عبدالرحمٰن عمری


علم انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے، جس کے بغیر نہ فرد کا کردار بن سکتا ہے، اور نہ صحت مند معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔ علم دلوں کی زندگی ، آنکھوں کا نور اور جسموں کی طاقت ہے۔ اسی علم کی بدولت دنیا اور آخرت کے بلند وبالا درجات تک رسائی ممکن ہے۔

معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تدریس کا مقدس سلسلہ سر زمینِ مکہ ہی سے شروع فرما دیا تھا،اور ’دارِارقم‘ پہلی درس گاہ قرار پائی ، جہاں نہ صرف اخلاقی ومذہبی تعلیم دی جاتی تھی، بلکہ عملی تربیت پر بھی اچھا خاصا زور تھا۔ نیز آپ ؐ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے تین درس گاہیں (مسجد بنی زریق ، مسجد قبا والی جگہ، اور نقیع الخصمات نامی علاقے میں ) قائم ہو چکی تھیں، جن میں مختلف صحابۂ کرام ؓ تعلیم دینے پر مامور تھے۔

معلمِ اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر شعبوں کی طرح حصول علم کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ نبوی ؐ میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کا ذکر ملتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما    علمِ حدیث کے اسرار ورموز میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ ان کا کوئی مدِ مقابل نہ تھا۔ بہت سے تابعین نے ان سے اکتساب علم کیا۔ سیّدہ اُم الدرداء ؓ کا علوم ومعارف میں بہت بلند مقام تھا،  ان سے بھی ایک کثیر تعداد فیض یاب ہوئی۔ نیز شفا بنت عبداللہ عدویہؓ ، حفصہ بنت عمرؓ، اُم کلثوم بنت عقبہؓ، عائشہ بنت سعدؓ اور کریمہ بنت مقداد ؓ زیور ِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھیں۔

اسلام تعلیم نسواں کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے، لیکن  تعلیم اور اس کی غایت کیا ہونی چاہیے ؟ اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ خواتین کو دین کی بنیادی تعلیم سب سے پہلے دی جائے، تا کہ وہ اپنے واجبات وفرائض اور دین کے احکام ومسائل کو اپنی ضرورت کی حد تک سمجھ سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اکیلے معلم تھے، لیکن آپ ؐ نے ازواجِ مطہراتؓ کے ذریعے صحابیات کو، اور ان کے واسطے سے تمام مسلم خواتین کو نومعلمات دیں۔

ایک مسلمان مرد یا عورت سے اولین مطالبہ دین کا علم ہے، تا کہ وہ اسلامی زندگی بسر کرسکے، پھر دوسرے علوم کا درجہ آتا ہے۔ اسلام ‘لڑکیوں کی عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے، البتہ مخلوط تعلیم کا سخت مخالف ہے۔

اس وقت بہت ساری مسلم لڑکیاں عصری تعلیم حاصل کر کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بے پردہ کام کر رہی ہیں۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ان کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازاروں ، دکانوں ، ہوٹلوں، محفلوں اور عشرت کدوں کی زینت بنا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ مخلوط نظام تعلیم نے عورتوں کو غیر شریفانہ زندگی گزارنے پر مجبورکر دیا ہے، اور یہ چیز ان کے لیے خطرناک ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ    ؎

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت

ایک عورت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اسے کلرک ، ٹائپسٹ اور ائیر ہوسٹس بننے پر مجبور کیا جائے۔

گھریلو زندگی میں عورت کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، جیسے بیٹی ،بیوی، بہو وغیرہ، اور ہر حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ لیکن ماں کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم کا تعلق بچے کی جسمانی نشو ونما سے ہے، مثلاً بچے کو صحیح وقت پہ صحیح خوراک دینا، مناسب لباس کا انتظام کرنا، اس کو گرمی اور سردی سے بچانا، بیماری سے حفاظت کرنا، اور بیمار ہونے پر تیمار داری کرنا وغیرہ۔

دوسری قسم کا تعلق ذہنی نشوونما سے ہے، مثلاً اسے بولنا سکھانا، جب کچھ بولنے اور سمجھنے کے قابل ہو جائے تو اس سے باتیں کرنا، اور بتدریج اچھی اچھی باتیں بتانا، بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار ، اور ہراس چیز سے احتراز کرنا جس سے بچے میں خوف یا احساس کمتری پیدا ہو۔ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریوں کو ایک عام عورت بھی انجام دے سکتی ہے، لیکن پہلی قسم سمیت دوسری قسم کی ذمہ داریوں کو صحیح ڈھنگ سے نبھانا غیر تعلیم یافتہ عورت کے بس میں نہیں، ان کو صرف اور صرف ایک تعلیم یافتہ عورت ہی بخوبی انجام دے سکتی ہے۔

ایک بچے کی پیدایش کے بعد سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی دیکھ بھال اور تربیت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ماں کا ہوتا ہے۔ پرورش کے ان مراحل میں بچے کی ضروریات بے شمار ہوتی ہیں، جن میں سے بیش تر کو ماں پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت بچے کا میلان اپنی ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ پرورش کے اس دورانیے میں بچہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور یہ سیکھی ہوئی چیزیں اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسے میں ماں اگر تعلیم یافتہ ہو تو وہ اپنے بچے کی پرورش بہترین خطوط پر کرتی ہے، تا کہ اس کا لاڈلا جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے صحت مند اور توانا رہے۔ اس کے بر عکس اگر ماں  تعلیم یافتہ نہیں ہے تو بچے کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی ۔ لہٰذا آج وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں، اور ایک بیٹی ، ایک بیوی اور خصوصاً ایک ماں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بہ حُسن وخوبی نبھا سکیں، اور بچوں کی تربیت بہتر انداز سے کر سکیں۔ یاد رکھیں کہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بچہ یہیں سے اپنی زندگی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے اور یہی ابتدائی تعلیم بچے کی آنے والی زندگی کو سنوارنے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں، تا کہ وہ اپنے دین کے تئیں حساس ہوں ، اور بلند کرداری کے ساتھ ایسی زندگی گزاریں جس میں اطاعت وعبدیت کی شان پائی جاتی ہو۔ اسلام کی عظمت سے دل معمور ہوں ، نیز کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں، رہن سہن میں، پہننے اوڑھنے میں اور رفتار وگفتار میں اسلامی شعائر کا مکمل پاس ولحاظ ہو۔ بچوں کی اسلامی تربیت اسی وقت ممکن ہے، جب ماں خود دین دار، صالحہ اور پاک طینت ہو۔ عام طور پر   کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکوئوں کا گروہ اپنے جرم سے تائب ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ماں کا ہی ہاتھ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو سچائی کی تعلیم دی تھی ، اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا تھا۔

مسلم خواتین اولاد کی تربیت میں اس بات کا مکمل اہتمام کریں کہ انھیں توحید کی تعلیم سب سے پہلے دیں۔ ان کا عقیدئہ توحید زندگی کے کسی بھی موڑ پر ڈگمگانے نہ پائے، نیز اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کا درس اس انداز میں دیں کہ ان کے دل ودماغ میں آپ ؐ کی سچی محبت راسخ ہو جائے۔ ان کو دیو مالائی کہانیوں کے بجاے انبیائے کرامؑ ، صحابہؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور سلف صالحین کے سبق آموز واقعات سنائیں۔ علوم اسلامیہ کی اہمیت وعظمت دلوں میں اتاری جائے۔ فکر ومزاج ، تصورو خیالات،معاملات وعادات کو اسلامی وایمانی رنگ میں ڈھالا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں اخلاص وللّٰہیت ، تقویٰ وپرہیز گاری ، اخلاق وکردار ، شرم وحیا، اور عفت وعصمت کی تعلیم دی جائے۔ ان کو اخوت و بھائی چارے ، ایثار وقربانی ، عفوودرگزر ، جرأت و بہادری اور حقوق کی پاسبانی کی اہمیت وفضیلت سے روشناس کرایا جائے، اور معاشرتی آداب سے بھی ان کو آگاہ کیا جائے، تا کہ جب یہ جوان ہوں تو ان کے پاس اسلام کی اتنی روشنی ضرور ہو، جس سے وہ صحیح وغلط، سچ وجھوٹ، حلال وحرام اور حق وباطل کو آسانی سے پہچان لیں، اور زندگی کی راہ پر کامیابی کے ساتھ محو سفر رہیں۔

خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ عورتیں حدود وقیود میں رہتے ہوئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی لیس ہوں، نیز امور خانہ داری وغیرہ سے بھی واقف ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند عورت ہر جگہ باعزّت طور پر زندگی گزار سکتی ہے، اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے، اور اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو اس پر کافی حد تک قابو پا سکتی ہے۔ اس لیے ہماری تمام مائیں اور بہنیں علم دین ضرور حاصل کریں اور جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہوں۔

اُمہات المومنینؓ ، صحابیاتؓ اور دیگر عظیم مسلم خواتین کے کردار کو اپنے سامنے رکھیں، اور ان کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ اس لیے کہ اگر آپ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں گی تو پورے گھر کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں۔