اپریل ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اپریل ۲۰۰۲ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سید عرفان منور گیلانی ‘ ڈنمارک

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا مضمون: ’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام غلبہ چاہتا ہے لیکن بھول جاتے ہیں کہ غلبہ حاصل کرنے کے لیے قوت درکار ہوتی ہے۔ اُمت مسلمہ میں اس امر پر اتفاق رائے ہے کہ قوت کے اصل سرچشمے ایمان اور عمل صالح ہیں‘ مگر عمل صالح کے متعلق تصورات بہت مسخ ہو چکے ہیں۔ بدر کے ۳۱۳ یقینا ایمانی قوت سے ہی لشکر قریش پر غالب آئے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو دعا کی تھی اس میں یہ پہلو غالب نظر آتا ہے کہ تیاری کی پوری کوشش کی گئی ہے مگر اس سے زیادہ بن نہیں پایا۔ ہمارا عملی رویہ اس کے برعکس ہے۔ محض ایمان لے آنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ایمان کے تقاضے نہ پورے کیے جائیں تو اُس کا دعویٰ بے معنی ہے۔کیا قرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا تذکرہ جان کی بازی لگا دینے کے ساتھ ساتھ نہیں کرتا؟ تکوین ثروت اگر مطلوب نہ ہوتی تو اسلام ’’خرچ‘‘ پر اتنا زور نہ دیتا۔ نجات اللہ صدیقی صاحب کی مساعی قابل قدر بھی ہیں اورقابل غور بھی۔

صابر نظامی ‘  قصور

’’مسلمان اورمعاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) سے اسلام میں معاشی عوامل کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ درحقیقت آج‘ جب کہ اشتراکی نظام ناکام ہو چکا ہے اور امریکہ اور برطانیہ حکومتی زور پر سرمایہ داری نظام کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں --- اسلام کے معاشی نظام کو بھرپور انداز میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔  اس کے لیے موثر ادارے قائم کیے جائیں‘ مساجد‘ مدارس‘ تعلیمی اداروں‘ تحریر و تقریر‘ غرض ہرسطح پر موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انتخابی پروگرام اور جلسے جلوسوں میں بھی معاشی نعروں کو رواج دینا چاہیے۔

حافظ محمد صدیق ساقی ‘ کوٹلی آزاد کشمیر

’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) ایک چشم کشا تحریر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو قوم معاشی طور پر مضبوط نہ ہو اُس کی عزت و ناموس کا تحفظ ایٹم بم بھی نہیں کر سکتا!

خلیل الرحمٰن ‘ لالہ موسٰی

’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) سے بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوئیں۔ اُن کے مقالے میں ایک لفظ ’’تکوین ثروت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا اگر آسان مترادف یا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوتا تو فہم میں آسانی ہوتی۔ اگر بات آسان پیرایے میں کی جائے تو زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

گل زادہ ‘ لاہور

’’ابلاغ عامہ کے لیے تصویر کا استعمال‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے اس مسئلے پر مولانا مودودیؒ کے نقطۂ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے علماے کرام کی طرف سے ویڈیو پروگراموں کی حمایت اور جواز کو بنیاد بنا کر ہر قسم کی تصویر کو جائز قرار دیا ہے۔ میری رائے میں ویڈیو کے مثبت پروگرامات جن میں اسلام کے احکامِ ستر کا خیال رکھا گیا ہو‘ اُن کی تیاری اور اشاعت میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے ہر قسم کی تصویر کا جواز نکالنا اور قاضی حسین احمد صاحب کی تصویر کو بہتر ابلاغ کا ذریعہ قرار دینا افسوس ناک ہے۔

مولانا مودودیؒ  تفہیم القرآن (جلد چہارم‘ ص ۱۸۰ تا ۱۸۹) میں اس مسئلے کے بارے میں اسلام کے احکام کو تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح ارشادات‘ صحابۂ کرامؓ کے عمل اور فقہاے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رُو سے ایک مسلّم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی موشگافیاں بدل نہیں سکتیں‘‘۔ (ص ۱۸۷)

طلحہ داؤد ‘ لاہور

خلیل الرحمن چشتی نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر والی حدیث کو مختلف حوالوں سے ایک باطل حدیث قرار دیا ہے (مدیر کے نام‘ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ واضح رہے کہ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں جہاد کی تشریح کرتے ہوئے اسے مستند حدیث کے طور پر نقل کیا ہے۔ (ج ۳‘ ص ۲۵۴)

عبداللّٰہ گوہر‘ کراچی

نیوز ویک(۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۲۸) کے مطابق: ’’بورس بریزو وسکی (Boris Brezovsky) کسی وقت روس کاسب سے زیادہ طاقت ور بہت بڑا بزنس مین اور بادشاہ گر تھا‘ اب جلاوطن ہو کر لندن میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے ایک ٹی وی دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۹ء میں ماسکو اور دوسرے شہروں میں ہونے والے بم دھماکے جس میں ۳۰۰ افراد ہلاک ہوئے تھے‘ روس کی خفیہ پولیس ایف ایس بی (FSB) نے اسٹیج کیے تھے۔ روس کے صدر پوٹن نے ان کا الزام چیچن دہشت گردوں پر رکھ کر انھیں کچلنے کے لیے سفاک فوجی مہم شروع کی۔ اگر پوٹن نے اپنے کریک ڈائون کے لیے جواز فراہم کرنے کی خاطر معصوم روسیوں کو ہلاک کروا دیا تو کیا یہ غداری نہیں؟‘‘۔ امریکہ کی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی پالیسیاںدیکھ کر بجا طور پر خیال ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملے بھی کسی جامع پلان کا حصہ تھے اور خود manageکیے گئے۔ دیکھیں اس کی حقیقت کب کون بتاتا ہے!