ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا: يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔ خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔ کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔
مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔
پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔
تقریباً چھے صدیوں پر محیط عثمانی خلافت میں جہد مسلسل، عدل و مساوات اور اخلاص و مؤاخات کے اصول غالب رہے تو سلطنت وسیع، مضبوط اور خوش حال تر ہوتی چلی گئی۔ لہوولعب، اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں اور اپنوں کو نیچا دکھانے کے لیے دشمنوں سے سازباز ہونے لگی تو تباہی اور ہلاکت مقدر بن گئی۔ آج سے۱۰۰ سال قبل جب ایک طرف عثمانی خلافت زوال کے دھانے پر تھی، تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے دل میں ’اسرائیل‘ کے نام سے ایک زہریلا خنجر اتارا جارہا تھا۔ ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی طاقتیں مصر و حجاز سمیت کئی علاقوں میں ترکوں سے نفرت و حسد اور عرب قومیت کا تعصب اُبھارنے میں لگی ہوئی تھیں۔
عثمانی خلافت کے خلاف اس پوری تحریک میں بہت سی عرب شخصیات اور کئی برطانوی شہ دماغ پیش پیش تھے۔ مشرق وسطیٰ میں سرگرم ان برطانوی شخصیات میں عسکری جلاد لارڈ ہربرٹ کچنر، معروف سفارت کار آرتھر ہنری مک ماہن اور خطرناک جاسوس لیفٹیننٹ تھامس ایڈورڈ لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ کچنر پہلے مصر اور پھر برصغیرپاک و ہند میں کمانڈر انچیف رہا۔ مصر تعیناتی کے دوران برطانوی تسلط سے نجات کے لیے مہدی سوڈانی کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی کو ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اسی سفاک انسان نے ہزاروں مسلمان شہید کیے تھے۔ برصغیر میں قیام کے دوران بھی برطانوی سامراجی افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے مظالم کی داستان رقم کی۔ اسی نے مصر اور حجازکے مقامی حکمرانوں کے دل میں عثمانی خلافت کے خلاف بیج بوئے۔ بالخصوص شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے چار بیٹوں کو لالچ دیا کہ خلافت عثمانیہ کے مقابل برطانیا کا ساتھ دو تو ہم اس پورے علاقے کا اقتدار آپ کے نام کردیں گے۔
سر ہنری مک ماہن نے اس خفیہ گٹھ جوڑ کو عمل میں بدلنے کے لیے مسلسل تجدید ِعہد کا اہتمام کیا۔ ہر مرحلے پر نئے اہداف دیے۔ لالچ کی آنچ میں مسلسل اضافہ کیا، اور خلافت عثمانی کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی۔ شریف حسین اور ماہن کی یہ تاریخی مراسلت عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں کا ایک ایک خط نمونے کے طور پر پیش ہے۔ ۱۴ جولائی ۱۹۱۵ کو لکھے گئے ایک خط میں شریف مکہ، مک ماہن کو اپنی وفاداری کا یقین دلواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’… میں آپ اور آپ کی حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماری راے عامہ کے بارے میں کوئی فکر مندی نہ کریں۔ ہمارے عوام مشترکہ اہداف کی آب یاری کے لیے آپ کی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر درخواست کرتے ہیں کہ: ’’میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مصری ذمہ داران کو اس بات کی اجازت دے دیجیے کہ سرزمین مقدس مکہ و مدینہ کے لیے اپنے تحائف بصورت گندم، جو گذشتہ سال سے روک دیے گئے تھے، دوبارہ بھیجنا شروع کردیں۔ اس سال کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کے تحائف بھی بھیجنا ہمارے مشترک مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت مفید ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میری یہ بات آپ جیسے ذہین شخص کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
پھر یاددہانی کے طور پر پانچ اہم نکات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چونکہ عربوں کا مفاد اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے بجاے برطانیا سے ملنے والے تعاون کو ترجیح دیں، اس لیے تمام عرب عوام، حکومت برطانیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
خط کے آخر میں لکھا گیا کہ: ’’ہمارے درمیان یہ مراسلت معتمد علیہ خصوصی نمایندے کے ذریعے ہی ہوگی، اس لیے ہمارے نمایندے کو اپنا کارڈ دے دیجیے تاکہ اسے آپ تک پہنچنے میں آسانی رہے‘‘۔
جواب میں شریف مکہ کے نام ہنری مک ماہن کا خط بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ تعریف و ستایش اور چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:
اعلیٰ نسب، فرزند اشراف، تاج افتخار، یکے از شاخ شجرہء محمدی و أحمدی و قرشی۔ صاحب مقام بلند، سید ابن سید، شریف ابن شریف، جناب کل، امیر قبلہ عالم مکہ مکرمہ، اہل ایمان و اطاعت کے مرکزِ اُمید، عزت مآب جناب حسین الشریف آپ کی برکات تمام انسانوں کو عطا ہوں۔ دلی اعتراف و محبت اور کسی بھی شک سے پاک مخلصانہ اور قلبی آداب کے بعد میں آپ کی جانب سے موصول ہونے والے مخلصانہ جذبات اور انگریزوں کے بارے میں نیک احساسات پر، آپ کا شکریہ ادا کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ امر بھی انتہائی باعث مسرت ہے کہ آپ اور آپ کے مردانِ کار یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عربوں کے مفادات بھی وہی ہیں، جو انگریزوں کے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میںآپ کے نمایندہ علی افندی کے ذریعے پہنچائی جانے والی عزت مآب لارڈ کچنر کی پیش کش کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ اس پیغام میں ہماری اس خواہش کی تائید کا اظہار کیا گیا تھا کہ عرب ممالک کو (ترکوں سے) آزادی ملنا ضروری ہے۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کی جانب سے عرب خلافت کا اعلان کیے جانے پر ہم فوراً اس کی تائید کریں گے۔ یہاں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ عزت مآب شاہ برطانیا عظمیٰ بھی مبارک شجرہء نبویہ کے ایک عرب فرزند کے ہاتھوں خلافت کے حصول کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہا معاملہ [آپ کی خلافت کی] حدود کے تعین کا، تو یہ بات ذرا قبل از وقت ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب جنگ ابھی جاری ہے، (آپ کی خلافت کے لیے مجوزہ) علاقوں میں سے اکثر علاقے بدستور ترک قبضے میں ہیں۔ ایسے وقت میں عرب خلافت کی سرحدوں کے تعین پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں اس امر پر بھی بہت دکھ اور تشویش ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی عرب ابھی تک اس سنہری موقعے کی اہمیت سے غافل رہ کر اسے نظرانداز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے قیمتی موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ ہماری مدد کرنے کے بجاے جرمنوں کی طرف دست ِتعاون بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس نئے چور اور ڈاکو، یعنی جرمنی کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ظالم ’ڈکٹیٹر‘ یعنی ترکی کی طرف بھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم آپ جناب عالی اور مقدس سرزمین عرب اور محترم عرب قوم کو سرزمین مصر سے ملنے والے غلہ جات اور صدقات ارسال کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے اس کے لیے تمام ضروری انتظامات کردیے ہیں، آپ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی آپ کے مقررہ وقت و مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ آپ کے نمایندگان کے ہم تک پہنچنے کے لیے بھی سب انتظامات کردیے گئے ہیں۔ ہم دل و جان سے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
اختتام پر پھر تعریف و توصیف کے مزید مبالغہ آمیز جملے اور آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۹شوال ۱۳۳۳ھ/ ۳۰ ؍اگست ۱۹۱۵ اعلیٰ حضرت بادشاہ برطانیا کا نائب، آپ کا مخلص، سر آرتھر۔
باہم مراسلت کے ان دو خطوط پر کچھ تبصرہ بعد میں کرتے ہیں، پہلے تیسرے اہم کردار کا ذکر۔ یہ صاحب تھے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیا (پ: ۱۸۸۵ء- م: ۱۹مئی ۱۹۳۵ء)۔ اس کے والد کی ایک پرانے خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست شخصیت کی مالک اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ علیحدگی کی وجہ موصوف کی اپنی ملازمہ سے قابلِ اعتراض دوستی تھی۔ بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ شادی کے بغیر ہی ملازمہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے: بوب، تھامس، ویل، فرینک اور آرنولڈ۔ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران استاد نے فرانس کی عسکری تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کا کہا تو اپنے مضمون سے عشق کی حد تک دل چسپی رکھنے والا تھامس موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ علاقوں تک پہنچا۔ اس دوران راستوں، آثارِ قدیمہ اور علاقوں کی اہمیت سے اس کی دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ بعد ازاں عراق اور شام کے علاقوں میں سیاحت و مطالعے اور آثار قدیمہ کی تلاش کے نام پر نکلا اور پورے علاقے کا چپہ چپہ نقشوں اور ذہن میں اُتار لیا۔
جرمنی نے خلافت عثمانیہ سے تعلقات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں برلن سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا تو لارنس کو یہ منصوبہ خطے میں برطانوی مفادات کے لیے بڑا خطرہ دکھائی دیا۔ وہ اس وقت شام کے علاقے میں تھا، فوراً مصر پہنچا۔ لارڈ کچنر تک رسائی حاصل کی اور جرمن منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی تجاویز دیں۔ لارنس اس دوران میں عربی زبان پر مکمل قدرت حاصل کرچکا تھا، شامی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ علاقے میں عثمانی عسکری مراکز کو اپنی ہتھیلی کی لیکروں کی طرح جانتا تھا۔لارنس کو برطانیا کے لیے اہم جاسوس کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسے شریف مکہ او راس کے چاروں بیٹوں: عبداللہ، فیصل، زید اور علی تک بھی پہنچا دیا گیا۔ لارنس ایک شامی مسلمان کے روپ میں خطے میں بلاروک ٹوک فعال ہو گیا۔ معلومات کی فراہمی کے علاوہ اس کے سپرد اصل کام مختلف قبائل کے سرداروں کو خریدنے، علاقے میں جاسوسی کا جال پھیلانے اور علاقائی حکمرانوں کو مٹھی میں لینا تھا۔
لارنس نے اس زمانے کی اپنی یادداشتSeven Pillars of Wisdom (حکمت کے سات ستون) کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ چشم کشا ڈائری انتہائی دل چسپ اور گاہے مبالغہ آمیز تو ہے، لیکن اس دور کا پورا نقشہ سامنے لے آتی ہے۔ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مسلسل شائع ہورہی ہے۔ ابلیس اور انگریزوں کے اصل ہتھیار ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی عملی داستان کے علاوہ حکمرانوں کی حماقتوں اور لالچ کی تفصیل بھی بتاتی ہے۔ لارنس علاقے میں برطانیا کے لیے اصل ایجنٹ کی تلاش میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کی شخصیات کا بھی مکمل تعارف کرواتا ہے۔ خود شریف مکہ اور اس کے بڑے بیٹے عبداللہ سے قدرے مایوس ہوا، لیکن تیسرے بیٹے فیصل بن حسین میں اسے اپنا ’گوہر مطلوب‘ دکھائی دیا۔ کئی اہم مواقع پر اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ لارنس نے پورے علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کروایا۔ کئی کارروائیوں کی قیادت خود کی۔ بالخصوص حجاز تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے ترک خلافت ِ عثمانیہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس نے اپنی نگرانی میں کئی بار پٹڑی اور درجنوں پل تباہ کرائے۔ ان کارروائیوں کی باریک تفاصیل تک اس کتاب میں درج ہیں۔
کئی اہم مواقع پر شہزادے فیصل بن حسین کا رفیق سفر ہونے کے ناتے اس کی شخصیت کے بارے میں کئی دل چسپ حقائق بھی لکھے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ شہزادے کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اس نے خود اپنی فوج سمیت کسی پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہونے دی۔ مالی مشکلات کا راز فاش ہوجاتا تو خدشہ تھا کہ کئی قبائل سمیت خود فوج کے کئی عناصر ساتھ چھوڑ جاتے۔ اپنی مال داری اور شہزادگی کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے قافلے کے کئی اونٹوں پر پتھروں سے بھرے صندوق اور بورے لدوا رکھے تھے۔ ان کی خصوصی حفاظت کی جاتی تھی۔ کہیں پڑاؤ ڈالنے پر محفوظ خیموں میں اتار کر سخت پہرا دیا جاتا تھا۔ لشکر کو یہی بتایا گیا تھا کہ اس میں شہزادے کا خصوصی خزانہ ہے، لیکن وہ جنگی حالات کے باعث انتہائی کفایت بلکہ کنجوسی سے کام لیتا ہے۔
ان بھیانک کرداروں کی بداعمالیوں اور کج فکری کا یہ مختصر ذکر آج کے حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات میں بھی بہت مشابہت ہے اور کرداروں میں بھی۔ ۱۰۰ برس پہلے لارڈ کچنر تھا، آج امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کوچنر ہے۔اس وقت بھی وسیع و عریض مسلم علاقوں کی بادشاہت عطا کرنے کا لالچ تھا، آج بھی مختلف ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک بنادینے کا وعدہ ہے۔ سوسال قبل عالمی قوتیں برطانیا کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے، خطے کی بندربانٹ کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ قبضہ اور سرزمین فلسطین کی جگہ ایک ناجائز صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی، آج سوسال بعد اس ناجائز ریاست میں توسیع اور اس کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ہدف ہے۔اس مقصد کے لیے خطے کے اکثر ممالک کو خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پر فتنہ و انتشار کا شکار کیا جارہا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ خطے میں مسلم ممالک کے مابین مزید جنگوں کے بگل بجائے جارہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ تیل کی تنصیبات اور تیل سپلائی کے عالمی راستوں کو معلوم اور نامعلوم حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام، عراق، یمن ، لیبیا اور افغانستان کے بعد امریکا خطے کو ایک نئی خلیجی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی قرائن اور مغربی ذرائع ابلاغ ابھی اس جنگ کا ہونا یقینی نہیں دیکھ رہے، لیکن جنگی ماحول میں یقینا تیزی لائی جارہی ہے۔ اس ماحول کی آڑ میں اخراجات کی ادایگی کے تقاضوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکے گا، اور اسی ماحول کی آڑ میں خطے کے لیے نیا امریکی و صہیونی منصوبہ بھی نافذ کیا جاسکے گا۔
امریکی صدر کے یہودی داماد نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ: مشرق وسطیٰ کے بارے میں تیار کردہ صدی کے سب سے بڑا منصوبے ’Deal of the Century ‘ کا اعلان جون ۲۰۱۹ء میں (یعنی ماہ رمضان کے بعد) کردیا جائے گا۔ خود مختلف صہیونی اور امریکی اخبارات کے ذریعے اس منصوبے کی کئی تفصیلات اب تک عام کی جاچکی ہیں۔ کئی پہلوؤں پر عمل درآمد شروع بھی کیا جاچکا ہے۔امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقوں (گولان) کو اسرائیلی علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ وسیع تر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جاچکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین، اُردن، سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں میں تبدیلی کے عندیے دیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو ہوش ربا دولت کا لالچ دیتے ہوئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے ’احکام سنائے‘ جارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا، لیکن بامعنی اشارے، بیانات اور اقدامات بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔
اس پورے منصوبے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلۂ اول سے دست بردار کروا دینا ہے۔ اور اس کے نظریاتی و تہذیبی اہداف میں دین کا وہ مخصوص تصور رائج کروانا ہے، جو عالمی صہیونی نظام اور بے خدا تہذیب سے ہم آہنگ ہو۔
مختلف مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ایسے افراد کو نمایاں کیا جارہا ہے، جو سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں ہی نہیں، خود قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کا زہر کاشت کردیں۔ کئی اہم عرب ریاستوں کے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والی بعض شخصیات اس ضمن میں بہت دریدہ دہن ہیں۔ انھوں نے صحیح بخاری کو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نئے سرے سے اور بڑی شدومد سے انکارِ سنت کی ایک نئی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن کریم، روزِآخرت اور یوم محشر کے بارے میں مضحکہ خیز اعتراضات کا چرچا کیا جارہا ہے۔ صحیح الفکر اسلامی تحریکوں اور ان کے جلیل القدر رہنماؤں پر ’دہشت گردی‘ کے لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں۔ خود پاکستان میں بھی ایک مخصوص معذرت خواہ فکر اور گروہ کو طرح طرح سے میڈیا پر نمایاں کیا جارہا ہے۔
مصری آمر جنرل سیسی نے اپنے حالیہ دورئہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے اس کی ایسی ہی ایک کوشش برطانیا میں ناکام ہوچکی ہے۔ خود کئی امریکی دانش ور اور قانونی تجزیہ نگار ایسے کسی اقدام کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حماقت کا باعث مسلم حکمران ہی بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم عرب ملک کے برقی اخبار کے پورے صفحے پر ۴۰ ’دہشت گردوں‘ کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اخبار سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس وقت سرپیٹ کر رہ گئے، جب انھوں نے ان تصاویر میں سرفہرست فلسطینی قوم کو نئی روح عطا کرنے والے شیخ احمد یاسین شہید اور صاحب ِ تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت اُمت کے کئی علماے کرام کی تصاویر دیکھیں۔ اخبار نے اگلے ہی روز یہ صفحہ حذف کر دیا، لیکن نامۂ اعمال کی سیاہی مستقل طور پر اپنے نام کرلی اور اپنے آقائوں کی سوچ بھی بے نقاب کردی۔
تقریباً ہرمسلمان ملک میں ایک طرف نمایاں ترین علماے کرام کا استہزا اُڑاتے ہوئے انھیںعوام میں بے وقعت بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ دوسری جانب ایسی ایسی ہستیوں کو ’علما و فقیہان‘ کے لبادے میں پیش کیا جارہا ہے کہ علم و عمل سے جن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ہر سطح کے نصاب تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور ابوابِ سیرت و سنت حذف کروائے جارہے ہیں،جن میں اللہ، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ایسی آیات اور احادیث جن میں کفار و منافقین اور جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار کیا گیا ہے، ان کو نعوذ باللہ نفرت آمیز مواد(Hate Material ) اور نفرت پر مبنی خطاب (Hate Speech )کا درجہ دیتے ہوئے ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ یہ آیات و احادیث نصاب تعلیم سے خارج کروائی جارہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے یہودیوں کی سازشوں اور ان کے عالمی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والے اہل علم اور مفسرین قرآن کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان سمیت جن ممالک کی جانب سے ریاست یا عوام کی سطح پر اعتراض و احتجاج کا خدشہ ہے، انھیں بدترین اقتصادی بحرانوں کے ذریعے قابو کیا جارہا ہے۔
خطرہ صرف دشمن کے اس بھیانک منصوبے اور اس کے ہمہ گیرمہلک اثرات ہی سے نہیں، خود اسلام کے نام لیوائوں سے بھی ہے۔ عین اس موقعے پر کہ جب پوری دنیا کی عیسائی برادری اپنا اہم مذہبی تہوار منا رہی تھی، چند مسلمان نوجوانوں نے سری لنکا کے چرچوں اور ہوٹلوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل اور زخمی کر دیا۔ اس مجرمانہ کارروائی سے پہلے نیوزی لینڈ کی دومساجد میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ۵۰نمازی شہید کردیے گئے تھے۔ اس عظیم سانحے اور نیوزی لینڈ حکومت کے مثبت اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی۔ سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی نے یہ ساری ہمدردی نفرت کی نئی لہر میں بدل دی۔ مسلمان جو کشمیر اوراراکان سے لے کر افغانستان و فلسطین تک، ہرجگہ خوف ناک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ایک بار پھر قاتلوں اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ان واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے اسی ماہِ رمضان المبارک میں سری لنکا کی درجنوں مسلم آبادیوں، دیہات اور مساجد کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اب ایک طرف یہ سارے منصوبے ، عالمی قوتیں اور ان کے علاقائی آلۂ کار ہیں، اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت رکھنے والی ایک پوری نسل ایسی ہے،جو قبلۂ اول کو اپنے نبیؐ کی امانت سمجھتی ہے۔ جو اس امانت میں کسی صورت اور کسی طرح کی خیانت کو ایمان کے منافی سمجھتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھی غزہ میں بسنے والے ان نوجوانوںنے صہیونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ صہیونی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے اپنے بنائے ہوئے میزائل چلائے، لیکن ایسے مؤثر کہ جارح افواج کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی۔
قرآن کریم بھی اپنے ابدی اور سدابہار اصول بار بار تازہ کر رہا ہے۔ سورۂ فاطر میں ہے: ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔ (فاطر ۳۵: ۴۳)
نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:
اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔
ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔
انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔
موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔
دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔
جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔
ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟ کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔
بیسویں صدی کی عالم گیر تحریک ِ احیاے اسلامی کے اصل معمار اللہ کے تین برگزیدہ بندے ہیں: ۱- علّامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء] ۲- حسن البنا شہید [م:۱۹۴۹ء] ۳- سیّدابوالاعلیٰ مودودی [م: ۱۹۷۹ء]۔
اس دور کے فکری،تہذیبی اور سیاسی رجحانات کے فہم کی اصل کلید، ان شخصیات کے افکارو خیالات اور اُن کے نظریاتی، اخلاقی،سماجی اور سیاسی اثرات کا معروضی مطالعہ اور تفہیم ہے۔ آج کا تجزیہ نگار اور کل کا مؤرخ ان تاریخ ساز شخصیات اور اُن کی برپا کردہ تحریکات کے آئینے میں اُمت اسلامیہ کی اصل تصویر دیکھ سکتا ہے۔
تاہم، یہاں پر اسلامی مقدمۃ الجیش علّامہ اقبال کے فکری اور تہذیبی کارنامے کے بارے میں کچھ معروضات پیش ہیں:
اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی کے بعد مرتب ہونے شروع ہوئے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی رُوح پرور شرکت نے نہ صرف فکرِ اقبال کے نئے دور کا آغاز کیا ، بلکہ اسی سے ان کی ملّی زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح بھی ہوا۔ اقبال نے اپنا پیغام، نظم و نثر اور زبان و قلم کے ذریعے پیش کیا اور بالآخر عملی سیاست میں شرکت کرکے تغیر اور تعمیر کے عمل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی تعمیرِ جدید، ایک غلام قوم کی آزادی اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے دورِحاضر میں اقبال نے اوّلاً اسرارِ خودیاور رموزِ بے خودی اور پھر جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے ذریعے انجام دیا۔
اسرارِ خودی میں جمود اور انحطاط کے بنیادی اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے تصوف پرجو حیات کش تصور مسلمان ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو بیان کیا گیا ہے اور نفی ذات اور ترکِ دُنیا کی جگہ اثباتِ خودی اور تعمیرحیات کا اسلامی تصور پیش کیا گیا ہے۔
اسرارِ خودی کا مرکز تصور ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان: مردِمومن کی تشکیل ہے۔
رموز بـے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا ہے،جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافت ِالٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون و شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جاوید نامہ درحقیقت شاعر کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتا ہے۔ دُنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتا ہے اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل اور افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتا ہے۔
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقمیں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کے خطرے سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے اور ترقی کی راہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں بالِ جبریل کے ولولہ انگیز تغزل میں اور ضربِ کلیم کے بے باک رجز میں، جسے اقبال نے خود ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔
اقبال کی نثر کا غالب حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں اُنھوں نے ایران کی مابعد الطبیعی فکر کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔
اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید میں پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام میں کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کی گئی ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور اُن تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز اسلامی قانون کی مثال کو لے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔
وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات، نجی گفتگوئوں اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے جن کا بیش تر حصہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔
اگرچہ اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن خصوصیت سے اس نے مسلم اُمت کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا ہے۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ دو ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کو ذریعہ بنایا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کی ضرورت محض عقل کو مطمئن کرنا نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے جس میں ملّت گرفتار تھی۔
ایک مدت سے برعظیم کی ملّت ِ اسلامیہ، انتشار ذات (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی عقیدے اور عمل میں یکسانیت اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔ عقیدہ موجود تھا مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما بھی رہا تھا تو عشق کی روشنی باقی نہیں تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی سی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے حقیقی معنوں میں دین داری کی حس مجروح ہو رہی تھی۔ اس کیفیت میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی تھی، اس کے لیے جذبے کی آگ بھی درکار تھی۔ اقبال نے جذباتی کیفیت میں انقلاب برپا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنے ابتدائی زمانے میں اس کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان کے اسلوب کو اس کام سے خاص مناسبت حاصل ہے جو تاریخ ان سے لے رہی تھی، مگر افسوس کہ وہ تسلسل قائم نہ رکھ سکے)۔
علّامہ محمد اقبال کے کارنامے کا مختصر الفاظ میں احاطہ ناممکن ہے، مگر ہم اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
قدیم و جدید کی کش مکش میں راہِ اعتدال: قدیم و جدید کی کش مکش کو اقبال ’دلیل کم نظری‘ سمجھتے ہیں۔ اُنھوں نے دونوں سے پورا پورا استفادہ کیا، مگر کسی ایک کے سامنے سپر نہ ڈالی۔ ان کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں ثبات و تغیر دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اقبال کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے راہِ اعتدال کو نمایاں کیا۔ اس نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے بھی پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں کورانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی تشکیل ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو اقبال نے اختیار کیا۔
ماضی اور حال پر تنقیدی نگاہ: اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقید ی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُنھوں نے غیراسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِحیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا، جو اسلام کی ضد تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں پراگندہ ہوگئیں اور وہ تاریخ کی اہم ترین تعمیری قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف سب سے اہم حیات کش قوت تھی، جس نے زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور مسلمانوں میں رائج کردیا۔ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا اور ترکِ دنیا، ترکِ آرزو عمل اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے اور بالآخر ’آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا ، جل گیا‘۔
اسلام کا حرکی اور انقلابی پہلو: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی اور انقلابی پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عملِ تخلیق و ارتقا جاری ہے۔ کائنات محض ایک تخلیقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس میں کُنْ فَیَکُوْنَ کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور ’جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ اور پھر کائنات کی ’تخلیق اور اَمر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خلق میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے، تو اَمر میں سمت اور منزل کی تعیین ہے۔ ہرچیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور وجود کا اساسی پہلو یہی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکیت اور مطلوب کی طرف بڑھنے کا شوقِ آرزو ہے۔ کائنات ، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اُصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے تو روح اَمر کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر، اس حرکی اصول کا تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہو جانا نہیں، بلکہ ربِّ حقیقی سے مطلوب تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان، اس کا نقطۂ آغاز ہے اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔ یہی اُصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی احیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں بلکہ اَبدی اقدار اور تمدنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار سے عبارت ہے۔ انسان اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ کائنات کی ہرشے اس اشرف المخلوقات کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ لیکن یہ انسانی زندگی فی الحقیقت کچھ اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے ہے اور یہ مقصد ہے منصب ِنیابت ِ الٰہی۔ اسلام وہ طریقہ ہے جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ اس حرکت کو صحیح سمت دیتی ہے۔ مردِ مومن اور ملت ِاسلامیہ کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنا وظیفہ انجام نہ دیں تو بگاڑ رُونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔
روحانی اور مادی تقسیم کی نفی:اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی۔ اس نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا اور اُن کی مجبوریوں اور دقتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اس نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے تناقض کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے دُور کیا جاسکتا ہے اور تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرکے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔یہ نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا اور دونوں کے امتزاج سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
مذہب کا انقلابی تصور:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے میں، اقبال نے غیرمعمولی ندرت کا ثبوت دیا۔ زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اسی سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیرِشخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابت ِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیر کائنات اور اصلاح تمدن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ خودی ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا پرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے اور مادّی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دُنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافت ِ الٰہی ہے، یہی انسان کا مشن ہے۔ اقبال نے دینِ اسلام کا یہی انقلابی تصور اُجاگر کیا اور پوری ملّت میں حرکت پیدا کردی۔
دین اور سیاست کی دُوری کا خاتمہ: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود ریاست، سیاست، معیشت اور قانون اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دُنیا کی کوئی تقسیم نہیں، بلکہ دین اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی قومیت ان کے دین ہی سے تشکیل پاتی ہے اور اُن کی ریاست، معاشرت اور معیشت دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کا رُوپ دھار لے۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیارکے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں اور پھر اس روشنی کو باقی دُنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے ’اسلام کی مرکزیت‘ کہا ہے اور اسی کے لیے ایک آزاد زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔
مغربی فکر پر تنقید اور احیاے اُمت: اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رُونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادیت، قومیت ، سرمایہ داریت اور اشتراکیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہ کہ دراصل یہی تحریکیں انسان کے دُکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنی خودی کی بازیافت اور اپنے دین کے احیا میں ہے۔ اگر اُنھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ ان کی خودی کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ ماضی کی اندھی تقلید ہے اور نہ وقت کے تقاضوں کی کورانہ پیروی، یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے جواثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیرِاخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی غلامی سے بھی نجات ہوسکے گی، اور اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی۔ پھر وہ جو زمانے کے پیرو بننے پر قناعت کر رہے ہیں، زمانے کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں گے اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔
اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا تو دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی ہے اقبال کا اصل کارنامہ، اور اسی بناپر وہ بیسویں صدی کے اسلامی تشخص کا امام اور اس میں تجدید کی روایت کا بانی ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک دور کی شناخت اور خصوصیت سے مسلمانانِ برعظیم کے جدید دور میں تحریک احیاے اسلامی کا ایک نمایاں معمار ہے۔ اس نے برعظیم کی اُمت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے میدانِ حیات میں اپنا تہذیبی اور سیاسی مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی طرف پکارا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کی انقلابی تحریک کا عنوان ہے اور میرے جیسے ہزاروں متلاشیانِ حق کے افکار و جذبات کی تہذیب میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ اقبال کے کلام کی روشنی میں کھولی اور ہمارے فکر اور جذبات کی صورت گری اس کی ضوفشانیوں کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم شاعر تھا مگر جس چیز نے شعرِاقبال کو ذہنی، فکری، احساساتی اور شعورِ زندگی کی تشکیلِ نو کی جدوجہد میں نئی رُوح پھونکنے کا ذریعہ بنایا، وہ اس کا پیغام ہے جس سے کلامِ اقبال کا ایک ایک حرف روشن اور تابندہ ہے ؎
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است
[اگر شعر کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہے تو شاعری پیغمبری کی وارث ہے]
قرآن کریم کی تعلیمات سے واضح اور قطعی ثابت ہے کہ بعثت ِ انبیا ؑ کا مقصد روے زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قیام ہے۔ جملہ انبیاے کرام نے اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کی۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عبادت ،بندگی کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر اور ہر قسم کے طاغوت،بغاوت، سرکشی ، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے مکمل اجتناب رہا ہے :
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
اللہ کی بندگی ، عبادت اور اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سپرد کر دینا ہی اسلام اور ایمان ہے ۔گویا صالح فرد، خاندان ، معاشرہ اورریاست کے قیام میں جو منطقی ربط پایا جاتا ہے، وہ اسلامی ریاست کے قیام کا منہج اور انسانی معاشرے میں معروف کے قیام اور منکر کے رفع کرنے کا اسوۂ انبیاؑ اور خصوصاًاسوۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔قرآن کریم نے اس پورے عمل کو صرف ایک اصطلاح ’اقامتِ دین‘ میں سمو دیا۔ نہ صرف حضرت یوسفؑ کے ہاتھوں قیامِ عدل و اصلاح بلکہ ہر دور میں اور ہر مقام پر دعوت،اصلاح اور معروف کے قیام کے لیے اس ایک اصطلاح میں وہ تمام پہلو شامل ہیں، جن کی تفصیل مقاصد ِشریعہ کی شکل میں ہمارے فقہا اور علما نے بیان کی ہے۔ جس کے تحت پورے دین کا قیام یا بالفاظِ دیگر قیام حاکمیت ِالٰہی ہے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۴۰(یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی (الدِّیْنُ القَیِّمُ )ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے نہ صرف اسلامی ریاست بلکہ انسانی زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ کن اور حرفِ آخر قوت کو صرف اور صرف اپنے لیے مقرر فرما دیا ہے، کہ حاکمیت سیاسی ہو یا معاشی ، دفاعی ہو یا ثقافتی اور علمی___ ہر شعبۂ حیات میں معیارِ حق صرف اور صرف یہ ہو گا کہ کیا اس بات سے رب کریم راضی ہے یا اس کی جگہ کسی اور چیز نے وہ فیصلہ کن مقام حاصل کر لیا ہے، جو صرف مقتدر اعلیٰ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔یہ توحید ذات اور توحید صفات کا جامع اظہار اور تعریف ہے۔
تصورِ توحید
قرآن کریم کی روشنی میں ’توحید‘ ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام اعمال کو متعین اور منظم کرنے والا اصول ہے۔ اگر ایک فرد اپنے خاندان میں معروف کو قائم کرنا اور منکر کو ختم کرنا چاہتاہے تو اسے سوچنا ہو گا کہ اس کے گھر میں جو رسوم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، یا ان کا تعلق جاہلیت کے طور طریقوں سے ہے، کیا وہ توحید سے مطابقت رکھتے ہیں؟ وہ شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا شوہر اور بیوی کا تعلق یا رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا رویہ ہو،ان سب کی بنیاد توحید اور اللہ کو ربّ ماننا ہے۔ کیا اپنے بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت معیارِ انتخاب تقویٰ ، حُسنِ کردار اور دین کاعلم اور اس پر عمل ہے یا لڑکے کی مادّی حیثیت، اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا ، بڑا تاجر ہونا، سیاسی رہنما ہونا یا کسی خاص برادری اور ذات سے وابستگی ہے؟اگر بنیاد محض ذات برادری سے وابستگی اور مادی بلند مرتبت ہے تو یہ توحید کی نفی ہے ۔ اگر صلۂ رحمی کی بنیاد بدلے میں فائدہ حاصل کرنا، احسان جتانا، یا لوگوں کو دکھانا مقصود ہے تو واضح احادیث کی روشنی میں اس نیت کا انجام خیر نہیں ہے ، فلاح نہیں ہے ، کامیابی نہیں ہے بلکہ ذاتی تفاخر و نمایش ہے جو توحید کی ضد ہے ۔
اگر ایک شخص کے کاروباری مشاغل کا ہدف اپنی جگہ محض قا رون بننا ہے، تو اس کی تمام کوشش و جدو جہد کا کوئی تعلق اللہ کی بندگی یا توحید سے نہیں ہے بلکہ سیم و زر اور دولت ہی اس کے ’ربّ‘ ہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص سیاسی اقتدار اس لیے حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے کہ وہ تمام انسانوں پر حکم چلائے، اس کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہ خاص الخاص سمجھا جائے، تو اس کی جدو جہد ایک انتہائی وقتی ، محدود اور ناپایدار احساس کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی عملی تعلق اس کے اس زبانی دعویٰ سے سے نہیں ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے تحقیق کردہ اورمتعین کردہ مقاصد شریعہ(امام غزالی اور امام شاطبی کے زیر اثر) جو روایتی طور پر پانچ قرار دیے جاتے ہیں اور جس میں بعد کے فقہا و علما نے مزید اضافے کیے، ان سب کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ توحید ذات اور توحید صفات ہے۔اور وہ حدیث محور ہے جو دین کے تمام معاملات کو ربِّ کریم کے لیے خالص کر دینے کی اخلاص نیت کو قرار دیتی ہے۔
تحریکاتِ اصلاح و دعوت جس بنا پر فرد، خاندان ، معاشرے اور ریاست کو مشرف بہ ایمان کرنا چاہتی ہیں، وہ یہی تصور توحید ہے کہ اللہ سبحانہٗ کی حاکمیت محض مسجد میں نہ ہو، نہ محض گھر میں ہو، اور نہ محض حرم کعبہ میں ہو بلکہ تمام انسانی معاملات کا محرک اور مقصد توحید کا قیام ہو۔ اسلام حقیقتاً دین و دنیا کی تفریق کو ختم کر کے تمام روے زمین کو اللہ تعالیٰ کی مسجد قرار دیتا ہے۔ تاکہ اخلاقِ حسنہ کی بنیاد پر تجارت ، سیاست ، معاشرت ، ثقافت، تعلیم ، علمی تحقیق اور سائنسی ترقی، غرض ہر انسانی کاوش کا مقصد بندگیِ ربّ بیان کرتے ہوئے بندگانِ رب کی فلاح ، مصالح عامہ اور ان حقوق کا تحفظ ہو جنھیں نفس، مال ،عقیدے اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہ صرف اسی وقت پوری طرح ممکن ہے جب حاکمیتِ ربّ قائم ہو، اقامتِ دین ہو اور زندگی کے ہر کاروبار سے طاغوت ، ظلم ، بے اعتدالی اور انتہا پسندی کو دور کر کے عدل اجتماعی اور امن و صلح کا قیام عمل میں لایا جائے۔ – یہ بنیادی اور جوہری تبدیلی محض دعاؤں یا تسبیحات یا جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں آسکتی۔ یہ منطقی طور پر فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست کے ایمان لانے، یعنی عملاًقرآن و سنت کو اختیار کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ یہی انبیا کرامؑ کی دعوت ہے، یہی اسوہ نبویؐ اور یہی منہج قرآن ہے۔
حاکمیت ِالٰہی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب اقتدار اعلیٰ خالق کائنات کا ہو، جمہور کا نہ ہو۔ مغربی لادینی جمہوریت کا نقطۂ آغاز حاکمیت ِجمہور ہے اور اس بنا پر وہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں نافذنہیں کی جاسکتی۔ جو نظام جمہور یا عوام کو حاکم بناتا ہے، وہ توحید کی نفی کرتا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس نظام کو احکام الٰہی کا باغی کہا جائے گا۔قرآن نے حاکمیت ِجمہور کی جگہ حاکمیت ِالٰہی اور خلافتِ جمہور کا تصور دیا ہے، یعنی اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور ان کا بنیادی فریضہ اقامت دین کے لیے اللہ کی حاکمیت کو اجتماعی کوشش سے نافذ کرنا ہے اوریہ کام باہم مشاورت سے انجام دینا ہے۔ گویا ہر صاحب ِایمان مردوزن، قرآن کریم کے حکم (البقرہ۲:۳۰) کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ لہٰذا تمام مسلم جمہور اصلاً خلیفہ فی الارض ہیں،اگر وہ ان صفات سے متصف ہیں جو خود کلام الٰہی نے بیان کر دی ہیں، پھر وہ حاکمِ کُل ، جو کائنات کا خالق اور رب ہے وہ انھیں بطورِ امانت اختیارات دیتا ہے، جو اقامت دین کے لیے ضروری ہیں۔
اقامتِ دین کا تصور جو سورۂ یوسف کی آیت میں حاکمیت الٰہی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے،یہ ہے کہ دین حق وہ ہے جو دین شاہ کے مقابلے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کو معاشرے میں نافذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم نے قوتِ نافذہ کے قیام کے حوالے سے دین کی ہر اس تعلیم کو، جسے ہم نے اپنی محدود فکر کی بنا پر کسی خاص مفہوم میں قید کر دیا ہے ، جگہ جگہ واضح فرما دیا ہے۔ اگر صلوٰۃ ہے تو محض تنہائی میں ربّ کے حضور بندگی کے اظہا ر کے لیے کسی گوشے میں کھڑے ہو کر چند رکعتوں کا ادا کر دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا باقاعدہ قیام، اُمت مسلمہ پر فرض ہے۔ اگر زکوٰۃ ہے تو وہ کسی پراحسان کرتے ہوئے مالی امداد نہیں ہے، بلکہ اس نظام کی اقامت کا نام ہے، جس میں رزقِ حلال پیدا ہو، پھر اس رزقِ حلال میں سے وہ حصہ جو اللہ نے اس رزق میں دیگر افراد کے لیے پہلے سے رکھ دیا تھا، وہ ان تک پہنچانے کا نظام قائم کیا جائے۔ اسی طرح روزہ فقط تزکیۂ نفس کے لیے اپنے آپ کو کھانے پینے سے روکنے کا نام نہیں،بلکہ پورے عالم میں جہاں کہیں اہل ایمان پائے جاتے ہوں، وہ اجتماعی طور پر روزوں کے اہتما م کے ساتھ وہ نظام تربیت قائم کریں ، جس میں جھوٹ سے اجتناب ، شہوت پرستی سے دُوری، غصے اور انتقامی جذبات کا خاتمہ ، غرض تمام فواحش سے اجتناب ہو اور تمام حسنات ، بھلائیوں ، نیکیوں ، معاشرے کے معذور افراد کی دیکھ بھال، انھیں کھانا کھلانے ، کپڑا پہنانے ، ان کی مشکلات کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو۔
اقامتِ دین محض محاسنِ اسلام پر ایک علمی مقالہ لکھنے کا نام نہیں، بلکہ دین کو مکمل طور پر تمام شعبہ جات میں نافذ کر دینے کی جدوجہد کا نام ہے، تاکہ:
وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۰ۚ (الانفال ۸:۳۹)دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔
اپنی زمین پر اپنا نظام قائم ہوتے ہوئے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ وہ اس کام کے لیے انسانوں کو اپنا خلیفہ بنا کر انھیں اعلیٰ اجر کا مستحق بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کوئی انسانی گروہ اس سے بندگی کا عہد کرنے کے بعد بھی، اس فریضے کو ادا نہ کرے تو وہ اس گروہ کی جگہ کسی اور قوم کو لاکر یہ مقصد پورا کر سکتا ہے:
اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۰ۥۙ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۳۹ (التوبہ ۹:۳۹)تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک سزا دے گا ، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا ، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اقامت دین کا واضح مفہوم قرآن و سنت کی جملہ اخلاقی تعلیمات کا نافذ کرنا ہے ، جس میں معاشی، معاشرتی ، تعلیمی ، سیاسی ، دفاعی، ثقافتی، غرض تمام ممکنہ انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔حاکمیتِ الٰہی اور اللہ کی بندگی چند مخصوص اوقات اور چند مخصوص مقامات تک محدود نہیں کی جا سکتی ۔ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا مفہوم کبھی یہ نہیں تھا کہ سیاسی حاکمیت تو عوام کی ہو، اور صرف مسجد کے اندر حاکمیت اللہ کی ہو۔ حاکمیت ِجمہور کے برعکس خلافت ِجمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جمہور بطور خلیفۃ اللہ، اللہ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے وہ نظام وضع کرے، جس کے ہر شعبۂ حیات میں قرآن وسنت کی پیروی کی جائے ۔
تحریکاتِ دعوت و اصلاح اسی بنا پر حاکمیت الٰہی اور خلافت جمہور کو اپنے منشور کا نقطۂ آغاز قرار دیتی ہیں ۔ اپنے آپ کو اللہ کا خلیفہ ثابت کرنے کے لیے ایک مسلمان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا، جسے قرآن کریم نے اہل ایمان کی صفات کی شکل میں تقریباً ہرصفحے پر بیان کر دیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلب ایمان سے روشن ہیں ۔جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور ان کی یہ یاد انھیں حصولِ دولت اور حصولِ اقتدار میں بھی اللہ کے خوف اور محبت سے وابستہ رکھتی ہے ۔ اس لیے جمعے کی نماز مکمل ہونے پر جب وہ زمین پر پھیلتے ہیں تو اپنے ساتھ اللہ کی یاد کو مسجد میں چھوڑ کر دولت و اقتدار کے بندے نہیں بن جاتے۔ اللہ کے فضل کا حصول اور اللہ کے ذکر کا اہتمام ہر جگہ ان کا شعار ہوتا ہے۔ بازار ہو یا پارلیمنٹ وہ جہاں بھی ہوں وہ عوام کی حاکمیت کے علَم بردار نہیں بنتے، خلافتِ جمہور اور حاکمیت الٰہی کے لیے اپنی تمام جدوجہد کو مرکوز کر دیتے ہیں ۔ اسلام جب تمام زمین کو اہل ایمان کے لیے مسجد قرار دیتا ہے تو پھر پارلیمنٹ ہو یا بازار، ہر جگہ اللہ کی حاکمیت کو اس کے خلیفہ کی حیثیت سے نافذ کرنے کا نام خلافتِ جمہور ہے ۔ یہ حاکمیت ِجمہور کی ضد اور تردید ہے۔ –یہ انسان کا مقصد تخلیق ہے ۔
دین کا یہ جامع اور اجتماعی تصور ہی تحریکاتِ دعوت و اصلاح کی پہچان ہے ۔ وہ دین کی محدود تعبیر کی جگہ دین کے کُلّی مفہوم کی علم بردار ہیں اور اس بنا پر انھیں محض ’نظریاتی‘ سمجھنا یا کہہ دینا ان کے عملی پہلو کو نظرانداز کر دینے کے مترادف ہے ۔ نظریات عموماً انسانوں سے وابستہ ہوتے ہیں، جب کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ فکر وعمل ہے۔ یہ دستور حیات ہے ، یہ وہ ہدایت نامہ ہے جو اَبدیت کا حامل ہے ۔یہ کسی وقتی معاشرے کی پیداوار نہیں ہےکہ کسی انسانی تاریخ کے کسی مخصوس دور میں پیدا ہوا ہو،اور وقت کے ساتھ معدوم ہوجائے۔ – یہ ابدی صداقت اور ابدی عملیت سے آراستہ ہے ۔ کیوں کہ اس کی تعلیمات کسی انسان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ یہ خالق کائنات کا براہ راست کلام ہے ۔اسی بنا پر اس میں اَبدیت پائی جاتی ہے اور ہر دور کے لیے افادیت ، فلاح، سعادت اور کامیابی کے اصول فراہم کر دیے گئے ہیں۔
اسلام انسانوں پر ’عربیت‘نافذ کرنے نہیں آیا ہے بلکہ عربوں کو اسلامیانے اور اسلام کا علَم بردار بنانے کے لیے آیا تھا ۔تاکہ یہ علَم برداری کسی رنگ ، نسل، خطے میں نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور عمل کی بنا پر انسانیت کی میراث بن جائے اور اس کی عالم گیریت اس کو تمام دیگر نظام ہاے حیات سے ممتاز کر دے۔
قرآن کریم نے سورۂ مومنون میں اجمالی طور پر ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کو اقوام عالم کی قیادت کے لیے تیار کرتی ہیں:
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)
قرآن کریم آخرت کی کامیابی اور فلاح کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور نفاذ سے مشروط کرتا ہے ۔چنانچہ ایمان کے ساتھ ایمان کے پیمانے، یعنی وہ نماز جو خشیت الٰہی والی ہو، وہ زکوٰۃ جو نظام زکوۃ کے ساتھ ادا کی جائے ، وہ جنسی اخلاقیات جس میں جنسی تعلق صرف وہ ہو جو ربّ کریم نے جائز قرار دیا ہے ۔
اسی طرح ذمہ داریوں کو امانت اور اہلیت کے ساتھ پورا کرنا اور معاملات میں جو عہد و پیمان اللہ کی مخلوق کے ساتھ کیےہوں، وہ چاہے معاشی عہد ہوں، سیاسی وعدے اور ووٹ ہو ، بین الاقوامی معاہدے ہوں ، ایک شوہر کا بیوی کے ساتھ عقد نکاح ہو، غرض یہ کہ ہر وہ عہد اور معاہدہ جو انسانی معاشرے میں کیا گیا ہو، اگر اسے جیسا اس کا حق ہے پورا کیا گیا ہو، تو رب کریم جنت کا وعدہ فرماتا ہے کہ ایسے اہل ایمان کو میراثِ جنت ملے گی۔ یہ میراث محض جنت کی حد تک نہیں ہے بلکہ زمین میں اقتدار و خلافت کی شکل میں بھی بطور انعام عطا فرمائی جاتی ہے: ’’ اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد کہہ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے(النبأ ۱۰۵:۲۱)۔ اسی بات کو مزید وضاحت سے حضرت موسٰی کے حوالے سے فرمایا گیا:
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا ، ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا’’ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے ، اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھا را رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ ۔(الاعراف۷:۱۲۸-۱۲۹)
قرآن کریم نے زمین پر وارث بنائے جانے یا خلافت جمہور عطا کیے جانے کو جن شرائط سے وابستہ کر دیا ہے، وہ قرآن کریم نے جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہیں ۔یہاں تقویٰ اور صبر کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل عہد و امانت ، قیام نظامِ صلوٰۃ اور صنفی اخلاقیات کو اور دیگر مقامات پر صحیح ناپنے تولنے کو ، صلہ رحمی کو ، معروف کے قیام اور منکر کے خلاف جدوجہد کرنے کو ، قوانین الٰہی کے قیام کے ذریعے حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو ، غرض کثیر مقامات پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ خلافت جمہور اسی وقت بطور انعام عطا کی جاتی ہے ، جب اقامت دین صبر وحکمت اور بغیر کسی مداہنت کے اختیار کی جائے۔
اس خلافت یا وراثت پر جن افراد کو مامور کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ان پر یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ یہ خلافت تمھارا امتحان ہے کہ تم کس طرح اللہ کی بندگی ، اقامت دین اور نفاذ احکام الٰہی کرتے ہو ۔ اگر حصول اقتدار کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم اپنی ووٹ کی قوت سے یا سڑیٹ پاور سے یا اپنے عوامی نعروں کی بنا پر کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے اب جو چاہے کریں تو بہت جلد ان کو زوال آجاتا ہے اور اگر وہ اسے عطیۂ الٰہی سمجھتے ہوئے ، امانت سمجھتے ہوئے ، امانت کا حق ادا کرتے ہیں، تو زمین ان کے لیے اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں وہ جنت کے وارث قرار پاتے ہیں ۔اقامتِ دین اور نظام اسلامی کے قیام کے لیے، جن خصوصیات اور ذمہ داران کو جن صفات کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کو بھی آسان اور متعین الفاظ میں طے کر دیا ہے، تاکہ اہل ایمان کسی ابہام یا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
اسلامی سیاسی نظام کی پہلی اور سب سے نمایاں خصوصیت شخصی آمریتوںکی جگہ حاکمیت ِالٰہی کا قیام ہے، یعنی ریاستی پالیسی اور فیصلوں کی بنیاد الہامی ہدایت ، قرآن و سنت کی حاکمیت ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہے ۔ کوئی صدر اور کوئی پارلیمنٹ حاکمیت الٰہی سے برتر نہیں ہے اور نہ صدر ، نہ وزیر اعظم ، نہ پارلیمنٹ یا اس کا کوئی رکن قانون سے برتر یا مستثنیٰ (immune) ہے۔ کسی صدر یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو قرآن و سنت کی دی ہوئی شریعت کے کسی حکم میں تبدیلی یا معافی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔مثال کے طور پر اگر قانونی کارروائی کے بعد ایک قاضی یا جج کسی قاتل یا باغی کو شریعت کے مطابق سزا دیتا ہے، تو وہ سزا نہ صدر، یا وزیر اعظم معاف کرسکتا ہے اور نہ سپہ سالار اعظم۔
شورائیت
دوسری اہم خصوصیت اسلامی نظامِ سیاست کا شورائی، یعنی مشاورتی اور consultative ہونا ہے ۔جو دین شارحِ اعظمؐ کو مشاورت سے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور پابند کردیتا ہے ، وہ کسی نام نہاد صدر یا وزیر اعظم کو ویٹو (veto)کا حق نہیں دے سکتا ۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں حکمران شوریٰ کے پابند ہیں۔ کیا وجہ تھی کہ اموالِ فئے کےمعاملے میں صحابہ کرام ؓتین دن رات مصروف شوریٰ رہے اور جب ایک نص قرآنی مل گئی، تو پھر عزم الامور اختیار کیا۔کیا وجہ تھی کہ زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف اقدام پر مسلسل شوریٰ ہوئی اور جب خلیفۂ وقت نے قرآنی دلیل کی بنا پر ثابت کیا کہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے منکر کے خلاف جہاد شریعت کا تقاضا ہے، تو انشراح قلب کے ساتھ سب نے اس پر عمل کیا۔ کیا وجہ تھی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر و حنین اور کئی دیگر مواقع پر اجتماعی راے پر عمل کرتے ہوئے قرآن کے اصول کو عملاً نافذ فرمایا۔شوریٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اصحاب شوریٰ مصالح امت کے پیش نظر پوری قوت سے مسئلے کے ہر پہلو پر بحث و گفتگو کریں۔ لیکن جب ایک بات طے ہو جائے، چاہے اس کے لیے ایک تعداد کو اپنی راے کی قربانی دینی پڑے تو پھر اجتماعی فیصلے کی برکت پر اعتماد کرتے ہوئے وہی راے سب کی راے ٹھیرے، اور کسی کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ مجلس سے باہر اپنی دانش وری کے دعوے کرتا رہے ۔
امانت واہلیت
تیسرا اہم اصول ذمہ داریوں کا صرف ان افراد کو دیا جانا ہے، جو ان ذمہ داریوں کے اہل ہوں۔ قرآن کے اس واضح حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو جو خود تعلیم کا مستحق ہو، وزیر تعلیم بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو طب کی الف با سے بھی واقف نہ ہو وزیر صحت بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو اُمورِمملکت کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہو، محض اس کی شکل وصورت اور صحت مندی دیکھ کر اُمورِمملکت اس کے حوالے کر دینا قرآنی اصول اور روح کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔
پاکستان کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ پر اگر خلوصِ نیت سے عمل کیا جائے، تو اس غلطی کے امکان کو بہت کم کیا جاسکتا ہے ۔امانت سے مراد محض مالی امانت نہیں ہے، بلکہ بات اور زبان کی ا مانت ، صلاحیت کی امانت ، جو اختیارات کسی کے سپرد کیے جائیں، ان کی حفاظت، خود اپنے دینی شعور کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ، غرض یہ امانت واہلیت اسلامی نظام حکومت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔
اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین افراد کوبھی جو ذمہ داری دی گئی ہو، اس کے لیے وہ عوام الناس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی بات سننے سے پہلے عوامی اجتماع میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کُرتا جو آپ نے پہنا ہے، اس کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا ؟ اس سوال کے اٹھانے پر نہ خلیفہ کے محافظ سوال اٹھانے والے پر لپکے اور نہ اسے کسی نے گھور کر دیکھا بلکہ خلیفۂ وقت نے اپنے بیٹے سے جواب کے لیے کہا، جس نے عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دی کہ چوںکہ وہ کپڑا جوخلیفہ کے حصے میں ایک عام شہری کی طرح آیا تھا چھوٹا تھا، اس لیے اس نے اپنے حصے کا کپڑا بھی باپ کو دے دیا، تاکہ اس سے کم از کم اس کے باپ کا ایک کُرتا بن جائے۔ یہ احتساب اختیارات کا بھی ہے ، ذاتی زندگی کا بھی، مالی معاملات کا بھی اور ریاستی حکمت عملی کا بھی۔ اور یہ محض پارلیمان یا شوریٰ کے افراد کا حق نہیں ہے بلکہ ہر عام شہری یہ حق رکھتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی پارلیمنٹ کا ارتقا اس مقام تک پہنچا ، جس سے اسلام اپنی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کرتا ہے !
ہم نے مختصر طور پر محض چند بنیادی امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی ریاست کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس کے قیام اور بعد کے اَدوار پر مفصل اور تحقیقی موادکی کمی نہیں ہے ۔ ایک جامع کتاب محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلامی ریاست ہے ، دوسری محترم مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکہ آرا تصنیف اسلامی ریاست ہے۔ پھر ڈاکٹر حمید اللہ کے مضامین پر مبنی Muslim Conduct of State ایک وقیع علمی کتاب ہے ۔ علامہ محمد اسد کی اسلام کا سیاسی نظام (انگریزی میں ) ایک اہم تصنیف ہے ۔
انگلستان سے اسلامک کونسل آف یورپ نے تین نہایت اہم بیا نیے (declaration ) شائع کیے:lUniversal Declaration of Islam, lInternational Declaration of Islamic Human Rights, lA Model Islamic Constitution یہ ڈیکلریشن اسلام کے پورے نظام کو جدید حالات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں اور انھیں عالم اسلام کی مقتدر شخصیات نے مرتب کیا ہے۔پھر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صدارت میں جاری ہونے والا بیانیہ الوسطیۃ بھی اس سلسلے کی ایک قیمتی دستاویز ہے۔مختصراً جماعت اسلامی کے ۱۹۵۸ء سے ۲۰۱۸ء تک کے انتخابات کے جاری ہونے والے منشور بھی اس سلسلے میں تبدیلی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی اور آج کس طرح اس کی روشنی میں ریاست قائم ہو؟ کوئی قیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی واضح اور ٹھوس حقائق کی شکل میں، ان تمام سوالات کے جواب تحریری شکل میں موجود ہیں ۔ ایسے واہمے بعض حضرات اسلامی مصادر سے دُوری کی بنا پر یا اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اٹھاتے ہیں ۔اس تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ عصر حاضر میں تحریکاتِ دعوت و اصلاح ، اقامت دین اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں، اختصار سے ان کے تصور کے خدوخال کیا ہیں، اور یہ بتانا ہے کہ نہ تو وہ کسی مغربی لا دینی ، اشتراکی یا سرمایہ دارانہ تصور سے متاثر ہیں اور نہ ان کی دعوت اور مغربی لادین جمہوریت میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اسلام حاکمیت الٰہی اورخلافت جمہور کا علَم بردار ہے،جو مغربی تصور ِریاست سے بالکل مختلف تصور ہے۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ اسے سمجھے اور مدّنظر رکھے بغیر صحیح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔
طاقت کے نشے میں چور کسی بھی ملک کے لیے جنگ کی دلدل میں کود جانا بہت آسان، لیکن اس سے جان بچاکر واپس نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہر حملہ آور کی طرح اب امریکا بھی ’مقبوضہ‘ افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔ گذشتہ صدی کے اختتام پر ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روسی سلطنت اور ۱۹ویں صدی کے دوران ۱۸۴۲ء میں برطانیا بھی اسی انجام کو پہنچا تھا۔ اشتراکی روس تو اپنے الحادی نظریات سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ باقی ماندہ روس کو نہ صرف وسطی ایشیا کو بھی آزاد کرنا پڑا، بلکہ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کو اپنی ’نظریاتی‘ اور سیاسی غلامی سے آزادی دینا پڑی۔ برطانیا جس کے راج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے جزیرے تک محدود رہ گیا۔ اب اس کی تقریباً آدھی آبادی کا خیال ہے کہ وہ یورپی یونین میں باقی رہے تو باقی ماندہ استقلال و امتیازی مقام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ آدھے برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلے تو شدید اقتصادی بحرانوں میں گھر جائیں گے۔
امریکا، افغانستان میں وہی غلطیاں کرنے پر تلا ہوا ہے، جن کا ارتکاب افغانستان پر قبضے کے آخری اَدوار میں تباہی کا نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے باوجود، برطانیا اور اشتراکی روس نے کیا تھا۔ گذشتہ دونوں عالمی طاقتوں کی طرح اب امریکا بھی اسی انجام سے دوچار ہوا چاہتا ہے۔ اوّل الذکر دونوں وہاں سے نکلنا چاہتے تھے، لیکن وہاں اپنا قبضہ بھی باقی رکھنا چاہتے تھے۔ دونوں نے اپنے بعد وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر اصرار کیا۔ اب تیسرا طالع آزما امریکا بھی وہاں اپنے مضبوط فوجی اڈے باقی رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے، اور وہاں سے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت اور نظام بھی من مرضی کا چاہتا ہے۔
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کی فوری وجہ نائن الیون کے واقعات بنے، لیکن اس کی خواہش و تیاریاں گذشتہ کئی عشروں سے جاری تھیں۔ اشتراکی روس کے خلاف جنگ میں افغان عوام کی مدد کرکے ایک ہدف حاصل کرنا یقینا اس کے پیش نظر تھا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی بھی غیر علانیہ، مگر بڑا واضح ہدف تھا۔ اشتراکی روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت نہ بننے دینا بھی اسی امریکی ہدف کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھا۔ مختلف افغان دھڑوں اور جنگی سرداروں کے اختلافات اور لڑائیوں کی آگ پر مسلسل تیل چھڑکتے رہنا بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے تھا۔ لیکن آخر کار قرآن کریم کا اصول ایک اٹل حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا:
وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ط(الفاطر۳۵: ۴۳)، اور بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔
اس الٰہی سنت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ افغانستان اور عراق میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرنے کے لیے ایک امریکی باشندے کی بنائی ہوئی پیشہ ورانہ ویب سائٹ icasualties.org کے مطابق افغانستان اور عراق میں گذشتہ ۱۸ برسوں کے دوران امریکا اور اس کی حلیف فوجوں کے۸ہزار ۴سو ۵۰ فوجی قتل اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں سے صرف امریکا کے جہنم واصل ہونے والے فوجی ۶ہزار ۹سو ۸۵ تھے۔ بعض دیگر آزاد ذرائع مرنے والے حملہ آور فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ امریکا کی اس مسلط کردہ افغان جنگ کی آگ میں بھسم ہونے والے امریکی مالی وسائل ۳ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اب بھی ہر آنے والا دن ان مالی و جانی نقصانات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عراق میں موجود ایک لاکھ ۳۵ہزار فوجیوں پر ایک ہفتے میں ایک ارب ڈالر خرچ ہورہے تھے۔ آخرکار ، امریکی مسلح افواج کی بڑی تعداد وہاں سے نکالنا پڑی، لیکن مداخلت و قبضہ اب بھی دو طرفہ نقصانات و تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
ایک امریکی دانش وَر اور جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر جوئل اینڈریس نے اس امریکی جنگی جنون کے بارے میں اپنی کتاب Addicted To War (’جنگی جنون‘ ترجمہ: محمد ابراہیم خان) میں ان امریکی جنگوں اور امریکا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ء میں لکھی گئی تھی۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد نئے اضافوں کے ساتھ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:
امریکا میں جنگی جنون پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے پروان چڑھتا آیا ہے۔ امریکا نے اپنی جنگی مشین کو برقرار رکھنے اور دنیا کو وقتا فوقتاً اپنی بھرپور طاقت دکھاتے رہنے پر کم و بیش ۱۵ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جنگی جنون نے امریکاکو کس قدر نقصان پہنچایا ہے؟ اس کااندازہ لگانے کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے فوج اور اسلحہ خانے کو جو کچھ دیا جاتا رہا ہے اس کی مالیت ملک کے تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ امریکا میں جتنے پُل، سڑکیں، واٹر سسٹم، اسکول، ہسپتال، اسٹیڈیم، مکانات، شاپنگ مال، گھریلو آلات، سرکاری مشینری، گاڑیاں اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ان کی مجموعی مالیت بھی اس خطیر رقم سے زیادہ ہے، جو اَب تک فوج پر خرچ کی جاچکی ہے .... تمام فوجی تنصیبات، فوجی حملے اور سابق فوجیوں کی بہبود کے کھاتے میں جو کچھ خرچ کیاجاتا ہے وہ سالانہ ۸۰ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ صرف اس ایک مد میں ایک منٹ میں ۱۰ لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں… امریکا کی جنگی مشین متحرک رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے۔ اس وقت امریکاکے پاس ۱۲ طیارہ بردار بیڑے ہیں۔ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کم و بیش ایک ارب ڈالر کا پڑتا ہے… امریکا نے چھے عشروں کے دوران جوہری تجربات کے ذریعے کم و بیش ۴لاکھ ۸۰ ہزار فوجیوں کو ایٹمی تابکاری مواد کے سامنے کھڑا کیاہے۔ ان میں سے بہت سوں کی صحت کے لیے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ ہزاروں امریکی فوجی سرطان میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر جوئیل اینڈریس ان جنگی اخراجات کی وجہ سے پورے امریکی معاشرے پر روز بروز مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحبِ عقل امریکی ذمہ دار کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوجانا چاہیے تھا، لیکن صدافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہ اعلان تو کردیا کہ: ’’امریکا، افغانستان میں اپنے باقی ماندہ ۱۴ ہزار فوجیوں میں آدھے فوری طور پر نکال رہا ہے‘‘، اوراس سے ایک دن قبل انھوں نے اسی طرح کا اعلان شام سے اپنی فوجیں نکالنے کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ لیکن یہ اعلانات اس الل ٹپ انداز سے کیے گئے کہ خود امریکی انتظامیہ بھی اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وزیردفاع اس پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ افغانستان میں موجود امریکی عسکری قیادت نے ایسے بیان دے دیے کہ جو اسی امریکی جنگی جنون کو جاری رکھے جانے کا اعلان ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے وضاحت کی: ’’افغانستان میں امریکی کارروائیاں منصوبے کے مطابق جاری رہیں گی‘‘۔ ناٹو افواج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر بولے: ’’ہمیں افغانستان سے فوجیں نکالنے کے کوئی احکام موصول نہیں ہوئے‘‘۔
دوسری جانب دیکھیں تو خطے میں مختلف امریکی نمایندگان اور ذمہ داران حکومت کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ (متحرک سفارت کاری) عروج پر ہے۔افغان نژاد خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد پاکستان، افغانستان، خلیجی ریاستوں اور چین میں بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ گذشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے نئے دور منعقد ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہوئے اور آخرکار طالبان کی یہ شرط قبول کرلینے کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو دوبارہ شروع ہوئے کہ:’’ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کا ٹائم ٹیبل فراہم کرے گا‘‘۔ امریکا نے شرط تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ: ’’افغانستان کو کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ مذاکرات دو روزہ تھے، لیکن کئی دن جاری رہے۔ کابل میں قائم افغان حکومت کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اسے بھی مذاکرات میں شریک کیا جائے، لیکن طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔
امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ ایسے ہر نازک موڑ کی طرح اس موقعے پر تمام اطراف کو انتہائی احتیاط، حکمت، انصاف، حقیقت پسندی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغان عوام نے گذشتہ ۱۸ سال کے دوران بدترین امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان ۱۸برسوں کے دوران میں امریکی سربراہی میں نیٹو افواج نے قتل و غارت کے کیا کیا نئے ریکارڈ قائم نہیں کیے۔ مدارس میں حفظ قرآن کی اسناد وصول کرتے ہوئے سیکڑوں ہونہار پھولوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ شادی کی تقریبات میں جمع خاندانوں اور جنازوں میں جانے والے سوگواروں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور معصوم عوام سے بھرے بازاروں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ پورے کے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ دس سالہ سوویت جنگ کے دوران (۲۵ دسمبر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۲ فروری ۱۹۸۹ء تک) ۲۰ لاکھ سے زائد بے گناہ افغان شہری شہید کردیے گئے تھے۔ حالیہ امریکی جنگ میں بھی مزید لاکھوں شہری پیوند خاک کیے جاچکے ہیں۔ اسلحے اور بارود کی بارش نے پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود آخرکار امریکا اپنی تاریخ کی یہ سب سے طویل جنگ ختم کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ آغاز میں ان حملہ آور فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز تھی۔ صدر اوباما نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ۲۰۱۴ میں بڑی تعداد میں فوج واپس نکال لی تھی اور صرف ۱۰ ہزار باقی رہ گئے تھے۔ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم میں یہی وعدہ دُہرایا تھا، لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہی چار ہزار مزید فوجی بھیج دیے۔اب اسے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑرہے ہیں۔
اس نازک ترین مرحلے پر تمام افغان اطراف کو اپنے تمام گذشتہ تلخ تجربات کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اُمت مسلمہ کی تاریخ میں کئی بار یہ سانحہ ہوا کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی لڑائی، جنگ ختم ہونے کے بعد ہار دی گئی۔ ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو اُمید پیدا ہوئی کہ خونِ شہداء سے سیراب اس سرزمین کو اب سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ لیکن روسی سلطنت نے اپنے انخلا کے بعد اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت کو باقی رکھا۔ نتیجتاً جنگ اسی طرح جاری رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے یہ جنگ افغان عوام اور روسی فوج کے درمیان تھی، روس نکل گیا تو اب یہ جنگ براہِ راست افغان دھڑوں کی جنگ بن گئی۔ ایک جانب بالواسطہ روسی سرپرستی کا حامل صدر نجیب اللہ اور دوسری جانب روسیوں کے خلاف جہاد و مزاحمت کرنے والے تمام افغان دھڑے۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بالآخر صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت بھی زمیں بوس ہوگئی۔ افغانستان میںوہ نازک ترین لمحہ آگیا،جس سے بچنے کے لیے ساری دنیاکی اسلامی تحریکیں اور مخلص رہنما مسلسل کوششیں کرتے رہے تھے،مگر پھر تاریخ نے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک خود افغان مجاہدین کے مابین خوں ریزی کا بدنما دور دیکھا۔
اشتراکی روس کے خلاف جہاد پر پوری افغان قوم ہی نہیں، پورا عالم اسلام متفق تھا۔لیکن پورا عالم اسلام مل کر بھی جہاد کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کو متحد نہ کرسکا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی (مرحوم) اور انجینیر گل بدین حکمت یار کے مابین آرا کا اختلاف پہلے دن سے موجود تھا۔ پروفیسر ربانی صاحب اشتراکی روسی مداخلت کا مقابلہ صرف سیاسی میدان میں کرنے کے قائل تھے، جب کہ حکمت یار صاحب مسلح جہاد ضروری سمجھتے تھے۔ بالآخر سب رہنما جہاد پر تو مجتمع ہوگئے، لیکن دس برس کے دوران کئی معاہدوں اور لاتعداد مصالحتی کوششوں کے باوجود اپنے باہمی اختلافات کی خلیج ختم نہ کرسکے۔ نجیب حکومت بھی رخصت ہوئی توکابل کے ایک کنارے پر احمد شاہ مسعود اپنے مسلح دستوں کے ساتھ موجود تھے اور دوسرے کنارے پر گلبدین حکمت یار۔ دونوںرہنما افغان جہاد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کا خیال تھا کہ: ’’میری قوت اور صلاحیت زیادہ ہے‘‘۔ بدقسمتی سے دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان تھا اور اسی کمزور پہلو کو سب دشمن قوتیں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔
آج بھی جمعۃ المبارک کی وہ خوش گوار صبح ایک ایک تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ پشاور میں ساری دنیا سے آئے ہوئے اہم مسلمان رہنما اور اسلامی تحریکوں کی قیادت جمع تھی۔ اس سے پہلی شب مصالحتی مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہے۔ جن میں طے پایا تھا کہ انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے مابین براہِ راست بات چیت کروائی جائے گی۔ یہ ذمہ داری محترم قاضی حسین احمد صاحب کو سونپی گئی۔ صبح ہی صبح ہم پشاور میں واقع برہان الدین ربانی صاحب کے مرکز پہنچ گئے۔ ربانی صاحب ہمارا استقبال کرنے کے بعد ایک دوسری جگہ جمع مختلف افغان، عرب اور پاکستانی رہنماؤں کے اجلاس میں چلے گئے۔کافی انتظار اور کوششوں کے بعد یہ تین جہتی وائرلیس رابطہ قائم ہوسکا۔
کابل کے دونوں کناروں پر بیٹھے افغان رہنما اور پشاور میں محترم قاضی حسین احمد صاحب، تینوں کے درمیان ایک طویل مکالمہ ہوا۔ اس میں شکوے بھی تھے، دھمکیاں بھی تھیں اور ڈانٹ بھی، لیکن آخر میں یہ واضح تھا کہ باہم اتفاق راے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس براہِ راست رابطے کے بعد موہوم اطمینان کے ساتھ ہم نماز جمعہ ادا کرنے قریبی مسجد پہنچے۔ دیگر سب رہنما بھی پہنچنا شروع ہوگئے۔ نماز ختم ہوتے ہی پروفیسر عبدالرب رسول سیاف صاحب کھڑے ہوئے اور سب کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ:’’سب افغان رہنما ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پہلے چار ماہ صبغۃ اللہ مجددی صدر ہوں گے۔ ان کے بعد چھےماہ کے لیے برہان الدین ربانی صاحب صدر ہوں گے۔ وزارت عظمیٰ حزب اسلامی (حکمت یار) کو دی جائے گی اور پھر انتخابات ہوں گے‘‘۔
ان کا اعلان ختم ہوتے ہی قاضی صاحب نے سیاف صاحب کو مسجد کے ایک گوشے میں لے جاکر پوچھا، اس فارمولے پر: ’’کیا حکمت یار بھی متفق ہوگئے ہیں؟‘‘
وہ کہنے لگے کہ: ’’نہیں، انھیں آپ اس پر راضی کریں گے‘‘۔
قاضی صاحب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’کاش! آپ اس قبل از وقت یک طرفہ اور ناقابل عمل فارمولے کا اعلان نہ کرتے۔ افغان بحران کا اصل حل دونوں مرکزی قوتوں کو یک جا کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں درجنوں بلکہ سیکڑوں مصالحتی کاوشوں میں سے ایک کا ذکر اس لیے کیا کہ خرابی کی اصل جڑ واضح ہوسکے۔ پورے دور جہاد کے دوران مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے کسی نہ کسی افغان جماعت کو غالب اور کسی کو نظر انداز و کمزور کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ کبھی مالی و عسکری امداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے، کبھی سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعے اور کبھی نسلی و مذہبی تعصب کی آگ بھڑکا کر۔
اس تقسیم کا اصل مقصد اور نتیجہ یہی تھا کہ افغانستان میں عوام کی کوئی حقیقی نمایندہ اور مستحکم حکومت نہ بن سکے اور اگر بنے بھی تو تقسیم کرنے والوں کی تابع فرمان ہو۔ آج بھی افغانستان پر قابض اور افغان عوام میں نفوذ رکھنے والی قوتوں کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ امریکا نے اپنے ۱۸ سالہ جنگ و جدل کے دوران مختلف افغان اطراف میں بھی گہرا نفوذ حاصل کیا ہے۔ طالبان حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے ’شمالی اتحاد‘ کا تعاون حاصل کیا گیا۔ طالبان مخالف ازبک اور ہزارہ گروپوں کو بھی سنہرے خواب دکھاکر ساتھ ملالیا گیا۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے چہرے سامنے لے آئے گئے۔ بون کانفرنس میں عبوری صدارت کے لیے تین نام پیش ہوئے تھے: عبدالستار سیرت، حامد کرزئی اور امین ارسلا۔ ابتدائی راے دہی ہوئی تو عبدالستار سیرت کو گیارہ، حامد کرزئی کو دو اور امین ارسلا کو ایک ووٹ ملا۔ پھر مذاکرات نے مزید طول کھینچا۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد (جنھیں کئی افغان رہنما امریکی ’وائسرائے‘ کا طعنہ دیتے تھے) اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندہ الاخضر الابراہیمی نے حامد کرزئی کی خصوصی وکالت و اعانت کی۔ بالآخر وہ عبوری اور پھر ’منتخب‘ صدر بنادیے گئے۔
زلمے خلیل زاد حالیہ دنوں میں بھی خصوصی امریکی ایلچی کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا مختصر تعارف آج اور کل کا پورا منظرنامہ سمجھنے میں معاون ہوگا۔ وہ ۱۹۵۱ء میں شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں پشتون تھے۔ بعدازاں مزارشریف سے کابل منتقل ہوگئے، جہاں ’غازی‘ سکول میں انٹر کیا۔ انگریزی بہتر کی اور امریکن یونی ورسٹی، بیروت(لبنان) میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظیفہ حاصل کرلیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد امریکا کی شکاگو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۹ء میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی دوران آسٹریا کی شیرل بینرڈ سے شادی کرلی۔ دونوں میاں بیوی نے عالم اسلام کے بارے میں کئی اہم مقالے اور سفارشات لکھیں۔ ۱۹۸۴ء میں امریکی شہریت مل گئی۔ امریکی صدور: جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور جارج بش (سینیئر) کے ادوار میں کئی اہم مشاورتی و پالیسی ساز ذمہ داریوں پر فائز رہے، یہاں تک کہ افغان اُمور پر امریکا میں سب سے نمایاں نام بن گئے۔ صدر کلنٹن نے ذمہ داریوں سے فارغ کیا تو اہم امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ میں ملازمت مل گئی۔ یہاں انھوں نے عالم اسلام اور اسلام کے بارے میں کئی سفارشات پیش کیں۔ اسی زمانے میں امریکی تیل کمپنی یونوکال (Unocal) کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ کمپنی افغانستان اور پڑوسی ممالک میں تیل و گیس کی تلاش اور اسے پائپ لائن کے ذریعے بحر ہند تک پہنچانے کے منصوبے پر کام کررہی تھی۔ اس وقت حامد کرزئی بھی یونوکال کے مشیر کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے۔ وہ بھی امریکی یونی ورسٹی بیروت سے فارغ تھے۔ دونوں کی دوستی مزید گہری ہوگئی جو بالآخر افغان صدارت پر منتج ہوئی۔
حامد کرزئی اور زلمے خلیل زاد ہی نہیں، امریکی یونی ورسٹی لبنان سے فارغ التحصیل کئی مشترکہ دوست افغانستان کے مدار المہام قرار پائے۔ ان میں سے ایک نام جناب اشرف غنی احمدزئی کا ہے۔ وہ ورلڈ بنک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور انتہائی وفادار قرار پائے۔ افغان وزارت خزانہ ان کے سپرد کردی گئی۔ انھی ہم جولیوں میں ڈاکٹر شریف فائز(وزیر براے اعلیٰ تعلیم)، یوسف پشتون (وزیر بہبود دیہی آبادی) اور خالد پشتون (گورنر قندھار) کے نام بھی شامل ہیں۔ وزارتوں اور عہدوں سے زیادہ ان حضرات کا ہدف مغربی تہذیب سے ہم آہنگ افغان معاشرے کی تشکیل نو تھی۔
افغانستان دوراہے پر!
حالیہ افغان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر بون کانفرنس کے اصل کردار فعال تر ہیں۔ لیکن ایک حقیقت سب اطراف کو یاد رکھنا ہوگی کہ نومبر ۲۰۰۱ میں وہ کانفرنس امریکی حملے اور جزوی فتح کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی۔ آج بظاہر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے کسی معقول راستے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۸ سال کی ناکامیوں اور تباہی سے سبق نہ سیکھا گیا، تو شاید رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔
تاریخ افغانستان کے اس نازک موڑ پر ایک انتہائی اہم فریضہ خود افغان طالبان کو بھی انجام دینا ہوگا۔ انھیں اپنے سابقہ دور حکومت اور اس کے بعد رُوپذیر تمام واقعات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنے رویے پر بھی سنجیدہ نظرثانی کرناہوگی۔
افغانستان میں اشتراکی روس کی آمد کے بعد سے لے کر آج تک جتنی ناکامی اور تباہی ہوئی ہے، حملہ آور جارح قوتوں اور کئی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے بعد، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود افغان بھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سوا باقی سب کو قابل گردن زدنی قرار دینے سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں کبھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ افغان طالبان کی ویب سائٹ پر آج بھی اکثر افغان احزاب اور ان کے رہنماؤں کو امریکا اور روس جیسا دشمن ہی قرار دیا جارہا ہے۔ ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا دور شروع ہوا اور اسی صبح وردگ میں افغان فوج کے تربیتی سنٹر پر خود کش حملہ کرکے ۱۰۰ سے زائد افغان شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ جس طرح ایسا کوئی حل ناقابلِ عمل اور تباہ کن ہوگا کہ افغانستان سے نکلتے ہوئے، بون کانفرنس جیسا کوئی اور حل مسلط کردیا جائے، طالبان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر طالبان اور افغان فوج کو جنگ کی کسی نئی جہنم میں جھونک دیا جائے، خدانخواستہ افغانستان میں کسی نئی خانہ جنگی کا آتش فشاں لاوا اگلنے لگے، تباہی، مہاجرت اور خوں ریزی مسلط ہوجائیں۔ اسی طرح یہ راستہ بھی تباہ کن ہوگا کہ آنکھیں بند کرکے سابقہ غلطیوں کو دہرایا جانے لگے۔ ملک و قوم کے کسی بھی حصے کو اپنے جسم سے کاٹ پھینکا جانے لگے۔
افغانستان پر قبضے کے علاوہ امریکی افواج اور اس کے زیراثر حکومت نے وہاں جن کئی دیگر حماقتوں کا ارتکاب کیا، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف نفرت کی اونچی دیواریں کھڑی کرنا بھی شامل ہے۔
اشتراکی روس کی یلغار سے لے کر آج تک افغان اور پاکستانی قوم عملاً یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکی موجودگی میں وہاں بھارت کو گہرا اثرونفوذ حاصل کرنے کے خصوصی مواقع دیے گئے۔ ذرائع ابلاغ سے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہوئے نفرت کے زہریلے بیج بوئے گئے۔ بعض ناراض پاکستانی قبائل سرداروں کو مزید متنفر کرتے ہوئے انھیں پاکستان سے علیحدگی اور دشمنی کے الاؤ بھڑکانے پر اکسایا گیا۔ افغان فوج کو ٹریننگ دیتے ہوئے پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔
ایک پُرامن افغانستان کے قیام کے لیے ان تمام منفی اقدامات کی نفی کرتے ہوئے تمام پڑوسی ممالک کو دوستی اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان ایران، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو بھی اپنے مفادات کے بجاے افغان امن و استحکام کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔ صرف افغان عوام اور ان کے تمام حقیقی رہنماؤں کو پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ افغانستان کا امن و استحکام یقینا تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی مثبت نتائج پیدا کرسکے گا۔
علامہ محمد اقبال آج سے تقریباً ایک صدی پہلے دنیا کو خبردار کرگئے تھے کہ:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
ایشیا آب و خاک سے بنا ایک جسم ہے، جس میں ملتِ افغان دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی تباہی پورے ایشیا کی تباہی اور اس کی تعمیر و خوش حالی پورے ایشیا کی خوش حالی ہوگی۔
تجدید و احیاے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔
ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔
پھر اسی دور میں،کسی نہ کسی پہلو سے تجدید و احیاے دین کی خدمت انجام دینے والی عظیم شخصیات: میں جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہٗ، ابوالکلام آزاد، سیّد رشید رضا، حسن البنا، علّامہ محمد اقبال، سعید نورسی، سیّدقطب، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مالک بن نبی جیسے نمایاں ترین رجال شامل ہیں۔ ان سب کی سوچ کا دھارا، کئی اُمور اورمعاملات میں اختلاف کے باوجود، مقصد اور ہدف کے اعتبار سے ایک جیسا تھا، اور وہ یہ تھا: اللہ کے دین کو اس کی اصل شکل میں پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دین کے مطابق اپنی اور انسانی زندگی کی تشکیلِ نو اور تعمیرِنوکی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب محسنوں پر اپنی رحمت کی بارش فرمائے، اور ان کی اور ان کے رفقاے کار کی کاوشوں کو قبولیت اور فروغ عطا فرمائے۔یہی ہیں وہ رہنما کہ جن کی مساعیِ جمیلہ کے نتیجے میں، اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے تاریخ نے کروٹ لی اور محکومی کی تاریک اور طویل رات ختم ہوئی ۔ اسلام ایک بھرپور دعوت، انقلابی قوت اور ہمہ پہلو پیغام کی حیثیت سے ایک بار پھر اپناکردار ادا کرنے کی طرف رواں دواں ہے۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۲۰ء سے صحافت اور علم و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات کا آغاز کیا۔ ۲۴برس کی عمر میں انھوں نے الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی، جو ۱۹۳۰ء میں، برعظیم میں علمی، تحقیق اور اشاعت کے بڑے باوقار ادارے دارالمصنّفین، اعظم گڑھ نے شائع کی۔ اس کتاب کے لیے تحقیق و جستجو مولانا مودودی کے فکری ارتقا میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
پھر یہی ہے وہ فیصلہ کن موڑ ( turning point) جہاں سے انھوں نے پیغامِ دین کے لیے عزم و ہمت کا عہد کیا اور عملی قدم اُٹھایا۔۱۹۳۳ء سے ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباددکن کے ذریعے اسلامی فکر اور دعوت کے نئے چراغ روشن کرتے رہے۔ ۱۹۳۸ء میں ادارہ دارالاسلام کی تاسیس کی۔ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی قائم کی اور اس کے امیر منتخب ہوئے۔ فروری ۱۹۴۲ء سے تفہیم القرآن کی تحریر واشاعت کا آغاز کیا۔ ستمبر۱۹۷۹ءیعنی اپنی وفات تک فکرورہنمائی کے ہر میدان اور تجدیدو احیاے دین اسلام کے بارے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر میں سب سے نمایاں چیز اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اور قرآنِ کریم کو زندگی کے ہرہرپہلو کے لیے اپنا رہنما بنانا ہے۔
الحمدللہ، ۳۰برس تک میرا، مولانا مودودی سے ایسا تعلق رہا ہے کہ جس میں وہ میرے استاد، قائد، محسن اور مربی کی حیثیت سے قدم قدم پر رہنمائی سے نوازتے رہے۔ اس مناسبت سے گواہی دیتا ہوں کہ مَیں نے جس چیز کو مولانا کی زندگی میں فکروعمل کا سرچشمہ اور روشنی و ہدایت کا منبع پایا ہے، وہ قرآن پاک ہے۔ اسی بنا پر مولانا کی زندگی کی اہم ترین متاع جن چیزوں کو قرار دیا جاسکتا ہے، ان میں سب سے پہلی، بنیادی اور مرکزی متاع قرآنِ کریم ہے۔ پھر قرآنِ کریم اور صاحب ِ قرآن خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک ہی کی روشنی میں دینِ حق کا تصور ہے، اور تیسری چیز ہے: ان دونوں کا تقاضا دعوت، اصلاح اور اقامت ِ دین کی منظم جدوجہد۔ یہی وہ تین میدان ہیں، جن میں مولانا مودودی نے بڑا تاریخ ساز کردار (contribution) اداکیا ہے۔
قرآنِ پاک سے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے تعلق کو سمجھنے کے لیے تین چیزیں بڑی اہم اور چشم کشا ہیں:
۱۹۴۶ء میں مولانا محمد عمران خاں ندوی صاحب نے غیرمنقسم ہندستان کے اٹھارہ اکابر علما، دانش وروں اور رہنمائوں سے دریافت کیا کہ ’’آپ کی محسن کتاب کون سی ہے؟‘‘ دیگر افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بتایا، لیکن ان میں واحد مولانا مودودی تھے، جنھوں نے سب سے مختصر جواب دیا۔یہ جواب مولانا کی شخصیت اور ان کی پوری زندگی کا غماز ہے اور سب پہ بھاری بھی۔ انھوں نے لکھا:
جاہلیت کے زمانے میں، مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ مَیں قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں ، مگر جب آنکھیں کھول کر قرآن کو پڑھا تو بہ خدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کرڈالیں، پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اِس کتاب نے ایک ایک دو دوفقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے ناواقف نہ ہوتے تو کیوں اپنی عمریں اس طرح ضائع کرتے؟ میری اصلی محسن بس یہی ایک کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا ، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ انگریزی میں اُس کنجی کو ’شاہ کلید‘ (Master Key) کہتے ہیں، جس سے ہرقفل کھل جائے۔ سو، میرے لیے یہ قرآن ’شاہ کلید‘ ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
مولانا مودودی کے لیے سب سے بڑی دولت اور زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ، اللہ کی آخری ہدایت یہ کتاب ہی ہے۔ قرآن ہی وہ اَبدی ہدایت ہے، جو خود خالق حقیقی نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کو زندگی میں کامیابی کا راستہ دکھانے کے لیے عطا فرمائی۔ مولانا مودودی کے نزدیک:قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کتاب اللہ ہونا ہے، یعنی یہ رہنمائی کسی انسان کی طرف سے نہیں ہے۔ اس کا ذریعہ اور وسیلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کو جاننے، اللہ سے جوڑنے اور اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کا واحد راستہ قرآن کی ہدایت کو تسلیم کرنا،اور اس کے مطابق اپنی ذات کو اور ساری دنیا کو ڈھالنا ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں:
پہلا اور سب سے اہم خداشناسی ہے، جس سے ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھال سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھالنا ، زندگی کو گزارنا، قرآن سے تعلق کو جوڑنا،اور قرآن کا فہم حاصل کرنا نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ قرآن کا اصل مخاطب انسان ہے اور قرآن کا اصل مقصودتمام انسانوں کی دست گیری ہے۔ جو اسے قبول کریں، ان کے لیے یہ سراپا ہدایت ہے اور رہنمائی عطا کرتا ہے۔ یہی خداشناسی اسلام کی بنیاد اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اصل سہارا اور قوت ہے۔
دوسرا پہلو خودشناسی ہے، یعنی یہ سمجھنا اور جاننا کہ اللہ ہمیں کیسے انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ دیکھنا کہ ہمیں کیا کام سونپا گیا ہے، اور کس معیار پر ہمیں کامیابی اور اجر ملے گا؟ اس چیز کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تووہ ہے ’استخلاف‘۔ اس کے لیے فرد کا تزکیہ کرنا، اس کی کردار سازی کرنا اور علم وعمل کے اعتبار سے اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کی زمین پر، اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، یعنی تقویٰ کا حصول۔
تیسرا پہلو ہے خلق شناسی۔ اس سے مراد ہے: انسانوں سے، اداروں سے، معاشروں سے، اقوام سے اور کائنات میں خلق کی ہوئی ہرشکل سے قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق ربط و تعلق قائم کرکے معاملہ کرنا، تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور دنیا عدل، امن اور احترامِ آدمیت کا گہوارا بن جائے۔
ان تینوں بنیادوں کو قرآن نے جامع اصطلاح ’اقامت ِ دین ‘ میں سمو دیا ہے اور یہی معنی عبادت کے ہیں۔یہ دوسرا پہلو ہے: قرآنِ کریم سے مولانا کے تعلق کا، جسے انھوں نے بڑی تفصیل سے مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے۔
مولانا نے بتایاہے کہ قرآن صرف اللہ کی کتاب اور کتابِ ہدایت ہی نہیں بلکہ کتابِ انقلاب ہے۔ جہاں اس کے مخاطب تمام انسان ہیں، وہاں اس کا خاص طور پر خطاب انسانوں کے ایسے گروہ سے ہے، جو اسے قبول کرتا ہے۔ قرآن انھیں رہنمائی فراہم کرتا اور تیار کرتا ہے کہ وہ کس طرح خود کو اور پوری انسانی زندگی کے ہر شعبے اور دائرہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دعوت، شہادتِ حق اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے اور ہدف دین کے پیغام کو عام کرنا اور اللہ کی مرضی کو غالب کرنا بتایا ہے۔ اس مقصد کو تفہیم القرآن کے مقدمے میں مولانا مودودی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
فہم قرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود، آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر، خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں؟
اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے ،اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے، جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجَہل اور ابولَہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے، جس کو میں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔
پھر اسی کُلیّے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھا ہو، اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۳۳-۳۵)
قرآن سے اس تعلق کے ساتھ مولانا نے دوسری اہم فکری خدمت (contribution) یہ انجام دی ہے کہ دین اسلام کو آج کی زبان میں، ایک مکمل لائحہ عمل کے طور پر بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے، جس میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور عبادت اس کا مظہر بھی ہے اور اس کے تقاضوں کے لائق بنانے کا ذریعہ بھی۔ لیکن اصل ہدف اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس میں نجی، خانگی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، ملکی، عالمی سطح کے تمام تعلقات شامل ہیں۔
اس ضمن میں مولانا مودودی نے بنیادی نوعیت کے چار مزید کام انجام دیے، جو ان کی فکری خدمات میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں:
مسلم معاشروں میں دین سے عدم واقفیت، اور جاہلیت کی گرفت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان مسلمان علم، اخلاق اور دیانت کے بغیر کسی بھی میدان میں کام نہیں کرسکتا۔ علوم کی تقسیم دین اور دنیاوی دائروں میں اس حد تک تو گوارا کی جاسکتی ہے کہ مختلف علوم کے دائروں کو متعین کیا جائے، لیکن اسلام کے تصورِعلم میں اللہ کی مرکزیت اور اللہ کی ہدایت کو علم کے ہرشعبے میں مطابقت (relevance) کے ساتھ پیش کرنا اور ہروقت اس کا احساس بیدار کرنا فہمِ دین کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارےدورِ زوال میں شعوری یا غیرشعوری طور پر علم کا تصور محدود تر ہوگیا۔ کم از کم علمی سطح پر دین کے دائروں اور دینی ہدایت کو شخصی زندگی اور عبادات تک محدود کردیا گیا۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی علوم کے باب میں دین حق نے جو رہنمائی فراہم کی ہے اور جو دورِ عروج میں ہماری شان رہی ہے، اس سے ہم بہت دُور ہوگئے ہیں۔ جب تک یہ ترتیب اور مطابقت علوم اور تربیت کا حصہ نہیں بنتی، احیاے اسلام ممکن نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کی فکری ساخت کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی مرض کی نشان دہی کی۔
اس کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کے لیے استدلال، قیاس، استنباط اور اجتہاد کی بنیاد پر قانون سازی ہے۔ یہی ہے وہ عمل کہ جس سے فقہ کا قیمتی سرمایہ وجود میں آیا۔ پھر فقہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے علم اور تقلید کی روایت نے سفر شروع کیا۔ مولانا مودودی کے نزدیک احیاے دین کے لیے صحیح ترتیب قرآن، سنت، فقہ اور تاریخ ہے۔ جس کی روشنی میں نئے مسائل کا حل قرآن و سنت اور اجتہاد و استنباط ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دورِ زوال میں یہ ترتیب اُلٹ کر رہ گئی۔ یوں تقلید و تاریخ نے عملاً اوّلیت اختیار کرلی، پھر فقہ، اس کے بعد سنت ِ رسولؐ، حکایاتِ بزرگانِ دین اور اس کے بعد قرآن۔ گویا کہ جس چیز، یعنی قرآن کو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا، وہ سب سے آخر میں چلا گیا۔ یہی بدقسمتی مسلمانوں میں مروج نظامِ تعلیم کے ساتھ ہوئی اور وہاں پر بھی ترتیب اُلٹ گئی، اور قرآن سب سے آخر میں اور وہ بھی محدود تر دائرے میں شاملِ نصاب ہوا۔
مولانا مودودی نے اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ مسلم معاشرے میں اصل اصلاح طلب چیز، حقیقی اور مطلوب ترتیب کو بحال کرنا ہے۔ فقہ کو نظرانداز کرنا یا دریابُرد کرنا خودکشی کے مترادف ہے، مگر رہنمائی کے لیے ترتیب میں قرآن ، سنت اور پھر فقہ وتاریخ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی نکتہ ہے، جسے مولانا مودودی نے ابن تیمیہ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ سے گاہے اتفاق اور کچھ اختلاف کے ساتھ پیش کیا اور اس جرأتِ اظہار کی بڑی قیمت ادا کی۔
نہیں اس کی کوئی پرسش کہ یاد اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اور یہ کہ :
ہم کیا کہیں، احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے ہوئے، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مر گئے
مولانا مودودی نے اقبال اور دوسرے علما و مصلحین کے ساتھ مغربی تہذیب کا بھرپور محاکمہ کیا اور بہت صاف صاف الفاظ میں یہ بات کہی کہ: ’’مغربی سامراج سے صرف سیاسی آزادی مطلوب نہیں بلکہ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی آزادی بھی مطلوب ہے، تاکہ مسلمان اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کو مرتب اور منظم کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے محض مسجد بنادینا اور صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خاندانی نظام کا تحفظ اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیربھی ضروری ہے۔ نیز سیاسی آزادی اور اختیار بھی مطلوب ہے تاکہ دینی اقدار بالادست ہوں اور یوں اجتماعی زندگی اسلامی بنیادوں پر استوار ہو‘‘۔ اقبال نے بڑے لطیف انداز میں کہا:
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ کہ:
جدا ہو دیں سیاست سے،تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اسلام، درحقیقت سیاسی و تہذیبی اور فکری و سیاسی میدان میں آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ غلامی کی ہر رمز اور محکومی کی ہر علامت کو رَد کرتا ہے، تاکہ اسے قبول کرنے والے زندگی کی تشکیلِ نو کرسکیں۔ مولانا مودودی نے اس موقف کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کے متوازن ذہن اور محتاط قلم نے مغرب زدگان کو دلیل کے میدان میں بے بس کر دیا ہے اور یہی چیز مغرب کو کھائے جارہی ہے۔ جس کے لیے کبھی اس کے ترجمان ’سیاسی اسلام‘ جیسی نامعقول، مہمل اور مضحک (absurd) اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے ڈانڈے فاشزم اور انتہاپسندی سے جوڑتے ہیں ۔ حالاں کہ سچ بات یہ ہے کہ مسلمان اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حق کہ وہ اپنی انفرادی اور اپنی اجتماعی زندگی کو اپنی اقدار و تہذیب اور قانون و ضابطے کے مطابق گزار سکیں۔
جس طرح مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کا جائزہ لے کر ان کی خامیوں کو متعین کیا، اسی طرح انھوں نے مغربی تہذیب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے اندھی تنقید اور اندھی تقلید دونوں کے مقابلے میں ایک آزاد، نظریاتی، منطقی اور اعتدال پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے تعصب پر مبنی تحقیق و مطالعے کو عدل اور شرفِ انسانی دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے مغرب اور مغربی تہذیب کو اس کے مآخذ کے مطالعے اور سرچشموں کے مشاہدے سے جاننے کی جستجو کی ہے۔ پھر ان بنیادوں پر تنقید کی ہے، جو خدا ناشناسی یا خدا کی قدرت کے محدود تصور پر مبنی ہیں۔
مولانا مودودی نے مغرب کے سامراجی کردار اور نظریاتی و سیاسی پہلوئوں کا ہمہ پہلو محاکمہ کیا ہے۔ پھر مسلم دنیا کو مغرب کے اس اثر سے نکالنے کے لیے سیاسی، فکری، اجتماعی جدوجہد کی دعوت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ مغرب میں یا مغرب کی ہر چیز غلط نہیں، اور نہ مشرق میں اور مشرق کی ہر چیز خیرہے۔ ہمیں کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ ’خیر‘ کے لیے کس چیز سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اس ضمن میں انسانی زندگی کے معاملات، سیاسی تجربات اور سائنسی علوم کو ایک صاحب ِ ایمان فرد کی حیثیت سے پرکھنا چاہیے کہ کہاں اور کس قدر خیر ہے، خیر کو شر سے چھانٹ کر انسانی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے اور شر سے انسانیت کو بچانا چاہیے۔ یہ حس اور یہ صلاحیت اس کھلے ذہن سے پیدا ہوسکتی ہے کہ جس کی میزان لازمی طور پر اسلامی ایمانیات پر استوار ہو اور جس کی کسوٹی اسلامی اصولوں کے ساتھ تصادم یا مطابقت کے سوال سے مشروط ہو۔
جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہیں، وہ انسانیت کی میراث ہے۔ البتہ اندھی تقلید اور اندھی تنقید غلط چیز ہے۔ جو اچھا ہے، اسے قبول کرلو اور جو بُرا ہے، اسے مسترد کردو۔ خیر تک رسائی اور خیر کے استعمال و اختیار کے لیے پوری دنیا ایک میدان ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان فرد کسی ایک علاقے اور کسی ایک زمانے تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے معتدل طریقے سے یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔
مسلم اور مغربی معاشروں کے تنقیدی جائزے کے بعد مولانا نے بتایا ہے کہ اسلامی احیا ہی انسانی زندگی کے لیے خیر اور فلاح کا سرچشمہ ہے، جس کا ماخذ قرآن ہے۔ قرآن کی بنیاد پر دین کو سمجھا جائے، قرآن کی حکمت عملی کو سمجھا جائے اور قرآن کے زیرسایہ اسلامی احیا کی تحریک کو منظم کیا جائے۔ یہ کام دعوت اور نظم و ضبط سے، افراد کی تیاری اور اداروں کی تعمیروترقی ہی سے ممکن ہے، جس میں سب سے مرکزی اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ مولانا محترم نے زور دے کربتایا ہے کہ جدید دور میں، جدید ذرائع اور جدید اسلوب کو دعوت و تنظیم اور عمومی بیداری کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے جدید زمانے میں تنظیم سازی کے لیے بہترین انداز سے جماعت اسلامی اور دوسرے دعوتی اداروں کو منظم کیا۔
مولانا مودودی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قومی ریاستیں (Nation States)مسلمانوں کی منزل نہیں، البتہ مسلم ممالک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں وہ مسلم اُمہ کے اتحاد واشتراک کی جانب رواں سفر کا ایک ذریعہ بن سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ نظریاتی اساس پر اپنی تعمیر کریں۔ہماری قومی ریاستیں مغرب کی طرح علاقائی اور جغرافیائی اکائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک نظریے کی علَم بردار اور ایک جسد ِ واحد کا حصہ ہیں، جنھیں ایک جان دار جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی ہے وہ سبق، جو قرآنِ کریم نے ہرمسلمان کو پڑھایا اور سمجھایا ہے۔
اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے بنیادی نکات دو ہیں: قرآن اور اقامت دین۔ ان کا سارا علمِ کلام اس کی تفسیر ہے اور ان کی تمام سرگذشت ِ زندگی انھی کے مدار میں رواں رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔
ایک اہم بات جس کا ادراک بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے ایک طرف قرآن و سنت اور تاریخ تجدید و احیا کے گہرے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اسلام کے تصورِحیات کو اس کی مکمل شکل میں پیش کیا۔ ایمان اور تزکیے کے ساتھ زندگی کے پورے نظام کی اسی بنیاد پر تعمیر و تشکیل کا واضح تصور اور نقشہ پیش کیا۔ پھر اس کے مطابق زندگی کے نقشے کو بدلنے کے لیے دعوت اور منظم تحریک کی ضرورت اور حکمت کو واضح کیا، وہیں سوچ کا ایک انداز، تحقیق کا ایک اسلوب اور افکار اور حکمت عملی کی تشکیل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں خطوطِ کار مرتب کیے، جسے مَیں مولانا مودودی کا منہج (methodlogy ) کہتا ہوں۔ اس عمل میں انھوں نے قرآن و سنت سے مکمل وفاداری پر زور دیا ہے۔ تاریخی روایت کے تسلسل کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے تقاضوں کا ادراک کرنے اور اُن کی روشنی میں حدود اللہ کی پاس داری اور مقاصد ِ شریعت سے وفاداری کو لازم قرار دیا ہے۔ پھر زبان و بیان، دلیل و استدلال، تنظیم اور نظامِ کار اور پالیسی کے میدان میں نئے تجربات کی ضرورت اور حدود کو بھی معین فرمایا۔ ان اُمور کی روشنی میں مسلمانوں کی اپنی تاریخ اور دورِحاضر کی غالب تہذیب دونوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور نئے تجربات کیے۔
مولانا محترم کے اندازِ فکر اور تحقیق و تجزیے کے اسلوب، دونوں میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ مسلمانوں کو عہد ِ حاضر میں تجدید و احیاے دین کے لیے سرگرم اور متحرک کرنے پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین انعامات سے نوازے، آمین۔
[صحت کی خرابی کے باعث یہ مضمون، نائب مدیر کو املا کرایا گیا۔ مدیر]
مدینہ منورہ کی ریاست کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان بار بار یہ کہتے ہیں کہ ان کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست اور حکومت ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے یقینا ان کا دل بھی یہی چاہتا ہوگا کہ وہ یہ کام کریں اور اس کی عملی تشکیل کی سمت میں بامعنی قدم بڑھائیں۔ ہمیں اس خواہش کو محض سیاسی بیان سمجھنے کے بجاے ان کے قول کواقبال، قائداعظم اور تحریک ِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کا اعادہ سمجھنا چاہیے اور حکومت اور قوم دونوں کی ذمہ داری ہے کہ عملاً اس سمت میں پوری یکسوئی کے ساتھ پیش قدمی کریں۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم متعین کرکے بتائیں کہ یہ ماڈل کیا ہے؟ پھر اس بات کو واضح کیا جائے کہ اس ماڈل کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہم نے جو نکات نومبر۲۰۱۸ء کے ترجمان میں بیان کیے تھے ،وہ اس باب میں معاون ہوسکتے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ شہریت، حقوق اور ذمہ داریاں ان دونوں میثاقوں کی بنیاد ہیں۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مختلف عقائد کے حامل افراد ایک ریاست کے شہری ہوسکتے ہیں اور اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مشترک تعلقات (joint relationship) کے ساتھ ریاست کا نظام چلایا جاسکتا ہے، یعنی ایک یہ کہ مسلمانوں کا حضوؐر کو بحیثیت نبی ماننا اورریاست کا سربراہ ماننا، اور غیرمسلموں کا حضوؐر کو نبی تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی انھیں ریاست کا سربراہ ماننا، آخری سیاسی اتھارٹی تسلیم کرنا۔ پھر یہ کہ ایک اسلامی قیادت اور اسلامی مملکت کا غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے مقام کا تعین کرنا۔ مدینہ کا ماڈل سمجھنے کے لیے یہ دونوں معاہدے بنیاد ہیں۔
یہ ۱۲کے ۱۲ نکات ’میم‘ سے شروع ہوتے ہیں: محمدؐ، مدینہ، میثاق، مسجد، مدرسہ، ماں، مواخات، مساوات، مفادِ عامہ، مجاہدہ اور جہاد، مذاکرات اور معبودِ حقیقی کا قرب۔
یہ ہے مدینہ کا ماڈل اور یہ ہیں اس ماڈل کے بنیادی اجزا۔ آج کے زمان و مکان (Time and Space) میں آپ جتنا بھی رنگ بھرلیں اوراس کو وسعت دے لیں، آپ کے لیے، اُمت کے لیے اور انسانیت کے لیے سعادت مندی کا راستہ آں حضوؐر کی قائم کردہ ریاست ِ مدینہ کے اتباع ہی میں مضمر ہے۔
(سفرِ برطانیہ کے دوران یہ نکات برادرِ عزیز سلیم منصور خالد کو اِملا کرا دیے تھے)
پاکستان اس وقت ایک غیرمعمولی صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ مَیں بڑے دُکھ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت ، احزابِ اختلاف، میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، جو قومی مفاد کی مناسبت سے ان پر عائد ہوتی ہے۔
تین منظرنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن میں:پہلا اور اوّلین ملک کا اندرونی منظرنامہ ہے۔ دوسرا علاقائی منظرنامہ اور پھر تیسرا عالمی منظرنامہ۔ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے الگ الگ پالیسیاں، متضاد اور متناقض رویے اختیار کرنا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
یہاں ان وجوہ کا تذکرہ نہیں کیا جارہا جن کی بنا پر ۷۰برس کے دوران میں ہم نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔البتہ ملکی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کے جو چار بنیادی اہداف تھے، انھیں پیش نظر رکھا جائے۔ اوّلیں اور سب سے اہم ہدف ہے: ایک حقیقی اسلامی معاشرے اور مملکت کا قیام۔ دوسرا ہدف اسلام کی روح کے مطابق ایک ایسے جمہوری نظام کا قیام ہے کہ جس میں عوام اپنی قسمت اور مستقبل کے ذمہ دار ہوں اور اس کی تشکیل اور تعمیر میں اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے کردار ادا کریں، اور یہ منتخب نمایندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ تیسرا ہدف یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکومت دستور، قانون اور ضابطۂ کار کے مطابق چلے۔ اور چوتھا یہ کہ حکومت کا مقصود عوام کی بھلائی، ان کی بہبود اور ان کے معیارِ زندگی کے ساتھ ان کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنا بھی ہو۔ اس کے لیے دُنیوی وسائل اور جدید ٹکنالوجی کا حصول ضروری ہے، تاکہ ترقی کے لیے مؤثر قوتِ کار فراہم کی جاسکے۔
ان بنیادی اہداف کے ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ زمینی حقائق ہیں کہ ہم بہرحال ایک وفاق ہیں،اور ہمارے ہاں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم گروہی، علاقائی اور قومیتی عصبیتوں میں مبتلا ہوں، مناسب ہوگا کہ اختلاف کے باوجود اتفاق و اتحاد اور رواداری اور افہام و تفہیم کے ماحول میں محنت اور جدوجہد کریں اور موجودہ حکومت کو موقع دیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے پیش رفت کرے۔
قائداعظم نے ان تمام چیزوں کو ان تین الفاظ میں جمع کر دیا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ یہ بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ایمان پہلے آتا ہے یا اتحاد پہلے آتا ہے۔ میرے علم کی حد تک قائداعظم نے اسے دونوں طرح استعمال کیا ہے لیکن زیادہ تر ایمان پہلے آیا ہے، اتحاد اس کے بعد اور تنظیم آخر میں ہے۔ یہ الفاظ ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں اور برابر کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک کی صورتِ حال پر نظر ڈالیے۔ اس وقت قوم کو لفظی بحثوںمیں اُلجھایا جارہا ہے، اس سے قوم کو معاف رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بنیادی اصول و اہداف (objectives) جنھیں ہم بھول گئے ہیں، انھیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
لفظوں کی ترتیب کی بہرحال ایک معنویت ہوتی ہے، اسی لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘ کو قومی موٹو قرار دیا گیا۔ قرآن ہمیں ایمان، عمل اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انبیاے کرام ؑ کا مقصد تلاوتِ آیات، تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت ہے:
كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے، تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
خاص طور پرپچھلے ۲۰ برس قومی زندگی کے لیے اہم ہیں کہ ان میں پچھلے ۱۰سالہ فوجی آمریت کا دور، پھر پانچ سالہ پیپلزپارٹی کا دور اور سابقہ پانچ سالہ نون لیگ کا دور___ یہ تینوں حکمران اپنے دیے ہوئے اہداف کے حصول میں ناکام رہے۔ مزیدبرآں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، سالمیت، معاشی صلاحیت میں ترقی، نظریاتی استحکام ، جمہوری روایات، دستور، قانونی اداروں کی حکمرانی کو ہرایک نے اپنے اپنے انداز سے پامال کیا ہے۔یہ ہے عوام کی مایوسی کی وہ بنیاد جس نے تبدیلی کی لہر کو جنم دیا ہے۔
تبدیلی اور مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو مرکزیت دے کر پاکستان کو اس کے سیاسی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی بحران سے نکالنا جماعت اسلامی کا مقصد ہے۔ ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے منشور کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم اپنے موضوع و مقصد کو عوام اور اپنے ووٹروں کے لیے باعث ِ کشش نہیں بنا سکے تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں مختلف سطحوں پر نمایاں گڑبڑ ہوئی ہے اور یہ گڑبڑ ماضی کے مقابلے میں زیادہ فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ لیکن یہاں پر حسب ذیل دو باتوں کا ادراک ضروری ہے اور انھیں انتخابات میں مداخلت کے علی الرغم اہم عوامل کی حیثیت سے زیرغور لانا چاہیے:
پہلی بات یہ کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے اور چاہتے ہیں ، اسی لیے انھوں نے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک تیسری قوت کو آگے لانا ضروری سمجھا۔ اس خواہش کو انتخابی اعتبار سے نتیجہ خیز بنانے کے لیے کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس پر الگ سے تحقیق اور گفتگو ہونی چاہیے۔لیکن جو اندرونی مسئلہ ہے، یعنی تبدیلی اور وہ بھی ایک خاص سمت میں اور روایتی سیاسی قیادت اور اداروں کی ناکامی___ یہ ایک حقیقت ہے اور یہی بڑا چیلنج ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی میں یہ چیزیں مرکزی اہمیت کی حامل تھیں۔
دوسری بات جس کے بارے میں مجھے کوئی تحفظ نہیں، وہ یہ ہے کہ انتخابات میں اثرانداز ہونے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ ایسا کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا رہا ہے، بلکہ برملا کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی انتخابات آج تک حقیقی معنوں میں شفاف نہیں ہوئے، بشمول ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے جس کے بارے میں یہ غلط تاثر بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ بہت غیر جانب دارانہ تھے۔ حالاںکہ ان انتخابات میں بھی مغربی پاکستان میں نسبتاً کم لیکن مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں انتخابی عملہ اور پولنگ اسٹیشن مکمل طور پر عوامی لیگ کے قبضے میں تھے۔ عوامی لیگ نے سارا سال کسی دوسری پارٹی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی اور پورے انتخابی عمل کو آغاز سے انجام تک اغوا کیے رکھا۔مگر حیرت ہے کہ ہمارے دانش ور اسے ’آزادانہ انتخابات‘ کہتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ’عوامی لیگ کے انتخابات‘ تھے۔پھر اس کے نتائج ہم نے قومی سطح پر بھگتے۔
حالیہ انتخابات میں تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود، مَیں سمجھتا ہوں کہ انتخابی نتائج کو تحفظات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور جہاں جو چیز غلط ہوئی ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
حزبِ اختلاف احتجاج کر رہی ہے اور احتجاج اس کا حق ہے، مگر کوئی ایسا احتجاج جس سے جمہوری عمل متاثر ہو یا خدانخواستہ ناکام ہوجائے، یہ ہمیں اس سے بڑی مصیبت کی طرف لے جائے گا، اس لیے ہمیں ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ: ایک یہ کہ عوامی رو موجود ہے اور حقیقی ضرورت بھی ہے اور اس کو ایک سیاسی جماعت نے اپنے لیے بامعنی بنایا بھی ہے۔ بعض قوتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ملک کسی طرح تصادم کی طرف جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تباہی کا راستہ ہے، اس سے ہمیں ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
راستہ یہ ہے کہ ہم دستور اور جمہوری نظام کے اندر سیاسی مکالمے، احتساب اور سیاسی عمل کے ذریعے سے بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اس میں حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے اور اپوزیشن بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت یہی ایک راستہ ہے، تصادم کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ تصادم خواہ شکست خوردہ قوتیں کرنا چاہ رہی ہیں یا وہ سیاسی قوتیں جو کرپشن کا ہدف بننے کی وجہ سے (بجاے اس کے کہ کرپشن سے اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں) سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار اور اداروں کو تصادم کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہیں، وہ سب قابلِ مذمت ہیں۔ یہ طرزِعمل حددرجہ افسوس ناک ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
اب علاقائی (regional) منظرنامے کو دیکھیے۔ خطے میں بہت اہم علاقائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ان علاقائی تبدیلیوں میں امریکا کا بہت دخل ہے۔ اس نے نائن الیون کو اپنے گھٹیا مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ افغانستان کو مسلسل جنگ کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں معقولیت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کے بجاے عراق پر حملہ کیا اور پھر ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک (۱۵سال ہوگئے ہیں کہ) عراق، شام اور لیبیا، امریکی سامراجیت کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ پورا خطہ تصادم اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں، آگے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں شیعہ سُنّی تصادم کی فضا پیدا کی اور قوت کا استعمال کر کے یمن کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکا کے علاوہ ایران کا کردار بھی متعددحوالوں سے غیرتسلی بخش ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ عراق میں ایران نے کچھ مقامات پر القاعدہ یا اس سے نکلنے والے افراد کی مدد کی ہے۔ ادھر لبنان کی حزب اللہ نے شیعہ سُنّی ٹکرائو میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بھی واضح ہے۔ شام کے معاملے میں جس طرح شیعہ سُنّی کا مسئلہ اُٹھایا گیا اور پھر یمن پر حملہ،پھر قطر کو دیوار سے لگادینا اور اسے تنہائی سے دوچار کرنا۔ گویا عرب اور عجم کو لڑانا، عرب اور عرب کو لڑانا اور اس طرح سب کو اپنا دست نگر بنانا امریکی پالیسیوں کا ہدف ہے۔ پھر امریکا کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہم القاعدہ اور داعش کے خلاف ہیں اور دوسری طرف اس کا داعش کے ان گروپوں کی مالی اور اسلحے کی شکل میں مدد دینا جو ترکی کے خلاف بھی صف آرا ہیں، ایک ظالمانہ شیطانی کھیل ہے ۔سی آئی اے ان کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا اور امریکی اہل کار ان کے پاس پہنچ رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب منظر دل کو دہلا دینے والا اور آنکھوں کو کھول دینے والا ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک اب بھی غفلت کا شکار ہیں اور امریکا اور استعماری قوتوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش نہیں کررہے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن بہرحال پاکستان بہت سی ایسی چیزوں سے بچ بھی گیا ہے جن سے اسے بچنا چاہیے تھا۔ ترکی، پاکستان، ملایشیا اور انڈونیشیا یہ چار ممالک ہیں جو اس پوری صورتِ حال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے اس منظرنامے میں بھارت کا کردار اہم ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے۔
بھارت نے اس زمانے میں دُوراندیشی سے ایک طرف روس سے اپنے تعلق کو باقی رکھا ہے، ایران سے دوستی بڑھائی ہے تو دوسری جانب ایران اور امریکا کے ذریعے افغانستان میں اپنے اثرات بڑھائے ہیں۔ امریکا کے ساتھ حقیقی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بنائی ہے۔اس وقت امریکا بھارت اتحاداس پورے خطے میں بھارت کو آگے بڑھانے اور چین کو ہدف بنانے کے لیے پوری قوت سے متحرک ہے۔اس گمبھیر ، اُلجھی ہوئی اور نازک صورتِ حال کا اِدراک اور خارجہ پالیسی کو حکمت و بصیرت کے ساتھ مرتب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے لیے بڑے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر پورا ورلڈ آرڈر (عالمی نظام) بدل رہا ہے۔ یہ عمل نائن الیون سے پہلے شروع ہوگیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کو توقع تھی کہ وہ واحد عالمی سوپرپاور کی حیثیت سے پوری دنیا پر حاوی ہوجائے گا ، مگر اللہ کی حکمت سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا میں دُوری، روس کا نیا کردار، چین کا مؤثر کردار اور خود امریکا میں ’امریکافرسٹ‘ (سب سے پہلے امریکا)کے نعرے کا عام ہونا ایک نئی صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد امریکا اپنے آپ کو نہ صرف ورلڈ آرڈر سے نکالنے بلکہ اسے تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے تحت اس نے اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فورم اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو ہدف بنایا ہے۔ ایران سے جوہری پروگرام کی تحدید کا معاہدہ چھے ممالک سے ہوا تھا، اس معاہدے سے نکل کر امریکا نے تباہی کی ایک نئی صورتِ حال پیدا کر لی ہے۔ پیسفک کے ۱۲ممالک کے معاہدے سے امریکا نکلا ہے، میکسیکو اور کینیڈا سے بھی کھچائو اور کشاکش کا کھیل جاری و ساری ہے۔یہ عالمی سطح پر بگاڑ اور انتشار کی علامت ہے۔
پھر اس کے ساتھ ساتھ دولت اور غربت کا ارتکاز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس زمانے میں حقیقی قوتِ خرید انسانوں کی عظیم اکثریت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والے ادارے اور افراد کھل کر اور چالاکی سے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جو معاشی بحران شروع ہوا، وہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہا بلکہ اس نے سرمایہ داروں، کارپوریشنوں اور بنکوں کو تقویت پہنچائی اور مضبوط بھی کیا ہے۔ عام انسان، حتیٰ کہ امریکی صدر اوباما کے دور میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جو کوشش کی گئی تھی (کہ کسی طرح ہائوسنگ، انشورنس، صحت کے مسئلے پر عوام کو کچھ سہولت دی جائے)۔ امریکا اب اس سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شعبۂ تعلیم و تحقیق، امریکا کا بہت بڑا اثاثہ رہا ہے، لیکن ترجیحات کے اُلٹنے سے اب تعلیم ہر جگہ خریدوفروخت کی چیز بن گئی ہے۔ مفت تعلیم جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے، وہ نہ صرف امریکا میں بلکہ پوری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔
ان تینوں منظرناموں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کا جائزہ لینے اور عصری حالات میں بہتر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اس میں میری نگاہ میں اصل اور بڑا چیلنج داخلی ہے۔ ہم علاقائی اور عالمی صورتِ حال کو نظرانداز کرکے داخلی صورتِ حال کو بہتر نہیں بناسکتے۔ داخلی صورتِ حال ہی اصلاح اور مضبوطی کا ذریعہ ہے کہ جس سے خارجی حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے داخلی استحکام ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ رہی عالمی اور علاقائی صورتِ حال، تو اس کے بارے میں جہاں تک ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، کرنا چاہیے۔ پھر ہمارے اس خطۂ ارضی کو بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں سفاکی نے خطرناک بنادیا ہے۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے مسائل ہیں جنھوں نے گلوبل ڈس آرڈر (عالمی بدنظمی) کو رواج دیا ہے۔ ان مسائل اور ان کے متاثرین کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کا ہم آواز ہونا ___ ہماری نگاہ میں رہنا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
تحریکِ انصاف کی حکومت نے دو تین پہلوئوں سے شروع ہی میں لوگوں کو مایوس کیا ہے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ بلاشبہہ ان کے لیے پہلا موقع ہے، خاص طور پر عمران خان کے لیے کہ اس سے پہلے کبھی ان کی حکومت نہیں رہی ۔ انھیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا اور ماہرین کی آرا سے فائدہ اُٹھا کر، قابلِ اعتماد اور باصلاحیت افراد سے استفادہ کرتے ہوئے اور خود اپنی ٹیم کو رہنمائی دینا ہوگی۔یاد رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں پر سخت جارحانہ تنقید کرتے رہے ہیں، اور اب انھیں اپنے دامن کو ایسے تمام داغوں سے بچاکر چلنا ہوگا۔
مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن میں بطور وزیر آیا تو وزارت میں جماعت اسلامی کے تین محترم رفقا پروفیسر عبدالغفوراحمد صاحب، محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور محترم محمود اعظم فاروقی صاحب بھی پاکستان کی وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔ پروفیسر غفورصاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں اچھی گرفت اور تجربہ رکھتے تھے، لیکن ان کے برعکس میرا سارا علم کتابی اور تجربہ دعوتی کام کا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج میں رہے تھے اور پھر انھیں جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انتظامی اُمور کو چلانے کا تجربہ بھی میسر تھا۔
اس تناظر میں ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ایک دم کس طرح ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ الحمدللہ ،ثم الحمدللہ ہم آٹھ نو ماہ تک حکومت میں رہے ہیں لیکن کوئی ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے بیانات میں تضادات ہو یاہم نے قابلِ ذکر غلطیاں کی ہوں یا ہم نے جو فوری اقدامات کیے، وہ ندامت کا باعث بنے ہوں۔ دوسرا یہ کہ جماعت اسلامی نے ہماری تربیت کی تھی، چنانچہ ہم نے مشاورت میں ہمیشہ تحمل سے بات کی اور سنی بھی، اس طرح بولنے سے پہلے ہرمرحلے پر سوچا بھی کہ اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ پھر فوجی حکمرانی میں انتظامی حدود کے جو زمینی حقائق تھے، ان کو سامنے رکھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھا اور پھر عمل کر کے دکھایا بھی کہ کس طرح کام ہوتا ہے۔
مجھے یہی توقع تھی کہ عمران خان بھی اپنے تجربات کی بنا پر ایسا کریں گے، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے جن مسائل و معاملات پر وہ یکسوئی سے بات کر تے رہے ہیں، ان سے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹے ہیں۔ اس میں یہ دو تین چیزیں اہم ہیں: ایک یہ کہ ان کے سیاسی موقف کا بہت اہم حصہ یہ تھا کہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ وہ باصلاحیت ہوں اور ان کا دامن صاف ہو۔ ان کی اس بات میں بڑی اپیل تھی مگر عملاً وہ اس سے پیچھے ہٹے۔ دوسری طرف نوجوانوں نے آنکھیںبند کرکے ان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بہت بڑی قوت تھی اور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ ریاست کی انتظامی مشینری میں بھی باصلاحیت اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں نے خود پلاننگ کمیشن میں آنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ سب سے پہلے محنتی اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنائی تھی۔ اگر وہاں اچھی ٹیم نہ بناتاتوجو کچھ خدمات انجام دے سکا، وہ مَیں انجام نہ دے سکتا تھا۔ اس معاملے میں عمران خان توقعات پرپورا نہیں اُترے اور انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے افراد کے چکّر میں، یا دوستیوں کی بنا پر وہ اس سے پیچھے ہٹے ہیں۔ حالاںکہ ان کا ایک خاص منصوبہ بھی رہا ہے کہ ایک ٹیم بنائی جائے۔ وہ جن لوگوں کو آگے لائے ہیں ان میں کچھ اچھے اور لائق لوگ بھی ہیں، ان کے نظریاتی کارکن بھی اور کچھ نوجوان بھی آئے ہیں لیکن ایک خاصی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کی شہرت اچھی نہیں اور جن پر الزامات ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے۔
دوسری چیز جو پریشانی کا باعث رہی، ان کی سوچ اور گفتگو کا انداز ہے۔ انھوں نے تنقید کا جو انداز اپنایا اور جو الفاظ استعمال کیے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس چیزکو جاری رکھنا اگرچہ خواہ پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، لیکن ان کا اوران سے بھی زیادہ ،ان کے ترجمانوں کا مخالفین پر تنقید کا انداز بہت نقصان دہ ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ مشورے اور گہری سوچ کے بغیر اہم فیصلے کرنا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ فیصلوں کا قبل از وقت اعلان کرنا ہے۔ یہ چیز انتظامیات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی اور شوریٰ کے اصول کے بھی خلاف ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ہرمعاملے پر علی الاعلان اظہارِ خیال ان کی حکومت کا طرزِعمل بنتا جارہا ہے۔ ایک جانب جلدبازی میں فیصلوں کا اعلان کردیتے ہیں اور پھر اچانک فیصلہ بدل دیتے ہیں، جو باعث ِ ندامت ہوتا ہے۔ ڈپلومیسی ۹۰ فی صد خاموشی کا نام ہے اور ۱۰فی صد اس کا اظہار زبانی (vocal ) اور بہ آوازِ بلند (loud) ہوتا ہے۔ مگر عمران حکومت نے معاملہ اس کے اُلٹ کر دیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈپلومیسی بھی ٹویٹر (tweeter) کی مرہونِ منت ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اڑھائی مہینے کے دوران میں عوام کی توقعات کو صدمہ پہنچا ہے۔
ان تمام کمزوریوں، خامیوں اور تضادات کے باوجود حکومت کرنے کا انھیں موقع دیا جائے۔ جو کام یہ ٹھیک کریں، اس کی تائید کی جائے، محض مخالفت براے مخالفت نہ کی جائے۔ البتہ جو کام پالیسی کے اعتبار سے غلط کریں، ان پر گرفت اور تنقید کی جائے، لیکن یہ تنقید بھی جارحانہ نہیں بلکہ تعمیری ہونی چاہیے، تاکہ اس سے معاملات میں بہتری آسکے۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ان کے درمیان باہمی رابطے اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ اس وقت رابطے اور افہام و تفہیم میں دونوں کی طرف سے کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے یہ بے نیازی زیادہ ہے۔ حکومت کو پہل کرتے ہوئے زیادہ بُردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس وقت یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک منقسم قوم ہیں اور مختلف سطحوں پر گروہ بندی (polarlization) کا شکار ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف راے اور مسابقت اپنی حدود کے اندر رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی فریم ورک پر اتفاق بھی رہنا چاہیے۔ قومی فریم ورک کا دفاع اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش، یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ گروہ بندی سے نکلا جائے اور سخت نوعیت کی تقسیم کو ختم کیا جائے یا کم کیا جائے۔ باہمی رابطے کا راستہ اختیار کیا جائے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
دوسرا مسئلہ اداراتی بحران کا ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو صورتِ حال شدید اداراتی بدنظمی کا نوحہ سناتی ہے۔ مَیں اسے مکمل اداراتی ناکامی نہیں کہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ اداروں پر اعتبار و اعتماد کی فضا موجود نہیں ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، انتظامیہ، میڈیا، سوشل میڈیا اس وقت بڑے بڑے مؤثر عوامل ہیں مگر یہ سب ایک سطح پر نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنا دستوری، سیاسی اور تہذیبی کردار خاطرخواہ طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ مداخلت، گروہ بندی ، لوگوں کو خریدنا، اپنی لابی بنانا، نان ایشوز کو ایشوز بنانا___ یہ انھی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجہ ہے: ذہنی انتشار جو ہمارے دشمن اور عالمی اور علاقائی بحران پیدا کرنے والوں کے مقاصد پورا کرنے میں معاون بن رہا ہے۔ ’انسٹی ٹیوشنل ڈس لوکیشن‘ سے نکلنا اور اس کی اصلاح کی جائے۔
میری نگاہ میں آج بھی ملک میں معقول تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاکر بہت کم وقت میں اداروں کو مؤثر اور متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ہردائرے میں اچھے لوگ موجود ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند سے بالا ہوکر انھیں اداروں میں لائیں اور ان کو اختیار دیں اور موقع بھی دیں۔ پنجاب میں اصلاحِ احوال کے لیے ایک ایسے باصلاحیت شخص کو لایا گیا جس نے خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا تھا، اور جسے سب نے سراہا تھا۔ لیکن پنجاب میں وہ ایک مہینے سے زیادہ چل نہ سکا۔ خیبرپختونخوا میں اپنی پسند سے جس شخص کو احتساب کے لیے مقرر کیا ، قانون بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قانون نیب کے قانون سے اچھا تھا لیکن اس قانون پر کچھ عرصہ بھی عمل نہ ہوا اور پھر بالآخر وہ ادارہ ہی ختم کرنا پڑگیا۔ اس اداراتی بحران کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسری چیز کرپشن ہے۔ کرپشن فی الحقیقت ایک بہت بڑی بیماری ہے، بہت بڑی لعنت ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مقدار و معیار بھی دونوں اعتبار سے۔ اور بدعنوانی کی واردات میں ملوث افراد کے ہاں کرپشن کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ کرپشن برطانوی دورِغلامی میں بھی تھی۔ یاد رہے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی قائداعظم نے تمام معاملات سے پہلے کرپشن اور اقرباپروری، تنگ نظری، مگر عصبیت، گروہ بندی، لسانیت اور قومیت پرستی پر ضرب لگائی تھی۔ مگر افسوس کہ کرپشن اس کے باوجود آگے بڑھی ہے۔
پہلے ۱۰ برسوں میں شاذشاذ ہی مالی کرپشن ہوتی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہم لوگ فریئر روڈ کراچی پر رہتے تھے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سیکرٹریٹ تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھاجنھوں نے توبہ کی اور عہد کیا کہ: ’’ہم نے انگریزکے زمانے میں رشوت لی تھی لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکّر، اقرباپروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبرسسٹم سے کرپشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نوازشریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور، لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی۔
ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی نیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ مَیں خود اس کے حق میں تھا کہ حزبِ اختلاف سے نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہیے۔ گو، ہم ۱۸ویں ترمیم میں اسے لا نہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی اس روایت کو اُس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہرحال اسے کچھ نہ کچھ قائم رکھا۔ اس کے بعد نوازشریف کے دور میں یہ بالکل غیرمؤثر ہوگئی اور صاف نظر آنے لگا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجۂ حرارت حسب ِ ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آیندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔
کرپشن کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے نیب کے کردار پر اَزسرِنو غور کرنا ہوگا۔ نیب میں ایسے افراد لانا ہوں گے جو دیانت دارہوں، اہل اور باصلاحیت ہوں، اپنے شعبوں میں تخصص رکھتے ہوں، ہرطرح کے دبائو کو برداشت کرسکیں اور تفتیشی عمل اور عدالتی عمل کے جملہ مراحل میں مقدمے کو احسن طریقے سے پیش کرسکیں۔
محمد نواز شریف صاحب ، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور ایان علی وغیرہ کے مقدمات سامنے آئے ہیں۔ ان میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو چوٹی کے وکلا ہیں جو دفاع کر رہے ہیں اور دوسری طرف نیب کا وکیل یا پراسیکیوشن کمزور سے کمزور چیز لے کر آتا ہے اور اہم اور مضبوط چیزوں کی موجودگی کے باوجود دانستہ طور پر کیس کمزور رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے میاں نوازشریف کے مقدمے کے سلسلے میں اصل فیصلے اور مشترکہ تفتیشی ٹیم کی کارروائی کی ۱۰ جلدوں کو دیکھیے تو بالکل دوسری تصویر سامنے آتی ہے، اور آخری فیصلے کو پڑھیے تو بالکل ہی مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہہ کرپشن اس ملک کا تیسرا اہم مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ازبس ضروری ہے مگر اس کے لیے بڑے حکیمانہ طریقِ کار، بالغ نظری اور غیر جانب داری کی ضرورت ہے۔
ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کے حوالے سے ہمارے ملک اور قوم میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود ہم ابھی تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی کمزور پالیسی اختیار کی تھی لیکن نوازشریف کے زمانے میں تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن پالیسی اختیار کی گئی۔ قرض پر انحصار کیا گیا، میگا پراجیکٹس کے اُوپر، غلط ترجیحات، بروقت اقدامات سے غفلت،ہرمنصوبے کی اصل لاگت اور حقیقی لاگت میں زمین آسمان کا فرق، یہ سب چیزیں معاشی بحران کا سبب بنیں۔ پھر برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی چلی گئیں اور ان کا فرق بھی ہرسال بڑھتا چلا گیا۔مالیاتی خسارہ، تجارتی خسارہ اور بین الاقوامی مالیاتی خسارہ ، یہ تینوں خسارے جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، وہ بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔
اس پہلو سے عمران حکومت کو بہت ہی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)کے حوالے سے نظریاتی اور قومی سطح پر میری راے یہی ہے کہ ہمیں اس کے چنگل سے نکلنا چاہیے، لیکن اب ملک جس معاشی دلدل اور دبائو میں پھنس چکا ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ وقت کے لیے مجبوراً اس کا سہارا لینا پڑے گا۔ تاہم اس مسئلے میں حکومت کا طرزِعمل کوئی اچھا تاثر نہیں پیش کرہا۔ اس میں بالغ نظری اور بصیرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین سے مشورہ کرکے ایک راستہ بنایا جائے۔ اس کے بعد Internal fiscal control (اندرونی مالیاتی کنٹرول)، ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی، لوگوں کی شرکت، مقامی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال، کرپشن کے خاتمے، برآمدات کے فروغ، زراعت کو اہمیت دینے، سمال انڈسٹری اور میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ، کاروباری طبقات کی شرکت وغیرہ۔ اس کے لیے فوری، درمیانے اور طویل درجے کے منصوبے بنائے جائیں۔
پلاننگ کمیشن، پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے زمانے میں اور پھر مشرف کے دورِ حکومت میں ایک عضوِ معطل رہاہے۔ قومی پلاننگ کمیشن کو معاشی پالیسیوں کے حوالےسے حکومت کا دماغ اور مرکز ہونا چاہیے۔ جب تک آپ اس کو یہ حیثیت نہیں دیں گے، پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ کے درمیان تعاون نہ ہوگا اور تمام معاشی وزارتوں میں ہم آہنگی نہ ہوگی تو اسٹیٹ بنک اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح نیشنل اکنامک کونسل کا قیام اور اس کی صحیح رہنمائی میسر نہ ہوگی تو معاشی بحران پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہ تمام کرنے کی چیزیں ہیں۔
مَیں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ چھے ماہ سے ایک سال کے اندر اندر ہم معاشی بحران سے نکلنے کے راستے پر آسکتے ہیں۔ پھر ہم اگلے چند برسوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ صحیح اور ٹھیک اقتصادی پالیسی بنالیں۔
آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے وژن اور اپنی منزل مقصود کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے اور اس کو سامنے رکھ کر ایک تسلسل سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
یہ قرآن کریم کا غیرمعمولی ادبی اعجاز ہے کہ وہ انسانوں کے لیے اپنی ہدایت کی تعلیمات کو انتہائی مختصرالفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ ان الفاظ میں نہ کہیں جھول پایا جاتا ہے، نہ ابہام، نہ فلسفیانہ اُلجھن بلکہ سلاست ِبیان کے ساتھ محض چند الفاظ معانی کے سمندر کو سمو لیتے ہیں۔ سورئہ صف میں چند الفاظ میں انبیاے کرام ؑ کو مقرر کرنے کا مقصد، دعوتِ دین کی جامعیت، دعوت و اصلاح کا مقصد اور آخرکار ایک ایسے معاشرے اور نظامِ عدل کے قیام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شرک و کفر اور زندگی میں ظلم، فساد اور دو رنگی سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جاتا ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۹ۧ (الصف۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
یہاں پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی طور پر بھیجا جانا اس غرض کے لیے ہے کہ وہ ہدایت اور دین حق کو، جیساکہ وہ ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے اس میں سے کسی بات کو نظرانداز کیے بغیر، بلاکم و کاست اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام اور شبہہ نہ رہے اور حق ظاہر ہوجائے۔ لیکن یہاں ساتھ یہ بات بھی سجھائی جارہی ہے کہ دینِ حق اور ہدایتِ الٰہی کو محض پیش کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حق کو باطل، شرک اور فسق پر غالب کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دعوت کا حصہ اور مقصود ہیں۔ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ شرک و و الحاد کو، نفس پرستی اور آبا پرستی کو ، اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے انسانی زندگی کو پاک کرے، جھوٹے خدائوں سے انسانیت کو نجات دلائے، اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اللہ رب العزت کی سربلندی اور حاکمیت کے قیام کے ذریعے سے اللہ کی زمین پر صرف اس کی مرضی کو رائج اور قائم کردے۔ یہ دعوتِ دین کے کسی خاص جزو یا حصے پر عمل پیرا ہونے کی نہیں بلکہ مکمل دین کی دعوت ہے۔ توحید فقط اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اور صرف اس کی بندگی میں آجانے کا نام ہے۔
اسلام دین و دنیا کی ثنویت یا دو رنگی (dualism) کی جگہ دین و دنیا کی وحدت کا داعی ہے اور یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا، تجارت کرنا، تفریح کرنا، غرض ہرانسانی عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشی اور مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔ یہ عیسائیت کی طرح ہفتے میں ایک دن چرچ جا کر اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکومت اور دائرۂ کار کو جس طرح مسجد میں قائم کرتا ہے، اسی طرح خاندان، تجارت، سیاست، معاشرت، قانون و ثقافت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور احکام کے تابع کرتا اور اس کی رضا کے حصول کا میدانِ کار بنا دیتا ہے۔نعوذ باللہ یہ ایسے خدا کا قائل نہیں جو مسجد یا خانقاہ تک محدود ہو اور باقی تمام کاروبارِ حیات شیطان کے حوالے کردے۔ اسلام اس تقسیم کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے اور یہی منصب نبوت کا تقاضا ہے۔ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) ’’اللہ کے بندے بن جائو اور طاغوت سے مکمل اجتناب کرلو‘‘۔ یہی وہ دعوت ہے جسے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانوں تک پہنچایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
اگلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انبیاے کرام ؑ ہی ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور تمام انبیاےکرامؑ نے انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ گویا یہ دین ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ اللہ ہے جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انھیں گمراہ نہیں دیکھنا چاہتا، جو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے انبیا ؑ بھیجتا رہا اور جس نے آخرکار پوری ا نسانیت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور پیغامبر بنا کر بھیجا۔ دین کو مکمل شکل میں محفوظ کیا اور اسے قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم اور نجات کا راستہ قرار دیا۔ نیز یہ کہ نبی کا کام نہ صرف تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب ہے بلکہ تزکیہ اور حکمت کی تعلیم و تربیت دینا بھی ہے۔ ان چاروں وظائف کو عملاً نافذ کرنے کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یعنی تلاوتِ کتاب کے ذریعے انسانوں تک ہدایت اور دین حق کو جیساکہ وہ ہے پہنچانا، نبی کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ افراد کا تزکیہ کرنا، جسے ہم کردار سازی اور صلاحیت ِ کار میں ترقی کہتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کو اُبھارنا اور انھیں دعوتِ دین کی حکمت عملی سے آگاہ کرنا نبی کے مشن کا حصہ ہے۔ نبی کے بعد دعوت کا پہنچانا ہو یا ہدایت کی وضاحت کرنی ہو، قانون کا نفاذ کرنا ہو، یہ سب کام نبی کے بعد اُس اُمت کے سپرد کر دیے گئے جو نبی پر ایمان رکھتی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تم وہ خیراُمت ہو جسے پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانوں کو اچھائی ، نیکی، بھلائی اور معروف کا حکم دو اور گمراہی، منکر اور فواحش سے روکنے اور بچانے کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
یہاں بات فقط وعظ و تلقین کی نہیں کی جارہی بلکہ اس کے امرونہی کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پر قوتِ نافذہ کی طرف اشارہ ہے اور جس کے ذریعےمتوجہ کیا جارہا ہے کہ منکر اور بُرائی کو مٹانے کے لیے ہرممکن ذریعۂ اصلاح کا استعمال ضروری ہے۔
یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت مکمل ہے، یہ زندگی کے کسی خاص پہلو تک محدود نہیں، یہ محض روحانیت کا نام نہیں، نہ یہ محض ’ذاتی‘ اور ’نجی‘زندگی کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف جامع اور مکمل ہے بلکہ یہی حق ہے یہی ’دین الحق‘ ہے اور اس ’دین الحق‘ کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کرنا نبی اور ان کے بعد نبی کے ماننے والوں کا کام ہے۔ تحریک اسلامی کا اصل مقصود، دین حق کا قیام اور باطل اور طاغوت سے انسانیت کو نجات دلانا ہے۔
یہ بات بھی واضح کی جارہی ہے کہ اس دین حق کی دعوت اور جدوجہد کو کفر، ظلم، طاغوت کے علَم بردار برداشت نہیں کریں گے۔وہ اسے سخت ناگوار سمجھتے ہوئے اپنی تمام قوت اس کا راستہ روکنے میں لگائیں گے اور نہ صرف مقامی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دین حق کو دبانے اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو خوش نصیب ہدایت کو قبول کرلیں گے اور اس پر استقامت سے جم جائیں گے، وہ اپنے رب کی نصرت و حمایت سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود بالآخر کثرت پر غالب آئیں گے۔ اسلام قلت و کثرتِ افراد کی جگہ افراد کی تاثیر اور قوت کردار و اخلاق کا اصول پیش کرتا ہے کہ اگر وہ صرف ۲۰ صالح اور مجاہد افراد ہیں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے ۔ گویا کامیابی کا معیار تعداد نہیں تربیت ہے، کردار اور طرزِعمل ہے۔ مخالفت کی ہوائیں جتنی بھی تندوتیز ہوں گی، حق اتنا ہی زیادہ بلندی کی طرف جائے گا۔
جو اسلامی تحریکات اپنے قیام کا مقصد اور اپنی سرگرمیوں کا ہدف حاکمیت ِالٰہی کا قیام قرار دیتی ہیں، ان کے لیے قرآن کا دیا ہوا اصول یہی ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کے لیے ایسے افراد تیار کریں جو چاہے تعداد میں کم ہوں لیکن اپنے ایمان اور کردار میں غیرمتزلزل اور میدانِ کارزار میں چٹان کی طرح جم جانے والے ہوں، جو سر تو دے دیں لیکن ان کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے اور ایمانی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کریں۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل سرمایہ یہی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں، جو اللہ کے حضور شب گزاری کے ساتھ ساتھ کارزارِ حیات میں، رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہدایت ربانی اور مکمل دین کے اظہار اور حق کو قائم کرنے کے لیے محض عددی قوت یا عوامی احتجاج کی طاقت (street power)کا استعمال کامیابی کی شرط نہیں ہے۔ تحریکی کارکنوں کی وہ کم تعداد بھی جو قوتِ کردار سے آراستہ ہو، باطل اور طاغوت کے بڑے سے بڑے لشکر پر غالب آسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ معرکۂ بدر ہو یا غزوئہ احزاب، اہلِ ایمان کی کم تعداد اپنی قوتِ کردار اور اعلیٰ تربیت یافتہ اخلاق کی بناپر منکرینِ حق کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان پر غالب آئی۔
پارلیمنٹ یا معاشی منڈی یا تعلیم گاہ جہاں کہیں بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نظام چل رہا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی حاکمیت، آمریت اور بادشاہت کی جگہ مالکِ حقیقی کی حاکمیت کو خلافتِ جمہور کے ذریعے رائج کیا جائے۔ یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں اسلامی شریعت کو قائم کیا جائے لیکن خلافت کے قیام اور خلافت ِ جمہور کے ذریعے نظامِ عدل کا قیام چند بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی و اصلاح کا داعی اور اس کے رفقا سب سے پہلے خود دین کی شہادت دیں، چنانچہ فرمایا گیا:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۵)رسول اور اہلِ ایمان اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔
زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو رائج کرنے والوں کو پہلے اپنی دعوت پر غیرمتزلزل یقین ہو۔ وہ اس کا اظہار و اقرار نہ صرف زبان سے کر رہے ہوں بلکہ عملاً شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے میں قیادت کریں۔ چنانچہ جب تک تحریک کا ہر کارکن تجدید ِ ایمان کرتے ہوئے اللہ کی بندگی اور تحریک سے وابستگی اور دین کی سربلندی اور کامیابی پر مکمل ایمان نہ لائے وہ دین کی دعوت، استقامت و اعتماد سے نہیں دے سکتا۔ اس کا لہجہ اور اس کی ہر ہر ادا( body language) اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اپنی دعوت کی صداقت پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتاہے اور کسی فکری انتشار (confusion)کا شکار نہیں ہے۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی مقابلے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو شہادتِ حق میں لگا دے گا۔ اس کا اصل ہدف دین حق کا قیام ہو جس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ایک ضروری وسیلہ تو ہے، اس کی منزل نہیں۔ وہ فتح اور ناکامی سے بلند ہوکر اپنی تمام قوت اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا دے۔
خلافتِ جمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو حکمت و محبت کے ساتھ اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ ہر تحریکی کارکن کی شخصیت، اور اس کی سیرت اور اس کا کردار خود دعوت کی زبان بن جائے۔ زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر وہ اپنے وجود سے ایک دیکھنے والے کو یہ بات پہنچا دے کہ وہ سچ پر قائم اور سچ کو غالب کرنے والا ہے۔ وہ بے غرض ہے۔ اسے اپنی لیڈری مطلوب نہیں ہے۔ وہ دراصل دین کا کارکن ہے۔ وہ نہ شہرت چاہتا ہے نہ کوئی معاوضہ یا بدلہ طلب کر رہا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اپنے رب کی خوش نودی کے حصول کے لیے لگادینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔
خلافتِ جمہور اور مغربی جمہوریت کا جوہری فرق ہی یہ ہے کہ خلافت اللہ کی ہدایت کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اوراس میں کسی فرد کی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اور نہ اس میں اکثریت کے نام پر استبداد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت جمہور کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے آنکھیں بند کر کے محض افراد کے ووٹوں کی کثرت پر نہ کیے جائیں بلکہ جس اصول پر فیصلہ ہو وہ یہ ہے کہ انسانیت کا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے۔ گویا ووٹ کا استعمال لازماً کیا جائے لیکن ووٹ اپنی قوت قرآن و سنت سے حاصل کرے اور اس کا تابع ہو۔ نیز جن اُمور کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا جائے اور جو معاملات انسانوں کی عقل اور تجربے پر چھوڑے گئے ہیں ان میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جمہور کی مرضی کے مطابق معاملات طے ہوں۔ شوریٰ کے نظام کی روح جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے وہیں فیصلہ سازی میں عوام اور ان کے نمایندوں کی ایک ایسے انتظام کے ذریعے مؤثر شرکت ہے جو افراد اور گروہوں کی آمریت سے پاک ہو۔
خلافتِ جمہور کی روح یہ ہے کہ فیصلے کی طاقت محض حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ تمام باشعور افراد قرآن و سنت کی روشنی میں اُمورِ سلطنت چلانے کا اہتمام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں مخالفت براے مخالفت اور محض عصبیت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر اطاعت اور ہم نوائی کے مقابلے میں وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۰۠ (المائدہ ۵:۲) کو رہنما اصول قرار دیا گیا ہے۔ خلافت ِ جمہور میں کسی پیشہ ورانہ حزبِ اختلاف کا تصور نہیں پایا جاتا کہ اسے لازماً حزبِ اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے بلکہ کسی بھی بات کی صداقت براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر مان لینے کا نام نیابت و خلافت ہے۔ خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بجاے خود کوئی حتمی حیثیت نہیں رکھتی، البتہ شریعت کے ذریعے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی جدوجہد آئینی ذرائع سے کی جائے تو وہ خلافت ِ جمہور کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی، دفاعی، ثقافتی اور قانونی مسائل، ہر معاملے میں مشاورت یا شوریٰ کو بنیاد بنایا جائے۔ شوریٰ کی روح اختلاف ِ راے ہے، جتھابندی نہیں ہے، نجویٰ نہیں ہے، غیبت نہیں ہے بلکہ کھل کر معاملات پر گفتگو و تبادلۂ خیالات کے ذریعے اجماع یا اتفاق راے کا پیدا کرنا ہے۔ اور اگر اتفاق راے نہ ہوسکے اور معاملہ حکمت اور مصلحت کا ہو اور جو معصیت سے پاک ہو تو پھر اکثریت کی راے ہی معتبر ہوگی لیکن اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۳۰۵۴) ’’خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔
یہاں فیصلہ مغربی یا مشرقی قوموں کے بنائے ہوئے ضوابط پر نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے حریت و آزادی، امانت و دیانت اور تقویٰ و احسان کے ضوابط پر ہے۔ یہاں ہرراے اور عمل کا پیمانہ ہدایت ِ الٰہی اور اسوئہ نبویؐ ہے۔
خلافت جمہور کا مطلب وہ نظام ہے جس میں احتساب پر عمل کیا جارہا ہو۔ قائد سے لے کر ایک عام کارکن تک کا احتساب اجتماعی ضوابط کی روشنی میں کیا جاسکتا ہو اور کیا جا رہا ہو۔ خلافتِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے اس لادینی نظام کو ختم کیا جائے جس میں دین و دنیا میں تفریق کرکے خالق کائنات کو مسجد تک محدود کر دیا جاتا ہے اور مسجد سے باہر مادی قوتوں اور عوام کی خوشی اور خواہشوں کو اپنارب بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی فکر کے تمام خودساختہ بتوں کوپاش پاش کرنے کے بعد بے لوث اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ، باصلاحیت، خدمت کرنے والوں کو مناصب کے لیے نامزد کیا جائے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ انفرادیت پسندی، قومیت اور صوبائی اور لسانی عصبیت جیسے تمام بتوں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور شریعت کو زندگی کے تمام معاملات میں نافذ کردیا جائے۔
خلافت ِ جمہور کا قیام ضروری نہیں کہ چند ہفتوں، چند مہینوں یا چند برسوں میں تکمیل کو پہنچ جائے۔ قوموں اور تحریکوں کی زندگی میں ۷۰سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تحریکی کارکنان کو اپنی سوچ کو درست رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک حکایت ہے کہ ایک ۹۹سالہ بوڑھا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے کھجور کی گٹھلی بو رہا تھا کہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ تحریک کی دعوت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کی جدوجہد براے خلافت جمہوربھی فوری نتائج سے بے پروا ہوکر اچھائی کے بیچ سنگلاخ زمین کے کچھ حصے کو نرم کر کے ڈالنا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی جڑیں چٹانوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے تنے کو مستحکم کردیں اور اس کی شاخیں تمام انسانیت کے لیے سایہ، سکون اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔
دعوتِ دین کا شجر طیبہ بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس شجر طیبہ کے لگانے اور اس کی پرورش کی کچھ شرائط اور لوازمات ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ پودا درخت نہیں بن سکتا اور درخت پھل نہیں دے سکتا۔ ان شرائط میں سب سے اوّل دعوت حق دینے والے کا خلوصِ نیت ہے۔
دین میں خلوصِ نیت بنیاد ہے۔ نماز ہو یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ کی ادایگی میں خلوصِ نیت نہ ہو تو یہ سب ریا بن جاتے ہیں اور اپنا ثواب یا اجر کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایک درسِ قرآن اس لیے دیا جارہا ہو کہ مقرر کو عالمِ دین سمجھا جائے۔ اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو، اس کا چہرہ سوشل میڈیا پر بطور ایک تحریکی رہنما کے لوگوں کو نظر آئے، اس کے درس کی رپورٹ تصویر سمیت کسی رسالے یا اخبار میں طبع ہو، تو یہ عمل اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم رہے گا اور سیکڑوں افراد کے درس کو سن لینے کے باوجود تبدیلیِ فکر، تطہیرقلب اور تعمیرکردار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر درسِ قرآن دینے والے کی نیت بغیر کسی اجر اور علمیت کے اظہار کے، صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول ہے، تو یہ عمل چاہے بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد یا گھر میں محض پانچ سات افراد کی مجلس میں کیا گیا ہو لیکن نتائج کے اعتبار سے زیادہ تعمیری اورثمرآور ثابت ہوگا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے تمام انبیا ـؑ نے اپنی دعوت پیش کرنے کے بعد ایک ہی بات تو کہی تھی کہ: ’’میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے‘‘۔
اگر اللہ کے بندوں کی خدمت (وہ طبی امداد ہو، تعلیم ہو، بیوائوں، یتامیٰ کی خبرگیری ہو، ضعیفوں کی نگہداشت ہو اور اس طرح کے دیگر رفاہی کام) اس غرض سے کیے جائیں کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی ذاتی فائدہ مطلوب نہیں تو صرف اس صورت میں ان کاموں کے اثرات، دعوت کی تو سیع کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر رفاہی کاموں کا مقصد ووٹ کا حصول ہوگا تو آخرت تو ہاتھ سے گئی ہی، دنیا بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی۔
گویا خلافت ِ جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول ہونا چاہیے۔ اگروہ ہمارے کام سے خوش ہوکر لوگوں کے دلوں میں دین کی دعوت کے لیے جگہ پیدا کردے ، اور جو کل تک مخالف تھے ان کو ولی بنا دے تو یہ اس کا کرم اور رحمت ہے۔ ہمارا کام تو اس کام کے بتائے ہوئے طریقے سے، اس کے بھیجے ہوئے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اطاعت و بندگی کی شہادت پیش کرنا ہے۔
خلافت جمہور کا ایک لوازمہ یہ ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہردور میں ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد حقیقت پسندی اور افراد کی سیرت سازی پر ہو۔ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہیں۔ اگر وہ تربیت کے مراحل سے گزر کر معاشرے میں کام کریں گے تو ان کی مالی ایمان داری، امانت اور بے لوثی و بے غرضی ، ان کی سادگی، ان کا حق کی حمایت کرنا اور ظلم کی مخالفت میں سب سے آگے ہونا، ان کی زبان سے ایک لفظ ادا کیے بغیر خود ان کا عمل اور کردار دعوت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے گا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس کی دعوت سیرت و کردار دیتے ہیں۔ اس لیے تحریک کا سارا زور تعمیر کردارکے لیے مطالعے کے حلقے ، رفاہِ عام کے کام، مقامی افراد کے مسائل کے حل کی کوششوں کی شکل میں ہو،تو اس کے نتائج سامنے آنے یقینی ہیں۔
دعوتِ دین کا منظم کام کرنے کے لیے اگرچہ تنظیم ضروری ہے تاکہ ہرفرد کو اپنی ذمہ داری اور دائرہ کار کا احساس ہو اور وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرسکے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تحریکات محض تنظیم بن جاتی ہیں جن میں دستوری دفعات پر الفاظ کی حد تک تو عمل ہوتا ہے لیکن دستور کی روح نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جن میں نظم اور امارت، اپنے اختیارات کا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن وہ دلوں میں گھر کرنے اور اپنی اخلاقی قوت سے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ شاید اس کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسی ’تنظیم‘ ہمیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔
رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہمارے بے لوث کارکن جو کام کرتے ہیں، اس کی اطلاع جمہور تک پہنچنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو ابلاغ عامہ کا صحیح استعمال نہیں آتا۔ ہمیں لازمی طور پر ابلاغِ عامہ، ٹی وی اور تقریبات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن انھیں شخصیت پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری نگاہ اور توجہ ہماری دعوت کی توسیع پر، اپنی کردار سازی پر، علمی قیادت پر اور ملک کے سیکولر ذہن کے افراد کو اسلام کے قریب لانے پر ہونی چاہیے۔ملک کے مختلف طبقات تک ان کی ذہنی صلاحیت اور طلب کے پیش نظر اپنی دعوت ان تک پہنچانے پر ہونی چاہیے۔ دعوت کے طویل المیعاد منصوبے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس منصوبے کو قرآن و سنت کے حدود میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
موجودہ نظام کو لادینیت سے، لادینی جمہوریت سے، انفرادیت پسندی سے، عصبیت سے، جہالت، ظلم اور تفریق سے، غرض ان تمام منفی صفات کو جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے والی ہیں، ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی جگہ اجتماعیت، دین کی جامعیت اور للہیت کو توجہ کا مرکز بنانا خلافت ِ جمہور کی شرط ہے۔ ہم جتنا اپنی تربیت اور فکری اصلاح پر توجہ دیں گے اور ہر فرد اپنے ذاتی نصاب کے مطالعے کے ذریعے علم میں اضافہ اور مصادر سے براہِ راست استفادے کی کوشش میں لگ جائے گا تو نتائج خود بولیں گے۔ ایک اصولی جماعت ہونے کی بنا پر ہمارا فکری محاذ پر متحرک ہونا کامیابی کی ایک بنیادی شرط ہے۔مظلوم طبقات کی حمایت، معاشی طور پر ضرورت مند لوگوں کی حاجت روائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اللہ کے بندوں کی خدمت کو ہماری ترجیحات میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ہم آیندہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ دعوت، تربیت اور تنظیم کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور خود اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کریں اور اس پر سختی سے عمل کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی دعوتی اور اصلاحی ترجیحات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کام کی نئی منصوبہ بندی کریں، تو ان شاء اللہ خلافت ِ جمہور کا راستہ بہت آسان اور مختصر ہوسکتا ہے۔
اصل چیز عزمِ مصمم، استقامت، صبر اور توکل علی اللہ کے ساتھ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتوں کو مجتمع کردینا اور دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں جھونک دینا ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور اس پر قائم ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کی تمام قوتیں ان کے لیے حمایت اور تعاون کے دروازے کھول دیتی ہیں اور آخرت اور دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ کیا ہم اپنا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْن۳۱ۭ
نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۳۲ۧ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۳۴ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۰ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۳۵ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۳۶ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۶) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اِس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
اُمت ِ مسلمہ کی تاریخ کے روشن ترین اَدوار میں بھی بعض ایسے لمحات نظر آتے ہیں جن میں ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک حق پر ہے؟ معرکۂ اُحد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایمان و یقین اور صبرواستقامت کے بعض پہاڑ بھی ایک لمحے کے لیے لرز اُٹھے لیکن یہ کیفیت آگے نہیں بڑھنے پائی اور فوری طور پر دل و دماغ نے یکسو ہوکر ایک ہی بات کہی کہ اگر اس معرکۂ حق میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تو پھر اسوئہ حسنہ کی پیروی میں جس اصول اور حق کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پیش کی، اس حق کی شہادت اپنی منزل اور مقصد پر اعتماد میں کمی کے بغیر پورے عزم و ارادے کے ساتھ اپنی متاعِ حیات کو اس بازی پر لگانا ہی شرطِ وفاداری ہے۔
یہ وہ پُراُمید (optimistic )رویہ اور طرزِعمل ہے جو کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے جس میں کسی تعبیر اور تاویل کی گنجایش نہیں۔ جو اگر نگاہ کے سامنے ہو تو دل و دماغ میں مایوسی، نااُمیدی، دل گرفتگی، پشیمانی اور ظن و گمان جیسی کیفیات کا گزر نہیں ہوسکتا۔
اپنی تاریخ کے ان روشن ابواب کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی بھی یکساں ضرورت ہے کہ ایک مومن ہرلمحہ انفرادی و اجتماعی احتساب سے گزرتا رہے اور یہ ایک رسمی عمل نہ ہو کہ کسی کارکنان کے اجتماع میں ایک ذمہ دار چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ حالات درست ہوگئے ہیں۔ احتساب دراصل پلٹنے کا عمل ہے۔ یہ اللہ کی طرف پلٹنے اور اس طرح پلٹنے کا عمل ہے کہ فرد اور جماعت اپنے ماضی کے فکروعمل اور شعوری اور غیرشعوری فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد، اصلاحِ احوال اور تعمیر مستقبل کے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ مومن تعلق باللہ، یعنی توحید خالص کے ساتھ ربِ کریم کی امان، پناہ اور رحمت میں آتے ہوئے اس کی رضا کے لیے بے غرض، بے لوث اور جذبۂ ندامت کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس کے دین کی سربلندی میں لگا دیتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی جماعت کا مقصد ِ وجود اور نصب العین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو سلطانی ِ جمہور کی جگہ خلافت ِ جمہور کی شکل میں نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنی متاعِ حیات بنالے۔ اقامت ِ دین کو اس کے تمام مطالبات کے ساتھ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش اسی کا نام ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہوجائو۔
انبیاے کرام ؑ نے جس اقامت دین کے لیے جدوجہد کی اور دن رات ایک کر دیے، جب اہلِ کتاب اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیادت کی جگہ محکومیت میں مبتلا کر دیا:
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۶۵ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۰ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۶۶ۧ (المائدہ ۵:۶۵-۶۶) اگریہ اہلِ کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی (تقویٰ)کی راہ پر چلتے تو ہم ان کی بُرائیاں ان سے دُور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انھیں داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انھیں پہنچی ہیں، قائم کرتے (اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ) تو اپنے اُوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔
انبیاے کرام ؑ کی سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی شکل میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچی اور قرآنِ کریم نے اسوۂ رسولؐ کی پیروی اُمت مسلمہ پر لازم کرتے ہوئے یہ طے فرما دیا کہ جس طرح رسولِ رحمتؐ نے حق کی شہادت دیتے ہوئے اقامتِ دین فرمائی، اسی طرح اب یہ کام اُمت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں فرض کر دیا گیا ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
یہی شہادتِ حق اور اقامت ِ دین اس دور کی تحریکات دعوت و اصلاح کا بنیادی ستون اور ان کے منشور اور مقصد ِ وجود کی غایت ہے۔ دین کا جامع تصور ان تحریکات کے اقامت ِ صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام اور حج کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ قیامِ عدل و قسط کے لیے اللہ کی شریعت کو نہ صرف اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں بلکہ اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی قائم کریں۔ چنانچہ تحریکات دعوت و اصلاح کے دائرۂ کار میں عبادات کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات، ثقافت و معیشت اور اقتدارو حکومت (گویا زندگی کے ہرشعبے میں اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کی برتری یکساں اہمیت کے ساتھ) شامل ہے۔ تحریکات دعوت و اصلاح کا یہی پہلو انھیں دیگر تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے اور ان کے تشخص کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاسی جدوجہد اور حصولِ تمکین کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حیا اور نظامِ معروف کا قیام اور منکر، فواحش اور عدوان کا خاتمہ کرنا ان کے فرائض میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
گویا فکروعمل، معیشت اور سیاست میں قیادت کا حصول اقامت ِ دین کی جدوجہد کا ایک جزو ہے اور دین کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت یوسف ؑ کی مثالیں قرآنِ کریم میں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک مقصد اور ہدف واضح طور پر اقامت ِ دین ہے، اس کے لیے سیاسی ذرائع کا استعمال عین تقاضاے دین ہے۔
یہ کام سنت ِ رسولؐ کی شکل میں کس طرح کیا جائے گا؟ دعوت کس بات کی، کس کو، کس طرح اور کب دی جائے گی؟ خود یہ دعوت کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قرآن و سنت ہر قدم پر فراہم کرتے ہیں اور ان سے اخذ کردہ فکر وہ فکر ہے جسے فکر مودودی کہا جاتا ہے۔ تحریک اسلامی اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس میں زمینی حقائق بظاہر وہ نہیں ہیں جو توقع کیے جارہے تھے۔ لہٰذا، اس بات کی ضرورت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل کو تنہا کسی ایک نشست تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے اس اعتماد و یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندےاس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اس نے دس قدم قریب آنے کا وعدہ کیا ہے، اور مزید اس یقین کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور ہم اس دعوت پر مکمل یقین کرتے ہوئے قائم ہوگئے ہیں تو پھر وہ اپنی غیبی طاقتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ احتساب بار بار اور جب اس اعتماد سے کیا جائے گا تو ہرمرتبہ ایمان و عزم میں اضافہ اور اُمید میں چمک پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔
ان ابتدائی گزارشات کے بعد، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کو وقتی طور پر جس صدمے کا سامنا ہے اس کے اسباب میں جائے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ تحریک آیندہ ایسی صورتِ حال سے کس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے؟ بظاہر ہماری یہ بات عجیب تصور کی جائے گی کہ بغیر مرض کی تشخیص کے علاج تلاش کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے اسباب پر لمبی لمبی بحثیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے پُرامیدی و احتساب کے ساتھ وہ اصول ذہن میں تازہ کیے جائیں جو دعوت اور اسلامی تحریک کی کامیابی کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ وقت اور قوتِ عمل کا زیادہ مناسب استعمال ہے۔
پہلی چیز جو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ان اصولوں کی برتری ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دیے ہیں۔ ان میں اوّلین اصول توحید اور زندگی پر اس کی تطبیق ہے، یعنی کس طرح اپنی انفرادی، خاندانی ، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی زندگی میں توحید کو رائج کیا جائے اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کا واحد سبب یہی توحید یا لا الٰہ الا اللہ کا سہارا تھا، یعنی اپنی ذات، برادری، اپنے سیاسی تعلقات، ووٹ بنک، اجتماعات میں کثیر تعداد کا جمع ہونا، ان تمام پر بھروسے کی جگہ دل و دماغ کو شعوری طور پر اللہ کا عبد بنانا اور عبودیت پر قائم ہو جانا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی ایک لمحے کے لیے کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ فلاں اتحاد اور فلاں برادری کے وعدے کامیابی کو قریب لے آئیں گے، ہم جادئہ توحید سے دُور ہوجائیں گے۔ ایسے تمام خیالات سے ذہن کو خالی کرنا ہی توحید پر عمل کرنا ہے۔
دوسرا اصول سنت ِ رسولؐ کی مکمل اطاعت ہے، یعنی تحریک سے وابستہ ہرفرد ان تمام اُمور سے اپنا تعلق منقطع کرلے جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ وہ ایسے کاروباری قرضے ہوں جس میں سود کی آمیزش ہو یا ایسے معاملات ہوں جن میں برادری کی روایات کی پیروی دین کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو، وہ معاشی معاملات میں لین دین میں عدم احتیاط یا عائلی معاملات میں حقوق کی ادایگی کا نہ کرنا ہو۔ دراصل اسلامی تحریک کی اصل قوت اس کی قوتِ کردار ہے کہ اس کے کسی فرد یا نمایندے کے بارے میں کوئی کسی مالی، خاندانی، باہمی تنازعے میں یہ بات نہ کہہ سکے کہ وہ حق کے منافی رسوم و رواج کی پیروی کرتا رہا ہے۔ اسلام نام ہی رسوم و رواجِ جاہلیہ سے بغاوت کا نام ہے۔ جب اور جہاں اس اصول کی پیروی ہوگی اللہ کی مدد اور استعانت اور رحمت کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآنِ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق پر ہونا ہے۔ خود احتسابی میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے جس فرد کو نامزد کیا جائے اس کی سیرت و کردار آئینے کی طرح ہو، چاہے ایسے افراد تلاش کرنے اور تیارکرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔
اصول کی برتری کا ایک واضح تقاضا یہ ہے کہ ہماری محبت اور جڑنا اور مخالفت اور کٹنا صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایک فرد یا گروہ جو کل تک اختلاف کر رہا تھا، ہمارے اصولوں کے قریب آنے کا اعلان کرے تو ہم ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے مثبت طرزِفکر کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے معروف میں اس کے ساتھ تعاون پر تیار ہوجائیں۔ اگر ایک شخص، گروہ یا جماعت کل تک اسلام سے دُوری کا اظہار کرتی ہو اور آج وہ اس بات کی قولی شہادت دے کہ وہ اسلامی عدلِ اجتماعی کو نافذ کرنا چاہتی ہے تو اپنے تمام تحفظات کے باوجود تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی راے پر نظرثانی کرلی جائے۔
اصولی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہرلمحہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہماری قوت، وقت، انسانی اور مادی سرمایے کا کیا تناسب تعمیرِ کردار و سیرت پر لگایا جارہا ہے، اور کیا ہم واقعی مکّی دور کے ان صبرآزما مراحل سے گزر رہے ہیں جنھوں نے ہر صاحب ِ ایمان کو استقامت اور حکمت دینی سے نواز دیا تھا اور ان کے کردار کے اثر سے وہ جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ وَلِیٌّ حَمِیْم بن گئے تھے۔
تحریک ِ اسلامی ایک نظریۂ حیات کی علَم بردار جماعت ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل اور اسلام اور جاہلی نظریۂ حیات میں ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ، حضرت موسٰی کا مکالمہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ کتاب کے ساتھ انھیں دعوتِ مکالمہ دینا، انبیاے کرامؑ اور دعوت اسلامی کی سنت ہے۔ لیکن اس مکالمے اور نظریاتی جہاد کے لیے انبیاے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود تربیت دے کر ان عقلی دلائل سے آراستہ کیا تھا، جن کا کوئی جواب باطل پرستوں کے پاس نہیں تھا اور وہ صرف مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ داعیانِ حق کی طرف سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ: قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۶۴ (النمل۲۷:۶۴)۔ یہ بُرہان قاطع ہی وہ چیز ہے جسے قرآن و سنت اور فکر اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں قرآن و سنت اور فکرِ مودودی کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا صرف چند نصابی کتابچوں کا سرسری مطالعہ رکن بنتے وقت کرلینا فکرِ مودودی کو ذہن و قلب میں راسخ کرسکتا ہے؟ کیا صرف قرآن کے ماہانہ درس میں شرکت، قرآن کی انقلابی دعوت سے روشناس کرا سکتی ہے؟ ہمارے وقت کا کتنا حصہ قرآن و حدیث سے گہرے تعلق میں گزرتا ہے اور کتنا وقت محض تنظیمی معاملات میں گزرتا ہے؟ اس وقت کا کتنا حصہ اہلِ خانہ کو دعوت دینے میں، کتنا حصہ اہلِ محلہ کے ساتھ مسجد میں ملاقات کر کے انھیں قرآن کی دعوت سے متعارف کرانے میں گزرتا ہے؟ مکّہ اور مدینہ میں اسلامی جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشمول داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھا۔ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں ہے تو جو ہربات کا علم رکھنے والا ہے، کیا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم کہاں کھڑ ے ہیں، ہمیں ہرمرحلے میں کامیابی سے نواز دےگا؟
سیّد مودودی نے فکر کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، اس میں دین کی اجتماعیت اور شورائیت اور حاکمیت ِالٰہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کی روشنی میں اپنی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی مرتب کی؟ قرآن کریم میں سات سالہ منصوبہ بندی کا ذکر سورئہ یوسف میں ہے۔ مکہ میں دعوت و تربیت کا کُل عرصہ ۱۳برس تھا۔ سات سالہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ۱۴برس کی جگہ ۱۳برس ہی میں وہ نتائج حاصل ہوگئے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔ قریب المیعاد سات سالہ حکمتِ عملی میں ہماری ترجیح میں صوبے یا مرکز میں، پارلیمان میں نمایندگی کے ساتھ توسیع دعوت اور تعمیرکردار کا کیا تناسب رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا یا محض تحریر و تقریر کو کافی سمجھا؟ کیا اصولی اور نظریاتی انقلاب صرف اچھی خواہشات کی بنا پر آتا ہے یا سنگلاخ وادیوں سے گزر کر تربیت ِ اخلاق سے آتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ وہ بظاہر پریشان کن حالات کو بھی اسلامی تحریک کے لیے بہتری اور بھلائی کا پیش خیمہ بناسکتا ہے۔ گذشتہ ۷۰برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو نہیں توڑا جاسکا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے عنصر کے ذریعے ان دونوں کے اثرات کو محدود کر دیا ہے اور طاقتی مراکز کو متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح حکمت الٰہی سے میدانِ دعوت میں اچانک زیادہ وسعت، قبولیت اور نفوذِ دعوت کا امکان اُبھر کر آگیا ہے۔ جن برادریوں کے جال کو تحریک ۷۰سال میں نہ توڑ سکی، اللہ نے اپنی حکمت سے اس میں شگاف پیدا کر دیا۔ اب یہ تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح حکمت، محبت اور خدمت کے ذریعے ان مظلوموں تک پہنچے جو پہلے اپنے ’آقا‘ کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اب دعوت کی نئی راہیں کھلی ہیں۔
دعوت کے لیے ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال سنت ِانبیاے کرام ؑ ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ خصوصیت سے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اب سوشل میڈیا میدان پر چھا گئے ہیں۔ گذشتہ چاردہائیوں میں بار بار ہر سطح پر اس پر غور کیا گیا لیکن یہ کبھی نہ ہوسکا کہ اس کو تجویز سے آگے بڑھا کر ترجیحی بنیادوں پر ، جس طرح انتخابات کے مالی وسائل آخرکار جمع کیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیا کے لیے وسائل پیدا کرکے اسے دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ابلاغِ عامہ کا سیاسی کردار جتنا اس دور میں اُبھر کر آیا ہے پہلے کبھی نہ تھا لیکن ہمارا ابلاغِ عامہ وہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تجربہ قوم کرتی ہے۔ اس پر فوری طور پر ایک ٹاسک فورس جو تین ماہ میں مکمل نقشہ بنا کر دے، بنانے کی ضرورت ہے۔درحقیقت تحریک کا نصب العین رضاے الٰہی کا حصول ہے ، صرف پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصول نہیں ہے جن کا رضاے الٰہی کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں ملنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ جب نیت واضح طور پر صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول، دعوتِ حق، شہادتِ حق اور اقامت ِ دین ہوگی، اللہ کی غیبی امداد قلّتِ تعداد کو کثرت پر غالب کردے گی۔ دعوت کے لیے نوجوانوں کو ان کی اپنی زبان میں ان کے مسائل کی روشنی میں دعوت دیے بغیر ہم ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہے۔ آخردو روایتی سیاسی اجارہ دار جماعتوں کو نوجوانوں کو متحرک (mobilize) کرکے ہی شکست دی گئی۔ اگر ایک شخص یہ کام ۲۲سال میں کرسکتاہے تو کیا یہ کام ایک نظریاتی جماعت آیندہ ۱۵برس میں نہیں کرسکتی؟
نوجوانوں کو ان کی نفسیات کی روشنی میں، ناچ گانے کے کلچر سے دامن بچاتے ہوئے کس طرح اپنے اندر شامل کیا جائے؟ اس کے لیے خود قیادت کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ روایتی طریقوں کے ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہم سے قریب لاسکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کچھ نوجوان ہمارے سامنے آنے کے باوجود ہم سے دُور بھی ہوئے۔ اس کے اسباب کو دُور کرنا ہوگا۔ خود اعلیٰ قیادت چاہے برس ہا برس تحریک سے وابستہ رہی ہو، ہرمرحلے میں مزید تربیت کی محتاج رہتی ہے۔ دنیا کی دس بڑی صنعتوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے CEO's بھی تربیتی ورکشاپس سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ نوجوانوں میں دعوت کے لیے خصوصی تربیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
نئے راستوں میں خواتین تک ہمارا پیغام کسی مداہنت کے بغیر پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارا رویہ نہ معذرت پسندانہ ہو اور نہ روایتی بلکہ آج کے خواتین کے مسائل کے پیش نظر اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کو اپنی قوت کا ذریعہ بنا سکیں۔
ان نئی راہوں میں مظلوم عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بالخصوص جو فاٹا، بلوچستان، اندرونِ سندھ و پنجاب میں غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حقیقی مسائل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔
ان نئی راہوں میں ایسے اہلِ قلم پیدا کرنے ہوں گے جو نوجوانوں میں پھیلنے والی جدید دہریت کا مدلل جواب ان کے فہم کے مطابق دے سکیں۔ ایسے اہلِ قلم جو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دعوت کو آسان اور دل نشین انداز میں پیش کرسکیں۔
ان نئی راہوں میں ان تمام تعلیمی اداروںکو دعوت کا ہدف بنانا ہوگا جو اس وقت گو تحریک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے نصابات، ان کے اساتذہ، ان کا ماحول دیگر اداروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو ہم نے آج تک دعوت کے لیے صحیح طور پر استعمال کیا ہی نہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم اسلامی شکل اختیار کرلے تو جو ادارے ہمارے ہم فکر افراد چلا رہے ہیں، ان میں ہمیں تجرباتی طور پر اپنے تصورات کو اساتذہ کے ذریعے، نئی نصابی کتب کے ذریعے، طلبہ و طالبات کی جداگانہ سرگرمیوں کے ذریعے ایک قابلِ عمل مثال کے طور پیش کرنا ہوگا۔ اگر ہم صرف پانچ ایسے ادارے جو ملک کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر میں معیاری تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت ِکردار کر رہے ہوں، آیندہ پانچ برسوں میں قائم کرلیں تو یہ ہماری دعوت کو مستند بنانے کا ایک اعلیٰ نمونہ ہوگا۔ اگر قوم صرف ایک ہسپتال کے چلا لینے کی بنا پر کسی کی صلاحیت کی قائل ہوجاتی ہے، تو کیا ہرصوبے میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد کوئی اسلامی نظامِ عدل کی مخالفت کرسکے گا؟
۸۰ سال قبل سیّد مودودی نے دعوتی حکمت ِعملی کے لیے جن تین اصولوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان کے صحیح ادراک اوران کی روشنی میں طویل المیعاد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ تین اصول یہ تھے:
۱- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت
۲- قوم پرستی کے مقابلے میں ملّت ِ اسلامی
۳- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت
آج کے حالات میں جس طرح تعلیم، سیکولر لابی کے دانش وروں اور ابلاغِ عامہ نے ہرپاکستانی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے، اسے دلائل کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، ہر چیز قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہو جیساکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مدعا ہے۔
ایک فوجی آمر نے ایک جذباتی نعرہ یہ دیا کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ، جس کا مطلب یہ تھا کہ بقیہ تمام معاملات کو الگ کردیں اور ایک زمینی خطے کو جس کا نام پاکستان ہے، اسے اوّلیت دی جائے۔ حالاں کہ اس خطے کے وجود میں آنے سے قبل ہی ملت اسلامیہ نے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمیں وہ خطہ چاہیے جہاں لا الٰہ الا اللہ ہر شعبے میں رائج ہو۔ گویا اوّلین چیز وہ ہے جسے خود بانی ِ پاکستان نے اپنے تین اصولوں میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی شکل میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان اس کلمے کی عملی شکل ہے۔ اس لیے جغرافیائی، نسلی، لسانی قوم پرستی کی جگہ نظریۂ پاکستان کی برتری کو حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کے قیام کی بنیاد اس کا نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو نظرانداز کردیا گیا تو ملک کی بقا اور قیام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
تیسرا اصول غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب فراہم کرتا ہے جو مروجہ جمہوری نظام کے ساتھ تعاون کرنے پر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک اسلامی کا ہدف اور مقصد اللہ کی زمین اور بندوں پر صرف اس کی حاکمیت قائم کرنا ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ منتخب کیا گیا ہے، وہ نہ حاکمیت ِجمہور ہے اور نہ پارلیمان کی مطلق حاکمیت بلکہ ’خلافت ِ جمہور‘ کے ذریعے اصل مالک، آقا اور حاکم کے احکامات کا نفاذ ہے۔
آمریت، بادشاہت اور پارلیمان کی مطلق حاکمیت کو دستورِ پاکستان رد کرتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کو مملکت کا مقصد قرار دیتا ہے۔ تحریک اسلامی روزِ اوّل سے دستورِ پاکستان کی روح اور الفاظ کا احترام کرتے ہوئے دستوری ذرائع سے ملک میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے جسے ایک شب و روز میں نہیں کیا جاسکتا۔ دستورِ پاکستان اس کے لیے جو طریقہ تجویز کرتا ہے وہ راے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے اسلامی قانون سازی ہے یا پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد ہے۔ یہ کفر و شرک کے نظام میں شرکت نہیں ہے بلکہ خلافت ِ جمہور کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی تو کرسکتے ہیں، اس کے خلاف نہیں کرسکتے۔
تبدیلی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی استعانت سے جلد بھی طے ہوسکتا ہے اور کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ذہن کو تیار کرنے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس کو اہمیت نہیں دی جائے گی ہماری خواہشات کے باوجود یہ کام اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔ اس میں سب سے اوّل مکمل بندگیِ رب پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی مؤثر تربیتی نظام کی ضرورت ہے جو براہِ راست فکرِ مودودی اور مصادر اسلام کے مطالعے پر مبنی ہو۔ فکر کی تطہیر اور ہم آہنگی کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ وطن پرستی کی جگہ ملت اسلامی اور اُمت اسلامی کے تصور کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مستحکم ہوسکے۔
فلاحی کاموں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہر کام حکومت کی سطح پر کرنے کا مطالبہ اپنی جگہ پر لیکن ساتھ ساتھ خود ایسے اداروں کا قیام جو تعلیم، صحت اور خاندانی نظام کو مستحکم کریں، یہ دعوت کا لازمی حصہ ہے۔ تحریک کو اسے اہمیت دینی ہوگی۔
ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عنقریب مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ نچلی سطح پر کام ہی تحریک کو دعوت کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ تحریک جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، کیا اس کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور اگر لوکل انتظامیہ میں صالح عناصر آنے کے بعد مقامی فلاحی کام کرسکتے ہیں تو کیا صوبائی، مرکزی سطح پر بھی وہ ایسا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس اعتماد کو بحال کیے بغیر محض صوبائی اور مرکزی سطح پر کام کرنا، مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہماری فوری ضرورت ہے جو صالح نوجوان ہوں، جن کا کردار، سچائی، امانت اور خدمت کا پیغام دیتا ہو۔ افراد کے انتخاب میں ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے ہوئے دھوم دھام کی جگہ سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔ اس کام کے لیے سیاسی شعور رکھنے والے افراد کے ساتھ مشاورت اور ملک گیر پیمانے پر منتخب مقامات کا تعین کرکے ان پر آج ہی مناسب افراد کا تعین کرنا ہوگا، تاکہ بھرپور عوامی رابطے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کا عمل مناسب انداز میں سرانجام دیا جاسکے اور دعوتی حکمت عملی کے اثرات سیاسی میدان میں مطلوبہ نتائج پیدا کرسکیں۔
گذشتہ چند برسوں سے اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ایک سوال بار بار اٹھا یا جا رہا ہے کہ: ’کیا اسلامی تحریکات کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟‘ یا مغربی صحافت و ابلاغ عامہ کے اس قیاس کو درست مان لیا جائے کہ: ’اب نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو چکا اور یہ صدی سرمایہ دارانہ نظام کی صدی ہے؟‘ لہٰذا، دنیا کے دیگر تمام سیاسی نظاموں کوموجودہ حالات کے تناظر میں اپنے اندرتبدیلی اور لچک پیدا کرکے سرمایہ دارانہ طرز فکر اور نظام کے ساتھ تعاون و اشتراک کی شکلیں اختیار کرنی ہوں گی۔
مغربی اور مغرب زدہ مصنّفین نے اس تصور کو اتنی تکرار کے ساتھ علمی جرائد، اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ میں پیش کیا ہے کہ آج ایک نوجوان یہی سوچتا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی جنگ اب لاحاصل ہے ۔ اس لیے مقابلے کے لیے دو ہی راستے ہیں: زیر زمین سرگرمی کے ذریعے کسی عسکری انقلاب سے نظام بدلا جائے، یا پھر مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت سے سمجھوتا کرکے اسلام کے آفاقی اصولوں کو کچھ عرصے کے لیے کسی سردخانے میں ڈال دیا جائے اور وقت کی راگنی کے ساتھ اپنی لَے ملا کر سیاسی زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ اس فکری انتشار کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اسلامی نظام کے قیام کو شک کی نگاہ سے دیکھنےپر مجبور اور اپنی’دینی وابستگی‘ اور ’سیاسی وابستگی‘ میں فرق پیدا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس نازک اور فیصلہ کن دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی تناظر میں اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور ایک مثبت زاویۂ نظر فراہم کیا جائے ۔
عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس سرد جنگ کا آغاز جنگ عظیم اول سے شروع ہوا تھا وہ ایک مختصر وقفے کے بعد آج بھی نئی شکل میں برقرار ہے، اور اس سردجنگ کے علم بردار یورپی ممالک اور امریکا دنیا کے نقشے پر اور خصوصاً مسلم دنیا کی بندر بانٹ کرنے میں پہلے سے زیادہ سفّاکی اور چالاکی کے ساتھ سر گرم عمل ہیں ۔ دوسری جانب مسلم ممالک کے فوجی، موروثی اور سیاسی حکمران اپنے ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے مسلم مفاد سے قطع نظر مغربی شاطروں کو ہی اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے انھی کے اشاروں پر سر گرم عمل ہیں ۔یورپی طاقتوں خصوصاً برطانیہ ، فرانس اور امریکا ’ناٹو‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم دنیا کو مزید تقسیم کرکے انھیں مجبور و محکوم بنانے میں مصروف ہیں ۔ادھر روس اس ’مال غنیمت‘ میں سے اپنا حصہ بٹورنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، جب کہ مسلم ممالک کے حاکم طبقے، ان خطرات کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں ایسی اصلاحات کر رہے ہیں، جو مغربی طاقتوں کو یقین دلا سکیں کہ انھیں مسلم دنیا سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلم دنیا تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ان کی نذر کرتی رہے گی، تا کہ اس وفاداری کے نتیجے میں مسلم ممالک کے حاکموں کو اقتدار سے بے دخل نہ کیا جائے۔
خود مغربی مفکرین تاریخی شواہد کے ساتھ یورپی ممالک کے عزائم اور عملی کردار پر واضح الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں، مگر مسلم ممالک کے سر براہ اور مغرب زدہ مسلم دانش و ر اس کھلی کتاب کو پڑھنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء میں شائع شدہ ایک اہم کتاب قابلِ ذکر ہے، جس کے مصنف ایم ای میک ملن نے تاریخی دستاویزات کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور روس نے باہمی تعاون کے ساتھ مسلم دنیا میں عدم استحکام ، انتشار اور جمہوریت کے قیام کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جمہوری عمل کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میک ملن کا شائع کردہ تاریخی جائزہ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار ، مسلم دشمنی اور مفاد پرستی کی سچی تصویر پیش کرتا ہے اور نام نہاد حقوقِ انسانی، مساوات انسانی، جمہوریت پرستی کے غبارے کی ہوا نکال دیتا ہے۔(دیکھیے: From the First World War to the Arab Spring. What's Really going on in the Middle East?، ناشر: پالگریو میک ملن، امریکا، ۲۰۱۶ء)
اس جملۂ معترضہ کے ساتھ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم دانش وَر جو یہ بات باربار کہتے ہیں کہ سابقہ سویت یونین کا منتشر ہونا سرمایہ داری کی فتح ہے، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دو ایسے نظاموں کا مقابلہ کر رہے ہیں ، جن کی بنیاد ہی مادہ پرستی، انفرادیت پرستی، اور محسوسات پر مبنی نظام حیات (Empiricism) پر ہے ۔مادہ پرستی کی طرف سے اس تقابلی مطالعے کو سادہ لوحی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغربی سرمایہ داری، وسائل پر غیرمحدود کنٹرول حاصل کر لینے کو کامیابی قرار دیتی ہے، جب کہ اشتراکی تصورِ معیشت ، ریاست کی معاشی اجارہ داری کو اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ اس طرح دونوں کی اصل، مادہ پرستی اور معاشی قوت کا استحصالی استعمال رہا ہے۔ اس لیے ایک کا منتشر ہو جانا دوسرے کی فتح نہیں کہا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ روس اور چین دونوںمیں نجی ملکیت اور سرمایہ کاری اور مارکیٹ کی معیشت کے فروغ کے باوجود امریکا ، یورپ اور سابقہ اشتراکی دنیا ایک طرح کی ملی جلی معیشت (mixed economy )کا نقشہ پیش کررہے ہیں اور معاشی دلدل سے نکل نہیں پار ہے۔
اس مختصر نظریاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ پہلے بھی اور آج بھی اگر مقابلہ ہے اور مقابلہ ہوسکتا ہے، تو اُن کے درمیان جو اصل کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ ماضی میں بھی اور آج بھی اگر مادہ پرست سرمایہ دارانہ یا اشتراکی معاشی نظاموں کے مقابلے میں کوئی متبادل نظام عوام الناس کو فلاح، کامیابی اور سکون فراہم کر سکتا ہے تو وہ اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست ہی ہے ۔ یہاں امر بھی پیش نظر رہے کہ اگر واقعی نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے تو پھر سرمایہ داری کے علَم بردار ممالک ’مسلم ریاست‘ اور اسلام کے نام سے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل ہر اس کوشش کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے کہ جو اسلامی تصورِ حیات کو دنیا میں کسی بھی خطے میں رائج کرنے کے لیے کی جا رہی ہو۔جس سے یہ بات متعین ہوتی ہے کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم نہیں ہوا اور ختم نہیں ہوسکتا۔
مغرب کے بہت سے مفکرین گذشتہ دو عشروں سے برابر کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب کی برتری اورخصوصاً امریکی قیادت کا دور ختم ہو رہا ہے اور ایک ایشیائی قوت، چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر بعض مسلمانوں میں کچھ دانش ور اس حقیقت کے باوجود یہ راے رکھتے ہیں کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے، تو یہ ان کی سادہ لوحی اور حقائق سے نظریں چرانا ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خصوصاً مغرب، اسلام سے خائف ہو کر اپنے تمام وسائل کو مسلم دنیا میں باہمی ٹکراؤ پیدا کرنے اور مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل دخل اندازی کر رہا ہے، وہ اسی نظریاتی ٹکراؤ اور جنگ کا ایک محکم ثبوت ہے۔ اگر اسلامی نظریے میں وہ دم خم نہ ہوتا، تو پھر مغرب پر اسلام کا ہوّا کیوں سوار ہے؟ وہ کیوں ہرتخریبی اور منفی کارروائی کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی وغیرہ کا نام دے کے اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کردیتاہے۔
ہمارے خیال میں یہ ذہنی محکومیت اور مغربی مفروضوں کے تناظر میں اسلامی ریاست اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مستقبل سے مایوسی کا رویہ ہے، جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گذشتہ زمانے کی اشتراکی معیشت کی اخلاقیات اور موجودہ زمانے کی حکمران مغربی سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بنا پر ان دونوںکا مقابلہ اگر کسی نظامِ فکر سے ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو اپنے ماخذ اور تشکیل کے لحاظ سے ایک بالکل مختلف تصور کی نمایندگی کرتا ہے ۔
یہ جائزہ نا مکمل ہو گا اگر اس طرف اشارہ نہ کیا جائے کہ اگر واقعی اسلام اور سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظاموں کے درمیان نظریاتی اور سیاسی جدوجہد کا دور ختم ہو چکا ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون ۷۰ سالہ آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود سابقہ انتخابات میں محض نظریاتی اساس کی بنیاد پر کامیاب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظریاتی کامیابی کو عالمی جمہوریت کے اجارہ داروں نے برداشت نہیں کیا اور جمہوری عمل کو من پسند فوجی آمریت کے ذریعے غیراخلاقی اور غیر قانونی دخل اندازی کر کے ناکام بنانے کا شرمناک کھیل کھیلا ۔
تحریک اسلامی الجزائر [FIS: اسلامک سالویشن فرنٹ] نے ۱۹۹۰ء کے آغاز میں اسلامی نظریے کی بنیاد پر جمہوری ذرائع سے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کی ۔ یہ واضح طور پر نظریے کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام کی طرف ایک اہم قدم تھا ۔ اس کو ناکام بنانے کے لیے فرانسیسی سامراج کی پروردہ الجزائری فوج نے پُر امن جمہوری انقلاب کو خونیں انقلاب میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ہزاروں بے گناہ شہریوں کو لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔
اسی طرح تیونس میں تحریک اسلامی نے نظریاتی بنیاد پر واضح کامیابی حاصل کی۔ اور پھر ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر اقتدار میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اس حد تک شریک کار بنایا، جس سے خود النہضہ کے اسلامی تشخص پر شبہہ کیا جانے لگا ۔ اس طرح تیونس کی تحریک اسلامی نے ووٹ سے کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو بقاے باہمی کے اصول کے تحت شریک ِ اقتدار کرکے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، جو بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔ کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اسلامی تحریکات اصولی اور نظریاتی سیاست کی بنیاد پر دستوری ذرائع سے سیاسی میدان میں سر گرم ہیں؟
دراصل یہ سب مقابلہ نظریۂ حیات کا ہےاور اصل مدمقابل باطل نظام ہاے زندگی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی نظریے کی صداقت کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا عملی تجربہ ہماری اپنی نگاہوں کے سامنے ہو۔ کارل مارکس پر یقین رکھنے والوں نے آج تک اس کے نظریے کو کسی عملی تجربہ گاہ کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے فکری اور منطقی استدال کی بنا پر درست تسلیم کیا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ سابقہ اشتراکی روس میں اور نہ عوامی جمہوریہ چین میں آج تک کارل مارکس کی ’خیالی جنت‘ کا وجود عمل میں آیا اور نہ آنے کا کوئی امکان ہے، اس کے باوجود بطور ایک نظریہ اشتراکیت کا وجود پایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اسلامی نظریۂ حیات ایک فلسفی کا خواب نہیں بلکہ یہ پندرہ سو سال سے کہیں جزوی طور پر اور کہیں مکمل شکل میں نافذ رہ چکا ہے۔خلافت راشدہ کے بعد بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مختصر دور میں دوبارہ یہ نظریہ عملی شکل میں نافذ ہوا، اور پھر ملوک و سلاطین کی تمام خامیوں کے ساتھ ان اَدوار میں اس کے اہم اجزا ، قضا،معاشرت اور معیشت عملاً نافذ رہے، البتہ سیاسی نظام میں انحراف کے سبب معاشرہ اسلام کی تمام برکات سے مستفید نہیں ہو سکا ۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم دو قوتوں کا تذکرہ بار بار کرتا ہے۔ ایک حق کی قوت اوردوسری باطل کی قوت۔ جس کا مقابلہ قیامت تک زندہ رہنے والے اسلامی نظریۂ حیات سے ہے اور رہے گا ۔ اس معرکۂ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھاؤفطری عمل ہے۔ حق و باطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے، وہاں اُحد و حنین اور موتہ بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ حق اپنی صداقت کے باوجود مطلوبہ شرائط پوری نہ ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن آخر کار حق کو غالب آنا ہے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے: وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ زندہ تصورِ حیات وقتی طور پر غالب نظر نہ آرہا ہو لیکن اپنی عنصری صداقت کی بنا پر اس کو غالب ہو نا ہے اور باطل جو جانے اور ختم ہونے کے لیے ہے، اسے فرار ہونا ہے۔ یہ وہ الہامی اصول ہیں جن سے قرآن کریم کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔
ایک بات اکثر صورت حال کی تہہ تک نہ پہنچنے کی بنا پر بعض ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے کہ اگر تحریکاتِ اسلامی کے پاس قوتِ نافذہ (تمکّن فی الارض) نہیں ہے تو وہ کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ اس طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب تک اسلام کو ایک خطے میں عملاً نافذ کر کے نہ دکھا دیا جائے عوام اس کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے اور تحریکات اسلامی کو ووٹ دے کر کامیاب نہیں کرائیں گے۔ اس کے مقابلے میں مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت یورپ اور امریکا میں عملاً نافذ ہے، اس لیے اسلام کے علم برداروں کو اپنے اندر لچک پیدا کر کے مغربی لادین جمہوریت سے تعاون و اشتراک کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دراصل ان تمام خدشات و شبہات اور مغالطوں کی جڑ میں جو بات فکری طور پر بیٹھی ہوئی ہے وہ وہی ’خودساختہ نظریہ ‘ ہے ، جس میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معیشت کو دنیا کا واحد قابلِ عمل تصور قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں یہ نظام پھل پھول رہا ہے، جب کہ مقابل نظریہ ( اشتراکیت) شکست کھا کر میدان چھوڑ چکا ہے، اس لیے اب کسی اور تیسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے ، دنیا کے انسانوں کو چپ چاپ اس نظام کو اپنا لینا چاہیے ۔
ایسی بات کرنے والے اتنی ہمت تو نہیں رکھتے کہ یہ پوری بات زبان یا قلم سے ادا کریں، لیکن اسی تصور کو گھما پھرا کر اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اسلامی تحریکات کی نظریاتی سیاست کا دور ختم ہو چکا، اب لادینی جمہوریت کے اصول کو اپنا کر ہی کوئی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس لیے پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں بے اصولی کی سیاست کرنے کے باوجود کہتی ہیں کہ وہ ’اصولی سیاست‘ کر رہی ہیں ، حالاں کہ ان جماعتوں کا اصول صرف ایک رہا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار پر قابض ہو سکتی ہیں۔
ان تمام شبہات کا مختصر اورآسان حل قرآن کریم نے فراہم کر دیا ہے کہ باطل نظریات و تصورات کی طغیانی صداقت و حق کے نورکو گل نہیں کر سکتی، نہ اس پر غالب آ سکتی ہے۔یہاں اصل غور طلب امر یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور صحیح افرادی قوت کی فراہمی اور ترجیحات کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ان میں جب بھی صحیح تناسب اور درست توازن ہو گا ، اللہ کی نصرت اور کامیابی یقینی ہے ۔
لا دینی سرمایہ دارانہ جمہوریت و معیشت جو امریکا اور یورپ میں نافذ ہے، کیا وہ کامیاب ہے، اور کیا اس کے ساتھ تعاون ہی میں نجات ہے؟ وہ کشتی جو خود شکستگی سے دوچار ہے، اس پر تکیہ کرنا کوئی دانش مندی ہو گی؟ جس ملک کے عوام و خواص اپنی قیادت پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، جہاں درجنوں بنکوں کو کنگال کر دیا گیا ہو، جو حکومت خود کئی ٹریلین ڈالر کی مقروض ہو، کیا ایسی گرتی ہوئی دیوار کے سایے میں پناہ لینا مسلم دنیا کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے؟
یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ تحریکات اسلامی کا علمی ، فکری ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر باطل تہذیب اور جاہلی نظام کے ساتھ معرکہ جاری رہنا ہی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جس چیز پر غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس طرح مصر میں سیاسی اور دستوری ذرائع سے کامیابی کے بعد ایک فتح بیرونی دخل اندازی سے ناکامی میں تبدیل کر دی گئی ، کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا یا تاریخ کےدھارےکو موڑا جاسکتا ہے ؟
اسلامی تحریکات جس دعوت کو پیش کر رہی ہیں، وہ دعوتِ حق ہے۔ اس میں سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور آخرت میں اجر ہے ۔ اس لیے اگر سیاسی جدوجہد میں انھیں کوشش کے باوجود ہدف حاصل نہیں ہوتا تو کیا انھیں ناکام کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال سے بھی زیادہ غورطلب پہلو یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی دعوتی حکمت عملی ، ترجیحات اور نظام تربیت کا تنقیدی جائزہ اور خود احتسابی کے ذریعے ان اسباب کا تعین ضروری ہے، جو حصول ہدف میں رکاوٹ کا باعث رہے ہوں۔
قرآن کر یم نے ’گھوڑوں کو تیار رکھنےکے حکم‘ کے ذریعے ہمیں لازمی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے تعین اور حکمت عملی کے وضع کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس لیے تحریکات اسلامی کو اپنے مقصد اور منزل پر پورے اعتماد کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک خلوص ، ایثار و قربانی اور بے لوثی کے ساتھ اپنا سب کچھ اقامت دین کے لیے لگادینے والی ٹیم تیار ہورہی ہے؟
امرِواقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی سیاسی کامیابی ایک ضمنی پھل ہے۔ ان کا اصل حاصل وہ جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں وہ صالح افراد کی جماعت پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے وہ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ اور اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ ہیں، جو بنیان مرصوص اور عبادالرحمٰن ہیں (الفتح ۴۸:۲۹)۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر صرف سمعنا واطعنا کہنے اور عمل کرنے کے قائل ہیں۔ جب اور جہاں یہ تربیت یافتہ افراد پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت سے وہ باطل پر غالب آتے ہیں :
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰ (حٰمٓ السجدة۴۱: ۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ 'نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔
اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کے دوران مختلف درجوں کی سرگرمیاں اپنی جگہ، لیکن تبدیلی اور کش مکش کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور پایدار اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز وہ مسلسل تعلیمی و تربیتی عمل ہے، جس میں قرآن کریم کا براہِ راست مطالعہ ، سیرت النبیؐ سے براہِ راست تعلق ، عبادات اور حقوق العباد کا شدت کے ساتھ اہتمام ، انفاق فی سبیل اللہ اور اپنے اصولوں پر سختی سے جم جانا شامل ہے ۔ اگر معاشرے میں اخلاق باختگی ہے تو اس کےخلاف کھڑا ہونا ، اگر معاشی استحصال ہے تو ا س کے خلاف صف آرا ہونا ، اگر عدل و انصاف نہیں ہو رہا تو اس کے قیام کی جدوجہد کرنا، راتوں کواللہ کے حضور کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا، دن میں رزق حلال کے حصول کی کوشش اور زندگی کے ہر لمحے کو صرف دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا شرطِ اوّل ہے ۔
یہی وہ راستہ ہے جس نے ہر دور میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو وقار بخشا اور آخرت میں قبولیت کا امکان روشن کیا۔ –تحریکی ترجیحات میں تعمیر کردار کو اولیت دیے بغیر محض افرادی کثرت پر توجہ، دین کا مدعا نہیں ہے۔ تحریک کا سرمایہ اس کےوہ باکردار افراد ہی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی دعوت اور تبدیلی و اصلاح کے طریق کار کو اختیار کریں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر تطہیر افکار، تعمیر سیرت اور معاشرتی عدل رائج کر سکیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان صادق اور امین نمایندوں کو منتخب کریں جو شریعت کی بالا دستی اور ملک میں اسلامی عدل اور معیشت کے نظام کو رائج کر سکیں ۔
تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ایسے افراد کی تیاری ہے جو ذاتی مفاد کے بندے نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف خالق حقیقی کے بندے بن کر اس کے حقوق کو ادا کریں اور خلق خدا کے حقوق کے تحفظ میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں ۔ ان افراد کی تیاری کے بغیر جو تبدیلی بھی آئے گی وہ وقتی اور جزوی ہو گی۔ دعوتِ دین ایک ہمہ جہت اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا نام ہے۔ اس کا ہر محاذ اہم اور ہر محاذ دوسرے سے مربوط اور اس کی معاونت کا محتاج ہے۔ جسے مسلسل خونِ جگر سے سینچنے ہی سے عصر حاضر میں تحریک اسلامی اپنی منزل سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔
قومی زندگی میں انتخابات ہمیشہ ہی بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ انتخابات کو جمہوری نظام کے وجود اور ارتقا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس ذریعے سے عوام حکمرانی کے نظام کی صورت گری اور قیادت کی تبدیلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اور جن حکمرانوں کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہوتے، انھیں نکال کر اپنی زمامِ کار بہتر لوگوں کے سپرد کر سکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے جمہوریت کی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی جامع بات کی ہے کہ:
جمہوریت، انتخابی عمل سے بھی برتر چیز کا نام ہے، جس کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں: آزاد عدالتیں، گروہی تقسیم سے بالاتر ریاستی افسران کی موجودگی، مضبوط ریاستی ادارے، قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ شفاف حقِ ملکیت، آزاد ذرائع ابلاغ، آئینی نظم و ضبط اور احتساب کا خودکار نظام کہ جو ہرقسم کے تہذیبی و نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اور جس میں خصوصاً اقلیتوں کے لیے احترام و برداشت کا اہتمام ہو۔ یہ سب بجا، لیکن ووٹروں کا یہ اختیار اور صلاحیت کہ وہ متعین وقفوں کے بعد ایسے افراد کو اُٹھا کر سیاست سے باہر پھینک سکتے ہیں ، جو بددیانت اور بدعنوان ہیں، جمہوریت کی ناگزیر شرط اور وجۂ جواز ہے۔(دی اکانومسٹ، لندن، ۲۴ ؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی تاریخی موقع فراہم کر رہے ہیں، جسے بھرپور انداز میں استعمال کرنا اہلِ وطن کی قومی اور دینی ذمہ داری ہے۔ حکومت پر تنقید بلکہ اس سے بے زاری، اپنے دُکھوں کے بارے میں اس کی بے حسی پر تڑپنا بجا، لیکن اصلاح اور تبدیلی کا راستہ محض شکایات کی تکرار اور آہ و فغاں میں نہیں ہے۔ اس کے لیے الیکشن کے موقعے پر صحیح اقدام اور مؤثر جدوجہد ضروری ہے۔اگر عام شہری اور ہر ووٹرصحیح وقت پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس تاریخی موقعے پر ہم قوم کے ہرفرد سے پوری دل سوزی سے اپیل کرتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق، ہرمفاد، تعصب اور جانب داری سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مفاد میں ایسی قیادت کو بروے کار لانے کے لیے بھرپور کوشش کریں، جو ملک و قوم کو اُس تباہی سے نکال سکے کہ جس اندھے گہرے کنویں میں نااہل اور مفاد پرست خاندانی قیادتوں نے انھیں جھونک دیا ہے اور جس کے نتیجے میں ملک اپنے نظریے، اپنی آزادی و خودمختاری، اپنی تہذیب و ثقافت ہی سے دُور ہی نہیں جارہا،بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔
ملک کے معاشی حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں، عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند ہزار خاندانوں کی دولت و ثروت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ ملک کی دولت ملک سے باہر جارہی ہے۔ عام انسان بدسے بدتر حالت کی طرف جارہا ہے۔ آج پاکستانی برآمدات ۲۰ اور ۲۲؍ارب ڈالر سالانہ پر رُکی ہوئی ہیں ، جب کہ ہماری درآمدات ۵۰؍ارب ڈالر کی حد کو چھو رہی ہیں، اور تجارتی خسارہ ۳۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہا ہے۔
ملک میں غربت کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۰فی صد اور حقائق کی روشنی میں ۵۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ ۸۰ فی صد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں، ۴۰ فی صد سے زیادہ آبادی خوراک کے باب میں خودکفیل نہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام کے بڑے حصے کو میسر نہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی آرہی ہے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ زراعت کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور حکمرانوں کو صرف اپنے اثاثے بڑھانے اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے میں دل چسپی ہے۔
صرف پچھلے دس برسوں میں ملک پر قرض کا بار ڈھائی گنا ہوگیا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں پاکستان ۳۷؍ارب ڈالر کا مقروض تھا، جو ۲۰۱۸ء میں ۹۲؍ارب ڈالر کی حدوں کو پار کرگیا ہے۔ آج ہرنومولود بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ۱۲ماہرین کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں ہرسال تقریباً ۱۵؍ارب ڈالر ملک سے سرکاری طور پر باہر بھیجے جارہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم سالانہ ہنڈی کے ذریعے باہر جارہی ہے۔ ملک کو لوٹنے اور عوام کو اپنے ہی ملک کے وسائل سے محروم کرنے کے جرم میں ایک جماعت نہیں، گذشتہ ۴۰برس میں حکمران رہنے والی سبھی سول اور فوجی حکومتیں___ اور خصوصیت سے گذشتہ دس برس کے دوران حکمرانی کرنے والی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں شامل ہیں:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
وقت کی سب سے بڑی ضرورت اس خودپسند، مفادپرست اور کوتاہ اندیش قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے، جس نے ملک و قوم کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ انتخاب کا موقع ہی وہ راستہ فراہم کرتا ہے جس پر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور اپنے وسائل کولٹیروں سے واپس لینے اور خود اپنے تصرف میں لانے کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی میں ضروری ہے کہ قوم ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے، جس کا دامن داغ دار نہ ہو، جو اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہو اور حقیقی، اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کو قائم کرنے کے جذبے اور صلاحیت سے مالا مال ہو۔ اگر قوم اس وقت اپنے اس اختیار کو استعمال نہیں کرتی تو محض روایتی آہ و بکا سے حالات ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا تقاضا ہے اور یہی ان بے تاب روحوں کی پکار ہے، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اپنے جان ومال اور عزت و آبرو کی قربانی دی۔ آج وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو مقصد ِ وجود کے مطابق بنانے کے لیے بھی اسی طرح جدوجہد کریں، جس طرح اسے قائم کرنے کے لیے کی تھی۔
ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو اس کے صحیح حق داروں کو سونپنے کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ ہم ایک شخص کو پاکستان کے اقتدار کی امانت کے باب میں امین تصور کرتے ہیں اور یہ امانت اس کے سپرد کر رہے ہیں۔ ووٹ کا غلط استعمال جھوٹی گواہی اور شرعی اعتبار سے امانت میں خیانت کے مترادف ہے، جس کے لیے دُنیا میں بھی ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور آخرت میں بھی جواب دہی ہوگی:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۵۸ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔
۱- قومی انتخابات قومی زندگی میں ایک فیصلہ کُن لمحے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہم اور آپ ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
۲- جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے بہت سے اقدام ضروری ہیں جن میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور پاس داری، دستوری اداروں کا استحکام اور اس میں طے کردہ حدود (check and balance) کا اہتمام، شخصی حکمرانی سے اجتناب اور اصول و ضوابط کی پابندی اور احترام کے ساتھ ریاستی ذمہ داریوں کی ادایگی اور امانتوں کی حفاظت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے لیے مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد اور انتخاب کے موقعے پر ووٹر کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔
۳- ضروری ہے کہ ووٹر: (الف) اپنے حق راے دہی کو استعمال کرے۔(ب) دوسروں کو بھی ترغیب دے کہ وہ نکلیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں، اور(ج) اس ذمہ داری کو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ امانت داری سے استعمال کریں۔ خاندان، برادری، قومیت، گروہی عصبیت ، مفاد، ہر ایک سے بالاہوکر صرف ایک معیار پر فیصلہ کرے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کی خدمت کون سا فرد اور جماعت انجام دے سکتی ہے۔ ووٹ صرف اور صرف اس شخص اور جماعت کو دے، جو اپنے نظریے، کردار اور عملی کارکردگی (performance) کی بنیاد پر مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں، یا اس سے قریب تر ہوں۔ آزمائے ہوئے کو آزمانا کوئی دانش مندی نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں ووٹ کے استعمال کا تناسب بڑا غیرتسلی بخش ہے اور بدقسمتی سے برابر کم ہورہا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ۶۴ فی صد ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔۱۹۷۷ء میں یہ ۶۲ فی صد ہوگیا۔جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں کم ہوکر۴۰ فی صد پر آگیا، یعنی نصف سے بھی کم، جب کہ اس زمانے میں بھارت میں یہ اوسط ۶۰ فی صد رہا ہے اور ترکی کے انتخابات (۲۴جون ۲۰۱۸ء)میں یہ تناسب ۸۷ فی صد رہا ہے۔ آج پاکستان میں نوجوان ووٹرز کا تناسب ۶۰ فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ کے لیے نکلیں، دوسروں کو نکالیں، تاکہ ووٹ کی قوت کو تبدیلی کے لیے مؤثرانداز میں استعمال کیا جاسکے۔
۲۰۱۸ء کے انتخابات کے ماحول پر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی چیزیں سامنے آئی ہیں، اور دونوں ہی کی روشنی میں ووٹر کو متحرک اور صحیح کردارادا کرنے کے لائق بنانے کی صحیح حکمت عملی اور پروگرام کی ضرورت ہے۔ بمشکل چند ہفتوں پر مشتمل اس وقت میں تحریک ِ اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک لمحہ اس فیصلہ کن مہم کے لیے وقف کردیں۔
اسی طرح جو چیز بڑی پریشان کن ہے، وہ بحث و گفتگو کی سطح، انداز اور سیاسی جوڑ توڑ کا وہ آہنگ ہے، جو گذشتہ چند مہینوں میں تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ انتخابات میں صرف چند ہفتے ہیں، مگر متحدہ مجلس عمل کے علاو ہ کسی ایک جماعت نے بھی ان سطور کے تحریر کیے جانے کے وقت (۲۸ جون ۲۰۱۸ء) تک اپنا منشور قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ ایک پارٹی نے منشور کی جگہ پہلے ایک سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے منشور پیش کرتی ہیں اور کامیابی کے بعد کامیاب جماعت پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام دیتی ہے، لیکن اس مثال میں تو گھوڑا اور گاڑی دونوں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔
سیاسی قائدین کی تقریریں الزام تراشیوں سے پُر اور نظریے، پالیسی اور پروگرام کے ذکر سے خالی ہیں۔ جس سطحی بلکہ بازاری انداز میں تنقید اور مکالمہ ہو رہا ہے، اسے دیکھ ، سن اور پڑھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ جس رفتار اور انداز سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جارہی ہیں، اور پھر پارٹیوں میں اس کے نتیجے میں جس طرح کے ٹکرائو وجود میں آرہے ہیں، اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالی جارہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ مشاہدہ ہے۔ بڑے فخر سے کہا جارہا ہے کہ ’نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا اور اب سارا کھیل منتخب ہونے والے چہروں (electables )کا ہے‘۔ اس سوچ کی پذیرائی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں سے دل سوزی کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ قومی سیاست کو اس سطح پر نہ گرائیں کہ یہ طرزِفکروعمل جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہوگا۔ بحث کا محور ملک کے حالات اور اس کو درپیش چیلنج ہونے چاہییں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسی اور پروگرام توجہ کا مرکز ہونے چاہییں۔ جن چیزوں پر قومی اتفاق راے پایا جاتا ہے ان ایشوز کو متنازع بنانا، یا انھیں محدود سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا دُور رس انتشار اور نقصان دہ نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔
ہربات کے کہنے کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے، جس کو نظرانداز کرکے بات کہنا بڑے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پارٹیوں کے اندر مشورے کی محفلوں کی باتوں کو پبلک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طشت ازبام کرنا، کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ہمیں نہ صرف تجسس اور بدگمانی سے منع کیا ہے، بلکہ محفل اور مجلس کی بات کو امانت سمجھنے کی تلقین بھی کی ہے اور تحقیق کے بغیر خبر پھیلانے کو افترا اور بدمعاملگی قرار دیا ہے۔ سورۃ الحجرات ان آداب کی تعلیم سے مالا مال ہے۔ یہ آیات اللہ کے احکام اور مسلم معاشرے کے آداب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج ان ہدایات کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟
دو مسائل اور بھی ہیں، جن کی طرف ہم توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چندا اُمور کو واضح کردیں، جن کی حیثیت پاکستانی قوم کے لیے مسلمات کی ہے اور ان کو متنازع بنانا ملک وقوم کے لیے تباہ کن ہوگا:
اس کی روشنی میں دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو قانون کا تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد دفعہ۵ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ: ’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے‘‘ اور یہ کہ ’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہروہ شخص جو فی الوقت پاکستان میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے‘‘۔
ایک طبقہ بڑے سوچے سمجھے انداز میں پاکستان کی اساس کو مشتبہ بنانے، اور اس کے بارے میں متنازع سوالات اُٹھانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس کا ایک حصہ یہ کام بڑے تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ شوشا بھی چھوڑا جارہا ہے کہ ’اب نظریاتی دور ختم ہوگیا ہے اور مادی ترقی، زندگی کا اصل ہدف ہے‘۔ آزادیِ اظہار سر آنکھوں پر اور علمی بحث و مباحثہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، لیکن ریاست کی بنیادوں پر تیشہ زنی اور انھیں پامال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔
دوسرا اہم مسئلہ احتساب کا ہے۔ احتساب جمہوریت کی روح اور حالات کو بگاڑ سے بچانے کے لیے ’سیفٹی والو‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔اور احتساب اس خیرخواہی کا لازمی حصہ ہے۔ آپؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’اپنا احتساب کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا خودکار انتظام موجود ہیں۔ ’احتساب سب کا اور احتساب انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے دائرے میں‘ اسلام کا تقاضا اور جمہوریت کی روح ہے۔ انصاف ہونا بھی چاہیے اور انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ یہ ہیں وہ بنیادی مسلّمات، جن کے بارے میں اختلاف کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت وطن عزیز میں ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ جس سے احتساب کا پورا عمل مشتبہ ہوکر رہ جائے۔ نیب (NAB: قومی احتساب بیورو) کی کارکردگی اور طریق پر ہمیں اور دوسرے بہت سے افراد کو شدید تحفظات ہیں۔ اس ادارے کو جس طرح جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا اور پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کے اَدوارمیں استعمال کیا گیا، وہ نہایت غیرتسلی بخش تھا۔ اگرچہ اِس وقت پہلے کے مقابلے میں صورتِ حال بہتر ہے، اس کے باوجود پُرانی بُری روایات کا سایہ نظر آتا ہے اور بلاتفریق احتساب کے دعوئوں کے باوجود جس طرح مرضی اور ترجیح کی بنیاد (pick and choose) پر احتسابی سلسلہ جاری ہے، وہ ناقابلِ اطمینان اور اصلاح طلب ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے احتساب کے عمل کو متحرک کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ لائق تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔
اس پس منظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کی جو گرفت ہورہی ہے، وہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے، مگر بہت تاخیر سے اُٹھایا گیا ہے۔ احتساب کے اس عمل کو کسی خاص فرد یا جماعت تک ہرگز محدود نہیں ہونا چاہیے اور بلاتفریق ان تمام افراد اور خاندانوں کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جو گذشتہ برسوں میں حکمران رہے ہیں اور ان کا دامن داغ دار گردانا جاتا ہے۔ بہت سے مقدمات جو شروع تو کیے گئے،مگر پھر ان کو منطقی نتائج تک پہنچائے بغیر داخل دفتر کردیا گیا۔ درجنوں مقدمات ایسے ہیں، جو برسوں سے زیرغور ہیں، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا، لیکن صدافسوس کہ نہ تو یہ تفتیش مکمل ہوئی اور نہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ۔ یہ انصاف کا خون ہے اور احتساب کے ساتھ مذاق۔
جہاں یہ ضروری ہے کہ احتساب کا عمل لازمی اور مؤثر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے، تفتیش پوری دیانت اور محنت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونی چاہیے، وہیں مقدمات کا فیصلہ بھی متعین وقت میں اور انصاف کی روح کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سے احتسابی عمل پر بھروسا اور اعتماد بڑھے گا۔ اس کے نتیجے میں بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوسکے گا، اور عوام کے وسائل محفوظ ہوسکیں گے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف ٹیکس کے بارے میں کم از کم چار ہزار ارب روپے سالانہ چوری ہورہے ہیں۔ عالمی بنک اور ہمارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اندازے کے مطابق موجودہ ٹیکس نظام کے تحت، جو سالانہ ٹیکس ۸کھرب روپے ہونا چاہیے، وہ اس سے نصف ہے۔ یہ اس صورت میں ہے، جب کہ ٹیکس نیٹ میں ۲۲کروڑ کی آبادی میں بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے واے صرف ۸لاکھ افراد ہیں،جب کہ موبائل ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کی تعداد۱۵کروڑ ہے اور سمارٹ فون استعمال کرنے والے ساڑھے ۹ کروڑ ہیں، جن میں سے ۵۰ لاکھ کا سالانہ ٹیلی فون کا بل ۳۰ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازاً ان کی سالانہ آمدنی ۲۰لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ پاکستانیوں نے جو جایدادیں دبئی اور دوسرے مغربی ممالک میں خریدی ہوئی ہیں اور جو بنک اکائونٹ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور دبئی میں ہیں، ان کا کوئی حسا ب کتاب نہیں۔ حالیہ انتخاب کے موقعے پر جو نمایندے کھڑے ہوئے ہیں، ان میں ۲۷۰۰ اُمیدوار ایسے ہیں، جن پر بدعنوانی، کرپشن، اس نوعیت کے الزامات پر مقدمے چل رہے ہیں اور ۸۰۰؍ارب روپے کے خرد برد کے الزامات ہیں، مگر کسی احتساب کے بغیر انھیں انتخاب میں شرکت کی اجازت دینا عدل و انصاف کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔
اس پس منظر میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب اوران کے خاندان پر جو الزامات ہیں، بار بار موقع ملنے کے باوجود اپنی صفائی پیش کرنے میں نہ صرف یہ کہ وہ ناکام رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کھلی کھلی کوشش کی ہے۔ ان کے وکلا نے عدالت کے واضح سوالات اور اپنے متضاد بیانات کی وضاحت کرنے کے بجاے بات کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ حد یہ ہے کہ انھوں نےاپنی صفائی میں دستاویزات یا گواہ لانے سے بھی احتراز کیا ہے۔
پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے، ریکارڈ تو کیا اس کا ایک حصہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ دو بار انھوں نے خود قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تقریروں میں کہا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹ ابوظہبی سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے گئے۔ لیکن خریداری کا کوئی ریکارڈ بار بار کے مطالبے کے باوجود پیش نہیں کیا گیا۔ کوئی منی ٹریل نہیں دی گئی۔ نیب عدالت کے نصف سے زیادہ سوالوں کے جواب میں ’مجھے نہیں معلوم‘ یا ’مجھ سے نہیں، میرے بیٹے سے پوچھو‘ ارشاد فرمایا۔ دستاویزات اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا طور پر عدلیہ اور فوج دونوں کو نشانہ بنانے اور اپنی مظلومیت کا بے جا غلغلہ بلند کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح سول قیادت اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ جس سے مراد فوج اور اعلیٰ عدلیہ ہے، انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی مذموم حرکت اور قومی مفادات کے خلاف جسارت ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فوج اور عدلیہ دستوری ادارے ہیں اور ملک کی سلامتی کا ستون ہیں۔ دوسرے اداروں کی طرح وہ بھی دستور کے تحت وجود میں آئے ہیں اور دستور کے دائرے ہی میں ان کی کارکردگی کو محدود ہونا چاہیے۔ دستور نے عدلیہ کو انسانی حقوق کے تحفظ، دستور کی پابندی اور عدلیہ کی آزادی اور اسلامی دفعات اور اسلامی قانون سازی کی پاس داری کے سلسلےمیں جو اختیارات دیے ہیں، ان کے دائرے میں ان کو اپنے فرائض انجام دینے چاہییں اور ’عدالتی مہم جوئی‘ (Judicial activism) اور ’عدالتی ضبط و احتیاط‘ (Judicial restrain) کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے۔
اسی طرح فوج، ملک کی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ اور دستور کے تحت اپنی دوسری ذمہ داریوں کی ادایگی کی پابند ہے۔ ملکی سیاست میں مداخلت اور دستور سے ماورا کسی کارروائی کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ البتہ قومی سلامتی کے سلسلے اور خارجہ پالیسی کے امور کے بارے میں اس کی راے، احساسات اور تحفظات پر اسی طرح غور ضروری ہے جس طرح پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تحقیقی اداروں کے خیالات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ البتہ اس قومی ضرورت سے ماورا، ریاست میں فوج کی بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت، اس کے فرائضِ منصبی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ البتہ یہ بات مستحسن ہوگی کہ فوج اور سول قیادت کے درمیان مشاورت اور قومی سلامتی کے اُمور کو مسلسل، مستقل اور اداراتی انداز میں انجام دیا جائے۔ قومی مفاہمت اور یک رنگی سے معاملات کو چلایا جائے۔ تمام ہی جمہوری ممالک میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم، اس کی بنیاد پر سیاسی نظام میں مداخلت کا کوئی حق اور جواز نہیں۔
پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے فوج کے کردار کے بارے میں بڑی اہم کتاب ۱۹۵۷ء میں The Soldier and the State کے نام سے لکھی تھی۔ اس کتاب میں امریکا کی تاریخ اور خصوصیت سے دوسری جنگ ِ عظیم اور اس کے بعد فوج اور سول حکومت کے تعلقات پر بڑی گہرائی میں جاکر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خود امریکا میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کا جو سیاسی کردار نمودار ہوا تھا، اسے جنگ کے بعد کس طرح، کس ترتیب سے اور کس حد تک قابو میں کیا گیا۔ اس طرح قومی سلامتی سے متعلق مختلف اُمور پر، فوج کی سوچ کے حوالے سے سیاسی ماہرین نے engagement (مشارکت)کا دل چسپ لفظ استعمال کیا ہے،جو جمہوری ممالک میں ایک معروف عمل ہے۔ ہن ٹنگٹن کے الفاظ میں یہ رشتہ کچھ اس طرح ہے:
A healthy society must preserve the autonomy of the military, while simultaneously integrated it into an important decision making role.
ایک صحت مند معاشرے کو فوج کی خودمختاری کا اس طرح تحفظ کرنا چاہیے کہ وہ اسے ساتھ ساتھ ایک اہم فیصلہ کرنے والے کردار کا حصہ بنادے۔
امریکا کی نیشنل سیکورٹی کونسل یہ اداراتی کردار ادا کرتی ہے اور پاکستان میں بھی یہ ادارہ کابینہ کی کمیٹی کی شکل میں ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، جو ماضی میں مناسب انداز میں متحرک نہیں رہا۔
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے جس طرح عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ کھولا ہے، وہ اپنے دُور رس مضمرات کے اعتبار سے بہت نقصان دہ اور خطرات سے بھرپور ہے۔بالکل اسی طرح فوج نے بھی پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مداخلت کی بڑی بُری مثال قائم کی ہے۔ جس میں چار بار فوجی حکومت کا قیام ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اگرچہ دستور کی دفعہ۶ میں آیندہ کے لیے فوجی مداخلت کا دروازہ بند کیا گیا ہے، لیکن اصل دروازہ بند کرنے کا طریقہ محض قانون سازی نہیں ہے بلکہ مناسب اداروں کا قیام اور صحیح رویوں (attitudes) کا اختیار کیا جانا ہے۔ اس سلسلے میں سول اور فوجی قیادت دونوں کو نہ صرف سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ مناسب مشاورت اور مشارکت کے ذریعے طریق کار اور حدودِ کار طے کرنی چاہیے۔
مَیں جہاں تک حالات کا تجزیہ کرسکا ہوں، فوج کی قیادت نے ابتدا ہی سے اپنا ایک کردار بنانے کی کوشش کی۔ اوّلیں دور میں یہ صرف فوجی قیادت کی اپنی سوچ تھی اور اس میں فوجی قیادت اور سول انتظامیہ (خصوصیت سے گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا) میں سازباز تھی۔ جنرل محمد ایوب خاں اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان دونوں کا فوج نے ساتھ دیا، لیکن بظاہر فیصلہ صرف اُوپر کے چند جرنیل حضرات کا تھا، اور نظامِ حکومت میں فوج کا عمل دخل (involvement) محدود اور صرف اُوپر کی سطح تک محدود رہا۔
جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں محسوس ہوتا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت بحیثیت فوجی قیادت اور فوج بحیثیت ایک ادارہ ان کے فیصلوں میں شریک ہوگئی۔ دوسرے دواَدوار میں فوج کی قیادت نے سیاست، انٹیلی جنس اور بڑے کاروباری منصوبوں میں بھی اپنے قدم جمالیے اور اس طرح ایک خاموش اداراتی تبدیلی واقع ہوئی۔جنرل محمد ضیاء الحق نے کئی مواقع پر خود مجھ سے اور دوسرے افراد سے کہا کہ: ’’فوج میرا حلقۂ انتخاب (constituency) ہے اور مجھے اس کی سوچ کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے‘‘۔ گذشتہ دس برسوں میں الحمدللہ فوج کی کوئی براہِ راست سیاسی مداخلت تو سامنے نہیں آئی، لیکن بالواسطہ اثرانداز ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ البتہ غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ اس کردار کو کس طرح اور کس حد تک تبدیل کیا جائے اور اس میں مشارکت کا طریق کار کیا ہو؟
بلاشبہہ یہ کام اس براہِ راست ٹکرائو سے نہیں ہوسکتا، جو اس وقت نوازشریف نے اختیارکیا ہے اور یہ اس طریقے سے بھی نہیں ہوسکتا جو انھوں نے اپنے اقتدار کے اَدوار میں تسلسل سے اختیار کیا۔ جس طرح ہم فوج کی قیادت کے کردار کو قابلِ گرفت سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ نوازشریف صاحب نے بھی منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے سول اور فوجی تعلقات کو صحیح سمت میں رواں دواں نہ رکھ کر فاش غلطیاں کی ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے بھی اپنی صدارت کے دوران اپنی نام نہاد مفاہمتی حکمت عملی اور اپنی دوسری کمزوریوں کی وجہ سے حالات کو اصلاح کی سمت لانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
نواز شریف صاحب پہلے دن سے اپنے ہاتھوں میں مکمل اختیارات کے ارتکاز کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کے اس طرزِفکر کا اندازہ اور تجریہ مجھے خود ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہی ہوگیا تھا، جب بارھویں دستوری ترمیم (۲۸جولائی ۱۹۹۱ء) میں انھوں نے یہ اختیار حاصل کرنا چاہا کہ وہ دستور کی جس شق کو جب چاہیں اور جتنے عرصے کے لیے چاہیں معطل کرسکتے ہیں۔ میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے صاف لفظوں میں اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوریہی ہمارے اور ان کے درمیان گہرے اختلاف اور بے اعتمادی کا آغاز تھا۔ لیکن ہم نے اس سلسلے میں مضبوط موقف اختیار کیا حالاں کہ وہ اس ترمیم کو کابینہ سے منظور کرا چکے تھے۔
نواز شریف صاحب سے دو دن اس امر کے بارے میں ہمارے تلخ و ترش مذاکرات ہوتے رہے۔ پھر ان کی کابینہ کے ارکان بھی اس میں شریک ہوئے۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈرانِ کرام نواز شریف صاحب کے سامنے تو اس مجوزہ ترمیم کی تائید کرتے یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہے، لیکن جنھیں اختلاف تھا، وہ بھی کھل کر بات کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ کم از کم تین افراد نے بعد میں مجھ سے کھل کر کہا کہ: ’’ہم آپ حضرات کے ممنون ہیں کہ آپ اس پر ڈٹ گئے۔ ہم بھی ناخوش تھے مگر مخالفت نہ کرسکے۔ جنرل مجید ملک مرحوم نے سب سے پہلے یہ بات مجھ سے کہی،اور پھر وسیم سجاد صاحب اور حامد ناصر چٹھہ صاحب نے ملاقاتوں میں دُہرائی۔ یہ دونوں حیات ہیں اور ان شاء اللہ گواہی دیں گے کہ پنجاب ہائوس میں انھوں نے یہ بات کہی تھی۔ بہرحال صدر غلام اسحاق خاں صاحب بھی اس کے مخالف تھے، اس طرح بارھویں ترمیم سے نواز شریف صاحب کے من پسند حصے نکال دیے گئے۔
اس سے نواز شریف صاحب کے ذہن کو سمجھا جاسکتا ہے۔وزیراعظم کی حیثیت سے ہر دور میں ان کے اس مزاج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں بہت سی خوبیاں ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرلینا، ذاتی وفاداری کو اہمیت دینا اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑ جانا ان کا امتیازی وصف ہے، جو شورائیت اور جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سول اور فوجی تعلقات کو ان کے دور میں خراب کرنے میں اگر فوج کی قیادت کے رجحانات کا عمل دخل ہے، تو سول قیادت کی اس ذہنیت کا بھی اس میں کردار کچھ کم نہیں۔
محمد نوازشریف صاحب وہ واحد وزیراعظم ہیں، جنھوں نے چھے فوجی سربراہ مقرر کیے،اور پہلے سے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے تین سربراہانِ فوج کے ساتھ بھی انھیں کام کرنا پڑا (سواے چند گھنٹوں کے لیے ضیاء الدین بٹ کے) ان کے تعلقات کسی بھی فوجی سربراہ سے خوش آیند نہیں دیکھے گئے۔فوجی سربراہ کے انتخاب میں بھی ذاتی پسند اور متوقع وفاداری کو اہمیت دینا خرابی کی بڑی وجہ بنی___اسی طرح فوجی سربراہ کو اس کی متعین مدت کے بعد توسیع دینا بھی بہت سے فتنوں کا باعث بنا ہے۔ میں نے اٹھارھویں ترمیم کے وقت بہت کوشش کی تھی کہ اس مدت (term) کو’ناقابلِ تجدید‘ (non-renewable) سے بدلوا لوں، لیکن مسلم لیگ (ن، ق) اور پیپلزپارٹی اس کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔
اصلاحِ احوال کے لیے دونوں جانب سے پُرخلوص اور حکمت آمیز کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اور اس میں بھی کرپشن سے پاک، پُرعزم اور تعصبات سے بالاتر قیادت کا وجود ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کی مثال بڑی چشم کشا ہے۔ فوج جس نے ترکی کی آزادی کی جنگ لڑ کر عوامی جمہوریہ کو قائم کیا تھا۔ پھر تحریری طور پر اسے دستور کے محافظ ہونے کا کردار دیا گیا تھا۔ وہاں بھی فوج کے بار بار مارشل لا لگانے اور سول حکومت کو ناکوں چنے چبوانے، کھلی اور ڈھکی چھپی مداخلت کے باوجود، ایک اچھی سول قیادت نے اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کے ذریعے فوج کو دستوری کردار سے فارغ کردیا، لیکن اسے سول نظام کی قیادت میں باعزت اور فعال (participting) انداز میں نظام کا حصہ بنالیا۔ جب جولائی ۲۰۱۶ء میں فوج کے ایک عنصر نے بغاوت کی کوشش کی تو جہاں عوام نے جان دے کر جمہوری اور سول نظام کا دفاع کیا، وہیں فوج کی عظیم اکثریت نے بھی سول نظام کا ساتھ دیا اور اس کے تحت کام کرنے کے راستے کو قبول کیا۔
مناسب حکمت ِعملی اور اداراتی اصلاح کے ذریعے اس نوعیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت بدقسمتی سے ہردور میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتخابات اس پس منظر میں ہورہے ہیں اور نئی قیادت کو اس نازک مسئلے کو بڑی حکمت اور مشاورت سے حل کرنا ہوگا۔
ان انتخابات کے سلسلے میں ایک اور پریشان کن پہلو سیاسی جماعتوں کے کردار کا ہے، جس میں متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر تفصیل سے بحث کرکے اور قومی سطح پر باہم مشاورت سے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم چند اہم ترین پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کریں گے:
۱- سیاسی جماعتوں میں جو خرابیاں اور کمزوریاں نمایاں ہوکر سامنے آرہی ہیں، ان میں سب سے اہم چیز نظریات، افکار اور وژن کی بنیاد پر پالیسیوں اور پروگراموں کی کمی ہے۔ علمی محاذ تو سبھی میں کمزور ہے اور تحقیق ناپید ہے۔ ماہرین سے استفادہ اور علم و تجربے کی بنیاد پر مسائل کا ادراک، ان کے مختلف حل کا جائزہ، عالمی حالات و رجحانات اور ملکی وسائل اور مسائل کا بے لاگ جائزہ لینے کی روایت موجود ہی نہیں ہے۔
۱۹۸۰ءکے عشرے تک کسی نہ کسی شکل میں نظریات پر مبنی پالیسیاں اور ان کے بارے میں بحث و مباحثہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے بعد یہ رجحانات کمزور پڑتے گئے۔ بلاشبہہ عالمی سطح پر بھی اس دور میں نظریات میں بڑا اُتار چڑھائو نظر آتا ہے اور مباحث کے رُخ بھی بدلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں، حکومتی اداروں، حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن تک نظر آتا ہے کہ فکری اور نظریاتی اعتبار سےیہ غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ کچھ برسوں سے وژن اور مستقبل بینی کے نام پر بھی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں، ان میں سرے سے حقیقی وژن ہی کا فقدان ہے۔ نظریے کے مقابلے میں شخصیت اور خاندان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح اپنی فطرت اور اصل کے اعتبار سے بڑی پارٹیاں سیاسی، جماعتی اور فکری تحریکات کے بجاے ’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں‘ بن کر رہ گئی ہیں۔
دینی جماعتوں کا معاملہ کچھ بہتر ہے، لیکن ان کے باب میں بھی اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ شریعت کا نفاذ اور پارلیمنٹ سے اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کا قیام تو ایک تسلسل سے ان کی ترجیح رہا ہے، لیکن ان اصولی اور آفاقی تصورات کو اپنے ملکی احوال اور عوام کے حالات، مسائل کے اُلجھائو اور توقعات کے پس منظر میں قابلِ عمل پروگرام کی ایسی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پروگرام ان کے دل کی آواز اور ان کو اجتماعی جدوجہد اور قربانی پر آمادہ کرنے کا ذریعہ بن جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مثبت قوت اور ایک واضح منزل کا شعور اور پروگرام رکھنے کے باوجود، دینی قوتوں کے سامنے اس اخلاقی اور نظریاتی وژن (vision)کو سیاسی وزن (political weight & power) میں ڈھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر ابلاغ (communication) اور پیش کاری (projection) کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اس وقت قوم کو سب سے زیادہ توقع دینی جماعتوںاور خصوصیت سے تحریک اسلامی سے ہے کہ اس نے جس طرح دستور کی حد تک ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے بنیادی خدوخال کو دستور کا حصہ بنوایا، اسی طرح وہ اسے زندگی کے پورے نظام انفرادی، اخلاقی، اجتماعی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، سب میدانوں میں واضح اہداف اور پالیسیوں کے ذریعے قائم کرنا چاہتی ہے۔
اصولی اور بنیادی باتیں بہت واضح انداز میں پیش کی گئی ہیں، لیکن جس تفصیل کے ساتھ، جس انداز میں اور جس زبان میں آج پیش آنے والے سوالات کی تشریحِ نو کی ضرورت ہے، اس باب میں اسی تسلسل سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
۲- دوسرا سانحہ یہ ہے کہ قومی جماعتیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سکڑ کرمقامی جماعتوںمیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ بڑی جماعتوں کا ارتکاز کسی ایک صوبے یا علاقے تک ہی محدود نظر آتا ہے، جب کہ علاقائی جماعتیں توہیں ہی مخصوص مفادات یا علاقوں کے لیے۔فیڈریشن کے مستقبل کا بڑا انحصار اور قومی یک جہتی کی بنیادی ضرورت قومی جماعتوں پر منحصر ہے، جن کے ہر علاقے میں اثرات ہوں اور وہ تمام صوبوں، علاقوں اور گروہوں کو مربوط اور منظم رکھ سکیں۔
۳- تیسری بنیادی چیز سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور شورائیت کا فقدان یا کمی ہے، دھڑے بندیاں ہیں،شخصیات یا خاندان وفاداریوں کے محور بن گئے ہیں۔جماعتیں نہ عمودی (vertical ) طور پر منظم ہیں اور نہ اُفقی (horizontal) سطح پر مربوط۔تنظیمی ڈھانچا اُوپر سے نیچے تک موجود نہیں ہے اور تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے۔نئے لوگوں کو فکری اور تنظیمی اعتبار سے ضم کرنے کا عمل خام ہے۔ احتساب کا نظام مفقود ہے۔ لیڈرشپ سے ذاتی وفاداری کے نتیجے میں میرٹ اور اہلیت غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، جس سے کارکنوں میں بددلی پیدا ہوئی ہے۔
۴- چوتھی چیز کرپشن کے موضوع پر پارٹیوں کا رویہ ہے۔ معاشرے میں شدید اخلاقی انحطاط ہے اور پارٹیوں کے اندر بھی کرپٹ عناصر کو نہ صرف برداشت کرنے بلکہ افسوس ناک حد تک انھیں پُرکشش (glamourize) کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ذاتی اخلاق و کردار اور اجتماعی کردار اگر غیرمتعلق نہیں ہوگئے ہیں تو غیراہم ضرور سمجھے جارہے ہیں۔یہ بڑا ہی افسوس ناک اور خطرناک پہلو ہے۔ سیاست میں اصل قوت اخلاقی برتری اور کردار کی پختگی ہے۔ ہر دوسری کمی پوری کی جاسکتی ہے لیکن اگر امانت اور دیانت کا جوہر موجود نہ ہو تو اس کا کوئی متبادل نہیں۔ آج ہماری سیاست، سیاسی جماعتوں اور اجتماعی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی نہ صرف عام ہے بلکہ اس کا بُرا اور ناپسندیدہ سمجھا جانا بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ اگر اب بھی اس کی فکر نہ کی گئی تو پھر کوئی چیز ملک کو تباہی سے نہیں بچاسکتی۔ اگر ’ناخوب‘ ہی ’خوب‘ بن جائے تو پھر زندگی میں باقی رہ کیا جاتا ہے؟
ان حالات میں دینی جماعتوں اور خصوصیت سے تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ ایک صالح معاشرے کے قیام اور ایک صالح قیادت کو بروے کار لانے کے لیے مؤثر قومی اور کلیدی کردار ادا کرے۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کا دامن اس جدوجہد میں آج تک پاک رہا ہے۔ اس میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ جماعت کے اندر جمہوریت ہرسطح پر موجود اور مشاورت کا نظام قائم ہے۔ قیادت کا انتخاب ارکان کے آزادانہ انتخاب سے ہوتا ہے۔ غیر جانب دار محققین کے جائزے، اندرونی طور پر جماعت میں جمہوری اور شورائی نظام کی کارفرمائی کے معترف ہیں۔ حکومت یا حکومت سے باہر جہاں بھی جس حد تک بھی ذمہ داری اس پر آئی ہے، اس کے کارکنوں نے دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی، صوبائی وزارتیں جہاں بھی ان کو ذمہ داری دی گئی ہے، ان کا ریکارڈ نمایاں اور بے داغ رہا ہے۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور مزید کی توفیق طلب کرتے۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر اور مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین کی تازہ ترین کتاب: Governing the Ungovernable: Institutional Reforms for Democratic Government ابھی حال ہی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اس سے دو اقتباس ہدیۂ ناظرین ہیں:
دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام مختلف اطراف (sideline) سے آکر سیاسی منظر پر غالب آجاتی رہی ہیں، لیکن یہ دونوں قومی سطح پر کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ بہترین نتائج انھوں نے اس وقت حاصل کیے جب تمام کی تمام چھے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل (MMA) بنائی اور صوبہ سرحد میں انتخابات جیت کر حکومت بنالی، اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شامل ہوگئی۔
فی الوقت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے، جب کہ جمعیت علماے اسلام وفاقی حکومت میں چند وزرا شامل کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ جماعت اسلامی سب سے زیادہ منظم اور ضابطے کے تحت چلنے والی جماعت رہی ہے۔
افتخار ملک کے مطابق، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا امتیازی وصف ان کی ’موقع پرستی کی سیاست‘ رہی ہے، جہاں ذاتی مفاد کو باہم شادیوں اور کاروباری مہم جوئی کے ذریعے مستحکم کرلیا گیا اور نظریہ پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا گیا، سواے جماعت اسلامی کے، جو کہ ریاست کو اسلامی بنانے کے نصب العین سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔
’پاکستانی سیاسی جماعتیں اتحاد اور جوابی اتحاد بناتے ہوئے ان اخلاقی تقاضوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ نسل در نسل حکومت کرتے، ۵۰ کے قریب خاندانوں کے ذاتی مفادات نے، جنھیں باہمی شادیوں اور کاروبار نے استحکام بخشا ہوا ہے، ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کو مسلط کیا ہے۔ یہ نظریاتی اختلافات، مسائل کا جائزہ اور اس کے حوالے سے رویے کا تعین، اور نظریات کا مقابلہ سیاسی جماعتوں سے پہلو بچاکر گزر جاتے ہیں، سواے جماعت اسلامی کے، جو ریاست کو اسلامی بنانے کا واضح نصب العین سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی کے ۸۱ سے ۸۹ سال کے بوڑھے میئر نعمت اللہ خاں، ایک ایسے ایمان دار فرد تھے جو زیرتکمیل کاموں کی مستعدی اور باقاعدگی سے نگرانی کرتے تھے، ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے، اُن کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے۔
اچھے لوگ بلاشبہہ، ہر جماعت اور ہرطبقے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی اور گروہی عصبیت سے بلند ہوکر اصول، صلاحیت،کردار اور میرٹ کی بنیاد پر اچھی قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے، تاکہ زندگی کا نقشہ بدل سکے اور پاکستان کو صحیح معنوں میںایک جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس سمت میں ایک مؤثر قدم اپنے ووٹ کے ذریعے ۲۵جولائی کو اُٹھایا جاسکتا ہے۔ آج پاکستان کو اُسی جذبے اور اسی نوعیت کی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے جیسی قائداعظم کی قیادت میں ۴۷-۱۹۴۰ء میں مسلمانانِ پاک و ہند نے کی تھی۔ کیا پاکستانی قوم اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ مستقبل کا انحصار آپ کے اور ہمارے آج کے فیصلے پر ہے:
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
اور:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
(کتابچہ منشورات ، منصورہ سے دستیاب ہے۔ قیمت: 13 روپے ، سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ فون: 042-35252211)