جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

اے عازمینِ حج!

رضی محمد ولی | جنوری۲۰۰۵ | تذکیر

Responsive image Responsive image

تم کو اللہ کا مہمان بننا مبارک ہو‘  اللہ تمھارے حج کو قبولیت بخشے اور تم کو تمھارے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے ابھی ابھی تم نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔

اے اللّٰہ کے مھمانو!

احرام باندھتے ہوئے‘ طوافِ کعبہ کرتے ہوئے‘ زم زم پیتے ہوئے‘ صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے‘ منیٰ میں قیام کرتے ہوئے‘ عرفات میں وقوف کرتے ہوئے‘ مزدلفہ میں رات گزارتے ہوئے‘ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے‘ قربانی کرتے ہوئے‘ حلق کراتے ہوئے ‘ غرض ہر قدم پر اور ہر موقع پر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے رہو‘ اپنا احتساب کرتے رہو اس دن سے پہلے جب سب سے بڑا حساب ہوگا۔ اور یاد رکھو خدا کی قسم وہ حساب ضرور ہوگا!

ذرا سوچو!

ہمارے باپ ابراہیم ؑ نے یہ امور کیوں انجام دیے تھے۔ ایسا کون سا جذبہ کارفرما تھا‘  ان اعمال کی کیا روح تھی ‘  اللہ کو یہ کام کیوں اتنے پسند آئے کہ اس نے انھیں رہتی دنیا تک امر کردیا۔ بس کوشش یہ کرنا کہ ہمارا کوئی بھی عمل روح سے خالی نہ ہو ۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ کوئی بھی جان دار بغیر روح کے جان دار کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ تمھارے اپنے پیاروںکے‘ اپنے چاہنے والو ںکے جسم جب روح سے خالی ہو جاتے ہیںتو تم ہی کو بہت جلدی ہوتی ہے کہ ان کو ان کے اصلی گھر پہنچا دیں۔

کیوں؟… کیا کبھی سوچا تم نے؟…

اگر تمھارا جواب نہیں میں ہے تو میں تمھیں حقیقت بتاتا ہوں:

یہ تم اس لیے کرتے ھـو کہ!

ان کا جسم اب تمھارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا‘

اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو وہ بات نہیں کرتا‘

اس کو کچھ سنانا چاہتے ہو لیکن وہ تمھاری کچھ بھی سننے سے قاصر ہوتا ہے‘

تم اس کی پیاری سے پیاری چیز اس کو دکھانا چاہتے ہولیکن وہ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا‘

اگر زیادہ دیر اسے گھر میںرہنے دو  تو اس کا وہ جسم جس کاہونا کل تک تمھارے گھر کی مہک تھا‘ تعفن بن جائے گا۔

غرض ثابت ہوا کہ اصل چیز اس کی روح تھی ۔ جو اس کے وجود کو باقی رکھے ہوئی تھی۔ جب وہ اس کے جسم سے پرواز کر گئی تو گویا اس کا جسم محض ایک کھلونے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کیونکہ کھلونابھی کم از کم بچوں کے کھیلنے کے کام تو آتا ہی ہے۔

یاد رکہو!

تمھارا یہ حج اپنی روح سے خالی نہ رہنے پائے‘  اگر یہ اپنی روح سے خالی ہوا تویقین جاننا اس بناوٹی حج کی بھی وہی وقعت ہوگی جو ایک مردہ جسم کی ہوتی ہے ۔ جو اپنے اندر نقصان تو رکھتا ہے لیکن فائدہ کوئی نہیں رکھتا۔

اے سنتِ ابراہیمی ؑ کے پیروکارو!

  • جب احرام باندھو تو اپنے آخری لباس کفن کو مت بھولنا کہ آخر کار یہی تمھارا لباس ہوگا۔ جب طوافِ کعبہ کروتو اس میں مرکزیت کا جو درس پنہاں ہے اس پر ضرور غور و فکر کرنا۔
  • جب زم زم پیو تو اسماعیل کی تڑپ اور حاجرہ کے اللہ پر توکل کو نظروں میں رکھ کر اپنی آیندہ کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا۔
  • جب سعی کرو تو حاجرہ کی بے چینی اور اسباب کے لیے جدوجہد کو بھی خیال میں رکھنا کہ یہی کامیابی کی سیڑھی ہے۔
  • جب سر منڈواؤ تو غلامی سے آزادی کو یاد کرلینا کہ آج کے خداؤں سے جن کی ہم پیروی کرتے ہیں آزادی حاصل کرنی ہے۔
  • جب منیٰ میں قیام ہوتو اللہ کی عظمت کو یاد کرلینا کہ کل تک جو جگہ ایک بیابان کے سوا کچھ نہ تھی‘ آج ایک عظیم الشان بستی کا نظارہ پیش کررہی ہے اور کل پھر ایک ویرانہ ہوگی۔
  • عرفات کے میدان میں یومِ حشر آنکھوں کے سامنے رکھنا کہ اُس روز اسی طرح ایک ساتھ سب اکھٹے ایک ہی لباس میں اُٹھائے جاؤ گے ۔
  • مزدلفہ کی وادی میں قیام کے دوران اللہ کے عذاب سے پناہ مانگنا کہ جو اس کی خدائی میں شرکت چاہتے ہیں ‘اُس کا تکبّر مٹانے کے لیے بالشت بھر پرندے ہی کافی ہوجاتے ہیں۔
  • شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے اپنے نفس کے شیطان کو مارنا مت بھولناکہ اگر تم نے اسے زندہ چھوڑ دیا تو وہ تم کو جہنم کی سیر ضرور کروائے گا۔
  • قربانی کرتے ہوئے رضاے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو ہر قربانی کے لیے تیار رکھنا‘  چاہے یہ قربانی تمھارے مال کی ہو‘ وقت کی ہو‘ صلاحیتوں کی ہو‘ امنگوں کی ہو‘ خواہشوں کی ہو یا جان کی۔
  • احرام اُتارتے ہوئے یاد رکھنا کہ اب واپس دنیا میں جانا ہے اور دنیا میں رہ کر آخرت کو ترجیح دینی ہے۔

اگر تم نے حج کی اصل روح کو پالیااور اللہ کرے تم ضرور اس روح کو پاؤ ‘ تو یاد رکھنا تمھاری زندگی میں ایک انقلاب آنا چاہیے۔ جو گناہ پہلے کرتے تھے اب ان سے کنارہ کش ہوجانا اور اچھے کام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا۔

ذرا غور کرو !

ہر آنے والا دن تمھاری زندگی کی کتاب کا ورق اُلٹ رہا ہے ‘ اورتم خود ایک کتاب تصنیف کررہے ہو ۔ اس کتاب میں تم ہر وہ چیز لکھ رہے ہو جو سوچتے ہو‘ جو بولتے ہو‘ جو دیکھتے ہو‘ جو سنتے ہو‘  جوکرتے ہو اور جو کراتے ہو۔ اس کتاب میں کسی کو بھی ذرا سا بھی اختیار نہیں کہ کچھ گھٹا سکے یا بڑھا سکے۔ ایک دن اس کتاب کاآخری ورق اُلٹ جائے گا‘ اور یہ کتاب تمھارے ہاتھوں میں ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میں تم وہ انقلاب لے آئے جو معبودِ حقیقی کو مطلوب ہے تو یہ کتاب تمھارے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور دائیں ہاتھ میں اس کتاب کا ملنا کامیابی کی علامت ہے:

اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ’’لو دیکھو‘ پڑھو میرا نامۂ اعمال ‘ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا‘ عالی مقام جنت میں‘ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھائو اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔ (الحاقہ ۶۹:۱۹-۲۴)

اگر خدانخواستہ اُس روز یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو یہ اللہ کے دربار سے دُھتکارے جانے کی علامت ہوگا۔ اور جسے یہ کتاب بائیں ہاتھ میں دی جائے گی اُس کے لیے قرآن کا آئینہ دیکھ لو:

اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: کاش! میرا     نامۂ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش! میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا‘‘۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو سترہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارِ غم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقہ ۶۹: ۲۵-۳۷)

اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے !

یہ کتاب کس ہاتھ میں لینی ہے--- دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟