ہرسال محرم میںکروڑوںمسلمان شیعہ بھی اورسنی بھی،امام حسینؓ [شہادت:۱۰محرم ۶۱ھ] کی شہادت پراپنے رنج وغم کااظہارکرتے ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروںمیںسے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں،جس کے لیے امامؓ نے نہ صرف اپنی جانِ عزیزقربان کی، بلکہ اپنے کنبے کے بچوںتک کوکٹوادیا۔کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پراس کے اہل خاندان کا، اوراس خاندان سے محبت وعقیدت یاہمدردی رکھنے والوںکااظہارِغم کرناتوایک فطری بات ہے۔ ایسارنج وغم دُنیا کے ہرخاندان اوراس سے تعلق رکھنے والوںکی طرف سے ظاہرہوتاہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیںہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروںکی اور خاندان کے ہمدردوںکی محبت کاایک فطری نتیجہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ کیاخصوصیت ہے [اتنی مدت] گزر جانے پر بھی ہرسال ان کا غم تازہ ہوتارہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِعظیم کے لیے نہ تھی تومحض ذاتی تعلق کی بنا پر صدیوں اس کاغم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیںہیں۔اورخودامام کی اپنی نگاہ میںاس محض ذاتی وشخصی محبت کی کیا قدرو قیمت ہوسکتی ہے؟ انھیں اگراپنی ذات اس مقصدسے زیادہ عزیز ہوتی تووہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی توخوداس بات کاثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیزرکھتے تھے۔ لہٰذا، اگرہم اس مقصدکے لیے کچھ نہ کریں،بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں، تومحض ان کی ذات کے لیے گریہ وزاری کرکے، اوران کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روزنہ توہم امام ہی سے کسی دادکی اُمیدرکھ سکتے ہیںاورنہ یہ توقع رکھ سکتے ہیںکہ ان کاخدااس کی کوئی قدرکرے گا۔
اب دیکھناچاہیے کہ وہ مقصدکیاتھا؟کیاامام تخت وتاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اوراس کے لیے انھوںنے سردھڑکی بازی لگائی؟
کوئی شخص بھی جوامام حسینؓ کے گھرانے کی بلنداخلاقی سیرت کوجانتاہے،یہ بدگمانی نہیںکرسکتاکہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدارحاصل کرنے کی خاطرمسلمانوںمیںخوں ریزی کرسکتے تھے۔اگرتھوڑی دیرکے لیے ان لوگوںکانظریہ ہی صحیح مان لیاجائے جن کی رائے میںیہ خاندان حکومت پراپنے ذاتی استحقاق کادعویٰ رکھتاتھا،تب بھی حضرت ابوبکرؓسے لے کرامیرمعاویہؓ تک، پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنااورکشت وخون کرناہرگز ان کامسلک نہ تھا۔اس لیے لامحالہ یہ مانناہی پڑے گاکہ امام عالی مقام کی نگاہیںاس وقت مسلم معاشرے اوراسلامی ریاست کی روح اوراس کے مزاج اوراس کے نظام میںکسی بڑے تغیر کے آثاردیکھ رہی تھیں،جسے روکنے کی جدوجہدکرناان کے نزدیک ضروری تھا، حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تونہ صرف جائزبلکہ فرض سمجھتے تھے۔
وہ تغیرکیاتھا؟ظاہرہے کہ لوگوںنے اپنادین نہیںبدل دیاتھا۔حکمرانوںسمیت سب لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کواسی طرح مان رہے تھے، جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیںبدلاتھا۔عدالتوںمیںقرآن اورسنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی اُمیہ کی حکومت میںبھی ہورہے تھے، جس طرح ان کے برسراقتدارآنے سے پہلے ہوا کرتے تھے، بلکہ قانون میںتغیرتوانیسویںصدی عیسوی سے پہلے دُنیاکی مسلم حکومتوںمیںسے کسی کے دور میں بھی نہیںہوا۔
بعض لوگ یزیدکے شخصی کردارکوبہت نمایاںکرکے پیش کرتے ہیں، جس سے یہ عام غلط فہمی پیداہوگئی ہے کہ وہ تغیرجسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے، بس یہ تھاکہ ایک بُرا آدمی برسرِاقتدارآگیاتھا۔لیکن یزیدکی سیرت وشخصیت کاجوبرے سے بُرا تصور پیش کرناممکن ہے، اسے جوںکاتوںمان لینے کے بعدبھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیںہے کہ اگرنظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک بُرے آدمی کابرسراقتدارآجاناکوئی ایسی بڑی بات ہوسکتی ہے، جس پرامام حسینؓ جیسا دانا وزیرک اورعلم شریعت میںگہری نظررکھنے والاشخص بےصبر ہوجائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیںہے جس نے امام کوبے چین کیاتھا۔
تاریخ کے غائرمطالعے سے جوچیزواضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یزیدکی ولی عہدی اور پھراس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداہورہی تھی، وہ اسلامی ریاست کے دستور، اوراس کے مزاج اور اس کے مقصدکی تبدیلی تھی۔اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے، لیکن ایک صاحب ِنظرآدمی گاڑی کارُخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتاہے کہ اب اس کاراستہ بدل رہاہے، اورجس راہ پریہ مڑرہی ہے وہ آخرکاراسے کہاںلے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی، جسے امام نے دیکھااورگاڑی کوپھرسے صحیح پٹڑی پرڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کافیصلہ کیا۔
اس چیزکوٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیںدیکھناچاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میںریاست کاجونظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا، اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیاتھیں،اوریزیدکی ولی عہدی سے مسلمانوںمیںجس دوسرے نظامِ ریاست کاآغازہوا،اس کے اندرکیاخصوصیات تھیں، جو دولت بنی امیہ وبنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں؟اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیںکہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پرچل رہی تھی، اور اس نقطۂ انحراف پرپہنچ کرآگے وہ کس لائن پرچل پڑی اوراسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدئہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی آغوش میںتربیت پائی تھی اورجس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میںبچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں،وہ کیوںاس نقطۂ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کواس نئی لائن پرجانے سے روکنے کے لیے کھڑاہوگیا،اورکیوںاس نے اس بات کی بھی پروانہ کی کہ اس زوردارگاڑی کارخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوجانے کاکیانتیجہ ہوسکتاہے؟
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میںصرف زبان ہی سے یہ نہیںکہاجاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانابھی جاتاتھا،اورعملی رویے سے اس عقیدے ویقین کاپورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خداکا ہے، باشندے خداکی رعیت ہیں،اورحکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیںہے اوررعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوںکاکام سب سے پہلے اپنی گردن میںخداکی بندگی وغلامی کاقلادہ ڈالناہے، پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود ہوکر رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیارکرلیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہاہے، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال، آبرو ، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا، بادشاہ اور ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
اسلامی ریاست کامقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دیناتھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو نا پسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیل باج و خراج اور عیشِ دُنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی ۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امرااور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا، انھیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتا ر رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے ۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنو اُمیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری کی روح تھی، جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتاتھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار، سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے ، اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے، لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرلیے۔ عدل کی جگہ ظلم وجور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیز گاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی ۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رُونما ہوا۔ اس دستور کے ساتھ اہم ترین اصول تھے ، جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔
۱- آزادانہ انتخاب:دستور اسلامی کا سنگ بنیاد یہ تھاکہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چُن کر اقتدار اس کے سپرد کردیں ۔ ’بیعت‘، اقتدار کا نتیجہ نہ ہوبلکہ اس کا سبب ہو۔ ’بیعت‘ حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ ’بیعت‘ کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں ۔ جب تک کسی شخص کو ’بیعت‘ حاصل نہ ہو وہ برسرِاقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدینؓ میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِاقتدار آیاتھا۔
امیرمعاویہ ؓ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہوگئی۔ اسی لیے صحابی ہونے کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں کیاگیا۔ لیکن آخر کاریزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو ’انتخابی خلافت‘ کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہوسکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسراقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اوّل تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا اس کی بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تھا وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی کے زمانے میں اما م مالکؒ سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دیے گئے۔
۲- شورائی نظام:دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھاکہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقویٰ اور اصابت رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے ، اگرچہ ان کو انتخابِ عام کے ذریعے سے منتخب نہیںکرایا گیاتھا۔ جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے۔ لیکن خلفا نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایاتھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے، اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں بلکہ انھوںنے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا، جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے، جن سے یہ اُمید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایمان دارانہ رائے دیں گے، جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتاتھاکہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے ۔ اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انھی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔
لیکن شاہی دور کاآغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔اب شہزادے اور خوشامدی اہل دربار، اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے ۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملے میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلے میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اور اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گواہل علم وتقویٰ، جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم ازکم مشتبہ تھے۔
۳- اظہار رائے کی آزادی:اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھاکہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھاکہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔
خلافت راشدہؓ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کافرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں ، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پُرس کرنے کی مکمل آزادی تھی ، جس کے استعمال پر یہ لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اورتعریف سے نوازے جاتے تھے ۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی، جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے ، بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا، جس کا احترام وہ اپنا فرض سمجھتے تھے ، اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت ساز گار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جزتھا۔
لیکن بادشاہی دور کاآغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھادیے گئے اور منہ بند کردیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہوگیاکہ زبان کھولو توتعریف میں کھولو،ورنہ چپ رہو ۔ اور تمھارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہوجائو ۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت، بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی ۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے ۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایمان دار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہوگئے اور عوام کا حال یہ ہوگیاکہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انھوںنے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی، اور گرنے والا جب گرا تو انھوںنے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں ، مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدورفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
۴- خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی: چوتھا اصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتاتھا، یہ تھاکہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے، اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیاتھااور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کاتعلق ہے، وہ ہر وقت ،ہر جگہ اپنے آپ کوعوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔
ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھاکہ صرف مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیاجاسکتاہے، وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے ۔ وہ ہرہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے ۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر،کسی ہٹو بچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان کے کچے مکان ) کادروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتاتھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کرسکتاتھا اور جواب طلب کرسکتاتھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی ۔ یہ نمائندوں کے واسطے سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے بر سراقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انھیں ہٹاکر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انھیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتاتھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔
لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کاتصور ختم ہوگیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو، مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی، تو کون مائی کا لال تھا جوان سے جواب طلب کرسکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے ۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتاہے۔ وہ طاقت سے برسرِاقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھاکہ جس میں طاقت ہو، وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے تھے؟ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوںمیں، یا باہر اپنے نہایت قابلِ اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کردیے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈ بھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
۵- بیت المال، ایک امانت:پانچوا ں اصول اسلامی دستور کا یہ تھاکہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے ، اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رُو سے مالِ یتیم میں اس کے ولی کا ہوتاہے کہ وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفُ ج وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاکُلُ بِالْمَعْرُوْفِ ط (جواپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے، اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی بر انصاف مانے ۔ النساء۴:۶)۔ خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد وخرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔
خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتاتھا ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتاتھا، اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتاتھا، بالکل جائز راستوں میں ہوتاتھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی، بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔ اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے، انھوںنے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا ، زیادہ کہنے کی جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ پھر اس خزانے کی آمد و خرچ کا حساب ہروقت ہر شخص مانگ سکتاتھا اوروہ ہر وقت ہرشخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتاتھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا لمبا کُرتہ بن سکے، یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟
مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کانہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا، ہرجائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی ۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھاسکے ۔ سارا ملک ایک خوانِ یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے لے کر سربراہ مملکت تک ، حکومت کے سارے کل پرزے حسب توفیق ہاتھ مار رہے تھے ، اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیاتھاکہ اقتدار کوئی پروانۂ اباحت نہیں ہے، جس کی بدولت یہ لُوٹ مار ان کے لیے حلال ہو، اور پبلک کا مال کوئی شیرِ مادر نہیں ہے، جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انھیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔
۶- قانون کی حکومت:چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھاکہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کوقانون سے بالاتر نہ ہوناچاہیے۔ کسی کو قانون کے حدودسے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہ مملکت تک، سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔
خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کی پیروی کابھی بہترین نمونہ پیش کیاتھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانونِ الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی اور نہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے، اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کرکے انھیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح اُنھوںنے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھاتھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثر انداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذے سے بچ جاتا۔
لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شہزادے اور امرا اورحکام اور سپہ سالار ہی نہیں ، شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالا تر ہوگئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں، سب ان کے لیے مباح ہوگئیں۔ انصاف کے دومعیار بن گئے: ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقت ور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی، حتیٰ کہ خدا ترس فقہا نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہوجانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا،تاکہ وہ ظلم و جور کے آلہ ٔ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
۷-حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات:مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات ، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا، جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیاگیاتھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل، وطن، زبان وغیرہ کاکوئی امتیاز نہ تھا ۔قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت واخلاق اور اہلیت و صلاحیت، اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔
لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سراُٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہوگیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہوگئے۔ عربی اورعجمی کے تعصبات جاگ اُٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کش مکش پیدا ہوگئی۔ ملت اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیںکرسکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی، اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہوگئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیاتھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بہ تمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہرصاحبِ بصیرت آدمی جان سکتاتھاکہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔
اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انھوںنے فیصلہ کیا کہ جو بدترسے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کاخطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جوانجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جوبات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات اُمت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں، جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سربھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے، اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنھیں اوپر نمبروار گنایا گیاہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفتِ عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرناچاہیے۔
کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انھوںنے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔
بلاشبہ ۷مئی ۲۰۲۵ء کی پاک انڈیا جنگ کے بعد پوری قوم یکجاہو گئی ہے۔ ہر سطح پر یہ نظر آیا کہ عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں نے پاکستان کی سالمیت کےلیے دینی جذبے سے سرشار ہو کر افواج پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔
طویل عرصے سے پاکستان میں یہ صورتِ حال رہی ہے کہ لوگ منقسم نظر آتے ہیں۔ علاقائیت، قوم پرستی، مسلک پرستی اور سیاسی تقسیم کے مظاہر بہت نمایاں طور پر مشاہدے میں آتے رہے ہیں، اور اسی بنیاد پر پاکستان کے حال اور مستقبل سے مایوسی کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اس بیرونی جارحیت کے نتیجے میں پوری قوم متحد ہوئی ہے، جو اپنی جگہ بڑا قابلِ قدر پہلو ہے۔
پاکستان کے وجود اور ترقی کےلیے بنیادی قوت اسلام ہی ہے۔ ایک چیز جو پاکستان کو اور پاکستان کے ۲۵ کروڑ عوام کو جوڑ سکتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ افواج پاکستان بھی اسلام اور جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے حوالے سے سامنے آتی ہیں تو لوگ اُن سے جڑتے ہیں اور اگر کوئی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگاتا ہے، جو بظاہر ’پاکستانیت‘ ہے، لیکن درحقیقت جب وہ نعرہ امریکا نوازی کے موسم اور اسی مہم کی توسیع میں لگایا گیا، تو اس پر قوم منقسم تھی، متحد نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۱ء سے جو جنگ امریکا کے کہنے پر لڑی گئی، اس میں لوگ اپنی ہی فوج سے دُور یا لاتعلق رہے، اور ساتھ نہیں دیا،لیکن جب جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو سامنے رکھ کر اور دشمن کو ٹھیک طریقے سے متعین کیا گیا کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے؟ اور فوج بھی اسلام کے جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کی طرح سیسہ پلائی دیوار میں ڈھل گئی، تو پوری قوم بھی متحد ہوگئی۔
ابھی تین چار سال پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ ’’قوم منتشر ہے‘‘، مگر آج جب قیادت نے یکسوئی دکھائی تو پوری قوم متحد ہو گئی۔ دشمن کے ۸۰ سے زائد ڈرون مار گرائے گئے اور وہ طیارے جو ناقابلِ شکست سمجھے جاتے تھے، تباہ کر دیے گئے۔ انڈیا کا گھمنڈ، جو برسوں سے بڑھتا جا رہا تھا، الحمدللہ اب زمین بوس ہوا۔
انڈیا جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا تھا، وہ پاکستان کے مؤثر دفاع، اتحاد اور جذبۂ ایمان کے سامنے ٹھیر نہیں سکا۔ دشمن نے تکبر کیا، پاکستان نے تدبر سے جواب دیا۔فرانس سے خریدے گئے رافیل طیارے گرے، روس سے لی گئی دفاعی ٹکنالوجی تباہ ہوئی، اسرائیل سے لیے گئے ڈرون خاک میں ملے۔ جسے طاقت ور سمجھا جاتا تھا، وہ پاکستان سے شکست کھا گیا۔ وہ حالات کہ جن میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیل رہی تھی اور جگہ جگہ ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے، جیسے بغاوت کے آثار نمودار ہورہے ہوں۔لیکن بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی فتح نے قوم کو پھر سے متحد اور یکجا کر دیا ہے۔
گویا اسلام ہی واحد قوت ہے، جو پوری پاکستانی قوم کو متحد کرسکتی ہے۔ یہ بات تو خود پاکستان کے وجود کا حصہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اس بنیاد پر ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور دو قومی نظریہ ہماری اساس ہے۔ ہندوؤں سے ہماری کوئی نسلی دشمنی نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ الگ ہے، ان کا طرزِ زندگی الگ ہے، ان کی بودو باش الگ ہے، اور اس کی بنیاد پر ان کا معاشرہ الگ ہے، اور مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اگرچہ ملک میں بلوچ اور پختون بھی ہیں، پنجابی، سندھی اور مہاجر بھی ہیں، ہرزبان اور ہرعلاقے کے رہنے والے ہیں، لیکن ہم لاالٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر ایک امت ہیں۔ لہٰذا نظریۂ پاکستان ہی وہ قوت ہے جو ہمیں جوڑ سکتا ہے۔ اب بھی اس نے ہمیں جوڑا ہے ، آئندہ بھی یہی چیز جوڑے گی۔ یہ تاریخ کا ایک سبق ہے ، اس کو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔
جب انڈیا کو شرمناک جارحیت کے بعد جوابی کارروائی کے نتیجے میں شکست اور ذلّت کا سامنا ہوا تو اس نے امریکا سے مداخلت کی درخواست کی۔ انڈیا کے کہنے پر امریکی صدر ٹرمپ نے مداخلت کی اور جنگ بندی کروائی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ جب انڈیا پٹنے لگتا ہے تو دوڑا دوڑا اقوام متحدہ چلا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں بھی یہی ہوا تھا کہ جموں و کشمیر میں اس کو شکست ہو رہی تھی اور مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے۔ آج جو گلگت، بلتستان، آزاد کشمیر ہے، یہ بھی جذبۂ جہاد کے نتیجے میں آزاد کرایا گیا ہے۔ اور جب انڈیا اقوام متحدہ میں گیا اور اس نے کسی طرح جنگ بندی کروائی، اور پوری دُنیا کے سامنے استصواب رائے کا وعدہ کیا ، مگر اس نے آج تک وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔
جب پہلگام میں انڈیا نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا، اس وقت امریکی نائب صدر انڈیا کے دورے پر تھے۔ انھوں نے انڈیا کی حمایت میں بیان جاری کیا جیسے انڈیا کوئی بہت بڑی طاقت ہے اور اس کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ ٹکنالوجی میں بہت آگے ہے، اور ایک بڑی اور طاقت ور فوج رکھتا ہے۔
انڈیا نے اسی زعم میں ۷مئی ۲۰۲۵ء کو آدھی رات کے وقت پاکستان پر میزائل کے حملے کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا۔ پاکستان نے بہت بالغ نظری سے، پوری جرأت ایمانی اور استقامت سے جب منہ توڑ جواب دیا تو اس کے نتائج پوری دُنیا کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح ہوئے۔ پاکستان نے انڈیا کی طرح شہری آبادی اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا، بچوں اور عورتوں پر بم نہیں برسائے، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔پاکستان کی ریاست اور افواج نے جذباتی ہوکر فوری طور پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے افراتفری پھیلے بلکہ انتظار کیا، ٹارگٹ کو دیکھا اور بروقت نپی تلی کارروائی کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک قوت ہے۔ وہ صرف نام کی ایٹمی قوت نہیں ہے بلکہ اس کی فوجی طاقت اور جنگی مہارت بھی زبردست ہے ، جس میں پاک فضائیہ کی برتری بھی واضح اور تاریخ ساز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایٹمی قوت کے مسلط کردہ جنگی منصوبے کو پاکستان نے ہرمیدان میں شکست دی ہے۔
اب سفارتی محاذ پر جامع اور بھرپور انداز سے کام کی ضرورت ہے۔ پوری دُنیا پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف انڈیا کا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے اور دوسری طرف پاکستان کا ذمہ دارانہ رویہ۔ ہم حملے کا جواب بھی دیتے ہیں تو پوری ذمہ داری کے ساتھ، مگر انڈیا ہمارے ڈیموں کو نشانہ بنارہا ہے، ہمارے بچوں کو نشانہ بنارہا ہے۔
انڈیا نے یکطرفہ طور پر’ سندھ طاس معاہدہ‘ معطل کرنے کا غیرقانونی اعلان کیا ہے۔ اس نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا ہے اور جب پاکستان نے غیرجانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تو اس سے انڈیا بھاگ گیا۔ اس لیے جب تک انڈیا اپنے غیرذمہ دارانہ اقدامات اور رویوں پر ندامت کا اظہار نہیں کرتا، اور سندھ طاس منصوبے کو معطل کرنے جیسے فیصلے کو واپس نہیں لیتا، امن کی ضمانت کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہوسکتا۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ ہم ایک اچھے پڑوسی کی طرح انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ لیکن پہلے دن سے جو مسئلہ ہمیں پیش آیا وہ کشمیر ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنیادی وجۂ تنازع کشمیر ہے۔ کشمیر میں انڈیا کی اس وقت بھی ۱۰ لاکھ ملٹری اور پیراملٹری فورسز موجود ہیں، ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ تعذیب خانوں میں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،ان کے بنیادی حقوق سلب ہیں۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مگر حکومت پاکستان کی طرف سے وہ کردار ادا نہیں کیا جارہا جو کرنا چاہیے۔
ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ انڈیا نے جب آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی حکومت اور اس کے آرمی چیف نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ مایوسی کی باتیں کی جارہی تھیں، بزدلانہ باتیں پھیلائی جارہی تھیں۔ پھر دیکھیے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہوا؟ اس کے برعکس آج اگر ہم نے ہمت دکھائی، جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا، قومی غیرت اور حمیت کی بات کی، فورسز بھی کھڑی ہو گئیں اور پوری قوم بھی کھڑی ہوگئی، تو اس پورے عمل کے نتیجے میں پوری قوم یک جان بھی ہوگئی اور کشمیر کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ بن کر عالمی سطح پر اُجاگر ہوگیا ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اصل مسئلہ تو کشمیر ہے اور اسے ہرصورت میں حل ہونا چاہیے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں کے تحت حل کیا جائے، اور اس کے لیے سفارتی محاذ پر کامیابی ضروری ہے۔ لہٰذا اسے پوری قوم کا ایشو بننا چاہیے اور بھرپور سفارت کاری کے ذریعے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جانا چاہیے۔
بے شک مزاحمت زندگی ہے۔ اسی میں نجات اور عزّت و توقیر ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت ،انھیں پوری دنیا میں سرخرو کر رہی ہے۔ فلسطینی تو پہلے بھی شہید ہو رہے تھے ، ۱۰۰ سال سے شہید کیے جارہے تھے، مگر اس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے، لیکن ان کی مزاحمت نے پوری دنیا میں ان کے ہمدرد پیدا کر دیے ہیں۔ ’حماس‘ جس کے خلاف دہشت گردی کا لیبل لگایا گیا ، اس سے امریکا بھی مذاکرات کر رہا ہے اور اسرائیل کو بھی کرنا پڑ رہے ہیں۔ حماس نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ آج مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے لیے جتنے سروے آرہےہیں، ان کے مطابق خود ’حماس‘ سے ہمدردی ۵۰ فی صد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ افراد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی طاقت، جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہے، حق اور سچ پر کھڑی ہوجاتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، تو وہ پوری دنیا میں اپنے ہمدرد پیدا کر لیتی ہے اور بالآخر طاغوتی قوتوں کو جھکنا پڑتا ہے۔
مزاحمت میں زندگی کا یہ تاریخی سبق موجود ہے۔ ہم اندھی جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ بحیثیت قوم ہم تو کسی سے بھی تصادم نہیں چاہتے، لیکن ہم اپنی آزادی اور خودمختاری اور قومی وقار کا سودا بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جب ہم نے بھارتی جارحیت کے خلاف ردعمل دیا ہے اور صحیح طریقے سے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، تو پوری دنیا میں ہماری عزّت و وقار میں اضافہ ہوا ۔
اسلام ہماری بنیاد ہے اور پاکستان محض ایک جغرافیے کا نام نہیں ہے۔ پاکستان ایک نظریے اور عقیدے کا نام ہے۔ پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے خون کا دریا عبور کیا تھا۔ علامہ اقبال ؒنے محض خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ ایک زندہ تصور دیا تھا۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت بے داغ تھی۔ وہ سچے اور مخلص انسان تھے ، پوری قوم ان کی قیادت میں یکجا ہوگئی تھی۔ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس قائداعظمؒ اور اُن کے جانثار ساتھیوں کے پاس جو مدلل لٹریچر تھا جسے نوجوان اور طلبہ گلی گلی، اور قریہ قریہ جا کر تقسیم کرتے تھے اور مسلمانوں کو قیامِ پاکستان کے لیے ترغیب دیتے تھے، تو وہ دو قومی نظریے پر مشتمل مسئلہ قومیت تھا، جو سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے لوگوں کو علم اور تجزیے کے اعتبار سے، اور تاریخ کے حوالوں سے، یہ بات سمجھائی کہ مسلمان کسی رنگ اور نسل کی بنیاد پر قوم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر اُمت ہیں اور ان کی اپنی تہذیب ہے، ان کی اپنی ثقافت اور کلچر ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کبھی معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا، اور یہ سب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کا نتیجہ ہے۔ اور اگر کہیں، کبھی کوئی افسوسناک واقعہ سامنے آیا، تو پوری قوم نے اس کی مذمت کی، کبھی حکومت نے اور انتظامیہ نے اس کی سرپرستی نہیں کی۔ دوسری طرف انڈیا ہے جو اپنے آپ کو دُنیا کی بڑ ی اور ایک سیکولر جمہوریت کہتا ہے، وہاں آر ایس ایس اور بی جے پی ’ہندوتوا‘ کے پرچم تلے ریاستی اور حکومتی فسطائیت کا دن رات مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے زندگی اجیرن ہے، مسیحیوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں اور سکھ قیادت کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا ہے۔ کسی نہ کسی صورت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ’اوقاف‘ کو سلب کرنے کی موجودہ قانون سازی نے بدترین برہمنی درندگی کا دروازہ کھول دیا ہے، جس کے متاثرین مسلمان، مسیحی، سکھ، جین اور بدھ مت کے پیروکار ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے:
جماعت اسلامی میں اور دوسری پارٹیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ جماعت اسلامی کا حکومت سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف بھی ہوتا ہے ، حکومت سے مطالبہ اور احتجاج بھی ہوتا ہے اور آئینی بالادستی کی جدوجہد بھی ہوتی ہے، مگر اس بنیاد پر ملک کی مخالفت کے خیال کی رمق پیدا نہیں ہوسکتی۔ مولانا مودودیؒ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۵۳ء میں گرفتار ہوئے، اور ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مرکزی مجلس شوریٰ سمیت ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ آمروں کے مقابلے میں کھڑے رہے، ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کیا، لیکن جب ملک کی سالمیت کا معاملہ پیش آیا تو جماعت اسلامی نے حکومت سے تعاون کیا۔اگر اتفاق اور اختلاف اصولی بنیادوں پر ہو اور اصولی بنیادوں پر سیاست کی جائے تو روایات و اقدار فروغ پاتی ہیں اور ملک مستحکم ہوتا ہے۔ اگرشخصی بنیاد پر اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اتفاق یا اختلاف کیا جائے تو یہ خطرناک رجحان ہے۔ اس کے نتیجے میں قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔
پاکستان پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے مثبت نتائج سے نہ صرف ملکی وقار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستان کا عالمی کردار بھی اُجاگر ہوا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو دوبارہ زندہ کریں اور ہرسطح پر، ہر میدان میں پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کریں۔
تاریخ کے آئینے میں ہر دور کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اور یہ بھی امرواقعہ ہے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ افسوس کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں متکبر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں، جن کے سبب ان سے پہلے حکمران عبرت کا نشان بنے تھے۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں بے چینی کا لاوا پک رہا تھا، تو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اعلان کیا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں، دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر مسترد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم ؒکے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ۱۹۷۳ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کر کے فوجی حل کا تباہ کن راستہ اختیار کیا، اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے مخلصانہ نفاذ سے جو برکتیں ملک و قوم کو حاصل ہوسکتی تھیں ان سے محروم کردیا۔ یہ آگ پیپلزپارٹی کے بعد وجود میں آنے والی ایک فوجی حکومت کے دور میں سرد پڑی اور تصادم کی وہ شکل ختم ہوئی جو قومی وجود کو تباہی کی طرف لے جارہی تھی۔
یہ افسوس کا مقام ہے کہ ۱۹۸۸ء کے بعد آنے والے نئے جمہوری اَدوار میں بھی نہ مرکزی قیادت نے اور نہ صوبے کی قیادت نے بلوچستان کے مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کی کوئی منظم اور مؤثر کوشش کی، اور زیرزمین آگ پھر سُلگنے لگی، جسے جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور نے ایک بار پھر بھڑکا کر دہکتا ہوا الائو بنادیا اور ۲۰۰۱ء کے بعد طاقت کی زبان استعمال کرنا شروع کی،جس کی شدت میں بہت اضافہ ہواہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور مسخ شدہ لاشیں سامنے آرہی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، ان کو جس بے دردی اور رعونت کے ساتھ راستے سے ہٹایا گیا اور جس طرح انھیں سپردِ خاک کیا گیا، اس نے غم و غصے کا وہ سیلاب برپا کیا ہے، جس نے صوبے ہی نہیں ملک کے دروبست کو ہلا دیا ہے۔
سیاسی قیادت حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی تھی۔ پارلیمنٹ موجود رہی مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا حل نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ماضی میں جائیں تو ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں، مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میںڈال دیا گیا اور اسے پرکاہ کی حیثیت نہ دی گئی___ مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال، اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہائے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔
بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل، گیس، کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون، آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں، جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں، جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ ۲۰۲۳ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی پاکستان کی کُل آبادی کا ۶ء۲ فی صد (ایک کروڑ ۴۸ لاکھ ۹۴ ہزار ۴سو) تھی۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے میں راسخ ہیں۔
معاشی ڈھانچا نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے، صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دیہی علاقے میں غربت، پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتیں مسلسل دعویٰ کرتی آرہی ہیں کہ بلوچستان کے لیے کئی بڑے منصوبے (Mega Projects) اور تین ہزار سے زیادہ دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرِتکمیل ہیں۔ اس مقصد کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نہریں، سڑکیں اور ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ گیس اور مواصلات کا نظام متاثر ہونے سے روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے اور اس میں انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کسی قیمت پر تلافی نہیں ہوسکتی۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی اور شرارت ہے، جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں کہ وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے؟ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک، ہر جگہ امریکا، انڈیا اور بعض عرب ملکوں کو چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ان سب تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ ۲۰۰۴ء کی بات ہے کہ مجھے بطور پارلیمنٹیرین، بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند مرکزی مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے، اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور بہت سے ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں، وہیں میرا یہ احساس اور بھی پختہ ہوگیا ہے کہ کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں واقعی کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان اپنے مختصر دورِ وزارتِ عظمیٰ میں چودھری شجاعت حسین نے کیا تھا۔ یہ اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتوں کے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمائندے شامل تھے۔
اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک کمیٹی سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں، جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا، اور دوسری کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سیّد کی سربراہی میں، جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی آگے بڑھائی اور پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر، ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ سفارشات پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر پیش کرنے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں، ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس کے بعد سنگین واقعات رُونما ہوئے اور حالات مزید بگڑتے چلے گئے۔
ہماری نگاہ میں مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے چند بنیادوں کا تعین اور چند حقائق کا فہم ضروری ہے:
۱- مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔
۲- مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق رائے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔
۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’مضبوط مرکز‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’مضبوط مرکز‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مکمل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ مرکز اور صوبوں میں تضاد و اختلاف کی جگہ مفاہمت اور ہم آہنگی کا رشتہ ہونا چاہیے۔ قومی دستور کا بھی یہی تقاضا ہے، جسے پورا نہیں کیا گیا۔
۴- چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے، اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابری اور خوش حالی کے مقام پر آجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول اور کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔
۵- اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد، علاقے، صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض کسی خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت، اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ حاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔
۶- اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات میں فوج کی مداخلت اور اس کا ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے، اس سے خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔
ان اصولوں کی روشنی میں یہ چند تجاویز پیش نظر رہنی چاہئیں:
بلوچستان ہی نہیں، تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل افہام و تفہیم سے حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے، جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ فوجی اور سول مقتدرہ کی گرفت کو مفادات کی سطح سے بلند ہوکر ختم کیا جائے، اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔
صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح ہم یہ انتباہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں ظلم و زیادتی کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے۔ نسل پرستی کا پرچم اُٹھانے والوں نے جس طرح ملک عزیز کے دوسرے حصوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر زندگی تنگ کی ہے اور شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر ان کو قتل کیا ہے۔ ان کا یہ فعل اخلاقی، تہذیبی اور انسانی حوالوں سے ایک قبیح اور شرمناک حرکت ہے، اور اس ضمن میں جعفرایکسپریس کا واقعہ اندوہ ناک ہے۔
بالکل اسی طرح ریاست کے ذمہ دار مسلح اداروں کی جانب سے بلاجواز کسی سول آبادی کو نشانہ بنانا بھی قانونی اور اخلاقی درجے میں بدترین فعل ہے، جس کی قیمت پورے ملک کو ادا کرنے کے لیے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ پورے پاکستان کا دامن بلوچ ہم وطنوں کے لیے کھلی بانہوں کے ساتھ کشادہ رو ہے، مگر گذشتہ برسوں کے دوران علاقائی و نسلی بنیاد پر قتل کرنے کا یہ کلچر بدترین فسطائیت بن گیا ہے اور جو اس انڈین ڈیزائن کا حصہ ہے، جس کے تحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں غیربنگالی سول آبادی کا قتل عام کیا گیا تھا اور پھر ۱۹۸۵ء کے بعد کراچی و حیدرآباد میں مخصوص نسل پرستی کی آگ بھڑکائی گئی تھی۔
بلوچستان کی سیاسی و معاشی ناہمواری اپنی جگہ بڑی تلخ حقیقت ہے ، جس کی ذمہ داری ایک طرف مرکزی و صوبائی حکومت پر آتی ہے تو دوسری جانب خود بلوچستان کے مقتدرطبقوں اور نوابوں کی ایک نسل کو اس ظلم سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر اس میں اہم بات یہ ہے کہ مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کے ساتھ نفرت کی آگ بھڑکانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ جھوٹ کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی۔
مشرقی پاکستان میں جھوٹے اعداد و شمار کی آگ بھڑکا کر نہ صرف ملک توڑا گیا، بلکہ انڈیا کی غلامی کا طوق بھی پہن لیا گیا جس سے نکلنے کی آج تک کوششیں جاری ہیں۔ آج خود بنگلہ دیش میں تسلیم کیا جارہا ہے کہ ’’اگر تلہ سازش کیس سچا تھا اور مغربی پاکستان کے خلاف معاشی ہمواری کا پروپیگنڈا جھوٹا تھا‘‘۔ ہم سوشل میڈیا پر متحرک دشمن ملک اور دشمن کے ہاتھوں آلہ کار بننے والوں کے صریح جھوٹ پھیلانے کے عمل کو ایک گھنائونا کھیل تصور کرتے ہیں۔ افسوس کہ لوگ نادانی میں ایسی جھوٹی اور مبالغہ آمیز پوسٹیں آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر نسلِ نو کو احتیاط برتنی چاہیے کہ آخرکار اس کا نقصان اسی درخت کو پہنچے گا، جس پر ان کا آشیانہ ہے۔
۸فروری ۲۰۱۲ء کو امریکی کانگریس کیSurveillance and Oversight کمیٹی نے بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ ایک نشست منعقد کی ہے، اور ۱۷فروری ۲۰۱۲ء کو اس کمیٹی کی سربراہ ڈینا روہربافر نے کانگریس میں ایک مسودۂ قانون اپنے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ جمع کرا دیا جس میں بلوچستان کے پاکستان سے الگ ملک بنائے جانے اور علیحدگی پسند بلوچوں کی جدوجہد کی تائید اور سرپرستی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ شرانگیز اقدام امریکی سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ امریکا ایک طرف تو پاکستان سے تعاون کے مطالبے کرتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور استحکام پر بے دریغ حملے کرتا ہے۔ اس کی زمین اور فضائی حدود کو پامال کرتا ہے اور ملک میں تخریب کاری کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے، بلکہ سی آئی اے کے امریکی کارندوں اور پاکستان سے بھرتی کیے گئے کرائے کے گماشتوں (Mercenaries)کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بھارت بہت پہلے سے اس قسم کی مذموم حرکتوں کی پشتی بانی کرتا رہا ہے اور اب امریکی بھارتی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کا یہ مشترک ہدف ہے۔
امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف تین B کی حکمت عملی پر گامزن ہے: Bribe (رشوت)، Blackmail (کمزوری سے فائدہ اُٹھانا) اور Bullet (گولی) کا استعمال ۔ وقتاً فوقتاً امریکی تھنک ٹینکوں کی رپورٹوں اور امریکی کانگریس کی کارروائیوں کی شکل میں معاملہ زیادہ ہی گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت اب بھی امریکا کے اصل کھیل کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کے لیے جان دار حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے۔ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی اور عزّت اور آزادی کا راستہ باقی نہیں رہا ہے کہ ایسی قیادت سے نجات پائے اور ایسی قیادت کو برسرِاقتدار لائے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت، استحکام اور مفادات کی بھرپور انداز میں حفاظت کرسکے۔
بلوچستان کے مسئلے کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں ہی بے حد اہم اور فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں:
امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ نیا نہیں۔ اس کا ہدف پاکستان کی آزادی، اس کا نظریاتی تشخص اور اس کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا ہے اور اب ایک عرصے سے اس ہمہ گیر حکمت عملی کے ایک پہلو کی حیثیت سے بلوچستان کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہنری کسنجر سے لے کر حالیہ قیادت تک سب کے سامنے ایک مرکزی ہدف مقامی چہروں کے ذریعے اُمت مسلمہ کی تقسیم در تقسیم اور اس کے وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ ہے۔ اس پالیسی کا پہلا ہدف مقامی قومیتوں کے ہتھیار کے ذریعے دولت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنا تھا۔ پھر افریقہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ کر غیرمؤثر کردیا گیا۔ ’بالفور ڈیکلریشن‘ کے سہارے عالمِ عرب بلکہ عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنا بھی کچھ دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں دولخت کرنا، سوڈان اور انڈونیشیا کے اعضا کو کاٹ کر اپنی باج گزار ریاستیں وجود میں لانا، عراق اور افغانستان میں زبان، نسل اور مسلک کی بنیاد پر ان ممالک کی سرحدوں کو بدلنے کی کوشش کرنا، کرد قومیت کو عراق، شام اور ترکیہ کے علاقوں میں ہوا دینا ۔ پھر عراق، ایران، شام، لیبیا ، یمن اور ترکیہ میں دہشت گردی اور خون خرابے کی آگ بھڑکانا، یہ سب اسی حکمت عملی کے مختلف پہلو ہیں۔
پاکستان کی مغربی سرحد پہ خونیں کارروائیاں ہوں، یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں برہمنی سامراجیت کی یلغار، یہ وارداتیں بھی اسی صہیونی اور صلیبی جنگ کے شاخسانے ہیں۔ ذرا پیچھے جائیں تو یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے رالف پیٹرز نے Armed Forces Journal US میں Blood Borders (خونیں سرحدیں) کے عنوان سے ایک شرانگیزمضمون لکھا تھا، جس میں پاکستان کی تقسیم اور تبدیل کی جانے والی سرحدوں کا نقشہ چھاپا تھا۔ اس میں آزاد بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے دکھایا گیا تھا۔ بھارت اور امریکا دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں تخریب کاری کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ نیز امریکا اور انڈیا دونوں کی نگاہ میں پاکستان اور چین کا قریبی تعلق اور خصوصیت سے بلوچستان میں ’سی پیک‘ کا راستہ روکنے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی میں تعاون کو مؤخر و ملتوی اور معاملے کو خراب کرنا ہے۔
امریکا کے ان جارحانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا دفاعِ پاکستان کا اہم ترین پہلو ہے۔ اس کے لیے ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے فیصلہ کن جدوجہد کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو بیدار اور متحرک کرنا ازبس ضروری ہے۔
مسئلے کا دوسرا پہلو بلوچستان کے حالات اور ان کی اصلاح ہے۔ بیرونی ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے مگر اسے یہ کھیل کھیلنے کا موقع ہماری اپنی سنگین غلطیاں اور حالات کو بروقت قابو میں نہ لانے بلکہ مزید بگاڑنے والی پالیسیاں ہیں۔
ہمیں بڑے دُکھ سے یہ حقیقت بیان کرنا پڑ رہی ہے کہ بلوچستان اپنی تمام اسٹرے ٹیجک اہمیت اور معدنی اور مادی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کا پس ماندہ ترین صوبہ ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔
جب تک یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا کسی بھی عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام طبقات کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔
مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتا ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے معاملات کو سنبھالنا ہے۔بیرونی قوتوں کا کھیل بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے، جب ہم اپنے معاملات کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور اس کی تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ایک فرد کی وہی زندگی بابرکت ہے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا رہے کہ اس نے گزرے ہوئے اوقات اور شب و روز کیسے گزارے؟کیا غلطی اور کوتاہی ہوئی؟ کیا جرم ہوا اور گناہ سرزد ہوا؟ کسی کی حق تلفی تو نہیں کی گئی؟ پھر انفرادی زندگی سے بلند ہوکر اجتماعی زندگی میں معاشروں اور اجتماعیتوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی اجتماعیت کو متوازن اور خوب صورت بنانے، مثالی اور شان دار بنانے میں کسی کوتاہی کا شکار تو نہیں ہوئے؟
ایک فرد کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنی ذاتی، علمی اور تہذیبی ومعاشرتی شخصیت کی ترقی کا ایک جائزہ لے کر دیکھے کہ ایک سال قبل قرآن کریم کے فہم میں کہاں کھڑا تھا اور اس پہلو سے آج کہاں کھڑا ہے ؟ اور اس کی تعلیمات کے نفاذ کے مراحل میں کہاں کھڑا ہے ؟ اور اس دوران میں کتنے فی صد ترقی ہوئی یا وہ جہاں تھا وہیں کھڑا ہے؟ دوسرا اہم سوال اس کی فوری اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کی ادائیگی کا ہے۔
ہر فرد اس بات کا جائزہ لے کہ اس نے جس خاندان کی سربراہی یا خاندان میں ایک فرد کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا رکھی ہے، یعنی وہ کسی کا بیٹا یا بیٹی یا کسی کا شوہر یا بیوی ہے، کسی کا بھائی یا بہن ہے، کسی کا برادر نسبتی ہے ،چچا زاد اور خالہ زاد اور پھوپھی زاد بھائی یا بہن ہے، غرض خاندان میں اس کا جو رشتہ ہے، اس رشتے کا کیا حق ادا کیا گیا؟اس نے ایک مرتبہ بھی یہ سوچا کہ اس کا کوئی چچا،ماموں ،تایا یا اس کا چچازاد بھائی ہے، اس کا اپنا حقیقی چھوٹا یا بڑا بھائی یا بہن،جس سے اس نے تین ماہ میں بھی ایک مرتبہ نہ ملاقات کی نہ اس کا حال پوچھا۔ حتیٰ کہ اپنے پاس رابطے کے مواقع کے باوجود کبھی رابطہ تک نہیں کیا۔کیا آیندہ بھی یہی صورتِ حال رہے گی یا اس کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی؟ رشتوں کا قائم رکھناایمان کا حصہ ہے اور قطع رحمی سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔
کیا گزرے ہوئے عرصے کے دوران ایک کارکن نے اپنی تحریکی ذمہ داریوں کو جیسا کہ ان کا حق تھا ،ادا کیا؟ یا محض قانونی پابندی کی حد تک تو اجتماعات میں شرکت کی ،لیکن نہ وقت کی پابندی کی ،نہ ذہن کو حاضر رکھ کر کچھ سنا ، نہ اس پر تنقیدی نگاہ ڈال کر اپنی رائے کا اظہار کیا؟ خود آگے بڑھ کر کون سے دعوتی کام کیے ؟یا ہدایات کے مطابق صرف کسی اجتماعی سرگرمی میں شرکت کرنے کو سب کچھ سمجھ لیا؟غائب دماغی کے ساتھ درس میں شرکت کر لی یا جو درس سنا اس کے کوئی عملی اثرات زندگی کے معاملات میں نظر آئے؟ یا سنی اَن سنی کر کے محض سماجی دبائو کے تحت حاضری دے دی؟
اسی طرح ایک کارکن کی حیثیت سے یا ایک ذمہ دار کی حیثیت سے تحریکی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی تنظیمی صلاحیت، مالی ایثار و قربانی ،وقت کی فراہمی، اپنے اہل خانہ اور اہل خاندان، پڑوسی اور مسجد میں آنے والے نمازیوں تک تحریکی دعوت اپنے عملی رویے یا زبانی طور پر پہنچائی؟ کیا اپنی تحریکی فکر کو بہتر بنانے کے لیے تحریک کے بنیادی لٹریچر میں سےکم از کم چھ کتب کا مطالعہ کیا یا سال بھر بغیر کسی فکری تجدید کے اپنے سابقہ مطالعے کے دھندلے نقوش ہی کو کافی جانا؟ اس عرصے میں اپنی قریبی مسجد میں کتنی نمازیں باجماعت اس طرح ادا کیں کہ اقامت سے پہلے مسجد میں موجود ہو اور نماز کے بعد نمازیوں سے سلام اور مصافحہ کیا ہو؟ کیا یہ کوشش بھی کی کہ قریبی مسجد میں امام کے اعتماد کے ساتھ نماز کے بعد درسِ قرآن یا درسِ حدیث یا کوئی بھلی بات لوگوں تک پہنچائی ہو؟
اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کسی موقعے پر جب کوئی ذمہ داری سامنے آئی تو کیا اس کی خواہش دل میں پیدا ہوئی اور اسے قبول کرنے میں خوشی محسوس کی؟ حدیث کے واضح الفاظ ہیں کہ جس نے کسی عہدےکی طلب کی تو ہم اسے وہ عہدہ نہیں دیں گے ۔جب مجبور کیے جانے پر کسی ذمہ داری کو قبول کیا تو پھر کیا اس کا حق اپنا وقت، مال، صلاحیت لگا کر ادا کیا ؟اس دوران کتنے مواقع پر تحریکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی اور اپنے مالی اور سیاسی معاملات میں حق اور عدل کا مظاہرہ کیا؟ کیا ظلم کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی اور اختلافات سے قطع نظر حق گوئی کا موقف اختیار کیا؟ معاشرتی فلاح ،عدل کے کن کاموں میں پہل کی اور غیر تحریکی افراد کو ساتھ ملا کر حصولِ مقصد کی جدوجہد کی؟ معاشرے کی بے اعتدالیوں کے خلاف کیا اقدامات کیے؟ مسلمان اور غیر مسلم مستحقین کی فلاح کے لیے کن کاموں میں حصہ لیا؟ خود اپنے گھر میں ملازمین کے ساتھ یا کاروبار میں ملازمین کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا؟ اپنے معیار زندگی کو کم کر کے یا بڑھانے میں کتنا وقت اور مال صرف کیا ؟اپنےا عزا اوردوستوں کو کتنی مرتبہ مدعو کیا یا ان سے جا کر ملاقات کی؟
یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ ہر آگے بڑھنے والا قدم زیادہ بھلائی کا ہونا چاہیے اور جب تک ماضی کے اقدامات کا تنقیدی جائزہ نہ لیا گیا ہو ،آگے قدم بڑھانے سے کوئی مفید نتائج نہیں نکل سکتے۔
ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے سال کے آغاز کا اوّلین اہم پہلو بظاہر موروثی تصورِ تاریخ کی جگہ اخلاقی تصورِ تاریخ کی ترویج ہے ۔اقوام عالم عموماً اپنے سال کے آغاز کو اپنی کسی اہم شخصیت سے وابستہ کرنا مناسب خیال کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مناسبت سے عیسوی سال کو نہ صرف عیسائیت کے ماننے والوں نے بلکہ جہاں کہیں بھی یورپی سامراج کے قدم پہنچے، ان اقوام کو ان کی تاریخ سے کاٹ کر عیسوی سال ان پر مسلط کر دیا گیا۔ عالمی تجارتی منڈی ہو یا بین الاقوامی ادارے، سب جگہ عیسوی سال کو رواج دیا گیا۔
اسلام کے تصورِ تاریخ اور اسلامی نظم مملکت ، اسلامی معاشرہ ،اسلامی معیشت و اخلاق اور اسلامی قانون کی انفرادیت کے پیشِ نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کو سنگ میل قرار دے کر تاریخ کے نظریاتی اور اخلاقی تصور کو متعارف کرایا گیا۔ اسی طرح نظامِ عدل کے قیام کو تاریخ کا سنگ میل قرار دے کر اس اہم انقلابی تاریخ ساز موقع سے تاریخ کو شمار کرنے اور تمام جاہلی دور کو جس کی بنیاد نسل پرستی ، مادہ پرستی ، شرک پرستی پر تھی، ایک طرف رکھتے ہوئے تاریخ انسانی کے نئے انقلابی دور سے سنہ ہجری کا آغاز کیا گیا۔
اگر غور کیا جائے تو ہجرت بطور ایک دعوتِ عمل اپنا اہم مقام رکھتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی ہجرت اس بات کی علامت تھی کہ تیرہ سال تک شب و روز کی مسلسل جدوجہد اور ہر قسم کی تکلیف، تعذیب اور تضحیک کے باوجود مسلسل دعوتی عمل میں مصروف رہنے کے بعد جب مالکِ کائنات خود یہ حکم دے کہ اب اس محاذ کی جگہ دوسرے محاذ پر اپنی قوت صرف کرو تو بغیر کسی تاخیر کے اللہ کے حکم کی پیروی کی جائے ۔ اللہ کے حکم کے آنے کے بعد اپنی جائے پیدائش، جوانی گزارنے کی جگہ، خاندانی وابستگیوں، دعوتی یادوں سب کو خیرباد کہہ کر صرف اللہ کی رضا اور اجازت سے اپنے گھر کو چھوڑ کر ایک نئی جگہ کو دعوت کا مرکز بنا کر کام کو جاری رکھا جائے۔
یہ محض مکہ کو چھوڑنا نہیں تھا بلکہ مکہ میں دی جانے والی دعوتِ توحید کے دائرے کو وسیع کرنا تھا۔یہ ابتلاوآزمائش سے بچنا نہیں تھا بلکہ اس سے زیادہ کٹھن ایک نئی روایتِ عدل، معاشرتی فلاح، سیاسی حاکمیت اور اخلاقی اور قانونی فضا کا قیام تھا۔ یثرب جو صدیوں سے یہودی روایات کا احترام کرتا آیا تھا اسے مدینۃ الاسلام میں تبدیل کرنے کا تاریخ ساز کام تھا۔یہ کام اس مسلسل جہاد سے کم نہ تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ مکہ میں تیرہ سال تک مصروف رہے تھے۔ یہ توحید کی دعوت اور اخلاقی طرزِ حیات کو عملی شکل میں قائم کرنے کا عظیم کارنامہ تھا۔ نظامِ شرک کی جگہ نظامِ توحید کا نفاذ اس بات کا متقاضی تھا کہ اس واقعے کو تاریخ کا آغاز قرار دیا جائے۔
بعد میں آنے والے ادوار اور اشخاص کے لیے اس عظیم ہجرت الی الحق اورا سلام پر عمل کرنے کا آسان طریقہ حدیث نبوی کی شکل میں سمجھا دیا گیا کہ اگر ایک شخص ہجرت جسمانی ہو یا ذہنی، اس غرض سے کرتا ہے کہ وہ نئے مقام پر زیادہ مالی فائدہ حاصل کر سکتا ہے، یا اپنے ذاتی اختیارات میں اضافہ کر سکتا ہے، تو یہ ہجرت صرف انھی مقاصد کے لیے ہے۔ لیکن اگر وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے، اللہ کے دین پر عمل اور اسے قائم کرنے کے لیے ہجرت کرتا ہے، تو یہ ہجرت اقامت دین کے لیے ہے ۔حدیث صحیح کے اس مفہوم کی روشنی میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پیش نظر ہجرت کا ہدف اور مقصد کیا ہے؟
کیا ہجرت اپنی ذات کی ترقی، کسی برتر عہدہ کے حصول یا مالی فائدہ کے لیے ہے، یا ہماری منصوبہ بندی میں اولین اہمیت دعوت الی القرآن ،دعوت الی السنہ، دعوت الی الحق، دعوت الی الخیر کی ہے؟ کیا ذاتی جائزہ کے بعد ماضی کے مقابلے میں دینی فہم میں مزید اضافہ ہوا؟ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوئی نئی اور مؤثر حکمت عملی تیار کی ؟ کیا اپنے نفس کے بہکاووں پر قابو پانے اور نفس مطمئنہ کے حصول کے لیے کوئی تربیتی نظام بنایا ہے؟ کیا تحریکی مقصد یعنی اقامت ِدین کی جدوجہد کے لیے کوئی سوچا سمجھا عملی منصوبہ تیار کیا ہے؟ کیا دیگر تحریکات کے تجربات کی روشنی میں کوئی نئی حکمت عملی تیار کی ہے یا ماضی کے آزمائے ہوئے طریقوں کو کافی سمجھ لیا ہے؟ کیا قیادت اور کارکن دونوں کی تربیت اور تحریکی فکر میں اضافے کا کوئی منصوبہ بنایا ؟
اگر اس شعور اور فکر کے ساتھ ان منصوبوں کے مطابق وسائل اور جدید وسائل کا استعمال کرنا پیش نظر ہے تو یہ خوش آئند ہے۔ تجدید عہد کرتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ انسان کی نیت اور نیت کی تصدیق کرنے والے عمل کو پسند فرماتا ہے۔ اس کی رحمت، اس کا کرم، اس کی مغفرت کسی پیمانے سے نہیں ناپی جا سکتی۔ وہ لامحدود ہے اور اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ اپنے بندوں کے ہرنیک عمل پر انھیں بڑھ چڑھ کر اجر دے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے جائزہ، تجزیہ اور ارادہ کو مستحکم اور اللہ کے توکل کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس منصوبۂ عمل پر لگا دیا جائے ۔اللہ کی نصرت اور تائید ان تمام ارادوں کو کامیاب کرتی ہے جو خلوصِ نیت اور بے غرض ہو کر کیے جائیں۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’موجودہ زمانہ دُنیا کا ترقی یافتہ ترین اور حددرجہ مہذب عہد ہے‘، مگر یہ کیا کہ پندرہ ماہ تک آسمان سے آگ اور بارود برستا رہا، انسانی جسموں کے چیتھڑے اُڑتے رہے، مریضوں کی دوا اور شہریوں کے لیے خوراک، پانی اور چھت تک ناپید ہوگئے۔ بڑی اور کھلی جیل کے لاکھوں انسانوں پر موت، دن رات جھپٹتی رہی۔ دُنیا بھر کے انسان چیخ اُٹھے کہ ظلم بند کرو، مگر امریکی اور مغربی قیادتوں کی پشت پناہی درندہ صہیونیت کا راستہ روکنے کے بجائے وحشت کی سرپرستی کرتی رہی۔ فلسطین کا مسئلہ پاکستان کے لیے محض ایک بین الاقوامی معاملہ نہیں بلکہ دینی، اصولی اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ جس طرح کشمیر، پاکستان کی ریاستی پالیسی کا ایک غیر متزلزل حصہ ہے اور اس پہ تاریخی طور پر مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور انڈیا نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کے حوالے سے بھی پاکستان کی ریاستی اور عوامی پالیسی بالکل واضح ہے۔
فلسطین، فلسطینیوں اور عربوں کی سرزمین ہے اور اسرائیل کا اس پر قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ یہ مسئلہ تقریباً ۱۲۵ برسوں پر محیط ہے۔ فلسطینی عوام نہایت بہادری اور استقامت کے ساتھ قربانیاں دے رہے ہیں۔ انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، اور پوری دنیا سے صہیونیوں کو لا کر وہاں آباد کیا جا رہا ہے، جو بہت بڑا ظلم اور انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔
یہ معاملہ ۱۸۸۰ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا جب یورپ کے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۸۹۷ء میں’صہیونی تحریک‘ کے آغاز کے بعد اس عمل میں تیزی آگئی، اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے محروم کر کے ان پر ظلم وجبر کیا جا رہا ہے۔یہ ظلم اور ناانصافی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔ ہمارا فرض ہے کہ مسلمان،پاکستانی اور انصاف پسند انسان کی حیثیت سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ہر ممکن اقدام کریں اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔
۱۹۱۷ء کا ’اعلانِ بالفور‘ انسانی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کے تحت یہودیوں اور صہیونیوں کو طاقت، دھونس اور جبر کے زور پر یہاں لا کے بسانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر اس شیطانی منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔ ازاں بعد ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، اور جب فلسطینیوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا، تو انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
آج کچھ لوگ تمام حقائق کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’اس معاملے میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ حماس کے اقدامات پریشانی کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ یہ بات ہر خاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا واقعہ کسی علیحدہ اور غیر متعلقہ عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ فلسطین کے اس المیے کی تاریخ۷؍ اکتوبر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب فلسطینی سرزمین پر باہر سے لا کر لوگوں کو بسایا گیا اور پھر ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، ہزاروں کو شہید کیا گیا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا، اور اسرائیل نے اسی وقت سے نسل کشی اور دہشت گردی کا آغاز کر دیا تھا۔
تب سے لے کر آج تک فلسطینی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جہاں سے ان کی رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران ایسے قیدی رہا کیے گئے، جو۱۶،۲۰ یا ۲۵ سال بعد جیل سے باہر آئے۔ اگر حماس نے ۷؍ اکتوبر کا اقدام نہ کیا ہوتا، تو کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچتی؟ جب لاکھوں افراد کو جیل میں ڈال دیا جائے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ بنا دیا جائے، ان کے تعلیمی اور معاشی مواقع برباد کر دیے جائیں، ہر وقت ان پر نگرانی رکھی جائے، اور انھیں کسی قسم کی بھی طبّی امداد نہ پہنچنے دی جائے، تو ایسے حالات میں ہر غیرت مند، باضمیر اور ایمان رکھنے والا شخص مزاحمت کرے گا۔ یہی وہ حق ہے جو حماس نے استعمال کیا ہے۔
حماس کے اقدامات نہ صرف دینی اور شرعی لحاظ سے درست ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی بالکل جائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اگر کسی علاقے پر قابض قوت موجود ہو، تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ فلسطین پر نہ صرف غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے بلکہ قابض فوج مسلسل فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔
امریکا، جو خود کو عالمی انصاف اور جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، وہ ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومتیں چاہتا ہے۔ اسے وہ جمہوریت پسند نہیں آتی جس میں حماس الیکشن جیت جائے، اسے وہ جمہوریت پسند نہیں جہاں اخوان المسلمون کامیاب ہو، یا الجزائر میں اسلامی فرنٹ اکثریت حاصل کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا صرف ان آمریتوں اور حکومتوں کی حمایت کرتا ہے، جو اس کے مفادات کے مطابق ہوں۔جمہوریت کا جنازہ تو ہر اس موقعے پر نکل جاتا ہے جب اقوامِ متحدہ میں پوری دنیا کسی موقف پر کھڑی ہوتی ہے، اور امریکا اسے ویٹو کر کے اسرائیلی ظلم کی حمایت کرتا ہے۔
ہمیں امریکا سے جمہوریت اور انسانیت اور تہذیب کا سبق لینے کی ضرورت نہیں، اور نہ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو دہشت گرد قرار دے۔خود امریکا کی تاریخ ظلم اور جبر سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد لاکھوں مقامی ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی گئی، افریقا سے غلام لا کر ان پر ظلم ڈھائے گئے، ویت نام پر حملے کیے گئے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا، اور پورے مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ دُنیا بھر کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا۔
یہی امریکا، جو دنیا میں اپنی چھپی اور کھلی مداخلتوں، تخریب کاریوں اور جنگوں کے ذریعے انتشار پھیلاتا ہے، آج فلسطین کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد کہتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر قوم کا حق ہے۔ درحقیقت، سب سے بڑا دہشت گرد امریکا خود ہے۔
حماس کی جدوجہد اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک عالمی سطح پر اس کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں آدھا سچ نہیں بولنا چاہیے، بلکہ مکمل اور سچی تصویر دنیا کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جب اسرائیل دہشت گردی کر رہا ہے، تو جو اس کے مقابلے میں کھڑا ہے، اس کی حمایت کیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ بعض لوگوں کو اس سچائی کا سامنا کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ انھیں مختلف حلقوں کو جواب دینا پڑے گا۔ لیکن ہمیں مضبوطی سے اور کھلے الفاظ میں دنیا کے ایک ایک فرد تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کو وہاں آباد کرنے کا پورا عمل ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔
قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے لے کر آج تک ہماری ایک ہی پالیسی رہی ہے۔ایک انصاف پسند فرد کی حیثیت سے فلسطین پہ کوئی دو ریاستی نظریہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین ایک ہی ریاست ہے، اور وہ آزاد فلسطین ریاست ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز وجود ہے، اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس کے ناجائز قبضے کو قبول کرنے کے لیے ریاستی وجود تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
اگر کوئی غاصب زبردستی آپ کے گھر پر قبضہ کر لے، تو اس کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ اس میں کبھی جنگ، کبھی جنگ بندی —ہوتی ہے، اور یہی حماس کر رہی ہے۔ یہ حق صرف انھی کو حاصل ہے کہ وہ جنگ بندی یا جنگ کا فیصلہ کریں، کیونکہ وہی لڑ رہے ہیں، باقی تو سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض عربوں یا عجمیوں کا نہیں، بلکہ یہ ہمارے عقیدے، ایمان، انسانیت اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسی طرح اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جیسے ایک باضمیر قوم یا فرد حق اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
جو کچھ اسرائیل نے ۷؍ اکتوبر کے بعد کیا، اگر حماس اس کارروائی کے لیے نہ اٹھتی تو کیا ہوتا؟ چند ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ نام نہاد ’ابراہیمی معاہدہ‘ مزید آگے بڑھ رہا تھا، اور یہاں پاکستان پر بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ کچھ دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں پھر وہی گھسے پٹے لیکچر دیے جائیں گے کہ ’جنگ سے کیا حاصل ہوگا؟تشدد مسائل کا حل نہیں ، 'مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں‘، وغیرہ۔
اگر ایسا ہے، تو کیا آپ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی پوری تاریخ کو مسترد کر دیں گے؟ کیا آپ امام حسینؓ کی شہادت پر بھی سوال اٹھائیں گے؟ کیا آپ غزوہ بدر پر بھی یہی کہیں گے کہ مسلمان تعداد میں کم تھے، ہتھیار بھی پورے نہیں تھے، وسائل بھی محدود تھے، تو کیوں میدان میں اُترے؟ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعا کی اور اللہ نے حق کو فتح دی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جذبات میں آ کر سر پھوڑ لیا جائے، لیکن قرآن کا یہ فرمان برحق ہے کہ جتنی استطاعت ہو، اتنی قوت جمع کرو اور حق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب ایسا کیا جائے تو جھوٹ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، آخرکار ملیامیٹ ہو کر رہتا ہے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جو کچھ ہوا، اسے الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں جیلوں میں قید ہیں، اور غزہ کے عوام بدترین محاصرے اور تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات پر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ قریبی دولت مند اور طاقت ور عرب ممالک بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اگر وہ اپنی زندگی کا وجود منوانے کے لیے یہ قدم نہ اٹھاتے تو کیا کرتے؟
دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے زیرِ سایہ، دنیا کی پانچویں یا چھٹی سب سے طاقت ور فوج کے قائم کردہ ’آئرن ڈوم‘ اور انٹیلی جنس کے فعال نیٹ ورک کو ۷؍اکتوبر کے روز شکست ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اسی دن ہار گیا تھا، جب اس کی فوجیں غزہ میں داخل ہوئیں، تو القسام بریگیڈ نے کھلی جیل کی سرحدوں پر ان کا استقبال کیا، اور اسرائیلی فوجی پسپا ہونے لگے جس کے نتیجے میں سٹپٹا کر اور بدحواسی و بدمستی میں اس نے نہتے شہریوں پر بمباری شروع کی،بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا، خیموں کو جلایا اور ہسپتالوں تک کو مریضوں ، ڈاکٹروں سمیت کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔
حالیہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی نشانے بازوں نے بچوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی مہذب دنیا کے اصول ہیں؟
ہمیں اس صورتِ حال میں واضح موقف اپنانا ہوگا: فلسطینیوں کی جدوجہد برحق ہے، اور جب تک اس مزاحمت کی حمایت نہیں کی جائے گی، انصاف کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔یہ کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ پورے ظلم کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، اور اس میں سب سے نمایاں کردار امریکا کا ہے، جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جو بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں، انھیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بڑے دہشت گرد کے حمایتی ہیں۔ ٹرمپ جس انداز میں گفتگو کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پراپرٹی ڈیلر بات کر رہا ہو —کہ فلسطینی نکل جائیں اور ہم یہ زمین خرید لیں۔ اس طرزِعمل اور طرزِ تکلم کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
پہلے اَدوار میں یہ عالمی غنڈا ریاستیں اور حکمران بی بی سی، سی این این، اسکائی نیوز، اور فاکس جیسے نیوزچینلوں پہ خبروں کو کنٹرول کر لیتے تھے اور سچائی کو دنیا کے سامنے آنے سے روکتے تھے۔ عوام کے پاس وسائل نہیں ہوتے تھے کہ وہ حقائق جان سکیں، مگر اب سوشل میڈیا نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی طاقت ور قوتیں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بڑے تلخ حقائق سامنے آرہے ہیں۔
ہم یہاں ’الجزیرہ نیٹ ورک‘ کی بے پناہ بہادری کو سراہتے ہیں، جس کے نامہ نگاروں نے جان کی بازی لگا کر دنیا کے سامنے حقائق پیش کیے۔ میں وائل الدحدوح کو کبھی نہیں بھلا سکتا، جس سے ہماری قطر میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کی بیوی شہید ہو گئی، اس کی بیٹی اور اس کے پانچ بھتیجے شہید ہو گئے، اس کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے، مگر وہ جنازے دفنانے کے بعد پھر ہیلمٹ پہن کر رپورٹنگ کرنے چلا جاتا تھا۔
یہی صحافتی غیرجانب داری ہے، یہی جرأت ہے، اور یہی حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کی اصل قیمت ہے۔ آج درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں، مگر افسوس کہ عالمی سطح پر اس پہ وہ مذمتی فضا نہیں بن سکی، جو بننی چاہیے تھی۔
حماس نے جانبازی سے جو قدم اٹھایا اور مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پہلے یہ مسئلہ پس منظر میں چلا گیا تھا، مگر آج یہ دنیا کا سب سے اہم موضوع بن چکا ہے۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنھوں نے ایشو کو نمایاں کیا ہے، اور ایسی قربانیاں اور جرأتیں ہی تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں۔ بظاہر کچھ لوگوں کو ناکامی نظر آتی ہے، مگر درحقیقت، یہی کامیابی کی بنیاد رکھتی ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، امریکا میں ۲۰ فی صد لوگ براہِ راست حماس کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ وہ برکت ہے جو مزاحمت (resistance) کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جب ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جاتا ہے تو اس کے حامی خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے، نیویارک میں، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے باہر جو بڑے احتجاج کیے، اس میں ہررنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ وہ مزاحمت ہے جس نے دنیا کے ہر باشعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ پیغام دبایا نہیں جا سکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط قوت بن کر اُن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوں جو ایک نئی نسل کشی (genocide) کو جنم دینا چاہتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں جو بیانات دیے ہیں، ان کی شدید مذمت ہونی چاہیے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ وہ کھلے عام ایک نئی وحشت و درندگی کو دعوت دے رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
ہم پاکستان کے حکمرانوں کو بھی واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چاہے امریکا کا دباؤ ہو یا کسی عرب ملک کا، ہم کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب کوئی نہ دیکھے۔ ہمیں کوئی بھی اپنی نام نہاد دانش کا درس نہ دے، ہمیں حقائق معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، وہ تاریخ کو کتنا جانتے ہیں، انھیں فلسطین کے مسئلے کا کتنا ادراک ہے۔ وہ تو کشمیر کے مسئلے سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اتفاقِ رائے برقرار رہنا چاہیے، اور پاکستان کو وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو مسلم دنیا کی قیادت کے لائق ہو۔ ساتھ ہی، غیر مسلم ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، اسپین، آئرلینڈ —جو فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں، —ان سے روابط قائم کیے جائیں۔ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ ملایا جائے، سفارتی سطح پر کام ہو، بین الاقوامی فورمز کو متحرک کیا جائے، اور انھیں مکمل تائیدوحمایت فراہم کی جائے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں معیشت ترقی کر سکتی ہے، معاہدے ہو سکتے ہیں، یا ابراہام اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات بہتر کیے جا سکتے ہیں، تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا! جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، خطے میں استحکام ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ عرب ہوں یا عجم، سب کو اس معاملے پر مضبوط مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس صورتِ حال کو سراہتے ہیں کہ جو کہ حالیہ دنوں میں عرب ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے خلاف آواز بلند کی، لیکن محض بیانات کافی نہیں، عمل بھی دکھانا ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب، پاکستان، انڈونیشیا اور ملایشیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ ایک ملک کو دوسرے کے لیے اور دوسرے کو تیسرے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمیں ان ممالک کی قیادتوں کو قائل کرنا ہوگا کہ یہ راستہ کامیابی کا راستہ نہیں، بلکہ تباہی کا راستہ ہے۔ اس وقت سب سے ضروری یہ بات ہے کہ پوری اسلامی تعاون تنظیم (OIC) متحد ہو، عرب ممالک کھڑے ہوں، اور اس سلسلے میں پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ترکیہ، ایران، روس، چین، جنوبی افریقہ، اور یورپی یونین کو ساتھ ملایا جائے تاکہ یہ مسئلہ سفارتی اور سیاسی طور پر درست طریقے سے حل کیا جا سکے۔
غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اور اس کی تعمیرِ نو کی اشد ضرورت ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگی نقصان (war reparations) اسرائیل اور امریکا ادا کریں۔ یہ امداد کے طور پر نہیں، بلکہ جنگی تاوان کے طور پر دیا جانا چاہیے!
فلسطین ہمارا ایمانی، انسانی، اسلامی اور اخلاقی معاملہ ہے، اور ہم کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہوں گے!
’پرانے یہودیوں‘ (اسرائیل) کے حصے میں تاریخ کی لعنت وملامت آئی، اور دوسری طرف ’نئے یہودیوں‘ (انڈیا) کے لیے تاریخ کا تازیانہ تیار ہے۔ آج ظالموں کے خلاف فلسطینی عوام کی فداکاریوں کے تذکرے عام ہیں آسمانوں میں، تو دوسرے ظالموں کے خلاف ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مظلوموں کا خون عالمی ضمیر کی عدالت میں سراپا سوال ہے۔ تقسیم ِہند کے نامکمل ایجنڈے کا یہ باب ۱۹۴۷ء سے آج ۲۰۲۵ء تک حل طلب ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان (۱۶دسمبر۱۹۷۱ء)سے پہلے بھی وہاں نوجوانوں کو ہم سمجھاتے رہے، جھنجھوڑتے اور پکارتے رہے کہ’ ’ہمدردی کے زہر میں لپٹی دشمن کی یہ سرپرستی درحقیقت غلامی کا شکنجہ ہے۔ یہاں گھر میں اپنے بھائیوں سے لڑ جھگڑ کر حقوق لیے جا سکتے ہیں، لیکن دشمن کی نام نہاد ہمدردی کے نام پر حاصل کردہ غلامی سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘ اور آج صورت حال یہ ہے کہ نفرت کا الائو بھڑکانے والے نام نہاد آزادی کے علم بردار مجیب اور ان کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں، اسی سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش کا بال بال غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے۔ حکومت تو تبدیل کر لی گئی ہے، لیکن معاشی، تہذیبی، سیاسی، جغرافیائی اور دفاعی آزادی کے حصول کے لیے بنگلہ دیشی بھائیوں کو ابھی کئی دریا عبور کرنے ہوں گے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فریم ورک میں حقوق کا حصول دوچار سال میں ممکن نظر آتا تھا، لیکن اب نصف صدی بھسم کرنے کے بعد بھی بے بسی کا نیا شکنجہ، وہاں کے قومی وجود کو گرفت میں لیے سب کے سامنے ہے۔
وہ نوجوان جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہیں، یا آزاد کشمیر اور بیرون پاک و ہند میں ہیں، انھیں خوب اچھی طرح یہ بات جان لینی چاہیے کہ ’خود مختار کشمیر‘ انڈیا کی دوسری دفاعی لائن ہے، بنگلہ دیش سے بھی زیادہ بے بس سیاسی وجود۔ انڈیا کے پالیسی سازوں کی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ استصواب رائے (Plebiscite) نہ ہو، اور اگر بظاہر پیچھے ہٹنا پڑے تو ثالثی یا سودا بازی کرکے پورے کشمیر کو ’خودمختار‘ کا درجہ دیتے ہوئے، اپنی ایک باج گذار گماشتہ ریاست بنا لیا جائے، جیسے بھوٹان وغیرہ۔ اسی لیے بڑی تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام پر دن رات کام کیا جا رہا ہے، اور آبادی کا تناسب بڑی تیزی سے بگاڑا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں ہم دعوت دیتے ہیں کہ نئی نسل ہوش کا دامن تھام کر، دشمن سے ملنے والی چمک کو روشنی نہیں بلکہ ظلمت کی سیاہی سمجھ کر جان ومال اور صلاحیت لگائے۔ جو مسائل ہیں، انھیں پاکستانی فریم ورک میں حل کرنا آسان بھی ہوگا اور فطری ومعقول بھی۔ کسی چیز میں کمی بیشی ممکن ہے، لیکن بہرحال پاکستان ہی نے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیا، جب کہ دشمن نے ۱۹۴۷ء سے پہلے اور ۱۹۴۷ء کے بعد بھی جان ومال کی قربانی لی ہے۔ اس لیے دور اندیشی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بنگلہ دیش کے تجربے سے سبق سیکھیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے طے شدہ فارمولے ہی پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آزاد کشمیر حکومت، محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں ہے، بلکہ پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، بدقسمتی سے جو اپنا کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی منصبی ذمہ داریوں کا ادراک اور اس کے اصل کردار کا احیا وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر میں خواندگی کی سطح، پاکستان کے کسی بھی صوبے سے بلند تر ہے۔ مگر حکومت آزاد کشمیر کی بے سمتی کا یہ نتیجہ ہے کہ ان پڑھے لکھے لوگوں میں اپنے محکوم کشمیری بھائیوں کے لیے دکھ درد کے احساس کی وہ کسک ایک تحریک کی صورت میں دکھائی نہیں دیتی، کہ جو یہاں پیدا ہونی چاہیے تھی، اور اسے مجبور بھائیوں کی آواز بن جانا چاہیے تھا۔
پھر آزاد کشمیر حکومت نے کم و بیش ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح کے پروگراموں کو پروان چڑھانے کے لیے شب و روز کوششیں کرنے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفاد کو زندگی کی کامیابی سمجھ لیا ہے۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کشمیری اہلِ اقتدار کو اپنا طرز عمل بدلنا چاہیے اور یہ جو وقفے وقفے سے یہاں پر بظاہر چند مطالبات کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس کی اصل بنیاد کو سمجھنا اور اس کے حل کے لیے بامعنی کوششیں کرنی چاہئیں۔ محض نوجوانوں کی پکڑدھکڑ، حکومت آزاد کشمیر کی بے عملی کا جواب نہیں۔ ایسا مریضانہ رویہ دشمن کے مقاصد پورا کرنے کے لیے زرخیز زمین تیار کرتا ہے اور قومی مفاد کو بربادی کی تصویر بنانا ہے۔
تاریخ میں بہت زیادہ دور جانے کے بجائے ہم اس المیے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، جس نے بعض ا وقات کھلنڈرے پن سے مسئلہ کشمیر اور جدوجہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس طرح کہ مطلق العنان حاکم جنرل پرویز مشرف نے کشمیر میں ۷۶۷کلومیٹر طویل کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کے لیے انڈیا کو یک طرفہ سہولت دی۔ انڈیا نے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بجلی سے لیس خاردار تاروں کی باڑ نصب کرکے اس میں بجلی کی ہائی وولٹیج رو دوڑائی ہے، ساتھ ساتھ باردوی سرنگیں بچھائی گئی ہیں، اور جس جگہ باڑ نہیں لگ سکتی، وہاں پر لیزر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس باڑ کو لگانے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں تھا کہ بطور سرحد اسے دونوں ملک تسلیم نہیں کرتے، مگر یک طرفہ انڈیا کو سہولت دینا کسی بھی اصول اور قاعدے کے مطابق معقول حرکت نہیں تھی۔ پھر انھوں نے ’آؤٹ آف باکس‘ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کشمیر کے عوام کو نظرانداز کرکے کوئی ایسا قدم اُٹھائے، جو ہمارے اصولی اور بین الاقوامی طے شدہ موقف سے ٹکراتا ہو۔
اسی طرح فروری ۲۰۲۱ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اچانک فوجی کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کیے۔ پھر دو ماہ بعد چند صحافیوں کو کھانے پر بلا کر یہ کہا: ’’ہم بیک ڈور مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہمیں ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔ ان چیزوں کو ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی کہنا شروع کیا۔ یہ سب وہ چیزیں تھیں جن سے حکومت اور قوم دونوں بے خبر تھے۔ان اقدامات نے پاکستان کے دفاعی دبدبے (deterrence) کو سخت نقصان پہنچایا اور دشمن کے حوصلے بلند کیے اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے کوشاں تمام متعلقہ حلقوں کو مایوس کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی سوچ کی برملا اور واضح الفاظ میں نفی کی جانی چاہیے، تاریخ اور قوم کے موقف کو روندنے کے ہرعمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۵؍اگست۲۰۱۹ء کو انڈیا کی جانب سے آرٹیکل ۳۷۰اور ۳۵-اے کی یک طرفہ منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا۔ ’نسل پرست ہندوتوا‘ نے اپنی سرپرست آرایس ایس کی نگرانی میں یہ قدم کسی الگ تھلگ عمل کے لیے نہیں اٹھایا تھا، بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سلسلہ وار اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جن کے مطابق:
اس صورت حال میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام پر لازم ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے مظلوم بھائیوں کو یاد رکھتے ہوئے:
اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو وقت تیزی سے گزرتا جائے گا اور کشمیر دوسرا اسپین بن کر رہ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان، یہاں کے اہل حل و عقد اور خردمند اس المیے کا کردار بننا چاہتے ہیں؟
اسلام محض ایک روایتی مذہب نہیں___ یہ ایک مکمل دین اور جامع نظام زندگی ہے، جو عقیدے، عبادات، انفرادی اخلاق، اجتماعی نظام، قانون، عدالت، دعوت و تبلیغ اور ان کے زیر اثر وجود میں آنے والی عالم گیر اور درخشاں تاریخی روایت سے عبارت ہے۔ اسلام کی یہ جامعیت ایک نظری و عملی حقیقت اور اس کی امتیازی شان ہے۔
جہاں اس امر واقعہ کا احساس اور اس پر افتخار بجا ہے، وہاں اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے، کہ آج بڑی حد تک مسلم دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں مسلم معاشرہ اپنی اصل شان کھو رہا ہے۔ بنیادی طور پر ایک ’اسلامی معاشرے‘ کے بجائے آج ہمارا واسطہ ایک ایسے مخلوط معاشرے سے ہے، جس میں اسلام اور جاہلیت گڈمڈ نظرآتے ہیں۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیبی روایات کی روشن جھلکیاں ہیں، تو دوسری طرف قدیم روایت کے جاہلی تاریخی اثرات اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بڑھتے ہوئے تاریک سائے ہیں۔ بہت سی خیر اور بظاہر بڑی قیمتی دینی علامات کی موجودگی کے باوجود بڑے پیمانے پر معاشرہ غفلت کا شکار ہے۔ اسلامی روح اور اس جوہر کی کمی نظر آتی ہے، جو فکر و نظر اور معاشرے اور تمدن کو امتیازی اسلامی شان عطا کرتا ہے۔ بقول علّامہ محمداقبال ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
اس غفلت اور محرومی کا احساس اس وقت شدید ترہو جاتا ہے، جب معاشرے میں کوئی چونکا دینے والا واقعہ رونما ہو جاتاہے اور سارے دل خوش کن دعوؤں اور احساسات کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی خوش فہمی میں مبتلا اس خودپسند بادشاہ کا سا تو نہیں، جو برہنہ ہونے کے باوجود اس زعم میں مبتلا تھا کہ وہ قیمتی لباس میں ملبوس ہے، اور ایک بچے کے معصوم مگر بے باک اظہارِ خیال نے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، اس کی خود پسندی اور خودستائی کا سارا طلسم کافور کر دیا۔بالکل اسی طرح معاشرے میں اچانک رونما ہونے والے حادثات، ہمارے معاشرتی افلاس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔
چند برس پہلے ہماری عدالت اور ہماری صحافت ایک ایسے ہی چونکا دینے والے واقعے کے مالہ و ماعلیہ سے نبرد آزما رہی ہے___ جس میںوالدین کے خلاف ایک دینی گھرانے کی نوجوان لڑکی کی بغاوت، ’’پسند کی شادی‘‘، گھر سے فرار، تھانے اور کچہری کے چکر، مقدمہ بازی، قیدورہائی، اپنوں کی گراں باریاں، نام نہاد این جی اوز کی کارستانیاں، انسانی حقوق کے نام لیوائوں کی کرم فرمائیاں، میڈیا کی کرشمہ سازیاں، ملکی ہی نہیں بین الاقوامی ایجنسیوں کی دلچسپیاں___ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک تکلیف دہ واقعے کا عدالتی تصفیہ مطلوب نہیں بلکہ اسلام، اس کے ’عائلی قانون‘ (Family Law)بلکہ پوری مسلم تہذیبی روایت پر تارکول پھیرنے کی کوشش اور وہ بھی میڈیا ٹرائل کی شکل میں اصل ہدف ہے۔ ایک خاندان ہی نہیں پورا ملک اس کرب ناک عمل سے گزرا ہے، اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی میڈیا ٹرائل جاری رہا۔ گویا دو نظریات اور دو تہذیبی روایات دست و گریبان ہیں!
اس طرح یہ واقعہ محض ایک فرد یا ایک خاندان کا مسئلہ نہ رہا، بلکہ ایک ایسی بحث کا عنوان بن گیا، جس کی زد میں ہمارا خاندانی نظام بلکہ پوری اسلامی معاشرت آئی۔ نیز اجتماعی اصلاح اور بگاڑ کے سلسلے میں والدین، عدالت اور صحافت کے رول اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی غوروفکر کے متعدد گوشے اس قضیے میں سامنے آئے۔ ان تمام پہلوئوں پر تفکر اور عبرت کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ اصلاحِ احوال کے لیے مناسب تدابیر اور اقدامات کی نشان دہی کی جا سکے۔
زندگی کے ان تلخ حقائق اور معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے صرفِ نظر کرنا یا ان پر پردہ ڈالنا مسائل کا حل نہیں___ آنکھیں بند کرنے سے خطرات کبھی ٹلا نہیں کرتے، ان کا بہادری سے مقابلہ ہی تاریکیوں کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص اور صبر و ہمت سے علاج کا سامان کیا جائے۔
جن خاندانی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل سے اس وقت ہمارا معاشرہ دو چار ہے، وہ محض کسی خاص فرد یا چند افراد اور خاندانوں کا معاملہ نہیں اور مسئلہ بھی صرف یہ نہیں ہے کہ: ’’ایک مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں؟ــ’’یا ولی کی مرضی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟‘‘
بلاشبہ یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور شریعت نے ان کے بارے میں بہت واضح رہنمائی فراہم کی ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم یہ سوالات ہیں کہ:
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں دعوتِ عمل نہیں دے رہا:
جب کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر رہے ہوں تو کشتی کے دوسرے لوگوں کو خاموش اور بے نیاز نہیں رہنا چاہیے…اب اگر وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اسے بھی بچاتے ہیں اور خود بھی بچتے ہیں۔ لیکن اگر اسے چھوڑ دیتے ہیں (یعنی کشتی میں سوراخ کرنے دیتے ہیں) تو اسے بھی ہلاک کرتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اور مشرق و مغرب کا ذاتی مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کا مسلم معاشرہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے اور اخلاق اور سماجی استحکام کے اعتبار سے مغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ اس کا اعتراف نہ کرنا کفرانِ نعمت کے مترادف ہوگا۔
جن لوگوں کی نگاہ مغربی تہذیب اور اس کے جلو میں آنے والی اخلاقی تباہی، خاندانی نظام کی زبوں حالی، عصمت و عفت کی تحقیر و تذلیل اور بے حیائی اور بے وفائی کی توقیر، بچوں کی کسمپرسی، بے باپ گھرانوں کی کثرت، طلاق کی فراوانی اور ان کے جلو میں رونما ہونے والے طوفانوں پر ہے۔ وہ پکار رہے ہیں ؎
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمر موت
نوبیل پرائز یافتہ فرانسیسی سائنس دان الیکس کاریل (Alexis Carrel) ۱۹۳۵ءمیں اس نسبت سے علامہ محمد اقبال کا ہم نوا ہو کر اپنی کتاب Man The Unknown (انسان نامعلوم) میںکہتا ہے:
ہم جائز و ناجائز کی تمیز کھو چکے ہیں، ہم نے طبیعی قوانین کی خلاف ورزی کرکے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا مرتکب سزا پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے، زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ [مغربی] تہذیب رُوبہ زوال ہے۔
لیکن یہ کیاستم ہے کہ آج اس رُوبہ زوال مغربی تہذیب و ثقافت کے تاریک سائے ہمارے نظامِ معاشرت و تمدن پر بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ہماری بنیادی اقدار اور روایات بھی ان کی زد میں ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقفیت اور اس حقیقت سے پہلو تہی ہے کہ فی الواقع ہمارا اپنا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بلکہ ایک ایسا مخلوط معاشرہ ہے، جس میں اسلامی تعلیمات اور روایات کے ساتھ قدیم ہندو جاہلی تہذیب کی بہت سی روایات مل جل گئی ہیں۔
اسلام کے احکامات اور تعلیمات کے کچھ اجزا ضرور ہماری روایت کا حصہ ہیں، لیکن اس کے بہت سے دوسرے نہایت اہم اجزا ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ترک کردیے ہیں۔ اس طرح شریعت کے مقاصد اور اس کے اصل مشن اور روح سے ہم بے پروا ہو گئے ہیں۔ اس سب پر مستزاد مغربی افکار و اقدار کے اثرات ہیں،جو ہماری معاشرت کا شیرازہ منتشر کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ تباہی صرف مغرب کی فکری یلغار اور میڈیا کے سامراجی حملوں ہی کے ذریعے نہیں آ رہی بلکہ ہم ہی میں سے کچھ عناصر اس مغربی ثقافتی امپزیلزم کے کارندوں اور اس دور کے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو جاہلی اثرات سے بالکل نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔ خاندان اور معاشرت کے حقیقی اسلامی تصور کو اسلامی احکام اور ان کی روح کے مطابق سمجھا اور نافذ کیا جائے۔ مغرب کی اندھا دھند نقالی سے پرہیز کیا جائے اور خالص اسلامی بنیادوں پر فرد اورمعاشرے کی تعلیم اور تشکیلِ نو کی جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اسلام کی تمام برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں گے اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لائق بن سکیں گے۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد مسلمان فرد اور مسلمان خاندان ہے۔
اسلام نے انسانی اجتماعی زندگی کے ان دونوں بڑے مسائل یعنی: مرد اور عورت کے رشتے اور فرد اور اجتماع کے تعلق___ کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیاہے۔ بلاشبہ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے تہذیبی فتنے انھی دونوں رشتوں میں بگاڑ، افراط و تفریط اور کمزوری و انتشار کے پیدا کردہ ہیں۔
اسلام نے اپنی دعوت کا اوّلیں مخاطب فرد کو بنایا ہے اور اس کے قلب و نظر کو ایمان کا گہوارہ قرار دیا ہے۔ ہر فرد کی سیرت سازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ اسلام ہر مرد اور عورت کو ایک اسلامی شخصیت سے آراستہ کر کے ہی معاشرتی اور تہذیبی انقلاب برپا کر تا ہے۔ فرد کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس کا رشتہ معاشرے سے جوڑتا ہے اور اس کے لیے ایسے ادارے قائم کرتا ہے، جو زندگی میں استحکام پیدا کر سکیں اور تمام انسانوں کی قوت وصلاحیت کو تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرسکیں۔ اسلامی اجتماعیت میں فرد، معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کش مکش اورمحض حقوق کی جنگ سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل بنیاد ہمدردی، تعاون، احترام، ایثار اور تکافل کا رشتہ ہے۔ شریعت کی روشنی میں دونوں کے رول متعین ہیں اور دونوں ایک ہی مقصد___ یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مصروفِ کار ہیں۔
اس طرح مرد اور عورت کا رشتہ بھی الہامی ہدایت کے تحت استوار کیا گیا ہے۔ خاندان کا نظام محض انسانی تجربے کا حاصل اور ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی موہوم معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں (جیسا کہ کارل مارکس، اینجلز اور درکھیم نے اپنے اپنے انداز میںکہا ہے) بلکہ یہی پہلا انسانی ادارہ ہے، جسے وحی الٰہی کے تحت قائم کیا گیا اور جس سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ کی شریعت نے اس ادارے کے مقاصد اور خطوطِ کار متعین کر دیے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا پودا تناور اور پھل دار درخت اس بیج کی پیداوار ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
یہاں زوجی رشتے اور نسل کے تخلیقی عمل کے تعلق کو واضح کر کے خالق کائنات نے اس ادارے کی ابدی حکمت کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے۔
پھر قرآنِ عظیم میں خاندان کے دوسرے وظیفے یعنی محبت، مودت اور سکینت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اسلام نے خاندان کے نظام کو جو تقدس عطا کیا ہے، وہ منفرد ہے۔ یہ محض انسان کی تلاش و جستجو اور تجربے سے حاصل ہونے والا ادارہ نہیں بلکہ اللہ کا قائم کردہ نظام ہے، جو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور معاشرے اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس الہامی طور پر قائم ہونے والے ادارے کے بارے میں ساری ضروری ہدایات خود اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں فراہم کر دی گئی ہیں۔
قرآن پاک میں جو قانونی احکام ہیں، ان کا دو تہائی حصہ صرف خاندان کے مسائل کے بارے میں ہے۔ مسلم معاشرے کو آج تک اسلام کی بنیاد پر قائم رکھنے اور ہر انحراف کے بعد اصل کی طرف رجوع کی تحریک پیدا کرنے والے عوامل میں سب سے اہم، قرآن و سنت کی موجودگی کے بعد خاندان ہی کا ادارہ ہے، جو ہمارا اصل قلعہ اور مامن رہا ہے۔ جس کے حصار میں اس امت نے بڑے سے بڑے فتنے کے مقابلے میں پناہ لی ہے اور جس سے وہ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کے ہاتھوں تجدید واحیا کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔
مسلمان خاندان اور خصوصیت سے ’مسلمان ماں‘ وہ اہم ترین جائے پناہ رہی ہے، جس نے اس امت کو راہِ ثواب پر قائم رکھا ہے اور ہر پستی کے بعد نئی بلندی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دشمن انھی چیزوں کو خاص نشانہ بنا رہا ہے، یعنی وحی اور الہامی ہدایت (قرآن و سنت اور خاندان کا نظام)۔ اس کا ہدف مسلمان عورت کو اس کے دین سے برگشتہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی پروگراموں سے لے کر مخصوص ایجنڈے کی حامل غیر ملکی اور ملکی این جی اوز اس تخریبی کام میں مصروف ہیں۔
اسلام میں خاندان کے نظام کا اپنا مخصوص مزاج اور متعین نظام ہے۔ اسے انسانی تہذیبوں کے دوسرے نمونوں(models) سے گڈمڈ اورکنفیوز نہیں کیا جانا چاہیے۔ خواہ ہندو مذہب اور سماج میںپروان چڑھنے والا تصور خاندان ہو، یا یونان، روم اور کلیسا کے دور کا خاندانی نظام، یا صنعتی انقلاب اور مغربی اقدار کے زیر اثر رونما ہونے والا مختصر بلکہ منتشر خاندان کا یورپی اور امریکی نمونہ___ ان سب کے مقابلے میں اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے، وہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ اسے تاریخ کے پدری (partiachal) نظام یا مغربی ممالک کی نشات ثانیہ کے زیر اثر آزاد محبت گیری (romantic love) سے کوئی نسبت نہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے اسلام کے خاندانی نظام کی حقیقت اور اس کی روح کو اچھی طرح سمجھا جائے اور نئی نسلوں میں اس کی صحیح تفہیم پیدا کی جائے۔
اسلام میںنکاح محض شہوت کی تسکین کا ایک ذریعہ نہیں، اگرچہ جنسی عمل اور فطرت کے حقیقی تقاضوں کی جائز تسکین اس کا حصہ ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ایک نئے خاندان کے قیام کا ذریعہ ہے۔ دوخاندانوں میں نئے روابط کی ایک صورت، اور معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور استوار رکھنے کا ایک تخلیقی عمل ہے۔ اسی لیے ناجائز سے بچنے اور جائز ذریعے کو لائق اجر عمل قرار دیا گیا ہے۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک سنت اور کچھ حالات میں سنت موکدہ کی ہے۔ پھر نئے خاندان کے قیام کے عمل کو محض وقتی جذبات پر نہیں چھوڑا گیا، بلکہ اس کے لیے بڑے واضح اصولوں، ضابطوں اور ایسے تحفظات کا اہتمام کیا گیا ہے، جو خاندان کے قیام کو محض ایک کھیل اور تجربہ نہ بننے دیں۔
اسلام نے اپنے پوری عائلی نظام کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے، وہ یہ ہیں:
۱-اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، انسان کی خدائی کی جگہ رب العالمین کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور بندگی اور اطاعت کے راستے کو خوش دلی سے اور والہانہ انداز میں اختیار کرنا۔
۲-اللہ کی حاکمیت کے عقیدے کا لازمی نتیجہ انسانوں کی مساوات اور برابری، حقوق و فرائض کی پاس داری اور ایک ہی مقصد اور منزل کی جستجو میں رفاقت اور ہم سفری کا احساس اورتجربہ ہے۔ یہ تمام انسانوں کو، مرد اور عورت کو، شوہر اور بیوی کو، والدین اور اولاد کو، بزرگوں اور بچوں کو، غرض معاشرے کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے ایک نئے رشتہ میں جوڑ دیتا ہے اورزندگی گزارنے کے لیے ایک نئے اسلوب اور آہنگ سے روشناس کرتا ہے، جسے قرآن نے بڑے خوب صورت انداز میں کامیابی کے معیار کی صورت میں پیش کیاہے:
دنیا اورآخرت میں برتری اور کامیابی کا معیار نہ تو جنس (gender)ہے، نہ نسب، نہ دولت اور نہ اقتدار، بلکہ مرد اور عورت سب کے لیے صرف تقویٰ ہی واحد معیار ہے:
اور پھر سورۂ توبہ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا رفیق اور مددگار بتایا ہے۔ دونوں کے لیے کارگۂ حیات میں ذمہ داریاں متعین کی ہیں، اور دنیا اور آخرت میں اصل کامیابی کا ایک ہی راستہ اورایک ہی معیار اس دو ٹوک انداز میں بیان فرما دیا:
مسلم خاندان اور مسلم معاشرہ زندگی اور کامیابی کے اسی انقلابی اصول پر قائم ہوتا ہے اوریہ مسلم امت کو ان تمام گمراہ کن بحثوں سے نجات دے دیتا ہے، جن میں دورِ غلامی سے لے کر، عصرِ حاضر کی مادر پدر آزادی تک کے انسانی سماج میں وہ اُلجھا رہا ہے۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو میدان (matrix) ہمارے لیے بنایا ہے، اور وہ سب سے جدا اور سب سے امتیازی نشان والا ہے۔
۳-اسلام کے عائلی نظام کی تیسری بنیاد مہرو محبت اور صلہ رحمی ہے۔ نکاح دراصل اخلاق اور عصمت کے تحفظ کے لیے قلعے کی مانند ہے اور اس قلعے کے مکین ایک دوسرے کے لیے تسکین، محبت اور رحمت کا سرچشمہ ہیں: لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (الروم ۳۰:۲۱)۔ اور اس رشتے کو ایک دوسرے کے لباس کے قریبی رشتے سے تعبیر کیا گیا ہے: ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرہ۲:۱۸۷)۔اور پھر اس رحمت اور محبت کو ازواج یا اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ صلہ رحمی کے حکم کے ذریعے وسیع تر خاندان اور تمام دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس کی ٹھنڈک اور مٹھاس میں شریک کر لیا گیا ہے۔
۴-اللہ کی حاکمیت، اس کے تحت رونما ہونے والی مساوات اور شرکتِ مقاصد، عصمت کی حفاظت اور محبت اور رحمت کے بعد چوتھی بنیاد عدل و انصاف ہے۔ اسلام میں کوئی انسان کسی بھی دوسرے انسان کی ملکیت نہیں ہے اور کوئی کسی کا تابع مہمل نہیں ہے۔ سب حقوق و فرائض کے ایک الہامی اور منصفانہ نظام کے پابند ہیں۔ اور اگر ایک طرف اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور خاندانی نظام کے کامیاب نظم کی خاطر مرد کو ایک درجہ فوقیت دی گئی ہے، تودوسری طرف اس کا اختیار بھی قانون کے تابع اور جواب دہی کے نظام سے مشروط ہے۔ جبراور من مانی کا اختیار (arbitrary power) شریعت الٰہی کے نظام میں کسی کو حاصل نہیں، نہ مرد کو، نہ عورت کو:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔
ہر فرد اپنے اعمال کا ذمہ دار اور ان کے لیے جواب دہ ہے:
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(النساء۴:۱۲۴)اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔
اختیارات ذمہ داریوں اور جواب دہی کے اس نظام کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے دل نشیں انداز میں بیان فرمایا ہے:
تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ امام، نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی، آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی، اورعورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔(بخاری)
اس پس منظر میں آیت کریمہ: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ(الشوریٰ۴۲:۳۸)نے الٰہی قانون کے تحت منظم اور مرتب ہونے والے اس ادارے کے مزاج اور طرزِ کار کو بالکل واضح کردیا ہے۔ جس طرح اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ ایک شورائی ریاست اور شورائی معاشرہ ہیں، اسی طرح اسلام میں خاندان بھی ایک شورائی ادارہ ہے۔ مولانا مودودی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اسلامی طرزِ زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے، گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں، اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انھیں بھی شریکِ مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔(تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص۵۰۹)
۵- عدل و انصاف اور مشاورت کے اس نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمان خاندان کی پانچویں بنیاد فرد کی معاشی آزادی اوراجتماعی تکافل کا ایک ایسا نظام ہے، جو مرد اور عورت کی عزّتِ نفس اور آزادی کی مکمل ضمانت کے ساتھ ان کے درمیان تعاون اور شراکت کا رشتہ استوار کرتا ہے۔ دونوں کو اپنی اپنی مِلک پر پورا اختیار دیتا ہے۔ مرد کو نان نفقہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اورعورت کو محض بچوں کی پرورش کرنے والی اور جبری طور پر گھر کا کام کاج کرنے والی نہیں بناتا، بلکہ ان تمام معاملات کو ان کی اہمیت اور خاندانی نظام کی ضرورت کے مطابق حقوق کی باہم پاس داری کے ساتھ انجام دلانا چاہتا ہے۔
اس کے ساتھ گھر کے اندر بھی اور خاندان اور معاشرے کے وسیع تر میدان میں ایک ایسا نظام قائم کرتا ہے، جو بھی مالی اعتبار سے مضبوط ہو، وہ مالی اعتبار سے کمزوروں کی مدد، ان کے ایک حق کی ادائیگی کے جذبے سے کرے۔ یہ عمل زندگی اور موت دونوں صورتوں میں جاری رہے، یعنی نفقہ، صدقات، صلہ رحمی، وراثت، ولایت، اور نفقہ الاقارب کے قوانین اور ہدایت کی روشنی میں۔
مسلم خاندان کی ان امتیازی خصوصیات پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے: lیہ نظام دوسری تہذیبوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خاندانی نظام سے بہت مختلف ہے۔ lیہ ایک دینی اور شرعی ادارہ ہے۔ اس کی حد بندی اور کارکردگی خود الہامی ہدایت کی روشنی میں اورآخرت کی کامیابی کے جذبے سے کی جاتی ہے۔ lیہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ lیہ انسانی فطرت کے تقاضوں کی تسکین اور تکمیل کے لیے ایک موزوں اور دل کش انتظام ہے۔ lیہ نئی نسلوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین گہوارہ ہے۔ lیہ جسم اورروح کو محبت، مودت اور سکینت سے شاد کام کرنے اور اس پاکیزہ فضا میں نئی نسلوں کو پروان چڑھانے کا ادارہ ہے۔ lیہ اپنے دین، تہذیب اور تمدن اور انسانی معاشرے کے علوم و فیوض سے روشناس کرانے کا ایک نظام ہے۔ lیہ معاشی تکافل اور سوشل سکیورٹی کا ایک فطری نظام ہے، جس میں عزّتِ نفس کی مکمل پاسداری کے ساتھ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بنتے ہیں اور سب کو معاشی دوڑ میں شرکت اور وسائل سے استفادے کا موقع دیتے ہیں۔ lخاندان کا یہ نظام سیرت کے نکھار، معاشرتی استحکام اور تہذیبی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔
ملت اسلامیہ کا اصل مشن ایسے خاندانی نظام کا قیام اور استحکام ہے، جو ان اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ آج جس بگاڑ سے ہم دو چار ہیں، وہ اچانک رونما نہیں ہوا اور محض کسی ایک سبب کی بنا پر پیدا نہیں ہوا ہے۔ خرابی کی اصل جڑ دین کے علم کی کمی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور تعلیمات سے عدم واقفیت اور عملی غفلت ہے۔ مقصد ِزندگی کے شعور کی کمی، جاہلی افکار کا غلبہ، مؤثر قیادت کا فقدان اور معاشی ذمہ داریوں سے اغماض کا نتیجہ ہے۔ دورِ غلامی کے اثرات اور مغربی ثقافت کے زیر اثر حالات کا مزید بگاڑ، مفاد پرستی، محض معاشی اور مادی ترقی کے بتوں کی پوجا ہے۔ علما، مشائخ، اساتذہ، والدین اور میڈیا کا اپنے اصل فرائض کی انجام دہی میںکوتاہی برتنا اور بہت سے غلط اثرات کے فروغ کا ذریعہ بن جانا ہے۔ یہ ہیں وہ چند موٹے موٹے اسباب، جن کی وجہ سے یہ صورت حال رُونما ہوئی ہے۔
اصلاح کا راستہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی انفرادی واجتماعی ترجیحات کو درست کریں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی طرف خلوص اور یکسوئی کے ساتھ مراجعت کریں۔ اس وقت تو حال یہ ہے کہ ہم متضاد سمتوں کی طرف لپک رہے ہیں اور یوں دکھائی دیتاہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اوربحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اورکسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقینا اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلیدمیں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگردوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غوروفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اوراسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔
جماعت اسلامی ایک نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی تحریک ہے۔اس میں ہرزبان، ہرمسلک، ہر علاقے، ہر نسل اور ہر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی فکری رنگ میں رنگے ہوئے، اکٹھے ہوتے، سوچتے سمجھتے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کا انتظام ہوتا ہے اور پھر وہ دعوت اور اقامت ِدین کے سفر پر سرگرم ہوجاتے ہیں اور اس راستے کے سرد و گرم کو انگیز کرتے ہیں۔ ہماری یہ معتدل اجتماعیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔
جب ہم دین کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کام کے ساتھ بار بار کی ایک تذکیر اور باربار یاددہانی ہوتی ہے۔ ہم دین کی اقامت کی جدوجہد کرنے والے بے لوث لوگوں کا قافلہ ہیں۔ اللہ نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم تو اُمتِ وسط ہو۔ ایک ایسی امت جس کا کام حق کی گواہی دینا ہے (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ بحیثیت مجموعی امت کی یہ منصبی ذمہ داری کارِنبوت کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن جب امت تقسیم ہوگئی، تفریق کا نشانہ بن گئی، پو را نظام ٹوٹ گیا، اجتماعیت بکھر گئی،ایسی صورتِ حال کا تقاضا ہے اس میں ایسا گروہ موجود ہونا چاہیےجو یہ فریضہ انجام دے۔ الحمدللہ، تمام کمیوں، کمزوریوں کے باوجود ہم اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے بندگانِ خدا کے سامنے موجود ہیں اور ان کے دل ودماغ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
اسی تصور پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ’ریاست‘ یا ’الجماعۃ‘ کے متبادل نہیں ہے۔ تاہم،مسلمانوں کا ایک دینی، اجتماعی اور سیاسی نظام جماعت کی صورت میں قائم کرکے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ اتنے بڑے اور نازک کام کے لیے نظم وضبط اور تنظیم کی ضرورت ہے۔ اجتماعیت اور سمع و طاعت کے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ اگر وہ نظام نہیں ہوگا تو یہ اجتماعی جدوجہد نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا، یہ بات جماعت کے وابستگان کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ محض کسی ایسی جماعت کے لیڈر یا کارکن نہیں ہیں کہ جن کے پیش نظر وقتی سیاست کو انجام دینا ہو۔ اس میں محض الیکشن یا کوئی اور مہم پیش نظر ہو، یا مقصد محض یہ ہو کہ پارٹی جیت جائے۔ اس جدوجہد کا یہ ذریعہ ضرور ہے، مگر مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ان معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے جس طرح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔
درس و تدریس اور فہم قرآن کی نشستیں، تربیتی و تذکیری پروگرام، تنظیمی اجتماعات، سیاسی جلسے، جلوس اور احتجاج، سب اقامت ِ دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہمارے نزدیک سیاست ایک دینی تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ حکومت کا قیام اُمت کا فرضِ منصبی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا اوّل و آخر حوالہ دینِ اسلام ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی لائی ہوئی شریعت اور نظام ہے۔ ہمیں اسی راستے کے مطابق اس نظام کی تعمیر کرنا ہے۔ جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی تھی تو ان کے پیش نظر یہی تھا کہ ہم ان معنوں میں سیاسی نہیں جس طرح دوسرے سیاسی ہیں، اور ان معنوں میں مذہبی نہیں ہیں جس طرح دوسرے مذہبی ہیں۔ ہم دین کا وہ تصور رکھتے ہیں، جس میں دین زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔اس نسبت سے ہماری ڈیوٹی اور فریضہ یہ ہے کہ دین کے قیام کی جدوجہد کریں۔ ہم کوشش کرنے اور وقت دینے، مال خرچ کرنے اور جان کھپانے کے مکلف ہیں، اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں، انھیں دین کے لیے استعمال کرنے کے مکلف ہیں، اور غلبۂ دین کی منزل کے حصول کی جدوجہد کے مکلف ہیں، دین کو نافذ کر دینے کے مکلف نہیں ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا، ان شاءاللہ۔
عملی میدان میں سامنے آنے والی بعض ناکامیوں کو ہم زندگی کا ایک سبق آموز تجربہ سمجھتے ہیں، اور ایسے صدمات یا تلخیوں کا سامنا کرکے جدوجہد نہیں چھوڑیں گے، بلکہ غلبۂ دین کے لیے حکمت عملی بھی بنے گی اور اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی ہوگی، ان شاء اللہ۔ لہٰذا فرداً فرداً ہر کارکن اور ہر ذمہ دار یہ سوچے کہ وہ جس منصب پر ہے، اسے اپنی زندگی کی ترجیحات میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو شامل کرنا ہے۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا ہے۔ اپنے اوقاتِ کار کا، ذہنی، جسمانی اور عملی ترجیحات کا۔ ہرکسی کا گھر ہے، بیوی بچے ہیں، کئی سارے کاروبار ہیں، ملازمت ہے، معاملات ہیں، تجارت ہے، زمینداری ہے، دکان ہے، جو بھی متعلقات ہیں، ان میں حلال اور جائز طریقے سے آگے بڑھنا ہے، حق کا گواہ بننا ہے اور اس گواہی کا اہل بننا ہے۔
ہمیں زندگی کی ترجیحات میں اولین اہمیت اقامت ِدین کے کام کو دینی ہے۔ اگر ہمارے ذہن میں یہ اوّلین ترجیح تازہ ہے تو ہم دین کو سمجھے ہیں اور اس کے صحیح فہم کا ہمیں ادراک ہوا ہے، اور جماعت اسلامی کے ساتھ شعوری طور پر ہم وابستہ ہوئے ہیں۔ اور اگر یہ سوچ ترجیحِ اوّل نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور دنیا کے کام کر رہے ہوتے ہیں، تو جماعت اسلامی بھی ان کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جماعت اسلامی اس لیے تو نہیں بنی ہے، اور آپ اس لیے تو اس سے وابستہ نہیں ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی تو اپنے وابستگان سے یہ کہتی ہےکہ وہ اپنی زندگی کی ترجیحات میں دین کو شامل کریں بلکہ اسے ترجیحِ اوّل بنائیں۔
جب چاروں طرف باطل کی حکمرانی ہو، ظلم کا نظام طاقت ور ہو، زمین اور معاشرہ فساد سے بھرے ہوں، مظلوموں کی داد رسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ جب معیشت پر عالمی اور قومی ساہوکاروں کا قبضہ ہو۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی چند ہاتھوں کے قبضے اور تصرف میں سمٹتی جارہی ہوں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت تک مغلوب ہو، تو ایسے ماحول میں اقامت ِ دین کا کام ایک بندئہ مومن کے لیے زندگی کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام نہیں رہتا۔ سنن و نوافل کے درجے میں نہیں، فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی حاکمیت اور اس کے دیئے ہوئے نظامِ زندگی کے مقابلے میں انسانوں اور طاقت وروں کی بالادستی کا نظام قبول کیا جائے۔ یہ دوئی شرک ہے جس کا ابطال و استرداد ہرمسلمان پر فرض ہے۔
اسی فرض کی ادائیگی کے لیے ہم جماعت اسلامی میں ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر، ہمہ جہت، پیہم، پُرامن اور برسرِ زمین جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ جدوجہد فرد، خاندان، معاشرہ اور نظام، ہرسطح پر بیک وقت اور متوازی کام کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ یہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ پتّہ ماری کا کام ہے۔ یہ سوچ فکر اور عمل پر حاوی کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی چیز کو ترجیحِ اوّل کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہرفرد کو ہر وقت ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ آپ کی ترجیح کس طرح سے پوری ہوگی؟سب سے بڑا منصف تو انسان خود ہوتا ہے۔ ہر فرد جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ بندوں کے سامنے تو کم یا زیادہ کی رپورٹ دے سکتے ہیں، لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ خود بندہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور جواز پیدا کرنے کےلیے خود بخود کچھ چیزیں طے کرلیتا ہے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلیے مختلف وجوہ تراش لیتا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ ناجائز طریقے سےبننےوالی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی سیاسی شعبدہ بازی سے فرصت نہیں ہے، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں۔ ایک پارٹی کےلیے کسی کی توسیع اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اہم ہے اور مزید مراعات حاصل کرنے کے لیے دن رات جوڑ توڑ کرنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں چاہئیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹوں کو برقرار رکھنا سب سے بڑا ’قومی مقصد‘ ہے۔کسی کو اس چیز کی فکر ہے کہ دستور میں من مانی تبدیلیاں ٹھونسے اور کوئی اس بات کے لیے سرگرم ہے کہ میرا بھائی، بھتیجا یا میرے مقدمات لڑنے والا وکیل اعلیٰ عدلیہ کا جج بنے۔
جماعت اسلامی نے ملک اور عوام کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت کو سامنے رکھ کر ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیا۔ آئین کی بالادستی، جمہوری آزادیاں، عوامی رائے کا احترام، انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول، خواتین، نوجوانوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق، بین الاقوامی اداروں کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے آزادی اس ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی، فلسطین و کشمیر کی آزادی اس کی اہم بنیاد ہے۔
اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بےرحمانہ کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ بجلی گیس کے بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسوں اور بڑھتی مہنگائی وبےروزگاری کےخلاف نہ کوئی کھڑا ہو رہا ہے اور نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے۔
جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں ۱۴ روزہ دھرنا دیا،اور پھر ۲۸؍ اگست کو پاکستان بھر میں ہڑتال کی تاکہ اس مسئلے پر قومی دُکھ اور درد کو قومی مطالبے کی شکل میں حکمران طبقوں کے سامنے اُٹھایا جاسکے۔ اس طرح جماعت اسلامی نے پوری قوم کو مجتمع کیا، شہریوں، تاجروں اورصنعت کاروں کی آواز بنی۔
اس تحریک کا مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھر حکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے۔ یہ اقلیت حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرےکومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جب کہ عوام کے پاس ظلم سہنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب لوگ اُٹھ کھڑے ہوںتو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے۔
بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسوں میں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس ، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججوں اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ___ ہماری ’حق دو تحریک‘ کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔
حکمران طبقوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہوں گی، فری پیٹرول، فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا، اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی، جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اُس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں، جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سیکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔
تماشا دیکھیے کہ ۲۰۱۸ء تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو مجرمانہ انداز سے ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوسکتی، مگر جماعت اسلامی کی مسلسل احتجاجی مہم کے نتیجے میں نہ صرف اب بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں ادائیگی وصول کرنے اور بجلی کا نرخ کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کچھ آئی پی پیز بند کردی گئی ہیں۔ کئی آئی پی پیز سے Take or Pay یعنی خرچ کے مطابق ادائیگی کے معاہدے ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت اہم اور بڑی پیش رفت ہے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جاتا ہے۔ باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔
عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کےلیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی انتخابات سر پر نہیں ہیں کہ ہماری اس مہم کو انتخابی عمل سے جوڑا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوںاور عہدوں کی تقسیم اور حاصل کرنے کا کوئی معاملہ ہے۔پُرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے اور عوام کو اس جدوجہد کا حصہ بنانا ہمارا ہدف ہے۔
آج ۷۷سال گزرنے کے بعدبھی یہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی تقریباً ۹لاکھ ملٹری و پیراملٹری فورسز وہاں موجود ہیں۔اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان وہاں شہید ہوئے، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عزت پامال ہوئی ، ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے، بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا گیا ، کاروبار اور املاک کو تباہ کیا گیا۔ ہزاروںلوگ جیلوں میں قیدہیں، ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔بےشمار کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو ئے ہیں۔
یہ سب کچھ اہل کشمیر کے حوصلے پست نہ کر سکا،تو ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے کےذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرکے وہاںپر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد دو سال سے زائد عرصہ تک وادیٔ کشمیرمسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی بندش کی زد میں رہی۔ اسےدنیا کے سب سے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیر سمیت بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھردی گئیں،جب کہ نمایاں سیاسی رہنماآج تک قید اور نظربند ہیں۔ اس طرح بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
جبر، تشدد اور خوف کےاس ماحول میں اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بھارتی فسطائیت کے سامنے جھکنے اور حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے سے انکار کیا ، اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ کانعرہ لگانے والے نوجوان پاکستانی بن کرزندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ایک صدی ہونے کو آئی ہے، اہل کشمیر تحریک ِآزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر صدمے کا باعث ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر مرکزی اہمیت کا مقام پاتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ایسے وقت میں، جب کہ بھارت میں ہندو نسل پرستانہ ذہنیت کی حکمرانی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ بھارتی وزرا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نریندرمودی کا لہجہ ہتک آمیز ، تکبر اور رعونت سے بھرا ہوا ہے۔بھارت نہ صرف مذاکرات سے انکاری ہے، بلکہ بلوچستان سے فاٹا تک پاکستان کے قومی وجود کو نقصان پہنچانے کےلیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان نے یک طرفہ طور پر ’کرتارپور کوریڈور‘ معاہدے کی اگلے پانچ برسوں کے لیے تجدید کر دی ہے، اور ہماری حکمران جماعت کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات، تجارت، محبت اور دوستی کی باتیںتسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ کشمیریوں کے خون اور قربانیوں کو نظرانداز کرکے تجارت کیونکر ہو سکتی ہے؟کشمیری شہید ہو رہے ہوں، تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اس پرقومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اسے نظرانداز اور کشمیریوں کی تمناؤں کا خون کرکے کسی کی ذاتی پسند کے تحت اگر معاملات آگے بڑھیں گے تو وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ’مسئلہ کشمیر‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل۔ یہ کشمیری عوام کا مطالبہ اور پاکستان کا اصولی موقف ہے۔ اس کے بغیر خطے میں نہ امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دوستی کا کوئی خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ اس پر معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اس کی پشت پر ہے، اور ہرطرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ظلم و ستم کو اُجاگر کیا جائے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اہل کشمیر حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
حماس کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انھیں یہ حق حاصل ہے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ پھر حماس محض مسلح جدوجہد کرنے والا گروہ نہیں ہے، بلکہ ایک جمہوری قوت ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے جب انتخابات منعقد ہوئے تو حماس نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسماعیل ہنیہ شہید وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل نے اپنے دوست مسلم ممالک سے مل کر حماس کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا۔اس سب کے باوجود مسلم حکمرا ن اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہے، اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس تمام تر جبر کے باوجود کہ ۴۵ ہزار سے زائد بچّے، بوڑھے، جوان، خواتین، خاندان کے خاندان شہید ہوچکے ہیں لیکن پوری قوم بحیثیت مجموعی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، دستبردار نہیں ہوں گے اور اسرائیل کا قبضہ تسلیم نہیں کریں گے اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔ عزیمت کی ایک تاریخ ہے جو اہل فلسطین رقم کر رہے ہیں!
اہل فلسطین اُمت مسلمہ اور دُنیا کے انصاف پسند لوگوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کاش! دُنیا کے حکمرانوں کی بے حسی ، انسانیت کا رُوپ دھار سکے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گزرنے کے نتیجے میں ملکِ عزیز ایک گہرے نظریاتی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ اس غیریقینی صورتِ حال میں نوجوان مروجہ جمہوریت سے بیزار ہو کر تبدیلی کے دیگر نظریات کو اپنانے پر غور کر رہے ہیں۔ معاشی پریشانی جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے اور بر سرِ اقتدار گروہ کی نا عاقبت اندیشی اور نا اہلیت کی اذیت ناک مثال ہے۔ ملک کے بعض ماہرینِ معاشیات کے مطابق صرف سات سال میں ہم اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ضرورت صرف پختہ عزم ،صیحح سمت کے تعین اور اخلاص و قربانی کے ساتھ حصولِ مقصد کی جدوجہد ہے۔ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صاحبِ اقتدار افراد، وہ دورِ فراعنہ کے ہوں یا دورِ جدید، ہمیشہ قوت کو ہر مسئلہ کا حل سمجھتے رہے ہیں اور تاریخی تجربات سے سبق لینے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے عروج و زوال کے جو قوانین پوری کائنات میں نافذ کیے ہیں ،انسان ان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر ایک جنگل میں شیر اپنی خونخواری کے خوف کی بنا پر بقیہ جانوروں کو خائف رکھ کر ان پر حکومت کرتا ہے، تو اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا اور ہرآہٹ پر انجانے خطرات اسے گھیرے رہتے ہیں۔
اس وقت سب سے اہم معاملہ قومی،ملکی اور علاقائی یک جہتی کا ہے۔ عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ ملک دشمن بیرونی عناصر ملک کے اندر محرومیت کا احساس رکھنے والے قائدین اور نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ان کے جذبات کی شدت میں جتنا ممکن ہو اضافہ کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اپنی طرف سے مکمل مادی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کا یقین دلا کر علیحدگی پسندی کی طرف دھکیل دینے میں لگے ہوتے ہیں۔ ملک کے بعض صوبوں کے مقامی قائد جو کل تک قومی مسائل کے حل کی امید رکھتے تھے،اپنی سخت نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے ملک چھوڑ کر جانے پر آمادہ ہیں، لیکن بلند ایوانوں کے مکین شیش محل کو آہنی قلعہ تصور کیے اپنی روش بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔
حال ہی میں بنگلہ دیش جن تکلیف دہ مراحل سے گزرا اور جس عظیم انسانی جانی قربانی کے بعد ان نوجوانوں نے جنھیں گذشتہ ۵۰ برس سے صرف پاکستان دشمنی کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ انھی نوجوانوں نے اس فرد کو جس نے بنگلہ دیش بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، اس کےمجسمے کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر اپنی سیاسی آزادی کا اعلان کیا ۔یہ تاریخ کا پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بھی ناانصافی، استحصال، جمہوری حقوق کی پامالی ،قید و بند اور قوت کے ذریعے اقتدار پر قائم رہنے کی کوشش کی جائے گی، اس کا رد عمل جلد یا بدیر سامنے آئے گا۔ اکثر ایسا رد عمل شدید اور خون آشام ہوتا ہے ، جس کے ممکنہ طور پر واقع ہونے سے برسراقتدارطبقہ ہمیشہ غافل رہتا ہے۔
سیاسی دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ قبل اس کے کہ صبر و برداشت کی حدیں پار کر کے عوام خصوصاً نوجوان ایک ناقابلِ واپسی مقام پر آ جائیں، ملکی سالمیت اور انسانی جان کے احترام کے پیش نظر مسائل کا حل غرور و تکبر کی جگہ گفت و شنید اور مفاہمت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب بھی ذاتی اَنا کسی معاملے میں آڑے آئے گی، حالات خراب سے خراب تر ہوں گے۔
نہ صرف نوجوان بلکہ عوام بھی آج گہری مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ مایوسی نہ صرف اُن نام نہاد نمائندوں سے ہے، جو انتخابات کے نتائج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غاصبانہ طور پر پارلیمان تک پہنچے، بلکہ یہ مایوسی نظام سے بھی ہے۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نہ صرف آج بلکہ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے تماشے سابقہ ممبران پارلیمان کرتے رہے ہیں۔ گویا جمہوریت کے نام پر ایک ڈراما جاری ہے،جس کے کردار ہر تھوڑے عرصے کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں ، یا وہی کردار دوسرا بھیس بدل کر چہروں کو رنگ اور روغن کے ذریعے تبدیل کر کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ نظام اور اداروں پر سے اس طرح اعتماد کا اٹھ جانا ملک وملت کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر پاسبان خود راہزن بن جائے تو پھر قانون اور عدل و انصاف کے خوب صورت تصورات بے معنی ہو جاتے ہیں اور ہر فرد اپنے آپ کو قانون کی قید سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کا عملی تجربہ اگر کرنا ہو تو اسلام آباد ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر کے کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہو کر مشاہدہ کیجیے کہ جب ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے صبر کرو اور دوسرے اطراف کی ٹریفک کو گزرنے دو۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھی کچھ افراد سرخ بتی کا احترام کیے بغیر اسے توڑتے ہوئے بغیر کسی احساسِ جرم کے اپنی گاڑیاں تیز رفتاری سے لے جاتے ہیں ، کیونکہ ان کی گاڑی اونچی اور زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کی تقلید میں بہت سے موٹر سائیکل سوار اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی اپنا حق سمجھتے ہوئے اشارہ توڑ کر گزر جاتی ہیں۔ اس روش کے نتیجے میں ہر مصروف سڑک اور چوراہا قانون شکنی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
ایک عام شہری میں جب قانون کے احترام کا جذبہ سرد پڑ جائے تو وہ ٹریفک کی سرخ بتی کی پروا نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں سڑکوں پر افراتفری ، اذیت انگیز بدنظمی پھیل جاتی ہے ۔ ایسے ہی کسی بھی ادارے کا سربراہ جب دستور کے احترام کے بجائے دستور شکنی کی روش اختیار کرتے ہوئے کبھی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع، کبھی غیر قانونی مراعات و مالی و دیگر مفادات کے حصول اور زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے کی ہوس کا شکار ہو کرآئین و قانون کی پابندی کی سرخ لکیر سے آگے نکلتا ہے، تو اس کے نتیجے میں اداروں کی سطح پر بد نظمی ، بے قاعدگی اور آئینی و دستوری افراتفری کی صورت حال جنم لیتی ہے ۔ جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ہماری قومی تاریخ ذاتی مفادات کے لیے بدترین آئین و قانون شکنی کے تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ملک بھی دو لخت ہوا اور عوام الناس کو بھی جان ومال کے بدترین نقصانات اٹھانے پڑے ۔آج بھی ملک کے اکثر حصے آئین اورقانون کے عدم احترم اور اداروں کی بے راہ روی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل اہلِ اقتدار اور اداروں کے ذمہ داروں کی بے حسی ، خود پرستی اور ملک و قوم سے کیے جانے والے آئینی حلف سے رُوگردانی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جب قوم جبرو نا انصافی اور اصحابِ اقتدار کی بے حسی اور قانون شکنی کو دیکھتی ہے، تو وہ بھی قاعدوں اور ضابطوں کی سرحدیں عبور کر جاتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا سیکھنا چاہیے اور ہر شہری میں قانون اور دستور کے احترام کا جذبہ ہمہ وقت زندہ رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ اور تعلیم دو ایسے ذرائع ہیں جو اس احساس کو جگانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قوم کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کے احترام کو بحال کیا جائے۔ بلاشبہہ معاشی پریشانی کے شکار افراد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کی پریشانی چاہے وہ بجلی کے بل کی بنا پر ہو، یا اشیائے خورد و نوش کی گرانی کی وجہ سے، یا اس معاشرتی بگاڑ کی بنا پر جس میں خاندان کے ادارے کو سخت دھچکا پہنچا ہےاوربے شمار خطرات کا سامنا ہے۔ملکی افراتفری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دفتری ، کاروباری اور ادارہ جاتی زبوں حالی اور تنزل اور عدم اطمینان کے نتیجے میں عوام کی گھریلو زندگی شدت سے متاثر ہو رہی ہے۔ قریبی رشتوں میں قربت کی جگہ کھنچاؤ اور بدگمانی سے رشتوں میں فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان تمام مسائل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت ریاست اور قوم کی اوّلین ترجیح جغرافیائی سالمیت ہونی چاہیے۔دو صوبے اور آزاد کشمیر جس کش مکش سے گزر رہے ہیں، شاید اربابِ اقتدار کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ یہی خام خیالی کی نفسیات ۱۹۷۰ء میں ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے سول اور فوجی حکمرانوں کو تھی۔ وہ مطمئن تھے کہ ملک میں سب چین ہی چین ہے۔ وہ دیوار پہ لکھی تحریر جانتے بوجھتے بھی نہیں پڑھنا چاہتے تھے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے سوئے رہے تھے، جس کا خمیازہ ملک کو دولخت ہونے، ہزاروں فوجیوں کی ہزیمت انگیز گرفتاری اور ہزاروں لوگوں کی جانوں کی قربانی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بدقسمتی سے آج پھر حکمران طبقہ کی جانب سے وہی تاریخ دوہرائی جار ہی ہے۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی اوّلین ترجیح ملکی سالمیت کو ہونا چاہیے۔ جس کے لیے سیاسی آزادیوں کی بحالی ،عوامی جذبات کا احترام اور سابقہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا تدارک کسی تاخیر کے بغیر ہونا ضروری ہے تاکہ مفاہمت کی فضا پیدا ہو سکے۔ ملکی سالمیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب محروم طبقات کو ان کا حق دیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔ تقریباً ۶۰ فی صد تعلیم کی عمر رکھنے والے بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ یہی حال دیگر تعلیمی سہولیات اور ضروریات کا ہے۔ اسکولوں میں پینے کا پانی، چار دیواری، کمرئہ جماعت، بیت الخلا کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ اور تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث پس ماندہ علاقوں کے عوام معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ معاشی طور پر جو امیدیں چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک)کے بننے سے وابستہ تھیں، وہ حکمران طبقہ کی ناعاقبت اندیشی اور چچا سام کی غلامی سے عملاً ناکام ہو چکی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ہم اپنے ہمدردوں کو بڑی مہارت سے اپنا مخالف بنانے کے عادی ہیں۔ افغانستان ہو یا چین، ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ وہ ہم سے بدگمان ہو کر ہمارے دشمن کو اپنا دوست بنانے پر آمادہ ہوں۔
انڈیا اور بعض دیگر ممالک بلوچستان کی صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر فوج جو آگے بڑھ کر محاذوں کی حفاظت کرنے کی عادی ہوتی ہے، وہ اپنے ہی ملک میں ، خود اپنے آپ کو ریت کی بوریوں کے پیچھے محفوظ بنانے میں لگی ہو، تو ملکی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟
ہر ادارے کو احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے کام کو ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہوگا، جب ہی ملکی سالمیت برقرار رہ سکتی ہے۔ عدلیہ کا کردار جس طرح مشتبہ بنانے میں خود عدلیہ نے کام کیا ہے،وہ ایک ناقابلِ یقین حقیقت ہے۔ کوئی ادارہ اپنا اتنا دشمن نہیں ہو سکتا، جتنا عدلیہ نے اپنے ساتھ کر کے دکھایا ہے۔ ملک کے قانون دانوں کا فرض ہے کہ وہ دستوری ذرائع سے عدلیہ کے احترام کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
۱- تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میثاق تحفظِ دستور اور جغرافیائی وحدت پر نہ صرف متفق ہو کر دستخط کریں بلکہ بلوچستان ، خیبر پختون خوا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جا کر عوام اور دانش وروں کے ساتھ براہِ راست تبادلۂ خیالات کے ذریعے صوبائی آزادی کی تحریک کی جگہ ملکی وحدت کے تصور کو حکمت کے ساتھ ذہنوں میں جاگزیں کریں ۔
۲- فوری طور پر گوادر کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات اور چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک) کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی اور معاشی اقدامات کیے جائیں، تاکہ گوادر منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کو روکا جا سکے ۔
۳- ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے سلسلے میں فوری مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جائے اور امریکی مفاد کی جگہ پاکستان کے مفاد کو اوّلیت دی جائے ۔
۴- تمام سیاسی کارکنوں کو جیلوں سے اور جنھیں جبری لاپتا یا اغوا کیا گیا ہے، اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، بصورت دیگر انھیں باعزّت طور پر رہا کیا جائے ۔
۵- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور میں وقتی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی تبدیلی کو برداشت نہ کیا جائے ۔
۶- ملکی معاشی پالیسی پر یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے وابستہ ماہرینِ معاشیات کو مدعو کرکے جامع مشاورتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ جس میں زراعت، پانی کے وسائل اور صنعتوں کے مسائل خصوصاًفیصل آباد اور سیالکوٹ کی مقامی صنعتی پہچان کو بحال کیا جائے۔ زرعی زمینوں کو رہائشی سہولیات میں تبدیل کرنے کو سخت قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے، اور جو زرعی زمین گذشتہ تین برسوں میں رہائشی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی ہے، اس میں زراعت کے نظام کو بحال کیا جائے ۔
۷- تعلیمی زبوں حالی اور خصوصاً آئی ٹی کے ذریعے فاصلاتی نظامِ تعلیم اور براہِ راست تعلیم کو ملا کر تعلیم عام کرنے کے مشن کو عملی شکل دی جائے۔ اس میں اساتذہ اور طلبہ کو بطور رضاکار استعمال کیا جائے اور انھیں بغیر کسی معاشی معاوضہ کے بعض سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ یہ کام خوشی کے ساتھ کر سکیں ۔
انسان عموماًکسی عمل کے اچھے نتائج اور کامیابی کو اپنے زورِ بازو اور ہنر مندی کا نتیجہ سمجھتا ہےاور ناکامی کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تصور کرتے ہوئے صبر کی طرف مائل ہوتا ہے ، جب کہ قرآن کریم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے رحم و کرم اور انسان کی بھلائی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت کو اپنے اوپر فرض کر چکا ہے۔ چنانچہ خرابی ،ظلم و فساد اور غارت گری کے واقع ہونے میں بنیادی طور پر انسان کی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا دخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں یہ قیمتی اصول بیان کیا ہے:
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۳۰) تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔
یہ اس لیے کہ ربِّ کریم نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا ۔ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا اور ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں ؎
کرم ہی سے تیرے پھولوں سے دامن بھر گیا میرا
کرم ہی سے تیرے کچھ اور گنجائش نکل آئی
اس لیے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی، قید و بند اور تعذیب، پکڑ دھکڑ اور زباں بندی اور افواہ سازی کا دور دورہ ہو اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں اور حق و انصاف کے لیے نکلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو صرف ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفس کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ظلم کے غالب آنے میں خود مظلوموں کی اپنی کوتاہی و پسپائی کا کتنا دخل ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر شہادت حق اور امر بالمعروف کا فریضہ مؤثرانداز میں ادا نہ کیا جائے تو معاشرے میں جو اخلاقی خلا پیدا ہو گا، اسے ابلیسی قوتیں ہی پُر کریں گی۔ گویا استقامت سے ہٹ کر اپنے فرائض و واجبات کو ادا نہ کرنا فطری طور پر ظلم اور نا انصافی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، کیوں کہ ابلیسی قوتیں ہمیشہ اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کہیں سے کوئی خلا ملے اور وہ اس میں گھس کر ظلم و فساد برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے برعکس اگر غیر متزلزل طور پر استقامت کے ساتھ حق کی شہادت ادا کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ، جبر اور مکر کی تمام چالیں آخر کار ناکام ہو جاتی ہیں اور اللہ ربّ العزت کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے: وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۵۴ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے‘‘۔
ملک عزیز میں ایک عرصہ سے یہ ایک علمی بحث کی جا رہی ہے کہ ایک عادل ڈکٹیٹر اور عوام کے ایک منتخب کردہ لیکن بد عنوان شخص دونوں میں افضل کون ہے؟اول الذکر کا نقص مطلق العنان ہونا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے ،جب کہ آخر الذکر کو اگرچہ نام نہاد لبرل جمہوری انتخابات میں کامیابی ہوئی ہے لیکن وہ بدعنوانی کے لیے معروف ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد جمہوریت، اسلامی ریاست کی روح کے منافی ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ فوجی حکمران ہو یا ’عوامی ووٹ‘سے برسر ِاقتدار آنے والا سربراہ، ماضی میں دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی چیز میں کامیاب رہے ہیں، تو وہ مہنگائی،بے روزگاری ، عدم تحفظ کو بڑھانااور معاشرے میں ناانصافی اور ظلم کو فروغ دینا ہے۔ گویا اگر انتخاب کیا بھی جائے تو ایک طرف گڑھا ہے اور دوسری طرف کھائی۔
اس صورتِ حال میں کیا چوکیدار کی تبدیلی سے حالات میں بہتری ہوسکتی ہے ؟ کیا ایسے حالات میں نااُمید ہو کر ایک ہچکولے کھاتی کشتی کے بادبان سے ہاتھ کھینچ کر اسے ہوا اور پانی کی موجوں پر چھوڑ دیا جائے یا بادِ مخالف کو بادبان کا رُخ موڑ کر منزل کی طرف جانے کا ذریعہ بنایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر محب وطن کو درپیش ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کشتی کو ہوا اور موجوں پر چھوڑ دیا جائے ،جہاں اللہ کی مرضی ہو چلی جائے۔بعض سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کی روشنی میں جس میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایک دو منزلہ کشتی میں سفر کیا جا رہا ہو اور نچلی منزل والے پانی کے حصول کے لیے کشتی کے تلے میں سوراخ کر رہے ہوں اور اوپر کی منزل والے ، اگر انھیں اس کام سے نہ روکیں گے تو دونوں منزلوں والے کشتی کے ساتھ غرق ہوں گے۔اس لیے ان ناسمجھ افراد کو سوراخ کرنے سے روکنا دوسروں پر فرض ہوگا۔
اس حدیث میں یہ سبق ہے کہ تماش بین بن کر کشتی کو ناسمجھ لوگوں کے حوالے کر دینا دین کے منشا کے منافی ہے۔جس کشتی میں آج پاکستانی قوم سوار ہے، اس پر جن ملاحوں کا قبضہ ہے وہ خود ہی کشتی میں سوراخ کرنے میں لگے ہیں۔اس وقت اس بحث سے قطع نظر کہ کشتی لکڑی سے بنی ہے یا لوہے سے، پہلے کشتی کو ڈوبنے سے بچانا عقلی تقاضا ہے۔اس کے بعد یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کشتی کی ساخت میں کیا تبدیلی کی جائے اور اسے کس طرح مکمل طور پر اسلام کے ابدی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے؟
اس سوال کا آسان اور مختصر جواب جس کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہے کہ اصل حل تو یہی ہے کہ اسلام کے دیے ہوئے جامع اور کامل نظامِ حیات کو نافذ کیا جائے، کیونکہ ربِّ کریم نے اس نظام کو بھلائی اور نیکیوں کی بنیاد پر عدل اور حق کے تقاضوں کے پیش نظر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مدینہ کی فلاحی ریاست کی شکل میں جاری کروا کر اس کی عملیت اور جامعیت کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ۔ لیکن کیا یہ نفاذِ نظامِ اسلامی صرف نیک خواہشات اور مطالبات کے ذریعے ہو جائے گا؟ یا پھر اس کے لیے پہلے قوم کو اپنے نصب العین کا واضح تعین کرنے کے ساتھ ،حصول نصب العین کے لیے بنیادی ایمانی ،انسانی اور مادی وسائل کی تیاری اور فراہمی اور ماحول کی سازگاری کو واضح حکمت عملی اورمستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی؟ایسے افرادِ کار تیار کرنے ہوں گے جو بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ اپنی ہرشے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لگانے پر آمادہ ہوں۔ تحریک اسلامی نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو راستہ سوچ سمجھ کر منتخب کیا ہے وہ اقامت دین کے ذریعے اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام کا واضح نقشہ ہے۔ یہاں یہ بحث لا حاصل ہے کہ پہلے اوپر سے نظام تبدیل ہو یا مضبوط بنیادوں پر ایک ایک اینٹ رکھ کر حصولِ مقصد کی جدوجہد اختیار کی جائے، یا بیک وقت دونوں کام کیے جائیں؟
حصول مقصد کے لیے تدبیر اور حکمت عملی جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بنے گی، کامیابی نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس کی بنیاد صرف قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔کامیابی کا انحصار نصب العین کے واضح ہونے کے ساتھ صحیح اور بروقت حکمت عملی کے اختیار کرنے پر ہے۔ نظامِ ظلم کی جگہ نظامِ عدل کا قیام استقامت ،صبر اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے ساتھ مشروط ہے۔
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے عوام الناس کے ذہنوں سے شریعت کے بارے میں ایک بے بنیاد اور منتشر الخیال تصورِ شریعت کو دُور کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ان کے ذہن میں شریعت کے نفاذ کا مفہوم واضح شکل اختیار کر سکےاور وہ ایک روایتی اور محدود تصورِ شریعت سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس گئے گزرے ماحول میں بھی ایک پڑھا لکھا شہری ہو یا ایک دیہاتی، اگر اس سے پوچھا جائے کہ جس اخلاقی ،معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران میں ملک و ملت مبتلا ہیں اس سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے؟تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ اس کا حل نہ سرمایہ دارانہ معیشت و سیاست میں ہے ، نہ اشتراکی تصورِ حیات میں ، دنیا ان دونوں نظاموں کے تباہ کن نتائج کو بھگت رہی ہے ۔ دونوں نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لادینیت مشرق و مغرب میں کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکی ۔ اس لیے اسلام کے عالم گیر اور آزمودہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ لیکن اگر اگلا سوال یہ کیا جائے کہ شریعت کے نفاذ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ عموماً جواب ملتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا اور کسی کو بدنام کرنے والے یا افواہ سازی کرنے والے کو کوڑے مارنے اور کسی اخلاقی مجرم کو سنگسار کرنے کا نام شریعت کا نفاذ ہے ۔ اگر مزید سوال کیا جائے کہ کیا صرف ان سزاؤں کے نفاذ سے نظام میں اصلاح ہو جائے گی؟ تو عموما ًیہی کہا جاتا ہے کہ آخر دورِخلافت میں شریعت کے نفاذ نے امن و امان ،تحفظ اور معاشی خوش حالی دی تھی ،اس لیے آج بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ہمارے خیال میں اس میں مزید گہرائی میں جا کر عقلی دلائل کے ساتھ شریعت کے مجموعی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تحریک اسلامی تبدیلیٔ نظام کو اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ گویا نہ صرف قانون بلکہ تمام ریاستی نظام کو وہ تعلیم ہو یا معیشت و سیاست اور ثقافت، ہر شعبہ کو اسلامی اخلاقی اصولوں کا تابع کیا جانا شریعت کا نفاذ ہے ۔لیکن عوام الناس کا تصورِ نفاذِ شریعت اور تحریک اسلامی کا تصورِ نفاذِ شریعت عملاً ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جس کی بنا پر ایک وسیع ابلاغی خلا مستقلاً موجود رہتاہے اور اس فرق کو دُور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔کسی بھی مسلم ملک میں عوامی رائے معلوم کی جائے تو نفاذِ شریعت کا مطلب حدود کا نفاذ ہی لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کے نعرے کے تحت حدود آرڈیننس جاری کر کے یہ تصور دیا گیا کہ ایک فوجی حکومت نے عوامی خواہش کے احترام میں یہ اقدام اٹھایا ہے۔
اس تصورِ نفاذِ شریعت نے نہ صرف اسلام کے سیاسی استعمال کے تصور کو فروغ دیا بلکہ وسیع پیمانے پر اسلامی شریعت اور حدود کے نفاذ کے نعرے کو یکساں تصور کیا جانے لگا۔ساتھ ہی ملک کے لبرل ابلاغ عامہ اور بیرونی برقی ابلاغ خصوصاً بی بی سی نے دستاویزی فلمیں بنا کر یہ تاثر گہرا کردیا کہ خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا،گھر میں قید کرنا اور اخلاقی جرائم کی سزا میں کوڑے مارنا اورچادر سے ڈھانک کر کلاشن کوف سے گولی مارنے اور سنگسار کرنے کا نام ہی نفاذِ شریعت ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک جانب اسلامی حدود کے نفاذ کو سفاکیت قرار دے کر اسلام دشمنی کی گئی اور دوسری جانب حدود کا نشانہ خواتین کو بنا کر عالم گیر پیمانہ پر مسلم دنیا میں خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویے کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا،جو شریعت کے بنیادی مقصد سے عدم آگاہی کا واضح ثبوت ہے۔اس تصورِ شریعت کو مغربی ابلاغ عامہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دل کھول کر اس کی تشہیر کی گئی، حتیٰ کہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں بھی نفاذشریعت کا خوف دل و دماغ میں سرایت کر گیا۔تحریک اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے رکھے اور اہل علم کے ذریعے پورے ملک میں سیمیناروں اور سماجی مجلسوں اور علمی نشستوں کے ذریعے نفاذِ اسلام کی مثبت اور جامع تصویر کو ذہنوں میں واضح کرے۔
دوسرے الفاظ میں نفاذِ شریعت کے مغربی ابلاغ عامہ کے قائم کردہ مسخ شدہ تصور کی جگہ قرآن و سنت پر مبنی مثبت اور تعمیری تصور کو ہر سطح پر آسان زبان میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ًشریعت کے سات معروف مقاصد یعنی lتوحید l عدل l حفظِ نفس l حفظِ دین l حفظِ عقل lحفظِ نسل اور lحفظِ مال ہیں۔
ان میں ایک سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے ۔ یعنی امن عامہ کی صورتِ حال کو اس درجہ بہتر بنا دیا جائے کہ گلیوں ، بازاروں اور گھروں میں ہر فرد محفوظ و مامون ہو ، کوئی کسی کو راہ چلتے گولی کا نشانہ نہ بنا سکے ۔ کوئی راہ چلتے کسی فرد یا کاروبار میں مصروف کسی تاجر کوا سلحے کی نوک پر لوٹنے کا تصور بھی نہ کر سکے ۔ خواتین ، بچے اور معاشرےکے ہر طبقےکی جان و مال اور عزّت و آبرو کو بھرپور ریاستی تحفظ حاصل ہو۔ اسلامی شریعت کے انسانی جان کو تحفظ دینے اور انسانی حقوق کے حوالے سے نفاذِ شریعت کا یہ پہلو آج اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمانوں کی نگاہ سے بھی اوجھل ہے۔اس کی جگہ نفاذِ شریعت کا تصور صرف پھانسی ، کوڑے اور سنگسار کرنے کے ساتھ وابستہ ہوکر رہ گیا ہے ۔
انسانی جان کے تحفظ کے مقصد ِشریعت پر اگر ایک اور پہلو سے نگاہ ڈالی جائے تو بات زیادہ آسان ہو جائے گی یعنی انسانی جان کا تحفظ اس وقت ممکن ہے، جب عوام کو غذا اور فضا میں جراثیم ، آلودگی اور ہر قسم کی ملاوٹ اورگندگی سے پاک، صاف و شفاف پانی، غذا اور ماحول فراہم کیا جائے ۔ گویا نفاذِ شریعت کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف شہروں میں بلکہ گاؤں اور قصبوں میں بھی آلائشوں اور گرد آلود پانی کی جگہ صاف پانی وہوا فراہم کی جائے، تاکہ عوام طرح طرح کی بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔ انسانی جان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب سڑکوں اور بازار میں جو انسان سانس لے رہے ہیں انھیں وہ ہوا میسرآئے جس میں کاربن اور دیگر گیسوں کی آمیزش اور مضر صحت اجزا موجود نہ ہوں۔ گویا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ شریعت کے نفاذکے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
انسانی جان اسی وقت محفوظ ہو سکتی ہے، جب زندگی بچانے والی معیاری اور اصلی ادویات عوام کو مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں ۔ جعلی ادویات کی تیاری اور ان کی بازار میں فراہمی اور فروخت پر سخت پابندی ہو، چنانچہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف قانونی کاروائی مقاصد شریعت کا ایک لازمہ ہے ۔ گویا شریعت نافذ ہو گی تو سرکاری اداروں کو پوری قوت سے جعل سازوں کو نہ صرف جعلی ادویات کی تیاری سے روکنا ہو گا بلکہ اگر کوئی فرد یا ادارہ یا گروہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث پایا جائے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں ایسے جعل ساز دشمنوں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اس پہلو پر اگر درست طور پر عمل نہ کیا جارہا ہواور جعلی ادویات کی تیاری و فروخت کی آزادی ہو،تو اس کا مطلب ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد چاہے کتنی ہی بڑھ جائے ، اس کے باوجود شریعت نافذ نہیں ہوئی ۔انسانی جان کے تحفظ کے اصول اور مقصد کے جامع مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر شہری کو اس کی جسمانی ضرورت کے لحاظ سے نہ صرف معیاری غذا، شفاف پانی، معیاری ادویات اور آلودگی سے پاک ہوا کی فراہمی ممکن بنائی جائے بلکہ اس کی دیگر بنیادی ضروریات کو بھی ریاستی نگرانی میں پورا کیا جائے ۔
انسانی جان کے تحفظ کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کو دھوپ ،گرمی ،سردی، بارش اور دیگر ماحولیاتی خطرات سے سے محفوظ رکھنے کے لیے لباس اور سر چھپانے کے لیے گھر میسر ہو۔ اس کے ساتھ انسان کی بنیادی ضرورت یہ علم ہے کہ کس چیز میں خیر ہے اور کس میں شرہے، کیا چیز حلال ہے اورکیا حرام ؟کیونکہ شریعت کا معروف اصول ہے کہ حلال اور طیب طور طریقے زندگی کو ترقی دیتے ہیں اور حرام اور خبیث اطوار زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تباہ کرتے ہیں۔ گویا انسانوں کو معروف و منکر کی تعلیم فراہم کرنا ، حق و صداقت سے آگاہ کرنا ، فسق و فجور کے تباہ کن اثرات سے خبردار کرنے کا نام نفاذِ شریعت ہے۔
ایک ریاست پانی ،غذا، مکان، کاروبار، خاندانی زندگی فراہم کر دے لیکن یہ نہ بتائے کہ کیا چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز یا حلال اور کیا حرام ہے تو جان کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا محض روٹی، کپڑا اور مکان دینا اور حلال و حرام ذرائع معیشت ، سیاست ، معاشرت اور ثقافت پر توجہ نہ دینے کا نام نفاذِ شریعت ہے؟ گویا جس شریعت کا نفاذ تحریک اسلامی چاہتی ہے، وہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے اصولوں اور مقاصد کے مجموعے اور کُلی نفاذِ قرآن و سنت کا نام ہے۔ یہ صرف حدود کے نافذکرنے کا نام نہیں ہے، حدود اسلام کے وسیع تر نظام کا ایک جزو ہیں، لیکن کُل نہیں ہیں۔
ہم نے شریعت کےسات بنیادی مقاصدیعنی توحید، عدل ،حفظ نفس، حفظ عقل،حفظ دین، حفظ نسل اور حفظ مال میں سےصرف ایک مقصد اور اصول کو عام فہم مثالوں کے ذریعے ایک عام شہری کے لیے واضح کرنے کوشش کی ہے، بقیہ چھ مقاصد اور اصولوں میں سے ہر ایک وضاحت کا مستحق ہے۔ فی الوقت صرف ایک کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ افراد کا شرعی سزاؤں کے پہلو کو مبالغہ آمیز حد تک ڈرامائی انداز میں بیان کرنے کا مقصد نفاذِ شریعت کے ان پہلوؤں پر پردہ ڈالنا رہا ہے، جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔
آغاز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک میں اصلاح کے تناظر میں اکثر کہا جاتا ہےکہ ایک عادل ڈکٹیٹر یا ایک ظالم عوامی منتخب کردہ نمائندہ میں سے بہتر کون ہو گا ؟
حالانکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ دو برائیوں میں کم تر برائی کی جگہ وہ کون سی صفات ہیں، جن کے حامل افراد کو قیادت پر لایا جائے؟ گویا اصل حل دو برائیوں میں سے ایک کو اپنے اوپر مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام ہے۔ جس کے لیے تین بنیادی وسائل ضروری ہیں: lایمان l انسانِ مطلوب اور lماحولیاتی وسائل کی مناسب منصوبہ بندی۔ ان وسائل کی تیاری اور فراہمی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ یہ کام صبر آزما اور مستقل مزاجی کے ساتھ جذبات و احساسات پر قابو رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ وقتی مسائل میں اُلجھ کر یہ کام نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ترجیحات کا تعین اور حد بندی لازمی ہے۔ نیکی کا فروغ اور غلبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا کردار و عمل اس کے عقیدہ اور دعوت کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہو۔ وہ بات کہنا جس پر ایک شخص خود عمل نہ کرر ہا ہو ، قرآن پاک کی نگاہ میں فسق ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔
اصلاحِ حال صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے اس عام فہم تصور کو ہرباشعور شہری کے ذہن نشین کرا دیا جائے تاکہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ نفاذِ شریعت اور اقامت دین کی جدوجہد میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو اور ہر بستی اور وادی میں نیکی ،خیر ،فلاح اور سعادت کا پرچم لہرائے ۔تحریک اسلامی جب اقامت دین کی بات کرتی ہے تو اولاً اس کی مراد اصلاحِ عقیدہ یعنی زندگی میں توحید کے اثرات کا ظاہر ہونا ہے۔اگر زبان سے تو لا الٰہ الااللہ کہا لیکن تمام اُمیدیں بیرونی قرضہ جات سے وابستہ ہیں اور ا سے رزق دینے والا تسلیم کیا جا رہا ہے، تو یہ عقیدۂ توحید کے منافی عمل ہے۔تحریک کی پہلی ترجیح اپنے کارکنوں اور تمام انسانوں کے عقیدہ کی اصلاح ہے اور اصلاح کی روشنی میں معیشت اور سیاست کے دیوتائوں کی جگہ اللہ ربّ العالمین کی حاکمیت کا نفاذ ہے۔
جہاں تک سوال قیادت کا ہے ، یعنی موروثی سیاست اور قوت کے استعمال سے اداروں پر قبضہ کرنے والوں میں سے ایک کا انتخاب، تو دونوں طریقے مقاصد شریعت کے منافی ہیں۔ قرآن و سنت کسی فوجی یا غیر فوجی یا پارلیمانی آمر کو حاکمیت کا حق نہیں دیتے۔ اس کے مقابلے میں بغیر کسی دباؤ کے آزادی کے ساتھ ایک امانت دار، متقی، صاحب ِعلم و عمل اور دینی فراست اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے فرد کو عوامی انتخاب کے ذریعے ذمہ داری سونپنے کا نام نفاذِ شریعت کی سمت ایک سفر ہے ۔اسلام نے اس بات کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ قرآن و سنت کی جانب سے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اپنی امانتیں، امانت دار افراد کے سپرد کرو کیوں کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو فتنہ و فساد، ظلم اور استحصال کا ہونا فطری امر ہے۔
اگر ایک دیہاتی سے بھی یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر ہم نے ایک شخص کو پانچ سال دن رات طبّ کی تعلیم و تربیت دے کراسے سکھایا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح انھیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے؟ پھر کم از کم دو سال کسی ہسپتال میں مصروف رکھ کر عملا ًمریضوں کے مسائل کو سمجھنااور ان کا حل کرنا سکھایا ہے۔لیکن اگر اس سات سالہ تعلیم و تربیت کے بعد ہم اسے فوج کے سربراہ کے طور پر مقرر کر دیں تو کیا ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اسے سمجھ داری قرار دے گا ؟اور سمجھے گا کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاعی خطرات کو سمجھ کر ملک کا دفاع کیسے کرسکے گا؟ اسی طرح اگر ایک شہری کو جس نے کبھی بندوق بھی نہ چلائی ہو مسلح افواج کا سربراہ بنا دیا جائے تو کیا وہ سرحدوں کا دفاع کر سکے گا؟ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
قرآن و سنت کا دو ٹوک فیصaلہ ہے کہ مطلوبہ صلاحیت اور صفات کے بغیر کسی کا حاکم مقرر کیا جانا یا خود حاکم بن جانا امانت کے منافی اور خیانت ہے۔ اس لیے گڑھےاور کھائی میں سے کسی ایک کے انتخاب کی جگہ دین کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اہلیت، امانت، علم و سیرت و کردار والے فرد ہی کو ملکی قیادت سپرد کرنا دین اسلام کا تقاضا ہے ۔
دین کو اس کے بھیجنے والے نے خود آسان بنا کر بھیجا ہے۔ اس کو بلا وجہ فلسفیانہ اُلجھاؤ میں ڈال کر مشکل بنانا دین کے مقصد اور مدعا کے خلاف ہے۔ ’قیادت کا مستحق کون ہے؟‘ جیسا سوال قرآن نے ایک لفظ سے حل کر دیا ہے کہ اس کا اہل ہونا شرط ہے( امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو)، اور جو اہل نہ ہو اس کا کسی ذمہ داری کو قبول کر لینا یا اسے ذمہ داری سپرد کرنا دونوں اسلام سے واضح انحراف ہے۔ جب بھی دین سے انحراف کیا جائے گا نتائج منفی اور نقصان دہ ہوں گے اور جب قرآن کی ہدایت پر عمل ہوگا اور قیادت اہلیت رکھنے والے افراد کو جو اللہ کے خوف، سیرت و کردار کے لحاظ سے صرف اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں ، وہ خود عہدے کے طالب نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے عدل، سکون ،تحفظ اور ترقی قوم کا مقدر ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے عالمگیر اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے اور ان کے مملکت میں نفاذ کا نام شریعت کی حکومت ہے۔مسلمان مفکرین اور فقہاء نے بادشاہت اور آمریت دونوں کو یکساں برائی قرار دے کر صرف کراہت کے ساتھ، فتنہ اور فساد سے تحفظ کی حد تک گوارا کیا ہے۔
تحریکاتِ اسلامی دعوتی، اصلاحی اور اجتہادی تحریکات ہونے کے سبب عسکری قوت کی جگہ قوتِ ایمانی اور کردار اور سیرت کی تعمیر کے ذریعے وہ تبدیلی لانا چاہتی ہیں، جو اندر سے ہو، دیرپا ہو اور دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے۔یہ عام انقلابی تحریکات کی طرح محض قوت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتیں۔ اس بنا پر ان کے اہداف طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ فوری تبدیلی کی جگہ بتدریج تبدیلی ان کا شعار ہے۔ یہی چیز پروگرام، اہداف اور حکمت عملی پر غالب رہنی چاہیے۔
بیسویں صدی کی مسلم دنیا میں مختلف محاذوں پر اہل علم نے جو کارنامے انجام دیئے، ان کی اہمیت کے پورے احساس کے ساتھ، ان تمام کوششوں میں برصغیر میں اُبھرنے والی فکری انقلابی تحریک جس کی قیادت علامہ اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جمال الدین افغانی(۱۸۳۸ء-۱۸۹۷ء)، محمد عبدہٗ (۱۸۴۹-۱۹۰۵ء)،امیر شکیب ارسلان (۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)اور سیّد احمد خان (۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء)نے اپنے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ،لیکن ان کے اثرات اپنے دائرہ کار تک محدود رہے۔
علامہ اقبال، حسن البنا اور سیّد مودودی کی اجتہادی فکر اور دعوتی قیادت نے دعوتِ فکر کوایک منظم عملی تحریک اور منصوبۂ اصلاح میں تبدیل کیا۔ جس کے اثرات ایشیا، یورپ، افریقہ، لاطینی امریکا اور شمالی امریکا وغیرہ میں نہ صرف رجالِ کار کی شکل میں بلکہ دعوتی اداروں اور تحریکات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ علّامہ اقبال، حسن البناء، سیّد قطب اور سیّد مودودی کی تحریریں دُنیا کی ۴۵ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر دُنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ یہاں پر ان تحریروں کے اثرات کا جائزہ مقصود نہیں ہے، بلکہ صرف یہ اشارہ کرنا ہے کہ ان کی فکر کے زیر اثر مسلم دنیا میں اسلامی احیاء کے کن زاویوں پر کام ہوا اور کن پر کام کی ضرورت ابھر کر سامنے آئی۔
مسلم دنیا میں کسی بھی احیائی کام کے لیے اس بات کی ضرورت تھی ،اور آج یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مغربی فکر کو جسے ’عالم گیریت‘ کے عنوان کے تحت بہت سلیقے اور چابک دستی کے ساتھ پوری مسلم دنیا میں نظامِ تعلیم، سیاسی اداروں، عدالتی نظام اور دفاعی نظام کے ذریعے مسلط کیا گیا اور نتیجتاًمسلم تہذیب اور مسلم معاشرت اس کا پہلا ہدف قرار پائے ۔ما بعد جدیدیت کے دور میں فکرِمودودی نے پہلا اہم کام الحاد، مادیت ،یورپی ثقافت کے عالم گیریت کے نام پر سامراجی حاکمیت کی شکل میں مسلم ممالک میں رائج کیے جانے کاتنقیدی محاکمہ کیا۔ پھر سرمایہ دارانہ ، ملحدانہ اور اشتراکیت پر مبنی تصورات کا علمی رَدّ کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات کو بطور بہتر اور اعلیٰ متبادل کے پیش کیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا میں ایک فکری انقلاب ،توحیدی فکر کی شکل میں مغرب کے پیدا کردہ عصری، معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کا متبادل حل پیش کرے۔ اس کا فکری معیار وہ ہو جو مغربی فکری سحر کو توڑ کر اسلامی فکر و تہذیب کے خط و خال کو عرق ریزی کے ساتھ پیش کرتا ہو۔
ڈھائی سو سال کی ذہنی ،سیاسی، ثقافتی اور صحافتی غلامی نے مسلم ممالک کی آبادیوں کے ذہنوں کو اس طرح یورپ کے فکری سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ آج ہر وہ قدر جو یورپی سند رکھتی ہو، عالمی طور پر ترقی کا پیمانہ سمجھی جاتی ہے۔ بڑی واضح مثال برطانیہ کے دو پیشہ ورانہ ادارے یعنی Times کی Ranking علمی درجہ بندی اور دوسرا Q.S (کوالٹی سسٹم)کی درجہ بندی ہیں ،جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عملاً ان تمام ممالک میں جن پر یورپی سامراج کے اثرات رہے ہیں اور ہیں، وہ ان کی جامعات کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اور یونی ورسٹیوں میں طالبانِ علم داخلہ لینے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔جو پیمانے انھوں نے بنا دیئے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی جامعہ ترقی کر رہی ہے اور کون سی جامعہ رُوبہ زوال ہے؟ ایسے ہی HDI (ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس)جو یہ طے کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کس معیار کی ہے اور خود انسان کتنے ترقی یافتہ ہیں؟ اس کا پیمانہ یہ ممالک اور ان کے دانش ور نہیں بلکہ مغرب طے کرتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگلی صدی میں جن ممالک اور قوموں کو زندہ رہنا ہے یا رہنے کا حق نظری طور پر ملنا چاہیے۔ ان کے ۱۷ معیارات SDG's (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز)بھی یورپ اور امریکا متعین کرتا ہے ۔جس کی بنیاد پرنہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا کے نظامِ تعلیم کو پڑھایا جائے گا ، خواتین کے حقوق کون سے ہوں گے؟ وہاں کا سیاسی نظام کس قسم کا ہو گا؟ غرض ان کی قومی ضروریا ت وہ ممالک نہیں بلکہ مغرب طے کر کے دیتا ہے اور ان ممالک کا کام صرف ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے تمام وسائل کا لگا دینا ہے۔
یہی شکل نام نہاد انسانی حقوق کی ہے ۔ انسانی یا حیوانی حقوق (ہم جنسیت کا ریاستی سطح پر جائز اور قابل قبول طرز عمل ہو نا)مغربی سامراجی ادارے طے کرتے ہیں ، چنانچہ ان SDG'sکا نعرہ بھی اقوام متحدہ کے نقارخانے میں گونجتا ہے۔ پھر مسلم ممالک میں ان کے زیراثر طاقت ور حلقے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ آیندہ ۲۰ یا ۳۰سال میں ہم ان تمام معیارات پر اپنے فکری آقاؤں کی خواہش کے مطابق عمل کرکے اباحیت، مادیت اورعریانیت کا نفاذ اور خاندانی نظام سے نجات حاصل کرنے کے بعد برضا و رغبت مغربی استحصالی ،معاشی اور سیاسی نظام کے جال میں مکمل طور پر پابند سلاسل ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ اس بات کو دُکھ کے ساتھ نہیں بلکہ فخر اور خوشی کے شادیانوں کے ساتھ سربراہانِ ممالک اور وزرائے بے اختیار اپنے بیانات میں پے درپے بیان فرماتے ہیں۔لیکن اللہ کی مشیت ان کے تمام منصوبوں سے بر تر ہے___ان شاء اللہ، مسلم ممالک کے باشعور نوجوان اس خواب کو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔
یہ وہ بنیادی کام ہے جس کے بغیر تمام سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس اور عوامی مقبولیت کے دعوے اور مظاہرے بے معنی ہیں۔ اسلام کا تصورِ علم وحی کی صداقت، کاملیت، عملیت اور عالم گیریت پر مبنی ہے۔ یہاں علم نہ محض تجرباتی ہے، نہ محض قیاسی، نہ محض استقرائی یا استخراجی ،اور نہ صرف حسی تجزیاتی یا وجدانی، بلکہ ان تمام معروف اور رائج ذرائع علم سے ماورا،صدق ،حق ،علم نافع اور معروف پر مبنی وہ علم ہے،جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد اور انسانی فطرت اور مقصد حیات اور مقاصد شریعت کی بنیاد پر اصلاح، ترقی اور سعادت و کامرانی کی ضمانت دیتا ہے۔
جب کہ مروجہ علم کی تقسیم یہ ہے کہ علم دنیاوی چیز ہے۔ چنانچہ انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر شعبہ ہائے علم دنیاوی سمجھے جاتے ہیں، جو روزی کمانے کے لیے ہیں۔ ان کے برعکس یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دینی علوم قرآن و حدیث، فقہ، کلام وغیرہ کا تعلق تو صرف روحانی بالیدگی کے لیے ہے۔ یہ ایک سخت غیر اسلامی تقسیم ہے جو مسلم دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔ وحی الٰہی قرآن کریم کی شکل میں ہو یا اس کی تطبیقی شکل میں سنت رسولؐ کی شکل میں ہو، ہر دو شکلوں میں زندگی کو غیر منقسم اور توحید کا مظہر تسلیم کرتی ہے۔ انسان کی معیشت ،معاشرت ،سیاست ،جنگ و جدل، کائینات میں تحقیق و جستجو ہرشے کو دین کا حصہ اور دین کی رہنمائی پر مبنی قرار دیتی ہے۔ وحی کی کاملیت، جامعیت اور عملیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ محراب و منبر تک محدود نہیں ہے بلکہ عدالتیں ہوں یا ایوان نمائندگان یا معاشی منڈیاں اور دانش وروں کے قیاسی محل، ہر انسانی سرگرمی کو وحی الٰہی کے مطابق تشکیل دینا اور اسلام کو ’نظریہ‘ کی جگہ ’نظام‘ سمجھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے فکر ،جان ، مال کو کھپا دینا ،علمِ نافع کے پیدا کرنے کے لیے تمام ذہنی قوتوں کو صرف کر دینا، دین کا مقصد و مدعا ہے۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کا تصور دراصل ایک سیکولر تصور ہے کیونکہ سیکولرزم آسان لفظوں میں Dualism یا ثنویت کا نام ہے کہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک خانہ مسجد اور کلیسا کا ہو، اور دوسرا خانہ مارکیٹ، سٹاک ایکسچینج اور پارلیمنٹ کا پھر ان دونوں کا کوئی اتحاد اور امتزاج نہ ہونے پائے۔ اسلامی یا اخلاقی علم اس دو عملی کو توحیدی نظام میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے علم کی تعریف اور علمِ نافع کا حصول اور معاشرے میں مختلف جہتوں میں عملی ترقی، جب تک توحید ی تصورِ علم کے مطابق نہیں ہوگی، نہ ہم ذہنی غلامی سے نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ کی حاکمیت تمام شعبوں پر قائم کر سکتے ہیں۔
مسلم دنیا کے مقتدر طبقے اسلام کو نظریہ تو مانتے ہیں، نظام نہیں مانتے۔ وہ حرم کعبہ کی طرف جاتے وقت اللہ اکبر، لا اِلٰہ اِلَّا اللہ اور لہ الحمد ولہ الملک کا اعلان تو بلند آواز میں کرتے ہیں، لیکن بادشاہتوں اور سودی تجارتی منڈیوں اور بنکوں کے بغیر زندگی کو نامکمل بھی سمجھتے ہیں۔اس لیے اسلام کو بطور نظامِ حیات سمجھنے اور کم از کم اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں نافذ کر کے اس کی عملیت کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف ایسی نوجوان نسل کرسکتی ہے، جس کے خون میں ایمان کی حرارت ہو اور نسل پرست سفید فام یورپی سامراجیت کی غلامی سے اس کا ذہن اور روح پاک ہو چکی ہو۔ الحمدللہ، آج ایسے سیکڑوں نہیں لاکھوں نوجوان مسلم اور غیر مسلم دنیا میں موجود ہیں، اور یہی اسلام کی نشاتِ ثانیہ یعنی زوال سے عظمت کی سمت کے سفر کا ذریعہ بنیں گے، ان شاءاللہ ۔
مسلم دنیا میں مساجد اس وقت سرکاری ،لادینی نظام یا نظام بادشاہی کی صدائے بازگشت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ملایشیا ہو یا ترکی یا کچھ اور، نام نہاد مسلم ممالک مطبوعہ سرکاری خطبہ جس میں آج تک سلطان کو ظلِ اللہ کا درجہ دیا گیا ہے،عوام الناس کے سامنے سنا دیا جاتا ہے۔ ان تمام مساجد میں حلقۂ غور و فکر قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ عوام میں بھی دین کے نظریے کی جگہ نظامِ تربیت ہونے کا تصور واضح کیا جا سکے اور زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے افرادی قوت کو فکری تطہیر و عملی تنظیم کے ذریعے یکجا کیا جائے ۔
عوامی اجتماعات اور ’عوامی قوت‘ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک نظریاتی تحریک اور ایک عوامی تحریک میں بنیادی فرق ہے۔تحریکات اسلامی کی اصل پہچان ان کی سیرت و کردار کی اثر انگیزی ہے، کثرت تعداد نہیں۔قرآن کریم نے ۲۰صابرین کو ۲۰۰ گمراہ افراد پر غالب قرار دیا ہے، یعنی اصل قوت تقویٰ، صبر، استقامت اور توکل علی اللہ کی ہے، عددی اکثریت کی نہیں۔اسلامی احیاء کے لیے اصول بھی قرآنی ہی ہوں گے۔ کسی مقام پر کسی سیاسی جماعت کے کامیاب ہو جانے سے ایک اصول وجود میں نہیں آتا۔ اصول و صداقت وہ ہے، جو قرآن و سنت کے نصوص پر مبنی ہو۔تحریکات اسلامی کو اپنی علمی ،سیرت و کردار اور عصری مسائل سے آگاہی کے ساتھ ان کے قابلِ عمل اسلامی حل انسانوں کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔
یہ کام محض دعوے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنا کر مالی وسائل فراہم کرنے اور افرادی وسائل کی تلاش و تیاری کی ضرورت ہے ۔ایسے افراد کار کی تیاری جو قرآن و سنت، فقہ اور جدید علمی رجحانات پر عبور رکھتے ہوں اوران میں تخلیقی صلاحیت ہو۔ جب تک ایسے افراد کی ایک جماعت زندگی کے ہر شعبے میں تیار نہ ہوجائے، تحریکات اسلامی مطلوبہ تبدیلی نہیں لاسکتی ہیں۔ خواہشوں سے زیادہ ٹھوس انسانی وسائل کی تیاری تحریکات کا ہدف ہونا چاہیے ۔ یہ کام وہی کرسکتے ہیں جو مستقلاًحصولِ علم اور تحقیق کے عادی ہوں۔شہرت کی جگہ گوشہ نشینی کے ساتھ اس علمی جہاد کے ذریعے معاشرے کے عام انسانوں کو اسلام کے عظیم پیغام کے عملی پہلو سے متعارف کرا سکتے ہوں۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ لادینیت اور مغربیت کے فروغ کے باوجود مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان میں دینی مدارس کے ذریعے تعلیم پانے والے مدرسہ کے مسلک سے وابستہ طلبہ غیرشعوری طور پر اپنے مسلک کو راجح اور دیگر مسالک کو مشتبہ تصور کر لیتے ہیں۔ یہ بنیادی کام ہے کہ دین کی اس وسعت کو جس میں شور یٰ کی فرضیت نے تبادلۂ خیالات،مشاورت، بحث و مباحثہ اور تقلید ِجامد کو توڑنے کی راہ پیدا کی ہے، اس کا شعور عام کیا جائے۔ اس بات کو آگے بڑھایا جائے کہ صرف قرآن و سنت کے براہِ راست فہم سے عصری مسائل پر اظہارِ خیال کیا جائے، تاکہ آہستہ آہستہ مسلکی ذہنی جمود سے نکالا جاسکے۔ درحقیقت ملت اسلامیہ کی بنیاد پر اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر اور غزہ اور فلسطین میں کوئی دشمنِ اسلام کسی کا مسلک نہیں پوچھتا ، صرف مسلمان ہونا اس کے شہید کیے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
یہ کام صرف تحریکات اسلامی ہی کر سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی اپنی جگہ فقہی رہنمائی حاصل کرنے کے باوجود، وسیع تر دائرے میں اپنے آپ کو اُمت سے وابستہ سمجھتے، قرار دیتے اور عملاً چل کر دکھاتے ہیں۔وہ نہ مولانا مودودی اور نہ شہید حسن البنا کو، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے مترادف قرار دیتی ہیں، اور نہ تحریکات اسلامی کے ان داعیوں نے اپنی رائے کو تحریک پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش یا مثال قائم کی ہے۔
دلوں کو جوڑے بغیر اور مسلکی فاصلوں کو کم کیے بغیر، کوئی اصلاحی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریکی افراد خود فقہ کا تقابلی مطالعہ اور خصوصا ً رواس قلعجی کی موسوعة فقہ الاسلامی جس کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے، اس کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تاکہ وہ توسیع فکر پیدا ہو جو تحریکات اسلامی کا خاصہ ہے ۔
تحریکات اسلامی کی نوجوان قیادت کو اپنے اپنے دائر کار سے نکل کر عالمی تناظر میں رُوبہ زوال مغربی تہذیب کا براہِ راست تحقیقی مطالعہ کرنا چاہیے اور اسلامی تحریکات کے آیندہ ۲۵برسوں میں جو فکری اور عملی تقاضے اور محاذ سامنے آنے والے ہیں ، خصوصاً برقی ابلاغ عامہ اور مصنوعی ذہانت (AI)کے کثرت سے استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے طریقِ دعوت، دعوتی مواد اور داعی کی مطلوبہ شخصیت و کردار کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔بعض عوامل مشترک ہیں اور بعض مخصوص ہیں، جو مشترک ہیں ان میں تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا اور ان کو تسلیم کرنا ہی تحریکی حکمت عملی کا مطالبہ ہے۔
مختلف مقامات پر حالات اور مقامی تناظر میں حکمت عملی کا فرق ایک فطری عمل ہے جسے نظر انداز کرنا بھولپن ہے۔ اس لیے ایک مقام کی حکمت عملی کو دوسری جگہ آنکھیں بند کرکے اختیار کرنا بھولپن ہی نہیں حماقت بھی ہوگا، ایسے بھولپن کی بنا پر خصوصاً نوجوان کارکن ، تیونس اور ترکی کی مثال بطورِ تقلید بغیر کسی تحقیقی مطالعے کے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ان خطوط پر کام کیا جائے تو تحریک جلد اپنا مقصد حاصل کر لے گی ۔ یہ تصور ، عقلی اور تحریکی دونوں زاویوں سے سخت نظرثانی کا مستحق ہے ۔ حقائق وہ نہیں ہیں، جو تخیل و تصور میں قیاس کرلیے گئے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ردعمل کی ذہنیت سے نکلنا اور جاہلیت کے منابع کو سمجھ کر ان سے خطاب کرنا ہوگا۔ اس طرح ایک صحت مند مکالمہ جو قرآنی مطالبہ ہے، انھی شرائط پر کرنا ہوگا۔ بعض مسلم ممالک نے مغرب کی نقالی میں جو کوششیں کی ہیں، وہ سخت معذرت پسندانہ رویے کی مظہر ہیں۔اسلام کے واضح اور ابدی اصولوں پر مبنی دینی، عملی، معاشرتی، معاشی، سیاسی مسائل کو مخاطب کرتے ہوئے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں بغیر کسی معذرت خواہی کے جہاد، خواتین کے حقوق ، جنسی بے راہ روی، اسلامی ریاست اور پاپائیت پر مبنی عیسائی تصور وغیرہ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ عالمی آبادی کا پھیلاؤ ، موسمی تغیرات، معاشی اور دفاعی حکمت عملی، مظلوم مسلم اقلیات اور مظلوم مسلم اکثریتی عوام کے مسائل پر زمینی حقائق کی روشنی میں تبادلۂ خیال کیا جائے تو نظر آئے گا کہ جتنی مسلم دنیا میں مسلم آبادی مظلوم اور بے بس ہے، شاید اس سے کچھ کم وہ ان نام نہاد جمہوری ممالک میں نہیں ہے جو اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اپنی نسلی قوم پرستی کی بنا پر وہ مغربی آٹھ بڑے قبیلے ہوں(گروپ آف جی ۸) یا ۲۲ ممالک کا اتحاد، دوسروں کو تو چھوڑیں ایک طرف، وہ خود اپنے عوام کو بھی حقوق دینے میں ناکام رہے ہیں جن پر دن رات تقاریر کی جاتی ہیں ۔اس مکالمے کے لیے تحقیقی مواد کی تیاری، موضوعات اور کس وقت کس موضوع کو اٹھایا جائے ،یہ سب کام غور وخوض کے بعد کرنے کی ضرورت ہے اور اس حکمت عملی کی تیاری میں مسلم ممالک کی تحریکی قیادت کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ پانچ عشروں میں بار بار اس عزم کے اظہار کے باوجود کے بس چند دنوں میں، ملّت کے مفاد کو پیش نظر رکھنے والا چینل وجود میں آجائے گا، آج تک اس کام کو ترجیح کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ آج کا دور بر قی ترسیل کا ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ ایک نہیں دس ایسے اداروں کی ضرورت ہے، جو اسلامی تہذیب و تمدن اور اس کے حرکی واطلاقی پہلو کی دعوت و فکر کے مختلف پہلوؤں کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ پیش کرسکیں۔ (کسی حد تک الجزیرہ کی مثال سامنے ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کس فکر کا نمایندہ ہے، اس نے اپنا ایک مقام پیشہ ورانہ حیثیت سے منوایا ہے)۔
پہلے ہی بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ اب مزید گنجایش نہیں ہے اور بغیر کسی تاخیر کے نہ صرف مستقل چینل بلکہ آن لائن بیسیوں چینل اور سوشل میڈیا پر متاثر کن پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس تعمیری فکر کو عمومی سطح پر نوجوانوں کے لیے ،بچوں کے لیے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے، خواتین کے لیے، تاجروں کے لیے اور دیگر پیشہ ورانہ افراد کے لیے ان کی ضرورت کے پیش نظر مرتب کر کے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ کام کسی بڑے سرمایے کا محتاج نہیں ،صرف ترجیح اور چند پُرعزم افراد کا اپنے کو اس کے لیے وقف کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکات اسلامی کو اپنی ترجیح میں اولین ترجیح، فکری تطہیر اور تحریکی فکر کے نمائندہ افراد کار کی تیاری کو رکھنا ہوگا۔ تحریک کو عوامی بنانے کی خواہش میں اس اوّلین ترجیح پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مغرب سے ہمارا مقابلہ محض معاشی اور مادی یا سائنسی تحقیقی میدان میں نہیں ہے، بلکہ اصل مقابلہ فکری، ثقافتی، معاشرتی اور خاندانی سطح پر ہے۔اس کے لیے تحقیق پر مبنی مطالعے کی مسلسل کاوشوں اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، جو تعلیم کو قرآ ن و سنت کی بنیاد پر ایک بالکل نئی متحرک شکل دے سکے۔
کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیار کیا جاتا ہے، اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں: ایک عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم از کم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم از کم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی مشکل سے دوڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ افراد جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، عیش و عشرت کی حدود کو بھی پار کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی مزید دولت کے حصول کی ہوس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ، بے روزگاری ، عدم تحفظ، گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل نہ ان کو نظر آتے ہیں اور نہ انھیں اس کی کوئی پریشانی ہوتی ہے۔
ملک کے معاشی عدم استحکام کا ایک بڑا بنیادی سبب سیاسی اور فیصلہ کن اداروں پر قابض افراد کا مالی وسائل کو قوم کی ترقی کی جگہ اپنی ذات کے لیے مصرف میں لانا ہے۔ اس سیاسی و معاشی دہشت گردی، بددیانتی، استحصال اور ظلم نے عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر غریب ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،بلکہ کئی غریب افریقی ممالک کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
اس معاشی لُوٹ مار میں نوکر شاہی کے ساتھ دیگر ادارے بھی یکساں شریک نظر آتے ہیں۔ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۴ءکے اخبار ایکسپریس ٹریبون کی اشاعت میں سائرہ سموں کے مضمون ’اندرونی دشمن‘کے مطابق ملکی معیشت کی بدحالی کا بڑا سبب اندرونی دشمن یعنی وہ ادارے ہیں جن کا کام معیشت ،صحت، دفاع، تعلیم اور عدل و انصاف کو شفا ف طور پر قائم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی باہمی رسّہ کشی کا شکار ہیں۔
حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی تاریخ رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باری کے دوران ملکی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے بجائے خسارے میں مزید اضافے کا کارنامہ انجام دیتی رہی ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں سالِ رواں کے مالی سال کے پہلے نو ماہ میں مالی خسارہ ۴ ہزار ۳۳۷؍ ارب روپے سے آگے نکل چکا ہے،جب کہ متوقع حکومتی آمدنی ۵ہزار ۳۱۳ ؍ ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ملک پر واجب الادا سود کی مد میں اس وقت تک قرض حاصل کی ہوئی رقم پر ۵ہزار ۵۱۷ ارب روپے لگے ہیں، جب کہ اصل قرض جوں کا توں برقرار ہے۔ ناکارہ حکومت کو چلانے کے لیے گذشتہ نو ماہ میں ۵۱۶ ارب روپے خرچ کیے گئے، وہیں حکومت کی جانب سے رعایت (سبسڈیز)دینے پر ۴۷۳؍ ارب روپے صرف ہوئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار کسی بھی ہوش مند شخص کے حواس گم کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن حکومت اور پارلیمان سے وابستہ افراد کی شاہ خرچیاں، دورے اور پُرتعیش گاڑیوں کی خریداری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔حکومت کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کسی سرکاری عہدے دار کو پریشان نہیں کر رہا۔ یہی شکل درآمدات اور برآمدات میں فرق کی ہے۔ اشیاء کی درآمد سے ملک کو ہر سال کم از کم ۱۲ سے ۱۴؍ ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے غیر ذمہ داری کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں ملک میں گندم کی اعلیٰ پیداوار کے باوجود ہم نے بیرون ملک سے گندم درآمد کی کہ چند افراد کمیشن بناسکیں۔
اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح۲۵ فی صد ہے اور ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجہ کے گھر میں بجلی، گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور ریاستی بینک (اسٹیٹ بینک) میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق نو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصہ بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے ،جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہراور شہر سے باہر سفر کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر گذشتہ تین برسوں کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا مقابلہ کیا جائے تو بجلی کا ایک یونٹ جو ۳۲ روپے کا تھا ،آج ۶۰ روپے کا ہے ۔ڈالر جو ۱۸۹روپے کا تھا،آج ۲۷۹روپے کا ہے۔ پٹرول جو ۱۵۰ روپے لیٹر تھا، آج ۳۰۰ روپے کی حد کو چھو رہا ہے ۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں ان کی تان ٹیکس میں اضافہ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہر دور میں حکومت نے سر جھکا کر انھیں قبول کیا اور قرض کے ساتھ ٹیکس میں اضافے کا براہِ راست اثر عام شہری پر ہی پڑا لیکن ملک میں بڑے تجارتی مراکز روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں اور وہ ٹیکس کی گرفت سے آزاد ہیں اورملکی معیشت کی موٹی مچھلیاں ہمیشہ کی طرح محفوظ ہیں ۔ آئی ایم ایف کی تاریخ بتلاتی ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے ذریعے اپنی معیشت کوآج تک مستحکم نہیں کیا اورخود انحصاری اختیارکرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اگر کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو صرف اور صرف قرض کے جال سے نکل کر اپنے اندرونی وسائل کے سہارے پیٹ کاٹ کر اخراجات میں کمی ، اپنی درآمدات میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو کاروبار میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر کے ہی کامیاب ہو سکاہے۔
جب تک حکومت ِپاکستان اپنے شاہانہ اخراجات کو کم نہیں کرے گی اور سرکاری افسران، ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے ممبران رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں کو کم اور مراعات کو ختم نہیں کریں گے ،کوئی بیرونی قرض ملکی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کا انتہائی فطری تعلق ہے۔ ۷۶ برس سے جو سیاسی جماعتیں باری باری ملکی وسائل کا استحصال کرتی رہی ہیں ،جب تک وہ اپنی فطرت کو نہیں بدلیں گی ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی ۔یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جاننے کے لیے کسی کا ماہرِ معاشیات ہونا شرط نہیں ہے۔
نو دولتی معاشروں میں نمود و نمائش اور چمک دمک مرکزی مقام حاصل کر لیتی ہے اور وہ افراد جو اپنے کاروبار میں کامیابی کے ساتھ نفع کماتے ہیں بجائے بچت اور اس کے بعد اس کے مناسب مصرف کے اپنی دولت کی نمائش کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔اس کا اظہار ان گاڑیوں کا شہر میں استعمال ہے جو صرف پیشہ وارانہ ریس ٹریک پر چلنے کے لیے بنتی ہیں۔ ایک جانب کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑیاں ہر شہر میں دندنا رہی ہیں ، دوسری طرف غربت اور بے روز گاری عروج پر ہے ۔ نمود و نمائش کی اس ذہنیت کو ختم کرنے اور اس دولت کو جو نمائش پر ضائع کی جا رہی ہے صحیح استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
یہ کام تنہا کوئی حکومتی حکم نامہ نہیں کر سکتا ،اس کے لیے ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر ایسے مباحثے منعقد کروانے کی ضرورت ہے جن میں ان طبقات کے افراد کو دعوت دی جائے اور اہل دانش ان سے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں سماجی رویوں کی تبدیلی کی طرف متوجہ کریں۔ مزید یہ کہ ایسی پُر تعیش اشیاء کی درآمد اور ان کے استعمال پرغیر معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔ بعض ممالک مثلاً سنگاپور میں ایک سے زائد گاڑی والوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنی پسند کی گاڑی صرف مخصوص دنوں میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔
ملکی معیشت کو تباہی کے قریب لانے میں ان تجارتی اداروں کا بھی بڑا دخل ہے جو حکومت کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کی۲۰۲۰- ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کی رُو سے اس عرصہ میں ان اداروں سے ۳۹۵ ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا،اس نوعیت کے ۲۵؍ اداروں میں مجموعی طور پر ۶۶۵ بلین اور ایسے ہی ۳۱ اداروں کو تقریباً ۳ بلین کا خسارہ ہوا۔صرف ان خساروں میں چلنے والے اداروں کو نفع بخش اداروں میں تبدیل کر لیا جائے تو معیشت کہیں سے کہیں جا سکتی ہے۔لیکن یہی وہ ادارے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کا مرکز ہیں جنھیں بغیر کسی فنی مہارت کے محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اداروں میں بھرتی کیا گیا ہے اور جو معاشی تباہی کا ایک سبب ہیں۔ضرورت سے زیادہ افراد کی بھرتی ، انتہائی کمزور اور نااہل قیادت نے ان اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے جو وسائل کھانے میں سب سے آگے ہیں اور پیداوار میں سب سے پیچھے ۔
ان اداروں میں سرفہرست ’پاکستان اسٹیل ملز‘ اور ’پی آئی اے‘ کا نام آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر انھیں سیاست کاروں کے تسلط سے نجات مل جائے اور یہ پیشہ ورانہ بنیاد پر کام کریں۔ ان کا اصل مسئلہ ضرورت سے دس گنا افراد کو سیاسی دباؤ سے ملازمت دینا ،جدید ٹکنالوجی کا استعمال نہ کرنا اور ان کے خساروں پر آنکھیں بند رکھنا ہے۔ اب وہی سیاست دان جنھوں نے اپنے پسندیدہ افراد بھرتی کر دیے ہیں اور جو انتظامی امور میں اعلیٰ ترین عہدوں تک نااہل افراد کو مقرر کرانے میں سرگرم رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اُونے پونے داموں ان اداروں کو کسی تیسرے فرد کے نام سے خرید کر اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرسکیں۔
قومی تجارتی اداروں کو اچھی انتظامیہ اور غیر سیاسی ماحول کے ذریعے تین برسوں میں نفع بخش بنایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے قوم اور ملک کے مفاد پر فوقیت اور مخلص اور پیشہ وارانہ قیادت کی ضرورت ہے ، جس کی کمی نہیں ہے لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا ہے ۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے نفع بخش اداروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی اور غیر ضروری افراد کو اداروں سے فارغ کر دیا جائے اور صرف اہلیت کی بنیاد پر تمام عہدوں پر تقرریاں ہوں۔
حکومت کی جانب سے معاشی ترقی سے لاپرواہی اور چلتے ہوئے اداروں کو زوال کی طرف دھکیلنے کا ظلم عرصہ سے جاری ہے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں کپڑوں کی رنگائی کی صنعت گذشتہ ۱۵ برسوں میں علاقہ میں پانی کی عدم فراہمی کی بنا پر بند ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے بعض ادارے کورنگی منتقل ہو گئے ،بعض نے بنگلہ دیش اور انڈیا میں سرمایہ کاری کر کے اپنا کاروبار وہاں منتقل کر دیا ۔لیکن سندھ کی انتظامیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک چلتی ہوئی صنعت کی ہمت افزائی کر سکے اور اس کی ضروریات کو پورا کرسکے۔یہ صرف ایک مثال ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب حکومتیں بھیک مانگ کر اپنی تنخواہوں کی ضمانت حاصل کرنے کی عادی ہو جائیں تو پھر ملک پر غربت اور بے روزگاری کا تسلط ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا ایک فریب یہ ہے کہ وہ ایک عام شہری کو ان تمام اشیاء کی خرید پر اُبھارتا ہے جو اس کی عمومی قوت خرید سے باہر ہوں اور اس غرض کے لیے وہ شیطان کی طرح اسے یقین دلاتا ہے کہ تم جو کچھ خریدنا چاہتے ہو وہ آنکھیں بند کر کے لے لو اور پھرقسطوں میں اس کی رقم ادا کر دینا۔صرف ہر قسط میں تھوڑی سی رقم ’حقِ خدمت‘ کے طور پر تم سے لے لی جائے گی ،جس کا صاف لفظوں میں نام سود ہے۔جو شخص ایک مرتبہ اس جھانسے میں آگیا وہ تمام عمر مقروض رہتا ہے اور ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے بمشکل سود کی رقم ادا کر پاتا ہے ،لیکن اصل قرض ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔
یہ عمل جہاں ایک فرد کے ساتھ ہوتا ہے ویسے ہی پوری قوم کے ساتھ حکومتی ادارے اس عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک یا ایشیائی بینک، ان سب کا کام یہی ہے کہ ملکی ترقی کے منصوبوں کے نام پر ان اداروں سے قرض لیا جاتا ہے ،اور پھر نہ کبھی وہ منصوبے پورے ہوتے ہیں اورنہ کبھی قوم قرض کے جال سے نکل پاتی ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آج تک اگر کسی بھی ملک نے قرض لیا تو معاشی ترقی تو ایک طرف وہ مسلسل اس قرض کی ادائیگی کے چکر میں سود در سود دینے کے بعد بھی مکمل معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ہماری کہانی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر ہمیں معاشی ترقی کرنی ہے تو اولین ترجیح عالمی اداروں کے قرض سے نجات ہے جو معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق ممکن ہے اور ایسے ممالک کی مثال موجود ہے جو قرض سے نکلے اور اس سے نجات پانے کے بعد خود انصاری کی راہ پر گامزن ہوئے ۔
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے ترقی(UNDP) کے انسانی ترقی کے پیمانے Human Development Index کے لحاظ سے ۱۹۲ ممالک میں پاکستان۱۶۴واں ملک ہے جسے’نچلی ترقی‘ کا ملک گردانا جاتا ہے۔ ایسے ہی عالمی ادارہ کے SDG کے ۱۶۹اہداف میں سے پاکستان حد سے حد ۳۵ کو پورا کر پایا ہے،گویا یہاں بھی پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ بیرونی ادارےاس کا ایک حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کوا عداد و شمار کی قید میں لایا جائے یعنی اسے ڈیجیٹلائز (digitize) کیا جائے تاکہ وہ بہت سے افراد جو حکومت کو کوئی ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان سے بھی مطلوبہ رقوم حاصل کی جا سکیں، لیکن اس تجویز سے صرف اس وقت فائدہ ہو سکتا ہے جب ملک کے بڑے تاجر اور خصوصاًزمیندار اپنی آمدنی پر عائد ٹیکس ادا کریں۔
المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ انھی افراد کے قبضے میں ہے، جو سب سے زیادہ ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں اور وہ ہر ایسے قانون کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جس سے ان کے ذاتی مفاد پر زد پڑتی ہو۔ جب تک ملک سے بڑی زمینداریاں ختم نہیں ہوں گی اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس کا پابند بنانےکے لیے سیاسی قوت استعمال نہیں کی جائے گی مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔
ملک کی زرعی پالیسی کو فوری طور پر منظم خطوط پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے زمین داروں سے ٹیکس حاصل کیا جا سکے، ساتھ ہی زراعت کو درپیش مسائل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سےقبل پنجاب کی زرعی زمینیں پورے ہندوستان کو گندم اور چاول فراہم کرتی تھیں ۔آج ہم اپنی ملکی ضروریات کے لیے بھی باہر سےاناج درآمد کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فصلیں اچھی ہو جائیں، تو کسان کو فائدہ پہنچانے کی جگہ گندم خریدنے میں بھی تردد کرتے ہیں اور ملکی دولت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتے ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی زبوں حالی کے اس طائرانہ جائزے کا مقصد نوجوانوں میں پہلے سے موجود تھکاوٹ ،مایوسی اور بے بسی میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن جب تک مرض کی نوعیت کا تعین نہ ہو علاج تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے چند تلخ حقائق کا جاننا مستقبل کے سنوارنے کے لیے ضروری تھا۔ اب ہم اختصار کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی طرف آتے ہیں۔
اگر کسی درخت کو دیمک لگ جائے تو محض اس کی شاخوں کی تراش خراش اور اس کے تنے پر دوا چھڑکنا کافی نہیں ہو سکتا، جب تک زمین کی گہرائی میں جا کر دیمک کو جڑ سے ختم نہ کیا جائے۔ جس معاشی نظام کی بنیاد ضرورت مند اور محنت کش کے استحصال پر ہو، جو ان ضرورت مندوں کے حقوق کو دن رات پامال کررہا ہو ۔ ایسے جابرانہ نظام میں چند جزوی تبدیلیاں ہو سکتا ہے وقتی طور پر چند افراد کو مطمئن کر دیں لیکن تبدیلیٔ نظام کے بغیر معاشی عدل و انصاف کا قیام ناممکن ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی جگہ اسلامی عادلانہ نظامِ معیشت کے نفاذ کی مہم چل رہی ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے فل بینچ نے حکومت وقت کو مقررہ مہلت میں سودی نظام کی جگہ اسلامی معیشت کے نفاذ کا پورا نقشہ بنا کر دیا ہے، جو صرف سیاسی قوت نافذہ کا منتظر ہے۔ تبدیلی کے آغاز کے لیے کسی توپ و تفنگ کی ضرورت نہیں ،جو مراحل سٹیٹ بینک کی مقررکردہ کمیٹی نے تجویز کیے ہیں، انھیں جب چاہیں عملی شکل دی جا سکتی ہے۔
ملک میں جامع معاشی ترقی کے منصوبہ کی تشکیل اور بہ تدریج نفاذ کے لیے اسلامی معیشت اور بینکاری کے ایک ورکنگ گروپ کو وقت کے تعین کے ساتھ یہ ہدف دیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے ملک کے چیمبرز آف کامرس کے تعاون سے دو ماہ میں ایک منصوبۂ عمل تیار کرے ،جسے پارلیمان کے ذریعے ملک میں عمل میں لایا جائے۔ معاشی ترقی سے مراد چند مراعات زدہ افراد کے مفاد کا تحفظ نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانہ پر ملک کے اندر تجارت، زراعت، پھلوں اور پھولوں کی مناسب ترقی کا منصوبہ ہے۔ دنیا کے کئی ممالک صرف زراعت اور پھلوں اور پھولوں کی برآمد کے ذریعے اپنی معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے چار موسم، زرخیز زمینیں اور وہ تمام وسائل دیے ہیں جو زراعت کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوںمیں پیداوار بڑھانے کے ذرائع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافہ کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کے برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کر سکیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بناپر بھاری مانگ موجود ہے ۔ایک عرصہ سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے ۔لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔ ملک کی صلاحیت کو بہت تنگ نظری کے ساتھ کم تر سمجھ لیا گیا ہے،جب کہ ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔
بیرونی سرمایہ صرف اس وقت ملک میں آتا ہے، جب ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ قانونی تحفظ اور شفافیت پائی جائے، معاہدوں کا احترام ہو اور بیرونی صارف کو مقامی قوانین میں سہولت ملے۔ لازمی طور پر کوئی سرمایہ کار بھی اپنے منافع پر سمجھوتہ نہیں کرتا ۔لیکن ملکی قانون نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی صارف کو بھی بغیر طویل کارروائیوں کے ملک میں تجارت کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں ایک ماہ کے عرصہ میں ایک بیرونی صارف اپنی کمپنی قائم کرکے کام کا آغاز کر سکتا ہے ۔پاکستان میں فرسودہ نظام اور برقی ذرائع کے استعمال نہ کرنے کی بنا پر اور رشوت اور ناجائز حصہ داری کے مطالبوں کے سبب بیرونی سرمایہ کار آتے ہوئے گھبراتا ہے۔زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صورتِ حال کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے، درمیانی اور بڑے کاروبار کو فروغ دیا جا سکے۔
ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اور کاروبار کرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں ۔اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے ۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھر تا ہے۔فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے ،جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔
ان صنعتوں میں کام کرنے والوں میں خواتین کے لیے خصوصاً ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ اپنے گھر سے صنعتی ترقی کے کاموں میں شرکت کر سکیں اور خاندان کا نظام متاثر نہ ہو اور ان کی صلاحیت کا استعمال بھی کیا جا سکے ۔عالمی طور پر ان صنعتوں میں بچوں کے حوالے سے جو پابندیاں ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنا وقار قائم رکھ سکیں۔
ملک کی معاشی ترقی خصوصاً طویل المیعاد ترقی میں یونی ورسٹیوں کا بنیادی کردار ابھی تک صحیح طور پر ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔یونی ورسٹیوں کے نصابات میں صنعتوں کے حوالے سے نظرثانی اور جدید آئی ٹی کے استعمال کے ساتھ ایجادات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک میں بہت سے فنی ادارے خود اپنی یونی ورسٹیاں قائم کرتے ہیں، مثلاً سام سنگ اور دیگر عالمی مصنوعات بنانے والے اداروں کی اپنی یونی ورسٹیاں ہیں، جو نہ صرف ان کی ضرورت بلکہ ان شعبوں میں اعلیٰ تحقیق کے ذریعے ان مشکلات کا حل نکالتی ہیں جو اس صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہوں۔ پاکستان میں ہماری معلومات کی حد تک کسی ایک دوا ساز کمپنی ،کپڑے کی صنعت اور دیگر شعبوں میں کاروبار کرنے والے بڑے اداروں نے آج تک اپنے شعبے میں تحقیق کے لیے تحقیقی کام پر توجہ نہیں دی۔ اس طرح نہ صرف عمومی تعلیم بلکہ ان شعبوں میں تربیت یافتہ افراد فراہم کیے جا سکتے ہیں، جو ملک اور ملک کے باہر hands on تربیت یافتہ ہوں اور محض نظری طور پر دوا سازی اور انتظامی امور وغیرہ سے واقف نہ ہوں بلکہ اپنے شعبے میں عملاً کام کر کے تجربہ کا سرٹیفکیٹ بھی رکھتے ہوں۔
ہر شعبۂ حیات اپنا ایک اخلاقی ضابطہ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہمارا دین جامع اور کامل ہونے کی بنا پر ایک ’دیانت دار تاجر‘ (honest trader)کے بارے میں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں اعلیٰ ترین درجات کا وعدہ فرماتا ہے اور ایسے تاجر کو انبیاؑ ،صلحا اور شہدا کے ساتھ حیاتِ اُخروی میں مقام دیتا ہے۔اس امر کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے منصوبہ میں اسلامی معاشی اخلاقیات کو نصابی وزن دیا جائے، تاکہ معاشرہ سرمایہ دارانہ ذہنیت سے محفوظ رہ سکے۔ ہرمعاشی ترقی اپنے ساتھ شیطان کی تیار کردہ پوری ایک فہرست لاتی ہے جو سرمایہ دار کو ایک خودغرض، نفع خور ،نفس پرست شخص میں تبدیل کر دیتی ہے ۔اسلامی معاشی اخلاقیات کی نہ صرف تعلیم بلکہ تجارتی اور زراعتی شعبوں میں ترویج اور اس کا اطلاق ہمارے معاشرے کو ایک عادلانہ، معاونت کرنے والا، ہمدردی اور غم خواری پر مبنی برادری میں تبدیل کر سکتا ہے، اور ان اخلاقیات سے لاپرواہی مغربی سرمایہ دارانہ ظالمانہ استحصالی نظام کے قریب لا سکتی ہے۔ ہماری معاشی ترقی اس وقت اللہ کو راضی کر سکتی ہے جس میں ہم اپنے دین پر مبنی اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں زراعت ہو یا صنعت، تعلیم ہو یا پیشہ ورانہ تربیت، ہر کام کو اس اخلاق کا پابند بنا لیں جو تمام انسانیت کے لیے فلاح اور ہماری آخرت میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
قرآن کریم کا ترقی کا پیمانہ ہر شعبۂ علم و عمل میں ماہرانہ مقام کا حصول ہے۔ انبیائے کرامؑ نے اقامت دین کے مجموعی تصور کے پیش نظر دعوتِ دین کے ساتھ مختلف شعبوں میں کارکردگی میں امتیاز حاصل کیا ۔حضرت داؤدؑ کا زرہ سازی میں کمال ،حضرت نوحؑ کا جہاز سازی میں مہارت، حضرت سلیمانؑ کا اُمورِ مملکت میں، جب کہ حضرت یوسفؑ کا منصوبہ بندی میں قائد ہونا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت ہو یا عدالت، ہر شعبہ میں اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا، نیز خود قرآن کریم نے یہ کہہ کرکہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم ۶۸:۴)آپؐ کے ماننے والوں کے لیے ایک زندہ مثال بیان کر دی کہ کسی بھی شعبۂ حیات میں کم تر درجہ ناقابلِ قبول ہے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اتقان اور حُسنِ کارکردگی ایمان کا تقاضا ہے۔آج بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ معرکۂ حق و باطل میں اپنے سے کئی گنا طاقت ور باطل کو اپنی قوتِ ایمانی سے زیر کرسکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال غزہ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی ہے۔