فروری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

دین خیرخواہی ہے!

مجاہد شبیراحمد فلاحی قاسمی | فروری ۲۰۰۹ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

                حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ہم نے پوچھا:کس کے لیے؟ آپؐ نے فرمایا:اللہ کے لیے،اس کی کتاب کے لیے،    اس کے رسول کے لیے،مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے‘‘۔ (مسلم،  کتاب الایمان،باب بیان أن الدین النصیحۃ:۹۵)

                عربی زبان میں اَلنَّصِیْحَۃُ اخلاص کو کہتے ہیں ۔لغت میں نُصْحاً کے معنی خالص ہونا،جیسے نَ صَحَ الشَّیْیئُ: خالص ہونا،بے غل و غش ہونا۔ اسی طرح نَصَحَ الْقَلْبُ،دل کا کھوٹ وغیرہ سے پاک ہونا اور نَصَحَ لَہٗ، یعنی ایسی بات کرنا جس سے محبت اور شفقت کا اظہار ہو رہا ہو، جو اس کے شایان شان اور موافق ہو اور جس سے اس کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو رہا ہو۔

                یہ حدیث عظیم الشان مرتبے کی حامل ہے۔علما نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ان چار حدیثوں میں سے ایک ہے جو اسلام کے تمام امور کی جامع ہیں اور جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔(مسلم شرح النووی ،ص ۳۷، ج ۱، جز۲)

                صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جب اللہ کے رسولؐ کی یہ حدیث سنی تو انھوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !یہ خلوص اور خیر خواہی کا جذبہ ہم اپنے دلوں کے اندر کس کے لیے پیدا کریں؟ اللہ کے رسولؐ نے ترتیب کے ساتھ پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا۔

۱- اللّٰہ کے لیے

                اللہ کے لیے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک جانیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اسی طرح اللہ کی صفات کو اسی کے لیے مختص کریں، جیسے خالق،مالک،رازق،حافظ، رحمن، رحیم، حیّ،قیوم وغیرہ صفات اسی کے شایانِ شان ہیں۔قرآن شریف میں بے شمار مواقع پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔کوئی بھی مخلوق ان صفات کی متحمل نہیں ہو سکتی،جیسے  سورۂ حشر کی یہ تین آیات:

ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُo ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (الحشر۵۹:۲۲-۲۴) وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا ،وہی رحمن اور رحیم ہے ۔وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا،نگہبان،سب پر غالب،اپنا حکم بہ زور نافذ کرنے والا،اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والااور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے،اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔

                اللہ کو ہی قانون ساز تسلیم کرنا،اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ،اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنا، یہ سب اسی اخلاص کے مظاہر ہیں۔اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک چھو ٹے سے فقرے میں یوں بیان کیا ہے: ’’میں اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوا‘‘ (مسلم، کتاب الایمان)،یعنی اس اقرار کے بعد اگر پوری دنیا میری مخالف ہو جائے تب بھی میں اس عہد سے نہ پھروں گا۔اللہ کو رب تسلیم کرنے کا مطلب اللہ کے سوا تمام معبودوں کا انکارہے ،چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ اللہ کو رب تسلیم کرنے کے بعد جو کیفیت ایک بندے کی ہوتی ہے،اس کا بیان اس آیت میں ہوا ہے: اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲) ’’بے شک میری نماز، اورمیرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ یہ تمام اعما ل ادا کرتے ہوئے اسے کسی اور کی خوشی اور رضا مطلوب نہیں ہوتی،اسے کسی کے انعام و اکرام کا لالچ نہیں ہوتا،اور وہ اللہ کی  محبت پر کسی کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔

                گویا اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ کی بندگی میں گزرتا ہے ۔ تمام معاملات میں وہ اپنی خواہشات کا پیرو نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے رب نے جس چیز کے کرنے کا حکم دیا ہے،اس پربغیر کسی لیت و لعل کے عمل کرتا ہے اور اس کے رب نے جس چیز سے بھی روکاہے اس سے رک جاتا ہے : اذْ قَالَ لَہُ رَبُّـہٗٓ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۳۱) ’’جب اس کے رب نے اس سے کہا :’’مسلم ہو جا‘‘،تو اس نے فوراً کہا:’’میں مالک کائنات کا مسلم ہوگیا‘‘۔

                اگر کسی کے اندر واقعی یہ کیفیت پیدا ہو،تو یہی دراصل اللہ کے لیے نصح اور خیر خواہی ہے۔

۲- اللّٰہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواھی

                اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ ہے جس کو اللہ نے اپنے برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔ اس میں کسی طرح کی کوئی ٹیڑھ نہ رکھی:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہٗ عِوَجًا o (الکہف ۱۸:۱) تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔

                اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ اگر کوئی چیز انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تو وہ یہی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے تمام احکام کو بے چوں و چرا تسلیم کیا جائے ،اور ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کو گوارا نہ کیا جائے۔ عملی طور پر اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی   یہ ہے کہ اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے: الَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہٗ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ ط (البقرۃ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے،اس کو یادکیا جائے ،اس کی حقیقی دعوت کو عام کیا جائے،اس کے احکام سے انسانوں کو آگاہ کیا جائے،اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے۔اگر صرف کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور اس کے بقیہ حقوق سے سبکدوشی اختیار کی جائے، یا اس کو چھوڑ کر انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے ساتھ اتنی عقیدت برتی جائے کہ کلام اللہ کی عقیدت ماند پڑ جائے تو یہ قرآن کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ زیادتی ہے۔انھی لوگوں کے بارے میں قیامت میں کہا جائے گا :

وَقَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا o (الفرقان ۲۵:۳۰) اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ،میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا۔

۳- اللّٰہ کے رسولؐ کے ساتھ خیر خواھی

                اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کیا جائے، آپ ؐ کی تمام تعلیمات  پر صدق ِ دل سے ایمان لایا جائے،آپ ؐ کے اوامر و نواہی کی اطاعت کی جائے اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے ۔     ان لوگوں کو دشمن سمجھا جائے جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کیے جائیں جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دل و جان سے محبت کرتے ہوں۔ اللہ کے رسول ؐ کی عزت و توقیر کی جائے ،آپؐ کی سنتوں کو زندہ کیا جائے،آ پؐ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کی اشاعت کی جائے۔آپ ؐ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاجائے ۔دراصل یہ تمام چیزیں آپ ؐ کی خیر خواہی کے اجزا ہیں۔

                آپ ؐ کے علوم کی نشر و اشاعت کرنا اور ان میںغور و فکر کرنا ،لوگوں کو اس کی طرف بلانا اور ان کو سیکھنا اور سکھانا اور احادیث کے دروس کے وقت ادب و اکرام کا مظاہرہ کرنا ،اور خاموشی کے ساتھ سننا بھی اس میں شامل ہیں۔آپ ؐ کے اہل بیت اور صحابہ ؓ کی محبت اپنے دلوں میں پیداکرنااورجو شخص آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت میں بدعت کا مرتکب ہو رہا ہو اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا بھی اسی کے مظاہر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ؐ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب رکھنا کمالِ ایمان اور کمالِ اخلاص کی دلیل ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہے جب تک کہ   میں اسے اس کے والدین،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘(بخاری)۔ اپنی تمام خواہشات کو اللہ کے رسول ؐ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع کرنا ایمان کو مزید پختگی بخشتا ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہوجاتیں‘‘۔

۴- ائمہ مسلمین کے ساتھ خیر خواھی

                ائمہ سے مراد مسلمانوں کے خلفا اور ان کے اُمرا ہیں۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی معاونت کی جائے۔اگر ان سے کبھی صحیح راستے سے انحراف ہو رہا ہو تو نرمی کے ساتھ عوام میں مشتہر کیے بغیر ان کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص کسی حکمران کو کسی چیز کی نصیحت کرنا چاہے تو علانیہ اس کا اظہار نہ کرے ،بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کراسے تنہائی میں نصیحت کرے۔اگر اس نے قبول کی تو بہتر،ورنہ تم نے اس کے بارے میں اپنی ذمہ داری ادا کر ہی دی‘‘۔ (مسند احمد)

                رہے وہ حکمران جو سیکولر نظام اور کفار کے آلۂ کار اور ان کی مرضی کے مطابق چلنے والے ہوں، ان کا حکم یہ ہے کہ ان کی سخت اور علانیہ مخالفت کی جائے، انھیں روکا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو دل سے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے‘‘۔ (مسلم)

                ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے عمل کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک ان میں یہ غلط رواداری پیدا نہ ہوجائے کہ بدی کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ (مسنداحمد)

                حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں بے وقوفوں کی حکمرانی سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ حکمران ہیں جو میرے بعد ہوں گے۔ جو ان کے پاس جائے گا اور    ان کے جھوٹ میں ان کی اعانت کرے گا وہ مجھ سے نہیں اور وہ میرے حوض پر میرے پاس نہیں آئے گا، اور جو ان کا ساتھ نہ دیں، ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کریں اور ان کے ظلم میں ان کے ساتھ تعاون نہ کریں تو یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے۔ یہ میرے حوض پر میرے پاس آئیںگے۔ (ترمذی، نسائی)

۵- عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواھی

                عام مسلمانوں سے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانے سے گریز کیا جائے ۔ان کے جو بھی حقوق ہوں، انھیں ادا کیا جائے، مثلاً ہمسایہ ہو تو اس کے ساتھ کسی ظلم و جبر کا معاملہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ     نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو‘‘۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم ایذاء الجار،۱۷۲)

                مہمان کے بارے میں فرمایا: ’’جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘‘(بخاری ،کتاب الادب،باب اکرام الضیف:۶۱۳۵)۔ اسی طرح اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دی جائے، کمزوروں کی مدد کی جائے،یتیموں اور مسکینوں کے مسائل میں دل چسپی لی جائے، اپنے قول و فعل سے ان کی مدد کی جائے اور ان کے عیوب کو چھپایا جائے۔بڑوں سے عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ کیا جائے۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔(ترمذی)

                اسی طرح عام لوگوں کو بہترین نصیحت کی جائے،ان کو معروف کا حکم اور منکر سے روکنے کی کوشش کی جائے، اور اس کام میں نرمی،اخلاص، شفقت اور محبت کا اظہار ہو۔ان کے ساتھ بُغض اور حسد نہ رکھا جائے (بخاری)۔ ان کو دھوکا نہ دیا جائے، اس لیے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (مسلم)۔ اسی طرح ان کے لیے خیر میں وہی چیز پسند کرنا جو انسان خود کے لیے پسند کرتا ہو،اور ان کے لیے شرکو نا پسند کرنا جس طرح اپنے لیے شر کو ناپسند کرتا ہو۔

                اللہ کے رسول ؐنے مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر ۶ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ؐ، وہ کون سے ہیں؟آپؐ نے فرمایا:

                ۱-جب اس سے ملو تو اس کو سلام کرو۔

                ۲- جب وہ تمھیں بلائے(دعوت دے)تو اس کی دعوت پر لبیک کہو۔

                ۳- جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اسے مشورہ دو۔

                ۴- جب اس کو چھینک آئے ،وہ الحمد للّٰہ کہے تو تم اس کے جواب میں یرحمک اللّٰہ (اللہ تم پر رحم کرے)کہو۔

                ۵- جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو۔

                ۶-جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو‘‘۔ (مسند احمد)

                ان حقوق کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اتنے ہی حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں، بلکہ یہ ۶ ایسے حقوق ہیں کہ ایک مسلمان کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،ان سے واسطہ پڑتا ہے۔    اس لیے جو شخص ان حقوق کے معاملے میں خیر خواہ ثابت ہو جائے، ان شاء اللہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ باقی تمام معاملات میں بھی نصح اور خیر خواہی اختیار کرے گا۔

                اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر صحیح معنوں میں نصح اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرے۔