اگست ۲۰۲۲

فہرست مضامین

شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی | اگست ۲۰۲۲ | اسلامی معاشیات

Responsive image Responsive image

آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں اضافہ کرکے سود کو ربا قرار دیا جائے

یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نےاپنے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں ایک مرتبہ پھر سود کو ہرشکل میں حرام قراردیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بنک اور کچھ بنکوں نے ربا کے اس مقدمے میں کچھ عملی مشکلات وغیرہ کو جواز بنا کر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردی ہیں۔ اس سے قبل خود ہم نے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والےبنکوں کی شریعت سے متصادم اور سود پر مبنی ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو بھی بلاتحقیق شریعت کے مطابق قرار دے دیا ہے۔

پھر اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ بنکوں کی جانب سے کی جانے والی ان اپیلوں میں تاخیری حربوں کے طور پرنت نئے نکات اُٹھائے جاتے رہیں گے تاکہ اصل معاملہ، یعنی اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دینے کا معاملہ، پس پشت ڈالا جاسکے۔ دوسری طرف حکومت سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسٹیٹ بنک اور بنکوں کو احکامات دیئے جائیں کہ وہ اپنی اپیل واپس لیں۔ حالانکہ اسٹیٹ بنک قانونی طور پر ایک خودمختار ادارے کی صورت اختیار کرچکا ہے اور حکومت اسے احکامات دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ پھر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ۲۸؍اپریل کے فیصلے کے مطابق تو اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو قانونی تحفظ مل جائے گا، جو سود کو حرام قرار دیئے جانے کے باوجود پاکستان میں سودی نظام کو دوام بخشنے کے مترادف ہوگا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کی طرف سے ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو اُٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات کا مناسب طریقے سے احاطہ نہیں کیا گیا۔

اس وقت قابلِ عمل لائحہ عمل یہ نظر آتا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے پہلے مرحلے میں ملک میں تمام روایتی بنکوں، یعنی سودی بنکوں کو۱۸ماہ کے اندر بلاسودی بنکوں میں تبدیل کردیا جائے۔ اور ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہیں رہنے دیا جائے۔ یہ بھی اَزحد ضروری ہے کہ افراد اور ادارے بنکوں کی فنانسنگ کی بروقت ادائیگیاں کریں۔ چنانچہ قانونی ذرائع اور عدالتوں سے بنکوں کی فنانسنگ کی وقت مقررہ کے چند ہفتوں کے اندر واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ ۱۸ماہ کے بعد ان بنکوں کو اپنی نئی سرمایہ کاری صرف سود سےپاک پروڈکٹس میں ہی کرنا ہوگی۔ ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نجی شعبے کی شراکت سے پاکستان میں ایک ماڈل اسلامی بنک قائم کرے، جس کی ڈیپازٹس اور فنانسگ کا کاروبار ۱۰۰ فی صد نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہو۔ یہ ماڈل اسلامی بنک، ملک میں اسلامی بنکاری کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال پیش کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری دراصل اسلامی نظامِ معیشت کا حصہ ہے۔ چنانچہ اسلامی بنکاری کے مکمل نفاذ کے لیے معاشرے کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھنے اور اسلامی نظامِ معیشت کو مکمل طور پر اپنانے کے ساتھ ملک کے تمام متعلقہ قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔

اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ربا کے مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بلاجواز تقریباً ۲۰برس کا عرصہ لگادیا۔ یہ یقینا ایک قومی المیہ ہے کہ اس دوران ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان میں سود سے پاک معیشت کے لیے ماحول تیزی سے معاندانہ بنایا جاتا رہا۔ جون ۲۰۰۲ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ کو حکومت نے یقین دلایا تھا کہ حکومت سودی قرضوں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کرے گی، مگرعملاً اُلٹ ہی کیا گیا، مثلاً:

            ۱-  ۳۰ جون ۲۰۰۲ءکو پاکستان پر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً ۱۸۰۰؍ ارب روپے تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو بڑھ کر ۲۸,۸۰۶؍ ارب روپے ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ میں قرضوں کے حجم میں اضافے کی یہ تیزترین رفتار ہے۔ ۲۰۰۲ء میں حکومت نے یہ موقف اختیارکیا تھا کہ داخلی قرضوں کے اس اُونچے حجم کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ تقریباً ۲۰برسوں میں ان سودی قرضوں کے حجم میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اور اب شریعت اپیلیٹ بنچ میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ ان قرضوں کو اگلے پانچ برسوں میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

            ۲-  پاکستان میں تجارتی بنکوں نے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت قرضوں کی فراہمی کے اپنے اصل کام کو ثانوی حیثیت دے کر گذشتہ برسوں میں حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔ نتیجتاً ۲۰۰۸ء اور جون ۲۰۲۲ء کے آخری ہفتے کے درمیان قرضوں کے حجم میں ۷,۷۱۳؍ ارب روپے اور سرمایہ کاری کے حجم میں اس کے دُگنے سے زیادہ، یعنی ۱۶,۳۳۲؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دُنیا بھر میں اور پاکستان میں تجارتی بنکوں میں اس قسم کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ پہلے بنکوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا اور اب ان بنکوں کی جانب سے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ اتنی بڑی رقوم کی سودی سرمایہ کاری کو مقررہ مدت میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بنکوں کو احکامات دینا ہوں گے کہ وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ رکھیں تاکہ یہ مسئلہ مزید سنگین نہ ہو۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں دائر اپیلوں کے ضمن میں ہماری یہ چار اضافی تجاویز ہیں:

            ۱- آئین پاکستان کی شق ۳۸ (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں واضح طور پر یہ اضافہ کردے کہ ’’سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں ہی آتا ہے‘‘، یعنی سود ہرشکل میں مکمل طور سے حرام ہے۔ اس طرح سود کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور بنکوں کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا، جو کہ بڑی کامیابی ہوگی۔

            ۲- دینی و مذہبی جماعتوں کو جو ربا کے مقدمے میں فریق ہیں، اس بات کو اوّلیت دینا ہوگی کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ ’اسلامی بنکوں‘ میں رائج ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی ان تمام پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دے،جن میں یا تو سود کا عنصر شامل ہے یا وہ شریعت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

            ۳-  پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں کو اس نام کے بجائے بلاسودی بنک قرار دیا جائے، بشرطیکہ ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہ رہنے دیا جائے۔

            ۴-  سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔

وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے۔ اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا ہوگا کہ بنکوں کی جانب سے نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر فنانسنگ کرنے سے افراطِ زر کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس نظام میں افراطِ زر اور اس کے منفی اثرات کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے سربراہ نےاپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سودپر مبنی ملکی و بیرونی قرضوں کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنے کے ضمن میں پیش کی گئی سفارشات کو جگہ دی ہے۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ  کے اس فیصلے کے بعد بھی کافی قابلِ قدر کام ہوچکا ہے جس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ بنیادی بات بہرحال یہی ہے کہ اسلام میں دولت، وسائل اور اختیارات انسان ، اداروں اور حکومت کے پاس اللہ کی امانت ہوتے ہیں۔ اگر ان وسائل اور اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے، اپنے وسائل کے اندرزندہ رہنے اور خودانحصاری کے حصول کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا جائے، تو نئے قرضے لینے کی ضرورت بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔ وفاق اورصوبوں کو متوازن بجٹ بنانا ہوں گے، بجٹ خسارے کی مالکاری کے لیے اور پالیسی سے منسلک بیرونی قرضوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ملک پر موجودہ ملکی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بنک اور وزارتِ خزانہ کو حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔

وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے بعد ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ ’’وہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے شریعت کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں ایک ٹھوس، واضح اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کرے، تاکہ یہ اہم کام آگے بڑھایا جاسکے‘‘۔ تاہم، یہ معاملہ اب اختلافات کا شکار ہوچکا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ماضی میں جو ’کوششیں‘ کی جاتی رہی ہیں، ان میں سے چند پیش کی جارہی ہیں:

            ۱- اب سے تقریباً ۳۴ برس قبل ۱۵جون ۱۹۸۸ء کو صدر مملکت نے ’شریعت آرڈی ننس ۱۹۸۸ء‘ کا اجرا کیا تھا، لیکن اسے پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ آرڈی ننس اور اس کا نظرثانی شدہ آرڈی ننس مقررہ تاریخ کے بعد غیرمؤثر ہوگیا۔

            ۲- وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف نے ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کا اجرا کیا تھا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ریاست ایسے اقدامات اُٹھانے کو یقینی بنائے، جن کے تحت پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی نظامِ معیشت کے مقاصد، اصولوں اور ترجیحات کے مطابق استوار کیا جاسکے۔

            ۳- ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کے تحت معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے جولائی ۱۹۹۱ء میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے تین ورکنگ گروپ بھی قائم کیے تھے، مگر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہی نہیں۔

            ۴- وزیراعظم کی حیثیت سے نوازشریف نے جولائی ۱۹۹۱ء میں تشکیل شدہ کمیشن کی تقریباً چھ برس بعد ۲مئی ۱۹۹۷ء کو تشکیل نو کی۔ اس کمیشن نے ربا کے خاتمے کے لیے اپنی رپورٹ اگست ۱۹۹۷ء میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں عمدہ تجاویز پیش کی گئی تھیں، مگر ان پر بوجوہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نےسود کو ہرشکل میں حرام قرار دینے کے اپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں جو احکامات دیئے تھے، ان میں سے چند یہ ہیں:

            ۱- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر اسٹیٹ بنک میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کمیشن کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کے عمل کی پوری طرح نگرانی کرے۔

            ۲- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ قانون اور پارلیمنٹری اُمور ایک ٹاسک فورس تشکیل دے۔ اس ٹاسک فورس کے ذمہ ایک اہم کام یہ ہوگا کہ وہ انسداد سود کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے پیش کرے۔

            ۳- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ خزانہ اپنے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دے جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سود کی بنیاد پر لیے ہوئے قرضوں کو اسلامی طریقوں پر منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کرے۔

 سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے مندرجہ بالا احکامات کی روشنی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے انتہائی محنت اورعرق ریزی سے اپنی حتمی رپورٹ اگست ۲۰۰۱ء میں پیش کردی تھی۔ اسی طرح وزارتِ قانون میں قائم ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں ایک آرڈی ننس کامسودہ بھی پیش کیا تھا۔ اس مسودہ میں کہا گیا تھا کہ ربا کا مطلب ہے، سود یا کوئی بھی اضافی رقم جو روپے کے لین دین کے معاملات میں اصل زر سے زائد ہو۔ اگر یہ آرڈی ننس جاری ہوجاتا تو سود کے ہرشکل میں حرام ہونے کا معاملہ اسی وقت طے ہوجاتا۔ بدقسمتی سے خود حکومت نے اس آرڈی ننس کے اجرا کی منظوری نہیں دی۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، مذہبی تنظیموں،علما، مفتی صاحبان اور مسلم ماہرین معاشیات وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں بروقت کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیاحالانکہ وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور نے کہا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۰۱ء کو ۱۲بجے شب یہ مجوزہ آرڈی ننس قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔

اسٹیٹ بنک میں ۴ستمبر۲۰۰۱ء کو مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اجلاس فوجی حکمران کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے گورنر، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے چیئرمین، وزارتِ قانون کمیٹی کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو دوام بخشنے، بنکاری کا متوازی نظام وضع کرنے کے غیرآئینی اور غیراسلامی فیصلے فوجی حاکم کے ایک حکم پر کردیئے گئے۔ اس تباہ کن فیصلے پر معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ اسی اجلاس کے شرکا میں وہ حضرات گرامی بھی شامل تھے، جنھیں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کی انتہائی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزارتِ خزانہ کی ٹاسک فورس کی رپورٹ اور حکومت پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کیا جانے والا حلف نامہ اور خود اسٹیٹ بنک کا حلف نامہ ایک ملی بھگت اور مربوط حکمت عملی کے تحت تیار کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں سماعت صرف ۱۰ روز جاری رہی، اور اس بنچ نے عملاً ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اسٹیٹ بنک میں ہونے والے غیرآئینی و غیر اسلامی فیصلے پر اپنی مُہر ثبت کردی اور ۱۴نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ حکومتی شعبے کے ایک بنک کے وکیل نے شریعت اپیلیٹ بنچ میں کہا تھا:

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں اسلامی بنکاری کا جو نظام بتلایا گیا ہے، وہ دراصل اسلامی بنکاری کے نام کا غلط اطلاق ہے اور مشارکہ کے علاوہ تمویل (فنانسنگ) کے لیے دوسرے تمام طریقے صرف حیلے کے زمرے میں آتے ہیں، یعنی وہ طریقے جن پر عمل کے ذریعے ربا سے بچنا مقصود ہوتا ہے، مگر وہ دراصل ربا ہی ہوتے ہیں اور ان میں ظلم کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ طریقے نتائج کے اعتبار سے ان طریقوں سے زیادہ خراب ہیں جو مروجہ روایتی بنکاری میں استعمال کیے جارہے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق یقینا چشم کشا ہیں۔ ان حقائق سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ پاکستان کے بااثر مال دار و طاقت ور طبقے جو حکومت و اداروں کی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور خود بیش تر فیصلہ ساز ادارے بھی عملاً نہیں چاہتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظامِ معیشت و بنکاری شریعت کی روح کے مطابق استوار ہو کیونکہ عدل و سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام سے قومی دولت لوٹنے والوں، ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں اور دوسرے غلط طریقوں سے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والوں اور اس کے ایک حصے کو ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ قابلِ احترام علما و مفتی صاحبان اور اسلامی معیشت کے ماہرین کو سود کے خاتمے کے ضمن میں، اس پیش آمدہ تمام صورتِ حال میں اپنی حکمت عملی اَزسرنو مرتب کرنا ہوگی۔

یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں بہت زیادہ کام ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو فیصلہ سنایا تھا اس میں بھی کہا گیا تھا کہ ’’یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شہادت ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام کو اسلامی نظام میں بدلنے کی تدبیر کے لیے بنیادی گرائونڈ ورک کرلیا گیا ہے‘‘۔ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ گذشتہ ۲۲برسوں میں اس ضمن میں مزید مثبت کام اور ریسرچ ورک کیا گیا ہے۔ اب ضرورت کسی ٹاسک فورس کے قیام کی نہیں بلکہ درست فیصلوں اور ان پرتیزی سے عمل درآمد کی ہے۔ اوّلین ترجیح بہرحال یہی ہونا چاہیے کہ حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں محبانِ اسلام اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ زندگی میں رخنہ ڈالے بغیر، پُرزور مگر پُرامن احتجاج کا راستہ اپنائیں تاکہ وفاقی حکومت اور ممبران پارلیمنٹ کو مجبورکیا جاسکے کہ وہ سود کو ربا کے زمرے میں قراردینے کے لیے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں اس اضافے کو فوری طور پر منظور کریں۔

اگر مندرجہ بالا تمام تجاویز پر تیزی سے عمل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ اگلے چند عشروں میں بھی پاکستان میں سودی معیشت فروغ پاتی رہے گی۔