دسمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

یہ نسل پرست اسرائیل

مصطفیٰ البرغوثی | دسمبر ۲۰۲۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image
  • فرید زکریا: الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس۱ کے رہنما اسماعیل ہانیہ۲ نے اس جارحیت کی تمام تر ذمہ داری فلسطینی سرزمین کے اسرائیلی ناجائز قبضے پر عائد کی ہے۔ ایک مختلف فلسطینی نقطۂ نظر کے لیے میں ڈاکٹر مصطفیٰ برغوثی۳ کا موقف سامنے لانا چاہتا ہوں۔ وہ فلسطینی حکومت کے سابق وزیراطلاعات ہیں، جس کا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے لیکن غزہ پر ان کا عمل دخل تمام تر نہیں ہے۔ مصطفیٰ برغوثی خوش آمدید! میں ایک بار پھرناظرین پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی اتھارٹی۴ حماس کی مخالف رہی ہے۔ لہٰذا آپ کسی بھی طرح سے حماس کے طرف دار نہیں ہیں، آپ فلسطینی اتھارٹی کی نمایندگی کرتے ہیں، جس کا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے۔ مصطفیٰ برغوثی صاحب آپ نے اب تک جو کچھ دیکھا ہے اس پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟
    • مصطفیٰ البرغوثی:سب سے پہلے تو یہ واضح کر دوں کہ اس وقت میں فلسطینی اتھارٹی کا حصہ نہیں ہوں۔ در حقیقت میں ’فلسطینی قومی اقدام‘۵ کے نام سے ایک جمہوری فلسطینی تحریک کی نمایندگی کرتا ہوں، جو فتح۶ اور حماس سے ایک تنظیم ہے اور… یقیناً میں حماس سے وابستہ نہیں ہوں، لیکن سمجھتا ہوں کہ یہ صورت حال جو ابھی سامنے آئی ہے۷ یہ سب، جدید تاریخ کے طویل ترین قبضے کے تسلسل کا براہِ راست نتیجہ ہے جو کہ ۱۹۶۷ء سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کی صورت میں شروع ہوا۔ ۵۶ سال سے جاری یہ قبضہ نسلی عصبیت کے نظام میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ جنوبی افریقہ کی  نسلی عصبیت سے کہیں زیادہ بدترین ہے۔ ہاں، بلاشبہہ حماس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن پی ایل او ۸ نے کیا اور فلسطینی اتھارٹی نے تسلیم کیا۔ انھیں کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ ۲۰۱۴ ء سے اسرائیلی حکومتیں فلسطینیوں سے یکسر ملاقات تک گوارہ نہیں کر رہی ہیں۔ اور آج آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ کئی چیزوں کا ردعمل ہے۔ سب سے پہلے، آبادکاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جنھوں نے نسل کشی کے اس عمل میں ۲۰ برادریوں کو پہلے سے ہی بے دخل کر دیا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور صہیونی آباد کاروں کے ہاتھوں ۲۴۸ فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں ۴۰ بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات پر حملے۔ نیز نیتن یاہو۹ کا یہ اعلان کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاکر فلسطینیوں کے حقوق اور فلسطینی مقدمہ کا خاتمہ کردے گا۔ اور اس نے اقوام متحدہ میں جانے کی بھی ہمت کی اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کا نقشہ پیش کیا جس میں پورا مغربی کنارہ، پورا غزہ، پورا یروشلم اور گولان۱۰ کی پہاڑیاں شامل تھیں۔ اس نے مقبوضہ علاقوں کے الحاق کا اعلان کیا۔ تو یقیناً فلسطینیوں نے مزاحمت کی طرف رُخ کیا، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے لیے اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ یہاں سوال فلسطینیوں کو غیر انسانی بنانے(تحقیر کرنے)، جو کہ ہو رہا ہے اور انھیں دہشت گرد قرار دینے کا نہیں ہے۔ سوال اس بارے میں ہے کہ کیوں امریکا یوکرین کی حمایت کرتا ہے جسے وہ روسی قبضہ کہتا ہے، جب کہ یہاں وہ قابض اسرائیل کی حمایت کررہا ہے جو ہم پر قابض ہے؟
  • فرید زکریا:لیکن کیا یہ وہی تمثیل ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں کہ جو کچھ حماس کر رہی ہے  وہ اسرائیلی شہریوں، عورتوں، بچوں، دادیوں کو نشانہ بناکر قتل عام کر رہی ہے؟
    • مصطفیٰ البرغوثی: وہ نہیں کر رہے قتل عام!
  • فرید زکریا: کیا یہ روایتی دہشت گردی نہیں ہے؟ وہ اسرائیلی حکومت سے نہیں لڑ رہے، وہ عام لوگوں سے لڑ رہے ہیں۔
    • مصطفیٰ البرغوثی:یہ آپ کی گفتگو کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ میرے خیال میں حماس نے بنیادی طور پر فوجی نظام، فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اور جن لوگوں کو انھوں نے گرفتار کیا ہے اور قیدی بنا لیا ہے ان میں سے زیادہ تر جنگی قیدی ،فوجی لوگ ہیں۔ میں کسی شہری پر حملے کو قبول نہیں کرتا۔ میں یہ نہیں تسلیم کرتا کہ اسرائیل ہمارے شہریوں پر حملہ کرے، لیکن دیکھئے کہ اسرائیلی طیارے ابھی غزہ میں کیا کر رہے ہیں؟ وہ گھروں پر بمباری کر کے گھروں کو  زمین بوس کر رہے ہیں اور آپ نے بھی دیکھا ہے کہ پورے کے پورے اپارٹمنٹس، پوری پوری بلند و بالا عمارتیں زمین بوس کر دی گئی ہیں۔

بڑے پیمانے پر رپورٹس آ رہی ہیں، خاندانوں کے بارے میں جو مارے جا چکے ہیں۔ ایک خاندان کے نو افراد ،دوسرے خاندان کے ۱۰ افراد بشمول بچے وغیرہ۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی شہری کو تکلیف پہنچے ، خواہ فلسطینی ہو ں یا اسرائیلی ، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے ختم کیسے کیا جائے؟ کیا یہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملہ کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ اسرائیل اس سے پہلے غزہ پر پانچ جنگیں۱۱ کرچکا ہے، جن میں سے ایک ۵۱ دن تک جاری رہی۔ جس میں انھوں نے سب کچھ تباہ کردیا تھا۔ اس سے حماس نہیں رکی، مزاحمت نہیں رکی۔ کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور یہ کہ امریکا اس میں منصفانہ کردار ادا کرے۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کو تو اپنے دفاع کا حق ہے مگر ہم فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔ میں آپ کو شیرین ابو عاقلہ کا معاملہ یاد دلاتا ہوں، جو نہ صرف فلسطینی بلکہ ایک امریکی شہری بھی تھی۔ ایک انتہائی پُرامن صحافی، جسے اسرائیلی سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کیا کسی پر فرد جرم عائد کی گئی؟ کیا کسی کو عدالت میں لے جایا گیا؟ نہیں۔ ۵۲ دیگر صحافی بھی مارے گئے۔ ہمارے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، ہمارے ڈاکٹروں کو گولیاں ماری جاتی ہیں، اسے رُکنا چاہیے۔ اور اسے روکنے کا واحد طریقہ اسرائیل کو بتانا ہے کہ  آپ کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ آپ کو اس ناجائز قبضے کو ختم کرنا ہوگا اور فلسطینیوں کو برابر کے انسانوں کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔

  • فرید زکریا:میں آپ سے اس کی عملی حقیقت کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کیونکہ آپ اس سے گزر چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل میں دائیں بازو کی قوتیں مضبوط ہورہی ہیں، جو کہتی ہیں کہ کوئی رحم نہ کیا جائے۔ آپ جانتے ہیں زبردست فوجی ردعمل،  غالباً مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کی زندگی مشکل تر ہو جائے گی، مزید فوجی چوکیاں بنیں گی۔ کیا یہاں اس سب کا عملی اثر عام فلسطینیوں کے لیے زیادہ خراب نہیں ہو گا؟
    • مصطفیٰ البرغوثی:بدقسمتی سے جو آپ نے بیان کیا ہے بالکل وہی ہے ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ آج پورا مغربی کنارہ ۵۶۰ فوجی اسرائیلی چوکیوں کی وجہ سے مفلوج ہے اور یہ چوکیاں پچھلے ۳۰ برسوں سے وہاں موجود ہیں۔ ہم اس دیوار سے دوچار ہیں جو ہماری ہی زمین پر بنائی گئی ہے۔ پورا مغربی کنارہ ۲۲۴ چھوٹے چھوٹے محلوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے الگ ہو چکا ہے اور آباد کار ہر جگہ فلسطینیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ آپ اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہیں، اسرائیل پر پہلے سے ہی دائیں بازو کی حکومت ہے، اسرائیل اپنی حکومت میں پہلے سے ہی فسطائیت رکھتا ہے۔ 'سموٹرچ ۱۲ جو کہ ایک آباد کار بھی ہے، اس نے کہا: ’’فلسطینیوں کے پاس تین میں سے ایک آپشن ہے: یا تو ہجرت کریں، یا اسرائیلیوں کے سامنے محکومی کی زندگی قبول کریں، یا مر جائیں‘‘۔ یہ اسرائیلی وزیر خزانہ ہے۔ نیتن یاہو نے کبھی ان بیانات کی نفی نہیں کی۔ سموترچ اوربن گویر۱۳ دونوں نے کہا کہ ’’ہمارا منصوبہ مغربی کنارے کو اسرائیل کے قبضے میں لینے کا ہے‘‘۔

 کیا ہم اسے روک سکتے ہیں جو اب ہو رہا ہے؟ ہاں، بلاشبہ تمام اسرائیلی جو اس وقت غزہ میں ہیں کل رہا ہو سکتے ہیں بشمول عام شہری، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے جرنیلوں کو بھی رہا کیا جا سکتا ہے اگر اسرائیل بھی ہمارے ۵۳۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے، جو اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں۔ جن میں وہ ۱۲۶۰ فلسطینی بھی شامل ہیں، جو یہ جانے بغیر کہ ان کا جرم کیا ہے نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ ان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، ان کے وکلا کو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا اور یہی وہ زندگی ہے، جو ہم نے دیکھی ہے۔ ہم نے ساری زندگی قبضے میں گزاری ہے۔ میرے والد قبضے میں رہتے تھے، میری بیٹی قبضے میں رہ رہی ہے۔ ہم ایک ایسا وقت چاہتے ہیں، جب ہم فلسطینی آزاد ہوں گے۔

 حماس ۳۰ سال پہلے یا ۴۰ سال پہلے نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے پی ایل او کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ جو فلسطینی اپنے حقوق یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں آزادی کی جدوجہد کا حق ہے؟ کیا ہمیں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کا حق ہے؟ کیا ہمیں عام جمہوری انتخابات کرانے کا حق ہے، جس کی بدقسمتی سے اسرائیل اور امریکا حمایت نہیں کرتے؟ ہم اس کے حق دار ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم عسکری جدوجہد کرتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں۔ اگر ہم غیر متشدد طریقے سے جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے باوجود ہمیں متشدد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم الفاظ کے ساتھ مزاحمت بھی کرتے ہیں تو ہمیں ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور آپ غیر ملکی ہیں تو وہ آپ کو ’یہود مخالف‘ قرار دیتے ہیں۔ اور اگر آپ یہودی ہیں ،اور بہت سے ایسے یہودی ہیں جو فلسطینی مقدمہ کی حمایت کرتے ہیں ،تو وہ اسے خود سے نفرت کرنے والا یہودی کہتے ہیں۔ یہ سفاکانہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بے معنی ہے۔ ہم سب کو یکساں زندگی گزارنی چاہیے۔ ہم سب کو امن میسر ہونا چاہیے، ہم سب کو انصاف میسر ہونا چاہیے اور ہم سب کو عزت سے رہنا چاہیے۔ اس کو حاصل کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ نسلی عصبیت کی شکل میں اس قبضے کو ختم کیا جائے، جس پر مجھے یقین ہے کوئی بھی یہودی فخر نہیں کرسکتا۔ اس کا وقت آگیا ہے۔ اور انصاف اور آزادی کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم یہ حاصل کرلیتے ہیں تو کوئی تشدد نہیں ہو گا اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔

 _______________

حواشی

۱-         حماس: اردو میں اسلامی مقاومت تحریک، عربی میں حركة المقاومة الإسلامية اور انگریزی میں  Islamic Resistance Movement کہا جاتا ہے۔ فلسطینی سنی اسلامی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جس کی بنیاد فلسطینی امام احمد یاسین نے۱۹۸۷ ء میں پی ایل او اور ’اوسلوا کارڈ‘ کی مخالفت میں رکھی، جو  آج کل مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کی حکومتی اور فوجی تنظیم سنبھالے ہوئے ہے۔ حماس کے ۲۰۱۷ء کے چارٹر کے مطابق وہ ۱۹۶۷ ء کی فلسطینی ریاستی حدود کو تسلیم کرتا ہے ،اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر۔

۲-         اسماعیل ہانیہ ۲۰۱۷ ء میں حماس کے سیاسی امیر بنے۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۹۷ ء میں حماس کی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور ۲۰۰۶ ءکے الیکشن کے نتیجے میں فلسطین کے وزیر اعظم بھی بنے،جن کو صدر محمود عباس نے ۲۰۰۷ ء میں دفتر سے فتح-حماس کشیدگی کی وجہ سے نکال دیا۔ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر حکمرانی جاری رکھی۔

۳-         مصطفیٰ البرغوثی ایک طبیب اور سیاست دان ہیں، جو کہ فلسطینی قومی اقدام عربی میں: المبادرة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Initiative نام سے جانی جاتی ہے کے بانیوں میں سے ہیں۔ ۲۰۰۷ ء میں مصطفیٰ فلسطین کی یکجا حکومت میں اطلاعات کے وزیر بھی رہے ہیں۔

۴-         یہ اسرائیلی قبضہ سے پاک بقیہ فلسطینی ریاست کا نام ہے۔ اسے عربی میں السلطة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Authority یا  Palestinian Authority یا State of Palestineبھی کہا جاتا ہے۔

۵-         ’فلسطینی قومی اقدام پارٹی‘ ۲۰۰۲ ء کو وجود میں آئی، جس کے آج کل امیر مصطفیٰ البرغوثی ہیں۔ یہ اپنے آپ کو فلسطینی سیاست میں فتح ، جسے یہ کرپٹ اور غیر جمہوری پارٹی اور حماس ، جسے یہ بنیاد پرست اور انتہا پسند پارٹی سمجھتے ہیں کے بعد ،تیسری بڑی جمہوری طاقت قرار دیتی ہے ۔

۶-         فتح ، سابقہ فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ ،عربی میں:حرکت التحریر الوطنی الفلسطینی، فلسطینی نیشنلسٹ اور سوشلسٹ سیاسی جمہوری پارٹی ہے۔ فلسطینی اتحاد کے صدر محمود عباس فتح کے چیئرمین ہیں۔ یہ یاسرعرفات کو اپنی پارٹی کا بانی مانتے ہیں۔

۷-         یہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ ءکے حماس کے اسرائیل پر حملے کی طرف اشارہ ہے، جس کی وجہ سے حماس کی اسرائیل سے ایک بڑی جنگ چھڑ گئی ہے جو کہ غزہ کی پٹی میں لڑی جا رہی ہے۔

۸-         فلسطینی تحریک آزادی (عربی: منظمة التحریر الفلسطينية، انگریزی: Palestine Liberation Organization) ایک فلسطینی قومی متحدہ محاذ ہے، جو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے آفیشل وکیل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ۱۹۶۴ ءمیں تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر اس نے پورے فلسطینی علاقے پر ایک عرب ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل کی ریاست کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ تاہم،۱۹۹۳ ء میں، پی ایل او نے ’اوسلوا کارڈ‘ کو تسلیم کیا، اور اب صرف مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں ایک عرب ریاست چاہتی ہے۔

۹-           نیتن یاہو۲۰۲۲ء سے اب تک کے اسرائیلی وزیراعظم ہیں، جو پہلی دفعہ ۱۹۹۶ء تا ۱۹۹۹ء وزیراعظم رہے پھر ۲۰۰۹ء تا ۲۰۲۱ ء وزیراعظم رہے۔ انھوں نےامریکا کے ایم آئی ٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اسرائیلی فوج میں بھی ملازمت کی ۔سیاست میں آنے سے پہلے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب بھی رہے۔وہ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی لیکود کے صدر بھی ہیں۔ نیتن یاہو کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ خاص مراسم تھے، جس کی بدولت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سرکاری تعلقات استوار کیے۔

۱۰-      یہ شام کے سرحدی علاقے کی پہاڑی چوٹیاں ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ ۱۹۶۷ ء کی چھ دن کی جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ میں لے لیا ۔ جس کو اس نے اپنی ریاست میں ۱۹۸۱ ء میں ضم کر لیا ۔

۱۱-      ۲۰۰۵ ء میں اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کے فوراً بعد حماس انتخابات جیت گئی اور تب سے اب تک حماس اور اسرائیل پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پہلی جنگ ۲۰۰۸ -۲۰۰۹ء میں ۲۳ دن جاری رہی، دوسری ۲۰۱۲ ء میں ۸ دن جاری رہی، تیسری ۲۰۱۴ء میں ۵۰ دن جاری رہی، چوتھی ۲۰۲۱ ء میں گیارہ دن جاری رہی، اور پانچویں اب ۷؍ اکتوبر سے تاحال جاری ہے، جسے مہینے سےزیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

۱۲-      بزلائی یول سموٹرچ مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کے سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا وکیل اور رہنما ہے، جو کہ ۲۰۲۲ء سے اب تک اسرائیل کا وزیر خزانہ ہے۔وہ مغربی کنارے کی ایک آباد کاری کدومیم جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے میں رہتا ہے۔

۱۳-      اتمار بن گویر مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا سیاست دان اور وکیل ہیں، جو ۲۰۲۲ء سے اسرائیل کے وزیربرائے قومی سلامتی ہیں ۔ وہ مغربی کنارے میں غیر قانونی آبادکاری میں رہتا ہے اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس پر کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا الزام ہے اور وہ انتہا پسندانہ صیہونی نظریہ رکھتا ہے۔