اپریل ۲۰۱۷

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| اپریل ۲۰۱۷ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

دعوت کی منفرد آواز

ابتداے کار سے ۱۹۳۷ء تک کا زمانہ وہ تھا، جس میں ایک شخص کے محدود ذاتی ذرائع کے سوا کوئی ذریعہ کام کرنے کے لیے موجود نہ تھا، اور مواقع بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ سخت پراگندا خیالی کے ماحول میں ایک نہایت قلیل تعداد ایسے لوگوں کی فراہم ہوسکتی تھی، جو اسلام کے متعلق وہ باتیں پڑھنے اور سننے کے لیے تیار ہوں، جو وہ شخص پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس حالت میں کرنے کا کام یہی تھا، اور اس کے سوا کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ حکمت کے ساتھ مسلسل تبلیغ سے کچھ لوگوں کو اس تخیل کا اس حد تک معتقد بنادیا جائے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔

اس دور کے کام کو اگر آپ سمجھنا چاہیں تو خصوصیت کے ساتھ الجہاد فی الاسلام کا تیسرا باب (مصلحانہ جنگ)، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تنقیحات کو بغور پڑھیں۔

ان میں سے پہلی کتاب میں وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان دراصل نام ہی اُس بین الاقوامی گروہ کا ہے، جسے دنیا میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔

دوسری کتاب میں اسلامی نظامِ زندگی کا جامع تصور، اُس کی فکری بنیادوں اور منطقی تقاضوں کے ساتھ پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب ہے، جو حیاتِ دنیا کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی اور تمام دنیا پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تیسری کتاب میں اوّل سے آخر تک جو بات ذہن نشین کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کافرانہ و فاسقانہ نظامِ زندگی کے ہمہ گیر فکری اور عملی تسلط کے تحت محض عقائد اور عبادات کے بل پر اسلامی نظامِ زندگی پنپ نہیں سکتا، بلکہ خود عقائد اور عبادات کا بھی اپنی جگہ قائم رہ جانا ممکن نہیں ہے۔ اس ہمہ گیر تسلط کو مٹا کر جب تک اسلام کا ہمہ گیر تسلط قائم کرنے کے لیے کام نہ کیا جائے گا، کسی مذہبی حرکت و عمل سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکے گا___ یہ وہ بنیادی کام تھا جس سے بگاڑ کے اصل اسباب مشخص ہوکر نگاہوں کے سامنے آئے اور ذہنوں میں ایک ایسی تحریک کے لیے آمادگی پیدا ہوئی، جس کا مقصد نظامِ زندگی میں اساسی تغیر پیدا کرنا ہو۔ (’تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘،ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۱،  رجب ۱۳۷۶ھ / اپریل ۱۹۵۷ء، ص۱۱-۱۲)