مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے کروڑوں انسانوں کو متأثرکیا ہے۔ لاکھوں گھر ڈھے گئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئیں، سیکڑوں پل بہ گئے اور کئی ہفتے کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے کوئی بھی سامان زیست استعمال کے قابل نہ رہا۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ چاروں اطراف سے پانی میں گھرے ہونے کے باوجود، جان بچانے کے لیے ایک گھونٹ بھی میسر نہیں۔ کئی کئی روز سے فاقوں کا سامنا ہے، اور چند ہفتے جاری رہنے والی تباہی کے اثرات کئی سال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لگتا ہے وہی امان پاگئے۔ پیچھے رہ جانے والے تو مسلسل کڑے امتحان کا سامنا کررہے ہیں۔ قیامت خیز تباہی کی ان گھڑیوں میں سب دنیاوی سہارے ناکارہ ہوگئے بس ایک در کھلا رہ گیا اور بس اسے ہی کھلا رہنا ہے ۔۔ الأمان الحفیظ ۔۔ یا حی یا قیوم برحمتک نستغیث۔

ساون کے دن شروع ہوئے تو لُو کے تھپیڑے سہنے والوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بادل  جھوم اُٹھے، ہریالی اور پھولوں کے رنگ نظروں میں لہلہانے لگے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں لوگوں نے کہا: ہٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف ۴۶:۲۴)’’یہ بادل ہمیں خوب سیراب کردیں گے‘‘۔ پھر اچانک وہی بادل اور بارشیں عذاب کا روپ دھار گئے۔ رسالت مآبؐ کے زمانے میں تیز ہوائیں چلتیں، بارشیں طوالت اختیار کرنے لگتیں تو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے تاب ہوجاتے اور انھیں یہ فکرمندی بے چین کر دیتی کہ رحمت کہیں زحمت میں نہ بدل دی جائے، فوراً اپنے رب کے سامنے جھک جاتے--- دُعائیں شروع کردیتے: پروردگار! ہم پر مزید مینہ نہ برسا۔ ہمارے اردگرد کھلے میدانوں پر، ٹیلوں پر، درختوں کے جھنڈ پر، چٹیل پہاڑوں اور جنگلوں پر بارش برسا۔ بادل گرجتے، بجلی کڑکتی تو فرماتے: اے اللہ! اپنے غضب سے ہمیں قتل نہ کردیجیے، اور نہ عذاب کے ذریعے ہلاک کیجیے، عذاب سے پہلے ہی ہمیں معاف فرمادیجیے ۔

آزمایش کا ضابطہ

شاید یہی رضاے رب قدیر ہے کہ بندے آزمایش کی وجہ ہی سے رب کی رحمت کی طرف لوٹ آئیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (الانعام ۶:۴۲-۴۳ ) تم سے پہلی بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصیبتوں اور آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے انھیں اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کررہے ہو خوب کررہے ہو۔

سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَo (الاعراف ۷:۹۴) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی اختیار کریں۔

سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جارہا ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالی نے انبیا ؑ کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا، یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں تاکہ اس کا دل نرم پڑے، شیخی اور تکبر سے اس کی اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشۂ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد متزلزل ہوجائے، اسے محسوس ہو کہ اوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کُھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص۵۹)

مصیبت اور آزمایش کے ان لمحات میں بہت سے لوگ اپنے رب کی رحمتوں کی آغوش میں پناہ پاتے ہیں، لیکن کتنے ہی بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان پر آنے والی آزمایشیں بھی  بے اثر رہتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں اقسام کے لوگوں کی وضاحت ایک حدیث میں یوں فرماتے ہیں:

لا یزال البلاء بالمؤمن حتی یخرج نقیاً من ذنوبہ و المنافق مثلہ کمثل الحمار لا یدری فیم ربطہ أھلہ و لا فیم أرسلوہ، مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے، تو ساری کھوٹ سے صاف ہوکر نکلتا ہے۔ لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو  کچھ نہیں سمجھتاکہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔

رجوع الی اللہ کے لیے اس سازگار ماحول میں بھی جو بدقسمت انسان دلوں کے گداز سے محروم رہ جائیں ان کے لیے رب کی طرف سے ایک اور آزمایش نازل ہوتی ہے اور اس میں وہ مزید بری طرح ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآئَ نَا الضَّرَّآئُ وَ السَّرَّآئُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنo (الاعراف ۷:۹۵) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔آخر کار ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا اور انھیں خبر تک نہ ہوئی‘‘۔

صاحب ِتفہیم القرآن اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس [قوم] کا دل قبولِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالامال ہونے لگتی ہے، تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا    یہ احمقانہ تصور بٹھاتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہورہا ہے، بلکہ ایک اندھی طبیعت، بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے  اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا، بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)

قرآن کریم کی متعدد آیات میں مختلف اقوام و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات نے یہ حقیقت واضح طور پر آشکار کردی کہ کسی قوم یا فرد کو حاصل ہونے والی نعمتیں اور راحتیں، اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر، مال و اولاد، معاشرے میں نام و نمود، اثر و رسوخ اس قوم یا فرد کی کامیابی، سربلندی اور فلاح و نجات کی علامت نہیں اور نہ ان نعمتوں سے محرومی اس کی ناکامی اور رب کی اس سے ناراضی کا مظہر ہے۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: ’’ایک طالب ِحقیقت کو اول قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہورہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں، وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں‘‘… ’’جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمایش میں ڈال دیا ہے، اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہوگیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ ابھی خدا اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کررہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’انعام‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور   اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔

اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خداپرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راست بازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں، اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنار اِس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہوجائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں، سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۸۴-۲۸۵)

حالیہ سیلاب اور آزمایش

اس قرآنی اصول اور الٰہی سنت کے تناظر میں حالیہ سیلابی ریلوں کو دیکھیں تو یہ رب ذوالجلال کی طرف سے بندوں کو کھلی تنبیہ اور اس کی رحمت کی آغوش میں پناہ لینے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اگر اہل پاکستان نے اپنا سب کچھ کھوکر بھی اپنے خالق کو پھر سے پالیا تو اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ ہمارا حال حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور اس گدھے کا سا رہا کہ جسے نہ باندھے جانے کا سبب معلوم ہو اور نہ لگام چھوڑ دیے جانے کا راز، تو دنیا خواہ اسے کوئی بھی نام و مقام عطا کرے، رہے گا وہ گدھے کا گدھا، بلکہ اس سے بھی بدتر اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ(اعراف ۷:۱۷۹) ’’وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔

پاکستان اس وقت صرف تباہ کن سیلاب ہی کے عذاب سے دوچار نہیں، مختلف فتنے، آزمایشیں اور بلائیں چہار جانب سے منہ پھاڑے اس پر اُمڈ پڑی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے میں سارا بنیادی ڈھانچا خاک میں مل گیا ہے۔ ان علاقوں میں نہ عمارتیں محفوظ رہیں نہ جھونپڑیاں،    نہ راستے بچے نہ کھیت، سڑکوں، ندی نالوں، دریاؤں اور ان پر بنے پلوں کا سارا تانا بانا بکھر کر رہ گیا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت سے بچ نکلنے کے لیے قوم کو کئی سال کی محنت شاقہ، بے تحاشا وسائل اور تعمیرِ نو کے ناقابل شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت   نہ صرف یہ تمام عناصر ناپید ہیں بلکہ ہم ایک قوم کی تعریف پر پورا اترنے میں بھی ناکام ہورہے ہیں۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا ایک ایک کرکے چاروں صوبوں میں جاپہنچا، مگر ہر جگہ لوگ دوسروں پر اس تباہی کا الزام لگاتے ہوئے مزید تباہی سے دوچار ہوتے رہے۔ ایک کہتا تھا فلاں نے اپنی زمینیں اور اپنا علاقہ بچانے کے لیے پانی کا رخ ادھر موڑ دیا، تو دوسرا کہتا تھا کہ فلاں نے اپنا گھر بچانے کے لیے پانی کو وہاں سے گزرنے کا راستہ نہ دیا، حالانکہ تباہی کی زد میں سب ہی آئے۔ حکمرانوںنے اس الزام اور جوابی الزام کی سیاست کو مزید ہوا دی۔ ایک صوبے کا دوسرے صوبے کو، صوبوں کا مرکز کو، اور ایک حلیف جماعت کا اپنی دوسری حلیف جماعت کو الزام، سیلاب کی تباہ کاری کے ساتھ ہی ساتھ باہم نفرتوں کی آب یاری کا سبب بھی بنتا رہا۔

رہے کراچی اور بلوچستان تو بدقسمتی سے سیلاب کی ان تباہ کاریوں کے دوران بھی وہاں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ سیلاب کے عروج میں کراچی کی سڑکوں پر دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ بھی عروج پر جاپہنچی۔ ادھر بلوچستان سے بھی اپنے بھائی پنجاب کو درجن بھر لاشوں کا تحفہ بھیجا گیا۔ نہ تو قاتلوں کو قتل کی وجہ معلوم تھی اور نہ مقتولوں یا ان کے زندہ درگور وارثوں ہی کو معلوم ہوا کہ ان کے پیارے کیوں خون میں نہلا دیے گئے۔ صوبہ خیبر میں تو کراچی سے آنے والی لاشوں کو وصول کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ رہی بے چاری حکومت تو اسے اپنے یورپی دوروں سے ہی فراغت     نہ تھی۔ ان دوروں بالخصوص برطانیہ کے دورے کا اصل ہدف مستقبل کے حکمران بلاول زرداری کو میدان سیاست میں متعارف کروانا (تاج پوشی کرانا) بتایا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے محلات کے سودے بھی جاری رہے۔ یہاں تک کہ یورپی ذرائع ابلاغ میں واویلا مچ گیا کہ سیلاب میں ڈوبے ملک کے صدر صاحب! واپس جاؤ اور اپنے گھر کی خبر لو۔ رہی سہی کسر برمنگھم کی تقریب میں اپنے ہی ہم وطن کی طرف سے ’جوتا پاشی‘ نے پوری کردی۔ اس عزت افزائی کے جلو میں جو ملک واپسی ہوئی تو سیلاب زدہ علاقوں میں عارضی اور جعلی امدادی کیمپوں میں منہ دکھائی شروع کردی گئی---رہے سیلاب زدہ لوگ اور ان کے مصائب تو۔۔۔ آخر وقت کا مرہم کب کام آئے گا؟ چند روز میں نہ سہی چند ہفتوں میں تو پانی کسی نہ کسی طرح اتر ہی جائے گا۔

ذرا ظرف کی وسعت اور ترجیحات کی فہرست بھی ملاحظہ ہو، ادھر پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اور دوسری طرف حکومت کا سارا زور چند ٹی وی چینلوں کی بندش پر صرف ہو رہا تھا۔ ان چینلوں کے قصور کئی ہوسکتے ہیں لیکن جو قصور بندش کا سبب بنا، وہ ’جوتاپاشی‘ کی خبر پر اصرار تھا۔ ذرائع ابلاغ یقینا غیر جانب دار نہیں ہیں۔ ان کی ترجیح اوّل بھی سیلاب کی تباہ کاری اور تباہی کی سنگینی واضح کرنا نہ رہی۔ انھوں نے بھی قوم کے اندر انفاق اور فداکاری کی روح بیدار کرنے میں بہت کوتاہی برتی۔ انھوں نے بھی صرف اپنی مرضی کی امدادی کارروائیوں اور صرف چنیدہ افراد اور اداروں کی خدمات کو سراہا لیکن کاش! ذرائع ابلاغ کا یہ جرم ان کے قانون اور ضابطے کے دائرے میں شفاف اور عادلانہ مؤاخذے اور احتساب کا سبب بنتا۔ کاش! کوئی سرکاری ادارہ یا ذمہ دارانِ حکومت تمام ابلاغیاتی بڑوں کو لے کر بیٹھتے، قوم و ملک پر ٹوٹنے والی قیامت میں مشترک حکمت عملی وضع کرتے اور جو بھی حکومتی اثرورسوخ یا آشیرباد ہوسکتی تھی، اسے ایک تعمیری ابلاغیاتی مہم کے لیے وقف کردیتے تو آج صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ اس ضمن میں کوتاہی کے مرتکب حکومت اور ذرائع ابلاغ ہی   نہیں وہ مختلف افراد اور امدادی ادارے بھی ہیں جنھوں نے اپنے ایک کو سو اور سو کو ہزار بناکر پیش کیا۔ اس بے بنیاد مبالغہ آمیزی سے جہاں ان اداروں پر اعتماد مجروح ہوا وہیں مزید مالی اعانتوں کی ضرورت کا احساس بھی ماند پڑا۔ اس سب کچھ سے بڑھ کر یہ کہ نیک کام میں بھی جھوٹ کی آمیزش سے برکت معدوم ہوگئی۔ آفات و آلام سے نجات کے لیے درکار رب کی رحمت روٹھ گئی۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

اس وقت تباہی اس قدر ہمہ گیر ہے کہ ہر صاحب ِ خیر کو اپنا سب کچھ لے کر میدان میں آجانا چاہیے۔ سب کو ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت انجام دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ہرلمحے ذہن میں تازہ رہنا چاہیے کہ کامیابی کا معیار کوئی دنیاوی پیمانہ نہیں، رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ اخلاص و دیانت سے خدمت کرنے والے قابلِ مبارک باد ہیں کہ یہ گنج گراں مایہ انھیں وافر عطا ہوا ہے۔ امریکی بازار کا طواف کرنے والے مغربی تجزیہ نگاروں کو اصل تشویش بھی یہی ہے۔ وسیع تر اشاعت رکھنے والے عالمی اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینل یہی دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدمت کے میدان میں نہ حکومت نظر آرہی ہے اور نہ ان کی تخلیق کردہ ہزاروں کاغذی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی او)۔ خدمت کا میدان، ان کے نزدیک ’شدت پسند‘ تنظیموں نے مار لیا ہے۔ کاغذی تنظیموں یا نری سرکاری ڈیوٹی کا بوجھ سمجھ کر کام کرنے والے اگر ہیں بھی، تو صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود۔ ہزاروں میل پر پھیلے پانی میں گھرے بے نوا لوگوں تک پہنچنے کا نہ ان کے دل میں داعیہ ہے اور نہ کوئی ارادہ۔ مصیبت اور آزمایش نے ہر چہرہ بے نقاب اور ہر دل کا حال کھول کر رکھ دیا ہے۔ دوست دشمن نکھر کر سامنے آگئے ہیں۔ عرب شاعر کے الفاظ میں    ؎

جَزَی اللّٰہُ الشَّدائِدَ کُلَّ خَیْرٍ

عَرَفْتُ بِھَا عَدُوِّی مِنْ صَدِیْقِی

(اللہ سختیوں کو جزاے خیر دے، میں نے ان کے ذریعے اپنے دوست اور دشمن کو پہچانا ہے۔)

ہمارے حکمرانوں کے لیے اگر مدرسۂ رسالتؐ سے کچھ سیکھنا ممکن ہو، تو رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ ضرور پڑھیں کہ ایک بار صبح صبح، منہ اندھیرے ریاست مدینہ کے باہر   شورو غوغا بلند ہوا۔ لوگ گھبرا کر آواز کی جانب دوڑے، شہر سے تھوڑا سا باہر نکلے تو سامنے سے ریاست کے سربراہ، تاج دار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار واپس تشریف لارہے تھے۔ تلوار گلے میں لٹکی ہوئی تھی اور آپؐ پکار پکار کر فرما رہے تھے: لَم تُراعُوا۔۔ لَم تُراعُوا  (گھبرانے کی کوئی بات نہیں ---سب خیریت ہے۔ یہ سمندر کی جانب سے آنے والا شور تھا)، یعنی آپؐ اپنے سب ساتھیوں سے پہلے جاکر صورت احوال معلوم کر آئے تھے اور اب تسلی دے رہے تھے کہ پریشان نہ ہوں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

مدرسۂ رسالتؐ ہی سے یہ سبق بھی سیکھنا چاہیے کہ اپنے رب سے آزمایشوں سے بچنے اور عافیت کی درخواست کیا کرو۔ کہا کرو: اَللّٰہُمَّ  عَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْت، اے میرے اللہ! مجھے بھی عافیت پانے والوں کے ساتھ عافیت عطا فرما۔ دُعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ تَحَوَّلِ عَافِیَتِکَ: اے میرے اللہ! میں تیری عافیت اٹھ جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور کہا کرو:  رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج وَاعْفُ عَنَّا  وَ اغْفِرْلَنَا  وَ ارْحَمْنَا  اَنْتَ مَوْلٰـنَا (البقرہ ۲:۲۸۶) اے ہمارے رب ہم پر اس طرح آزمایشیں نازل نہ فرما جس طرح ہم سے پہلی اقوام پر نازل کیں۔ ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ جو ہم برداشت ہی نہ کرسکیں، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا آقا و مولا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صبح و شام کے وقت یہ کلمات کہنے نہ چھوڑے: اے میرے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کے حوالے سے تیری عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری کمزوریوں کا پردہ رکھ لے اور میرے خدشات کو امن و سکون میں بدل دے۔ تو میرے سامنے سے بھی میری حفاظت فرما اور میرے پیچھے سے بھی، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے میری حفاظت فرما۔ اے اللہ! میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے ہلاک کر دیا جائوں۔

ان دُعاؤں کے ساتھ ہی ساتھ یہ تلقین بھی فرمائی کہ اگر کوئی آزمایش یا مصیبت آجائے تو پھر صبر کرتے ہوئے رب ہی سے استعانت طلب کیا کرو:  وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نمازوں کا اہتمام کرتے ہوئے، اللہ کی مدد حاصل کیا کرو‘‘۔ پھر ایک جامع ہدایت یہ دے دی کہ آزمایشوں سے نجات کے لیے، انسانی بس میں جتنی کوششیں ممکن ہیں وہ سب بروے کار لایا کرو۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ،یعنی جتنی  بھی تم میں استطاعت ہے، سعی و تیاری کیا کرو۔ جو بھی کام کرو اسے بہترین انداز سے کیا کرو: ان اللّٰہ یحب اذا عمل أحدکم عملا أن یتقنہ، اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم جو کام بھی کرو اسے بہترین طریقے سے کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیمات ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے    ان تعلیمات کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ ایک مثال کے طور پر آپؐ کے سفر ہجرت ہی کو لے لیجیے،  انسانی ذہن میں جتنی تدابیر آسکتی تھیں آپؐ نے ان پر عمل کیا۔ سفر سے کئی روز پہلے ہی رفیق سفر کا انتخاب، بہترین سواری کا انتظام، راستہ بتانے کے لیے راستے کے تمام نشیب و فراز سے آگاہ شخص کی خدمات کا اہتمام۔ پھر گھر سے نکلتے ہوئے اپنے عم زاد اور جاں نثار صحابی، حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلانے کا اہتمام تاکہ دیکھنے والے سمجھیں کہ آپؐ ابھی بستر پر ہی ہیں۔ وہاں سے چلے جانے کے بعد امانتوں کی ادایگی کا حکم۔ سفراگرچہ شمال کی جانب کرنا تھا، لیکن مکہ سے نکلے تو رخ جنوب کی طرف تھا، نقوش پا بھی اسی جانب لے جا رہے تھے۔ فوراً ہی اصل سفر شروع کردینے کے بجاے  غارِ ثور میں قیام۔ اس قیام کے لیے بھی ایسے پہاڑ اور ایسے غار کا انتخاب کہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے کسی کا دھیان ہی ادھر نہ جائے۔ وہاں قیام کے دوران بھی اہل مکہ کی نقل و حرکت سے آگاہی کے لیے پسرِ صدیقؓ کی ڈیوٹی کہ وہ روزانہ آکر خبریں پہنچانے کا اہتمام کریں۔ بنتِ صدیقؓ کی  ذمہ داری لگی کہ وہ کھانا پہنچائے اور غلامِ صدیقؓ کی ذمہ داری یہ تھی کہ بکریاں چرانے وہاں آئے، تاکہ ان سے دودھ بھی حاصل کیا جاسکے اور پھر ریوڑ واپس جائے تو غار کی طرف آنے جانے والے قدموں کے تمام نشانات ختم ہوجائیں۔ غار ثور سے اس وقت کوچ کیا جب مشرکین مکہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ کو راستے میں بھی اگر کوئی ملا، تو اسے اپنا تعارف نہ کروایا۔ یار غار سے ایک راہگیر نے پوچھ ہی لیا کہ یہ ساتھ کون ہے تو انھوں نے کہا:ھاد یہدینی، رہنما ہے مجھے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ کون سی انسانی کوشش رہ گئی کہ جس کا آپؐ نے اہتمام نہ کیا ہو؟ حالانکہ آپؐ تو سید الانبیا اور محبوبِ خدا تھے۔ اللہ کی طرف سے آپ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم مل جانے کے بعد آپ مکہ سے رخصت ہوئے تھے ۔ منزل پر پہنچ جانے کا یقین اس حد تک پختہ تھا کہ دشمن سر پر پہنچ جانے کے بعد بھی یارِ غار کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ ’’ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ لا تحزن ان اللّٰہ معنا، پریشان نہ ہوں، اللہ یقینا ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن اس یقین و اعتماد نے احتیاطی تدابیر کے ادنیٰ سے ادنیٰ جز و کو بھی چھوڑ دینے کا خیال پیدا نہ کیا۔

اس نبوی انتظام و اہتمام کی روشنی میں ہم اہل پاکستان بھی قوم، افراد، عوام اور حکومت کی حیثیت سے اپنا اپنا جائزہ لیں، ہم نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ ٹھیک ہے اس پیمانے کا سیلاب اور اس درجے کی آزمایش پہلے کبھی نہیں آئی، لیکن کسی نہ کسی سطح پر سیلاب اور بارشوں کا سامنا تو ہمیں تقریبا ہر سال کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران روز بروز سنگین ہورہا ہے۔ پانی کی کمیابی چیلنج کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہر سال بارشوں کے پانی ہی کو سنبھال لینے سے تینوں بحران ٹالے جاسکتے ہیں۔ توانائی و پانی کے حصول اور سیلاب و طوفان سے بچاؤ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا بھی ہے ۔۔ کالا باغ ڈیم ہر قیمت پر بنائیں گے--- کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر ہی تعمیر ہوسکے گا۔ ڈیم بنے گا تو سندھ بنجر ہوجائے گا--- ڈیم بنے گا تو پنجاب--- غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اب حالیہ سیلاب نے تینوں بلکہ چاروں صوبوں کو یکساں کردیا ہے۔ اگر اپنی آیندہ نسلوں کو بھی یونہی ڈبو کر ہلاک کردینے کا ارادہ نہیں ہے، تو ہمیں ایک قومی اتفاق راے کے ذریعے ضرور ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ سب اختلافات کو بھلا کر جسد واحد کی طرح کام کرنا ہوگا۔ آج کی سائنسی ترقی تو سمندر کے کڑوے پانی سے فصلیں اگا رہی ہے، گوبر اور کوڑے کرکٹ سے بجلی حاصل کررہی ہے، خلا میں چہل قدمی کررہی ہے، چاند کی سیاحت شروع کرنے جارہی ہے، زیر زمین ترقی یافتہ شہر اور ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کررہی ہے۔ جاپان جیسے زلزلہ بار ملک میں آواز سے تیز رفتار ٹرینیں چل رہی ہیں اور زیرِزمین بھی ٹرینوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ وہاں تقریباً ہرسال زلزلے آنے کے باوجود پورے ملک میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کررہی ہے۔ یہ سائنسی علوم ہمیں قدرتی آفات سے نجات کیوں نہیں دلاسکتے، معلّمِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں تو علم و حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے، جہاں سے بھی ملے وہ اس کا سب سے زیادہ   حق دار ہے۔ آخر جاپان بھی تو وہی ملک ہے جہاں اب تک کی انسانی تاریخ کا اکلوتا ایٹمی حملہ ہوا تھا، اور پورے کے پورے شہر راکھ کا ڈھیر اور لاکھوں انسان قبرستان میں بدل گئے تھے۔

راکھ سے افلاک تک پہنچنے کے لیے، کوئی بھی قوم اگر ایک قوم کی حیثیت سے جینے کا فیصلہ کرلے، خود کو ان تھک محنت کا خوگر بنا لے، ایمان داری کو شعار بنا لے ، سب باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال دے، تو یقینا دنیا کے سامنے کامیابی کے نئے معیار قائم کیے جاسکتے ہیں۔ کامیابی کے لیے درکار ان رہنما اصولوں میں سے آخر کون سی بات ایسی ہے جس کی جانب قرآن کریم اور سنت نبویؐ نے رہنمائی نہ کردی ہو؟۔ ایک لفظ ’جہاد‘ ہی ان تمام مطلوبہ صفات کا احاطہ کرلیتا ہے۔ جہاد ہی نے میدان بدر میں صفوں کو ترتیب دیا اور پانی کا کنٹرول سنبھالا۔ جہاد ہی نے میدان احد میں لشکر کی پشت میں واقع ٹیلوں کی نگہبانی کروائی۔ جہاد ہی نے عالم عرب میں پہلی بار مدینہ کو طویل و عریض خندق کے ذریعے محفوظ کروایا۔ جہاد ہی نے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر اور اپنی راے کی قربانی کو حقیقت میں ڈھالا۔ جہاد ہی نے مال و دولت کی محبت کو دلوں سے یوں کھرچ دیا کہ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں مال و اسباب کے ڈھیر لگ گئے۔ آج بھی پوری قوم کو  ایمان اور جذبۂ جہاد سے سرشار کردینے کی ضرورت ہے۔ تعمیری جہاد، تعلیمی و علمی جہاد، ذاتی شہرت و اقتدار سے نجات کا جہاد، خدمت، ایثار اور ایمان داری کا جہاد، حقیقی دشمن کو پہچانتے ہوئے، پوری قوم کو ایک کنبہ اور ایک گھرانا بناتے ہوئے وحدت و اتحاد کا جہاد۔ دیر تو صرف ارادے اور آغاز عمل کی ہے۔ آئیے ہم میں سے ہر شخص ایک ایک فرد کے دل میں عمل کی شمع روشن کرنے کا آغاز کردے۔ قطرے قطرے سے دریا اور ایک ایک شمع روشن کرنے سے یقینا روشن و تاب ناک کہکشاں ترتیب پاجائے گی۔

ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے برطانوی، ڈوگرہ اور بھارتی سامراجیوں کے مختلف النوع ظلم اور استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور ہے اور ان کا بدن خون سے لہولہان ہے۔ لیکن اپنے ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں الحمدللہ انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر دور میں اور ہرحال میں استعماری قوتوں کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو ظلمت کے شکار ساری دنیا کے انسانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ اس وقت کشمیر میں جو تحریک اپنے شباب پر ہے، اس میں جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی الم نشرح ہے، وہیں کشمیر کے بوڑھوں اور جوانوں ہی نے نہیں، بچوں اور خواتین کے ایک سیلاب نے سب کو ششدر کر دیا ہے۔ احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے مہمیز کا کام کر رہے ہیںاور جموں و کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا علَم لے کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے، اور بوڑھے مگر جوان ہمت قائد سید علی شاہ گیلانی کی آواز پر ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک ۸۱ویں روز بھی ہڑتال جاری ہے اور قائد کے الفاظ میں:

کشمیری عوام نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں۔ بھارت ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر انھیں خاموش نہیں کرسکتا۔ کشمیر کا پتّا پتّا بوٹا بوٹا بھارتی قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

ویسے تو کشمیر کی بدقسمت تاریخ کے دور کا آغاز دو صدیوں پہلے برطانوی سامراج کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ اقدام سے ہوا جس میں ایک پوری ریاست اور ایک پوری قوم کو چند ٹکوں     کے عوض ڈوگروں کے ہاتھوں فروخت کر کے ایک استبدادی نظام اور بیرونی سیاسی غلامی کے تحت ایک اور بھی قبیح تر غلامی کا دروبست قائم کیا گیا۔ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک جب نئی کروٹیں لے رہی تھی تو کشمیر کے مسلمانوں نے بھی ڈوگرہ سامراج اور برطانوی اقتدار کے خلاف اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا، اور اپنے مخصوص حالات کی روشنی میں ۱۹۳۰ء ہی کے عشرے میں تحریکِ پاکستان سے بھی ۱۰سال قبل اپنی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا اور اس طرح برعظیم کی آزادی کی تاریخِ جدید میں جدوجہد، مزاحمت اور قربانیوں کا ایک نیا روشن باب رقم کیا۔

تقسیم ملک کے فیصلے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی اسمبلی کے مسلمان ارکان نے الحاقِ پاکستان کا اعلان کیا، اور ریاست گیر تحریک برپا کی جسے قوت کے ذریعے کچلنے میں ڈوگرہ راج نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اہلِ اقتدار نے بھارتی قیادت کا ساتھ دیا اور مائونٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ہراصول اور وعدے کو پامال کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کا راستہ صاف کیا۔ پاکستان کی افواج کے برطانوی کمانڈر نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کرکے پاکستان کے متبادل اقدام کو ناکام کیا جس کے ردعمل میں عوامی تحریک نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ قبائل کے مجاہدین نے   اس میں شرکت کی اور اس جدوجہد سے ریاست کا ایک حصہ بھارتی تسلط سے بچایا جاسکا لیکن   اس مزاحمت میں محتاط اندازے کے مطابق ۵ لاکھ شہید ہوئے اور لاکھوں کے گھربار لٹ گئے اور انھیں ہجرت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب عوامی تحریک اور پاکستان نے جو پہل کی اسے غیرمؤثر کرنے کے لیے عالمی سیاست کا کھیل شروع ہوا۔ بھارتی وزیراعظم شکست سے بچنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف دوڑے اور امریکا اور برطانیہ کے کلیدی کردار اور پاکستانی حکومت کی خودفریبی، ناتجربہ کاری اور سادہ لوحی کے نتیجے میں جیتی جانے والی بازی سیزفائر اور استصواب کے وعدوں کی نذر ہوگئی۔ بھارت کی فوجوں نے جموں و کشمیر کی ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ ضرور کرلیا اور اپنی من پسند حکومتوں کو بھی وہاں مسلّط کردیا لیکن جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کو وہ مسخر نہ کرسکے اور ان کی تحریک مزاحمت زیرِزمین اور برسرِزمین جاری رہی۔

بھارت کے وعدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے غیرمؤثر ہونے، پاکستان اور بھارت کی سیاسی، عسکری اور معاشی قوت کے تفاوت اور پاکستان کی حکومتوں کی غلطیوں، کمزوریوں، پسپائیوں اور قول و عمل میں بعد، نیز ۱۹۷۱ء کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے کے اثرات کی روشنی میں کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا دوسرا دور اندر سے تبدیلی کی ایک کوشش تھا۔ ۱۹۷۲ء میں پہلی دفعہ اسلامی تحریک کے قائدین نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے اہداف پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر نئی حکمت عملی مرتب کی اور برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی کی دستوری جدوجہد کی کتابِ تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ سید علی شاہ گیلانی ۱۹۷۲ئ، ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اسمبلی کے اندر اور باہر استصواب اور الحاقِ پاکستان کی مہم کی قیادت کی۔ مگر بھارتی حکومت نے جب جمہوری عمل کے ذریعے بھی تبدیلی کا راستہ بند کیا تو تحریکِ مزاحمت کے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ رہا کہ عوامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے قوت کی عدم مساوات کے باوجود عسکریت کا راستہ اختیار کرے، جس طرح دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں نے ریاستی قوت اور دہشت گردی کے مقابلے میں ممکنہ وسائل اور ذرائع سے ریاست کی قوت پر ضرب لگانے اور مزاحمت کی عسکری حکمت عملی اختیار کی۔

تحریکِ مزاحمت کا موجودہ مرحلہ

تحریکِ مزاحمت کا یہ تیسرا دور ۱۹۸۹ء سے شروع ہوا ہے اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود جاری ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ کشمیری عوام نے یہ راستہ بھارتی حکومت کی جمہوریت کُش پالیسی اور تشدد کے ذریعے عوام کے سیاسی حقوق اور سیاسی عزائم کو قوت کے ذریعے دبانے اور عالمی معاہدات اور وعدوں سے فرار کے نتیجے میں اختیار کیا اور اس کا اعتراف آزاد محققین نے تو بار بار  کیا ہی ہے۔ لیکن اب تو اس کا اعتراف بھارتی پالیسی کے معذرت خواہ (apologists) اہلِ قلم بھی کرر ہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال اصغر علی انجینیر کا وہ مضمون ہے جس میں اب بھی وہ بھارت کے دستور میں رہتے ہوئے کسی حل کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں مسلح مزاحمت ۱۹۸۹ء میں اس وقت شروع ہوئی جب انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور ایک اسکول کے استاد صلاح الدین کو، جو اَب حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں، ناکام قرار دیا گیا، جب کہ بیش تر کشمیری سمجھتے تھے کہ وہ انتخاب جیتے ہیں۔ (ڈان، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بات صرف ایک صلاح الدین کی نہیں، تحریکِ مزاحمت اور متحدہ محاذ کی پوری قیادت کی ہے اور حکمت عملی کی اس تبدیلی کی پوری ذمہ داری بھارت اور اس کی پالیسیوں پر ہے۔ نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ صورت حال صرف جموں و کشمیر میں رونما نہیں ہوئی، سامراج کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ بیرونی قبضے کے خلاف کسی نہ کسی مرحلے پر تحریکِ مزاحمت کو قوت کے نشے میں مست حکمرانوں کے بالمقابل آکر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوام متحدہ کے ۱۹۲ رکنممالک میں سے تقریباً ۱۶۰ ایسے ہیں جوسیاسی اور عسکری مزاحمت کے نتیجے میں آزادی حاصل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے امریکا، روس، بھارت اور اسرائیل کی ساری کوششوں کے باوجود تحریکِ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کی جانے والی عسکری مزاحمت کو  دہشت گردی قرار نہیں دیا اور یہ مقولہ ایک عالمی صداقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ ’’کچھ کی نگاہ میں جو دہشت گرد ہے وہ دوسروں کی نگاہ میں آزادی کا سپاہی ہے‘‘۔ اس کی تاریخی مثال خود  امریکی ریاست کا بانی جیرفرسن ہے جسے امریکا ’آزادی کا سپاہی‘ اور اس وقت کا برطانیہ ’دہشت گرد‘ قرار دیتے تھے۔ نیز مشہور امریکی دانش ور پروفیسر ہن ٹنگٹن بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ دہشت گردی طاقت ور اور منہ زور قوتوں کے خلاف کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ (terrorism is the weapon of the weak against the strong)

جموں و کشمیر میں ۱۹۸۹ء میں برپا ہونے والی اس تحریک نے اپنے اثرات قدم قدم پر مرتسم کیے ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود اور قوت کے محیرالعقول تفاوت کے علی الرغم بھارت کے اقتدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔ بلاشبہہ ۹۰ہزار سے زیادہ شہدا کے لہو نے اس تحریک کو سیراب کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نہیں بھارت کے کم از کم تین چیف آف اسٹاف اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ عسکری قوت سے تحریکِ مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تازہ ترین اعتراف بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کا ہے جو انھوں نے ۱۱جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا ہے کہ بھارتی فوج جو کچھ کرسکتی تھی، اس نے کر دیا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے بس کی بات نہیں۔ مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے:

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا اس پر تعمیر نہیں کرسکے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز کی حیثیت سے بہت کام کیا جاچکا ہے۔ حالات کو ایک ایسی سطح تک لایا گیا جہاں حالات بہتر کرنے کے لیے دوسرے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۲ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بھارتی فلبرائٹ اسکالر لوو پوری نے جو نیویارک یونی ورسٹی میں پڑھا رہا ہے، بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کی ۷؍اگست ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اپنے مضمون میں بھارت کے آرمی چیف کے اس بیان کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ: ’’فوج کے سربراہ وی کے سنگھ نے سیاسی اقدام کے لیے درست طور پر نشان دہی کی ہے‘‘۔ اسی مضمون میں مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ مسئلہ قانون اور امن و امان کا نہیں بلکہ نظریات کے تصادم کا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور علی محمداصغر کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ: We cannot fight our people.  (ہم اپنے ہی لوگوں سے نہیں لڑ سکتے)۔

اس کے ساتھ اگر بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نائر کا یہ اعتراف بھی نظر میں رہے تو بھارت کی عسکری پالیسی اور قوت سے کشمیر کو قابو میں رکھنے کی پالیسی کی ناکامی اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت اور اس کے ہر دور کی کارفرمائی کو سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے: ’’یقین کیجیے کہ میں عوام کی قربانیوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا۔ دنیا میں بہت کم تحریکیں اتنی پُرعزم اور اتنی دیرپا رہی ہیں‘‘۔ (ڈان، ۱۱ جون ۲۰۱۰ئ)

تحریکِ مزاحمت کے اس تیسرے دور کے اثرات اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی اور انھیں اس رُخ پر ڈالنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت نے اہم کردار ادا کیا کہ تحریکاتِ آزادی اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی مندرجہ بالا حکمت عملی کی راہ میں مشکلات بڑھ گئیں اور بیرونی دبائو اور سیاسی اور سفارتی تعاون کرنے والے ممالک اور قوتوں کی قلابازیوں کے باعث عسکری مزاحمت کو ثانوی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ یہ بھی تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود چند سو یا چند ہزار مزاحمت کار  بڑی بڑی افواج اور مہلک ترین ہتھیاروں سے مسلح عالمی اور علاقائی قوتوں کے ریاستی دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور عملاً غیرمؤثر کیے ہوئے ہیں۔ عراق، افغانستان، غزہ، لبنان اور کشمیر ہرجگہ یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے پس منظر میں اس مضحکہ خیز صورت حال کو کشمیر ٹائمز کا انتظامی مدیر انورادھا بحثن جیموال بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ:

تمام سرکاری اندازوں کے مطابق اس وقت پوری ریاست میں ۶۰۰ سے زیادہ جنگ جُو کارروائیاں نہیں کر رہے ۔ ان کے مقابلے کے لیے وہاں اب بھی ۶/۷ لاکھ فوجی موجود ہیں، جنھیں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے خصوصی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ (اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی، ۱۰ جولائی ۲۰۱۰ئ، جلد XLV، ص ۲۸)

مزاحمت کی عسکری تحریک نے اس دبائو کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ البتہ اپنی حکمت عملی میں حالات اور وسائل کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں کیں اور ایک بار پھر اوّلیت کا مقام سیاسی مزاحمت اور غیرعسکری جدوجہد نے لے لیا، اور اس طرح یہ تحریک اپنے چوتھے دور میں داخل ہوئی جس میں بندوق کے مقابلے بندوق اور گولی کے جواب میں گولی کی جگہ نعرہ، جھنڈے، ہڑتال اور پتھر نے لے لی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اس دور کا آغاز ۱۱جون ۲۰۱۰ء کو ۱۷سالہ طفیل احمد منٹو کی شہادت سے ہوا۔ بلاشبہہ ۱۱ جون کے واقعے نے اس تحریک پر گہرا اثر ڈالا اور اسے ایک نئے فراز کی بلندیوں کی طرف متحرک کیا مگر حقائق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صورت حال کا صحیح جائزہ لیا جائے۔

تحریک کے اس دور کا آغاز ۲۰۰۸ء کے موسمِ گرما میں ہوا۔ جب حکومت نے کشمیر کی ۱۰۰ایکڑ اراضی امرناتھ ٹرسٹ کو منتقل کی اور اس کے خلاف سول تحریک کا آغاز سید علی شاہ گیلانی کی پکار پر ہوا۔ پُرامن احتجاج، ہڑتال اور گولی کے جواب میں پتھر کے ہتھیار کا استعمال اس موقع پر ہوا اور اس طرح تحریکِ کشمیر نے فلسطین کی تحریکِ مزاحمت سے سبق سیکھتے ہوئے غیرمسلح سیاسی جدوجہد کے عنوان کے طور پر پتھر کے استعمال کا آغاز کیا اور حکومت کو اپنے اس اقدام سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تبدیلی کو مؤقر بھارتی جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی نے اپنے ایک اداریے میں اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے اور اس اداریے کا عنوان Kashmiris Civil Disobedience رکھا ہے اور ذیلی عنوان میں اصل حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ:’’یہ صرف بھارتی حکومت ہے جس پر موجودہ بحران کا الزام عائد ہوتا ہے‘‘۔

اس بھارتی جریدے کے تجزیے سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے اس نکتے کو سامنے رکھنا مفید ہے:

حقیقت یہ ہے کہ احتجاج اور بغاوت کے موجودہ مرحلے کا براہِ راست تعلق اس سال  ماچل میں تین شہریوں کے سفاکانہ قتل سے ہے جو فوجی افسروں نے کیا اور ان پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام رکھا۔ اس پر وہ انعامات اور ترقیاں چاہتے تھے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے جس میں بے گناہ عوام کو اُٹھایا جاتا ہے اور سیکورٹی فورسز جنھیں کسی بھی سزا سے تحفظ حاصل ہے، انھیں قتل کر دیتی ہیں۔ کشمیر کے عوام کے لیے عرصے سے انڈیا کا مطلب بندوق کی نالی ہے، گو کہ انھوں نے جمہوری حل کے لیے فیصلہ کن ووٹ دیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیر کے عوام گاندھی کی اس ہدایت کی پیروی کر رہے ہیں کہ جب ریاست کرپٹ ہو اور اس میں قانون پر عمل داری نہ ہو تو سول نافرمانی ایک مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی کی حکومت جو مہاتما گاندھی کا نام جپتی رہتی ہے صرف فوجی عملہ بڑھانے اور بدعنوان اور غیرمتعلق لوگوں سے معاملات چلانے کا سوچ سکتی ہے۔ اگر بھارت کی حکومت اپنا جمہوری دستور ایک طرف ڈال دے اور سامراجی ریاست کے راستے پر چلے تو اس کا انجام معلوم ہے۔ اس کا حل سری نگر کی سڑکوں پر نہیں بلکہ نئی دہلی کی پالیسی اور رویوں میں تبدیلی سے ظاہر ہونا ہے۔ (۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

اور اسی جریدے کے ۳۱ جولائی کے شمارے میں ایک مکتوب نگار فیاض احمد بھٹ نے کشمیر کے تمام نوجوانوں کے جذبات کا اس طرح اظہار کیا ہے:

یہ لشکرِ طیبہ یا علیحدگی پسند نہیں ہیں جو کشمیر میں نوجوانوں کو پتھر مارنے پر اُبھارتے ہیں۔ ریاست کی حکومت اور دہلی کی حکومت دونوں اس کی ذمہ دار ہیں۔ مرکز اور ریاست وادیِ کشمیر کے عوام میں بے معنی بیانات، اور کمیشنوں اور تحقیقات کے ڈراموں سے علیحدگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ میں ایک نام نہاد تعلیم یافتہ فرد ہوں لیکن حکومت کے طریقۂ کار سے مجھے غصہ آتا ہے اور میں خود پتھر پھینکنا چاہتا ہوں۔

کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے اس موجودہ مرحلے کو جو جون ۲۰۰۸ء سے شروع ہوکر    جون ۲۰۱۰ء اور اس کے بعد کے واقعات کی بنا پر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے، اس کے مزاج اور انداز کار پر بھی نگاہ ضروری ہے اور اہداف کے بارے میں جو محسوس اور غیرمحسوس تبدیلی واقع ہو رہی ہے اس کے ادراک کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت کو بدلتے ہوئے حالات کا کوئی ادراک نہیں، یا اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی ترجیحات پاکستانی قوم کی ترجیحات، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات اور کشمیری عوام کے عزائم، جذبات اور احساسات سے کوئی نسبت اور تعلق نہیں رکھتیں جو پاکستان، پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور غداری کے مترادف ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے سارے حقائق رکھے جائیں اور دینی اور سیاسی قوتوں کو دعوت دی جائے کہ وہ دوسرے سارے مسائل اور مشکلات کے علی الرغم پاکستان کی زیست اور بقا کے اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ دیں۔

زمینی حقائق

ہماری نگاہ میں تحریک کا یہ چوتھا مرحلہ بہت اہم اور غالباً فیصلہ کن ہے لیکن یہ اپنے پیش رو مراحل کا تسلسل ہے، ان سے انحراف نہیں، حالانکہ بھارتی اور کچھ مغربی تجزیہ کار اسے یہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے حالات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی امور کو سامنے رکھا جائے تاکہ صحیح پالیسی سازی اور عملی اقدام ممکن ہوسکیں:

m            ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے جو منفی اثرات مقبوضہ ممالک میں تحریکِ مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد پر پڑے ہیں اور جس میں امریکا،اسرائیل، روس اور بھارت نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے، نیز پاکستان کی مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت دونوں اس کی گرفت میں آگئی ہیں۔ اس گرفت سے ذہنی اور عملی دونوں سطحوں پر نکلنا اوّلین ضرورت ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے سہارے عالمی دہشت گردی کا جو بازار گرم کیا ہے، وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ عراق سے فوجوں کا انخلا شروع ہوچکا ہے اور افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سارا عمل بھی نہ شفاف ہے اور نہ حقیقی، لیکن حالات میں جو جوہری فرق واقع ہو رہا ہے اسے کوئی روک نہیں   سکتا۔ آزادی کی تحریکات کو دہشت گردی کا عنوان دے کر کچلنا ناممکن ہے۔ امریکا نے عالمی  عسکری دہشت گردی کے ساتھ جس ذہنی اور نظریاتی دہشت گردی کا ہدف پوری دنیا کو بنایا ہے اور بین الاقوامی قانون اور سیاست اور سفارت کاری کے اصول و آداب کو جس طرح مسخ کیا ہے، اس کے خلاف ردّعمل شروع ہوچکا ہے اور یہ بھی اپنے نتائج دکھائے گا۔ دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانے والی امریکا کی جنگ کے جو نقصانات پاکستان کو ہوئے ہیں، ان کا بھی اب ادراک ہورہا ہے۔ خود حکومت کے تازہ ترین جائزوں میں یہ بات آرہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ہی اس کی وجہ سے تہہ و بالا نہیں ہوئیں بلکہ پاکستان کی فوج اور حکومت عوام سے نبردآزما ہوگئے ہیں اور ملک خانہ جنگی کے خطرناک راستے پر پڑ گیا ہے، نیز معاشی طور پر اس نے ملک کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے تازہ ترین مطالعات کی روشنی میں پاکستان کے غریب عوام اس جنگ کی جو قیمت ادا کر رہے ہیں وہ ۰۵-۲۰۰۴ء میں اگر ۱ئ۲۸۹ ارب روپے تھی تو وہ بڑھ کر ۰۹-۲۰۰۸ء میں ۷۹ئ۶۷۷ ارب روپے ہوگئی ہے، اور اس طرح صرف پانچ برسوں میں کُل معاشی چوٹ (economic cost) اس غریب، قرض میں جکڑی ہوئی قوم پر پڑی ہے وہ ۱۲ئ۲۰۸۳ ارب روپے ہے جو ۱۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے اور غالباً ۱۰-۲۰۰۹ء اور ۱۱-۲۰۱۰ء میں یہ سالانہ ضرب ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجائے گی۔

اس جنگ کی دلدل سے نکلے بغیر ہمارے لیے زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے عملاً بھی نکلنا ضروری ہے اور علمی اور سیاسی سطح پر دہشت گردی اور جنگ ِ آزادی کے فرق کو جس طرح ختم کیا گیا ہے اس کے خلاف بھی بغاوت ضروری ہے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس کا موجودہ فراز اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سیاسی مخمصے  سے نجات حاصل کی جائے بلکہ اسے چیلنج کیا جائے جو اس صورت حال کا ذمہ دار ہے۔

  • دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا راستہ ان شاء اللہ کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت کی افواج ہی نہیں، اب وہاں کے دانش ور اور تجزیہ کار بھی بادل ناخواستہ اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارت کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ قوت سے اہلِ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ نوجوانوں اور خواتین کے میدان میں آنے اور پوری قوم کے ان کے ساتھ کھڑے ہونے نے اب یہ ثابت کر دیا ہے ۱۹۳۰ء میں جو تحریک شروع ہوئی تھی      وہ چاہے جن مراحل سے بھی گزری ہو اور اس کے اسلوب کار میں جو بھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں اس کا اوّلین ہدف صرف دو ہیں:

اوّلاً: بھارت کے قبضے سے نجات اور آزادی کا حصول، دوم: اپنے اسلامی اور کشمیری تشخص کی حفاظت اور دینی، تہذیبی اور تاریخی رشتوں کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا عزم۔

ہم بڑے دُکھ سے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کی ہولناک غلطیوں، کمزوریوں اور قلابازیوں کی وجہ سے پاکستان سے محبت، عقیدت اور یگانگت کے احساسات کے ساتھ اس کی قیادت سے مایوسی اور اس پر بے اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے دور کی   مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت کی بے عملی اور بدعملی کی وجہ سے خطرناک حدود کو چھو رہا ہے۔ بھارت کے خلاف ان کے جذبات میں نہ صرف کوئی کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔   اب خود بھارت کے اخبار ہندستان ٹائمز کے سروے کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کے ۸۷فی صد نے بھارت سے آزادی کی تائید کی ہے۔ جموں و کشمیر میں غیرمسلم آبادی کے باوجود ۸۷ فی صد کے بھارت کے چنگل سے نکلنے کے عزم کا اظہار غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے منسلک رہنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، البتہ پاکستانی قوم اور قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کشمیری عوام نے اب تک پاکستان کی قیادت اور پالیسیوں سے تو مایوسی بلکہ برائ.ت کا اعلان کیا ہے لیکن پاکستانی قوم سے ابھی تک انھیں اُمید ہے۔ گو ان کی مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے، اگر اب بھی ہم صحیح پالیسی اختیار کریں اور اس کی روشنی میں صحیح اقدام بھی کریں تو پاکستان سے رشتہ جوڑنا جو ان کے دل کی آواز اور تاریخی آرزو ہے ایک بار پھر ان کی اوّلین ترجیح بن سکتا ہے۔ البتہ بھارت سے آزادی ان کا وہ ہدف اور تاریخ کا وہ اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کا احساس اب بھارت کے سوچنے سمجھنے والے طبقوں میں بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی تجزیہ نگار بھی اس کا احساس و اعتراف کر رہے ہیں، مثلاً روزنامہ دی گارڈین لندن کے مقالہ نگار سائمن ٹس ڈال کے مطابق:

۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد سے، دہلی کی کشمیر پالیسی، یعنی استصواب راے عامہ کے  اقوامِ متحدہ کے مطالبے کو نظرانداز کرنا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، منتخب حکومتوں کو استعمال کرنا یا ان کا تختہ اُلٹ دینا اور معاشی ترقی کو نظرانداز کرنا___ مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ (باربرا کراسٹ کے مطابق بحوالہ دی نیشن)

تشدد اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بہت سے کشمیری ابھی تک اپنے آپ کو بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے اور اعلان کرتے ہیں کہ آیندہ بھی ہرگز نہیں سمجھیں گے۔ بھارت نے کئی لاکھ فوجیوں اور نیم فوجیوں پر مشتمل فوج کشمیر میں رکھی ہے جس نے گرمائی صدرمقام سری نگر کو ایک مسلح کیمپ میں تبدیل کردیا ہے جہاں اکثر کرفیو ہوتا ہے اور ہمیشہ سر پر بندوق ہوتی ہے۔ میڈیا سخت پابندیوں کے تحت کام کر رہا ہے۔ بنیادی حقوق کی  خلاف ورزی اور ٹارچر کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کا فلسطینیوں سے اسرائیل کے سلوک سے تقابل نامناسب نہیں۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۱؍اگست ۲۰۱۰ئ)

دی گارڈین ہی کی ایک اور مضمون نگار کیتھرین لیوک پاکستان کے سیلاب پر مغربی اقوام کے ردعمل کے موضوع پر حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھارت اور اس کی کشمیر پالیسی کا بھی تنقیدی جائزہ لیتی ہے اور اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ کیا گیا ہے:

بھارت کے اپنے گھر میں بھی خود ملکی حالات کی پیدا کردہ بغاوت موجود ہے۔ شمال مشرق میں نیکسلائٹ اور مائو دہشت گرد بھارت کے استحکام کے لیے خطرناک چیلنج ہیں۔ یہ انتہاپسندی جس کی وجہ غربت ہے عالمی مذمت کا نشانہ نہیں بنتی۔ جولائی کے اقوامِ متحدہ کے اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں افریقہ کے صحرائی خطے کے ۲۶ممالک سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہیں۔ بالآخر پریس میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ گذشتہ ۶۰ برس سے کشمیر کا تنازع حل نہ ہونے کی ذمہ داری زیادہ قطعیت سے بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۳/اگست ۲۰۱۰ئ)

خود بھارتی روزنامہ دی ہندو اپنے ایک حالیہ اداریے میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کی پوری ذمہ داری بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت اور اس کے استبدادی ہتھکنڈوں اور قوت سے سیاسی مسائل کو ختم کرنے کی پالیسی پر ڈالتا ہے۔ (دی ہندو، ۱۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

فیصلہ کن مرحلہ

کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آگئے ہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور وہ کسی کا انتظار نہیں کرے گی کہ کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگاچکی ہے۔ اب فیصلہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کو کرنا ہے کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر ان کا کردار کیا ہوگا؟ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے دبائو۱؎ اور مقامی زبانوں کے میڈیا کے شوروغوغا اور تشدد کو تیزتر کرنے کے واویلے کے باوجود بھارت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور خود پالیسی ساز ان حالات کو بہ امر مجبوری تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہرسطح پر نہ صرف مزاحمت ہے بلکہ بھارتی دانش ور چانکیہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے تسلط کو کسی نہ کسی شکل میں باقی رکھنے، تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، اس کی مخلص اور پرکھی ہوئی قیادت کے خلاف نت نئی چالیں چلنے، پاکستان کی حکومت کو نئے کھیلوں اور پھندوں میں اُلجھانے اور امریکا اور اسرائیل کے تعاون سے اپنی سازشوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔

جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں، وہیں ابھی سازشوں اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی پورا امکان ہے۔ اہلِ کشمیر اور پاکستان کو ہوا کے رُخ کو تو ضرور سمجھنا چاہیے مگر یہ جان کر کہ ابھی ظلم و ستم کی حکمرانی، قوت کے استعمال کے نئے تجربات، سیاسی سمجھوتوں اور دھوکوں کے نئے کھیل ’تقسیم کرو اور مسلط رہو‘ کی سامراجی پالیسی کے نئے ماڈلز کے تجربوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ  ع  ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!

۱-            بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے ۸جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ایک مضمون Calming Kashmir میں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے جنگ جُو حلیفوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کا جو نسخہ پیش کیا گیا ہے وہ بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے: ’’پاکستان افضل خاں کی شیطانی پالیسی پر چل رہا ہے۔ اس کا جواب وہی ہے جو شیواجی نے دیا تھا‘‘۔ یہ اس تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے جب مرہٹہ سردار شیواجی نے مسلمان سپہ سالار  افضل خاں کو ’امن مذاکرات‘ کے لیے بلا کر قتل کر دیا تھا۔

بھارت، امریکا اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بھی اس مسئلے کے معتدل، مبنی برحق اور فوری حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج دونوں بھارتی حکومت اور فوج کی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے نتیجے میں امریکا کی عالمی حکمت عملی اور پاکستان پالیسی ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس مسئلے کے منصفانہ حل کے سلسلے میں بھی امریکا کا رویہ یکسر بدل گیا ہے۔

کیا یہی وجہ ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف بھارت پر دبائو دالنے سے گریز کر رہا ہے بلکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے بھارتی الزامات کا سہارا لے کر پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے اور صاف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کس کا دوست ہے اور کس کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور پاکستان کی پالیسی کی ناکامی کا ثبوت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دو بیانات ہیں جو ایک ہفتہ کے وقفہ سے جاری ہوئے۔ پہلے بیان میں کشمیر کے حالات پر تشویش اور بھارت اور پاکستان کو مسئلے کے حل کی ترغیب اور دوسرے میں پہلے بیان سے برائ.ت کا اعلان۔

عالمی ادارے، امریکا اور یورپی اقوام اور مغربی میڈیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی مفادات کی دوڑ میں بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کے مظالم اور سامراجی ہتھکنڈوں تک کا ذکر   الا ماشا اللہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ اب اس صحافتی بددیانتی، طاقت اور مفادات کی جنگ میں کھلی کھلی جانب داری کے خلاف بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں لیکن یہ آوازیں ابھی بہت ہلکی ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں، کشمیریوں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے اور سامراجی قوتوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں، اداروں اور میڈیا کو متحرک کیا جائے لیکن یہ کون کرے، جب کہ پاکستان کی قیادت، اس کے سفارت خانے اور اس کے وسائل پاکستان اور کشمیر کے مفاد میں استعمال نہیں ہو رہے۔

کشمیر کے اس اہم سیاسی اور انسانی مسئلے کے بارے میں تغافل اور جانب داری کے سلسلے میں سیاسی قوتوں اور میڈیا کی ناکامی کے بارے میں جو آوازیں اب اُٹھنے لگی ہیں ان کو پروجیکٹ کرنے اور مزید تائیدی قوتوں کو متحرک کرنے کے جتنے امکانات آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے لیکن کون ہے جو ان سے فائدہ اٹھائے؟

دل خون کے آنسو روتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور پاکستانی قیادت اور سفارت کار خاموش ہیں، جب کہ مغرب کے ایوانوں میں خواہ کتنے ہی مدہم سُروں میں ہو، یہ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ بھارت ظلم اور دھوکے کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے، حقائق بھارت کی تصویرکشی سے بہت مختلف ہیں اور کشمیر کے مجبور انسانوں کی آواز کو اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں اردتارائے اور دوسرے دانش ور بھارت کی کشمیرپالیسی کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں بھی یہ احساس تقویت پارہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی نمایندہ Lyndia Polgreenسری نگر سے اپنی رپورٹ میں تازہ صورت حال کی پوری تصویرکشی کرتی ہے:

اسکول طالب علم ۱۹سالہ فدا نبی جس کے دماغ میں گولی پیوست تھی، چھے دن زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا رہ کر جان کی بازی ہار گیا۔ کشمیر کے موجودہ خونیں موسمِ گرما میں یہ ہلاک ہونے والا ۵۰واں فرد تھا۔

کئی عشروں سے بھارت نے کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج پاکستان کی برپا کردہ بغاوت کو فرو کرنے کے لیے لگا رکھی ہے۔ پاکستان اس سرحدی علاقے پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔ بغاوت بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے لیکن بھارتی افواج اب تک یہاں ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو درپیش خطرے کا سامنا کر رہی ہیں: ایک انتفاضہ کی طرح کی عوامی بغاوت جس میں نہ صرف پتھر پھینکنے والے نوجوان شامل ہیں بلکہ ان کی بہنیں، مائیں، چچا اور دادا بھی شامل ہیں۔ یہ احتجاج مسلسل تیسرے موسمِ گرما میں پھوٹ پڑے ہیں۔ انھوں نے بھارت کو اپنی حالیہ تاریخ کے سنگین ترین داخلی بحران سے دوچار کر دیا ہے، احتجاج کی شدت اور استقلال کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیریوں کی تائید حاصل کرنے کے لیے پیسہ، انتخابات اور بہت بڑے پیمانے پر طاقت کے عشروں تک کے استعمال کی ناکامی کا اعلان ہونے کی وجہ سے۔

جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی کے پروفیسر ایک کشمیری ہندو امیتاب متو کا کہنا ہے کہ ہمیں کشمیر میں اپنی پالیسیوں پر مکمل طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ پیسے کا مسئلہ نہیں ہے، آپ نے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا ہے۔ یہ منصفانہ انتخابات کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ کشمیریوں کی ایک ایسی نسل تک پہنچنے کا مسئلہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بہت بڑا بھوت ہے جس کی نمایندہ اس کی افواج اور ان کے مورچے ہیں۔

بلاشبہہ حق خود ارادی کے لیے کشمیریوں کا مطالبہ علاقے کی تاریخ میں اتنا شدید پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ تنازعے کے حل کی سفارتی کوششیں جمود کا شکار ہیں۔

لینڈاا پنی حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ:

اس موسمِ گرما میں احتجاج کرنے والوں اور فوجیوں کے درمیان ۹۰۰ کے قریب جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں ۵۰ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جو زیادہ تر بندوق کی گولی کے زخم سے ہلاک ہوئے ہیں۔پتھر پھینکنے والے مجمعوں نے ۱۲۰۰ فوجیوں کو زخمی کیا ہے اور کوئی بھی اس احتجاج میں ہلاک نہیں ہوا۔ جس سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ بھارت کی سیکورٹی فورسز غیرمسلح شہریوں کے خلاف اتنی زیادہ طاقت کیوں استعمال کررہی ہیں اور کیوں اس پر بین الاقوامی احتجاج اتنا کم ہے؟ ۳۱سالہ اسکول کے استاد الطاف احمد کا کہنا ہے کہ جب کشمیری سڑکوں پر مرتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے۔

بھارت کی غلط بیانیوں کا ذکر لینڈا اپنے اس اہم صحافتی مراسلے میں اس طرح کرتی ہے:

بھارتی حکام پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کو سرحدپار کی پاکستان کی جہادی طاقتوں کے ناخواندہ ساتھی کی شکل میں پیش کرتے ہیں، اور تجویز دیتے ہیں کہ معاشی ترقی اور ملازمتیں نوجوانوں کو سڑکوں سے ہٹانے کی کلید ہے۔ مگر پتھر پھینکنے والے بہت سوں کو ناخواندہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ فیس بک میں ’میں کشمیری پتھر پھینکنے والا ہوں‘کے نام سے گروپ بناتے ہیں۔ ایک نوجوان جو احتجاج میں باقاعدگی سے شریک ہوتا ہے اور خالدخان کے نام سے جانا جاتا ہے، ایم بی اے ہے اور اچھی آمدنی والی ملازمت پر ہے۔ (’بھارتی افواج کو کشمیر میں وسیع بغاوت کا سامنا‘ نیویارک ٹائمز، ۱۲؍اگست ۲۰۱۰ئ)

ہفت روزہ نیوزویک ۱۷جولائی کی اشاعت میں مصنف اور تجزیہ کار Jereny Kahn کا مضمون شائع کرتا ہے جو وزیراعظم من موہن سنگھ کو مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کی طرف  توجہ دو:

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے لیے تشدد کی لہر ایک مشکل چیلنج ہے۔ انھیں اپنی حکومت کے عقابوں کو بھی روکنا ہے، جیسے ان کے وزیرداخلہ چدم برم جو طاقت کے بہت زیادہ استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور موجودہ احتجاج کو پرانی طویل بغاوت سے جوڑ کر اور کسی ثبوت کے بغیر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان اور لشکرِطیبہ ان ہنگاموں کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کو اس احتجاجی تحریک کو وہی سمجھنا چاہیے جو یہ ہے۔ یہ ان نوجوان کشمیریوں کے غصے اور محرومی کا احساس ہے جو اپنے آپ کو بقیہ بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ریاست میں مواقع کے فقدان سے مایوسی کا شکار ہیں اور مقبوضہ لوگوں کی طرح رہنے سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں فوجی اور پولیس کے سپاہی کشمیر میں موجود ہیں اور وادی میں ہر جگہ ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔ ان سیکورٹی فورسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال طاقت کے غلط استعمال کو دعوت دیتی ہے۔

طارق علی لندن کے جریدہ لندن ریویو آف بکس کی ۲۲جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں ایک مضمون Not Crushed, Merely Ignored میں بڑے دُکھ کے ساتھ پوری مغربی صحافت بشمول بائیں بازو کے دانش ور اور قلم کار سے شکایت کرتاہے کہ کشمیر میں مظالم کے کیسے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اور انسانیت خاموش تماشائی ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی قیادت اور میڈیا بھی اس بے حسی کا شکار ہیں:

کشمیر میں اموات کی خبریں تو غائب ہوجاتی ہیں، لیکن تہران کو جانے دیجیے، تبت کے معمولی سے واقعے کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر فخر بھارت کے تشدد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو آسانی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑ دیا گیا اور اسرائیل کے فوجی افسروں کو اکنور کی فوجی چھائونی میں بلایا گیا تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے بارے میں مشورہ دیں۔ ویب سائٹ انڈیا ڈیفنس میں ستمبر ۲۰۰۸ء میں بتایا گیا کہ گذشتہ ہفتے میجر جنرل    اے وی مزراہی نے کشمیر کے متنازعے علاقے کا دورہ کیا تاکہ بھارتی فوج کو مسلمان باغیوں سے لڑائی میں جو چیلنج درپیش ہیں ان کو قریب سے دیکھ سکیں۔ تین دن وہ بھارت میں رہے اور فوج کی اعلیٰ قیادت سے اس منصوبے پر گفتگو کی کہ اسرائیلی کمانڈو بھارت کی افواج کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی تربیت دیں۔ ان کا واضح مشورہ یہ تھا کہ وہی کرو جو ہم فلسطین میں کرتے ہیں اور ہمارا اسلحہ خریدو۔ ۲۰۰۲ء کے بعد چھے سالوں میں بھارت نے اسرائیل سے ۵ارب ڈالر کااسلحہ خریدا۔

طارق علی بھارت کے مظالم کی کچھ جھلکیاں اس طرح دکھاتا ہے:

بھارتی وزیراعظم کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۰۰۸ء میں خط لکھا تھا جس میں کشمیر میں  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیل بیان کی تھی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں ۱۹۸۹ء سے جاری مسلح جدوجہد میں جو لوگ غیرقانونی طور پر قتل کیے گئے، ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا، لاپتا افراد اور دوسری زیادتیوں کا شکار ہوئے ان کی باقیات دفن ہیں۔

صرف اُری ضلع کے ۱۸ دیہاتوں میں ۹۴۰ افراد کی قبریں پائی گئیں۔ ایک مقامی    این جی او، آئی پی ٹی کے کا کہنا ہے کہ ماوراے عدالت قتل اور ٹارچر دادی میں عام طور پر ہوتے ہیں اور مغربی ادارے نئی دہلی سے تعلقات خراب ہونے کے خدشے سے    اس بارے میں کچھ کرنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔

آئی پی ٹی کے،کے فراہم کردہ اعداد و شمار حیرت ناک ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ۱۹۸۹ء سے ۲۰۰۹ء تک کشمیر میں فوجی قبضے کے دوران ۷۰ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ یہ رپورٹ ان دعووں کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ قتل انفرادی فعل ہیں۔ اس کے برخلاف یہ قبضہ کرنے کے باقاعدہ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کو دورانِ ملازمت کارکردگی سمجھا جاتا ہے اور اس پر ترقی اور مالی انعامات دیے جاتے ہیں اور دعووں کی تصدیق کر کے ادایگیاں کی جاتی ہیں۔ اس گھنائونے اور مسلسل جاری تنازعے میں ۵ لاکھ سے زیادہ فوجی اور  نیم فوجی عملہ (عراق اور افغانستان میں موجود امریکی افواج سے زیادہ) کسی سزا کے خدشے کے بغیر کشمیر بھر میں امن عامہ برقرار رکھتا ہے اور لوگوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرتا ہے۔ (لندن ریویو بُک، جلد۳۲، عدد ۱۴، ۲۲ جولائی ۲۰۱۰ئـ)

میں مغربی اخبارات اور رسائل کا مطالعہ گذشتہ ۴۰ سال سے کر رہا ہوں۔ کشمیر میں بھارت کے مظالم اور اس کی کشمیر پالیسی کے سلسلے میں جو معلومات اب آنا شروع ہوئی ہیں اس کی پہلے  نظیر نہیں ملتی۔ لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کی حکومت، اس کے سفارت کار اور خود اس کا میڈیا (نواے وقت، نیشن اور جسارت جیسے چند اخبارات کو چھوڑ کر) اس سلسلے میں جس بے حسی اور بے بصیرتی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ مجرمانہ غفلت سے بھی کچھ بڑھ کر ہے!

اھلِ کشمیر سے یک جھتی کا تقاضا

بھارت اس وقت پریشان ضرور ہے مگر اپنی شاطرانہ چال بازیوں سے باز نہیں آیا۔ وہ اس وقت بھی جب کشمیر کا چپہ چپہ اس کے خلاف بغاوت کی علامت بن گیا ہے، نت نئی چالوں میں  مصروف ہے۔ پاکستان سے مذاکرات اور مذاکرات میں اصل مسائل سے فرار، نیز پاکستان کو بلیک میل کرکے دبائو میں رکھنے کی کوشش اس کا حصہ ہے۔ اب تک ۱۵۰ سے زیادہ مذاکراتی نشستیں ہوچکی ہیں لیکن نہ ماضی میں کچھ حاصل ہوا اور نہ مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر آرہا ہے مگر پاکستان کو اُلجھا کر رکھنا اور بلیک میل کرنا دونوں کام جاری رہیں گے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے سلسلے میں اس کی ترجیح اس کو تقسیم کرنے، مذاکرات کا دھوکا دے کر تحریک کو تحلیل کرنے اور سب سے بڑھ کر اصل ایشو، یعنی حق خود ارادیت سے توجہ کو ہٹاکر معاشی پیکج اور علاقائی خودمختاری کا جھانسا دینا ہے جس کا تجربہ اہلِ کشمیر باربار کرچکے ہیں، اور شیخ عبداللہ ۱۱سال کی قید کے بعد اور خود اپنے تھوکے کو چاٹ لینے کے بعد دوبارہ برسرِاقتدار آئے لیکن ان کی موعودہ خودمختاری کا کیا حشر ہوا؟ خود  کلدیپ نائر کے الفاظ میں سن لیں اور کشمیر کی قیادت اس سے سبق لے:

شیخ عبداللہ اقتدار میں واپس آئے اور اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی سے یہ معاہدہ کیا جس سے وہ خودمختاری بحال ہوگئی جو نئی دہلی میں ان کی غیرحاضری میں ختم کردی گئی تھی۔ لیکن شیخ عبداللہ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ بیورو کریسی اور خفیہ ایجنسیاں جو مضبوط ہوچکی تھیں اس کو کام کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھیں۔ شیخ نے مجھ سے کہا کہ وہ اکثر مجھ سے چپڑاسی کا سلوک کرتے تھے۔ (ڈان، ۶؍اگست ۲۰۱۰ئ)

آج بھی خودمختاری کی باتیں ہو رہی ہیں اور تو اور خود کلدیپ نائر بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ الحاق اور آزادی دونوں ممکن نہیں۔ الحاق کا حشر دیکھ لیا اور آزادی ان کے بقول بھارت اور پاکستان دونوں کو قبول نہیں، اس لیے معاملہ خودمختاری پر طے ہوجانا چاہیے۔ حالانکہ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اہلِ جموں و کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے اور وہ تقسیمِ ملک کے فارمولے، بھارت کے عہدوپیمان، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوتوں کے پختہ وعدوں کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول نہ بین الاقوامی سرحد تھی اور نہ آج ہے۔ کشمیر کے لوگوں کی اس سرحد کے پارآمدورفت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخلہ یا اخراج کی حیثیت نہ رکھتے تھے اور نہ آج رکھتے ہیں۔ یہ ساری بحث کہ کس سرحد سے کون کہاں جا رہا ہے کشمیر کی حد تک غیرمتعلق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اور کشمیریوں کا حقِ خودارادیت محض وقت گزر جانے سے معدوم نہیں ہوجاتا اور اس حق کی حفاظت کشمیری عوام نے اپنے خون سے کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے کم از کم تین فریق ہیں: یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام۔ بین الاقوامی قانون اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی رُو سے چوتھا فریق عالمی برادری بھی ہے۔ مسئلے کا محض دوطرفہ حل ناممکن ہے۔ حال ہی میں بی بی سی کی اُردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے خود عمرعبداللہ    یہ کہنے پر مجبور ہوا:

کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اسے بھارت اور پاکستان کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ ایسا حل نکالنا ہوگا جو جموں و کشمیر کے عوام کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ سیاسی ہے۔ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنا ہوگا۔ (بی بی سی اُردو سروس، سیربین، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ بنیادی مسئلہ ہے ہی حق خودارادیت کا اور اس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام تینوں کی شرکت اور اتفاق ضروری ہے، اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آخری حق اور اختیار جموں و کشمیر کے عوام کا ہے۔ جو بھی وہ طے کریں اسے قبول کیا جانا چاہیے اور مستقبل کا نظام ان کی مرضی سے قائم ہونا اور چلنا چاہیے۔ اس کے سواکوئی راستہ علاقے میں سلامتی اور استحکام کے حصول کا نہیں۔ اس کے لیے پاکستانی قوم اور حکومت اور عالمی برادری کو مثبت کردار اداکرنا ہوگا۔ سمجھوتوں کی سیاست ناکام رہی ہے۔ اصول اور حق و انصاف پر مبنی حل ہی مسئلے کا حل ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت جس مجرمانہ روش پر گامزن ہے وہ کشمیر، پاکستان، اُمت مسلمہ اور تاریخ سے غدّاری کی روش ہے اور پاکستانی قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس غلط کار حکومت کو یا اس راستے سے مضبوط ارادے کے ساتھ روک دے یا اقتدار ان لوگوں کے سپرد کردے جو ملک، علاقے اور مسلمانانِ پاکستان و کشمیر کے مفادات کی حفاظت کرسکیں۔ کشمیر کا مسئلہ فقط زمین کا تنازع نہیں___ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، نیز ان کے ایمان، تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اصولی بنیاد سے  ہٹ کر اس کا کوئی حل نہیںنکالا جاسکتا۔ یہ اہلِ کشمیر کا حق ہے، یہی پاکستان کا مفاد ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے۔ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں نے ہر طرح سے قربانی دے کر اپنی منزل اور اپنے اہداف کا اظہار و اعلان کردیا ہے اور وہ کسی بھی سامراجی قوت کے آگے سپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

بھارت کے مظالم ہر انتہا کو پار کرگئے ہیں اور دنیا کی بے حسی افسوس ناک اور شرم ناک ہے لیکن پاکستان کے غیور مسلمانوں اور پوری اُمت مسلمہ کے لیے خاموش تماشائی کا کردار دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا سودا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کے لیے صحیح موقف کو کسی رُو رعایت کے بغیر واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو  اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

بلاشبہہ آج پاکستان ایک عظیم آزمایش سے دوچار ہے۔ سیلاب کے طوفان نے ایک چوتھائی ملک کو تاراج کر دیا ہے اور ہر علاقہ اور ہر خاندان متاثر ہے لیکن موجودہ حالات میں بھی اُمت مسلمہ کو جس کردار کی تلقین کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں اپنے ملک کے بھائیوں اور بچوں کے دُکھوں میں شریک اور ان کو اس آزمایش سے نکالنے کے لیے ہرممکن اقدام کریں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، وہیں ان حالات اور مشکلات کے علی الرغم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی بھی بھرپور انداز میں فکر کریں اور ان کی جدوجہد کی تقویت اور ان کی تحریک کی کامیابی کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں،اور سب سے اہم اپنے اور ان کے اصولی موقف پر سختی سے جم جائیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی۔ صحیح نیت سے بندہ جتنا خرچ کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے:

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُلَہٗ وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَ ھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo (سبا ۳۴:۳۹) اے نبیؐ! ان سے کہو، ’’میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے،وہ سب رازقوں میں سے بہتر رازق ہے‘‘۔

اہلِ ایمان کو یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ فراخی اور غنٰی کے عالم میں دینا تو معمول کی کارروائی ہے، اصل امتحان اس میں ہے کہ تنگی اور سختی کے عالم میں اپنے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرو۔ قرآن نے جہاں فَے کی تقسیم کا اصول بیان کیا ہے وہاں اہلِ ایمان کو یہ ابدی ہدایت بھی دی ہے کہ:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِِلَیْھِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) اور وہ (یعنی اموال فَے) ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیںاور جو بھی ان کو دے دیا جائے  اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہ اسلام کے ابدی اصول ہیں اور فرد، معاشرہ اور ریاست ہر ایک کو ان کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانے کی ہدایت ہے۔ ان احکام کا تعلق محض انفرادی سطح پر اِنفاق تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج جن حالات میں پاکستانی قوم ہے اس میں ان سے روشنی لیتے ہوئے ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویے اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادایگی کی فکر اسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے جس سے ملک کے اندرونی مسائل حل، ضرورت مندوں کی مدد، غلط کاروں کا احتساب اور بحیثیت مجموعی اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنا ہم پر فرض ہے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا، اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے ع

زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز

اور:

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

قرآن کی تلاوت اور نماز قائم کرنا یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلے میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکاتِ بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور     اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے....

  • تلاوتِ قرآن: تلاوت کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی، جیساکہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ  یقرأون القراٰن ولا یجاوز حنا جرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمِیّۃ، ’’وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘ (بخاری،مسلم، مؤطا)۔ درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ اس کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں: مَا اٰمن بالقراٰن من استحل محارمہ، ’’قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا‘‘ (ترمذی بروایت صُہَیب رومیؓ)۔ ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجاے اس کو اپنے خدا کے مقابلے میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیرکٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایات دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے، اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔

اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ’’قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف‘‘ (مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے بازپُرس ہو، تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیِ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے، کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کرکے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔(تفہیم القرآن، جلدسوم، ص ۷۰۴-۷۰۵)

[ترتیل قرآن سے مراد یہ ہے کہ] تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلامِ الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمن اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے (بخاری)۔ حضرت اُم سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضوؐر ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مُسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی)۔ دوسری ایک روایت میں حضرت اُم سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضوؐر ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعامانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مُسنداحمد،بخاری)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)

  • نماز سے تعمیر سیرت : نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف [یہ ہے کہ یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ العنکبوت ۲۹:۴۵]....

نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا   وصفِ لازم ہے، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تو اِس دنیا میں آزاد و خودمختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جوتیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس   خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہرنماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔

نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے، مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجاے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعے سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیراثر خفیہ اور علانیہ ہرحال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملے میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو    اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اسے جزوِ بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہرکھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھاکر قے کر دینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا۔

ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عمران بن حُصَینؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباسؓ حضوؐر کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا‘‘(ابن ابی حاتم، طبرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضوؐر سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر، بیہقی)۔ ابن مسعودؓ سے حضوؐر کا یہ ارشاد مروی ہے:  ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے‘‘۔(ابن جریر، ابن ابی حاتم)

اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصری،  قتادہ اور اعمش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفرؒ صادق فرماتے ہیں: ’’جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے‘‘ (رُوح المعانی)۔ (تفہیم القرآن، جلد۳، ص ۷۰۶-۷۰۷)

قرآن حکیم دنیا کی تمام دوسری کتابوں سے مختلف ہے۔ اس کتاب کے اندر مختلف ابواب کی صورت میں الگ الگ مسائل پر بحث ملتی ہے، نہ یہ کتاب روایتی انداز میں کہیں اپنے موضوع کا تعین کرتی ہے۔ یہ دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے۔ قاری پہلی دفعہ اس کے معانی سے آگاہی کی غرض سے اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو وہ اس کی اکثر آیات کو آپس میں   بے جوڑ پاکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اگر چند بنیادی امور کی وضاحت ابتدا ہی میں کر دی جائے وہ اُلجھن سے بچ سکتا ہے اور فہم و تدبر کی راہیں اس پر کشادہ ہوسکتی ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطۂ آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ قرآن کی اصل یا بنیادی دعوت کو جاننے کے بعد، قرآن کے اصل موضوع، مرکزی مضمون اور مدعا کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کا موضوع انسان ہے، مرکزی مضمون صحیح رویے اور ہدایت کی طرف رہنمائی ہے، جب کہ مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ ان تین بنیادی امور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب اپنے موضوع، مدعا اور مرکزی مضمون سے بال برابر بھی نہیں ہٹتی ہے۔ اس کے تمام مضامین آپس میں باہم مربوط ہیں اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ دعوت کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔

  • قرآن کی بنیادی دعوت: قرآن کا قاری اس پختہ یقین کے ساتھ قرآن کے معانی و مطالب سے استفادہ کرنے بیٹھے کہ سارے نظامِ کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ ہے۔ اسی نے انسان کو سوچنے، سمجھنے، نیز بھلائی اور برائی میں تمیز کرنے کی توفیق عطا کر کے پیدا کیا ہے۔ اُس کے لیے اب ضروری ہے کہ وہ اس زندگی کو امتحان کی مدت سمجھ کر صرف وہ اسلوبِ حیات اختیار کرے جس سے اس کا خالق و مالک خوش ہوتا ہے۔ اُسے یقین ہو کہ اس کا رب اگر اس سے راضی ہوگیا تو اسے نعمتوں سے مالا مال جنت عطا کی جائے گی ورنہ بصورتِ دیگر اُس سے بغاوت کی پاداش میں اس گڑھے میں رہنا پڑے گا جس کا نام دوزخ ہے۔

اُسے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ زمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے افراد، یعنی آدم ؑ و حواؑ کے لیے بھی خدا نے طریقِ زندگی اسلام ہی تجویز کیا تھا لیکن پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ نسلِ آدم ؑ، ابلیس سے دوستی کے سبب خدا کے بتائے ہوئے طریقوں سے دُور ہوتی گئی اور اپنے نفس کی غلامی کے نتیجے میں زمین کے اندر فساد کے سامان پیدا کرتی چلی گئی۔ چنانچہ ربِ کائنات، بجاے اس کے کہ بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح طریقے کی طرف لے آتا، وہ ان ہی انسانوں میں ایسے انسان پیدا کرتا رہا جو انھیں بدستور ان کے غلط رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انھیں خدا کے پسندیدہ طریقہ ہاے زندگی کی دعوت دیتے رہے۔ خدا کے ان فرستادہ بندوں کی آمد کا سلسلہ ہزارہا برس تک جاری رہا یہاں تک کہ پروردگارِ دوجہاں نے سرزمینِ عرب میں خاتم الانبیا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آخری کتاب، قرآنِ مجید کے ساتھ مبعوث فرما کر انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ مکمل کر دیا اور صحیح رویے اور دنیا کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی طرف دعوت دی۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔

  • قرآن کے بنیادی مضامین : قرآن کے طالب علم کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن سارے کا سارا ایک ہی وقت میں نہیں اُترا۔ دورِ نبوت کے ابتدائی زمانے میں اُترنے والی آیات زیادہ تر تین مضامین پر مشتمل ہوتی تھیں۔ اوّل یہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس فریضے کی  انجام دہی کے لیے خود کو کس طرح تیار کریں۔

دوم یہ کہ انسانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ذہنوں کے اندر موجود غلط فہمیوں کو کس طرح دُور کیا جائے۔ سوم یہ کہ انسانوںکو گمراہی کے شکنجوں سے چھڑا کر ہدایت کے راستے پر کس طرح لگایا جائے۔ بہترین ادبی رنگ اور مٹھاس والی یہ آیات فوراً دلوں کے اندر اُتر جانے والی ہوتی تھیں، اور یہ انھی آیات کا معجزہ تھا کہ ابتدا کے تین چار برسوں کے اندر ہی قدرتِ خداوندی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ایسے پاکیزہ نفوس عطا کردیے جنھوں نے دین کی عظیم عمارت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔

نسلِ ابلیس کو دین حق کا فروغ کب گوارا تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے داعی حق صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں پر کلمۂ حق کی پاداش میں ظلم و ستم کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بالآخر اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ساتھ ہی قدرت نے یہ بھی کیا کہ اُس بنجر زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہ رہا جس کی کوکھ سے ایمان کا شگوفہ نہ پھوٹ نکلا ہو۔ اِس مرحلے کے دوران میں اُترنے والی آیات کے اندر اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی دیا گیا اور کفر پر ڈٹے رہنے والوں کو اُن کے  عبرت ناک انجام سے خبردار بھی کیا گیا۔

ہجرت کے بعد مدینہ جب ایک باقاعدہ اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرنے لگا تو کفر کی قوتِ برداشت بھی جواب دینے لگی اور پھر اس نے پوری قوت سے اسلام کے پودے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن ۱۳سال کی مسلسل اور سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسے اپنے عزائم میں پے درپے شکست ہوئی اور یوں اس مرحلے کے اختتام تک نہ صرف سارا عرب ہی اسلام کے لہلہاتے گلشن میں تبدیل ہوگیا بلکہ اس کے پھولوں کی خوشبو عرب سے باہر بھی دماغوں کو معطر اور دلوں کو منور کرنے لگی۔ ان ۱۳ برسوں کے دوران میں اُترنے والی آیات نے ایمان والوں کو کہیں شاہانہ، کہیں معلّمانہ اور کہیں مُصلحانہ انداز میں اسلامی معاشرے کے اصول بھی بتائے اور مخالفین کے ساتھ سلوک کرنے کے طریقے بھی سمجھائے۔ اور جب اللہ نے اپنی اس آخری کتاب کی آخری آیات کے ساتھ انسانی ہدایت کی تمام حجتیں تمام کر دیں تو دنیا کے عظیم ترین معاشرے کا عظیم ترین منصوبہ بھی مکمل ہوگیا___ قرآن کا قاری اگر آیاتِ قرآن سے متعلقہ ان کے شانِ نزول کی مندرجہ بالا باتیں ذہن میں رکھے تو اسے قرآن فہمی میں کہیں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔

  • مضامین میں تکرار : یہ سوال کہ قرآن کے اندر مختلف مضامین کی اس قدر تکرار کیوں ہے؟ اس کے جواب کے پیشِ نظر قرآن کے طالب علم کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ برائیوں سے آلودہ وہ ماحول تقاضا کر رہا تھا کہ ہدایت کی ایک ایک بات کو مختلف انداز میں اس خوب صورتی کے ساتھ دہرایا جائے کہ اس کا اثر دلوں کے اندر تک اُترتا چلا جائے، اور صدیوں سے دلوں کے اندر جاگزیں فرسودہ عقائد کی جگہ توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ سے متعلق عقائد گھر کرتے چلے جائیں، اور تیز بارش کی بجاے دھیمے دھیمے برسنے والے قطرے اپنے دُور رس اثرات مرتب کرتے چلے جائیں۔

اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بنیاد جن عقائد اور اصولوں پر ہو، انھیں کسی بھی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید اور صفاتِ الٰہی،   آخرت اور اس کی بازپُرس اور جزا و سزا، رسالتؐ اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبروتوکل اور اسی  قسم کے دوسرے بنیادی مضامین کی تکرار پورے قرآن میں نظر آتی ہے۔ یہ بنیادی تصورات اگر  ذرا بھی کمزور ہوجائیں تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح روح کے ساتھ نہیں چل سکتی۔

  • قرآن کی ترتیب: قرآن اس ترتیب سے کیوں مرتب نہیں کیا گیا جس ترتیب سے نازل ہوا تھا؟ اس سوال کے جواب کے لیے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کے مخاطب اوّل وہ لوگ تھے جو اسلام سے بالکل ناواقف تھے مگر اس کی تکمیل کے بعد اس کے مخاطب بالعموم تمام انسان اور بالخصوص وہ لوگ ہوں گے جو قیامت تک کے لیے ایک اُمت بن چکے تھے۔ اگر اسے اُسی ترتیب سے مرتب کیا جاتا تو ان علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں کی تفہیم، بہرحال مشکل ہوجاتی اور قدرت اس کتاب سے حشر تک کے تمام انسانوں کی ہدایت کا جو کام لینا چاہتی تھی، وہ ادھورا رہ جاتا۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کی یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں بلکہ     نبی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کی ہدایت میں اِسے خود مرتب کر کے اپنی اُمت کے سپرد کیا تھا اور جس روز اس کا سلسلۂ نزول مکمل ہوا، اُسی روز اس کی ترتیب بھی آخری صورت اختیار کرچکی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ قرآن کی جو سورت یا آیات اُترتیں وہ نہ صرف آپؐ خود یاد فرما لیتے بلکہ قدرتِ خداوندی آپؐ کو یاد کروا دیتی اور ساتھ ہی متعدد صحابہ کرامؓ بھی اُن آیات کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیتے اور دنیا گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لاکھوں سینے اس امانت کے امین بن چکے تھے۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کے ایما اور صحابہ کرامؓ کی مدد سے قرآن کا ایک مستند نسخہ تیار کروایا اور بعد میں حضرت عثمانؓ نے اپنے دورِخلافت میں اسی معیاری نسخے کی کاپیاں سارے عالمِ اسلام کو مہیا کیں۔ آج جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے بغیر کسی کمی بیشی کے وہی قرآن ہے، جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو عطا کیا تھا۔
  • حکمتِ قرآن : قرآن حکمت اور دانائی کے موتیوں سے بھرا ایک سمندر ہے۔ قاری ان موتیوں سے اپنی جھولی بھر لینے کی تمنا میں بار بار اس کی غواصی کرے۔ ایک یا دو بار اس کے اندر اُترنے سے وہ انمول ہیرے ہاتھ نہیں آتے جو اس کی تہہ میں چھپے پڑے ہیں۔ اگر کسی سوال کا جواب پیشِ نظر آیات میں نظر نہ آئے تو مطالعہ جاری رکھے۔ اس کی طلب کا نگیں کہیں نہ کہیں اس کے ہاتھ ضرور لگ جائے گا۔

قرآن کا قاری بہرصورت یہ دیکھتا رہے کہ قرآن کس اسلوبِ زندگی کو پسندیدہ اور کس نمونے کو ناپسندیدہ قراردیتا ہے۔ قرآن کن امور کو اس کی فلاح کا ضامن اور کن باتوں کو اس کے لیے نقصان کا موجب قرار دیتا ہے۔ قرآن کا قاری اس طرز کے مطالعے کے نتیجے میں دیکھے گا کہ خدا کے پسندیدہ بندے، مومن کا ایک مکمل خاکہ ازخود اس کے سامنے آجاتا ہے۔

  • کتابِ انقلاب: ان تمام کوششوں کے باوجود قرآن کا قاری، قرآن کی روح سے فیض یاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ قرآن کو عملاً اپنے آپ پر نافذ نہ کرے اور وہ تمام کام خود نہ کرے جن کے کرنے کا قرآن اُس سے تقاضا کرتاہے اور ان تمام کاموں سے عملاً رُک نہ جائے جن کے کرنے سے قرآن اُسے روکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن پڑھنے والا اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ کے میدان میں قدم ہی نہ رکھے اور قرآن اس پر ساری حقیقتیں کھول دے، وہ اس سمندر کی موجوں کے تھپیڑے کھائے بغیر ساحل پر سے ہی اپنی جھولی موتیوں سے بھر لے۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔

اس حوالے سے قرآن کے طالب علم کو یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا نے صرف قرآن کتابی صورت میں ہی نازل نہیں کیا۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دنیا کو اس کا ایک عملی نمونہ بھی عطا کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ وہ بہترین استاد ہے جو قرآن فہمی میں اس کی کماحقہ مدد کرسکتا ہے۔ آپؐ کا اسوۂ حسنہ اسے قرآن کی بہترین تفسیر مہیا کرسکتا ہے۔

مندرجہ بالا اصول و ضوابط کے علاوہ آج کے قاری کو یہ بات بھی ضرور پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ آج اُمت ِ مسلمہ کو جو دگرگوں حالات درپیش ہیں وہ صرف قرآن سے دُوری اور اس کے مفاہیم سے اغماض برتنے کے سبب سے ہیں۔ حضرتِ اقبالؒ نے بالکل سچ کہا تھا کہ 

ع اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

آج قرآن کی دعوت کو سمجھنے، سمجھانے اور عام کرنے کی پہلے سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ رب العزت ہمیں قرآن فہمی اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین! (مقدمہ تفہیم القرآن سے ماخوذ)

روزِ اوّل سے انسان پریشانیوں اور اَن گنت طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت کا یہ قافلہ وقت کے کسی خاص لمحے سے گزر کر وقت کے کسی خاص لمحے تک پہنچتا ہے۔ اہلِ دانش اس کو رنگوں سے بھر کر نت نئے عنوانات سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی گواہی دی ہے کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، خود ہی محرومی کا شکار ہوتا ہے اور خود ہی اس محرومی کا رونا روتا ہے۔ پھر جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور منزل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے بے خبر یہ ایک ایسی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتا ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آتی، بلکہ بیک وقت کئی کئی منزلوں، کئی کئی کشتیوں کا سوار یہ مسافر متضاد سمتوں کے اندر رواں دواں نظر آتا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں دعوتِ انبیا ؑکی گونج سنائی دیتی ہے۔ اپنے رب کی طرف بلانے، اس کی پہچان اور شناخت قائم کرنے، چاروں طرف سے اپنے رُخ کو اپنے رب کی طرف موڑ لینے کے لیے یہ دعوت انبیا ؑکی دعوت ہے، جو ہر دور کے اندر سنی گئی۔ اس پکار کو لوگوں نے قریب اور دُور سے سنا، بہ زبان حال اور بہ زبان قال سنا، بہ اندازِ سرگوشی سنا، اور بہ آواز بلند بھی سنا۔

انبیا ؑکی یہ دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو    راہِ مستقیم دکھاتی ہے۔ پورا قرآنِ پاک اس بات کا گواہ ہے، جابجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس جانب متوجہ کرتا اور تسلسل کے ساتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام انبیا ؑ اسی ایک دعوت کو پیش کرتے ہیں کہ طاغوت کو ٹھکرایا جائے۔ ہر چھوٹے بڑے جھوٹے خدا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ دل ودماغ کی دنیا کے اندر جو بت سجے ہوئے ہیں، جن بتوں سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، ان سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ قرآن کریم نام لے لے کر بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی دعوت بھی یہی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑبھی یہی کہتے رہے۔ حضرت ہود ؑبھی یہی دعوت لوگوں میں پہنچاتے رہے، تاآنکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت اور اسی پیغام کو لے کر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور منزل کی طرف لے جانے کے لیے تشریف لائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پانچ نام گنوائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمدؐ ہے، یعنی وہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی، خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی، اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں نے تعریف کی۔ میرا دوسرا نام احمدؐ ہے، یعنی وہ نبیؐ جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہے۔ کسی نے اپنے رب کی اتنی تعریف نہیں کی، اتنی حمدوثنا بیان نہیں کی، اس کی اتنی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میرا تیسرا نام اَلْمَاحِیْ ہے جس کا سیدھا سادا مفہوم اور ترجمہ  آج کے بیان کے مطابق انقلابی ہوگا، یعنی مٹانے والا، شرک کو مٹانے والا، حرفِ غلط کی طرح ہر غلط چیز کو مٹانے والا، باطل کو مٹانے اور اس کی جگہ حق کو قائم کرنے والا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرنے والا۔ آپ نے چوتھا نام الْحَاشِر بتایا، یعنی جمع کرنے والا کہ روزِ محشر سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ حشر میں داخل ہوں گے۔ اپنی اُمت کو اور سارے لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور آپ کے بعد دیگر انبیا ؑوہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ نے اپنا پانچواں نام اَلْعَاقِبْ فرمایا، یعنی وہ نبیؐ جو آخر میں آنے والا ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

فی الحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد، پوری زندگی اور حیاتِ طیبہ، کش مکش کا ہرہرلمحہ اور مرحلہ کہ جس سے آپگزرے ، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، (الاحزاب ۳۳:۲۱) کی صورت میں ہمارے لیے مثال اور نمونہ قرار پایا۔ یہ ان سب لوگوں کے لیے دعوتِ عمل اور پیغام غوروفکر ہے جو لذت آشنائی کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پوری جدوجہد اور کش مکش کو، آپ کے شب و روز اور زندگی کے تمام معمولات، اور ساری ترجیحات کو مسلسل دیکھیں، بار بار مطالعہ کریں۔ بہت قریب سے اس کو پڑھیں، آپس میں موضوعِ گفتگو بنائیں اور جتنی کہکشاں اس کے عنوانات میں سجی ہیں، سب کو سمیٹنے کے لیے اپنے دامن کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں، بصیرت اور بصارت اور عمل کی نگاہوں سے اس پورے دور کا  جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی، مثال اور اتباع و پیروی کا دور ہے، کا مطالعہ کریں۔

انبیا علیہم السلام کی تحریک

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز تلاوتِ آیات، یعنی کتاب وحکمت کی تعلیم سے کیا۔ اس انقلاب اور تبدیلی لانے کا کام انبیا ؑجب بھی معاشرے کے اندر لے کر اُٹھے ہیں، اور ان کے بعد اسی طریقے سے جب معاشروں کے اندر اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، اس نے انبیا ؑ کی پیروی میں یہی کام کیا ہے کہ معاشرے میں نئے انسان تیار کیے جائیں، تاکہ پرانے انسانوں کے حلیے میں سے نیا انسان جنم لے۔ وہ جو پہلے صرف عمر بن خطاب تھا، وہ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ بن جائے۔ گئے گزرے اور بگڑے ہوئے لوگوں، حالات کی خرابی کے ذمے دار، فساد پھیلانے والے اور انسانوں کو باہم دست و گریبان کرنے والے لوگوں کے معاشرے کے اندر جب نبی مبعوث ہوتا ہے، اور خاتم الانبیا ؑکے بعد ایک ایسے معاشرے کے اندر جب اسلامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو وہ پہلے سے موجود انسانوں کو فناکے گھاٹ اُتار کر کوئی نئے انسان علیحدہ سے وجود میں نہیں لاتی، بلکہ اپنی دعوت کے ذریعے، اللہ کی طرف پکارنے اور آخرت کے عنوان کے ذریعے، اللہ اور بندے کے درمیان عہدوپیمان کو تازہ کرکے انھی انسانوں کو بیدار کرتی ہے۔ ان کے کرداروعمل کی لہلہاتی فصل تیار کرتی ہے، منزل کا شعور دلاتی ہے، اور منزل کی جانب مسلسل رواں دواں رکھتی ہے۔ انھی انسانوں کے اندر سے پھر مجاہد اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ کتاب و حکمت کے ذریعے ان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں نئے انسان وجود میں آتے ہیں۔ ان کی فکر کا زاویہ اور سوچ کا عنوان بدل جاتا ہے، اور زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ سمتِ معکوس میں سفر کرنے والے، مثبت اور تعمیری جدوجہد کے خوگر ہوجاتے ہیں۔

یہ معاشرے کے اندر ایک نیا انقلاب، ذہنی و فکری انقلاب، جسم و جان اور دل و دماغ کی دنیا میں اُبھرتا ہوا انقلاب ہے، جو انسانوں کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے اور یکسوئی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ پھر لوگ انشراح صدر کی کیفیت سے اپنے رب سے جڑنے اور جڑتے چلے جانے،بس اسی کا ہو رہنے، اور اسی کے دامن سے وابستہ ہونے کی دولت سے اس طرح سرشار ہوتے ہیں کہ بے خوف ہوکر مسلسل چلتے چلے جاتے ہیں۔ صرف اسی سے ڈرتے ہیں جس کا کلمہ انھوں نے پڑھا ہو، جس پر ایمان کا انھوں نے اعلان کیا ہو، جس نے ان کو پیدا کیا ، جو ان کا پروردگار ہے، جس کے پاس انھیں لوٹ کر جانا ہے، اپنا نامۂ اعمال پیش کرنا ہے اور زندگی کے تمام معمولات کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ اس خالق و مالک کے ساتھ وابستگی کا ایک لطف اور ایک ایمانی حلاوت ہے۔ جب ایسے سرشاروں کا وزن معاشرہ محسوس کرتا ہے تو پھر ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ دُور دُور تک بسا ہوا منکرات کا جھاڑ جھنکار اندر کی دنیا سے بھی نکل جاتا ہے اور باہر کی دنیا بھی سکون و آشتی اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔ یہ انقلاب دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے اور اپنے رب سے ملانے، اور اسی جانب بڑھانے کے لیے نرمی و گداز اور ملائمت کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

ھمہ گیر انقلاب

انبیا ؑکے انقلاب اور انبیا ؑ کے طریقِ کار کے نتیجے میں جب اور جہاں اسلامی تحریک بیدار ہوگی، اسلامی تحریک کا یہی ایک کام ہوگا کہ لوگوں کے سامنے تذکیر کرے، تعمیر سیرت کرے، نفوس کا تزکیہ کرے اور ان کے زاویہ ہاے نگاہ کو درست کرے۔ انبیا ؑ کا طریقِ انقلاب، ہمہ گیر انقلاب کا عمل ہے۔ یہ انقلاب جزوی نہیں بلکہ مکمل انقلاب ہے، حاشیوں اور لکیروں کا نہیں بلکہ متن کا انقلاب ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کی پوری کی پوری زندگی کو متاثر کرنے والا انقلاب ہے، یعنی گھر کی محدود فضائوں سے لے کر بین الاقوامی دوائر کا انقلاب۔ جن جن اُمور پر سوچا جا سکتا ہے، جہاں جہاں تک انسان کمند ڈال سکتا ہے، جن جن جہتوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے، عنوانات سجائے جاسکتے ہیں، ان سب کے اندر انقلاب برپا کرنا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ انقلاب ان سب حوالوں سے تبدیلی کا پیغام اور ان سب دائروں میں ایک اللہ کا نام، وہی اوّل، وہی آخر، ہرہرحوالے سے بس اسی کی تعلیم، اسی کی دی ہوئی کتابِ انقلاب کو تھامنے کا انقلاب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک انقلابی تحریک یا تحریک اسلامی جس معاشرے کے اندر برپا ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کو معاشرے کے افراد سے کاٹتی بھی ہے، انھیں اس چلن کا باغی بھی بناتی ہے اور انھیں مجسم احتجاج بھی بناتی ہے۔ جب بھی نظریاتی، انقلابی، اصولی تحریک معاشرے کے اندر وجود پذیر ہو تو جزوی طور پر ہرانسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے رسالہ پڑھ لیا، کسی کی کسی سے ملاقات ہوگئی، کوئی کسی اجتماع کے قریب سے گزر گیا، کسی نے کسی اجتماع کو دُور سے دیکھ لیا، کسی نے آکر ریلی اور جلسے کو دیکھ لیا، اس طرح جزوی طور پر لوگ نظریاتی ہوتے چلے جاتے ہیں، مگر جم کر ساتھ نہ دینے اور تزکیۂ نفس کی شاہراہ پر یکسوئی سے نہ چلنے کے نتیجے میں تضادات کا شکار ہوتے ہیں۔ اچھی بات کرتے کرتے بُری بات بھی کرنے لگتے ہیں۔ اصولی بات کرتے کرتے بے اصولی کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ مادیت کے طوفان میں بھی گھرے نظر آتے ہیں، اور وہاں پر کوئی اچھا عمل بھی ان سے صادر ہوجاتا ہے۔

یہ کش مکش اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اس معاشرے میں کوئی نظریاتی تحریک موجود ہے، کوئی اصولی اور انقلابی تحریک موجود ہے، بندوں کو ان کے رب سے ملانے والی، حالات اور  منزل کا ٹھیک ٹھیک پتا دینے والی تحریک موجود ہے۔ اس معاشرے کے اندر سلیم الفطرت لوگ اپنے رب سے ملاقات کے منتظر اور بے قرار ہوتے ہیں۔ ان کے اندر طلب اور جستجو، حسنِ طلب اور طلب ِ صادق کچھ زیادہ نظرآتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر ایک نظریاتی اور اصولی تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ سعید روحیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ تحریک ایک بہت بڑا سرمایہ بن جاتی ہے اور ان بے قرار روحوں کو اپنے رب سے ملا دیتی ہے کہ یہ اس سے راضی اور وہ ان سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جس دعوت الیٰ اللہ کی تم بات کرتے ہو، جس تربیت و تزکیے کا تم تذکرہ کرتے ہو، ع میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! میں تو کہیں گم ہوگیا تھا، آپ ہی کی تلاش میں تھا اور اس کی تلاش کے نتیجے میں گویا مجھے سب کچھ مل گیا، میں نے خود اپنے آپ کو دریافت کر لیا۔

دلوں پہ دستک دینے کے لیے تو بس کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے پس منظر میں بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے والی تحریک، جو سرتاپا بندگی اور مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی تحریک ہے، اس تحریک سے حسبِ توفیق استفادہ کرنے والے کا دامن جتنا وسیع ہوتا ہے، یہ اس میں اتنی ہی دولت ِرحمت، پاکیزگی و سعادت بانٹتی ہے۔ یہ تحریک نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی نعمت ہے۔ وہ یہ سب نعمتیں بانٹتا ہے کہ زندگیوں کا سودا اسی سے ہوتا ہے۔ اس کے خزانے بے پایاں ہیں، وہ تو اپنی رحمت کے تمام خزانوں کو لٹاتا ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ پکارنے والا، منادی کرنے والا مسلسل پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو مغفرت طلب کرنے والاہے، ہے کوئی جو رحمت کا سزاوار بنے، ہے کوئی جو ہماری طرف ایک قدم آگے بڑھے تو ہم اس کی طرف دس قدم آئیں، ہے کوئی جو صرف نیت اور ارادہ کرے، ہے کوئی جو اپنے دل کی گہرائیوں میں ہمیں پانے کی کوشش کرے…! یہ مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی کیفیت، دراصل لذتِ ایمان اور لذتِ آشنائی کی کیفیت ہے۔

ایک نیا انسان

یہ تحریکیں جو چہارطرف طوفان اُٹھاتی ہیں، نیکی کے جتنے عنوانات قرآن وسنت کے اندر سجے ہوئے ہیں، جن کو ہم اصطلاحاً چھوٹی نیکی اور بڑی نیکی بھی کہہ دیتے ہیں، ان تمام نیکیوں کی طرف پکارنے کے لیے، ان تمام نیکیوں کا سزاوار ٹھیرانے کے لیے، یعنی تمام نیکیوں کی طرف اپنے دامن کو وسیع کرنے کے لیے، گویا اپنے رب کی طرف بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کے لیے یہ تحریکیں معاشرے میں ابر رحمت بن کر برستی ہیں اور برستی چلی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چٹیل پہاڑوں اور چٹانوں پر بھی سبزا اُگ آتا ہے، پتھر بھی دیکھتے ہی دیکھتے سبزا اُگل دیتے ہیں، اور ہر طرف ہریالی لہلہانے لگتی ہے، خزاں چھٹ جاتی ہے اور واقعی بہار کا موسم مشامِ جان معطر کرتا ہے۔ مگر کچھ قطعات اور رمینیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو اس بارانِ رحمت کے باوجود خزاں رسیدہ رہتی ہیں۔ اسی طرح کسی معاشرے میں اللہ کی طرف بلانے والی انقلابی تحریک برپا ہو تو آدمی خود اپنے ظرف کے مطابق اس سے مستفید ہوتا ہے۔ تحریک تمام پہلوئوں سے انسان کو مسلسل چلانے اور آگے بڑھانے کا سامان کرتی ہے۔ اس کو اُٹھا کر کھڑا کردیتی ہے، اسے معاشرے کے اندر اجنبی بنادیتی ہے، اور قلب و نظر کے اندر ایک ایسی آگ لگا دیتی ہے کہ جو چھو جائے وہ کندن بن جائے، جو قریب آجائے وہ اس کی تپش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے اور سونے پہ سہاگہ ہوجائے۔

یہاں اس کیفیت کا احاطہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی اجنبی بن جانے کی کیفیت ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اس معاشرے سے نکل جائے، نہ لوگ اس کو پہچانیں اور نہ وہ کسی کو پہچانے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دربدر ہوکر کہیں کا نہ رہے، جنگلوں کا رُخ کرلے اور خاک چھانتا پھرے۔ اس لیے کہ جس تربیت اور تزکیے کے نتیجے میں گوشہ نشینی کا جذبہ پیدا ہو، اور لوگوں سے کٹ جانے کا جذبہ پیدا ہو وہ انبیا ؑکا طریقۂ کار نہیں ہوسکتا۔ انبیا ؑتو گوشہ نشینی سے نکل کر، حرا سے سوے قوم آیا کا مصداق بنتے ہیں۔ وہ تو غاروں سے نکل کر اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر کر انسانوں کی طرف آتے ہیں۔ کن انسانوں کی طرف، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی جیسے لوگوں کی طرف آتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں کے اندر وہ بیج بوتے اور فصل اُگاتے ہیں، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈک اور تراوت دیتی ہے۔

اجنبی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ذہنی طور پر کھویا کھویا سا ہو، اسے چاروں طرف کے حالات میں کوئی مطابقت محسوس نہ ہوتی ہو۔ وہ اسی دنیا میں رہتا ہے، انھی لوگوں کے درمیان اُٹھتا بیٹھتا ہے، انھی کے درمیان معمولات اور معاملات طے کرتا ہے، انھی کی خوشی اور غمی کا حصہ بنتا ہے لیکن ان کے تمدن، کلچر اور معاشرت اور اس کی ہر اکائی سے ایک دُوری اور فاصلے پہ اپنے کو پاتا ہے۔ دعوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ انھی کے درمیان رہے۔ اللہ کی طرف بلانے کے فرض پر لبیک کہنے کے لیے وہ انسانوں میں نظر آئے، اور اپنی گفتگو اور طرزِعمل سے مسلسل ان کے درمیان اللہ کی طرف بلانے والا بنے۔ گویا انھی کے درمیان رہتے ہوئے، ان جیسا نہ ہوتے ہوئے ایک اجنبیت کی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے۔ یہی مطلوب ہے۔ یہ تحریک اور دعوت الی اللہ اسی جانب لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ اس لیے لذت آشنائی کا نام ہم نے انقلاب رکھ دیا ہے کہ یہ زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔

ایمان اور انقلاب

آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لیے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں،     یا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ کہتے ہیں، اور اس موقع پر  ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں___ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔

حضرت ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کُل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لیے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انھیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ حضرت ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ اسی حال میں وہاں سے لے جائے جاتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ کس حال میں ہوں؟ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کے پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت، لطف و مزا اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سُرور کو دوبالا کروں گا___ یہ کیا جذبہ ہے، یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔

ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہرحال میں نکلنے کے لیے انسان آمادہ اور برسرِپیکار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے___ کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!

اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو علیحدہ علیحدہ مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے۔ ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ایمانی انقلاب پنہاں اور سرایت کرتا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور تمام ترجیحات کو صحیح رُخ دیتا ہے۔

اس مقصد کے لیے یہ انسانوں کو اُٹھاتا، کھڑا کرتا اور جدوجہد کا پیکر بناتا ہے۔ انسان کا معاملہ مجھ سے اور آپ سے بھلا کہاں ڈھکا چھپا ہے۔ انسان بالکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے اور لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس کامیابی نے اس کے قدم چوم لیے کہ اچانک وہ گر پڑتا ہے، اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پھر یہی انسان ہے جو ہمت پکڑتا ہے، اُٹھتا ہے اور پھر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرے گا وہی جو چلے گا، جو چلنے سے توبہ کرلے وہ کہاں گرے گا۔ جو کنارے پر بیٹھ کر محض نظارہ دیکھے گا، وہ تو صرف مشورے دے گا اور کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ لہٰذا اس راہ پر کچھ ڈوبنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا، تبھی تو تیرنا آئے گا۔ گرنے کو انگیز کرنا ہوگا تبھی تو چلنا آئے گا۔ منزل کی طرف مسلسل دیکھنا ہوگا تاکہ نشاناتِ منزل جب جب آئیں تب تب ایمان کے اندر اضافہ ہو، تب اللہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہوا محسوس ہو کہ ہاں، اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہی انسان پوری قوت سے پکار اُٹھے گا:

سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (متفق علیہ)، میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتا ہوں، اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور عظمت والی ہے۔

لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (انبیائ۲۱:۱۸) نہیں ہے کوئی معبود مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

وہ اپنے ہاتھوں اپنے اُوپر کیے ہوئے ظلم کو بھی یاد کرتا ہے۔ معافی اور درگزر کا در تو کبھی بند نہیں ہوتا۔ توبہ کرنا، گرنا اُٹھنا، اس کی طرف چلنا، اس کی طرف بڑھنے کے لیے عزم و ارادہ کرنا یہی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جگانے، اُٹھانے، آگے بڑھانے کے لیے اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے ہمکنار کرنے کے لیے ایمان اور انقلاب دونوں ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایمان کی پکار

ایک لمحے کے لیے ٹھیر کر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس پر     شب خون مارنے، اس پونجی کو اُڑا لے جانے والے شیطان کے حملے بھی موجود ہیں۔ ان حملوں سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ اس ایمان کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے، اس کا احاطہ کیا جائے، اس پر چوکنا رہا جائے اور اس پر کوئی پہرے دار بٹھایا جائے۔ اس کے گھٹنے اور بڑھنے کو، جنھیں ہم قرآن اور احادیث نبویؐ کے اندر پڑھتے ہیں، واقعی محسوس کیا جائے کہ یہ شمع کبھی ٹمٹمانے لگتی ہے، کبھی اس کی لَو نیچے ہونے لگتی ہے، لیکن یہی شمع کبھی دُور دُور تک اُجالے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اور خود انسان کے اپنے اطراف کو روشن کرتی ہے، لہٰذا ان کیفیتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے۔

ایمان کی فریاد بھی سنی جائے، اس کی آہ و بکا سے واقف رہا جائے۔ یہ ایمان پکار پکار کر کہتا ہے کہ غیر تو مجھ پر اتنا ظلم نہیں کرتے جتنا کہ تم خود میرے اُوپر ظلم کرتے ہو۔ تم خود ہی میری لَو کو مدھم کرنے اور اس کو بجھانے کے لیے کوشاں ہوتے ہو۔ اُدھر بلایا گیا تھا، تم اِدھر لبیک کہہ رہے ہو۔ تم نے تو عہدوپیمان باندھا تھا، گواہ بناکر اعلان و اقرار کیا تھا، پھر تمھیں کیا ہوگیا! ایمان کا احتجاج اس کے اندر سے ہوتا ہے، قراردادیں بھی منظور کرتا ہے اور ہمارے قدموں کو کبھی کبھی روکتا اور ہم سے کہتا ہے: ’’کدھر جا رہے ہو، اچھے بھلے آدمی ہو، لوگ بھی اچھا بھلا ہی سمجھتے ہیں، لیکن تم کہاں کا رُخ کر رہے ہو، یہ تمھارے ذہن میں کون سی بات سمائی ہے، اور تم نے کس جذبے سے یہ فیصلہ کرلیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس طرف مت جانا‘‘۔ گویا یہ ہمارے قدموں کو روکتا ہے۔ یہ مسلسل منزل کی طرف ہم کو بلاتا ہے۔ اس لیے اس کی آہ و فغاں کو سنا جائے اور اپنے ہی ہاتھوں اس پر ہونے والے ظلم کی داستان سے بے خبر نہ رہا جائے۔ اس قیمتی متاعِ حیات کو، ایمان کا جوہر سمجھ کر اسے مسلسل کلیجے سے لگائے رکھا جائے، اور اس میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہوا جائے۔

صحابہ کرامؓ کا جذبۂ لذتِ آشنائی

صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں غوروفکر کے بے پناہ جوہر موجود ہیں۔  یہ ایک مربوط سلسلہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑی تحریک ہیں اور اس تحریک کے اندر جو کچھ موجود ہے، اسے دیکھنا، روشنی حاصل کرنا، ہماری اپنی ضرورت اور     ذمہ داری ہے۔ ان واقعات میں سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ایک واقعہ ہے جو بارہا آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا۔ اس میں ہمارے لیے غوروفکر کے لیے کئی پہلو ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ صحابہ کرامؓ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایک صحابی آئے اور انھوں نے ایک چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ نبیؐ نے اس کو پسند فرمایا۔ مجلس سے اُٹھ کر آپ  اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور پرانی اور بوسیدہ چادر جو آپ پہنے ہوئے تھے، اس کی جگہ اس نئی چادر کو زیب تن کیا اور دوبارہ مجلس میں آکر تشریف فرما اور رونق افروز ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے دیکھا تو عرض کیا: حضوؐر  یہ چادر بہت اچھی ہے، بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، اور خوش رنگ بھی ہے۔ اور انھوں نے آپ سے یہ چادر مانگ لی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو واپس اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ اسی طرح پرانی چادر کو آپ نے زیب تن کیا اور نئی چادر لپیٹ کر، تہ کرکے لائے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو پیش کردی۔ انھوں نے فوراً اس کو قبول کرلیا۔

صحابہ کرامؓ کو یہ بات قدرے ناگوار گزری۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا: سعد! تم نے آج اچھا نہیں کیا، تم دیکھ نہیں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت ہی بوسیدہ اور پرانی چادر میں ملبوس تھے اور ایک نئی چادر ملی تو آپ نے بدل کر اس کو پہن لیا۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ حضوؐر کے سامنے کسی چیز کی تعریف کی جائے تو وہ تعریف کرنے والے کو پیش کردیتے ہیں؟ تم نے اس طریقے سے تعریف کی اور مسلسل تعریف کی تو آپ دوبارہ حجرے میں تشریف لے گئے اور چادر بدل کر آئے اور تمھیں وہ پیش کر دی اور تم نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سنا تو اپنے ساتھی صحابہؓ سے عرض کیا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر   یہ کام کیا، یعنی کوئی اتفاقی طور پر عمل سرزد نہیں ہوگیا۔ میں نے تو یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ چادر جس نے حضوؐر کے جسمِ اطہر کو مَس کیا ہو وہ حاصل کروں اور وہی چادر میرا کفن بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ بالآخر اسی چادر کے اندر وہ کفنائے گئے لیکن اس کو کوئی نام دیجیے، اس واقعے کا کوئی عنوان تلاش کیجیے۔ چاہیں تو آپ اسے عشق مصطفیؐ کہہ لیجیے لیکن سچی بات یہ ہے کہ عشق مصطفیؐ ہی درحقیقت رب کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی رہنمائی کرتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزں مل کر ہی بڑی بنتی ہیں۔ ہر چھوٹی نیکی بھی بڑی نیکیوں کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ ہر چھوٹی نیکی، نیکیوں کے ایک بڑے خاندان کی طرف لے کر جاتی ہے اور  ان نیکیوں کی کشش لذتِ ایمان سے آشنا کرتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کے ان واقعات میں ایک سبق اور سوزوگداز پنہاں ہوتاہے، ایک پکار ہوتی ہے جس پر لبیک کہا جائے۔ ان سے حب ِ الٰہی کا ایک ایسا دَر کھلتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کا سفر سہولت سے طے کرلیتا ہے۔

موت کی یاد !

ہم ایک عجیب و غریب دنیا میں رہتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھئی آپ لوگ تو آسمان کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ ہم زمین پہ رہتے ہیں۔ نہیں، یہ آسمان کی باتیں نہیں، زمین کی باتیں ہیں۔ البتہ زمین کو ہم انسانوں نے چاروں طرف سے اس طرح دبوچ لیا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، تصورِ دنیا کو کھو چکے ہیں۔ ہم روزانہ مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہی نہیں کہ اس دنیا میں ہم مسافر ہیں۔ اصل پڑائو تو آخرت میں ہونا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، کہ آخرت سے مفر نہیں اوردنیا سے بھی فرار ممکن نہیں۔

دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے۔ کل روزِ محشر میں خود اہلِ جنت کو بھی جس چیز پر سب سے زیادہ حسرت ہوگی، وہ دنیا میں گزرے ہوئے وہ لمحات ہوں گے جو ضائع ہوگئے۔ وہ نیکی کرسکتے تھے، اپنے رب کی طرف قربت کے کچھ قدم بڑھا سکتے تھے، کچھ بندوں کی خدمت اور کچھ لوگوں کی دل جوئی کے ذریعے، کچھ زخموں پر پھائے کے ذریعے، کچھ دکھوں کے مداوے کے ذریعے، لوگوں کی ہمت بندھاتے ہوئے اور احساسِ تنہائی سے بچاتے ہوئے اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکر کو دوبالا کرتے ہوئے وہ نیکی کما سکتے تھے مگر کما نہ سکے۔ لہٰذا وہ لمحات جو ایسے ہی گزر گئے کچھ کیے بغیر گزر گئے اور کسی نیکی کو سمیٹنے کا ذریعہ اور سبب بن سکتے تھے مگر نہ بن سکے، ان پر تاسف، ملال اور حسرت ہوگی، کہ یہ لمحات بھی اگر نیکی کے کام میں گزرے ہوتے تو جنت کے اندر وہ درجات جو بڑی دُور تک نظر آتے ہیں، ان تک پہنچنا اوررسائی حاصل کرنا ممکن، آسان اورسہل ہوتا۔

اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ قبر کے اس گڑھے کو ہرلمحے انسان نیکی کے پھولوں سے بھر رہا ہے یا دوزخ کی آگ کے انگاروں سے۔ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ کسی نیک عمل کے نتیجے میں لمحے بھر میں نیکی کے پھول کھل اُٹھتے ہیں، اور اگلے ہی لمحے غفلت اور پھسل جانے کے سبب دوزخ کی آگ کے انگارے اور بھی دھک جاتے ہیں۔ ذرا تصور میں اس بات کو لایئے، اس گڑھے کو دیکھیے تو سہی، وہ گڑھا موجود تو ہے نا۔ ہر انسان اپنی قبر کے کنارے کھڑا ہے یا اپنی قبر کے اندر پیر لٹکائے بیٹھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بالآخر اس کے قدم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور ہرلمحے یہ منظر موجود ہے، ایک بیلنس شیٹ بن رہی ہے نیکی اور برائی کی اور پھول چُننے اور آگ کے انگارے سمیٹنے کی۔

اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس چیز کو بہ کثرت یاد کرتے رہو جو دنیوی لذتوں اور ان کے اشتیاق کو ڈھانے والی ہے۔ دنیاوی لذتوں کے کیا کہنے، چشم ما روشن دل ماشاد۔ دنیاوی لذتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور وہ ہر ایک کی جیب میں موجود ہے۔ جب پوچھیں تو وہ فرفر پڑھ کر سنائے گا کہ یہ سب لذتیں مطلوب ہیں۔ ان کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہوں مگر مل نہیں پاتیں۔ اس قدر بے وفا ہے یہ دنیا۔ جتنا اس کی طرف چلیں اتنا ہی یہ دُور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس موت کو یاد کرتے رہو۔ اس لیے تصورِ دنیا، تصورِ آخرت اور تصورِ مال، واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

اپنا احتساب کیجیے!

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انسان خود اپنے دل کے دیئے روشن کرے۔ اپنے لیے اپنے ہی اندر ایک مزکی کو، ایک مربی کو، پوری تحریک اسلامی کو اپنے اندر بٹھائے۔ دل کی محفل کو خود ہی آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس کا ہفتہ وار اجتماع بلائے۔ اس میں خود ہی آپ اپنی رپورٹ پیش کرے، اور اس رپورٹ پر خود ہی تبصرہ پیش کرے۔ اس میں آپ خود ہی محاسب ہوں، خود اپنا دامن تھام کر اپنا احتساب کریں، ’’اور اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘  کے مصداق اپنا جائزہ لیں۔ یا پھر یہ کہ جو بڑی عدالت لگنی ہے، عدالتِ کبریٰ! اس سے پہلے کوئی چھوٹی عدالت بار بار دل و دماغ کی دنیا کی لگنی چاہیے۔ عدالتِ صغریٰ، وہ عدالت جو پکار پکار کر فیصلہ دے، جو مجھ سے، آپ سے کہہ رہی ہو کہ آج یہ فیصلہ تمھارے خلاف صادر ہوا ہے، یہ فیصلہ تمھارے حق میں بھی ہوسکتا ہے۔ … آخر تم کتنے فیصلے اپنے خلاف کرائو گے۔ اس لیے یہ جو ایمان کا تقاضا ہے، یعنی احساس ذمہ داری جو بار بار سن پڑ جاتا ہے، اس احساس ذمہ داری کو اٹھایا، جگایا، بیدار کیا جائے اور اسے ہوش میں لایا جائے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۴۱)، اس کا بھی کوئی مفہوم ہے۔ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)، یعنی جو بوئو گے، وہی کاٹو گے، گندم بوئو گے تو گندم کاٹو گے، اور جس کے اعمال ہیں وہ اسی کے لیے ہیں کسی اور کا اس کے اندر کوئی حصہ نہیں ہے۔ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳:۳۹)، جو بوئے گا وہی کاٹے گا، جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق اس کو پائے گا۔

زندگی اور موت بھی اضافی شے ہے، اصل چیز وہی ہے ایمان، تزکیہ اور انقلاب۔ اگر ایمان ہے تو زندگی ہے، بلکہ وہ جسے موت کہتے ہیں وہ بھی زندگی ہے اور کیا خوب زندگی ہے۔ لیکن اگر ایمان نہیں ہے تو پھر یہ زندگی بھی موت ہے۔ اس حوالے سے اس زندگی کو بہتر بنانے اور مسلسل اپنے رب کی طرف چلانے کی ضرورت ہے۔

جنت کی تڑپ

ایک بڑے مشہور صحابی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامؓ آپس میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ عجیب و غریب انسان ہیں۔ انھوں نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور جنت میں چلے گئے ہیں۔ یہ صحابی حضرت اسود راعیؓ تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ایک چرواہے تھے۔ اُجرت پر بکریاں چرایا کرتے تھے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر لوگوں سے انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمارے قلعے کا گھیرائو اور محاصرہ کس نے کیا ہے؟ کسی نے ان کوبتایا کہ ایک شخص ہے جو نبوت کا دعوے دار ہے، رب کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ دلوں میں گداز، نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہوں اور اللہ کی طرف بلانے کا کام انجام دیتا ہوں۔ حضرت اسود راعیؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس بزرگ ہستی سے ملنا چاہیے۔

ایک دن بکریاں ہنکاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف نکل آئے اور خیمے کے اندر داخل ہوگئے۔ آپ تشریف فرما تھے، نام پوچھا اور بیٹھ گئے اور کہا کہ آپ  کیا لے کے آئے ہیں؟ رسول کریمؐ نے پوری دعوت پیش کی اور بتایا کہ بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہی چلنا چاہیے۔ یہی پیغام میں لے کر آیا ہوں اور اس کا نبی ہوں۔ پوچھا کہ: اچھا! میں آپ کی بات مان لوں اور سمجھ جائوں تو کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’جنت ملے گی‘‘۔ پھر جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا، اس کی وسعتوں کا تذکرہ کیا۔ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر کہنے لگے: حضوؐر میری طرف دیکھیے تو سہی، میں کس قدر کالا کلوٹا اور کس قدر بدشکل اور بھدا انسان ہوں۔ کیا اس کے باوجود مجھے جنت ملے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کو پہچان لینا اور اس کے راستے پر چلنا ،اللہ تعالیٰ تم کو  خوش شکل بنا دے گا۔ کہنے لگے: حضور ذرا میرے قریب تو ہوں۔ کس قدر بدبو میرے جسم سے اُٹھ رہی ہے، کیسا تعفن ہے، کیا اس کے باوجود میں جنت میں جاسکوں گا؟ آپ نے فرمایا: اس کے باوجود اگر ایمان ہے تو جنت میں جاسکو گے۔ وہ کہنے لگے: اچھا پھر میں ایمان لاتا ہوں، اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے، پھر فوراً یہ سوال کیا کہ ان بکریوں کا کیا کروں؟ یہ تو میرے پاس امانت ہیں،ان کو اُجرت پر چراتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: بکریوں کو قلعے کی طرف ہنکا دو۔ جب آخری بکری بھی قلعے کے اندر چلی جائے تو میرے پاس آجائو۔ انھوں نے یہی کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

معرکہ اپنے عروج پر تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ جائو اس میں شریک ہوجائو۔ وہ فوراً جاکر شریک ہوئے اور اگلے ہی لمحے شہید ہوگئے۔ تذکروں میں آتا ہے کہ غزوئہ خیبر کے ۲۰ شہدا تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان ۲۰ شہدا کی میتیں پیش کی گئیں تو آپ سب صحابہ کرامؓ کی میتوں کے سرہانے کھڑے ہوئے، سب کو دیکھا اور دعا کی۔ جب حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے آپ جاکر کھڑے ہوئے تو صحابہؓ نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک نظر آپ نے ان کے چہرے پر ڈالی اور فوراً اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور رُخ موڑ لیا۔ صحابہؓ کچھ حیران ہوئے اور بعد میں نبیؐ سے دریافت کیا کہ حضوؐر باقی تمام شہدا کو تو آپ نے جی بھر کر دیکھا، ان کے سرہانے دیر تک کھڑے رہے لیکن حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے لمحے بھر کے لیے کھڑے ہوئے اور اپنا رُخ پھیر لیا، یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس خاص لمحے اسودراعیؓ حوروں کے درمیان تھے، اور    اللہ تعالیٰ نے ان کو حسین و جمیل بنا رکھا تھا، اور ان کے جسم سے خوشبو کی لپٹیں اُٹھ رہی تھیں۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس لمحے ان کی طرف زیادہ دیر تک دیکھوں۔ یوں میں آگے بڑھ گیا۔

یہی وہ صحابی ہیں جن کے ایمان نے بظاہر بہت سارے اعمال کیے بغیر بھی ان کو اپنے رب کے دربار میں اس طرح پہنچا دیا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ عموماً جن شرائط اور سوالوں کو کرتے ہوئے وہ اس راستے پر آئے تھے، ان کا جواب بھی مل گیا۔ اس لذت آشنائی، حلاوتِ ایمان، اور اپنے رب تک پہنچنے، اس کی طرف بڑھنے کے شوق نے بالآخر انھیں ان جنتوں کی طرف پہنچایا جومطلوب ہیں، جس کی طلب ہم سب کے اندر موجود ہے، اور ہونی چاہیے۔    اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں آگے بڑھائے اور لذتِ ایمانی سے آشنا کرے۔ یہی ایمان، تزکیہ کی پہلی شرط ہے اور تزکیہ کو پانے کے لیے عدالتِ صغریٰ کا وجود اور ہر آن اپنا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

حج کی حقیقت کو تم ایک دفعہ پالو، اچھی طرح اور پوری طرح جان لو، اسی کے مطابق خود کو ڈھالو، اسی کی روشنی میں ہر قدم اٹھائو، تو ایک کے بعد ایک، حج کے فیوض و برکات اور انعامات و فتوحات کے دروازے تمھارے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔

حج کیا ہے؟ اللہ سے محبت کرنا، ان کی محبت پانا۔ حج کا سفر محبت و وفا کا سفر ہے۔ اس کا مدعا اور حاصل، اللہ کے سواکچھ نہیں۔ اس کا ہر عمل محبت و وفا کا عمل ہے، اس کی ہر منزل محبت و وفا کی منزل ہے۔ یوں سمجھو کہ حج سارے کا سارا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ، اللہ اپنے ان پروانوں سے محبت کرتے ہیں اور یہ پروانے ان کی محبت میں سرشار ہیں، کی مجسم اور متحرک تصویر ہے۔

دیکھو، بات یہ ہے کہ اللہ تم سے، اپنے بندوں سے، بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جیسا حضورپاکؐ نے ارشاد فرمایا: وہ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت کرنے والے ہیں۔ اللہ کو پکارو یا الرحمٰن کو، ایک ہی بات ہے۔ گویا اللہ کے معنی ہی الرحمٰن ہیں۔ ساتھ ہی وہ سارے دنیا والوں پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش کر رہے ہیں۔ دنیا میں مخلوقات کے درمیان تم جہاں بھی اور جتنی بھی رحمت دیکھتے ہو، وہ سب بھی ان ہی کی رحمت کا جلوہ ہے۔ مگر دنیا میں وہ جتنی رحمت کر رہے ہیں، وہ ان کی رحمت کے ایک سو میں سے ایک حصے کے برابر بھی نہیں،اگرچہ اس کا بھی احاطہ اور شمار ممکن نہیں۔ ۹۹ حصے انھوں نے آخرت میں عطا کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

یہ انھی کی رحمت اور محبت ہے کہ انھوں نے ہمیں قرآن عطا کیا، تاکہ ہم آخرت کی رحمتوں میں سے حصہ پاسکیں۔ رسول پاکؐ جو رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم ہیں، ہمارے اُوپر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہیں (لَقَدْ مَّنَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ…الخ)۔ موت کے بعد زندگی بخشنا اور اعمال کی جزا دینا بھی ان کی رحمت کا تقاضا ہے (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَہ ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَہ)۔ ہمیں دین اسلام عطاکرکے تو انھوں نے رحمت و انعام کی انتہا کردی، یہ ان کی نعمت کا اتمام ہے کہ یہی آخرت میں ان کی رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہے (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ)۔ یہ بھی ان کی ہمارے ساتھ محبت کا ثمر ہے، ان کا فضل اور نعمت ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر ایمان، ہمارے دلوں میں ڈال دیا، اسے دلوں کی زینت بنا دیا، اسے ہمارے لیے محبوب بنادیا۔ ان کے ساتھ ہماری جتنی محبت ہے، ہوگی، وہ ان کی محبت (یُحِبُّھُمْ) اور ایمان کا ثمر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ، جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ شدت سے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایمان کی ساری شیرینی، مزا اور رنگ ان کے ساتھ اسی محبت کے دم سے ہے۔

یہ بیانِ محبت ذرا طویل ہوگیا۔ لیکن محبت کے بیان کی لذت! دل چاہتا ہے کہ ختم ہی نہ ہو۔ محبت کے سفر کی لذت! دل چاہتا ہے کہ وقت سے پہلے شروع ہوجائے، ختم ہونے کا نام نہ لے۔ اس کی ہر زحمت میں لذت کی چاشنی ملتی ہے۔ حج کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں میں پالینے کے لیے کم سے کم اتنا بیان لذیذ ہی نہیں، ضروری بھی تھا۔

دیکھو، ویسے تو اس دین کا ہر حکم، جو نعمت و محبت کا اتمام ہے، بندوں سے ان کی محبت کا مظہر ہے،اور ان کی محبت کے حصول کا راستہ، جو بندوں کی غایت ہے۔ ’’سجدہ کس لیے کرو؟‘‘ تاکہ ہم سے قریب ہوجائو۔ ’’مال کس لیے دو؟‘‘ علٰی حبہ،ان کی محبت میں، ان کی محبت و رضا کے لیے۔ احکام، حرام و حلال کے ہوں،اخلاق و معاملات کے، ہجرت و جہاد کے--- سب ہم پر ان کی شفقت و رحمت پر مبنی ہیں۔ مگر حج کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ تم سے اللہ کی محبت کا، اور ان کی محبت کے اظہار کا بے مثال مظہر ہے، اور تمھارے لیے ان سے محبت کرنے کا،اپنی محبت کا اظہار کرنے کا اور ان کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب و کارگر نسخہ۔ عبادات میں اس پہلو سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔

ذرا غور کرو! اللہ تعالیٰ لامکان ہیں، وہ ہر جگہ موجود ہیں، وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے، ہرذرہ اور لمحہ ان کا ہے، اور ان کی جلوہ گاہ--- لیکن یہ، ان کی، ہم جیسے اسیر مکان و زماں بندوں سے، بے پناہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ انھوں نے، ہمیںاپنی محبت دینے اور ان سے محبت کرنے کی نعمت بخشنے کی خاطر،مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک بظاہر بالکل سادے اور معمولی گھر کو’اپنا گھر، بنالیا اور مشرق و مغرب میں تمام انسانوں کو اپنے اس گھر آنے کا بلاوا بھیجا، کہ آئو، سب کچھ چھوڑ کر،  لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آئو۔ پتھروں کے اس گھر آئو، اس گھر میں اپنے خداے لامکاں کی محبت اور قربت حاصل کرو۔ اس گھر میں، اس کے در و دیوار میں، اس کے گلی کوچوں میں، اس کی طرف سفر میں انھوں نے تمھارے جذبہ عشق و محبت کے لیے تسکین و سیرابی، شادکامی اور لذت و کیف کا وہ سارا سامان رکھ دیا جو ایک عاشق صادق اپنے محبوب کے کوچہ و دیار اور درودیوار سے پانے کی تمنا کرسکتا ہے۔

یہ بھی اللہ کی رحمت و محبت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اس مرکز میں، جو بظاہر حسن تعمیر اور جمال ماحول سے بالکل مبرا ہے، بڑی عجیب و غریب محبوبیت رکھ دی ہے! اس گھر کو انھوں نے اعلیٰ ترین شرف و کرامت سے نوازا ہے۔ اسے انھوں نے اپنی بے پناہ عظمت و جلال کا مظہر بنایا ہے۔ اس کے سینے سے انھوں نے رحمت و محبت، برکت و ہدایت اورانعام و اکرام کے لازوال چشمے جاری کیے ہیں۔ آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اللہ نے اس گھر کی سادہ مگر محبت کے رنگ سے رنگین داستان کے ورق ورق پر رقم کردیا ہے۔ اللہ کے گھر کے حسن و جمال اور شانِ محبوبیت کا بیان اسی طرح الفاظ کے بس سے باہر ہے، جس طرح کسی حسین کے حسن کا اور کسی شے لذیذ کی لذت کا، جو تم دیکھنے اور چکھنے ہی سے پاسکتے ہو۔

دوسری طرف انھوں نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈال دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو جا نہیں سکتے، وہ بھی جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہتے ہیں، اور کچھ نہیں تو روزانہ پانچ دفعہ، اس گھر کی طرف رخ کرکے، گھر کے مالک سے قرب اور ہم کلامی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرف دیار محبوب کی شانِ محبوبیت اور دوسری طرف محبت کرنے والوں کی محبت، ازل سے عشاق بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ ہے جو ہروقت اور ہرجگہ سے کھنچ کھنچ کر اس گھر کے گرد جمع ہوتا چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر حج کے وقت، جس کو رب البیت نے جلوہ و زیارت کے لیے مخصوص و متعین کیا ہے۔ آج تم بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہو،اور میری تمنا ہے--- اور تمھاری بھی یہی تمنا ہونا چاہیے--- کہ محبت کی یہی چنگاری تمھارے دل میں سلگ رہی ہو، اور وہی تمھیں کشاں کشاں دیارِ محبوب کی طرف لیے جارہی ہو۔

اب ذرا حج کے اعمال و مناسک کو دیکھو جو تم بجا لائوگے۔ یہ تمام تر عشق و محبت کے اعمال ہیں۔ یہ بھی اللہ کی محبت ہے کہ انھوں نے محبت کی ان ادائوں کی تعلیم دی، ان کو اپنے گھر کی زیارت کا حصہ بنایا، اور ان پر محبت اور اجر کی بشارت دی۔ یہ سنت ابراہیم ؑ کا ورثہ ہیں۔ دیکھو شاہ عبدالعزیز ؒ صاحب ان اعمال کی حقیقت کی کتنی خوب صورت تصویر کھینچتے ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا [اور یہی حکم تمھارے لیے ہے] سال میں ایک دفعہ اپنے کو اللہ کی محبت میں سرگشتہ و شیدا بنائو، اس کے دیوانے ہوجائو، عشق بازوں کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے--- ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اَٹے ہوئے--- سرزمینِ حجاز میں پہنچو، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو، کبھی وادی میں دوڑو، کبھی محبوب کے گھر کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائو--- اس خانہ تجلیات کے چاروں طرف دیوانہ وار چکرلگائو، اور اس کے در ودیوار کو چومو اور چاٹو۔

محبت کرنے اور محبت پانے کے یہ سب طریقے اللہ کی رحمت ہی نے تمھیں سکھائے ہیں۔

یہ ہے وہ حج جس کے لیے تم روانہ ہو رہے ہو۔ جتنا عشق و محبت کا یہ سبق ازبر کرو گے، دل پر اسے نقش کرو گے، اسے یاد رکھو گے، اللہ کو تم سے جو محبت ہے اس کی حرارت اور طمانیت اپنے اندر جذب کرو گے، اللہ سے ٹوٹ کر پورے دل سے محبت کرو گے اور اس کا اظہار کرو گے، حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اس محبت کے رنگ میں رنگو گے، اس سے اللہ کی محبت کی طلب اور جستجو کرو گے، انھی کی محبت اور قرب کی آرزو اور شوق میں جلو گے، اتنا ہی تم حج کی آغوش سے اس طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوکر لوٹو گے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلتے ہو، اور تمھارے حق میں   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہوگی۔ (حاجی کے نام، منشورات، لاہور، ص ۸-۱۴)

سب سے پہلے اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت و معاشیات کے تصورات کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (المنافقون ۶۳:۷) زمین اورآسمان کے سارے کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) زمین اورآسمانوں کی ملکیت، بادشاہت، حکمرانی، تسلط ، تصرف اور فرماں روائی سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ (النور۲۴:۳۳) مال سب کا سب اللہ کا ہے۔ حدیث کی معروف کتاب موطا امام مالک میں حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ المال مال اللّٰہ یعنی مال تو اللہ کا ہے۔ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود ۱۱:۶) رزق کا ذمہ بھی اللہ نے اپنے اُوپر لیا ہے۔ زمین پر ایسا کوئی   جان دار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وَلَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ (البقرہ ۲:۳۶) ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خاص مدت کے لیے انسان کا گھر اور ٹھکانہ ہے۔

قیامت تک انسان کو یہاں پر رہنا ہے چنانچہ اسباب معیشت بھی مطلوب ہیں: وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ (الحجر ۱۵:۲۰)’’اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمھارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو‘‘۔ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ (الذاریات ۵۱:۲۲) ’’یہ جو رزق ہے یہ زمین کے اندر بھی ہے، سمندر کے اندر بھی اور آسمان کے اندر بھی رزق کی فراوانی رکھ دی گئی‘‘۔ یہ تصور غلط ہے کہ رزق ختم ہو رہا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) جو رزق زمین اور آسمان میں موجود ہے کیا انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس حوالے سے بھی رہنمائی کردی گئی کہ زمین اور آسمان بھی، لیل و نہار اور بروبحر بھی انسان کے لیے مسخر کر دیے گئے۔ الغرض جس کا رزق ہے اور جس نے اس رزق کو اپنے ذمہ لیا ہے اس نے اس کے حصول، بڑھوتری اور فراوانی کو کچھ قاعدوں اور ضابطوں سے جوڑ دیا ہے۔ رزق محدود نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی ترقی میں عورت کا موجودہ کردار اخلاقی ضابطوں سے بغاوت ہے اور اس سے کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

موجودہ معاشیات دراصل مغربی معاشیات ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشیات کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوا اور اس کا بانی ایڈم اسمتھ ہے ۔ ۱۷۷۶ء میں ایڈم اسمتھ کی معروف کتاب The Wealth of Nation منظر عام پر آئی اور اس نے بلاشبہ دنیا پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ چنانچہ آج مغربی معاشیات کے تحت معاشیات: l دولت کا علم ہے،ایڈم اسمتھ lمادی خوشحالی کا نام،الفریڈ مارشل lخواہشات کی کثرت کو کہتے ہیں،پروفیسر رابنس۔

گویا کہ مغربی معاشیات میں، معیشت کا تصور مادیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں معاشی ترقی سے مراد دنیاوی اور مادی حوالوں سے انسانی کامیابی کا حصول ہے۔ آج کی معاشی ترقی کا تصور سیکولر تصورِ جہاں میں جکڑا ہوا ہے۔ سیکولرازم خود ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد ایک طرز فکر کا نام ہے۔ جدید روشن خیالی کی اصطلاحِ دل پذیر بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔ جس میں نفس کی خواہشات کا حصول ہے، خواہ وہ فی نفسہ اخلاقی ضابطوں سے باہر ہو اور چاہے اخلاقی ضابطوں کو توڑ کر اس کا حصول ممکن بنایا گیا ہو۔

اس طرزِ فکر میں معاشی ترقی کو جانچنے کا ایک معیار جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) ہے۔   ایک خاص حسابی فارمولوں کی مدد سے اسے وضع کرتے ہیں توفی کس آمدنی (per capita) نکل آتا ہے۔ یہ ایک الگ اصطلاح ہوگئی۔ اسی طرح قوام متحدہ نے انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ اسے ’انسانی ترقی کا پیمانہ‘ کہتے ہیں۔

اس لفظ ’ترقی‘ کے مقابلے میں اسلام ’فلاح‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں شامل ہیں۔ اسلام مادی آسایش کی نفی نہیں کرتا۔ وہ دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ ایک متوازن طرزِ حیات اور اجتماعی نظامِ عدل کی تشکیل میں اسے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ مقرر کرتا ہے، یعنی انسانی فلاح، مقاصد شریعت میں سے ہے۔ گویا الٰہامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی ضابطے متعین کیے جائیں اور ان اخلاقی ضابطوں کے تحت معاشی سرگرمیاں سر انجام دی جائیں، تو مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں کا حصول ممکن ہے۔ یہی اصل اور مطلوب ترقی ہے۔

یہاں پر قرآن مجید کا ایک اہم کلیہ اور قاعدہ پیش خدمت ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)، یعنی جو کوئی ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا، بغاوت کرے گا، ضابطوں کو توڑے گا اس کی معیشت تنگ کردی جائے گی۔ ترقی، آسودگی، رزق کی کمی ہوجائے گی۔ یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اس ضابطے سے رو گردانی کرکے عورت کے موجودہ کردار کو متعین کیا گیا ہے۔ اس کردار کے ساتھ کیا یورپ میں آسودگی آئی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ معاشرے میں اخلاقی بحران کیوں آرہا ہے؟ قدریں کیوں پامال اور بے حیائی کیوں عام ہورہی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کے اس کردار کو جو وہ معاشی جدوجہد کے عنوان سے کر رہی ہے اور اگر اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹ رہے ہیں تو کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

عورت کے نئے کردار کے تعین میں تھامس مالتھس کے نظریات کا بھی عمل دخل ہے۔ مالتھس نے تحدید آبادی کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے عقلی دلائل کی بنیاد پر، شماریات اور ریاضی کے فارمولوں کے تحت آبادی کے بڑھنے کو انسانیت کے لیے زبردست خطرہ قرار دیا۔ اس نے دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان بنا ڈالا کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ہم غور کریں تو یہ اللہ کی رزاقیت سے انکار کا نظریہ تھا۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک، کنجیوں کا مالک، میراث کا مالک تو اللہ ہے۔ اس نے رزق کا معاملہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ اسباب معیشت لا محدود ہیں لیکن تھامس مالتھس کا نظریہ اس کے برعکس تھا، جس نے ایک زبردست اخلاقی بحران کو جنم دیا۔ آبادی کو کم کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیے گئے اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹے اور معاشرے میں انتشار پیدا ہوا۔ معروف مصنفہ الزبتھ لیاگن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں یورپ اور امریکا کی ترقی، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مرہون منت ہے۔ اُس وقت شرح پیدایش آج کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہی تجزیہ فرانس اور جاپان کے مطالعاتِ آبادی کے اداروں نے بھی پیش کیا۔ یہاں تک کہ سی آئی اے نے اپنی رپورٹوں میں Youth Deficit (جواں عمروں کی کمی )کی اصطلاح استعمال کی۔ ان رپورٹوں کے مطابق ۱۵سے ۲۴سال کی عمر کے افراد کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ امریکا اور یورپ میں اس عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔یہ سمجھا گیا کہ معاشی ترقی کے لیے آبادی کم کیجیے۔ اس سوچ نے عورت کے کردار کی تعریف نو کی۔ اب عورت کے اس کردارِ حیات کا بچوں کی پیدایش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل کر دیا گیا۔

  • عورت کا کردار: دو باتیں سمجھ لیجیے۔ ایک تو یہ کہ معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ کردار پس پردہ ہے ۔ معاشی ترقی میں عورت کی شرکت اور اس سے بڑھ کر اس کے حصے کا مطلب یہ لیا گیا کہ عورت گھر سے باہر نکلے اور ملازمت کرے۔ گویا عورت کی ملازمت معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھی گئی۔ خود امریکا میں مردوں کی ملازمت کی شرح ۷۵ فی صد سے گھٹ کر ۵۵/۶۰ فی صد ہو رہی ہے اور عورتوں کی شرح ملازمت بڑھ کر ۵۰ فی صد سے زیادہ ہو رہی ہے۔ گویا جس مالی ذمہ داری سے اسلام نے عورت کو بری الذمہ رکھا تھا، مغرب نے اس بوجھ کو عورت پر لاد دیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہاں بھی میاں بیوی یا جو بھی پارٹنرز ہیں ، آٹھ دس گھنٹوں کی ملازمت کے بعد جب گھر پہنچتے ہیں تو گھریلو امور کی جتنی کچھ بھی انجام دہی کرنی ہو، وہ اسی عورت سے توقع کی جاتی ہے، جو خود بھی کئی گھنٹوں کی تھکا دینے والی ملازمت کرکے گھر لوٹتی ہے۔

دیکھیے مرد گھر سے نکلے اور ملازمت اختیار کرے تو کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو اصل میں ہمہ جہت مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ مغرب، خاتون خانہ کو Stay at home Ladies کا عنوان دیتا ہے۔ اس طرح وہ برسرِروزگار عورت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی خواہ وہ گھر میں کتنا ہی کام کرتی ہو اور گھر والوں کی خدمت میں چاہے کتنا ہی مصروف رہتی ہو، لیکن اس کا معاشی ترقی میں کوئی کردار تصور نہیں کیا جاتا۔ بظاہر اقتصادی ترقی اور معاشی سرگرمیوں میں اس کا براہ راست کردار نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک عورت اپنے شوہر، بھائی، بیٹوں اور والد کو اس طرح سہولت و آرام فراہم کرے کہ گھر کے یہ مرد ملکی معاشی ترقی میں احسن انداز میں کام کرتے ہیں تو کیا یہ کردار معاشی ترقی میں شمار نہیں ہونا چاہیے۔اگر ایک خاتون سلائی جانتی اور پکوان سے واقف ہے، بجٹ کے حساب سے گھر کو چلانے کی استعداد رکھتی ہے، اس طرح وہ گھر میں آسودگی اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہے اس لیے اگر گھر میں ترقی ہو رہی ہے تو کیا معاشرہ ترقی نہیں کرے گا۔ یہ تصویر کا ایک ایسا رخ ہے جس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔

اب تین اہم اصطلاحات پر غور کیجیے جنھوں نے خواتین کے نئے کردار کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی فکرو نظر رکھنے والے بعض افراد انھی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔اصطلاحات کی بھی اپنی نفسیات ہیں۔اِ ن کا ایک خاص پس منظر ہوتاہے۔اِن کے معانی ومفہوم علیحدہ سے متعین کرنا بعض اوقات مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا ہے: lحقوق نسواں (Women Rights) lمساواتِ مرد و زن(Gender Equality) lآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب، تعلیم اور اس کے اطلاق میں اقوام متحدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ سارے ملکوں میں اور سارے ہی معاشروں میں ایک ہی دین (Uni Religion) نافذ ہو جائے اور ایسی سماجی تشکیل کی جائے اور ان اصطلاحات کا مفہوم ویسے ہی طے کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ نے بیان کیا ہے۔

چند مثالیں پیش خدمت ہیں: lحقوقِ نسواں ، ملازمت کا حق اور مواقع...... (سیڈاکنونشن۱۹۷۹ئ): زندگی کے تمام میدانوں میں خواتین کے مردوں کے ساتھ یکساں حقوق کی ضمانت، جن میں تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ lحقوقِ نسواں ...... (ویاناکانفرنس ۱۹۹۳ئ): خواتین کے انسانی حقوق۔ lجنسی معاملات ...... (قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ئ): ہر دو اصناف کے صنفی تعلقات، جن میں عورتوں اور مردوں کو اپنی جنسی زندگی کی تنظیم کا آزادانہ حق حاصل ہو، اور اس ضمن میں عورت کو طرزِزندگی کی تبدیلی میں کلیدی کردار حاصل ہو۔

  • معاشی آزادی، خود مختاری ، معاشی ترقی ...... (بیجنگ اعلامیہ): عورتوں کی معاشی خود اختیاری اور معاشی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے، عورتوں کے لیے ملازمت کے تمام مواقع فراہم کرنا۔

اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان تجاویزاور سفارشات اور اصطلاحات کے پیچھے بہت سے افراد اور تنظیمیں مخلص بھی ہوں اور خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ خواتین کی بہبود کے لیے کام کررہی ہوں۔ لیکن اس ضمن میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی فلاح کے لیے جس راستے کا انتخاب انھوں نے کیا ہے وہ بجاے خود بگاڑ کا راستہ ہے، اور اب تک کے حقائق اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الہامی تعلیمات کے بغیر ان کی کوئی تشریح ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی ماڈل قابل عمل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی قانون، آئین، ملک، نظریہ مرد اور عورت (میاں بیوی) کے درمیان انصاف اورعدل پر مبنی تعلقات، حقوق و فرائض اور توازن کو بیان نہیں کرسکتا۔

مذکورہ بالا تین اصطلاحات میں سے یہاں پر صرف مرد اور عورت کی برابری (Gender Equality)کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ تصور کیا گیا کہ عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے، وہی کام کرے اور ویسا ہی کام کریں جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔ مرد وزن کی برابری کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ:

  • ٹریفک وارڈن بن جائیں اور ٹریفک کے روانی کو کنٹرول کریں(پچھلے دنوں اسلام آباد میں دیکھاکہ ۴۳، ۴۴ڈگری گرمی کی شدت میں خواتین ٹریفک وارڈن کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دیتی رہی ہیں۔ سخت دھوپ میں وہ بیچاری خو د ہی ہلکان ہورہی تھیں۔ کجا یہ کہ ٹریفک کی روانی کو قابو میں کرتیں)۔ l جہاز اڑائیں lپیٹرول پمپ پر فیول بھریں lفاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ملازمت کریں lمساج ہائوس یا مراکزِ مالش میں خدمات فراہم کریں lمزار قائد پر کیڈٹ کے فرائض انجام دیں اور گھنٹوں ساکت و جامد کھڑی رہیں۔

سوال یہ ہے کہ عورت کے اس کردار سے کون سی معاشی ترقی ہو رہی ہے؟ حقیقی زندگی کی ایک اور عملی مثال پیش خدمت ہے۔ تپتی ہوئی دھوپ میں ۲۵ افراد بجلی کا بل جمع کرانے قطار میں کھڑے ہیں۔ ہانپتی کانپتی ایک خاتون آتی ہیں۔ مرد وزن کی برابری کے قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ ۲۶ویں نمبر پر چپ چاپ قطار میں لگ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس برابری کے نام پر عورت کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ جو کام اس کے بس میں نہیں، جس کی وہ مکلف نہیں ہے، جس کے لیے اس کی حیاتیاتی اور جسمانی ساخت ہی موزوں نہیں ہے، ایسے کاموں کو اس کے ذمے لگا دینا سراسر ظلم ہے۔ شیطان نے ایسا غافل کر دیا کہ یہ اپنے استحصال سے خود بھی واقف نہیں ہے۔

استحصال کی ایک اور چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پوری دنیا میں مردوں کے لیے جوتوں کے نت نئے ڈیزائن ان کے آرام اور سہولت کو دیکھتے ہوئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ڈرائیونگ کے لیے علیحدہ جوتا، ساحل سمندر پہ چہل قدمی کے لیے الگ سلیپر، دفاتر میں پہننے کے لیے علیحدہ ڈیزائن، اگر بلڈ پریشر ہے تو علیحدہ جوتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کام کے لیے باقاعدہ آرتھوپیڈک ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پیروں کی ساخت اور ہڈیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے جوتوں کے ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ آرام اور سہولت مہیا کی جا سکے۔ کن کو؟ صرف مردوں کو۔ اسی حوالے سے عورتوں کے آرام وسہولت کا کیا معاملہ ہے؟ یہ عورتوں کے سینڈل کون اور کس مقصد کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں؟

اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پس پردہ طے کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ فیشن کی چکاچوند، دنیا میں ماند پڑ جائے گی۔ بیوٹی فی کیشن کی رنگین دنیا پھیکی ہو جائے گی۔ ۱۰؍ ارب ڈالر کی یہ آرایش حُسن کی صنعت جس کا غالب حصہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کی جیب میں چلا جاتا ہے، سرد ہو جائے گی۔ اگر معاشی ترقی میں عورت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام انجام دینے کا بیڑا اٹھائے تو یہ شیطان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہوگا۔ اس میں ایک اہم بات نوٹ کرلیجیے کہ خاتون کی گھر واپسی بہت مشکل ہوگی۔ اس معاشی دوڑ میں عورت آگے جاتے جاتے اپنے غلط کاموں کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جائز کے بعد اسفل سے اسفل کردار لیکن خوش نما انداز میں اور دل فریب اصطلاحات کے پردوں میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ پہلے جسم فروش (prostitutes) اور فاحشہ کی اصطلاح عام تھی،  ایک بُری اور گندی اصطلاح، جس میں فرد کا کردار بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر اقوام متحدہ نے   اپنی چھتری تلے اس اصطلاح کو اعزاز بخشا اور اسے ’سیکس ورکر‘ یا جنسی کارکن کا نیا عنوان دیا۔   اب جس طرح ایک خاتون محنت مزدوری کرتی ہے اور اپنا پیٹ پالتی ہے، کہا گیا کہ اسی طرح یہ بھی محنت مزدوری کرتی ہے، یہ بھی ورکر ہے۔ بس سیکس ورکر ہے تو کیا ہوا؟

مختلف کمپنیاں اپنی اشتہاری مہمات کے لیے عورتوں اور اپنی ملازم خواتین سے وہ کام لیتی ہیں کہ درندے بھی شرما جائیں۔ اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْــلًاo (الفرقان ۲۵:۴۴) ، ’’یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ مگر یہ سب انھوں نے کیوںکیا؟ اس لیے کہ یہ بقا کی اور مارکیٹ کی جنگ ہے، ملازمت کا مسئلہ ہے، مارکیٹنگ مقابلے کا طریق کار ہے۔ اسی لیے عرض ہے کہ گھر واپسی تو کیا ہوگی،ملازمت کی مجبوری اور تشخص کی بحالی کے نام پر ان حدوں تک اس عورت کو لے جایا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ، بلکہ اس کے ساتھ عورت کو یوں گلیمرائز یا بناسنوار کر پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ عورت کے بجاے ایک کھلونا معلوم ہوتی ہے۔

  • اثـرات: آزادی اور مرد وزن کی برابری کے عنوان سے جب یہ عورت مجبوراً یا شوقیہ معاشی ترقی کی دوڑ میں گھر سے باہر نکلی تو اخلاقی نظام منہدم ہوا۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں ہاتھ میں بیگ اٹھائے، رات کے اوقات میں سپر اسٹورز کے دورے کریں گی، ڈاکٹروں سے ملاقاتیں ہوں گی، میڈیکل اسٹور اور فارمیسی میں دوائوں کے آرڈر حاصل کریں گی، اور رات گئے گھر واپس ہوںگی۔ کیا اس سے اخلاقی بحران نہیں پیدا ہو رہا؟ پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ ایک معروف فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ویٹرس کی حیثیت میں جاب کرتی ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور وہ ایک پسماندہ علاقے میں رہتی ہے۔ اب یہ لڑکی جینز اور شرٹ پہنے چھوٹے سے محلے کے کچے سے مکان سے نکل کر جاب پر جاتی ہے۔ جہاں سر سے دوپٹہ سرک جائے تو گھر کے بڑے توجہ دلاتے تھے، جہاں حجاب اختیار کرنے کی تہذیب سکھائی جاتی تھی، وہاں پر اب یہ مناظر عام ہیں۔ اس طرح کے لباس کا تصور ان کے خاندان کے بزرگوں نے خواب و خیال میں نہ کیا ہوگا۔ لیکن اب رفتہ رفتہ اس تبدیلی کو قبول کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے اور پُرفریب جاب کے خوش نما اسٹیٹس کے ساتھ نوجوان لڑکیاں معاشی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگر یہ کام خواہ مجبوراً انجام دیے جارہے ہوں اور مہنگائی نے یہ راستہ دکھایا ہو، یہ سوال کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے یہاں زیربحث نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کا تعلق بھی اخلاقی ضابطوں کو توڑنے سے ہے۔

ضمناً ایک بات یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔ میری نظر میں تعلیم پہلے نیشنلائز سے پرائیویٹائز ہوئی، پھر یہ کمرشلائز ہوگئی۔ اب یہ سیکولرائز سے گلیمرائز ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹس اور ڈگریوں کے نام پر ہو رہا ہے۔ مخلوط تعلیم کے درجنوں ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اگر آپ ۱۹۹۷ء سے اب تک پچھلے دس بارہ سال میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی قیام کی رفتار اور ان کے اثرات کا جائزہ لیں تو بگاڑ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دورانِ تعلیم ہی طالبات کو معاشی کردار ادا کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں سنہری پیکیجز پیش کر رہی ہیں، مگر لڑکوں پر ایسی عنایات کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ

  • عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ ملازمت میں آئیں، مخلوط تعلیم اور مخلوط ملازمت عام ہوئی تو فیشن کا کاروبار بڑھا۔ اس سے گھر کی معیشت پر بوجھ بڑھا اور معاشرے میں مصنوعی مسابقت کا رجحان بڑھا۔ l خواتین جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوئیں۔ lخوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سبب نفسیاتی مسائل سامنے آئے۔

عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کی درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں: دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد ۵۱ فی صد ہے۔ ان میں سے ۶۶ فی صد ملازمت کرتی ہیں، مگر ۱۰ فی صد آمدن حاصل کرتی ہیں، لیکن ایک فی صد سے بھی     کم جایداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا ۲۱ویں عالمی کانفرنس ۲۰۰۱ئ)

  • مثالی خواتین کا مثالی کردار: قرآن و سنت میں چار خواتین کا تذکرہ علیحدہ شان سے بیان ہوا ہے:

 حضرت مریمؑ بنت عمران: وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۴۲)’’اور آپ کو چن لیا گیا دنیا کی تمام قوموں کی عورتوں میں‘‘۔ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد : حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترے اور فرمایا کہ اللہ نے خدیجہؓ کو اپنا سلام بھیجا ہے‘‘۔

  • آسیہؑ بنت مزاحم: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ (التحریم ۶۶:۱۱)’’اور اللہ مثال دیتا ہے ایمان لانے والوں کو فرعون کی بیوی (آسیہؑ) کی‘‘۔ m حضرت فاطمہؓ بنت محمدؐ: ’’جنت میں عورتوں کی سردار‘‘۔

ان چاروں خواتین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ معاشی ترقی میں ان روشن مثالوں میں سے کس کا، کتنا اور کیا کردار تھا؟ ان کے کون کون سے معاشی کارنامے تھے جن کی بنیاد پر ان کو مثالی قرار دیا گیا ہے؟ اگر ہم ان چاروں خواتین سے وابستہ مردوں کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کس طرح مردوں کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں۔ماں ، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے ان کا کردارکیساتھا۔ اِن اللہ کے بندوں نے اس الہامی نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی، جہاں پر عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ سے علیحدہ رکھا گیا۔

یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کچھ افراد حضرت خدیجہؓ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ: ’’یہ عظیم خاتون اور ام المومنین بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں‘‘۔ یہاں دو باتیں ان حضرات کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا اپنا کاروبار تھا۔

 اسلام نے خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنا ذاتی بزنس نہ کر سکتی ہوں۔ لیکن حضرت خدیجہؓ بذات خود اپنی کاروباری مصروفیات میں گلی کوچوں، گائوں و شہر میں نہیں نکلتی تھیں، بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سیرت کی کتب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعد و ضوابط نظر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں دین اسلام بحیثیت نظریۂ حیات، غالب عنصر کے  طور پر موجود ہو تو خواتین کا معاشی ترقی میں حصہ لینا اور ساتھ دینا، اخلاقی ضابطوں میں ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن جہاں شیطان کا راج ہو، فحاشی کے ڈیرے ہوں، ارزل و اسفل کردارعام ہوں، وہاں عورت کو معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے حضرت خدیجہؓ کی مثال لانا کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔

بہ ظاہر ہم جسے خوش حالی اور ترقی سمجھتے ہیں وہ سراسر دھوکا اور سراب ہے۔ سورۂ قریش  ایک خوش حال معاشرے کی پہچان بیان کرتی ہے: رزق کی فراوانی اور امن و سکون۔ عورت کے  اس موجودہ اور انجینئرڈ کردار سے ، جو معاشی ترقی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کبھی بھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ کبھی نہیں ۔ اگر اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود ہو تو سامنے آنی چاہیے۔


مقالہ نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن، کراچی کے  سیمی نار منعقدہ ۱۲ جون ۲۰۱۰ء میں پڑھا گیا۔

اسلامی تاریخ اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانی تقسیم کے لحاظ سے مکّی اور مدنی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مکّی دورِ عقیدہ سے متعلق تعلیمات و ہدایت سے تعلق رکھتا ہے اور مدنی دور میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلیمات نازل ہوئیں۔ یہ تصور نہ صرف عام افراد میں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ علم میں بھی بڑی حد تک ایک حتمی شکل اختیار کرگیا ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ مکّی دور عبادت، تزکیۂ نفس اور تعمیرِ شخصیت و کردار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ مدنی دور میں سماجی معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ہدایات دی گئیں، بالخصوص حدود و تعزیرات کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم و نفاذ صرف مدنی دور ہی میں ہوا۔

دیکھا جائے تو اسلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے اور توحید نہ صرف توحید ذات ہے بلکہ توحید صفات اس کا لازمی حصہ ہے اور یہی مفہوم توحید تمام انبیاے کرام کی دعوت کی بنیاد تھا کہ ’’اللہ کے بندے بنو اور ہرقسم کے طاغوت سے کنارہ کش ہوجائو‘‘۔ اگر مسئلہ عقیدہ و عبادت کے حوالے سے چند مختلف تصورات کا ہوتا تو اہلِ مکہ کو اسلام سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ انھوں نے جہاں ۳۶۵ خدائوں کے لیے اپنے دل میں جگہ بنا رکھی تھی وہاں ایک اللہ کے اضافے سے کون سی     تنگی ٔ داماں پیدا ہوجاتی۔ جس حرمِ کعبہ میں عرب کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے افراد اپنی اپنی  سمجھ کے مطابق عبادت ادا کر رہے تھے، اس میں مسلمانوں کے طرز کی عبادت وہ صلوٰۃ ہو یا اعتکاف اور قیام و قعود، اس کی ادایگی سے ان کے خدائوں کی ریاست میں کوئی انقلاب برپا نہ ہوتا۔

اہلِ مکہ، قریش اور مشرکینِ قبائل کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توحید ذات اور توحید صفات کو تسلیم کرلیا گیا تو پھر ان کی معاشرت، معیشت اور سیاست کی جاہلی بنیادیں، عصبیتیں، تعصبات و ترجیحات میں بنیادی تبدیلی آجائے گی۔ وہ جو سود پر تجارت کرتے تھے، جن کی اخلاقیات جنسی اباحیت پر مبنی تھیں اور جو قبائلی برتری کی بناپر کم تر قبائل کو اعلیٰ مناصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے، بخوبی جانتے تھے کہ اسلامی اخوت و عدالت کے پیش نظر اپنی ماضی کی روایات اور آباو اجداد کے طریقوں، تبرجاتِ جاہلیہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ سودا ان کے لیے بہت آسان نہ تھا۔

اس لیے مکّی دور میں دعوتِ اسلامی کے آغاز ہی سے اہلِ مکہ اور اہلِ عرب کے سامنے یہ بات واضح تھی کہ یہ ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ ماضی کی روایات، تصورات اور تعصبات کی جگہ ایک نئے تصورِ حیات کے اپنانے کا شعوری فیصلہ ہے،اور اس بنا پر انھوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو حق و صداقت پر مبنی ماننے کے باوجود اس کا کفر و انکار کیا اور اپنے بہت سے خدائوں سے اپنا رشتہ توڑ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت اعلیٰ کے اختیار کرنے میں تذبذب اور تجاہل سے کام لیا۔

اس حوالے سے غور کرنے کا ایک اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلام مجموعی تبدیلی اور اللہ کی بندگی میں کُلّی طور پر داخل ہونے کا نام ہے تو کیا ۱۳ سال کے عرصے میں محض عبادات کی حد تک اللہ کی بندگی ہونی چاہیے تھی، یا عبادات کے ذریعے جس عبدیت کا حصول مطلوب تھا، اُس عبدیت کا اظہار معاملات میں بھی ہونا چاہیے تھا۔ کیا مکّی دور محض نظری تعلیم کا دور تھا اور مدنی دور میں وہ تجربہ گاہ حاصل ہوئی جہاں اس نظری سرمایے کو آزمایا جائے، یا جن جن معاملات میں مکّہ کی تجربہ گاہ میں گنجایش تھی ان کو بلاتفریق نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اور آخرکار مدنی دور میں وہ مکمل معاشرہ وجود میں آیا، جس کی ابتدا اور بنیاد مکّی دور میں رکھی جاچکی تھی۔

زیرنظر کتاب اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ ہم نے جس تصورِ تاریخ کا ذکر اُوپر کیا ہے، یہ بڑی حد تک اس کی تائید میں اہم تاریخی جواز فراہم کرتی ہے۔ گو کتاب خالص علمی زاویے سے لکھی گئی ہے لیکن تحریکی ذہن اور تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے اس میں غور کرنے کے لیے بہت اہم مواد ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جو انقلابی تبدیلی لانا چاہتی ہیں اور جس میں نظریاتی طور پر بعض اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ ابھی تو مکّی دور سے گزرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد مدنی دور کا مرحلہ آئے گا___ کتاب میں فراہم کردہ مواد اس مفروضے پر نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

میرے مطالعہ تاریخ میں آغاز سے اس فکر کا بڑا دخل رہا ہے اور میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کسی ایسی مضبوط حدبندی کا قائل کبھی نہیں رہا جس میں مکّی دور مدنی دور سے مکمل طور پر مختلف ہو۔ بعض خصوصیات میں فرق کے باوجود دونوں اَدور میں ایک منطقی تسلسل اور اندرونی ربط پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی مکّی اور مدنی سورتوں میں بھی ایسی حدِفاصل کھینچنا جو ان کو مکمل طور پر دو الگ انواع بنا دے، درست طرزِفکر نہیں ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے مکّی ہونے کے باوجود اس میں اسلامی ریاست کے وجود کی دلیل واضح الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ جب خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا تعلیم کی جاتی ہے کہ: اے میرے رب! مجھے سچائی کے ساتھ اس شہر سے نکال اور سچائی کے ساتھ داخل کر اور سُلطہ (اقتدار) کو میرا مددگار بنادے۔ یہاں مقصود کسی تفصیل میں جانا نہیں ہے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مکہ اور مدینہ دو قطعی منقسم حوالے نہیں ہیں۔ ان میں ایک فکری اور عملی ربط ہے، کیونکہ اسلام روزِ اوّل سے جامع و شامل نظام بن کر آیا۔ عملاً ایسا نہیں ہوا کہ پہلے فلسفہ اور فکری نقشہ بناکر پیش کیا گیا ہو اور پھر اسے عملاً نافذ کیا گیا ہو۔ بہت سے عملی مسائل مکّی دور میں حل کیے جا چکے تھے اور بہت سی اصلاحات کا آغاز مکّی دور میں ہوچکا تھا، جن کی تکمیل مدنی دور میں ہوئی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی نے جو تحقیقی مواد یک جا کیا ہے، وہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ معاملاتِ تجارت و معیشت کے باب میں (ص ۳۸۱-۴۱۰) مصنف نے اصول و احکام تجارت میں بیع، شراکت و ندیمی (دو حضرات کا ایک دوسرے کا تجارتی ساتھی ہونا)، اور مضاربت کے حوالے سے حیاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عرب میں مروجہ طریقوں سے بحث کی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکّی اور مدنی دور میں مضاربت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں میں عدل و انصاف کے اصول کس طرح اختیار کیے گئے۔ تجارتی معاہدوں اور دارالاسلام اور دارالحرب میں تجارتی روابط کا قاعدہ و کلیہ بھی مکّی دور میں وجود میں آچکا تھا (ص ۳۹۹)۔ اُجرت اور اجیر کے احکام کے حوالے سے مکّی دور سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ بکریوں کے چرانے کا معاوضہ کس طرح متعین کیا جائے (ص ۴۰۶)۔

اسلام معاشرت و معیشت و سیاست کی بنیاد جن اصولوں پر ہے ان میں عدل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (الانعام ۶:۱۵۲) کا اصول سورئہ نحل میں مزید واضح کر دیا گیا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۹۰)، یعنی اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ اس عدل کی عملی شکل ناپ تول میں کمی نہ کرنا اور پیمانوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا مکّی آیات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (۶:۱۵۲) اور   سورئہ اعراف (۷:۸۵) میں فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ… یا سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۳۵) میں وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ…یا سورئہ ہود (۱۱:۸۴-۸۵) میں ’’اور نہ گھٹائو ماپ اور تول… اے قوم پورا کرو ماپ اور تول انصاف سے‘‘___ان آیاتِ مبارکہ میں مکّی دور میں ہی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو اسلامی معیشت سے آداب و احکام سے آگاہ کرنے کے ساتھ حُرمت بیان کر دی گئی۔ احسان کا حکم بھی مکّی دور ہی میں نازل ہوگیا۔ ھَلْ جَزَآئُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰)

معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر سے کام لینا (الاعراف ۷:۱۹۹) یا (تغابن ۶۴:۱۴) بھلائی کے ذریعے برائی کو دُور کرنا۔ الاعراف:۹۵اور الشوریٰ:۴۰، عہد کا پورا کرنا (نحل ۱۶:۹۱) امانت کی اہمیت اور احکام الاعراف:۱۸، الشعرائ: ۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸، یا الدخان:۱۸ وغیرہ میں ان پہلوئوں کو واضح اور قطعی شکل دے دی گئی۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی مکّی آیات میں بہت اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ الانعام (۶:۱۵۲)، بنی اسرائیل (۱۷:۲۳)، الاحقاف (۴۶:۱۵) اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مساکین کے حقوق الماعون میں کھول کر بیان کردیے گئے۔ یتیموں کے ساتھ بھلائی کے برتائو کے حوالے سے الفجر (۸۹:۱۷-۱۸) میں تاکید کی گئی کہ اہلِ مکّہ اور قریش یتیم کی عزت نہیں کرتے اور محتاج کو کھانا نہیں کھلاتے۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے الضحیٰ میں اشارہ کیا گیا کہ صاحب ِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ماننے والے کس طرح یتیم کے ساتھ پیش آئیں۔ سورئہ دہر (۷۶:۵) میں محتاج اور بن باپ کے لڑکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب و تعلیم دی گئی۔ سائل و محروم کے حقوق کا تعین بھی کر دیا گیا۔ چنانچہ سورئہ ذاریات (۵۱:۱۹) میں اموال میں سائل و محروم کا حق رکھ دیا گیا۔ المعارج (۷۰:۲۴-۲۵) میں اسی بات کی توثیق و تائید کی گئی۔ مہمانوں کے حقوق کے حوالے سے سورئہ ذاریات میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایمان داری کا واقعہ اور الحجر کی آیت۳ میں اس طرف تعلیم مکّی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے ہی سورئہ مزمل ، آیت ۲۰ میں بیمار کی عیادت کا اصول بیان کر دیا گیا۔ شوریٰ جو اسلامی ریاست اور اصولِ حکومت کا بنیادی رکن ہے اس کی طرف بھی مکی وحی میں الشوریٰ:۳۷ میں متوجہ کر دیا گیا۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گو آیات جہاد و قتال کی اکثریت مدنی ہے، لیکن جہاد بمعنی دفاع و مدافعت کے اصول کو مکّی دور کی شکل میں بدلہ لینے کی اجازت بلکہ حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیان کردیا گیا۔

معاشی معاملات میں خصوصاً سود (ربو.ٰ) کے حوالے سے سورئہ روم کی آیت۳۹ میں یہ ارشاد فرماکر وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج (جو سود      تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا)  اہلِ ایمان کو مکمل طور پر تحریم کے آنے سے قبل ہی ذہناً اور عملاًیہ بات سمجھا دی کہ سود سے مکمل اجتناب کرنا توحید کے مطالبات میں سے ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ   سود سابقہ شرایع میں بھی حرام ہی تھا۔ اس لیے بعد میں اس کی حُرمت اس سلسلۂ تعلیم و تشریع کی تکمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

حدیث پہ غورکیا جائے تو حدیث معراج میں جن مشاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے ان میں سود، زنا، غیبت، حرام مال کھانے والوں، مال غصب کرنے والوں، سب کا تذکرہ     یہ ثابت کرتا ہے کہ مکّی دور میں ہی میں ان کی حُرمت کی طرف واضح اشارہ کر دیا گیا تھا۔

بے حیائی کے کام بالخصوص زنا کے حوالے سے سورئہ فرقان (۲۵:۶۸) اور بنی اسرائیل (۱۷:۳۲) میں کہا گیا کہ اہلِ ایمان ان سے بچتے ہیں۔ گویا حدِ زنا سے قبل بھی زنا کو حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ ہجرت سے قبل جن اہلِ یثرب سے بیعت لی گئی اس میں بھی سرقہ، افترا، قتل، شرک کے علاوہ زنا سے اجتناب کی شرط بھی شامل تھی۔ گویا احکامِ تحریم مکی دور ہی میں آچکے تھے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب وفود الانصار)

زنا جسے قرآن کریم نے فواحش میں شامل کرتے ہوئے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، مکّی آیات میں بصراحت اس کی حُرمت کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورئہ انعام میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ(۶:۱۵۱) ۔ ایسے ہی الاعراف میں قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (۷:۳۳) ، یا الشوریٰ میں ہے وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۴۲:۳۷)، اسی طرح النجم میں اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۵۳:۳۲) کا واضح بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حدِ زنا سے قبل ہی تحریم کے احکام آچکے تھے۔ لیکن چونکہ حد کے اجرا کے لیے حکومتی ادارے کی ضرورت تھی اس لیے حدود کا نفاذ مکّہ میں نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے قیام مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔

’فحشائ‘ کی اصطلاح اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مکّی دور ہی میں بڑی برائیوں کی حُرمت کا حکم آچکا تھا۔ چنانچہ سورئہ یوسف (۱۲:۲۴) میں یا النحل (۱۶:۹۰) میں یا العنکبوت (۲۹:۴۵) میں بصراحت فحش سے اجتناب کے حکم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ احکام یکایک مدینہ میں نازل نہیں ہوئے، گو ان کی تکمیل مدینہ ہی میں ہوئی۔

قتلِ نفس کے حوالے سے بھی جو اسلام اور ماقبل کی شریعتوں میں حرام تھا مکّی آیات میں واضح احکام ملتے ہیں۔ بنی اسرائیل (۱۷:۳۳) میں ’’اور نہ مارو جان سے، حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر‘‘۔ ایسے میں الفرقان (۲۵:۶۸) میں یا الانعام (۶:۱۵۲) میں واضح احکام کا نزول ہوا۔

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گو اسلامی شریعت میں سزائوں بالخصوص حدود کے حوالے سے احکام مدینہ منورہ میں آئے، لیکن ان جرائم کا جرم ہونا اور ان سے اجتناب کرنے کا حکم مکّی دور ہی میں آچکا تھا۔ حتیٰ کہ شراب کے حوالے سے گو آیت تحریم الخمر   سورئہ مائدہ میں آئی لیکن جو اشارے پہلے کیے جا چکے تھے ان کی بنا پر اس سے اجتناب مکّی دور ہی میں شروع ہوچکا تھا۔

اسلام جس تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کلّی اور ہمہ گیر تہذیب و اخلاق کا    علَم بردار ہے وہ ایک کُلی اور ہمہ گیر تہذیب ہے جس میں اصل قوتِ محرکہ قانون کی گرفت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر کا وہ ضمیر ہے جسے حدیث نبویؐ نے ’مفتی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب دل اپنی صحیح حالت میں ہو اور پتھر کی وہ سنگلاخ شکل اختیار نہ کر گیا ہو جو نہ لرزے نہ خوفِ الٰہی سے پھٹے تو انسان کا دل اسے کسی فحش کے ارتکاب پر نہ آمادہ کرسکتا ہے، نہ اس کی ترغیب دے سکتا ہے۔ ہاں، جب قلب    یکے بعد دیگرے گناہوں کی کثرت سے ان کا عادی بن جائے تو پھر وہ اسے صحیح فتویٰ نہیں دے سکتا۔

الغرض مکّی اور مدنی ادوار کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ کر کے دیکھنا حقیقت ِ واقعہ سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ احکام کا نزول و اجرا ایک مسلسل عمل ہے جو مدینہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا لیکن اصلاً احکام کا علم اور اسلام قبول کرنے کے عملی نتائج کا شعور و ادراک مکّی دور میں ہی ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اہلِ مکّہ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کی انقلابی تحریک کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ انھیں علم تھا کہ یہ چند نظری اصولوں یا عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دعوتِ انقلاب اور دعوت ماہیت قلبی ہے جس میں سیاسی، معاشرتی، معاشی طرزِعمل کو بدلنا ہوگا۔ اسلامی حدود کے اجرا سے قبل ان کی حُرمت اور اہلِ ایمان کے حقوق و فرائض کی وضاحت مکّی دور ہی میں ہوچکی تھی۔

کتاب میں جو مواد تحقیق کے ساتھ جمع کیا گیا ہے وہ اہلِ علم کے لیے فکری غذا فراہم کرتا ہے اور سیرت و تاریخ کے طلبہ کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم معلومات کا حامل ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب اس علمی کام پر شکریے کے مستحق ہیں۔


(مکّی عھدِ نبویؐ میں اسلامی احکام کا ارتقا، ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی، ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۵۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔)

تاریخِ اسلام میں خلفاے راشدین کے بعد جس خلیفہ کا نام انتہائی عزت و احترام سے   لیا جاتا ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہیں جو بنواُمیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔ آپ کی مدت خلافت اگرچہ تین برس سے بھی کم ہے مگر اس مختصر عرصے میں آپؒ نے جو اصلاحات کیں اس سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوا بلکہ بعد میں بھی اس کے نہایت دُوررس نتائج برآمد ہوئے۔ خاص طور پر ملک کی اقتصادی اور معاشی پالیسی آپ نے جس نہج پر بنائی اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ آپ نے پہلی بار اُموی خلفا کے برعکس بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا۔ آپ سے قبل جن خلفا     اور حاکموں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کی زمینوں اور املاک بزور ظلم و زیادتی قبضہ  کیا ہوا تھا یا سرکاری املاک کو اپنی جاگیریں قرار دیا تھا، آپ نے ان سب کو ضبط کرلیا۔ اکثر اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیں جو باقی بچا اس کو سرکاری املاک قرار دے دیا۔

آپ نے ہر صوبے کی آمدن کو اس صوبے پر خرچ کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس کے باوجود اگر رقم بچ جاتی تو وہ دارالخلافہ بھیجی جاتی تھی جہاں اس کو ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا۔ اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوبے اس قدر آسودہ حال ہوگئے کہ صدقے کی رقم بھی مرکزی بیت المال کو بھیجی جانے لگی، جب کہ مرکز میں اخراجات میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی۔ بے جا اخراجات پر سخت کنٹرول تھا جس کے سبب اخراجات خصوصاً شاہی اخراجات نہ ہونے کے برابر   رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اہل و عیال کے کھانے پینے کا یومیہ خرچہ صرف دو درہم تھا، حالانکہ خلیفہ بننے سے قبل آپ نے انتہائی پُرتعیش زندگی گزاری تھی مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے سب کچھ ترک کر دیا اور رعایا کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا۔

معاشی اصلاحات کے بعد آپ کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ انصاف کی فراہمی تھا۔ انصاف کی فراہمی میں آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ کسی قسم کا معاشی یا خاندانی مقام و مرتبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے قانون شکنی کا رجحان ختم ہوا۔ کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے سے پہلے ہر شخص کو سو بار سوچنا پڑتا تھا، اس لیے بہت جلد ملک بھر میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ فراہمی عدل کے سلسلے میں آپ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نقشِ قدم پر چلے اور تاریخ میں اَن مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے آپ کو  خلفاے راشدین کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد قرار دیا جاتا ہے۔

آپ کی اصلاحات مقتدر طبقے کو اور پھر خاص کر شاہی خاندان کے افراد کو بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ اس روک ٹوک کے بھلا کہاں عادی تھے۔ اس لیے پسِ پردہ سازشوں کا تانا بانا بُننے لگے بالآخر آپ کے ایک غلام کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپ کا سالِ وفات ۷۲۰ عیسوی ہے۔ یہاں ہم اس عظیم خلیفہ کے دسترخوان کا حال بیان کرتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔

خلافت سے قبل آپ کا طعام بھی آپ کے لباس کی طرح اچھا خاصا پُرتکلف ہوا کرتا تھا مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے زہد و قناعت اختیار کی۔ تعیشات اور تکلفات کو یک سر موقوف کر دیا۔ کھانا انتہائی سادہ اور ایک سالن پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کا کھانا تیار ہوجاتا تو کسی برتن میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ جب آپ کو کاروبارِ خلافت سے ذرا فرصت ملتی تو خود ہی اُٹھاکر اسے تناول فرماتے تھے۔

خاندانِ بنی اُمیہ میں مسلمہ بن عبدالملک سب سے زیادہ مال دار، ناز ونعمت کا دل دادہ اور کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی فضول خرچ تھا۔ آپ کو جب اس کے کھانے پینے کے بارے میں انتہائی اسراف کا حال معلوم ہوا تو اسے صبح سویرے طلب کیا اور ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس کے ساتھ باورچی کو ہدایت کی کہ میرا کھانا حسب ِ معمول ہوگا، جب کہ ظہرانے میں مہمان کا کھانا انتہائی پُرتکلف اور متنوع ہونا چاہیے مگر اسے تاخیر سے پیش کیا جائے۔

مسلمہ بن عبدالملک صبح سے لے کردوپہر تک کاروبارِ خلافت دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک چمک اُٹھی مگر کھانا ابھی تیار نہ تھا۔ تاہم اس دوران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمداً اپنا کھانا منگوایا جو صرف مسور کی دال پر مشتمل تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’آپ کے کھانے میں ذرا دیر ہے، تاہم اگر آپ میرے ساتھ شریکِ طعام ہونا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ چونکہ وہ اس وقت بھوک سے بے تاب تھے اس لیے خلیفہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے اور خوب جی بھر کر کھایا۔ اسی وقت آپ کے اشارے پر خدام نے خصوصی کھانا لگایا تو آپ نے مسلمہ بن عبدالملک سے فرمایا کہ آپ کا کھانا تیار ہے، تناول فرمائیں۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں۔ اب بالکل گنجایش نہیں۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا: اے مسلمہ! جب بھوک کے لیے صرف مسور کی دال کافی ہوسکتی ہے تو پھر اس کے لیے اتنا بے جا اسراف اور تکلفات کیوں؟ مسلمہ ذہین اور دانا آدمی تھے، فوراً بات سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔

ایک مرتبہ آپ کی پھوپھی کچھ نجی مسائل پر آپ سے صلاح مشورے کے لیے تشریف لائیں۔ اس وقت آپ دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ پھوپھی نے دیکھا کہ دسترخوان پر چند ایک چھوٹی چھوٹی روٹیاں، کچھ نمک اور ذرا سا زیتون کا تیل رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو اپنی ایک ضرورت کے تحت آپ سے مشورہ لینے آئی تھی، مگر آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اپنی ضرورت سے قبل مجھے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہیے۔ آپ نے کہا: پھوپھی جان! فرمایئے۔ انھوں نے کہا: آپ ذرا نرم اور بہتر کھانا کھایا کریں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: یقینا آپ کا فرمانا بجا ہے، مجھے چاہیے کہ میں ایسا ہی کروں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ مجھے بیت المال سے سالانہ ۲۰۰ دینار کا وظیفہ ملتا ہے اور اس میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ نرم اور بہتر کھانا کھا سکوں، جب کہ پیٹ کی خاطر مقروض ہونا مجھے گوارا نہیں۔

ایک دفعہ زیان بن عبدالعزیز آپ کے پاس آئے۔ کچھ دیر تک بات چیت ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے کہا: کل رات مجھ پر بہت گراں گزری۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند بھی بہت کم آئی۔ میرا خیال ہے اس کا سبب وہ کھانا تھا جو رات کو میں نے کھایا تھا۔ زیان نے پوچھا: رات کو کیا کھایا تھا؟ آپ نے جواب دیا: مسور کی دال اور پیاز۔ اس پر زیان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے خود ہی اپنے اُوپر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اتنی سخت پابندیاں بھی کچھ اچھی نہیں۔ آپ کو اچھا اور عمدہ کھانا لینا چاہیے۔ اس پر آپ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: میں نے تجھے بھائی سمجھ کر اپنا بھید تجھ پر کھولا مگر افسوس کہ میں نے تجھے اپنا خیرخواہ نہیں پایا، آیندہ محتاط رہوں گا۔

ابواسلم کہتے ہیں کہ ایک دن آپ کا ایک مہمان آیا ہوا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کو کہا۔ غلام کھانا لے آیا جو چند چھوٹی چھوٹی روٹیوں پر مشتمل تھا، جن پر نرم کرنے کے لیے پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کو روغنی بنانے کے لیے نمک اور زیتون کا تیل لگایا گیا تھا۔ رات کو جو کھانا پیش ہوا وہ دال اور کٹی ہوئی پیاز پر مشتمل تھا۔ غلام نے مہمان کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر امیرالمومنین کے ہاں اس کے علاوہ کوئی اور کھانا ہوتا تو وہ بھی ضرور آپ کی مہمان نوازی کے لیے دسترخوان کی زینت بنتا، مگر آج گھر میں صرف یہی کھانا پکا ہے۔ امیرالمومنین نے بھی اس کھانے سے روزہ افطار فرمایا ہے۔

آپ کا معمول تھا کہ نمازِ عشاء کے بعداپنی صاحب زادیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مزاج پُرسی فرماتے۔ ایک رات جب آپ بیٹی کے پاس تشریف لے گئے تو   صاحب زادی نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئیں۔ آپ کو تردّد ہوا تو خادمہ نے عرض کیا: حضور بچیوں نے ابھی کھانے میں مسور کی دال اور کچی پیاز کھائی ہے، بچی کو گوارا نہ ہوا کہ آپ کو اس کی بو محسوس ہو۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: بیٹی! تمھیں کیا یہ منظور ہوگا کہ تم انواع و اقسام کے لذیذ اور عمدہ کھانے کھائو اور اس کے بدلے میں تمھارے والد کو دوزخ ملے۔ بیٹی یہ سن کر سسک پڑی اور آپ کے گلے لگ گئی۔

مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نمازِ فجر کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خلوت خانے پر حاضر ہوا جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو آپ کو بہت پسند تھیں اور اسے رغبت سے کھاتے تھے۔ آپ نے دونوںہاتھوں سے کچھ کھجوریں اُٹھائیں اور پوچھا: مسلمہ! اگر کوئی اتنی کھجوریں کھاکر اس پر پانی پی لے تو کیا خیال ہے یہ رات تک اس کے لیے کافی ہوگا؟ میں نے عرض کیا: مجھے صحیح اندازہ نہیں، میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کھجوریں کم تھیں۔ اس پر آپ نے کھجوروں سے اوک بھرا اور پوچھا: اب کیا خیال ہے؟ اب چونکہ مقدار زیادہ تھی اس لیے میں نے کہا: امیرالمومنین! اس سے کچھ کم مقدار بھی کافی ہوسکتی ہے۔

کچھ دیر توقف کے بعد آپ نے کہا: اگر اس قدر کھجوریں کافی ہیں تو پھر انسان اسراف کرکے اپنا پیٹ کیوں نارِ جہنم سے بھرتاہے۔ یہ سن کر میں کانپ اُٹھا اور بعد میں کھانے پینے کے معاملے میں نہایت کفایت شعاری سے کام لینے لگا۔

جب آپ کا وقت وصال آیا توآپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:     بچّو! میں جا رہا ہوں، میرے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں کہ تم کو دے سکوں لیکن تمھارے   لیے خیرکثیر چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم جب کسی مسلمان یا ذمّی کے پاس سے گزرو گے، اپنے لیے عزت و احترام ہی پائوگے۔ وہ تمھارا حق پہچانے گا کہ یہ اس خلیفۂ عادل کی اولاد ہے جس نے اپنی رعایا کو سب کچھ دیا مگر اپنی اولاد کو کچھ لینے نہیں دیا۔ اللہ تمھارا حامی و نگہبان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں رزق دے گا اور خوب دے گا۔

حضرت عبدالرحمن بن قاسم بن محمد ابی بکرؒ فرماتے ہیں: جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا انتقال ہوا تو ان کے گیارہ وارث تھے اور ترکہ میں کل ۱۷ دینار تھے۔ پانچ دینار کفن پر خرچ ہوئے، دو دینار میں قبر کے لیے جگہ خریدی گئی، باقی اولاد پر تقسیم ہوئے تو ہر لڑکے کے حصے میں فی کس ۱۹ درہم آئے اور جب ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کا ترکہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا تو ایک ایک بیٹے کے حصے میں دس دس لاکھ دینار آئے۔ بعد میں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اولاد میں سے ایک نے جہاد کے لیے ایک دن میں ۱۰۰ گھوڑوں کا عطیہ دیا، جب کہ ہشام بن عبدالملک کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس قدر تنگ دست ہوچکا تھا کہ لوگ اس بے چارے کو صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے۔

قضاے عمری

سوال: کسی شخص نے سالہا سال سے اپنی فرض نمازیں ادا نہیں کیں اور عمر کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی اور وہ پانچ وقت کا نمازی بن گیا اور ساری نمازیں وقت کی پابندی سے ادا کرنے لگا۔ اب اسے خیال آیا کہ وہ اپنی قضا شدہ نمازیں پوری کرے، اس کے لیے قضاے عمری کا طریقہ رائج کیا گیا ہے اور مختلف طریقے بتائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یا صحابۂ راشدینؓ کے دور میں ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی شخص مسلمان کہلائے اور پابندی سے نماز ادا نہ کرے، یہاں تک کہ منافق بھی پابندی سے نماز ادا کرتے تھے، مبادا ان کا پول کھل جائے۔ اس وقت قضاے عمری کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ رسول اکرمؐ کی بے شمار احادیث ہیںجن سے ثابت ہے کہ نماز چھوٹ جانے کی صورت میں پہلی فرصت میں اسے ادا کرے۔ مَن نَسِیَ صَلٰوۃَ فَلْیُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا کَفَّارَۃَ لَھَا اِلاَّ ذٰلِکَ، ’’جو شخص نماز بھول جائے (یا سو جائے) اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس وقت یاد آئے اس نماز کو پڑھے۔ اسی طرح جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے جو بھی نماز وقت پر ادا نہ ہوسکی، نبی اکرمؐ نے اسی دن اس کو ادا کیا۔ قضاے عمری کا طریقہ کب اور کیسے رائج ہوا، جب کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؟

جواب:  ایک مسلمان جب بالغ ہوجائے تو اس پر تمام شرعی فرائض ادا کرنا لازم ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو بلوغت کے بعد اس کا احساس نہ ہوا، ماں باپ یا ملنے جلنے والے مسلمانوں نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی یا کوشش کی ہو لیکن اسے احساس نہ ہوا ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اسے توبہ کی توفیق ملی اور اس نے توبہ کے بعد تمام فرائض ادا کرنا شروع کردیے۔ وہ پانچ اوقات کی نمازیں، رمضان کے روزے، زکوٰۃ اور دیگر فرائض اداکرنے لگا ہے تو اس کی توبہ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ سابقہ زندگی کی کوتاہیوں پر نادم ہو اور جو فرائض توبہ سے پہلے تک کے عرصے میں اس سے رہ گئے ہیں وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہیں۔ وہ ازخود ساقط نہیں ہوں گے جب تک وہ ان فرائض کو ادا نہ کرلے۔ اپنی عمربھر کی نمازوں اور دیگر فرائض کو ادا کرنا قضاے عمری کہلاتا ہے۔

جس آدمی نے بالغ ہونے کے بعد فرض نمازیں نہ پڑھی ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ’دین‘ ہیں۔ جیسے ایک آدمی نے کسی سے کوئی چیز خریدی ہو اور اس کی قیمت اس کے ذمہ رہتی ہو تو وہ رقم اس آدمی پر دین ہوتی ہے اور وہ اس وقت ساقط ہوتی ہے جب وہ اس رقم کو ادا کردے۔ یہی حکم فرض نماز اور روزے کا ہے۔

آپ نے بھولی ہوئی نماز کو یاد آنے کے بعد ادا کرنے کا ذکر کیا اور حدیث شریف میں  ادا ہی کو اس کاکفارہ قرار دیا ہے۔ تو جان بوجھ کر ترک کر دینے والی نماز کو تو بدرجہ اولیٰ ادا کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی ادایگی سے اس کا کفارہ بھی ہوجائے۔ یہ بات ہرمسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ بالغ ہونے کے بعد فرائض اور واجبات کو ترک کر دینا خصوصاً فرض نمازوں کو ادا نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ بعض فقہا نے تو اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی تلافی قضا سے بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کی تلافی کے لیے قضا کے ساتھ مسلسل توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔

قضاے عمری کا یہ معنی نہیں ہے کہ ماضی کی تمام قضا نمازوں کے عوض کوئی شخص کسی دن دورکعت پڑھ کر ماضی کی ساری نمازوں سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ یہ علما میں سے کسی عالم کا نظریہ نہیں۔  لوگوں نے اپنی طرف سے اس قسم کی قضاعمری اختراع کی ہے۔

قضا کا طریقہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنے سالوں کی نمازیں رہ گئی ہوں اتنے سال وقتی نماز کے ساتھ ایک ایک قضا نماز بھی پڑھے، اس طرح ہر دن پانچ فرض نمازوں کے ساتھ پانچ قضا نمازیں بھی ادا ہوجائیں گی اور کسی بڑی مشکل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرض کی ادایگی کی سعادت حاصل ہوجائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ قضا صرف پانچ اوقات کے فرائض اور وتروں کی ہوتی ہے۔ سنتوں کی قضا ضروری نہیں۔ (مولانا عبدالمالک)


کسی شخص کو اللہ کے صفاتی نام سے پکارنا

س:  اپنے نام یا نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی صفاتی نام لکھنے کے لیے لفظ کے ساتھ عبد کا لفظ لکھنا ضروری ہے یا نہیں؟اگر ضروری ہے تو پھربہت سے نام ایسے ملتے ہیں جن کے ساتھ بڑے بڑے اکابر نے ’عبد‘ کا لفظ نہیں لکھا، مثلاً: عثمان غنی جو کہ خلیفہ سوم کا نام بھی ہے، جب کہ ’غنی‘ اللہ کا صفاتی نام بھی ہے۔ اسی طرح لفظ ’حق‘، ’جلیل‘ اور ’حمید‘ وغیرہ لوگ اپنے نام یا نام کے ساتھ لکھتے ہیں جیسے حق نواز، طاہرحمید وغیرہ، جب کہ حق اور حمیداللہ کے صفاتی نام ہیں لیکن لوگ انھیں لفظ ’عبد‘ کے بغیر لکھتے ہیں، یعنی عبدالحق، عبدالجلیل اور عبدالحمید کے بجاے صرف حق، محمدحمید، محمد جلیل وغیرہ۔

اسی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ لفظ ’مَلک‘ اللہ کا صفاتی نام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علیحدہ قوم کا نام بھی ہے۔ اگر ایک شخص مَلک قوم سے تعلق نہیں رکھتا تو وہ اُسے اپنے نام کے ساتھ لکھوا سکتا ہے یا نہیں؟

ج: اللہ تعالیٰ کے اسماء صفاتی دو طرح کے ہیں۔ وہ جو قرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ وہ جو قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔

غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے، لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔

رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے، لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ ’عبد‘ کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔

بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایسا کرنا ناجائز ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰، عنوان: کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں، ص ۱۳۲، ج ۴)

مَلک اللہ تعالیٰ کا مخصوص نام نہیں ہے۔ اگر ایک قوم اپنے آپ کو ملک کے نام سے موسوم کرتی ہے تو کوئی دوسری قوم یا شخص کسی سبب سے اپنے آپ کو ’ملک‘ کے نام سے موسوم کرسکتا ہے۔ لغت میں مَلَک یَملِکُ مَلْکًا، مِلْکًا ، مُلْکًا ، وَمَلَکۃً، وَمَمْلَکَۃً، مَمْلِکَۃ، مَمْلُکۃ کا معنی مالک ہونا، غالب ہونا، کسی کام پر حاوی ہونا ہے۔ اگر یہ نَفْسَہٗ ساتھ ہو تو اس کا معنی نفس پر قابو رکھنا، امرأۃ کا ساتھ ہو تو معنی نکاح کرنا، العجین ساتھ ہو تو اچھی طرح آٹا گوندھنے کے آتے ہیں۔ آپ نے جس لفظ کے متعلق سوال کیا ہے وہ مَلْک کا لفظ ہے اور وہ پنجابی زبان میں بعض قوموں کا نام ہے۔ اس نام کا اللہ تعالیٰ کے نام مَلِک (بادشاہ) کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس کے استعمال کا جواز مذکورہ بالا مثالوں سے غیراللہ کے لیے جائز ہے۔(ع - م)


اولاد سے مساوی سلوک

س: میرے پہلی بیوی سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور  دو بیٹیاں ہیں۔ میں ہر ماہ اپنی آمدنی سے فی کس نان نفقہ دیتا آیا ہوں، جب کہ تعلیمی اخراجات ہر بچے کے براہِ راست اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ بڑے بیٹے نے اپنے سوتیلے بھائی کی تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ جب میں نے بیرونِ ملک جانے کی خواہش ظاہر کی تھی تو مجھے نہیں بھیجا گیا تھا۔ میں (والد) نے اسے کہا تھا (اس وقت کے مالی حالات کے مطابق) کہ میں آپ کے سفر کا انتظام کیے دیتا ہوں، البتہ وہاں جاکر آپ کو اپنے اخراجات خود کام کرکے اُٹھانا ہوں گے۔ اس وقت وہ بی اے میں پڑھتا تھا اور میں نے نصیحت کی کہ پہلے آپ بی اے پاس کرلو اور پھر ماسٹر کے لیے باہر چلے جانا۔ اس نے دو تین بار امتحان دیا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور پھر اس کے کہنے پر اس کو قطر میں ملازمت دلا دی گئی۔

اب اس کا مطالبہ ہے کہ جتنے اخراجات میرے سوتیلے بھائی کی بیرونِ ملک تعلیم پر  اُٹھ رہے ہیں اتنے پیسے مجھے بھی ادا کیے جائیں۔ دوسری طرف اس کے سوتیلے بھائی کو بیرونِ ملک جانے کے لیے بھیجا گیا تو اُسے بھی یہی کہا گیا کہ وہاں بیرونِ ملک سب بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے ہیں اور وہ عملاً کام کرتا بھی ہے مگر اس کمائی میں اُس کا گزارہ نہیں ہوتا اس لیے مجھے مزید پیسے بھیجنے پڑتے ہیں۔

اللہ کے رسولؐ نے کسی شخص کو صرف ایک بیٹے کو غلام دینے سے اس لیے منع فرمادیا تھا کہ اس نے دوسرے بیٹے کو غلام نہیں دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ والد پر یہ لازم آتا ہے کہ بڑے بیٹے کامطالبہ پورا کرے، جب کہ میری شرطیں دونوں کے لیے یکساں تھیں اور چھوٹے بیٹے کے کام کرنے کے باوجود اسے مزید پیسے درکار ہوتے ہیں جو مجھے بھیجنے پڑتے ہیں۔

کیا یہ حساب لگانا ضروری ہے کہ بڑے بیٹے کی بی اے تک کی تعلیم پر چھوٹے بیٹے کی نسبت زیادہ خرچ اُٹھا ہے۔

ج: اولاد کے ساتھ مساوات کا معنی یہ ہے کہ تمام کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کی جائیں۔ کسی کی ضروریات پوری کی جائیں اور کسی کو نظرانداز کیا جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح ہبہ اور تحفہ میں بھی مساوات کی جائے، ایک کو نوازنا اور دوسرے کو نظرانداز کرنا صحیح نہیں ہے۔ تعلیمی اخراجات میں مساوات کا معنی یہ ہے کہ ہر ایک کی ضرورت اور اپنی استطاعت کے مطابق پورے کی جائیں۔ آپ نے جو تفصیل لکھی ہے اس کے مطابق آپ نے بیٹوں میں امتیاز نہیں کیا۔ آپ کے بیٹے کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ آپ نے دونوں کے اخراجات کا حساب کر کے کمی کو پورا کرنا ہے۔ جہاں آپ کے لیے اولاد میں مساوات کا حکم ہے اسی طرح اولاد پر اس سے  بڑھ کر واجب ہے کہ آپ کا احترام کریں اور باپ کو اپنا مقروض سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو باپ کا مقروض سمجھیں۔ آپ نے اب تک ان پر جو خرچ کیا ہے، جو پرورش کی تکلیف اٹھائی ہے، وہ ان پر ایسا قرض ہے کہ وہ اسے پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

قرآن پاک تو تلقین کرتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) ’’انھیں اُف نہ کہو، ان کو جھڑکو نہیں، ان سے باعزت گفتگو کرو‘‘۔ والدین کو اولاد کی جنت اور دوزخ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے بیٹے کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔ آپ نے اب تک جو کیا ہے وہ شریعت کی روشنی میں درست ہے۔ شریعت نے ماں باپ کو اولاد کے درمیان اس طرح حساب کر کے برابری کا پابند نہیں بنایا جس طرح آپ کے بیٹے کا مطالبہ ہے۔ (ع - م)


تقسیم وراثت کو مؤخر کرنا

س: کہا جاتا ہے کہ میت کے فوت ہونے کے بعد وراثت فوری طور پر تقسیم ہونی چاہیے اور اس کے لیے ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو ورثا کو عملاً مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے۔ اس کی کُل وراثت ایک گھر ہے جس میں بیوہ اور بچے رہایش پذیر ہیں جس میں بیٹے بیٹیاں ہیں اور ابھی کچھ بچے شادی شدہ ہیں اور کچھ غیرشادی شدہ ہیں۔ لیکن اس گھر کے بٹوارے سے بیوہ اور غیرشادی شدہ بچوں کو کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ خیال رہے کہ شادی شدہ بچے گھر کی تقسیم چاہتے ہیں، جب کہ بیوہ اور کنوارے بچے تقسیم وراثت کو کچھ عرصہ کے لیے مؤخر کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وراثت کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے ورثا گناہ گار ہوںگے؟

ج: مکان کی تقسیم اس وقت ضروری ہے جب مشترکہ طور پر رہایش ختم کرنا مقصود ہو اور بعض ورثا تقسیم کا مطالبہ کریں۔ اس لیے مکان کی تقسیم مکان کی مالیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ مکان کی قیمت لگائی جائے گی۔ پھر جو شخص مکان لینا چاہے وہ دوسروں کو ان کے حصہ کی قیمت ادا کرے گا۔ اس وقت بچے چھوٹے ہیں، ان کے پاس اور مال نہیں ہے کہ ادا کر کے مکان لے سکیں اور مکان میں اپنے حصے کے پیسے لے کر دوسرا مکان بنا سکیں۔ یہی حال ان کی والدہ کا ہے۔ اس لیے جب تک پوری طرح تقسیم نہیں ہوسکتی اس وقت تک مشترکہ رہایش رکھ سکتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے جو حکم واضح ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔ جب مکان میں وقتی طور پر سب رہایش پذیر ہیں تو وہ ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہیں کھا رہے۔ سب اپنا اپنا حصہ استعمال کر رہے ہیں۔ بڑے بھائی بہن اگر چھوٹوں اور ان کی والدہ کے لیے مکان چھوڑنے کے لیے تیار ہوں تو وہ اپنے حصے کی قیمت اُدھار کرلیں۔ بعد میں جب چھوٹے ادایگی کے قابل ہوجائیں گے تو ان کے حصے کی قیمت ادا کرلیں گے۔ اگر مکان کی بناوٹ ایسی ہے کہ سب کو حصص وراثت کے مطابق حصے کر کے دیے جاسکتے ہوں کہ ہر ایک کو اتنی جگہ مل جائے جتنی  اس کا حصہ  بنتی ہے تو فوری طور پر بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو سب مشترکہ ملکیت سمجھ کر مشترکہ رہایش اختیار کرسکتے ہیں۔ فوری تقسیم اسی صورت میں ہے جب فوری تقسیم ممکن ہو۔(ع - م)


شادی کے موقع پر سلامی کی رسم

س: جب لڑکے کی شادی ہوتی ہے تو بارات سے کچھ دیر پہلے یا ایک دن پہلے لڑکے کو دولھا بناکر بٹھا دیا جاتا ہے اور تمام احباب اُسے سلامیاں ڈالتے ہیں یا تحائف دیتے ہیں اور نکاح کے بعد لڑکی والے دولھا کو اپنے گھر میں لے جاتے ہیں جہاں دُلھن کی بہنیں اور دوسری قریبی رشتہ دار خواتین دولھا کو سلامی ڈالتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا یہ چیز جائز ہے؟کیا یہ کوئی ہندووانہ رسم تو نہیں ہے؟ حضور اکرمؐ کے زمانے میں کیا ایسا ہوتا تھا؟ کیا صحابہ کرامؓ اور تابعین سے ایسا کرنا ثابت ہے؟

ج: لڑکے کو دولھا بنانا جائز ہے، اسے ہدیہ دینا بھی جائز ہے لیکن سلامی وغیرہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے اور اس کو ایسا رواج دینا کہ ضروری سمجھا جائے اور لوگ مجبوراً رواج کی بنیاد پر اپنے اُوپر بوجھ ڈال کر ہدیے اور تحائف دیں مناسب نہیں ہے۔ نیز لڑکے کو غیرمحرم خواتین کے مجمع میں لے جانا اور اسے سلامیاں دینا مکروہ ہے۔ بس سادگی کو ہرپہلو سے سادہ ہونا چاہیے۔

اسی طرح دلھن کو بھی غیرمحرم مردوں کے مجمع میں لے جانا مکروہ ہے۔ یہ زائد قسم کی رسمیں ہیں۔ ان کا تعلق صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے زمانہ سے نہیں۔ اس قسم کے معاملات میں ہر دور میں اپنے اپنے رواج جائز ہوسکتے ہیںبشرطیکہ شریعت کی حدود سے تجاوز نہ ہو، غیرمحرم مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، کسی پر مالی دبائو نہ ہو وغیرہ، جیسے کہ تفصیلاً ذکر آگیا ہے۔ (ع - م)

دوامِ حدیث (جلد اوّل ، دوم)، حافظ محمد گوندلوی، تحقیق و تعلیق: حافظ شاہد محمود۔ ناشر: اُم القریٰ پبلی کیشنز، کمشنر روڈ، فتومنڈ، گوجرانوالہ، فون: ۸۱۱۰۸۹۶-۰۳۳۳۔ صفحات (بالترتیب) ۶۰۰، ۵۰۰۔ قیمت:درج نہیں۔

’’احادیث کس طرح مرتب اور جمع ہوئیں اور ہم تک کس طرح پہنچیں، دین میں ان کی کیا حیثیت ہے، اور قرآن و حدیث کا باہمی تعلق کیا ہے‘‘___ یہ وہ مباحث ہیں جن کے بارے میں غلام احمد پرویز کے حلقۂ فکر کا مخصوص نقطۂ نظر ۱۹۵۳ء میں مقامِ حدیث کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں سامنے آیا۔ یہ کتاب غلام احمد پرویز، تمنا عمادی اور حافظ محمد اسلم جیراج پوری کی تحریروں پر مشتمل تھی۔ معروف عالمِ دین اور علمِ حدیث میں منفرد اور نمایاں مقام رکھنے والے استاذ حافظ محمد گوندلوی (۱۸۹۷ئ-۱۹۸۵ئ) نے اس کا ایک برجستہ جواب لکھا جو ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء کے مختلف مجلات میں شائع ہوا۔ اب ایک نوجوان محقق (حافظ شاہد محمود) نے اس علمی سرمایے کو مرتب و مدوّن کرکے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ مرتب نے وقیع علمی حیثیت کی حامل تعلیقات بھی شامل کی ہیں۔

اس کتاب میں ان شکوک و شبہات کا بڑی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو احادیث کے ضمن میں عموماً مخصوص ذہن پیش کرتا ہے۔ چونکہ مصنف کے پیش نظر مقامِ حدیث کے اعتراضات کا جواب دینا تھا، لہٰذا ہر اعتراض کا جواب علومِ حدیث کے متعدد پہلوئوں سے بھی بحث کرتاہے۔ یوں علمِ حدیث کی نہایت گراں قدر بحثیں کتاب میں سمٹ آئی ہیں اور معترضین کے اُٹھائے گئے سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم ہوگئے ہیں۔

دوامِ حدیث کی جلد دوم ان مباحث پر مشتمل ہے جو حدیث کے متعلق اسی نوعیت کے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے دو اسلام کے عنوان سے ۱۹۴۹ء میں شائع کیے تھے۔ ڈاکٹر برق کی اس کتاب کے متعدد علما نے جواب لکھے اور ہر مصنف نے اپنے انداز میں اس کا جواب فراہم کیا۔ حافظ محمد گوندلوی نے مقامِ حدیث کی طرح دو اسلام کا جواب بھی محدثانہ اسلوب میں مذکورہ تحریر کے ذیل میں ہی لکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق تاریخِ حدیث لکھ کر دواسلام کے مشتملات سے دست بردار ہوگئے تھے لیکن افسوس ہے کہ بعض بددیانت ناشر اسے مسلسل شائع کر رہے ہیں اور بہت سے نوخیز ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔

یہ تالیف علمِ حدیث کے گراں قدر اُردو سرمایے میں نادر علمی، تاریخی اور فنی نوعیت کا اضافہ ہے۔ تدوین میں ایک کمی رہ گئی۔ دوامِ حدیث کا عنوان مقامِ حدیث کے متقابل اختیار کیا گیا ہے لیکن سرورق پر اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کتاب مقامِ حدیث کا جواب ہے۔ اسی طرح جلددوم پر بھی وضاحت درج نہیں کہ یہ حصہ دو اسلام کا جواب ہے۔ دونوں مجلدات کو مذکورہ وضاحت کے ساتھ الگ الگ شائع کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ (ارشاد الرحمٰن)


کلامِ اقبال میں انبیاے کرام کا تذکرہ، زیب النساء سرویا۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، ایوانِ اقبال (ایجرٹن) روڈ،لاہور۔ صفحات: ۴۶۱۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے حصولِ سند کے لیے ڈاکٹر وحیدعشرت مرحوم کی نگرانی میں قلم بند کیا گیا تھا۔  کلامِ اقبال کی بہت سی جہات پر خاصا کام سامنے آچکا ہے مگر کلامِ اقبال کی ایک نئی جہت اور نسبتاً اس نئے موضوع پر یہ ایک مبسوط اور تفصیلی جائزہ ہے۔

مقالہ نگار نے اقبال کے اُردو اور فارسی کلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کر کے مختلف منظومات و غزلیات میں مذکور ۱۶؍ انبیاے کرام کا تذکرہ اور ان کا پس منظر تیارکیا ہے۔ ساتھ ساتھ انبیاے کرام ؑکی سوانح پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سوانح مرتب کرنے کے لیے مختلف مآخذ مثلاً تورات، انجیل، قرآن مجید، تفاسیر اور عربی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔

کتاب پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ باب اوّل کو ’وحی و نبوت فکرِاقبال کے مآخذ کی حیثیت سے‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ دوسرا باب دو حصوں میں بانٹا گیا ہے:(ا) اقبال کا شعورِ ولایت،   شعورِ نبوت اور شعورِ ختم نبوت، (ب) مقصودِ نبوت و رسالت محمدیؐ، یہ دونوں ابواب پس منظری مطالعے کی حیثیت سے کتاب کا حصہ ہیں۔

تیسرے باب ’انبیاے کرام ؑ اقبال کی نظر میں‘ ۱۶ انبیاے کرام کا تذکرہ شامل ہے۔ حضرت خضر ؑ کو ایک بڑا طبقہ پیمبروں کی صف میں شمار کرتا ہے۔ ان کا ذکر بھی کلامِ اقبال میں ملتا ہے۔ مقالہ نگار نے ان کا ذکر نہیں کیا اس کی وجوہ اور اختلافی آرا کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔

۳۲۵ صفحات کی زیرنظر کتاب میں مقالہ نگار کا طریقہ تحقیق یہ ہے کہ پہلے اقبال کے    اُن اشعار کو درج کیا گیا ہے جن میں متعلقہ نبی کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآنِ پاک کی متعلقہ آیات دی ہیں۔ اس کے بعد ہرنبی کی سوانح اور اس سوانح کو مدنظر رکھتے ہوئے شعرِاقبال کے پس منظر میں موجود تصور اخذ کیا گیا ہے۔ اس عمل میں اقبال کی نثری تحریریں بھی مصنفہ کے پیش نظر رہی ہیں۔ حسب ِ موقع مختلف ماہرین اقبال کی آرا بھی استعمال کی گئی ہیں۔

باب ۴ کا عنوان ہے: ’اقبال کی فکر پر انبیاے عظام کے اثرات‘۔ آخری باب ۵   ’حاصلِ بحث‘ میں تمام مباحث کو سمیٹ دیاگیا ہے۔ بقول مقالہ نگار: [اقبال نے] سلسلۂ نبوت کی نمایندہ ہستیوں (انبیاے کرام ؑ) کا ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ اِن انبیا کا سرچشمۂ علم، مصور و عرفان، اور منزل و سمت ایک ہے۔ نیز ان کا پیغامِ دعوت اور ان کے دستورالعمل کی روح بھی ایک ہے اور ان سب میں اصولی اور بنیادی اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ تمام انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات روحانی و معاشرتی تقاضوں سے بھرپور ہیں اور کارگاہِ حیات میں پیش آنے والی مشکلات کا حل ان کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت و پیروی میں پوشیدہ ہے۔ اصل ضرورت صدقِ دل سے ان پر عمل کی ہے (ص ۴۴۷)۔کہیں کہیں طوالت کا احساس ہوتا ہے، خصوصاً اوّلین دو ابواب میں یہ طرزِ تالیف اصولِ تحقیق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق محنت سے کی گئی ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


کتابیاتِ سرسیّد، ضیاء الدین لاہوری۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۲۸۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

مختلف علوم میں تحقیق، ترقی اور پیش رفت میں بہ حیثیت مجموعی اہلِ مشرق خاص طور پر  اُردو دنیا، مغرب کے مقابلے میں خاصی پیچھے ہے۔ من جملہ دیگر اسباب کے ایک بڑی وجہ ان آلاتِ تحقیق کی عدم موجودگی اور تحقیق کے مختلف اصولوں اور تکنیکی طریقوں سے عدم واقفیت ہے۔ کسی خاص موضوع پر تحقیق کے لیے کتابیات اور اشاریے بنیادی آلاتِ تحقیق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو میں متعدد موضوعاتی اشاریے اور کتابیاتیں تیار کی گئی ہیں۔ مشاہیرادب کے حوالے سے بھی ایسی کاوشیں ہوئی ہیں۔

زیرنظر کتاب اُردو کے ایک بڑے اہم اور نام وَر مصنف سرسید احمد خاں کی توضیحی کتابیات ہے۔ مرتب نے سال ہا سال تک لندن کے انڈیا آفس، برٹش میوزیم، رائل ایشاٹک سوسائٹی اور لندن یونی ورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS)کی لائبریریوں میں اپنے بقول: ’خاک چھانتے ہوئے‘ سرسیّد پر کئی تحقیقی اور تالیفی کام کیے جس کے نتیجے میں سرسیّد پر بہت سی کتابیں تیار ہوگئیں۔

زیرنظر کتاب میں سرسیّد کی تالیفات، ان کی مستقل تصنیفات، تراجم، ایسی کتابیں جو سرسیّد کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں، اسی طرح ان کے کتابچوں، مضامین اور دوسری زبانوں میں تصانیف سرسیّد کے ترجموں وغیرہ کی تفصیل اور بعض قدیم اشاعتوں کے سرورق شامل ہیں۔ آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ سرسیّد احمد خاں کی ہمہ نوع تحریروں سے متعلق یہ کتاب معلومات کا ایک ایسا خزینہ ہے جسے بڑے سلیقے سے اور استناد کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ مجلس ترقی ادب کی یہ پیش کش قابلِ تحسین ہے، کاش مجلس اسی طرح کی مزید کتابیات بھی ایسی محنت اور عمدگی کے ساتھ مرتب کرا کے شائع کرے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تجارت کی کتاب،تالیف و تخریج:حافظ عمران ایوب لاہوری،از تحقیق و افادات:علامہ ناصر الدین البانی۔ ناشر:فقہ الحدیث پبلی کیشنز،لاہور۔ ملنے کا پتا:نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اُردو بازار لاہور۔ صفحات:۱۸۲۔قیمت:۲۱۰روپے۔

تجارت اور لین دین ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ماضی بعید میں انسان اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کا محتاج نہ تھا ۔ ہر فرد اپنی محدود ضروریات خود پیدا کرتا اور استعمال میں لاتا۔جیسے جیسے انسانی تمدن نے ترقی کی، انسانی ضروریات بھی بڑھیں اور ان کا باہمی تبادلہ بھی ہونے لگا۔ ابتدائی طور پر انسان نے براہِ راست تبادلے کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن اس طریقے کی مشکلات نے انسان کو مجبور کیا کہ کوئی آلۂ مبادلہ ہو تاکہ لین دین کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے ۔ اسی ضرورت کے پیش نظر انسان نے پہلے سکّے ایجاد کیے اور بعد میں کاغذی نوٹ اور پلاسٹک منی کا دور آیا۔ لیکن اس پورے عمل کے دوران بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کی طرح اس پہلو سے متعلق بھی تفصیلی ہدایات عطا فرمائیں تا کہ اس نظام کی خرابیوں کو دور کیا جائے اور اسے ایک اخلاقی ضابطے کا پابند بنایاجائے۔اسی ضابطے سے متعلق احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب علامہ ناصرالدین البانی کے افادات کی روشنی میں اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں حلال و حرام ، تجارت کی فضیلت و احکام، فسخ بیع، تجارت کے ناجائز طریقوں ، سودی معاملات ، بیع سلم، شراکت و مضاربت، اجارہ ، مساقات ، مزارعت، قرض، گروی، دیوالیہ ، وقف، عاریت، امانت ، ضمانت ، اسلامی بنکاری ، ملٹی لیول مارکیٹنگ، بلیک مارکیٹنگ، ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی چوری، عورت کی ملازمت اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر جن سے انسان کو روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی آرا دی ہیں۔بعض آرا پر تحفظات ہوسکتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر یہ کتاب بہت سے موضوعات پر فقہی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی احادیث کی تخریج ہے۔ جس سے اس موضوع پر صحیح احادیث کے مطالعے کا موقع بھی ملتاہے۔ تاہم بعض مقامات پر مؤلف کی بے احتیاطی کھلتی ہے، مثلاً حنفی مسلک کو فرقہ لکھنا (ص ۲۱) اسی طرح ارسطو کو بیسویں صدی کا فلسفی قرار دینا (ص ۲۵) وغیرہ۔(میاں محمد اکرم)


ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مہرمحمد بخش نول، مہر عدنان فیصل پبلشرز، مکان نمبر۳۳۱-بی،    گلستان کالونی نمبر۲، فیصل آباد۔ فون:۸۶۶۰۲۸۴-۰۳۲۱ صفحات: ۵۵۴۔ قیمت: ۵۳۰ روپے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ان سائنس دانوں میں سب سے نمایاں ہے جنھوں نے اس سلطنت ِ خداداد کو ایٹمی اسلحے سے لیس کر کے دنیا میں باوقار مقام پر لاکھڑا کیا لیکن اس ’جرم‘ کی پاداش میں ان میں سے بیش تر سائنس دان معتوب ہوئے، چند ایک پابندِسلاسل بھی اور کچھ ’زیرنگرانی‘ رہے۔ آخر میں پرویز مشرف نے اس ’گناہ‘ کا سارا ملبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں پر ڈال کر، اُن سے   وہ ’سلوک‘ کیا جو دنیا جانتی ہے۔

زیرنظر کتاب ملّتِ اسلامیہ کے اس ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کر کے مرتب کی گئی ہے لیکن کتاب میں، اس مرکزی موضوع سے ہٹ کر، بہت سے ضمنی اور متعلقہ اور قدرے غیرمتعلقہ پہلوئوں اور موضوعات پر بھی مفید معلومات و تفاصیل شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً: قرآن میں ۷۵۶ آیات صرف سائنس سے متعلق ہیں:

  • ایٹم بم کی تکنیک، تاریخ اور تباہ کاریاں
  •  پہلا ایٹمی ملک امریکا ہے جسے عالمی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم چلانے کا ’اعزاز‘ حاصل ہے (اور یہ اس ’امن کے داعی‘ اور بظاہر ’دہشت گردی‘ کے خلاف کمربستہ ملک کا اصلی روپ ہے۔
  • روس، بھارت اور پاکستان کے ایٹم بم کی تاریخ lایران کا ایٹمی پروگرام  (بتایا گیا ہے کہ امریکا اور یورپ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کا عزم کرچکے ہیں، عزم تو ان کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے) lایٹم بم بنانے کے لیے لیبیا اور شمالی کوریا کی تیاری
  • اسرائیلی ایٹم کے پروگرام کی خفیہ کہانی اور
  • قازقستان میں یورینیم کی دنیا کی سب سے بڑی کان کا ذکر ہے (جس میں اسرائیل نے سرمایہ کاری کررکھی ہے) lعراق کے جوہری پلانٹ
  • مصر کے ایٹمی رجحان lایٹمی ٹکنالوجی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی دل چسپی وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر خان کے سوانحی حالات میں پاکستان کے ایٹمی سفر ، ایٹمی پروگرام کے آغاز اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بعد میں آنے والے سربراہانِ مملکت کے طرزِعمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح پرویزمشرف کے ساتھ نوازشریف کے اختلافات، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی جاسوسی کے لیے مسلم دشمن عناصر کے مختلف ہتھکنڈے ، پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے بھارت، امریکا اور اسرائیل کی سازشیں۔ کتاب میں بہت سے ایٹمی سائنس دانوں (محمد رفیع چودھری،  ثمرمبارک مند، سلطان بشیرالدین محمود وغیرہ) کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب خوب صورت تصاویر سے مزین ہے۔

کتاب میں مختلف لوگوں کے کالم اور مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں ’بُزدل قومی غدار‘ (عباس اطہر) ’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘ (قاضی حسین احمد) نسبتاً اہم مضامین ہیں۔ آخر میں مختلف زبانوں مثلاً پنجابی، اُردو، عربی، براہوی، بلوچی،سرائیکی، سندھی اور پشتو میں ڈاکٹر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اورکتابیات بھی شامل ہے۔ (قاسم محمود احمد)


تعارف کتب

  • چہرے کا پردہ ،واجب، مستحب یا بدعت؟ مؤلف: حافظ محمد زبیر۔ ناشر: مکتبہ رحمۃ للعالمینؐ، نذیرپارک، غازی روڈ، لاہور۔ فون: ۴۸۷۰۰۹۷-۰۳۰۱۔ صفحات: ۲۱۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[زیرنظر کتاب چہرے کے پردے کے واجب ہونے کے لیے قرآنی محکمات کی مقبول تفاسیر، احادیث نبویہ کی معروف توضیحات،     آثارِ صحابہ و تابعین، اہلِ سنت کے مذاہب ِ اربعہ کی آرا و قضایا،اور اُمت کے تواتر عملی کے استدلال پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے دوسرے نقطۂ نظر کے دلائل پیش کر کے ان کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔]
  • International Refugee Law, Islamic Shariah and Afghan Refugees in Pakistan،(عالمی قوانین براے مہاجرین، اسلامی شریعت اور پاکستان میں افغان مہاجرین)، مرتبین: خالد رحمن، فقیہا محمود۔ ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۰۵۱۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔[مذکورہ موضوع پر ایک سیمی نار کی گفتگو کو پیش کیا گیا ہے۔ اسلامی شریعت کے حوالے سے محمدمنیر کا مضمون شامل ہے، جب کہ اس سیمی نار کے نمایاں شرکا میں پروفیسرخورشید احمد، جنرل اسد درانی، ایس ایم ظفر اور رستم شاہ درانی وغیرہ شامل ہیں۔]

تبدیلی کا طریقہ

ملک کی اور خود حکومت کی اپنی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ یہاں ہر خیال کے لوگوں کے لیے    راے عام سے اپیل کرنے کا موقع کھلا رہے اور صرف راے عام کی تبدیلی نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے کافی ہو۔ بخلاف اس کے ایسے حالات پیدا کر دینا جن میں ایک مدرسۂ فکر غالب آکر دوسرے مدارسِ فکر کا گلا گھونٹے اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے راے عام کو تیار کرنے کے بجاے دوسرے طریقوں کا استعمال ناگزیر ہوجائے، کبھی کسی ملک کے حق میں بھی مفید ثابت نہیں ہوا ہے--- ہم نے اب تک جو کام کیا ہے اور آیندہ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں وہ سراسر آئینی ہے، پُرامن ہے اور علانیہ ہے۔ جو اصلاح ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے ہم نے اِس کے سوا کوئی اور طریقہ نہ اختیار کیا ہے نہ آیندہ کریں گے کہ اپنے خیالات عوام الناس کے سامنے پیش کریں اور جو لوگ ہمارے ہم خیال بن جائیں، اُن کو منظم کریں۔ ملک کے نظامِ زندگی میں  تغیر پیدا کرنے کی صحیح صورت ہمارے نزدیک صرف یہی ہے --- جو لوگ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں، خواہ  وہ برسرِاقتدار ہوں یا نہ ہوں، ان کے لیے سیدھا اور صاف طریق کار یہ ہے کہ وہ دلائل سے ہمارا مقابلہ کریں اور جس طرح راے عام سے ہم اپیل کر رہے ہیں وہ بھی کریں۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں اور انھیں بھی اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ باشندگان ملک کی اکثریت اس کھلے مقابلے میں جس مدرسۂ فکر کو پسند کرے وہ زمامِ کار پر قابض ہو، اوردوسرے مدارسِ فکر عوام کی پسندیدگی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے رہیں۔

اس سیدھے طریقے کو چھوڑ کر جو لوگ دوسروں کا راستہ روکنے کے لیے جبروظلم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور حکومت کے وسائل و ذرائع اور اختیارات اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ راے عام پر ان کا دائمی قبضہ قائم رہے اور دوسروں کو اسے ہموار کرنے کا موقع مل ہی نہ سکے، وہ نادان اور ناعاقبت اندیش ہیں۔ ان کا یہ طریقہ نہ صرف حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، بلکہ دیانت و امانت کے خلاف بھی ہے، کیونکہ پبلک نے حکومت کے اختیارات اس کام کے لیے ان کے حوالے نہیں کیے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو یہ طریقہ اخلاقی بزدلی اور ذہنی کمزوری کی کھلی علامت ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے دلائل اور عملی کام کے زور سے راے عام کو جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے اوچھے ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں۔(’اشارات‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۴، شوال ۱۳۶۹ھ، ستمبر ۱۹۵۰ئ، ص۷)