جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

امریکا کے صدارتی انتخابی نتائج جنگ و جدل کے مزیدچارسال عالمی سطح پر نئی حکمت عملی کی ضرورت

پروفیسر خورشید احمد | جنوری۲۰۰۵ | امریکا کے صدارتی انتخابی نتائج

Responsive image Responsive image

۲۰۰۴ء کے امریکا کے صدارتی انتخابات امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات بظاہر امریکا کی سرزمین پر اور امریکی ووٹروں کی شرکت سے واقع ہوئے لیکن عملاً ووٹ کے بغیر‘ دنیا بھر کے باشعور اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے والے افراد اس انتخاب میں شریک تھے جو امریکا اور دنیا کو جارج بش کی خطرناک اور جنگجویانہ سیاست سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر بڑا شہر‘ ہر ٹی وی اسٹیشن‘ ہر اخبار کا دفتر اور ہر سیاسی چوپال پولنگ اسٹیشن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا کے باسی اس انتخاب میں بش اور کیری کے انتخابی معرکے میں خود اپنے مستقبل کو تلا ش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے چشمِ فلک نے امریکا کے کسی بھی انتخابی معرکے میں یہ منظر نہیں دیکھا۔

جہاں تک امریکا سے باہر کی دنیا کا تعلق ہے‘ ہر اخباری جائزہ اور ہر راے عامہ کا سروے بھاری اکثریت سے جارج بش کے مقابلے میں جان کیری کی کامیابی کا اعلان کر رہا تھا۔ بات صرف عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا تک محدود نہ تھی‘ بلکہ یورپ اور جنوبی امریکا کے تمام ممالک بشمول انگلستان میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اگرچہ برطانیہ کی حکومت بش کی استعماریت کی طرف دار تھی لیکن وہاں کے عوام بھی بھاری اکثریت سے (کچھ جائزوں کے مطابق ۷۰ اور ۸۰فی صد) بش کی شکست کے متمنی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری نتائج آنے سے پہلے ہی کیری نے شکست تسلیم کرلی تو ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی اور امریکی ووٹروں کی اکثریت سے (گو مقابلہ قریبی تھا اور بش کو عمومی ووٹوں کا ۵۱ فی صد اور کیری کو ۵.۴۸ فی صد ملا اور انتخابی ادارے میں بش کو ۲۷۰ اور کیری کو ۲۵۲ ووٹ ملے) جارج ڈبلیو بش مزید چار سال کے لیے امریکا کے  صدر منتخب ہوگئے۔

عالمی ردعمل

حالات کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہوگا کہ عالمی راے عامہ اور امریکا کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکی ووٹروں کی اکثریت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ جارج بش کی جیت سے زیادہ سینیٹر کیری کی شکست ہے۔ اس لیے کہ وہ اور ان کی انتخابی حکمت عملی اُس جارج بش کو نہ ہلا سکے جس کی خود امریکی عوام کی تائید ۲۰۰۱ء میں ۹۰ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۴ء میں الیکشن سے چند دن پہلے صرف ۴۹ فی صد رہ گئی تھی (ٹائم میگزین‘ ۱۵نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۷)۔ یہ سب امریکی جمہوریت کے مخصوص آہنگ‘ میڈیا کی قوت‘ منظم اور طاقت ور لابیوں کی اثرانگیزی اور اصول اور اخلاقی اقدار کے بارے میں امریکی عوام کے مسخ شدہ اور ناقص وژن کا کرشمہ ہے کہ تباہ کاریوں کے تشویش ناک چار سالہ ریکارڈ کے باوجود جارج بش صدر منتخب ہوگئے اور اب امریکا اور اقوامِ عالم کو نئی آزمایشوں سے دوچار کریں گے۔

صدر بش نے اپنے مخصوص اندازمیں دعویٰ کیا ہے کہ ’’امریکا نے فیصلہ دے دیا ہے‘ اور مجھے اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے عوام کی جانب سے اختیار (مینڈیٹ) حاصل ہوگیا ہے‘‘۔ لیکن یہ دعویٰ اس اعتبار سے بہت محل نظر ہے کہ امریکا بری طرح تقسیم ہوگیا ہے اور دنیا کے سارے ہی ممالک کے عوام کی سوچ‘ جذبات اور توقعات اور امریکی قیادت کے عزائم اور اعلان میں اتنا بُعدواقع ہوگیا ہے کہ دنیا امن و سکون‘ قانون کی حکمرانی‘ بین الاقوامی انصاف کے حصول      اور جنگ وجدل سے پاک زندگی کے لیے‘ اپنے دیرینہ خوابوں کو پراگندا ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہرگوشۂ ارض پر بشمول امریکا بے یقینی‘ بے اطمینانی اور عدمِ تحفظ کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ بش صاحب یہ انتخاب خوف (fear) کی فضا پیدا کر کے جیتے ہیں اور اب ساری دنیا اس خوف کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ اگر کہیں کوئی خیر کا کلمہ ادا ہو رہا ہے تو وہ یہ ہے ’’بھلا ہو امریکی دستور کا‘ یہ بش کے آخری چار سال ہیں!‘‘ (امریکی دستور کے تحت کوئی تیسری مدت کے لیے صدرنہیں ہو سکتا)

۲۰۰۴ء کے امریکی انتخاب کا ایک غیرمعمولی پہلو یہ بھی تھا کہ امریکا اور یورپ کے اہم اخبارات نے ‘ جن کی روایت تھی کہ مضامین تو ہر مکتب فکر کے شائع کرتے تھے مگر ادارتی کالموں میں کسی صدارتی امیدوار کی تائید نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے اس روایت کو توڑتے ہوئے سینیٹرکیری کی کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود ووٹروں کو امریکا اور عالمی امن کے مفاد میں ان کو ووٹ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بات میں نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور اکانومسٹ لندن‘ یک آواز تھے جو دراصل ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے امریکا اور دنیا کو مزید کش مکش اور تصادم سے بچانے کے لیے کوشاں تھے۔ جب انتخابی نتائج میں بش کو فتح ہوئی تو جرمنی کے مشہور ہفت روزہ Der Spiegel نے سرورق پر امریکا کے مجسّمۂ آزادی کی آنکھوں پر امریکی جھنڈا باندھ کر امریکی عوام کی بند آنکھوں کا گلہ کیا۔ لندن کا ڈیلی مرر چیخ اٹھا کہ:

How can 59,054,087 people be so dumb?

۰۸۷‘۰۵۴‘۵۹ افراد اتنے نہ سوچنے سمجھنے والے کس طرح ہوسکتے ہیں؟

اور ماسکو کا پراودا یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ:

امریکا کے بنیاد پرست عیسائی طالبان کا عکس ہیں۔ دونوں اپنے خدا کی توہین کرتے ہیں اور انکار کرتے ہیں (اکانومسٹ‘ اسپیشل رپورٹ، ’’امریکی اقدار‘‘ ۱۳ نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۹)

انھی جذبات و احساسات کا اظہار امریکا کے ہمسایہ ممالک کے عوام کر رہے ہیں۔ جارج بش انتخاب کے بعد دو ملکوں میں گئے۔ ایک چلی‘ جہاں انتخابی نتائج کے فوراً بعد ایشیاپیسفک اکانومک کارپوریشن فورم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میںہزاروں انسانوں نے صدربش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ یہ بینر اٹھائے ہوئے تھے:

You have blood on your hands. We do not want you here.

تمھارے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں۔ ہم تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔

۲۰ سربراہانِ حکومت اور ۵۰۰ سے زیادہ کارپوریشنوں کے ذمہ داران میں سے سیاہ جھنڈیوں سے صرف ایک شخص کا استقبال کیا گیا اور وہ صدر بش تھے۔ یہ تھا عوامی ردعمل‘ جارج بش کے انتخاب کے بعدپہلے بیرونی دورے کے موقع پر۔ اس کے بعد ۳۰ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دوسرے ہمسایہ ملک کینیڈا گئے۔ وہاں بھی دونوں شہروں میں‘ یعنی اوٹاوا اور ہیلی فیکس میں ہزارہا انسانوں نے اسی طرح احتجاجی نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وکلا کی بڑی تعداد نے کینیڈا کے وزیراعظم پال مارٹن کو ایک یادداشت پیش کی جو انسانیت کے خلاف جارج بش کے جرائم کی چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں جارج بش اور امریکا کے ان جرائم کی فہرست دی گئی ہے  جو گذشتہ چار سال میں ان کی قیادت میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ان وکلا نے مطالبہ کیا کہ   جارج بش کا استقبال نہ کیا جائے بلکہ جنگی جرائم کے خلاف ان پر اسی طرح مقدمہ چلایاجائے جس طرح جرمنی کی سیاسی قیادت پر دوسری جنگ کے بعد نیورمبرگ ٹرائل کے ذریعے چلایا گیا تھا۔ الیکشن میں کامیابی‘ حقائق پرپردہ نہیں ڈال سکتی اور پروپیگنڈے کا کرّوفر عوامی جذبات اور احساسات کو دھندلا نہیں کرسکتا۔ امریکا کی موجودہ قیادت اور اس کے حواری حکمرانوں کو ہوا کے رخ کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرنا چاہیے کہ    ؎

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

انتخابی نتائج: بنیادی عوامل

بلاشبہہ ہر ملک کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کو مناسب سمجھیں‘ مسندِقیادت پر سرفراز کریں لیکن عالم گیریت کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ممالک جو عالمی کردار ادا کررہے ہیں‘ ان کی قیادت اور پالیسیوں کی تشکیل میں ان ممالک کے عوام اور قیادتیں بھی حصہ لیں (مداخلت کے بغیر) جو ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارے عوام اور سوچنے سمجھنے والے عناصر ان اسباب و عوامل کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو امریکا کے انتخابات‘ اس کے نتائج‘ اور عالمی پالیسیوں پر اس کے اثرات سے متعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی انتخابات کے جو نتائج نکلے اس کے اہم اسباب کیا ہیں اور ان سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا ایک ملک نہیں‘ عملاً ایک بّراعظم ہے۔ ۱۱۸ ملین ووٹروں نے اس انتخاب میں شرکت کی ہے لیکن تمام معروضی جائزے اس امر پر گواہ ہیں کہ امریکا کے عوام کی دل چسپی کا اصل مرکز و محور بین الاقوامی مسائل اور خارجہ پالیسیوں کے امور کبھی بھی نہیں رہے۔ ان کی اصل دل چسپی اندرونی مسائل سے ہوتی ہے۔ امریکی عوام کی معلومات دوسرے ممالک کے بارے میں بس واجبی سی ہیں۔ گو امریکا ایک مدت سے ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ اس وقت اس کی ۳ لاکھ فوجیں صرف عراق‘ افغانستان اور جنوبی کوریا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک میں موجود ہیں اور عسکری‘ معاشی اور ابلاغی‘ ان تینوں راستوں سے وہ دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے امریکا کی قیادت اور اس کی پالیسیوں کی صحیح تفہیم ساری دنیا کے پالیسی بنانے والوںکے لیے ضروری ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت اور میڈیا دونوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ہمارے ملک میں پالیسی سازی کے اجتماعی‘ شورائی اور اداراتی نظام کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں فردِواحد جو چاہتا ہے کرتا ہے اور سرکاری پارٹی کے ارکان اور ذرائع ابلاغ اس کی ہربات پر تعریف اور توصیف کے ڈونگرے برسانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور یہی ہماری اصل کمزوری ہے۔ ضروری ہے کہ امریکی معاشرہ ‘اس کے سیاسی نظام کی موجودہ کیفیت‘ وہاں پالیسی سازی کے طریق کار اور موثر قوتوں کا صحیح ادراک کیا جائے تاکہ پاکستان‘ اُمت مسلمہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اپنے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی مقاصد‘ عزائم اور مفادات کی روشنی میں صحیح خطوط پر پالیسی وضع کرسکیں اور متبادل حکمت عملی وجود میں لاسکیں۔ اسی لیے ۲۰۰۴ء کے انتخابات اور ان میں کارفرما عوامل کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۱- خوف کا احساس

ان انتخابات پر تحقیقی کام کے لیے تو ابھی کچھ عرصہ لگے گا لیکن فوری طور پر جو بات کہی جاسکتی ہے اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان انتخابات میں فیصلہ کن عنصر‘ کوئی مثبت ہدف یا کارکردگی نہ تھی بلکہ غالب چیز خوف کا احساس تھا جسے صدربش اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں نے بڑی کامیابی اور چابک دستی سے استعمال کیا۔ امریکا کی ایک امتیازی خصوصیت مادی خوش حالی اور عوام کا احساس امن وسلامتی ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ سال میں کوئی لڑائی امریکا کی سرزمین پر نہیں لڑی گئی۔ دونوں عالمی جنگوں کا میدانِ جنگ یورپ‘ ایشیا اور افریقہ تھے۔ امریکی افواج نے شرکت ضرور کی مگر لڑائی امریکی سرزمین پر نہیں ہوئی‘ اس لیے امریکی عوام و خواص جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا تجربہ نہیں رکھتے۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ۱۱ستمبر کو نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کی تباہی جس میں دنیا کے ۴۰ ممالک کے ۲ ہزار ۷ سو ۵۲ افراد ہلاک ہوئے دوسرا واقعہ ہے جس نے امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عدمِ تحفظ کے احساس کو نہ صرف اپنی پالیسی کا مرکز و محور بنایا بلکہ پوری انتخابی مہم جنگی خوف زدگی کی نفسیات (war-psychosis) کی بنیاد پر منظم کی اور اس جھانسے (trap) میں سینیٹر جان کیری بھی آگئے۔ انھوں نے بھی عراق اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کے سلسلے میں وہی زبان استعمال کی بلکہ بش سے زیادہ شعلہ بیانی کی کوشش کی جو بالکل مصنوعی تھی۔ فطری طور پر امریکی ووٹر نے زمانہ جنگ کے صدر کو ہی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ترجیح دی۔  یہی بش کا ترپ کا پتا تھا کہ جنگ کے دوران کمانڈر تبدیل نہ کرو۔ اس کے باوجود عراق کی جنگ اور دہشت گردی امریکی ووٹروں کی نگاہ میں فیصلہ کن عامل کے طور پر تیسرے نمبر پر تھے‘ یعنی ۱۹ فی صد‘ جب کہ معیشت اور روزگار دوسرے (۲۰ فی صد) اور اخلاقی اقدار اور خاندان کے نظام کا تحفظ پہلے نمبر (۲۲فی صد) پر تھے۔

یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ بش اور ان کی سیاسی ٹیم نے عراقی جنگ اور دہشت گردی (بین الاقوامی اور ملکی سطح پر) اور لبرل کیری کی وجہ سے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار (خصوصیت سے ہم جنس پرستی‘ اسقاطِ حمل اور جنسی بے راہ روی) کو خطرے کے دورخ بناکر    پیش کیا۔ اور یہی وہ منفی عامل ہے جس کی وجہ سے بش امریکا کے عوام کے مذہبی جذبات اُبھار کر خصوصیت سے قدامت پسند عناصر کی تائید کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ برازیل کے   صدر لولاڈی سلوا (Lula de Silva) نے اس پہلو کو بڑے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا:

خوف کا استحصال ایک بہت ترقی یافتہ اعلیٰ درجے کی سائنس ہے لیکن برازیل اس کلچر کا قائل نہیں ہے جسے امریکی انتخابات میں فتح حاصل ہوئی۔ ہمیں جس بات پر تشویش ہے وہ یہ کہ اپنی سلامتی کے دفاع کے نام پر امریکا ان جنگوں کوآگے بڑھائے گا جو اس نے شروع کیں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ یکم دسمبر ۲۰۰۴ئ)

اسی احساس کی بازگشت کو فرانس سے لے کر ملایشیاتک تمام اہم تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور احساسِ خطر میں مبتلا ہے۔ اس کا سیاسی فائدہ جارج بش نے بھرپور انداز میں حاصل کیا ہے۔

۲-  عیسائی قدامت پرست عنصر

دوسرا اہم پہلو امریکا کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں مذہب اور مذہب میں بھی عیسائی قدامت پرستوں اور انتہا پسندوں کا کردار ہے۔ امریکا دنیا کے دوسرے ملکوں میں سیکولرزم اور آزاد خیالی (لبرلزم) کا علم بردار ہے‘ مسلمان ممالک کو اپنے زعم میں مذہبی عناصر سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی تک کر رہا ہے‘ خصوصیت سے پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران کو ہدف بنایا ہوا ہے اور دینی تعلیم کو سیکولر سانچے میں ڈھالنے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ اور ان ملکوں کی قیادتوں کو سرکاری اور این جی اوز کے ذریعے زیردام لانے میں مشغول ہے۔ دین اور سیاست کے رشتے کو توڑنا اصل ہدف ہے۔ لیکن خود امریکا کا اپنا کیا حال ہے اور اس میں خصوصیت سے اس موثر‘ منظم اور نہایت طاقت ورگروہ کا جسے نیوکونز (neo-cons) کہا جا سکتا ہے کیا کردار ہے؟ یہ بات قابلِ غور بھی ہے اور چشم کشا بھی۔دستور میں ضرور ریاست اور مذہب کی تفریق کا اصول بیان کیا گیا ہے مگر تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۸۰ فی صد کہتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور ۶۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کی زندگی میں مذہب ایک موثر اور کارفرما قوت ہے (PEW کا سروے‘ مارچ مئی۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ اکانومسٹ‘ ۱۳ نومبر۲۰۰۴ئ)۔ تقریباً اسی تناسب سے اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں سے بے اعتنائی اور مخالفت کی کیفیت ہے۔ اس کی تائید گیلپ کے سروے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ۵۰ فی صد سے زیادہ امریکی اس کے قائل ہیں کہ چرچ کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جارج بش نے اس مذہبی جذبے کو بڑی کامیابی سے اپنی سیاسی مہم میں استعمال کیا۔ اپنے کو new-born عیسائی کی حیثیت سے سامنے لایا۔ یہاں تک دعویٰ کیا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ فرمانِ خداوندی کے مطابق کر رہا ہوں۔ اس کی الیکشن مہم کا اصل دماغ کارل روو  (Karl Rove) تھا۔ اس کی انتخابی حکمت عملی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ آیندہ بھی وہ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہ عجیب تضاد ہے کہ بش اور اس کے پالیسی سازوں کو امریکا میں تو مذہب کے کردار کا استحکام مطلوب ہے اور عالم اسلام میں مذہب کے کردار کا استرداد--- وہاں انتہاپرستی کو سینے سے لگانا اور یہاں جسے انتہاپرستی کا نام دیا جا رہا ہے اس کے خلاف جنگ اور روشن خیال اعتدال پسندی کی تبلیغ بلکہ اسے قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی سعی بلیغ۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اقبال نے جہاد اور جنگ کے پس منظر میں یوں واضح کیا تھا:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر

۳- انتخابی مھم کا منفی پھلو

امریکا کے صدارتی انتخابات کا تیسرا اہم پہلو اس کا منفی رنگ ہے۔ بش صاحب نے خود بھی اور ان کی پوری میڈیا ٹیم نے بھی‘ جان کیری کی شخصیت کو ہدفِ تنقید بنایا اور اسے منہدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ نجی زندگی‘ جنگی خدمات‘ ووٹنگ ریکارڈ کون سی چیز ہے جسے استعمال نہیں کیا گیا۔ پوری انتخابی مہم پر ۴ ارب ڈالر خرچ ہوئے جس میں سے ۴۵.۱ ارب ڈالر صرف ٹی وی کی اشتہاری مہم پر خرچ کیے گئے اور ایک نہیں دسیوں کتابیں اس مرکزی خیال پر لائی گئیں کہ کیری دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ (ملاحظہ ہو‘ Unfit for Command  از John E.O. Neil اور Jerome Corsi)

اگر دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت کا یہی معیار ہے تو ’’پھر کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘ ٹی وی پر دونوں امیدواروں کے مقابلے میں جان کیری کی ذہنی برتری اور پالیسی کے معاملات پر مضبوط گرفت کا اعتراف بلااستثنا سب نے کیا لیکن غیراخلاقی چالیں اس برتری کو بہا کر لے گئیں اور  ع

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا ’’سرمایہ دار‘‘

امریکی ایجنڈا

بش صاحب کا دعویٰ ہے کہ انتخابی نتائج نے ان کی عالمی پالیسیوں کی تائید کر دی ہے  اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ جرأت کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہوسکیںگے جو مندرجہ ذیل  خونی خصوصیات سے عبارت ہے:

۱- تن تنہا دنیا کے معاملات کو طے کرنے کی سعی اور اس کے لیے قوت کا بے محابا استعمال۔

۲- عالمی اداروں کو غیر موثر بنانا یا اپنی چاکری پر مجبور کرنا‘ خصوصیت سے اقوامِ متحدہ کو بے اثر کرنا‘ اس کے سیکرٹری جنرل کو بلیک میل کرنا اور اس طرح عالمی اداروں کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنا۔

۳- کسی متبادل قوت کو وجود میں نہ آنے دینا۔

۴- کسی بھی خود ساختہ خطرے کی بنیاد پر پیشگی حملوں کے ’’اصول‘‘ کا سہارا لے کر فوجی اقدام کرنا۔

۵- دنیا کے دوسرے ممالک میں‘ جہاںقیادت سے ناخوش ہوں ‘اسے اپنے اور دنیا کے لیے خطرہ قرار دے کر تبدیلیِ قیادت پر عمل ۔

۶- دنیا میں کسی بھی دوسرے ناپسندیدہ ملک کو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی درجے کی نیوکلیر طاقت بننے سے بہ جبر روک دینا۔

۷-  دنیا کے دوسرے ممالک میں قومی تعمیراور فروغِ جمہوریت کے نام پر تبدیلی کی تائید اور معاونت۔

۸- دنیا کے تیل کے وسائل پر قبضہ اور دنیا کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے آزاد عالمی تجارت کے نام پر حاصل کرنا‘ اور خود اپنی معیشت میں طرح طرح کی درآمدی پابندیوں اور  اعانتوں(subsidies) کو جاری رکھنا۔

یہ وہ بنیادی ایجنڈا ہے جس پر صدر جارج بش اپنی دوسری مدت صدارت میں کاربند رہنا چاہتے ہیں اور ان کے دست و بازو اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے فوراً بعد جو اقدامات انھوں نے کیے ہیں وہ ہوا کے اس رخ کا پتا دیتے ہیں مثلاً:

۱-  کولن پاول سے نجات اور ان کی جگہ کنڈولیزا رایس کو سیکرٹری خارجہ مقرر کرنا جو نیوکونزکی گل سرسبد اور پیشگی حملوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے فلسفے کی خالق ہیں۔

۲-  سیکرٹری دفاع رونالڈ رمس فیلڈ اور اس کے دست راست پال وولفورٹز کو باقی رکھنا حالانکہ ابوغریب کے واقعے کے بعد سے ان دونوں کی برطرفی کا مطالبہ ہر طرف سے ہو رہا ہے لیکن یہ بش صاحب کی آنکھ کے تارے ہیں۔

۳- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے عراق کی جنگ کو برملا ناجائز (illegitimate)  قرار دیا اور امریکا کے مطالبات تسلیم کرنے میں تردد کا اظہار کیا تو ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور اقوام متحدہ کی کرپشن کی باتیں کی جانے لگیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کے شدید احتجاج پر یہ لے فی الحال کچھ مدہم پڑگئی ہے لیکن اگر کوفی عنان       راہِ راست پر نہ آئے تو پھر اس لے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

۴-  فلوجہ پر حملہ اور عراق میں اجتماعی مزاحمت کی تحریک کو قوت سے کچلنے کے لیے فلوجہ کو ایک نشانِ عبرت بنانے کی کوشش۔ بش کے انتخاب کے بعد فلوجہ میں دو سو کے قریب امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور عراقی شہریوں کی ہلاکت کا کوئی ریکارڈ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ کئی ہزار افراد شہید ہوئے ہیں۔ فلوجہ میں حکمت عملی کا ایک اہم اور دردناک پہلو یہ تھا کہ سب سے پہلے امریکی فوج نے وہاں کے ہسپتال پر قبضہ کیا تاکہ ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ دنیا کے سامنے نہ آسکے اور زخمیوں کی آہ و بکا بھی دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

اس کے ساتھ ہی یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ صدر بش کے قریبی اور اندرونی حلقے کے جو دانش ور بش کی پالیسیوں کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام کرتے ہیں‘ وہ بڑھ چڑھ کر شام‘ شمالی کوریا‘ ایران اور سعودی عرب کو آیندہ ہدف بنانے کی باتیں کررہے ہیں‘ البتہ خود پاکستان کے صدر ان کے پسندیدہ اور محبوب افراد میں سرفہرست ہیں‘ ان کی تو تعریف کی جاتی ہے مگر ہر تحریر کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان پر مزید دبائوڈالا جائے کہ وہ دہشت گردی کی مہم میں اور     بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘ خود اپنے لوگوں کو نشانہ بنائے‘ مدرسوں کا مزاج لادینی بنائے‘ دینی سیاسی قوتوں کو غیرموثر بنائے‘ آزاد خیال سیاسی عناصر کو آگے لائے‘ حدود قوانین اور ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کرے‘ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالے اور معیشت کو بیرونی مصنوعات کے لیے کھول دے۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرف سے یلغار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو اس پوری مہم میں اپنے اصل ساتھی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ جمہوریت پسندی کے سارے دعوئوں کے ساتھ ان کی وردی کو بھی (جو فوجی آمریت کی علامت ہے) اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر جنرل صاحب کا بھی حال یہ ہے کہ ایک سال میں چار بار امریکا تشریف لے گئے ہیں۔ بش اور مشرف کے رازونیاز کا یہ عالم ہے کہ  ع

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

امریکی عزائم

امریکی صدر کے قریب ترین حلقوں کی سوچ کے انداز کو سمجھنے کے لیے ہم صرف یہ اقتباس پیش کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ امریکی قیادت دنیا کو کہاں لے جانا چاہتی ہے اور مسلم ممالک کے سربراہ اس کے آلہ کار بننے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔

فرانس کا ایک مشہور دانش ور پیٹرک سیل (Patrik Seale) اپنے ایک تازہ مضمون میں امریکا کے ذہنی منظرنامے کا یوں جائزہ لیتا ہے اور اسے جمہوریت بذریعہ فتح (democracy by conquest) کا نام دیتا ہے:

نوقدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ عربوں پر تبدیلی باہر سے‘ اگر ضروری ہو تو طاقت کے ذریعے مسلط کی جانی چاہیے۔ پیشگی فوجی حملہ ایک آپشن رہنا چاہیے۔ عرب اسرائیلی تنازعے پر عربوں اور مسلمانوں کی مایوسی کو بآسانی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دشمنی محض گرم ہوا ہے‘ جیسے ہی امریکا کے دشمنوں کو کچلا جائے گا‘ یہ اُڑ جائے گی۔ ڈگلس فِیتھ اور ولیم کرسٹل دو سربرآوردہ نیوکونزہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پورے گروپ کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ فِیتھ پینٹاگون کی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عام طور پر اسی کو کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے وہ خفیہ معلومات وضع کیں اور استعمال کیں جن کی وجہ سے امریکا نے جنگ شروع کر دی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ برسرِمنصب ہے اور بش کی دوسری مدت میں اس کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

فِیتھ نے‘ جسے اسرائیل کا گہرا دوست کہا جاتا ہے‘ یروشلم پوسٹ سے ۱۲دسمبر کے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک کرنے میں لیبیا کی پیروی نہ کی تو ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس نے پیش گوئی کی کہ عرب دنیا بشمول مصر‘ سعودی عرب اور اُردن جیسے حلیف ممالک میں آیندہ چار سال میں بش کی خارجہ پالیسی کا محور جمہوری اصلاحات کو ہونا چاہیے۔

ولیم کرسٹل حکومت میں شامل نہیں ہے اس لیے وہ زیادہ کھل کر بات کر سکتا ہے۔ وہ امریکی پریس کا اسامہ بن لادن ہے۔ ہمیشہ عرب دنیا اور ایران کے خلاف امریکی جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مکالمے‘ سفارت کاری اور نیم دلانہ اقدامات میں یقین نہیں رکھتا۔ اس کی تکنیک تشدد پر کھلم کھلا اُبھارنا ہے۔

نیوکونز کے ترجمان ویکلی اسٹینڈرڈ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس نے صدام کا تختہ اُلٹنے کی مسلسل مہم چلائی۔ اب وہ امریکا کو علاقے کے دوسرے ممالک خصوصاً شام پر حملہ کرنے کے لیے اُکسا رہا ہے۔

اپنے مضمون میں کرسٹل گرجتا ہے: شام ایک دشمن حکومت ہے۔ ہم نے نرم و گرم دونوں طرح کی بات چیت کو آزمایا ہے۔ بات چیت ناکام ہوئی ہے۔ ہمیں اب  اسد کی حکومت کو سزا دینے اور روکنے کے لیے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس طرح کے فیصلہ کن اقدام کوجائز ثابت کرنے کے لیے وہ شام پر ان سرگرمیوں کی اجازت دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگاتا ہے جو نہ صرف ہمارے عراقی دوستوں کی بلکہ براہِ راست امریکی افواج کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔

کرسٹل کیا سفارش کرتا ہے؟ ’’ہم شام کی فوجی تنصیبات پر بم باری کر سکتے ہیں۔   ہم دراندازی روکنے کے لیے طاقت کے ساتھ سرحد سے کچھ پار جاسکتے ہیں۔ ہم مشرقی شام میں سرحد سے کچھ دور قصبہ ابوکمال پر قبضہ کرسکتے ہیں جو عراق میں شام کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور تنظیم کا مرکز معلوم ہوتا ہے۔ ہم شام کی حزبِ اختلاف کی کھلے اور چھپے حمایت کرسکتے ہیں‘‘۔

وہ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے: یہ وقت ہے کہ عراق اور وسیع تر مفہوم میں شرق اوسط میں جنگ جیتنے کے لیے ہم شام کے معاملے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ (روزنامہ Star ‘لندن ‘۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

امریکا کی The Inter-Press News میں جم ہوب(Jim Hobe) بش کے ساتھیوں کے عزائم کو یوں بیان کرتا ہے:

میڈیا کی مہم کا آغاز گذشتہ ہفتے ہوا۔ فائونڈیشن براے دفاع جمہوریت (F.D.D) کے تین تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون شائع کیا‘ عنوان تھا: ’’شام کا خونی کردار: اسد عراق کی دہشت گرد بغاوت کو امداد بہم پہنچا رہا ہے‘‘۔ ایف ڈی ڈی (ایک قدامت پرست گروپ ہے جو عموماً اسرائیل کی دائیں بازو لیکوڈ پارٹی کی حمایت کرتا ہے)۔

پھر ولیم کرسٹل نے جو منصوبہ براے نئی امریکی صدی (PNAC) کا بااثر صدر ہے ویکلی اسٹینڈرڈ کا ایڈیٹرہے‘ اپنے اداریے: شام کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت میں اسی موضوع کو لیا اور اس نتیجے تک پہنچا کہ عراق کی وجہ سے امریکی فوج پر حقیقی دبائوکے باوجود دمشق سے معاملہ کرنے کے لیے حقیقی راستے موجود ہیں۔

وال اسٹریٹ جنرل شرق اوسط کے بارے میں نیوکونز کی رائے کا قابلِ اعتبار اشارہ ہے۔ اس نے اپنے اداریے میں الزام لگایا: ’’شام دہشت گرد گروہوں کو مادی امداد پہنچا رہا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے اور عراقیوں کو کھلے عام مزاحمت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہا ہے‘‘۔

اداریہ ’’شام کے بارے میں سنجیدگی؟‘‘ میں بش انتظامیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اشتعال انگیزیوں پر ملے جلے سیاسی اشارے اور کمزور ردعمل دے رہی ہے اور اس بات پر ابھارا کہ جس طرح ۱۹۹۸ء میں ترکی نے کردوں کی حمایت کرنے پر دمشق پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاری کی تھی کم سے کم اسی طرح کے فوجی اقدام کی دھمکی دی جائے۔

حالانکہ شام امریکا سے ہرطرح کا تعاون کر رہا ہے اور اختلاف کا کوئی موقع نہیںدے رہا۔

مقابلے کی حکمت عملی

امریکا کی موجودہ قیادت کے عزائم کے بارے میں نہ کسی خوش فہمی کی گنجایش ہے اور نہ غلط فہمی کی۔البتہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

ایک یہ کہ امریکا آج خود اوپر سے نیچے تک بٹا ہوا ہے۔ بلاشبہہ صدر بش اور ان کے قریبی ساتھی ملک کو ایک خاص رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اس میں مذہبی انتہاپرست‘ صہیونی قوتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وہ قیادت جو فوجی صنعتی طاقت (Military- Industrial Complex)  سے تعبیر کی جاتی ہے اس وقت اصل فیصلہ کن قوت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانش وروں ‘ لبرل قوتوں اور عوام کا بڑا حصہ ان حالات پر دل گرفتہ ہے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش میں ہے۔ جارج بش کو ۵۱ فی صد ووٹ ضرور حاصل ہوئے ہیں اور ہر طرح کے سیاسی کرتب کرکے حاصل ہوئے ہیں لیکن جن تقریباً نصف ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور جن ۴۹ فی صد نے کیری اور دوسرے نمایندوں کو ووٹ دیے وہ بھی ملک کی ایک اہم سیاسی قوت ہیں اور کل فیصلہ کن قوت بن سکتے ہیں۔ اس لیے امریکا کو ایک سیاسی وحدت نہیں سمجھنا چاہیے اور اس سے مکالمے میں حکومت کے ساتھ دانش وروں اور دوسرے سیاسی عناصر اور قوتوں تک بھی رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کی قیادت دنیا میں جتنی ناپسندیدہ آج ہے‘ کبھی نہ تھی۔ کبھی امریکا آزادی‘ خوش حالی‘ عالمی امن‘ جمہوریت ‘ ترقی اور انسانی مساوات کی  علم بردار قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور ابراہم لنکن اور ووڈر ولسن سے لے کر جان کینیڈی اور جمی کارٹر تک (امریکا کی ساری خرابیوں کے باوجود) دنیا کو ایک مثبت پیغام دیتے تھے لیکن بش سینیر اور بش جونیئر کے دور میں امریکا کا جو چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو بُعد اور دُوری دنیا بھر کے عوام اور بہت سے ممالک کی قیادتوں کی طرف سے واقع ہوئی ہے‘ وہ عالمی سطح پر دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک مثبت شے ہے۔ اسے نظرانداز کرکے حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

پھر امریکا کی معیشت بھی ایسے دبائو کا شکار ہے کہ یہ اس کے موجودہ سیاسی کردار کو طویل عرصے تک سہارا نہیں دے سکتی۔ اس وقت بھی امریکا دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے اور دنیا کے بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکا ہڑپ کررہا ہے ‘یعنی تقریباً ۲.۱ بلین ڈالر روزانہ۔ اس کا بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ دونوں اژدہے کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں اور یہ صورت حال بہت عرصے نہیں چل سکتی۔ ڈالر پر برابر دبائو ہے اور یورو ایک متبادل عالمی کرنسی کے طور پر روز بروز ترقی کررہا ہے۔ یورپ میں امریکا سے بے زاری اور آزاد سیاسی اور معاشی پالیسی سازی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ چین اور جاپان اپنے اپنے طور پر عالمی قوت کے نئے مرکز کے طور پر رونما ہو رہے ہیں۔ لاطینی امریکا شمالی امریکا کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں ایک بار پھر بائیں بازو کے رجحانات ترقی کر رہے ہیں۔ روس بھی امریکا کی زور زبردستی سے بے زار ہے اور نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے امریکا واحد آپشن نہیں اور مستقبل میں سیاست کو ایک بار پھر کثیرقطبیت (multi-polarity)کی طرف بڑھنا ہے۔ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکا کے دامن سے نتھی نہ کرے اور اپنے اختیار کو کھلا رکھے اور آہستہ آہستہ خارجہ پالیسی میں آزادی سے قدم بڑھانے کی جگہ(independent space ) پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

پھر یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دنیا کے عوام ایک بڑی قوت ہیں اور ان کو طویل عرصے کے لیے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ محض حکومتوں کا نہیں عوامی قوت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ عوامی طاقت کو نظرانداز کر کے کسی پالیسی کو زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے دروبست درست کرتے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر خصوصیت سے امریکی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ امریکا ‘یورپ‘ چین‘ روس‘ افریقی اور ایشیائی ممالک سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کے سیاسی اور معاشی اتحاد کے لیے اقدامات اور کسی نہ کسی شکل میں مشترک دفاع کے نظام کو حقیقت کا روپ دینا‘ ہمارے وجود‘ آزادی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہرسطح پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ جس سہل انگاری اور کوتاہ بینی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو بالکل امریکا کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور مکمل طور پر امریکی ’گھڑے کی مچھلی‘ کے طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل کی جارہی ہے‘ وہ ملک کے مفاد سے متصادم اور تاریخ کے رخ کے حقیقی فہم سے عاری ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان امور پر کھل کر بحث ہو‘ پالیسی سازی کا کام تمام سیاسی قوتوں کے مشورے سے انجام پائے‘ پارلیمنٹ یہ کام کرے اور کسی ایک فرد کو سیاہ و سپید کا مالک نہ بننے دیا جائے۔ ہماری کمزوریوں کا بڑا سبب پارلیمنٹ کی بے بسی اور اجتماعی اور اداراتی انداز میں پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ اب اس روش کو یکسر بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لیے دستور کی مکمل بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور تمام جمہوری‘ سیاسی اور دینی قوتوں کا یک جان ہو کر ملک اور اس کے نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق ملک کی تعمیروترقی کے لیے جدوجہد کرنا ناگزیر ہے۔ عزت اور آزادی کا یہی راستہ ہے۔ اس وقت ذرا سی غلطی بڑے دُوررس اثرات اور نتائج پر منتج ہوسکتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ  تمام جمہوری قوتیں اس بنیادی مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں۔