ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی


سیّد محمدحسنین(۲۳مارچ۱۹۱۷ء-۱۴جنوری۲۰۰۵ء)اکتوبر۱۹۴۱ء سے جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے اور تادمِ مرگ یہ وابستگی قائم رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہوتی گئی۔ اس دوران انھوں نے مختلف جماعتی ذمہ داریاں اداکیں۔مشرقی ہند کے قیم،شمالی بہارکے امیرحلقہ اور کُل ہندجماعت مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔مزیدبرآںدرس گاہِ اسلامی دربھنگاکے ناظم بھی رہے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے سبب کئی بارپابندسلاسل بھی ہوئے۔بقول اے یو آصف: ’’ان کی پوری زندگی جماعت کے کازکے لیے وقف تھی‘‘۔ (دعوت دہلی، ۷مارچ۲۰۰۵ء)

ان کا آبائی تعلق صوبہ بہار(کورونی،بھپوڑا،دربھنگا)سے تھا۔ابتدائی تعلیم سوری ہائی اسکول مدھوبنی سے حاصل کی۔ حصولِ علم کا شوق انھیں کشاںکشاں دہلی لے آیا۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھروالوں کو بتائے بغیر پڑھنے کے لیے آئے تھے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی توجہ سے محمدحسنین کو اگست۱۹۳۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ثانوی سوم میں داخلہ مل گیا۔مئی۱۹۴۰ء میں جامعہ سے بی اے کیا۔ زمانۂ طالب علمی میںوہ ہمیشہ ہرکلاس میںاوّل رہے۔مزیدبرآںجامعہ کالج کے طلبہ کی تنظیم انجمن اتحادکے ناظم اورانجمن اتحاد کے ترجمان قلمی رسالے کے اڈیٹربھی رہے۔ علامہ اقبال پررسالے کاخاص نمبرجوہراقبال کے نام سے شائع ہوا۔ جامعہ میںاُن کاقیام بورڈنگ ہاؤس (اقبال ہال)میں تھا۔ وہ اس ہاؤس کے سینئرمانیٹرتھے۔روایت ہے کہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکسی موقعے پرجامعہ ملیہ گئے توسیّد محمد حسنین کے کمرے میں بھی تشریف لے گئے۔

 ڈاکٹر ذاکرحسین سے طالب علمی کے زمانے میں حسنین صاحب کا جو تعلق قائم ہوا، اسے اوّل الذکر نے ٹوٹنے نہیں دیا، عمر بھر قائم رکھااورآفرین ہے مؤخرالذکر پرکہ انھوں نے (باوجود گورنر صوبہ بہار اور    صدر جمہوریہ ہند ہو جانے کے) حسنین صاحب کویاد رکھا، بھلایانہیں۔ ذاکرصاحب فوت ہوئے تو حسنین صاحب نے حسب ذیل مضمون میں ذاکرصاحب سے اپنے تعلق کی ابتدا اور ان تعلقات میںنشیب وفراز کی تفصیل قلم بند کی۔یہ مضمون پٹنہ کے خدا بخش لائبریری جرنل میں شائع ہوا تھا۔

اس مضمون سے جہاں خود حسنین صاحب کے مزاج اوران کی شخصیت کااندازہ ہوتا ہے،خصوصاً ان کی دعوتی سرگرمیوںاوردعوتِ دین کے طریق کار کا پتا چلتاہے،وہیں ڈاکٹرذاکرحسین کی دل نواز مگر مصلحت پسند شخصیت کی جھلکیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کی دعوت کو سمجھتے تھے اور کانگریسی ہونے کے باوجود جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے جیسا کہ زیرِ نظر مضمون سے اندازہ ہوتا ہے۔(مرتب)

 

وہ ایک مرد قلندرتھے ___ مروّت حسن عالم گیرتھا،استادذاکرکا ___

  • پہلی ملاقات: استاد ذاکرحسین رحمۃ اللہ سے میری تین یادگار ملاقاتوںمیں سے پہلی ملاقات؛ اگست۱۹۳۴ء میں ہوئی۔ جب میں داخلے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی پہنچا توداخلے کے آخری مرحلے پرمجھ کو استادرحمۃ اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ وہ میرے داخلے کے فارم پر دستخط کردیں۔ انھوں نے تعارف کے لیے میرے حالات دریافت کیے۔ میں ایک خط لکھ کر لے گیا تھا؛ جس میں مَیں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لینے کی غرض بتائی تھی اور یہ عرض کیاتھا کہ میں اپنی والدکی مرضی کے خلاف اپنے تعلیمی سلسلے کوچھوڑ کرجامعہ ملیہ اسلامیہ اس لیے آیاہوں کہ مجھ کو معلوم ہواہے کہ یہاں اسلامی اور دنیوی دونوں طرح کی تعلیم ساتھ ساتھ دی جاتی ہے۔ مدھونبی بہار کے جس اسکول میں،مَیں تعلیم حاصل کررہاتھا،اس میں اسلامی تعلیم کا کوئی موقع نہیں تھا اور میرے والد صاحب کا حوصلہ یہ تھاکہ وہ مجھ کو وکیل بنائیںاورمجھے وکیل بننے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتاہوں کہ جب میں اپنے والد کی مرضی کے خلاف اپنے تعلیمی سلسلے کو چھوڑ کرجامعہ میں تعلیم حاصل کرنے آیاہوں ،توان پراپنی تعلیم کے مصارف کا بارنہ ڈالوں اورآپ سے یہ درخواست کرنا چاہتاہوں کہ اگرمیراداخلہ جامعہ میں ہوجائے تو تعلیمی اوقات کے علاوہ کسی وقت جامعہ کی کوئی خدمت مجھ سے لیں اوراس کے عوض اتنا معاوضہ دیں جس میں کسی طرح یہاں کا خرچ نکال سکوں۔ _میرے خط کوپڑھ کروہ خاموش رہے اورفارم پر دستخط کرنے سے پہلے فرمایا: ’’میں آپ سے ایک عہدلیناچاہتاہوں‘‘۔میں نے عرض کیا:وہ کیا؟ فرمایا: ’’عہدکیجیے کہ میں ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’الحمدللہ، میں شعوری طورپر پہلے سے اس پرعامل ہوں‘‘۔ انھوںنے میرے فارم پردستخط کردیے۔

[اے یوآصف راوی ہیں کہ ڈاکٹرذاکرحسین نے ان کے شوقِ تعلیم اورجستجو کو دیکھ کر داخلے کی منظوری تو دے دی لیکن وطن واپس جا کروالد سے اجازت لے کرآنے کاکہا۔ ان کے حکم کے مطابق وہ واپس آگئے اورپھراجازت حاصل کی۔]

ہاں، یہ بتا دوں کہ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہواتوایک نہایت حسین ووجیہ پُروقار شخصیت سے سامناہواتھا۔اس وقت ان کی عمر۳۵-۴۰ کے قریب رہی ہوگی۔ سرخ،سفید چہرہ اور اس پر بھر پورسیاہ داڑھی،بقول حفیظ جالندھری: ع جلال بھی ہے جمال بھی ہے،یہ شخصیت کاکمال بھی ہے۔

انھوں نے ہنستے ہوئے گرمجوشی سے میرا استقبال کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ ایک نہایت سفیدفرش پربیٹھے تھے۔ فرش کے اوپرناریل کی چٹائی تھی۔ سامنے فرشی میز تھی جس پرہرچیزاپنی جگہ انتہائی سلیقے سے سجی ہوئی رکھی تھی۔ ان کی بائیں طرف دیوار پرشیشے کاایک فریم آویزاں تھا جس پریہ شعرخوش خطی کا بہترین نمونہ پیش کررہاتھا   ؎

آسایش دوگیتی تفسیر ایں دوحرف است

بادوستاں تلطّف ، بادشمناں مدارا

جب انھوں نے میرے فارم پر دستخط کردیے توان سے الوداعی مصافحہ کرکے کمرے سے باہر آیااوربہت خوش اورمسرورتھا۔

چند دنوں کے بعد جامعہ کے احاطے میں ان سے آمناسامناہوا۔انھوں نے مجھے روک کر فرمایا:’’تعلیم ختم ہوجانے کے بعددوگھنٹے صدرمدرس کے دفترمیں آپ کام کیاکریں گے۔ اس کے عوض آپ کو۸روپے ماہانہ ملا کریں گے جس سے آپ اپناجامعہ کا خرچ پورا کرنے کی کوشش کریں‘‘۔اس پرمیں نے ان کا شکریہ اداکیا۔

میں نے اپناداخلہ جامعہ میں غیرمقیم طالب علم(Day Scholar) کی حیثیت سے کرایا، کیوںکہ اس وقت جامعہ میں دارالاقامہ میں قیام وطعام کے مصارف۱۶ روپے ماہانہ تھے۔ اس وقت مَیں جامعہ ملیہ قرول باغ دہلی سے اُتر کی جانب سبزی منڈی کے ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں ایک مسجد میں رہتاتھاجس کی دوری جامعہ قرول باغ سے دو (۲) میل سے کم نہ تھی۔ ایک روزپھر جامعہ میں میرا اُن سے آمناسامنا ہوااوریہ پوچھاکہ ’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ سبزی منڈی،ریلوے اسٹیشن کی مسجدمیں۔یہ سن کرخاموش ہوگئے۔ چنددنوں کے بعدپھر اسی طرح سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے فرمایا:’’قرول باغ میںجامعہ سے متصل ہی ان کے عزیز، احمد خاں رہتے ہیں،جوطبیہ کالج میں پڑھتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھاہے،ان کے کمرے میں گنجایش ہے،آپ ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیااورچنددنوں میںسبزی منڈی سے قرول باغ منتقل ہوگیا۔ احمدخاںصاحب نے اپنے کمرے میںجگہ دی لیکن کرایہ قبول نہ کیا۔

ایک سال تک ان کے ساتھ رہا۔ نہایت مخلص اورشریف آدمی ثابت ہوئے۔۸ روپے جامعہ سے جو بطور معاوضہ کے ملتے تھے ،اس میں سوادوروپے میں نے جامعہ کی فیس تعلیم اداکی اورچارروپے میں جامعہ کے مطبخ سے دونمبرکھاناجاری کرالیاجس میں صرف دال اور چپاتیاں ملاکرتی تھیں۔ باقی پونے دوروپے ناشتہ اوراوپرکے خرچ کے لیے کافی ہوجایاکرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ایک روز جامعہ میں سرِ راہ ملاقات ہوئی تواستاد علیہ الرحمہ نے مجھے روک کر فرمایا: ’’ڈاکٹرسلیم الزماں صاحب کے چھوٹے بچے کو شام کوایک گھنٹہ ان کی کوٹھی پر جاکر پڑھا دیاکریں۔دس روپے ماہانہ معاوضے کے طورپروہ دیاکریں گے‘‘۔ اس طرح جامعہ میں بہ سہولت تعلیم حاصل کرنے کا موقع میرے لیے پیداکرادیااورجب تک جامعہ میںقیام رہا، ان کی نوازشوں اورکرم فرمائیوں کاسلسلہ جاری رہا۔

ان ساری نوازشوں کا تذکرہ اس وقت نامناسب ہے لیکن ایک واقعے کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک روز جامعہ لائبریری کے برآمدے میں اسٹینڈ پر جہاںروزنامہ اخبارلگے رہتے تھے، لوگ کھڑے ہو کر اخبارپڑھ رہے تھے،میں بھی اخبار دیکھ رہا تھا۔ بائیں طرف کے راستے سے استاد علیہ الرحمہ گزررہے تھے۔میں نے اپنی آنکھیں اٹھائیں توان سے آنکھیں چار ہوئیں اوربغیران کو سلام کیے میں دوبارہ اخبارپڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ استادعلیہ الرحمہ چلتے چلتے رُک گئے اور پھرجب میں نے نظراُٹھا کر ان کو دیکھا توانھوں نے جھک کرمجھ کو فرشی سلام کیااورآگے بڑھ گئے۔ میں نے جواب تو دیالیکن سلام نہ کرنے کی کوتاہی پربڑی ندامت محسوس کی___ یہ تھا ان کا ایک اندازِ تربیت!

  •  دوسری ملاقات کا تاثر:۱۹۴۰ء میں جامعہ ملیہ سے فارغ ہوکر میںدربھنگا آگیا۔ [اے یوآصف لکھتے ہیں:’’۱۹۴۰ء میں مرحوم سیدصاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم کی فراغت کے بعد،رخصت ہوتے وقت جب ذاکرحسین سے ملنے گئے تو انھوں نے ان سے برجستہ کہا: تمھارے لیے تو لائبریری میں ذمہ دار کا عہدہ میرے ذہن میں ہے۔ تم کہاںجارہے ہو؟ یہیں رہوتاکہ ہم سب مل کرجامعہ کی خدمت کریں۔ اس پر حسنین سید کہنے لگے: استاد محترم، آپ نے جو تعلیم وتربیت دی ہے،اس کاتقاضا ہے کہ میں پوری زندگی اسلام کے کاز میںلگادوں،لہٰذا معذرت خواہ ہوں اور دربھنگاواپس جا رہاہوں‘‘۔]

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی اورمیں اس سے وابستہ ہوگیا۔ جماعت اسلامی کا مرکزلاہورسے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ ۱۹۴۴ء میں آل انڈیاجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں رکن بنایاگیا۔ مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے پٹھان کوٹ آتے جاتے میں دہلی میں رک کر  احباب سے ملاقات اوراپنے اساتذۂ کرام کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھا۔ استاد علیہ الرحمہ جب علی گڑھ کے وائس چانسلرہوئے تب بھی دہلی آتے جاتے،ان کی خدمت میں حاضرہوتاتھا۔ جماعت کا لٹریچر ان کی خدمت میںپیش کرتااورجماعت کی سرگرمیوں سے ان کوواقف کراتاتھا۔  وہ ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تاآنکہ وہ۱۹۵۷ء میںبہارکے گورنرہوکے پٹنہ تشریف لائے۔ ان کاگورنری کاعہدہ قبول کرنامجھ کو پسند نہ آیا۔ میرے خیال میںیہ منصب ان کے مقام سے بہت فروترتھا۔ نہ میں اُن سے ملنے گیااورنہ ان کی خدمت میںخیرمقدم کاکوئی خط ارسال کیا۔ تقریباًچھے مہینے کے بعد انھوں نے پٹنہ کے کسی صاحب سے میرے متعلق تذکرہ کیاکہ’’یہاں بہار میں میرے ایک شاگردہیںحسنین۔وہ اب تک ملاقات کے لیے نہیں آئے،پتانہیں کیابات ہے۔کبھی کبھی وہ میراایمان تازہ کردیاکرتے تھے‘‘۔ ان صاحب نے پٹنہ میں محبی شبیراحمد (جو ان دنوں پٹنہ میں ایک سوڈافیکٹری کے منیجرتھے)سے میرے بارے میں استادعلیہ الرحمہ کی گفتگو دہرائی۔ ایمان تازہ کرنے کی بات یہ ہے کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھاتوجماعت کی کوئی نہ کوئی کتاب ان کی خدمت میں پیش کیاکرتاتھا۔ محبی بشیر احمدصاحب نے مجھ کو پٹنہ سے ایک کارڈ لکھاکہ تم اب تک اپنے استادسے کیوں نہیں مل سکے اور استاد علیہ الرحمہ کی گفتگونقل کی۔ اُن کا خط ملنے پر میں نے استادؒکی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا،بعد القاب وآداب میں نے عرض کیاتھا:

’’گورنر کی حیثیت سے آپ کو پٹنہ تشریف لائے ہوئے کافی دن ہو گئے،لیکن افسوس ہے کہ میں نہ تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکا اور نہ خیر مقدم کا کوئی خط ہی ارسال کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس الجھن میں ہوں کہ آپ کے لیے گورنری ،قلندری سے کیسے افضل ہو گئی؟اور آپ نے اسے کیسے پسند فرما لیا؟ اخبارات میں یہ پڑھ کر خوشی ہو ئی کہ آپ اس ریاست کو نمونے کی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جس کے کار پردازوں کا طرزِعمل ظلم و جور کا ہو،اس کو نمونے کی ریاست بنانے میں آپ کو بہت دشواری پیش آئے گی۔جماعتِ اسلامی ہند سے توآپ بہت حد تک واقف ہیں ۔جماعت اسلامی کے سلسلے میں حکومتِ بہار کا جو رویہ ہے ،اس کے متعلق دعوت، اخبار میں میرا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا تراشا ارسالِ خدمت ہے‘‘۔(ان دنوں حکومتِ بہار نے جماعت اسلامی پرsubversive activities [تخریبی سرگرمیوں]کا الزام لگایا تھا اور ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ لوگ جماعت کی سرگرمیوں سے دور رہیں ورنہ Conduct Rule دفعہ ۳۳ کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی)۔ دوسری بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ ’’اب مجھ جیسا معمولی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہونابھی چاہے تو کیسے حاضر ہو سکتا ہے؟اور جماعت کا کچھ تازہ لٹریچر بھی خط کے ساتھ رجسٹرڈ ڈاک سے استاد علیہ الر حمہ کی خدمت میں ارسال کر دیا لیکن پندرہ دنوں تک ان کی طرف سے نہ کوئی جوب آیا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اس پر میں نے ڈاک سے دوسرا عریضہ ان کی خدمت میں ارسال کیااور اس میں عرض کیا کہ دو ہفتوں سے زائد ہوگئے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ اور اور چند کتابیں ارسال کی تھیں۔ تعجب ہے کہ اس کے جواب میں نہ تو آپ کا کوئی گرامی نا مہ ملا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں  آپ تک نہیں پہنچ سکیں ورنہ آپ سے ایسی توقع نہیں ہے کہ آپ میرے عریضے کا جواب نہ دیں گے۔میرے اس عریضے کے جواب میں رانچی سے ان کا گرامی نامہ ملا۔اس خط کا مضمون یہ ہے:

راج بھون -رانچی کیمپ ، ۱۰ستمبر ۱۹۵۷ء

عزیزم حسنین صاحب،السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

آپ کے دونوں محبت نامے ملے۔آپ کا بھیجا ہوا لٹریچر بھی ملا ۔معافی چاہتا ہوں کہ پہلے خط کے جواب میں اتنی دیر ہوئی کہ آپ کو یاد دہانی کرنی پڑی۔شاید آپ کو غلط فہمی ہو، اس لیے وجہ لکھے دیتا ہوں ۔میں ذاتی خطوط کے جواب لکھنے میں بہت کاہل ہوں۔ پھر اگر کوئی دوست یا عزیز اپنے خط میں کوئی ایسا سوال کر دیتا ہے،جو میری شخصی داخلی زندگی سے متعلق ہو تو مجھے اس کا جواب لکھنا اور دشوار ہو جاتا ہے۔آپ نے اپنے پہلے خط میں الجھن یہ بتائی کہ قلندری سے گورنری کیسے اور کب سے افضل ہو گئی اور میں نے گورنری کو قلندری پر کیسے ترجیح دی؟

پہلے تو عزیز ِمن !میں قلندر کب تھا ؟لیکن سوال کو اپنی ذات سے الگ کر کے ایک اصولی سوال سمجھوں تو اس کا بہت اچھا جواب حضرت مخدوم سیدّعلی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش ؒنے اپنی کتاب کشف المحجوبمیں ایک جگہ دیا ہے___ اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا :

                [وہ فرماتے ہیں ]:استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے سنا،فرمایا:فقیری اور مال داری کے سلسلے میں لوگوں نے بات کہی ہے اور ا س کو اختیار کیاہے، میں اس کو اختیار کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور مجھ کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اگر مال داری کی حالت میں رہوں تو اللہ سے غافل نہ ہونے پاؤں اور اگر غربت کی حالت میں رہوں تو حریص اور لالچی نہ بنوں۔ لہٰذا مال داری نعمت ہے اوراس حال میں اللہ سے غفلت آفت ہے۔ غریبی اور فقیری بھی نعمت ہے اوراس حال میں حرص آفت ہے۔

دوسری الجھن کا جواب سہل ہے۔ میں ابھی کوئی تین چارہفتہ یہاں ہوں۔ وسط اکتوبرسے ان شاء اللہ پٹنہ میںرہوں گا۔ آپ ایک کارڈ میرے سیکرٹری کو لکھ دیں ،وہ مجھ سے پوچھ کرآپ کے لیے وقت مقرر کردیں گے۔ ضرور تشریف لائیے۔ مفصل گفتگو کو بہت جی چاہتاہے۔خداکرے کہ آپ خیریت سے ہوں اورخوش بھی۔خیرطلب:ذاکرحسین

میں نے استادؒ کی ہدایت کے مطابق ان کے سیکرٹری کوخط لکھااوران سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے وقت مقررکرکے مجھ کو مطلع کیا۔ مقررہ وقت پر میں راج بھون پہنچا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے میرااستقبال کیااوران کے کمرے تک میری رہ نمائی کی۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوگیاتوانھوںنے دروازہ بند کردیا۔ استادؒ کو میں نے سلام کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے کھڑے ہوکرمعانقے کے لیے کھینچ لیااور اسی حال میں ہنستے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگ حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں‘‘۔ پھر اپنے قریب کی کرسی پربیٹھنے کی ہدایت کی۔

میں نے جواب میں عرض کیا:’’جب ہم مجبور ہوتے ہیںتبھی حکومت پرتنقید کرتے ہیں‘‘۔

اس کے بعد دوسراسوال انھوں نے یہ کیا:’’کیا ابھی مولاناابواللیث صاحب امیرجماعت اسلامی ہندنے کہیں یہ کہا ہے کہ’’جماعت اسلامی پاکستان نہیں چاہتی تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کہاہوگا۔ جماعت اسلامی تو پوری دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،لیکن کچھ لوگوں نے ہندستان کے دوٹکڑوں پرہی قناعت کرلی ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایاکہ’’حسنین صاحب! آپ لوگ حکومت الٰہیہ قائم کرناچاہتے ہیں لیکن  عام طورسے ہندستان کے مسلمان حکومتِ الٰہیہ نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے کہا: یہ کم حوصلگی اور پست ہمتی ہے ورنہ مسلمان کی حیثیت سے:’’ہر ملک، ملکِ ماست کہ ملکِ خداماست‘‘۔ ہرملک میں حکومت الٰہیہ یا اللہ کا دین قائم ہوناچاہیے‘‘۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا:’’آپ کی حکومت نے جماعت اسلامی کو subversive [تخریبی]کیسے قراردے دیا، ہم لوگ توپُرامن طریقے پرلوگوں کو اللہ کے راستے پربلاتے ہیں ،کوئی توڑ پھوڑ، قتل وغارت گری کا طریقہ نہیں اپناتے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا:’’subversive ہونے کے لیے اتنا کافی ہوسکتاہے کہ حکومت کے دستور کوتسلیم نہ کیا جائے اور غیر پارلیمانی طریقے سے حکومت کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھیے! کمیونسٹوں نے ملک کے دستور کو مان کرکیرالا میں الیکشن میں حصہ لیااورالیکشن میں کامیاب ہونے پر وہاں حکومت بنائی۔ آپ لوگ بھی دستورکو مان کرپارلیمانی طریقے سے حکومت کو بدل سکتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ اگرsubversive سے یہ مطلب ہے توہم اقراری مجرم ہیں۔    یہ فرمائیے کہ کیا ہم آپ کی ریاست میں اللہ کا نام لے سکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایاکہ اس سے آپ کو کون روک سکتاہے۔ میں نے عرض کیاکہ جب ہم لاالٰہ الا اللہ کی تشریح کریں گے تو پھر subversive آجائے گا۔اس پر آپ نے فرمایاکہ ایک چیز پھل ہے اور ایک چیزدرخت ہے۔ پھل سے اگر لوگوں کواختلاف ہے، قبل از وقت پھل کا تذکرہ مت کیجیے۔ درخت لگانے کی کوشش کیجیے۔ جب لوگ آپ کے میٹھے پھل کو چکھیں گے تومخالفت ترک کردیں گے۔ میں نے بہ ادب عرض کیا:درخت لگانے کا عمل چپکے سے اور اکیلے تو نہیں ہوگا،اس کی خوبیوںکو بتا کرکچھ لوگوں کو تواپنے ساتھ لینا ہی ہوگااوران کے تعاون ہی سے یہ کام انجام پاسکتاہے۔ میں نے جماعت اسلامی کی دعوت اورطریقۂ کار کا مختصراً تعارف کرایا۔ آپ نے توجہ اورصبرسے میری باتوں کو سنا اور فرمایا: ’’ٹھیک ہے جس بات کوآدمی حق سمجھے،اس کے لیے جدوجہدکرے‘‘۔ا س کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کی حکومت میری ہمہ وقت نگرانی کیوں کرتی ہے؟ سی آئی ڈی کے دوآدمی سایے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں؟‘‘ جواب میں انھوں نے فرمایا:’’یہ آپ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوگا، تمام سیاسی ورکروں کی نگرانی کی جاتی ہے،آپ کی بھی کی جاتی ہوگی۔ اس میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیںہے۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں،آپ اپنا کام کیجیے۔راہِ حق میں دشواریاں توپیش آتی ہی ہیں‘‘۔

جب میں استادؒ سے ملاقات کے لیے پٹنہ پہنچاتوبرادرم سیدوسیم اللہ صاحب کے یہاں قیام کیا تھا،جو ان دنوںسیکرٹیریٹ میںملازم تھے اور کسی اونچے منصب پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق’ہمدردی‘کاتھالیکن اس تعلق کی بنا پران کے خلاف کارروائی چل رہی تھی۔ استاد محترم سے پہلے جو گورنرصاحب تھے،انھوں نے کوئی آرڈیننس جاری کیاتھاکہ جو سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمیوں میںملوث پایاجائے گا،اس کا compulsory retirement [جبری سبک دوشی] ہوسکتی ہے۔ اسی آرڈی ننس کے تحت وسیم اللہ صاحب کے خلاف کارروائی ہورہی تھی۔ حالاںکہ  اس آرڈی ننس کی مدت ختم ہوچکی تھی اورگورنرصاحب بھی تشریف لے جا چکے تھے۔میں نے وسیم اللہ صاحب سے اس آرڈی ننس کا نام اورنمبروغیرہ لے کر اسے استادؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوںنے چشمہ بدل کربغوراس کو پڑھا اور پوچھاکہ’’اس طرح کے کتنے آدمیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے‘‘؟ میں نے عرض کیا: ’’بہار میں تقریباً ۲۰اشخاص کو جوجماعت اسلامی کے رکن تھے اور سرکاری ملازم بھی تھے،پرائمری سکول کے ٹیچرسے لے کرگزیٹیڈآفیسر تک کوجماعت اسلامی کی رکنیت کے جرم میں برطرف کیا جاچکاہے۔ ان لوگوں نے ملازمت سے برطرفی کو گوارا کیا اور جماعت سے تعلق کوبرقرار رکھا۔ لیکن وسیم اللہ صاحب جماعت کے رکن نہیں ہیں۔ ان پر جماعت کی رکنیت کاغلط الزام لگا کران کو پریشان کیاجارہاہے‘‘۔استادؒ نے اس پرزے کورکھ لیا۔

ہماری یہ ملاقات بہت زیادہ طویل ہوگئی تھی اوران کے پاس یاددہانی کی گھنٹی بار بار بجتی رہی۔ جب ہماری گفتگوختم ہوئی تووہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایاکہ مقررہ وقت سے زیادہ ہی وقت صرف ہوچکاہے اورلوگ انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔باقی ان شاء اللہ آیندہ۔اس طرح ان سے مصافحہ کرکے رخصت ہوااوروہ دروازے تک پہنچاگئے۔

کچھ دنوں کے بعد جب وسیم اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوںنے بتایاکہ ان کے خلاف کارروائی ختم ہوچکی ہے اوران کی ترقی کے ساتھ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیاگیاہے اورمیرے ساتھ جوسی آئی ڈی کی نگرانی تھی،وہ بھی ختم ہوگئی۔ دربھنگا میں سی آئی ڈی کے ایک افسرنے آکراطلاع دی کہ ہمارے پاس آرڈرآگیاہے کہ اب آپ کی نگرانی نہ کی جائے۔

  • تیسری اور آخری ملاقات:جماعت اسلامی ہندنے مجھ کو۱۹۶۲ء میںجماعت کی دعوت کے تعارف کے سلسلے میںآسام کاامیرحلقہ بناکرگوہاٹی بھیجا۔ ۱۹۶۲ء سے۱۹۷۰ء تک میں گوہاٹی آسام میں رہا۔ ابتدامیں۱۹۶۷ء میں جماعت اسلامی ہندکے اجتماع میں شرکت کے لیے مجھ کو دلی جاناتھا۔ میں نے استاد محترم کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیاکہ میں دلی حاضر ہورہا ہوں اور ان تاریخوں میںمرکزجماعت اسلامی میں مقیم رہوں گا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں، اگر موقع ہوتووقت مقررفرماکرمرکزجماعت اسلامی کے پتےپرمجھے مطلع فرمائیں۔ ا س کے جواب میں استادؒ کاجلد ہی ایک گرامی نامہ ملاجس میں درج تھاکہ’’جن تاریخوں میں آپ دلی رہیں گے، ان تاریخوں میںافسوس ہے کہ میں دلی میں نہ رہ سکوں گا۔پہلے سے جنوب کا پروگرام بن چکاہے۔ ان شاء اللہ جلدملاقات ہوگی۔

اس کے کچھ ہی دنوںکے بعدگوہاٹی میں استاد کے پرائیویٹ سیکرٹری اورملٹری سیکرٹری کے خطوط ملے۔ جس میں درج تھاکہ استادؒ۲۵؍اپریل کو گوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ اس شام کوساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس میں مجھ سے مل کروہ خوش ہوں گے۔ اس کے بعد دوسرے دن سی آئی ڈی کے ایک افسر میرے پاس آئے اور بتایاکہ پریسیڈنٹ ۲۵؍اپریل کوگوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ ان کے پروگرام میں آپ سے ملاقات بھی شامل ہے۔ مہربانی کرکے سی آئی ڈی آفس آیئے،آپ کو ایک پاس دیاجائے گا۔اس کولے کر ہی آپ ان سے مل سکتے ہیں۔چنانچہ میںسی آئی ڈی دفترپہنچ گیا۔سی آئی ڈی افسرنے مجھ سے پوچھاکہ صدرجمہوریہ ہند کس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں اوران کاآپ سے کیاتعلق ہے؟ میں نے ان کو بتایاکہ وہ میرے استاد رہ چکے ہیں۔میں نے جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۰ء تک میں وہاں رہا۔ وہ ہمارے استاد بھی رہے اوروائس چانسلر بھی رہے۔ اسی تعلق سے اُن سے ملناہے۔چنانچہ مجھ کو ایک پاس دیاگیا،اس کولے کرمیں ان سے ملا۔ میری ملاقات سے پہلے گوہاٹی کے ایک بڑے میدان میںان کی تقریرتھی۔ پہلے میں جلسے میں شریک ہوا اوراُن کی تقریر سنی۔اس کے بعد مقررہ وقت سے چندمنٹ پہلے سرکٹ ہاؤس پہنچ گیا۔

مجھے ویٹنگ روم میں بٹھایاگیا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اوربتایاکہ سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہے اور آپ کی ملاقات کے لیے۵منٹ کاوقت دیا گیا ہے۔جب آپ کی طلبی ہوگی تومیںآپ کو کمرئہ ملاقات میں پہنچا دوں گااورکمرہ بند ہوجائے گا۔جب آپ کا وقت ختم ہوجائے تو میںدروازہ کھول کرکھڑاہوجاؤں گاتو مہربانی کرکے آپ اٹھ جائیے گا،ورنہ جب تک آپ بیٹھے رہیں گے،وہ بھی آپ سے باتیںکرتے رہیں گے اورآپ کے بعدآنے والوں کو موقع نہیں مل سکے گا۔ اس لیے کہ اس کے بعد نماز کا وقت ہوجائے گااوروہ نماز پڑھیں گے۔میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ،مجھے کوئی عرض داشت نہیں پیش کرنی ہے اور نہ کوئی لمبی چوڑی گفتگو ہی کرنی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی خیروعافیت دریافت کریں گے اوروقت ختم ہونے پر اُٹھ آئیں گے۔ ہماری یہ گفتگوملٹری سیکرٹری سے ہورہی تھی کہ استادؒ بی کے نہروکے ساتھ،جو اس وقت آسام کے گورنر تھے،سامنے آئے اور اُن سے جداہوکرملاقات کے کمرے میں گئے اور گھنٹی بجائی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی مجھے طلب کرلیا۔ میں اندر داخل ہوااورسلام عرض کیا۔وہ اٹھے،بڑھ کر گلے لگایا۔ خیریت دریافت کی اورپوچھاکہ’’ آپ آسام کیسے آگئے؟‘‘میں نے عرض کیاکہ’’آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگوں نے جماعت اسلامی ہند بنائی ہے اور کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں جماعتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردی ہیں۔میںبھی اُن میں سے ایک ہوں۔۲۲سالوں تک بہار، اڑیسہ، بنگال میں جماعت اسلامی ہند کی دعوت پیش کرتا رہا۔اللہ کے فضل وکرم سے وہاں کچھ کارکن تیار ہوگئے تو اب جماعت نے مجھ کو آسام بھیجا ہے تاکہ یہاں بھی جماعت اسلامی کی دعوت پیش کروں۔ساتھ ہی ساتھ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچر تیار کرانے کا کام میرے سپرد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچرکی بڑی کمی ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایا کہ ’’آپ نے بڑے استقلال سے کام کیا‘‘۔میں نے عرض کیاکہ محض اللہ کی توفیق اور آپ لوگوں کی تعلیم وتربیت ہے کہ اس کام کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ نے فرمایاکہ ’’آسامی زبان میںاسلامی لٹریچر کے تیار کرنے کرانے کاکام بھی بہت اہم ہے‘‘۔ انھوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالااورایک سوروپے کا نوٹ نکال کرآسامی زبان میں اسلامی لٹریچر کے لیے دیا۔میں نے قبول کرنے میں تامّل کیاکہ آپ سفر کی حالت میں ہیں،فوری طور پر دیناکیا ضروری ہے۔انھوں نے میری جیب میںنوٹ ڈال دیا۔اس کے بعد فرمایاکہ:’’پچھلے دنوںآپ نے محسن انسانیت بھیجی تھی،سیرت پریہ کتاب مجھ کوبہت پسندآئی۔ سیرت پرمیں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں،حتیٰ کہ مولانا شبلی کی سیرت النبی ؐ   بھی دیکھی ہے مگرمحسن انسانیت    مجھ کو بہت پسند آئی۔

اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔میں نے سوچاکہ اس مختصر ملاقات میں زیادہ ترانھی کے ارشادات سنوں گا اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں پوچھوں گالیکن وہ خاموش ہوگئے تو میں نے عرض کی کہ آج جمعہ کا دن ہے،اگرگوہاٹی کی کسی مسجد میںجمعہ کی نماز بھی آپ کے پروگرام میںشامل ہوتی تو اچھاہوتا۔ یہاں کے مسلمانوں کو توقع تھی کہ مسلمان صدرجمہوریہ ہند یہاں کی کسی مسجد میں نماز اداکریں گے توقریب سے انھیں دیکھنے کاموقع ملے گا۔اس سلسلے میں گوہاٹی کے مسلمانوں کو مایوسی ہوگی۔

انھوں نے فرمایاکہ’’میرے دونوں گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے اور فرش پرنمازاداکرنے میں تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے۔میں چوکی پربیٹھ کرپاؤں لٹکا کے نمازپڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی عید، بقرعیدکے موقعے پردہلی کی عیدگاہ میں چلا جاتاہوںتو بڑی تکلیف کے ساتھ نماز اداکرپاتاہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا:یہ عذرمعقول ہے لیکن لوگوںکو اس کی خبرنہ ہوگی۔

اس کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کے جوبھی ہوم منسٹر ہوتے ہیں،جماعت اسلامی کے خلاف غلط الزامات لگایاکرتے ہیں اور ہم لوگ ان کی صفائی میں جو کچھ کہتے ہیں،ان کا وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ایک طرح کے الزامات بارباردہراتے رہتے ہیں‘‘۔

انھوں نے فرمایاکہ’’وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ آپ اپناکام کیجیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کواورسب جماعتوں کوخوش رکھنے کے لیے اورتوازن برقرار رکھنے کے لیے سیاسی لوگ ایسی بات کہتے ہیں اورایسی حرکتیں کرتے ہیں جو حقیقت اورصداقت کے خلاف ہوتی ہیں۔ پتا نہیںکہ خودچوہان جی کی(جو اس وقت ہوم منسٹرتھے) جماعت کے بارے میں اپنی رائے کیاہے۔ لیکن عام طورسے ایساہوتاہے کہ الیکشن میں کامیابی کی خاطر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے الیکشن کا موجودہ طریقہ غلط ہے‘‘۔

اس موقعے پر میں نے عرض کیاکہ’’تب تو الیکشن میںجماعت اسلامی کا حصہ نہ لینا    حق بجانب ہے‘‘۔ اس کاانھوں نے خاموش مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ بھارت میں فسادات کا سلسلہ آخرکب ختم ہوگا؟ میرے اس سوال پروہ افسردہ ہوگئے اور کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا:’’ہم لوگ مسلمان ہیں اور فسادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا فسادات کوزیادہ محسوس کرتے ہیں،ورنہ حکومت کی کون سی کل سیدھی ہے؟ دیکھیے تلنگانہ میں کیا ہورہا ہے؟(اس وقت آندھراپردیش میں تلنگانہ کی پُرتشدد تحریک زوروں پرتھی)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری لیڈرشپ بہت کمزورہے‘‘۔

یہ سن کرمیں حیرت میں مبتلا ہوگیاکہ اپنی ہی حکومت کے سلسلے میں صدرجمہوریہ کیا فرما رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ صدرکے ملٹری سیکرٹری دروازہ کھول کرنمودارہوئے اور میں ان کی ہدایت کے مطابق اُٹھ کھڑاہوا۔ استاد محترم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں الوداعی سلام کرکے ہاتھ ملاکردروازے کی طرف بڑھا۔ وہ بھی میرے کاندھوں پرشفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے دروازے تک یہ کہتے ہوئے آئے:’’اللہ آپ لوگوں کوکامیاب کرے،آپ لوگوں کی میرے دل میں بڑی قدرہے‘‘۔ اس آخری ملاقات کے بعد جب میں باہر نکلاتومیں بہت خوش اور مسرورتھاکہ انھوں نے میری سرگرمیوں کی تائید فرمائی اور دعادی۔ ان کی حوصلہ افزائی اوردعائیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں اوراب تک گونج رہی ہیں،مگرافسوس کہ میری خوشی اورمسرت کے لمحات بہت عارضی ثابت ہوئے۔

ایک ہفتہ بعد۳ مئی ۱۹۶۹ء کو میرے ایک دوست نے آکرخبر دی کہ صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکرحسین انتقال کرگئے ہیں،اِنَّـالِلّٰہِ وَاِنَّـااِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ یہ خبر سن کرمیں اس درجہ متاثر ہواکہ بستر پر جاکرلیٹ گیااوردیرتک روتارہا۔ جب کچھ سکون ملاتووہاں سے اپنے ایک عزیزکے یہاں چلا گیاجن کے پاس ریڈیو سیٹ تھا۔ بستر پرلیٹے لیٹے،اس وقت تک ریڈیو سنتارہاجب تک ان کی تجہیزوتکفین نہ ہوگئی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوراپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے___ آمین۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی ان دوحرفوں کی تفسیرتھی:’’بادوستاں تلطّف، بادشمناں مدارا‘‘ یااقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھے:’’مروت حسنِ عالم گیرہے مردانِ غازی کا‘‘___ یااللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق تھے:’’تم میں سے اچھا انسان   وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھاہو۔ اور اللہ نے مجھ کو اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا‘‘۔ اورارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’تم میں سب سے محترم ومکرم بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرکرزندگی گزارنے والا پرہیز گارہو‘‘۔

 

نوٹ: ڈاکٹر ذاکر حسین برعظیم کی سیاست ، دانش وَری اور تعلیم کے شعبوں میں ایک بڑا نام ہے۔ صدر جمہوریۂ ہند کے منصب پر فائز ہوکر وہ ترقی اور عروج کی انتہا کو پہنچ گئے۔ برعظیم میں کوئی شخص، خصوصاً ایک بھارتی مسلمان، اس سے بڑے عہدے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر ذاکرحسین کا سیاسی گراف تو بہت اُونچا چلا گیا مگر تعلیم (جو اُن کا اصل میدان تھا) یا دانش وَری کے بارے میں ان کی آدرشیں کیا ہوئیں؟

اُن کے قریبی رفیق اور دانش ور پروفیسر محمد مجیب نے ان کی سوانح عمری میں ان کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ان کی مصلحت اندیشی کا ذکر بھی کیا ہے۔ علی گڑھ کے پروفیسر اور نامور ادبی شخصیت اسلوب احمد انصاری نے ذاکرصاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حکمت عملی اور مصلحت اندیشی ان کی زندگی کے دو بنیادی تشکیلی اصول تھے۔ اس کا نتیجہ ہمیشہ مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح کے    تعہّد (commitment) کی نفی کرتا ہے۔ مصلحت اندیشی، حق شناسی اور حق گوئی کے راستے میں، ان کے لیے عمربھر زنجیرپا بنی رہی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے بڑے قابلِ قدر   کام کیے [مگر] بعض اوقات صاحبانِ جاہ و منصب کے زیراثر اور ان کے دبائو میں آکر نامنصفانہ طورپر اور جانب داری کے ساتھ ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا جو اس اعزازاور ترقی کے کسی طرح مستحق نہیں تھے۔ ذاکرصاحب کے ذہین اور فطین اور اعلیٰ فن کار ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے‘‘۔

ذاکرصاحب کی اس مثال سے یہ واضح ہے کہ انسان کی ذہانت و فطانت، اگر مصلحت کوشی کو راہ نما بنالے تو حاصلِ حیات کیا ہوتا ہے۔ (مرتب)

پاکستان میں علمی وادبی تحقیق زوال کاشکار ہے۔ اس زوال کاپاکستان کی سیاسی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ سیاسی نشیب وفراز(فراز سے نشیب کی طرف سفر)اورحکمرانی کا (گوارا یا بہتر معیار سے پست ہوتا ہوا)معیار، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم وتحقیق اورعلمی وتحقیقی اداروں پر بھی اثر انداز ہواہے۔

قیامِ پاکستان کے اوائل میں نئی یونی ورسٹیوںاورمتعددعلمی اداروں کے قیام کی صورت میں بعض خوش آیند اقدام کیے گئے ،جس کے نتائج حوصلہ افزاتھے(اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ  بعض پہلوؤں سے چند اداروں کی کارکردگی مایوس کن تھی)۔

جس طرح ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں جڑنہیںپکڑسکی اور جمہوریت کے پودے کو بار بارنوچ کر،جڑسے اُکھاڑپھینکاجاتارہا،اسی طرح اداروں میں بھی من پسنداورنااہل افراد کا تقرر کیا جاتا رہا،خصوصاً ۱۹۷۲ء کے بعد کے اَدوار میں تواہلیت اورمیرٹ کوایک طرف ہی نہیں، بالاے طاق رکھ دیاگیا۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی وفاقی تحقیقی و ادبیاتی اداروں کے سربراہان کچھ ایسا تعارف رکھتے ہیں کہ جنھیں تحقیق و تفکر سے کم ہی واسطہ ہے۔اسی طرح بیرون ملک (برطانیہ، جرمنی وغیرہ)پاکستان اوراقبال مسندوں(chairs)پرمیرٹ سے ہٹ کر ایسے من پسند افراد کا تقرر کیا جاتا رہا جواِن مسندوںکے لیے مقررہ ضابطوں اور شرائط ومعیارپرقطعی پورے نہیں اُترتے تھے (یا پھر ایسی متعدد مسانیدِ دانش (chairs) آج تک خالی پڑی ہیں)۔

ایسے سربراہ اور’عالم‘اپنے مربیّوں کی خوش نودی کو مقدم سمجھتے تھے چنانچہ لاہور کے ایک علمی ادارے کے سربراہ نے حاکمِ وقت کے اشارۂ ابرو پرپہلے توملّاپر چاند ماری کی اور کندھا  علّامہ اقبال کا استعمال کیا۔پھرانھیں اقبال کی شاعری میں بھی کیڑے نظرآنے لگے۔مغربی تہذیب پراقبال کی تنقیدان کی آنکھوںمیںکانٹے کی طرح کھٹکنے لگی اورانھوں نے بڑے بھد ّے انداز میںاقبال پر بھی تبر ّا کیا۔

اقبال کا ذکرہواتو سمجھ لینا چاہیے کہ تخیل پاکستان، تشکیل پاکستان اور پھر تعمیرپاکستان میں اقبال کے کلام و پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کو تقویت عطا کرنے کا ایک زندہ و توانا حوالہ بھی ہیں۔ اس لیے آج ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں اقبال کے حوالے سے روا رکھے جانے والے طرزِعمل کا توجہ سے جائزہ لینا چاہیے۔

اقبال کے فکرپرتحقیق اوران کے پیغام کی نشرواشاعت کے لیے حکومتی سطح پر لاہورمیںدوادارے قائم ہیں:اقبال اکادمی پاکستان وفاقی حکومت کاادارہ ہے اور بزم اقبال پنجاب کی صوبائی حکومت کا۔ دونوں اداروں نے سیکڑوں کتابیں چھاپی ہیں،مگرفروغِ اقبالیات کے ضمن میں صرف کتابیں چھاپناہی کافی نہیں،اقبال کے فکراورپیغام کی نشرواشاعت کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرناناگزیرہے مگر ایسا کچھ نہیں کیاگیا (البتہ ایک استثنیٰ ہے۔اقبال اکادمی نے خصوصاً محمد سہیل عمرکے زمانۂ نظامت میں، ابلاغِ فکراقبال کے لیے کتابوں کی اشاعت کے علاوہ نشرواشاعت کے جدید برقی ذرائع بھی اختیار کیے،جن میں آڈیو کیسٹ،وڈیوکیسٹ،سی ڈی، نمایشیں، اقبالیات کے مختلف النّوع مقابلوں اورمذاکروں کا انعقاد وغیرہ شامل ہیں)۔تاہم ان اداروں میں بہ حیثیت ِمجموعی تنظیم،ترتیب اورمنصوبہ بندی کی خاصی ضرورت ہے۔

یہ منصوبہ بندی کی کمی ہی تھی، جس کی وجہ سے ، مثلاً اقبال کے صدسالہ جشنِ ولادت تک علامہ اقبال کی کوئی ڈھنگ کی سوانح عمری نہ لکھی جاسکی تھی۔ پچاس کے عشرے میں بزمِ اقبال نے یہ منصوبہ ابتدامیں غلام رسول مہرکے سپرد کیا، پھر ان سے واپس لے کرعبدالمجیدسالک کودے دیا۔ انھوں نے۱۹۵۵ء میں ذکراقبال لکھ دی تو اس پرشدیدتنقید ہوئی۔بعض افراد نے اپنے طورپر سوانح عمریاں لکھیں، مگر اداروں کی سطح پرمزیدکوئی کوشش نہ کی گئی۔اسی لیے ۱۹۷۷ء کی صدسالہ جشن اقبال کمیٹی نے ایک مفصّل اورمعیاری سوانح عمری لکھنے کاکام پہلے سید نذیر نیازی، بعد ازاں ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کے ذمے لگایا مگر بات نہیں بنی۔آخر علامہ کے فرزندِارجمندجاویداقبال مرحوم نے زندہ رود  لکھ کر اس کمی کوپوراکیا۔

میراتاَثّر یہ ہے(اوراکثرحضرات اس سے اتفاق کریں گے)کہ اقبالیات ہو،غالبیات ہو یا تاریخِ ادب یاادبِ اردو کا کوئی شعبہ،جوچند ایک قابل ِقدرکام ہوئے ،بیش تروہ انفرادی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اداروں کی کارکردگی بالعموم ناقص رہی ہے،حالاںکہ وسائل،بہ نسبت افراد کے، اداروں کو میسرہوتے ہیں۔

ڈاکٹرعطاء الرحمٰن ہائرایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے، توعلمی وادبی تحقیق میں تیزی و تیزرفتاری آئی، مگرمعیار،مقدارکاساتھ نہ دے سکا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ایما پر پی ایچ ڈی اورایم فل کے وظائف دینے کے مثبت قدم نے، عملاً معیارکونیچے کھینچنے میں حصہ لیا ہے اوراب تو جامعات میںتحقیقی مقالے یوں دھڑادھڑ تصنیف ہورہے ہیں، جس طرح کسی فیکٹری سے خاص وضع قطع کے بُرے بھلے پُرزے تھوک کے حساب سے ڈھل ڈھل کر نکلتے چلے آتے ہیں۔ تحقیق کرانے والے اساتذ ہ کی کمی نہیں مگر محنت کرنے اور کرانے والے اساتذہ بہت کم ہیں۔  آج ایک اخبار نویس نے اپنے بقول’انکشاف‘کیاہے کہ پاکستانی جامعات میں۱۱ہزار پی ایچ ڈی اسکالر (اساتذہ) اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ مزید۳۰ہزار اسکالروں کی ضرورت ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کی کوشش ہے کہ اگلے سال میں مزید۲۰ہزار اسکالرتیارکیے جائیں (روزنامہ۹۲نیوز،۲۳؍جولائی ۲۰۱۷ء)۔ گویاکمیشن مقداربڑھانے کی فکر میںہے، حالاںکہ ضرورت ان ’خدمات‘ کا معیار بڑھانے کی ہے، جو موجودہ ۱۱ہزار اسکالرانجام دے رہے ہیں۔

بقول رشیدحسن خاں: ’’ہمارے اساتذہ (اسکالر)کو ترقی کے ہجے کرنے سے فرصت نہیں ہے‘‘۔ چمک نے چندھیادیاہے۔ تحقیق کا معیار بلندہوتوکیسے؟ معیار تو بعدکی بات ہے، اب تو پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالر موضوعاتِ تحقیق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اساتذہ نے موضوعات کی تلاش بھی شاگردوںکے ذمے ڈال دی ہے(حقیقت یہ ہے کہ موضوعات موجود ہیں، مگر ان پر کام کرانے کے لیے اساتذہ کو خود بھی محنت کرنی پڑتی ہے،دل جمعی سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ ان مشکل موضوعات کے قریب نہیں پھٹکتے)۔

پاکستان کامستقبل تعلیم(تحقیق جس کالازمی جزوہے)کے اچھے معیاراورانصاف کی بلاتاخیر فراہمی پرمنحصر ہے، اور یہی دوچیزیں ہمیں نظرنہیں آتیں۔مگرخوش آیندبات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںشایدپہلی باراحتساب کاسلسلہ شروع ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ علمی تحقیق خصوصاً جامعات کے تحقیقی مقالوں کا بھی جائزہ لیا جائے(خصوصاً سماجی و ادبیاتی علوم)۔ جامعات کے تحقیقی مقالوں کے پست معیار کاایک سبب ہائرایجوکیشن کمیشن کی غفلت بھی ہے۔ وہ کم ہی اس بات کااہتمام کرتی ہے کہ تحقیقی مقالات کے لیے اس نے جو اصول اورضابطے مقرر کیے ہیں،     یہ دیکھے کہ کیا تحقیقی مقالوں میں ان کی پابندی کی جارہی ہے؟ ماضی قریب میںہائرایجوکیشن کمیشن نے ضابطہ جاری کیاتھاکہ مقالہ نگاروں کا زبانی امتحان (viva)کھلے بندوں لیاجائے گا اور مقالہ نگار اپنے مقالے کا کھلا دفاع (open defence)کریںگے۔شعبوںسے کہاگیاتھاکہ وہ اس کے لیے امتحان کاوقت اورتاریخ میڈیاپرنشرکرانے کااہتمام کریں ،عنوان بھی بتایا جائے اورعوام النّاس کو دعوت دی جائے کہ وہ اس موقعے پر زبانی امتحان کا مشاہدہ کریںاور امیدوار سے سوالات کریں۔ اگر مقالہ نگار، تسلی بخش جواب نہ دے سکے تواسے تیاری کاایک اورموقع دے کردوبارہ امتحان لیا جائے۔ افسوس ہے کہ ہماری جامعات میں اِلاّماشاء اللہ ،اس کااہتمام نہیں کیاجاتا۔ شعبے اخبارات میں اطلاع نہیں بھیجتے۔ خانہ پُری کے لیے متعلقہ شعبے میں فقط ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے، بسااوقات اسی روزیاایک آدھ روز پہلے۔ یہ کمیشن کے ضابطے کا مذاق اُڑانے والی بات ہے مگر کمیشن نے مذاق اُڑانے والوں کاشاید ہی کبھی احتساب کیاہو۔ اگر کمیشن غفلت نہ برتے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کھلے بندوں دفاع کے ضابطے پرپابندی سے عمل کیاجارہاہے تواس سے مقالات کامعیاربہتر ہوگا۔

بہرحال، اُمیدرکھنی چاہیے کہ حالات بہترہوں گے۔ ہمیںایک لمبافاصلہ طے کرنا ہے، تب کہیں جاکرقیام پاکستان کے مقاصد پایۂ تکمیل کوپہنچیں گے۔

افغانستان ، ایران اور ترکی سے اسلامیانِ ہند کا تعلق اور رابطہ دورِ غلامی ہی سے رہا ہے۔  بعض وجوہ سے، افغانستان اور ایران کی نسبت ترکی سے تعلق اُستوار تر ہوتا گیا اور آج پاکستان کا جتنا گہرا ربط وتعلق ترکی کے ساتھ ہے، کسی اور مسلمان ملک سے نہیں ہے (حرمین شریفین سے عقیدت کی بنا پر سعودی عرب سے تعلق ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے )۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر عظیم کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں دامے ، درمے، سخنے ترکوں کی مدد کی، اس نے ترکوں کے دل جیت لیے اور ان ترک دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ برعظیم کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے ترکوں کے دل آج بھی دھڑکتے ہیں۔

ترکی سے متعلق حال ہی میں دو کتابیں نظر سے گزریں۔ مندرجہ بالا پس منظر کے حوالے  سے ذیل میں ان کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

1

ڈاکٹر نثار احمد اسرار (۱۹۴۲ء-۲۰۰۴ء )کی کتاب مکتوب ترکی کے سرورق کی عبارت  (ترکی کی سیاست ، معاشرت، ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر نثار احمد اسرار کے مضامین کا مجموعہ) سے کتاب کی نوعیت کا کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن پورا تعارف نہیں ہوتا۔

 ڈاکٹر نثار کا تعلق بہار سے تھا۔ پہلی ہجرت کر کے مشرقی پاکستان اور دوسری ہجرت کے نتیجے میں کراچی پہنچے ۔ ۱۹۶۵ء میں آر سی ڈی کے وظیفے پر انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور ۱۹۷۱ء میں استنبول یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انقرہ منتقل ہو گئے اور وہیں پیوند ِخاک ہوئے ۔ وہ چار زبانوں (ترکی ، اُردو ، انگریزی اور جرمن ) پر دسترس رکھتے تھے۔ ۳۶سال ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے، اور ۳۶ سال تک پاکستانی سفارت خانے میں’ افسرِ اطلاعات‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس اور صحافت میں بھی گزرا۔

ان متنوّع مصروفیات کے ساتھ ، ڈاکٹر نثار نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق بر قرار رکھا۔ مصروفیت کیسی ہی ہو، ان کا قلم برابر رواں رہتا تھا۔ ان کی ۵۰ سے زائد تصانیف وتالیف اور کتب ِ تراجم، قلم وقرطاس سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔(کتب ِ تراجم میں تفہیم القرآن، سیرتِ سرورِ عالم ، سود، سنت کی آئینی حیثیت ، مسئلہ جبرو قدر ، تعلیمات اور     علامہ اقبال کا منتخب اردو کلام شامل ہے )۔ وہ ہفت روزہ اخبار جہاں اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کئی سال تک ’مکتوب ترکی ‘ لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کی مرتبہ زیر نظر کتاب  انھی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تقدیم نگار جناب محمد راشد شیخ نے انھیں یاد کرتے ہوئے متأسفانہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ راشد صاحب کے نام اسرار صاحب کے ۲۱خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔

۴۳ مکاتیب (یا راشد شیخ کے بقول ’رپورٹوں‘ ) میں خاصا تنوع ہے۔ بنیادی موضوع ترک، ترک قوم ، ترک عوام وخواص ، ترک مشاہیر، ترک معاشرہ ، ترک صحافت اور ترک سیاست ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے ترکی کے بارے میں بہت سی ایسی چیزوں کا پتا چلتا ہے جن سے تاریخ کے عام طالب علم بھی واقف نہیں ہوں گے، مثلاً: ’’ترکی تضادات کا ملک ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اجتماعِ ضدّین ہے___ ترکی واحد سیکولر ریاست ہے جس کی ۹۸ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جہاں ۶۵ سال کے لادینی نظام اور مذہب دشمن ظالمانہ قوانین کے باوجود، لوگوں کا اسلامی جذبہ سرد نہیں ہوا بلکہ نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی اکیلا مسلمان ملک ہے جہاں سے پلے بوائے اور پلے مَین  جیسے بین الاقوامی شہرت کے فحش رسائل کے ترکی اڈیشن نکلتے ہیں اور مقامی اخبار ورسائل میں بھی مخر ّب ِ اخلاق تصویریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور جہاں اسلام نام کا ماہنامہ اور بعض دوسرے اخبارات وجرائد لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں ۔ ایک طرف ننگوں کے کلب قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی ذہن کی خواتین کے سر ڈھانپنے یا پردہ کرنے پر ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تضادات کی تازہ ترین مثال عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ساری آئینی اورقانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں۔ غیر مسلم اس سے بَری ہیں ‘‘ ۔ ( ص۵۳-۵۴، ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کی تحریر ) ۔ ڈاکٹر نثار کا خیال ہے کہ عیسائیت کے پرچار کا راستہ اتاترک اور عصمت انونو کی مذہب دشمنی نے ہموار کیا: مساجد کی   بے حُرمتی، مدارس بند، حج ممنوع اور عربی میں اذان پر پابندی۔ عصمت انونوکے ایک چہیتے وزیر سراچ اوغلو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’حضرات آپ مجھے ۳۰سال کی مہلت دیجیے، اس ملک سے مذہب کا نام و نشان مٹا دوں گا‘‘۔ یہ مذہب دشمنی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔

ایک مکتوب (۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء ) بہ عنوان: ’’ترک ذرائع ابلاغ فحاشی کی تمام حدود پھلانگ گئے ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے سرکاری نشریاتی اداروں کے علاوہ تقریباً ۳۰ ٹیلی ویژن چینل انتہا درجے کی آزادی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار بڑے تأسف کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’میڈیا کو اپنی آزادی کا گہرا شعور اور احساس ہے اور اس آزادی پر ذرا سی آنچ آتے ہی وہ فوراً ڈٹ جاتے ہیں ۔ صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پر بھی تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔تا ہم بامقصد صحافت ، سنجیدہ اور  صحیح رپورٹنگ ، معتبر اور بے لاگ تبصرے کا شدید فقدان ہے‘‘ (ص ۶۴ )۔ مصنف نے زیرِ نظر مکتوب میں ترکی میڈیا (۱۹۸۸ء )کی جو کیفیت بتائی ہے وہ پاکستان کے ۲۰۱۷ ء کے میڈیا سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ادارے اور قوانین ترکی میں بھی موجود تھے  اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن دونوں جگہ عموماً یہ غیر فعاّل ہیں، اور مجرمین کے خلاف کوئی مؤثر تا دیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔

مختصر یہ کہ مکتوبِ ترکی  کو پڑھے بغیر ترکی کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے ۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے لگن اورمحنت ِ شاقہّ سے یہ تحریریں تلاش وجمع کیں اور ان پر مفید حواشی تحریر کیے۔ (ناشر: قرطاس، ۱۵-اے ، گلشن امین ٹاور ، گلستانِ جوہر ، بلاک ۱۵، کراچی ۔ صفحات: ۳۷۴،قیمت: ۴۰۰ روپے )

2

 تحریکِ خلافت کے زمانے میں ہندستانی مسلمانوں نے ’’ جان، بیٹا! خلافت پہ دے دو ‘‘ کے جذبے سے ترکوںکے ساتھ جذبۂ اخوت کا حق ادا کیا ۔ شعرا نے نظمیں لکھیں اور عوام الناس نے درہم ودینار ارسال کیے۔ مگر زیر نظر کتاب دفتر اعانۂ  ہند (مرتبہ: ڈاکٹر خلیل طوق آر) سے پتا چلتا ہے کہ جذبۂ اخوت کا اظہار ما قبل انیسویں صدی میں بھی اُسی طرح ہوتا رہا ہے۔ ۷۸-۱۸۷۷ء میں روس اور ترکی میں جنگ کی خبریں ہندستان پہنچیں تو یہاں کی انجمنوں اور اداروں نے چندہ  جمع کر کر کے ترکی بھیجنا شروع کیا۔ چوں کہ ہندستانی باشندے ، ترکوں کو مظلوم سمجھتے تھے اس لیے : ’’نہ صرف ہندستان کے مسلمان بلکہ ہندو، پارسی، عیسائی، یہاں تک کہ انگریز افسر بھی [شاید    روس دشمنی میں] ان چندوں میں پیسے دیتے تھے۔ امیر تو امیر ، غریب بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ترکوں سے تعاون کرنے کے لیے پیش پیش تھے۔ نواب سے لے کر حجام تک، ملکہ سے لے کر  اپنی کمائی چندے میں دینے والی بیوہ خواتین اور حتیٰ کہ بالا خانوں کی طوائفوں اور دلّالوں تک ہرہندستانی اس کارِ خیر میں حصّہ لینا چاہتا تھا‘‘(ص xii)۔چندہ دینے والوں میں ریاستوں کے نواب ، انجمنوں کے صدور ، انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ، مدرسوں کے مولوی اور سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں میں بڑے شہروں اور قصبوں کے علاوہ ہندستان کے مختلف صوبوں اور دُور دراز واقع دیہاتوں میں رہنے والے بھی تھے۔ جن جن اداروں یا افراد کے تو سّط سے جتنا جتنا چندہ آتا تھا، ترکی میں اس کا ریکارڈ تحریری طور پر رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں اس ریکارڈ کو دفتر اعانۂ  ہند کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ۔ کتاب کا ایک نسخہ استنبول یونی روسٹی میں موجود ہے۔

ڈاکٹر خلیل طوق آر ( استاد شعبۂ اردو ، استنبول یونی ورسٹی ) نے مذکورہ کتاب کی عکسی نقل، ایک سیرحاصل مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ جملہ اندراجات بزبانِ ترکی خطِ نستعلیق میں ہیں ۔ رقوم کی صراحت ’روپیہ، آنہ ،پائی ‘ سے کی گئی ہے۔ اگر یہی کتاب یا ایسی ہی کوئی کتاب ، اتا ترک کے دور میں تیار کی گئی ہوتی تو ہم اردو قارئین نہ جان سکتے کہ کیالکھا ہے کیوں کہ اتا ترک (ترکوں کا باپ) نے رسم الخط تبدیل کر کے اپنے ’بیٹوں‘ (ترکوں) کو مسلمانانِ عالم سے کاٹ دیا اور رومن (انگریزی) رسم الخط کے ذریعے یورپی بننے کی کوشش کی، مگر ما بعد حکمرانوں کی پوری کوششوں کے باوجود ، یورپی یونین ترکی کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیرنظر کتاب، ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونی ورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران نے شیخ الجامعہ ( ڈاکٹر مجاہد کامران ) کی منظور کردہ خاص گرانٹ سے شائع کی ہے۔ (صفحات : ۳۶۰ ، قیمت: ۵۰۰ روپے )

ڈاکٹر صفدر محمود سیاسیات اور تاریخ کے معلّم رہے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہماری سیاسی اور ملّی تاریخ کے دو بڑے کرداروں (اقبال اور جناح)اور ایک بڑے محور (پاکستان) سے ان کی دل چسپی فطری ہے___ اگر معلّم صاحب ِ نظر ہو اور قلم و قرطاس سے بھی علاقہ رکھتا ہو، تو وہ معلّمی کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی، اپنے خیالات کے اظہار سے کبھی سبک دوش نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہزاروں قارئین کو قومی، ملّی،علمی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق اپنے خیالات سے مستفید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے سیکڑوں ہی کالم لکھے ہوں گے۔

ڈاکٹر موصوف کے نسبتاً مفصل مضامین کا مجموعہ اقبال، جناح اور پاکستان  کے عنوان سے چند برس پہلے شائع ہوا تھا، جس کا مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت بلاشبہہ بہت دل کش تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ جس قانونی اور سیاسی مہارت سے لڑا اور برعظیم کی ملّت ِاسلامیہ کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کھینچ کر سلامتی سے ساحل پر لے آئے، اس نے انھیں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا محبوب لیڈر بنا دیا۔ قائداعظم، ڈاکٹر صفدر محمود کے بھی محبوب لیڈر ہیں۔

جب انسان کسی شخصیت کا گرویدہ ہو تو وہ کوئی نہ کوئی ’اتفاق‘ یا ’مناسبت‘ تلاش کر لیتا ہے۔ جس کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر وہ اسے اپنی عقیدت اور گرویدگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ دیکھیے، صفدر محمود نے ایک ’اتفاق‘ اور ’مناسبت‘ تلاش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم کی واحد اولاد، یعنی ان کی بیٹی دِینا جناح نے ۱۴؍اور۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کی درمیانی شب کو جنم لیا۔ ان کی دوسری اولاد اس کے صحیح ۲۸برس بعد ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب کو معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام ’پاکستان‘ رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے‘‘۔ (ص ۳۰)

قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اور اپنی ظاہری وضع قطع، رہن سہن اور لباس و اَطوار سے وہ ایک جدید اور تہذیبِ مغرب میں ڈھلے ہوئے ماڈرن قسم کے شخص معلوم ہوتے تھے۔ صفدر محمود صاحب نے ان کے کچھ ایسے پہلو دکھائے ہیں جن سے وہ پکّے پیڈے،  اوّل و آخر اور مذہبی فرقوں سے ماورا خالص مسلمان نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے اپنا نکاح ایک سُنّی عالم مولانا نذیراحمد صدیقی سے پڑھوایا (جو مولانا شاہ احمد نورانی کے سگے تایا تھے)۔ یہ معلوم ہے کہ قائداعظم کا خاندانی تعلق اِثناعشری فرقے سے تھا مگر ان کے نزدیک فرقوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ زیرنظر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار کسی نے قائداعظم سے پوچھا: آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ قائداعظم نے جواباً سائل سے پوچھا: آں حضور نبی کریمؐ کا مذہب کیا تھا؟ ظاہر ہے قائداعظم کا جواب بہت معنی خیز اور بلیغ تھا۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے بجا طور پر قائداعظم کو ایک سچا، کھرا اور باوقار انسان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قائداعظم کے ہاں راست گوئی اور عظمت ِکردار سیرت النبیؐ کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: قائداعظم کی تقریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات، اُن کے خون میں شامل تھے۔ ڈاکٹر موصوف، قائداعظم کی ۱۹۳۹ء کی ایک تقریر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انھیں برعظیم کے مسلمانوں کے مسلّمہ راہنما کا مقام اور مرتبہ اس وجہ سے ملا کہ وہ    خدا کے حضور سرخرو ہونے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضاے الٰہی کی تمنا رکھتے تھے (ص ۳۶)۔ وہ سرتاپا سچے مسلمان اور پکّے مومن تھے۔  صفدر محمود صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے‘‘۔ وہ خواب کیا تھا؟ لکھتے ہیں:

مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہندو پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تعمیر پاکستان اور علماے ربانی کے مصنف منشی عبدالرحمن نے [قائداعظم کا مذہب و عقیدہ کے] ص ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدانِ حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا، علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا: یہ اس مجمعے میں کیسے شامل ہوگئے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ محمدعلی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا سا صلہ تو ضرور ہوگا۔ انھی مولانا اشرف علی تھانوی نے ۴جولائی ۱۹۴۳ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا: ’’۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے۔ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ِایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم ہو۔ قیامِ پاکستان کے لیے جو کچھ ہوسکے، کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر اُبھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا‘‘۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا، مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نمازِ جنازہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔ (ص ۳۵-۳۶)

ان دنوں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کثیر الاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اسی اخبار کے کچھ  بزعمِ خویش دانش ور کالم نویس وقتاً فوقتاً ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں یا تحریروں میں کبھی لفظ ’سیکولرازم‘ استعمال نہیں کیا۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر (جس کا سیکولرسٹ دانش ور سہارا لیتے ہیں) فی البدیہہ تھی اور خود قائد نے کہا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں ہے۔

جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہے، اس سے حکومت کو سروکار نہیں (ص۴۲)،     تو اس کے یہ معنٰی نہیں کہ پاکستان سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے گا بلکہ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ بطور شہری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر صفدرمحمود کہتے ہیں کہ قائداعظم کو اسلام سے گہرا لگائو تھا۔ اسلام ان کے تیقّن اور باطن کا حصہ تھا۔ انھوں نے قرآن اور سیرت کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی تقریروں کے کچھ حوالے بھی دیے ہیں، مثلاً:

                ۱-            ’’اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ (پشاور، نومبر ۱۹۴۵ئ)

                ۲-            ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے دیا ہے‘‘۔ (سبّی، بلوچستان، ۱۴فروری ۱۹۴۷ئ)

                ۳-            ’’میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘ ۔ (لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)

                ۴-            ’’میں ان لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳۰۰ سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔ (کراچی، ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ئ)

اس طویل مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قارئین سے سوال کیا ہے: ’’اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ کیا قائداعظم ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کے لیے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟‘‘

زیرنظر کتاب میں مصنف نے تصورِ پاکستان کے مختلف پہلوئوں، تعبیرات اور تحریکِ پاکستان کے مختلف عنوانات (تقسیم ہند کی تجویز، خطبۂ الٰہ آباد، قراردادِ لاہور، کابینہ مشن پلان) پر بھی بحث کی ہے۔ ان سب مباحث میں قائداعظم کی ذات، ان کی شخصیت اور ان کے بیانات و تقاریر کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آٹھویں مضمون بہ عنوان: ’قائداعظم سے منسوب غلط بیانات و احکامات‘ میں بعض بے بنیاد اور مشکوک روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، مثلاً قائداعظم سے ایک جملہ منسوب ہے: ’’پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے، نہ کوئی حوالہ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ۲۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں قائداعظم سے یہ جملہ منسوب کیا تھا: He said that he and his typwriter made Pakistan۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ جب میں نے سوال کیا کہ حوالہ کیا ہے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتراف کیا کہ اس جملے کی صحت کے لیے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے، البتہ میں نے یہ بات مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی سے سنی تھی۔ صفدر محمود صاحب کرمانی صاحب کے پاس پہنچے تو کرمانی نے مکمل نفی میں جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی گفتگو لکھ کر ڈاکٹر مبارک علی کو بھیجی مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔

راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے غالی اشتراکی کو ایسی ہی حرکت زیبا ہے۔ اس سے پہلے وہ اصلاحِ احوال کے لیے سرسیّداحمد خاں،شبلی اور اقبال جیسے اکابر کی کاوشوں کو     رد کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں سرسیّداحمد خاں جاگیردارانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کی تمام تر کاوشوں کا مقصود مسلم عوام کی بھلائی نہیں،بلکہ امرا، زمین داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ انھیں تو یہ بات بھی کھٹکتی اور بُری لگتی ہے کہ شبلی نے الفاروق، النعمان اور المامون لکھ کر مسلمانوں کو ان کے ماضی کی عظمت کا احساس دلا کر اپنی شان دار روایات پر ’ بے جا فخر‘ کرنا سکھایا۔ اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیا‘۔  وہ مسلم فتوحات کو بھی ’سامراجیت‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔

علامہ اقبال کی شاعری، ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک ’مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات‘ پیدا کرتی ہے۔ اقبال جمہور دشمن تھے، معاشرے میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے اور معاشرے کو کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے افکار اور شاعری معاشرے کی ترقی اور شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ڈاکٹر مبارک علی کا کتابچہ سرسیّد اور اقبال: آگہی پبلی کیشنز، حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۴ئ)

وہ سندھ یونی ورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے مگر وہاں ان کی دال نہیں گلی۔ لاہور کے بائیں بازو والوں نے انھیں خوش آمدید کہا۔ درحقیقت مبارک علی کا شمار قائداعظم کے بقول ’جان بوجھ کر شرارت‘ کرنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والوں میں ہونا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی (ص ۴۷)۔ صفدر محمود صاحب نے مبارک علی کے اس جھوٹ کی بھی تردید کی ہے کہ قائداعظم کہتے تھے کہ میں پاکستان کا واحد خالق (sole creator) ہوں۔

اسی مضمون میں صفدر محمود صاحب نے قائداعظم سے منسوب اس فقرے ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ڈال دیے گئے ہیں‘‘ پر بھی بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائداعظم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔

راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے کے راوی میاں عبدالعزیز مالواڈہ ہیں، اور  ان کا بیان قلم بند کرنے والے سابق سیکرٹری مالیات حکومت ِ پاکستان جناب ممتاز حسن تھے، جو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش مؤیّد اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور قائداعظم اور اقبال سے بے پایاں عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا حوالہ ہے: نقوش لاہور کا اقبال نمبر، حصہ دوم،ص ۶۲۶،۱۹۷۷ئ۔

پروفیسر محمد منور نے بھی اس فقرے کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مضامین میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ صفدر محمود صاحب غور فرمائیں کہ اِنھی کھوٹے سکّوں کی کثرت کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے، لہٰذا قائداعظم نے جب اور جس مناسبت سے بھی کھوٹے سکّوں کا ذکر کیا تو کچھ  غلط نہیں کیا۔کتاب کے آخر میں تین ضمیمے شامل ہیں۔

چودھری رحمت علی، تحریکِ آزادیِ ہند کے ایک اہم کردار تھے۔ جنوری ۱۹۳۳ء میں انھوں نے Now or Never (اب یا کبھی نہیں) نامی کتابچہ شائع کیا تھا جو ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول: ’’پاکستان کے مقدمے کی ایک مکمل دستاویز‘‘ ہے۔ کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں انھوں نے چودھری رحمت علی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور ایک حد تک مایوسی کے دور میں، وہ ایک پُرخلوص والہانہ جذبے سے برطانیہ کے مقتدر حلقوں تک پاکستان کا جواز ثابت کرنے اور پیغام پہنچانے میں لگے رہے۔ باستثناے اقبال اس وقت تک مسلمانوں نے ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ ’’ Now or Never ہماری تحریکِ آزادی میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی منزل کی نشان دہی کی بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کی سمت بھی متعین کردی۔ اس لحاظ سے ہم بہ حیثیت قوم چودھری رحمت علی کے احسان مند ہیں‘‘ (ص۱۴۷)۔ آخر میں مصنف اظہار افسوس کرتے ہیں کہ چودھری رحمت علی کی جذباتی افتادِ طبع سے معاملہ بگڑ گیا۔ انھیں زمینی حقائق کا احساس نہ ہوا (انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند منصوبے کو The greatest betrayal (عظیم ترین غداری) قرار دیا۔ انھوں نے قائداعظم کے خلاف زہر اُگلا۔ کاش تقسیم سے قبل وہ ہندستان آکر عملاً تحریکِ آزادی میں حصہ لیتے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان آئے تو قدرتی طور پر خفیہ اداروں نے ان کی نگرانی کی، مایوس ہوکر واپس برطانیہ چلے گئے۔

ضمیمہ نمبر۲ میں قائداعظم کے اے ڈی بریگیڈیئر نوراے حسین کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں انھوں نے قائداعظم سے منسوب بعض بے بنیاد باتوں کی تردید کی ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود کے یہ مضامین ان کے برسوں کے غوروفکر اور تحقیق کا ثمر ہیں۔ جیساکہ انھوں نے دیباچے میں لکھا ہے: ان کے اظہارخیال کا انداز واسلوب غیر روایتی ہے۔ بلاشبہہ قاری اس کتاب کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ روپے کے ساتھ، وقت بھی ضائع کیا ہے۔

آخر میں صاحب ِ کتاب سے ایک شکوہ: کتاب کے عنوان میں لفظ ’اقبال‘ سب سے پہلے مگر آزادی یا قیامِ پاکستان میں ان کے حصے اور خدمات پر کوئی مکمل مضمون کتاب میں شامل نہیں ہے۔ قاری کو تیسرے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر صرف پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون میسر آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے ضمن میں کیا علامہ اقبال کی خدمات، قائداعظم سے کم ہیں؟

(اقبال، جناح اور پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئرمال، لاہور)

کسی معاشرے اور ماحول میں رونما ہونے والے واقعات اس معاشرے اوراس ماحول میں سانس لینے والوں پر اثراندازہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی خطے یا علاقے کاموسم بھی وہاں کی انسانی طبیعتوں اورانسانی صحت پر اچھا یا برا اثر ڈالتاہے۔ اس کی ایک مثال جون، جولائی میں پڑنے والی کراچی کی قیامت خیز گرمی ہے، جس سے اہل کراچی شدیدطورپرمتاثر ہوئے اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افرادموسم کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کوپیارے ہوگئے۔ اس موسمی شدت کی چند وجوہ ہیں:

۱- گذشتہ برسوں میں کراچی شہراورمتعددآبادیوں میں واقع پارکوں کو ختم کرکے اُن کے پلاٹ بناکر،عمارتیں اورپلازے کھڑے کرلیے گئے۔ پارکوں میں جتنے درخت اورپودے تھے،وہ سب تہِ تیغ ہوئے۔شاہراؤں کے ساتھ واقع سبزقطعات، سڑکوں کی توسیع کی زدمیں موت کے گھاٹ اُتر گئے اورسبزے اوردرختوں سے محروم ہوگئے اور نئے درخت نہیں لگائے گئے۔

۲- کراچی میں موٹرگاڑیوں،بسوںاورٹرالوںکی تعدادتقریباً۲۰لاکھ ہے۔اس میں سالانہ ۲۰ ہزارکے حساب سے اضافہ ہوتاہے۔یہ لاکھوںموٹریں،بسیں اورٹرالے بلکہ موٹرسائیکلیں،اپنے دھوئیں سے ماحول کوآلودہ اورفضا کوزہریلا بنانے میں اہم کرداراداکرتی ہیں۔

۳-مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نئی نئی بستیاں وجود میںآئیں جن میں ہزارہا مکانات، عمارتیں، فلیٹ تعمیرکیے گئے یامصروف شاہراؤں اورپرانی آبادیوں میںاُونچے کئی کئی منزلہ پلازے تعمیرکیے گئے مگردرخت نہیں لگائے گئے یابہت کم لگائے گئے اوران کی بھی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔

۴- ٹریفک کی روانی میں رکاوٹیں دورکرنے اوراسے رواں رکھنے کے لیے ’بالائی پُل‘  (اوورہیڈ) اور زیرزمین راستے(انڈرپاس) بنائے گئے۔ جب سورج حدّت دکھاتاہے،خصوصاً دوپہرکے وقت،تب اینٹ،پتھر،سیمنٹ اور لوہے سے تعمیرشدہ مکانات،پلازے،فلیٹ اور پُل خوب تپ جاتے ہیں، فضا گرم ہوجاتی ہے اور تارکول سے بنی سڑکیں ماحول کو زہریلی گیسوں سے بوجھل اورآلودہ بناتی ہیں۔ درخت اس حدت اور تپش کو کم کرتے ہیں مگر درختوں کا توہم نے پہلے ہی صفایاکرچھوڑاتھا لہٰذا زہریلی گیسوں کو کون جذب کرے اور آکسیجن کون مہیاکرے۔

فضا اور ماحول،اہل کراچی کے لیے ناقابل برداشت ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔جب کراچی’عروس البلاد‘کہلاتاتھااوریہ بہت پرانی بات نہیں ہے۔ کراچی میں مقیم معروف شاعر ماہرالقادری کراچی کے ماحول اورفضا سے اس قدرخوش تھے کہ انھوں نے ’کراچی نامہ‘ کے عنوان سے کراچی کے لیے ایک قصیدہ مدحیہ لکھا۔اس میں انھوں نے شہرکے حُسن وجمال اورخوب صورتی کا نقشہ کھینچا ہے۔چنداشعار دیکھیے:

کراچی ہے سب بستیوں کی دلھن

یہاں ہر طرف ہے نرالی پھبن

یہاں باغ اور سیرگاہیں بھی ہیں

یہاں چوک اور شاہراہیں بھی ہیں

۵-یہ عروس البلاد صدیوں میں بناتھا۔صدیوں کے ’بناؤ‘کوہم نے چند برسوں میں’ بگاڑ‘ میںبدل کررکھ دیا۔خیال رہے کہ ماحول کو بگاڑنے کی انفرادی کوشش سے اتنی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن جب چاروں طرف بکثرت سیمنٹ اور لوہے کی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں اور جگہ جگہ اونچے اونچے پُل بنائے جائیں تو پھرفطرت بھی انتقام لیتی ہے۔

پاکستان کے کچھ اور بڑے شہروں(لاہور،اسلام آباد،ملتان،پشاور) میں جس طرح کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور کچھ بنائے جارہے ہیں انھیں بروے کار لانے کے لیے ماحول دوست ہزاروں درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹاگیا۔ لاہور میںنہرکے دونوں کناروں پرسڑکوں کووسیع کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹے گئے ۔آخرکار ہائی کورٹ کو درخت کاٹنے پرپابندی لگانی پڑی۔ (برسبیل تذکرہ : سڑکوں کو محض چوڑا کرنے سے ٹریفک کا بہاؤ تیز نہیں ہوتا۔ پیرس اور لندن کی بہت سی سڑکیں ہماری سڑکوںکے مقابلے میں بہت کم چوڑی ہیں، مگر وہاں ٹریفک نہیں رُکتی۔ کیوں کہ قواعد کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے۔یہاں تو خودٹریفک پولیس والے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں۔)

کراچی میں درجۂ حرارت شاید ۴۹ درجے تک چلا گیاتھا۔ پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں بعض اوقات درجۂ حرارت اس سے بھی زیادہ ہوتاہے لیکن وہاں گرمی کی شدت سے بہت کم اموات ہوتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دیہات کا ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔ فضا صاف ستھری اور زہریلی گیسوں سے پاک ہوتی ہے۔چاروں طرف بکثرت سبزہ اور درخت موجود ہوتے ہیں جو رات کوزہریلی گیس جذب کرتے ہیں اور دن بھرآکسیجن چھوڑتے ہیں اور اس طرح ماحول کو صاف بناتے رہتے ہیں۔اس طرح ۲۴ گھنٹے انسانوں کی خدمت میںلگے رہتے ہیں۔

اچھے یا برے ماحول کا اثرانسانی طبیعتوں پر پڑتاہے۔جب دم گھٹے گا،ناک میں دھواں جائے گا، توعین ممکن ہے کسی کے لیے منہ سے کوئی برا لفظ نکل جائے یا بددعانکلے۔ اس کے برعکس اگر فضا خوش گوارہوگی،سبزہ، درخت اور پھول پھلواری نظر آئے گی تو طبیعت میں انبساط پیداہوگا۔ مجھے فضل کریم احمد فضلی کے ناول خون جگر ہونے تک کا ایک نمایاں کردار ذلیل الدّی یاد آرہا ہے، جو ایک غریب شخص تھا مگر بلبل کی آواز سن کر خوش ہوتااور جھوم جھوم جاتا۔ پھردن یارات کے کسی لمحے وہ تصور ہی تصور میں بلبل کی آواز کو یاد کرکے ایک خودساختہ مصرع پڑھا کرتاتھا  ع

بلبل کی چیں چیّ میں آوازِ مرحبا ہے

کائنات میں سب سے اہم چیز کیاہے؟ ’انسان‘ اگر وہی پریشان ہے،مضطرب اور بے چین ہے اور فضائی آلودگیوں کے سبب طرح طرح کے امراض کا شکار ہورہاہے تو پھریہ ترقی، تیزرفتار میٹرو، اُونچے اُونچے پلازے اور دولت کی ریل پیل سب کچھ ہیچ ہے۔ اگر ماحول بہتر نہ بنایا گیاتو بیماریاں بڑھتی جائیں گی۔طرح طرح کے وائرس اور جراثیم انسان کو سکون کاسانس نہیں لینے دیں گے۔

یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ بڑے شہروں کے ماحول کوبہتر بنانے،موجودآلودگیوں کو کم کرنے اور مزید آلودگیوں سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرنی چاہییں۔جس حد تک ممکن ہو ماحول دشمنانہ اقدامات کو قوت اور طاقت سے روکنا چاہیے (اگر سیاسی پارٹیاں اس مسئلے کا ادراک کرلیں تو ان کا احتجاج مؤثر اور ان کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں)۔ اگر قوت نہیں ہے تو زبان ہی سے،تقریروں اور تحریروں کے ذریعے احتجاج فرض ہے کیوں کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔

روشنی کا سفر(اوّل، دوم) ،مؤلف: کرنل (ریٹائرڈ) محمد پرویز۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ۲-ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۰-۰۴۲۔ صفحات:جلداوّل: ۷۶۲، جلددوم: ۵۰۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۱۲۵۰ روپے، ایک ہزار روپے۔

روشنی کا سفر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے موضوع پر دو جلدوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جسے مؤلف نے بڑی محنت و محبت سے اس احساس کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ مختلف   علما کی تفاسیر اور تحریروں میں ایسے خزینے مدفون ہیں جو اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے معروف استاد مولانا محمد اکرم کشمیری صاحب نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ دونوں جلدوں کو الگ الگ عنوان دیا گیا ہے۔ جلداوّل کا نام ’الحکمہ‘ ہے اور جلد دوم کا نام ’الاساس‘ ہے۔

جلداوّل میں توحید، تخلیقِ کائنات، انسان اور اس کا مقصد ِتخلیق، حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ کے بعد حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ، سیرتِ طیبہ، ختم نبوت اور مقصد ِ بعثت کے بارے میں تفصیلی بیان ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات، قرآنِ مجید، صفات المومنین بالخصوص اطاعت ِ رسولؐ، انفاق فی سبیل اللہ، احسان، عدل، آثارِ قیامت اور احوال جنت و جہنم کوبھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسری جلد میں عقائد ِ اسلام، فریضہ اقامت ِدین، اسلامی حکومت کی ضرورت، اہمیت، فرضیت ، اسلامی حکومت کے ادارے اور اسلام کے معاشی نظام پر قرآن و حدیث کی تعلیمات جمع کی گئی ہیں۔

دونوں کتابوں کا حُسن یہ ہے کہ ان میں معروف مفسرینِ قرآن اور اہلِ علم و دانش کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں خوب صورت پیرایے میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ کتاب کے دائرۂ استفادہ کو بڑھانے کے لیے قرآن کے انگریزی تراجم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک قابلِ قدر کاوش اور قابلِ تعریف تحقیقی کام ہے۔مصنف کا ہدف ایک پڑھا لکھا فرد بالخصوص نوجوان ہے۔ انھوں نے استدلال کا پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ فہم و فراست کی دہلیز پر عقائد کے چراغ روشن ہوسکیں۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔(فریداحمد پراچہ)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مستشرقین کے اعترافات، تالیف: حمیداللہ خان عزیز۔ ناشر: ادارہ تفہیم الاسلام، احمدپور شرقیہ، ضلع بہاول پور۔ صفحات:۲۳۰۔ قیمت: درج نہیں۔

یورپ میں مستشرقین نے حضور اکرمؐ کی شخصیت پر گذشتہ دو صدیوں میں خصوصی توجہ دی ہے اور ہر پہلو سے آپؐ کی ذات و صفات کو زیربحث لاکر نئے نئے نکات پیدا کیے ہیں۔اُردو زبان میں سرسیداحمدخاں نے سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کے اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کیے۔     شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی نے بھی سیرت النبیؐ پر مستشرقین پر گرفت کی ہے۔

زیرنظر کتاب میں مغربی مصنفین کے اعتراضات کے بجاے ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا جس میں انھوں نے حضور اکرمؐ کی تعریف وتحسین کی ہے اور آپؐ کے کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ مؤلف نے یہ کتاب رسولؐ اللہ کے تقدس اور ان کی عظمت کی بلندی کے لیے تحریر کی ہے۔

کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب: سیرتِ محسنِ اعظمؐ اور اہلِ عرب، دوسرا باب: محسنِ اعظمؐ کے بارے میں مغرب کے معاندانہ رویے، تیسرا باب: حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور مذہب عیسائیت کا تقابلی مطالعہ، چوتھا باب: اسلام اور عیسائیت میں مذہبی رواداری کا تقابلی جائزہ، پانچواں باب: مغرب کی انکوئزیشن (تعذیب و مظالم)کے ظالمانہ عمل کا فتح مکہ کے حوالے سے حضور اکرمؐ کے عفوودرگزر سے موازنہ۔ چھٹا باب: حضور اکرمؐ کے متعلق مستشرقین کے اعترافات۔

کتاب میں سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کی کتب سے اقتباسات مع ترجمہ بھی شامل ہیں۔ جارج برنارڈشا کا یہ اعتراف لائقِ مطالعہ ہے کہ ’’میں نے محمدؐ کے دین کے متعلق پیش گوئی کی ہے کہ کل یورپ اسے اسی طرح قبول کرے گا جیسے آج کے یورپ نے اسے (غیرشعوری طور پر) اپنانا شروع کردیا ہے‘‘ (ص ۱۶۷)۔ ان کا یہ قول بھی یورپی طرزِفکر کی نقاب کشائی کرتا ہے: ’’زمانہ وسطیٰ کے پادریوں نے جہالت یا اندھے مذہبی تعصب کی وجہ سے محمدؐ کے لائے ہوئے دین کو انتہائی گھنائونی شکل میں پیش کیا ہے‘‘۔

فلپ ہٹی کا یہ قول اعترافِ حقیقت کا اعلان کرتا ہے: ’’محمدؐ عربی کے سوا اور کسی پیغمبر ؑکو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہوئی اور نہ کوئی اُمت کرئہ ارضی پر ایسی موجود ہے، جو اپنے پیغمبر ؑ اور ان کی آل پر شب و روز کے ہر حصے میں تواتر و تسلسل کے ساتھ درود و سلام بھیجتی ہو‘‘ (ص ۲۰۸)۔ آخری باب میں ۶۴ اعترافات دیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کی ذات والاصفات ایسی خصوصیات کی حامل ہے جن کی صداقت کا اعتراف غیرمسلم بھی کرتے ہیں۔(ظفر حجازی)


معروف و منکر، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔صفحات:۳۱۲۔ قیمت: ۱۸۵ بھارتی روپے۔

عالمی تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کی بنیاد امربالمعروف کا فریضہ ہے۔ یہ تحریکات اللہ کے بندوں کو جس چیز کی دعوت دیتی ہیں، اسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِوجود قرار دیا ہے (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰) ۔گویا اُمت مسلمہ وہ بھلائی والی اُمت ہے جس کا بنیادی کام لوگوں کو بھلائی، سچائی، حق اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کی طرف بلانا اور انسانی معاشرے سے ظلم و استحصال اور برائی کا مٹانا ہے۔

مولانا جلال الدین عمری علمی حلقوں میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں اور حقیقی معنی میں علماے سلف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں تصنیف فرمائی تھی۔ اب تقریباً ۴۷سال بعد نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ اسے کتاب کی جدید ترتیب کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔  کتاب کا ہرہرلفظ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اور ۱۰؍ابواب میں ذیلی موضوعات قائم کرکے موضوع کے مختلف پہلوئوں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مولانا نے معروضی طور پر مفسرین، فقہا اور مفکرین کی آرا کو مکمل حوالوں کے ساتھ یک جا کیا ہے اور ان کی روشنی میں راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ عموماً یہ تصور پایا جاتاہے کہ امر بالمعروف ایک فرضِ کفایہ ہے اور اس راے کے حامل شاطبی اور امام ابن تیمیہ جیسے فقہا ہیں۔ دوسری جانب امام غزالی اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ اسی موقف کو شیخ عبداللہ دراز نے اختیار کیا ہے کہ دعوتِ خیر کا کام ہر مسلمان پر واجب ہے کیونکہ اس فرض کو انجام دینا حقیقت میں دین کی ایک عمومی مصلحت کو پورا کرناہے اور اس کے پورا کرنے کا مطالبہ فی الجملہ سب ہی کے لیے ہے۔(ص ۶۶)

ایک اہم پہلو جو محترم مولانا نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، یہ ہے کہ شہادت علی الناس کے فریضے میں امربالمعروف شامل ہے کیونکہ اس کے بغیر شہادتِ حق کا فرض ادا نہیں ہوسکتا (ص۱۰۰)۔ یہ حکم حالات کی تبدیلی کا پابند نہیں ہے، چنانچہ اس کی فرضیت جس طرح مکہ مکرمہ میں تھی ، اتنی بلکہ اس سے زیادہ مدینہ منورہ میں رہی۔ گویا مسلمان دنیا کے کسی خطے میں ہوں، ان کی تعداد اور ان کا قیام مغرب میں ہو یا مشرق میں، انھیں یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔

اس سے آگے بڑھ کر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اہم فریضہ امربالمعروف کا ہے اور اگر غور کیا جائے تو قرآنِ کریم اسے صلوٰۃ اور زکوٰۃ سے متصل بیان کرتا ہے۔ چنانچہ سورئہ حج میں فرمایا گیا کہ اگر اہلِ ایمان کو زمین میں اقتداردیا جائے تو ان کے فرائض میں صلوٰۃ کا نظام قائم کرنا اور زکوٰۃ کا نظام رائج کرنے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کرنا لازم ہے۔

اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گو امربالمعروف ہر حالت میں کیا جائے گا لیکن اقتدار کے حصول کے بعد اسے اس کے تمام حقوق کی ادایگی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کیونکہ قوتِ نافذہ کے بغیر اس کے بعض مطالبات پورے نہیں کیے جاسکتے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ریاست کے اس فریضے کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے قیام میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمام ارکانِ دین کو قائم کرایا جائے، اور معروف کے حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ علومِ دین کو زندہ کیا جائے، جہاد کیا جائے، حدود و تعزیرات کونافذ کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر نہی عن المنکر کے مطالبات پورے نہیں ہوسکتے۔ (ص ۱۴۰-۱۴۳)

شیخ عبدالقادر عودہؒ شہید بھی اسی راے کے حامل ہیں کہ امربالمعروف میں پوری شریعت شامل ہے لیکن اس فریضے کی ادایگی کرتے ہوئے خوداپنا جائزہ اور اپنے عمل سے ثبوت فراہم کرنا امربالمعروف کی روح ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو ایک جملے میں بیان کردیا کہ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ (البقرہ۲:۴۴)

امربالمعروف کے فریضے کی ادایگی ہرسطح پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک شخص کا دائرۂ اختیار جس حد تک ہوگا، وہ اسی حد تک جواب دہ ہوگا۔ تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور قائد کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قیادت چونکہ دوسروں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے دین کے اس بنیادی مطالبے کو اچھی طرح سمجھے بغیر دعوتِ حق کا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کتاب بنیادی تحریکی تصورات کو واضح کرنے میں غیرمعمولی مدد فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ محترم مولانا کو اس کا بہترین اجر دے اور دعوتِ دین کو پیش کرنے کے مزید مواقع سے نوازے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


شیئرز بازار میں سرمایہ کاری، موجودہ طریقۂ کار اور اسلامی نقطۂ نظر، ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ملنے کا پتا: ڈی ۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔ فون: ۲۶۹۵۴۳۴۱۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۸۰بھارتی روپے۔

دورِ جدید میں اسٹاک مارکیٹ یا شیئرز بازار کو کسی بھی ملک معیشت کا درجۂ حرارت کہا جاتا ہے۔ کاروبار ترقی کر رہے ہوں تو شیئرز بازار میں اچھے حالات دیکھے جاتے ہیں اور کاروباری حالات کی خرابی کا اثر شیئرز بازار پر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سیاسی حالات اور بین الاقوامی مالیاتی و سیاسی تبدیلیاں بھی اس بازار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس کاروبار سے ہر ملک میں لاکھوں افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں دورِ جدید کی بہت سی خرابیاں اور غیرشرعی معاملات اس بازار میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اُردو زبان میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مختصر رسالہ مولانا تقی عثمانی نے۱۹۹۴ء میں لکھا۔ اس کے بعد ایک تفصیلی کتاب جناب عبدالعظیم اصلاحی نے ۱۹۹۹ء میں لکھی اور دہلی (بھارت) سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیئرز بازار کی تعریف سے لے کر اس کے عملی پہلوئوں اور خرابیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مصنف نے اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بھی پیش کیا، جس میں مختلف علما کی آرا بھی شامل کی گئیں۔

اس کتاب کی خوبی یہ تھی کہ اسلامی معاشیات کے حوالے سے وقیع ترین شخصیت جناب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے دیکھا اور پسند فرمایا اور یہ تبصرہ کیا کہ ’’اصلاحی صاحب نے اس کتاب میں شیئرز کی ماہیت اور شیئرز بازار کا عمل سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے اور اس سے متعلق علما کی رائیں بھی نقل کردی ہیں جس سے ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔ مگر ان کا اصل کام ان کی اپنی رائیں اور دوسروں کی رائیں کا تنقیدی جائزہ ہے، جسے مَیں نے متوازن اور معقول پایا ہے‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب کا نظرثانی شدہ اڈیشن جنوری ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے جس میں    صکوک کے موضوع پر ایک باب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور کچھ فصلوں کا اضافہ شیئرز بازار میں روزمرہ ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ اس طرح گذشتہ ۱۵برسوں میں شیئرز بازار میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق آرا کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے، جس سے اس کتب کی وقعت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میدان میں کام کرنے والے افراد کے لیے ایک اچھی گائیڈ مارکیٹ میں مہیا ہوگئی ہے، اور محققین کے لیے بھی ایک راہ متعین ہوگئی ہے۔ (ڈاکٹر میاں محمد اکرم)


پاکستان کی روحانی اساس، پروفیسر محمد یوسف عرفان۔ ناشر: سنگت پبلشرز، ۲۵-سی، لوئر مال، لاہور۔فون: ۳۷۳۵۸۷۴۱-۰۴۲۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

پروفیسر محمد منور (م: ۲۰۰۰) معروف ادیب، شاعر، مترجم اور خطیب تھے اور علامہ اقبال، قائداعظم، دو قومی نظریہ اور نظریۂ پاکستان کے متخصص تھے۔ ان کی جملہ تصانیف انھی موضوعات کی تشریح و تعبیر پر مبنی ہیں۔پروفیسر محمد یوسف عرفان (استاد شعبۂ انگریزی، اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور) ان کے تربیت یافتہ اور خاص شاگرد ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب کے مضامین بھی انھی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں (پاکستان کی روحانی اساس، پاکستان اور ریاست مدینہ، علامہ اقبال ایک کامل صوفی، اقبال، جہاد اور یہودیت وغیرہ)۔ پاکستان کے قیام میں علامہ اقبال کی فکری رہنمائی اور قائداعظم کی عملی جدوجہد شامل ہے۔ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق اور ڈاکٹرنذیراحمد قریشی مستعد اور کوشاں رہے۔

کتاب کا ایک ایک حصہ مؤخرالذکر دو صاحبوں کی خدمات اُجاگر کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ یوسف عرفان بھی اپنے استاد پروفیسر محمد منور کی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کو ’عالمِ اسلام کا عظیم ہیرو‘ سمجھتے ہیں جو ’’بیرونی اور اندرونی سازش کا شکار ہوگیا‘‘۔ ان پر پانچ مضمون شامل ہیں (جن میں سے ایک پروفیسر محمد منور کے قلم سے ہے)۔ نذیر احمد قریشی، ایک صاحب ِدل اور    ’اللہ والے بزرگ‘ تھے۔ مرزا صاحب سے ان کی صحبت رہتی تھی اور دونوں اکثر شام اکٹھے گزارتے تھے۔ کبھی کبھی یوسف عرفان بھی ساتھ ہوتے۔ مستقبل کے بارے میں ان کی باتیں او ر پیش گوئیاں (جیسے جارج بش صدر بنیں گے، افغانستان میں جہاد کے بعد فساد ہوگا، پاکستان میں مارشل لا لگے گا) بالعموم درست ثابت ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس کتاب کو ’اَنمول دستاویز‘ قرار دیا ہے۔ جنرل حمید گل، راجا ظفرالحق، مفتی لطف اللہ، مجیب الرحمن شامی اور جسٹس (ر) نذیراحمد غازی ایسے ثقہ بزرگوں اور اہلِ قلم نے کتاب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ مصنف کے اپنے بقول: ’’ان کی دیگر بہت سی کتب کا مواد تیار ہے‘‘۔ درخواست ہے کہ انھیں بھی (کاہلی برطرف کرتے ہوئے) شائع کرا دیجیے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تنقیدی افکار، شمس الرحمن فاروقی۔ ناشر: یکن بکس، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۰۳۰-۰۴۲   + گلگشت کالونی ، ملتان: فون: ۶۵۲۰۷۹۱-۰۶۱۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۵۴۰ روپے

جناب شمس الرحمن فاروقی دورِحاضر کی معروف اور نام وَر ادبی و علمی شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر وہ نقاد ہیں لیکن تحقیق، لغت، شرح، افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں بھی ان کی بلندپایہ نگارشات اور عالمانہ تحقیقی کاموں کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں سول سروس کے اُونچے عہدے سے  کئی برس پہلے وظیفہ یاب ہوکر الٰہ آباد میں مقیم ہیں۔ طویل عرصے تک ادبی رسالہ شب خون نکالتے رہے۔ ان کی مختلف النوع تصانیف و تالیفات کی تعداد صحیح تو معلوم نہیں مگر ۳۰، ۴۰ سے کم   نہ ہوں گی۔زیرتبصرہ کتاب کا یہ تیسرا اڈیشن کُل ۱۳ مضامین پر مشتمل ہے۔

دیباچے میں فاروقی صاحب نے اسے ادب کے ’نظری مباحث‘ پر مشتمل ’نظری تنقید‘ کی کتاب قرار دیا ہے۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے : ’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟‘ فاروقی صاحب کا خیال ہے کہ پچھلی نسل کے تمام نقاد بشمول حالی کسی نہ کسی حد تک موضوعی اور موضوعاتی دھوکے میں گرفتارتھے۔ موضوع کی اچھائی یا بُرائی سے ادب کا معیار متعین نہیں ہوتا اور کسی مخصوص فلسفے یا نظریے کا اظہار فن پارے میں کرنا تضیع اوقات ہے۔ اس پیمانے سے فاروقی صاحب نظریاتی تنقید کو رد کرتے ہوئے ترقی پسند نقادوں پر گرفت کرتے ہیں۔

ایک تفصیلی مضمون مسعود حسن رضوی ادیب کی کتاب ہماری شاعری پر ہے۔ ان کے خیال میں یہ کتاب نظریہ سازی اور کلیہ تراشی کی ایک غیرمعمولی کوشش ہے۔ دیگر مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں:’ارسطو کا نظریہ ادب‘، ’نثری نظم یا نثر میں شاعری‘، ’نظم کیا ہے؟‘، ’داستان اور ناول: بعض بنیادی مباحث‘۔ ۵۷صفحات پر مشتمل طویل مضمون ’اصنافِ سخن اُردو لغات اور لغت نگاری میں‘ انھوں نے اُردو لغت نگاروں اور اُردو لغات کی خامیوں کی کوتاہیوں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اس وقت تک تمام لغات نقصِ فکر اور نقصِ عمل کا نمونہ ہیں، اس لیے ہمیں اس مردِ غیب کا انتظار کرنا چاہیے جو ایک اطمینان بخش لغت تیار کرے گا۔

شمس الرحمن فاروقی کی تحریر ہمیشہ ایک تازگی اور ندرت کا احساس دلاتی ہے۔ وہ نہ صرف اُردو ادب (بشمول کلاسکی ادب) کا بلکہ فارسی اور انگریزی ادبوں کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ ’اواخرصدی میں تنقید پر غوروخوض‘‘ میں انھوں نے مغرب کی اہم فکری اور ادبی کتابوں اور جدید ادبی نظریات کا ذکر کیا ہے۔ فوکو اور دریدہ کے خیالات و نظریات پر بھی بحث کی ہے۔ آخر میں بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آج ہمارے لیے ایک بڑا کام یہ ہے کہ اپنی تہذیبی میراث کی قدروقیمت کو پھر سے قائم کریں اور اس سلسلے میں کلاسکی شعریات کو اسٹیج کے مرکز پر لانا ناگزیر ہے‘‘۔

تنقید خصوصاً نظری تنقید ایک خشک موضوع ہے جیسے پڑھنا پڑھانا آسان نہیں ہوتا مگر فاروقی صاحب کے یہ مضامین اتنے دل چسپ پیرایے میں لکھے گئے ہیں کہ ادب کے باذوق قاری کو پڑھتے ہی بنتی ہے۔ بیکن بکس نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ کتاب میں اشاریہ بھی شامل ہے جو اس کی اضافی خوبی ہے۔ آخری صفحے پر فاروقی صاحب نے ترقیمہ لکھ کر کلاسکی ادب اور مخطوطات سے اپنی دل بستگی کا اظہار کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مشاہیرِ ترک، ڈاکٹر دُرمش بلگر۔ ناشر: رومی چیر براے ترکی زبان و ثقافت، پنجاب یونی ورسٹی، علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس، لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

اگر سوال کیا جائے کہ کس اسلامی ملک سے پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی، دلی اور ذہنی تعلقات چلے آرہے ہیں؟ تو جواب ایک ہی صحیح ہوگا:ترکی__ وجوہ بہت سی ہیں مگر بنیادی   اور اہم ترین وجہ تحریکِ خلافت میں ہندی مسلمانوں کا ترکوں سے اظہارِ یک جہتی ہے۔ پھر   سقوطِ خلافت ِ عثمانی پر ہندی مسلمانوں کا شدید رنج و غم کا اظہار بھی ایک اہم وجہ تھی۔ چنانچہ ہمارے تمام تر زوال و اِدبار کے باوجود، ترک عوام پاکستان سے غیرمعمولی محبت رکھتے ہیں۔ سلطنت ِ عثمانیہ (اور ماقبل دور) میں ترکی کی بعض شخصیات نے اپنے اپنے شعبوں میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر دُرمش بلگر تین سال سے پنجاب یونی ورسٹی میں قائم مسند رومی پرفائز ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب ۳۰ ترک شخصیات کے تعارف اور کارناموں پر مشتمل ہے۔ ان میں علماے دین ہیں، مصلحین اُمت اور صوفیاے کرام کے ساتھ دانش ور اور سائنس دان بھی ہیں مگر سب باکمال لوگ ہیں، مثلاً ریاضی دان اور ماہرفلکیات الغ بیگ (۱۳۹۳ئ-۱۴۴۹ئ) جو تیمور کی نسل سے تھے، ۳۸سال تک سمرقند کے حاکم رہے۔ حکمرانی کے ساتھ علم دوست ایسے کہ علمی موضوعات پر اہلِ علم کے ساتھ مناظرہ کیا کرتے۔ ایک رصدگاہ قائم کی، اس کے سائنسی تجربات اور مشاہدات پر مبنی کتاب زیجِ گورکانی بہت معروف ہے۔ ان کے دور میں علمِ فلکیات میں بہت ترقی ہوئی اور فلکیات کے جدید آلات ایجاد ہوئے۔ الغ بیگ کا حافظہ اتنا تیز تھا کہ جس کتاب کو ایک بار پڑھ لیتے، وہ انھیں حرف بہ حرف یاد ہوجاتی۔

اسی طرح اولیاچلبی (۱۶۱۱ئ-۱۶۸۲ئ) تاریخ کو نیا رُخ دینے والے ترک سیاح تھے۔ انھوں نے مجموعی طور پر ۵۰سال تک سیروسیاحت میں گزارے۔ شرقِ اوسط، یورپ اور افریقہ کے بیش تر ممالک کی سیر کی اور باریک بینی سے کیے گئے مشاہدات اپنی کتاب سفرنامہ میں قلم بند کیے جو ۱۰جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد ۱۸۹۶ء میں اور آخری جلد ۱۹۳۸ء میں منظرعام پر آئی۔ مشاہیر ترک میں معروف دینی شخصیات بدیع الزماں نورسی (۱۸۷۸ئ-۱۹۶۰ئ) کا ذکر ہے اور زمانۂ حاضر کے ایک استاد، محقق، ادیب اور اقبال شناس عبدالقادر کراخان (۱۹۱۳ئ-۲۰۰۰ئ) کے حالات بھی شامل کتاب ہیں جو کلاسیکی ترکی ادب کے ساتھ ’’لوک ادب، تاریخ، حدیث اور دیگر اسلام علوم کے علاوہ ایرانی علوم میں بھی یکتا تھے‘‘(ص ۹۱)۔ اسی طرح سلطنت ِ عثمانیہ کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات سنان (۱۴۹۰ئ-۱۵۸۸ئ) کے تعمیری کارناموں کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے بیسوں جامع مساجد، مدرسے، دارالقرا، مقبرے، حمام، نہریں، ہسپتال، پُل اور مہمان سرائیں تعمیر کرائیں۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم دنیاے اسلام کے مشاہیر ہی سے نہیں، مسلم تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں رجال کے تذکروں اور مشاہیر پر کتابوں میں ان مایہ ناز ہستیوں کا ذکر نہیں ملتا۔ طلبا کے لیے خاص طور پر اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ مشاہیر کی تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)

وابستگانِ اُردو زبان و ادب خصوصاً ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں اور تحریکِ اسلامی کے حلقوں کے لیے ڈاکٹر سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کی رحلت (یکم ستمبر ۲۰۱۳ء) ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک معلم تھے اور اس حیثیت سے انھوں نے ہزاروں تلامذہ کی تعلیم و تربیت کی۔ وہ تحریک ادب اسلامی ہند کے قافلہ سالاروں میں سے تھے۔ مسلسل ۲۴ برس وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور تقریباً ۳۷ برس سیکرٹری جنرل رہے۔

سیّد عبدالباری ۷ ستمبر ۱۹۳۷ء کو یو پی کے ضلع فیض آباد کے ایک قصبے ٹانڈا میں پیدا ہوئے۔ گورکھ پور یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ پھر وہیں سے ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایم اے اُردو میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازاں اسی لکھنؤ یونی ورسٹی سے انھیں اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی۔ اس سے پہلے چند سال تک وہ رام پور کی ثانوی درس گاہ اور مدرسۃ الاصلاح سراے میر، اعظم گڑھ سے عربی زبان و ادب کی تحصیل کرتے رہے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح میں انھیں عروج احمد قادری، جلیل احسن ندوی اور صدر الدین اصلاحی جیسے علما سے کسبِ فیض کا موقع ملا اور رام پور میں انھیں مائل خیرآبادی، مولانا عبدالحی، افضل حسین اور مولانا حامد علی کی راہ نمائی حاصل رہی۔

ابتدا میں وہ انگریزی کے لیکچرر رہے۔ بعدازاں اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے ملحق گنپت سہاے پوسٹ گریجویٹ کالج سلطان پور میں طویل عرصے تک اُردو کے استاد رہے اور یہیں سے بطور صدر شعبہ اُردو وظیفہ یاب ہوئے۔

درس و تدریس کے ساتھ شاعری اور تنقید ادب کے شعبوں میں بھی ان کا قلم برابر رواں رہا۔ ان کا قلمی نام ’شبنم سبحانی‘ تھا۔ ۲۰۰۹ء میں ۵۵ سال کی منتخب نظموں کا مجموعہ فکر انگیز  شائع کیا۔ ان نظموں میں فن پر فکر کو فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن بیش تر منظومات سے ان کی شاعری کی تاثیر، اس کی فنی دل کشی اور فکر انگیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کا دوسرا شعری مجموعہ طرب خیز  غزلوں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی شاعری ایمان و یقین اور امید و روشنی کی شاعری ہے اور قاری کو حوصلہ، عزم اور ولولہ عطا کرتی ہے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں، نہایت کامیاب مشقِ سخن کی ہے۔

بعدازاں شاعری سے قدرے بے رخی برتتے ہوئے وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’شبنم سبحانی‘ نے قلم رکھ دیا اور ’سیّد عبدالباری‘ نے قلم سنبھال لیا۔ بقول ڈاکٹر نیاز سلطان پوری: ’’شاعر پر نثر نگار غالب آگیا اور اپنے اصل نام سے انھوں نے کتابیں لکھنی شروع کیں‘‘۔

بیسویں صدی کی ۱۴ممتاز شخصیات سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی رُوداد انھوں نے ملاقاتیں کے عنوان سے ۲۰۰۳ء میں شائع کی۔ یہ انٹرویو (مصاحبے) دوام اور دوامِ نو  کے زمانۂ ادارت میں، تمام حضرات سے ان کے مستقر پر حاضر ہوکرلیے گئے۔ ان میں قاری محمد طیب، عبدالماجد دریا بادی، محمد مسلم، بدر الدین طیب جی، مولانا صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر سیّد محمود،   مولانا ابو اللیث اصلاحی اور سیّد ابوالحسن علی ندوی شامل ہیں۔ یہ مصاحبے، روایتی انداز کے سوال و جواب تک محدود نہیں۔ وہ بھرپور انداز سے شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ (ان تعارفات میں وہ ایک کامیاب مرقع نگار اور خاکہ نویس کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں) اور ان شخصیات کی قیام گاہوں تک پہنچنے کی رودادِ سفر بیان کرتے ہیں۔ یوں ان مصاحبوں کو پڑھتے ہوئے سفرنامے کا لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت کی سیاست کے نشیب و فراز اور بطور اقلیت مسلمانوں کی زندگی اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے ملاقاتیں نہایت اہم ہے، بلکہ اس کی حیثیت حوالے کی ایک کتاب کی ہے۔

۲۰۰۹ء ہی میں سیّد عبدالباری صاحب نے انوکھے لوگ، نرالی باتیں شائع کی جو بیسویں صدی کی ۲۰ ’نرالی شخصیتوں‘ کے خاکوں اور ان کے افکار و خیالات پر مشتمل ۲۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔’انوکھے لوگوں‘ میں مولانا حسین احمد مدنی، سیّد مودودی، حکیم اجمل خان، سیّد محمود، ابوالکلام، حسرت موہانی، آیت اللہ خمینی، صدر الدین اصلاحی، مولانا دریا بادی اور ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خاکے (یا مضامین) تعارفی و سوانحی ہیں اور تنقیدی و تبصراتی بھی۔ زیادہ تر انھوں نے شخصیات کے محاسن بیان کیے ہیں اور معائب سے صرفِ نظر کیا ہے۔

لکھنؤ کا شعر و ادب ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھوں نے گورکھپور یونی ورسٹی سے    پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی تسلسل میں انھوں نے لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) کے عنوان سے ایک اور کتاب شائع کی جسے وہ خود  اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ’دوسرا حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔

تنقیدی مقالات کے پانچ مجموعے (ادب اور وابستگی، کاوش نظر، نقد نوعیار، آداب شناخت، افکار تازہ) ان سے یادگار ہیں۔ آداب شناخت پر اظہار خیال کرتے ہوئے، اُردو تحقیق و تنقید کی نامور اور بزرگ شخصیت ڈاکٹر محمودالٰہی نے لکھا: ’’ان کی تحریر پختہ اور فکر نہایت مستحکم ہے۔ وہ حق و ناحق، خیر و شر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ اسلامیات کے گہرے مطالعے کا اثر ان کی تحریروں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں‘‘۔

سیّد عبدالباری کی فکر و سوچ اور قلمی کاوشوں کا دائرہ شعر و ادب تک محدود نہ تھا۔ وہ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور مسلمانوں کے مسائل پر بھی سوچتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے سیکڑوں مضامین اور کالم لکھے۔ مزید برآں چند ایسی کتابیں بھی شائع کیں جن کا تعلق مسلم معاشرے میں اخلاقی و دینی اقدار کی ترویج اور افراد امت کی تربیت ذہنی و دینی سے ہے، مثلاً: اسماے حسنٰی اور کردار سازی‘ جمہوریت، انسان دوستی اور اسلام‘ اسلام میں آدابِ اختلاف وغیرہ۔

ڈاکٹر سیّد عبدالباری فکری اعتبار سے ادب اسلامی کے علم بردار تھے۔ جیسا کہ ابتدا میں  ذکر آچکا ہے، انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور سیکرٹری کی حیثیت سے چھے دہائیوں تک خدمات انجام دیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر شکیب ارسلان کے بقول: ’وہ ایک پھرتیلے اور active شخص تھے‘۔ ادب اسلامی کے وابستگان کو متحرک کرنے کے لیے وہ خطوط نگاری اور مضمون نویسی کے ذریعے برابر کوششیں کرتے رہے۔ حیاتِ مستعار کے آخری عشرے میں انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ پیش رفت  دہلی کی ادارت کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ آخری زمانے میں وہ آل انڈیا ملّی کونسل کے ماہنامے ملّی اتحاد سے بھی منسلک رہے اور اپنے رشحاتِ فکر سے قارئین کی ذہنی آبیاری اور ان کی راہ نمائی کرتے رہے۔

سیّد عبدالباری سے راقم کے قلمی رابطے کا آغاز ۶۰ کے عشرے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات سے چندماہ پہلے تک خط کتابت رہی اور کبھی ٹیلی فون پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا۔ ہمارے درمیان تصانیف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ___ (اس تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں)۔

اُردو شعر و ادب کی دنیا بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کے دو الگ الگ ایسے خطوں میں منقسم ہے جن کے بیش تر شاعر، ادیب اور نقاد افسوس ناک حد تک ایک دوسرے سے ناآشنا ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے ادبی حلقوں میں سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کا نام کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ خود بھارت کے نقادوں اور تاریخ نویسوں نے شبنم سبحانی کے تخلیقی ادب اور ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کو نظر انداز کیا ہے۔ اس پر بھی تعجب نہیں ہے کیوں کہ مرحوم شبنم سبحانی ادب میں صالح فکر اور اخلاقی اقدار کے علم بردار تھے۔

اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے بہت اچھی بات کہی ہے:   ’جو آیاہے، اُسے جانا ہی ہے لیکن ایسے کثیر الجہات لوگ جو معلم بھی ہوں، ادیب بھی، صحافی و نقاد  بھی ہوں اور کسی حد تک سیاسی میدان میں سرگرم عمل بھی، اُن کا اُٹھ جانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔  ڈاکٹر عبدالباری (شبنم سبحانی) کی وفات ایک ایسا ہی حادثۂ فاجعہ ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ   ؎

آسماں ’اس کی‘ لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

فقر کے ظاہری اورلغوی معنی توافلاس،محتاجی ،تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگرعلامہ اقبال  اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظرکرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں،یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کاتعلق ہے،اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِامت کوکامیابی اورسربلندی کی معراج تک پہنچاسکتاہے۔حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں   کہ  ع

کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی

(بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲)

فقرکایہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کی حیات طیبہ سے اخذکیاہے۔

نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کانمونہ اورفقرکی عملی تفسیرہے۔متعددروایات میں بتایاگیاہے کہ اِدھراُدھرسے جو تحائف،ہدایا، مال ومنال اورزروجواہرآتا،آپؐاسے فی الفور  تقسیم کردیتے۔اپنے لیے یاگھروالوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہرلاکرآپ کے قدموں میںڈھیرکردیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔آپؐنے اس پیش کش کو پرکاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسولؐ سے ہٹ کرسمجھناممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقرایسی ’متاعِ مصطفی ؐ ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو  وراثت میں عطا ہوئی ہے اورآپ نے اُمت کو اس کاامانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا    ؎

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفیؐ ست

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

چوں کہ رسول اللہؐ کوحجازسے نسبت تھی،اس لیے علامہ متاع فقرکو’’حجازی فقر‘‘کہتے ہیں :     ؎

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی

(ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰)

یہاںبھی اشارہ رسولؐ اللہکی طرف ہے جن کا طریق فقرآج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کاذکراس طرح کرتے ہیں:     ؎

اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی

یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری

(ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱)

علامہ اقبال نے ’؎فقرغیور‘کی ترکیب’غیراسلامی فقر‘کے متضادکے طورپراستعمال کی ہے۔  فقرغیور اور غیراسلامی فقردوایسے مختلف اور متضادرویے ہیںجومتوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میںنہیںملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘میں دونوں اصنافِ فقرکاباہمی موازنہ کیاگیاہے۔ایک فقر،  کم ہمتی،بزدلی اورپسپائی سکھاتاہے۔ دوسری نوعیت کافقر امامت وامارت کاراستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیرؓسے جوڑتاہے:     ؎

اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری

اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری

اِک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری

(بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲)

سیدنذیرنیازی کے نام۲۱؍اکتوبر۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِغیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳)ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کوعین اسلام قراردیاہے۔ان کے نزدیک اسلام اورفقرِغیورپورے دین پرمحیط ہے:      ؎

لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور

(ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳)

علامہ اقبال نے فارسی اوراردوشاعری میں قلندر،مردقلندر،درویش ،بندۂ درویش اورمردِکامل جیسے الفاظ وتراکیب کوفقرغیورکے معنوں میں اورفقیرکے متبادل اورمترادف کے طورپراستعمال کیاہے۔ایک جگہ کہتے ہیں:      ؎

قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا

(بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸)

گویاتوحید، مردِقلندرکاسرمایۂ حیات ہے اور یہی فقرکی کلید ہے۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتاہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی‘پیداہوجاتی ہے۔حضرت علی ہجویری نے اس کی تائیداس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسواتمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کانام فقرہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعیدؒکاقول نقل کیا ہے کہ اصل فقیروہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔(ایضاً،ص۸۷)یعنی اللہ اسے کافی ہواور   وہ خودکو اللہ کے سواکسی کا’’بندہ‘‘نہ سمجھے،نہ وہ کسی سے ڈرے،نہ کسی سے دبے اور’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘کے مصداق ،نہ وہ کسی کے سامنے سرجھکائے ۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ لکھتے ہیں:[فقر]ایک روحانی کیفیت،ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برترمقاصدزندگی کومادی لذائذ اورقریبی ترغیبات پرترجیح حاصل ہوتی ہے۔فقرفردکے اندرایک خاص قسم کاوقار،ایک خاص قسم کامیلانِ بے نیازی پیداکرتاہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت،مادی طرزِ فکر، حُبّ ِدنیا،ہوسِ جاہ ومنصب اورآل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اورساراکرّوفربے حقیقت معلوم ہوتاہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتااوراسی پربھروسا کرتاہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اورشاہوںسے بھی بلندوبرتراوراُونچاہوتاہے،بشرطیکہ اس کی فقیری میں  اسوۂ رسولؐ اللہ اور اسوۂ صحابہؓ کے آثار پائے جاتے ہوں۔فرماتے ہیں:    ؎

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی

(بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹)

؎ نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

                (ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰)

؎ فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ

                (ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹)

ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی

(ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷)

حضرت علی ہجویریؒ کے نزدیک فقرکی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ،بلکہ دل کو دنیاکی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف  المحجوب،ص ۸۴)

علامہ اقبال کے تصورِفقر کوترک دنیا،سکوںپرستی،خانقاہیت یاگوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتاہے اورزندگی کا ارتقا،کش مکش اورحرکت وجدوجہدہی سے ممکن ہے۔راہب جس سکوں پرستی کاقائل ہے،وہ تحرک اورفعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیمکی نظر’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہاہے:    ؎

کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی

سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

(ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲)

اقبال گوشہ گیری کے اسی حدتک قائل ہیں،جس حد تک اسوہ ٔرسولؐ اجازت دیتاہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اوریہ خلوت نشینی بھی ذکرالٰہی، فکرِآخرت، ضبطِ نفس،خوداحتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام   خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنت ِنبویؐمیں اعتکاف کرنا،نہ صرف کارِثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اورصفاے قلب کے لیے ایک سازگارماحول بھی فراہم کرتاہے۔

علامہ اقبال جن اخلاق واوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں،ان میںصبروشکر،تسلیم ورضااور  حلم وانکسار بھی شامل ہیںمگر اس تسلیم ورضا کے معانی،بے کسی ،ناتوانی یاضعف کے نہیںہیں۔   فقر تحرک و جرأت کانمونہ ہوتاہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتاہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اوربے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔اقبال کے تصورِفقر میں اس کی گنجایش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے۔چوںکہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے،اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کاخوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں:    ؎

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

(بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶)

وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکاربندہوتاہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ فقراورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری،بوے اسداللّٰہی،سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔تاریخ وروایات میں حیدر،شبیراورتیمورغیرمعمولی جرأت اورعزم وہمت کی علامتیںہیں۔اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتاہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیمکی نظم’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کااظہار ہے۔

فرماتے ہیں:    ؎

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم

                (ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲)

بے باکی وبے تابی اوراظہارجرأت وقوت فقرکی پہچان ہے۔یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کاپاسبان اورمحافظ ہے:  ع 

زندہ حق از قوتِ شبیری است

(اسرارورموز،ص۱۱۰)

کسی معرکے میںاگراسے وقتی طورپرپسپابھی ہونا پڑے ،تب بھی وہ ذہنی طورپرشکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کااقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتاہے۔

مردِ فقیرفلاح انسانیت کاعلمبردار ہے۔وہ فطرت پر بھی غالب آسکتاہے اورتسخیرجہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں:     ؎

فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند
بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

؎ فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات

(ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸)

اقبال کے تصورفقرکا،قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقراپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثرکرداراداکرسکتاہے۔دنیا کی قیادت اور امامت فقیرکی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افرادفقرکی صفت کو اپنائیں۔امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی،اور  حقیقی اسلامی فقرکو ترک کردیا تو زوال واِدباراورپستی ونکبت کا شکارہوگئی۔ علامہ فرماتے ہیں:    ؎

یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی

(ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳)

؎  نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ

(بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵)

؎ اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز

(ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸)

علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میںپہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیاہے۔ اقبال کا شاہین کارزارِحیات میں چندمخصوص امتیازات رکھتاہے۔فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میںاسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خودداراورغیرت مندہے کہ اورکے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲)بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلندپروازہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیزنگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴)

گویاشاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجودہیںجوفقیرکی زندگی کالازمی جزوہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاںیوں محسوس ہوتاہے جیسے انھوںنے فقر کی تجسیم آںحضوؐرکی ذات مبارک میں کی ہے۔اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت شبیرؓ اورحضرت خالدؓبن ولیدکوبھی ایسے مردان ِقلندرمیں شمار کرتے ہیں جن کاوجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتاہے:     ؎

آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او
شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او

بر نیفتد ملتے اندر نبرد
تا درو باقیست یک درویشِ مرد

(پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷)

اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘اور’مردفقیر‘قراردیتے ہیں۔فقر کو وہ اپنے لیے باعث ِعزت وفخر سمجھتے ہیں۔وہ فقرکوشاعری سے بھی برترقراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولت ِفقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں:     ؎

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟

(بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰)

؎ مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر

(ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹)

؎ مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی

(ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸)

علامہ کا دعواے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں،انھوںنے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتاہے۔مزاجاًوہ درویش تھے۔مولانا غلام رسول مہرطویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میںحاضررہے۔سفروحضرمیں بھی ساتھ رہا۔وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔   یہ ان کے کلام میں بار بار نظرآتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو’فقیر ‘اور’دریش ‘ اور’قلندر‘کہہ کرپکارتے تھے تو یہ کوئی شاعر انہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کااظہارتھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری ، قلندری، توکل اور خداکے سواہرشے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دورمیں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲)

حیات اقبال کے بعض واقعات،ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کاپانچ سوروپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ اس کے محرک سرراس مسعود تھے۔ سرراس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوںاورسرآغاخاں کی طر ف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہوجائیں۔ان کی درخواست پر آغاخان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کرلی مگر خوداقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیںکیا۔ ۱۱؍دسمبر۱۹۳۵ء کو راس مسعودکے نام ایک خط میںلکھا:’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقررفرمائی ہے ،وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔بہترین مسلمانوں نے سادہ اوردرویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرناروپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵)

اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد،علامہ کوسیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر۱۹۳۰ء میں انھوں نے جایدادمیں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویزبھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰)

اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباددکن سے سراکبرحیدری کا بھیجاہواایک ہزارروپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ (ارمغانِ حجازاردو،ص۴۸؍۶۹۰)علامہ کا  یہ مصرع خودانھی پر صادق آتاہے:  ع

فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد

(پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳)

اقبال کا تصورِفقراُردوشاعری میں ایک نیااور منفرد تصورہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یاترک ِدنیا سے اس کا علاقہ نہیںبلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقرکامتحرک اور برسرِعمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتاہے اورمثبت اوراخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت منداورپاکیزہ بنانے میں معاونت کرتاہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہ ِاستغنااس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندرنیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔

علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیاہے کہ نہ صرف فردکے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت منداور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقرکا رویہ اورقلندرانہ طرزِ عمل اپناناضروری ہے۔

کتابیات

۱-            اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء

۲-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء

۳-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ)۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء

۴-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۵-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۶-            اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء

۷-            حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء

۸-            سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء

۹-            علی ہجویری،شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء

۱۰-         مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء

 

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ نامسعود میں جس نام نہاد روشن خیالی کا بیج بوکر ایک زہریلا پودااُگایا گیا تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں وہ سیکولرزم، اباحیت پسندی اور فکری انتشار اور نظریۂ پاکستان سے انکار جیسے کڑوے کسیلے اور زہریلے برگ و بار لے آیا ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہر تو صبح وشام ’عوام عوام‘ کی رَٹ لگاتی ہے اور ’جمہوریت جمہوریت‘ کی دُہائی بھی دیتی ہے مگر پاکستان کی نظریاتی جہت کے ضمن میں اسے نہ تو عوام کی اُمنگوں کی کوئی پروا ہے نہ جمہور کی خواہشات کا کوئی پاس و لحاظ۔ اس کے برعکس یہ پارٹی بلاتامّل ہر وہ اقدام کر گزرتی ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت دھندلی ہوتی ہے اور جس سے اسلامی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔

کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں حکمران طبقہ (سرکاری منصب داروں، نوکر شاہی اور برسرِاقتدار پارٹی کے وزرا وار ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سمیت) واضح طور پر بدعنوانیوں،   بے ایمانیوں اور طرح طرح کی کرپشن کی بہتی گنگا میں نہاتا نظر آئے؟ پھر یہ کہ ان کے متعدد اہم لوگ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے منکر اور سیکولرزم اور ’روشن خیالی‘ کے وکیل بن جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زیرنظر کتاب کے مؤلف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں سیکولر لابی، اس کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ چلانے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس سلسلے میں اُنھیں سیکولر دانش وروں، بعض بھارتی صحافیوں، رقص و موسیقی کے دل دادگاں، میلوں، ٹھیلوں اور بسنت کے شائقین، ویلنٹائن ڈے اور میراتھن ریس کے رسیا، بعض سرکاری عہدے داروں اور کچھ غیرسرکاری کالم نگاروں، برقی ذرائع ابلاغ، اینکروں کے ایک طبقے اور چند اخبارات کی تائید حاصل ہے۔ ان لوگوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے اور اُنھیں قائدعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی صورت میں ایک ہلدی کی گانٹھ مل گئی ہے، جس کے  بل بوتے پر انھوں نے سیکولرزم اور آزاد خیالی کی دکان کھول لی ہے۔ حالیؔ کیا خوب کہہ گئے   ؎

مال ہے نایاب، پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالیؔ نے کھولی ہے دکان سب سے الگ

اگر آپ اس ٹولے کی صفوں پر نظر ڈالیں اور ان کے ماضی پر غور کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ طبقہ پرلے درجے کا موقع پرست ہے۔ ان موقع پرستوں میں ایک تو وہ ’ترقی پسند‘ ادیب اور دانش ور صحافیوں کا طائفہ شامل ہے، جس کا ’قبلہ‘ روزِ اوّل ہی سے ماسکو رہا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں ’سرخ سویرا‘ طلوع ہوا تو روس کے سوا انھیں ساری دنیا میں اندھیرا نظر آنے لگا۔ یہ لوگ کریملن سے جاری ہونے والے ہرنظریے، بیان اور موقف کو وحی کا درجہ دیتے ہوئے اس پر آمنّا وصدقنا کہتے رہے۔ یہ حضرات افغانستان پر روسی حملے کے فوراً بعد روسی ٹینکوں کو طورخم پر ہار پہنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے، مگر مجاہدین نے یہ موقع ہی نہ آنے دیا، بلکہ روسی فوجوں کا منہ پھیر دیا۔ اس کے نتیجے میں جب اشتراکی روس منہدم ہوگیا توانھوں نے ’عظیم باپ اسٹالن‘ کی مدح خوانی سے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اور روس سے منہ موڑ کر اپنا رُخ واشنگٹن کی طرف پھیرلیا۔ ’قبلۂ اوّل‘ سے انھوں نے ترکِ تعلق تو نہیں کیا مگر اب طاقت کا سرچشمہ چوں کہ وہائٹ ہائوس میں منتقل ہوگیا ہے (اور ویسے بھی روسی آقا کنگلے ہوچکے ہیں) اس لیے قلابازی کھانا ضروری تھا۔

موقع پرستوں میں دوسرا طبقہ سرحدی گاندھی کے جانشینوں کا ہے۔ یہ ان سرخ پوشوں کے وارث ہیں جنھوں نے صوبہ سرحد کو پاکستان کے بجاے، بھارت میں شامل کرانے کے لیے   ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ریفرنڈم میں منہ کی کھائی۔ اب انھوں نے اقتدار کی خاطر، اس پیپلزپارٹی کی حاشیہ برداری میں عار محسوس نہیں کی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں صوبہ خیبر میں ان کی معاون و معاہد مفتی محمود کی جمہوری حکومت کو غیرقانونی طور پر برطرف کیا۔ لیاقت باغ میں ۲۳مارچ کے جلسے میں سیدھی سیدھی فائرنگ کرکے (قدرے چھوٹے پیمانے پر) جلیانوالہ باغ کا رِی پلے کیا، اور پھر جنھوں نے ان کے لیڈر ولی خاں کو جیل میں ڈالا، اور ان کی جان کے درپے رہے۔ یہ بھی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ خان عبدالولی خان جیسے بااصول راہ نمائوں کی وراثت ایسے موقع پرستوں کے ہاتھ آئی ہے جنھوں نے سرخ پوشی ترک کر کے امریکی پوشش پہن لی ہے۔ ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق یوں اب واشنگٹن سے ان کے ’رومان‘ نے انھیں صوبہ خیبر کی ’خواجگی‘ کیا عطا کی ہے کہ وہ روشِ بندہ پروری کے منکر ہوگئے ہیں۔ ان کے وزرا علی الاعلان  نظریۂ پاکستان کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔

اس منظر اور صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، پیشِ نظر کتاب پاکستان اور اسلامی نظریہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مباحث و محتویات کی معنویت بخوبی واضح ہوتی ہے۔

پروفیسر خورشیداحمد نے ۱۹۶۱ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’نظریہ پاکستان نمبر‘ میں ایک تحریری مذاکرہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کے چوٹی کے ۲۴ دانش وروں نے پاکستان کی نظریاتی جہت اور اُس کی اسلامی شناخت پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا تھا۔ اس مذاکرے کا مجموعی تاثر اس قدر واضح تھا کہ صدر ایوب خان کی حکومت اسے ہضم نہیں کرسکی اور رسالے کو جابرانہ طریقے سے بند کر دیا۔ پروفیسر صاحب نے عدالتِ عالیہ میں اس اقدام کو چیلنج کیا تو عدالت نے ’’اس پابندی کو باطل قرار دے دیا‘‘۔ مذکورہ قلمی مذاکرے کو چراغِ راہ سے بازیافت کر کے مختصر حواشی اور پروفیسر صاحب کے نئے دیباچے کے ساتھ (منشورات، منصورہ لاہور سے) کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جب مطالبۂ پاکستان کے اصل اور بنیادی محرک (پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ) کو ڈھٹائی کے ساتھ نظراندازکرکے واضح طور پر جعل سازی کی جارہی ہے، اور پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑائی جارہی ہے اور پاکستان مخالف لابی بھارتی، اسرائیلی اور امریکی سرپرستی کے منہ زور گھوڑے پر سوار اپنے کالم نگاروں، اینکروں کے ذریعے، مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے، مذکورہ قلمی مذاکرے کی اشاعتِ نو بہت برمحل ہے۔ یہ ایسا صاف شفاف آئینہ بھی ہے جو قارئین کو بلاکم و کاست پاکستان کی اصل شناخت سے روشناس کراتا ہے۔      اس مذاکرے میں شامل تمام ہی شخصیات اپنے دور کی سربرآوردہ، اور اپنے اپنے شعبوں (قانون، تعلیم، سیاست، ادب، منصفی، فکروتحقیق، تجارت، معیشت وغیرہ) میں مسلّمہ طور پر واجب الاحترام مانی جاتی تھیں۔ تقریباً تمام ہی اصحابِ فکرونظر اس بات پر متفق ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ ممتاز عالمِ دین مولانا مفتی محمد شفیع کہتے ہیں: ’’دو قومی نظریے کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پاکستان بنانے کی کوئی وجۂ جواز باقی نہیں رہتی (ص ۱۶۴)‘‘۔ معروف ادبی نقاد، محقق اور استاد ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان اسی نظریے کی خاطر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس بنیادی حقیقت سے ہٹ کر پاکستان کے جواز کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی‘‘ (ص ۱۰۹)۔ ماہر تعلیم، دانش ور اور ادبی نقاد پروفیسر حمیداحمد خاں کہتے ہیں: ’’پاکستان کے بقا، قیام اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور وہ اس لیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو نظریاتی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ پاکستان نام ہی ایک نظریاتی تنظیم کا مظہر ہے اور اگر وہ اس نظریے سے وابستہ نہ رہے جو اس کے قیام کی غرض و غایت تھا، تو پاکستان کا قیام ہی بے معنی ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۸۵)

ادیب، شاعر اور سفارت کار میاں بشیر احمد تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی نظریہ ہی پاکستان کی اساس اور وجۂ جواز ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ معروف ناول نگار، شاعر اور بیوروکریٹ فضل احمد کریم فضلی نے کہا: ’’اسلامی نظریے ہی نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، روح کو تڑپایا اور اُنھیں ایک ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اُجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے پر تیار ہوگئے‘‘۔ (ص ۱۲۱)

چراغِ راہ کے سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اُس سے دُور ہٹا ہے؟ اور اسی طرح یہ کہ اسلامی نظریے کو عملاً     بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ مذاکرے کے شرکا نے نہ صرف ان سوالوں کے جواب دیے ہیں بلکہ اُن وجوہ کا بھی ذکر کیا ہے جو پاکستان کو اسلامی نظریے سے قریب آنے میں مانع رہی ہیں، اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے زمین کو ہموار کرنا کس قدر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں: ’’اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب لانا ضروری ہے‘‘ (ص ۸۰)۔ ایک اور چیز جس کی طرف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں نے متوجہ کیا ہے، وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں معروف مؤرخ، دانش ور، سابق رئیس الجامعہ کراچی اور وزیرتعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا خیال ہے کہ اوّل ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کا   عمل دخل ضروری ہے۔ دوسرے، ہماری ذہنیتوں کو وہی تعلیم بدل سکتی ہے جو طلبہ کے اندر ’صحیح دینی ذوق‘ پیدا کرے اورٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرے۔(ص ۶۳)

پروفیسر حمید احمد خاں کہتے ہیں: جب تک تعلیم میں بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں گی، ہمارے طالب علم اسلامی نظریے سے مانوس نہ ہوں گے۔ اُن کے نزدیک بنیادی اصلاحات میں قرآن و سنت کا فہم، فارسی، عربی اور اُردو کی تعلیم، انگریزی کے بجاے اُردو ذریعۂ تعلیم اور استاد اور شاگرد کا بہتر سطح پر باہمی تعلق شامل ہیں۔ (ص ۹۲)

خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور   غلام محمد سے لے کر زرداری تک (بشمول ایوب خان، یحییٰ خان، چودھری فضل الٰہی، جنرل ضیاء الحق، فاروق لغاری اور جنرل مشرف) سبھی صدورِ مملکت سال میں دو بار قائداعظم اور علامہ اقبال کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہے لیکن علامہ اقبال اور قائداعظم جس قسم کے پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے یا پاکستان کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتے تھے (وہ منزل اسلامی نظام کی منزل تھی اور ایک جدید اسلامی ریاست کی منزل تھی)، ان لوگوں نے ہمیشہ اس راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ جس کسی نے نظامِ اسلامی کا مطالبہ کیا، اسے پکڑا، جیل میں ڈالا، یا اُسے پاکستان مخالف قرار دے کر پروپیگنڈا مشینری سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اب دیکھیے علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ’منظم اسلامی ریاست‘ کا ذکر کیا تھا اور اس کے بعد اُنھوں نے نظریۂ قومیت کی بحث میں مولانا حسین احمد مدنی کے فرمودات کے جواب (روزنامہ احسان، ۹مارچ ۱۹۳۸ء ) میں واضح کر دیا تھا کہ فقط ’’انگریز کی غلامی سے آزاد ہونا منتہاے مقصود نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ ایک باطل کو مٹاکر، دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے،ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے، ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا بولنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اورقطعی حرام سمجھتا ہے‘‘۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبین: سیّد عبدالواحد معینی، محمدعبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۲۷۹)

علامہ اقبال کی یہ بات ہوبہو مولانا مودودیؒ کی تائید تھی۔ مولانا مودودی علامہ اقبال کے مذکورہ بالا بیان سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ: ’’انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے۔ [مگر] آپ کا کام باطل کو مٹاکر حق قائم کرنا ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بدتر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے‘‘ (ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۶ھ [اپریل ۱۹۳۷ء]،جلد۱۰، عدد۲،ص ۹۰)۔ پھر ایک ماہ بعد مولانا نے لکھا: ’’یہ ملک، کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کانتیجہ یہ ہو کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بدتر ہوجائے تو ہم بلاکسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں کہ ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام قطعی حرام ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۶ھ [مئی ۱۹۳۷ء] جلد۱۰، عدد ۳، ص ۱۶۹-۱۷۰)

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے انھی خطوط پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ کہا تھا کہ: ’’لوگوں کا ایک طبقہ [اور یہاں اُن کی مراد وہی سیکولر اور دو قومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کی ذُریت آج اسلامی نظریے کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے] جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ  آج بھی اسلامی اصولوں کا اُسی طرح زندگیوں پر اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد۴، بزمِ اقبال لاہور، ص ۴۰۲)

قائدعظم نے جس ’شرارتی طبقے‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، پروفیسر حمیداحمد خاں نے اس کے بارے میں ذرا کھل کر بات کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے خیال میں اس نظریے کی طرف بڑھنے میں وہ تمام قوتیں مزاحم ہیں جو ۱۴ سو برس پہلے کبھی ابوجہل کی شکل میں رونما ہوئی تھیں اور کبھی مسیلمہ کذاب کا روپ دھارتی تھیں۔ نام تو بس ایک اضافی سی چیز ہے کہ اپنے اپنے زمانے کے مطابق نام بدل جاتے ہیں۔ لیکن وہ جو شرارِ بولہبی ہے، وہ ہر وقت زندہ ہے اور اسلام سے برسرِپیکار بھی ہے‘‘۔ (ص ۸۶)

پروفیسر حمیداحمد خاں جسے ’شرارِ بولہبی‘ اور قائداعظم جسے ’شرارتی طبقہ‘ کہتے ہیں، اس کا ذکر ہم زیرنظر تحریر کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں___ اس حوالے سے ہم زیرنظر کتاب میں شامل مولانا مودودی کی چند سطور سیکولر دانش وروں کے غوروفکر کے لیے یہاں نقل کرتے ہیں۔     مولانا لکھتے ہیں: ’’…مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیںکہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب و تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہوسکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیراسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیںاور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟‘‘ (ص ۳۳)۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑانے والے سیکولر دانش وروں کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی ’شناخت‘ کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامیوں اور سیکولرسٹوں کے درمیان جو کش مکش اور پیکار جاری ہے، زیرنظر کتاب دانش و برہان کے اسلحے کے ذریعے اسلامیوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ بقول مرتب: ’’آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دوقومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے‘‘۔ (ص ۲۸)

(پاکستان اور اسلامی نظریہ، پروفیسر خورشیداحمد، مرتب: سلیم منصور خالد۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔)

 

_ _ _ پھلا وہ گہر خدا کا

مسجدِ حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے--- حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھو گیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔  یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنّا، ص۱۴۲-۱۴۳)

o

میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے، بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جا پہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اُس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجب سرور سے سرشار، پائوں سرد سنگِ مرمر پر یوں جیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں، اور بچے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جو رات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔

نظر درِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل ربِ کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۰-۲۱)

o

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہوں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا و اقربا، احباب جو دنیا میں تھے یا دنیا سے جاچکے تھے ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھر سے بھی معمولی ہے،  مگر اس کے اردگرد بقعۂ نور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھیں۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجدحرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگِ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے لیکن کسی زائر کی نگاہیں اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبایش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاں نثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی ایک عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِ اوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۱۵)

o

تم اس گھر پہنچ گئے ہو جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے رب نے اس شہر کو   ایسا امن کا مسکن بنایا کہ جو اس میں داخل ہوتا ہے اس کے جان و مال محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ یہی گھر اُس ہدایت کا مرکز بھی ہے جس میں انسان پورے کے پورے داخل ہوجائیں تو ان کے قلب و روح، فکروسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیاتِ اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ انسان اگر کہیں خوف و حزن، ظلم و فساد اور دنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کرسکتا ہے تو اس بناے ہدایت میں داخل ہوکر جو عالمِ معنوی میں خانہ کعبہ کی مثال ہے، وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن ۳:۹۷)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۰)

o

حرم کا صحن بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ برآمدوں کی چھت پر نصب ۱۴۴ انتہائی طاقت ور سرچ لائٹس، ۱۴۴ ننھے منھے سورجوں کی طرح دہک رہی ہیں۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں- -- اگلے دن مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کر دیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔

میں مسلسل کعبہ کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراسود کے عین اُوپر، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یاحیی یاقیوم، میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام رات میں تحلیل ہورہی ہے لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دو دن بعد جب میں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اسی طرح موجود ہوں گے۔ یاحیی یاقیوم ، میں تو شاید پھر سے دنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا۔ تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟ (مکہ مدینہ، ص ۴۶-۴۷)

o

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بدعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اُس سیلِ رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی تھی، کبھی حجراسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی  رکنِ ایمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔ طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے دائیں بائیں کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یورپین، کبھی پستہ قد انڈونیشیائی، کبھی درازقد اور بھاری بھرکم صافوں اور لبادوں میں ملبوس افغانی، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد عورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں، مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ سب کی زبان پر دعائیں، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دعائوں کے ورد میں مصروف مگر کچھ ایسے بے تاب و مضطرب لوگ بھی تھے جو مطاف میں سب سے آگے نکلنے کی دُھن میں یوں چھلانگ لگاتے گویا سامنے جنت کا دروازہ ہے اور وہ سب سے پہلے داخل ہونا چاہتے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار، ص۱۶)

o

اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں، بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگا دینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہر جگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے لیے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام، ص۲۱)

o

رکنِ یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے میں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجرِاسود کی طرف بڑھ رہی تھی--- قطار زیاہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراسود پر رکھتے اور دو تین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سر جھکا کر چاندی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور   سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجرِاسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی، کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار، اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے رب کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑ عمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے رب! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو،     اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب ِ جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔

اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ ---

اے اللہ! میں تیرے در سے لپٹا گریہ کناں ہوں ---

اے اللہ! اے اللہ!  ---

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی میں نے اسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑعمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمایش کی تھی، میری جگہ پر  جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۷-۲۹)

m

اللہ کا گھر ہر لمحے، ہرثانیے، ہر پَل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلقِ خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے--- قافلۂ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے---

لبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب ِ گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کر رہے ہیں، کچھ نوافل ادا کر رہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانۂ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خداے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجزوانکسار سے جھکی جارہی ہیں--- انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیر مسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے، سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ۱۴ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (مکّہ مدینہ،ص ۲۲-۲۳)

o

تمھاری نظروں کے سامنے جو گھر ہے، وہ گھر والے کی تجلیات گاہ ہے۔ انھوں نے اسے زمین کا مرکز بنایا ہے، کنویں کے گھاٹ کی طرح لوگ پلٹ پلٹ کر اس کی طرف آتے ہیں اور کسی طرح سیراب ہونے میں نہیں آتے۔ لوگوں کے قیام و بقا کا سامان بھی اسی گھر کے دم سے ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قَیَامًا لِلّنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) مَثَابَۃً لِلَّنَّاسِ وَاَمْنًا (البقرہ ۲:۱۲۵)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۱)

o

ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہاں نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے، حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

مسلم ممالک مسلسل گردابِ بلا کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہاگیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجیوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں--- سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوا ارب انسان کیا کرر ہے ہیں؟ اگر اتنی چنگاریاں بھی بہم ہوجائیں تو جانے کتنے سامراج بھسم ہوجائیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ ممکن ہے اس سیاہ بختی کا ایک سبب سائنس اور ٹکنالوجی سے محرومی بھی ہو۔ لیکن بلاشبہہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُور ہوتا جا رہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ نے ہم تک پہنچائیں---

میں حجراسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی ، ایسی زرخیزی اور ایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اوراد اور وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دنیاداری کے لق و دق صحرا میں  غرق ہوجاتے ہیں--- جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آبِ زم زم کا کنستر اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور صحن حرم میںعطا ہونے والے جذب و کیف اور روح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکہ مدینہ، ص ۲۳-۲۴)

آں خنک شھرے _ _ _

مدینہ کی فضا کافی خوش گوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکّہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سُودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جو والہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں--- مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ (tension) سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہر شے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہرطرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۹)

o

مسجدنبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرۂ عائشہ صدیقہؓ اور  حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہو تاکہ کہیں ہمارے ناپاک وجود ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادی حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارتِ مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سوسال کی تاریخ پھر جاتی ہے۔ دورِصحابہ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ و اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع و سجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا--- اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود   دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۸-۴۹)

o

روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑا راستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو     روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضے کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ،ص ۷۴-۷۵)

o

سامنے رسولؐ خدا سو رہے ہیں۔ کوئی لمحہ درود و سلام اور سجدہ و تکبیر سے خالی نہیں۔ یہ تسبیح و تہلیل، قرآن و حدیث، ذکر و اذکار، نوافل و وظائف اور دعا و صفا کی دنیا ہے۔ اس کی بنیادیں وہی ہیں جو رسولؐ اللہ نے اٹھائی تھیں۔ اس کی روح رسولؐ اللہ کی روح ہے۔ اُمہات المومنینؓ کی حیا چاروں طرف محیط ہے۔ صحابہؓ کی آوازیں گندھی ہوئی ہیں اور اہلِ بیت بولتے چالتے ہیں۔ صرف محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور احساس کسی کسی کو ملتا ہے۔(شب جاے کہ من بودم، ص ۱۴۰)

o

اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجدنبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں ۱۴سو سال پیچھے چلا گیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ حضوؐر کی سیرت و سوانح پر میں نے بچپن سے بڑھاپے تک جو کچھ پڑھا تھا، وہ ایک فلیش [جھلک] کی صورت میں میری نگاہوں کے سامنے سے گزر گیا۔ اس کی تفصیل میں بیان نہیں کرسکتا۔

تاہم میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکّے میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳ سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوب صورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنّا، ص۸۷)

o

رات مسجد اور غسل خانوں کے درمیان صحن سے گزرتے ہوئے آسمان نے مجھے روک لیا۔ اس کی گہرائیوں میں ایسا سکون تھا جو میں نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ ستاروں سے مزین گہرے نیلے رنگ کے شفاف آسمان میں ایک نور تھا جو اس کی بسیط وسعتوں میں موجزن تھا۔ نہایت دھیما، ٹھنڈا نور جو اس کے نیلے رنگ کے اندر سے اُمڈ رہا تھا۔ کیا یہ لیلۃ القدر تھی؟

تراویح کے دوران قرآن حکیم کی آخری سورتوں کے اثر سے دل کانپتا رہا، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور دل کے اندر کوئی شے یوں پگھلتی رہی جیسے موم بتی پگھلتی ہے۔ (سحرِمدینہ، ص ۱۲۷)

o

مدینہ منورہ، چمنستان ہستی کا ایک سدا بہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو۔ جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمناے بے تاب سے مہکتا رہا ہو۔ جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں۔ جو صرف اس لیے جیتا رہا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ، ص ۲۵)

o

اب سکون قلب، طبعی اہتزاز و انبساط، احساس فرحت و مسرت سے طبیعت چمن چمن ہوتی محسوس ہوئی، شاید حضوؐر اپنے غلاموں کو رخصت کرتے ہوئے اُن کے اضمحلال و نقاہت کو ان کی رگوں سے نکال کر ایک جذبۂ توانا بھر دیتے ہیں۔ انعاماتِ بارگاہ رسالت کا یہ جرعۂ اولیں سیر ہوکر اپنی نَس نَس میں اُتارتا ہوں۔ یہ آس بندھ جاتی ہے کہ حضوؐر اپنے حوضِ کوثر سے اپنے غلام ابن غلام کو ایک جامِ لب ریز سے ضرور نوازیں گے۔ اس یقین کے ساتھ واپس اپنے ہوٹل آجاتا ہوں۔(حرمین شریفین میں،ص ۱۴۶)

o

حج کے اس سفر سے بڑا سکون بڑی طمانیت حاصل ہوئی۔ دل میں یہ خواہش بار بار کروٹ لیتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آتا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہر مومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکرکرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادایگی کے بجاے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہلِ ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں    تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشان لوگوں کی طرف بھی    ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہر انسان کو ایک انقلابی انسان ایک مردِ مجاہد اور ایک دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۵۸)

o

ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کر کے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دنیا میں جو وعدے ہیں___  استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے،  غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___  وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشرط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: یَعْبُدُوْنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَئْـیًا (النور ۲۴:۵۵)۔(حج کا پیغام، ص ۹)

کتابیات

۱-            ارضِ تمنّا، غلام الثقلین نقوی، فیروز سنز، لاہور، ۱۹۸۸ء

۲-            پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۲۰۰۹ء

۳-            جلوے ہیں بے شمار، ڈاکٹر سید عبدالباری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۲۰۰۷ء

۴-            حاجی کے نام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۱ء

۵-            حج کا پیغام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۵ء

۶-            حرمین شریفین میں، محمد رفیق وڑائچ، منشورات، لاہور، ۲۰۰۸ء

۷-            سحرِمدینہ، مظفراقبال، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۹ء

۸-            شب جاے کہ من بودم، شورش کاشمیری، مکتبہ چٹان، لاہور، ۱۹۷۱ء

۹-            مکّہ مدینہ، عرفان صدیقی، جہانگیر بکس، لاہور، ۲۰۱۰ء

علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت ِعثمانیہ کے سوا، عالم اسلام کے تمام خطوں پر غاصب استعماری مسلط تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی خلفشار اور کمزوریوں میں گرفتار تھی، اس لیے اس کے مغربی دشمن اسے The sick man of the Europe کہتے تھے، اور اس پر دندانِ آز تیز کیے بیٹھے تھے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندستان میں خلافت کی بقا اور بحالی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی، اقبال اس کے پوری طرح مُویّد تھے۔ یہی زمانہ تھا جب یہودی سر زمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگر مجموعی حیثیت سے ’مسئلہ فلسطین‘ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔

یہود، فلسطین کے اصل باشندے (son of the soil) نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اورخود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے (یہ حرکت بالکل ویسی ہی ہے جیسے یورپ کے سفید فاموں نے ماردھاڑ کرکے امریکا کے قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کی نسل کشی کی اور خود امریکا پر قابض ہوگئے)۔ آیندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اُنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکم رانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھرسقوطِ غر ناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں کھدیڑ کر وہاں سے نکالا تو وہ: ’’نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہوئے، ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں اماں ملی توعثمانی ترکوں کے ہاں۔ یہود مؤرخ سلطان سلیم عثمانی(۱۵۲۴ئ-۱۵۷۴ئ) کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کر کے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔

احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے ۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اُنھوں نے پر پُرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانش ور اور راہ نما ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل (Theodor Herazl) نے سلطان عبدالحمید ثانی کو مالی امداد کا لالچ دے کر ’یہودی وطن‘ کے لیے ارضِ فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرا دیا (فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا)۔ اس پر یہودی انتقام پر اُتر آئے۔ سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا، جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۱۶ء میںوہ بر طانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔ برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور (دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔

انگریزوںکی ’بد دیانتی کے شاہ کار‘ اعلان بالفور کو، جنگِ عظیم اوّل کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ جنگِ عظیم اوّل (۱۹۱۴ئ-۱۹۱۸ئ) کے خاتمے پر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے تمام تر وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔جس مجلسِ اقوام (League of Nations) کے بارے میں اقبال نے کہا تھا  ع

بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند

اس نے بھی ۱۹۲۲ء میں یہ خطہ برطانیہ کے اِنتداب (mandate) میںدے دیا۔ یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا، کیوں کہ انگریزو ں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔

اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لیے ایک رائل کمشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیرِ غور تھی۔ ایک مسلمان ممبر کے طور پر علامہ اقبا ل کو کمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگر انھوں نے بوجوہ ،معذرت کر لی۔

انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کر کے ، فلسطین پہنچ رہے تھے اور ’آبادکاروں‘ کی حیثیت سے مختلف حیلوں بہانوں سے اور زور زبر دستی سے بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۱۹ئ، ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں یہودیوں اور مقامی فلسطینی آبادی کے درمیان متعدد خون ریز تصادم ہوئے۔

فلسطین ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی اور خطّہ ،اقبال افرادِ ملت کوپیش آمدہ کسی بھی مصیبت یا آزمایش کی خبر سنتے تو بے چین اور پریشان ہو جاتے۔خنجر کہیں بھی چلتا، وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ جاتے۔فلسطین تو انبیاؑ کی سر زمین تھی، اقبال وہاں کے باشندوں کے الم ناک مصائب پر رنجیدہ کیوں نہ ہوتے۔مسلمانانِ لاہور نے ۷ ستمبر ۱۹۲۹ء کو انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے ا لم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ’’ہولناک سفاکی‘‘کی مذمت کی۔ علامہ نے یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمرؓ نے کی تھی اور یہ ان پر حضرت عمرؓکا احسان ہے ۔ پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے بقول اقبال: ’’یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا‘‘۔

یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظِ اقبال: ’’فلسطین میں مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں‘‘۔ دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے زور زبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو اسے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔

سفرِ انگلستان (۱۹۳۱ئ) کے دوران میں ، جہاں بھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیں کیا، مثلاً: ایک موقع پر انگریزوں کو اہلِ فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی ،اور فرمایا کہ اعلان ِ بالفور بالکل منسوخ کر دینا چاہیے۔ علامہ اقبال پر مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور اہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انھوں نے بذاتِ خود فلسطین کا سفر کیا۔

دسمبر ۱۹۳۱ء میں فلسطین کے نو روزہ سفر کا اصل مقصد مؤتمر عالمِ اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔ کانفرنس کے داعی سید امین الحسینی تھے۔ اس میں تقریباً ۲۷ ملکوں اور علاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں اربابِ علم و فضل بھی تھے اور سیاسی او رملی راہ نما بھی۔ اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات او رمجاہدینِ آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبرانِ پارلیمنٹ بھی۔ گویا قبلہ اوّل کے شہر میں عالمِ اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔

یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کا احساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف    اتحادِ عالمِ اسلام کی تدابیر پر غور کیا جائے۔ کانفرنس کے دنوں میں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ   غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ ایک نشست میں علامہ اقبال کو نائب صدر بناکر سٹیج پر بٹھایا گیا۔ انھوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مدد کی۔

قیامِ فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کوجتنا بھی وقت اور موقع ملتا، وہ مقاماتِ مقدسہ اور آثارِ قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انھوں نے بیت اللحم میں کلیسا ے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میں متعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انھوں نے بہت سے قابلِ دید مقامات، عمارات اور آثار دیکھے۔ ایک دن موقع پا کر انھوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔

کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی، مگر وہ سب جگہ نہیں جا سکے۔ قیام کے آخری دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک مؤثر تقریر کی، جس میں عالمِ اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادِ مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے، لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کا خاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کو واپس جاؤ تو روحِ اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور اپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو۔

اقبال کے سفرِ فلسطین کا شعری ماحصل وہ معرکہ آرا نظم ہے جو ’ذوق شوق‘کے عنوان  سے بالِ جبریل میں شامل ہے ۔ نظم کے ساتھ اقبال نے یہ توضیح لکھنا ضروری سمجھا کہ ’’ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘:

قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں

حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب

گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھل گئے

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں!

کوہِ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!

ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں!

یہ اشعار لکھتے ہوئے فلسطین کے مختلف علاقوں کے خوب صورت مناظر اقبال کے ذہن میں تازہ ہوں گے۔ سر سبز و شاداب علاقہ، پھلوں اور پھولوں کے قطار اندر قطار درخت اور پودے، دُوردُور تک پھیلے ہوئے سبزیوں کے کھیت، انگور، انجیر اور مالٹوں کے باغات اور پھر موسم بہار کا۔ بقول غلام رسول مہر: عرب دنیا میں اس سے زیادہ حسین خطہ اور کوئی نہ تھا، مگر فلسطینی اپنے ہی خطے میں اور اپنے ہی گھر میں اجنبی بنتے جا رہے تھے۔ آج سر زمین فلسطین دھواں دھواں ہے ۔

سفر فلسطین سے واپس آنے کے بعدبھی اقبال وائسرائے ہنداور برطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔ اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور اعلان بالفور واپس لیا جائے۔ اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانانِ ہند میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ اُسی کا نتیجہ تھا کہ ۲۴، ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء کو کلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔ علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اور بیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے    ؎

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

اسی زمانے میں انھوں نے کہاـ:

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

یہ ’’مقصد ہے … کچھ اور‘‘ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لیے برطانیہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل اڈا یا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا مگر علامہ اقبال اسے عالمِ اسلام کے لیے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اور اس کے سدّباب کے لیے وہ بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے  کے لیے بھی تیار تھے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام ۷؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں:  ’’ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے‘‘۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال آزادیِ فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لیے بھی پُرجوش اور پُرعزم تھے۔

مسئلۂ فلسطین کے ضمن میں علامہ اقبال کا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کی بتدریج بڑھتی ہوئی پیش رفت اور اس کے مضمرات اور خطرناک نتائج کو سمجھا اور اہل ہند کو ان سے آگاہ کیا بلکہ اس وقت مسلمانان ہند کی نمایندہ جماعت مسلم لیگ اور اس کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح (۱۸-۱۹۴۸ئ) کو بھی مسئلہ فلسطین کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اقبال کی وفات کے بعد بھی مسلم لیگ اور قائداعظم نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی۔

علامہ اقبال کی وفات کو پون صدی ہو چلی ہے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی آج بھی جاری ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی تک، ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ضربِ کلیم میں ’فلسطینی عرب سے ‘کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ،نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ء یہود میں ہے!

سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات

خودی کی پرورش و لذت ِنمود میں ہے!

فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت حماس، فلسطینیوں کی موجودہ تحریک آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے، اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزِ جاں بنا لیا ہے اور وہ یہود کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی سی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ غزہ فی الوقت ایک محصور علاقہ ہے۔ ۴۰کلو میٹر طویل اور ۱۰ کلو میٹر عریض اور صرف ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل یہ آبادی تین اطراف سے دشمنوں سے اور ایک طرف سے ’دوستوں‘ سے گھری ہوئی ہے۔ ظلم، زیادتی، گرفتاری،جیل، تعذیب، تشدد، ناکہ بندی، بم باری، مکانوں کا انہدام، غرض کون سا حربہ ہے جو ان کے خلاف نہیں آزمایا گیا۔ ان پر فاسفورس بم تک برسائے گئے۔ شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور اس طرح کے چوٹی کے فلسطینی دانش ور اور راہ نما شہید کردیے گئے مگر وہ صہیونیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں اور ان کے غیرمتزلزل عزم جہاد و مزاحمت میں کمی نہیں آئی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان سلامت ہے۔ اس کے برعکس ۵۰ سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الا ماشا اللہ (الا ماشا اللہ= ایران، شام، سوڈان، لبنان اور ترکی) صہیونیوں اور امریکیوں کے سامنے جھک چکے ہیں یا پھر کچھ بک چکے ہیں۔ یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان کمزور ہے۔ علامہ اقبال کی چشمِ بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ عرب بادشاہتوں پر ہرگز اعتماد نہ کریں، کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پر کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پون صدی، اقبال کی بصیرت پر گواہی دے رہی ہے۔

اور آخر میں ،صرف فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں،عالمِ اسلام کی تمام اقوام کے لیے، وہ کشمیری ہوں یا افغانی، عراقی ہوں یا شیشانی، اقبال کا پیغام یہ ہے کہ    ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اہلِ ایران تو ربع صدی پہلے ظلمت ِشب کی گریز پائی اور نورِ سحر کے طلوع کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اُنھیں علامہ اقبال کی بات پر یقین کرنا چاہیے کہ     ؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے


وضاحت: یہ مضمون شعبۂ اُردو، تہران یونی ورسٹی کے تحت ۵؍مئی ۲۰۱۰ء کو منعقدہ     ایک روزہ بین الاقوامی اقبال سیمی نار میں پڑھا گیا۔ اس کی تیاری میں حسب ذیل کتابوں اور رسائل سے مدد لی گئی ہے:

۱-            اقبال اور جدید دنیاے اسلام، ڈاکٹر معین الدین عقیل، مکتبہ تعمیرانسانیت، لاہور، ۲۰۰۸ء

۲-            اقبال کی طویل نظمیں، رفیع الدین ہاشمی، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء

۳-            (ماہ نامہ) ترجمان القرآن، لاہور میں عبدالغفار عزیز کے مضامین: فروری ۲۰۰۹ئ، نومبر ۲۰۰۹ء

۴-            خطبات، چہارم، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۸۵ئ۔

۵-            سفرنامہ اقبال، محمد حمزہ فاروقی (مرتب)۔ مکتبہ اسلوب، کراچی، ۱۹۸۹ئ۔

۶-            کلیاتِ اقبال اُردو، علامہ محمد اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۳ء

۷-            گفتارِ اقبال، علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل)، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۶۹ئ۔

۸-            مکاتیب اقبال بنام گرامی،علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد عبداللہ قریشی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۱ئ۔

۹-            Letters of Iqbal، علامہ محمد اقبال (مرتب: بی اے ڈار)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۸ئ۔

۱۰-         Speeches, Writings and Statements of Iqbal ، علامہ محمد اقبال (مرتب: لطیف احمد شروانی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔

برسرِاقتدار طبقے، خاص طور پر پاکستان کی بانی جماعت، اور اُس کے بطن سے جنم لینے والی پارٹیوں کے وابستگان کی اخلاقیات، ابتدا ہی سے محلِّ نظر رہی ہیں___ خرابیاں گوناگوں تھیں: ناجائز الاٹمنٹیں، رشوت ستانی، نااہلوں کا تقرر، ناجائز سفارشیں، انتخابات میں بدعنوانیاں، قانون کی پامالی، اقربا پروری، مقامی، مہاجر اور برادریوں کا تعصب وغیرہ وغیرہ۔ یہ خرابیاں دورِ ملوکیت اور دورِ غلامی کی پروردہ تھیں اور کسی بھی سطح کا اختیار رکھنے والے حاکم یا ماتحتوں کے شعور کا حصہ اور ایک طرح سے ان کی ’عادتِ ثانیہ‘ بن چکی تھیں___ اس دور میں زیادہ تر وزرا، ارکانِ اسمبلی اور پارٹی لیڈر طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے شخصی سطح پر ایک گونہ اخلاقیات کا خیال ضرور رکھتے تھے اور خود کو ایک خاص سطح سے نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ گو ان کی اخلاقیات ان کی روایتی جاگیردارانہ نوعیت کی ہوتی تھی۔

انھیں یہ خوف بھی لاحق رہتا تھا کہ ان پر کوئی الزام نہ لگ جائے۔ اگر کسی شخص پر بدعنوانی کا الزام لگتا تو وہ پریشان ہوتا اور شرمندگی محسوس کرتا۔ بعض اوقات تردید یا اپنی صفائی پیش کرکے، اس الزام سے بری الذّمہ ہونے کی کوشش کرتا۔ گو کہ اس طبقے کی اخلاقیات کا اسلامی اخلاقیات سے تعلق بہت کم ہوتا تھا، وہ صرف دنیاوی یا ظاہری اخلاق کی اتنی مقدار کا قائل تھا جس سے انسان ’منہ دکھانے کے قابل‘ رہے___ مختصراً یہ کہ معاشرے، حکومت اور حکمرانی کی تمام تر خرابیوں کے باوجود، زوال پذیر ’اخلاقیات‘ ایک مستحسن ’قدر‘ کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔

تاریخِ پاکستان کی پہلی ربع صدی میں سیاست اور قانون کی حکمرانی میں اخلاقیات کا گراف زوال پذیر ہی رہا، مگر پستی کی طرف اس کی رفتار نسبتاً کم کم تھی۔ اس گرتے ہوئے گراف میں پہلا ’کریش‘ اس وقت ہوا جب ہمارے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی مخالفین کی ٹانگیں توڑ دینے، زبان گُدّی سے کھینچ لینے اور ہزاروں کے ہجوم میں علی الاعلان بدکلامی اور گالم گلوچ (قذافی اسٹیڈیم، لاہور) کا نمونہ پیش کرکے ایک ’نئی سیاسی اخلاقیات‘ کی طرح ڈالی۔ چند سالہ دورِاقتدار میں اس بے چاری جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات پر کیا کیا نہ ستم ہوئے۔ اُس تفصیل سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ گذشتہ ۳۰؍۳۵ برسوں میں ہماری ۶۳سالہ تاریخ کے صاحبانِ اقتدار نے اخلاق و قانون کے گراف کو نیچے لے جانے میں بڑی مستعدی سے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اخلاق ایک طرح کا غیرتحریری قانون ہے، جو لوگ اخلاق کی پامالی کو جائز سمجھتے تھے، وہی قانون شکنی میں بھی آگے آگے رہے۔ قانون شکنی ملکی قوانین کی ہو یا مذہبی اصولوں کی، اُنھیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں رہا کہ ’’ایفاے عہد، قرآن و حدیث تو نہیں جس کی پابندی ضروری ہو‘‘۔

بداخلاقی، بدکلامی اور قانون شکنی کا یہ رجحان شجرِخبیثہ کی طرح خوب خوب برگ و بار   لے آیاہے۔ مثالیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، کسی بھی دن کا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجیے___ ارکانِ اسمبلی (مرد و زن) اپنی گفتگوئوں میں (ایوان کے اندر یا باہر) ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے، ایک دوسرے کے لتّے لیتے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئیں گے___ انھی دنوں کی ایک سرخی دیکھیے: ’’پنجاب اسمبلی: سینیروزیر اور اپوزیشن لیڈر کے ایک دوسرے کو جوتے اُٹھانے کے طعنے، لوٹے لٹیرے کے نعرے‘‘(نواے وقت، ۱۱؍فروری ۲۰۱۰ئ)۔ اِنھی دنوں آپ نے ایک اور اخباری سرخی بھی ملاحظہ کی ہوگی، جو کچھ اس طرح تھی کہ ’’بسنت ضرور منائوں گا۔ عدلیہ انصاف پر توجہ دے ٹریڈ یونین نہ بنائے‘‘ (ایضاً، ۲۱ فروری)۔یہ بیان اس شخص کا ہے جو وطنِ عزیز کے سب سے بڑے صوبے کا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ پنجاب میں پتنگ بازی قانوناً جرم ہے۔ قانون توڑنے اور علی الاعلان ارتکابِ جرم کا عزم) دیدہ دلیری کی وہ انتہا ہے، جس کے بارے میں مولانا حالی نے کہا تھا  ع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اخلاقی گراوٹ اور قانون شکنی ایک عالم گیر بیماری ہے، اسی لیے دنیا کے مختلف معاشروں میں اخلاقیات کا معیار خاصی نچلی سطح تک چلا گیا ہے۔ اگر اس مفروضے کو تسلیم بھی کرلیا جائے، تب بھی خیرِاُمت کے لیے اور ملّی تشخص کی دعوے دار قوم کے لیے، جس نے ایک ملک اسلامی احکامِ شریعت کے نفاذ کے لیے حاصل کیا ہو، یہ صورتِ حال ناقابلِ رشک ہی نہیں، انتہائی تشویش کا باعث بھی ہے۔ چند صدیاں پہلے یورپ میں سیاست، معیشت اور حکمرانی نے مذہب سے پیچھا چھڑایا، بایں ہمہ اس نے ایک درجے کی اخلاقیات کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اخلاقی ضابطوں کی پابندی، کاروبار میں ایفاے عہد، نظم و ضبط اور بعض دوسرے اصول اور ضابطے برقرار رکھے۔ اِسی اخلاقیات کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی نے انھیں زندہ رکھا ہوا ہے۔

صرف لاہور میں پانچ برسوں کے دوران ۱۷۱؍ افراد پتنگ بازی کی بھینٹ چڑھ گئے جن میں ۵۱ کم سِن بچے اپنے والدین کے ساتھ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ڈور پھرنے سے جاں بحق ہوئے (نواے وقت، ۲۱؍ فروری)، مگر بڑے صوبے کے لاٹ صاحب پتنگ مافیا کے لیڈر کے طور پر قانون اور حکمرانی کو للکار رہے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا    ؎

ہر اِک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟

تمھی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

اندازِ گفتگو انسان کی شخصیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ غالب اپنے مخاطب کے ذرا سے بدلے ہوئے اندازِ گفتگو سے بدمزہ ہوئے تھے اور ہم اس نوبت کو پہنچ چکے ہیں کہ روزانہ اخبار کے ہرہرصفحے پر چھپنے والے نمونہ ہاے بدکلامی و بداخلاقی کا مطالعہ، ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔ قائدین کرام    کی عظیم اکثریت بے بنیاد دعوے کرنے سے نہیں چوکتی۔ اگر کہیں سے گرفت کا اندیشہ ہو تو    صاف جھوٹ بولتے ہوئے تردید کردیتے ہیں۔ چونکہ قانون کے رکھوالے خود قانونِ شکن بن گئے ہیں اِس لیے علی الاعلان ’پاکستان نہ کھپے‘ کہنے والے (سندھ کے وزیرداخلہ سمیت) سبھی بدستور اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ اگر معاشرے کا تعلیم یافتہ اور دین دار طبقہ بیدار ہوتا تو قانون شکنی کے مجرمانہ اعلان پر، صوبہ پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ کے خلاف اتنا احتجاج ہوتا کہ آیندہ انھیں اس طرح کی بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے سوا سو سال پہلے ۱۸۸۶ء میں یہ رُباعی کہی تھی :

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مَد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے