اگست ۲۰۲۲

فہرست مضامین

آئین،مالیاتی اُمور اور قرضے

وقار مسعود خان | اگست ۲۰۲۲ | قومی معاشیات

Responsive image Responsive image

اس مضمون کے پہلے حصے (عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۲۲ء)میں ’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی اُن شقوں کا تجزیہ پیش کیا گیا تھا،جو بنیادی مالیاتی امور اور حکومتی میزانیہ یا بجٹ سے متعلق ہیں، اور جن کا مربوط ذکر ایک ساتھ وارد ہوا ہے۔ لیکن آئین میں دو او ر شقیں ایسی ہیں، جن کا مالیاتی اُمور سے گہرا تعلق ہے، اگرچہ اِن کا بیان آئین کے ایک دوسرے باب میں کیا گیا ہے۔ یہ شقیں ۱۶۰ اور ۱۶۱ ہیں۔ پہلی شق حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ وفاقی مجتمع کھاتے کی ضمانت پر قرضے حاصل کرسکتی ہے اور ضمانتیں بھی جاری کر سکتی ہے، اُن حدود کے اندر جو مجلس شوریٰ کے بنائے قانون میں درج ہوں۔ شق ۱۶۱، قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل، مدت اور اس کے وظائف کو بیان کرتی ہے۔ یہ کمیشن وفاق کی سطح پر حاصل کیے گئے وسائل کی وفاق اور صوبوں کے درمیان ان کی تقسیم کے لیے  سفارشات بتاتا ہے۔

ہم یہاں پر اپنی گفتگو شق ۱۶۰ پر مرکوز رکھیں گے، کیونکہ اس کے اثرات معیشت کے اوپر بہت گہرے ہیں۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے ایک اہم حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے، جس کو مدنظر رکھنا، آگے آنے والی گفتگو کو سہل بنا دے گا۔ وہ یہ ہے کہ قومی قرضہ سال بہ سال بجٹ کا جو خسارہ ہے اس کی جمع ہے۔ لہٰذا قومی قرضہ ہمیں اس مقدار کی نشاندہی کرتا ہے، جو مجموعی طور پر ہم نے اپنے ذاتی وسائل سے زیادہ اخراجات کرنے کی وجہ سے پیدا کیا ہے اور جس پر سود کی ادائیگی ہمارے بجٹ کا سب زیادہ بڑا خرچہ ہے جو اس وقت دفاعی اخراجات سے دُگنا ہے۔ یہ اتنا بڑا بوجھ بن گیا ہے، جو نہ صرف اٹھانا مشکل ہے بلکہ اس کی وجہ سے معیشت کے اُوپر سخت بُرے اثرات پڑتے ہیں اور وہ مزید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب حکومت ہر سال اتنے قرضے مارکیٹ سے اٹھائے گی تو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے ضروری وسائل نہ صرف کم ہوں گے بلکہ ان کی لاگت، یعنی شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا اور یوں ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول خرابی کا شکار ہوجائے گا، جیسا کہ فی الوقت ہورہا ہے۔

 علاوہ ازیں اس شق کو جس انداز میں استعمال کیا گیا ہے، وہ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی اصل جڑ ہے۔ دستوری طور پر بجٹ کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ اخراجات کی منظوری کے ساتھ ہی اس کے لیے ضروری وسائل کی صراحتاً منظوری حاصل کرے۔ جس کی وجہ سے حکومت آزاد ہوتی ہے کہ وہ وسائل سے زیادہ اخراجات کرے اور اضافی وسائل یا بجٹ کا خسارہ قرضہ لے کر پورا کر لے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو درحقیقت ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے۔ آئین جس طرح ٹیکس کے حصول کے لیے سخت پابندی لگاتا ہے، ویسی سختی قرض کے حصول میں نہیں پائی جاتی۔ ہم نے یہ بات بھی واضح کی تھی کہ سارے محصولات اور قرضے سے حاصل کی گئی رقوم مجتمع کھاتےمیں جمع کیے جاتے ہیں اور کیونکہ کھاتے میں موجود روپوں کا یہ تعین نہیں ہوسکتا کہ وہ ٹیکس سے یا قرض سے حاصل ہوئے ہیں، لہٰذا خرچ کرتے وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ٹیکس کا پیسہ ہے یا قرض کا؟

اس تناظر میں یہ واضح ہے کہ آئین نے حکومت کو یہ کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس قدر بھی اخراجات کرنا چاہتی ہے کرسکتی ہے، جس کا بڑا ذریعہ قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ آئین نے یہ بھی کہا ہے کہ قرضوں کو اس حد کے اندر رکھا جائے گا، جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں طے کی گئی ہو۔ یہ قانون ۵۸ سال کے بعد بالآخر ۲۰۰۵ء میں بنایا گیا، جس کا عنوان ہے: ’مالیاتی ذمہ داری اور تحدید قرضہ ایکٹ۲۰۰۵ ‘ (Fiscal Responsibility and Debt limitation Act 2005) ۔ اس میں اہم ترین شق یہ تھی کہ قومی قرضہ بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی ۶۰ فی صد سے زیادہ نہیں دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے سامنے ایک بیان رکھے گا،   جس میں اس حد سے نکلنے کی وجوہ بتائی جائیں گی اور وہ عرصہ بھی بتایا جائے گا، جس میں جلد از جلد قرضے کو متعین حد کے اندر واپس لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس قانون میں یہ بھی ذمہ داری حکومت پر رکھی کہ وہ دو رپورٹیں بھی پارلیمنٹ کے سامنے رکھے: ایک مالیاتی امور سے متعلق اور دوسری قرضے کی حالت پر اور ان دونوں میں حکومت کی پالیسیوں کا بیان ہوگا۔

یہ قانون کچھ عرصے تک بخوبی چلتا رہا کیونکہ صدر مشرف صاحب اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورِ حکومت میں مالیاتی نظام نسبتاً منظم تھا اور نائن الیون کے بعد وسائل کی فراوانی بھی تھی۔ لیکن بعد ازاں اس میں بگاڑ پیدا ہوگیا ،لہٰذا اس قانون کا توڑنا معمول بن گیا۔ پھر ایک اور عجیب معاملہ سامنے آیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام کامیابی سے پائے تکمیل کو پہنچ رہا تھا، ایک نئی شرط متعارف کرائی گئی، جس میں قومی قرضے کی حد کو ۶۰ فی صد بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی سے کم کرکے ۵۰ فی صد پر کرنا تھا۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کے ضرورت تھی، جو کردی گئی۔ یہ کم تر حد ۱۵ سال کے عرصے میں حاصل کرنی تھی۔ اب یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک ۶۰فی صد کی حد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اور اس کے برعکس اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ۔ اس وقت ملکی قرضہ ۱۰۰ فی صد کے قریب ہوتا، لیکن جنوری میں مجموعی قومی پیداوار کا اَز سر نو اندازہ لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے سال کے شروع میں ۵۳ ٹریلین کی قومی پیداوار ۶۷ ٹریلین ہوگئی، جو کہ ۲۶فی صد اضافہ ہے۔ جس سے اس نسبت میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ ۷۰ فی صد کے اطراف میں ہے اور ہر دو نسبتوں، یعنی ۶۰ اور ۵۰ سے بہت زیادہ ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے زبردستی اس حد کو کم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے، سوائے اس کے کہ پاکستان کی کارکردگی مزید خراب نظر آئے۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ آج بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل کررہا ہے اور اس کے اہداف میں کہیں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ اس حد کے اندر رہا جائے اور کم تر حد کی طرف پیش رفت کی جائے۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے گذشتہ پانچ برسوں (جن کی مکمل معلومات موجود ہیں) میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مجموعی بجٹوں میں موجود قرضوں کے تناسب کا جائزہ لیا ہے۔ ۲۰۱۶ء تا ۲۰۲۱ء کہ پانچ برسوں میں اوسطاً ۳۰  فی صد اخراجات قرضوں کے ذریعے پورے کیے گئے ہیں۔ کئی برسوں میں یہ تناسب ۴۰ فی صد تک رہا ہے۔ کیونکہ صوبے خود کو اپنے وسائل کے اندر رکھتے ہیں۔ لہٰذا، اگر ہم یہ تجزیہ وفاقی حکومت تک محدود رکھیں تو یہ تناسب ۵۳ فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں بجٹ کے خسارے میں اضافہ اور روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کی وجہ سے (جس سے بیرونی قرضے کی مالیت میں اضافہ ہوجاتا ہے) قومی قرضے میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو قرضے کی مالیت ۲۵ ٹریلین تھی، وہ اس مارچ ۲۰۲۲ء تک ۴۵ ٹریلین تک پہنچ گیا ہے، جو قرضےکی مالیت میں ۸۰ فی صد اضافہ ہے۔

ایک عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ حکومتی عمال اکثر اس خبط میں مبتلا ہوتے ہیں کہ قرضے کی موجودگی میں خرچہ کرنا مفت کے مترادف ہے، خصوصاً جب یہ بیرونی قرضے کا معاملہ ہو۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ قرضہ ہو یا ٹیکس کی آمدنی، ہر دو صورتوں میں خرچہ اخراجات کو بڑھاتا ہے اور قومی قرضہ میں شامل ہوکر اس کی واپسی اور سووکی ادائیگی کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اس طرح اگلی نسلوں کے لیے ہم بھاری ذمہ داری چھوڑ جاتے ہیں، جس کے بہرحال وہ ذمہ دار تو نہیں ہوتے، مگر ان کو جبری طور پر یہ بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔

ملک کے مالیاتی نظام کی جو بدحالی ہم نے پہلے حصے میں بیان کی ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرضوں میں اضافے کی رفتار میں تیزی آئے گی اور بجٹ میں سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی بڑھتا جائے گا۔ خصوصاً جب شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جیسا کے حال میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اس شرح کو ۱۵ فی صد تک بڑھا دیا ہے۔ اگر یہ کم از کم سود کی شرح ہوگی تو نجی شعبے کو سرمایہ ۲۰ فی صد پر مشکل سے حاصل ہوگا، اور وہ اس شرح پر سرمایہ حاصل کرکے کسی ایسے منافع بخش کاروبار میں نہیں لگا سکتا جو ۲۰ فی صد سے زیادہ منافع کماسکے۔

آخر میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تحدید قرضہ کا قانون اس قابل نہیں رہا کہ وہ قرضے میں اضافے کو محدود کر سکے۔ ہمیں بہ حیثیت قوم اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی معیشت کو مقروض کرکے ترقی دینا چاہتے ہیں یا کم ترقی ہم کو قبول ہے؟ لیکن اس کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا ضروری ہے۔ قرض ہماری معاشی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔ ایک اسلامی اور ایٹمی قوت اپنی معاشی خود مختاری کو کمزور کرکے اپنی اسلامی اور ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔