اکتوبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

ڈاکٹرعبدالمغنی مرحوم

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اکتوبر۲۰۰۶ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

اُردو دنیا کی ایک محترم اور معتبر شخصیت ‘ اُردو کے معروف اور جید نقاد اور بھارت کے نام ور مسلم دانش ور پروفیسر عبدالمغنی ۵ستمبر ۲۰۰۶ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے‘ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی رحلت اُردو دنیا خصوصاً بھارت کی اُردو تحریک کے لیے ایک نقصانِ عظیم ہے۔ اسی طرح وہاں کی تحریک ِ ادب اسلامی کے لیے (جس کے مرحوم ایک نمایاں سرپرست تھے) یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کا تعلق صوبہ بہار کے ایک علمی خانوادے سے تھا۔ مغلوں نے ان کے ایک بزرگ کو الٰہ آباد سے ’قاضی‘ بناکر اورنگ آباد (بہار) بھیجا تھا۔ ان کے والد قاضی سید عبدالرؤف دیوبند اور ندوہ کے فارغ التحصیل اور اورنگ آباد کے قاضی تھے۔ معارف ، اعظم گڑھ کے ابتدائی زمانے میں ان کے متعدد مضامین مذکورہ رسالے میں شائع ہوئے۔ خاندانی روایت کے مطابق والدنے عبدالمغنی کو بھی ’قاضی‘ بناناچاہا مگر وہ والد کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے۔ سات آٹھ برس تک مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد‘ یکے بعددیگرے اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کے امتحانات بڑے امتیازات کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال بعد انگریزی ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو انھیں بہار کی ایل این متھلا یونی ورسٹی دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ فرقہ پرستوں کو ایک مسلم وائس چانسلر ہضم نہ ہوسکا تو ان کے خلاف سازش کرکے‘  انھیں گرفتار کرا دیا مگر جلد ہی وہ تمام الزامات سے بری الذمہ ہوکر‘ باعزت طریقے سے رہا ہوگئے۔ ۳۱اگست ۱۹۹۹ء کو مجھے ایک خط میں لکھا: ’’اسلام پسندی کا ملزم آزاد ہے اور پہلے سے زیادہ    معتبر و معروف‘ ہرفرقے اور حلقے میں‘ بلاامتیاز مذہب و ملّت‘‘۔

پروفیسر عبدالمغنی نہایت فعال‘ متحرک اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے نظریات میں بہت پختہ‘ واضح اور دوٹوک موقف رکھتے تھے اور تحریراً و تقریراً اس کے اظہار میں بے باک اور جری تھے۔ ہمیشہ بے جا مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالا رہے۔ نہ صرف بات چیت بلکہ معاملات میں بھی کھرے تھے‘ اس لیے اُن سے معاملہ کرنے والے اُن سے دبتے بھی تھے اور   ان کی عزت بھی کرتے تھے۔ راقم کو دو بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی ملاقات تو ۲۶اپریل ۱۹۸۶ء کو دہلی میں ہوئی۔ دوسرا موقع اس وقت ملا‘ جب وہ پنجاب یونی ورسٹی کی    اقبال کانگریس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں شرکت کے لیے چار روز کے لیے لاہور آئے۔ اس دوران میں‘ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہیں۔ کانفرنس کے علاوہ مختلف ادبی جلسوں اور گفتگوؤں‘ نیز اخبارات کے مصاحبوں (انٹرویو) میں بھی عبدالمغنی صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر‘ اپنے خیالات کا نہایت کھل کر اظہار کیا۔ بھارتی مسلمانوں کے مسائل‘ ہندوئوں کا معاندانہ رویہ‘ ہندستان میں اُردو زبان کا حال اور مستقبل‘ کشمیر کا مسئلہ‘ ادبی دھڑے بندیاں‘ پاکستانی معاشرے اور بعض نقادوں‘ افسانہ نگاروں اور شاعروں کے بارے میں انھوں نے بہت سے مسلّمات کے برعکس اپنی دوٹوک آراظاہر کیں اور قطعاً پروا نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے اور اس کا ردعمل کیا ہوگا۔

اُردو دنیا کو اُن کی عطا (کنٹری بیوشن) کے سلسلے میں چند پہلو بہت نمایاں محسوس ہوتے ہیں:

اوّل: وہ بھارت میں اُردو زبان کی بقا اور اُس کی ترویج اور فروغ کے بہت بڑے حامی تھے۔ حامی اور نعرے لگانے والے تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن عبدالمغنی صاحب نے کسی خوف‘ مصلحت اور مداہنت کے بغیر اُردو کے حق میں ایک بڑی تحریک چلا کر بہار میں ۱۹۸۰ء میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ وہ ابتدا سے تادمِ آخر انجمن ترقی اُردو بہار کے صدر رہے اور بالعموم‘ ہمیشہ بلامقابلہ ہی صدر منتخب ہوتے رہے۔

دوم: پروفیسر عبدالمغنی بھارت کی اسلامی ادبی تحریک کے ایک نمایاں سرپرست تھے۔ وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے مجلسِ عاملہ کے رُکن اور اُس کے ادبی ترجمان پیش رفت کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔

سوم: وہ اُردو ادب کے سربرآوردہ نقاد تھے۔ عربی‘ فارسی اور مشرقی و دینی علوم کے ساتھ انگریزی ادب کے مطالعے بلکہ دیگر یورپی زبانوں کے ادب سے واقفیت نے ان کی تنقید میں ایک وزن اور وقار پیدا کردیا تھا۔ رسمی و روایتی اندازِ نقد و انتقاد سے ہٹ کر‘ ان کے تنقیدی تجزیوں میں ایک حقیقت پسندانہ قدر سنجی اور واضح نقطۂ نظر ملتا ہے۔ ان کے اوّلین تنقیدی مجموعے کا نام    نقطۂ نظر (پٹنہ‘ ۱۹۶۵ئ) اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ادب کی سنجیدہ تنقید میں کسی نہ کسی نقطۂ نظر کو ضروری خیال کرتے تھے۔

چہارم: پروفیسر عبدالمغنی کی ایک حیثیت اپنے عہد کے ایک نام ور اقبال شناس کی بھی ہے جیساکہ اُوپر ذکر ہوا۔ انھوں نے نظم و نثر کی مختلف اصناف پر بہت کچھ لکھا مگر جس رغبت اور والہانہ انداز میں انھوں نے اقبال کے فکروفن کے مختلف گوشوں کو منور کیا‘ وہ ان کے ادبی و تنقیدی سرمایے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں اقبالیات پر ان کی سات کتابیں‘ اس موضوع سے ان کی غیرمعمولی لگن کا ثبوت ہیں۔ اقبال کے فکروفن پر ان کی تنقید بڑی متوازن اور معتدل ہے اور وہ اقبال کی شاعری میں ان کے فکر کے ساتھ‘ ان کے فن کو بھی برابر کی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال کو عالمی سطح پر سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ اپنے دورۂ پاکستان میں انھوں نے اس راے کا اظہار‘ مختلف مجالس اور اخبارات سے مکالموں اور مصاحبوں میں بھی بڑی شدّومد سے کیا۔

پروفیسر عبدالمغنی کی اُردو اور انگریزی تصانیف کی تعداد ۵۰ سے اُوپر ہے۔ ان کا آخری  علمی کارنامہ: The Quran: An Authentic Modern Idiomatic English Translation ہے___ شبلی نعمانی‘ ابوالکلام آزاد اور سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مصنفین تھے۔ وہ بھارت کی بہت سی علمی‘ تعلیمی اور ادبی انجمنوں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں متعدد انعامات واعزاز پیش کیے گئے۔ اس مختصر تعارف میں اس کی تفصیل دینا مشکل ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور روح کو آسودہ رکھے‘ آمین!