اپریل ۲۰۰۲

فہرست مضامین

اتحاد اُمت اور فرقہ پرستی

مولانا گوہر رحمن | اپریل ۲۰۰۲ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

کسی بھی نظریے کے ماننے والے جب فرقوں اور گروہوں میں بٹ جائیں اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق اوراخوت و محبت کی فضا باقی نہ رہے بلکہ وہ افتراق و انتشار اور باہمی حسد اور بغض میں مبتلا ہوجائیں تووہ نظریہ اپنی صداقت و حقانیت کے باوجود کمزور دکھائی دیتا ہے۔ وہ کتابوں کی سطور اور ماننے والوںکے صدور سے نکل کر عملی دنیا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس کی برکات سے لوگ محروم رہ جاتے ہیں‘ اس لیے کہ اچھی سے اچھی چیز بھی جب تک عملاً سامنے دکھائی نہ دے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ روٹی اورپانی کے ذہنی‘ کتابی اور لفظی وجود سے بھوک اور پیاس سے نجات نہیں مل سکتی اور عدل و انصاف کے ذہنی منصوبوں‘ کتابی تحریروں اور تقریروںسے ظلم سے نجات نہیں مل سکتی۔ یہی حال اسلامی نظام اور اسلامی شریعت کا ہے کہ اس کے ماننے والے اور چاہنے والے جب فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیںاور ایک دوسرے کو شکست دینے اور نیچا دکھانے میں مصروف ہیں تو اسلامی نظام اور اسلامی شریعت اپنی صداقت و حقانیت کے باوجود مسلمانوں کے اپنے ممالک میں بھی مغلوب ہے‘ غالب نہیں ہے۔ ذہنوں‘ کتابوں اور تحریروں میں تو موجود ہے مگر عملاً نافذ نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اندرونی و بیرونی طاغوتی قوتیں اسلامی نظام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں لیکن اُمت ِمسلمہ کی غفلت اور فرقہ واریت بھی کچھ کم رکاوٹ نہیں ہے‘ بلکہ اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو اصل رکاوٹ یہی گروہ بندی اور فرقہ واریت ہے۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر کھڑے ہو جائیں تو طاغوتی قوتوں کو بھی سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اتحاد اُمت اور بیداری ملت کی تحریک چلانا ضروری ہے۔

اتحاد اُمت کی بنیادیں

اُمت مسلمہ اور ملت اسلامیہ فرقوں اور گروہوں کے مصنوعی اور سطحی اتحاد کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں جسد واحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار(بنیان مرصوص) کی طرح اُمت واحدہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ’’وحدت اُمت‘‘ اور ’’اتحاد ملت‘‘ کی بنیاد کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس دین کی بنیاد پر یہ اُمت اور یہ ملت وجود میں آئی ہے وہی دین ملت کے اتحاد کی بنیاد ہے اور وہ ہے دین اسلام۔ دین اسلام کے اصول و فروع دونوں کا سرچشمہ اور مآخذ قرآن و سنت ہے۔ اس لیے اتحاد کی بنیاد قرآن و سنت ہی بن سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی اور چیز اتحاد کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

تفرق اور گروہ بندی

قرآن و سنت کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ تفرق‘ گروہ بندی‘ افتراق اور اختلاف ممنوع اور ملی اتحاد کے منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تفرق سے کیا مراد ہے؟ کیا ہر قسم کا اختلاف تفرق ہے؟ کیا ہر قسم کا اختلاف مذموم اور ممنوع ہے یا اس کی کوئی قسم قابل تحسین اورمباح بھی ہے؟

اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیں تفرق کی مذمت اور ممانعت کے بارے میں آیات کی تفسیر و تاویل کی طرف رجوع کرنا پڑے گا تاکہ ان آیات کے سیاق و سباق‘ شان نزول اور احادیث و آثار کی روشنی میں تفرق اور اختلاف مذموم کی اصل حقیقت واضح ہو جائے۔

عربی لغت میں ہر قسم کے اختلاف کو تفرق نہیں کہا جاتا بلکہ اس اختلاف کو تفرق کہا جاتا ہے جو اُمت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والا ‘ اُمت کو الگ الگ فرقوں اور ٹولیوں میں بانٹنے والا اوران کے درمیان اخوت و الفت کے تعلقات کو عداوت و منافرت میں تبدیل کرنے والاہو۔ تفرق کی مذمت اور ممانعت میں قرآن کی چھ آیات آئی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی یہ ہے:

اور تھام لو اللہ کی رسّی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو اللہ کی اس مہربانی کو جو تم پر کی گئی تھی‘ جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پس الفت ڈال دی اللہ نے تمھارے دلوں میں تو بن گئے تم اللہ کی اس مہربانی سے بھائی بھائی۔ (اٰل عمران ۳:۱۰۳)

اس آیت میں پہلے تو حکم دیا گیا ہے کہ حبل اللہ یعنی قرآن و سنت پر مجتمع اور متحد ہو جائو ۔اس لیے کہ اُمت کی وحدت اور ملت کے اتحاد کی بنیاد یہی ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ آپس میںپھوٹ نہ ڈالو‘ فرقوں اور گروہوں میں اس طرح نہ بٹو کہ ملی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے اور تم اتحاد ملت کی بنیادوںپر متحد و مجتمع ہونے کے بجائے متفرق اور منتشرہوجائو۔ اس کے بعد دور جاہلیت کی حالت یاد دلائی گئی ہے کہ تمھارے درمیان دشمنیاں اور جتھہ بندیاں تھیں اور قبائلی و گروہی عداوتیں اور عصبیتیں تھیں جو اسلام کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اب اسلام لانے اوردین واحد پر متحد ہو جانے کے بعد اگر تم نے اتحاد ملت کی بنیادوں کو نظرانداز کر کے باہمی تفرق کی روش دوبارہ اختیار کی اور وہی پرانی قبائلی جتھہ بندیاں اور دشمنیاں شروع کردیں تو اخوت و الفت کی نعمت سے محروم ہو جائو گے۔ اس آیت کے شان نزول اور سیاق و سباق اور کلمات کے معانی تینوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ تفرق سے مراد وہ جتھہ بندی اور فرقہ بندی ہے جو حسد و عناد اور گروہی عصبیت پر مبنی ہو۔ امام ابن جریر (م: ۳۱۰ھ) نے بھی آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔

اور الگ نہ رہو اللہ کے دین سے اور اس کے عہد سے جو اس نے اپنی کتاب میں تم سے لیا ہے کہ آپس میں الفت و محبت کارویہ اختیار کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت پر (حبل اللہ) متحد و مجتمع ہوجائو۔ (تفسیر ابن جریر‘ ج۴‘ ص ۳۲)

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بھی ایک دوسرے سے حسد کرنے‘ ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے سے روکا گیا ہے اور اللہ کے ایسے بندے بن جانے کا حکم دیا گیا ہے جو آپس میں بھائی بھائی ہوں۔

تفرق مذموم کی تین قسمیں

قاضی ابوبکر ابن العربی (م ۵۴۳ھ) نے تفرق ممنوع اور اختلاف ممنوع کی تین قسمیں بیان کی ہیں جو ملی اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

۱-  ایک قسم وہ اختلاف اور تفرق ہے جو حسد و عناد اور قبائلی و علاقائی یا گروہی عصبیت پر مبنی ہو‘ کسی علمی تحقیق اور دلیل یا مذہبی عقیدے پرمبنی نہ ہو۔ اس کی ممانعت سورہ آل عمران میں ولا تفرقوا کے الفاظ میں اور اسی مفہوم کی دوسری آیات و احادیث میں آئی ہے ۔ یہی زیادہ خطرناک تفرق ہے۔

۲-  دوسری قسم اسلام کے بنیادی عقائد سے جان بوجھ کر انکار کرنا‘ اختلاف کرنا اور پھوٹ ڈالنا ہے۔ یہ اختلاف وانکار چونکہ لاعلمی کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے اس لیے اس کی اصل وجہ بھی حسد و عناد اور خودسری و سرکشی ہوتی ہے۔ اس نوع کے تفرق کا ذکر سورہ شوریٰ (آیت: ۱۳‘۱۴) میں ہوا ہے۔ یہاں انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو‘ یعنی سب مل کر اس پر ایمان لائو‘ اس پر عمل کرو‘ اس کو قائم کرو۔ پھر اختلاف و انکار کی اصل وجہ پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:  وَمَا تَفَرَّقُوْا اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا م بَیْنَھُمْ ط (۴۲:۱۴) ’’اور تفرقہ نہیں ڈالا انھوں نے مگر ان کے پاس علم آجانے کے بعد ڈالا ہے آپس کی ضد کی وجہ سے‘‘، یعنی توحید پر مبنی دین اسلام سے اختلاف کرنے والوں کا یہ اختلاف غلط فہمی اور لاعلمی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس اختلاف و انکار کا باعث صرف نفسانیت ‘ عداوت اور بغاوت ہے۔ اس قسم کے تفرق کا ذکر سورہ آل عمران میں اس طرح ہوا ہے کہ:  وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (۳:۱۰۵) ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے پھوٹ ڈالی اور اختلاف کیا باوجود اس کے کہ ان کے پاس کھلی دلیلیں آگئی تھیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔

ابن جریر نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اہل کتاب کی جانب اشارہ ہے جنھوں نے واضح دلیلیں آجانے اور حق کو جاننے کے باوجود اللہ کے دین اور ا س کے امر ونہی کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ظاہر ہے کہ اس قسم کا اختلاف و تفرق اُمت مسلمہ کے افراد یا جماعتوں کے درمیان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ دین سے انکار تو کوئی مومن مسلمان نہیں کر سکتا۔

۳-  تیسری قسم تفرق کی یہ ہے کہ فروعی اور اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے براء ت اور قطع تعلق کیا جائے اور ایک دوسرے کی تفسیق کی جائے اور گمراہ قرار دیا جائے۔ یہ بھی ممنوع ہے۔ آرا کا یہ اختلاف قرآن و سنت کی تعبیر میں ہے اور تعبیر و اجتہاد کا اختلاف اُمت کی وحدت کے منافی نہیں ہے لیکن جو شخص اور گروہ اس نوع کے اجتہاد اور تعبیر کے اختلاف کو فرقہ واریت اور گروہ بندی کا ذریعہ بناتا ہے اور مخالف رائے رکھنے والوں کو گمراہ قرار دیتا ہے اور ان کی تفسیق اور تذلیل و تحقیر کرتا ہے وہ یہودیوں کے طریقے پر چلتا ہے اور قابل مذمت ہے۔ (احکام القرآن لابن عربی‘ اٰل عمران‘ آیت ۱۰۳)

اجتہادی اختلاف اتحاد اُمت کے منافی نہیں

اجتہاد نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے اور قیاس و اجتہاد میں اختلافِ آرا فطری ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ تمام مجتہدین ہر معاملے میں ہمیشہ متفق ہوں بلکہ ان کے درمیان کبھی اتفاق رائے ہوتا ہے اور کبھی اختلاف رائے۔ اگر اختلاف مطلقاً مذموم و ممنوع ہوتا تو اسلام میں اجتہاد کی اجازت نہ ہوتی لیکن نہ صرف یہ کہ اجازت دی گئی ہے بلکہ اسے موجب اجر بھی قرار دیا گیا ہے۔

حضرت عمروؓ بن عاص سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ قاضی جب فیصلہ کرنے کے لیے اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک پہنچ جائے تو اس کو دگنا اجر ملے گا‘ اور جب فیصلہ کرتے وقت اجتہاد میں غلطی کرے تو پھر بھی اس کو ایک اجر ملے گا۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الاعتصام‘ باب اجر الحاکم اذا اجتھد)

یہ حدیث اگرچہ عدالتوں کے حکام اور قاضیوں کے بارے میں آئی ہے لیکن دوسرے فقہا اور مجتہدین کے اجتہاد کا حکم بھی یہی ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں صحابہ کرامؓ کو اخوان اور رحما کہا گیا ہے‘ یعنی بھائی بھائی اور آپس میں رحمت و شفقت کرنے والے‘ حالانکہ ان کے درمیان فقہی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف آرا موجود تھا۔ سنن ترمذی پڑھنے اور پڑھانے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اس کے مختلف ابواب میں امام ترمذیؒ صحابہ کرامؓ کا کبھی اتفاق رائے نقل کرتے ہیں اور کبھی اختلاف رائے نقل کرتے ہیں۔ صحابہ کا اختلاف کبھی نصوص کی تعبیر و تشریح میں ہوتا تھا اور کبھی ان کے اجتہاد پر مبنی ہوتا تھا۔ مشہور محدث ابن عبدالبر (م: ۴۶۳ھ) نے ۲۲ ایسے مسائل لکھے ہیں جن میں صحابہ نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا اور پھر کہا ہے کہ تمام اختلافی مسائل کا احاطہ کتاب کے ایک باب میں نہیں کیا جا سکتا۔ (جامع بیان العلم‘ ج ۲‘ ص ۸۵-۸۷)

اگر نصوص کی تعبیر و تشریح میں اختلاف یا قیاس و اجتہاد پر مبنی اختلاف بھی ملّی اتحادکے منافی ہوتا اور افتراق و عداوت کاموجب ہوتا تو پھر صحابہ کرامؓ اخوان اور رحماء بینھم کیسے ہوسکتے تھے؟ فروعی مسائل میں تعبیر و تشریح اور قیاس و اجتہاد کا اختلاف جب فرقہ وارانہ عصبیت کی شکل اختیار کر لے تو پھر وہ عداوت و تفرق کا سبب بن جاتا ہے اور اُمت کی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اختلاف رائے کی افادیت

اجتہادی اور علمی اختلاف نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مفید بھی ہے۔ اس سے مفید اور صحیح رائے معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ذہنی و فکری نشوونما ہوتی ہے اور عوام کے لیے یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کے ساتھ جس رائے کو مفید تر اور اپنے حالات کے ساتھ زیادہ مناسب سمجھیں اسے اختیار کرلیں بشرطیکہ وہ قطعی نصوص اور اجماع کے خلاف نہ ہو۔ پانچویں خلیفہ راشد عمرؒ بن عبدالعزیز (م :۱۰۱ھ) نے فرمایا ہے کہ: ’’مجھے تو یہ پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ اختلاف نہ کرتے اس لیے کہ اگر ایک ہی رائے ہوتی تو لوگ تنگی میں ہوتے۔ صحابہ مسلمانوں کے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کی رائے پر عمل کرے تو اس کے لیے آسانی اور فراخی ہوگی‘‘(جامع بیان العلم‘ ابن عبدالبر‘ ج ۲‘ ص ۸۰)۔ مدینہ منورہ کے مشہور فقہا سبعہ میں سے ایک فقیہ اور تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر (م: ۱۰۶ھ) (خلیفہ اول کے پوتے) فرماتے ہیں: ’’اللہ نے اصحاب رسول کے اختلاف آرا سے لوگوں کے لیے آسانی اور فراخی فراہم کی ہے۔ ان کی آرا میں سے جس پر بھی تم عمل کرو گے‘ تمھارے دل میں کوئی شبہہ نہیں رہے گا‘‘۔ (ایضاً)

رجا بن جمیل نقل کرتے ہیں: ایک روز عمر بن عبدلعزیز اور قاسم بن محمد دونوں آپس میں علمی مذاکرہ کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کسی صحابی کاقول نقل کرتے جو قاسم کے نقل کردہ قول کے مخالف ہوتا۔ اس پر قاسم کو پریشانی ہوتی کہ صحابہ میں یہ اختلاف رائے کیوں تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے تو سرخ اُونٹ ملنے (قیمتی خزانہ ملنے) کے مقابلے میں صحابہ کرام کے اختلاف پر زیادہ خوشی ہوتی ہے‘‘۔ (ایضاً)

اس ساری بحث سے میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ تفرق و گروہ بندی کی مذمت اور ممانعت کے بارے میں وارد شدہ آیات و احادیث سے اختلاف رائے کی کلی ممانعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ فروعی مسائل میں اجتہادی آرا کا اختلاف اُمت کی وحدت اور ملّت کے اتحاد کے منافی نہیں ہے۔ وحدت و اتحاد کو جو بھی نقصان پہنچے گا ایک دوسرے کو گمراہ اور فاسق قرار دینے سے‘ تذلیل و تحقیر سے اور مسجدیں الگ کر کے ایک دوسرے کی اقتدا میں نمازیں نہ پڑھنے سے پہنچے گا جو یہودیوں کا طریقہ ہے۔ اُمت مسلمہ کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہودیوں کی عادات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

مشہور محدث امام بغوی (م: ۵۱۶ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’علما کے درمیان فروعی اختلاف اختلاف رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں پر دین میں کوئی تنگی باقی نہ رہے۔ اس قسم کا اختلاف ایک دوسرے سے الگ ہونے اور قطع تعلق کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ فروعی اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھا حالانکہ وہ آپس میں بھائی بھائی تھے اور ان کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے‘‘۔ (شرح السنۃ‘ ج ۱‘ ص ۲۲۹‘ طبع بیروت ۱۹۷۱ء)

قاضی ابن العربی (م: ۵۴۳ھ) لکھتے ہیں: ’’اختلافِ ممنوع سے مراد وہ اختلاف ہے جو فتنے‘ تعصب اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشارکا موجب ہو۔ جو اختلاف فروعی مسائل میں ہو وہ شریعت کی خوبیوں میں شامل ہے‘‘۔ (احکام القرآن ‘ ابن عربی‘ ج ۱‘ ص ۳۸۲)

اختلافی مسئلہ منکر میں شامل نہیں

منکر کے معنی ہیں ناپسندیدہ چیز۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو چیز کسی مجتہد اور فقیہ کی رائے میں ناپسندیدہ اور دوسرے مجتہد اور فقیہ کی رائے میں وہ چیز بری اور ناپسندیدہ نہ ہو بلکہ مباح ہو تو وہ بھی اس منکر میں شامل ہے جس سے روکنا اور اس کے ازالے کے لیے جدوجہد کرنا اہل ایمان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اگر اختلافی اور اجتہادی مسئلہ منکر میں شامل ہوتا تو مجتہد کو اللہ کے دربار میں اجر و ثواب نہ ملتا۔ ازروے حدیث مجتہد اگر نفس الامر میں غلطی پر بھی ہو پھر بھی جب تک اسے اپنی غلطی معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک اسے اپنی تحقیق پر عمل کرنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر اجر ملے گا۔

ظاہر ہے کہ جس چیز پر اجر دینے کا وعدہ کیا گیا ہو وہ منکر‘ یعنی گناہ کیسے قرار دی جا سکتی ہے؟ منکر کی بنیاد یہ ہے کہ جس چیز سے اللہ و رسولؐ نے صریح الفاظ میں منع کیا ہو‘ یا اس کے ممنوع ہونے پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ثابت ہو چکا ہو‘ یا بعد میں کسی وقت اُمت کے مجتہدین کا اس کے عدم جواز پر اتفاق ہو گیا ہو‘ جس کو اہل ایمان بری چیز سمجھتے ہوں۔ یہ اس منکر میں شامل ہے جس کے ازالے کی کوشش کرنا اہل ایمان کا فرض ہے۔

ابن جریر طبری (م :۳۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’ہر وہ چیز منکر اور برائی ہے جس کو اللہ ناپسند کرتا ہو اور جس کو اہل ایمان قبیح سمجھتے ہوں۔ اسی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کو منکر کہا جاتا ہے کیونکہ اہل ایمان اس کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے ارتکاب کو بڑا جرم سمجھتے ہیں‘‘۔ (تفسیر ابن جریر‘اٰل عمران ۳:۱۱۰)

امام جصاص (م: ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’معروف سے مراد اللہ کا حکم ہے… اور منکر وہ ہے جس سے اللہ نے منع کیا ہو‘‘۔ (احکام القرآن‘ آل عمران۳:۱۱۰)

اجتہادی مسائل میں ہر ایک کو اپنی رائے پر یا کسی مجتہد کی رائے پر عمل کرنے کی آزادی ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے مجتہد کو یا اس کے متبع کو اپنی رائے پر عمل کرنے سے روکے اور اس کے خلاف محاذ آرائی‘ پوسٹربازی اور جلسہ بازی شروع کر دے۔ تحریر و تقریر یا علمی مذاکرے کے ذریعے اپنی رائے کے راجح ہونے اور دوسرے کی رائے کے مرجوح ہونے کے دلائل بیان کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کام بھی بحث و تحقیق کے مراکز‘ علمی مذاکروںاور بحث و مباحثہ کی مجالس میں ہونا چاہیے۔ عوامی جلسوں میں ایسی بحثیں چھیڑنا مناسب اور مفید نہیں ہے۔

نہی عن المنکر کا اطلاق

اجتہادی اور اختلافی مسائل میں نہی عن المنکر کا حکم جاری نہیں ہو سکتا۔

امام سفیان ثوری نے فرمایا ہے کہ: ’’جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو ایسا کام کر رہا ہو جس کے جواز میں اختلاف ہو اور تیری رائے اس کے خلاف ہو تو تم اس کو اس کام سے نہ روکو‘‘۔ (حلیۃ الاولیا‘ ابونعیم اصفہانی‘ ج ۲‘ ص ۳۶۸‘ طبع بیروت ۱۹۸۷ء)

امام غزالی نے نہی عن المنکر اور احتساب کے لیے ایک شرط اس طرح بیان کی ہے کہ: ’’اس کا منکر اور برائی ہونا اجتہاد کے بغیر معلوم و معروف ہو۔ جو چیز اجتہادی اور اختلافی ہو اس پر احتساب نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (احیا العلوم‘ ج ۲‘ ص ۳۵۳‘ طبع بیروت‘ ۱۹۸۶ء)

امام نووی فرماتے ہیں کہ : ’’علما اس کام سے منع کرتے ہیں جس کے ناجائز ہونے پر ائمہ مجتہدین کا اجماع ہو۔ جو اختلافی ہو اس سے روکنا جائز نہیں ہے۔ اجتہادی مسائل میں لوگوں کو کسی ایک مجتہد کی رائے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ (نووی بر مسلم‘ ج ۲‘ ص ۲۳‘ طبع قاہرہ ۱۹۸۷ء)

ابوجعفر منصور نے دو مرتبہ اور اس کے بعد ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے اجازت طلب کی کہ ہم آپ کی کتاب موطا کو پورے ملک میں واجب العمل قانون کے طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن امام مالکؒ نے فرمایا کہ لوگوں کو اپنی آرا پر عمل کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اس لیے کہ میری تحقیق پر سب کا متفق ہو جانا مشکل ہے‘‘۔ (الانتقا لابن عبدالبر‘ ص ۴۱ و اعلام الموقعین‘ ج ۲‘ ص ۳۶۲)

اتحاد اُمت اور علماے دین کا اتحاد

ملت کا اتحاد علماے دین کے اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ علماے دین ملت کے دینی قائدین ہیں۔ جب قائدین میں افتراق و انتشار ہو اور وہ فرقوں اور گروپوں میں بٹ چکے ہوں اور انھوں نے ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کے لیے فرقہ بندی ‘ گروہ بندی اور صف بندی کر لی ہو اور اپنی علمی قوت اور تحریر و تقریر کی صلاحیتیں اتحاد اُمت کی بجائے افتراق اُمت کے لیے‘ اور غلبہ اسلام کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور گروپوں کو غلبہ اور برتری دلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو قائدین کا یہ افتراق و انتشار ان کے متبعین میں اور اماموں کا یہ تفرق و تحزب ان کے مقتدیوں میں بھی پھیلے گا اور ملّی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا جیسا کہ آج کل بکھرا پڑا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقوں کی بنیاد پر جماعتوں کی تنظیم اور مسجدوں و مدرسوں کی تعمیر کی روش اخلاص کے ساتھ ترک کر دی جائے۔ جب فرقوں اور اجتہادی مسلکوں کی بنیاد پر نہ مسجدیں بنیں گی‘ نہ مدرسے بنیں گے‘ نہ تنظیمیں بنیں گی اور نہ جلسے اور کانفرنسیں ہوں گی بلکہ ساری سرگرمیاں قرآن و سنت اور دین اسلام کے نام پر ہوں گی تو اس کے نتیجے میں اخوت اسلامی کی روح افزا اور ایمان افروز فضا بنے گی اور ملّی اتحاد کا منظر برسرِزمین آنکھوں سے نظر آجائے گا۔