فروری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

بے مثال محبت

ڈاکٹر سائرہ بانو | فروری ۲۰۰۴ | تذکیر

Responsive image Responsive image

محبت کا لفظ کتنا خوب صورت ہے۔ جب ہمیں محبت ملتی ہے‘ چاہے وہ والدین کی ہو‘ شوہر کی ہو‘ بچوں کی ہو یا دوستوں کی‘ تو فوراً دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور اُس میں اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے۔

لیکن --- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس محبت کا ماخذ کیا ہے؟ محبت کا یہ جذبہ ہمارے لیے لوگوں کے دلوں میں کس نے ڈالا۔ شاید اپنی زندگی میں آپ نے کبھی یہ محسوس کیا ہو کہ جب آپ بہت غمگین ہوں اور اک دم کوئی شخص‘ بالکل غیر متوقع طور پر آپ کے ساتھ اتنی اچھی طرح پیش آئے‘ یا ایسی کوئی بات کہہ جائے جو آپ کو مسرور کر دے اور آپ سوچتے رہ جائیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ بات ایک ایسی ہستی نے‘ اس شخص سے کہلوادی جسے آپ کا خیال ہے اور جو ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔

یہ ساری محبتیں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔ پھرسوچیے کہ جو ان سب محبتوں کا سرچشمہ و منبع ہے وہ کتنا محبت کرنے والا ہو گا اور کیا ہم بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی وہ ہم سے کرتا ہے۔ ہم سب اپنے آپ کو ٹٹول کر دیکھیں کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا کیا مقام ہے۔ حضرت جابرؓ سے ایک حدیث روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام کیا ہے‘ وہ یہ دیکھے کہ اللہ کا مقام اس کے نزدیک کیا ہے؟

شاید اس محبت سے دور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آج کے دور میں اسلام کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے اس میں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے عذاب کاذکر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ احساس بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا باعث ہے۔اگر ایسا نہیں کرو گے تو جہنم کی آگ میں جلو گے‘ جنت کے دروازے تم پربند کر دیے جائیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہم کو ان سب باتوں سے اتنا خوف آنے لگتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ان چیزوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو ایسے نہیں ہیں۔ انھوں تو ہمارے لیے یہ نہیں چاہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ دنیا بنائی اور طرح طرح کی نعمتیں ہمارے لیے نازل کیں۔

کبھی آپ اس کائنات کی خوب صورتی پر غورکریں۔کبھی آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ آپ کسی اونچے پہاڑ پر کھڑے ہیں‘ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اوپر نیلا آسمان ہے‘ پرندے چہچہا رہے ہیں‘ پیروں تلے نرم نرم گھاس ہے‘ پھولوں کی خوشبو ہے اور جہاں تک نظر جائے لہلہاتے کھیت ہیں‘ پانی کے جھرنے ہیں--- کتنا خوب صورت اور سکون بخش ہے یہ منظر! یہ ساری  خوب صورتی اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کے لیے تو بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام چیزوں کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ جس طرح ہم چاہیں ان کو استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے۔ یہاں پر ہم جس طرح کے عمل کریں گے اسی طرح کا اللہ تعالیٰ ہمیں بدلہ دے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اس کی عبادت کرے‘ صرف اس لیے کہ وہ اس کو انعام اور نعمتوں سے   نواز دے۔ دنیا اور آخرت میں اس کی پریشانیوں اور مشکلات کو دُور کردے تاکہ نہ وہ کبھی خوف زدہ ہوں اور نہ غمگین۔ قرآن پاک میں آتا ہے:

بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌفَلَـہٓٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُونَ o (البقرہ۲: ۱۱۲)

جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں ہے۔

ہم سوچتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ نہ ہمیں کوئی خوف ہو اور نہ کوئی غم؟ اس کی وضاحت ہمیں حدیث سے ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا:’’بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے کا‘ میرے عاید کردہ فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اسے وہ دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز سے پناہ مانگے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ (بخاری)

جب ہم اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارا خاص مددگار بن جاتا ہے ۔ ہمارے اعضا اور جوارح کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں اپنی نافرمانی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا اور ہمارے دل کو ہر نعمت جو اس نے ہمیں عطا کی ہے‘ اس پر راضی کر دیتا ہے۔ استغنا کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس جو ہے اس پر ہم راضی اور خوش ہو جاتے ہیں۔

حدیث قدسی ہے: ’’اے آدم کے بیٹے! تو اپنے آپ کو پوری طرح میری بندگی کے لیے فارغ اور مطمئن کردے‘ میں تیرے دل کو بے فکری کی دولت سے بھردوں گا اور فقر اور محتاجی کے سوراخوں کو بند کردوں گا‘‘(ابن ماجہ)۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو صرف آخرت کی فکر کرے ‘اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے۔ اس کے الجھے ہوئے کاموں کو سلجھا دیتا ہے اور اس کے پاس دنیا بھی آتی ہے مگر ناک رگڑتی ہوئی‘‘۔(ترمذی)

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں۔ وہی تو ایک ہستی ہے جو ہماری محبتوں کی قدر کرے گا اور ایسی قدر جو ہمیں دنیا کے کسی شخص سے نہیں ملتی۔ والدین ہم سے بے لوث محبت کرتے ہیں لیکن ان سے بھی ہمیں شکایت رہتی ہے۔ اس کے بعد شوہر سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور شوہر کوبیوی سے اور پھردونوں کو اولاد سے۔ ہم ان سب سے محبت کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے وہی کچھ کریں گے اور ہم کو اتنی ہی محبت دیں گے جتنی ہم نے ان کو دی ہے۔ لیکن کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی وقت ہماری یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ کبھی شوہر سے اتنی محبت نہیں ملتی تو ہم اپنی اولاد پر ساری محبت نچھاور کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ تو ہماری قدر کریں گے۔ لیکن اگر انھوں نے بھی نہیں کی تو پھر ؟؟ اس طرح ہماری زندگی خوف اور غم میں گزر جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جس پر ہم یقینی بھروسا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کبھی ناامید نہیں کریں گے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق۶۵:۳)

جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo  (البقرہ۲:۱۸۶)

اور (اے نبیؐ) جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں‘ تو (کہہ دیجیے کہ) میں قریب ہوں۔ میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگتا ہے۔ تو انھیں چاہیے کہ مجھے پکاریں اورمجھ پر ایمان لائیں ‘ تاکہ وہ ہدایت پا جائیں۔

وہ ذات تو ہمیں ہر چیز دینے پر قادر ہے لیکن ہم پکارتے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اتنے قریب ہیں‘ اتنی محبت کرنے والے ہیں لیکن ہم ان سے غافل رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟

حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں‘ اور میں اس کے ساتھ ہوں‘ جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔ اور جو ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں ۔جو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دوہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور جب وہ میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں‘‘۔محبتوں کے اظہار میں ہم جھجکتے ہیں کہ پتا نہیں دوسرے شخص کے دل میں کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنے بندوں کو بتا دیا ہے کہ بس تم چل کر آئو اور میں بھاگ کر تمہیں اپنی پناہ میں لے لوں گا۔

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم دوسروں سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔ جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہوتی ہے تو پھر اس کے سب بندوں سے بھی محبت ہوتی ہے۔ ہم کسی انسان کو حقارت یا تکبر سے نہیں دیکھتے کیوں کہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہم سب سے نرم دلی اور شفقت سے پیش آئیں اور سب کے حقوق خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ لیکن یہ سب ہم صرف اور صرف اللہ کے لیے کریں اور اس لیے نہیں کہ وہ شخص بھی ہمیں اس کے بدلے میں کچھ دے گا۔ اگر اس نے دے دیا تو یہ بھی اللہ ہی کا کرم ہے اور نہیں دیا تو بھی ہم خوش ہیں۔ زندگی کتنی پرسکو ن ہو جاتی ہے جب بھروسا صرف اللہ پر ہو اور امیدیں صرف اللہ ہی سے وابستہ ہوں۔

جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہو جاتی ہے تو ہم واقعی سچے مومن بن جاتے ہیں۔ ایسے مومن جن کے دلوں میں ایمان کی پختگی ہو اور اسی صورت میں ہمارا ایمان مکمل ہو سکتا ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵)

ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔

بخاری و  مسلم کی روایت ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ ہوں گی وہ ان کی بدولت ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا۔یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو۔یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے۔اور یہ کہ وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو‘جب کہ اس سے اللہ نے اس کو بچالیا اس طرح برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو وہ برا سمجھتا ہو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ اگر تمھاری محبت میرے لیے ہو گی تو میں لوگوں کے دلوں میں بھی تمھارے لیے محبت پیدا کر دوںگا۔ بے شک دلوں کا پلٹنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o (مریم ۱۹:۹۶) ’’یقینا جو لوگ ایمان لائے ہیں اور عمل صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمن ان کے  لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا‘‘۔ تو پھر کس وجہ  سے ہم رکے ہوئے ہیں؟ شاید دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اتنے گناہ ہو گئے ہیں۔ اب اللہ سے رجوع کرنے کا کیافائدہ‘ اب تو بہت دیر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں۔ وہ چاہتا ہی نہیں کہ ہمیں کوئی کامیابی حاصل ہو۔ وہ تو جلا بھنا بیٹھا ہے اور حسد کا شکار ہے کہ انسان کو یہ مقام اللہ تعالیٰ نے کیوں عطا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر۳۹:۵۳)

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوںنے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔

ترمذی کی حدیث ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے اچھی امید رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا۔ چاہے تیرے عمل کیسے ہی ہوں‘ میں پرواہ نہیں کروں گا۔ اے ابن آدم اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں‘ پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔ اے آدم کے بیٹے اگر تو میرے پاس زمین بھر گناہوں کے ساتھ آئے اور تو مجھے اس حال میں ملے کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا ہو گا تو میں تیرے پاس زمین بھر بخشش لے کر آئوں گا۔ اس لیے کبھی بھی کسی وقت بھی اگر ہم سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ہمیں ناامید نہیں کریں گے۔

دوسری بات جو ہمیںاللہ سے رجوع کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہو گئے تو دنیا چھوڑنی پڑے گی۔ یہ بھی بالکل غلط خیال ہے۔ اسلام ہی تو ایسا ایک دین ہے جس نے روحانیت اور مادیت دونوں کو یکجا کیا ہوا ہے۔ دین اور دنیا ساتھ لے کر چلنے کو کہا گیا ہے۔ صرف عبادت ہی نہیں ‘دنیا کے ہر کام انسان کو کرنے ہیں‘ بس نیت اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ جیسے اگر آپ رشتہ داروں سے ملیں تو یہ سوچ کر ملیں کہ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے‘ اس لیے یہ میں اس کی رضا کے لیے کر رہا ہوں۔

ہمیں یہ خیال بھی آتا ہے کہ اتنے ضابطے اور پابندیاں ہوں گی۔ ہم تو کر ہی نہیں سکتے۔ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن ہم یہ بھی تو سوچیں کہ یہ ضابطے اور پابندیاں ہماری بھلائی کے لیے بنائے گئے ہیں‘ جیسے ہمارے والدین بھی ہمارے اوپر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں۔ اس وقت وہ ہمیں بڑی مشکل اور دشوار لگتی ہیں اور کبھی کبھار سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے والدین ایسا کیوں کررہے ہیں۔ لیکن بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے والدین نے جو بھی کیا وہ ٹھیک ہی کیا۔ اس طرح جب والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگواتے ہیں اس وقت دیکھ کر لگتا ہے کہ بچوں پرکتنا ظلم ہو رہا ہے۔ بچہ چیخ رہا ہے‘ چلا رہا ہے‘ لیکن ماں باپ ہیں کہ بے دردی سے اسے پکڑ کر ٹیکہ لگوادیتے ہیں۔ والدین ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ بچوں کی بیماری کا علاج ہو اور بعد میں بھی ان کے بچے مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں۔

پھر اللہ سے رجوع میں لوگوں کا خوف ہمارے آڑے آتا ہے۔ ہم سوچتے ہیںکہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہماری جو عزت دنیا میں بنی ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ یہ سب ہمارا وہم ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین کیوں نہیں کرتے جو اس نے قرآن پاک میں فرمائی ہے:

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَـآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَـآئُ ز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآئُط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ o (اٰل عمرٰن۳: ۲۶)

کہو‘ خدایا‘ ملک کے مالک‘ تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے پس تو  بھی اس سے محبت کر۔ پس جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر جبریل ؑ آسما ن والوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔پس آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس شخص کے لیے زمین میں بھی قبولیت رکھ دی جاتی ہے (یعنی دنیا میں بھی وہ مقبول و محبوب ہو جاتا ہے)۔ (بخاری و مسلم)

نیکی کا جذبہ ہر انسان کے دل میں ہوتا ہے لیکن دنیا کی رنگینیاں ہمیں سب کچھ بھلا دیتی ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ابھی تو وقت ہے بعد میںکر لیں گے۔ موت تو برحق ہے کسی وقت‘ کسی لمحے بھی آ پہنچے گی اور اس وقت ہم سے یہ موقع چھن جائے گا‘ نہ ہم اس کو ایک لمحہ بڑھا سکیں گے اور نہ پیچھے کر سکیں گے‘ اس لیے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جتنا بھی وقت ہمیں ابھی مل رہا ہے اس کو پوری طرح استعمال میں لائیں‘ پتا نہیں کب کس وقت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا لمحہ آ جائے۔

اللہ تعالیٰ کی قربت کیسے حاصل ہو گی؟ جب ہم اللہ کا وہ پیغام پڑھیں گے جو اس نے ہمارے لیے بھیجا ہے۔ دنیا میں کوئی محبت کرنے والا ہمیں خط بھیجے تو کیسی بے چینی ہوتی ہے کہ کب ہم اس کو کھول کر پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں ایک پوری کتاب بھیجی ہے۔ اسے تو ہم نے بس سجا کر رکھ دیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنی کتاب سے یہی مقصود تھا۔ اس نے تو اپنے بندوں کے لیے یہ کتاب بھیجی تاکہ اس کے ذریعے وہ ان کی زندگیاں آسان کر دے۔ ان کو بتا دے کہ دل کا سکون اور اصل خوشی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس کو خوب صورت غلافوں میں بند کر کے رکھا ہوا ہے اور یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ ہماری آسانیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو بات لکھی ہے اس کو پڑھ کر اور سمجھ کر ہم دیکھیں۔ اسی طرح اللہ کو یاد کرنے سے اور اس کا ذکر کرنے سے دلوں کو سکون پہنچاتا ہے۔ اَلاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo ’’خبردار رہو‘ اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۸)

 قرآن کو پڑھنا‘ اس کے ذریعے اپنے رب کو پہچاننا‘ اس کی صفات کو جاننا‘ یہ سب اللہ کا ذکر ہی تو ہے۔پھر ہم سوچتے ہیں کہ اگر قرآن پڑھیں گے تو پھر اس کے احکام کی بھی پیروی کرنی پڑے گی۔ اس لیے نہ پڑھو اور نہ پکڑ ہو گی‘ کیا واقعی ایسا ہو گا؟ اگر آپ کا امتحان ہو اور آپ کو پتا ہو کہ امتحان تو ہونا ہی ہے اور پھر آپ کے استاد آپ کو کتاب لا کر بھی دے دیں کہ اگر تم یہ کتاب سمجھ لو گے تو امتحان میں کامیاب ہو جائو گے ۔ مگر آپ کتاب کو لے کر بیٹھ جائیں اور یہ سوچیں کہ یہ پوری کتاب تو آپ یاد کر ہی نہیں سکتے‘ اس سے اچھا ہے کہ اس کو نہ پڑھیں۔ کیا ایسے میں آپ کے استاد آپ کو پاس کر دیں گے؟ وہ تو کہیں گے کہ کوشش تو کی ہوتی پھر میں دیکھ لیتا ‘کچھ نہ کچھ کر کے شاید تمھیں پاس کر دیتا۔ پھر کتنا افسوس ہو گا۔ جتنا یاد کر سکتے تھے اتنا تو کر لیتے‘ کتنی بیوقوفی کی ہم نے!

ہمارا یہی رویہ قرآن کے ساتھ ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے اور آخرت میں اس امتحان کے نتیجے کا اعلان ہو گا لیکن ہم کوشش ہی نہیں کرتے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ تو اتنے مہربان ہیں‘ وہ تو دلوں کا حال جانتے ہیں‘ وہ تو یہی دیکھیں گے کہ کس نے کتنی کوشش کی اور کس کی نیت میں کتنا اخلاص تھا۔

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل۱۷: ۱۹)

اورجو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔

آخرت میں اجر ہمیں اپنی کوششوں کا ملے گا۔ دنیا کے امتحان میں تو حتمی نتیجہ دیکھا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کس شخص نے کتنی کوشش کی ۔مثال کے طور پر اگر ایک بچہ بہت محنت کرے اور بڑی مشکل سے پڑھائی کرے اور دوسرا بچہ جسے پڑھائی کے لیے تمام آسایشیں میسر ہوں تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے بچے کے نمبر زیادہ آئیں‘جب کہ اس کی بہ نسبت پہلے بچے نے زیادہ کوشش کی ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہماری کوشش دیکھیں گے۔ اور اجر اسی کے مطابق عطا کریں گے۔ بس پھر ہم تھوڑی کوشش کر کے تودیکھیں۔ اللہ تعالیٰ خود ہی ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔

کیوں نہ ہم سب آج سے یہ عزم کریں کہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے‘  اس کے پیغام کو سمجھیں گے‘ اور اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگیں گے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اس راستے پر رکھے جو اس کے نزدیک پسندیدہ ہو ۔ جب اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ ہو گی تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس امتحان میں ناکام ہو جائیں۔ ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میںبھی۔ ان شاء اللہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ کُلِّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ -

اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا بھی جو تجھ سے محبت رکھتا ہے‘ اور ہرایسے عمل سے محبت کا خواستگار ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔

اَللَّھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَ اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ وَمِنَ الْـمَائِ الْـبَارِدِ عَلَی الظَّمَأِ -

اے اللہ! اپنی محبت کو میرے ہاں‘ میرے اہل و عیال‘ میرے مال و دولت اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب فرمادے۔

اَللَّھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یَّنْفَعُنِیْ حُبُّہٗ عِنْدَکَ‘ اَللَّھُمَّ مَارَزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِّیْ فِیْمَا تُحِبُّ۔ اَللَّھُمَّ مَازَوَیْتَ عَنِّیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغاً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ -

اے اللہ! مجھ کو اپنی محبت عطا کر اور اس شخص کی محبت دے جس کی محبت مجھے تیرے نزدیک ہونے میں فائدہ دے۔ اے اللہ! جو تو نے مجھے عطا کیا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں تو اس کو میرے ان کاموں کے لیے قوت کا سبب بنا دے جن سے تو محبت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جو تو نے مجھ سے لے لیا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں تو اس کو میرے ان کاموں کے لیے فراغت کا باعث بنا جس سے تو محبت کرتاہے۔