ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی


                کلامِ اقبال پر ایک مجموعی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے دیگر تمام طبقوں سے بڑھ کر نوجوان طبقے اور بالخصوص نوجوانانِ ملت کو مخاطب کیا ہے۔

                علامہ اقبال نے مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرکے انھیں عرفانِ نفس اور شعورِ ذات کا درس دیا۔ بالفاظِ دیگر ان کے اندر احساسِ خودی پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھیں مسلمانوں کے شان دار ماضی، آبا و اجداد کی شان و شوکت اور تاریخِ اسلامی کی عظمت سے روشناس کرایا، ان کے سامنے دورِ حاضر کے پُر آشوب حالات کی ایک عبرت خیز تصویر پیش کی اور پھر ان کے دل میں احیاے دین و ملت کی تمنا بیدار کر کے انھیں ایک ولولۂ تازہ عطا کیا    ؎

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

(ضربِ کلیم، ص۲۳)

                نوجوانانِ ملت سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی شاعری میں علامہ اقبال ان مراحل کا ذکر بڑے حکیمانہ انداز میں کرتے ہیں۔ بعض نظموں میں تو وہ براہِ راست نوجوانوں سے مخاطب ہیں، جیسے ’طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام‘ یا ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ یا ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ وغیرہ۔ ابتدائی دور کی نظم ’عبدالقادر کے نام ‘ (بانگِ درا، ۱۳۲ ) بظاہر فردِ واحد کے نام ہے لیکن  فی الحقیقت اس نظم کے حوالے سے، اقبال نے عام نوجوانوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم سب سے پہلے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ زمانی اعتبار سے یہ پہلی نظم ہے، جس میں شاعر کے پُرجوش اور ولولہ انگیز خیالات کا اظہار ملتا ہے۔

                شیخ عبدالقادر اقبال کے نہایت قریبی اور گہرے دوست تھے۔ ہندستان کے ادبی حلقوں تک اقبال کا نام اور کلام پہنچانے میں شیخ صاحب کے رسالے مخزن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اقبال کے سفرانگلستان میں شیخ عبدالقادر کی تجاویز و تلقین کا   بھی دخل رہا۔(نذر اقبال، ۱۶۴،۱۷۴،۱۷۶)۔ پھر قیام یورپ کے دوران میں جب انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ کیا تو یہ شیخ صاحب ہی تھے جن کے حسنِ تدبیر سے اقبال ترکِ شعر سے باز رہے (دیباچہ : بانگِ درا، ۱۵)۔ اقبال کو شیخ عبدالقادر کے ذوق و ذہن ، ملت اور قوم کے لیے ان کے پُرخلوص جذبات، ان کی درد مندانہ سوچ اور خیر خواہانہ مساعی کا بخوبی احساس تھا، اسی لیے انھوں نے بطورِ خاص شیخ صاحب کو مخاطب کیا    ؎

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اُجاَلا کردیں

(بانگِ درا، ۱۳۲)

                قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوںنے اپنے ہم مزاج اور ہم عمر شیخ عبدالقادر ہی کو خطاب کے لائق سمجھا‘ تاہم اُن کے توسّط سے یہ خطاب، اُس دور کے تمام دردمند اور صاحبِ احساس نوجوانوں سے تھا۔ اقبال جب ’شعلہ نوائی سے اُجالا‘ کرنے ’قیس کو آرزوے نو سے شناسا‘ کرنے یا ’بزم گہِ عالم کو منور‘ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان، جس کا سینہ بلند عزائم سے پُرہے اور پختہ صالح ارادوں، اُمنگوں اور ولولوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ جذبات سے معمور اپنے دل‘ لگن اور حرارت اور اپنے سوزوگداز  سے زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے کا خواہاں ہے۔ بقول غلام رسول مہر: ’’قوم کی عملی خدمت کے لیے کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان‘‘ تھا۔ (مطالب بانگِ درا، ۲۰۹)

                ’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘ (بانگِ درا، ۱۸۰) اس سلسلے کی ایک اور اہم نظم ہے۔ اس کا زمانہ ذرا بعد کا ہے، اسی لیے اس کے لہجے اور آہنگ میں مذکورہ بالا نظم کا سا جوش و خروش نہیں، اس کے بجاے اس میں تفکر اور سوچ بچار کا انداز غالب ہے۔ فرماتے ہیں     ؎

کبھی اے نوجواں مسلم، تدبرّ بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

(بانگِ درا، ۱۸۰)

                چند اشعار کی اس نظم میں علامہ نے بطور پس منظر، ملتِ اسلامیہ کے شان دار اور سنہرے ماضی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں خاص طور پر قرنِ اوّل کے مسلمانوں کی طرف بعض بلیغ اشارات کے ذریعے، انھوں نے امّتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔قابل غور بات ہے کہ اس میں خطاب، نوجوان مسلم سے ہے۔ علامہ نے کوشش کی کہ نوجوان مسلم کے دل میں اس کے حقیقی مقام و مرتبے کا شعور پیدا کرکے، اسے بتایا جائے کہ اس مقام اور مرتبے کے کھو جانے کی وجوہ کیا ہیں۔ نظم کے ایک مصرعے (کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت ، وہ سیارا) میں نہایت کفایت لفظی سے اس تضاد کی طرف توجہ دلائی ہے جو قرنِ اوّل اور دورِ حاضر کے مسلم نوجوانوں کے کردار میں نظر آتا ہے۔ یہ مصرع ایک آئینہ ہے جس سے آج کے نوجوانوں کے ہاں بے عملی، تساہل، غفلت، لاپروائی، غیر ذمہ داری اور ایک مجموعی جمود کی کیفیت صاف اور صریح طور پر نظر آ رہی ہے۔

                اقبال کا زمانہ ، برطانوی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا، چنانچہ وہ غلامی کے اس ماحول میں پلے بڑھے، اس لیے نوجوانوں کی کمزوریوں ( کہ تو گفتار، وہ کردار۔۔۔ ) سے بخوبی آگاہ تھے۔  ان کی متعدد نظموں، مثلاً ’جاوید کے نام‘ (بال جبریلِ، ۱۷۴) ’’طلبہ علی گڑھ کالج کے نام‘   (بانگِ درا، ۱۱۴) ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ (ضرب کلیم،ص ۱۸) اور ’سخنے بہ نژادِنو‘ (جاوید نامہ، ۱۹۹) میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ، یہ نظمیں ، نژادِ نو کے بارے میں اقبال کی امیدوں، آرزوؤں اور ولولوں کا خوب صورت اظہار بھی ہیں:

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

(بالِ جبریل، ۱۱۹-۱۲۰)

’سخنے بہ نژادِ نو‘ اس اعتبار سے ایک اہم نظم ہے کہ دور آخرکی اس طویل نظم میں علامہ نے نئی نسل   کے بارے میں اپنے احساسات کو بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے۔ نژادِ نو کی  چند کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ بڑی افسوس ناک صورت حال ہے کہ:

نوجواناں تشنہ لب، خالی ایاغ
شستہ رو، تاریک جاں، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نااُمید
چشم شاں اندر جہاں چیز ے ندید

(جاوید نامہ، ۲۰۲)

                (نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں۔ چہرے چمک دار‘ دماغ روشن مگر اندرون تاریک۔ بے چارے کم نگاہ‘ بے یقین اور مایوس ہیں۔ انھیں دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔)

                علامہ اقبال کے ایک مدّاح اور اُن کی صحبت و ملاقات سے فیض یاب ہونے والے عالم جناب ممتاز حسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’ان کے پاس سب سے زیادہ نوجوان طالب علم آتے تھے اور صرف لاہور ہی سے نہیں‘ بلکہ دُور دُور سے۔ اقبال کو نوجوانوں سے مل کر اور ان سے باتیں کرکے بڑی خوشی ہوتی تھی‘ اور ان لوگوں کو بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال ان کے ہم عمر ہیں‘‘۔

                ایک ماہر طبیب کی طرح، علامہ کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہے اور وہ نئی نسل کے امراض کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی و بے اعتمادی اور ریب و تشکیک کا شکار ہے۔ خودی سے محروم ہے، اس لیے اپنی ذات پر بھروسا نہیں ہے اور چونکہ خودشناس نہیں، اس لیے    خدا شناسی کی نعمت بھی حاصل نہیں۔ وہ اپنے ماضی کا عرفان رکھتا ہے، نہ اسے اپنے حال کی خبر ہے اور نہ مستقبل پر یقین ہے۔ علامہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی نوع انسان کے لیے ایک مہلک مرض ہے اور ’ذوقِ یقین ‘ سے محروم شخص کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوتی ہے (ع :غلامی سے بتر ہے    بے یقینی۔ بالِ جبریل‘ ۳۷۳)۔ نژادِ نو کو اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے ، اقبال سب سے پہلے اسے لاالہ کا درس دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں     ؎

اے پسر! ذوقِ نگہ ازمن بگیر
سوختن در لا اِلَہ از من بگیر

(جاوید نامہ، ۱۹۹)

(اے بیٹے! ذوقِ نگہ [کا شعور و ادراک‘ بصیرت اور معیارِ انتخاب] مجھ سے سیکھو۔ لا الٰہ کا سوز   کیا ہے؟ [اور اس میں کیا لذت ہے؟] یہ بھی مجھ سے سیکھو۔)

                لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو بنی نوع انسان اور خاص طور پر نژادِ نو کی بے یقینی ، بے اعتمادی، فکر و نظر کی لغزشوں اور کردار کی جملہ کمزوریوں کا تیر بہدف علاج ہے۔ ’بتانِ وہم و گماں‘ اس سے شفا یاب اور سودو زیاں کے مغالطے لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ سے بے نقاب ہوتے ہیں۔     علامہ فرماتے ہیں: اے عزیز انِ من، لا الٰہ کو فقط دو حرف نہ سمجھو، یہ ایک ’تیغِ بے زنہار‘ ہے اور یہ دو حرف ’ضربِ کاری‘ کی سی قوت کے حامل ہیں۔

                اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، قرآن سے وابستگی کو نئی نسل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ میں وہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ، صاحبِ قرآن ہونے کے باوجود  ذوقِ طلب سے محروم ہے۔ نوجوانوں کو ان کی تلقین یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم سے دلی وابستگی پیدا کریں ‘ کیوں کہ یہی ذریعہ ہے استحکامِ خودی ، ذوقِ طلب، یقین و اعتماد اور جذبِ اندروں کے حصول کا۔ اور ہماری فوز و فلاح ، دنیاوی کامرانی اور اُخروی نجات قرآن پر عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔

                علامہ کہتے ہیں کہ سو خرابیوں کی ایک خرابی تو یہ ہے کہ مکتب کی تعلیم نے نوجوانوں کی فطرت کو مسخ کردیا ہے     ؎

نورِ فطرت را ز جاں  ہا پاک شست
یک گلِ رعنا ز شاخِ او نرست

(جاوید نامہ، ۲۰۲)

(اہلِ مکتب نے نوجوانوں کی جانوں سے نورِ فطرت کو دھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتبوں کی شاخ سے ایک گلِ رعنا بھی نہیں پھوٹا۔)

                اقبال کہتے ہیں کہ حقیقی علم فقط کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا،اس کے لیے کسی صاحبِ نظر کی طرف رجوع ضروری ہے۔ (ع  ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔ بال جبریل، ۴۷) علامہ ، اپنی اس بے مثال نظم میں نئی نسل کو حسب ذیل نصیحتیں بھی کرتے ہیں:

                ۱- عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔

                ۲- اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔

                ۳- احکام ِالٰہی کو اپنی گرہ میں باندھ لو۔

                ۴- اپنے قلب سے روشنی حاصل کرو۔

                ۵- ضبط ِنفس سے اپنی جوانی کی حفاظت کرو۔

                ۶-اور فقر و درویشی کو اپنی زندگی کا عنوان (motto) بناؤ۔

                فقر و درویشی کے ضمن میں علامہ اقبال نے شاہین کو ایک مثالی پرندے کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاہین مسلم نوجوان کے لیے ایک استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اقبال نئی نسل میں فقر، درویشی ، قناعت، استغنا، خودداری، اور بلند پروازی کی صفات دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ صفات اس وقت تک نوجوانوں کے اندر پیدا اور راسخ نہیں ہوسکتیں، جب تک وہ سخت کوشی کو اپنی زندگی کا شعار نہ بنائیں۔ (ع  سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں۔ بال جبریل، ۱۲۱)

                مختصر یہ کہ یہ نظم اقبال کے مثالی نوجوان کا ایک نہایت عمدہ خاکہ پیش کرتی ہے۔ اُوپر ذکر ہوا ہے کہ علامہ اقبال نئی تعلیم کو نوجوانوں کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتے تھے (ع  لادیں ہو تو ہے زہرِہلاہل سے بھی بڑھ کر۔ ضرب کلیم ، ۲۹)‘ کیونکہ یہ تعلیم اسے عقل پرستی اور مادّیت و لادینیت کا اسیر بناتی ہے۔

                اقبال جدید دور کی مادیت کو نوجوانانِ ملت کے لیے بہت بڑا فتنہ سمجھتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں انگلستان میں نوجوانوں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے محفوظ رہیں۔ اہلِ یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مذہب و حکومت کو علاحدہ علاحدہ کردیا۔ اس طرح ان کی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رُخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا‘‘ (گفتار اقبال، ۲۵۴)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال جوانانِ ملّت کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ جاوید کے نام پند ونصیحت کو، وہ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ قرار دے کر پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل انھیں اپنے دونوں بیٹوں (آفتاب اقبال، جاویداقبال) میں سے عزیز تر جاویداقبال ہی کی طرح عزیز تھی اور وہ اپنی اولاد کی طرح ہی اس کے خیر خواہ تھے، چنانچہ پندو نصائح کے ساتھ ساتھ، اقبال ہمیشہ ان کے لیے دعاگو بھی رہے۔ ۲۹ نومبر ۱۹۲۹ء کو وہ علی گڑھ میں تھے۔ یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے ان کے اعزاز میں جلسہ منعقد کرکے، انھیں یونین کی ’آنریری لائف ممبرشپ‘ دی اور ایک سپاس نامہ پیش کیا تو جوابی تقریر میں فرمایا: ’’گذشتہ چند سال سے میں صرف جسد خاکی کا مالک ہوں۔ میری روح ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک زندہ ہوں، وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی‘‘ (گفتار اقبال، ۱۰۳)۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں، یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خدا داد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں۔‘‘ (اقبال نامہ ، ۳۸۲)

                اس اضطراب اور خدمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جوانانِ ملّت کی تنظیم و تربیت کے متمنی تھے۔ ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تنظیماتِ نوجوانان (Young Leagues) قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو ایک مرکزی تنظیم کے تحت سماجی خدمت، نا مطلوب رسوم و رواج کی اصلاح اور معاشرے کی اقتصادی فلاح و بہبود کے کام انجام دے ۔(Speeches، ۴۱) مولانا راغب احسن نے ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا یوتھ لیگ قائم کی (اقبال، جہان دیگر، ۳۰) تو انھیں تلقین کی کہ جمعیت کو زیادہ فعاّل اور منظم بنائیں۔ لکھتے ہیں: ’’مقصد صرف تربیت ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ڈسپلن۔ تربیت سے مراد وہ طریق ہے جس سے مسلمان نوجوانوں میں دینی حرارت پیدا ہو‘‘۔ (اقبال نامہ)

                جوانانِ ملّت کے لیے اقبال کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کا تذکرہ ان کی شاعری میں بھی کئی مقامات پر ملتا ہے۔ بال جبریل کی نظم ’ساقی نامہ‘ میں کہتے ہیں:

جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے

(بالِ جبریل ۱۲۴-۱۲۵)

                سوال یہ ہے کہ یہ اضطراب ، حضرت علامہ نوجوانوں ہی کو کیوں منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ امت مسلمہ کے عمر رسیدہ و آزمودہ کار اور جہاں دیدہ اصحاب کے بجاے انھوں نے نوجوانوں کا انتخاب کیوں کیا؟ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ: ’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘ (بال جبریل، ۱۲۴) ، تو اس کا حقیقی محرک کیا تھا؟

                ہمارے خیال میں، پیروں اور بزرگوں کی تمام تر فہم و دانش ، طویل زندگی کے تجربات اور بزرگی کے باوجود، جوانوں کو اُن پر ترجیح کا سبب غالباً یہ تھا کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں دعوتِ حق کی پکار پر لبیک کہنے والوں میں نوجوان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حق و باطل کی پیکار میں انھوں نے ہر طرح کے سود وزیاں سے بے نیاز ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ یہ حقیقت معرکۂ فرعون و کلیم سے آنحضورؐ کے دور تک اسلام اور جاہلیت کی کش مکش میں ہمیشہ بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ :

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ (یونس ۱۰: ۸۳) (پھر دیکھوکہ ) موسیٰ کو اس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔)

                گویا اس پر آشوب اور پر خطر زمانے میں جب فرعون اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے درمیان ایک زبردست کش مکش برپا تھی، حق کا ساتھ دینے اور حضرت موسیٰ کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت فقط چند لڑکوں نے کی۔ اُمتِ موسٰی ؑکے عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوشی اور عافیت پرستی کا شکار ہو کر رہ گئے۔  نہ صرف یہ کہ وہ خود حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے، بلکہ نوجوانوں کو بھی موسیٰ کی پیروی سے روکتے رہے تاکہ وہ فرعون کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ سرزمینِ عرب میں آنحضوؐر نے دعوتِ حق پیش کی تو آپؐ پر ایمان لانے والوں میں بڑے بوڑھوں اور سن رسیدہ لوگوں کے بجاے اولیت کا شرف بھی نوجوانوں ہی کو حاصل ہوا۔ ان باہمت نوجوانوں کی عمریں قبولِ اسلام کے وقت اس طرح تھیں:

                ۱- ۲۰ سال سے کم عمر: علی ابن ابی طالب، جعفر بن طیار، زبیر ، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔

                ۲- ۲۰ اور ۳۰ سال کے درمیان: عبدالرحمن بن عوف ، بلال ، صہیب رضی اللہ عنہم۔

                ۳- ۳۰ اور ۳۵ سال کے درمیان: ابوعبیدہ ابن الجراح، زید بن حارث، عثمان غنی،     عمر فاروق رضی اللہ عنہم۔

                اس تاریخی حقیقت کی بنا پر جس کی شہادت قرآن حکیم پیش کر رہا ہے، علامہ بجا طور پر    یہ محسوس کرتے تھے کہ اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات میں سے صرف نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جو  ذوقِ عمل کی دولت سے مالا مال ہے اور انھی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، اس لیے اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کرلی تھیں۔ مزید برآں قریبی زمانے کی مسلم تاریخ اور ہم عصر مسلم معاشرے کے عمیق مطالعے کے بعد‘ حضرت علامہ نوجوانوں کے سوا، ملت کے تمام گروہوں سے تقریباً مایوس ہوگئے تھے۔ مایوسی کا یہ احساس مختلف اصحاب کے نام لکھے گئے خطوط میں خاصا نمایاں ہے۔ آخر زمانے کے ایک خط (بنام چودھری نیاز علی خاں مرحوم) میں ان کی سوچ کا یہ رخ بہت دو ٹوک اور واضح نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں :

علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کے کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خودغرض ہیں۔ ذاتی منفعت اور عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں ۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر ان کا کوئی بے غرض راہ نما نہیں ہے۔ (اقبال نامہ، ۲۲۳)

                چنانچہ اقبال اپنے برس ہا برس کے مطالعے، مشاہدے اور ذاتی تجربے کے بعدا پنی تمام تر توقعات صرف اور صرف نوجوانوں سے وابستہ کرلینے میں حق بجانب تھے۔ ان کے ہاں عقل پر عشق کی ترجیح اور شاہین کی ایک مثالی پرندے کی حیثیت سے تعریف و توصیف اسی نکتے کی تفسیریں ہیں۔ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرلینے کے بعد‘ وہ بے چین ہوئے تو انھی کے لیے ، تڑپے اور مضطرب ہوئے تو انھی کے لیے، ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں‘ اُمنگیں اور آرزوئیں انھی کے لیے وقف ہوگئیں :

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے

(بالِ جبریل، ۸۶)

                کچھ عجب نہیں کہ اس وقت جبکہ دنیا بھر کے مسلمان ابتلا و آزمایش کا شکار ہیں اور عالمِ اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، حضرت علامہ کی روح آج بھی بے تاب و مضطرب ہو اور اس بات کی منتظر کہ نوجوانوں کے عزائم اور ان کے ارادے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔

                ۲۱ویں صدی کے آغاز میں جب متمدن اور ترقی یافتہ مغرب، اقبال کے الفاظ میں ، ایک بہت بڑے ’قمار خانہ‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے اور وہاں زندگی، علامہ کے اس شعر کی تفسیر بن چکی ہے     ؎

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

(بالِ جبریل، ۱۰۸ )

مسلم نوجوان دورِ جدید کا وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسلام کے حیات بخش اور جاں فزا پیغام کی بدولت آج بھی ہر طرح کے ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ ہے ۔ اقبال کی شاعری‘ اس نوجوان کی قوتِ عمل کے لیے ایک مہمیز ہے۔ اقبال دور حاضر کے مسلم نوجوانوں کو تسکینِ قلب کے لیے منفی اور مصنوعی طور طریقوں کے بجاے‘ دین فطرت کا وہ صراط مستقیم دکھاتے ہیں جو اسلامی انقلاب کی شاہراہ ہے۔

                مسجد قرطبہ ، یورپ میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی ایک خوب صورت یادگار ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل اس کے پہلو میں بہتے دریا وادی الکبیر کے کنارے حضرت علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا:

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

(بالِ جبریل، ۱۰۱)

مگر یہ سحر عالمِ اسباب میں تاحال بے حجاب نہیں ہوئی۔ اقبال کی چشم ِنگراں آج بھی اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ جب ہم ’’ساقی نامہ‘‘ کے ان اشعار کو دیکھتے ہیں کہ :

خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے

(بال جبریل، ۱۲۴)

تو غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی نسل ہی اقبال کے خواب شرمندہ ٔ تعبیر کرسکتی ہے۔

کتابیات

۱- ابوالاعلیٰ مودودی، سیدّ : تفہیم القرآن، دوم۔ مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۷۱ء

۲- اقبال، علامہ محمد : اقبال نامہ (مرتب : شیخ عطاء اللہ) اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء

۳- اقبال، علامہ محمد : اقبال ، جہانِ دیگر (مرتب: محمد فرید الحق) گردیزی پبلشرز کراچی ، ۱۹۸۳ء

۴-  اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال، اُردو ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء

۵-  اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال ، فارسی ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء

۶- اقبال، علامہ محمد : Speeches, Writings and Statements of Iqbalمرتب: لطیف احمد شروانی ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۷ء

۷- اقبال، علامہ محمد : گفتار اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل ) ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۶۹ء

۸- عبدالقادر ، شیخ سر : نذرِ اقبال (مرتب: محمد حنیف شاہد) بزم اقبال لاہور، ۱۹۷۳ء

۹-  ممتاز حسن: مقالاتِ ممتاز (مرتب: شان الحق حقی)۔ ادارہ یادگار غالب کراچی‘ ۱۹۹۵ء

۹- مہر ، غلام رسول مہر : مطالبِ بانگِ درا ۔ شیخ غلام علی لاہور۔ ۱۹۷۲ء

 

یہ حیاتِ اقبال کا ایک معروف واقعہ ہے‘ جسے خود اقبال نے اپنی فارسی مثنوی رمـوزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) میں بیان کیا ہے۔ مثنوی کے متعلقہ حصے کا عنوان ہے: ’’درمعنیِ ایں کہ  حسنِ سیرتِ ملّیہ از تادّب بآدابِ محمدیہ است‘‘ یعنی اس مضمون کی وضاحت میں کہ ملّت اسلامیہ کا حسنِ سیرت و کردار‘ آدابِ محمدیہؐ کی اتباع میں ہے۔

علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔

یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفّت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)

اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمت مسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہدا‘ اکابراُمت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی‘ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے) چنانچہ نبی کریمؐ مجھ سے مخاطب ہوں گے:

حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد

از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد

حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضوؐرفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔

والد نے فرمایا کہ اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسولؐ اللہ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:

بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن

غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی
از بہارش رنگ و بو  باید گرفت

گل شو از بادِ بہار مصطفی
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت

(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپؐ  کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ  کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔

وجوہات تو اور بھی ہیں‘ مثلاً اقبال کے گھرانے کی دین سے گہری وابستگی‘ مذہبی شعائر کی پابندی‘ والدۂ اقبال کا جذبۂ خدمتِ خلق‘ پھر علامہ میرحسن کی علمی اور اخلاقی تربیت اور خود اقبال کے والد شیخ نورمحمد کا روحانی مزاج‘ نیک نفسی‘ اور پرہیزگاری وغیرہ ___ لیکن راقم کی دانست میں یہی  وہ واقعہ ہے جس نے اقبال کے قلب و ذہن میں‘ آخرت میں جواب دہی کے احساس و شعور کو بیدار کیا اور ان کے نیک طینت والد نے اپنی مذکورہ بالا دل سوز و دردمندانہ گفتگو اور پندونصیحت کے ذریعے‘ ان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دلی محبت اوروابستگی کا بیج بویا___ اقبال کی شاعری اور شخصیت میں یہ بیج ایک تن آور‘ اور بلندوبالا اور اطراف میں خوب پھیلی ہوئی شاخوں والا گھنا درخت بن کر نمودار ہوا___ (کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ) (ابراہیم ۱۴:۲۴)

عین ممکن ہے اقبال کے لڑکپن میں اسی طرح کے کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے ہوں تاہم بالیقین یہ واقعہ اقبال کی محبتِ رسولؐ میں ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوائلِ عمر کے بعض وقوعات‘ انسانی ذہن پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ نوجوان محمداقبال کے قلب ودماغ پر مرتسم ہوکر رہ گیا اور پھر پایانِ عمر وقتاً فوقتاً اورطرح طرح سے اظہار ہوتا رہا۔

علامہ اقبال کی زندگی‘ شخصیت‘ شاعری اور نثرنگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ‘ علامہ اقبال کا تعلقِ خاطر‘ ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعۂ اقبال کا ایک نمایاں اور زرّیں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشقِ رسولؐ ایک زندہ‘   توانا اور ایک انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ یہ حکایت دراز ہے اور لذیذ بھی‘ لیکن فی الوقت یہاںاس کے فقط چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:

ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں جذبۂ عشق رسولؐ کا ایک والہانہ اظہار ملتا ہے مگر اظہارِ عقیدت کا انداز بالعموم رسمی و روایتی ہے۔ وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو اُن کی توصیف ِمحمدؐ میں ہمیں ایک خاص معنویت نظر آتی ہے‘ مثلاًآںحضوؐر کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپؐ کی رحمت و شفقت کا پہلو اُن کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے۔ ابتدائی نظموں میں سے ’نالۂ یتیم‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو   ؎

درد ، انساں کا جو تھا، وہ میرے پہلو سے اُٹھا
قلزمِ جوشِ محبت ، تیرے آنسو سے اُٹھا

نظم ’فریادِ اُمت‘ کے متعدد شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد دردِ انسانیت ہے‘ اور یہ درد عشقِ رسولؐ ہی سے پیدا ہوتا ہے     ؎

تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

۱؎

پھر رموز بے خودی میں کہتے ہیں     ؎

تا دمِ تو آتشے از گلِ کشود
تودہ ہاے خاک را آدم نمود

(آپؐ  کے نفسِ گرم سے مٹی کے پیکروں نے آگ پیدا کی اور خاک کے تودوں نے آدم کی صورت اختیار کرلی۔)

گویا‘ اقبال کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ  نے ’انسان سازی‘ کی عظیم الشان خدمت انجام دی۔ آپؐ  نے اپنی ۲۳ سالہ مثالی زندگی میں جو گوناگوں کارنامے انجام دیے‘ اقبال کی شاعری میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مفصل تذکرہ تو رموزِ بے خودی کے آخری باب بعنوان: ’عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمت للعالمینؐ، میں کیا گیا ہے     ؎

اے ظہورِ تو شبابِ زندگی
جلوہ اَت تعبیرِ خوابِ زندگی

(حضورِ والاؐ! آپؐ  کا ظہور زندگی کے لیے شباب کا باعث ہے۔ آپؐ  کا جلوہ خوابِ زندگی کی تعبیر ہے۔)

فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں ’درِحضورِ رسالت مآبؐ، کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے جسے اقبال نے پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں (حضوؐراکرم کی خدمت میں ایک)’عرض داشت‘ کہا ہے۔ یہ ’عرض داشت‘ ان کی نعتیہ شاعری کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ اس میں ملّت اسلامیہ کی کس مپرسی‘ بے چارگی اور خواری و زبوں حالی کا حوالہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔

علامہ اقبال سب سے پہلے انسانیت پر آپؐ  کے احسانِ عظیم کا ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ  نے اُسے لات و منات اور چوپایوں اور کاہنوں کی عبدیت (غلامی) کے بوجھ سے آزاد کیا اور      امرا و سلاطین کی غلامی کے چنگل سے نجات دلائی۔ پھر افرادِ اُمت کی موجودہ حالت ِ زبوں کا ذکر کرتے ہوئے افرادِ اُمت کے مختلف طبقوں (نوجوانوں‘ اہلِ مکتب‘ افرنگ کے نقالوں) کی ذہنی پستی اور پس ماندگی پر رنج و تاَسف کا اظہار کرتے ہیں:

درِ عجم گردیدم و ہم در عرب
مصطفی نایاب و ارزاں بولہب

ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ
ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ

درِ جوانی نرم و نازک چوں حریر
آرزو در سینۂ او زود میر

ایں غلام ابن.ِ  غلام ابن.ِ  غلام
حریت اندیشۂ او را حرام

(میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی۔ بولہب زیادہ ہیں اور آپؐ  کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں۔ یہ روشن دماغ مسلمان زادہ‘ اس کے ضمیر کی اندھیرنگری چراغ کے بغیر ہے۔ یہ جوانی میں ریشم کی طرح نرم و نازک ہے۔ اس کے سینے میں آرزوئیں پیداہوتے ہی مرجاتی ہیں۔ اس غلام ابن غلام ابن غلام پر آزادی کی سوچ حرام ہے۔)

پھر کہتے ہیں کہ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اور اب تو وہ ایک    بے جان لاشہ ہے‘ اس کا وجود: ’’ایں قدر دانم کہ بود‘‘ (اتنا جانتا ہوں کہ کبھی ’’تھا‘‘___)

یہ نوجوان اپنے آپ سے ناآشنا ہے اور افکارِ فرنگ میں مست ہے۔ یہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے  َجو کی روٹی مل جائے۔ اس فاقہ کش نے اپنی جانِ پاک دے کر روٹی خریدی۔ اس کے اس طرزِعمل نے ہمیں دردناک نالوں پر مجبورکردیا۔ یہ پالتو پرندوں کی طرح (دوسروں کے ہاتھ سے) دانہ چگتا ہے اور فضاے نیلگوں کی پہنائیوں سے ناآشنا ہے۔ فرنگیوں کی آگ نے اسے پگھلا دیا ہے۔ اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسکول کا استاد نالائق اور  کم نظر ہے‘ اس نے نوجوان کو اس کے حقیقی مقام سے آگاہ نہیں کیا۔

اقبال اُمت کے امراض سے بخوبی واقف تھے‘ جن میں سے ایک بڑی بیماری ’ترسِ مرگ‘ ہے۔ اس نظم کے ابتدا میں انھوں نے فریاد کی تھی کہ: وارہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ (اس قوم کو موت کے خوف سے نجات دلایئے) یہاں وہ اس تاَسّف کا اظہار کرتے ہیں کہ     ؎

مومن و از رمزِ مرگ آگاہ نیست
در دلش لاغالب الااللہ نیست

(مومن ہے اور موت کی رمز سے آگاہ نہیں۔اس کا دل لاغالب الا اللہ سے خالی ہے)

اقبال نے اس نوحہ و فریاد میں ایک ایسی بات کہی ہے جو اقبال کے دور میں تو سچی تھی ہی‘ آج ۷۰سال بعد‘ دورِاقبال سے کہیں زیادہ ہمارے حسبِ حال ہے___ کہتے ہیں     ؎

ما ہمہ افسونیِ تہذیبِ غرب
کشتۂ افرنگیاں بے حرب و ضرب

(ہم سب مغرب کی تہذیب کے سحر زدہ ہیں۔ ہمیں افرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کردیا ہے۔)

تاہم‘ اقبال کو علم نہیں تھا کہ جب یہ سخت جان اُمت‘ صرف تعلیم اور (نام نہاد)ثقافتی حربوں کے ذریعے پوری طرح بے جان نہ ہوسکے گی تو فرنگی جدال و قتال پر بھی اتر آئیں گے___ (یہ الگ بات ہے کہ اس محاذ پر بھی انھیں منہ کی کھانی پڑے گی۔)

علامہ اقبال کے حبِّ رسولؐ کے جذبے پر ایک اور پہلو سے بھی نظر ڈالنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں حبِّ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کا جذبہ چند ظاہری آداب (نعت نویسی‘ نعت خوانی‘ مجلس میلاد‘ میلادالنبیؐ کا جلوس یا رسمی و روایتی انداز میں دھواں دھار تقریروں) تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ اور الا ماشاء اللہ اب یہ ہمارا ایک ’ثقافتی مظہر‘ ہے۔ لیکن علامہ اقبال کی محبتِرسولؐ فقط آپ کی زبانی کلامی توصیف و تحسین یا درود و سلام تک محدود نہیں (گو کہ علامہ اقبال نے نبی ِکریمؐ پر بکثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے) وہ محبتِرسولؐکو خدمتِرسولؐ اور خدمتِرسولؐ  کو خدمتِدین کے مترادف سمجھتے ہیں‘ یعنی ان کے نزدیک:

محبتِرسولؐ= خدمتِرسولؐ

اور:

خدمتِرسولؐ = خدمتِاسلام

چنانچہ متذکرہ بالا ’عرض داشت‘ پیش کرتے ہوئے انھیں خیال آتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے نہ تو اپنی نسبتِ رسولؐ کا خیال رکھا اور نہ محمدؐ کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔ ہم مسلمان ہیںتو اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسالتِمحمدیہؐ پر ہمارا ایمان ہے تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟___افراد ِاُمت‘ اس ضمن میں ایک عمومی غفلت کا شکار ہیں۔ اقبال کے لیے  یہ چیز دلی اذیت.ّکا باعث ہے۔ اس کیفیت کو‘ وہ ذاتی حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:

میں تو جب کبھی سوچتا ہوں‘ شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر فخر کریں؟ ہاں‘ جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کرلیں گے‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا‘ تو اس وقت اس قابل ہوسکیں گے کہ حضوؐر ہم پر فخر کریں۔

وہ نور کیا تھا جو آپؐ  نے ہمیں عطا کیا؟ اسلام کی نعمت‘ قرآن حکیم کی دولت‘ احکام الٰہی کا سرمایہ اور خدمتِدین کا جذبہ___ یہ سب عشقِ رسولؐ کا تقاضا اور اس کے ثمرات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال کے تجربے میں تو عشقِ رسولؐ ہی ایسی نعمت ہے‘ جس کے ذریعے‘ وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کرسکتے تھے‘‘۔ اقبال کے نزدیک حبِّ رسولؐ کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کا حصول ممکن ہے‘ بلکہ زمین و آسمان کی ساری عزتیں اور ساری نعمتیں صرف اسی طریقے سے مل سکتی ہیں     ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح وقلم تیرے ہیں

ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ او ست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست

(جس شخص کو بھی عشقِ مصطفیؐ کی نعمت مل جاتی ہے‘ وہ دریا و صحرا دونوں پر متصرف ہوجاتا ہے۔)

لیکن جیساکہ اکثر ابناے زمانہ کا شیوہ ہے‘انسان غفلت کا اسیر رہتا ہے‘ مکروہاتِ زمانہ ہی سے فرصت نہیں ملتی‘یا ساری تگ و دو حصولِ دنیا کے لیے وقف رہتی ہے۔ دین کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ ہمارے گردوپیش بہت کم لوگ ہوں گے‘ جنھیں تفہیم دین‘ خدمتِ اسلام یا اتباعِ رسولؐ کا حقیقی شعور ہو اور وہ ان فرائض کو اداکرنے کااحساس بھی رکھتے ہوں۔ اقبال کو اس کا احساس تھا مگر انھیں ایک گونہ ندامت ہوتی تھی کہ وہ اتباعِ رسولؐ کے تقاضوں کو خاطرخواہ طریقے سے پورا نہیں کرسکے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:

میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطافرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے‘ تو آج خدا کے رسولؐ کی ‘ میں کوئی خدمت کرسکتا اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والدِمکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے‘ تو مجھے اوربھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے‘ کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی‘ تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میںتھا‘ ہوا‘ اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا‘ میں نے کیا‘ لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا‘ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا‘ اور زندگی تمام و کمال نبیِکریمؐ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔

اگرچہ جیسا اُوپر بھی ذکر ہوا‘ علامہ اقبال نے آنحضوؐر پر بہ کثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے‘ مگر درجِ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشقِ رسولؐ ان کے نزدیک محض      درود شریف پڑھنے اور محبت کے زبانی کلامی دعووں یا ان کی یاد میں آنسو بہانے تک محدود نہیں۔ عشقِرسولؐ کا حقیقی تقاضا ’’نبی ِکریمؐ کی خدمت ہے‘‘۔ یہ خدمتِ رسولؐ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا احیا اور اس کا نفاذ___ یعنی خدمتِ رسولؐ، خدمتِ اسلام کے مترادف ہے۔ سیدغلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت‘ ہمت‘ اثر‘ رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائقِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآبؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ عصرِحاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات‘ اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے خاتمے کے لیے کوشش و کاوش ایک طرح سے سنت ِنبویؐ ہے‘ خدمتِ رسولؐ بھی اور خدمتِ دین بھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایک مومن کی زندگی کا یہی مشن ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں انھیں ’نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت‘ کی فکر برابر دامن گیر رہی اور وہ ’اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اس کے مستقبل کو محفوظ‘ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جہاںتک اسلام کا تعلق ہے‘ اس ملک ہندستان میں کیا ہو رہا ہے‘ اوراگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل‘ اس ملک میں کیا ہوجائے گا؟ آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہوجائے اور   رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہوجائے۔

آپ خواجہ صاحب کے دل میں بھی یہی تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں‘ ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

اسی تسلسل میں ۳۰ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جو قوت‘ خداتعالیٰ نے اسے عطا کی ہے‘ اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و مللِ اسلامیہ کے   احیا و بیداری میں صرف کردے‘‘۔ یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے بارے میں علامہ اقبال کارجائی ذہن بہت واضح تھا۔ شاعری کے علاوہ خطوں میں بھی یہ رجائیت‘ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ایک صاحب نے خواب میں رسولِ پاکؐ کی زیارت کی تعبیر دریافت کی‘ اقبال انھیں جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مآبؐ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِ رسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے۔

خود علامہ اقبال اپنے تئیں احیاے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے‘ اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمتِ اسلام اور خدمتِ رسولؐ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔

محبت ِ رسولؐ کے ضمن میں علامہ اقبال کو اپنی ’نسبتِ حجازی‘ بھی بہت عزیز تھی‘ وہ آں حضوؐر کی زبانِ مبارک سے خود کو ’اے عندلیبِ باغِ حجاز‘ کہلوا کر فخرومسرت اور روحانی لذت و سرشاری محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے حالات میں حجازِ مقدس کے سفر اور زیارتِ روضۂ رسولؐ کی تمنا کا بہ تکرار اظہار ملتا ہے۔ بارہا سفرِحجاز کا ارادہ بھی کیا مگر بوجوہ یہ ارادہ بروے کار نہ آسکا۔

آخری زمانے میں نبی پاکؐ کے لیے ان کا ذوق و شوق بڑھ گیا تھا‘ اس بنا پر آںحضوؐر کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہوجاتے اور اکثر اوقات ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :

آپؐ کا نام زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ آپؐ  ذاتِ بابرکات کے ساتھ اقبال کا عشق‘ بیان کا متحمل نہیں۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضوؐر کے متعلق ہیں‘ ان میں سے ایک شعر بھی ایسا نہیں‘ جسے انھوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں۔

وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے‘ علامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا اور غالباً ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباً انھیں لکھا کہ حجِ بیت اللہ کی آرزو تو گذشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے‘ تو یہ آرزو پوری ہو‘ اور اگر آپ رفیقِراہِ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیت، اس سفر میں نصیب کرے۔

یہی زمانہ تھا‘ جب وہ ’حضورِ رسالتؐ، (جو اَب ارمغانِ حجاز میں شامل ہیں) کے عنوان سے فارسی رباعیات لکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہاز ران کمپنیوں سے خط کتابت بھی شروع کردی تھی، گویا عملاً حالتِ سفر میں تھے۔ اسی زمانے کی رباعی ہے:

بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرورِ عاشقانہ

چوں آں مرغے کہ در صحرا سرِشام
کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ

(اس بڑھاپے میں‘ میں مدینے کی طرف سرورِعاشقی سے مست‘ گاتا چلا جا رہا ہوں اور میرا حال اُس پرندے کی طرح ہے جو صحرا میں شام ہوتے ہی اپنے آشیانے کی طرف لوٹنے کی فکر کرتا ہے۔)

اپنی بیماری کے سبب‘ اقبال کے لیے جسمانی طور پر سفر بہت مشکل ہوگیا تھا چنانچہ عالمِ خیال ہی میں وہ مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں رہے۔ اپنی علالت کے حوالے سے اسی زمانے کی   حسبِ ذیل رباعی ان کے حسبِ حال تھی:

سحر با ناقہ گفتم: نرم تر رَو
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی

کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است
بہ پایش ریگِ ایں صحرا حریر است

(بوقت صبح میں نے اُونٹنی سے کہا کہ ذرا آہستہ چل کیوں کہ سوار خستہ‘ بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس پر وہ اس طرح مستانہ انداز میں قدم زن ہوئی گویا اس کے پائوں کے نیچے پھیلی ہوئی ریگِ صحرا‘ ریت نہیں ریشم ہے۔)

مگر اثناے سفر کی لذت ایسی سرور انگیز اور وجدآفریں ہے کہ مسافر‘ سارباں کو راہِ دراز اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سفرِشوق میں مسرت کے لمحات دراز تر ہوسکیں:

غمِ راہی نشاط آمیز تر کن
فغانش را جنوں انگیز تر کن

بگیر اے سارباں راہِ درازے
مرا سوزِ جدائی تیز تر کن

(اے سارباں! تو مسافر کے غم میں نشاط اور کیف کی آمیزش بڑھا دے اور اس کی آہ و زاری میں جنوں کا عنصر زیادہ کردے۔ اے سارباں! لمبا راستہ اختیار کر اور یوں میرے سوزِ جدائی کو تیز تر کردے۔)

علامہ اقبال کو ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن کا سفر درپیش ہوا۔ واپسی پر موتمرعالم اسلامی میں شرکت کے لیے بیت المقدس گئے۔ وہاں سے مصر گئے اور پھر    براہِ راست ہندستان چلے آئے۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ علامہ نے عمرے اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کے اس موقعے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ اس ضمن میں روزگارِ فقیر کے مؤلف فقیر سید وحیدالدین کی ایک روایت قابلِ غور ہے۔ [فقیرسیدوحیدالدین کے والد فقیر  سیدنجم الدین علامہ اقبال کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے] وہ بتاتے ہیںکہ   علامہ یورپ سے واپس آئے تو والدمرحوم اس موقعے پر ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت کے بعد‘   ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے بڑے تپاک سے ملے‘اور ڈاکٹرصاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والدمرحوم نے اثناے گفتگو میں کہا: ’’اقبال! تم یورپ ہوآئے ہو‘ مصر اور فلسطین کے سیر بھی کی‘ کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے‘‘۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹرصاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی‘ یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے: ’’فقیر! میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا‘‘۔

انھی دنوںکسی شخص نے دریافت کیا کہ فلسطین سے زیارتِ حرمین کے لیے جانا مشکل نہ تھا‘ پھر کیاامر مانع ہواکہ آپ نے اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا؟ جواباً علامہ نے انھیں لکھا:

مدینۃ النبیؐ کی زیارت کا قصد تھا‘ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبویؐ کی زیارت کی جرأت کرنا سوئِ ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرمِ نبویؐ کی زیارت  کے لیے جائوں گا‘ تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا‘ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا۔

بہ الفاظِ دیگر‘ انھیں دربارِ رسالت مآبؐ میں ضمنی طور پر حاضر ہونا اچھا نہ لگا۔ دراصل    آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کی طرح علامہ اقبال کو بھی اپنے گناہوں اور کوتاہیِ فکروعمل کا شدید احساس تھا۔ احساسِ ندامت کے سبب‘ وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے گریزاں تھے‘ اور غالباً اسی لیے وہ  ایک جگہ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح التماس کرتے ہیں:

تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ محشر عذر ہاے من پذیر

وَرحسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر ۲؎

(اے اللہ) تو سراپا غنی ہے(اور) میں تہی دست ہوں۔ روزِحشر مجھے جواب دہی سے معاف رکھنا۔ لیکن اگر جواب دہی ناگزیر ہو تو پھر آں حضوؐر کی نظروں سے اوجھل ہوکر حساب لیجیو۔ (تاکہ آپؐ کے سامنے‘ میری رسوائی نہ ہو۔)

بہرحال انھوں نے سفر ِحجاز کا ارادہ ترک نہیں کیا‘ مگر سوئِ اتفاق سے‘ یورپ سے واپسی کے چندماہ بعد وہ شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انھیں وکالت ترک کرنی پڑی‘ معمولات متاثر ہوگئے‘   علاج معالجے کے لیے بار بار دہلی اور بھوپال جانا پڑا۔ بیماری کے نتیجے میں طرح طرح کے تفکرات اور غم ہاے روزگار نے گھیرلیا‘ مگر اس عالم میں بھی سرزمین مقدس کے لیے ان کے عزم و ارادے میں فرق نہیں آیا۔ ارادۂ سفر نہ صرف برقرار رہا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرِحجاز کی آرزو  تیز تر ہوتی گئی۔ اس آرزو نے رسول اکرمؐ کے ساتھ ان کی دل بستگی میں اضافہ کردیا تھا۔

دورِ آخر میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دل بستگی کی جس کیفیت سے گزر رہے تھے‘ اس کا ذکر‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بڑے عمدہ الفاظ میں کیا ہے:

زندگی کے آخری ایام میں پیمانۂ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینے کا نام آتے ہی   اشکِمحبت بے ساختہ جاری ہوجاتے۔ وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ مدینۃ الرسولؐ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل‘ نیز اپنی قوتِ تخیل اور زورِ کلام کے ساتھ انھوں نے حجاز کی وجدانگیز فضائوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائرِ فکر ہمیشہ اسی آشیانے یا آستانے پر منڈلاتا رہا۔

مدینۃ النبیؐ اقبال کے خوابوں کا شہر تھا۔ وہاں ان کی عزیز ترین ہستی محوِاستراحت تھی۔ ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ انھیں حجاز جانے کا موقع ملے تو سرزمینِ مدینہ ہی میں پیوندِ خاک ہوجائیں۔ یہ تمنا بھی آپؐ  سے ایک تعلقِ خاطر کی دلیل‘ اور قلبی وابستگی کی ایک شکل ہے جس کا اظہار ایک شعر میں اس طرح کیا ہے    ؎

ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز

(آپؐ  کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مجھے موت آئے تو سرزمین حجاز میں۔)

اقبال کے سفرِحجاز کا خواب تو شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا اور نہ اُن کی ’میرم درحجاز‘ کی تمنا بروے کار آسکی۔ مگر ’عرضِ حال مصنف بہ حضوؐر رحمت للعالمین‘ (رموزِ بے خودی‘ ۱۹۱۸ء) کے ۲۰سال بعد (۱۹۳۸ء میں) جب وہ اس عالمِ فانی سے رخصت ہوکر عالمِ جاودانی کو سُدھارے اور عالم گیری مسجد لاہور کے سایۂ دیوار میں سپردِ خاک ہوئے‘ تو ان کی آرزو تھی:

کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
تا بیاساید دلِ بے تابِ من

مرقدے در سایۂ دیوار بخش
بستگی پیدا کند سیمابِ من

با فلک گویم کہ آرامم نگر
دیدۂٖ آغازم انجامم نگر

(میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدۂ بیدار عطا فرمایئے اور اپنی دیوار کے سایے میں آسودئہ خاک ہونے کے لیے ذرا سی جگہ عطا فرمایئے تاکہ میرے دلِ بے تاب کو سکون نصیب ہو اور میری سیمابیت کو قرار آجائے‘ اور مَیں فلک سے کہہ سکوں کہ دیکھو‘ مجھے کیسے آرام نصیب ہوا‘ تو میرا آغاز دیکھ چکا ہے‘ اب میرے انجام پر بھی نظر ڈال۔)

اس آرزو کو ایک شکل میں تو یوں شرفِ قبولیت حاصل ہوا کہ وہ عالم گیری مسجد لاہورکی دیوار تلے آسودئہ خاک ہیں جہاں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء سے آج تک‘ نماز اور زیارتِ مسجد کے لیے آنے والے ہزاروں لاکھوںمسلمان‘ ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں___ یہ ’رُتبہ بلند‘ ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتا اور ایسا اعزاز و افتخار عشقِ رسولؐ کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔


حواشی

۱-   مذکورہ بالا دونوں اشعار‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہیں‘ بلکہ دوسرے شعر سے متصل ومابعد    حسب ذیل نہایت عمدہ شعر بھی اقبال نے‘ نمعلوم کیوں اپنے متداول کلام میں شامل نہیں کیا:

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

۲-   یہ رباعی‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہے‘ اقبال نامہ (جدید یک جا اڈیشن‘ شائع کردہ: اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘ ۲۰۰۵ء‘ ص ۲۵۶) میں موجود ہے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ مذکورہ رباعی اوائل ۱۹۳۷ء میں کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہوئی تو ڈیرہ غازی خاں کے ایک مدرس محمدرمضان عطائی نے‘ علامہ سے تحریراً درخواست کی کہ یہ رباعی مجھے عطا کریں۔ علامہ کا ظرف دیکھیے کہ انھوں نے عطائی صاحب کو لکھا: ’’شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے‘ اپنے نام سے مشہور کریں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے___‘‘اور علامہ واقعی اس بے مثال رباعی سے دست بردار ہوگئے اور اسے اپنے مجموعۂ کلام میں شامل کرنے کی ممانعت کردی‘ تاہم راقم کی راے میں‘ اب یہ رباعی ارمغانِ حجاز میں شامل کرلینی چاہیے۔

اُردو دنیا کی ایک محترم اور معتبر شخصیت ‘ اُردو کے معروف اور جید نقاد اور بھارت کے نام ور مسلم دانش ور پروفیسر عبدالمغنی ۵ستمبر ۲۰۰۶ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے‘ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی رحلت اُردو دنیا خصوصاً بھارت کی اُردو تحریک کے لیے ایک نقصانِ عظیم ہے۔ اسی طرح وہاں کی تحریک ِ ادب اسلامی کے لیے (جس کے مرحوم ایک نمایاں سرپرست تھے) یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کا تعلق صوبہ بہار کے ایک علمی خانوادے سے تھا۔ مغلوں نے ان کے ایک بزرگ کو الٰہ آباد سے ’قاضی‘ بناکر اورنگ آباد (بہار) بھیجا تھا۔ ان کے والد قاضی سید عبدالرؤف دیوبند اور ندوہ کے فارغ التحصیل اور اورنگ آباد کے قاضی تھے۔ معارف ، اعظم گڑھ کے ابتدائی زمانے میں ان کے متعدد مضامین مذکورہ رسالے میں شائع ہوئے۔ خاندانی روایت کے مطابق والدنے عبدالمغنی کو بھی ’قاضی‘ بناناچاہا مگر وہ والد کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے۔ سات آٹھ برس تک مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد‘ یکے بعددیگرے اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کے امتحانات بڑے امتیازات کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال بعد انگریزی ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو انھیں بہار کی ایل این متھلا یونی ورسٹی دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ فرقہ پرستوں کو ایک مسلم وائس چانسلر ہضم نہ ہوسکا تو ان کے خلاف سازش کرکے‘  انھیں گرفتار کرا دیا مگر جلد ہی وہ تمام الزامات سے بری الذمہ ہوکر‘ باعزت طریقے سے رہا ہوگئے۔ ۳۱اگست ۱۹۹۹ء کو مجھے ایک خط میں لکھا: ’’اسلام پسندی کا ملزم آزاد ہے اور پہلے سے زیادہ    معتبر و معروف‘ ہرفرقے اور حلقے میں‘ بلاامتیاز مذہب و ملّت‘‘۔

پروفیسر عبدالمغنی نہایت فعال‘ متحرک اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے نظریات میں بہت پختہ‘ واضح اور دوٹوک موقف رکھتے تھے اور تحریراً و تقریراً اس کے اظہار میں بے باک اور جری تھے۔ ہمیشہ بے جا مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالا رہے۔ نہ صرف بات چیت بلکہ معاملات میں بھی کھرے تھے‘ اس لیے اُن سے معاملہ کرنے والے اُن سے دبتے بھی تھے اور   ان کی عزت بھی کرتے تھے۔ راقم کو دو بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی ملاقات تو ۲۶اپریل ۱۹۸۶ء کو دہلی میں ہوئی۔ دوسرا موقع اس وقت ملا‘ جب وہ پنجاب یونی ورسٹی کی    اقبال کانگریس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں شرکت کے لیے چار روز کے لیے لاہور آئے۔ اس دوران میں‘ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہیں۔ کانفرنس کے علاوہ مختلف ادبی جلسوں اور گفتگوؤں‘ نیز اخبارات کے مصاحبوں (انٹرویو) میں بھی عبدالمغنی صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر‘ اپنے خیالات کا نہایت کھل کر اظہار کیا۔ بھارتی مسلمانوں کے مسائل‘ ہندوئوں کا معاندانہ رویہ‘ ہندستان میں اُردو زبان کا حال اور مستقبل‘ کشمیر کا مسئلہ‘ ادبی دھڑے بندیاں‘ پاکستانی معاشرے اور بعض نقادوں‘ افسانہ نگاروں اور شاعروں کے بارے میں انھوں نے بہت سے مسلّمات کے برعکس اپنی دوٹوک آراظاہر کیں اور قطعاً پروا نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے اور اس کا ردعمل کیا ہوگا۔

اُردو دنیا کو اُن کی عطا (کنٹری بیوشن) کے سلسلے میں چند پہلو بہت نمایاں محسوس ہوتے ہیں:

اوّل: وہ بھارت میں اُردو زبان کی بقا اور اُس کی ترویج اور فروغ کے بہت بڑے حامی تھے۔ حامی اور نعرے لگانے والے تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن عبدالمغنی صاحب نے کسی خوف‘ مصلحت اور مداہنت کے بغیر اُردو کے حق میں ایک بڑی تحریک چلا کر بہار میں ۱۹۸۰ء میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ وہ ابتدا سے تادمِ آخر انجمن ترقی اُردو بہار کے صدر رہے اور بالعموم‘ ہمیشہ بلامقابلہ ہی صدر منتخب ہوتے رہے۔

دوم: پروفیسر عبدالمغنی بھارت کی اسلامی ادبی تحریک کے ایک نمایاں سرپرست تھے۔ وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے مجلسِ عاملہ کے رُکن اور اُس کے ادبی ترجمان پیش رفت کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔

سوم: وہ اُردو ادب کے سربرآوردہ نقاد تھے۔ عربی‘ فارسی اور مشرقی و دینی علوم کے ساتھ انگریزی ادب کے مطالعے بلکہ دیگر یورپی زبانوں کے ادب سے واقفیت نے ان کی تنقید میں ایک وزن اور وقار پیدا کردیا تھا۔ رسمی و روایتی اندازِ نقد و انتقاد سے ہٹ کر‘ ان کے تنقیدی تجزیوں میں ایک حقیقت پسندانہ قدر سنجی اور واضح نقطۂ نظر ملتا ہے۔ ان کے اوّلین تنقیدی مجموعے کا نام    نقطۂ نظر (پٹنہ‘ ۱۹۶۵ئ) اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ادب کی سنجیدہ تنقید میں کسی نہ کسی نقطۂ نظر کو ضروری خیال کرتے تھے۔

چہارم: پروفیسر عبدالمغنی کی ایک حیثیت اپنے عہد کے ایک نام ور اقبال شناس کی بھی ہے جیساکہ اُوپر ذکر ہوا۔ انھوں نے نظم و نثر کی مختلف اصناف پر بہت کچھ لکھا مگر جس رغبت اور والہانہ انداز میں انھوں نے اقبال کے فکروفن کے مختلف گوشوں کو منور کیا‘ وہ ان کے ادبی و تنقیدی سرمایے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں اقبالیات پر ان کی سات کتابیں‘ اس موضوع سے ان کی غیرمعمولی لگن کا ثبوت ہیں۔ اقبال کے فکروفن پر ان کی تنقید بڑی متوازن اور معتدل ہے اور وہ اقبال کی شاعری میں ان کے فکر کے ساتھ‘ ان کے فن کو بھی برابر کی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال کو عالمی سطح پر سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ اپنے دورۂ پاکستان میں انھوں نے اس راے کا اظہار‘ مختلف مجالس اور اخبارات سے مکالموں اور مصاحبوں میں بھی بڑی شدّومد سے کیا۔

پروفیسر عبدالمغنی کی اُردو اور انگریزی تصانیف کی تعداد ۵۰ سے اُوپر ہے۔ ان کا آخری  علمی کارنامہ: The Quran: An Authentic Modern Idiomatic English Translation ہے___ شبلی نعمانی‘ ابوالکلام آزاد اور سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مصنفین تھے۔ وہ بھارت کی بہت سی علمی‘ تعلیمی اور ادبی انجمنوں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں متعدد انعامات واعزاز پیش کیے گئے۔ اس مختصر تعارف میں اس کی تفصیل دینا مشکل ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور روح کو آسودہ رکھے‘ آمین!

بانگِ درا کے ابتدائی حصے میں‘ بچوں کے لیے ایک نظم ہے: ’’پرندے کی فریاد‘‘--- جس کا آغاز یوں ہوتا ہے    ؎

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

وہ باغ کی بہاریں‘ وہ سب کا چہچہانا

پرندہ‘ ماضی کی آزادانہ زندگی کو یاد کرتے ہوئے‘ موجودہ قیدوبند پر افسردہ و رنجیدہ ہے اور دکھے دل کے ساتھ اپنی قسمت کو رورہا ہے    ؎

اس قید کا الٰہی‘ دکھڑا کسے سنائوں

ڈر ہے یہیں قفس میں‘ مَیں غم سے مر نہ جائوں

بانگِ درا میں شامل بچوں کے لیے بیشتر نظمیں‘ انگریزی شاعری سے ماخوذ ہیں‘ مگر ’’پرندے کی فریاد‘‘ پر ’’ماخوذ‘‘ کی وضاحت درج نہیں ہے۔ پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم کی  تحقیق یہ ہے کہ اقبال کو اس نظم کی تحریک‘ معروف انگریز شاعر ولیم کوپر کی ایک نظم سے ہوئی‘اور انھوں نے اس نظم میں کوپر کی آزاد ترجمانی کی ہے‘ لیکن اس سے قطع نظر‘ کہ یہ کوپر سے ماخوذ ہے یا ایک طبع زاد تخلیق ہے‘ اقبال کی یہ نظم معنی خیز ضرور ہے۔ یہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں‘ یعنی ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب غلام ہندستان‘ برطانوی استعمار کے شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا تھا ‘ اور غلامی کے خلاف کھل کر فریاد کرنا بھی مشکل تھا۔ اس لیے ہمارے بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اس نظم کے ذریعے،’گفتہ آید درحدیثِ دیگراں‘ کے مصداق‘ علامہ نے اہلِ وطن کی غلامی پر احتجاج کیا ہے۔

ہم اقبال کے شارحین اور نقادوں سے اتفاق کریں یا اختلاف‘ یہ مُسلّم ہے کہ علامہ ہرنوع کی غلامی کے خلاف تھے۔ غلامی‘ سیاسی اور مادی و معاشی ہو یا روحانی اور ذہنی‘ براہ راست ہو یا بالواسطہ‘ غیروں کی ہو یا اپنوں کی‘ اقبال اسے انسانیت کی توہین سمجھتے ہیں اور اُن کے لیے کسی کی خودساختہ حکمرانی‘ کسی کا من مانا اقتدار یا کسی کا جبری تسلط ناقابلِ قبول تھا۔ ان کا عقیدہ تو یہ تھا کہ قوت‘ طاقت اور حکمرانی کا سرچشمہ نہ عوام ہیں‘ نہ خواص‘ نہ اشرافیہ‘ نہ کوئی فردِ واحد‘ بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے     ؎

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری

علامہ اقبال کی شاعری انھی بُتانِ آزری کے خلاف ایک پُرزور صداے احتجاج ہے۔ اقبال نے دورِ غلامی میں آنکھ کھولی تھی اور وہ دُور دیس سے آنے والے فرنگیوں کی محکومی کے ماحول میں پروان چڑھے۔ اُنھی کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی‘ پھر یورپ کے آزاد اور لادین معاشروں کا مشاہدہ کیا۔ وہ مختلف قوموں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن جیسے وسیع المطالعہ اور صاحبِ بصیرت دانش ور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ غلامی‘ انسان کے لیے بہت بڑی لعنت کے مترادف ہے۔ غلامی کی زندگی‘ انسان کی فطرتِ آزاد کواعلیٰ انسانی اور اخلاقی اوصاف و اقدار سے محروم کرکے‘ اُسے حسنِ خیال و عمل سے تہی دامن اور مردہ ضمیر بنا دیتی ہے اور وہ ایک بے بصیرت و بے توفیق انسان کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے:

بدن غلام کا سوزِ عمل سے ہے محروم

کہ ہے مُرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام


غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں‘ آزاد بندے‘ ہے وہی زیبا

بھروسا کر نہیں سکتے‘ غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

غلام اقوام میں خیروشر کے پیمانے بدل جاتے ہیں‘ خوب و ناخوب کی تمیز اٹھ جاتی ہے‘ اور حق و باطل میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی‘ بلکہ خوے غلامی راسخ ہو جائے تو‘ آج کل کی اصطلاح میں ’’یوٹرن‘‘لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ جہاد اور تحریکِ آزادی کو دہشت گردی    مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا     ؎

تھا جو ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

قوموں کی تاریخ میں‘ ایسی صورتِ حال بہت تشویش ناک ہوتی ہے کیوں کہ بقول حضرت علامہ: ’’محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید‘‘۔ اپنی بے چارگی کا ذمہ دار وہ تقدیر کو قرار دیتا ہے (برلبِ او حرفِ تقدیر است و بس)۔ اس کے پاس ’’دیدئہ نمناک‘‘ کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا  ع

محکوم کا سرمایہ فقط دیدئہ نمناک

علامہ کہتے ہیں کہ بے بسی و بے کسی کے اس عالم میں‘ نہ تو شمشیریں کام آتی ہیں نہ تدبیریں--- ’’ذوقِ یقین‘‘ تو اُس سے پہلے ہی چھن چکا ہوتا ہے‘ اس کے اندر’’نفسیاتِ غلامی‘‘ پیدا کرنے میں غلام قوم کے بعض شعرا‘ حکما اور علما اہم کردار ادا کرتے ہیں     ؎

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

خوے غلامی پختہ کرنے میں‘ سیاست دان اور حکمران بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیوں کہ ’’حکمراں کی ساحری‘‘ محکوم کی نفسیات کو بہ خوبی سمجھتی ہے‘ اور اُسے چند پُرفریب مگر دل کش وعدوں کا نشہ پلا کر‘ اُسے سلا دینے کے فن میں بہت ماہر ہے     ؎

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

یہ ساحری‘ بدیسی ہو یا مقامی‘ دونوں کے طور اطوار ایک جیسے اور طریقۂ واردات یکساں ہے---

قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں کاذکر ہے (یہ راقم کے لڑکپن کا زمانہ تھا) ایک سوال دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا: ’’انگریز رخصت ہوچکا‘ انگریز کا نظام کب رخصت ہوگا؟‘‘--- یہ سوال آج بھی تشنہ جواب ہے ---بہ ظاہر تو ہم ایک آزادمملکت کے باشندے ہیں لیکن کیا    ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ بیرونی قرضے‘ آئی ایم ایف کی چاکری اور بالادست قوتوں کی نیازمندی‘  وہی yours most obedient servant والا رویّہ--- حضرتِ علامہ نے اس ضمن میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ظفر احمد صدیقی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’غلام قوم‘ مادّیات کو روحانیات پر مقدّم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور جب انسان میں خوے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بے زاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد‘ قوتِ نفس اور روح انسانی کا ترفّع ہو‘‘۔ (اقبال نامہ‘ اول‘ ص ۲۰۱)

اسی خوے غلامی کا شاخسانہ ہے کہ ہم نے بیرونی بالادستوں کے احکامات کی تعمیل میں قومی تعلیم کے پورے نظام کو تلپٹ کرنے میں کمال درجے کی مستعدی دکھائی ہے اور خاص طور پر ان شعبوں کو جن کا تعلق ہماری تہذیب‘ دین  اور روایت سے ہے‘ مثلاً: اردو زبان کو بارہ پتھر باہر قرار دے کر انگریزی کو اوّل جماعت ہی سے جابرانہ طریق سے مسلّط کیا جا رہا ہے‘ پھر دینی تعلیم کو اپنے کنٹرول میں لینے اور اس کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش‘ اسی طرح عمرانی و مشرقی علوم سے بے اعتنائی --- غرض جملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے فرنگی تہذیب کے غلبے کی ایک ہمہ جہتی تگ و دو ہے جس کا مقصد بقولِ اقبال یہ ہے کہ: ’’روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو‘‘۔

یہ روحِ محمدؐ، یہ خودی‘ یہ خودداری اور یہ اسلامی اور ملّی تشخص ہی وہ کانٹاہے جو بالادست طاقتوں سے لے کر سیکولر طبقوں‘ دیسی انگریزوں اور نام نہاد روشن خیال بزرجمہروں تک سب کو کھٹکتا ہے۔ یہی تشخص تو علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کی بنیاد تھا‘ اسی بنا پر قرارداد پاکستان پاس ہوئی اور اسی تشخص پر اصرار کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا--- اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے تشخص سے دست بردار ہوجائو--- یہ دوستی کی باتیں‘ یہ سرحدیں گرانے اور مٹانے کے مشورے‘ یہ مشترکہ تہذیب کی باتیں‘ یہ ثقافتی طائفے اور ’’ہم ایک ہیں‘‘ کے راگ--- علامہ نے کیا خوب کہا ہے     ؎

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر

نئی نسل کی تعلیم کے لیے جس قسم کا تیزاب تیار کیا جا رہا ہے‘ بلکہ تیار ہوچکا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک اس غیرمعمولی آرڈی ننس میں دیکھی جاسکتی ہے جو دو سال پہلے (۸ نومبر ۲۰۰۲ئ) کو جاری ہوا جس کے تحت ہمارے امتحانات کا نظام‘ آغا خان امتحانی بورڈ کے تصرف میں چلا جائے گا۔ نہ صرف امتحانات‘ بلکہ نصابات بھی۔ (دیکھیے: سلیم منصور خالد کا مضمون ’’تعلیم کا استعماری ایجنڈا: آغا خان بورڈ‘‘، ترجمان‘ ستمبر۲۰۰۴ئ)

علامہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا انحصار اس کے اجتماعی رویوں پر ہے۔ شاید ہم دورِ غلامی کی غلامانہ ذہنیت اور yours most obedient servant قسم کے فدویانہ رویّے سے چھٹکارا نہیں پاسکے‘ چنانچہ دوسروں کو دوش کیا دیں‘ علامہ اقبال کے بقول     ؎

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے‘ یورپ سے نہیں ہے

حضرتِ علامہ کے خیال میں خودی کا احساس اور فقر کا رویّہ‘کسی قوم کو پستی سے اٹھانے اور سربلندی و آزادی کی طرف لے جانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس خودی اور فقر سے پہلوتہی اور غفلت‘ قوموں کو پستی کی طرف کھینچتی اور غلامی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے۔ خیال رہے کہ علامہ کے ہاں خودی اور فقر‘ ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور لازم و ملزوم بھی     ؎

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ  سکی‘ فقر کی نگہبانی

جس طرح خودی کا ضعف‘ افراد واقوام کو غلامی میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہے‘ اسی طرح خودی کی پرورش و استحکام اور فقر کا رویّہ ترقی و عروج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے:

سنا  ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل

سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

کیسا عبرت ناک منظر ہے کہ اُمتِ مسلمہ‘ جس نے انسانیت کو بتانِ آزری کی بندگی سے آزاد کیا‘ اور غلاموں کو آزاد کر کے‘ معاشرے کے معزز و محترم افراد کی حیثیت سے اپنے برابر لابٹھایا‘ اور علامہ کے نزدیک روے زمین پر ہم ہی وہ قابلِ فخر امت ہیں  ع

نوعِ انسان کو غلامی سے چھڑایا جس نے

اور ظلم و استبداد کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرنے کا سہرا بھی اسی اُمت کے سر ہے  ع

توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب

وہی اُمت آج دوسروں کی دست نگر ہے--- وطن عزیز میں اس وقت جو صورت حال ہے‘ اس کے پیشِ نظر قدرتی طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں یا غلام؟ جہاں اپنے ہی شہریوں کو پکڑ پکڑ کر غیرملکی ظالموں کے حوالے کیا جا رہا ہو اور جہاں پاکستان ہی نہیں‘ پوری اُمتِ مسلمہ کے محسن سائنس دانوں کو مجرموں کی طرح نظربند کر دیا گیا ہو‘ تو ایسا سوال پیدا ہونا فطری ہے۔

ضربِ کلیم میں ’’مناصب‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جو وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال میں معنی خیز اور قابلِ مطالعہ ہے۔ علامہ کہتے ہیں:

ہوا ہے بندئہ مومن فسونیِ افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نمناک

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعتِ چالاک

’’شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک‘‘

حاکم کی نگاہ میں محکوم کی حیثیت‘ پرِکاہ کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ’’جوہرِ ادراک‘‘ غیروں کے ہاتھ بیچنے کے بعد‘ اب اس بات کا فیصلہ بھی ہمارے غیرملکی آقا ہی کرتے ہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا‘ کون سی وزارت کس کے لیے موزوں ہے اور کون سا قلم دان‘ کس کے سپرد کرنا چاہیے۔

علامہ اقبال ‘ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ ۱۹۳۳ء میں افغانستان گئے تھے۔ مثنوی مسافر اسی سفر کی یادگار ہے--- کابل کی مصروفیات سے فارغ ہو کر‘ بطورخاص غزنی اور قندھار کا سفر کیا اور بابر‘ حکیم سنائی‘ محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے مقابر کی زیارت کی۔ بابر کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے ان پر جو کیفیت طاری ہوئی‘ اس کی ایک جھلک اس شعرمیں ملتی ہے    ؎

خوشا نصیب کہ خاکِ نو آرمید ایں جا

کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است

تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی‘ اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے‘ جو فرنگیوں کے طلسم سے آزاد ہے۔

میں سوچتا ہوں سرزمینِ غزنی و قندھار سے توآزادی چھن چکی اور اب سرزمین پاکستان بھی‘ جہاں علامہ اقبال کا جسدِخاکی دیوارِ مسجد کے سائے میں محوِخواب ہے‘ طلسمِ فرنگ کی زد میں ہے۔ جب کبھی ہم اقبال کی یاد تازہ کرتے ہیں تو رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ روحِ اقبال‘ کس قدر افسردہ و رنجیدہ اور بے قرارو مضطرب ہوگی؟

ایک مختصر فہرستِ تصانیف

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں: مفسرِقرآن‘ سیرت نگار‘ دینی اسکالر ‘ اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور اسلامی  تہذیب و تمدن کے شارح‘ برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد‘ ایک نام ور صحافی اور اعلیٰ پاے کے انشاپرداز--- فکری اعتبار سے وہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے متکلمِ اسلام تھے۔

بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جوت جگائی۔ مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولولے کو اپنی نثر کے ذریعے آگے بڑھایا اور علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات کو سمیٹ کر احیاے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی‘ پھر اپنے گہربار قلم کی قوت اور غیرمعمولی تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس تحریک کوپروان چڑھایا۔ اقبال اور مودودی دونوں پر پروفیسر رشیداحمدصدیقی کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا‘ اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔

سید مودودیؒ اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ ’’سب سے بڑے‘‘ ان معنوں میںکہ کثیرالتصانیف مصنف تو اور بھی ہیں مگر اُردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں انھیں  سب سے زیادہ چھپنے والے مصنّف کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا حلقۂ قارئین‘ بلاشائبۂ تردید‘ اُردو کے ہرمصنّف سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہم انھیں اُردو کا مقبول ترین مصنّف بھی کہہ سکتے ہیں۔

سید مودودیؒ کی شخصیت‘ افکار و نظریات اور ان کی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کم از کم ۴۳ زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں--- ان کے ذخیرئہ علمی کا مطالعہ‘ ایک بے حد وسیع اور بڑا موضوع ہے۔ دنیا کی مختلف جامعات میں ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں‘ اور بعض پہلوئوں پر مزیدتحقیقی کام ہو رہا ہے۔

ذیل میں ہم نے تصانیفِ مودودی کی ایک فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ موصوف کا علمی کام کس قدر وسیع الاطراف ‘ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘ عقائد‘ عبادات‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ تہذیب‘ تمدن‘ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اجتماعیت‘ اخلاقیات‘ مغربی فکر وغیرہ--- اُردو زبان میں کوئی اور مصنّف اس تنوع اور کثیرالجہتی میں‘ سیّدموصوف کا ہم پلّہ نظرنہیں آتا۔


اس فہرست کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

۱-            پہلا حصہ تفسیرِقرآن اور سیرت النبیؐ کی کتابوں پر مشتمل ہے‘ اور یہ ان کی قلمی کاوشوں کا اہم ترین سرمایہ ہے۔

۲-            یہ حصہ ایسی کتابوں پر مشتمل ہے جنھیں مولانا نے خود تصنیف و مرتب کر کے شائع کیا یا بعض ان کی نگرانی میں اور ان کی تائید و اجازت سے مرتب ہو کر شائع ہوئیں۔ یہ حصہ بھی‘ سید موصوف کے مستند متن میں شمار ہوگا۔

۳-            یہ حصہ مولانا کے مکاتیب کے مجموعوں پر مشتمل ہے۔

۴-            اس حصے میں ایسی کتابوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سے چند ایک تو ان کی زندگی میں شائع ہوئیں‘ مگر بیش تر ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔ یہ کتابیں‘سید مرحوم کی نہیں‘ بلکہ دوسروں کی مرتب کردہ ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسی کتابوں اور مجموعوں کو   ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ ان کے بعض حصوں پر نظرثانی کرتے اور شاید کسی قدر ترمیم و حذف سے بھی کام لیتے‘ کیوں کہ وہ زبان و بیان‘مضمون اور نفسِ مضمون کی نزاکت اور احتیاط کے بارے میں سخت حسّاس تھے۔ اس حصے کی بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں مرتبہ صورت میں مولانا نے دیکھا اور پسند فرمایا بلکہ کہیں کہیں قلم بھی لگایا‘ جیسے:تصریحات یا ۵ اے ذیلدار پارک‘ اول وغیرہ۔

                اس حصے میں مولانا کی ترجمہ کردہ ایک کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔


یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس فہرست میں مولانا مرحوم کی تحریروں کا پوری طرح احاطہ نہیںہو سکا۔ ان کی بہت سی تحریریں اور تقریریں‘ رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں اور چند ایک کتابچوں کی صورت میں شائع کی گئی ہیں۔

اس فہرست میں شامل ہرکتاب کی نوعیت واضح کرنے کے لیے‘ قوسین میں اس کی مختصر توضیح (annotation) بھی دی گئی ہے۔ ہر حصے میں حوالوں کی ترتیب الفبائی ہے۔

۱

۱-            ترجمہ قرآن مجید‘ مع مختصر حواشی: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۱۵۸۰ ص۔  (یہ ترجمہ اور حواشی تفہیم القرآن ہی سے ماخوذ ہیں لیکن ترجمے پر مولانا نے نظرثانی کر کے بعض ترامیم کیں۔ اس نسخے کی اس اہمیت اور استناد کے سبب اس کا ذکر ابتدا میں کیا جا رہا ہے)

٭             قرآن مجید‘ مترجم (بین السطّور): ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۹۲۷ ص۔ (اس نسخے میں حواشی شامل نہیں۔ ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ (بین السطّور) دیا گیا ہے۔ دیباچہ از ملک غلام علی‘ ۲۰ اگست ۱۹۹۰ئ)

۲-            تفہیم القرآن‘ جلد اول: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۶۶۳ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ فاتحہ تا سورہ الانعام۔ آغاز تحریر: فروری ۱۹۴۲ئ)

۳-            تفہیم القرآن‘ جلد دوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۴ئ‘ ۷۱۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الاعراف تا بنی اسرائیل)

۴-            تفہیم القرآن‘ جلد سوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۸۲۱ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الکہف تا سورہ الروم)

۵-            تفہیم القرآن‘ جلد چہارم: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘۱۹۶۶ئ‘۶۸۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ لقمان تا سورہ الاحقاف)

۶-            تفہیم القرآن‘ جلد پنجم  : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۱ء ‘ ۶۳۲ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ محمد تا سورہ الطلاق)

۷-            تفہیم القرآن‘ جلد ششم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۲ء ‘ ۶۵۹ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ التحریم تا سورہ الناس--- تکمیل: ۷ جون ۱۹۷۲ئ)

۸-            سیرتِ سرورِعالمؐ،جلداول: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۴ص۔ (نبوت‘ رسالت‘ دعوت وغیرہ کے مباحث۔ سیرت النبیؐ کا پس منظر۔ مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)

۹-            سیرتِ سرورِعالمؐ،جلددوم: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۳ص۔ (سیرت النبیؐ کامکی دور۔مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)

۲

۱۰-         اسلام اور جدید معاشی نظریات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۵۹ئ‘ ۱۶۷ ص۔ (کتاب سود کے ان ابواب کا مجموعہ‘ جن کا براہ راست تعلق مسئلہ سود‘ سے نہیں ہے)

۱۱-         اسلام اور ضبطِ ولادت: ادارہ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۶۹ ص۔ (تحریک ضبطِ ولادت کی تاریخ)

۱۲-         اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ‘ لاہور‘ ۱۹۵۵ء ۳۲۰ ص۔ (۳۳-۱۹۳۲ء کے وہ مضامین‘ جو پہلے پہل ترجمان القرآنمیں شائع ہوئے)

۱۳-         اسلامی ریاست: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۶۲۰ ص۔ (اسلام کے تصور ریاست اور اس کے سیاسی نظام پر مختلف تحریریں۔ ترتیب و تدوین: پروفیسر خورشیداحمد)

۱۴-         اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر: اقبال اکیڈمی‘ لاہور‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۷۸ ص۔ (نماز اور روزے پر دو مقالات)

۱۵-         اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۴۹۳+۴۸ ص۔ (مختلف مضامین اور تقاریر کا مجموعہ)

۱۶-         الجہاد فی الاسلام: ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ‘ ۱۹۳۰ئ‘ ۵۰۴ ص۔ (الجمعیت دہلی میں یہ سلسلہ مضامین‘ ۲ فروری ۱۹۲۷ء کو شروع ہوا اور ۱۵ جون ۱۹۲۷ء کو جملہ مباحث مکمل ہوئے)

۱۷-         انتخابی تقاریر: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی حلقہ لاہور ] ۱۹۴۲ء [ ۹۶ ص۔ (صدارتی انتخاب ایوب خاں بمقابلہ فاطمہ جناح کے موقع پر لاہور‘ پشاور‘ سرگودھا‘ کراچی میں تقاریر)

۱۸-         پردہ: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۶۰ ص۔ (پردے سے متعلق مضامین و مباحث۔ آغاز: ۱۹۳۶ئ)

۱۹-         تجدید و احیاے دین: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۸۰ ص۔ (یہ مقالہ پہلے پہل رسالہ الفرقان بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبرکے لیے لکھا گیا تھا)

۲۰-         تحریکِ آزادیِ اور مسلمان‘ جلد اول: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۴ئ‘ ۴۸۴ص۔ (یہ مجموعہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش،اول‘دوم‘ اور مسئلہ قومیت پر مشتمل ہے۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)

۲۱-         تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ جلد دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۴۰۸ ص۔ (مشتمل بر: مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم‘ اور اسی موضوع سے متعلق ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۸ء تک کے زمانے میں لکھے گئے مزید سولہ مضامین)

۲۲-         تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۸ئ‘ ۲۳۹ ص۔ (جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ ارکان‘ منعقدہ ماچھی گوٹھ‘ فروری ۱۹۵۷ء میں پیش کردہ قرارداد اور اس کی توضیح میں ایک مفصل تحریر)

۲۳-         تحریکِ جمہوریت ‘ اس کے اسباب اور اس کا مقصد : شعبہ نشرواشاعت تحریک جمہوریت مغربی پاکستان لاہور‘ ] ۱۹۶۸ئ[ ۸۹ ص۔ (تقاریر :کراچی‘ سکھر‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ مرتب: جیلانی بی اے‘ نظرثانی و تصویب: سیّدمودودی)

۲۴-         تعلیمات: دارالاشاعت نشاتِ ثانیہ‘ حیدر آباد دکن‘ ۱۹۴۵ئ‘ ۱۲۲ ص۔ (تعلیم کے موضوع پر مختلف تحریریں اور لیکچر۔ مابعد اشاعتوں میںمتعدد اضافے کیے گئے)

۲۵-         تفہیمات: جلد اول: دفتر رسالہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۳۵۰ ص۔ (سرورق: ’’بعض معرکہ آرا مسائل اسلامی کی تشریح و توضیح‘‘ ۔ ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۶ئ)

۲۶-         تفہیمات: جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں ۱۹۳۸ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)

۲۷-         تفہیمات: جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۳ ص۔ (حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں ۱۹۶۴ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)

۲۸-         تنقیحات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۲۴۰ ص۔ (سرورق: ’’اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر مختصر تبصرے‘‘)

۲۹-         ٹرکی میں عیسائیوں کی حالت: دارالاشاعت سیاسیاتِ شرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۲ئ‘ ۳۵ص۔  (سلطنت عثمانیہ میں عیسائیوں کے حالات اور ان کے ملکی حقوق)

۳۰-         جماعت اسلامی‘ اس کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ص ۱۱۱۔ (ترجمان القرآن میں شائع شدہ ایک سلسلۂ مضامین)

۳۱-         جماعت اسلامی کے ۲۹ سال: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۸۰ ص (۲۶ اگست ۱۹۷۰ء کی تقریر)

۳۲-         حقوق الزوجین: دفتر ترجمان القرآن دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ص ۱۴۸۔ (اسلامی قانون ازدواج کے مقاصد اور نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث)

۳۳-         حوادث سمرنا، اتحادی کمیشن کی رپورٹ : دارالاشاعت سیاسیاست مشرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۱ئ‘ ۱۶ ص۔ (اتحادی حکومتوں یعنی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی کے مقرر کردہ کمیشن کی تحقیق۔ واقعاتِ مظالم کی رپورٹ)

۳۴-         خطبات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۴۸ ص۔ (عام فہم انداز میں اسلام‘ کلمہ طیبہ‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور جہاد کی تشریح)

۳۵-         خطباتِ حرم: دارالعروبہ‘ منصورہ لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۹۲ص۔(۱۹۶۳ء کے ایامِ حج میں حرم شریف میں کی جانے والی تقریریں)

۳۶-         خلافت وملوکیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۶ئ‘ ۳۵۱ ص۔ (اسلام میں خلافت کا تصور‘ خلافت کی ملوکیت میں تبدیلی کے اسباب اور نتائج پر ایک علمی بحث)

۳۷-         دکن کی سیاسی تاریخ: دارالاشاعت سیاسیہ‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۳۰۰ ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)

۳۸-         دولت آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیدعلی شبرحاتمی‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۲۸ئ‘ ۲۱۹ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)

۳۹-         دینیات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۱۳۶ ص۔(ناظم تعلیمات حیدرآباد دکن کی فرمایش پر تحریر کردہ میٹرک کے لیے نصابی کتاب۔ اسلامی عقائد و اعمال کی تشریح و توضیح)

۴۰-         رسائل و مسائل: جلداول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۵۲۸ ص۔ (قرآن‘ حدیث‘ تاریخ‘ فقہ‘ معیشت‘ کاروبار‘ سیاست‘ جماعت اسلامی اور بعض دیگر موضوعات پرترجمان القرآن میں شائع شدہ سوالات و جوابات کا مجموعہ)

۴۱-         رسـائل ومسـائل: جلد دوم‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۴ء ۶۲۲ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔ دیباچہ از مولانا امین احسن اصلاحی)

۴۲-         رسـائل و مسـائل:جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۴۶۸ ص ۔ (ماسبق     دو جلدوں کے تسلسل میں تیسرا حصہ)

۴۳-         رسائل ومسائل: جلدچہارم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۵ ص۔ (مزید سوالات و جوابات کا مجموعہ)

۴۴-         رسـائل و مسـائل: جلد پنجم: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۳۶۸ ص۔ (مصنف کی وفات کے بعد ملک غلام علی صاحب کی رہنمائی میں حافظ عبدالحمید کا مرتبہ مجموعہ۔ مقدمہ از خلیل احمد حامدی)

۴۵-         سانحہ مسجدِ اقصٰی: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۲۰ ص۔ (۲۴ اگست ۱۹۶۹ء کی ایک تقریر۔ یہودی عزائم اور ان کی منصوبہ بندی۔ قیام اسرائیل کا پس منظر وغیرہ)

۴۶-         سلاجقہ: ناشر: ابوالخیر مودودی‘ لاہور‘ ۱۹۵۴ء ‘ ۲۶۷ ص۔ (سلجوقی حکمرانوں خصوصاً طغرل بک‘ الپ ارسلان اور ملک شاہ کے عہد کی تاریخ)

۴۷-         سنت کی آئینی حیثیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۳۹۲ ص۔ (نظامِ دین میں حدیث اور سنت کی حیثیت اور مقام۔ منکرین حدیث کے دلائل پر تنقید۔  ترجمان القرآن کے ’’منصب رسالت نمبر‘‘ کی کتابی اشاعت)

۴۸-         سود‘ جلد اول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۴۸ئ‘ ۱۶۸ ص۔ (سود اور اس سے متعلقہ مباحث‘ اشتراکیت اور سرمایہ داری پر تنقید‘ اسلام کا معاشی نظام وغیرہ)

۴۹-         سود‘ جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۲ئ‘ ۱۵۰ ص۔ (حصہ اول کے بعض تشنہ مباحث کی تکمیل۔ جدید بنک کاری وغیرہ)

۵۰-         سود‘ اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۴۱۰ ص۔ (سود‘ اول و دوم کو ازسرِنو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ زیرنظر کتاب ایک حصہ ہے‘ باقی مباحث  اسلام اور جدید معاشی نظریات میں شامل کیے گئے ہیں۔)

۵۱-         قادیانی مسئلہ اور اُس کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی پہلو: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۴۲۳ ص۔ (اس موضوع پر مصنف کی تحریریں اور بیانات۔ قادیانیت پر اقبال کی تحریریں‘ چند عدالتی فیصلے۔)

۵۲-         قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۵۳ئ‘ ۹۵ص ۔ (الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین پر ایک علمی بحث)

۵۳-         مُرتد کی سزا: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۸۶ ص۔ (اسلامی قانون میں مرتد کی سزا پر ایک علمی بحث۔ شائع شدہ: ترجمان القرآن ۱۹۴۲ء -۱۹۴۳ئ)

۵۴-         مسئلہ جبر و قدر: دفتر ترجمان القرآن پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۸۴ ص ۔ (چودھری غلام احمد پرویز کا طویل خط اور اس کا جواب۔ ایک علمی بحث۔ اسی موضوع پر مصنف کی ایک نشری تقریر بھی شامل ہے۔)

۵۵-         مسئلہ قومیت: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۶۴ ص۔(قومیت کے مسئلے پر چند مضامین و مباحث کا مجموعہ۔ مابعداشاعتوں میں اضافہ کیا گیا)

۵۶-         مسئلہ ملکیتِ زمین: مکتبہ جماعتِ اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۰ئ‘ ۸۶ ص۔ (۱۹۳۴ء کی ایک بحث‘ شائع شدہ: ترجمان القرآن۔ زمین کی شخصی ملکیت اور مزارعت پر ایک علمی بحث)

۵۷-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش: جلد اول: دفتر ترجمان القرآن    پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۱۳۵ ص ۔ (اسلامی ہند کی گذشتہ تاریخ اور موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات پر ۸ مضامین کا مجموعہ)

۵۸-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد دوم: دفتر ترجمان القرآن‘ پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۲۴۰ ص۔(سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں پر تنقید ‘ جنگِ آزادی کی نوعیت وغیرہ۔ ۱۲ مضامین کا مجموعہ)

۵۹-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد سوم:دفتر ترجمان القرآن‘ لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۱۷۶ص۔ (پہلے دوحصوں کے تسلسل میں مزید ۱۲ مضامین۔ مصنف کے بقول: یہ کتاب جماعت اسلامی کاسنگِ بنیاد ہے)

۶۰-         مشرقی پاکستان کے حالات و مسائل کا جائزہ اور اصلاح کی تدبیر: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۶ئ‘ ۳۵ ص ۔ (ڈھاکا میں ۲ مارچ ۱۹۵۶ء کی ایک تقریر)

۶۱-         معاشیات اسلام: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۲۹ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (اسلام کے معاشی اصول و احکام کی توضیح۔ مصنف کی مختلف کتابوں سے ماخوذ مباحث پر مبنی تحریروں کا مجموعہ۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد۔ دیباچہ از مصنف)

۶۲-         نشری تقریریں: اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۱۲۴ ص۔ (سیرتِ پاکؐ ، معراج‘ شب برات‘ روزہ ‘ عیدقربان‘ زندگی بعد موت اور پاکستان ایک مذہبی ریاست پر ریڈیو سے نشرشدہ تقریریں۔)

۳

۶۳-         خطوط مودودی‘ جلد اول: (مرتب: رفیع الدین ہاشمی۔ سلیم منصور خالد) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۲۶۴ ص۔ (مسعود عالم ندوی کے نام ۵۰خطوط کا مجموعہ مع مفصل تعارف‘ مکتوب الیہ اور متن پر حواشی و تعلیقات)

۶۴-         خطوط مودودی‘ جلد دوم: منشورات‘ لاہور‘ ۱۹۹۵ئ‘ ۵۵۸ ص۔ (مختلف اصحاب کے نام ۱۵۰ خطوط مع حواشی و تعلیقات۔ ۵۲ خطوں کے عکس بھی شامل ہیں)

۶۵-         مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اول :(مرتب: عاصم نعمانی) ایوان ادب‘ لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۲۵۶ ص۔ (۱۶۴ خطوط‘ جو مراسلہ نگاروں کے استفسارات کے جواب میں لکھے گئے)

۶۶-         مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ جلد دوم: (مرتب: عاصم نعمانی)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۳۹۲ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید ۲۶۶ مکاتیب کا مجموعہ)

۶۷-         مکتوبات: (مرتب: حکیم محمد شریف) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۶ئ‘ ۲۷۲ ص۔ (مرتب کے نام ۱۰۹ خطوط کا مجموعہ۔ ضمیمے میں بعض دیگر اصحاب کے نام ۶ خطوط۔ پیش لفظ از اسرار احمد سہاوری)

۶۸-         مکتوباتِ مودودی: (مرتب وناشر: اشرف بخاری) پشاور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۷۴ص۔ (صوبہ سرحد کے احباب اور نیازمندوں کے نام ۹۲ خطوط کا مجموعہ)

۶۹-         مکتوباتِ مودودی بنام مولانا محمد چراغ: (مرتب: عبدالغنی عثمان) الانصاری پبلشرز‘ فیصل آباد‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۸۰ ص۔ (مکتوب الیہ کے نام ۳۶ خطوط کا مجموعہ مع مختصر حواشی۔ مقدمہ از مفتی سیاح الدین کاکاخیل)

۷۰-         مولانا مودودی کے خطوط: (مرتب: سید امین الحسن رضوی) مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۱۰۲ص ۔ (مرتب کے نام سید مودودی کے ۱۹ خطوط۔ مرتب نے ابتدا میں‘ سید مرحوم کے ساتھ اپنے مراسم اور ملاقاتوں کی تفصیل بھی بیان کی ہے)

۷۱-         یادوں کے خطوط: (مرتب: محمد یونس) اسلامی مکتبہ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۲۸ص۔ (زیادہ تر حیدرآباد دکن کے احباب واصحاب کے نام ۴۹ خطوط ۔ مجموعے میں میاں طفیل محمد‘ابوالخیر مودودی اور چودھری نیاز علی خاں وغیرہ کے ۱۵ خطوط بھی شامل ہیں)

۷۲-         Correspondence between Maulana Maudoodi and Maryam Jameelah ]  مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی باہمی مراسلت[ ۔ محمد یوسف خاں‘ لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۸۳ ص۔(مریم جمیلہ کے گیارہ اور سیدموصوف کے بارہ خطوط کا مجموعہ)

۴

۷۳-         آفتابِ تازہ: (مرتب : خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۵۶ ص۔ (الجمعیت دہلی کے ۱۹۲۷ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)

۷۴-         ادبیاتِ مودودی: (مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۴۴۷ص۔ (حصہ اول میں سید مودودی کی انشاپردازی پر ضیااحمد بدایونی‘ ابواللیث صدیقی‘ ماہر القادری‘ احسن فاروقی‘ ابوالخیرکشفی اور سیدمحمد یوسف کے مضامین ہیں۔ حصہ دوم میں ۷۴کتابوں پر سید موصوف کے تبصرے اور مقدمے شامل ہیں۔ ۸۷ صفحات کا سیرحاصل مقدمہ از مرتب )

۷۵-         ادب اور ادیب ،سید مودودی کی نظرمیں: (مرتب: سفیراختر) دارالمعارف واہ کینٹ‘ ۱۹۹۸ئ‘ ۱۷۶ ص۔ (ادب ادیب کے حوالے سے سید موصوف کی متداول اور بعض نادر تحریروں کا مجموعہ)

۷۶-         اخلاقیاتِ اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ: (مرتب: محمد خالد فاروقی) الاخوان پبلی کیشنز کراچی‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۸۸ص ۔ (ماہ نامہ ہمایوں لاہور‘ فروری ۱۹۴۲ء میں مطبوعہ ایک مقالہ‘ جو مصنف نے بیس سال کی عمر میں تحریر کیا)

۷۷-         استفسارات: جلد اول (مرتب:اختر حجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۴۴۸ص۔ (بعض رسائل: آئین‘ ایشیا‘ تجلّی میں مطبوعہ مذہبی‘ فقہی‘ سیاسی اور قانونی سوالات کے جوابات۔اس مجموعے کی تدوین مناسب طریقے پر نہیں کی گئی)

۷۸-         استفسارات: جلد دوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۲ئ‘ ۴۰۰ص۔ (مختلف جرائد میں شائع شدہ بعض تقریریں‘ مصاحبے‘ سوالوں کے جواب)

۷۹-         استفسارات: جلد سوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۴۲۴ص۔ (جلد اول اور دوم کے تسلسل میں مزید لوازمہ)

۸۰-         اسلام کا سرچشمۂ قوت: (مرتب: شہیرنیازی)۔ ایوان ادب لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۱۱۲ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت  ۲۵-۱۹۲۴ء کا ایک سلسلۂ مضامین۔ اشاعتِ اسلام کے اسباب پر بحث)

۸۱-         افاداتِ مودودی: (مرتبین: میاں خورشیداحمدانور+ بدرالدّجٰی خان) ناشرکا نام درج نہیں۔ ۱۹۹۷ئ‘ ۳۷۵ ص ۔ (نماز کے متعلق احادیث  مشکوٰۃ شریف کی تشریحات‘ سید موصوف کے دروسِ حدیث سے ماخوذ)

۸۲-         اقبال نے کیا چاہا؟: ]مرتب: سلیم منصورخالد[ پنجاب یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین لاہور۔ ۱۹۷۷ئ‘ ۴۰ ص۔ (علامہ اقبال سے متعلق مصنف کی تحریریں اور تقاریر‘ شذرات وغیرہ)

۸۳-         بانگِ سحر: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۴۳ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت ۱۹۲۶ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)

۸۴-         ۵-اے ذیلدار پارک: حصہ اول (مرتب:مظفربیگ) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۲۹۵ص۔ (نمازِعصر کے بعد سید مودودی سے سوالات و جوابات کی نشستوں کی روداد)

۸۵-         ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ دوم (مرتب: رفیع الدین ہاشمی) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۲۸۰ ص ۔ (حصہ اول کے تسلسل میںمزید سوالات و جوابات کا مجموعہ۔)

۸۶-         ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ سوم (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۹۱ئ‘ ۲۱۵ ص۔(حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔)

۸۷-         تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ: (مرتبین: نعیم صدیقی+سعیداحمدملک) مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۲۰۸ ص۔ (قادیانی مخالف تحریک ۱۹۵۳ء پر عدلیہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ)۔] ادارہ معارف اسلامی لاہور کے شائع کردہ‘ دوسرے ایڈیشن (۱۹۹۴ئ) پر بطور مصنّف‘ سید صاحب کا نام موجود ہے۔ اس اشاعت کے دیباچے میں جناب نعیم صدیقی نے وضاحت کی ہے کہ یہ سید صاحب ہی کی تحریر ہے‘ طبع اول پر بوجوہ‘ مصنف کا نام نہیں آسکا تھا۔[

۸۸-         تصریحات: (مرتب: سلیم منصور خالد) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۳۱۸ ص۔ (طلبہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات کے مختلف اجتماعات میں سوالات کے جوابات اور انٹرویو)

۸۹-         تفہیمات‘ حصہ چہارم: (مرتب اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۵ئ‘ ۳۹۲ص۔ (سید موصوف کی متفرق تحریروں کا ایک ناقص مجموعہ۔ اس میں شامل مضمون ’’افادات شاہ ولی اللہ‘‘ سیدصاحب کا نہیں‘ صدرالدین اصلاحی کا ہے)

۹۰-         تفہیمات‘ حصہ پنجم: (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۴۸۰ ص۔ (مزید مختلف النوع تحریریں۔ واضح رہے کہ جلد چہارم اور پنجم کی استنادی حیثیت وہ نہیں‘ جو تفہیمات کے پہلے تین مجموعوں کی ہے۔ یہ دونوں جلدیں خاصی بے توجہی اور تساہل سے مرتب کی گئی ہیں اس لیے نہ صرف ان دونوں پر نظرثانی ہونی چاہیے بلکہ ان دونوں مجموعوں کا نام بھی تفہیمات نہیں‘کچھ اور ہونا چاہیے۔ تفہیمات‘ سیدموصوف کی اپنی مستقل تصانیف ہیں۔ کسی اورشخص کی مرتبہ کتاب کو وہی نام دینے سے التباس پیدا ہوتا ہے)

۹۱-         جلوۂ نور: (مرتب: خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۲۱۳ ص۔ (الجمعیت دہلی میں ۱۹۲۸ء میں شائع شدہ مضامین اور اداریے)

۹۲-         خطباتِ یورپ: (مرتب: اخترحجازی) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ س ن‘ ۲۵۴ ص۔ (مصنف کے اسفارِ برطانیہ و یورپ کی تقریریں اور سوالات و جوابات کی رودادیں)

۹۳-         صدائے رستاخیز: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۵۴۱ص۔ (الجمعیت دہلی کے بعض اداریے اور مضامین )

۹۴-         فضائل قرآن:(مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۷ئ‘ ۱۵۵ ص۔ (سید موصوف کے دروسِ حدیث کا تحریری روپ۔  مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز ’’فضائل قرآن‘‘ سے منتخب احادیث کی تشریح)

۹۵-         کتاب الصّوم: (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) مکتبہ آئین‘ لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۲۸۰ ص۔ (دروسِ حدیث۔  مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز’’کتاب الصوم‘‘ کی ۱۴۷‘ احادیث کا متن‘ اُردو ترجمہ اور مختصر تشریح)

۹۶-         مسئلہ کشمیر اور اس کا حل: (مرتب: سلیم منصورخالد) اسلامی جمعیت طلبہ لاہور‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۱۲۸ ص۔ (مسئلہ کشمیرپر سید موصوف کی تقاریر اور تحریروں کا مجموعہ)

۹۷-         مولانا مودودی کی تقاریر‘ اول: (مرتبہ: ثروت صولت) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (مختلف نوعیت کی ۲۶ تقاریر‘ زیادہ تر جماعت اسلامی کی رودادوں سے اخذ کردہ)

۹۸-         مولانا مودودی کی تقاریر‘ دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۴۶۳ ص۔ (مزید ۵۱ تقاریر۔ زیادہ ترتسنیم، قاصد اور ترجمان القرآن سے ماخوذ)

۹۹-         مولانا مودودی کے انٹرویو‘ اول: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (سیدموصوف سے مختلف اہل قلم اور صحافیوں کے مصاحبے)

۱۰۰-      مولانا مودودی کے انٹرویو‘ دوم: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۳۳۶ ص۔ (مزید ۳۲ مصاحبے۔ ابوطارق‘ پروفیسر رحیم بخش شاہین کا قلمی نام تھا)

۱۰۱-      وثائق مودودی: (مرتب: سلیم منصورخالد) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۱۰۰ص۔ (سید موصوف کی تعلیمی اسناد‘ ۸ اور دس سال کی عمر کے تحریروں اور بعض دیگر نوادرات کے عکس۔ جہازی سائز پر نفیس اور خوب صورت طباعت)

۱۰۲-      ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ دہلی‘ ۱۹۸۸ئ‘ ۷۹ص۔ (نگار لکھنؤ میں‘ اکتوبر‘ نومبر اور دسمبر ۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ایک طویل مقالہ۔ پہلی قسط جناب نیاز فتح پوری نے اپنے نام سے چھاپ لی تھی‘ مصنف کے احتجاج پر‘     باقی ۲قسطوں پر ان کا نام دیا گیا)

۵

۱۰۳-      المسئلۃ الشرقیہ: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۴ئ‘ ۳۸۳ ص۔ (مصطفی کمال پاشا کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ)


                سید مودودی ؒکے ذخیرۂ علمی کا ایک حصہ (بیسیوں تقاریر اور مضامین) ابھی تک اخبارات و رسائل کے اوراق میں گم ہے۔ علاوہ ازیں بعض تقریریں اور مضامین کتابوں کی صورت میں بھی ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:

                ۱- آزادی ] ۱۹۶۸ئ[‘ ۲- آیندہ انتخابات‘ ملک کی نجات کا واحد راستہ ] ۱۹۷۰ئ[  ۳-آیندہ انتخابات اور قوم کی ذمہ داری ] ۱۹۷۰ئ[ ۴- اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت ] ۱۹۶۹ئ[ ۵- ۱۹۶۷ء کی رِہائی کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی پہلی تقریر] ۱۹۶۷ئ[ ۶- بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ] ۱۹۸۲ئ[ ۷- پاکستان کے انتخابی نتائج اور ان میں جماعت اسلامی کی پوزیشن‘ ۱۹۷۱ء ۸- تحریک اسلامی: کامیابی کی شرائط ‘ ۱۹۶۴ء ۹- تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی ] ۱۹۶۷ئ[ ۱۰- تقریر ڈھاکا‘ ۱۹۶۳ء ۱۱- توحید اور شرک ]۱۹۷۷ئ[ ۱۲- توحید کی برکات ]۱۹۷۳ئ[ ۱۳-جماعت اسلامی اور پاکستان ] ۱۹۷۰ئ[ ۱۴- جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں دیا جائے؟] ۱۹۷۰ئ[  ۱۵- جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام] ۱۹۷۰ئ[  ۱۶-جماعت اسلامی کی دعوت‘۱۹۴۸ء ۱۷- خطاب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ]۱۹۷۳ئ[ ۱۸- دستوری تجاویز ]۱۹۵۲ئ[ ۱۹- عملی جہاد سے قلبی جہاد تک ] ۱۹۶۵ئ[ ۲۰- قومی وحدت کی مضبوط بنیادیں۱۹۸۴ء ۲۱- موجودہ انتخابی معرکے پر سیرحاصل تبصرہ ]۱۹۷۷ئ[ ۲۲- مولانا مودودی کا دورئہ مشرق وسطیٰ ]۱۹۵۷ئ[ ۲۳- مولانا مودودی کی دو اہم تقریریں اور مرکزی مجلس شوریٰ کی اہم قراردادیں ]۱۹۷۲ئ[ ۲۴- وقت کے اہم مسائل اور ان میں جماعت اسلامی کا موقف‘ ۱۹۷۰ء وغیرہ۔


آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ بعض کتابیں‘ سیّد مودودی کے متذکرہ بالا ذخیرئہ علمی کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہیں مثلاً:

  • تفہیم الاحادیث‘ ۸ حصے (مرتب:عبدالوکیل علوی)‘ لاہور 
  • تحریک اور کارکن (مرتب: خلیل احمد حامدی)‘ لاہور 
  • نصرانیت‘ قرآن کی روشنی میں (مرتبین: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) لاہور‘۱۹۸۵ء 
  • یہودیت‘ قرآن کی روشنی میں (مرتبین: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)‘ لاہور
  • اُمت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل (مرتب: خلیل احمدحامدی) لاہور‘۱۹۸۲ء وغیرہ۔

اس نوعیت کی متعدد کچھ اور کتابیں بھی مرتب اور شائع ہوئی ہیں (اور یہ سلسلہ جاری ہے) مگر یہ سب تصانیفِ مودودی کے منتخبات (selections)پر مشتمل ہیں اور ان کی حیثیت ’مکرّرات‘کی ہے۔ اس لیے انھیں باقاعدہ فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر ابن فرید

بھارت کے نام ور اہل قلم ڈاکٹر ابن فرید (محمود مصطفی صدیقی) ۸ مئی ۲۰۰۳ء کی صبح‘  علی گڑھ میڈیکل کالج میں اپنے رب سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی  رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن   ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘  حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔

ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔

وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا    ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔

وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔

حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک  شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔

علی گڑھ میں ان کا مجموعی قیام ۳۲ برس بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’علی گڑھ نے مجھے اقبال کے اس شعر کے معنی بہت واضح انداز میں سمجھائے ہیں     ؎ 

بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی

چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است

اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔

علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔

ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔

ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی    ؎

پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب

روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔

ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر  سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔

ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)

بھارت کے نام ور اہل قلم ڈاکٹر ابن فرید (محمود مصطفی صدیقی) ۸ مئی ۲۰۰۳ء کی صبح‘  علی گڑھ میڈیکل کالج میں اپنے رب سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی  رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن   ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘  حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔

ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔

وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا    ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔

وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔

حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک  شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔

علی گڑھ میں ان کا مجموعی قیام ۳۲ برس بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’علی گڑھ نے مجھے اقبال کے اس شعر کے معنی بہت واضح انداز میں سمجھائے ہیں     ؎ 

بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی

چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است

اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔

علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔

ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔

ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی    ؎

پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب

روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔

ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر  سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔

ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)

جملہ انبیاے کرام ؑ کی تمام تر جدوجہد کی غایت یہ تھی کہ بنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بھی یہی تھا کہ روے زمین پر اَن اَقِیْمُوا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) اور لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا (التوبۃ ۹:۳۳)‘ کا ایک مثالی اور عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ آں حضوؐر کے برپا کردہ فکری اور ذہنی انقلاب کے ذریعے جاہلی معاشرے کی کایاپلٹ گئی۔ اسلام بساطِ عالم پر ایک غیرمعمولی قوت بن کر اُبھرا اور مشرق و مغرب کے باطل پرستوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔

مگر خلفاے راشدین کے بعد کثرتِ اموال اور تمدنی ترقی سے جاہلیت کی روح پھر سے بیدار ہونے لگی۔ نظمِ مملکت غیراسلامی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوا۔ اس پر مصلحین اُمت کو اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوئی۔ خلفاے راشدین کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیز وہ پہلے شخص ہیں‘ جنھوں نے حقیقی معنوں میں احیاے اسلام کی سنجیدہ کوشش کی۔ آپ کے بعد امام احمد بن حنبل‘ امام غزالی‘ مجدد الف ثانی‘ اورنگ زیب عالم گیر‘ شاہ ولی اللہ‘ سیداحمد شہید‘ شاہ اسماعیل شہید اور متعدد دیگر اکابر کی مختلف النوع تجدیدی کاوشیں‘ تاریخ تجدید و احیاے دین کا ایک   روشن باب ہیں۔ بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے جن اکابر نے تگ و دو کی‘ اُن میں علامہ اقبال کا نام بہت نمایاں ہے۔

علامہ اقبال کے اسلامی اور دینی مزاج کی تشکیل میں اُن کے آباواجداد کے متصوفانہ رجحانات‘ والدین کی دین داری‘ گھر کا اخلاقی ماحول اور علامہ سیدمیرحسن کی تعلیم و تربیت اورفیضانِ نظر کے علاوہ دو باتوں کو بنیادی دخل ہے--- اوّل: قرآنِ حکیم سے اُن کا گہرا شغف۔ دوم: آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے والہانہ عقیدت۔ احیاے اسلام کے لیے اقبال نے جو مختلف النوع کوششیں کیں‘ وہ انھی بنیادوں پر تشکیل پانے والے اُن کے دینی مزاج کا حصہ تھیں۔

علامہ اقبال نے شعور کی آنکھ کھولی تو پورا عالمِ اسلام نہایت پیچیدہ مسائل کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ فکری اور سیاسی‘ دونوں اعتبار سے مغربی استعمار اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ غلامی کے نتیجے میں مسلم معاشرہ جمود‘ تعصب اور تنگ نظری کا شکار تھا۔زوال پذیری کے ردِّعمل میں جو آوازیں بلند ہوئیں‘ اُن میں سب سے توانا اور بلند آہنگ آواز علامہ اقبال کی تھی جنھوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی تلقین کی۔مقصود یہ تھا کہ غلامی سے نجات‘ احیاے اسلام کی تمہید بن سکے۔

تجدید و احیاے اسلام کی یہ تمنا بالکل ابتدائی زمانے ہی سے اُن کے ہاں موجود تھی اور یہ کبھی سرد نہیں ہوئی‘ بلکہ عمرکے ساتھ اس جذبے کی حرارت و شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ تجدید و احیاے دین کے لیے اقبال کی مختلف النوع کاوشیں‘ ان کی طویل زندگی میں مختلف شکلوں میں اور کئی سطحوں پر سامنے آتی رہیں۔ ان کی اُردو فارسی شاعری‘ ان کی تمام نثری تحریریں‘ ان کا پورا نظامِ فکروفلسفہ‘ اُن کے جملہ تصورات و نظریات (مثلاً: خودی‘ بے خودی‘ فقر‘ عشق‘ مردِ مومن‘ عقل وغیرہ) نہایت قریبی طور پر احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کے ساتھ مربوط ہیں۔

اسلام کی سربلندی کے لیے اُن کے بے تاب جذبوں اور مضطرب تمنائوں کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انھیں اسلام کی حقانیت کے ساتھ‘ اسلام کے روشن مستقبل پر بھی کامل یقین تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں‘ عالمِ اسلام ایک مایوس کن منظر پیش کر رہا تھا۔ ایسے میں اقبال کی طرف سے غلبۂ اسلام کی یہ نوید :

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار

نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

دیوانے کا ایک خواب معلوم ہوتی تھی یا محض ایک شاعرانہ تعلّی--- مگر اقبال کو ایک عالم گیر اسلامی انقلاب پر کامل یقین تھا‘ جس کا واشگاف اظہار انھوں نے نثر میں بھی کئی جگہ کیا ہے‘ مثلاً:

اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داروں کی گنجایش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیرمسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو‘ لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ (گفتارِ اقبال‘ ص ۱۷۸)

ایک اور موقع پر فرمایا:

اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں‘ اُن میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن  لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے دعوے پر میرا ایمان ہے کہ  انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب اور فائز ہوں گی۔ (ایضًا‘ ص ۱۹)

تجدید و احیاے دین کے لیے علامہ اقبال کے مجموعی کام کو تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- فرد کی تعمیر سیرت ۲- فکری اور علمی کاوشیں ۳- پاکستان کا تصور اور اس کے لیے عملی جدوجہد

  • فرد کی تعمیرسیرت

علامہ اقبال نے تاریخِ عالم کے مطالعے سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک فرد اپنے اخلاق و اطوار اور سیرت و کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا ‘ معاشرے میں کسی بڑے انقلاب کی توقع عبث ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘ (مقالاتِ اقبال‘ ص ۵۳)۔    اور: ’’کردار ہی وہ غیرمرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں‘‘ (شذراتِ فکراقبال‘ ص ۱۲۴)۔ مسلمان مجموعی اعتبار سے اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ انھیں اس پستی سے نکالنے کے لیے اقبال ان کی اخلاقی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اخلاقی تربیت کے لیے: ’’مذہب بے حد ضروری چیز ہے‘‘(گفتارِ اقبال‘ ص ۲۵۵)۔ اور مذہب کی مضبوط گرفت ہی ہمیں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچاسکتی ہے۔ اگر: ’’یہ گرفت ڈھیلی پڑی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا انجام وہی ہو جو یہودیوں کا ہوا‘‘ (شذراتِ فکراقبال‘ ص ۸۵)۔ اقبال کے نزدیک انسانی کردار کی تعمیر میں قرآن حکیم اساسی حیثیت رکھتا ہے    ؎

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

ایک بار چند نوجوانوں کو مخاطب ہو کرکہا: ’’یاد رکھو مسلمانوں کے لیے جاے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے--- میں اس گھرکو صدہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھرسے علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے ‘‘ (گفتارِ اقبال‘ ص ۲۱۳)۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی کہ: ’’قرآن مجید کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا کرو بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘ (ایضًا)۔ قرآنی تعلیمات کے حوالے سے اقبال نے افراد اُمت کو ارکانِ خمسہ کی پابندی (ملفوظاتِ اقبال‘ ص۳۹) اور فرائض کے ساتھ نوافل‘ شب بیداری‘ اور تہجد کے اہتمام کی تلقین کی (اقبال نامہ‘ ج۲‘ ص ۱۹۳)۔ یہ اہتمام مسلمان کے اندر اخلاقِ فاضلہ کا موجب بنتا ہے۔

علامہ اقبال‘ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق آں حضورؐ کے اُسوئہ حسنہ کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسوئہ حسنہ میں اعلاے کلمۃ الحق کو ایک نمایاں اور روشن باب کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک حقیقی مسلمان کلمۂ حق کا اعلان و اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ مگر سچائی کا اظہار خوداعتمادی کی بنا پر ہی ممکن ہے۔ فلسفۂ خودی کا پس منظر یہی ہے۔

اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشکیل میں عشق اور فقر کو اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہے۔   جذبۂ عشق میں ایک غیرمعمولی قوت پنہاں ہے اور فقر کی لازوال دولت بھی عشق سے کم اہم نہیں۔ جس قوم کو یہ دونوںقوتیں حاصل ہو جائیں‘ دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کا راستہ نہیں روک سکتی   ؎

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور‘ فقر ہو جس کا غیور

اقبال‘ احیاے اسلام کے لیے جس انقلاب کے داعی ہیں‘ اُسے برپا کرنے کے لیے خودی‘ فقر اور عشق سے متصف ہونا ضروری ہے۔ فرد کے اندر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو وہ ’’مردِ مومن‘‘ کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور اس جدوجہد میں مردِ مومن کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اُمت مسلمہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ضعف ِاسلام کا بہت بڑا سبب اُمت کے اندر فروعی مسائل پر شدید اختلافات‘ اوراس بنیاد پر باہمی دشمنیاں اور مجموعی طور پر انتشار و افتراق کی افسوس ناک صورتِ حال رہی ہے جس کا ایک اہم سبب علماے سوء اور نام نہاد صوفیا کا غلط رویہ تھا۔ علامہ اقبال‘ غیر اسلامی اور عجمی تصوف کو خاص طور پر خرابیِ احوال کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں عجمی تصوف نے’’مسلمانوں کے زوال میں ایک اہم عنصر کے طور پر کام کیا ہے‘‘ (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۷۸)۔علماے سوء اور نام نہاد مدعیانِ تصوف کے متعلق وہ بہت شدید جذبات رکھتے تھے۔

دوسرا طبقہ جس سے اقبال بطور خاص مخاطب ہوئے‘ نوجوانوں کا طبقہ تھا۔ اقبال کی نظر میںاحیاے اسلام کی تحریک میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نوجوان طبقے پر ہے۔ خود آںحضوؐر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں اوّلیت کا شرف بھی نوجوان طبقے کو حاصل ہوا۔ اقبال مسلم نوجوانوں کو تن آسانی اور عیش پسندی کے بجائے جفاکشی اور سخت کوشی کی تلقین کرتے ہیں     ؎

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس طرح احیاے اسلام کے سلسلے میں اوّلین سطح پر اقبال نے فرد کی انفرادی اصلاح اور اس کی تعمیرسیرت پر زور دیا اور پھر معاشرے کے دو اہم طبقوں‘یعنی علماے مذہب و صوفیہ اور نوجوانوں کو متوجہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر اسلامی نشات ثانیہ کی تحریک میں اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کریں۔

فکری اور علمی کاوشیں

مسلمان‘ انگریزوں کی سیاسی غلامی کے ساتھ‘ ذہنی اور فکری اعتبار سے بھی مغرب سے مغلوب ہو چکے تھے۔ اس مغلوبیت کی تین صورتیں تھیں: اوّل: نیشنلزم کا سراب ۔ دوم: دین و دنیا کی دوئی۔ سوم: مغربی تہذیب سے ایک مجموعی مرعوبیت۔ علامہ اقبال نے ان تینوں تصورات پر کاری ضرب لگائی۔

اپنے فکری سفر کے آغاز میں اقبال خود بھی قوم پرست تھے مگر یورپ کو قریب سے دیکھنے پر انھیں نیشنلزم کے کھوکھلے پن کا احساس ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیامِ یورپ نے ان کے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا تھا۔ اقبال کے الفاظ ہیں: ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘ (انوارِ اقبال‘ ص ۱۷۶)۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے ’’فرنگی نظریۂ وطنیت‘‘ کی اشاعت کا مقصد ’’اسلام کی وحدتِ دینی پارہ پارہ کرنا ہے‘‘ (حرفِ اقبال‘ ص۲۲۲)۔ اسی بنا پر عرب قوم پرستی کا فتنہ پروان چڑھا اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرگیا۔ علامہ نے مغربی تصورِ قومیت کو ایک ’’روحانی بیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عمربھرجہاد کیا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اشتراک کا سب سے قوی رابطہ اور ان کے درمیان سب سے زیادہ مضبوط رشتہ کلمۂ توحید کا ہے۔ اسی بنیاد پر انھوں نے تصورِ ملت کی بازیافت کی     ؎

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

اسی تصور ملّت نے آگے چل کر علامہ کے ہاں اتحادِ عالم اسلامی کی شکل اختیار کی (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے)۔

مسلمانوں کے فکری و ذہنی انحطاط کا دوسرا نمایاں پہلو اُن کا محدود تصورِ دین تھا۔ شہنشاہیت نے اہل مذہب کو مساجد تک محدود کر دیا اور سیاست کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ دین و سیاست میں بُعد پیدا ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک: ’’ازروے شریعت محمدیہؐ مذہب و سیاست میں کوئی تفریق نہیں‘‘ (مقالاتِ اقبال‘ ص ۹۲)۔ انھوں نے دین و سیاست کی علیحدگی پر سخت تنقید کی کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ خوں ریزی و چنگیزی اور عالم گیر تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔

درحقیقت احیاے اسلام کی تحریک میں کسی طرح کی پیش رفت اس کے بغیر ممکن ہی نہ تھی کہ دین و سیاست میں دوئی کی نفی کرکے‘ دین کا حقیقی اور (سیاست‘ تمدّن‘ معیشت‘ تعلیم‘ عمرانیات‘ قانون‘ غرض زندگی کے تمام شعبوں پر محیط) ایک جامع تر تصور نہ پیش کیا جاتا۔

تجدید و احیاے دین کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ مغرب سے ذہنی مرعوبیت تھی۔ علامہ اقبال مغرب اور مغربیت کا بذاتِ خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے نہایت واشگاف الفاظ میں اس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا    ؎

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات


فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ ’’یورپ سے بڑھ کر‘ آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں‘‘۔ (تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ‘ ص ۲۷۶)

یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ فکرمغرب کے جو ثمرات ‘سوشلزم اور نام نہاد جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میںدنیا کے سامنے رونما ہوئے تھے‘ اقبال نے ان سب کو باطل اور بہرطور ناقابلِ قبول ٹھہرایا تھا۔ مغربی جمہوریت کو‘ جس کی بنیاد مادر پدر آزادی ہے‘ انھوں نے رد کر دیا کیونکہ    ؎

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو

کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانی نمے آید

طرزِ جمہوری سے گریز کر‘ کسی مرد پختہ کار کا دامن پکڑ‘ کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔

خیال رہے کہ سوشلزم اور اشتراکیت کے بارے میں اُن کے خیالات میں ایک ارتقا ملتا ہے۔ پہلے پہل انھوں نے ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو سراہا کیونکہ وہ مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آیا تھا مگر بہت جلد اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ چنانچہ اقبال نے اس سے براء ت کا اعلان کرتے ہوئے تاریخ کی مادی تعبیر کو سراسر غلط قرار دیا (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۳۱۹)۔

علامہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ریڈیائی پیغام ‘مغربی فکر اور سیاست پر ایک جامع تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فی الحقیقت انھوں نے جس طرح مغربی تہذیب اور فکروفلسفے پر  تنقید کی‘ ہماری فکری تاریخ میں ان سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی اس جرأت مندانہ تنقید کے نتیجے میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغرب سے مرعوبیت ختم ہونے لگی اور احیاے اسلام کے لیے فضا اورسازگار ہو گئی۔

علامہ اقبال کو اس امر کا بھی شدید احساس تھا کہ ہمارے علماے مذہب‘ اجتہاد کی اہمیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ فکری سطح پر علامہ اقبال کی ایک مثبت عطا یہ بھی ہے کہ انھوں نے عصرحاضر میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کے انگریزی خطبات میں چھٹا خطبہ ’’الاجتہاد    فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار فرمایا:

آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سیکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہو‘ جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی‘ معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے۔ (حیاتِ انور‘ ص ۱۶۵)

اجتہاد پر یہ زور مسلم علما کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک ردِّعمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ردِّعمل کا ایک مثبت پہلو‘ اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصرِحاضر کی مقتضیات ومسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی ازسرنو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ ابتدا میں اقبال نے خود اس طرح کے کام کا آغاز کیا (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۳۲۰)۔ لیکن پھر یہ نازک ذمّہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔غالباً اسی خیال کے پیشِ نظر انھوں نے مختلف اوقات میں مولانا شبلی نعمانی‘ سیدانورشاہ کاشمیری اور سید سلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی مگر کامیابی نہ ہوئی‘ تاہم پٹھان کوٹ کا ادارہ دارالاسلام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عبدالمجید سالک کے خیال میں اس ادارے کی غایت یہ تھی کہ دینی و دنیاوی علوم کے ماہرین ایک گوشے میں بیٹھ کر‘ علامہ کے نصب العین کے مطابق‘ اسلام‘ تاریخِ اسلام‘ تمدنِ اسلام‘ ثقافت ِ اسلامی اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دنیا کے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں (ذکرِاقبال‘ ص ۲۱۲-۲۱۳)۔

علامہ اقبال ہی کے ایما اور مشورے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ۱۹۳۸ء کے اوائل میں حیدرآباد‘ دکن سے ہجرت کر کے جمال پور (پٹھان کوٹ) آگئے تھے۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ   وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کیا کریں گے مگر افسوس کہ وہ جلد ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ اس ادارے نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں جنھوں نے آگے چل کر تجدید و احیاے دین کے لیے ایک عملی تحریک کی صورت اختیار کی۔

  • اسلامی ریاست (پاکستان) کا تصور

ہندستان میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست (جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا) کا تصور اور اس کے حصول و قیام کے لیے عملی کوششیں‘ احیاے اسلام کے لیے اقبال کی مساعی میں آخری سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مغرب کے نظریۂ قوم پرستی کو ردّ کر کے اسلام کے تصورِ ملّت کو اُجاگر کیا۔ ہندستانی سیاست سے ان کی دل چسپی اسی حوالے سے تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی خواہش تھی کہ‘ اوّل: ہندستان آزاد ہو۔ دوم: یہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔

ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے کی حیثیت سے ‘اسلام ہمیشہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ و رائج کیا جائے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ان اقیموا الدین کا مفہوم بھی یہی ہے مگر سیاسی قوت کے بغیر اقامت ِ دین ممکن نہیں۔ اقبال کا یہ معروف شعر    ؎

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

اسی نکتے کی شعری تفسیر ہے۔ اقبال کے خیال میں باطل کی بیخ کنی بھی قوت ہی سے ممکن ہے   ؎

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِقدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم

یہاں اُن کا یہ قول لائق توجہ ہے: ’’مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم دیا گیا ہے    ]لیکن[ بغیرطاقت کے امرونہی کیسے ممکن ہے۔ اگر مسلمان امرونہی کے فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے بازوئوں میں طاقت ہونا ضروری ہے‘‘۔ (نقوش، اقبال نمبر‘ اوّل ‘۱۹۷۷ئ‘ ص ۴۰۷)

برطانوی سامراج کی غلامی میں فوری طور پر قوت و طاقت اور اقتدار کا حصول آسان نہ تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کی بیداری پر پوری توجہ مرکوز کی۔ آزادیِ ہند سے متعلق کوئی معاملہ ہو یا مسلمانوں کا کوئی ملّی مسئلہ‘ وہ برابر کوشاں رہے کہ مسلمان مستقبل کے منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ سیاسی سطح پر اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت پر زور دیا اور مخلوط انتخاب کی مخالفت کی۔ مسلمانوںکے ملّی تشخص کی خاطر جداگانہ اصولِ انتخاب پر اقبال کا اصرار ‘آگے چل کر ایک علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کی شکل میں سامنے آیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ انگریز کے رخصت ہونے کے بعد‘ اصولِ جمہوریت کے تحت ہندستان کا اقتدار ہندوئوں کو منتقل ہو جائے گا اور اکھنڈ بھارت میں مسلمانوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس لیے انھوں نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: خطبۂ الٰہ آباد)

جس موقع پر اقبال نے ایک ’’منظم اسلامی ریاست‘‘ کا تصور پیش کیا‘ مسلمان شدید انتشار اور مایوسی کا شکار تھے۔ محمد علی جناح ہندستانی سیاسیات سے بددل ہو کر لندن جا بسے تھے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بقول سید نوراحمد: ’’مسلم لیگ کا پلیٹ فارم طفلانہ حرکتوں کا میدان بن گیا تھا‘‘ (مارشل لا سے مارشل لا تک‘ ص ۱۴۱)۔ اس مایوس کن صورت میں اقبال کی پیش کردہ اسلامی ریاست کی تجویز‘ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہوئی۔

مسلمانوں کے مسائل سے ان کی دل چسپی اور ان کے مستقبل کے بارے میں ان کی فکرمندی سے ‘ قائداعظم کے نام ان کے خطوط سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خطوط‘ اسلامی نشات ثانیہ کے لیے اقبال کے ولولوں‘ اُمنگوں اور مضطرب جذبوں کا خوب صورت اظہار ہیں۔ اقبال تو ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے رب سے جا ملے مگر ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کے سات سال بعد‘ ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان‘ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے‘ کرئہ ارض پر نمودار ہوا۔ بلاشبہہ پاکستان کا قیام اسلامی نشات ثانیہ کی جدوجہد میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے مگر علامہ اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیر اُس وقت سامنے آئے گی جب پاکستان میں اسلامی قانون اور شریعت ِ محمدیہؐ کا مکمل اور نتیجہ خیز نفاذ ہوگا اور پاکستان‘ دنیا میں اسلام کے احیا اور مسلمانوں کی سربلندی کی علامت بن جائے گا۔

  • --- کام ابھی باقی ہے

احیاے اسلام کے لیے علامہ اقبال کی اس جدوجہد میں اسلام اور ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ا ن کے انتہائی خلوص‘ دردمندی اور دل سوزی کے جذبات بہت نمایاں ہیں۔ اُن کا یہ شعر اسی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔     ؎

اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں

کبھی سوز و سازِ رومی‘ کبھی پیچ و تابِ رازی

پھر اپنی ساری مساعی میں عشقِ رسولؐ، اقبال کے لیے سب سے بڑا source of inspiration رہا۔آں حضوؐر کی ذات اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ کارزارِ حیات میں اقبال کے لیے روحانی تائید کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک صاحب نے علامہ سے ذکر کیا کہ انھوں نے خواب میں حضورؐ رسالت مآب کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں دیکھا ہے ۔ اس پر علامہ نے انھیں لکھا: ’’میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے‘‘۔ (انوارِ اقبال‘ ص ۲۱۶)


تجدید و احیاے دین کے لیے اقبال کی اس ساری تگ و دو اور جدوجہد کا مقصد بھی سنت ِ رسولؐ کی پیروی ہے۔ اقبال کے نزدیک‘ ایک مسلمان کی جملہ مساعی کا محور یہی ہونا چاہیے     ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی‘ تمام بولہبی است

اُن کے خیال میں آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے تعلق خاطر‘ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی مومن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ احیاے اسلام اور تجدید و احیاے دین کے لیے کی جانے والی کوششوں اور کاوشوں کا منتہاے مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلوب عشق رسولؐ کی سچائی‘ روشنی اور حرارت سے منور ہوکر جگمگا اُٹھیں    ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں

تجدید و احیاے دین کے لیے علامہ اقبال کے ایمان افروز مشن کی داستان‘ اقبال کے نام لیوائوں  اور عقیدت مندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے نشات ثانیہ کے لیے عمربھر جو کاوشیں کیں‘ ابھی ان کی تکمیل ہونا باقی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُن کا فرض یاد دلا رہا ہے     ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے