی مجھے چھوڑ گئے ہیں، میں نے آپ کو نہیں چھوڑا‘‘۔

یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، جب [صدر ایوب خاں مرحوم کی حکومت نے] جماعت اسلامی کو ’غیرقانونی جماعت‘ قرار دے کر اس کی کارروائیوں پر انتظامیہ کی جانب سے پابندی عائد کردی تھی۔ مجھے محترم چودھری رحمت الٰہی نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا پیغام دیا کہ میں بطور وکیل اپنی راے دوں کہ:’’ کیا ہم عدالت سے داد رسی لے سکتے ہیں؟‘‘

میں نے ایک رٹ درخواست تیار کر کے چودھری رحمت الٰہی صاحب کے حوالے کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی جماعت کے بطور جماعت حقوق پر انتظامیہ اپنے حکم سے پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ کیونکہ کوئی سیاسی جماعت سیاسی جماعت نہیں رہتی، اگر اسے اپنی پالیسی کے مطابق فعال رہنے سے روک دیا جائے۔ معاملہ آخرکار سپریم کورٹ میں گیا اور ہم سرخرو ہوئے۔ وکلا کی ٹیم جوڈھاکہ، مشرقی پاکستان مقدمے کے سلسلے میں گئی ہوئی تھی، جب واپس لاہور ایئرپورٹ پر اُتری تو میاں طفیل محمدصاحب مع دیگر کارکنانِ جماعت اسلامی وہاں موجود تھے۔ان کی خوشی ان کے چہرے اور آنکھوں کی چمک سے عیاں تھی۔

میاں طفیل محمد صاحب کی محنت نے جماعت کو نظم و ضبط اور ڈسپلن مہیا کر دیا۔ اگر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی کے بانی اور رہبر تھے، تو میاں طفیل محمد اس جماعت کے کامیاب کمانڈر تھے۔ میاں طفیل محمدکی وفات کے بعد بین الاقوامی طور پر ایک مشترکہ راے تسلیم کی گئی کہ وہ ایک ایمان دار کارکن، ایمان دار قائد، سچائی اور ایمان داری کے ساتھ مشورہ دینے والے انسان تھے۔ وہ اپنی پارٹی اور ملک و قوم کے ساتھ ایمان دار ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مالی طور پر ایمان دار تھے بلکہ ہمیشہ اپنے مؤقف کے ساتھ بھی honest رہے۔

میاں صاحب کی ثابت قدمی، لگائو اور اجتماعی نظم و ضبط کی نشان دہی سے سیاسی کارکنوں کو یہ علم [ہوتا ہے] کہ کارکن کیسے کام کرتے ہیں اور سیاسی جماعت میں ان کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، بلکہ سیاسی جماعت بنتی ہی تب ہے کہ اس میں میاں طفیل محمد جیسے کارکن موجود ہوں، جو بغیر کسی خواہش کے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے امیر جماعت بھی منتخب ہوں اور پھر ازخود مزید قیادت سے معذرت کرکے بطورِ کارکن جماعت کی خدمت میں مصروف ہوجائیں