فروری ۲۰۲۳

فہرست مضامین

برصغیر پاک و ہند میں تحریک ِ اسلامی کا ارتقا: مجدد الف ثانی ؒسے علّامہ محمد اقبالؒ تک

پروفیسر خورشید احمد | فروری ۲۰۲۳ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔

 پس منظر

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پیغام ان مقدس ہستیوںکے ذریعے پہنچا، جن کی تربیت دست ِ نبوت نے کی تھی اور جنھوں نے قرنِ اوّل میں اسلام کی دعوت کو پھیلایا تھا۔ کاشانۂ رسالتؐ سے دعوتِ اسلامی کی جو لہر اُٹھی تھی، اس نے پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سندھ کے ساحلوں کو چھو لیا تھا اور اس کے اثرات ملتان تک پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے حالات نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا کہ اسلام کی دعوت کو اس دور میں یہاں قدم جمانے اور مستحکم ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ صحیح ہے کہ دعوتِ اسلامی کی اس قدر مختصر مدت کے لیےآمد بھی اپنی برکات یہاں چھوڑ گئی، جس کے نقش آج بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن جو تہذیبی انقلاب اس کے جلو میں آنا مقدر تھا ، وہ یہاں برپا نہ ہوسکا۔

اس ابتدائی دور کے بعد اسلام برصغیر میںبادشاہوں اور سلاطین کے ذریعے سے پہنچا۔  ان ملوک میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی، نیک بھی تھے اور ظالم بھی، لیکن بنیادی طور پر ان کی حیثیت بادشاہوں کی تھی، داعی کی نہ تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، انسانیت کی خلافت اور قرآن کی حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ ان کے پیش نظر بڑی حد تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنا، اور اس علاقے کو اپنے زیرانتظام لانا تھا۔ چوں کہ ان میں سے متعدد سلاطین کی ذاتی زندگیاں بڑی حد تک اسلام کی منشا کے مطابق تھیں، اس لیے اور دوسرے مسلمان معاشرے کے دبائو کی وجہ سے، انھوں نے اپنی حکمرانی کے اَدوار میں بھی اکثر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے اسلام یہاں تک پہنچا، لیکن یہاں کا نظامِ حکومت بحیثیت مجموعی منہاج خلافت راشدہؓ پر قائم نہیں ہوا۔

مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جو فوجیں آئی تھیں، ان کے ذریعے سے بھی اسلام پھیلا۔ وہ لوگ یہاں آکر رہ بس گئے، مسلمانوں کا طرزِ زندگی اختیار کیا، دوسروں نے ان کو دیکھا اور ان سے مثبت اثر قبول کیا۔ اس طرح ان لوگوں نے بھی ایک طریقے سے تبلیغ کا کام انجام دیا اور اسلامی دعوت عوامی پیمانے پر پہنچائی۔ لیکن یہاں بھی اس کے اندر وہی خامی تھی کہ ایمان کی وہ حرارت اور دین کا وہ مزاج اپنی معیاری شکل میں موجود نہ تھا کہ جو قرنِ اوّل میں داعیانِ حق کی زندگیوں اور ان کے معاشرے میں نظر آتا ہے یا اُن مقامات پر ملتا ہے ، جہاں اسلام کی دعوت اُن کے ہاتھوں پہنچی تھی۔

 صوفیا کرام اور علما کا حصہ

پھر صوفیا اور علما نے برصغیر پاک و ہند کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں دین اسلام کو پھیلایا۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ دائرہ ٔ اسلام میں آئے، اُن کی اکثریت انھی نفوسِ قدسیہ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئی۔ ان حضرات نے اپنی پارسا، ستھری ، متوازن اور پُرکشش زندگیوں، گھرگھر اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں اور اپنی پیہم قربانیوں کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا، لیکن ان کے پاس صرف زبان کی قوت تھی ، حکومت کی طاقت نہ تھی۔ یہ اس نظام کو زندگی کے تمام شعبوں میں قائم کر کے دکھا نہیں سکتے تھے اور نہ مدینہ کی ریاست کا نمونہ پیش کرسکتے تھے۔ بہرحال، انھی کی مساعی کی بنا پر اسلام پھیلا اور ایک بڑے طبقے نے اسلام کو قبول کیا۔

برصغیر پاک وہند میں تبلیغِ اسلام اور اشاعت ِدین کے حوالے سے صوفیائے کرام کی خدمات پر مبنی سنہری کارنامے کا تذکرہ ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودود ی سے مستعار لے رہے ہیںـ:

مسلمانوں میںجو جماعت سب سے زیادہ تبلیغِ دین کے ذوق وشوق سے گرمِ سعی رہی ہے وہ وہی صوفیائے کرام کی جماعت ہے، جو آج [پاک وہند ] میں اس طرف سے تقریباً بالکل ہی غافل ہے۔خود یہاں اولیا و صوفیا نے جس بے نظیر استقلال اور دینی شغف کے ساتھ اسلام کی روشنیوں کو پھیلا یا ہے ، وہ ہمارے آج کل کے حضرات ِ متصّوِفین کے لیے اپنے اندر ایک عمیق درسِ بصیرت رکھتا ہے ۔یہاں کے سب سے بڑے اسلامی مبلغ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ [م:۱۲۳۶ء] تھے ،جن کی برکت سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ مریدین تمام ملک میں اسلام کی شمع ہدایت لے کرپھیل گئے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ [م:۱۲۳۵ء] نے دہلی کے اطراف میں ، فرید الدین گنج شکرؒ [م:۱۲۸۰ء] نے علاقہ پنجاب میں، نظام الدین محبوب الٰہیؒ [م:۱۳۲۵ء] نے دہلی اوراس کے نواح میں،حضرت سید محمدگیسو درازؒ  [م: ۱۴۲۲ء] شیخ برہان الدین ؒاور حضرت زین الدینؒ اور آخرِ زمانہ میں (اورنگ آباد کے ) نظام الدین ؒ نے دکن میں اور دورِ آخر میں شاہ کلیم اللہ ؒ جہان آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تبلیغ اوامرِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیائے عظامؒ نے بھی اس کام میں اَن تھک مستعدی سے کام لیا۔ [اسلام کا سرچشمۂ   قوت، اخبار،الجمعیۃ کے مضامین ۱۹۲۶ء، کتابی شکل ۱۹۶۹ء، لاہور، ص۵۸ ]

مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’پنجاب میں سب سے پہلے اسلامی مبلغ سید اسماعیل بخاری ؒ تھے جو پانچویں صدی ہجری میں لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ لوگ ہزار ہا کی تعداد میں ان کے ارشادات سننے آتے تھے اور کوئی شخص جو ایک مرتبہ ان کا وعظ سن لیتا وہ اسلام لائے بغیر نہ رہتا۔ مغربی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کا فخر سب سے زیادہ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ [م:۱۲۶۲ء ] کو حاصل ہے۔ علاقہ بہاول پور اور مشرقی سندھ میں سیدجلال بخاری ؒ کے فیضانِ تعلیم سے معرفت ِ حق کی روشنی پھیلی اوران کی اولاد میں سے مخدوم جہانیاںؒ [م:۱۳۸۴ء]نے پنجاب کے بیسیوں قبائل کو مسلمان کیا۔ ایک اور بزرگ سید صدر الدین ؒ اور ان کے صاحبزادے حسن کبیر الدین ؒ بھی پنجاب کے بہت بڑے اسلامی مبلغ تھے۔ حسن کبیر الدینؒ کے متعلق تواریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی۔ لوگ خود بخود ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔(اسلام کا سرچشمۂ   قوت،ص۵۸- ۵۹)

’’سندھ میں آج سے تقریباً سات سو برس پہلے سید یوسف الدین ؒ تشریف لائے اور ان کے فیضِ اثر سے لوہانہ ذات کے سات سوخاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کَچھ اور گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانوی  ؒ اور ملک عبداللطیف ؒ کی مساعی سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔بنگال میں سب سے پہلے جلال الدین تبریزی ؒ نے اس مقدس فرض کو انجام دیا، جو شہاب الدین سہروردی ؒ [م:۱۲۳۴ء] کے مریدانِ خاص سے تھے۔آسام میں اس نعمت عظمیٰ کو شیخ جلال الدین فارسی ؒ اپنے ساتھ لے گئے، جو سلہٹ میںمدفون ہیں۔کشمیر میں اسلام کا علم سب سے پہلے بلبل شاہؒ نامی ایک درویش نے بلند کیا تھا اور ان کے فیضِ صحبت سے خود راجا مسلمان ہو گیا، جو تاریخوں میں صدرالدین کے نام سے مشہور ہے۔پھر ساتویں صدی ہجری میں سید علی ہمدانی ؒ سات سو [مریدوں]  کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور تمام خطۂ کشمیر میں اس مقدس جماعت نے نورِعرفان کوپھیلایا ۔ اورنگ زیب عالم گیر [۳نومبر ۱۶۱۸ء-۳مارچ ۱۷۰۷ء]کے عہد میں سید شاہ فرید الدین ؒ نے کشتواڑ کے راجا کو مسلمان کیا اور اس کے ذریعے علاقۂ مذکور میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ دکن میں اسلام کی اِبتدا پیر مہابیر کھمدایتؒ سے ہوئی، جو آج سے سات سو برس پہلے بیجاپور تشریف لائے تھے۔ ایک اوربزرگ جو شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد میں سے تھے، علاقہ کونکن کے ہادی اور رہبر تھے۔ دھارواڑکے لوگ اپنے اسلام [قبول کرنے]کو شیخ ہاشم گجراتی ؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جو ابراہیم عادل شاہ [م: ۱۵۵۸ء] کے پیر طریقت تھے۔ ناسک میں محمد صادق سرمتؒاورخواجہ اخوند میر حسینی ؒ کی روحانی برکات کا اب تک اعتراف کیا جاتا ہے۔ مدر اس بھی اپنی ہدایت کے لیے چند صاحبِ حال بزرگوں کارہین منّت ہے، جن میں سب سے زیادہ مشہور سیّدنثارشاہؒمدفون ترچناپلی ہیں۔ دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ؒہیں جن کا مزار اَرداری میں ہے اور تیسرے بزرگ شاہ الحامد ؒ ہیں جن کا مدفن ناگور میں واقع ہے۔نیو گنڈا کی طرف اسلامی آبادی عام طور پر اپنے قبولِ اسلام کو بابافخرالدین ؒ کی طرف منسوب کرتی ہے، جنھوں نے وہاں کے راجا کو مسلمان کیا تھا۔ (اسلام   کا سرچشمۂ قوت، ص۵۹-۶۰)

’’صوفیائے کرام کی انھی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوئوں کی ایک بہت بڑی جماعت اگرچہ مسلمان نہ ہو سکی، مگر اب تک اسلامی پیشوائوں کی گرویدہ ہے۔چنانچہ ۱۸۹۱ء کی مردم شماری میں صوبہ شمال مغربی ہند کے ۶۴۳،۲۳،۲۳ ہندوئوں نے اپنے آپ کو کسی خاص دیوتا کا پرستار بتلانے کے بجائے کسی نہ کسی مسلمان پیر کا پجاری ظاہر کیا تھا۔ وہ لوگ ہندوئوں کی ایک کثیر آبادی پر اسلام کا غیر معمولی اثر چھوڑگئے مگر افسوس کہ آج ہم اس اثر سے بھی فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں ۔اسی طرح ہندستان سے باہر بعض دوسرے ممالک میں بھی اس مقدس تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں نے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہیں۔ خصوصیت سے جب فتنۂ تاتار نے [ہلاکو خاں (م: ۸فروری ۱۲۶۵ء) کی قیادت میں ۱۰فروری ۱۲۵۸ء کو مسلم عباسی]حکومت کے قصرِ فلک بوس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، توتمام وسطِ ایشیا میں صرف یہ صوفیائے اسلام کی روحانی قوت تھی ،جو اس کے مقابلے کے لیے باقی رہ گئی تھی اور بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی، لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ زبردست قوت بھی جس نے اَقطاعِ عالم میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور تاتارکے زبردست فتنے تک کو اس کے لیے مسخر کر دیا، جو قریب تھا کہ وسطِ ایشیا سے اس کو بالکل فنا کر دیتا، آج بالکل مضمحل ہو گئی ہے۔ اور اگر ہمارے محترم حضرات ِمتصوّفین ہمیں معاف کریں تو ہمیںاس امر واقعی کے اظہار میںکچھ تامل نہیں ہے کہ اب وہ اسلام کی برکات وفیوض سے دنیا کو معمور کرنے کے بجاے بہت حد تک خود ہی غیراسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کر رہ گئی ہے۔ (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)

’’ اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلوار کی رہینِ منّت ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر منحصر ہوتی تو وہ تلوار ہی سے فنا بھی ہوجاتی، اور اب تک تلوار سے اس پر جتنے حملے ہوئے ہیں،وہ اسے فنا کردینے میں قطعی طور پر کامیاب ہوجاتے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس نے تلوار سے مغلوب ہوکر تبلیغ سے فتح حاصل کی‘‘۔(ایضاً،ص۴۱)

 اجتماعی نظام کا قیام

اسلام ایک آزاد تحریک کی حیثیت سے بھی یہاں پروان چڑھا، لیکن وہ اجتماعی نظام برپا نہ ہوسکا جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، بلکہ جیسے جیسے سیاسی استحکام حاصل ہوتا گیا، ایک قسم کی داخلی کش مکش برپا ہوتی گئی۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام اس بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ اقتدار اور غلبہ اس کو حاصل ہو، لیکن یہاں پر یہ پوزیشن عملاً اس کو حاصل نہ تھی۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں کش مکش رُونما ہوئی، مطالبات اُبھرے، تحریکات پروان چڑھیں، اجتماعی طور پر جدوجہد کی گئی اور اس بات کی کوشش ہوئی کہ اسلام کو حکمرانی اور اجتماعی زندگی میں فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے کا موقع دیا جائے۔

سیاسی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں، جب ریاست کی قوت اسلام کے لیے بڑی حد تک استعمال بھی ہوئی، اس قسم کی ایک کوشش محمد بن تغلق [م:۲۰مارچ ۱۳۵۱ء] اور فیروز شاہ تغلق [۱۳۰۹ء-۱۳۸۸ء] کے زمانے میں ہوئی۔ پھر اسی قسم کی ایک کوشش اورنگ زیب عالم گیر [م:۳مارچ ۱۷۰۷ء] نے کی۔ ایسی مثالیں ہم کو کئی اور مقامات پر بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح ذاتی طور پر اچھے بادشاہ بھی نظر آتے ہیں، لیکن جس چیز کی کمی رہتی ہے وہ پورے اجتماعی نظام میں اسلام کا غلبہ ہے۔ اسلامی احیا کی تحریکات کا اصل مقصد یہی تھا کہ اس سرزمین پر غلبہ اسلام ہی کو حاصل ہو۔

صوفیائے کرام میں حضرت خواجہ باقی باللہؒ [۱۵۶۳ء-۱۶۰۳ء]کی کوششیں بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ مغلیہ دور میں آپ نے اسلام کی شمع کو تیز تر کیا اور عوام، خواص اور مغلیہ درباریوں کو متاثر کیا۔

 شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ 

آپ کے بعد احیائے دین کا پرچم، احمدالفاروقی سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ [۲۶جون ۱۵۶۴ء-۱۰دسمبر۱۶۲۴ء] نے اُٹھایا۔ انھوں نے عہد اکبری [۱۵۵۶ء-۱۶۰۵ء] میں جتنے فتنے پیدا ہوئے اور جو جو بدعتیں رائج کی گئیں، دین پر جس جس انداز سے مظالم ڈھائے گئے اور اس طرح اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، ان سب کے خلاف جہاد کیا۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

حضرت احمد سرہندیؒ نے مسلمانوں میں دین کی تعلیمات کو پھیلایا ، معاشرے کی عام ذہنی فضا کو اسلام کے حق میں تیار کیا، مغلیہ دربار کے بااثر لوگوں کو دعوتِ اسلامی سے متاثر کیا،امرا پر اپنا اثر ڈالا، علما اور مشائخ کو خدمت ِ دین کی عملی مساعی کی ترغیب دی۔ خود حکومت کی فوج میں تقریباً چار سال تک عسکری خدمات انجام دیں، اور اپنے خیالات کا پرچار کرتے رہے، تاکہ فوج کا سمجھ دار طبقہ ان تمام خرابیوں کو اچھی طرح جان لے، جو معاشرے میں راہ پا گئی تھیں۔

پھر اپنے خطوط کے ذریعے سے، آپ نے ان تمام لوگوں کو جو قومی زندگی میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے، انھیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شریعت کے قیام، احکامِ دینی کے نفاذ اور سنتِ  نبویؐ کے احیا کے لیے آمادہ کیا۔ انھیں اس بات کی مسلسل ترغیب دیتے رہے اور یہاں تک فرمایا کہ: ’’جو کام آپ حضرات کر رہے ہیں، اگر اس کو شریعت کے قیام کے ساتھ سرانجام دیں تو آپ وہی کام انجام دیں گے جو انبیا کرام ؑ نے انجام دیا ہے‘‘۔یہ وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے حضرت احمد سرہندیؒ نے دفاعِ اسلام کے لیے ایک مؤثر اور ہمہ گیر تحریک برپا کی تھی۔ انھوں نے شاہانہ استبداد کی پروا تک نہ کی اور دربار میں جاکر جہانگیر [۱۵۶۹ء-۱۶۲۷ء] کے سامنے کلمۂ حق بلندکیا اور اس ’جرم‘ پر قید کو ہنسی خوشی گوارا کیا۔ گوالیار جیل میں دو سال زیرحراست رہے۔   حضرت احمدسرہندی ؒکی پوری زندگی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی زندگی ہے اور ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

’بدعت‘ کے حوالے سے حضرت مجددؒ کا قول ہے: ’’لوگوں نے کہا ہے کہ ’بدعت‘ کی دوقسمیں ہیں: بدعت ِ حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حُسن و نُورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا‘‘۔[مکـتوباتِ ربانی ،اوّل، مکتوب ۱۸۴، ۲۶۰۔ دوم، مکتوب ۲۳، ۵۴ ]

 اسی طرح حضرت مجددؒ نے ایک نیازمند کو خبردار کرتے ہوئے لکھا: ’’اے سعادت مند عزیز، آپ کے مکتوب گرامی کے ایک فقرے میں ’خدیونشا ٔتین‘ لکھا تھا (جس کا مطلب ہے دونوں جہان کے بادشاہ)۔ یہ وہ نعت اور تعریف ہے جو صرف حضرت واجب الوجود اللہ جل شانہ کے لیے مخصوص ہے۔ بندہ مملوک کو جو کسی شے پر قادر نہیں، کیا لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اور اختیارات خداوندی میں دخل انداز ہو۔بالخصوص عالمِ آخرت میں کہ مالکیت و ملکیت کا کیا حقیقی اور کیا مجازی، حضرت مالک یوم الدین کے لیے مخصوص ہے‘‘ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۷۴]

جس ماحول میں حضرت احمد سرہندیؒ دعوتِ دین کا کام کر رہے تھے، اس کا اندازہ ان مکتوبات سے لگایا جاسکتا ہے:

ایک صدی سے اسلام پر اس قسم کی غربت چھا رہی ہے کہ کافر لوگ، مسلمانوں کے شہروں میں صرف کفر کے احکام جاری کرنے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام [و شعائر] بالکل مٹ جائیں، اور اسلام اور اہلِ اسلام کا کچھ اثر باقی نہ رہے۔ نوبت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسلامی شعائر کو ظاہر کرتا ہے تو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۸۱)

اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دو اضداد کا جمع ہونا محال ہے۔ پس ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمن کے ساتھ محبت کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔(اُن سے)ہم نشینی اور ملنے جلنے میں کم سے کم نقصان یہ ہے کہ شرعی احکام کے جاری کرنے اور کفر کی رسموں کو مٹانے کی طاقت مغلوب ہوجاتی ہے ، اور یہ حقیقت میں بہت بڑا نقصان ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۶۳)

مرکزِ سلطنت و حکومت کی اہمیت اور اس میں کارخیر کے امکانات کو ان کی درج ذیل  تحریر سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات وہ اپنے زمانے کے حاکم کی کر رہے ہیں، مگر اس کے مخاطب ہرزمانے میں اور ہرجگہ پر اہلِ اقتدار اور اہلِ دعوت ہیں :

بادشاہ کی بہتری کے لیے کوشش کرنا گویا تمام بنی آدم کی اصلاح میں کوشش کرنا ہے، اور بادشاہ کی اصلاح اس امر میں ہے کہ بلحاظِ وقت جس طرح ہوسکے کلمۂ اسلام کا اظہار کیا جائے۔ کلمۂ اسلام کے معتقدات بھی کبھی کبھی بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دیے جائیں اور مذہب [اسلام]کی مخالفت کی تردید کرنی چاہیے۔ اگر یہ دولت میسر آجائے تو گویا انبیاعلیہم السلام کی وراثت عظمیٰ ہاتھ آگئی۔ (مکتوبات ربانی، اوّل، مکتوب ۶۷)

حضرت مجدد صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے خلفا اور آپ کے مریدوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اپنے اپنے دائرے کے اندر، اور اپنے اپنے علاقے میں اس عظیم دعوتی، تربیتی اور اصلاحی کام کو انجام دیتا رہا۔ یہ اس کام ہی کا اثر تھا کہ مغل بادشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء] کی بے دینی کے مقابلے میں جہانگیر کے زمانے میں حالات کچھ سنبھلے۔ پھر جہانگیر کے بیٹے شاہجہان [۱۵۹۲ء- ۱۶۶۶ء] کے زمانے میں اسلامی احیا کا آغاز ہوا اور اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں حالات تقریباً بالکل بدل گئے۔ پہلے حالات جتنے اسلام کے مخالف تھے، اب وہ اتنے ہی اسلام کے حق میں ہوگئے،   پھر اورنگ زیب عالم گیر نے خود حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمدمعصومؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

عجمی تصوف کی اصلاح

دوسرا مغل فرماں روا نصیرالدین ہمایوں [۱۵۰۸ء-۱۵۵۶ء] جب ایران کی مدد سے دوبارہ ہندستان آیا تو وہ اپنے ساتھ بہت سے ایرانی ثقافتی اثرات اور شیعی عقائد کے پرچارک لے کر آیا۔ حضرت مجددؒ نے ان عجمی اثرات پر بھی کاری ضرب لگائی اور اسلام کو اس کے خالص رنگ میں پیش کیا۔ اسی طرح تصوف کی ہندستان میں جو شکل رواج پاچکی تھی وہ اسلام کی حقیقی روح سے بہت دُور ہٹی ہوئی تھی۔ آپ نے اس کی اصلاح کی اور اسے اسلام کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔حضرت مجددؒ لکھتے ہیں: ’’بعض خلیفوں کو ان کے مرید سجدہ کرتے ہیں۔ اس فعل کی شناعت اورکراہت ، سورج سے زیادہ روشن ہے۔ انھیں روکنا چاہیے اور پوری سختی اور تاکید سے منع کرنا چاہیے‘‘۔ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۲۹]

’ہمہ اوست‘ کے ویدانتی، اشراقی اور ہندی تصور کے مقابلے میں ’ہمہ از اوست‘ کا تصور پیش کیا، جس میں خالق اور بندے کی تفریق باقی رہتی ہے، اور خلق، خدا میں گم نہیں ہوجاتی ۔ اسی طرح ’تصوف‘ اور ’شریعت‘ کی پرانی کش مکش کو آپ نے دُور کرنے، اور دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی اور سنت ِ نبویؐ کے اتباع اور شریعت کی پابندی پر بے حد زور دیا۔

پھر مجددؒ صاحب نے ایک طرف اسلامی عقائد کی تدریس و تعلیم کا کارنامہ انجام دیا تو دوسری طرف عجمی اثرات اور غیراسلامی تصوف کی مخالفت کی، اور اسلامی تصوف کے اصول اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو پیش کیا۔ آپ نے مسلم معاشرے کے ہرطبقے میں اسلامی زندگی کو فروغ دیا اور ان میں حرکت پیدا کی، ملک کی سیاسی زندگی کو متاثر کیا، اور نظامِ حکومت کو شریعت کے تابع لانے کی منظم اور مسلسل کوشش کی: ’’ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلام سے بغاوت کی جو مختلف لہریں چل رہی تھیں وہ قدرے سُست پڑگئیں، البتہ جو بگاڑ ابتدا سے ہندی مسلم معاشرے کو چاٹ رہا تھا، وہ ختم نہ ہوسکا۔مختلف حیلوں، بہانوں سے خود مشائخ و اہلِ تصوف کی ایک تعداد کے ہاتھوں گمراہیاں، پسپائیاں اور بدعتیں راہ پاتی رہیں‘‘[آباد شاہ پوری، تاریخ جماعت اسلامی، حصہ اوّل، ص۲۷]۔ بلاشبہہ حضرت شیخ احمد سرہندی کی زندگی اور جدوجہد ، برصغیر ہند میں اسلام کے ایک زریں دور کی بازیافت ہے۔

شیخ عبدالحق دہلویؒ

اسی زمانے میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ [۱۵۵۱ء-۱۶۴۲ء]کی کوششیں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہیں، جنھوں نے خاص طور پر حدیث کی تعلیم اور احیا کی کوشش کی اور دین کے بارے میں ایک معتدل نقطۂ نظر کے فروغ دینے کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ وہ بلندپایہ فقیہ، بلندمرتبہ مصنف اور کمال درجے کے عالمِ دین تھے اور بعض حوالوں سے شیخ احمدسرہندیؒ کے ناقد بھی۔ علّامہ عبدالحیٔ حسنی لکھنوی لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالحق محدث دہلوی وہ پہلے عالمِ دین ہیں، جنھوں نے تصنیف و تدریس کے ذریعے سرزمینِ ہند میں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کی‘‘ [نزھۃ الخواطر، ج۵، ص۲۰۱، بحوالہ فقہاے ہند، از محمداسحاق بھٹی، ج۴، ص ۱۸۰]۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں علمِ حدیث کو جو ترقی حاصل ہوئی ، اس کا اوّلین سہرا شیخ عبدالحقؒ ہی کے سر ہے۔

جب مغل جہانگیر بادشاہ نے اپنے باپ اکبر کے خیالات سے دُوری اختیار کی، تو شیخ عبدالحق کے دل میں جہانگیر کے لیے خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ نے طے کیا کہ حاکم بے خبر ہے اور خیر کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس سے ملنا اور اس کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ اس لیے انھوں نے جہانگیر سے ربط ضبط قائم کرنے کے لیے خود پیش رفت فرمائی۔ ایک ممتاز محقق نے لکھا ہے: ’’ممکن ہے        شیخ [عبدالحق] کے رویے میں تبدیلی کا سبب خواجہ باقی اللہ کی تعلیم ہو، کہ خواجہ کا اصول تھا: ’جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک ارشاد و تلقین کا کام کرنا چاہیے، اور سلاطین سے علیحدہ رہنے کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔[خلیق احمد نظامی، حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۱۴۶]

  • اورنگ زیب عالم گیر:ایک طویل دورِ پُرفتن کے بعداورنگ زیب عالم گیر نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ مختصراً یہ ہے کہ:
    •  پورے ملک میں اسلام کے لیے ایک سازگار فضا بنا دی۔ وہ غلط چیزیں جو کھلے بندوں ہو رہی تھیں، اُن کی حوصلہ شکنی کی اور بدعتوں کو بند کیا۔
    • جب ماحول اور فضا اعتدال پر آئے تو اسی فرماں روا نے اسلامی قوانین کو مرتب و مدون کیا اور ان کو نافذ بھی کیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو اورنگ زیب نے انجام دیا۔ الفتاویٰ الہندیہ (فتاویٰ عالمگیری) کی تدوین ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ فتاویٰ آج بھی اسلامی قانون کے بہترین مجموعوں میں شمار کیے جاتے ہیں، بلکہ انگریزوں کے دور میں بھی جو تھوڑا بہت اسلامی قانون باقی رہا، اس کی ایک وجہ اس مدون قانون کی موجودگی بھی تھی۔
    • اس کے ساتھ ہی اورنگ زیب نے ایک نئے نظامِ تعلیم کی داغ بیل بھی ڈالی، جس کے ذریعے اسلامی نقطۂ نظر سے نئی نسلوں کو تعلیم دی جاسکے اور ایسے افراد تیار کیے جاسکیں جو ملک کے نظام کو چلانے کے قابل بن سکیں۔

دعوتِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اورنگ زیب کے یہ تینوں کام بے حد اہم ہیں۔ تاہم، اورنگ زیب کی آنکھیں بند ہوتے ہی، یعنی ۱۷۰۷ء کے بعد اٹھارھویں صدی میں وہ تمام اجتماعی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی کمزوریاں اور خرابیاں پوری قوت سے مسلمانوں میں اُمڈ کر  حاوی ہوتی نظر آئیں، جو خرابیاں گذشتہ صدیوں سے برگ و بار لا رہی تھیں۔ اس دورِ حکمرانی میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی تو کسی زمانے میں بھی مثالی نہیں رہی تھی، اب رہی سہی کسر بھی درہم برہم ہوگئی۔

شاہ ولی اللہ  ؒ

شاہ ولی اللہ ؒ [۱۷۰۳ء-۱۷۶۳ء]کا دور اُس زمانے پر مشتمل تھا، جب اورنگ زیب کی لائی ہوئی اصلاحات خطرے میں پڑگئی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ملک کے گوشے گوشے میں بغاوتیں سر اُٹھا رہی تھیں۔ ہرطرف بدنظمی، بدامنی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ اس زوال اور ہمہ پہلو انتشار کو ہندوئوں کی قومی، نسلی اور عسکری بنیادوں پر اُٹھنے والی تنظیموں نے تیز تر کر دیا تھا۔ جنوب میں مرہٹے عروج پکڑ کر دہلی کی طرف یلغار کر رہے تھے۔ دہلی کے اُس پار گنگ و جمن دوآبے میں جاٹ اُمڈ رہے تھے۔ سرہند، پنجاب اور سرحد[خیبرپختونخوا] کے علاقے سکھوں کی خوں آشامی کا نوحہ لکھ رہے تھے۔ بنگال اور ہند کے ساحلی علاقے انگریزوں کی تنظیم، سیاست اور عسکریت سے مغلوب ہورہے تھے۔ اور یہ سب مل کر مغلیہ سلطنت کو مختلف محاذوں پر شکست دے رہے تھے۔ نئی قوت انگریز اپنے قدم جما نے کے ساتھ اپنے اثرات کو مسلسل بڑھا رہا تھا۔

ان حالات میں شاہ صاحبؒ نے اسلامی احیا کے کام کا آغاز کیا۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو زندگی کے ایک ہمہ گیر پروگرام کی حیثیت سے قوم کے سامنے پیش کیا اور   اس پروگرام کے مطابق نہایت حکمت، دانش مندی اور حُسنِ توازن کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۷۰۳ء کے بعد سے جو بھی اصلاحی تحریک ہندستان میں اُٹھی، اس پر شاہ ولی اللہؒ کی فکر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ کوششیں جو راہِ اعتدال پر قائم نہ رہ سکیں،انھیں بھی اگر کہیں سے سنبھلنے کی تحریک حاصل ہوئی تو وہ شاہ ولی اللہؒ ہی کی فکر تھی۔ ایک ایمان دار مؤرخ     یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’گذشتہ ڈھائی سوبرسوں کو شاہ ولی اللہؒ کا دور قرار دیا جانا چاہیے‘۔

شاہ ولی اللہ ؒ نے اس بات کی کوشش کی کہ اُمت قرآن اور حدیث سے دوبارہ وابستہ ہو۔ مسلمانوں کی تاریخ اور اسلام کے مزاج کے گہرے مطالعے سے آپ نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ: نہ کلامی مباحث مسلمانوں میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں، نہ محض تصوف کی کرامات انھیں کسی بڑے کام کے لیے تیار کرسکتی ہیں، جو چیز مسلمانوں میں زندگی کی حرارت اور ہمہ گیر حرکت پیدا کرسکتی ہے وہ صرف قرآن اور سنت ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے قرآنِ پاک کا فارسی میں ترجمہ فرمایا۔ حدیث اور علومِ حدیث کی ترویج کی اور احادیث نبویؐ کے ذریعے احکامِ دین کی حکمتوں کو بلکہ دین کے پورے نظام کو واضح کیا۔ یہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے اور اسی خدمت کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمت میں دوبارہ اپنی اصل بنیادوں سے استواری کی کیفیت پیدا ہوئی۔

تاریخ اسلام سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ اس قوم کو جن لوگوں نے ترقی و تعمیر کی راہوں پر گامزن کیا ہے، وہ وہی افراد ہیں ، جنھوں نے اس کو قرآن اور سنت کی طرف بلایا ہے، خواہ وہ: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہوں یا امام ابوحنیفہؒ ، خواہ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام احمد بن حنبلؒ، خواہ وہ امام مالکؒ ہوں یا امام ابن تیمیہؒ، خواہ وہ امام غزالی ؒ ہوں یا محمد بن عبدالوہابؒ۔ یہی دعوت ہے جو اس اُمت میں کامیاب ہوسکتی ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرسکتی ہے۔ ملت ِ اسلامیہ کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ صرف اُن حضرات نے کیا ہے جنھوں نے اس کو قرآن و سنت کی طرف بلایا ہے۔ اس حقیقت کو شاہ صاحب نے محسوس فرمایا اور ہندستان کے نہایت تاریک حالات میں مسلمانوں کا ربط قرآن و حدیث کے ساتھ قائم کیا۔

  • اسلام ، ایک مکمل دین: شاہ ولی اللہ ؒ کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو ایک اجتماعی نظام، ایک مکمل دین اور ایک ہمہ گیر ضابطہ ٔ حیات کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ کے پیش نظر زندگی کے پورے نظام کی اصلاح تھی، اس کے محض کسی ایک پہلو کی نہیں۔ آپ نے زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے اسلام کی ہدایات کوواضح کیا۔ شاہ ولی اللہؒ کی تصانیف کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ: فلسفے سے لے کر عبادت کے مسائل تک، نجی زندگی سے لے کر سیاست و معیشت اور تمدن کے ارتقا کے اصولوں تک، فقہ کے مسائل سے لے کر تصوف کے حقائق تک، تمام پر  امام صاحب ؒ نے بحث کی اور ان کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اسی لیے شاہ صاحبؒ کی تحریروں کو پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے اِس عہد کا کوئی مفکر اپنے خیالات پیش کررہا ہے۔ ان کے خیالات میں ذرا بھی قدامت اور ازکار رفتگی نہیں پائی جاتی۔ ان کی تحریروں میں ایسی تازگی ہے، جیسی نسیم صبح کے ہر آنے والے جھونکے کی نشاط پروری۔
  • اعتدال اور جامعیت :شاہ ولی اللہ ؒ کے ہاں بڑا ہی اعتدال، بے مثال توازن اور حسین جامعیت ملتی ہے۔ فقہ کے تقریباً تمام مسلکوں کو انھوں نے اپنے سامنے رکھا اور اعتدال کی راہ پیش کی۔ تصوف کے جتنے بھی سلسلے ہندستان میں جاری تھے، ان میں سے بیش تر سے آپ نے خود استفادہ کیا اور جو تعلیمات پیش کیں،ان میں سب کی روح کو سمو لیا۔ جامعیت کا ایک فطری تقاضا اعتدال پسندی ہوتی ہے اور یہ بھی امام صاحب کی تعلیمات میں ہمیں بدرجۂ اتم ملتی ہے۔
  • جدید علم الکلام :شاہ ولی اللہ  ؒ نے ایک جدید علم الکلام کی بنیاد بھی رکھی اور یہ علم الکلام اُس علم الکلام سے بنیادی طور پر مختلف ہے جس کی ترویج یونانی فکر کے زیراثر معتزلہ اور فلاسفۂ اسلام کے ہاتھوں ہوئی ، بلکہ ایک حد تک اشاعرہ کے علم الکلام سے بھی یہ مختلف ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس میں قرآن کے طرزِ استدلال کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جس میں اس طریقے کو اختیار کیا گیا ہے، جو مشکوٰۃ نبوت سے ہم کو ملتا ہے۔ سیدھی سادی دلیلیں، دل میں اُتر جانے والی باتیں، دماغ کو مطمئن کر دینے والا استدلال، روز مرہ کے حقائق سے استشہاد، نہ اس میں فلسفیانہ موشگافیاں ہیں اور  نہ لایعنی اور لاطائل بحثیں۔ اس میں ذہنی عیاشی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ خیالی قسم کی غیرحقیقی بحثوں سے بھی یہ پاک ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس کا موضوع زندگی کے بنیادی حقائق و مسائل ہیں۔   یہ زندگی سے متعلق ہے، زندگی سے ہی مربوط ہے اور زندگی ہی کی حقیقتوں کو استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ علم الکلام ہے جو ہمیں بیسویں صدی میں پروان چڑھنے والی تحریک ِ اسلامی (چاہے وہ جماعت اسلامی ہو یا الاخوان المسلمون وغیرہ)کے لٹریچر میں ملتا ہے۔ اس طرح شاہ صاحب اور عہدحاضر کی تحریک ِاسلامی کے طرزِاستدلال میں بڑی مناسبت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
  • معاشی نظریات  : اللہ تعالیٰ نے شاہ ولی اللہ ؒکو دینی اور الٰہیاتی اُمور کے ساتھ معاشی، اقتصادی اور سماجی اُمور میں منفرد شان عطا فرمائی تھی۔ ان کے معاشی نظریات کو ہم اِن بیانات سے پرکھ سکتے ہیں:
    • جو معاشرہ کسی کی محنت اور جدوجہد کا قدر دان نہیں، اور اس کی مناسب اُجرت ادا نہیں کرتا، آجر اور مزارع پر ناقابلِ برداشت محصولات عائد کرتا ہے ، وہ قوم کا دشمن ہے، اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ 
    • پیداوار اور آمدنی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے سے تعاون کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو معاشرتی خرابیاں پیدا ہوں گی۔
    • زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ملک کے باشندوں کی صرف اتنی حیثیت ہے کہ جیسے مسافرخانے میں قیام کرنے والے مسافر کی ہوسکتی ہے۔
    • ملک میں جاگیروں کی کثرت نہیں ہونی چاہیے۔ جاگیریں جتنی زیادہ ہوں گی، اس قدر حکومت کے نظم و نسق کا ڈھانچا کمزور اور استحکام متاثر ہوگا، جس کے نتیجے میں کاشت کار پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔
    • کسی گروہ کی، کسی معاملے میں اس طرح اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد کو مالی یا ذہنی تکلیفوں میں مبتلا کرے۔
    • عیاشی کے مراکز اور جوئے خانے یک قلم بند کر دیے جائیں۔ اگر یہ باقی رہیں گے تو دولت کی تقسیم کا صحت مند نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
    • تمام انسان یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ کوئی شخص مالک الملک یا ملک الناس یا مالک قوم نہیں کہلا سکتا۔
    • بلالحاظ مذہب و نسل، تما م انسانوں میں عدل و انصاف، مال و جان کا تحفظ، عزت و ناموس کی حفاظت اور شہری حقوق میں یکسانیت سب کا بنیادی حق ہے۔
    • دولت کے مستحق وہی لوگ ہیں، جو اُجرت اور زراعت کے ذریعے یا دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔
    • ریاست کے سربراہ کی حیثیت، کسی وقف کے متولی کی سی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ [فقہاے ہند، پنجم، ص ۱۰۰۶-۱۰۰۷، ۱۰۱۸]
  • نظام تعلیم و تربیت : آپ نے محض خیالات پیش کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ایسا مرکز علم قائم کیا، جہاں سے ان خیالات کی اشاعت ہوسکے۔ جہاں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آئیں، ان خیالات کو حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے دائرۂ اثر میں جاکر ان کو پھیلائیں اور فروغ دیں۔ شاہ صاحبؒ نے ایک مؤثر نظامِ تعلیم وتربیت بھی قائم کیا۔آپ نے انسانوں کا ایک ایسا گروہ تیار کیا، جس نے ملک کے ہرحصے میں اس پیغام کو پہنچایا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اجتماعی حالات پر آپ نے غیرمعمولی اثرڈالا۔ ملک کے ایک ایک طبقے کو پکارا، اجتماعی زندگی پر تنقید کی۔ علما سے کہا: ’تم اپنا فرض یاد کرو‘۔ اہلِ سیاست سے کہا: ’تم اپنی قوم کو کہاں لیے جارہے ہو؟‘۔ امرا سے کہا: ’تمھاری یہ دولت کس کام آئے گی؟ اگر تم اس کو دین کی سربلندی کے لیے استعمال نہیں کرتے؟‘ عوام سے کہا کہ: ’اُٹھو اور اللہ کی راہ کے سپاہی بنو۔ اپنے فرائض کو پہچانو اور دین کو اجتماعی زندگی میں قائم کرنے کی جدوجہد کرو‘۔ ملک کے ہرطبقے کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر آپ نے دین کی دعوت پہنچائی۔

شاہ ولی اللہ کا عہد، ہندستان میں سیاسی لحاظ سے سخت بدامنی اور انتشار سے اَٹا ہوا تھا۔ ہرطرف بغاوت سر اُٹھائے ہوئے تھی۔ مرہٹے، سکھ، جاٹ، اُمڈ اُمڈ کر، دم توڑتی مغل سلطنت کو نوچ رہے تھے۔ ان شدید تاریک ماہ و سال میں بھی شاہ ولی اللہ مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ مرہٹے ایک سیاہ آندھی کی طرح رام راج اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے منصوبوں پر گامزن تھے۔ شاہ صاحب علم دین کے ساتھ سیاسی تدبر سے بھی سرفراز تھے۔ اس تباہ کن ماحول میں سیاسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے اُن کے سامنے دو راستے تھے: ایک یہ کہ روہیلوں کے رہنما نجیب الدولہ کو توجہ دلائیں اور دوسرے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو دعوت دیں۔

شاہ ولی صاحب نے احمد شاہ ابدالی [۱۷۲۲ء-۱۶؍اکتوبر ۱۷۷۲ء] کو ایک طویل خط لکھا، جس میں ہندستان کے سیاسی حالات اور عمومی زندگی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو درپیش شدید خطرات کا تفصیل سے تذکرہ تھا۔ ساتھ ہی یہ دعوت تھی کہ ان حالات کو درست رُخ دینے کے لیے وہ بامعنی قدم اُٹھائے۔ اس سے قبل احمدشاہ نےکئی بار ہندستان پر حملے کیے تھے، لیکن اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس نے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ ہندستان کا رُخ کیا۔ یکم نومبر ۱۷۶۰ء کو احمدشاہ پانی پت پہنچا، جہاں مرہٹوں سے زبردست معرکہ آرائی ہوئی:’’پانی پت کا میدان کارزار سجا، مدرسہ رحیمیہ کا ایک مدرس [شاہ ولی اللہ ] اس تاریخی جنگ کے نقشے تیار کر رہا تھا‘‘ [خلیق احمد نظامی، شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات، ص ۵۴]۔ ڈھائی ماہ تک معرکہ بپا رہا، مرہٹوں کو اس جنگ میں شکست فاش ہوئی۔ مرہٹہ جرنیل شیورائو اور اس کا بیٹا وشواس میدانِ جنگ میں خاک آلود ہوئے اور مرہٹوں کی وہ طاقت کہ جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے طوفان مچا رکھا تھا آن کی آن میں ماضی کا قصّہ بن گئی۔

امرِواقعہ ہے کہ یہ تدبیر حضرت شاہ ولی اللہ کی ہمت، دُوراندیشی اور بصیرت کا نتیجہ تھی۔[جاری]

حواشی

۱-         بعض مسلمان حکمرانوں نے اسلام کی اشاعت کے بجائے، ہندوئوں کو مندروں اور بت خانوں میں بھیجنے میں دل چسپی لی اور اس کو اسلام کی خدمت تصور کیا (محمداسحاق بھٹی ’فقہاے ہند، سوم، لاہور ، ص۴۳)۔ شیخ محمد اکرام نے ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کے بارے میں لکھا ہے: ’’ان کی روحانی حالت میں کوئی اہم تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ اگر پہلے وہ مندروں میں مورتیوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے تو اب مسلمان پیروں اور قبروں کے سامنے سجدے کرتے اور ان سے مُرادیں مانگتے۔ پجاریوں اور برہمنوں کی جگہ [ایسے] مسلمان پیروں نے لے لی تھی، جن کے نزدیک انسان کی روحانی تربیت کے لیے احکام اسلام کی پابندی، اعمالِ حسنہ اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی ضروری نہ تھی، بلکہ یہی مُدعا مراقبوں، وظیفوں اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوجاتا تھا۔ تعویذوں اور گنڈوں کا بہت زور تھا۔ ہندوجوگی اور مسلمان پیرکاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر خوش اعتقادوں کو دیتے اور یوں انھیں حصولِ مقصد کے صحیح اسلامی طریقوں سے باز رکھتے۔ [اسی طرح] معاشرتی رسموں کے اعتبار سے بھی مسلمانوں اور ہندوئوں میں کوئی بڑا فرق نہ تھا‘‘ (موجِ کوثر، ۲۰۲۱ء، ص۱۳-۱۴)۔اور سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے بقول: ’’یہ تو مسلمانوں کا حال تھا، رہے وہ مسلمان جو باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندستانی نومسلموں سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ ان پر عجمیت پہلے ہی غالب ہوچکی تھی… خالص دینی جذبہ بہت ہی کم لوگوں میں تھا۔ وہ یہاں آکر بہت جلد عام باشندوں میں گھل مل گئے۔ کچھ نے ان کو متاثر کیا اور کچھ خود ان سے متاثر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کا جو تمدن وجود میں آیا، وہ اسلامیت، عجمیت اور ہندوئویت کی ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا‘‘۔ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان، اوّل[مرتب: خورشیداحمد]،ص ۲۲)

۲-         اگر ایک طرف غیرمسلم، ہندوئوں کے ذات پات پر مبنی نسل پرستانہ اور طبقاتی جبر سے نجات پانے کے لیے مسلمان ہورہے تھے، تو دوسری جانب مسلمانوں میں سے کچھ مذہبی اور کچھ سیاسی پنڈت، ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے اسلام اور ہندومت کا ایسا ملغوبہ تیار کرنے اور متعارف کرانے میں مصروف تھے کہ جس سے نومسلم خوش ہوسکیں۔ اس ’ترقی پسندانہ‘ تحریک کو واضح طور پر مسلمان صوفیوں کے ایک قابلِ ذکر طبقے نے آگے بڑھایا جس میں ویدانتی عملیات اور اشغال، وحدت الوجود کے گمراہ کن تصورات اور جذب و سکر کی کیفیات کی مبالغہ آمیزی تقویت پہنچانے کا سبب بنتی رہی (فقہاے ہند، سوم، ص ۱۳)۔ یہ چیز جب ذرا ترقی کرگئی تو نمک کی اس کان میں بہت کچھ نمک بن کر رہ گیا، جو وحدت الادیان اور وحدت الوجود کے پردوں میں تخریب ِ دین کی شاہراہ کو وسعت دیتا گیا۔ (ایضاً، ص۱۵)