اگست ۲۰۱۴

فہرست مضامین

کتاب نما

| اگست ۲۰۱۴ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

عصری عائلی مسائل اور اسلامی تعلیمات، ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین۔ناشر: شعبہ علومِ اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔ صفحات: ۴۹۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

مغربی لادینیت اور اس کے زیراثر چلنے والے عالمی نظامِ سرمایہ داری نے اپنی بعض خباثتوں کو غازہ استعمال کر کے دنیا کی بہت سی اقوام کے لیے بہت پُرکشش بنا دیا ہے۔ ان میں سے ایک ’نیوکلیر‘ تصورِ خاندان ہے جس میں کچھ عرصہ قبل تک شوہر اور بیوی اور ان کے حد سے حد دوبچوں کو خاندان کا نام دیا جاتا اور ان کے علاوہ دیگر افراد قانونی طور پر خاندان تصور نہیں کیے جاتے تھے۔ چنانچہ شوہر کے ماں باپ، بھائی بہن ہوں یا بیوی کے ماںباپ، ان کی حیثیت اضافی سمجھی جاتی تھی۔ اب اس میں مزید ’ترقی‘ یوں ہوئی ہے کہ خاندان کی تعریف میں شوہر اور بیوی کی شادی کے لیے ’partners‘کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے، تاکہ جو کچھ تھوڑا بہت تقدس  میاں بیوی کے درمیان باقی رہ گیا تھا، اسے دو دوستوں کا نام دے کر ہم جنس رشتوں کو بھی قانونی حیثیت دے دی جائے۔پاکستان میں بھی مغرب پر ’ایمان بالغیب‘ لانے والے بعض افراد اور   نام نہاد غیرسرکاری تنظیمیں اس تگ و دو میں ہیں کہ یہاں بھی قانون میں یہ تبدیلی لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ملکِ عزیز کو اس شیطانی فتنے سے محفوظ رکھے۔

زیرتبصرہ کتاب پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامیہ کے ڈاکٹریٹ کے ایک مقالے پر مبنی ہے جسے معمولی تبدیلیوں کے بعد خود شعبۂ علوم اسلامیہ نے شائع کیا ہے۔کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے جن میں کوشش کی گئی ہے کہ عائلی زندگی کے معاشرتی، علمی اور قانونی پہلوئوں کو بڑی حد تک زیربحث لے آیا جائے۔

گو عصری مسائل پر اچھا لوازمہ جمع کیا گیا ہے لیکن بالعموم روایتی فکر کی توثیق کا رویہ اختیار کیا گیا ہے، مثلاً گھریلو کام میں عورت کی ذمہ داری (۳۱۳-۳۲۱) میں مختلف اقوالِ فقہا درج کرنے کے بعد ایک چوتھائی اقلیت کی راے کو کہ بیوی نہ صرف شوہر بلکہ سسرال والوں کی خدمت بھی بطور تطوع کرے، اختیار کیا گیا ہے، جب کہ محققہ خود تین ائمہ، یعنی امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے اجماع کو بیان کرنے کے بعد امام ابن القیم کے موقف کو ترجیح دیتی ہیں۔ بلاشبہہ ہرمحقق کو اس کا پورا اختیار ہے لیکن ڈاکٹریٹ کی سطح پر ہم یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ایک محقق یا محققہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لے کر اپنے حقِ اختلاف کا استعمال کرے۔

بعض معلومات اخباری اطلاعات پر مبنی ہیں۔ انھیں مصدقہ سمجھنا غورطلب ہے۔ شادی اور طلاق کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی موجودہ صورت حال کا جو نقشہ اخبارات سے جمع کردہ معلومات کے سہارے ہمیں ملتا ہے وہ تشویش ناک حد تک پریشان کن ہے (ص ۴۷-۸۴)۔ محققہ کے مطابق نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک عورت نے خلع کی درخواست میں یہ کہا کہ اس کے شوہر نے اس کی شاشلک کھانے کی فرمایش پوری نہیں کی، اس لیے اسے خلع دی جائے۔ کتاب کے اعداد و شمار کی رُو سے پنجاب میں لاہور کی عدالتوں میں ۲۰۰۸ء میں صرف چار ماہ کے دوران ، یعنی اپریل تک ۳ہزار ۵سو ۲۳ مقدمات دائر کیے گئے۔ گویا روزانہ ۸۰ یا ۸۵ مقدمات۔ یہ اس وقت جب عدالتوں میں کیس داخل کرانا ہمت کا کام ہے اور بے شمار مرد اور عورتیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے مقابلے میں ظلم برداشت کرلینا بہتر سمجھتے ہیں۔ گویا اصل تنازعات یقینی طور پر ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

مسئلے کا حل کیا ہو؟ مصنفہ نے کتاب کے آخری باب میں نتائج و سفارشات کے زیرعنوان ۱۴تجاویز دی ہیں جن میں زیادہ اہم کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

پہلی اصلاح یہ ہونی چاہیے کہ نظامِ تعلیم میں خاندانی زندگی کی اہمیت اور اس کے اسلامی اصول قرآن وسنت کی روشنی میں داخل نصاب ہونے چاہییں۔ ایک عرصے سے مَیں خود اس تجویز کو پیش کرتا رہا ہوں لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل نظر نہیں آیا۔ سورئہ بقرہ ، النساء، آلِ عمران، النحل، بنی اسرائیل، لقمان اور دیگر مقامات سے قرآنی آیات کی عمومی تفہیم و تشریح کو داخل نصاب کیا جائے تاکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہو۔

برقی ابلاغِ عامہ نے خصوصاً طلاق اور حلالہ کو نہ صرف آسان حل بلکہ ایک مذاق بناکر  رکھ دیا ہے۔ اہلِ علم اپنے فریضے کی ادایگی میں تکلف کا شکار ہیں۔ صحیح اسلامی فکر جو قرآن و حدیث کے الفاظ و معانی دونوں کو سامنے رکھ کر لوگوں کی تربیت کرسکے ناپید ہے۔ ابلاغِ عامہ کے تعمیری استعمال کے بغیر ہم ملک کے دُوردراز خطوں میں دین کا صحیح علم نہیں پہنچا سکتے۔ اس ذریعے کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت اور دستور ساز اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی اور مسلم فیملی لا آرڈی ننس اور تحفظ ِ نسواں بل کے غیرشرعی حصوں کو منسوخ اور اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گھر، تعلیم گاہ، ابلاغِ عامہ اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ خود معاشرے میں اخلاقی اقدار کا احیا کیے بغیر مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ اگر عورت کو معاشی دوڑ میں شامل کیا گیا تو مغرب نے اس کی قیمت گھر کی تباہی کی شکل میں ادا کی۔ ان نتائج کو دیکھنے کے بعد جانتے بوجھتے خود کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

خواتین کا ایسے موضوعات پر قلم اُٹھانا ایک نیک فال ہے۔ ان موضوعات پر مزید علمی کام اور علم کی اشاعت کی ضرورت ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


الایام (علمی و تحقیقی جریدہ)، مدیرہ: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: مجلس براے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ ۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات: ۳۲۸+۸۰۔ قیمت: ۳۰۰روپے، سالانہ: ۵۰۰ روپے۔ ای-میل: nigarzaheer@yahoo.com

الایام کی بانی (اور موجودہ) مدیر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے مسلسل توجہ، محنت اور تگ ودو سے رسالے کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے اسے کسی جامعہ کا مجلہ نہ ہونے کے باوجود، فقط اس کے معیار کے پیش نظر، اسے منظورشدہ مجلات کی فہرست میں شامل کرلیا۔ شمارہ نمبر۸ سے رسالے کی تقطیع بڑھا دی گئی ہے اور اب اس میں نسبتاً زیادہ لوازمہ شامل ہوتا ہے۔ گذشتہ برس الایام نے شمارہ نمبر۷،علی گڑھ کی ایک علم دوست اور فاضل شخصیت ڈاکٹر کبیراحمد جائسی کی یاد میں وقف کیا تھا جس میں جائسی کے بارے میں تقریباً ۴۰ مضامین اور مرحوم کی چند منتخب تحریریں شامل تھیں۔ قدردانی کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔

زیرنظر شمارے کا بڑا حصہ ۱۰ مضامین پر مشتمل ’گوشۂ علامہ شبلی نعمانی‘ ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے شبلی شناسوں نے مولانا شبلی کی سیرت نگاری، ملّی شاعری، مکاتیب، عربی زبان وادب سے ان کے تعلق اور اپنی تحقیقات میں عربی زبان و ادب سے استفادے کی نوعیت پر دادِ تحقیق دی ہے (آیندہ شمارے میں ’گوشۂ حالی‘ کے لیے اہلِ قلم سے نگارشات بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے)۔ مقالات کے حصے میں پروفیسر سیّد نواب علی رضوی کے احوال و آثار کا ایک مفصل تعارف اور جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عارف نوشاہی کا سفرنامۂ فرانس علمی معلومات اور مشاہدے کا عمدہ امتزاج ہے۔ مباحث کے ضمن میں حافظ محمد شکیل اوج نے ’کیا عصرِحاضر میں خلافت ِ راشدہ کا قیام ممکن ہے؟‘ کے موضوع پر ایک مختصر بحث کے بعد لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے، بشرطیکہ ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا ہو جو عصرِحاضر کا عمر بن عبدالعزیز بن کر سامنے آئے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ۳۲ خطوط، تعارف اور تعلیقات و حواشی کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیے ہیں۔ ’مطبوعاتِ جدیدہ‘ میں کتابوں پر مختصر تبصرے شامل ہیں۔ ’بیادِ رفتگاں‘ کے تحت ماضی قریب میں مرحوم ہونے والی علمی و ادبی شخصیات کے تعزیتی تعارف شامل ہیں۔ ’افکارِ قارئین‘ کے تحت ایک خط اور ’رپورٹ‘ کے تحت پاکستان میں بھارت کی علمی و ادبی شخصیات کی آمد کا مختصر احوال درج ہے۔ مجلے کے انگریزی حصے میں تین تحقیقی مضامین شامل ہیں۔

تحقیقی اعتبار سے اس مجلے کی ایک اہم چیز (اگر سب سے اہم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) ۴۵۵ خاکوں پر مشتمل کتابوں کی ایک فہرست ہے جسے کراچی کے ایک کتاب دوست جناب راشداشرف نے ایک مفصل تمہید و تعارف کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ فہرست مصنف وار ہے۔ گذشتہ شمارے (نمبر۸) میں راشد اشرف نے ۷۸۱ اُردو خود نوشتوں (آپ بیتیوں) کی   فہرست شائع کی تھی۔ اس شمارے ’قرآن اور ظفر علی خان‘ میں طاہرقریشی کا ۹۸صفحاتی مقالہ بھی شامل ہے۔

اُردو ادب کے طالب علموں، تحقیق کاروں اور عام قارئین کے لیے بھی یہ فہرستیں ایک قیمتی لوازمے اور معاونِ تحقیق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اس طرح کی جامع فہرستیں ابھی تک شائع نہیں ہوئیں۔ امید ہے کہ ایسی ہی مزید فہرستیں الایام میں شائع ہوں گی۔(رفیع الدین ہاشمی)


قرآنی آیات اور سائنسی تحقیق، ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی)۔ مترجم: سیّد محمد فیروزشاہ گیلانی۔ ملنے کا پتا: توکّل اکیڈمی، نیو اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۹۵۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

ڈاکٹر نورباقی کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۸۵ء میں ترکی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ ترکی میں ہوا۔ پھر اس کا اُردو ترجمہ سیّد فیروزشاہ گیلانی نے کیا جو ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا، اور اب اس کا جدید ایڈیشن ۲۰۱۴ء میں شائع کیا گیا ہے۔

قرآنِ حکیم سائنس کی کتاب نہیں، وہ انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت ہے۔ کائنات اور اس کے اندر موجود تمام چیزوں کی تخلیق اللہ رب العزت نے ہی کی ہے اور قرآنِ حکیم بھی اس کا ہی کلام ہے، لہٰذا اپنی تخلیق شدہ چیزوں کے بارے میں بعض مادی حقائق بھی بیان کیے ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو علم سائنس کا میدان بھی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے ان عنوانات پر جو تحقیقات کی ہیں بعض جگہ وہ قرآن کے بیان سے قریب تر ہیں۔ ان عنوانات ہی کو اس کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں تقریباً ۷۵۰مرتبہ سائنسی حقائق کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔

کتاب میں ۵۰ متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر عنوان کے حوالے سے آیاتِ قرآنی پیش کی گئی ہیں۔ ان کا ترجمہ اور تفسیر بھی اور ساتھ ہی سائنسی تحقیقات بھی، مثلاً: سورئہ اعلیٰ آیت ۵ سے تیل کی پیشین گوئی ، سورئہ یٰسین، آیت ۳۶ سے آکسیجن کی پیشین گوئی۔ اسی طرح بعض اسلامی مذہبی عقائداور تعلیمات کو بھی سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً وضو، روزہ، دوزخ، جنت، صحرا کے اسرار، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت آدم ؑ کی تخلیق وغیرہ۔

کتاب کا تفصیلی اور جامع تعارف اور مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی نے لکھا ہے اور مقدمے کے حق ادا کردیا ہے۔پاکستان میں سائنس کے محققین اور طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔آیندہ اشاعت میں ترجمے کی کمزوریوں اور انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات پر نظرڈال لی جائے۔(شہزاد الحسن چشتی)


عرف کی شرعی حیثیت، مولانا محمد نقیب اللہ رازی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ، شاہی مسجدروڈ، چترال۔ صفحات:۱۲۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں ’عرف‘ کی تفصیل احسن انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ’عرف‘ کے مترادفات میں سے عادت اور معروف بھی ہیں۔ فقہا کے ہاں اصطلاحی طور پر عرف وہ ہے جو عقلی شہادتوں کی بنیاد پر دلوں میں راسخ ہو اور طبع سلیم اس کو قبولیت کا درجہ دے۔

کتاب میں عرف کی قانونی حیثیت، فتویٰ میں عرف کا لحاظ، عرف کی بنیادی تین اقسام اور عرف کا شرعی حکم زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عرف کے بدلنے سے فتویٰ کی تبدیلی کے حوالے سے ’قدیم عرف کے خلاف فتویٰ‘ کے عنوان سے کئی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں جس سے شرعی حکم میں عرف کے مؤثر ہونے کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخر میں ’چند جدید عرفی مسائل‘ بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ کتاب میں اختصار ہے، تاہم موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔(حافظ ساجد انور)


قاردش (سفرنامۂ ترکیہ)، حسنین نازش۔ ناشر: خیام پبلشرز، خیابان سرسیّد، راولپنڈی۔ فون:  ۵۲۸۱۴۳۲-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

حسنین نازش ایک نوجوان ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ انھیں ایک وفد کے ساتھ ترکی کے دورے کا موقع ملا تو انھوں نے پہلے زبانِ یار، یعنی ترکی زبان سیکھی، ترکی کی تاریخ، معاشرت اور اہم شخصیات کے افکار کا مطالعہ کیا۔ سفر کے دوران میں کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، یہی وجہ ہے کہ سفرنامے میں مصنف نے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ انھوں نے ترکی زبان اور اُردو کے مشترکات تلاش کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ان زبانوں کے کم و بیش پانچ ہزار الفاظ معمولی فرق کے ساتھ مشترک ہیں۔ کتاب کا عنوان ’قاردش‘ کا مطلب ترکی زبان میں ’دوست، بھائی‘ ہے۔

حسنین نازش سفرنامے کے لوازمات اور تکنیک سے واقف ہیں۔ وہ افسانہ نگار ہیں، اس لیے سفرنامے میں کہیں کہیں افسانوی رنگ زیادہ ہوگیا ہے۔ تاہم استنبول، قیصری، کوہِ ارجیس، بورسہ، قونیہ اور دیگر قابلِ دید مقامات کا ذکر انھوں نے دل چسپ انداز میں کیا ہے اور بعض عنوانات میں جدت ہے۔ ترکی میں جن مسلم مفکرین نے دین کو ازسرِنو زندہ و تابندہ کیا ہے، ان میں بدیع الزمان سعید نورسی کا نام سرفہرست ہے۔ وہ نصف صدی تک باطل قوتوں سے برسرِپیکار رہے۔ سیکولر قوتوں نے انھیں مظالم کا نشانہ بنایا مگر وہ ڈٹے رہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد فتح اللہ گولن کی خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مصنف نے گولن کے افکار اور طریقۂ کار کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔   وہ گولن کے بہت قائل معلوم ہوتے ہیں۔ آج کے ترکی کو سمجھنے کے لیے یہ سفرنامہ مفید ہے۔

مصنف کے اسلوب میں ہلکے پھلکے مزاح نے سفرنامے کو دل چسپ اور پُرکشش بنا دیا ہے۔ البتہ کہیں کہیں محاوروں کا نادرست استعمال اور زبان و بیان کی خامیاںبُری طرح کھٹکتی ہیں۔ سرورق ، گٹ اَپ اور طباعت مناسب ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


مجلہ ارقم ۴، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ ناشر: دارِارقم ماڈل کالج، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔  فون:۴۴۴۹۱۸-۰۵۸۲۴۔ صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کالجوں کے رسالے عموماً ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں۔ کچھ دائیں بائیں سے چیزیں لے کر طالب علم پیش کرتے ہیں یا پھر ابتدائی درجے کی چیزیں نئی نسل کی آواز سے متعارف کراتی ہیں۔ کالج کی سرگرمیوں کی تصویریں ، رپورٹیں اور حاضر ملازمت پرنسپل کی تعریف کے بہانے اور مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن مجلہ ارقم کالجوں کے رسائل میں ایک مختلف رنگ لیے ہوئے ہے۔ علمی و ادبی اور اشاعتی مراکز سے دُور دراز واقع ایک پہاڑی علاقے کے کالج نے ایک انوکھا چراغ روشن کیا ہے۔ موضوعات کا تنوع، لکھنے والوں کی کہکشاں اور مضامین کے ذائقے اس طور بہ یک وقت چلتے نظر آتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال پرانے کالج بھی منہ دیکھتے رہ جائیں۔

ارقم۴ کئی حصوں پر مشتمل ہے، تقسیم دیکھیے: l تحقیق و تنقید (سات مضامین) lگوشۂ چراغ حسن حسرت (سات مضامین) lکشمیریات (تین مضامین) l گوشۂ عبدالعزیز ساحر (۱۳مضامین)  l مشاہیر (تین مضامین) l فکرونظر (تین مضامین) وغیرہ۔ اس موٹی موٹی تقسیم سے حُسنِ ترتیب کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے لیکن تحریروں کے معیار اور تحقیق کے آہنگ سے پیدا ہونے والا احساس ، کلمۂ تحسین کہے بغیر نہیں رہتا۔ مضامین علمی اور معلوماتی اعتبار سے خوب تر کا نمونہ ہیں۔ اس تمام خوب صورتی و رعنائی کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مجلہ اپنے کالج کے طالب علموں کی تحریروں کے لیے بھی کوئی گنجایش رکھتا ہے یا پھر طالب علموں کو معروف اہلِ قلم کی تحریرو ں کا گلدستہ پیش کرنے ہی کو اپنی ترجیح قرار دیتا ہے؟ ہمارے خیال میں دونوں کا امتزاج مناسب حل ہے، یا پھر طلبہ و طالبات کا الگ میگزین شائع کیا جائے، جیسا اورینٹل کالج کے شعبۂ اُردو میں ہے: بازیافت تحقیقی مجلہ ہے اور سنخن طلبہ و طالبات کا میگزین۔ (سلیم منصور خالد)