انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے بڑا تحفہ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جو پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک اپنی بنیادی خصوصیات کے ایک بڑے حصے پر اعتماد اور فخر کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ پھر الحاد اور تشکیک کے موجودہ دور میں باحیا، صالح نوجوانوں ، محصنات اور ایک محفوظ خاندان کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔ انسانیت کے تہذیبی سفر میں یہ انقلابی تبدیلی ایک ایسے معاشرتی ماحول میں وجود میں آئی، جہاں فحاشی اور عریانی نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور برائی کو برائی سمجھنے کا احساس بھی دلوں سے جاتا رہا تھا۔قرآن کریم کی آفاقی تعلیمات اور رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی پاکیزہ سیرت نے اس زہریلے ماحول کو ایک صحت مند ،پُرامن، پُرسکون اور مودت و رحمت سے بھرپور معاشرے اور خاندان میں تبدیل کر دیا۔ یہ بنیادی تبدیلی کسی طویل عرصے میں ارتقائی مراحل سے گزر کرعمل میں نہیں آئی بلکہ دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی صرف دو عشروں میں اپنے نقطۂ کمال تک پہنچ گئی۔ لیکن پھر اپنوں کی نااہلی اور عدم توجہ اور مسلم معاشرے میں بیرونی اور اندرونی در اندازیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے کا توازن متاثر ہوا۔ اخلاقی بے راہ روی نے اسے بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی گذشتہ دو صدیوں میں مغرب کی سیاسی، فکری اور معاشی غلامی اور لادینی اور مادیت پرست تہذیب کی مسلم معاشرے پر یلغار کے زیراثر مسلمان اہل ثروت نے اپنی کوتاہ نظری کے سبب ان خرابیوں کو اپنانا شروع کردیا، جو مادہ پرست تہذیب خصوصاً مغربی استعماری دنیا میں رچ بس چکی تھیں ۔
ان خرابیوں میں سرِ فہرست خاندان کے تقدس کا پامال کرنا تھا۔ خودمغربی معاشرہ گذشتہ ایک صدی میں جس تیزی کے ساتھ اباحیت اور وحشت کی حدوں کو چھوتی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ طلاق کی کثرت، ناجائز تعلقات ،فیشن اور خود نمائی کے نام پر فحاشی اور عریانیت مغرب میں اپنے عروج پر پہنچی اور معاشی اور سیاسی عالمگیریت کے ساتھ یہ متعدی وبا مسلم معاشروں میں پھیل گئی ۔ پاکستان کے حالیہ معاشرتی حالات پر اس تناظر میں نظر ڈالی جائے، تو ایک پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے تو ۲۲-۲۰۲۱ء میں وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو اسلام آباد کے مطابق ۱۱لاکھ ۱۹ہزار ۸سو ۱۷ جرائم کا اندراج کیا گیا۔ جن میں قتل کے ۱۰ ہزار ۷۸،اغوا کے ۲۸ہزار ۱۷،ڈاکا اور چوری کے ۴۲ہزار ۴سو ۳۰ اور دیگر جرائم کے ۲ لاکھ ۵۳ہزار۷ سو ۴۲ مقدمات کو زیرِ تفتیش لایا گیا۔ صوبائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ۲۰۲۲ء میں پنجاب میں ۷ لاکھ ۵۹ہزار ۸سو ۱۶ ، سندھ میں ایک لاکھ ۱۹ہزار ۴ سو ۹۹، خیبر کے ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۳سو ۶۶ ، بلوچستان میں ۱۹ہزار ۴ سو ۴۳، اسلام آباد میں ۲۱ہزار ۴ سو ۹۰ جرائم کا ارتکاب ہوا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق صرف پنجاب میں ۲۰۲۳ء میں سول نوعیت کے ایک لاکھ ۴۶ہزار ۴ سو ۲۱ مقدمات عدالتوں میں درج کیے گئے۔ جن میں طلاق، خلع، بچوں کی حوالگی جیسے مقدمات شامل ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں ہر گھنٹے میں تین طلاقیں دی گئیں (روزنامہ دنیا ، ۹ دسمبر ۲۰۲۳ء)۔ اسی طرح کی ایک خبر میں روز نامہ جنگ (۲۶دسمبر ۲۰۲۳ء) کے مطابق لاہور کے فیملی کورٹس ، گارڈین کورٹس ، دیگر عدالتوں سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق پسند کی شادی میں سالانہ ۴۲۶ فی صد اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔گویا رواں سال میں ہر گھنٹہ میں عدالتوں میں ۵۰مقدمات دائر ہوئے ۔ ایک لاکھ ۴۳ہزار ۸سو ۹ مقدمات کے فیصلے ہوئے ، جب کہ ایک لاکھ ۶۵ہزار مقدمات زیر التوا رہے۔
پاکستان میں ’طلاق‘ اور ’خلع‘ کے واقعات میں اضافہ کے حوالے سے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے عوامی رائے کے جائزے کو دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافہ کے اسباب میں سب سے زیادہ یعنی ۴۸ فی صد کے نزدیک صبر کا فقدان ہے۔ ۳۳ فی صد کی رائے میں اس کا سبب دین سے دُوری ہے۔ ٪ ۲۷ فی صد کے خیال میں مغربی تہذیب کا نفوذہے، جب کہ ۱۲ ٪ فی صد کے مطابق اس کا سبب خواتین کا برسر روزگار ہونے کی بنا پر خود انحصاری پر مبنی آزادی کا تصور ہے۔ مزید ۹ فی صد کا خیال خود مردوں میں شادی میں دلچسپی میں کمی کا پایا جاناہے۔
ان اسباب میں ایک داخلی ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان مسائل کا بڑا سبب لوگوں کی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنا پر عجلت پسند اور بے صبرا ہونا ہے۔ گویا ۸۱ فی صد افراد کے رویہ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔مغرب سے درآمد کردہ تحریک آزادیٔ نسواں کے بنیادی تصورات میں یہ بنیادی بات شامل رہی ہے کہ چونکہ یورپی معاشرہ بنیادی طور پر مردوں کی فوقیت کا پدرانہ معاشرہ رہا ہے ،جس میں معاشی عوامل کی بنا پر مردوں کی حاکمانہ نفسیات خواتین کے بارے میں یہ تصور رکھتی رہی ہے کہ وہ ذہانت،مشقت، تاجرانہ صلاحیت اور سیاسی فراست میں مرد کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے مرد کے مساوی نہیں سمجھی جا سکتیں ۔اس تصور کا رد عمل یورپ اور امریکا میں تحریک آزادیٔ نسواں کی شکل میں ۱۹ویں صدی میں رُونما ہوا اور جن مسلم ممالک پر یورپی سامراج کا تسلط تھا، وہاں پر اس کی پذیرائی نے مسلم معاشرے میں بھی ایک صنفی دوڑ کی کیفیت پیدا کر دی اور خواتین کی جانب سے نہ صرف مساوات بلکہ اپنی خود مختاری کے حصول کو ایک مطالبہ کی شکل دے دی گئی ۔خواتین کے معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا فطری نتیجہ خاندان کے نظام کا معطل اور تباہ ہونا تھا۔
مغرب سے درآمد کیا ہوا ملکی ترقی کا ایک پیمانہ یہ قرار پایا کہ کسی ملک کی کتنے فی صد خواتین سرکاری دفاتر میں،عدالتوں میں، کاروبار میں اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر سرگرم عمل ہیں۔ ظاہر ہے جو شعبے روایتی طور پر اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے لحاظ سے مردوں کے زیر اثر تھے، وہاں پر خواتین کا عمل دخل کم تھا، مثلاً فوج ، یا سڑکوں اور عمارتوں میں تعمیراتی کام لیکن ’مساوات مرد و زن‘ کے نعرے کو اتنی تکرار کے ساتھ دُہرایا اور باربار استعمال کیا گیا کہ مسلم ممالک میں سے ایک آمرمطلق صدر معمر قذافی نے اپنے محافظ عسکری دستہ میں بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کرنا اپنی ترقی کی علامت سمجھا۔لیکن اس تمام تحقیر آمیز غلامانہ ذہنیت کے باوجود ایسے افراد اورممالک کو ترقی یافتہ ممالک نے اپنی برادری کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ مشہور مثال ہے کہ ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘۔
مغرب کی اندھی پیروی اور ’مساوات مرد و زن‘ پر ایمان لے آنے کے نتیجے میں انفرادیت پسندی اور صنفِ نازک کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ زور پکڑ گیا ہے کہ وہ مرد سے زیادہ قوی ہے۔ ویسے بھی یہ عام انسانی نفسیات ہے کہ جب بھی جنگ اناؤں (egos)کی ہوگی تو اس میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست ممکن نہیں ہوا کرتی۔ خاندان کی بنیادی اینٹ خلوص اور ایثار و قربانی سے مرکب ہے۔ جب مقابلہ نفسا نفسی کا ہو تو زندگی کا سفر جس کے لیے کم از کم دو پہیے درکار ہوتے ہیں کیسے پُرسکون طور پر چل سکتا تھا ؟ اگر دونوں پہیے الگ الگ سمت میں گھومنا چاہیں تو گاڑی میں ٹوٹ پھوٹ کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
جن اسباب کا تذکرہ جائزوں میں نظر آتا ہے ان کے حوالے سے مجلہ Clinical Social Work and Health Intervention کی جلد نو شمارہ نمبر۲ میں ۲۰۱۸ء میں مطبوعہ مقالہ میں جس کا عنوان High Ratio of Divorce and its Rationale in Pakistan ہے، اور جس کے مصنّفین کا تعلق بلوچستان یونی ورسٹی سے ہے،ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق پر مبنی اس جائزے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کے معاشی سرگرمی میں مصروف ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے لیےمناسب وقت کا میسرنہ ہونا، معاشی سرگرمی میں مصروفیت کے ساتھ مزاج میں صبر و استقامت میں کمی کا واقع ہونا ، شریک حیات کے انتخاب میں مناسب غور و فکر کے بعد فیصلہ نہ کرنا ،ایک دوسرے کی اچھائی کو وزن دینے کی جگہ کمزوری کو زیادہ محسوس کرنا طلاق کی کثرت کا سبب ہے۔ ایک اور تحقیق کی رُو سے گذشتہ دو عشروں میں کثرت سے ٹی وی چینل وجود میں آئے اور ان میں جو ڈرامے، ٹاک شو پیش کیے گئے اور پیش کیے جا رہے ہیں وہ اسلامی تصورِ معاشرت کے برعکس اخلاقی بے راہ روی، خود خاندان کے اندر محترم رشتوں کی پامالی ،گفتگو اور طرز عمل میں بے احتیاطی ، فحاشی اور اباحیت کو پیش کرتے ہیں ۔ایک شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے بھائی یا شوہر کا اپنے بیوی کی بہن کے ساتھ قریبی تعلق اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے، جیسے وہ ایک روز مرہ کا قابلِ قبول اخلاقی رویہ ہو !
تجزیاتی مضامین میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور خاندانی تصور کو یا تو بالکل لاعلمی کی بنا پر اور یا پھر جان بوجھ کر ’مذہب‘ کا مذاق اڑانے کے لیے ابلاغِ عامہ میں ایسے انداز سے زیر بحث لایا جاتا رہا ہے جو غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں برداشت کے بہانے برائی کے برائی ہونے کے احساس کو ختم کردے اور حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔ یہ ابلاغی نفسیات عالم گیر پیمانہ پر مغرب ہو یا مشرق، ہر جگہ مصروفِ عمل رہی ہے۔
عدم برداشت کی اس روش کو جانچنے کے لیے مثال کے طور پر ۱۰؍ اپریل کو بہاولنگر میں پولیس اور فوج کے درمیان مبینہ تنازع ملک میں قانون اور دستور کے عدم احترام کی صورت حال کی ایک افسوس ناک مثال ہے ۔ اگرچہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے آپس میں دست و گریبان ہونے کے واقعات کی تعداد کم ہے ۔لیکن کسی ایسے واقعے کا ہونا خود امن و امان ، امن عامہ، اور سرکاری اداروں میں عدم برداشت اور حدود سے تجاوز کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ پھر اسی طرح ۵مئی کو کھاریاں میں خواجہ سراؤں کے درمیان مبینہ تنازعے میں پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں پر جسمانی تشدد اور جواب میں خواجہ سراؤں کا علاقہ صدر کے پولیس تھانہ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنا، قانون کو ہاتھ میں لینا اور قانون کے محافظ افراد کا مبینہ طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے ۔ اور اخلاق او ر قانون کا احترام جو کسی معاشرے کی بقا کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا وقار سخت مجروح ہو چکا ہے ۔
اس صورتِ حال میں ا صلاحِ احوال میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاشرے کے باشعور افراد کا فرض ہے کہ وہ منکر کے مٹانے اور معروف کے قیام کے لیے قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ کے تحت دینی حکمت کے ساتھ اس رجحان کو تبدیل کرنے میں اپنی فکری اور تجزیاتی ذہانت کا بھرپور استعمال کریں ۔
اس ضمن میں پہلا کام خود اپنے گھر کا جائزہ لینا اور اپنے خاندانی معاملات میں معروضی طور پر اصلاح کی غرض سے انفرادی و اجتماعی طرزِ عمل کا احتساب کرنا ہے کہ ، گھر کا ماحول، بچوں کا لباس، ان کی مصروفیات خصوصیت سے تفریحات کی نوعیت کیا ہے؟ تعلیمی درس گاہ کا انتخاب کس بنا پر کیا گیا ہے؟گھر میں بچوں اور بیوی کے ساتھ کتنا وقت گزارا جا رہا ہے ؟ کیا گھر میں نمازِ باجماعت یا کم از کم صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کا اہتمام ہے ؟ان مصروفیات کے تجزیے کے ساتھ ایک عملی نقشہ بھی بنانے کی ضرورت ہےکہ اگر ایک صاحب خانہ اور ان کی اہلیہ دونوں ملازمت یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں، تو اس کاروبار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فائدہ ( financial gain) میں اور خاندانی اور معاشرتی خسارے میں کیا تناسب ہے ؟اگر ان دونوں کی محنت و مشقت ان کے بچوں کے لیے ہے، تو کیا ان کی اس آمدنی سے بچوں کی سیرت و کردار ایسی تعمیر ہو رہی ہے کہ وہ بڑے ہوکر معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی کردار کا نمونہ پیش کر سکیں، یا وہ ہوا کے رخ پر مادیت، لذتیت اور انفرادیت کو اختیار کر رہے ہیں اور ان میں اخلاص، ایثار و قربانی ،وفا ، حیا اور خاندان کے تقدس کے تصورات کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا؟
اس تجزیاتی عمل یا احتساب کے لیے کسی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا شرط نہیں ہے، نہ اسے نفسیات میں اعلیٰ ترین ڈگری درکار ہے۔ ایک معمولی عقل کا انسان بھی اس ذاتی تجزیہ کے بعد یہ معلوم کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کی اہلیہ دن میں کم از کم آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد جب شام کو تھک ہار کر گھرمیں داخل ہوتے ہیں، تو کیا ان کے مزاج میں بے صبری، چرچڑاہٹ، غصہ پایا جاتا ہے، یا وہ خوش مزاجی اور حسِ مزاح کے ساتھ آپس میں بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں؟ کیا گھر کے افراد بشمول شوہر،بیوی اور بچوں کے کھانے کے دوران یا گھر کے باہر کسی ہوٹل میں گھنٹہ سوا گھنٹہ کھانے کے دوران آپس میں بات کرتے ہیں، تو کیا ان کی نظر یں موبائل پر آنے والے پیغامات اور ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شو پر جمی ہوتی ہیں، یا وہ آپس میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کر رہے ہوتےہیں؟کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے معاملات پر توجہ کے ساتھ بات کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بچے اور وہ خود ، ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا اپنا موبائل ہوتا ہےاور وہ اس پرچیٹ کر رہا ہوتا ہے ؟ کیا ہم ایسے خاندان کو ایک مربوط خاندان کہہ سکتے ہیں ؟ یا ہر فرد کا اپنی دنیا میں گم ہونا اور صرف مروتاً کھانے کی میز پراور ٹی وی کے کمرے میں صوفے پر کچھ دیر غائب دماغی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کمرے میں واپس چلے جانے کو رحمت، مودّت ، ایثار و قربانی سے متصف خاندانی ماحول کہا جا سکتا ہے ؟
یہ ذاتی جائزہ اگر ایمانداری سے لیا جائے تو ایک صاحب ِخانہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کا نام نسلوں کا فاصلہ (Generation gap) ہے، وہ کسی بیرونی سامراج نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ خود اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ مسلمان اور بظاہر تحریکی گھرانے کے افراد نے اپنے ہاتھوں اپنے گھر میں رائج کیا ہے۔اس آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھ لی جائے تو پھر صورتِ حال کی سنگینی اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں آسانی ہو سکتی ہے اور اصلاحِ احوال کا تعلق زمینی حقائق سے وابستہ ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ معلومات،عددی ابلاغ اور مصنوعی ذہانت کے دور میں بعض معلوماتی اور ابلاغی آلات سے فرار ممکن نہیں، لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ کھانے کی میز پر بیٹھنے والے خاندان کے افراد اپنے اپنے موبائل یا آئی پیڈ کو چھوڑ کر ۲۴ گھنٹے میں سے صرف ۴۵ منٹ وہ ایک دوسرے سے بات کر سکیں، یا کسی موضوع پر سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ معلومات میں اضافہ کر سکیں؟
دوسرا بنیادی کام گھر سے باہر تعلیمی اداروں کا ہے کہ چھٹی جماعت سے ، دسویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں ایک بااخلاق، معتدل ،بامروت و محبت آمیز خاندان کے خدوخال شامل کیے جا ئیں۔ خاص طور پر خاندانی زندگی کی اہمیت، تقدس اور ایک پرسکون خاندان کے نتیجے میں معاشرے میں توازن و برداشت، صبر و استقامت اور تشدد کے عدم استعمال کو تعلیمی نظام کے ذریعے شخصیت کا حصہ بنایا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ چھٹی جماعت کی عمر میں ایک بچے میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ اگر اس مرحلے میں اسے خاندان کی اہمیت و عظمت پر یکسو کر دیا جائے، تو پھر ایک پُرامن معاشرے کا وجود میں آنے کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔
تیسرا اہم کام ملک کے ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لے کر ان تصورات کو علمی و تحقیقی اور دستاویزی شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے، جو آنے والی نسلوں کو مغربی سامراجی تسلط، ذہنی غلامی، ثقافتی نقالی اور اخلاقی بیماریوں سے بچا سکیں اور مثبت، تعمیری رجحانات پیدا کریں ۔فحاشی و عریانی کی جگہ حیا اور عصمت و عفت پر مبنی ڈرامے، نغمے، مباحثے، مکالمات وغیرہ پیش کیے جائیں اور ابلاغ عامہ کے اس مثبت کردار کو درجہ بندی (ranking) کا بنیادی پیمانہ بنایا جائے۔ مقامِ عبرت ہے کہ اس وقت برقی ا بلاغ عامہ(Digital Media) سب سے زیادہ بے حیائی، مغربیت اور غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اُردو میں کسی تبصرہ کے لیے بھی رومن کو استعمال کیا جاتا ہے اور گفتگو میں کثرت سے انگریزی الفاظ اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ تین چوتھائی گفتگو انگریزی میں اور ایک تہائی کی حد تک اردو کا استعمال مشاہدہ میں آتا ہے۔
چوتھا بنیادی کرنے کا کام ان افراد کا ہے جو اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی فکر سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کیا ان کے گھر ،ان کے پڑوس اور محلے میں وہی ماحول ہے جو بغیر کسی تردد کے مغرب کی اباحیت پسند تہذیب سے مستعار لیا گیا ہے، یا ان کے رویے،طرز فکر ، رہن سہن ، طور طریقے دین کی تعلیمات پر مبنی ہیں؟ بات وہی اثر کرتی ہے جو انسان کے اپنے عمل سے ظاہر ہوتی ہو۔ الفاظ کتنے بھاری بھرکم کیوں نہ ہوں جب تک کردار اور الفاظ میں مطابقت نہ ہو ابلاغ نامکمل رہتا ہے۔
تحریک سے وابستہ افراد کا گھرانہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی بھی دیکھنے والے کے لیےصیحح اسلامی طرز عمل کا نمونہ ہو اور دین اور اس کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہو ۔اس غرض کے لیے تحریک اسلامی کو اپنے ہر گھر میں ایک مثالی خاندان کے نقشہ کو رائج کرنا ہوگا، تاکہ گھر کا ہر فرد اخلاقی، معاشرتی انقلاب کا نمایندہ سپاہی بن سکے اور اس کی گفتگو، سوچ اور عمل یکسوئی کے ساتھ قرآن و سنت کی عملی تشریح پیش کر رہا ہو ۔اگر خدانخواستہ تحریکی گھرانوں میں فکری انتشار، بول چال اور رہن سہن میں مغرب کی اندھی نقالی ،تحریکی تصورات میں عدم پختگی پائی جائے گی، تو ایسے گھروں کے سربراہ چاہے علمی مقالات تحریر کر لیں یا خطیب ِعصر بن جائیں، ان کی کسی بات کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ یہ قرآنی ضابطہ ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں!
اسی طرح ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے تحفظ و ترقی کے پیش نظر جہاں کہیں وہ اپنی بات پیش کر سکتا ہے، چاہے وہ کاروباری مرکز ہو یا پارلیمنٹ اور عدلیہ یا جامعہ، وہ اپنی تمام ذہنی قوت کو ایسے حالات پیدا کرنے میں صرف کرے جو خاندان کے ہر فرد میں احساس ذمہ داری ،احساس جوابدہی ،اخلاقی رویہ اور معاملات میں سچائی، امانت اور خیر خواہی کی ہمت افزائی کرتا ہو ۔دعوت اور اقامتِ دین کا قیام جب تک گھر اور محلہ سے نہیں ہوگا، اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔ یہ خاندان اور محلہ ہی ہے جو پورے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
تحریک اسلامی جس سیرت و کردار کے انقلاب اور معاشرتی ، اخلاقی ، معاشی ، اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حالیہ صورت حال کا تنقیدی جائزہ لے کر اضمحلال اور اخلاقی زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، اور پھر قائد تحریک اسلامی کے پیش کیے ہوئے سوچے سمجھے چار نکات پر مبنی منصوبۂ عمل کو توازن کے ساتھ عمل میں لایا جائے ۔خاندان اور محلہ میں اقامت دین کے بغیر معاشرہ اور دستور ساز ادارے مسلمان نہیں بن سکتے۔اگر گھر کے اندر ہی یک رنگی، فکری اتحاد اور عملی یکسوئی نہیں ہوگی، تو زبان سے نکلے ہوئے کلمات اور قلم سے وجود میں آنے والے فکری نگینے مصنوعی چمک دمک سے مزین ہوں گے۔وہ اس نور سے محروم رہیں گے جو قرآن و سنت کی شکل میں بطور ایک رحمت انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔۳۵ سے ۴۰ سال میں دل و دماغ جس غیر سنجیدہ عوامی ماحول کے عادی ہو گئے ہوں، ان کو دوبارہ صحیح رُخ پر لائے بغیر اصلاح احوال کا کام نہیں ہو سکتا۔یہ ایک دلیرانہ ، پر عزم ، صبر آزما لیکن مثبت نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔ اس مقصد سے زمین میں ڈالا گیا ہر بیج شجر طیبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔زمین نم ہے، بیج موجود ہے، ارادہ اور قوت میں کوئی کمی نہیں ہے!پھر انتظار کس کا؟کیا حالیہ گمراہی ، معاشرتی زوال، اخلاقی دیوالیہ پن ، عرب جاہلیت سے بد تر ہے کہ اسے بدلا نہ جا سکے ؟
قرآن و سنت کے وہ عملی حل جو جاہلی ماحول اور انسان کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے آج بھی اپنی تازگی کے ساتھ موجود ہیں۔ضرورت صرف توازن کے ساتھ تطہیر فکر و نظر، تزکیۂ اخلاق و عمل، تعمیر کردار و سیرت،مثالی خاندان اور مثالی معاشرہ کے لیے افراد سازی اور تنظیم کی ہے۔ وہ تنظیم جس میں بےغرضی ہو، للہیت ہو ، خلوص ہو اور جاہ طلبی نہ ہو۔ جس میں ہر کارکن قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایسے افرادِ کار کی تیاری کے بغیر قوت کا مظاہرہ، جلسے جلوس کی کثرت ،منکر اور طاغوت کی جگہ معروف اور حق کے قیام میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔صبر و استقامت کی راہ ،واضح ومتعین منزل اور افرادی زادِ راہ ہی وہ مسنون طریقہ ہے جو کسی بھی تحریک اسلامی کو فرد،معاشرہ اور نظام کی صالح تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے۔
کسی تحریک (movement )کا دورانِ سفر اپنے سے یا کسی اور کا اس تحریک سے یہ سوال کرنا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟___ ایک سادہ لیکن پُر معنی سوال ہے جس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد، اپنی ساخت اور اپنے طریقِ کار سے غیر مطمئن ہے،یا اس میں کسی انحراف کی بنا پر یہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ درحقیقت یہ سوال اس لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ وہ جس مقصد اور دعوت کو اپنی بنیاد سمجھتی ہے، اس کے حصول کے لیے اسے مزید کن اقدامات اور کس حکمت عملی کی ضرورت ہے، نیز کن پہلوؤں کو مزید قوی کرنا اور کن پہلوؤں کا اضافہ کرنا ہے؟
اس داخلی احتسابی اور تجزیاتی زاویے سے اگر تحریک اسلامی کے نصب العین، مقصد اور حکمت عملی پر ایک نظر ڈالی جائے، تو وہ دیگر سیاسی، معاشی ،ثقافتی ،مذہبی تحریکات سے بنیادی طور پر مختلف نظر آتی ہے۔گو، ان میں سے بعض اختلافات اتنے شدید نہیں کہے جا سکتے جنھیں سیاہ اور سفید کی طرح مکمل طور پر مختلف کہا جاسکے۔
یہ سوال کہ تحریک کیا ہے اور کیا نہیں؟ ہر انتخابی نتیجے کے بعد اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ ہر قومی انتخاب کے بعد صحافتی حلقوں میں اور خود کارکنوں میں اس سوال پر گفتگو کا پایا جانا حیران کن نہیں کہا جا سکتا اور انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی معاملہ توقع کے برعکس نظر آئے، تو ہر ذی فہم شخص اس کے اسباب کو تلاش کرنا چاہتا ہے تاکہ آیندہ کامیابی کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکے۔
اقامتِ دین کی دعوت وجدوجہد تمام انبیائے کرام ؑ کا اسوہ ہے۔ قرآن کریم ان کی دعوت کا مرکزی مضمون اطاعت الٰہی اور طاغوت سے اجتناب کو قرار دیتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶)’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘ ۔
قرآنی زبان میں اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ ،انتہائی مختصر الفاظ میں نہ صرف انسان کے مقصد وجود کو بلکہ دنیا میں مسلمان کے مشن اور طرزِ حیات کو دوٹوک انداز سے پیش کردیتے ہیں۔ یہاں بات یہ کہی گئی کہ سوچ سمجھ کر اس کی بندگی اختیار کرو، جو تمھارا اور ساری کائنات کا خالق ہے۔ اور جو طاغوتی ادارے اور افراد ،تکبر اور غرور کی بنا پر خود کو کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتو بلکہ ان کی جگہ حقیقی خالق کی حاکمیت کو قائم کرو۔ یہ تمام باتیں محض دو الفاظ میں بیان کرنا درحقیقت قرآن کریم ہی کا اعجاز ہے۔
اس نصب العین کے حصول کے لیے انبیائے کرام ؑ نے خصوصاً خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےاقامتِ دین کے لیے اللہ کے احکامات کو جوں کا تو ں، اسی شکل میں کہ جس میں وہ نازل ہوئے پہنچا کر افرادِ کار کی تعمیرِ سیرت یا تزکیہ کے کام کو انتہائی حکمت کے ساتھ سرانجام دیا، اور اس منہجِ دعوت کو سمجھ کر اختیار کرنے والوں کے لیے اقامت ِدین کے فریضے کو لازمی قرار دیا۔گویا اقامت ِدین دعوتِ الی القرآن اور اصلاح و تعمیر سیرت کو علیٰ منہاج النبوۃ حکمت و دانش کے ساتھ سرانجام دینے کا نام ہے۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں یہ تعین کر دیتا ہے کہ اقامتِ دین ہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے انبیائے کرامؑ اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اور اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو(اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ ) اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ ۔
یہاں قرآن کریم نے ایک عبد کی حیثیت سے اللہ کی بندگی کی اُس سنت کو جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے قائم کی تھی، اُمت مسلمہ کے حوالے سے اقامتِ دین سے تعبیر کیا جس کی ہدایت اور وصیت سیّدنا ابراہیم ؑ سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو کی تھی۔ اقامتِ دین کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر دیتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو سیدھا کر دیا جائے یعنی اس کی اصل حالت پر واپس لے جایا جائے۔ چنانچہ سورۂ کہف میں حضرت موسٰی اور حضرت خضر ؑ کے قصے میں دیوار کو سیدھا یا درست کر دینے کے لیے یہی اصطلاح استعمال ہوئی: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ۰ۭ ۖ(الکہف۱۸:۷۷)۔
اس کا دوسرا مفہوم بھی قرآن ہی واضح کرتا ہے یعنی کسی عمل کو جیسا کہ اس کا حق ہے ادا کیا جائے۔ مثلاً اقامتِ صلوٰۃ اسی وقت صحیح طور پر ہوگی جب صلوٰۃ کو اس کی ظاہری اور باطنی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔چنانچہ اقامتِ دین کا قرآنی مفہوم یہ ہوگا کہ دین کو اس طرح قائم کرنا جیساکہ اس کا حق ہے اور جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی ؑاور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کو عملاً قائم کر کے اس کا حق ادا کر کے دکھایا: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اس قرآنی پس منظر میں دیکھا جائے تو اقامتِ دین کی تحریک حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا ؑ کا مقصد اور مشن رہا ہے، جس کا اظہار بار بار قرآن کریم نے صلوٰۃ کی اقامت کے الفاظ میں کیا ہے۔ نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے قیام کو قرآن نے ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری میں شامل کیا ہے: اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج۲۲:۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
دین کو جیساکہ اس کا حق ہے قائم کرنا اور اس کے بنیادی ارکان صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا قیام جن کا تعلق نہ صرف تزکیۂ نفس اورتزکیۂ مال کے ساتھ ہے، بلکہ معروف کے قیام کی جدوجہد اور منکر کو مٹانے کے لیے ذرائع کا استعمال میں لانا اقامتِ دین کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اگر زمین میں قوتِ نافذہ (تمکین )کے حصول کا مقصد وہ ہے جو یہاں بیان کیا گیا یعنی اقامتِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ کا قیام اور اچھائی اور خیر کا حکم دینا اور برائی اور منکر سے روکنا تو اقامتِ دین ہے، اور اگر زمین میں اختیار و اقتدار اس لیے مطلوب ہے کہ ذاتی فائدہ ، شہرت حاصل ہو تو یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی ہے۔
عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی دعوت اور جدوجہد کا محرک یہی اقامتِ دین کا قرآنی حکم ہے۔ کیونکہ امت مسلمہ کو جو عالمگیر ذمہ داری اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تفویض فرمائی ہے وہ دین کو مجموعی طور پر قائم کرنا اور طاغوت کی حاکمیت کو مٹانا ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے اجتماعی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور تحریک اسلامی کے قیام کا مقصد اس اجتماعی جدوجہد کے لیے افرادِ کار کی تیاری اور ان کی سیرت سازی ہے۔
قرآن کریم دین کی جامع اصطلاح سے مکمل دین مراد لیتا ہے۔ وہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں کسی جزوقتی مومن کی گنجایش نہیں پائی جاتی کہ جمعہ کے دن پاک صاف ہو کر اللہ کی کبریائی ، عظمت و حاکمیت کا اقرار کرے اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کہیں مال کا بندہ ہو، کہیں شہرت کا ، کہیں برادری اور کہیں اپنی پارٹی کا۔ مجموعی عبودیت سے مراد وہ طرزِ حیات ہے جس میں اللہ کی بندگی کو زندگی کے تمام معاملات میں شعوری طور پر اختیار کر لیا جائے۔ اس لیے اقامتِ دین کی جدوجہد بھی اس کوشش کا نام ہے جس میں کلّیت ہو اور دین کے کسی جز وکی نہیں بلکہ مکمل دین کا قیام مقصود ہو، اور اس طرح مقصود ہو جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی معاشرہ اور ریاست قائم کر کےدین کی اقامت کی مثال پیش فرمائی۔
جن تحریکات اسلامی نے اپنا دعوتی اور سیاسی کام الگ کرنے کا تجربہ کیا ان کے معروضی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جہاں یہ تجربہ کیا گیا اور اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جن کے پیش نظر اسے کیا گیا تھا، بلکہ اس سے ذہنی خلفشار میں اضافہ ہی ہوا۔ زمینی حقائق یہ اشارہ کرتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا اصولی اور عملی موقف یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو دو الگ دائروں میں تقسیم نہ کرے۔ اس کا سیاسی عمل بھی دعوتی اسلوب اور حکمت عملی پر مبنی ہوگا تو وہ اپنی فکری وحدت کو برقرار رکھ سکے گی، ورنہ سیاسی معاملات میں لبرل بننے کی تمنا اسے اصل دعوتی، اصلاحی اور تربیتی مقصد اور راستے سے غیر محسوس طور پر دور بلکہ منحرف کرسکتی ہے۔
دین ایک وحدت اور اکائی ہے۔ یہ عقائد ،انفرادی اور اجتماعی معاملات، معاشی ،سیاسی، قانونی دائروں میں حاکمیت الٰہی کے نفاذ کے ذریعے وحدت پیدا کرنے کا نام ہے۔ الہامی اصول و اخلاق ہر شعبۂ حیات میں یکساں طور پر نافذ کیے جائیں گے تو فرد، معاشرہ اور ریاست میں توازن و اعتدال ہوگا۔ ان اجزاء کو یا ان میں سے کسی ایک جزکو جب بھی الگ کیا جائے گا، انجام تصورِ دین سے دُوری ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں جب سے ’توحیدی وحدت‘ کی جگہ ثنویت ، دو رنگی (Dualism) نے لی اور دین و سیاست دو الگ خانوں میں تقسیم ہوئے، وہ مرکزِ وحدت سے دُور ہوتے گئے اور روحانیت کے نام پر ایک الگ دنیا اور سلطانی نظام کے نام پر ایک دوسری دنیا پروان چڑھی جس نے وحدتِ دین کے مظاہر اور اُمت کے وجود تک کو تقسیم کردیا۔
تحریک اسلامی کا انقلابی کردار اس حوالے سے یہی ہے کہ اس نے دین کی ناقابلِ تقسیم وحدت کو دوبارہ زندہ کیا اور امت کی فکری قیادت کی۔ تحریک کا اصل مسئلہ اہداف میں توازن ہے۔ دینی حکمت عملی میں کسی ایک جزو کو الگ کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
l تحریک اسلامی کیا نہیں ہـے: عام طور پر مذہب کے نام پر جو جماعتیں وجود میں آتی ہیں، وہ کسی مذہبی مسلک سے اپنی وابستگی کو اپنی بنیاد بناتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام ہی فقہی مذہب یا مسلکیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے اس کی ممبرشپ اس مسلک تک محدود سمجھی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی یا تحریک اسلامی کا قیام کسی مذہبی مسلک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا بلکہ اس میں ہر دینی مسلک کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور شامل رہے ہیں۔ گویا یہ صحیح معنوں میں دینی جماعت کہی جانے کی مستحق ہے اور یہ اس کا امتیاز ہے۔
تحریک اسلامی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس کی بنیاد نہ لسانی ہے، نہ علاقائی عصبیت پرہے اور نہ موروثیت پر، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کو جو قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوں،ایک اخلاقی اجتماعیت میں متحد کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر قائم ہے،جس کے حصول اور تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانانِ ہند نے اپنی جان و مال اور عزّت کی قربانی دی تھی۔ جماعت اسلامی بانیان پاکستان کے اسلامی تصورِ پاکستان کے نفاذ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دیتی ہے۔ اس لیے یہ ایک نظریاتی جماعت ہے،جس کا ایک واضح سیاسی اور دستوری کردار ہے۔
تحریک اسلامی روزِ اوّل سے خفیہ طریقِ کار اور قوت کے استعمال سے تبدیلی لانے کے عمل کو غلط سمجھتی ہے، اور اپنے دستور اور منشور میں وضاحت سے یہ بات دہراتی ہے کہ وہ پُرامن دستوری جدوجہد کی پابند ہے۔ اس زاویے سے تحریک اسلامی شدت پسند جماعتوں کی تعریف میں نہیں آتی۔ بلکہ جمہوری دستوری ذرائع کے لحاظ سے یہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی کے ساتھ بغیر کسی انتخابی مہم کے ارکان آزادانہ رائے کا استعمال کر کے اپنے امیر اور شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی اور سیاسی جماعت میں اس طرح کی شفافیت نہیں پائی جاتی۔
تحریک اسلامی ندوۃ المصنّفین کی طرح کی کوئی علمی و تحقیقی جماعت نہیں ہے، لیکن اس کا ایک بنیادی مقصد دین کے فہم کو فکری اور نظری بنیادوں پر دورِ جدید کے تناظر میں عام کرنا ہے۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد تھا جس کے لیے مارچ ۱۹۳۳ء میں مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور بعد میں پٹھان کوٹ میں ایک علمی ، فکری اور تحقیقی ادارہ قائم کیا، تاکہ دین کی تعلیمات کو جدید نسل تک پہنچایا جاسکے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی محض ایک علمی یا فکری ادارہ نہیں ہے۔ یہ اہم کام اس کی دعوتی ترجیحات کا اوّلین اور لازمی حصہ ہے، کیوں کہ وہ دین کی تعلیمات کو براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر عام فہم انداز میں پیش کرتی ہے۔
تحریک اسلامی دین کی کلّی تعبیر کی قائل ہے یعنی یہ دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں کرتی اور اقامتِ دین کو اس وقت مکمل سمجھتی ہے ،جب ایک مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور طاغوت سے مکمل نجات پائی جائے۔ اس لحاظ سے یہ اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔
ان چند ابتدائی گزارشات کی روشنی میں انتخابات کے نتائج کو اگر دیکھا جائے تو جماعت کے کارکن ہوں یا ہمدرد، سب کے ذہنوں میں جو سوالات گردش کرتے ہیں، ان پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے دینی تشخص اور سیاسی کردار میں تقسیمِ کار پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک سیاسی ونگ ہو جو سیاسی مسائل کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرے، اور ایک دینی ونگ ہو جو دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔
اس سوال پر اقامتِ دین کے حوالے سے غور کیا جائے تو اقامتِ دین اس کلّی طرز عمل کا نام ہے، جس میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم کرنا عملا ًناممکن ہے۔ اگر گھر گھر جا کر دعوت دین پیش کی جا رہی ہو، تو اس کا مقصد محض دینی معلومات نہیں ہو سکتیں۔ اس کے اثرات معاشرتی اور سیاسی سطح پر ہونے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ دانش ورانہ تقسیم نظری تو ہو سکتی ہے عملاًممکن نہیں۔ اس تناظر میں اقامتِ دین کی دعوت کا مقصد خود بانی ٔ جماعت سیّد مودودی کے الفاظ میں صرف تین نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اُس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اُس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے، اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فُساق و فُجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماںروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دُنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔(روداد جماعت اسلامی، سوم،ص ۵۶-۵۷)
گویا سیاسی اور خالص دعوتی اور تبلیغی کام کی تقسیم تحریک اسلامی کے قیام کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک نہیں جس نے محض سیاسی مقاصد کے لیے مصلحتاً ایک مذہبی لبادہ اُوڑھ لیا ہو اور نہ اس کے مزاج میں خانقاہ اور تزکیۂ نفس کا یہ تصور ہے کہ ایک فرد کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر روحانی ترقی کے زاویے میں محدود کر دے۔ بلکہ یہ فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح و تربیت کے ذریعے نظام زندگی سے طاغوت کو خارج کر کے معیشت ،سیاست، معاشرت، عدلیہ، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات کو اللہ کی بندگی میں لانے کی دعوت دیتی ہے۔
تحریک کے قیام کا ایک بڑا محرک بر صغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات تھے۔ یہ بات واضح ہو کر سامنے آر ہی تھی کہ جلد ملک کو تقسیم ہونا ہے اور ایک نیا خطۂ ارض اسلامی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد مسلم لیگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی ، قیادت کی سطح پر بالعموم ایسے افراد پر مشتمل تھی، جو اس عظیم کام کے لیے نہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ان کا علمی اور ثقافتی پس منظر اس ذمہ داری میں مددگار ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر ملک کو اسلامی نظریۂ حیات کی بنیاد پر چلانا اور یہاں پر اسلامی نظام نافذ کرنا حصولِ پاکستان کا مقصد تھا، تو اس کے لیے وہ افرادِ کار کہاں تھے، جو اس خواب کو عملی شکل دے سکیں؟ یہی وہ فکر تھی جس نے قائد تحریک اسلامی مولانا مودودی کو ایسے صالح افراد کی تلاش اور ایک ایسی جماعت کے قیام پر اُبھارا، جو وجود میں آنے والے نئے ملک کے لیے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل منتظمین اور کارکنان فراہم کر سکے۔ یہ ایک نئے انسان کی تلاش تھی، جو ایمان دار، دیانت دار، سچا، ایثار و قربانی کرنے والا اور بے غرض ہو۔ جسے اقتدار کی ہوس نہ ہو اور جو اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو اور قیادت کی مطلوبہ صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
قیامِ پاکستان سے قبل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرّے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دُوہرےفرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلادینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی۔( روداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۹۸)
ان صالح افراد کی تلاش کے ساتھ تحریک کو درپیش چیلنج یہ تھا کہ ان افراد کی فکری اور عملی تربیت اور سیرت سازی کی جائے تاکہ ملک میں اخلاقی تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ آج جو صورتِ حال ملک میں پائی جاتی ہے، وہ بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان صالح نوجوانوں کو جو سرکاری اداروں پر اعتماد کھوچکے ہیں اور جن کے سامنے سوائے احتجاج کے اور کوئی منزل نہیں ہے۔ انھیں ہنگامہ آرائی کی جگہ اپنی فکر اور شخصیت کو قرآن و سنت میں ڈھالنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انھیں ایک تنظیم میں لاکر ان کی صلاحیتوں کو ترقی دی جائے اور تعمیری فکر ، مثبت رویہ اور پُرامن دستوری ذرائع کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کی جائے۔
یہ کام دیر طلب ہے، استقامت اور صبر سے کرنے کا ہے۔ یہ محض نعروں سے نہیں ہو سکتا۔ تحریکی افراد کو اپنے سنجیدہ اور متاثر کن کردار سے اسے کرنا ہوگا۔ ہر تحریکی کارکن کا علم مغربی اور اسلامی فکرو ثقافت میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہیے تاکہ وہ علمی اور عملی طور پر خود ایک نمونہ ہوں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرنا ہوگا۔
ہمیں ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو نہ صرف علم بلکہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ عالمی معاشی نظام، سیاسی فکر ہو یا معاشرتی تصورات ،وہ جدید علوم اور اسلامی مصادر سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت کی علمی تربیت اور کردار سازی کے بغیر عوام کے ایک ہجوم کو چند جذباتی نعروں کے ذریعے جمع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اصل کرنے کا کام دعوت و اصلاح و تربیت ہے۔ جس کے مطلوب انسانی اور مالی وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ دیر پا کلّی اخلاقی انقلاب کے لیے دعوتی ترجیحات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، اور اوّلین نکات کو اوّلیت دینی ہوگی۔ تطہیر فکر، تعمیر سیرت ،تنظیم، انسانی وسائل کو مستحکم کیے بغیر سیاسی جدوجہد اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ عوام کی نگاہ میں متبادل (choice) بننے کے لیے سیرت و کردار سازی ہی وہ عنصر ہے جو تحریک کو ممتاز اور قابل اعتماد بنا سکتا ہے۔ سیاسی جلسے اور جلوس رائے عامہ کی تشکیل کے لیے ناکافی ہیں۔
دوسرا اہم محاذہمارے اپنے گھر ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں تحریکی گھرانے بھی سیاسی معاملات میں تقسیم ہو گئے اور بہت سے تحریکی گھرانوں کے نوجوانوں نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خاندان کی اکائی کو بحال کیا جائے اور اس عمل میں حق کی حمایت، لاقانونیت اور غیرجمہوری اقدامات کی کھل کر مخالفت کی جائے تاکہ تحریک کے سیاسی عدم تعصب ، عادلانہ روش ، صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت اور کسی ادارے سے خائف یا پیروی کرنے کے منفی تاثر کو دُور کیا جا سکے اور اس کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آسکے۔
پابندیوں اور غیرمنصفانہ کارروائیوں پر ردعمل:تحریک اسلامی ایک مثبت اور پیش قدمی کرنے والی تحریک ہے۔ اس کا کام رد عمل کے طور پر کام کرنا نہیں ہے۔ اسے اصول کی بنیاد پر ہی تنقید کرنا ہے، اور تنقید میں عدل و توازن کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔اپنے قول اور عمل میں مثبت اور تعمیری رویے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر نوجوانوں میں شدت سے انتظامیہ کے خلاف رَدعمل پایا جاتا ہے۔ اس کی فوری اصلاح اور اس قوت کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر شہر میں ایسے تعمیری منصوبے شروع کرنے ہوں گے، جو نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں مصروف کریں۔ ان کی عملی تربیت معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل تلاش کرنے کا ذریعہ ہو اور وہ مثبت فکر اختیا ر کر سکیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ۸ فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے شمار اور اعلان کردہ نتائج میں کوئی منطقی ربط نہیں پایا جاتا ۔ اس حقیقت کا اظہار جماعت اسلامی کے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے عدل و دیانت پر مبنی بیان سے ہوتا ہے۔ انھوں نے سرکاری اعلان کردہ اپنی کامیابی کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے مخالف پی ٹی آئی کے نمایندے کو ڈالے گئے ووٹ ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے، لیکن سرکاری اعلان میں انھیں تحریف کر کے جیتنے والے کو ہارنے والا بنا دیا گیا۔ یہ اخلاقی جرأت ہمارے یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ جماعت اسلامی جس قسم کا انسان اور معاشرہ پیدا کرنا چاہتی ہے، اس میں حق گوئی، عدل اور بےغرضی کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے۔ چنانچہ تحریک کا کارکن اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے حق کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ایسا فرد ہی انسانی معاشرے میں مثبت، صحت مند اور عادلانہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی بڑی اخلاقی فتح ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی اصول پرستی اور بے لوثی پائی جاتی ہے۔
انتخابات میں اعلان شدہ نتائج کی صداقت کو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے بلکہ ملک کے ہر باشعور شہری، حتیٰ کہ بیرون ملک کے ابلاغ عامہ نے بھی غلط اور جمہوری روایات کے مکمل منافی قرار دیا ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نتائج کو اپنی پسند کے مطابق ظاہر کرنے والوں کے ضمیر ابھی تک بیدار نہیں ہوسکے۔اگرچہ ’ن‘ لیگ کے چند سنجیدہ افراد نے بھی نتائج کی تبدیلی کے عمل کو شرمناک اور ان کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں براجمان ہونے والوں کی حیثیت پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ نفس لوامہ جب تک زندہ ہے، یہ یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ حق و باطل میں فرق کیا جائے اور حق بات کا اظہار کیا جائے، چاہے اس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہو ۔
عالمی طور پر نتائج میں کسی تحریف کو نہ صرف ایک قانونی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے آمرانہ نظام کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو آمریت سے بچانے کے لیےاور ملک کے نظام کو دستورِ مملکت کے مطابق جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے احیا کے لیے پُرامن ذرائع سے ملک گیر جدوجہد برپا کرے ۔
ان انتخابات نے اس عام تاثر کے برعکس کہ عوام کو جو چاہے رقم سے خرید سکتا ہے یا سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے دباؤ میں ان سے ووٹ ڈلوایا جا سکتا ہے ، یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچادی ہے کہ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں میں ملکی مسائل کا شعور نہ صرف بیدار ہے بلکہ وہ تمام پابندیوں اور آزمایشوں کے باوجود استقامت اور صبر کے ساتھ پُرامن رہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال اورظلم کے خلاف جمہوری انداز میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ احتجاج کے اظہار کےلیے توڑ پھوڑ کی جگہ صبر و استقامت اور پرامن احتجاج زیادہ مؤثر طرزِ عمل ہے ۔
انتخابات میں بے ضابطگی کےعلاوہ جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے بعض اندازوں کے مطابق ملک میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکن اس وقت جیلوں میں نظر بند ہیں۔ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس کے کارکنان پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کےا سپیکر، وزیراعظم اور صدر مملکت کے عہدوں پر من پسند افراد کو بٹھایا جا چکا ہے، جب کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عملاً کوئی انتظامی اختیار نہیں رکھتی۔ ان سب استحصالی اقدامات اور اپنے خیال میں حزبِ اختلاف سے نجات حاصل کر لینے کے باوجود، سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کرنا غیر معمولی احساسِ عدم تحفظ و عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سیاسی آزادی کی بحالی کے لیے آواز بلند کرنا اور قوم کو ساتھ لے کر کلمۂ حق بلند کرنا ایک قومی فریضہ ہے ۔ ایک اصولی اور نظریاتی اساس پر قائم ہونے والی جماعت کا فرض ہے کہ تمام اختلافات اور تلخ تجربات سے بلند ہو کر اصولی طور پر حق کی حمایت اور ظلم و استحصال کی کھل کر مخالفت کرے۔ نوجوانوں کی راہنمائی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پر امن دستوری ذرائع سے ظلم کے خلاف آواز اٹھتی رہے اور نفاذ جمہوریت کی تحریک ایک تسلسل سے آگے بڑھتی رہے۔
ملک گیر پیمانے پر تمام خواتین اور سیاسی کارکنان کی رہائی کے لیے منظم مہم وقت کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں سیاسی بنیاد پر خواتین کو جیلوں میں بند کرنا پاکستان کی سیاسی روایت سے انحراف اور ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں چادر اور چار دیواری کا احترام بنیادی اخلاقی اور انسانی فریضہ شمار کیا جا تا ہے۔ اسلام نے جو عزت و احترام کا مقام خواتین کو دیا ہے اس کی مثال کسی اور معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔ سیاسی گرفتاریوں خصوصاً خواتین کی رہائی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی اختلافات سے بلند ہو کر بات کرنا ، اسلامی روایات کا تقاضا اور تحریک اسلامی کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انتخابات میں مقتدر اداروں کی غیر دستوری دخل اندازی کے باوجود ایک بے نشان سیاسی جماعت کو ملک گیر سطح پر عوامی حمایت کا حاصل ہونا تحریکی نقطۂ نظر سے غیر معمولی توجہ کا مستحق ہے۔ ماضی کے انتخابات کے نتائج کا نظریاتی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کو نظریاتی اور اصولی پارٹی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اپنے اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کے باوجود، دیگر سیاسی پارٹیاں الگ الگ ناموں کے ساتھ، عملاً اقتدار کی دوڑ میں شریک اور ذاتی مفاد پرست افراد کا ایک مجموعہ بنی رہی ہیں ۔ جماعت ایک بے لوث اصلاحی اور اصولی پارٹی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت وہ واحد دینی اور نظریاتی پارٹی رہی ہے ،جس کا وجودعوامی سطح پر ملک کے تمام صوبوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ، ایک سندھ اوردوسری پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھنے کی مدعی رہی ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی صورتِ حال کو بہتر بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ تینوں جگہ اس کے امیدواروں کو عوام نے ووٹ دیا۔ مگر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کراچی کے علاوہ دیگر مقامات پر جماعت اسلامی اپنی مقبولیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکی۔ کیا اس کا سبب پی ٹی آئی کی قیادت کا بظاہر مظلوم ہونا اور عوام کا انھیں ہمدردی کی بنا پر ووٹ دینا تھا، یا واقعتاً پی ٹی آئی کے منشور اور پروگرام سے آگاہی کی بنا پرعوام نے اس سے وابستہ افراد کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود اور غیر معروف سیاسی نشانوں پر بھاری تعداد میں ووٹ دیئے؟ اس کے کیا محرکات تھے اور پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا تھی ؟ سیاسی جلوس اور اسٹریٹ پاور کے اظہار کے بغیر محض سوشل میڈیا کے ذریعے انھوں نے کس طرح عوام کو ساتھ ملایا؟ یہ سب پہلو زمینی حالات کے حقیقت پسندانہ ادراک اور تجزیے کے طالب ہیں۔
اس پہلو پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ مقتدر حلقوں کے ہاتھوں پس پردہ جو کچھ ہوا اگر وہ نہ ہوتا، تو کیا ملک گیر سطح پر ہمارا ووٹ بنک ہمارے اندازے کے مطابق ہوتا؟ اس اندازے اور حقائق کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے۔
انتخابات کے حوالے سے ایک سے زائد پیشہ ورانہ جائزوں اور تجزیوں کی ضرورت ہے، جو اس شعبہ کے ماہرین سے کرائے جائیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اگر کسی مقام پر جماعت کے امیدوار کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو زیادہ ووٹ ڈالے گئے، تو کیا اس کا سبب اس امیدوار کا عوامی سطح پر فلاحی کاموں میں سر گرم ہونا تھا یا اس پارٹی کی شہرت کی بنا پر اسے ووٹ ملے ؟ جماعت کے امیدوار کی مہم میں کس جگہ کیا خامی رہی ؟ خود امیدوار کے حوالے سے یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امیدوار کی عمر، ظاہری وضع قطع، علمی استعداد ،محلے کی مسجد میں نماز باجماعت میں حاضری، اس کا پیشہ یا کسی مقامی معاشرتی و فلاحی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، کس چیز نے ووٹر کو متاثر کیا؟ کیا دو معروف جماعتوں سے عدم اطمینان اور تیسری بڑی پارٹی کے معتوب ہونے کی بنا پر ووٹر نے جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہا، تاکہ کم از کم ووٹ کا وزن ایک جگہ پڑے، یا اس نے جماعت اسلامی کی دعوت ، امیدوار کی صلاحیت پر اعتماد کی بنا پر جماعت کے امیدوار کو پسند کیا ؟ ووٹر کی پسند ناپسند کا اندازہ کرنا آیندہ کے لیے رہنمائی فراہم کرنے اور خود تحریکی دعوتی سرگرمی کے لیے بھی بنیادی مواد فراہم کر سکتا ہے ۔
انتخابات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی تصدیق اور تجزیہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ جب تک دعوت کے مخاطب کی نفسیات، زندگی کے بارے میں تصور اور معاشرتی اور معاشی تصورات کا اندازہ نہ کیا جائے، دعوت کی حکمت عملی طے نہیں کی جاسکتی۔ کیا وجہ ہے کہ پورے پنجاب میں سے جنوبی پنجاب کے دوحلقوں میں جماعت کے نمایندہ کو ۱۱ہزار سے زیادہ ووٹ ملے ہیں، جب کہ کراچی اور خیبرپختونخوا میں ۳۰،۳۰ہزار سے زیادہ ووٹ جماعت کے نمایندے کو ملے ہیں۔ اس فرق کا گہری نظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ۲۵کروڑ آبادی کے ملک میں ملک گیر سطح پر جماعت کو ۲۵لاکھ ووٹ ملے ہیں، مگر یہ منتخب نمایندے کی شکل میں کیوں نہیں ڈھل سکے؟
انتخابات میں حصہ لینا تحریک اسلامی کے مجموعی کام کا ایک لازمی جزو ہے، جسے اقامتِ دین کی جامع اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے ۔تحریک کا اصل کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ، اس کے بندوں تک ان کے ربّ کا پیغام پہنچانا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی رہنمائی میں اپنے طرز عمل کے ذریعے دین کی تعلیمات کو متعارف کروانا ہے، اور تحریک اور اس کا ہرکارکن عند اللہ اس دعوتی فریضے کے لیے جواب دہ یا مسئول ہے۔ چونکہ انتخابات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ ہو، ان کی اخلاقی اورسیاسی تعلیم و تربیت کی جائےتاکہ وہ دیانت دار اور امانت دار افراد کو اپنا نمایندہ منتخب کریں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر کام دعوتی کام کا ایک حصہ ہے،اسے محض ووٹ بنک بڑھانے کا ذریعہ سمجھنا سادہ لوحی ہے۔لیکن اقامت دین کے دیگر اُمور جن میں تربیت و تزکیۂ سیرت اور اجتماعیت اور نظم و ضبط کا پیدا کرنا شامل ہے، نظر انداز نہیں ہونے چاہییں ۔ ہماری انتخابی مہم کا حاصل محض ووٹوں کی گنتی اور نشستوں کی تعداد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ توسیع دعوت، تعمیر کردار ، تطہیر افکار کرتے ہوئے سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اصلاح کی کوشش ہونا چاہیے، تاکہ عام سیاسی جماعتوں اور تحریک کے مزاج اور مقصد کے فرق کو ایک عام ناظر بھی محسوس کر سکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں تحریک نے امیدوار کھڑے کیے تھے، ان کے حق میں جس شخص نے بھی ووٹ دیا، اس سے رابطہ اور تحریکی لٹریچر کے ذریعے یا قرآنی حلقۂ درس اور سیرت پاکؐ کے مطالعے کے ذریعے اسے تحریک کے قریب لانے کے منصوبہ پر فوری عمل کیا جائے اور اس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہ ہو ۔یہ دور اعداد و شمار (Data) جمع کرکے، تجزیہ کرنے اور اس کی بنیاد پر قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنے کا دور ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی تحریکی امیدوار کامیاب ہوا یا نہیں ، ووٹ دینے والے ہر فرد سے ذاتی رابطہ اور حکمت کے ساتھ انھیں اپنی دعوت پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجے میں جماعت مرکزی پارلیمنٹ میں کوئی جگہ حاصل نہ کرسکی اور صوبائی سطح پر صرف کراچی میں ایک اور بلوچستان میں دو نشستیں حاصل ہوسکیں۔ سبب بہت واضح ہے۔ بعض مؤثر ادارے جن افراد کو لانا چاہتے تھے ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے انھیں ایوان تک پہنچا دیا گیا۔ان حقائق کے باوجود یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فارم ۴۵ کے مطابق جماعت نے ملک گیر پیمانے پر اس انتخاب میں اور سابقہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں کل کتنے ووٹ حاصل کیے اور کیا حاصل شدہ ووٹ اس کے متوقع ووٹوں کی تعداد سے مطابقت رکھتے تھے ؟
لیکن اس جائزے اور سروے کے نتائج کا انتظار کیے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں فوری طور پر دعوتی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ داعی تحریک اسلامی سیّد مودودی نےایسے مواقع کے بارے میں اپنے ایک تاریخی خطاب میں جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا، یہ بات فرمائی تھی کہ تحریک کے کام میں اگر رکاوٹ کا پہاڑ بھی سامنے آ جائے تو تحریک رُکتی نہیں۔ وہ پہاڑی نالے کی طرح پہاڑ کے دائیں اور بائیں سے راستہ تبدیل کر کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے، اور پہاڑ اپنی جگہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ بھی ہیں، ان سے سرگرم تعلقات کے ذریعے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کون افراد نظریۂ پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں اور ملک کے دستور کی روشنی میں ملک میں اخلاقی اور اصلاحی کام کو ترجیح دیتے ہیں؟ ان کے ساتھ ان موضوعات پرجن کا تعلق نظریۂ پاکستان اورآئین پاکستان میں درج جمہوری روایات سے ہے، باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے رابطہ استوار کیا جائے۔
اس سلسلے میں ان موجود افراد کو علمی اور فکری زاویے سے جس تعاون کی ضرورت ہے وہ فوراً فراہم کیا جائے ۔ان نمایندگان سے ذاتی رابطہ پورے خلوص کے ساتھ قائم کیا جائے، انھیں مختلف موضوعات پر مواد کی فراہمی، تحریک سے وابستہ افراد کے ذریعے کی جائے۔اس عمل سے کسی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچے تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ ہمارا مقصد دین اور نظریۂ پاکستان کا نفاذ ہے۔ اگریہ کام ہمارے ہاتھ سے نہ بھی ہو لیکن کسی اور کے ذریعے ہو جائے تو یہ ہماری ہی کامیابی ہے۔
ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ چند امور پر فوری توجہ دی جائے:
ایک عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے جہاں دیدہ افراد بھی سیاسی مہم کا مقصد حصولِ اقتدار و اختیارات ہی سمجھتے ہیں، اور انتخابات میں کسی پارٹی کی کامیابی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام سے کیے گئے وعدوں پر کام کرے گی۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور انتخابات کے بعد، ہر مرحلے میں تحریکی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کا مقصدحصولِ اقتدار کی جگہ اقامت دین کے لیے زمین کی تیاری کی جائے اور ذاتی اقتدار کی جگہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے نفاذ کی کوشش کو اپنی گفتگو، حکمت عملی اور رابطہ مہم میں مرکزی مقام دیا جائے۔ انتخابات کےنتائج سے قطع نظر تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ اقامت دین اور اپنے مخاطبین کی فکری تربیت اور عملی تنظیم میں کمی نہ آنے دے اور سیاسی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی اپنے اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے اس کے پاس واضح نقشۂ عمل ہو ۔ اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے خود کو اوردوسروں کو یاد دہانی اور تاکید میں کمی نہ آنے دے۔ جگہ جگہ قرآنی حلقوں کا قیام اور سیرت پاکؐ کی روشنی میں تعمیر سیرت کی نشستوں اور تربیت گاہوں کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے گا، اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ سے جتنی قربت ہوگی، دعوت کو اتنی ہی کامیابی ہوگی۔
دستور ریاست ِ پاکستان جن سیاسی آزادیوں کا تحفظ دیتا ہے تحریک کو ان کے حصول کے لیے ملک گیر مہم برپا کرنی چاہیے، تاکہ جن افراد کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے، ان پر کھلی عدالت میں کارروائی ہو، اور جو سیاسی کارکن خصوصاً خواتین اس وقت بلا کسی اخلاقی جواز کے جیلوں میں ہیں، اور جن صحافیوں کو ان کی حق گوئی کی بنا پر قید کر دیا گیا ہے، ان کو رہا کر ایا جائے اور ملک میں دستور میں دیے گئے جمہوری حقوق کو بحال کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تہذیبی اور سیاسی روایات اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی حفاظت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔
اداراتی دخل اندازی سے جن افراد کو برسر اقتدار لایا گیا ہے، وہ ایک حزبِ اختلاف کے موجود ہونے کے باوجود ایسی قانون سازی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو بیرونی دشمنانِ پاکستان کی مرضی کے مطابق ہو۔ ماضی میں بھی دشمنانِ وحدت ملت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ ملک میں سیاسی عدم توازن پیدا کرکے ایسے افراد کو اقتدار میں لایا جائے، جو ذہنی طور پر مغربی سامراج کے غلام اور تابع دار ہوں۔
عدالت عظمیٰ پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے سےبراہِ راست فائدہ قادیانیوں کو ہوا ہے اور ایسے اہم فیصلے کا انتخابات سے دو دن قبل آنا ایک معنی خیز اقدام کہا جا سکتا ہے ۔ایک عرصے سے بیرونی دشمن اس مہم میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح قادیانیوں کو جن کا وجود تاج برطانیہ کا مرہونِ منت تھا اور جو مرزا غلام احمد کے تحریری بیانات کے مطابق برطانوی مفادات کے تحفظ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، مذہبی آزادی کے بہانے قادیانیت کی ترویج کے دروازے کو کھول دیا جائے۔ ایسے ہی ایک دوسرے فتنہ یعنی مخنث افراد سے ہمدردی کے نام پر جنسی تبدیلی اور اباحیت کے دروازے کو بھی کھول دیا جائے تاکہ پاکستانی نوجوان ان دو شیطانی وباؤں کا شکار ہو کر اپنی تعمیری اور اصلاحی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں ۔ ان دونوں فتنوں پر ملک گیر پیمانہ پر علمی مجالس کا انعقاد ، رائے عامہ کی ہمواری اور قانون ساز اداروں میں ہونے والی پس پردہ سرگرمیوں سے آگاہی قومی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ حزبِ اختلاف کا چوکنا رہنا اور تحریک کی جانب سے ان دونوں معاملات میں مددگار فکری و عملی اثاثہ (supporting material) اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا لازم ہے۔
ملک ِ عزیز میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور فکری انتشار کا بنیادی سبب ملکی اداروں کا اپنے دائرۂ کار کے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے شعبوں کو اپنے زیر تسلط لانے کا کھیل ہے، جو ملک کے دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر شعبہ دوسرے شعبے کے دائرۂ کار کا احترام کرتے ہوئے تعاون تو کرے، لیکن اس کا استحصال نہ کرے۔ اس حقیقت واقعہ کے نتیجے میں گذشتہ دو برس کے دوران میں جس تیزی سے عوام کا اعتماد مقتدر اداروں سے اٹھا ہے اور اداروں کی عزّت ان کی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر برباد ہوئی ہے،اس کو دوبارہ استوار کرنے کے لیےغیر معمولی محنت، دیانت، امانت اور سچائی کی ضرورت ہے۔
جس معاشرے میں عدل اور قانون کا احترام ختم ہو جاتا ہے، وہاں انتشار اور خودغرضی رواج پا جاتی ہے اور اخلاقی زوال زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر جاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے اخلاقی زوال کی روک تھام نہیں کی انھیں کوئی طاقت صفحۂ ہستی سے مٹنے سے نہیں روک سکی۔ اُمت مسلمہ کی پہچان اس کا وہ اخلاقی طرزِ عمل ہے، جسے قرآن کریم نے امر بالمعروف اور عملِ صالح کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔اس کے مقابلے میں اگر معروف کی جگہ ’منکر‘ اور ظلم و جبر کو اختیار کیا جائے، تو اس مدت ِمہلت کے گزرنے پر جس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہ قوم اپنا وجود اور جواز کھوبیٹھتی ہے۔ قومی سطح پر معروف کا قیام اور منکر کا مٹانا قرآن کریم کی رو سے امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کا فرض منصبی ہے ۔اس فرض کی ادائیگی کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
سیاسی عدم استحکام اداروں کے دائرۂ کار کے اختلاط اور معاشی اضمحلال کا ایک بڑا سبب برسرِاقتدار آنے والوں کی وہ غلامانہ ذہنیت ہے، جو اپنے ذاتی مادی مفاد کو قومی وقار پر فوقیت دیتی ہے۔ یہ ٹولہ بیرون ملک ہر اس ملک کے فرماں روا کے سامنے کاسۂ گدائی اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جہاں سے قرض ملنے کی توقع ہو۔ ایسے مالی قرضے کو یہ اپنا کارنامہ دکھانے کے ساتھ اس قرض کی رقم کو کسی دوسرے قرض کی ادائیگی میں استعمال کرلیتا ہے، اور اسے اپنی فنی مہارت کہہ کر اپنے آپ کو خوش کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پالیسی معیشت کو قطعاً بہتر نہیں بنا سکتی ۔
عالمی مالی اداروں سے مزید قرض یا سود کی ادائیگی کے بارے میں مہلت کی مہنگی بھیک کی جگہ ان اداروں سے مکمل گلو خلاصی کی ضرورت ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ ماہرین کی مدد سے قوم کے سامنے اس مرض کا علاج تجویز کرے تاکہ ملک میں معاشی ترقی اور اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوسکے۔ بے ساکھیوں کی مدد سے چلنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔جب تک جسم کو صحت مند نہیں بنایا جائے گا عارضی نسخے کسی بھلائی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے۔
برسر اقتدار طبقہ نے یہ جاننے کی بنا پر کے بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے بیزار ہے، ان کے دستوری حق کو ان سے چھین کر انھیں ووٹ دینے سے محروم کیا۔ یہ قومی سطح کی بددیانتی ہے اور تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حق کے لیے قوم کو اعتماد میں لے اور دستوری ذرائع سے یہ بات تسلیم کرائے کہ وہ برقی ذرائع سے اپنے ووٹ دے سکیں۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کے پیش نظر ان تک تحریک کی دعوت مؤثر انداز میں پہنچائی جائے ۔ان میں پاکستان سے وابستگی کو مزید مستحکم کیا جائے اور ان کی نا اُمیدی کو دُور کیا جائے اور ملکی مسائل پر ان کی آراء کو عوام اور نمایندہ ایوانوں میں پہنچایا جائے ۔اس غرض سے بیرون ملک پاکستانیوں کی قائم کردہ تنظیمات سے رابطہ اور ان کی مثبت رہنمائی بے حد ضروری ہے۔ وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں اور ملک سے دُور ہونے کے سبب ملک کے بارے میں یہاں بسنے والوں سے زیادہ ملک کے تحفظ و ترقی کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ ان میں دعوت دین کا فروغ، ان کی پاکستانیت کو زیادہ مستحکم اور فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ یہ وہ ملک ہے جو ۲۷رمضان المبارک کی شب قدر کو وجود میں آیا اور دورِحاضر میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مستحکم اور قوی تر بنائے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں پاکستان میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی توفیق دے، آمین!
گذشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں گرفتار چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ملکی قیادت پر اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مایوسی، نا اُمیدی، جھنجلاہٹ اور منفی طرزِ فکر میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔جس کا ایک پہلو ملک سے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی (Brain drain)ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ، ذ ہین اور باصلاحیت نوجوان ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے، اورغیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔ ایسی ہی مایوسی اور دل گرفتگی اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی، جب برطانوی سامراجی طاقت نے مسلم بادشاہت کا خاتمہ کیا اور برصغیر میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی سلطنت ِ عثمانیہ جس کی طرف مسلمان امیدوں کے ساتھ دیکھتے تھے، اپنے ہی گھر کی مصطفےٰکمال کی سیکولر قوم پرست قیادت نے ان اُمیدوںکا چراغ گُل کرتے ہوئے علامتی خلافت تک کا خاتمہ کر دیا۔ اس صدمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کو شدید دُکھ ، افسوس اور مایوسی کی فضا میں دھکیلا اور ہجرت کی تحریک کو جنم دیا۔
اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو بھی اپنی شفقت اور محبت سے محروم نہیں کرتا، جو بظاہر سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہو۔ اسی رحمت کی بنا پر رحیم و کریم رب نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کیے، جو اس کے بھیجے ہوئے دینِ مبین پرمبنی نظامِ حیات کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔
الحمدللہ! قیام پاکستان سے قبل ایک ایسی تحریک وجود میں آئی، جس کے سامنے اسلام کا حرکی تصور نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پربھی موجود تھا اور یہ تھی جماعت اسلامی جو ۱۹۴۱ء میں منظم صورت میں سامنے آئی۔ اس سفر میں جماعت اسلامی کے بانی نے قرآن وسنت کے تابع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک منظم کی، اور اقامت دین کے لیے تربیت یافتہ افراد تیار کرنے کا آغاز کیا۔
مولانا مودودیؒ نے قوم کو علمی، فکری اور عملی قیادت فراہم کی اور ایسے افرادِ کار کی تیاری کا راستہ دکھایا جو اسلامی نظام حیات کا شعوررکھتے ہوں۔ اس تحریک کے دستور میں اس نصب العین کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا:’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملا ًاقامت ِدین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴)
اقامت دین کی جامع قرآنی اصطلاح، اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں نافذ کرنے کا نام ہے۔یہ دین کے کسی ایک پہلو اور اسلام کی کسی ایک تعلیم کو کُل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔اللہ سے تعلق، تزکیہ، کردار سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا دین کا لازمی تقاضا ہے۔ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ تنہا سیاسی جدوجہداقامت دین نہیں ہے، بلکہ یہ اس جامع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے۔ تحریک کو وہ سیاسی جدوجہد مطلوب ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بھیجے ہوئے نظام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے نفاذ کے لیے ہو، جس میں کسی فرد کی ذاتی غرض، حصولِ اقتدار کے ذریعے اپنی نمایش مقصود نہ ہو۔ گویا سیاسی جدوجہد اصل میں توسیع دعوت کا ایک ذریعہ بنے ۔
دستور جماعت کے مطابق، جماعت کوئی ایسے ذرائع استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے منافی ہوں یا جن سے فساد فی الارض کا خطرہ ہو۔ دستورِ جماعت یہ بھی طے کر دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی انقلابی جدوجہد کے لیے جمہوری اور دستوری ذرائع استعمال کرے گی اور نصب العین کے حصول کی یہ جدوجہد کھلم کھلا اور علانیہ ہو گی۔دستور کی یہ واضح دفعات اگر تحریکی کارکنوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ موجود ہوں، تو دعوتی کام میں پیش آنے والی مشکلات ہوں یا سیاسی رکاوٹیں اور سیاسی ناکامیاں، حالات جو بھی ہوں نہ کارکن اورنہ قیادت مایوسی کا شکار ہو گی اور نہ اس میں غصہ، نفرت، جھنجلاہٹ اور انتقام کے جذبات اُبھر سکیں گے ۔
اللہ پر توکّل کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک کارکن جتنی قوت اور اختیار رکھتا ہو، اس میں ہرممکنہ کوشش میں یکسوئی کے ساتھ لگا رہے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لگا دے ، پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ،کیونکہ صرف وہی علم رکھتا ہے کہ کس وقت کس نوعیت کی کامیابی مفید ہے اور کس وقت کامیابی میں تاخیر مفید ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے صرف رحم وکرم، محبت اور یسّر پسند کرتا ہے۔ اس پہلو پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مکہ میں تیرہ سال آزمایشوں کی بھٹیوں سے گزار ے بغیر صرف ’کُن‘ فرما کر غالب کردیتا۔ اور اہل ایمان کے لیے پہلے سال میں کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا اور مکّہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ۔ لیکن مالک اور آقا کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ وہ علام الغُیوب ہے۔ انسانی عقل اپنی محدوددیت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات پر جلد جذباتی فیصلے کر بیٹھتی ہے، جب کہ دین صبر و استقامت دونوں کی تلقین کرتا ہے۔
عام طور پر اسلامی تحریکات کو سیاسی جدوجہد میں جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو خود تحریک کے اندر اور باہر سے اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً رد عمل کے طور پر سارا الزام بیرونی قوتوں یا مدِمقابل عناصر پر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادینی عناصر کو کامیاب اور تحریکی نمایندوں کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ممکنہ حد تک معروضی طور پر اپنی کارکردگی، منصوبہ بندی اور منصوبۂ عمل پر عمل درآمد میں انتظامی اور تربیتی کمزوریوں کا خصوصی طور پر جائزہ لے، کوئی رائے قائم کرنے میں جلدبازی نہ کریں اور پہلے سے قائم کردہ گمان پر اصرار سے بھی اجتناب کریں۔ انتخابی مہم میں اپنے اصولوں اور عوام کی نفسیات و مسائل پر اپنے موقف اور بیانیہ کو کڑی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بھی وہی چیزیں دُہرا رہے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی جماعت کے الیکشن میں متوقع اہداف کے حصول میں یکساں طور پر اندرونی اور بیرونی عوامل کا دخل ہوتا ہے ۔اختصار کے ساتھ ان میں سے چندعوامل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:
نظریاتی اور اصولی تحریکات اپنے منشور پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں تاکہ عوام کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ معیشت، تعلیم، دفاع، معاشرتی فضا، قانون اور امن کی صورتِ حال، خواتین کے حقوق، بین الاقوامی پالیسی، زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی وہ موضوعات ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں اپنا موقف مرتب کرتی ہیں اور اس کے اہم نکات کو مہم میں عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک غیر جانب دار تعلیمی اور تحقیقی ادارے PIDEنے اپنے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے تجزیہ میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، مگر جماعت اسلامی کو اس تقابل میں شامل نہیں کیا ۔ اس تعصب اور جانب داری کو تسلیم کرتے ہوئے، جو اس قسم کے نیم سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے ، سوچنا چاہیے کہ ہم اس مقابلے میں نمایاں کیوں نہیں ہوئے؟
ہم اپنے منشور کو کس طرح عوامی سطح پر ایک ایسی زبان میں پیش کریں کہ عوام اسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ یہ چیز خود منشور سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ہر جماعت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور قیادت اپنے بیان اور تقریروں میں جن باتوں پر زور دیتی ہے ،وہ خود تو اس سے مطمئن ہوتی ہے، لیکن اصل چیلنج اپنے سے باہر کے حلقوں اور عوامی رد عمل کا اندازہ کرناہوتا ہے، جس میں عام طور پر معروضیت (objectivity) اختیار نہیں کی جاتی۔ جو لوگ اس کے انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں، تحریکی قیادت کی کہی ہوئی بات کی توثیق کرتے ہوئے، وہ قیادت کے سامنے اپنی مقبولیت اور مؤثر ہونے ہی کی بات کرتے ہیں، جس سے قیادت کے ذہن میں بھی اپنی مقبولیت کا غیر حقیقی تصور راسخ ہو جاتا ہے، جب کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ذیلی حلقے، نظم اور اردگرد کے لوگ ایک مبالغہ آمیزتصویر کشی کرتے ہیں ،جس پر اعتبار کرنے کا نتیجہ ایک بالکل برعکس صورتِ حال کا آئینہ دار بن کر سامنے آتا ہے۔
ایک اہم نفسیاتی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا ان کی قیادت کے بارے میں ہمیشہ منفی بات سوچی، کہی اور دُہرائی جاتی ہے۔ اس باب میں زبان اور لہجہ دونوں وہ ہوتے ہیں جن کی ایک داعی سے توقع نہیں کی جاتی۔ مختلف سطح پر قیادت اپنے خیال میں دوسرے کی تحقیر اور الزام تراشی کو کلمۂ حق کا اظہار سجھتی ہے جو تجربے کی روشنی میں غلط حکمت عملی ہے ۔ اصل چیز اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو مثبت انداز سے، لیکن خودنمائی کے بغیر پیش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مشرکین کے بتوں تک کو تحقیرآمیز الفاظ اور لہجے میں پکارنے سے منع کیا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کے اس واضح اصول کی پیروی ہر مقام پراور ہرمقرر نے کی ؟یہ ایک بڑا بنیادی اور اہم سوال ہے۔ اپنی کارکردگی یا اپنے پیش نظر مجوزہ تبدیلی کے پروگرام کی مثبت نمایندگی کی جگہ اگر مدِمقابل پارٹیوں پر ہمیشہ منفی انداز میں بات کی جائےتو عوام اسے تعصب سے تعبیر کرتے ہیں اور حق بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ہرحلقے میں کتنے اجتماعات ہوئے، جن میں صرف منشور کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور دیگر افراد کی کارکردگی پر لعن طعن نہیں کی گئی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہنگائی، اقرباپروری، لُوٹ مار، فحاشی، بیرونی قوتوں کی غلامی، مسلم اُمّہ کے مفاد سے لاپروائی جیسے موضوعات پر بات نہ ہو ۔بلکہ ان تمام موضوعات پر لازمی کھل کر بات کہے بغیر مہم نہیں چل سکتی، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ بات کیسے کی گئی کہ اس کا رد عمل مثبت رہا؟ دلوں کو جیتنے کا اور نرم گفتاری کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے کا رہا یا تلخ وتُرش الفاظ کے ذریعے دوسروں کی کارکردگی کی تردید کرنے کا رہا؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم، موعظہ حسنہ اور قول لین (نرمی سے گفتگو) کا حکم دیتا ہے اور وقت کے فرعون سے بات کرنے کے لیے یہ نہیں کہتا کہ اس کے تمام کرتوتوں پر سخت تنقید کے بعد اسے حق کی دعوت دی جائے، بلکہ واضح طور پر کہتا ہے کہ طرز تخاطب میٹھا ہو، جو اس کو ہدایت سےقریب لے آئے۔ تنقید ہمیشہ مخالف کو دفاعی نفسیات پر اُبھارتی ہے، جو بات کی معقولیت اور مقبولیت کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے۔ آج کے عوام سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر ہیں اور اشارتاً بات کہنے کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔
اپنے جائزے میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دعوتی مہم اور سیاسی مہم کےفرق کو سمجھا جائے۔ ایک نظریاتی اور اصولی جماعت کی سیاسی مہم بھی اصلا ًدعوتی مہم ہوتی ہے، جس میں للہیت، استغفار،اللہ سے استعانت اور خصوصاً قرآن و سنت کے پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بے شک اقامت دین کا مفہوم ہر سننے والے کے ذہن میں الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مہم میں اقامت دین کے مفہوم کو اس طرح بیان کرے کہ دیگر مسلکی جماعتوں کے موقف اور اس کے موقف میں فرق نمایاں ہو سکے۔ایک عام دیہاتی بلکہ شہری بھی جماعت اسلامی کو سیکولر جماعت نہیں بلکہ دینی جماعت سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کے موقف میں قرآن و سنت کی دعوت کی توقع رکھتا ہے۔ وہ اگر صرف دوسروں پر تنقید ہی سنے، جو ہر دوسری جماعت بھی کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کو تاریک تر دکھا کر اپنے آپ کو روشن ترین دکھا سکے،تو وہ عام شہری، جماعت کو بھی مسلکی جماعتوں یا دیگر عام جماعتوں کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ مخاطب کی نفسیات کے پیش نظر اپنے موقف کا پیش کرنا دعوتی مہم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
انتخابی مہم کا جلسہ مسجد میں ہو رہا ہو یا میدان میں، ایک سننے والے کے لیے اہم چیز اعداد و شمار پر مبنی غیر جانب دارانہ موقف اور اس کے بعد تحریک کی جانب سے اس مخصوص مسئلے کا مجوزہ حل پیش کرنا ہے ۔ یہ اسلوب ہمارے طرزِ بیان کو مؤثر بناتا ہے، جب کہ ماضی کے حکمران کا نام لے کر یا اس جماعت کا نام لے کر اس کی ناکامی کا مبالغہ آمیز تذکرہ، تحریک کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے جلسے میں موجود عام سامعین بھی بجائے قریب آنے کے کچھ دور ہو جاتے ہیں۔دعوتی مہم کا ہدف اور مقصد ہم خیال اور ہمدرد بنانا ہوتا ہے، لوگوں کو دُور کرنا نہیں۔ اس بات کے جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوتی اخلاقیات اور انبیا علیہم السلام کی سنت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مہم میں کتنے دل و دماغ جیتے اور کتنوں کو دُور کیا؟
جن مقامات پر تحریک ماضی میں کسی اتحاد کا حصہ رہی ہو، خاص طور پر ان مقامات پر اس کے قول سے زیادہ اس کی کارکردگی لوگوں کو فیصلہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ایسے مقامات پر محض نظری گفتگو اور دعوے متوقع نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔
دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مقامات پر عام شہریوں سے ہمارے رابطے میں کیا کمی رہی ہے؟ مقامی مسائل میں ہم نے آگے بڑھ کراگر ان کے مسائل کو کسی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود حل نہیں کیا تو محض ہمارے خطبات کی تکرار اور پوسٹروں کی بھرمار انھیں متاثر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ایک شہر میں نہیں، ایک گاؤں میں یا ایک محلے میں دعوتی مہم کے حصے کے طور پر ہر ہفتہ ایک طبی کیمپ لگایا گیا اور ڈاکٹر صاحب اور عملے نے خوش اخلاقی کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری اور صحیح تشخیص کے ساتھ ان کی امداد کی؟ اگر اس نوعیت کے فلاحی کام کیے ہیں تو وہاں کسی عظیم الشان جلسے کی ضرورت نہیں ہوگی،بلکہ عوام بغیر کسی تقریر سنے اور سیاسی جلسے کا انعقاد کیے تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اگر کسی مقام پر تحریکی فکر کے کسی ادارے، اسکول یا کالج نے تحریکی مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ادارے میں طلبہ وطالبات کی ذہنی، فکری، عملی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہو اور اس میں اساتذہ و معلمات اور ماحول وہ رہا ہو، جیساکہ تحریک ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے، تو اسکول اور کالج کا ہر بچہ اور اس کے والدین کا ووٹ تحریک کے حق میں ہوگا۔
یہ چھوٹے چھوٹے کام ریاستی اقتدار کے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں اور جب یہ دعوتی جذبے کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت میں اجر کی نیت سے کیے جائیں گے، تو جس کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں وہ وعدہ فرماتا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو جنّت دے گا، چاہے وہ اس دنیا میں اقتدار نہ بھی حاصل کر سکیں، مگر وہی اصل کامیاب افراد ہیں۔
۷۵سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے جوش و خروش کے زاویہ سے حالیہ انتخابات تمام انتخابات سے زیادہ کامیاب انتخابات ہیں کیونکہ اس انتخاب نے جس عوامی شعور کو بیدار کیا، وہ اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آسکا۔ ماضی میں ہارنے والی جماعت پہلا کام یہ کرتی تھی کہ پریس کانفرنس میں انتخابات کو متنازع اور غلط قرار دے۔ لیکن آج چند لیڈر نہیں، بلکہ ملک کا بچہ بچہ انتخابات کا ناقد ہے۔ انتخابی دھاندلی کے مختلف طریقوں پر عام بحث و مباحثہ کر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
یہ عوامی شعور اس لیے ایک حقیقت ہے کہ اس کی بنا پر جن سیاسی جماعتوں کو سرکاری انتظامیہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہمدردی پر بھروسا تھا، یا جو اپنی ناجائز دولت کے ناجائز استعمال پر اعتماد کرتے تھے ،ان سب کو اس عوامی شعور نے کھلے عام آئینہ دکھا کر ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا، جن پر انتظامی یا عدالتی وسیلوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے ہوئے، پاک صاف ہو کر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے والوں کو بھروسا تھا۔ یہ عوامی شعور وہ اثاثہ ہے جسے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تما م عناصر کو پارٹی تعصبات سے بالاتر ہوکر مثبت انداز میں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے۔
ان انتخابات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس زمین کی زرخیزی میں کمی نہیں ہے۔ عوام کو اپنی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، وہ پُرامن تبدیلی کے لیے متحد ہیں۔ ان کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوت جو تعمیری کام کر سکتی ہے، وہ کسی شیطانی بہکاوے میں آکر لاوے کی طرح پھٹ نہ پڑے ۔ اللہ سے اچھی امید کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد، دستوری ذرائع کا استعمال، قول لین کے ساتھ کرنا ہی دین کی حکمت ہے ۔ جن حالات میں انتخابات ہوئے ہیں، وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں اداروں پر اعتماد کی بحالی ہی سب سے مشکل کام ہے، جس پر پوری قوم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملکی ادارے غیرجانب دار اور ملکی مفاد کو اوّلیت نہیں دیں گے اور اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ قومی سرمایے سے قوت اور اختیار حاصل کرنے والے طاقت ور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا اور یہ فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے دُہرا دیا ہے۔ یہ ووٹ جو عوامی شعور نے دیا،اس کا مظاہرہ آج سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ زیرِ لب الزام اور محدود سطح پر لعن طعن ہمیشہ تھا، لیکن قوم نے بڑے پیمانے پر آزاد نمایندوں کے حق میں ووٹ دے کر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو سیاسی منجم لگا رہے تھے، اور جو ہر آمرانہ، سرمایہ دارانہ ماحول میں پلنے بڑھنے والے اہلکاروں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔
قومیں ایسے ہی وجود میں آتی ہیں۔ جب خاکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے اس میں رنگ بھرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رنگ محبت ،اطاعت، ایمانداری اور دین اور ملک کے مفاد کو محفوظ کرے گا۔تحریک اسلامی کو صبغت اللہ کو اپنی پہچان بنانا ہوگا۔اگر اس کا ہر اقدام دعوتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ملک ِعزیز کو اپنے قیام کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ یہاں وہ نظام عدل قائم ہو جس کا درس ہمیں مدینہ منورہ میں قائم کردہ ریاست سے ملتا ہے۔ قائداعظم، علّامہ اقبال اور سیّد مودودی ایسی ہی عادلانہ، نہ کہ آمرانہ ریاست کے قائل اور علَم بردار تھے۔
_______________
دُنیا کے ملکوں کے دساتیر میں جن شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، ان میں آزادیٔ رائے ، اجتماع، ملکیت، جان و مال، شہرت وغیرہ کا تحفظ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی ہے،وہ سب دساتیر سے زیادہ اکرامِ انسانیت کی تعلیم دیتی اور ایسے قوانین فراہم کرتی ہے، جو آنے والے ہردور میں انسانوں کی جان، مال، عزّت، شہرت اور آزادیٔ فکر وغیرہ کو بنیاد شمار کرتی ہے۔
اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نامکمل ہدایات نہیں دیتا۔ اگر ایک عمل کی آزادی دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ حدود بھی متعین کردیتا ہے، جنھیں پار کرنا، قانون کو حرکت میں لے آتا ہے۔ قرآنِ عظیم نےدین اسلام کی اقامت کے حوالے سے واضح الفاظ میں اُمت مسلمہ کو باضابطہ طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور حاکمیت ِ اعلیٰ کے قیام کے لیے ذمہ داری سونپی ہے۔ قیامت تک یہ ذمہ داری ادا کرنے اور جواب دہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی طے کردی ہے کہ کسی فرد پر جبری طورپر کوئی تعلیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ کسی غیرمسلم کو مجبور کرکے مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔
لیکن چند ایسے افراد کا ایک گروہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بعض بیرونی اور اندرونی ادارے، جو ببانگ ِدہل اپنی تحریروں میں دُنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت تک ’کافر‘ ماننے پر اصرار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اُن کے وضع کردہ ایک جھوٹے مدعیِ مسیح و نبوت کو اپنا رہنما نہ مان لیں۔ ان قادیانی یا مرزائی یا احمدی افراد کی شائع کردہ ایک تصنیف تفسیرصغیر کی طباعت اور پاکستان اور ملک سے باہر اس کی تقسیم کرنے والے ایک فرد کے خلاف ملکی قانون کی رُو سے ایک مقدمہ (FIR) ۲۲/۶۶۱، ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر تھانے میں دائر کیا گیا کہ ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے سیکشن ۱۷ ، ۹ (ب) اور ’تعزیراتِ پاکستان‘ (Pakistan Penal Code) کے سیکشن ۲۹۸-سی اور ۲۹۵-بی کے تحت سزا دی جائے، چنانچہ اسے قید کردیا گیا۔
مجرم کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجداری درخواست دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک فنی نکتہ کی بناپر یعنی مجرم نے یہ جرم ۲۰۱۹ء میں کیا تھا، اور قانون کا نفاذ ۲۰۲۱ء میں ہوا اور چونکہ مجرم کے جرم کرتے وقت یہ قانون حرکت میں نہیں تھا، اس لیے اس قانون کے تحت اس کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے: ’’(۶) عقیدے کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں…(۱۶) مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات، حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں‘‘___ چنانچہ فنی بنیاد پر مجرم کو رہا کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر جو پہلو زیادہ غورطلب ہے، وہ یہ کہ اگر تفسیرصغیر ، جیساکہ نام سے ظاہر ہے، قرآن کی تفسیر ہونی چاہیے، اور ۹۷ فی صد مسلم آبادی کے ملک میں ایک ایسا فرد، جو قرآن کے واضح حکم یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ، اور ایک جھوٹے مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے تو FIR میں درج دیگر دفعات، جن کا تعلق توہینِ قرآن و رسالتؐ سے ہے،انھیں فیصلے میں کیوں مکمل طور پر ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے، جیسے ان کا ذکر فردِ جرم میں ہوا ہی نہ ہو؟
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ: کیا آزادیٔ رائے کا اصول، چاہے وہ دستور ِ پاکستان میں ہو، ایک غیرمسلم قادیانی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی تفسیر قرآن کو ملکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے (دیکھیے: ۲۹۸-سی، پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈ ایکٹ ۲۰۱۱ء، سیکشن ۷،۸،۹) تفسیرصغیر کے عنوان سے مسلمانوں کو دھوکا دےکر ایک ایسی تحریر جو قادیانی فکر کی نمایندگی کرتی ہے، مسلمانوں میں تقسیم کرے؟ کیا اسی کا نام آزادیٔ اظہار ہے؟
پاکستان کا ہرمسلمان شہری شریعت کے منافی یہ حق کسی قادیانی، فرد یا ادارے کو دینے پر تیار نہیں ہے، اور نہ یہ حق دستورِ پاکستان اور ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کسی غیرمسلم کو دیتے ہیں۔ اندریں حالات، اس فیصلے کو قانونی کارروائی کے ذریعے کالعدم کرانا ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔
ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بیسویں صدی میں دو ایسے اہم واقعات کا ظہور ہوا، جنھوں نے مغربی مفکرین اور خصوصاً مستشرقین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اس جدید لادینیت کے دور میں ایک صدیوں پرانا سیاسی نظام، جس کی بنیاد انسانوں کی محدود عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والے قوانین پر نہیں بلکہ کئی سو سال پرانی الہامی شریعت پر ہو ، قابل عمل اور قابل نفاذ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے اُبھرنے کا ایک بڑا سبب بیسویں صدی میں ابھرنے والی دو اہم اسلامی تحریکات اخوان المسلمون (۱۹۲۸ء) اور جماعت اسلامی (۱۹۴۱ء ) کی دعوت کا بنیادی نکتہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام تھا، جو مغرب کی زمان و مکان کی غلام، لادینی سیاسی فکر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔
دوسرا اہم واقعہ ۱۹۴۷ء میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا قیام تھا ۔ جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حیات اور تہذیب ِ اسلامی کے احیا اور قیام کی ایک کوشش تھی اور جس کا سہرا برطانوی لادینی سیاسی نظام سے بخوبی آگاہ ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرتھا، جنھوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں اور اس خطے میں اسلام کی بقا کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔
مغربی سیاسی فکر، کلیسائی عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی، جس میں قانون سازی ، معیشت اورمعاشرت کو عوام کے نمایندوں کی مرضی کا تابع کر دیا گیا اور یہ تصور راسخ کرلیا گیا کہ لادینی جمہوریت ہی دور جدید کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ عیسائیت (یا دیگر مذاہب) کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ البتہ ذاتی سطح پر ایک فرد اگر چاہے تو وہ عیسائیت یا اپنے کسی بھی عقیدے اور مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر سکتا ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود اور دائرہ کار کو ذاتی اور عوامی یا Public place میں تقسیم کر دیا گیا اور اسی تصور کو ’جدیدیت‘ اور تہذیب کے ’نقطۂ کمال‘ سے تعبیر کیا گیا۔
اس مغربی فکری تناظر میں تحریکات اسلامی کا قیام اور ان کے نصب العین میں فرد ،خاندان، معاشرہ اور ریاست کو صرف ایک اصول یعنی توحید کا تابع قرار دینا،مغربی ذہن کے لیے ناقابلِ فہم معاملہ تھا ۔ آج اسلام کے سیاسی نظام کے قیام کی ہر کوشش کو Political Islam یا ’سیاسی اسلام‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جب کہ اسلامی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام کا قیام مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی نگاہ میں ایک ناقابلِ عمل تصور ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کی تعریف مغربی دانشوروں کی نگاہ میں اسلام کی وہ تعبیر ہے جس میں اسلام محض عبادات و رسومات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ذاتی حدود سے نکل کر عوامی حدود میں دخیل ہو اور معاشی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ’شریعت‘کے اطلاق کی کوشش کرے۔ مغربی لادینی جمہوریت، ذاتی اور عوامی دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر ایمان رکھتی ہے اور یقینی حد تک یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی( Economic Development) اور معاشی فلاح (Economic Well being) صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی اُمور میں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو۔
یہ وہ بنیادی عنصری فرق ہے، جس کی بنا پر دنیا میں کوئی بھی اسلامی تحریک ، وہ اخوان المسلمون ہو، جماعت اسلامی ہو، نورسی تحریک ہو وغیرہ۔ اگر اس کے نصب العین میں فرد کی تعمیرِ سیرت کے ساتھ معاشرے، معیشت ،قانون اور سیاسی نظام کی اصلاح شامل ہے تو وہ ’رجعت پسند‘، ’بنیاد پرست‘ ، ’انتہا پسند‘ ، حتیٰ کہ ’تشدد پسند‘ کہلانے کی مستحق بن جاتی ہے۔اور اس پر Political Islam یعنی ’سیاسی اسلام‘ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔اس فکر کے برخلاف اسلام اصولی طور پر لادینیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر نظام کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت، معاشرت، ثقافت، سیاست اور قانون، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات کو ایک آفاقی عالم گیر اخلاقی ضابطے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ تحریک اسلامی کا یہ مزاج بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہے (یہ مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی غلط فہمی ہے کہ تحریکاتِ اسلامی سامراجی نظام کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں یا یہ کہ یہ ایک ایشیائی معاملہ ہے)۔
اسلام کی تعلیمات اور تصور حضرت ابراہیم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک توحید پر مبنی ہے۔ یہ تصور جو صرف ذاتی زندگی (personal space) میں نہیں بلکہ معاشی، قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ثقافتی میدانوں میں الہامی تصور حلال و حرام ،قرآنی تصور تقویٰ،احسان، عدل، عفوو درگزر ،بین الانسانی تعاون البر اور منکر، فحش اور رذائلِ اخلاق کے خلاف منظم جدوجہد کا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلیمات کی تازگی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اگر دین ابراہیمیؑ میں تقویٰ کا مطلب اللہ تعالی کی خشیت تھا تو شریعت محمدیؐ میں بھی یہ تصور جوں کا توں پایا جاتا ہے۔اگر صداقت کا مطلب دین ابراہیمیؑ میں طاغوت کے سامنے توحید کو بلاکسی معذرت و نظرثانی کےپیش کرنا تھا، تو آج بھی صداقت و امانت کا مفہوم وہی ہے۔ اخلاق ایک اضافی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اخلاق کو مطلق طور پر ایک عالم گیر فریضہ کے طور پر متعین کر دیتا ہے،جو اپنے اندر ہرپیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے اور مشکلات و مسائل کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قرآن نے اس جامع اور آفاقی اخلاق کو عملاً کر کے دکھانے والے کے لیے یہ کہا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں‘‘۔ کیونکہ آپؐ نے ذاتی اخلاقی طرزِ عمل سے لے کر عسکری، سیاسی، معاشی، ثقافتی، قانونی ہرشعبہ میں مثالی اخلاقی طرز ِعمل کو عملاً نافذ کر کے وہ قابلِ عمل سنت قائم فرمائی جو ترقی اور خوش حالی لانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
مغرب کے ’سیاسی اسلام‘ کے تصور کا ایک پہلو خواتین کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’جب تک خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گا ،ایک جدید معاشرہ اور ترقی یافتہ ماحول پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔اکبر الٰہ آبادی اور علامہ محمد اقبال نے سو سال پہلے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ خواتین کو ان کے اصل دائرہ سے نکال کر معاشی دوڑ میں شامل کرنے کے نتیجے میں کیا منظر نامہ وجود میں آئے گا؟
یہاں یہ بات واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی دانش وروں کے ہاں تعمیروترقی کا جو تصور بطور ایک قاعدے اور کلیے کے پیش کیا جاتا ہے، وہ عملاًصرف معاشی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی ملک میں ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ تعداد میں خواتین معاشی دوڑ میں شامل ہوں تو اسے ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں بٹھا لیا گیا ہے کہ ’سیاسی اسلام‘ خواتین کو تعلیم ، معاشی سرگرمی اور سیاسی معاملات میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیتا ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہر مسلمان خاتون پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ پھر زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جملہ معلومات کے حصول اور اپنی معاشرتی وثقافتی ذمہ داریوں کے ساتھ معیشت ،قانون سازی اور دیگر معاملات میں علم، تجربہ اور تخصص کی بنا پر حصہ لینے کو خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔لیکن چونکہ یہ تمام حقوق ایک ’دین‘ دیتا ہے ، اس لیے دین کی پیروی کو ’قدامت پرستی‘ قرار دیا جاتا ہے ۔
جس چیز کو مغرب سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی اضمحلال اور زوال واقع ہوا ہے ،اس کا ایک بڑا بنیادی سبب معاشی خوش حالی کے نام پر خاندان کی یکجہتی اور مرکزیت کا ختم کیا جانا ہے۔خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل کرنے کا قدرتی نتیجہ خاندان کا منتشر ہونا تھا۔اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زکوٰۃ کی فرضیت مرد اور عورت دونوں پر واجب کی ، دونوں کے دولت کے پیدا کرنے ،خرچ کرنے، صرف کرنے کے ساتھ معاشی فوائد کے حصول کو دینی سرگرمی میں شامل کیا اور ساتھ ہی خاندان کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تنگ نظری اور خود غرضی کی بنا پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذاتی یا روایتی و قبائلی خواہش کو شریعت سے منسوب کر دیا جائے ، یا عملاً اس سلسلہ میں کوتاہی کی جائے۔
گویا’سیاسی اسلام‘ پر یقین رکھنے والے مغربی یا مشرقی مفکرین کا یہ تصور کہ اسلام کے نفاذ سے خواتین حقوقِ انسانی سے محروم کر دی جائیں گی ،مکمل طور پر بے بنیاد تصور ہے اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ آج ابلاغ عامہ ہو یا علمی تحقیق کا میدان، ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’طالبانائزیشن‘ ہی ’سیاسی اسلام‘ کی عملی شکل ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم اور حقوق ِانسانی پر عمل کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
جس طرح یورپ کو سوویت یونین کے خوف اور جنگ عظیم کے اثرات نے بہت سے کام کرنے پر آمادہ کیا، جن میں NATO (ناٹو) کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’سیاسی اسلام‘ کو ایک خوفناک جِنّ یا عفریت قرار دے کر یورپی اقوام کو اسلام سے ذہنی طور پر متنفر کرتے ہوئے انھیں ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف جا رحانہ اقدامات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں اسلام اور یورپی عوام کے درمیان ذہنی اور ثقافتی بُعد میں روز بروز اضافہ واقع ہو رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کے بعض جارحانہ اقدامات نے خود اسلام کے بارے میں تجسس پیدا کیا ہے اور حقیقتِ حال معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ جن افراد نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے ، ان میں سے بڑی تعداد نہ صرف اسلام سے قریب آئی ہے بلکہ بعض نے اسلام پر ایمان لانے کا اظہار بھی کیا ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کے حوالے سے یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت روایتی علما نہیں کر رہے بلکہ سیکولر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ایسے نوجوان ہیں جو ماضی قریب یعنی ساٹھ کی دہائی میں اشتراکی فکر سے متاثر تھے اور کارل مارکس کو حُریت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے ’سرخ نظام‘ کی جگہ اب ’سبز نظام‘ یعنی نظامِ مصطفیٰ ؐکے علَم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان میں چونکہ اشتراکیت زدہ افراد کی طرح انتہا پسندی اور تشدد کی طرف رجحان بھی پایا جاتا ہے،اس لیے یہ مغرب کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خطرناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ روایتی علما کی طرح محض عقیدے پر زور نہیں دیتے ۔یہ اسلام، سائنس اور ٹکنالوجی کو یکجا کر کے ایک نئے ’عادلانہ نظام‘ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی ایجاد کردہ سہولیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی بیخ کنی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اولیورائے کی کتاب The Failure of Political Islam ،ص۳)۔ ’سیاسی اسلام‘ کو ناکام قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیاسی اسلام جغرافیائی حدود میں محدود تصور نہیں ہے بلکہ یہ عالمی تبدیلی کا داعی ہے اور مغرب کی لادینی تہذیب کے مقابلے میں وسائل اور اختیارات سے محروم ہے، اس بنا پر عملاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یورپی ذہن میں ریاست کا تصور جغرافیائی حدود پر مبنی ہے اور اسلام کی عالم گیریت، ریاست کی بنیاد جغرافیائی سرحد کو قرار نہیں دیتی۔
اولیورر ائے ’سیاسی اسلام‘ کے جغرافیائی حدود سے ماورا اور پوری امت مسلمہ کی ایک باوقار قیادت کی یک جہتی کے تصور کو جدید تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے، ’سیاسی اسلام‘ کو آمریت اور جبر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کو اسلام میں مذہب اور سیاست کی عدم تفریق، یورپ کے ’تاریک دور‘میں چرچ کے مظالم کی یاد دلاتی ہے اور نفاذ شریعت کو کلیسا کی پاپائیت سمجھتے ہوئے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہےکہ مغربی سیکولر جمہوریت ہی انسانیت اور مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ (ایضاً،ص ۱۳)
عالمی سطح پر دانش ورانہ حلقوں، بین الاقوامی کانفرنسوں، یورپی اور امریکی یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہائے تقابلی سیاست ، عمرانیات ، مذہب، معیشت اور خصوصاً اسلام کےعصری انقلابی پہلو پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک مخصوص نقطۂ نظر بنتا ہے۔ ان کے زیرانتظام چلنے والے تھنک ٹینکس کی تحقیقات کا مطالعہ کرے گا، پھر ان کے مذاکروں اور مکالموں میں جو فرد بھی شرکت کرے گا وہ ایک نہیں پندرہ بیس محققین کی زبان سے اعداد و شمار پر مبنی ’سیاسی اسلام‘ پر مقالات اور تقاریر سننے کے بعد اگر مکمل نہیں تو کم از کم نصف قائل ہو کر نکلے گا کہ واقعی سیاست میں اگر ’مذہب‘کا عمل دخل ہوا تو’سیاسی اسلام‘ ملک و ملت اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تاریخی طور پر ایک ایسی نفسیاتی اور معاشرتی فضا میں وجود میں آئے، جو فرانس اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کر نے کا نتیجہ تھا ۔ اس لیے وہ اپنی قومی عصبیتوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی اصل تاریخ اور فکر سے لاتعلق ہو گئے اورروز ِاوّل سے استعماری فکر و تعلیم میں تربیت پانے کے سبب دین و سیاست کے عدم اتحاد کے تصور کو ہی حق و صداقت پر مبنی سمجھ بیٹھے۔
نہ صرف یہ بلکہ عیسائی اور یہودی ماہرین سماجی علوم نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ کویتی ایرانی سے ، قطری مصری سے، سعودی یمنی سے ، عراقی شامی سے قومیت کی بنا پر برتر ہے۔ قومیت کے اس دو آتشہ زہر نے ہر اس فرد کو جو چاہے عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہو، قرآن کریم کے اصولِ اخوت اور امت مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کی جگہ نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بنا پر قومیت پرستی پراس حد تک یقین دلا دیا ہے اور ایسے اقوال ایجاد کر لیے گئے جو قرآن و سنت سے براہِ راست ٹکراتے ہیں، مثلاً حُبُّ الوطن من الإیمان (یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)۔ایسے اقوال کو بنیاد بنا کر لادینی قومیت کے لیے راہیں نکالی گئیں اور اسلام کی عالم گیر فکرپر نقب لگائی گئی، جو اسلام دشمن قوتوں کا ہدف تھا۔
اس تناظر میں اگر پاکستان پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر نامہ فوری توجہ طلب نظر آتا ہے ۔ ۷۵سال سے معاشی پالیسی ہویا تعلیمی اور ثقافتی، تینوں محاذوں پر مقدور بھر کوشش کی گئی کہ برسرِاقتدارآنے والی پارٹی یا مقتدر قوت اپنے ذاتی مفاد کی پرستش کرے اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ وسائل کی تقسیم اور اس سے زیادہ اہم وسائل کا درست استعمال کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہا ۔وہ حضرات جو مثلا ًبلوچستان کے مجبور و مظلوم عوام کو غلام رکھنے کے لیے مشہور تھے، انھی سرداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرانے کے لیے منتخب کیا گیا جو نسلا ًبعد نسل انگریز کے وظیفوں پر پلتے رہے تھے۔ جنھیں انگریز نے اپنی وفاداری پر خطابات اور وسیع زمینی قطعات سے نوازا تھا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسے حکمرانوں سے یہ امید کر سکتا ہے کہ جو اپنے عوام کو ’کم تر انسان‘ اور اپنا ’غلام‘ سمجھتے ہوں ، وہ ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ہماری مقتدر قوتوں نے آنکھیں بند کر کے انھی کو اپنے سیاسی اتحادوں میں شامل کر کے ظلم و استحصال اور محرومی کے شجر کو پھلنے پھولنے دیا ۔
بانی ٔپاکستان قائداعظم نے ایک مرتبہ نہیں بارہا یہ بات دُہرائی تھی کہ اب یہاں نہ کوئی بنگالی ہوگا، نہ پنجابی، نہ بلوچی بلکہ سب پاکستانی ہوں گے اور انھیں ان کے حقوق دیے جائیں گے۔ ۱۱؍اگست کی وہ تقریر جس کا وظیفہ پاکستان کے یورپ زدہ دانش ور دُہراتے ہیں ، اسی تقریر میں قائداعظم نے عصبیت، چور بازاری، کرپشن اور چودھراہٹوں کے بخیے ادھیڑے تھے اور قوم کو اس کے اصل اندرونی دشمنوں سے آگاہ کیا تھا، لیکن قوم اگر انھی راہ زنوں کو راہنما بنا کر خوش ہو تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ خالق ارض و سما تو اسی صورتِ حال کی مناسبت سے فرما چکا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد۱۳:۱۱)
پاکستان کے تناظر میں ’سیاسی اسلام‘کے تصور کو دیکھا جائے تو تقلید پسند روایتی علما اور مفکرین بغیر یہ تصور کیے کہ شریعت کے وہ اصول جنھیں وہ طلبہ کو حفظ کراتے ہیں ،کیا کہتے ہیں اور انھیں ہم کس طرح آج استعمال کر سکتے ہیں؟ ان دو کلمات پر مبنی اپنے طول طویل خطبوں سے لوگوں کے دل گرماتے ہیں: ’’ہر مسئلے کا حل ’خلافت‘اور شریعت کا نفاذ ہے‘‘۔ بلاشبہہ اپنی جگہ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا انھوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت فرمائی کہ ’خلافت اور شریعت‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں عوام کو ان تصورات کی کوئی آگہی نہ ہو، محض ان کے فرمانے کی بنا پر، وہ جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں ، ان کی بات پر یقین کرلیں گے؟سیاسی تبدیلی کو اُوپر سے نیچے تک، اور نیچے سے اُوپر تک کیسے نافذ کیا جائے گا؟ کیا محض تقریروں اور نعروں سے یہ عظیم کام انجام پاسکے گا؟کیا ماحول تیار کیے بغیر ایک انتہائی اعلیٰ نظام محض ایک سرکاری اعلامیہ سے نافذ کیا جا سکتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کے معقول جوابات کے بغیر روایتی علما کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب وہ حضرات جو جوشِ ایمانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انقلاب ہی ہر مسئلے کا حل ہے،یا کسی مسلح سرگرمی سے اچانک قبضہ کر کے تمام برائیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، کیا وہ کبھی غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ خود مکہ مکرمہ میں انقلابی حکمت عملی کے بے انتہا روشن امکانات ہونے کے باوجود، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت عملی پر کبھی توجہ فرمائی؟ اگر حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک قرآن کریم کی رو سے اپنے سے دس گنا افراد کے لیے کافی تھے، تو کیا ایک شب ایسی نہیں ہوسکتی تھی، جس میں تمام سردارانِ مشرکین کو تہہ تیغ کر کے اسلامی ریاست کے نفاذ کا اعلان مکہ ہی میں کر دیا جاتا اور وہ ساری آزمائشیں جو بدر و اُحد اور حنین و خندق کی تھیں، ان کی ضرورت ہی پیش نہ آتی؟
دین اسلام عقل و ہوش ،تاریخ، مقامی صورتِ حال، مستقبل کے نتائج کے ہر ہر پہلوپر غور کرنے کے بعد کوئی اقدام تجویز کرتا ہے۔ اسلام نہ جذباتیت کا غلام ہے اور نہ محض عقل کا پابند، یہ حکمتِ دین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہرحال، اس جملۂ معترضہ سے قطعِ نظر پاکستان کے تناظر میں تقلید پسند علمااور مفکرین نے جو اپنے رسائل کے سرورق پر’ خلافت‘اور’شریعت‘کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، وہ نقشۂ عمل پیش نہیں کیا، جسے قوم سمجھ سکتی اور جو قابلِ عمل (viable)بھی ہوتا۔
’ سیاسی اسلام‘ کو سب سے زیادہ ان پاکستانی دانشوروں نے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھا جو ذہنی طور پر پہلے ہی صبغتہ اللہ کی جگہ، اپنے آپ کو یورپ کے رنگ میں رنگ چکے تھے، اور پاکستان کی اکثر یونی ورسٹیوں میں اپنی اسی خام دانش کو بکھیرنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اس تصور کو خود تسلیم کیا بلکہ قائداعظمؒ سے بھی منسوب کر دیا۔ پھر اس علمی بددیانتی کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ آج اکثر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ اورطلبہ یہی سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور سیکولر نظام کے حامی تھے ۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سچا، نڈر، بااصول اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والا انسان تھا۔ جس نے کبھی ساری عمر ایک جھوٹا کیس بطور وکیل پسند نہیں کیا، اور جس نے کبھی دوغلی بات نہیں کی۔ اس نے سو سے زیادہ مقامات پر جو بات کہی، اس تمام تفصیل کو ان کے صرف دو خطبے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر صرف یہ دو بیانات ہی قوم نے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لیے ہوتے تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قائد کے یہ اور دوسرے بیانات کسی ’مظاہرے‘ یا ’علما کے دھرنے‘کے ردعمل میں نہیں دیے گئے، بلکہ ایک سوچنے سمجھنے والے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولنے والے شخص کے الفاظ ہیں:
In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam. The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them.... they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarde. As a matter of fact they will be more safeguarded than in the present day so-called democratic parliamentary form of Government.(Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari (Bombay), 1st February 1943. M.A Harris (ed) 1976, p.173.
پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔
یہ تین باتیں کہنے والا نہ توکبھی کسی کی دھمکی کے زیراثر تھا اور نہ دھمکی دی تھی، نہ وہ کسی جذباتی دباؤ میں یہ بات کر رہا تھا، کیونکہ وہ یہ بات ۱۹۴۵ء میں کہہ رہا ہے ۔ پھر وہ ایک نڈر شخص ہے جو یہی بات شملہ میں کہہ چکا ہے ، یہی بات علی گڑھ میں کہی کہ یہ نام نہاد مغربی پارلیمانی نظام ہمارے لیے ناکارہ ہے۔
اولیور رائے دیگر مفکرین کے پیمانے سے دیکھا جائے تو وہ شخص جس کی فکر اتنی واضح اور غیرمبہم طور پر اسلامی ہو،اسے کیا کوئی ذی ہوش شخص سیکولر قرار دے سکتا ہے؟
دوسرا اہم بیان جسے قوم سے جان بوجھ کر مخفی رکھا گیا وہ ۲۳ مارچ کو لاہور کے مشہورِ زمانہ کنونشن، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی،اس کے اگلے دن کا واقعہ ہے ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو خواجہ عبدالرحیم جو چودھری رحمت علی کے ساتھی اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی زعما کو چائے پر مدعو کیا۔ اس نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قائدا عظم نے ان سے کہا کہ ’’جو نام تم لوگوں نے ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا، اس پر ہندو پریس میں بڑی گفتگو ہو رہی ہے۔ خواجہ عبدالرحیم نے کہا: ’’پھر آپ کے خیال میں ملک کا نام کیا ہونا چاہیے ؟علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کر چکے ہیں‘‘۔ قائداعظم نے جواب دیا:
if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add ‘I` which stands for Islam and is the link between these provinces.
اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک- ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔
خواجہ عبدالرحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو جو ان دنوں کراچی میں تھے پہنچا دیا۔ (سلطان ظہیر اختر، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات، راولپنڈی، تنظیم کارکنان پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳-۲۴)
پاکستان کے نام کی تاریخ کا یہ باب ۷۵سال سے قوم سے مخفی ہے۔ دوبارہ سوال یہی ہے کہ جو شخص ملک کے نام کو اسلام کے بغیر نامکمل سمجھتا ہو، وہ کس قسم کے پاکستان کا خواہش مند تھا؟ پھر ایک ماہر قانون دان منطقی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ نئے ملک کے مجوزہ نام میں P جو پنجاب سے لیا گیا ،A جو افغانستان سے لیا گیا،Kجو کشمیر سے لیا گیا اور stan سندھ، بلوچستان کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن ان سب صوبوں کو کیا چیز جوڑے گی ؟ ان کی عصبیتوں کو کون سنبھالے گا ؟ ان میں اتحاد کون پیدا کرے گا ؟ چنانچہ عقلی اور منطقی طور پر وہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ چاہے علامہ اقبال نے یہ نام پسند کر لیا ہو، تب بھی اس میں اسلام کے لیے ’I‘ کا اضافہ کیا جائے۔
چودھری رحمت علی کے تحریر کردہ پمفلٹ Now or Never میں جو نام تجویز ہوا، وہ PAKSTANتھا۔( ملاحظہ ہو اصل خط کی نقل جس میں’ I‘کے بغیر ملک کا نام تجویز کیا گیا تھا)
Pakistan میں ’I‘ کا اضافہ قائداعظم کی خواہش پر ہوا اور ’I‘ سے مراد اسلام ہے۔
’سیاسی اسلام‘ پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھنے والے مغرب زدہ پاکستانی دانش وروں کے سوچنے کے لیے صرف یہ دو اقتباسات کافی ہیں کہ وہ قائد کو کس کھاتے میں رکھنا پسند کریں گے۔ ’بنیاد پرست‘، ’مقلد‘، ’بند ذہن‘، ’روایت پرست‘، ’ سیکولر‘ یا ایک سچا، نڈر، بے باک ، دوٹوک بات کہنے والا؟ یا لنکن اِن سے بار ایٹ لا کرنے والا، برطانیہ کے نظام ،وہاں کی معیشت، معاشرت، ثقافت سے براہ راست آگاہ شخص، لیکن اس کے باوجود اسلام کو بغیر کسی معذرت اور تردد کے کھل کر ملک کا نظام قرار دینے والا روشن دماغ، ترقی پسند رہنما!
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آجانے کے راستے کو اختیار کرے، جس میں کچھ compromise (سمجھوتے) کرنے پڑیں یا وہ ’انقلابی‘بن کر سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار میں آجائے ۔ یا پھر بجاطور پر وہ اپنے دستور میں واضح درج شدہ پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، بغیر کسی سازشی حربے کے، کھلے ماحول میں دستوری جدوجہد کے ذریعے ان منطقی مراحل کو اختیار کرے، جن کی دستور جماعت اسلامی خود وضاحت کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس ذہن کو ہموار کرنا، جس میں شجر طیبہ کا بیج ڈالنا ہے، فکری اور عملی تطہیر، تربیت اور خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کے نتیجے میں زمامِ کار کا صالح افراد کے ہاتھ میں آنا۔
اس پہلے مرحلے کو جب تک بنیادی اہمیت نہیں دی جائے گی جو دیوار بھی تعمیر ہوگی وہ آسمان تک جا کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔اولین ترجیح عظیم الشان جلوس اور جلسوں کی جگہ دلوں کی کائنات میں تبدیلی ہے، ذہنوں کا اتحاد ہے اور اَرواح کی یکجائی ہے۔ فکر کی اصلاح اور راستی ہے۔یہ کام محض خطبوں سے نہیں بلکہ باہمی ربط، قربانی، اخوت، باہمی امداد اور خصوصاً للہیت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اطمینان قلب، ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے قرآنی اجتماعات کی ضرورت ہے جن میں آخرت اور سنت پر عمل کو اُجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں دین سے محبت اور دین کے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کی تڑپ اور طلب پیدا ہو۔ یہ کام محض جلسے، جلوس نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سنجیدہ، گہرا، سوچا سمجھا، محنت طلب اور طویل المعیادکام ہے۔
دوسری اہم چیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی مرکزیت اور اس کی روح اور الفاظ کا تحفظ اور اس چیزسے عوام کو آگاہ کرنا ہے ۔کیونکہ ۹۹ فی صد پڑھے لکھے افراد بھی دستور پاکستان کی اسلامی دفعات سے مکمل طور پر لا علم ہیں ۔یہ دستورکا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم ، معاشی نظام، سیاسی نظام، معاشرت، ثقافت، غرض ہر شعبۂ حیات کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
نفاذ شریعت کسی سیاسی جماعت یا کسی گروہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دستور پاکستان نامکمل ہے۔اس دستوری فریضے کو سیکولر طبقے نے ایک متنازعہ مسئلہ جان بوجھ کر بنایا ہے اور اس میں دانش وروں کو الجھا کر رکھ دیا ہے، تاکہ دستور پاکستان پر عمل نہ ہو سکے ۔ اس لیے تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے کارکنوں کو دستور پاکستان کا شق وارشعور دے اور پھر اس دستور کے عملی نفاذ اور تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دے ۔اس مطالبہ کی مخالفت سیکولرزم پر ایمان بالغیب لانے والا بھی نہیں کر سکے گا۔
تیسری اہم چیز اس قومی مرحلے میں اس کی قطعیت (polarity) ہے، جس میں تقسیم در تقسیم کو دُور کرنا کہ جس کا اس وقت ملک شکار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی خواہش کی وفادارانہ اطاعت میں ایک فریق کو ’پاک باطن‘ اور دوسرے کو ’مکمل شیطانیت‘ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ امر نہ صرف انسانی عقل و عدل اور اسلامی شریعت کے منافی ہے، بلکہ جو بھی شریعت اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، چاہے اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو یا نقصان۔ یہ کتمانِ حق کسی بھی شکل میں مفید نہیں۔ ملکی یک جہتی اس وقت ہوگی جب اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے ہر فریق کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو اور عوام بغیر کسی رکاوٹ کے حقائق پر مبنی تجزیہ کے بعد اپنی رائے استعمال کر سکیں۔
قطعیت کی نفی اور تقسیم محض سیاسی محاذ پر نہیں ہے ۔ یہ گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہے اور اسے دوبارہ ملکی اور قومی اتحاد میں تبدیل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے ۔دو صوبے خاص طور پر اس کی شدت اور کرب کو دن رات محسوس کر رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں گھر میں بیٹھنے والی خواتین تک سڑکوں پر آ کر اپنے رنج و الم کا اظہار کر رہی ہیں ۔اس صورتِ حال کو فوری طور پر محبت، رواداری، تحفظ، اخوت کے ماحول سے بدلنے کی ضرورت ہےاورموجودہ حالات میں تحریک اسلامی ہی وہ غیر جانب دار ملک گیر اور مؤثر تحریک ہے، جو اس قومی فریضہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔
_______________
گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت اور مشاورت سے وابستہ ممتاز محقق، استاد، دانش ور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ۲۵جنوری ۲۰۲۴ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ احباب سے اپیل ہے کہ ان کی مغفرت اور خدمات کی قبولیت کے لیے دُعا فرمائیں۔ ادارہ
برادر عزیز محترم خرم مراد مرحوم نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں ترجمان القرآن کے لیے جو ’اشارات‘ لکھے تھے وہ حالات کے گہرے تجزیے، مسائل اور اُن کے حل کی راہوں کی طرف چلنے کے روشن نشانات پر مشتمل تھے اور آج بھی ان کی تازگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ ہم اس ماہ کے ’اشارات‘ میں خرم بھائی کی اس چشم کشا تحریر کو شائع کر رہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں تحریک اسلامی کی قیادت اور اُس کے کارکن ان نکات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دُنیا اور تحریک کا احتساب کرتے وقت انھیں ملحوظ رکھیں گے۔ مدیر
اس بات میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ ’آج‘ کا دامن اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک یقینی روشن مستقبل کے بھرپور امکانات سے لبریز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج کل جو حوادث و واقعات پیش آرہے ہیں وہ مایوسی پیدا کرتے ہیں، ناکامی و مغلوبیت اور پس ماندگی کی خبر دینے لگتے ہیں۔ اپنا افتراق و انتشار اور نزاع و اختلاف اور اس کے تباہ کن نتائج دیکھ کر دل بیٹھنے لگتے ہیں۔ اغیار کی سیاسی، فوجی اور ابلاغی قوت و بالادستی اور ان کے مکروفن کی کامیابی دیکھ کر حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، ہمارے اس یقین میں کوئی کمی نہیں آتی کہ کل سورج طلوع ہوگا تو عزّت و سربلندی اور ترقی کی خوش خبری لے کر آئے گا، ان شاء اللہ!
آج اور کل کے واقعات سے نگاہ اُوپر اُٹھا کر آج کی اور ۱۹۴۷ء کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے، تو آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس نصف صدی میں ہم نے اپنی منزل کی طرف کتنی نمایاں پیش رفت کرلی ہے۔ اسلام ایک مذہب کے مقام سے سفر کرکے مقصد ِ حیات بن گیا ہے۔ وہ مستقبل کی اجتماعیت، ریاست اور تہذیب کے نقشہ گر کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ نسلوں کی نسلوں نے اپنی سعی و جہد، اور اپنی آرزو و جستجو کو اس مقصد کے حصول اور اس نقشہ فردا پر مرکوز کردیا ہے۔ ملت کے جسم میں احیائے اسلام کے ساتھ وابستگی کی ایک رو دوڑ گئی ہے اور حوصلہ شکن حالات اور ناکامیوں کے باوجود الحمدللہ، یہ وابستگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ابلیس نے جس کو فتنہ فردا قرار دیا تھا، وہ اس عالم کے لیے فتنہ امروز بن کر نمودار ہوگیا ہے۔
یہ روشن مستقبل کب طلوع ہوگا؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ اس کا علم اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، جس کے پاس غیب کی ساری کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں ؑ سے نصرت و فتح کا وعدہ ضرور فرمایا: اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۱۷۲۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۱۷۳ (الصفّٰت ۳۷: ۱۷۲-۱۷۳) ’’یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا(ترجمہ:) ’’اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اب خواہ ہم تمھارے سامنے ہی ان کو ان بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں، یا (اس سے پہلے) تمھیں دنیا سے اُٹھا لیں‘‘ (المومن ۴۰:۷۷)۔ ہمارے ساتھ بھی اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے، خواہ ہماری آنکھیں کامرانی کا یہ منظر نہ دیکھ سکیں۔
جو بات ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے: جدوجہد کا راستہ۔ انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ! نصرتِ الٰہی کے بغیر تو ایک قدم بھی نہیں اُٹھ سکتا، کجا یہ کہ منزل سر ہوجائے: اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰) ’’اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘‘۔
لیکن یہ نصرتِ الٰہی صرف انھی کو حاصل ہوتی ہے، جو جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۷ (محمد۴۷:۷)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا، اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘__ جس سچے ایمان کےساتھ سربلندی کا وعدہ مشروط ہے، اس کی صداقت کی کسوٹی بھی جدوجہد ہی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات ۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ خود اپنے اندر جدوجہد کی استعداد پیدا کرنا، اور اپنی شخصیت کو جدوجہد کے لائق بنانا۔ انسانوں کی مطلوب ضروری تعداد کو جدوجہد کے لیے کھڑا کرنا، ان کو ایک قوت بنانا، ان کی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر تر طریقے اور تدابیر سے جدوجہد میں لگانا۔ ماحول، معاشرہ، انسان اور نظام، جیسے کچھ ہیں، انھی کے درمیان اپنی پیش رفت اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنانا۔ اس مقصد کے لیے راستے کے امکانات و خطرات کا، موافق و مخالف عوامل اور قوتوں کا، حال اور مستقبل کا زیادہ سے زیادہ ممکن صحیح اندازہ کرنا۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا، جس سے منزل مطلوب تک پہنچنا ممکن نظر آئے۔ اپنے اعمال و اقدامات کا جائزہ و احتساب اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کی روش پر کاربند رہنا۔
ان کی دُعا بس یہ تھی کہ:
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۱۴۷)اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جوکچھ تجاوز ہوگیا ہو، اسے معاف کردے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یہاں تک کہ فتح و نصرت دیکھ کر بھی یہی روش رہے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا O (النصر ۱۱۰: ۳) اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے بخشش کی دُعا مانگو۔
صرف تمنا اور خواہش سے مستقبل کی نقشہ گری نہیں ہوسکتی۔ دُعائیں بھی جدوجہد کا بدل نہیں بن سکتیں۔ جدوجہد کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اللہ کی نصرت اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے ، کہ بڑی سے بڑی جدوجہد سے بھی اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کوئی انسانی تدبیر بھی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ کوئی انسانی عقل بھی ان تمام عوامل و حالات کا احاطہ نہیں کرسکتی، جو جدوجہد کی کامیابی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ کسی انسان کے بارے میں یہ ضمانت نہیں جو ایسے کامل انسان پیدا کرسکے جن کے بارے میں ضمانت دی جاسکے۔
چنانچہ جتنی خام، ضعیف اور کم معیار عقل، استعداد، ایمان اور عمل صالح میسر آئے اور جتنی بھی بُری بھلی جدوجہد بن پڑے، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دینا چاہیے۔ ہر صورت میں حکم اور تدبیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور نتائج صرف مشیت الٰہی پر منحصر ہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی نگاہ اور عقل کام کرے، وہاں تک یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری شرائط زیادہ سے زیادہ پوری ہوں۔
اس موضوع کو سمیٹ کر ہم چند اہم اور بنیادی باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ان قوتوں اور تحریکات کی توجہ کے لیے، جنھوں نے اکیسویں صدی میں غلبۂ دین کی لہر پیدا کی ہے:
سب سے ضروری اور اہم شرط للہیت اور اخلاص ہے۔ پوری جدوجہد، اور جدوجہد کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے۔ رضائے الٰہی کی جستجو، جنّت کی تمنا و طلب اور اس کے لیے بھاگ دوڑ اور مسابقت اسی للہیت کی تعبیر ہے۔ قرآن میں جہاں بندگی کی دعوت ہے،وہاں مخلصین کی شرط ہے۔ اکثر مقامات پر وجہ ربہ الاعلٰی اور مرضات اللہ کی جستجو کی تاکید ہے، اور جہاں جدوجہد کا ذکر ہے، وہاں جنّت کو مطلوب و محبوب بنانے کی دعوت ہے۔ قرآن اس دعوت سے بھرا ہوا ہے۔
آج غلبۂ دین کی جدوجہد کو جو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں، ان کی بڑی وجہ ہمارے نزدیک اسی مطلوب اخلاص اور للہیت میں کمی یا کمزوری ہے۔ یہ افراد کی سُستی اور بے رغبتی ہو، تحریکوں میں جمود ہو، دنیاطلبی کا غلبہ ہو، عہدوں اور جاہ و عزت کی طمع ہو، خودرائی و خودسری ہو، نظم و ضبط کی کمی ہو، باہمی افتراق و تنازعات ہوں، دعوت الی اللہ سے لاپروائی اور دعوت کی بے اثری ہو___ جو بھی ہو، کھنگال کر دیکھیے تو تہہ میں یہی مرض ملے گا۔ سب سے بڑا سُلگتا مسئلہ یہی اخلاص و للہیت میں کمی کا مسئلہ ہے۔
للہیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہر فرد کا اپنا معاملہ ہے۔ وہی اپنے اندر للہیت پیدا کرسکتا ہے، وہی جدوجہد کو للہیت کے رنگ میں رنگ سکتا ہے، وہی اس کے ہونے یا نہ ہونے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ہے، اور اگر یہ نہ ہو تونقصان بھی سراسر اسی کا ہے۔ یہ اس کے اور اس کے ربّ کے درمیان معاملہ ہے، جو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے۔ وہی صحیح علم رکھتا ہے اور فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس میں کتنی للہیت ہے؟ اجتماعی جدوجہد میں تو ہرطرح کے لوگ شامل ہونے چاہییں، اور ہوں گے: وہ بھی جن کے دل اخلاص کی اس نعمت سے خالی ہوں، وہ بھی جن کے دل اس سے مالامال ہوں۔ کوئی اجتماعیت ہر فرد کے اندر للہیت پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی، نہ اسے فرد کے اخلاص کو جدوجہد میں شرکت کے لیے شرط بنانا چاہیے۔
لیکن دوسری طرف اجتماعیت کو تین باتوں کا اہتمام پوری شدت کے ساتھ کرنا چاہیے:
ہمیں یقین ہے کہ جس قدر اخلاص بڑھے گا، للہیت رچے، بسے گی، اس کا رنگ انفرادی اور سماجی زندگی پر چھائے گا، اس قدر ہمارے مسائل حل ہوں گے، ہماری کمزوریاں اور خرابیاں دُور ہوں گی، ہمارے اندر مضبوطی اور شوق و طلب میں اضافہ ہوگا، اور ہم نصرت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔
دوسری اہم اور ضروری شرط یہ ہے، کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ___ ہر طرح، ہرمعیار اور ہر انداز کے انسانوں کو ___ دینی جدوجہد کے دائرے میں جمع کرنا ، اور ان کی جو بھی استعداد و صلاحیت ہو اسے دین کے کام میں لگا دینا۔ للہیت اگر روح، مقصود اور بنیاد ہے، تو انسان دینی جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔
ہمارے نزدیک دینی جدوجہد کا دوسرا بڑا سُلگتا مسئلہ یہی ہے،کہ اس جدوجہد میں انسان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام انسان تک، ہرطرح کے انسان تک پہنچنے ، اس کے دل میں گھر کرنے، اسے اپنا ہم نوا بنانے، اسے اپنے دائرے میں جمع کرنے، اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے، اور اس کی استعداد و صلاحیت کو ضیاع سے بچاکر دین کے لیے کارگر بنانے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
بہت سے ممالک ہیں جہاں منظم دینی گروہ موجود ہیں، ان کے پاس قوت و طاقت بھی ہے، صلاحیت، نیکی اور تقویٰ بھی موجود ہے، لیکن عام معاشرہ ان کے ساتھ نہیں۔ کوئی مؤثر عوامی مزاحمت کی لہر نہیں اُٹھتی، حالانکہ حکومتیں ہزاروں کو ذبح کردیتی ہیں، مثلاً شام میں، ہزاروں کو جیلوں میں بند کر کے تعذیب کا شکار بناتی ہیں۔ مصر میں، انتخابی عمل کو من مانے طریقے سے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انڈونیشیا اور مصر میں آزادانہ انتخاب ہوتے ہیں مگر بھاری اکثریت غلبۂ دین کے حامیوں کے حق میں ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں، جہاں ظلم و جبر کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے گئے اور نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے وہاں بھی عام آبادی نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ الجزائر میں جتنی زبردست اور جتنی طویل مسلّمہ جدوجہد برپا رہی، اس پیمانے پر کوئی عوامی مزاحمت کی تحریک ہوتی، جس میں معاشرے کا بڑا حصہ شامل ہوتا، تو کیا کوئی ظالم حکومت مقابلے میں ٹک سکتی تھی ___ اس دائرے میں مطلوب کامیابی کیسے حاصل ہو؟ عام معاشرے کو کیسے اپنا ہم نوا اور ہم رکاب بنایا جائے؟ یہی آج کا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
اس سلگتے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کئی پہلوئوں سے غوروفکر اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جدوجہد میں انسان کی قدروقیمت، اس کی ضرورت اور اس کا مقام جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کا، اس کے پیغام اور جدوجہد کامخاطب ہرعام انسان ہے، اُمت مسلمہ عام انسانوں کے لیے (اُخْرِجَتْ لِلّنَاسِ) برپا کی گئی ہے۔ دینی جدوجہد کا مقصود ہرانسان کی اُخروی اور دُنیوی فلاح ہے۔ دین کی دعوت اور جدوجہد انسانوں کے ذریعے ہی دوام پاسکتی ہے۔ دینی نظام انسانی ہاتھوں ہی سے چلے گا، انسانوں ہی پر قائم ہوگا اور انھی کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوگا۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو ہر وہ انسان قیمتی ہے جو دینی مقاصد کا کوئی حصہ بھی قبول کرے، جو دینی جدوجہد میں کسی درجے میں بھی شرکت کرنے کو تیار ہو۔ ہر انسان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا، یہ ہر دینی جدوجہد کرنے والے کا فرض ہے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں، جو دینی مقاصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، مگر گوناگوں معاشرتی و سیاسی وجوہ کی بنا پر ان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ حمایت حاصل کرنا چاہیے، جو ضروری و مفید ہوسکتی ہے۔ جیسے جنابِ ابوطالب یا وہ سردارانِ قریش جو قرابت یا شرافت ِ نفس کی وجہ سے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو حفاظت و پناہ فراہم کرتے تھے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں جو سخت دشمن ہوں، لیکن جن کے ساتھ آجانے سے معاشرے میں وزن کا پلڑا جھک سکتا ہو۔ جیسے ابوجہل اور عمر بن الخطابؓ ، جن کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کی تقویت کا سامان کرے۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے، اپنے ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے اور اپنے کردار کے لحاظ سے اعلیٰ بھی ہوں گے اور ادنیٰ بھی۔ لیکن اندھا بھی ہو تووہ توجہ اور مقام کا مستحق ہے۔ میدانِ جنگ سے پلٹ آنے والے ہوں، تو وہ بھی عفو و استغفار اور اجتماعی معاملات میں شریک رکھے جانے کے مستحق ہیں۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق کے ساتھ بھی اس حد تک نرم برتائو کیا گیا کہ ’’لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں‘‘۔
ایک بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں یقینا وابستگی و وفاداری اور ایمان و عمل کے لحاظ سے معیاری لوگوں کی تلاش بھی ہوگی، ایسے لوگ جمع کرنے اور بنانے کی خصوصی فکر بھی ہوگی، اور ابتدائی مراحل میں تو زیادہ اہتمام سے ہوگی، لیکن جیسے ہی انسانوں کی قوت استعمال کر کے غلبۂ دین کی جدوجہد شروع ہوگی۔ ویسے ہی ہرمسلمان کو، وہ کیسا ہی مسلمان ہو، اپنے ساتھ شامل کرنا اور اپنے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوگا۔ بنی اسرائیل کے جن ’مسلمانوں‘کو اپنے ساتھ لے کر حضرت موسٰی مصر سے نکلے تھے۔ ذرا قرآن اور تورات میں ان کی ایمانی،اعتقادی، اخلاقی، عملی اور دینی حالت دیکھیے، تو آپ کو ہماری اس بات کی اہمیت کا صحیح ادراک ہوگا۔
ایک دفعہ انسان کا یہ مقام سمجھ لیا جائے تو رویوں،پالیسیوں اور نظام میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت خود بہ خود محسوس ہوگی اور تبدیلیاں خود بہ خود پیدا ہوں گی۔ پھر ہرشخص جس کا ساتھ دینا ضروری ہو، یا جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہو، اس کے لیے دل کے دروازے بھی کھل جائیں گے اور دائرۂ اجتماعیت کے دروازے بھی۔
اجتماعی نظام جو تحریکوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ’نصوص‘ پر مبنی نہیں بلکہ اجتہاد پر مبنی ہیں۔ ان کو وضع کرنے میں ہمارے سامنے عصرِحاضر کی نظریاتی تحریکوں کے نظام کے ماڈل بھی رہے ہیں۔ لیکن ہماری روایات میں اور بھی ماڈل موجود ہیں، اور آج کےدور میں اوربھی ماڈل رائج ہیں، اور نصوص کی روشنی میں استنباط و اجتہاد کرکے ہم کو ایسے ماڈل وضع کرنے چاہییں، جو ان تمام انسانوں کو مساوی شرکت کا بھرپور احساس دے سکیں، جو اس غلبۂ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کرلینے، اور صرف معیاری لوگوں ہی کو لینے سے بہرحال وہ قلیل گروہ تیار ہوئے جو قلیل ہونے کے باوجود قوی اور مؤثر ہیں۔ لیکن اس طریقے سے تحدید و تفریق بھی پیدا ہوئی۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی اس قلیل گروہ کی پشت پناہی کے لیے تیار نہ ہوسکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پورے مسئلے کا اَزسرنو جائزہ لے کر ہم مناسب دُور رس اقدامات کریں، جو عام انسانوں کو اپنے دائرے میں جمع کرنے میں ممدو معاون ہوں۔
اس سلسلے میں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دینا چاہیے کہ:تعداد فی نفسہٖ مطلوب نہیں، یا تعداد کی طلب اور جستجو مستحسن نہیں، یا تعداد و توسیع اور معیار و استحکام میں کوئی بنیادی و منطقی تضاد ہے۔ اصل چیز تومعیار ہے، تعداد سے کیا ہوتا ہے۔
یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصرت و فتح کی علامت، یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کوقرار دیا ہے۔ اپنی اُمت کی تعداد کو حضوؐر نے اپنے لیے باعث ِ فخر قرار دیا ہے، اور اس تعداد میں اضافے کے لیے حضوؐر رات دن کوشاں رہے ہیں۔اور اگر دینی جدوجہد میں شریک ہونا ہی نارِ جہنّم سے نجات اور جنّت میں داخلے کا سب سے یقینی راستہ ہے ، تو اس راستے کو کسی کے لیے بند کیوں کر کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو انتظار و تعویق میں کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟
یہ بات واضح کر دینا بھی ضروری ہے، کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسان کو مرکز بنانے، اس کا مقام تسلیم کرنے، ہر طرح کےانسان کے لیے دل اور اجتماعیت کے دروازے کھول دینے سے، ایک عام معاشرہ بڑی تعداد میں کسی نہ کسی طرح دینی جدوجہد میں شامل ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایسے انداز و اسلوب میں وہ دعوت بھی ضروری ہے جو دلوں کو مسخر کرسکے، اور وہ قیادت بھی مطلوب ہے جو دلوں کو جیت سکے۔ اس کے بعد بھی ماحول، حالات اور مشیت الٰہی پر ہی کامیابی کا انحصار ہوگا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک دفعہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ معاشرہ اور انسان کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اسی معاشرے اور انھی انسانوں میں سے وہ قوت پیدا کرنا ہے، اور وہ پیدا ہوسکتی ہے، جو اصلاح و تبدیلی اور غلبہ و سربلندی کا کام کرسکے۔ اللہ کی نصرت کے بعد، کامیابی کا راز انسانی قوت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ مال و اسباب اور اسلحہ و سامان میں: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۶۲ۙ (الانفال ۸:۶۲)’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘، اور یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۶۴ۧ (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ! تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے‘‘۔
یہ بات بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مومنین کی اس جماعت میں لوگوں کے مقام اور درجات کا تعین اللہ کے لیے ان کی وفاداری و قربانی سے ہوا کرتا تھا۔ ایمان، عمل صالح اور تقویٰ تو وہ چیزیں ہیں جن کا صحیح علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ چنانچہ مہاجرین، انصار، اصحابِ بدر ، اصحاب بیت الرضوان وغیرہ وہ معیار تھے جن پر لوگوں کو مقام دیا جاتا تھا۔ رہے حکومتی اور فوجی مناصب، تو ایسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی، جو ایمان اوروفاداری کے ساتھ، ان مناصب کو کامیابی کے ساتھ سنبھالنے کی زیادہ صلاحیت اور اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ حُسنِ اخلاق کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنے، ان کو ساتھ لانے، جوڑے رکھنے اور ساتھ چلانے کے لیے سب سے مؤثر قوت حُسنِ اخلاق کی قوت ہے۔ یہ ُحُسنِ اخلاق، رافت و رحمت، نرمی و فیاضی، عفو و درگزر اور اِکرام و احسان سے عبارت ہے۔ اصل کارگر اور مؤثر قوت نہ نظریے میں ہے، نہ کتاب میں، نہ کلام میں، نہ تحریر و تقریر میں، نہ ڈپلومیسی اور پبلک ریلیشن میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج دینی جدوجہد کرنے والوں کے اخلاق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے وہ کم سے کم نسبت حاصل نہیں ہوئی ہے، جو مطلوب اور ضروری ہے، اور جس کا حصول ممکن ہے۔
یہ حضوؐر کا اخلاقِ کریمانہ تھا، جس کی مدح قرآن میں ہے اور جس کی تصویر سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے، جس نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو اسلام کے دامن رحمت سے چمٹا لیا، اور چمٹائےرکھا:
وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۲۸ (التوبہ ۹: ۱۲۸)تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔
اس کمی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے:افغانستان میں اتنے طویل عرصے تک جہاد جاری رہا، کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن مجاہدین نہ باہم اُلفت و اعتماد کے رشتے میں جڑسکے، نہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مخالفین میں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے ہوں اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں۔ اور پھر جن کمیونسٹ جرنیلوں نے کسی گروہ کا ساتھ دیا، تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر۔ پاکستان میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیجیے، شاذ ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوگی جو مخالف کیمپ سے ٹوٹ کر آئے ہوں اور اب دین کے غلبے کو مقصد زندگی بنالیا ہو۔ طالبان کا گروہ خالص قیامِ شریعت کا دعوے دار ہے۔ ایک طرف طائف کا سفر دیکھیے اور ثقیف کے وفد کا خیرمقدم۔ سردارانِ قریش کے مظالم دیکھیے اور لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کی صدا، اور دوسری طرف [ان کے ہاتھوں سابق افغان صدر] نجیب اللہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر اپنے جوشِ انتقام اور حمیت دینی کی ’تسکین‘ کا سامان کرنا دیکھیے، جو اقوامِ متحدہ کی پناہ میںتھا، نہتا تھا اور غیرمسلم بھی نہیں تھا! حالانکہ مشرک بھی امان طلب کرے تو اسے امن تک پہنچانے کا حکم ہے۔
صاحب ِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے کم سے کم نسبت کے حصول کے بغیر انسان جمع نہ ہوں گے، مخالفین کے دل مسخر نہ ہوں گے، اسلام کے غلبے کے لیے قوت فراہم نہ ہوگی، اور اس طرح دین کا قیام ایک اَمرمحال ہوگا۔ خواہ ہمارے پاس اسلحہ کے ڈھیر ہوں، سیاسی اقتدار بھی ہو، دلائل کا انبار بھی ہو۔
چوتھا مسئلہ اختلافات کا افتراق و نزاع بن کر وحدت اور شیرازہ بندی کو غیرمعمولی نقصان پہنچانے کا مسئلہ ہے۔ اختلافات کے باوجود متحد رہنے، ساتھ مل کر کام کرنے اور دینی قوتوں کو متحد رکھنے کا مسئلہ ہے۔ جہاں انسان جمع ہوں گے، وہاں اختلافات لازماً ہوں گے۔ رائے کے اختلافات ہوں گے، مزاج اور مفادات کے بھی۔ان اختلافات سے کوئی مفر نہیں۔ دورِصحابہؓ میں بھی اس سے مفر نہیں تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ سے لے کر جنگ ِ جمل و صفّین تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
اختلافات سے بچنا ممکن نہیں، لیکن اختلافات کو افتراق، تنازع اور مخاصمت بننے سے روکنا ممکن ہے۔ لَا تَفَرِّقُوْا اور لَا تَنَازَعُوْا ہی کی تاکید قرآنِ مجید نے فرمائی ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی مسلمان بہ حیثیت مجموعی، اور خاص طور پر دینی جدوجہد کرنے والے، جن کمزوریوں کا شکار ہیں وہ عیاں ہیں۔
اختلافات کے باوجود بڑے اور عزیز تر مقاصد کی خاطر متحد رہنے کے لیے سب سے بڑھ کر اخلاص و للہیت اور نفس پر ضبط و قابو درکار ہے۔ اس کی یقینا کمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اجتماعی زندگی میں اختلافات کا مقام معلوم ہو، اختلاف کی حدود و آداب سے واقفیت ہو، ان آداب و حدود کی پابندی کی استعداد پیدا ہو، جھٹ سے، حلال و حرام اور حق و باطل اور کفر و اسلام کے فتوے جاری کرنے کے طریقے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ تدبیری اُمور ہوں یا اجتہادی مسائل، اپنی رائے کو حتمی اور آخری سمجھنے کی خودسری پر قابو پانا ضروری ہے۔ اعجاب المرء برایہ (اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا) ہلاکت کا سامان ہے۔ ہراختلاف کو حق و باطل کا مسئلہ بنالینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں اپنی رائے کو صحیح سمجھنے کے باوجود اس کے غلط ہونے کے احتمال، اور دوسری رائے کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کے صحیح ہونے کے احتمال کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔
اختلافات کے حدود و آداب کی پابندی اور اختلاف کے دائرے تک محدود رکھے بغیر، نہ کسی اجتماعی قوت کے مضبوط بننے کا امکان ہے، اور نہ اس کا امکان کہ وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ جمع کرلے۔
پانچواں مسئلہ، اجتہادی اُمور اور تدابیر کو نصوص کا درجہ دینے، بنیادی اور اصل مقاصد کے بجائے جزئیات و فروعات پر توجہ اور مساعی کو مرکوز کرنے، اور پھر دینی احکام میں غلو، تشدد اور بال کی کھال اُتارنے پر اصرار کا مسئلہ ہے۔ اُمت میں تو یہ مرض عام ہے، اور اس کے زوال اور انتشار کا ایک بڑا سبب ہے۔ افسوس کہ دینی قوتوں میں بھی اس مرض کا غلبہ صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے۔ سیّد مودودیؒ نے اپنی ابتدائی تحریروں، مثلاً: تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں بڑے سوز و دردمندی سے، شدت اور اہتمام سے، مضبوط دلائل کے ساتھ، اس مرض کے خلاف جہاد کیا، لیکن اس سے چھٹکارا نہیں ہوسکا ہے۔
اس مرض کی وجہ سے صرف غلو اور تعمق کی بیماریاں ہی نہیں پیدا ہوتیں، جو شاہ ولیؒ اللہ کے بقول دین میں انحراف کا باعث ہیں۔افتراق و انتشار میں اضافہ ہی نہیں ہوتا، توجہ اور وسائل انسانی کا ضیاع ہی نہیںہوتا، بلکہ اصل کام اور اصل مقصد بھی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اور جدوجہد کے لیے کھڑے ہونے والے لوگ ان گلی کوچوں میں اس طرح بھٹک جاتے ہیں، کہ بساطِ زندگی میں ان کے سب مہرے مات کھا جاتے ہیں۔
اقبالؒ، ابلیس کی زبان سے مسلمان کی بربادی کے لیے یہی نسخہ تجویز کراتے ہیں، تاکہ:
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الٰہیات۱ کے تراشے ہوئے لات و منات
ہے وہی شعروتصوف۲ اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہرنفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
۱ اور فقیہات ۲ اور بحث و نزاع
امام بخاریؒ کی روایت کے مطابق، جب ایک مرتبہ مسجد نبویؐ میں لوگ اسی مقام پر نوافل پڑھنے لگے جس مقام پر فرائض پڑھتے تھے، تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے انھیں متنبہ فرمایا کہ پچھلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔ انھوں نے احکام و مطالبات کے درجات میں خلط ملط ہوجانے کے اسی مرض کی نشان دہی کی تھی، اور حضوؐر نے ان کی بات کی تصدیق فرمائی تھی۔
دینی احکام و مطالبات کے ضمن ہی میں نہیں ، دیگر اجتماعی اُمور میں بھی یہ مرض دیکھا جاسکتا ہے۔ چیز کو ذرائع کا مقام___ مثلاً تنظیم ، اجتماعات،اپنے طے کردہ وظائف و فرائض اور پروگرام___ وہ خود مقصد بن گئے ہیں۔ تدابیر کا دائرہ تنگ اور محدود ہوگیا ہے، اور ان میں تبدیلی و تغیر انتشار کا باعث بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اپنے اختیارات کو نصوص کا، اور تدابیر کو اصول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اِن سلگتے مسائل کو حل کیے بغیر نہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہوگا، نہ ذرائع مطلوبہ نتائج دیں گے، نہ متحد و متفق رہ کر حالات کے تغیر کے ساتھ مناسب احوال، حکمت عملی اور تدابیر کا اختیار کرنا ممکن ہوگا۔
ایک اور سُلگتا مسئلہ اتحاد اور یک جہتی کا ہے۔ اُمت اور معاشرے میں بھی، دینی قوتوں میں بھی، اور مشترک مقاصد کے لیے سیاسی قوتوں میں بھی، مسلم معاشرے ہرجگہ مختلف نوعیت کے تفرقوں اور انتشار کا شکار ہیں۔ دینی فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں اور سیاسی اختلافات بھی، جنھوں نے اُمت کو باہم نبرد آزما گروہوں میں پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تصادم اور خون ریزی بھی ہے، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار بھی نہیں۔ سب سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ وہ تحریکات جو غلبۂ دین کی جدوجہد کے لیے ہی برپا ہوئی ہیں، وہ بھی یک جان و متحد ہوکر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ جیسا ہم نے افغانستان میں دیکھا، جیسا ہم برطانیہ،یورپ اور امریکا میں دیکھ رہے ہیں۔ جو معاشرے تفرقے اور انتشار کا شکار ہوں، ان کی بڑی تعداد کو کسی دینی مقصد اور دینی قوت کی پشت پناہی کے لیے کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے پہلا ضروری کام تو یہ ہے، کہ جہاں تحریکی قوتوں کے متحد و مشترک ہوکر کام کرنے سے نتائج میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، وہاں عدم اتحاد کے اسباب کا ازالہ کرنا ضروری ہے، اور مشترک جدوجہد کے لیے نظام اور لائحہ عمل وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں، ان کو کم کرنے کے لیے تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، اور سیاسی تدابیر بھی۔ جہاں سیاسی مقاصد کا حصول پیش نظر ہے، وہاں پیش نظر رہنا چاہیے کہ سیاسی کش مکش کا ، جنگ کی طرح، بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ حلیف بنائے جائیں اور کم سے کم لوگوں کو مخالف اور حریف بننے کا موقع دیا جائے۔ کم سے کم محاذ کھولے جائیں اور ایک دشمن کو شکست دینے کے بعد دوسرے دشمن کا رُخ کیا جائے، ساتھ مل کر اقدامات کرنے کے دروازے کبھی بند نہ کیے جائیں اور عداوت کی آگ کسی طرح نہ بھڑکنے دی جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اسی اتحاد اور تحلیف کی جستجو اور قیام کی بہترین مثال ہے۔ معاہدۂ مدینہ کے ذریعے یہود کو ساتھ ملانا، کافر قبائل سے معاہدے کر کے ان کو حلیف بنانا، یا کم از کم ان کی عداوت کے امکانات و مواقع کو ختم کرنا، دوستوں کو دوست رکھنا، دشمنوں کو دوست بنانے کی ہر ممکن تدبیر کرنا۔
ساتواں مسئلہ، ایسی مؤثر سیاسی جدوجہد کرنا ہے، جو مطلوب نتائج کا پھل دے سکے۔ سیاست بھی ایک ذریعہ ہے، معاشرے میں قوت و طاقت کے سرچشموں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے، یا انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ باوجود اس کے کہ سیاست کو دینی جدوجہد میں مرکزی مقام دیا گیا ہے، اور ہمارے نزدیک صحیح دیا گیا ہے۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ بیش تر جگہ سیاست کے نتیجے میں وہ قوت نہیں حاصل ہوئی، جو مطلوب تھی۔
اس اہم مسئلے کے بھی کئی پہلو ہیں:
آخری بات یہ کہ، سیاست صرف حکومتی اور انتخابی سیاست کا نام نہیں۔ حکومت کا اقتدار ریاست کے دوسرے اداروں کی طاقت کی وجہ سے اور معاشرے میں طاقت کے دوسرے سرچشموں کی وجہ سے بھی محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سیاست کے دائرے کو حکومت اور انتخابات سے وسیع کر کے اس میں معاشرے اور ریاست کے تمام قوت و طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل اداروں کو شامل کریں۔
آٹھواں مسئلہ: مغرب کی فوجی، سیاسی، ثقافتی، علمی اور ابلاغی بالادستی اور تسلط کا مسئلہ ہے۔ عالمی قیادت تقریباً تین سو سال سے اہلِ مغرب کے پاس ہے۔ زبان ان کی ہے، اصطلاحات ان کی ہیں، ادارے ان کے ہیں، قوانین ان کے ہیں، تجارت ان کی ہے، عالمی تجارت پر ان کا کنٹرول ہے۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں، اور اپنی فوجی قوت کو وہ ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں۔ لبرلزم، منڈی کی معیشت اور مغربی جمہوریت کی فتح اور عالمی غلبے کو وہ اپنی حتمی فتح قرار دیتے ہیں۔
غلبۂ دین کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی قیادت، اہلِ مغرب کے بجائے اہلِ اسلام کے ہاتھ میں آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اتنا عظیم الشان تغیر کیسے واقع ہوگا؟ دینی جدوجہد کرنے والوں نے اس مقصد کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی ہے؟ ہمارے نزدیک ہمارے پاس نعرے ہیں، جذبہ ہے، محنت ہے، جدوجہد ہے لیکن اس سے نبٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور شاید کسی واضح لائحۂ عمل پر کاربند نہیں۔
اس ضمن میں ایک بڑا اہم مسئلہ یہ ہے: کیا یہ تبدیلی قوت کے بل پر آسکتی ہے؟ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیا یہ تبدیلی اہلِ مغرب کے دل ودماغ جیت کر آسکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ کیا یہ تبدیلی آئے بغیر آج، عالمی معیشت، عالمی مفادات، عالمی عسکری و سیاسی غلبے کے اس دور میں، کیا دنیا کے کسی ایک ملک میں دینی تبدیلی آسکتی ہے؟ ہمیں اس میں شبہہ ہے۔
مشیت الٰہی نے نصف صدی میں لاس اینجلز سے لے کر استنبول تک مغرب کی سرزمین میں جو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں پھیلادی ہیں، ان آبادیوں میں یہ صلاحیت اور امکان موجود ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ کش مکش میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔ کیا ان آبادیوں کو استعمال کرنے کے لیے ہم کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں۔
پھر مغرب نے ہمیں ایک اور اہم مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا مغرب نے تہذیب و تمدن اور ٹکنالوجی میں جو ایجادات و اختراعات کی ہیں، جو افکار و خیالات پروان چڑھائے ہیں، جو ادارے اور ذرائع وضع کیے ہیں، وہ سب کفر ہیں، اور مسترد کیے جانے کے قابل؟ یا ان میں ترک و اختیار کی پالیسی اختیار کی جائے گی؟ کیا اسلامی انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کو جسے مغرب نے تعمیر کیا ہے، پہلے ڈھا دیا جائے، پھر ملبہ صاف کیا جائے گا، اس کے بعد نئے افکار اور اداروں کی دیواریں اُٹھائی جائیں گی؟ کیا حقیقت کی دنیا میں یہ عمل کرنے کا کوئی امکان ہے؟ ہمارے خیال میں نہیں ہے۔
مغرب کے ساتھ تہذیبی کش مکش اور اس میں فتح ، بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صرف نعروں، ہنگاموں اور جذبات کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہ ہوگا۔ اس کے لیے علم و حکمت، اجتہاد اور جہاد تینوں کی ضرورت ہوگی۔
نواں مسئلہ عورت اورنوجوان کا ہے۔ عورت آبادی کا نصف حصہ ہے۔ ایک طرف مسلم معاشروں میں اسے وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام نے اسے دیا ہے، یا اسلام کی رُو سے اسے دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نے معاشرے میں عورت کے مقام اور عورت مرد کے تعلقات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرکے، انھیں بالکل نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ آنے والے زمانے میں تہذیبی مسائل میں عورت کا مسئلہ سرفہرست ہوگا: اس کا مقام اور اس کے حقوق۔ اس مسئلے پر بھی ہمارے ہاں بڑا فکری اور عملی خلا ہے، جس کو پُر کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح مسلمان معاشروں میں آبادیوں کا نصف سے زیادہ حصہ ۳۰ سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو اپنے ایمان و اقدار اور اپنی تہذیب و ثقافت کا وارث بنائے بغیر غلبۂ دین کے مقصد میں کامیابی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن اسلامی تحریکات اس مقصد کے لیے بھی کوئی واضح فکر اور لائحۂ عمل نہیں بنا سکی ہیں۔
آخری مسئلہ خود احتسابی، اپنی غلطیوں کے اعتراف، اور اپنی اصلاح کا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ احتساب پر سارے زور کے باوجود، غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور تحریکیں، اپنی اجتماعی روش، پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں احتساب و استغفار کے بجائے تاویل و پردہ پوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ نصف صدی کے عرصے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی اجتماعیت نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو، اور ان کی اصلاح کا اعلان کیا ہو۔ حالانکہ قوموں اور جماعتوں کی دُنیوی کامیابیوں میں خوداحتسابی اور استغفار کو قرآنِ مجید نے کلیدی اور مرکزی مقام دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کو خامیوں اور غلطیوں سے مفر نہیں۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی انسانی گروہ سے نصف صدی میں کوئی بڑی غلطی نہ سرزد ہوئی ہوگی۔ ہمارے ہاںدنیا بھر کی خرابیوں اور غلطیوں پر قراردادیں مل جائیں گی، اپنی خرابیوں اور غلطیوں پر کوئی قرارداد نہیں ملے گی۔
ہمارا خیال ہے کہ پبلک میں اور پبلک کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو پبلک کے سامنے ہی اپنا احتساب کرنا چاہیے، اپنی غلطیوں کی تاویل یا پردہ پوشی کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہیے، اپنی اصلاحی تدابیر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی عزت، دلوں میں مقام اور ان کے دائرۂ اثر و حمایت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ صحت مند اور مفید روایات قائم ہوں گی۔ رگوں میں نیا خون دوڑے گا اور اصلاح کے دروازے کھلیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر جائزے، غوروخوض، نظرثانی، تجدید یا تغیر کا عمل شروع ہوجائے گا تو نصف صدی کی محنت سے جو پھل ہم نے جمع کیے ہیں، وہ گلنے اور ضائع جانے کے بجائے برگ و بار لائیں گے۔ قوموں اور جماعتوں کے لیے انحطاط، زوال اور بگاڑ مقدر نہیں، نہ جمود اور تعطل۔ اجتہاد و جہاد سے قوت اور شباب کے دروازے کھل سکتے ہیں مَاشَاءَ اللہُ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔
ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔
ملّی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات اعلان کردہ تاریخ یعنی ۸فروری ۲۰۲۴ ء کو منعقد ہوں اور انھیں متنازعہ نہ بننے دیا جائے ۔ عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اداروں کے احترام کو بحال ہونے کا موقع دیا جائے ۔ اداروں پر عدم اعتماد اور ان کے بارے میں یہ تاثر کے ان کی امداد و حمایت کے بغیر کوئی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، ملکی اداروں کی ساکھ کو تباہ کر دیتا ہے ، اس لیے اداروں کی ساکھ کی بحالی کے بغیر کوئی سیاسی عمل مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتا۔ ان حالات میں جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:
اس وقت کچھ تحریکی کارکن ابلاغ عامہ کے منفی کردار اور ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی کے زیر اثر یہ سوچنے لگے ہیں کہ انتخابات کا کیا فائدہ ؟جو مراکز ِقوت کچھ عرصہ سے سیاسی تبدیلیاں لا تے رہے ہیں، ان کی غیر رسمی حمایت کے بغیر تحریک اسلامی سیاسی عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس منفی فکر کو ذہنوں سے نکالنے کی ضرورت ہے اورپورے اعتماد کے ساتھ اس عزم کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی کوشش کے نتائج صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رب سے عبادات میں زیادہ کثرت اور انہماک کے ساتھ اللہ پر توکّل کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو دستورِ جماعت میں درج طریقۂ کار سے پوری مطابقت رکھتی ہو۔
جو بنیادی حقوق ہمیں دستور دیتا ہے، ان کے احیا اور ان پر عمل کرتے ہوئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، چاہے حکمت عملی کی بنا پر کسی سیاسی گروہ کو فائدہ پہنچے یا نقصان اور چاہے اس عمل میں تحریک کو ایک طویل عرصہ تبدیلی ٔقیادت کا انتظار کرنا پڑے۔
اسلامی اخلاق کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست میں توحید ووحدانیت کا قیام ہے۔ گویا فرد کی زندگی کا ہر عمل توحید کا عکس ہو اور اس کا جسم اور دل و دماغ ہر معاملے میں وہی فیصلہ کرے جو خالق حقیقی کو خوش کرنے والا ہو۔معیشت کے میدان میں وہی سرگرمی اختیار کی جائے جو حلال اور نافع ہو اور ہر اس سرگرمی سے بچا جائے جو استحصالی سودی نظام، خود غرضی اور نفع خوری پر مبنی ہو۔ ہرمیدانِ عمل میں حاکمیت نہ عوام کی ہو، نہ پارلیمنٹ کی، نہ عدلیہ کی، نہ انتظامیہ کی بلکہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ہو۔جس بات کو قرآن و سنت نے جائز قرار دیا ہو وہی سیاست، معیشت، معاشرت غرض یہ کہ ہر شعبہ کی زبان قرار پائے۔
جب بھی اللہ کی رضا کی جگہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی اور حمایت کو اپنا رب بنایا جائے گا، اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔آج ملک کے کئی صوبوں میں بیرونی دشمنوں کی مدد سے جو باغیانہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا حل صرف فوج کے استعمال سے نہیں ہو سکتا ۔ اصل چیز باہمی اعتماد کی بحالی اور مقامی مسائل پر خلوصِ نیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیرپا حل کا اختیار کرنا ہے ۔ بلاشبہہ مالی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اصل مسئلہ اخلاقی زوال اور اخلاص کے فقدان کا ہے۔یہ اخلاقی فساد اور افلاس صرف وہ تحریک ہی دُور کر سکتی ہے جس کی بنیاد رضائے الٰہی پر ہو ۔جو اپنے کارکنوں میں ایمان، تقویٰ، احسان اور ایثار و قربانی اور بے غرضی کی خوبیوں کی بنا پر ممتاز ہو۔ جس کے مخالفین بھی اس کی قیادت اور اس کے عام کارکن کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ مالی معاملات میں ایماندار ہیں، ان کا دامن بد معاملگی سے پاک ہے، وہ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ محبت کا رویہ رکھتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بھی سخت زبان سے مخاطب نہیں کرتے، نہ کسی پر طنز و استہزا کے تیرچلاتے ہیں، نہ کسی کا نام بگاڑتے ہیں، نہ کسی کو چور اور بداخلاق کہتے ہیں بلکہ انبیا ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کا ہر قول قولِ صادق ہے۔ایک عام شہری تحریک کے کارکن کے بارے میں یہ شہادت دینے پر آمادہ ہو کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے چاہے حق بات کہنے میں اس کے سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچتا ہو۔
تحریک کے عام کارکن کی یہ اخلاقی برتری ہی تحریک کا سرمایہ اور اس کا بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا، تحریک کی جڑیں عوام میں اتنی ہی گہری ہوں گی۔اس کے مقابلے میں اگر تحریک کا عوام کی نگاہ میں تصور یہ ہو کہ یہ بھی ایک مسلکی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہے، تو چاہے تحریک کا ووٹ بینک وسیع ہو جائے، اس کی اکثریت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ گویا تحریک کا بیانیہ اس کا وہ مخلصانہ اصولی اور اخلاقی عمل ہے جو خدمت خلق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اخلاقی اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی شکل میں عوام کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی ایک سیاسی یا محض ایک تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ اخلاقی، اصلاحی اور اصولی تحریک ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اقامت دین محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام اُمور میں اللہ کی اطاعت کو عملا ًنافذ کر دینے کا نام ہے۔
اب چند لمحات کے لیے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے کہ اس وقت تک ملک کا منظرنامہ کیا ہے اور اس منظر نامہ میں تحریک کے کرنے کے کام کیا ہیں؟
یہ بات نقشِ دیوار کی طرح نمایاں ہے کہ ملک ایک بڑی مجموعی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ محض حکمرانوں کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ نظم و نسق اور اداروں میں ایک بنیادی تبدیلی (strategic change)کی ضرورت ہے۔اصلاح، جزوی تبدیلی سے نہیں ہو سکتی۔ قومی اجماع اور قومی یک جہتی کے بغیر نئے چہروں کو لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ملک و ملت کو اس کے مقصد ِوجود کے پیش نظر ایک جامع اصلاحی عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے وسیع تر قومی یک جہتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیکڑوں نمایندگان والی پارلیمنٹ میں ایسے تین چار افراد نےجو اپنے کردار کی بنا پر پہچانے جاتے ہوں، دوسری جماعتوں کی زیادہ تعداد پر اپنے اخلاقی اور اصولی موقف کی بنا پر کامیابی حاصل کی اور خصوصا ً ۱۹۷۳ء کے دستور کی مہم میں اور بعد میں سیاسی جدوجہد میں قلّت ِتعداد کے باوجود تحریک کے باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار نمایندوں نے قومی سطح پر سیاسی فیصلوں کے باب میں کلیدی کردار ادا کیا۔اصل قوت، ایمان و کردار کی قوت ہے جو ہرمحاذ پر تحریک کو کامیاب کرتی ہے۔
اسلامی نظریے کی تشکیل ہی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ملک میں ایک جمہوری اور عوام دوست اور عوام کا معتمدعلیہ نظام قائم ہو جس میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرتی فلاح کا پورا اہتمام ہو۔ اس امر کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے کہ ملک کے عسکری ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام توانائیاں ملک کی سیکورٹی پر مرکوز کریں اور سیاست میں مداخلت سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی طرح ملک کے جن علاقوں میں غربت، وسائل کی عدم فراہمی اور قومی سطح پر احساسِ محرومی کا احساس ہے، ان کی شکایات کو دُور کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں واضح کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی ہردواعتبار سے مکمل خودانحصاری (self-reliance) کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ عالمی بلاکس سے اپنے کو آزاد رکھا جائے اور سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خارجہ اُمور کو طے کیا جائے۔ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کی ہرممکن مدد و معاونت کی جائے۔ عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلہ اور اس کے منصفانہ حل کو بھی اُجاگر کرنے، اور خصوصیت سے اسرائیل کے مکمل عالمی معاشی بائیکاٹ کے لیے مؤثر کوشش کی جائے۔ان سب کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ملک میں ہرسطح پر کرپشن کا سیلاب ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو وہ تمام حقوق بلاکم و کاست دیئے جائیں، جو اسلام انھیں دیتا ہے، اور جن میں سے بیش تر سے وہ محروم ہیں۔ان تمام اُمور پر فوری توجہ وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا انحصار ۸فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے الیکشن کے صاف و شفاف اور منصفانہ ہونے اور ووٹر کے اپنے حق کو صحیح صحیح استعمال کرنے پر ہے۔ ہم عوام سے اس فیصلہ کن مرحلے میں الیکشن میں بھرپور شرکت اور ووٹ کے استعمال کی اپیل کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا کردار ملک گیر اور ہمہ پہلو ہونا چاہیے۔ اس کام کا مکمل نقشہ مرتب کیا جائے اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا بھرپور استعمال ازبس ضروری اور فیصلہ کن ہے۔
القدس اور حرم کعبہ اپنی عظمت و حرمت کے لحاظ سے دنیا کی ہرمسلم آبادی کے لیے غیرمعمولی اہمیت کے حامل مقامات ہیں۔روئے زمین پر پہلا مرکز عبادت حرم کعبہ بیت اللہ ابوالانبیا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا، اور قیامت تک کے لیے محترم جائے سجود قرار پایا۔
اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان کی طرف دیکھنے اور دل سے قبلۂ ابراہیمی کو اختیار کرنے کی خواہش کو قبول فرماتے ہوئے ہدایت فرما دی کہ ہر صاحب ایمان جہاں کہیں بھی ہو، نماز ادا کرنے کے لیے حرم کعبہ کی طرف رخ کرے۔ لیکن بنی اسرائیل کی تاریخ میں ایک دور وہ بھی آیا جب حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کو بنی اسرائیل نے جو اس سے قبل کعبہ کی طرف ہی رخ کر کے دعائیں مانگتے تھے، اپنا قبلہ قرار دے دیا اورالقدس کی طرف رخ کر کے عبادت کرنے لگے۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے اذِن سے نبی کریمؐ نے بھی مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد تقریباً ۱۴ ماہ تک القدس ہی کی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی اور جب ربِّ کریم نے حکم دیا تو بلاکسی تاخیر قبلۂ ابراہیمی کو اختیار فرما لیا۔اس علامتی طور پر تبدیلیِ امامت و قیادت نے قیامت تک کے لیے ہدایت کا راستہ اور اس کی طرف دعوت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کو تفویض فرما دی۔
مسلمانوں کے لیے الاقصیٰ کی اہمیت محض جذباتی نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم نے الاقصیٰ کے اردگرد کے علاقے کو مبارک قرار دیا ، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے مسجد قائم کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ۔اس مسجد کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیمؑ اور بنی اسرائیل کے انبیاؑ کی آخری آرام گاہیں واقع ہیں ۔ ان اسباب کی بناپر القدس کی اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت ہرصاحب ِایمان کے دل میں جاگزیں ہے۔
یہی وہ القدس ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی استعمار اور صیہونی ناجائز تعاون کے نتیجے میں ظلم و جبر ،قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔غزہ کی مسلم اور عیسائی آبادی ناجائز طور پر قائم کردہ صیہونی اسرائیلی ریاست کے فضائی ،بری اور بحری تینوں راستوں سے بمباری کا ہدف بنی ہوئی ہے اور ہزار ہا معصوم بچے، خواتین، بزرگ، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں داخل مریض بھی اسرائیلی بمباری اور قتل و غارت گری سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہر لمحہ زندگی سے ہاتھ دھوتے اور شہادت کا درجہ پانے والے مظلوموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ مسلم دنیا کا ضمیر صرف حمایتی بیانات تک محدود ہے۔
امریکا کی اسرائیلی صیہونیت کی حمایت علانیہ طور پر اسلحہ اور سیاسی حمایت کے ذریعے واضح ہو چکی ہے۔ مارچ۲۰۲۳ء میں امریکی کانگریس سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۴۸ء سے اب تک امریکا نے اسرائیل کی ۲۶۰ بلین ڈالر کی بیرونی امداد کی ہے، جس میں نصف جنگی سازوسامان پر صرف ہوئی ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں ۴۲ (بشمول حالیہ۲) مرتبہ ’ویٹو‘ کا حق استعمال کیا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل کی ہمدردی میں بچھے جا رہے ہیں لیکن وہ مسلم ممالک جن کی جغرافیائی سرحدیں فلسطین کے ساتھ ملی ہوئی ہیں، ان کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے، ان کے حقوق انسانی کی بحالی اور انھیں زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کوئی سنجیدہ کوشش تاحال سامنے نہیں آئی ۔ البتہ سفارتی محاذ پر اس حوالے سے سرد مہری اور نیم دلی سے جاری کیے گئے بیانات تواتر سے جاری کیے جا رہے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے ۶۳۸عیسوی میں حضرت عمر ؓکے دور میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے خود فلسطین جا کر وہاں کی غیر مسلم آبادی کو حقوق شہریت عطا کیے۔ حضرت عمرؓ کا یہ سفر تاریخ انسانی میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔اس سفر میں کلیسا کے سربراہ سےگفتگو کے دوران نماز کا وقت آیا تو پادری نے کہا کہ آپ یہیں نماز پڑھ لیں لیکن حضرت عمرؓ نے کلیسا سے کچھ فاصلہ پر جا کر نماز ادا فرمائی ۔انھیں خدشہ تھا کہ عیسائی عبادت گاہ میں ان کی نماز کی ادائیگی کو نظیر قرار دے کر بعد میں آنے والے مسلمان، عیسائی عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔ دوسرے مذہب کے عبادت خانے کا ایک فاتح کی طرف سے یہ احترام تاریخ میں کہیں اورنہیں نظر آتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر ساڑھےچار سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا۔ ۱۰۷۸ء میں سلجوقی اس کے حکمران بنے اور ۱۰۹۹ء میں کئی ممالک کی متحدہ عیسائی افواج نے مل کر حملہ کیا اور فلسطین پرعیسائی قابض ہو گئے ۔ اکتوبر ۱۱۸۷ ء میں صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۷ء-۱۱۹۳ء)نے اسے دوبارہ فتح کیا اور رواداری اور عدل کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ ۱۵۱۷ء میں فلسطین کو عثمانی فرماں روا نے دوبارہ فتح کیا اور پھر ۴۰۰ سال یہ عثمانی ریاست کا حصہ رہا۔۱۹۰۸ء میں سلطان عبدالحمید کی برطرفی کے بعد مصطفیٰ کمال کی قیادت میں’نوجوان ترکوں‘کے زیر عنوان ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ۱۹۱۴ء میں غیر جانب دار رہنے کی بجائے جرمنی کے حلیف کے طور پر معاہدہ کرلیا تھا۔ دوسری جانب برطانیہ ،فرانس ،روس اور امریکا آپس میں اتحادی بن گئے اور جرمنی کی شکست کے بعد اتحادیوں نے ترک مقبوضات کو ایک نئے نقشے کے تحت آپس میں تقسیم کرلیا۔
۱۰؍ اگست ۱۹۲۰ء مسلم دنیا کی تاریخ میں وہ تاریک دن ہے جب فرانسیسی اور برطانوی استعمار کے نمایندوں نے سہیورس(Sevres) میں سائکس- پائی کوٹ(Sykes-Picot) معاہدہ کے نام سے ایک دستاویز کے ذریعے طے کیا کہ سلطنت عثمانیہ کو تتّر بتّر کرنے کے لیے فرانس کے حصے میں لبنان اور شام اور برطانیہ کی جھولی میں عراق، فلسطین اور اردن کو ڈال دیا جائے ۔تاکہ مسلم ممالک فرانس اور برطانیہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں اور یہ دونوں ممالک مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں۔
۱۹۱۴ءکے اعداد و شمار کے لحاظ سے فلسطین میں چھ لاکھ فلسطینی تھے اور یہودی بمشکل ۵۰ہزار تھے۔ آج اسرائیل کی دُوررس منصوبہ بندی اور مسلمانوں کی آنکھیں بند رکھنے کے نتیجے میں یہ تناسب اُلٹا ہے۔ فلسطین میں بمشکل ۲۰ فی صد مسلم آبادی ہے اور اس کو بھی قتل و غارت گری، دہشت گردی اور خوف کی فضا کے ذریعے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک آج بھی آنکھیں، کان اور عقل کو استعمال کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔
مسئلہ فلسطین کی تخلیق مغربی استعمار کی وسیع تر تخریبی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد یورپی مسیحی اتحادی حکومتوں نے ایک وسیع تر تخریبی حکمت عملی کے تحت عثمانی مملکت کا جس نے غیر دانش مندانہ بنیاد پر جرمنی کا ساتھ دیا تھا، بٹوارےکا فیصلہ کیا تاکہ مسلم قوت کی مرکزیت کو ختم کر کے انھیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا جائے ،جو ہمیشہ طاقت ور یورپی ممالک کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہوں۔
برطانوی شاطر دو قدم اور آگے بڑھے اور برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میکموہن نے اپنے ایک خفیہ خط کے ذریعے عثمانیہ ریاست کے مقرر کردہ والی شریف حسین کو عثمانیوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا اور برطانوی حکومت کی جانب سے کسی اختیار کے بغیر شریف مکہ کو ایک نجی خط کے ذریعے برطانیہ کی جانب سے ایک آزاد مملکت کی سربراہی کی پیش کش کر دی، جسے شریف حسین نے بلا کسی تردد کےقبول کر لیا اور اس طرح عثمانی ریاست کے منتشر ہونے پر شام ، عراق ، فلسطین اور سعودی عرب سیاسی نقشے پر اُبھرے۔
نہ صرف یہ بلکہ برطانیہ نے کھلم کھلا فلسطین کے علاقے میں یہودی آباد کاری کے ایک منظم منصوبے کا بھی اہتمام کیا ۔دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانوی فوج نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اوربرطانوی استعمار نے اگلے تیس برسوں میں اس خطے میں یہودی آباد کاری کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا اور مقامی سادہ لو ح افراد کی زمینیں اونی پونی قیمتوں پر دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں نے خریدنی شروع کر دیں ۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ناجائزریاست کے قیام کے وقت اس میں بہ مشکل ۷لاکھ ۵۸ ہزار یہودی آباد تھے۔ ملک کا بٹوارا کرتے وقت کل رقبےکا ۵۶ فی صد رقبہ اسرائیل کو دیا گیا اور ۴۴ فی صد حصہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، وہاں فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کو رہایشی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا۔یہودی آبادی اس وقت کل آبادی کا بہ مشکل ایک تہائی تھی ۔ دوتہائی آبادی میں مسلمان اکثریت میں تھے اور قلیل تعداد میں عیسائی بھی آباد تھے۔ آج نا جائز مقبوضہ اسرائیل میں تقریباً ۱۸ لاکھ مسلمان ہیں ، جب کہ آبادی کے جائزوں اور گوشواروں میں مسلمانوں کی شرح پیدائش یہودیوں سے بہت زیادہ ہے ۔یہودی آبادی ۶۳ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
مشرق وسطیٰ کے وہ مسلم ممالک خصوصا ًجہاں عربی زبان رائج ہے ،وہ مسئلہ فلسطین کو فلسطینی عربوں اور یہودیوں کا تنازع سمجھتے ہیں اور اپنے سیاسی مصالح کو اولیت دیتے چلے آرہے ہیں اور اس نازک اور حساس معاملہ پر زبانی جمع خرچ سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔اگر واقعی یہ صرف عربوں اور یہودیوں کا مسئلہ ہے تو وہ عرب ممالک جو کچھ عرصہ قبل معقول عسکری قوت رکھتے تھے، وہ سیاسی اور عسکری دباؤ کا استعمال کر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکال سکتے تھے۔لیکن مصر ہو یا اُردن یا مراکش ان ممالک نے ایک ناجائز قابض حکومت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات ہی قائم نہیں کیے بلکہ خفیہ اداروں کے ذریعے معلومات کے تبادلے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ’معاہدہ ابراہیم‘ (Abraham accord )کے عنوان سے امریکا کی سرپرستی میں خلیجی ریاستوں یو اے ای نے اسرائیل سے ایک ایسے شرمناک معاہدے پر دستخط کیے جو نہ صرف ایک اعترافِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ صدیوں کی تاریخ کو غلط قرار دیتے ہوئے اصلاحات کرنے کے بعد ایک ایسی تاریخ تحریر کرنے کاپابند کرتا ہے جس میں کسی مقام پر جہاد کا تذکرہ نہ ہو اور صیہونیت کے خلاف ماضی میں جو کچھ قانونی یا دستوری اقدامات کیے گئے ہیں، انھیں منسوخ کرنے اور تاریخ کی نئی تعبیر کرنے کا پابند بناتا ہے ۔
یہ مسئلہ فقط عربوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے۔ ۳۰ لاکھ سے اُوپر مقامی باشندوں کو حقوق انسانی سے محروم اور بے گھر کرنے اور بچوں، خواتین، بزرگوں اور جوانوں کو تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری صیہونی دہشت گردی پر ہے۔
یہ محض ایک مذہبی اختلافی مسئلہ بھی نہیں ہے کیونکہ صیہونی حکومت کو صحیح العقیدہ یہودی بھی یہودیت کانمایندہ نہیں سمجھتے۔ یہ ایک ناجائز حکومت کا نسلی برتری اورنسل پرستی (Racism) کی بنیاد پر نسل کشی (Genocide )کی پالیسی کے خلاف جدوجہد ہے، جو ہرباشعورانسان کی دل کی آواز ہے۔ اسرائیلی حکومت نسل پرست لادینی قومیت کی علَم بردار ہے، جب کہ فلسطین کے مسلمان صرف اپنے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور سرزمین پر اپنے آبائی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ فلسطینی یہودیوں کی طرح مشرقی یورپ ، افریقہ اور دیگر ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد نہیں ہیں بلکہ صدیوں سے مسجد اقصیٰ کے ارد گرد آباد ہیں، جنہیں ان کے گھروں سے جارحیت اور قتل و غارت گری کے ذریعے بے گھر کیا جا رہا ہے ۔یہ مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کا مسئلہ ہے جو سیکولر ، صیہونی اسرائیلی حکومت کی نگاہ میں ایک غیر مطلوب عبادت گاہ ہے اور جسے مسمار کرنا ان کے مقاصد میں شامل ہے ۔غزہ میں حالیہ فضائی حملوں کے بعد زمینی بکتر بند حملے کا مطلب یہ ہے کہ جو جاندار بھی غزہ میں ہے ،اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے اور یہی وہ کام ہے جو ہلاکو خان نے بغداد میں کیا تھا۔ اس سفاکانہ عمل کی مخالفت اور اسرائیل کو اس سے باز رکھنا ہر انسان پر ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔
جس بے شرمی کے ساتھ مغربی ممالک، ہندستان اور اقوام متحدہ نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بے اعتنائی اور انسانی حقوق کی پامالی کو گوارا کیا ہے، اس کے بعد ان اداروں اور ممالک سے کسی خیریا تعاون کی امید رکھنا عقل مندی کے منافی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلم ممالک آنکھیں کھولیں اور خود کو مغربی اداروں کی معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے ایک عالمی مالی ادارہ قائم کریں جو ان کے معاشی مسائل میں امداد کرے۔اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم میں بنیادی اصلاحات کریں تاکہ قوم میں اعتماد پیدا کریں اور یوں القدس کی آزادی آج نہیں تو کل باشعور مسلم نوجوانوں کے ذریعے عملی شکل اختیار کرسکے۔
اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی تمام تحریکات اسلامی کا ایک اہم ہدف اسلامی نظام عدل پر مبنی معاشرہ اور ریاست کا قیام ہے۔ ملک اور ملک کے باہر جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال ہورہا ہو، حقوق انسانی پامال کیے جا رہے ہوں اور انسانی جان اور مال کی حرمت باقی نہ ہو، تو تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرممکنہ ذریعے سے مظلوم اہل ایمان کی مدد کرے اور انھیں ظلم سے نجات دلائے۔
اس حوالے سے پہلا کرنے کا کام عوام و خواص کو مسئلے کی اصل نوعیت سے آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس غرض سے بڑے اور چھوٹے اجتماعات، وفود، گھر گھر جا کر مظلوم مسلمانوں کے لیے ادویات اور غذا فراہم کرنے کے لیے مالی وسائل کا جمع کرنا ،اسکولوں کالجوں اور جامعات میں امدادی فنڈ کی مہم کے ذریعے وسائل جمع کر کے جلد از جلد پوری ذمہ داری کے ساتھ مستحقین تک پہنچانا تحریک کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ مرکز جماعت کی جانب سے تمام اضلاع کو اس موضوع پر امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے جاری کردہ تفصیلی ہدایات دی جاچکی ہیں۔ ان کی روشنی میں ذیلی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ پوری تندہی سے اس فریضے کو سر انجام دیں۔
جتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی جا رحیت کے نتیجے میں بچے، خواتین اور ضعیف افراد زخمی ہورہے ہیں، ان کے لیے مقامی طور پر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ۷؍اکتوبر سے ۲۲؍اکتوبر تک صرف دو ہفتوں میں۷ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ۱۵ہزار ۲سو۷۳؍ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں ۱۱۱۹ خواتین اور دو ہزار ۳۵ بچّے شامل ہیں۔اسرائیلی بمباری نے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں مریض ، ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد روزانہ کی بنیادوں پر شہید ، زخمی اور معذور ہو رہے ہیں ۔ علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھرپور سر گرمی ضروری ہے ۔ اس حوالے سے تحریک کو ملکی اور عالمی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کی جانوں کے تحفظ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ایک انسانی فریضہ ہے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ طبی امدای وفود کے لیے غزہ تک کے راستے سہولت میں تعاون کرے۔
تحریک سے وابستہ اصحاب علم کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے فلسطین کے مختلف پہلوؤں پر علمی اور تحقیقی مواد (حقائق اور معلومات) تیار کریں اور یونی ورسٹیوں اور بیرون ملک اخبارات تک ای میل اور دیگر ابلاغی و سماجی میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔
اس وقت سوشل میڈیا محاذِ جنگ کے بعد دوسرا اہم ترین محاذ بنا ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت میں یہود و ہنود کے اشتراک سے جھوٹا پروپیگنڈا نقطۂ کمال پر ہے ۔ حماس کی تازہ کارروائی کے فوراً بعد اسرائل میں حماس کے ہاتھوں ۴۰ بچوں کے قتل کی جھوٹی خبر کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا ۔ امریکی صدر نے بھی اس بنیاد پر حماس کے خلاف سخت ترین غیر سفارتی زبان میں اس عمل کی مذمت کی ۔ بعد ازاں خبر غلط ثابت ہوئی ۔ موبائل اور کمپیو ٹر کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے ہمیں بھی فعال ، ذہین اور مستعد افراد کے ذریعے منظم انداز میں روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا محاذ کے ذریعے حسب ذیل اہداف پر توجہ کی ضرورت ہے :
اہم تاریخی اور نظریاتی اہمیت کے موضوعات ہمارے نصاب تعلیم کا حصہ نہیں ہیں۔جس کے باعث ہماری نوجوان نسل میں اہم نظریاتی موضوعات پر شعور کی کمی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں ایسے پروگرام اور سرگرمیاں منعقد کرنی چاہییں جن کے نتیجے میں نوجوان نسل کے شعور میں اضافہ ہو۔ جامعات میں یونینوں پر پابندی کے باوجود ہر جامعہ میں طلبہ کی سرگرمیوں کے لیے سوسائٹیاں اور کلب موجود ہیں۔ مسئلہ فلسطین کی تاریخ، پس منظر، حقائق واضح کرنے کے لیے تقاریری مقابلے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ ہینڈ بلوں، کتابچوں، اور سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے نوجوان نسل کو اس انسانی مسئلے کے حقائق اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنے کا اہتمام ضروری ہے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر پُرامن احتجاجی واک، شعور بیدار کرنے والی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے نوجوان نسل کی سیاسی جدوجہد کی تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر مختلف ڈارما سوسائٹیوں کے قیام کے ذریعے ڈراموں اور مختصر تمثیلی خاکوں کے ذریعے غزہ کے مظلوموں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور عالمی سامراج کے دُہرے منافقانہ معیار کو اجاگر کیا جائے۔غرض ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں بیداری کے حصول کے لیے مختلف النوع تربیتی و آگاہی سرگرمیاں منعقدکرنا ضروری ہے۔ ان سرگرمیوں کے مختصر دورانیئے کے کلپس سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی شعور میں اضافے کا بھی سبب بنیں گے۔
غزہ کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک انسانی مسئلہ ہے جس میں لاکھوں لوگ اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے جبری طور پر مہاجر بنائے جا رہے ہیں اور ان پر بنیادی ضروریات زندگی کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ظالمانہ بمباری کے ذریعے ہزراوں عورتوں ، بچوں ،مریضوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عظیم انسانی المیے کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مقامی دفاتر کے سامنے مظاہروں کا انعقاد کیا جائے اور قراردادیں جمع کروائی جائیں ،جن میں اقوام متحدہ کو ذمہ داری ادا کرنے پر متوجہ کیا جائے۔ اس صورت حال پر اقوام متحدہ سے سوال کیا جائے کہ اگر وہ انڈونیشیا میں عیسائیوں کے تحفظ کے لیے اقدام کر سکتی ہے تو وہ فلسطین کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے لیے کیوں جنگ بندی نہیں کروا سکتی اور اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہرجانہ کیوں نہیں کر سکتی؟ اقوام متحدہ پر زور ڈالا جائے کہ وہ غزہ کے متاثرین تک طبی اور غذائی امداد کی فراہمی کے جلد از جلد انتظامات کرے۔
پاکستانی سیاست دان، دانش ور اور عوام عمومی طور پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کے اصولی موقف سے آگاہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی قائدا عظمؒ کے موقف سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔ قومی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں سے روابط اور اس موضوع پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تحریک کے زیر اہتمام عوامی احتجاجوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت سے یک جہتی کی فضا کے قیام میں مدد ملے گی ۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو آل پارٹیز فلسطین کانفرنسوں میں مدعو کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ تمام جماعتوں کی جانب سے مشترکہ اعلامیوں اور قراردادوں میں حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ جنگ بندی کے قیام ، فوری طبی امداد و دیگر بنیادی ضروریات کے ذریعے متاثرین کی ہر ممکن فوری امداد کی ذمہ داری ادا کرے۔ نیز تمام ریاستی وسائل مثلاً ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات کو بروئے کار لاتے ہوئے تنازع فلسطین کے تاریخی پس منظر اور اسرائیل کے سفاکانہ کردار کو پاکستان سمیت پوری دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کرے ۔
ذیل میں قائد اعظم ؒ کے فلسطین کے حوالے سے اصولی موقف کی ترجمانی کرنے والے اہم حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ قائداعظمؒ کے اصولی موقف کی روشنی میں قومی اتفاق رائے اور خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ ۱۷فروری ۱۹۴۴ء کو اپنے ایک تارکے ذریعے پیغام میں مسٹر چرچل کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :(روزنامہ ڈان، ۱۸فروری ۱۹۴۴ء)
America-Zionist propaganda supported by influential quarters causes alarm and serious apprehension. Any departure from White Paper and definite assurances given to Muslim India by Lord Linlithgow, Viceroy on behalf of His Majesty’s Government would be further act of flagrant injustice to Arabs and breach of faith. Not only Muslim India but entire Muslim world would deeply resent it. Consequences fraught with gravest danger.
بااثر حلقوں کی حمایت سے امریکی ور یہودی پروپیگنڈا زبردست خوف اور خطرے کو جنم دیتا ہے۔ قرطاسِ ابیض اور ان یقین دہانیوں سے کوئی انحراف جو وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے ملک معظم کی حکومت کی جانب سے مسلم ہند کو کرائی تھی عربوں کے ساتھ صریحی ناانصافی اور عہدشکنی کی جانب ایک اور قدم ہوگا۔ نہ صرف مسلم ہند بلکہ پورا عالم اسلام اس کے خلاف اظہارِ ناراضی کرے گا۔ اس کے نتائج شدید تشویش اور سنگین خطرات کا باعث ہوں گے۔
اسی طرح کا ایک برقی پیغام میں (۲؍ اکتوبر۱۹۴۵ء) برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی کو لکھتے ہیں:
President Truman's reported Palestine immigration proposal is unwarranted, encroaching upon another country, monstrous and highly unjust. Any departure from the White Paper and Britain’s pledge will not only be sacrilege and a breach of faith with Muslim India but an acid test of British honour. It is my duty to inform you that any surrender to appease Jewry at the sacrifice of Arabs would be deeply resented and vehemently resisted by the Muslim would and Muslim India and its consequences will be most disastrous.
فلسطین میں یہودیوں کی آمد کے بارے میں صدر ٹرومین کی تجویز، جو اخبارات میں شائع ہوئی، ناجائز، دوسرے ملک کے معاملے میں مداخلت، خوفناک اور نہایت غیرمنصفانہ ہے۔ قرطاس ابیض اور برطانیہ کے عہد سے ماورا کوئی اقدام نہ صرف [مذہبی] بے حُرمتی اور مسلمانانِ ہند کے ساتھ عہدشکنی ہوگی بلکہ برطانوی وقار کی آزمایش بھی ہوگی۔ مَیں یہ اطلاع دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کی خوشامد کے لیے عربوں کو قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے کی سعی عالمِ اسلام اور مسلم ہند میں بے جا خفگی کا باعث ہوگی اور اس کی زبردست مزاحمت ہوگی اور اس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے۔
۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء کو اپنے ایک بیان میں اسی بات کو دُہراتے کرتے ہیں :
If there is going to be any departure from the policy declared by Britain in the White Paper on Palestine, Mussalmans in India cannot remain detached observers and will support the Arabs in any way they can.
However, boycott measures might be levelled against goods of Jewish origin, as indicated by the Agra Report that Muslim shopkeepers are already refusing to sell "Jewish cigarettes" (APA). (The Dawn, January 24, 1946).
اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میںا علان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے…تاہم یہودی الاصل اشیا کی خریدوفروخت کے مقاطعے کے اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں، جیساکہ ’آگرہ رپورٹ‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں مسلمان دکان دار ’یہودی سگریٹ‘ فروخت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
۲۴ دسمبر ۱۹۴۷ء کو یمن کے بادشاہ امام یحییٰ کے نام ان کے پیغام کے جواب میں اس عزم کا اظہار (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۵دسمبر ۱۹۴۷ء)کرتے ہیں:
I fully share your Majesty’s surprise and shock at the serious lack of judgment shown by the UNO by their unjust decision in respect of Palestine. I once more assure you and our Arab brethren that Pakistan will stand by them and do all that is possible to help and support them in their opposition on the UNO decision which is inherently unjust and outrageous.
اقوام متحدہ کے فلسطین کے حوالے سے انتہائی غیرذمہ دارانہ رویے کی بناپر کیے گئے غیرمنصفانہ فیصلے پر میں عزّت مآب کی حیرت اور صدمے کی کیفیت میں پوری طرح شریک ہوں۔ میں ایک بار پھر آپ کو اور اپنے عرب بھائیوں کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس مسئلے میں پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی مخالفت میں ان کی ہرممکن مدد اور حمایت کرے گا، جو کہ فطری طور پر غیرمنصفانہ، انتہائی شرمناک اور توہین آمیز ہے۔
قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر فلسطینی جہاد کی حمایت اور اسرائیل کو ایک ناجائز غاصبانہ ریاست قرار دیا تھا لیکن نئی نسل ان کے موقف سے آگاہ نہیں ہے ۔ ہم نے صرف دو تین حوالے انھی کے الفاظ میں درج کیے ہیں جنھیں ابلاغ عامہ کے ذریعے سے حکومت پاکستان کی سرکاری پالیسی کو طور پر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فلسطین کے مجاہدین کی غیبی مدد فرمائے اور انھیں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کامیابی دے ، یروشلم جس کا دار الخلافہ ہو اور دنیا بھر کے مسلمان مسجد الاقصیٰ میں آزادی کے ساتھ عبادت کی سعادت سے بہرہ مند ہوں ۔ اس عظیم مقصد کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو اللہ رب العزت شہادت کے اعلیٰ درجے سے نوازے (آمین)۔
مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈال کر [دیکھیں تو اس قافلۂ حق] کاابتدائی، یا صحیح تر الفاظ میں بنیادی، سرمایہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی نبوت سے پہلے کی چہل سالہ زندگی تھی۔
ذاتی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کے حسب و نسب کو تمام اہلِ عرب جانتے تھے۔ عرب کے بہ کثرت قبائل، جن کو اپنے نسب پر فخر تھا، اس بات سے واقف تھے کہ پدری اور مادری سلسلوں میں کہیں نہ کہیں جاکر اُن کا نسب آپؐ کے نسب سے مل جاتا ہے۔ اس لیے آپؐ کی حیثیت یہ نہ تھی کہ کوئی مجہول النسب، غیرمعروف، گمنام، یا کم اصل آدمی یکایک لوگوں کے سامنے ایک بہت بڑے دعوے کے ساتھ آکھڑا ہوا ہو، جسے دیکھتے ہی کہنے والے کہہ دیں کہ اس حیثیت کے آدمی پر تو یہ دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔
پورے عرب میں کوئی شخص آپؐ کی شرافت ِنسبی پر شمّہ برابر بھی حرف گیری نہ کرسکتا تھا۔ خود شہر مکہ میں جتنے خانوادے اپنی عزت کے غرور میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان سب سے آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی رشتہ داریاں تھیں۔ اُن میں سے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ اپنے حسب و نسب اور معاشرتی مرتبے میں اُس سے کسی طرح کم تر ہیں۔ قریش جس کے ایک فرد آپؐ تھے، عرب میں سرداری کا مقام رکھتا تھا، اس کا اولادِ اسماعیلؑ سے ہونا ہر شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دور دور تک اس کے تجارتی روابط پھیلے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تولیت اور حج کی کشش کے باعث عرب کے دور دراز گوشوں تک کے لوگوں کو بہر حال اُس سے سابقہ پیش آتا تھا۔
اِن وجوہ سے اِس قبیلے کو عرب میں وہ بلند مرتبہ حاصل تھا جو کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہ تھا۔ پس مکہ جیسے مرکزی مقام پر، قریش جیسے ایک قبیلے میں پید اہونا، عرب کے ماحول میں اس تحریک کے رہنما کے لیے مثالی موقع و محل تھا۔
اسماعیلی خاندان کی بزرگی و شرافت اور عزت و منزلت کے ساتھ یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی تھی کہ ڈھائی ہزار سال کی پوری تاریخ میں حضرت اسماعیلؑ کے بعد اس خاندان کے کسی فرد نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اِسی بات کی نشان دہی بنی عامر بن صعصعہ کے ایک جہاں دیدہ شیخ نے اُس وقت کی تھی، جب اس کے قبیلے کے لوگوں نے حج سے واپس آکر رسولؐ اللہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا ذکر اُس سے کیا تھا۔ انھوں نے جب اُس کو بتایا کہ قریش کے ایک صاحب ہمیں ملے تھے، جنھوں نے نبی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور ہم سے یہ چاہا کہ ہم انھیں اپنے ساتھ اپنے علاقے میں لے چلیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں ان کی مدد کریں، مگر ہم نے ان کی بات قبول نہ کی، تو اُس مردِ کہن سال نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا ’’اُس وقت تمھاری عقل کہاں چرنے چلی گئی تھی؟ خدا کی قسم! آج تک کسی اسماعیلی نے ایسی بات، جھوٹ گھڑ کر کبھی نہیں کہی ہے‘‘۔ یہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اولادِ اسماعیلؑ میں سے ہونے کا ایک اور فائدہ تھا۔ تاریخ یہ شہادت دے رہی تھی کہ آپؐ کا دعوائے نبوت برحق ہے، کیوں کہ اس خاندان کا کوئی شخص کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ لے کر نہیں اٹھا تھا۔
جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعلق تھا، آپؐ کی شکل و صورت اور وضع و ہیئت اور نشست و برخاست اور رفتار و گفتار اور شائستہ اطوار کو دیکھ کر بچپن ہی سے عرب کے قیافہ شناس یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی ہے، جو عبد المطلب کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ کی والدۂ ماجدہ، آپؐ کے جدِّامجد، آپؐ کے چچا، آپؐ کی رضاعی والدہ، سب کے تاثرات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں جو لوگ آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے، وہ آپؐ کے اندر ایک نمایاں عظمت محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک بالکل اجنبی آدمی بیک نظر آپؐ کو دیکھ کر پکار اٹھتا کہ ’خدا کی قسم! یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے‘۔
جب آپؐ جوانی کی عمر کوپہنچے تو آپؐ کی شان ہی کچھ ایسی تھی کہ آپؐ کے اہلِ وطن اور اہلِ قبیلہ آپؐ کی شخصیت سے مرعوب ہوتے چلے گئے۔ لوگ خود بہ خود آپؐ کا احترام کرتے تھے، کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عام سطح سے آپؐ کو بہت بلند پاتے تھے۔ آپؐ کی وجاہت، آپؐ کا وقار، آپؐ کی سنجیدگی، آپؐ کی نفاست و پاکیزگی، آپؐ کی عالی ظرفی، آپؐ کی کریم النفسی اور آپؐ کی بے داغ سیرت ایسی نمایاں تھی کہ جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا،وہ آپؐ کی تکریم و عزت کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ رُعب اُس وقت بھی کار فرما رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے قریش کے لوگ آپؐ کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ دشمنی کے جوش میں پاگل ہوکر وہ بسا اوقات آپؐ کے ساتھ بڑی بڑی بے ہودگیاں کر بیٹھتے تھے۔ لیکن جس درجے کی دشمنی اُن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہی تھی، اور جس دشمنی کی بنا پر وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور قریب ترین رشتہ داروں تک کو اذیت ناک مظالم سے معاف نہیں کر رہے تھے، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص رُعب تھا ،جوآپؐ کے مقابلے میں آکر انھیں بے بس کر دیتا تھا۔
آپؐ نے دعوتِ عام شروع کرنے کے بعد سخت سے سخت حالات میں بھی کھلم کھلا اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ شعبِ ابی طالب میں محصور ہوجانے کے باوجود آپؐ برابر اس حصار سے نکل کر دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ مکہ کے آخری تین سال، جو انتہائی سخت تھے، ان میں بھی آپؐ صرف مکے میں آنے والوں ہی سے نہیں، عُکاظ، اور مَجنَّہ اور ذی المجاز، اور منیٰ کے اجتماعات میں قبائل اور ان کے سرداروں سے بھی علانیہ ملاقاتیں کرکے اسلام کی دعوت پیش کرتے رہے۔ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی شخصیت میں کوئی ایسی زبردست طاقت تھی، جس کی وجہ سے کوئی آپؐ کو فرائضِ رسالت انجام دینے سے باز نہ رکھ سکا۔
اب دیکھئے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال تک آپؐ کی جو زندگی مکے میں گزری تھی، اُس کے اثرات کیا تھے؟
یہ زندگی صرف بے داغ ہی نہ تھی بلند ترین سیرت و کردار کا ایک نمونہ تھی۔ جس معاشرے میں آپؐ بچپن سے ادھیڑ عمر تک رہے بسے تھے، جس کے لوگوں کو ہر پہلو سے آپؐ کے ساتھ رشتہ داری، ہمسایگی، میل جول، دوستی، لین دین، غرض طرح طرح کے معاملات میں شب و روز سابقہ پیش آتا رہا تھا، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو آپؐ کی سچائی، آپؐ کی دیانت، آپؐ کی شرافت، آپؐ کی اخلاقی پاکیزگی، آپؐ کے حسن سلوک، آپؐ کی رحم دلی اور آپؐ کی ہمدردی و فیاضی کا معترف نہ ہو۔ آپؐ مجسم خیر تھے، کسی کو آپؐ سے شرکا تجربہ تو درکنار، اُس کا اندیشہ تک کبھی نہ ہوا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لوگوں کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ آپؐ کو ’’امین‘‘ کہتے تھے، اور یہ اعتماد اُس وقت بھی قائم رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے۔ اِس حالت میں بھی دوست دشمن، سب اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے رہے۔ کسی کو آپؐ سے خیانت کا خطرہ نہ تھا، اور آپؐ نے قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کا اہتمام فرما کر اپنا کامل و اکمل امین ہونا قطعی طور پر ثابت کردیا۔
آپؐ کی صداقت اُس معاشرے میں اِس درجہ مسلّم تھی کہ جب آپؐ نے اسلام کی دعوت شروع کی اور قریش کے لوگوں نے اُس کو پورے زور شور کے ساتھ جھٹلایا، اُس وقت بھی مخالفین آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکے، بلکہ اُس دعوت ہی کو جھوٹ کہتے رہے جو آپؐ نے پیش فرمائی تھی۔ بدترین عداوت کے دور میں بھی کوئی آپؐ کی سیرت و کردار پر کسی ادنیٰ درجے میں بھی حرف زنی نہ کرسکا۔ آپؐ سے قریب ترین تعلق جن لوگوں کا تھا، جن سے کوئی عیب نہ چھپ سکتا تھا اگر معاذ اللہ وہاں کوئی عیب ہوتا، وہی سب سے بڑھ کر آپؐ کے گرویدہ اور آپؐ کے فضائلِ اخلاق سے متاثر تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی درخواستیں رَدّکردیں، اور خود خواہش کرکے آپؐ سے اِسی بنا پر شادی کی کہ وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیوں پر فدا ہوگئی تھیں۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے عیب و صواب سے خوب واقف ہوجائے، خصوصاً جب کہ وہ شوہر سے عمر میں بڑی بھی ہو، عاقل و فرزانہ بھی ہو، اور شوہر اُسی کے مال سے کاروبارِ تجارت بھی کر رہا ہو۔ لیکن رسولؐ اللہ کے معاملے میں حضرت خدیجہ ؓ کے اِس طویل اور انتہائی قریبی مشاہدے اور تجربے کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ کو محض ایک بلند پایہ انسان ہی نہیں، بلکہ اتنا عالی مرتبہ انسان پایا کہ اُنھیں آپؐ کو رسولِ ربّ العالمین مان لینے اور آپؐ پر ایمان لے آنے میں ایک لمحہ بھر بھی تامُّل نہ ہوا۔ حالاں کہ ایک بناؤٹی آدمی کی دنیا دار بیوی اس کے مکر اور اس مکر کے فوائد میں چاہے کتنا ہی حصہ لیتی رہے،مگر وہ دل سے نہ کبھی ان کی معتقد ہوسکتی ہے اور نہ اس پر ایمان لاسکتی ہے۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غلامی کی حالت میں شروع ہوا تھا۔ آقا اور غلام کے درمیان خوش گوار رابطہ بھی ایک نادر الوقوع چیز ہے، کجا کہ غلام کو آقا سے محبت ہو، کیوں کہ وہ بالکل بے بس ہوتا ہے، اور آقا اُس سے ہر طرح خدمت لینے کا حق دار ہوتا ہے، خواہ وہ خدمت اُس کے لیے کتنی ہی شاق اور اس کی طبیعت پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس کے علاوہ غلام کو آقا کی زندگی کے اچھے اور بُرے سب پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، اور ایک بے اختیار خادم کی حیثیت سے اس کے سامنے اپنے مختارِ مطلق آقا کی زندگی کے بُرے پہلو زیادہ آتے ہیں۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایسے آقا تھے کہ غلام آپؐ کا گرویدہ ہوتا چلا گیا، حتیّٰ کہ جب اس کے باپ اور چچا اسے غلامی سے چھڑانے کے لیے آئے، تو اس نے آزاد ہوکر اپنے باپ کے ہاں جانے کی بہ نسبت حضورؐ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔
۱۵ سال آپؐ کی خدمت میں رہ کر یہ غلام، جسے آپؐ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا،آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنا متأثر ہوا کہ جب اُسے آپؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے کا علم ہوا تو اُس نے بھی حضرت خدیجہؓ کی طرح آپؐ پر ایمان لانے میں ایک لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔ وہ کوئی ناسمجھ بچہ نہ تھا بلکہ ۳۰ برس کا جوان تھا، اور ایسا ذکی و دانش مند تھا کہ ۸ ھ میں وہ اس فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جس میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت خالدؓ بن ولید جیسے لوگ اُس کے ماتحت تھے۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی کم عقل خادم تھا، جسے نبوت و رسالت کی اہمیت معلوم نہ تھی اور محض اپنے مخدوم کی شخصیت سے مرعوب ہوکر وہ بے سمجھے بوجھے ایمان لے آیا تھا۔ بلکہ در حقیقت اُس نے اپنے پندرہ سال کے طویل تجربے میں آپؐ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ اسے آپؐ کے رسولِ خدا ہونے میں ذرہ برابر شک لاحق نہ ہوا۔ حضورؐ کی اِسی اخلاقی فضیلت کو چند سال پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتا چکا تھا۔
ایسا ہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا تھا جو بیس سال سے آپؐ کے ہم نشین ہی نہیں بلکہ گہرے دوست تھے۔ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا تھا، جنھوں نے آپؐ کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی۔ وَرقہ بن نوفل کا تھا جو بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور حضرت خدیجہؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنھیں آپؐ کو اور زیادہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت عثمانؓ آپؐ کی پھوپھی کے نواسے تھے۔ حضرت زبیرؓ آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابوسلمہؓ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص آپؐ کی والدۂ ماجدہ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو آپؐ کی سیرت و کردار کے ہر پہلو کو قریب سے نہ دیکھ چکا ہو، اور یہی لوگ آپؐ کی نبوت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں سے تھے۔
کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن اوصاف کو دیکھیے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔
پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔
ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔
غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمھارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے، جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لیے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لیے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔
ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمن بھی خواہ دشمنی میں کتنا ہی اندھا ہوچکا ہو، اُس کے اِس وصف کی قدر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس [دشمن]کی ہمت بیٹھ جاتی ہے، جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ ایک ایسے شخص سے ہے، جو ڈر نام کی کسی چیز کو جانتا ہی نہیں___ کسی تحریک کے لیے، اور خصوصاً اسلامی تحریک کے لیے اس کے رہنما کا نڈر اور بے خوف اور شجاع ہونا ایک بڑا اہم وصف ہے۔ رہنما کی بزدلی، بلکہ اس کی شجاعت میں ذرا سی کمزوری بھی آزمائش کے مواقع پر پوری تحریک کو لے بیٹھتی ہے۔
یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔
اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔
مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔
کسی تحریک کی کامیابی کے لیے عموماً اور اسلامی تحریک کے لیے تو خصوصاً، یہ بہترین ضمانت ہے کہ اس کا رہنما قول و عمل کے تضاد سے بالکل پاک ہو، اور اس کی تعلیم محض زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اس کی اپنی عملی زندگی اس تعلیم کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اِس کا گہرا اثر لازماً ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے رہنما کی پیروی اختیار کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جوغیر متعصب نگاہ سے جستجوئے حق کی خاطر اسے دیکھتے ہیں، حتّیٰ کہ متعصب مخالفین میں سے بھی ایک بڑی تعداد بالآخر اس سے مسخر ہو کر رہتی ہے۔
یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔
یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لیے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔
اِس تحریک کا دوسرا عظیم ترین سرمایہ قرآن مجیدتھا، جس کا دو تہائی سے کچھ کم حصہ مکّہ معظمہ میں نازل ہوا۔ عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے عاشق تھے۔ یہی عشق انھیں عُکاظ جیسے میلوں میں شعرا اور فصحا کا کلام سننے کے لیے کھینچ لے جاتا تھا۔ مگر قرآن سن کر ان کی نگاہ میں بڑے سے بڑے زبان آوروں کی کوئی وقعت باقی نہ رہی۔ شاعر و خطیب اس کے آگے گنگ ہوگئے۔ ادب کے لحاظ سے اس کی زبان اتنی بلند تھی کہ کوئی اس سے بلند تر تو درکنار، اس کے برابر بھی اونچے ادب کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ اس کا بیان ایسا وجد آور تھا کہ لوگ ا س کو سن کر سردھننے لگتے تھے، مخالفین اسے سحر (جادو) کہتے تھے، اور غیر متعصب لوگ پکار اٹھتے تھے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔
اس کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت دشمنِ اسلام کا دل اس نے پگھلا دیا اور انھیں رسول اکرمؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ قریش کے ایک نامور سردار جُبیرؓ بن مُطعم جنگِ بدر کے بعد اسیروں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے مدینے گئے۔ وہاں نبیؐ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورۂ طور زیر ِتلاوت تھی۔ بخاری و مسلم میں ان کا اپنا قول منقول ہوا ہے کہ ’’آیات (۳۵ تا ۳۹ )جب حضورؐ پڑھ رہے تھے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا‘‘۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ اِسی لیے دشمن کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسے نہ سنیں، مگر خود اُن سے رہا نہ جاتا تھا اور چھپ چھپ کر اسے سنتے تھے۔
اِس انتہائی مؤثر کلام کے ذریعے سے شرک اور جاہلیت کے ایک ایک پہلو پر ایسی مدلل تنقید کی گئی کہ کسی معقول آدمی کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ اُن عقائد اور رسوم اور اخلاقی برائیوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکتا، جن پر قریش اور عرب کے مذہب اور تمدن کی بنا قائم تھی۔ پھر اِسی کلام کے ذریعے سے کمال درجہ دل نشین پیرائے میں اسلام کے عقائد، اس کے اصولِ تہذیب و تمدّن اور اس کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا، جن کی تردید میں کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی زبان کھولنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس کے بعد کفّار مجبور ہوگئے کہ اسلام کو زک دینے کے لیے مارپیٹ، ظلم و ستم، گالی گلوچ، کذب و افترا اور شور و شغب کے ہتھیاروں سے کام لیں۔ مگر یہ بجائے خود اُن کی طرف سے دلیل و حجت اور اخلاق و شرافت کے میدان میں اپنی شکست کا عملی اعتراف تھا۔
ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی معقولیت کا شائبہ پایا جاتا تھا، اس معرکے کے دونوں فریقوں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتا چلا گیا کہ منکرین و مخالفین کے پاس قرآن کے دلائل اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا کوئی جواب اوچھے ہتھکنڈوں اور انسانیت سے گری ہوئی چالوں کے سوا نہیں ہے۔ یہ کھلا کھلا معرکہ صرف مکے ہی میں لوگوں کے سامنے برپا نہ تھا، بلکہ تمام عرب کی نگاہیں بھی اس کو دیکھ رہی تھیں۔ مکے میں تو خیر شب و روز ہی عوام و خواص سب کسی نہ کسی طرح قرآن بھی سن رہے تھے، اور ان کارروائیوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو سردارانِ قریش اور ان کے زیرِ اثر اوباش لوگ قرآن کے جواب میں کر رہے تھے۔ لیکن دس برس تک ہر سال رسولؐ اللہ عُکاظ سے منیٰ تک کے اجتماعات میں تشریف لے جاکر، عرب کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو قرآن سناتے رہے، اور ابو جہل اور ابولہب جیسے لوگ برسرِ عام آپؐ کو پتھر مار کر آپؐ پر خاک دھول اڑا کر اُن کو یہ بتاتے رہے کہ اس کلام کا جواب اُن کے پاس کیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے میں بھی ساری رکاوٹوں کے باوجود اسلام پھیلتا چلا گیا، اور سرزمینِ عرب میں بھی کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا، جس میں کچھ نہ کچھ لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوگئے ہوں۔ مکّی دور میں صورتِ حال یہ تھی کہ علانیہ اسلام قبول کرلینے والے لوگ تو کم تھے، مگر اُن سے بیسیوں گُنے زیادہ ایسے اشخاص معاشرے میں موجود تھے، جن کے دلوں میں قرآن کی تعلیم، اور رسول اکرمؐ کی عظمت و تکریم، اور آپؐ کے مظلوم ساتھیوں کے لیے ہمدردی، اور قریش کے سراسر بے جا ظلم و ستم کے لیے نفرت جاگزیں نہ ہوگئی ہو۔ اِس دور کا یہ کام بھی پوری طرح بار آور ہونے کے لیے ایک مدینے کا طالب تھا، جو ٹھیک اپنے وقت پر اُس کے لیے آغوش کھول کر سامنے آگیا۔
تیسرا بڑا سرمایہ ایمان لانے والے مسلمانوں کا وہ چیدہ گروہ تھا، جو اِس تحریک کو ۱۳ سال کے دوران میںمیسر آیا۔ یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے، جنھوں نے شرک و جاہلیت کے اُس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کرلیا اور کوئی تعصب انھیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔
اُن کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان، اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدؐ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انھیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے، اس کی پیروی کرنا انھیں کسی حال میںگوارا نہ تھا، اور جس چیز کا حق ہونا انھیں معلوم ہوچکا تھا، اُسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔
انھیں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اُنھیں الٹا لٹکایا گیا۔ انھیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔ انھیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اُن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ انھوں نے محض حق کی خاطر برداشت کرلیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جاسکا۔ انھوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار، مال اسباب، عزیز رشتہ دار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے بکثرت ایسے تھے، جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جاسکے۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں، جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں، مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں، ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں، ہرتکلیف و اذیت برداشت کرسکتے ہیں، اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
اِن خوبیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاقی انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت، اپنی پرہیزگاری و طہارت، اپنی خداترسی و خدا پرستی، اپنی عفت و پاک دامنی، اپنی شرافت و شائستگی، اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں، دنیابھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس معاشرے میں ایک منارۂ نور کی طرح نمایاں تھے، اسی طرح آپؐ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِس قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور اُن کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔ تعصب اور عناد کی بناپر مخالفین زبان سے اس کا انکار کرسکتے تھے، مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی، اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔
چوتھا عظیم اور بیش قیمت سرمایہ جو مکّی دور کے آخری تین سالوں میں اسلامی تحریک کو ملا، وہ مدینے کے انصار کا خلوصِ ایمانی تھا۔ ان لوگوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میسر آئی تھی، نہ آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، نہ قرآن پاک کا اُتنا علم حاصل ہوا تھا جو مکے کے اہلِ ایمان کو حاصل تھا، لیکن یہ ایسے سلیم الطبع اور صحیح الدماغ لوگ تھے، جو حق کی ایک جھلک دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ صدیوں کی رَچی بسی مشرکانہ جاہلیت کو انھوںنے اسلام کی صراطِ مستقیم کا نشان پاتے ہی اپنے دل ودماغ سے گرد کی طرح جھٹک کرنکال پھینکا۔ وہ پکے پھلوں کی طرح اسلام کی جھولی میں یوں جھڑتے چلے گئے کہ ۱۳ سال کے اندر مکّے میں جتنے لوگ ایمان لائے تھے، تین سال میں ان سے بہت زیادہ مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں نے مدینے میں ایمان قبول کرلیا۔
انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ ایسے خلوص کے ساتھ ایمان لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھی تمام اہلِ ایمان کو انھوں نے اپنے ہاں ہجرت کر آنے کی دعوت دے دی، حالاں کہ یہ دعوت دیتے وقت وہ خوب جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں انھیں تمام عرب کی دشمنی مول لینی ہوگی، جیسا کہ آخری بیعتِ عقبہ کے موقعے پر اُن کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ انھوں نے حضورؐ اور آپ کے مکّی صحابہؓ کے لیے اپنے شہر کو دار الہجرت کے طور پر پیش کردیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پوری خوش دلی اور رضامندی سے آپؐ کو اپنا حاکم و فرماں روا تسلیم کیا، آپؐ کی وفا دار رعیت اور جاں نثار فوج بن گئے، آپؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیے اور اپنے گھر، اپنے مال اور اپنی جائیدادوں تک کو ان کے لیے پیش کردیا۔
اسی چیز نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ اسلام کو ایک دعوت اور تحریک کے مقام سے اٹھا کر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت دے دی، اور رسولؐ اللہ کو یہ موقع بہم پہنچا دیا کہ آپؐ ایک آزاد و خود مختار دارالاسلام میں اسلام کے ایک ایک پہلو کو عملی جامہ پہنا کر ساری دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کردیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کابھیجا ہوا یہ دین، کیسے افراد تیار کرتا ہے؟ کیسا معاشرہ بناتا ہے؟ کس قسم کی تہذیب اور کس قسم کا تمدن پیدا کرتا ہے؟ کیسی اخلاقی روح پورے معاشرے میں جاری و ساری کردیتا ہے؟ معیشت، معاشرت، تعلیم، سیاست، قانون اور عدالت کا کیسا نظام قائم کرتا ہے؟ جنگ میں اس کی تہذیب کیا ہے؟ فتح پاکر وہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ معاہدے کرکے وہ ان کی کیسی پابندی کرتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں اس کا رویہ کیا ہے؟
[ سیرتِ سرورِ عالمؐ، دوم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور/ ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۷ء]
پاکستانی معاشرے کی ۷۶ سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حالیہ عشرہ بلکہ اس کے آخری پانچ سال معاشرتی ،معاشی اور سیاسی استحکام کی غیر معمولی خراب صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ مؤرخہ ۶ جون ۲۰۲۳ء کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم ۴۳ہزار ۷۰۵؍ ارب روپے تھا جو اپریل ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۵۸ہزار۵سو ۹۹ ؍ ارب روپے ہوگیا، یعنی ۴۱ ؍ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔ ملک پر واجب الادا بیرونی قرض ۷ہزار۲ سو۵۹؍ ارب روپے یعنی ۴۹ فی صد سے بڑھ کر ۲۲ ہزار۵۰؍ ارب روپے ہوگیا اور اسی طرح ایک سال کی مدت میں اندرونی قرض ۷ہزار ۶سو۳۵؍ ارب روپے یعنی ۳۴ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ ہزار۵سو۴۹ ؍ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
قرض لے کر اِترانے کے یہ سرکاری اعداد و شمار ہی معاشی زندگی کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اورمعاشی عدم استحکام کی بناپر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں کسی کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ مقامی کاروباری برادری کی جانب حکومت کی عدم توجہی، کاروبار میں معاونت کی بجائے حیلوں بہانوں سے رشوت طلب کرنا اور غیر ضروری رکاوٹوں کی وجہ سے کاروبار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مزیدبرآں سستی بجلی ، پانی ، اور گیس کی عدم فراہمی اور کاروبار میں پیش آمدہ مختلف مسائل کے حل سے لاتعلقی ایک ایسی مجرمانہ روش ہے جس کے نتیجے میں مقامی کاروباری برادری اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔
ان معاشی مسائل کے ساتھ نصف عشرے کے دوران ملک پر اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کےپشت پناہ اداروں نے معاشی مسئلے سے مجرمانہ لاپروائی برتی ہے اور ملکی مفاد سے عدم دلچسپی اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دینے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔
ان حالات میں ملکِ عزیز میں معاشرتی خرابیوں اور عدم تحفظ کا جو منظر نامہ سامنے آرہا ہے، وہ ہرمحب وطن کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں شہروں اور دیہاتوں میں جان و مال کو جو خطرات لاحق ہیں، ان کا اندازہ ڈان ۴جنوری ۲۳ء کو شائع ہونے والے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت میں ایک دن میں ۳۶ جرائم رپورٹ کیے گئے ۔ایک سال کے دوران صرف اسلام آباد میں۱۳ ہزار ۴۰۹ وارداتیں پولیس تھانوں میں درج ہوئی ہیں، جب کہ ملک میں (وارداتوں کی اطلاع کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی کے باوجود) ۲۱۸۰ ڈکیتیوں، ۱۳۹۲جھپٹ کر چھیننے کے واقعات، ۷۱۹گاڑیوں کی چوری، ۲۰۹۵موٹر سائیکلوں کی چوری، ۹۵۴ قتل یا قتل عمد اور اغوا اور جنسی زیادتی کے واقعات جو پولیس کے علم میں لائے گئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے دو ماہ میں ۷۴ قتل ، ۱۲۶ قتل عمد، ۷۴ڈکیتیوں، ۵۱چوری کے واقعات ، ۵۹ موٹر سائیکل کی چوری کے واقعات پیش آئے۔
سندھ میں جنوری ۲۰۲۳ء کی ایک اطلاع کے مطابق صرف چار ماہ میں ۵۲۹ خواتین اغوا کی گئیں۔۱۱۹ گھریلو دہشت گردی کے واقعات ، ۱۴۲ بچوں کے ساتھ زیادتی ، ۵۶ جنسی زیادتی کے واقعات اور ۳۷ واقعات عزت کے نام پر قتل کے پیش آئے۔
معاشی، اخلاقی اور سیاسی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ خاندان کا نظام بھی انتشار کا شکار ہے۔ جولائی ۲۰۲۳ء کے ٹربیون کی اطلاع کے مطابق صرف پاکستان کے ایک بڑی آبادی والے شہر لاہور میں ۲۰۱۹ء سے تا حال طلاق کے مقدمات کی تعداد ۲۴ ہزار ایک سو ۵۷ ہے۔ ۹ہزار ۸ سو ۱۱ خلع کی درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔ یہ معاملہ شہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ تحصیل کی سطح پر ۱۱ہزار ۸سو ۷۹طلاقیں دی گئیں، جن سے ۶۰ ہزار بچوں کا مستقبل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
طلاق میں کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک کی مدت میں کل ۷۵ ہزار طلاقیں واقع ہوئیں،جب کہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۱ء کے عرصہ میں ۲۴ہزار ایک سو ۳۹ طلاقیں دی گئیں ۔ ایسے میں ۲۰۱۲ءمیں خلع کے واقعات ۱۳ہزار ۲ سو ۹۹ تھے، جب کہ ۲۰۱۳ءمیں ۱۴ہزار ۲ سو ۴۳ اور ۲۰۱۴ء میں ۱۶ہزار ۹سو ۴۲، اور ۲۰۱۶ء میں یہ تعداد ۱۸ہزار ۹۱ تک پہنچ گئی۔ یاد رہے یہ وہ واقعات ہیں جو قانون کی نگاہ میں آگئے ۔پاکستان میں بے شمار مقامات پر ایسے واقعات کو کسی کے علم میں لانا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔
ان خاندانی معاملات میں مرد کی طرف سے اکڑ، دھونس، چودھراہٹ اور خواتین کی طرف سے معاشی آزادی کے لیے ملازمت اختیار کرنے کے بعد اپنی خود مختاری تسلیم کرانے کی خواہش کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل شامل ہیں، جو محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں ان میں ایک اہم محرک ابلاغِ عامہ بھی ہے۔
معاشرتی علوم کے ماہرین مغرب کے مقرر کیے ہوئے پیمانوں کی روشنی میں مشترکہ خاندانی نظام میں ساس کے کردار کو خرابی کی جڑ قرار دیتے ہیں، جب کہ پسند کی شادی اور نام نہاد محبت کی بنیاد پر نکاح بھی عام طور پر زیادہ پائدار ثابت نہیں ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں شرم و حیا جیسی بنیادی اسلامی قدر کا علم و فہم اور عملی زندگی میں اس پر عمل پیرا ہونے کا رویہ بڑی تیزی سے کمزور ہو رہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی کی سطح پر شرم وحیا، کردار کی پاکیزگی ، عصمت و عفت کے بنیادی اسلامی تصورات کی تعلیم و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں منعقدہ مختلف مخلوط پروگرامات اور سر گرمیوں میں ناچ گانے ، موسیقی اور دیگر بے ہودہ انداز و اطوار اور چلن عام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دیگر سماجی رسومات مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر بھی فلموں ، ڈراموں میں دکھائے جانے والے نیم عریاں لباس کا شرفا گھرانوں تک کے مرد وخواتین میں بے دھڑک استعمال بھی فیشن بن گیا ہے ۔عمر کے مختلف حصوں میں شرم و حیا کے اسلامی تصورات سے عاری کارٹون کرداروں، فلموں ، ڈراموں کے زیر اثر نشو و نما پانے والی نئی نسل کے یہ بچے اور بچیاں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے اداروں کے مخلوط ماحول میں پہنچتے ہیں تو ان کے گم کردہ راہ کا مکمل امکان اور سامان موجود ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد تعلیمی اداروں سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ، جن کو سن کر اور جان کر ہرذی شعور فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب تعلیمی اداروں اور والدین نے انھیں شرم وحیا ، پاکیزگی، سچائی ، امانت و دیانت، عزّت و آبرو، عصمت و عفت کے طرزِ عمل کی تعلیم و تربیت ہی نہیں دی، تو نئی نسل سے اعلیٰ اخلاقی رویے ، باحیا طرزِ عمل، ضبط نفس اور تقویٰ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ مغرب کے تعلیمی فلسفے، تصورات اور پیمانوں میں فرد کی اخلاقی تربیت ،تعمیر کردار و سیرت کے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اخلاق و کردار کی اہمیت سے عاری یہی پیمانے ہمارے تجزیہ نگاروں کے دل و دماغ پر بھی سوار ہیں اور وہ معاشی مسائل کا حل یہی تجویز کرتے ہیں کہ جب تک خواتین معاشی میدان میں نہ اُتریں گی ترقی نہیں ہو سکتی۔
گذشتہ تین عشروں میں ابلاغ عامہ کو جس طرح بے لگام کیا گیا اور ہندستانی اور مغربی ثقافت، رسوم و رواج اور اقدار، ڈراما ، فلم کوسرکاری سرپرستی میں عریانی، فحاشی، نوجوان لڑکیوں کی مخلوط محفلیں اور ٹی وی کے ہر پروگرام میں ان کی مشروط شرکت، گویا جب تک ان کا کندھے سے کندھا نہ چھلے، ملک کی معاشی ترقی نہیں ہوسکتی ۔اس برائی اور معصیت کے فروغ نے گھریلو تنازعات میں شدت پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ہر شعبۂ حیات میں منظم انداز میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑاکیا۔
بیرونی امداد پر چلنے والے اداروں نے پوری وفاداری کے ساتھ ’حقِ نمک‘ ادا کیا اور پاکستان میں’عورت مارچ‘کے نام پر اور جامعات میں نوجوانوں کو مخلوط محفلوں کا عادی بنا دیا گیا۔ حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین میں شدت پسندی ، انانیت اور انفرادیت کو پروان چڑھا یا گیا ، جس کا نتیجہ اَنا کے ٹکراؤ اور اپنی مرضی پر اصرار کا جذبہ فروغ پایا ۔ جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا کہ والدین کی لاپروائی نےاور اپنی اولاد کو محض تعلیم گاہ کے حوالے کر دینے اور خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں کے حوالے کرنے سےجو اباحیت اور لبرلزم کے لیے مشہور ہیں اور جہاں لباس، زبان ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان باہم آزادانہ دوستی اور دونوں جنسوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیج کر والدین نے درمیانی اور بالائی طبقات میں مغرب کی اباحیت پسندی کی ہمت افزائی کی ۔والدین اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تربیت سے لاپروائی اور غفلت کے افسوس ناک طرزِ عمل کے گھناؤنے نتائج اغوا، قتل ، جنسی زیادتی اور مختلف قبیح جرائم ہرچھوٹے بڑے شہر، آبادی میں آئے روز سب کے سامنے آ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں حال ہی میں ملک کی ایک معروف یونی ورسٹی میں جنسی استحصال کے جو مبینہ واقعات منظر عام پر آئے ہیں، وہ ہر باشعور پاکستانی کے لیے شرم و ندامت کے ساتھ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا تعلیم کا مقصد گرے ہوئے اخلاق کی حامل نسل پیدا کرنا ہے، جو تعلیمی سند کے حصول کے لیے اپنی عزّت کی پروا بھی نہ کرے ! بلاشبہہ کسی بھی معاشرے میں معاشی استحصال اور سیاسی عدم استحکام معاشرے کے افراد کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اخلاقی زوال کا سبب محض معیشت اور سیاست کو قرار دینا غلط ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشی استحصال کیوں رُونما ہوتا ہے؟ کیا اس کا سبب صرف معاشی مسائل ہوتے ہیں یا ان کا بڑا سبب معاش پیدا کرنے والے کا اخلاق ہے؟
پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل نہ کیا جائے تو معاشی بدمعاملگی ، دھاندلی اور ذخیرہ اندوازی وجود میں آتے ہیں۔ دین اسلام بڑی وضاحت کے ساتھ خرابی کے راستوں اور کامیابی کی شاہراہ دونوں کے لیے عملی ہدایات دیتا ہے۔ ملاوٹ، مطلوبہ معیار کا خیال نہ رکھنا، اپنے کیے ہوئے وعدوں کو توڑنا، ہوس اور خود غرضی میں مبتلا رہنے کو کامیابی سمجھنا، معاشرتی ذمہ داری کا احساس تک نہ ہونا، کردار میں استقامت کا نہ پایا جانا، سچ اور عدل کی جگہ دھوکا، جھوٹ ،بے ایمانی، ملاوٹ کا کلچر پروان چڑھانا___ یہ ذاتی خرابیاں، رذائل اخلاق اورمنفی خصوصیات ہیں جو معاشی بگاڑ، استحصال اور کساد بازاری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر انسان بدعہد، بد معاملہ ،بداخلاق، بدکردار، ناقابل اعتبار اور محض نفس اور ہوس کا بندہ ہو، تو کیا اس سے کسی مستحکم عادلانہ معاشی نظام کو قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سے تو چوری ، دھاندلی اور بے ایمانی ہی کو فروغ ملے گا۔
گذشتہ دنوں رانی پور (صوبہ سندھ) میں جنسی درندگی کے ہولناک واقعہ اور جڑانوالہ (صوبہ پنجاب) میں آتش زنی کا المیہ، ہمارے معاشرے کی بدنما تصویر پیش کرتا ہے، جسے درست کرنے کے لیے حکومت اور علما و اساتذہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گویا معاشی زوال ہو یا سیاسی عدم استحکام اصل اور بنیادی سبب وہ فرد ہے، جو اس نظام کو چلانے، فروغ دینے، اس کا دفاع کرنے میں اپنی صلاحیت ،ذہن ،علم و فکر اور جان کو کھپاتا ہے۔ ہمارے دین نے ہماری معیشت کو ایمان کا حصہ بنا کر ایک انقلابی راہ دکھائی، اور قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا ذکر کیا، وہاں یہ نہیں کہا کہ وہ علمِ کلام، فصاحت و بلاغت اور ادبیت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں بلکہ یہ بات کہی کہ اہل ایمان دو باتوں کا اہتمام اور قیام کرتے ہیں، یعنی صلوٰۃ اور زکوٰۃ۔ زکوٰۃکو عبادت اور دین میں شامل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ معیشت استحصال سے پاک ہو۔ کمائی کے ذرائع حلال ہوں ،ذخیرہ اندوزی اور دیگر حرام طریقوں سے اجتناب برتا جائے۔
سود کو حرام، ممنوع اور اللہ کے غضب کو جوش میں لانے والی برائی قرار دیا گیا ۔ قرض کو بغیر سود قرار دے کر تجارت اور زراعت اور صنعت کو اخلاق کے تابع کر کے دین و دنیا کی تفریق کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسے معاشرے اور نظم مملکت کی بنیاد رکھی گئی ، جہاں عدل، حقوق کا تحفظ، مال کی حرمت، جان کی قدر، عصمت و عفت کا تحفظ، خاندان اور نسل کی حُرمت، غرض معاشرتی، معاشی اور سیاسی تینوں محاذوں پر اخلاق، سیرت و کردار کو خوفِ الٰہی، جواب دہی کا احساس، ربِّ کریم کے شاکر بندے کی حیثیت سے اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ۔معاشرہ ہو یا معیشت یا نظم مملکت، استحکام، ترقی اور کامیابی کی علامت اور انحصار سڑکیں، پُل، فیکٹریاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں صرف اور صرف مخلص، ایمان دار ، باصلاحیت ، محنت کش، صالح فرد ہوتے ہیں، جن کا کردار شفاف اور سیرت عیوب سے پاک ہو۔
اخلاص اور تقویٰ کا تعلق نماز اور ذکر الٰہی کے وسیع تر مفہوم سے ہے ،جس کو قرآن کریم نے یومِ جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: جب نمازِجمعہ کی اذان سنو تو تمام کاروبارِ معیشت و سیاست کو چھوڑ کر مسجد کی طرف اللہ کا ذکر کرنے کے لیے تیزی اختیار کرو اور جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آؤ اور کاروبارِ حیات کی طرف رجوع کرو، مگر اللہ کاذکر کثرت سے کرتے ہوئے (الجمعہ ۶۲:۹)۔ گویا مسجد کی طرح اپنے کاروباری ادارے میںبھی اللہ کے سامنے حاضری کے احساس کے ساتھ ناپ تو ل اور کیفیت و کمیت (quality) کے اعلیٰ معیار کو اختیار کیا جائے۔ اسی کا نام اللہ کا ذکر اور تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کا ایک مظہر قیام ،رکوع ،سجود اور حق گوئی ہے، تو اس کا دوسرا مظہر کسی بھی کام کا انتہائی نقطۂ کمال کے ساتھ اللہ کی رضا کا طلب کرنا ہے ۔ایک سنار جب سونے کو آلودگی سے پاک کر کے کھٹالی میں پکا کر نکالتا ہے تو وہ اس کے اپنےاخلاص اور تقویٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ معیشت اور معاشرت میں تقویٰ کا مطلب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خوش اخلاقی، صداقت، فیاضی ،عفو و درگزر، حلم و بُردباری، صبر و استقامت اور حکمت و دانش کے ساتھ والدین ہوں یا اولاد، بیوہ ہو یا یتیم بچّے یا اقربا یا احباب، ہر ایک کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے،جو قرآن و سنت میں تعلیم کیا گیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی اس وقت ممکن ہے، جب دین ودنیا کی تفریق کی جگہ اسلام پوری زندگی پر حاوی ہو ۔معاشرتی اصلاح اور معاشی خود انحصاری کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کشکولِ گدائی کو توڑا جائے اور خاندان اور اسلامی اخلاقی معاشرتی نظام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، بہت آسان اور قابلِ عمل ہے۔
افراد سازی، تعمیر سیرت و شخصیت کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمیں گھر ،تعلیم گاہ، مسجد، یونی ورسٹی، ابلاغ عامہ ، ہر محاذ پر قرآن و سنت کے عالم گیر اخلاقی اصولوں کی روشنی میں نئی نسل کی تربیت کرنی ہوگی۔ یہ کام نعر و ں ،مطالبوں کی سیاست اور دھرنوں سے نہیں بلکہ خاموشی سے نظر نہ آنے والی محنت و مشقت کے ساتھ افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے سے ہوگا۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے۔ جس طرح کھجور کا درخت آٹھ سے دس سال میں پھل دیتا ہے، اسی طرح تعمیر سیرت ۱۰ سے ۲۰سال تک مسلسل اخلاقی آبیاری کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
اس کام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعریف و تحسین کی جگہ تنقید اور تضحیک مقدر ہوتی ہے۔ اللہ کے کسی بھی برگزیدہ نبی کی دعوتِ اصلاح و انقلاب کا استقبال نہیں کیا گیا، بلکہ مخالفت و مزاحمت، رکاوٹ اور اس استہزا کے ساتھ مخاطب کیا گیا کہ اللہ کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہ ملا کہ وہ اپنا رسول بناتا؟
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت ان سادہ لوح مولویوں کے بس کی بات نہیں۔ اس تاثر کو صرف وہ افراد دُور کر سکتے ہیں جو علمی اور پیشہ وارانہ معاملات میں مہارت رکھتے ہوں اور ان کے مخالف ان کی صلاحیت کے معترف ہونے پر مجبور ہوں۔
یہ صاحبِ حیثیت افراد کا دین نہیں تھا بلکہ اس میں جہاں حضرت عثمان ؓجیسے صاحبِ مال و ثروت تھے، وہیں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت بلال ؓجیسے مالی دولت سے محروم شمع رسالتؐ کے پروانے بھی تھے۔ لیکن امانت و تقویٰ میں دوسروں سےبرتر افراد تھے ۔معاشرے کے کم مال دار افراد انفاق فی سبیل اللہ ، ایثار و قربانی میں دوسروں سے کچھ آگے ہی تھے ۔ وہ جو کل تک غلام تھے، انھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو زمین بوس کر دیا ۔ صدقات اور زکوٰۃ کی تقسیم (آٹھ مدوں میں)کے ذریعے معاشی استحکام اسلام کا بنیادی ہدف تھا۔ فقر و فاقہ شرک کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ انفاق و صدقات انسان کو متقی بناتے ہیں اور مال کی محبت سے پاک فرد اپنے رب کی محبت و اطاعت میں سکون حاصل کرتا ہے۔
علم کی تدوینِ جدید کی بنیاد حقیقی اور قطعی علمِ وحی پرہوگی ۔یہ تعمیر محض تجرباتی علم یا قیاسی، ظنی یا وجدانی اور روحانی تجرباتی احساس پر نہیں ہو سکتی۔ مروجہ علوم کی بنیاد تجرباتی تصورِ علم پر ہے، یعنی وہ علم جسے تجربہ گاہ میں جانچا جا سکتا ہے ۔وحی الٰہی کا منبع کسی کا ذاتی تجربہ نہیں بلکہ وہ ربّ العالمین ہے، جو ہر خیر اور شر کا علم بھی رکھتا ہے اور ہر خیر و شر پر قدرت بھی۔علم کی تدوینِ جدید وحی کی روشنی میں اس کے عالم گیر ہونے کے سبب واحد اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے۔وحی کے علاوہ تمام علم محدود، وقتی اور داخلی ہے۔ وحی معروضی، عالم گیر اور تطبیقی علم کا واحد قطعی ذریعہ ہے۔ اس بنا پر تمام معاشرتی اور تجربی علوم کی اخلاقی اصولوں پر مبنی تدوینِ جدید اسی وقت پُرمعنی ہو سکتی ہے، جب اس کی بنیاد روشن ثبوتوں پر استوارہو۔
معاشرتی علوم اور تجرباتی علوم کی تشکیلِ جدید قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی بنیاد پر کرنی ہوگی اور یہ کام اُن پُرعزم معلمین و معلمات اور طلبہ و طالبات کو کرنا ہوگا جو شعور حیات رکھتے ہوں ،جو رضاکارانہ طور پر اللہ کے انصار بننے پر تیار ہوں۔ ایسے انصار ہی سے یہ وعدہ کیا گیا ہےکہ جب وہ اللہ کو اپنا رب مان کر اس کے راستے یعنی اس صراط مستقیم پر چلیں گے اور ان کے قدم جادۂ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف اٹھیں گے، تو اگر وہ ۲۰ ہوں تو ۲۰۰ پر اور اگر سوہوں تو ہزار پر غالب آئیں گے۔ باطل کی چمک دمک ان کے عزم و ارادے کے سامنے تحلیل ہو جائے گی۔فرشتے ان کے ساتھ صف بہ صف شریک ہو کر ان کی استعانت اور مدد کریں گے۔
مستقبل انھی کا ہے جو تمام غلامیوں کو پامال کر کے صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں آجائیں، دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، خلوص، قربانی ،عزمِ صمیم کی تصویر ہوں، تو مستقبل خود ان کی طرف پیش قدمی کرے گا اور وہ ایک تابناک صبح کے پیغامبر بن کر انسانیت کو عدل، حُریت، احترامِ انسانیت، پاک دامنی ، حیا اور معاشرتی عدل کی برکات سے بہرہ وَر کردینے والے خوش نصیب ہوں گے ۔یہ وہ کام ہے جو سب سے زیادہ ترجیح کا مستحق ہے اور جسے شعوری طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو ذہنی ،جذباتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔
اگست کا مہینہ ہر سال پاکستان اور بیرونِ پاکستان پاکستانیوں میں تصورِ پاکستان سے وابستگی کے احساس کو تازہ اور قیام پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان مندی کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ ہرشخص گلی کوچوں میں، شہروں میں، گاؤں میں ، موٹر سائیکل ، سائیکل ، ریڑھی ، ویگن ، پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ، ہرپاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسکولوں میں بچے پاکستان کے پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کرکے ملی ترانے اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور تقریباً پورا مہینہ جشنِ آزادی کا منظر پیش کرتا ہے جس سے وطن عزیز کے ساتھ نوجوانوں کی محبت کا اظہار ثابت ہوتا ہے، لیکن قوم کیا اس محبت کے محرکات ، تقاضوں اور مطالبات کا شعور بھی رکھتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب جواب تلاش کیے بغیر ہم ملک و قوم کے مستقبل کی تعمیروتشکیل کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔
تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو دنیا کے نقشے میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جس نے صدیوں کی جنگ ِآزادی کو محض ایک عشرے سے بھی کم یعنی سات سال کی قلیل مدت میں اپنی منزل اور اپنے فوری ہدف کے حصول کو ممکن بنایا ہو ۔ الجزائر ہو یا یورپ میں برپا ہونے والی آزادی کی تحریکات،مثلاً: شمالی آئرش ریپبلک کی آزادی کی تحریک، یہ سب دو صدیوں پرمحیط نظر آتی ہیں۔ برعظیم میں مسلمانوں میں انگریز کی محکومیت سے آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ آخر۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں قراردادِ پاکستان مسلم لیگ کے کنونشن میں منظور کی گئی۔ اس میں باضابطہ طور پر برعظیم کے مغربی اور مشرقی صوبوں پر علاحدہ قومیت کی بنیاد پر دو ایسے خطوں کی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی تھی ۔ اس تاریخی موڑ پر یہ سوال کرنافطری ہے کہ کیا حصولِ پاکستان محض ایک قومی ریاست کے وجود کا مطالبہ تھا یا دو سو سال کی غلامی کے بعد مسلمان بطور ایک امت اس خطّے میں اسلامی تصور حیات ،اسلامی معیشت، ،اسلامی ابلاغ عامہ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ثقافت کے احیا کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے ؟
تاریخ گواہ ہے کہ برعظیم کے مسلمان ایک طویل عرصے انگریز کے عدم مساوات کے رویے کا شکار رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور ہندوؤں کے ساتھ ہمدردی، ملازمتوں میں واضح جانب دارانہ رویہ اور تعلیم اور تجارت میں کھلے کھلے تعصبات اور تفریق کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنے اسلامی تشخص اور اپنی ثقافت و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں ۔
ہندو اکثریت انگریز کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کر کے اپنی عددی فوقیت کی بنیاد پر مسلمانوں پر حاکمیت کے منصوبے پر مصروفِ عمل تھی لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہوکر دکھاوے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا کراور مغرب سے متاثر مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب اور سرگرم تھی۔
ان حالات میں۱۹۰۰-۱۹۰۱ء کے دوران نواب محسن الملک نے بزم دفاع اردو کے تناظر میں ہندو کانگریس سے الگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کے قیام پرقوم کو متوجہ کیا ۔ اور اسی تصور اور فکر کی بنیاد پر ۱۹۰۵ء میں نواب سلیم اللہ کے مکان پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں آغا خان کی سربراہی میں ۳۵؍ افراد پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد نے وائسرائے لارڈ مینٹو سے شملہ میں ملاقات کی اور انھیں اپنے مطالبات و خدشات سے آگاہ کیا اور جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ۔ یہ گویا باضابطہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان تھا کہ مسلمان اپنی ثقافت ،لباس ، غذا ، زبان، تصورِخدا،طرزِ معاشرت،معیشت، غرض ہر شعبۂ حیات میں اختلاف کے سبب صدیوں سے ایک ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہر تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ، جن کا دین بنیادی تصورات و ترجیحات ہندوؤں کے تصور حیات کی ضد اور اپنا ایک مستقل وجود رکھتے ہیں، اور اب گویا وہ وقت آگیا تھا کہ وہ اپنے وجود اور تشخص کے لیے ایک آزاد خطّے کا مطالبہ کریں ۔ مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت ، ان کی جدوجہد اور اللہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے ایک مختصر عرصے میں قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم ‘‘کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن تھا۔ جنگ آزادی کے عمل کی بنیاد ایمان پر تھی ۔ وہی ایمان اتحاد کی بنیاد تھا جس نے عصبیتوں اور قومیتوں کی جگہ لا الٰہ الا اللہ کے ذریعے دلوں کو جوڑ دیا، اور یہ ایمان ہی تھا جس نے منتشر افراد کے اس گروہ کو جو۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مایوسی اور ناامیدی کا شکار تھا ایک تنظیم میں یکجا ہونے کی توفیق دی اور یہ ثابت کر دیا کہ ایمان کا لنگر مضبوط ہو گا، اور بقیہ دواُصول اتحاد اور تنظیم بھی مستحکم ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی قوت اسے زیر نہیں کر سکتی ۔
اس سے قطع نظر کہ مصلحت یا سیاسی حکمت عملی کی بنا پر مسلم لیگ میں ایسے افراد بھی شامل ہوگئے تھے جو انگریز سے ٹکراؤ قطعاً نہیں چاہتے تھے ۔ اور پھر وہ انگریز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ کانگریس کی طرح وہ بھی برطانوی تاج کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں،اور مسلمان صرف چندحقوق کے حصول کے لیے دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود جس چیز نے پورے خطے کے مسلمانوں کو یکجا کرنے میں اکسیر کا کام کیا وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ تھے ، جن کا واضح مفہوم اللہ کی حاکمیت کا اللہ کی زمین پر قیام تھا۔
۱۳؍ اگست ۱۹۱۹ءکو جلیانہ والا باغ، امرتسر کے سانحے میں ۱۵۱۶؍ افراد کو بہیمانہ طور پر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ملک گیر پیمانے پر عوام الناس کو جگانے کا ایک بڑا سبب بنا۔
مسلم لیگ کے مصلحت پسند مسلمانوں کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ ان کی جان، مال، دین اور مستقبل انگریز کےہاتھوں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس دوران اتحادی افواج کا ترکی کے ساتھ رویہ مسلمانوں کے جذبات کو مزید مشتعل کرنے کا سبب بنا اور انگریز کی مسلم دشمنی کی اس واضح مثال کے بعد ردعمل کے طور پر تحریک ِ خلافت شروع ہوگئی۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا کردار نمایاں رہا۔
اس دوران ہندو راہ نماؤں نے جو اپنی عددی اکثریت پرپہلے ہی نازاں تھے، شدّھی کی تحریک کا آغاز کردیا اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی۔ ان تمام واقعات نے مسلم قیادت کو اس بات پر یکسواور متفق کر دیا کہ حقیقت میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔ ان کا دین، زبان، ثقافت ،تاریخ ،تصور کائنات، تصور انسان ،تصور آخرت ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں جب ہندو اکثریت زبر دستی مسلمانوں کو ہندو بنانے اور اپنی محکوم بنانے پر تلی ہوئی ہے، آزادی کے لیے متحدہ طور پرجدوجہد بے معنی ہے ۔چنانچہ انھیں اپنی آزادی کے حصول کےلیے ایک الگ قوم کی حیثیت سے خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔
فروری ۱۹۲۸ء میں جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کی سربراہی میں جو رپورٹ پیش کی گئی، اس میں لکھنوکے معاہدہ ۱۹۱۶ء کو مکمل طور پرنظرانداز کرکے خود کانگریس نے باضابطہ یہ اعلان کردیا کہ وہ صرف ہندوؤں کی آزادی کے لیے متحرک ہےاوروہ کسی مسلم مفاد کا تحفظ نہیں کرسکتی ۔ مولانا محمد علی جوہرؒبھی اس واقعے کے بعد کانگریس سے علاحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔
۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علّامہ اقبالؒ نے حالات کے تجزیہ کے ساتھ یہ تجویز پیش کی کہ اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بطور نقطۂ آغاز وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت ہے، ایک یا زائد خود مختار اکائیوں کی شکل میں یکجا ہوں، مثلاً: پنجاب، شمالی مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو بطور ایک اکائی یکجا کر دیا جائے ۔ اس خطاب میں انھوں نے نظریاتی بنیاد کو بھی واضح کر دیا کہ توحید اور اللہ کی حاکمیت کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست کا قیام ہی اہل خطہ کے لیے راہ نجات فراہم کر سکتا ہے۔ علامہ کے الفاظ یہ تھے :
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے___ اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے تحت عمل میں آتا ہو، اور جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرم عمل ہو ___ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے،اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہوکرایک متمیز ومعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔
حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندستان میں بھی اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام ہی کی رہین منت ہے۔ اس لیے کہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے.... لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندستان میں ایک اسلامی ہند قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے....ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
میری ذاتی طور پر خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی ۔
۱۶؍ اگست ۱۹۳۲ء کو کیے جانے والے کمیونل ایوارڈ (Communal Award)نے جداگانہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر کے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونےپر سرکاری مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ برطانوی سامراج اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکا تھا کہ استعماری چراغ کی لَو بجھنے والی ہے، اس لیے اس نےاپنی روایتی مسلم دشمنی کی بنا پر ایسے فیصلے کیے جن کا نقصان مسلمانوں کو ہوا اور جنھیں مسلمان مجبوراً ماننے پر آمادہ ہوئے ، مثلاً ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں فیڈرل ، پروینشنل اور concurrent کی تقسیم جس میں فیڈرل فہرست اور صوبائی فہرست میں بعض اختیارات دینے کے باوجوداسے ایک ملغوبہ بنایا گیا۔ اس قانون کو قائد اعظم نے ناقابلِ قبول قرار دیا لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مسلم لیگ کو ٹکراؤ کی جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
۱۹۳۵ءکے ایکٹ کی روشنی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ۱۹۳۷ء-۱۹۳۹ء میں کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ابھی مکمل آزادی نہیں ملی تھی لیکن کانگریس نے اپنے ماتحت مقامات پر نظام تعلیم اور نصابی کتب کووِدیا مندر منصوبہ کے تحت تبدیل کردیا اور طلبہ کے لیے ہر صبح بندے ماترم کا ترانہ گانا لازمی قرار دیا ۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ کے پٹنہ سیشن میں اس ترانے کو شدت کے ساتھ ردّ کیا گیا اور اسے بت پرستی اور مسلم دشمنی کی واضح مثال قرار دیا گیا ۔
اس تناظر میں علامہ اقبال کا ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کا خط اہم راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ قائداعظم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو سو سالہ زوال اور ہندو کی مہاجن کی حیثیت سے مسلمانوں کے معاشی استحصال کے بعد اب نجات کی راہ کیا ہو گی؟ پھر خود جواب دیتے ہیں:
’’روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دوسوسال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو ساہوکار و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے اگرچہ ابھی قو ی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کرکے رہے گا۔
’’ جواہر لال نہرو کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے؟لیگ کا مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیا کوششیں کرتی ہے؟ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بےتعلق رہیں گے۔
’’خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیاتِ حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریقے پر سمجھا اور نافذ کیا جائے، تو ہر شخص کو کم از کم معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کا نفاذ ناممکن ہے جب تک اس ملک میں ایک یا ایک سے زائد آزاد ریاستوں کا وجود نہ ہو۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہےاور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں اور اگر ہندستان میں اس طریق کار پر عمل درآمد اور اس مقصد کا حصول ناممکن ہے، تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ خانہ جنگی ہے۔ جو فی الحقیقت ہندومسلم فسادات کی شکل میں کئی برسوں سے شروع ہے۔
’’لیکن جیسا کہ اُوپر ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندستان میں ان مسائل کا حل بہ آسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک یا زائد آزاد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ؟شاید جواہرلعل کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے‘‘۔
مسلم لیگ کے ۲۵ویں اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں ۱۵-۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اسی بات پر غورکیا گیا اور قائد اعظم نے طے کیا کہ مسلم لیگ اب مکمل آزادی یا ایک فیڈریشن یا آزاد جمہوری ریاستوں کے قیام کی جدوجہد کرے گی تاکہ مسلمانوں کا مفاد محفوظ ہو سکے اور اقلیتوں کو بھی تحفظ ملے ۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں میں اتحاد اور تنظیم پیدا کرنا لیگ کا مشن قرار پایا ۔ اس جدوجہد کا منطقی نتیجہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءکو لاہور میں منظور ہونے والی قراداد میں ان الفاظ میں ظاہر ہوا:
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروخوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے، جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطّوں کی صورت میں حدبندی کا عامل ہو اور بوقت ِ ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو، جیساکہ ہندستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں، انھیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
یہ وہ تاریخی موقع تھا جب مسلم لیگ نے یکسو ہو کر منزل کے حصول کے لیے ساری قوت صرف کرنا شروع کی۔ قائداعظم کے فولادی اعصاب نے ہر لمحہ بدلتے حالات کی صورت حال میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ مستقل مزاجی سے جنگ آزادی کی کامیاب قیادت کی ۔ اس جدوجہد کا مقصد جیسا کہ علامہ اقبال کے خط بنام قائد سے واضح ہوتا ہے، نئے خطۂ پاک میں اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔ یہ ایک عجیب سانحہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد کے واضح تصور پاکستان کے باوجود پاکستان کے نام نہاد روشن خیال اور اباحیّت پسند دانشوروں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد تصور پاکستان کے حوالے سے ہندو کانگریس کے سیکولر ریاست کے تصور کو قائد کے تصور کے طور پر تکرار کے ساتھ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی جگہ سیکولر ریاست کے تصور کو عام کرنے میں اپنی تمام ذہانت استعمال کرتے ہوئے ابہام در ابہام پیدا کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں ۔ صحافت ، نوکر شاہی اور دیگر ملکی اداروں میں جو افراد ذمہ دار بنے ، ان میں سے کسی کو علامہ اور قائد کے تصور پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اس لیے انھیں پہاڑ کھودنے کے بعد لے دے کر ایک تقریر ایسی ملی جس کو اپنی فکر کے مطابق معنی پہنا کر اس کی جو تعبیر وہ کرنا چاہتے تھے، اس تعبیر کو قائد سے منسوب کر کے اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ لوگ اسے سچ مان لیں لیکن حق و باطل کی اس کش مکش میں حق ہی کو غالب آنا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا؟ اسے انھی کے الفاظ میں جان کر ایک قاری صحیح فیصلہ کر سکتا ہے ۔
یکم فروری ۱۹۴۳ءکو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج، بمبئی میں خطاب کرتے قائد اعظم فرماتے ہیں :
پاکستان میں ریاست اسلامی اصو لوں کے مطابق چلائی جائے گی ، اس کی ثقافت ، سیاسی اور معاشی تشکیل اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گی۔غیر مسلم اس امر سے خائف نہ ہوں کیوں کہ ان کے ساتھ مکمل عادلانہ رویہ رکھا جائے گا ۔ ان کے ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی ، معاشی حقوق کا مکمل تحفظ ہو گا ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انھیں موجودہ نام نہاد جمہوری پارلیمنٹری طرز حکومت سے زیادہ تحفظات حاصل ہوں گے۔
لاہور میں ہونے والی یونی ورسٹی ریلی سے حصولِ آزادی کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہم نے اپنی منزل مقصود ’آزادی‘پالی ہے اور ایک آزاد خودمختار اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت قائم ہو چکی ہے۔ اس برعظیم میں رونما ہونے والے حالیہ اندوہناک واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلا اور ایثارکے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی.... کچھ لوگوں کی غداری اور سازشوں سے اس برعظیم میں بدنظمی اور افراتفری کی قوتوں کو بےلگام چھوڑ دیا گیاجس کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوئیں۔بہت وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی اور بربادی ہوئی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار اور اپنی محبوب اشیا سے جدا کر کے اذیت اور مصائب میں مبتلا کر دیا گیا ۔ ہم ایک نہایت گہری اور خوب سوچی سمجھی سازش کا شکار ہوئے جس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیانت داری، شجاعت اور وقار کے بنیادی اصولوں کا بھی مطلق لحاظ نہیں کیا گیا ۔ ہم اس تائید غیبی کے لیے سراپا شکر گزار ہیں کہ اس نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بہت حوصلہ اور ایمان کی قوت عطاکی۔ اگر ہم قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرتے رہے تو حتمی فتح، میں پھر کہتا ہوں، ہماری ہو گی ۔کام کی زیادتی سے، میں کہتا ہوں، گھبرایئے نہیں!
نئی اقوام کی تاریخ میں کئی مثالیں (ملتی ہیں )جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے اورآپ کسی سے کم نہیں ہیں ۔اوروں کی طرح اور خود اپنے آبا و اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہیں ہوں گے؟آپ کوصرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبہ کو پروان چڑھانا ہو گا۔آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ قابل ، صلاحیت کے حامل کرداروں اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری پڑی ہے ۔ اپنی روایات پر قائم رہیےاور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کر دیجیے ۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا ، جن کا نصب العین اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی امن ہوتا ہے۔
اسی بات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں کہا اور یاد رہے کہ یہ بیان بھی اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ قائداعظم امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے کہتے ہیں کہ :
میرے لیے یہ امر انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اہلیان ریاست ہائے متحدہ امریکا سے پاکستان ،اس کی حکومت ،اس کے افراد اور اس کے وسائل کے بارے میں اس نشریے کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں۔ یہ مملکت جو کسی حد تک برعظیم کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت (Premier Islamic State) اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا علم تو نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ایسے ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہر نوع پاکستان ایسی تھیا کریسی نہیں ہوگا جہاں پادری فرماں رواں ہوں۔
غیر مسلم ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی اور شہری کو حاصل ہو سکتی ہیں اور وہ اُمورِپاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کر سکیں گے۔
قائداعظم اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور جدید دور میں قابل عمل نظام سمجھتے تھے۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں فرماتے ہیں:
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی.... آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا....جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔
قائد کی ۱۹۴۳ء یعنی قیام پاکستان سے قبل اور ۱۹۴۸ء میں اس تقریر کے بعد جس میں انھوں نے وہ بات نہیں کہی جو ان کے شارح اپنی تعبیرات میں بیان کرتے ہیں ، ان تمام تقاریر کو ، جو بے ساختہ نہیں بلکہ تحریری شکل میں لکھنے کے بعد کی گئی تھیں، سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ان کے تسلسل ، فکر اور موقف کی یگانگت اور یکسوئی میں ذرہ برابر فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح ۱۹۴۳ء میں وہ پاکستان کو بطور اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے بالکل اسی طرح ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار سے خطاب ،۱۴ فروری ۱۹۴۸ءکو سبی دربار سے خطاب ، فروری ۱۹۴۸ءکو امریکی عوام سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء کو اِک اِک ریجمنٹ کراچی سے خطاب، یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک سے خطاب میں وہ ریاست کے اسلامی خدوخال کو اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام پر مبنی قرار دیتے ہیں۔
قائد کے ارشادات کی روشنی میں خود قائد کی حیات اورسر براہی میں دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ مولانا سیّد سلمان ندوی کی صدارت میں قائم کر دیا گیا تھاجو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دستور کے حوالے سے اسمبلی کی راہ نمائی کرکے دستوری سفارشات مرتب کرے ۔ اسی طرح لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک ادارہ پاکستان کی تعمیر نو کے نام سےقائم کیا گیا اور قائد کی حیات میں انھیں یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے دستور کے خدو خال پر دستاویز تیار کریں ۔ یہ دستوری خاکہ جو علامہ اسد نے تحریر کیا، آج بھی ان کے اعزاز میں انگریزی میں طبع شدہ کتاب: Muhammad Asad (Leopold Weiss): Europe's gift to Islam (دو جلدیں)میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انگریز کے اداروں میں تربیت پانے والے سرکاری اہل کار ، عدلیہ میں انگریز کے ذہنی غلام نمایندے اور خود سیاسی محاذ پر پاکستان کے تصور کے مخالف افراد، مثلاً باچا خان و دیگر کے لیے یہ امر نا قابل ہضم تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے ، چنانچہ جسٹس منیر ہوں یا بیورو کریسی کے افراد جن میں ۱۹۶۴ء تک ۶۰ سے اُوپر افراد سیکرٹری کے عہدے تک وہ تھے جن کی قومیت بھی برطانوی تھی ۔ جن کی علمی تربیت برطانوی تصور ریاست پر ہوئی تھی۔ یہ افراد مغربی تصورات اور طرز ِ زندگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے دین اور ریاست کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے تھے ۔
اس سب کے باوجود ۱۹۵۶ء کے دستوری مسودے میں قائد اور قوم کے خیالا ت کو نمایندگی دینے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جن دفعات کو اسلامی کہا جاتا ہے، دستور کا دیباچہ (preamble)اس تصور کی وضاحت کرتا ہے ۔ قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت قائدِ ملت نے جو مفصل تقریر کی، اس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کے تصور کی نمایندگی کرتا ہے۔ عوام نے بھی ہمیشہ تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر آج تک صرف اسلام کو ملک کی نظریاتی بنیاد قرار دیا۔ اب گذشتہ دو دہائیوں سے ملک جس تکلیف دہ صورتِ حال میں مبتلا ہے ، اس سے نکلنے کی راہ اور حکمت عملی کیا ہو ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہر صائب الرائے فرد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گو، ملک کی سیاسی قیادت آج بھی مفادات کی جنگ اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں مصروفِ عمل ہے اور اس کے نتیجے میں ایک مزدور سے لے کر ایک دانش ور تک، ہر فرد ذہنی و فکری انتشار میں مبتلا ہے ۔ قومی زندگی کے اس فیصلہ کن موڑ پر ریاست کے نظریاتی تحفظ کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس بھنور سے کیسے نکلیں اور قائد کے تصورِ پاکستان کے حصول کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اس حوالے سے چند بنیادی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان چند عملی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں صرف عقلی اور علمی سرمایہ کو استعمال کرتے ہوئے اور غیر سرکاری اداروں میں حکمت و تدبر کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اپنے طرز عمل میں سیاسی ہنگامہ خیزی اور سیاسی تبدیلی کے ذریعے ملک اور معاشرے میں اصلاح کی جگہ اسلامی تعمیر شخصیت اور کردار کی تبدیلی کو اوّلیت اور فوقیت دے۔تعمیر کردار اور اصلاح فکر کے بغیر کوئی سیاسی تحریک نہ آج تک کامیاب ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے ۔ انسانیت کے محسن اور کامل ترین قائد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے بعد جو باکردار اصحاب پیدا کیے، وہی سیاسی ،معاشی ، معاشرتی اور قانونی نظام کے معمار اور محافظ بنے۔جائزہ لینے کی ضرورت ہےکہ کسی اصلاحی اور دعوتی تحریک کا کتنے فی صد مساعی کا حصہ تطہیر افکار اور تعمیر شخصیت و کردار پر صرف ہو رہا ہے اور کتنے فی صد سرگرمی ہنگامی طور پر آگ بجھانے کے کام میں لگ رہی ہے۔
تحریک کو ایسے انسانی وسائل کی ضرورت ہے جو مثبت طور پر حکمت عملی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ فکری، جذباتی اور عملی طور پر اس سیرت و کردار کا نمونہ ہو ںجو صداقت، امانت، شہادت حق، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری اور اسلام کے حقیقی تصور کی عملی مثال ہوں ۔ فکری و نظریاتی طور پر تربیت یا فتہ با اخلاق کارکنان کے بغیر کوئی پائدار سیاسی ہدف حاصل نہیں ہو سکتا اور بنیادوں کے استحکام کے بغیر کوئی مضبوط عمارت نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔پاکستان میں عدم استحکام کا سبب ان بنیادوں کو اہمیت نہ دینا ہے، جس کی طرف قائداعظم نے متوجہ کیا تھا۔ اگست کا مہینہ اس بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر کی یاددہانی کراتا ہے جس میں ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر لا الٰہ الا اللہ کی علَم بردار ایک قوم کو ایک ملک دیا تھا، تاکہ وہ اس ملک میں حاکمِ کائنات کی ہدایت و احکامات کے نفاذ کے لیے کمر بستہ ہو۔ یہ یاددہانی ۷۶ سال کے بعد بھی ویسی ہی تابناک ہے جیسے روز ِاول تھی۔ صرف آگے بڑھ کر اس کے لیے انسانی وسائل کو یکجا کرنے اور منظم جدوجہد کے ذریعے عقل ، فہم و تدبر اور حکمت کی قوتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔
جدید سائنسی تحقیقات میں مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence)نے جسے AI بھی کہا جاتا ہے، گذشتہ چندبرسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ تقریباً ہر روز علمی اُفق پر مصنوعی ذہانت کے معیشت ، معاشرت ،عالمی دفاع ، فرد اور معاشرے پر اثرات کےتعلق سے موضوعات زیر بحث لائے جا رہے ہیں ۔ علمی و تحقیقی حلقوں میں چیٹ جی پی ٹی(Chat GPT) کے عمل دخل کی بنا پر پیدا ہونے والے اخلاقی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور تحقیق اس مقام تک پہنچنے لگی ہے جہاں فرعون اور نمردود کی پیروی کرتے ہوئے سائنس خوداپنے ربّ ہونے اور جدید دجّال کی طرح زندگی اور موت پر قابو کاعملاً اعلان کرنے کے لیے آمادہ ہو۔
تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں گذشتہ ربع صدی میں عالم گیر سطح پر بعض جائزے یہ شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ جرمن مفکّر نیٹشے کے یہ لکھنے کے باوجود کہ عیسائیت کے خدا کی (نعوذ باللہ ) موت واقع ہوچکی ہے اور جس کے نتیجے میں امریکن اکیڈمی آف ریلجنز کے سالانہ علمی اجتماعات میں ایک سے زائد فکری حلقوں میںDeath of God Theology کے موضوع پر مختلف مقالات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں گیلپ انٹرنیشنل نے ایک عالمی جائز ہ لیا (سروے کیا)، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے ’خطرے‘ کے پیش نظر یہ دیکھا جائے کہ مختلف مسلم ممالک اور غیرمسلم دُنیا اور علاقوں میں کیا رجحانات پائے جاتے ہیں اور اسلام سے خائف یورپ اور امریکا کس طرح اپنا دفاع کرسکتے ہیں؟
اس جائزے میں یہ بات اُبھرکر سامنے آئی کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں ظلم و استبداد، عسکری تسلط اور اسلام دشمن قوتیں یا کم ازکم لادینیت (Secularism) کے حمایتی برسر اقتدار ہیں ، ان ممالک میں بھی ۶۰ فی صد یا زائد مسلمان اسلامی شریعت کو اپنے مسائل کا حل اورآمریت اور مغربی لادینیت کے مقابلے میں اسلامی احیا کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرتب اور اسلامیات پر گہری نگاہ رکھنے والے پروفیسر جان ایل اسپوسیٹو کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کے ایسےمرد و خواتین جنھیں مغرب زدہ یا Moderate سمجھا جاتا ہے، ان کے ۸۳فی صد نے اسلامی شریعت کے حق میں رائے دی ۔ جب کہ وہ معاشرتی گروہ جو اسلامی انقلابی (Politicaly radical)کہلاتے ہیں، ان سے تعلق رکھنے والے ۹۱ فی صد افراد کی نگاہ میں شریعت پر مبنی نظام ہی ان کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے ۔اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ اسلام کا مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مصر اور سعودی عرب میں بالترتیب ۹۰فی صد اور ۹۱فی صد مرد اور عورت دونوں کا خیال تھا کہ اسلام انھیں روحانی سکون عطا کرتا ہے، زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نماز کی ادائیگی اور اس کے اثرات کے بارے میں ۲۰۰۱ء میں گیلپ ہی کے ایک تجزیے کے مطابق چھے ممالک کی دوتہائی آبادی کے تاثرات پر مبنی جائزے میں مراکش میں ۸۳فی صد پاکستان اور انڈونیشیا میں ۷۹فی صد، کویت میں ۷۴ فی صد، انڈونیشیا میں ۶۹ فی صد ،لبنان اور ایران میں ۶۸فی صد مردو خواتین نے یہ اقرارکیا کہ ’’نماز انھیں اپنے ذاتی مسائل کے حل میں مدد اور تسکین فراہم کرتی ہےاور روزہ اللہ رب العزت کے دروازہ تک اور صدقہ ہمارے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتے ہیں‘‘۔
گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ علمی جائزے ۲۰۲۳ء میں خدا کے وجود، آخرت پر یقین ، جنت اور جہنم پر ایمان کے نکات پر دُنیا کی تقریباً دوتہائی آبادی سے حاصل کردہ معلومات تمام اہل دانش کے لیے قابلِ غور ہیں، خصوصاً ایسے افراد جو اقامت دین کو اپنا مقصد ِحیات قرار دیتے ہیں، ان کے لیے اس جائزے میں غور و فکر کے کئی عنوانات موجود ہیں۔
خدا کے وجود اوراپنے تشخص کے بارے میں عالمی سطح پر ۶۲ فی صد افراد اپنا تشخص مذہبی ہونا بتاتے ہیں،جب کہ ۷۲فی صدخدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔دنیا کی آبادی کے دوتہائی افراد میں سے ۵۷ فی صد حیات بعد موت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۵۹ فی صد افراد جنت کے وجود پر اور ۵۳ فی صد جہنم کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مقابلہ ۲۰۱۳ء کے جائزے سے کیا جائے تو امریکا میں ۵۶ فی صد افراد خود کو مذہبی سمجھتے تھے،جب کہ روس میں ۷۰ فی صد اپنے مذہبی ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ ۲۰۲۳ءمیں امریکا میں اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ چنانچہ ۶۰فی صد افراد خود کو مذہبی قرار دیتے ہیں لیکن روس میں ۲۰۲۳ء میں اس رجحان میں کمی ہوئی اور وہاں آج ۷۰ فی صد کے مقابلے میں ۶۲ فی صد اپنے آپ کومذہبی سمجھتے ہیں۔
۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کی روشنی میں میں دنیا کی آبادی کے دو تہائی حصے میں سے ۱۰فی صد خود کو دہریہ (Atheist)قرار دیتے ہیں،جب کہ ۲۰۱۳ء میں یہ شرح ۹فی صد تھی ۔ گویا اس جائزے کے مطابق دہریت میں ایک فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اگر صرف مسلم ممالک کو دیکھا جائے تو خدا کے وجود پر مسلم ممالک میں سو فیصد اور غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان آبادی قلیل تعداد میں ہے، ۱۷ممالک میں ۹۰ فی صد یا اس سے کچھ کم درجہ رکھنے والے افراد ۹۰ تا ۹۹ فی صد خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ تناسب ۱۰۰ فی صدیا اس کے لگ بھگ ہے۔
دنیا کے دو سو سےزائد ممالک پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو دہریت میں ایک فی صداضافہ ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ، آخرت ، جنت اور جہنم پر یقین کو دیکھا جائے تو مسلم ممالک دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں، اور ۱۰۰ فی صد یا اس کے لگ بھگ آبادی میں دہریت سے دُوری اور اور مذہب سے وابستگی کا اظہار موجود ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر ایک فی صد دہریت میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر دینی معلومات میں کمی ہےاورایسے طبقات تک دعوت کا مؤثر ابلاغ نہ ہو سکا جس کی بے پناہ ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کے اس جائزے سے بظاہر یہ عمومی تاثر ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ’’تمام تر دہریت (Atheism) اور لادینیت (Secularity) اور مادہ پرستی (Materialism) کے باوجود، لوگوں کی ایک معقول تعداد عیسائیت ، اسلام ، ہندو ازم اور بودھ ازم کے تناظر میں اپنے آپ کو مذہب سے وابستہ کرتی ہے اور دنیا کی مکمل آبادی میں بہ مشکل ۱۰ فی صد افراد ہیں جو الحاد میں اپنی نجات سمجھتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ۱۰ فی صد افراد عالمی معیشت،سیاست ، ثقافت ، تعلیم اور دفاعی معاملات میں کتنا مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں اور جو اکثریت اپنے آپ کو ’مذہبی‘ کہتی ہے معاشرہ اور عالمی حالات پر اس کا کتنا اثر (impact)ہے؟
یہ بات جانی پہچانی ہے کہ تمام معروضیت کےباوجود کسی بھی عددی جائزے میں جو سوالات مرتب کیے جاتے ہیں، انھی سے دیگ کے چندچاولوں کی بنیاد پر کھانے کے قابلِ طعام ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ نتائج بڑی حد تک مختلف عوامل سے متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر چند لمحات کے لیے یہ مان لیا جائے کہ تجزیے میں دنیا کی دو تہائی آبادی سے سوالات و استفسارات سے جو مواد حاصل ہوا ہے، وہ معتبر ہے اور بڑی حد تک مذہب ، خدا اور انسانی زندگی پر ان اثرات کے حوالے سے جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ زمینی حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں، توبآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ مختلف اسباب اور عوامل کے نتیجے کے طور پر عالمی سطح پر الحاد میں لازماً اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بعض مذاہب نے ان علاقوں میں جہاں پہلے ان کا اثر کم تھا، وہاں اپنی پہنچ میں اضافہ کیا ہے اور بعض مذاہب باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیت کے وقت کے مطالبات کے معقول حل پیش کرنے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔
پیش نظر مسئلے کا تقابلِ ادیان کے زاویے سے جائزہ لیں تو خصوصاً افریقا میں ۱۹۷۰ء میں عیسائی چرچ نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی سطح پر عیسائیت کی ترویج کے لیے وسائل مہیا کیے تھے ، جس کے اثرات ربع صدی کے بعد ظاہر ہوئے اور سروے میں اس کا ثبوت عیسائیت کے فروغ کی شکل میں موجود ہے۔ بہرحال فی الوقت ہمارے پیش نظر صرف اسلام کے حوالے سے چند بنیادی اُمور پر غور کرنا ہے ۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وجود یا آخرت کے واقع ہونے اور جنت اور جہنم پر ایمان کا تعلق ہے، مسلمانوں کے انتہائی زوال کے دور میں بھی ایک پیدایشی یا ثقافتی مسلمان بھی جنت اور جہنم کے حقیقت ہونے کا قائل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی ذاتی زندگی اس عقیدے سے کتنی مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ کے وجود اور دنیا میں کیے جانے والے اعمال کے لیے ایک امتحان گاہ کو نہ صرف عقلی ضرورت بلکہ اپنے وجود سے وابستہ سمجھتا تھا ، لیکن امتداد ِزمانہ کے ساتھ برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں ہمارے دینی عقائد میں بیرونی تصورات غیر شعوری یا شعوری طور پر داخل ہوتے گئے جس کا سبب برصغیر میں غیر اسلامی خصوصاً ہندو مت کے بہت سے طریقوں کا روایتی مسلم معاشرے میں نفوذ کر جانا ہے۔ ان بہت سی رسومات کو جو بنیادی دینی تعلیمات سے عدم آگاہی کی بنا پر رواج پا گئیں، روحانیت اور قرب الٰہی کے نام پر رواج دیا گیا۔ میر تقی میر نے ڈھائی صدی قبل اس مسئلے کا اظہار یوں کیا تھا ؎
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا ، دَیر میں بیٹھا ،کب کا ترکِ اسلام کیا
دوسری جانب جنت اور جہنم کے وجود پر ایمان لاتے ہوئے ایک ایسے ذہین شاعر نے جو اپنے آپ کو نصف مسلمان اس لیے کہتا تھا کہ حرام مشروب کے استعمال کے باوجود کبھی حرام گوشت کی طرف نہیں گیا ، جنت اور جہنم کے وجود پر اپنے ایمان کو یوں بیان کیا ہے کہ ؎
کیوں نہ جنت کو جہنم سے ملادیں یا رب
سیرکے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
گویا مسلم معاشرتی شعور میں روح کی گہرائیوں اور ذہن کی وسعتوں میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ملتا،جہاں عملاً دین کے بعض ارکان کو ترک کرنے کے باوجود ایک مسلمان، چاہے وہ محض پیدائشی اور ثقافتی طور پر مسلمان ہو ، بنیادی تعلیمات سے واقفیت اور آگاہی کے ساتھ ان پر یقین رکھتا تھا۔ ان کے ہاں دین کا جامع تصور مفقود نظر آتا ہے ۔ اگر جدید جائزوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی آج تک ایک تلخ زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس رجحان کے اسباب اور ان کا ممکنہ حل کیا ہو؟ یہ تحریکات اسلامی کے لیے ایک اہم غور طلب امر اور چیلنج ہے۔
معاشرتی رجحانات کے بننے اور بگڑنے میں تربیت ، ماحول اور تعلیم کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ مذکورہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی اسلام سے جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور ایک اطمینان بخش صورتِ حال ہے، لیکن وہاں بھی اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والی نئی نسل اے لیول اور او لیول اور سیکولر کلچراور نصاب کے سائے میں پرورش پا کر فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات بھی دین کے بارے میں محض رسمی معلومات سے زیادہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ تحریک اسلامی کے لیے یہ صورت حال خاص طور قابل غور ہے اور فوری اقدام کی متقاضی ہے۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں ۷۵ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود، ہرحکومت کے دور میں زبانی جمع خرچ تو ہوا لیکن خاطرخواہ طریقے سے نصابی تبدیلی اور نصاب کے ساتھ بنیادی دینی معلومات فراہم کرنے والی کتب ، اساتذہ اور ماحول فراہم نہیں کیا جاسکا۔
اب ذرا غور فرمایئے کہ جن اداروں میں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پائے جاتے ہیں، کیا وہاں تعلیم و تربیت سے متعلق منظم اور مستقل اقدامات کیے جارہے ہیں؟ اور جہاں تحریکی افراد کے اپنے ادارے ہیں، ان میں ملک گیر پیمانے پر کیا تجربات کیے گئے ہیں؟ اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد آیندہ کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟ اس پر بلاکسی تاخیر جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے تعین (Need Analysis) کے ذریعے ایک قابلِ عمل حکمت عملی کا نفاذ کیا جاسکے۔
زمینی حقائق کچھ یوں ہیں: گھر جو سب سے پہلی تربیت گاہ یا مدرسہ ہے اور جو دینی اور تہذیبی اقدار کا آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فطری ذریعہ ہے، اس گھر کو ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر جدید الیکٹرانک سمعی اور بصری آلات کی رنگینی کے حوالے کر دیا ہے۔ ایک تین سالہ بچہ بھی ڈزنی کی دنیا کا شہری بن گیا ہے اور اپنے والدین کی دنیا سے کٹ کر اپنے احساسات ، زندگی کے مقصد اور مثالی طرزِ عمل کے لیے ان کارٹون کرداروں کا مرہونِ منت ہو گیا ہے،جو ڈزنی نے لادینیت، عریانیت ، نفس پرستی ، اَنانیت او ر اپنی ذات کی نمائش ا ور پرستش کے اصولوں پر نوعمر ذہنوں اور ان کی روح میں اُتر جانے کے لیے ایجاد کیے۔ یہ رجحان مثبت متبادل مواد کی فراہمی کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتا۔
دوسرا اہم سبب مسلمانوں کے ایک اہم اور مؤثر حصے کا ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو جانا اور ہرمعاملے میں اعلیٰ معیار کے لیے صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھنے کو اختیار کرنا ہے ۔ وہ موزہ ہو ، قلم ، قمیص ، جو تا ، غسل خانے میں لگنے والی ٹونٹی ہو یا عمرانیات ، طب ، ریاضی یا دیگر علوم، ہرشعبے میں اعلیٰ معیار( state of the art) مغرب کو قرار دے کر لادینیت پر مبنی علمی روایت کو پوری مسلم دنیا نے پورے عقیدت و احترام کے ساتھ اختیار کر لیا۔اس ذہنی مرعوبیت کے نتیجے میں گفتگو ہو یا تحریر، ہرمیدان میں مغربی جدیدیت کو علمیت کے ثبوت کی شکل میں اختیار کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں مغرب سے درآمد کردہ اصطلاحات کا استعمال دانش وری کی علامت اور علمیت کی دلیل سمجھا جانے لگا۔ ان اصطلاحات کے پیچھے جو تصورات ہمارے ذہنوں میں گھر کر رہے ہیں ،حتیٰ کہ اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہننا اور اپنی زبان میں اظہار خیال کرنا بھی معاشرے میں ایک معیوب عمل سمجھا جانے لگا ۔
تعلیم و تربیت کا شعبہ دور جدید میں عددی ابلاغ عامہ (Digital Media )کا تابع ہو چکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ برقی ذرائع کا استعمال ، تعلیم ، تفریح اور ابلاغ عامہ میں ہو رہا ہے، اس میں صرف چند قرآنی قصوں پر مبنی کتابچے کام نہیں کرسکتے ۔ اگر ہم صرف ہم خیال تعلیمی اداروں کی ضروریات کا جائزہ لیں تو معاشی طور پر ایسی چیزیں جو تربیتی زاویے سے برقی ذرائع میں تیار کی جاسکیں، مارکیٹ میں اپنا مقام پیدا کریں گی۔ شرط یہ ہے کہ اس مواد میں تعلیمی نفسیات اور نصابی کتب کے مطالبات کو فنی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جائے ۔ یہ کام جہاں حکومتی دائرے میں کرنا ضروری ہے، وہیں کسی حکومتی اختیار کے بغیربھی ہو سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضروریات کے پیش نظر ایسے مواد کی تیاری جو اخلاق، سیرتِ پاک ، قرآنی تعلیمات اور فنی معلومات کو یکجا کرتا ہو ، آج کی بنیادی کی ضرورت ہے ۔ دینی فہم، دینی تعلق اور دینی جذبات کا پیدا کرنا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ کام محض بیانات اور تبدیلی کے نعروں سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے قابلِ محسوس اعلیٰ فنی معیار کے مواد کی ضرور ت ہے ، جس کی برتری کا اعتراف مخالفین کو بھی کرنا پڑے۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیےچند اہم اقدامات ضروری ہیں ۔ اولاً: مغربی فکر سے واقفیت کے ساتھ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح کا کام مولانا مودودی نے تنقیحات، تفہیمات، رسائل و مسائل اور دیگر تحریرات میں کیا ہے تاکہ اس زہر کو سمجھا جاسکے۔ دو سو سال اور خصوصاً ۷۵سالہ پاکستانی دور میں ہردرس گاہ میں یہ زہر پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اس غرض سے مولانا مودودی کی ان تمام تحریرات کو بغور کئی کئی بارپڑھنے اور ان سے قابلِ عمل نکات اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودی کے علاوہ بھی دیگر اہل فکر کی تحریرات کو زیربحث لا کر نہ صرف استعماریت کے اثرات کو کم کرنے (decolonization )بلکہ اسلامی اخلاقی اصولوں کو تعلیم و تربیت کے نظام اور نصاب میں سمونے اور مختلف علوم کی تدوینِ جدید کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کام کسی کمیٹی کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس میں ماہرین تعلیم جو تحریکی شعور اور براہِ راست قرآن و سنت اور مسلمانوں کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہوں، ان کی ہمہ وقت شرکت ضروری ہو گی۔ اس کام کوواضح نقشۂ کار اور وقت کے تعین کے ساتھ کرنا ہو گا، تاکہ مقررہ مدت میں نتائج سامنے آسکیں ۔ یہ کام بغیر کسی بڑے مالی بوجھ کے ہو سکتا ہے۔پروفیسر سیّد محمد سلیم مرحوم نے بغیر ماہرین کی کسی ٹیم کے، بہت سے علمی کام کیے۔ یہ کام آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام طویل عرصہ سے مؤخر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔اس قابلِ عمل کام کے لیے قوتِ فیصلہ، ارادے کی پختگی، اجتماعی مشاورت اور آغاز کی ضرورت ہے۔
تیسرا اہم سبب جو دوسرے سبب سے وابستہ ہے دین اور دنیا میں تفریق کا بیرونی اور غیراسلوبی تصور ہے ، جسے دینی اور غیر دینی دونوں طبقات میں بااثر افراد نے نہ صرف قبول کر لیا بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا۔ چنانچہ عبادات کا اہتمام اللہ تعالیٰ کا حق قرار پایا اور سیاست، تعلیم ، معاشرت، ثقافت وغیرہ میں مرغ بادِنما کی طرح زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنے کا طرزِعمل اختیار کیا گیا۔
اس ذہنی پس منظر میں دنیا کو ترجیح دینا اور دین کو محض مذہبی رسومات یا تہواروں تک محدود کر نا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رسمی مذہبیت ہی کو اسلام سمجھ بیٹھا۔ قرآن و سنت سے لاعلمی اور پیری مریدی کے ذریعے نجات حاصل کرنا، جاہل عوام کا نہیں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب پلٹ دانش وروں کابھی مسلک بن گیا۔خود دینی فکر کے حامل طبقات بھی اس دورُخی کو عملاً اختیار کرنے کے سبب زندگی کے دوخانوں پر اظہارِ خیال کرتے رہے اور چند علما اور اہل فکر کو چھوڑ کر دین داری اور دنیاداری دونوں کی آمیزش کو اچھی ’مسلمانیت‘ سمجھ لیا گیا۔
ان حالات میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے براہ راست قرآن و سنت پر مبنی تصورِ دین کو متعارف کرانے کا فریضہ سرانجام دیا اور ان کے انقلابی لٹریچر نے مسلم دُنیا ہی نہیں پوری عالمی سطح پر اسلام کے ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے اور مسلم اُمت کے مقصد وجود کو اقامت دین، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا میدانِ عمل مقرر فرمایا، جس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنی جاسکتی ہے۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال نے توحید کی وضاحت کرتے ہوئے دین کی ہمہ گیریت اور دین و سیاست کی تفریق کو اپنے شعر اور خطبات کے ذریعے مغربی تعلیم یافتہ افراد تک پہنچایا۔ اور ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ کی آواز بلند کی۔
آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی طرح تجدید ِفکر کے کام کو بنیادی اہمیت دی جائے اور چار سطح پر دین کی بنیادی تعلیمات کو متعارف کروایا جائے ۔ اول: لادینیت اور دہریت پر اعلیٰ تنقیدی ، غیر معذرت پسندانہ انداز میں انگریزی اور اردو میں سلسلۂ مضامین کو پڑھے لکھے افراد تک پہنچایا جائے ۔ دوم: دین کے جامع تصور کے پیش نظر ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر اسلام اور لادینیت اور دہریت پر علمی تبادلۂ خیال کے لیے ہر ماہ دونشستیں منعقد کی جائیں ۔ اس نوع کی نشستوں میں شرکا بھر پور تیاری کے ساتھ شریک ہوں، نیز ایسی نشستوںمیں موضوعات کے ایسے ایک یا دو ماہرین کو شامل کیا جائے جو ان موضوعات پر مہارت رکھتے ہوں اور علمی حلقوں میں پہچانے جاتے ہوں ۔
اس علمی سلسلے کو بہترین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، اور اس عمل میں تحریک اسلامی سے باہر کے ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے جو موضوع سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ اس عمل کو بہ تدریج آگے بڑھانے سے تحریک کے اندر اور باہر سے اہم علمی موضوعات پر مضبوط اور یکساں آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی ۔ثالثاً: تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی کے تحت ماہانہ مطالعاتی حلقے (Study Circles) منعقد کیے جائیں جن میں نہ صرف مولانا مودودی بلکہ دیگر علما اور مغرب کے معروف نمایندہ افراد کی فکر کو براہ راست مطالعہ میں لایا جاسکے ۔ اس مشق سے نوجوانوں میں عصری موضوعات کو سمجھنے اور مولانا مودودی کی پیش کردہ اسلامی فکر کی روشنی میں جدید نظریات کے محاکمے اور علمی دانش میں اضافہ اور گفتگو کی صلاحیت پروان چڑھ سکے گی۔
ان خطوط پر تعمیر سیرت و کردار کے ذریعے ایک نئی باشعور مسلمان نسل کو دورِ جدید کے دہریت، الحاد اور لادینیت کی یلغار کا مثبت طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ کام اسلام کے قرآنی اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی تصور کی روشنی میں قابلِ فہم ابلاغ کے ذریعے انجام پائے گا۔
قرآنِ کریم اہلِ علم اور لاعلم افراد میں نمایاں فرق کرتا ہے اور حصولِ علم کو تفہیم دین کے لیے ایک اہم فریضہ قرار دیتا ہے ۔ پہلی وحی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ پڑھنا اور قلم کا استعمال کرنا دعوت دین و تفہیم دین کا زینہ ہے :
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۵ۭ (العلق۹۶:۴-۵)جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے آگاہ نہ تھا تاکہ وہ اس علم کو قول و عمل دونوں ذرائع سے دوسروں تک پہنچا سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل تمام انبیا ـؑ کے مبعوث کیے جانے کے مقاصد میں تعلیم ، تذکیر ، تزکیہ کو بنیادی مقام دیا گیا ہے۔ اور یہ امر بھی نبوت کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ دین سربلند ہو اور بالآخر غالب ہوکر رہے:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۱۶۴ ( اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے (سنوارتا ہے)اور ان کو کتاب اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
ہر صاحب ِایمان کو بلا تفریق جنس اور عمر یہ دعا سکھائی گئی تاکہ ان میں اللہ کی خشیت میں اضافہ ہو ، گویا علم اللہ کی خشیت پیدا کرتا ہے:
اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (الفاطر ۳۵:۲۸) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔
اہل علم سے سوالات کے ذریعے دین کا علم حاصل کرنا ایمان کی صفت قرار دیا گیا:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ (النحل ۱۶:۴۳)سو، اگر تمھیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔
اس حوالے سے جامعات میں نہ صرف معاشرتی علوم بلکہ اطلاقی علوم کے اُن ماہرین کو تلاش کیا جائے، جو تحریک سے وابستگی نہ ہونے کے باوجود اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، نیز بنیادی اخلاق پر عمل پیرا ہوں ۔ ایسے افراد ہر جگہ موجود ہیں۔ صرف ان تک رسائی اور انھیں تحریک دے کر ایک علمی تربیتی ماحول سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ افراد جامعات میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، اساتذہ کے احترام میں کمی ، علم کو محض مالی فائدہ کے لیے استعمال کرنے اور مغرب سے مرعوبیت کے رجحانات کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے مثبت طور پر غالب کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ کام تحریک سے وابستہ افراد سب سے بہتر کرسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف ترجیحات کی درستی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا مودودی نے تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کو اولیت دی۔ اس کے ساتھ اسلامی فکر اور احکام کے ذریعے معاشرے میں امن و انصاف کے نظام کے قیام کا حکم دیا گیا ہے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج الحدید ۵۷:۲۵)۔ تحریک میں جب تک ان امور کو ترجیح نہیں دی جائے گی ، اس وقت تک تعلیم و تحقیق کے متحرک ادارے وجود میں نہیں آسکیں گے اور اسلامی بنیادوں پر تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
نہ صرف اہل علم بلکہ ہر مسلمان پر بلا تفریق جنس اور عمر اور خصوصاً ان باشعور افراد پر جو دین کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک تحریک سے وابستہ کریں، یہ فریضہ عائد کر دیا گیا کہ وہ شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بن کر اپنے عمل اور علم کے ذریعے اسلام کی عالم گیر تعلیمات کے نفاذ کےلیے استقامت کے ساتھ ہرممکنہ ذریعے سے جدوجہد کریں :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس فریضہ کو مزید وضاحت سے اس گروہِ اہل ایمان کے سپرد کر دیا گیا جو اعلائے کلمۃ الحق کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہو :
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۰۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے ، وہی فلاح پائیں گے۔
اتنی واضح ہدایات کے بعد اگر معاشرے میں دین کی بنیادی تعلیمات و عقائد سے لاعلمی پائی جائے،تو اس کی بڑی ذمہ داری اس گروہ پر ہے جو دین کی بنیاد پر منظم ہوا ہو ۔ گویا دین کی تفہیم اور بنیادی عقائد توحید ، رسالت اور آخرت سے آگاہی کے ساتھ اپنے معاملات کو کھرا ، سچا اور اپنی دعوتِ حق کا نمایندہ بنا کر ہی کوئی اسلامی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ تحریک سے وابستہ افرادکو توازن ، نرم گفتاری اور مخالفین کے لیے بھی عدل و انصاف کے رویوں کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ قرآن تقاضا کرتا ہے کہ ہم ذات برادری ،شخصیات ،نسلی ، لسانی ، تنظیمی ، سیاسی تعصبات سے بالا تر ہوکر ہر طرح کے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ آواز بلند کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚۚ (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو ، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ زبان سے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف دعوے کرنا اور عملاً معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف سماجی و سیاسی ظلم اور ناانصافی کے واقعات پر خاموشی اختیار کرنا، قول و فعل کے تضاد کے مترداف ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔
قرآن کریم نے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو قول و فعل میں یکساں ہواور مسلسل دعوت و اصلاح کا جامع کام کرے ۔ وہ جماعت قرآنی حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی بجاآوری کے لیے مسلسل متحرک ہو اور منظم انداز میں حکمت اور تدبر کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائے۔
تحریک اسلامی اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کسی اور گروہ کے مقابلے میں زیادہ جواب دہ ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا تحریک آج کے دور کی زبان میں نوجوان نسل کے لیے دین یعنی قرآن و سنت کے پیغام اور اس کی تفہیم کے کام کو ترجیحی بنیاد پر کر رہی ہے؟ اگر وہ معاشرتی اصلاح ، معاشی اصلاح ، اور اداروں کی اصلاح چاہتی ہے، تو کیا ترجیحات میں سب سے اول ترجیح دعوت الی اللہ ہے یا بعض عصری مطالبات اسے مشغول رکھے ہوئے ہیں؟جس کے منفی اثرات بنیادی دعوتی کام پر پڑ رہے ہیں۔
ایک مسلم ملک میں جس کا دستور اس کی عدلیہ ، مقننہ ، ریاست اور تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کرتا ہو کہ وہ اپنے عوام کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کرے، ملک میں قرآن و سنت کے نظام معیشت ، معاشرت ، صحافت ، ابلاغ عامہ، تعلیم ، عدلیہ غرض ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کرے۔ دیکھنا ہوگا کہ دستور کی اس شق پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں___ اگر نہیں تو اس کے لیے کون سے دیگر دستوری ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے ریاست ملک کی ۹۷ فی صد مسلم آبادی کی دستوری ضرورت کو پورا کر رہی ہے یا ۳ فی صد اقلیتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ۹۷ فی صد اکثریت کےقرآن و سنت سے آگاہی کے حق کو نظرانداز کیا جارہا ہے؟
چار سالہ ڈگری پروگرام میں سرکاری تعلیمی اداروں میں محض دو کریڈٹ گھنٹے یعنی ہفتہ میں ایک مرتبہ یا اس سے بھی کم ’اسلامیات‘کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں معاشرتی علوم یا دیگر تجرباتی علوم جن کی بنیاد میں لادینی فکر موجود ہے، وہ ۱۲۵ تا ۱۳۰ تعلیمی گھنٹوں میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائے جارہے ہیں، کیا اس طرح ریاست نوجوان نسل کو قرآنی پیغام سے آگاہی کی دستوری ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکتی ہے؟ اور کیا تحریک سے وابستہ افراد بھی اس کا احساس رکھتے ہیں اور اس پر کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
قرآن کریم اسلامی ریاست کو ( جو دستوری طور پر پاکستان ہے) اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلام کے معاشی نظام (زکوٰۃ) اور نظام عبادات (صلوٰۃ) کو حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ کرے ۔ کیا اس آئینی و دستوری تقاضے کی تکمیل کے لیے ہم ریاست کو اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں؟ آئین کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور جدید تعلیم یافتہ دینی طور پر باشعور اور متحرک افراد کے ساتھ مسلسل مشاورت اور مکالمہ کے عمل کے ذریعے دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲:۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز (کا نظام) قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے (حلال معیشت کے قیام کے ذریعے)، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں قرآن کریم نے یہ بات دوٹوک انداز میں واضح کر دی ہے کہ اہل ایمان میں سے جس گروہ کو بھی زمین میں اقتدار دیا جائے، تو وہ نہ صرف اسلام کے نظام عبادات ( نماز اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام) پر اس کی روح کے مطابق عامل ہوگا بلکہ معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھلائی ، پاکیزگی ، حیا کی اشاعت و قیام اور بے حیائی، عریانی و فحاشی، بدگوئی ، جھوٹ ، الزام تراشی ، منکر اور برائی کے تمام مظاہر کو حکومتی اور اداراتی اختیارات کے ذریعے ختم کرے گا ۔ دوسری جانب محض ریاستی اور اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہر فرد اپنے گھر کا سربراہ ہے اور اہل خانہ کے امور کانگران ہے ۔ علاوہ ازیں جو فرد کسی ادارے ، دفتر یا کسی بھی سطح کا ذمہ دار ہے، تو اس کی ذمہ داری بھی ایسی ہی ہے جیسا کہ حکومت عوام کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح وہ فرد بھی اپنے گھر ، دفتر ، ادارہ و دیگر کے بارے میں اللہ ربّ العزت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی بات کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہرشخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(صحيح ، متفق علیہ)
اس غرض کے لیے ایک طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو ذرائع موجود ہیں ان کا استعمال کیا جائے ۔
یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کو ذمہ داری سے ادا کیے بغیر ہم الحاد ، مادیت ، لادینیت اور دین و دنیا میں تفریق سے غیر توحیدی تصور کی اصلاح نہیں کر سکتے ۔یہ وہ فریضہ ہے جسے اقامت دین اور کلمۂ حق کے قیام کے عنوان سےقرآن کریم نے پکارا ہے اور جس کی ادائیگی کے لیے ’خیراُمت ‘ کو پیدا کیا ہے۔
ہمیں جو ’امت وسط‘ بنایا گیا ہے ، اس کی وجہ ہماری نسل ، رنگ ، زبان نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کے باب میں ہے۔ اس غرض کے لیے ہرکلمہ گو کو آگے بڑھ کر عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم، معیشت ، سیاست ، ثقافت ، ابلاغِ عامہ، ہر شعبۂ زندگی کی ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم کی تدوینِ جدید اور بغیر دُنیاوی معاوضے کے، ایک صالح نظام معاشرت ، معیشت و سیاست کے قیام کے لیے افرادِکار کی تیاری کو ترجیحی بنیاد پر کرنا ہو گا۔ نوجوان ہمارا اصل اثاثہ ہیں ۔ اگر یہ کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ۱۰فی صد افراد جو دینی تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کے سبب الحاد کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ افراد بھی جو دین کی لاعلمی کا شکار ہیں، انھیں قرآن پاک اور سیرت نبویؐ کے زیر سایہ لا کر پاکستان کے فعال ، تعمیری اور متحرک افراد میں تبدیل نہ کیا جاسکے ۔ اللہ ہمیں اقامت دین کی اس عظیم ذمہ داری کو احسن انداز میں سمجھ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!