جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

قانون توہینِ رسالتؐ میں ترمیم کے مضمرات

محمد اسماعیل قریشی | جنوری۲۰۰۵ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۰ء میں اعلان کیا تھا کہ قانون توہینِ رسالتؐ کا غلط استعمال ہو رہا ہے‘ اس لیے اس کے ضابطہ ٔ کار (procedural law) کو تبدیل کرنا ہوگا۔ راقم نے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی جانب سے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ طریقۂ کار میں تبدیلی‘ اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کی ناروا کوشش ہے جو قومی اشتعال کا باعث ہوگی اور اس کے پس پردہ امریکا اور یورپ کی متعصب ذہنیت کارفرما ہے۔

پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران‘ جنرل موصوف بیرون ملک دورے پر تھے‘ وہاں انھیں اس بگڑتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس لیے انھوں نے واپسی پر ایئرپورٹ ہی سے قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومت کے چند اہل کاروں کی طرف سے صرف ایک تجویز تھی جو نادانستہ طور پر پیش ہوگئی۔ قوم اگر اسے ناپسند کرتی ہے تو ہم قانون توہینِ رسالتؐ کے طریق کار میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کیسے کرسکتے ہیں؟ اس لیے یہ تجویز فوری طور پر واپس لے لی گئی۔

امریکا اور یورپ یہ جانتے تھے کہ جنرل مشرف نے یہ بات مصلحتاً کہہ دی ہے لیکن اس بات کو بھی وہ برداشت نہ کر سکے۔ امریکا کی نیوکون (نئی قدامت پسند عیسائی) گورنمنٹ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس بیورو کے حوالے سے ۲۰۰۳ء کی انٹرنیشنل رپورٹ تیار کی ہے‘ (جو ۲۰۰۴ء میں منظرعام پر آئی)۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ کا سختی سے محاسبہ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی آزادی اور حقوق انسانی سلب ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں‘ خاص طور پر قادیانی/احمدی گروہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی زندگی اور جان و مال محفوظ نہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قانون کے سال ۱۹۹۱ء میں نافذ ہونے کے بعد سے اب تک ہائی کورٹ‘ فیڈرل شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ سے کسی شخص کو بھی سزاے موت نہیں دی گئی اور نہ کوئی سزایاب ہی ہوا ہے۔ ۱۵ کروڑ آبادی کے اس ملک میں ۶۷ مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان کی نظر میں یہ بھی تشویش ناک صورت حال ہے۔

جوں ہی یہ رپورٹ جنرل مشرف کے نوٹس میں آئی یا لائی گئی‘ ان کو ہمہ مقتدر صدر امریکا جارج ڈبلیو بش کی دست راست کنڈو لیزا رایس کی وہ وارننگ یاد آگئی کہ اگر پاکستان نے امریکی حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیاتو گاجر کی مدارات ختم کر کے چھڑی کے زور سے اسے راہ راست پر لایا جائے گا۔ چونکہ ہمارے صدر بڑے ہی امن پسند اور صلح جو جنرل ہیں‘ اس لیے انھوں نے نہایت پھرتی سے یوٹرن لیا اور الٹی زقند لگائی۔ ایسی زقند وہ کنڈولیزا کے پیش رو کولن پاول کی ایک کال پر‘ بش کی خوش نودی کے لیے مسلم ملک افغانستان کے خلاف ان کے اعلانِ صلیبی جنگ (کروسیڈ) پر بھی لگا چکے ہیں۔ اس مرتبہ یوٹرن لیتے ہوئے جنرل موصوف نے ضابطہ ٔ کار سے بھی آگے بڑھ کے خود قانون توہینِ رسالتؐ پر نظرثانی کا اعلان داغ دیا (مئی ۲۰۰۴ئ) ۔ اس اعلان میں حدود قوانین کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ یہ قوانین بھی انسانی ذہن کی تخلیق ہیں‘ یعنی سرقہ‘ ڈکیتی/حرابہ‘ بدکاری‘ قذف کے جرائم کی قرآن و سنت میں مقررہ سزائیں ماڈرن اجتہاد کی روشنی میں معاذ اللہ وضعی یا انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ اس پر مسلمان عوام‘ ان کے قائدین اور دینی رہنما تڑپ اٹھے اور حکومت کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔ دوسری طرف سے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھی میدان میں اتر گئی۔ سیکولر دستے پہلے ہی سے ان کی مدد کے لیے موجود تھے‘ مگر مصلحتِ وقت کے پیشِ نظر طے پایا کہ تمام اسلامی قوانین پر نظرثانی کی جائے جس کی رو سے کاروکاری یا قتلِ غیرت (honour killing) کو ’’قتلِ عمد‘‘ میں شامل کیا گیا۔ یہ ترمیم پرائیویٹ بل کے  طور پر پیش کی گئی تھی۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ میں کسی قسم کی کوئی ترمیم شامل نہ تھی۔

یہاں اس بات کا ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی چینل نے ۱۳ مئی ۲۰۰۴ء کو توہینِ رسالتؐ کے سلسلے میں ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا تھا جس میں راقم‘ وزیرمذہبی امور جناب اعجاز الحق اور مشمولہ سرکار پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی مسز فوزیہ وہاب کے علاوہ محبوب صدا ڈائرکٹر کرسچین اسٹڈیز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں یہ امور زیربحث تھے کہ کیا حکومت‘ امریکا کے دبائو میں توہینِ رسالتؐ کا قانون ختم کرنا چاہتی ہے؟ کیا طریقۂ کار میں تبدیلی سے قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ کیا سزاے موت ختم کرنے سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی؟

امریکی دبائو کے بارے میں ہمارا موقف بالکل واضح تھا کہ یہ امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی تائید میں امریکن ہیومن رائٹس بیورو کی رپورٹ کا دستاویزی ثبوت پیش کیا گیا لیکن وزیرمذہبی امور اور مسز فوزیہ وہاب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکا کے زیراثر ایسا کوئی کام نہیں کرتا۔ جناب محبوب صدا اور مسز فوزیہ وہاب کی رائے تھی کہ اس قانون کو ختم کر دینا چاہیے اور یہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے ایک متبادل تجویز یہ پیش کی کہ توہینِ رسالتؐ کی کم از کم سزا سات سال ہونا چاہیے۔ جب موصوفہ سے پوچھا گیا کہ تنسیخ یا ترمیم کے مطالبے کا کیا جواز ہے جس پر انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات میں عفو اور درگزر کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایذا دینے والوں کو معاف کر دیا تھا۔ مزید دریافت پر کہ کیا آپ قرآن سے یا ریاست مدینہ میں قیام کے بعد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا عمل بتلا سکتی ہیں کہ جب آپؐ نے توہین رسالتؐ کے ملزموں کو معاف فرما دیا ہو؟ اس پر موصوفہ نے تسلیم کیا کہ اس سلسلے میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ فی الوقت اس کا جواب دے سکیں۔

کرسچین کمیونٹی کے نمایندے جناب محبوب صدا کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ خود بائیبل میں پیغمبروں کی توہین کی سزا‘ سزاے موت ہے۔ کہنے لگے: بائیبل کا قانون کہیں لاگو نہیں۔ جب بتلایا گیا کہ برطانیہ‘ یورپ اور امریکا میں جو اپنے آپ کو سیکولر ہونے کے دعوے دار ہیں‘ وہاں بھی سزاے موت موقوف ہونے کے بعد توہینِ مسیحؑ کی سزا عمرقید کردی گئی ہے تو کہا گیا کہ ہمارا یورپ‘ برطانیہ اور امریکا سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم تو یہاں کی بات کرتے ہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکا میں کوئی فیصلے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کا کوئی علم نہیں۔ لیکن انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں ابھی تک کسی ایک شخص کو بھی توہینِ رسالتؐ پر سزا نہیں دی گئی۔

وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے برملا اعتراف کیا کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا‘  سزاے موت ہے۔ پارلیمنٹ کو توہینِ رسالتؐ کی سزا میں ترمیم یا تنسیخ کا کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے‘ لیکن چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ اصل قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر طریقۂ کار (procedural law) میں تبدیلی کی جائے۔ کیسی تبدیلی؟ کے جواب میں بتلایا کہ اگر کسی نے توہینِ رسالتؐ کا مقدمہ درج کرایا اور تفتیش یا انکوائری میں مقدمہ غلط ثابت ہو یا عدالت سے ملزم بری ہو جائے تو مقدمہ درج  کرانے والے کو سزاے موت دی جائے گی۔

ایک مسلمان کی نفسیات تو یہ ہے کہ وہ توہینِ رسالتؐ کو بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے مرتکب کو موقع پر ہی جان سے مار دینا چاہتا ہے۔ وہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم کو عدالت میں صفائی کا حق بھی نہیں دینا چاہتا جیسا کہ ہمارے مقدمہ توہینِ رسالتؐ میں وفاقی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی نے فیڈرل کورٹ کے سامنے اپنا ذاتی اور حکومت پاکستان کا موقف بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی یہی موقف تھا کہ ملزم گستاخِ رسولؐ کو موقع پر ہی اس کی نیت‘ ارادے اور قصد جانے بغیر ہی جان سے مار دینا چاہیے‘ جب کہ ہمارا واضح موقف شروع ہی سے فیڈرل شریعت کورٹ‘ ہائی کورٹ‘ سپریم کورٹ اور پریس کانفرنس میں یہی چلا آ رہا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملزم کو پوری طرح اپنی صفائی پیش کرنے کا حق قرآن‘ قانون اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ نیت اور ارادے کے بغیر توہینِ رسالتؐ یا حدود میں سزا نہیں دی جاسکتی۔

اب رہ گیا یہ اہم سوال کہ کیا توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم سے اس قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ کاروکاری/ قتلِ غیرت کے پرائیویٹ بل میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں یا اس کے طریقۂ کار میں ترمیم کا کہیں ذکر موجود نہیں۔ لیکن سرکار کے وزیر انچارج نے کاروکاری اور قتلِ غیرت (honour killing) جیسے گھنائونے جرائم کو نمایاں کرکے توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم کو کمال ہوشیاری سے قصاص اور دیت کے بل میں خلط ملط کر دیا اور ترمیم کی غرض و غایت کے بیان میں بھی اسے نظرانداز کردیا گیا۔ قصاص ودیت کے ترمیمی بل پر سرکار دربار کے حاشیہ نشینوں کے سوا ملک کی اپوزیشن‘ ایم ایم اے‘ اے آرڈی اور پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ ملک کے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ان غیراسلامی ترمیمات کو یکسر مسترد کر دیا۔

این جی اوز تک نے بھی غیرپارلیمانی اور دھونس کا طریقہ اختیار (بل ڈوز) کرنے پر اس اہم قومی بل کو متنازع قرار دیا۔ اس لیے یہ بل اور خاص طور پر توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار کا ترمیمی بل قانون بن جانے کے بعد بھی قلب و ذہن کے لیے ناقابلِ قبول رہے گا۔

پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۵۶ کی رو سے پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو قابلِ دست اندازی پولیس جرائم‘ قتل‘ توہینِ رسالتؐ اور دیگر سنگین جرائم میں اطلاع دینے یا رپورٹ کرنے پر مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا اختیار حاصل تھاجس سے مدعی کو یک گونہ اطمینان ہوجاتا کہ ملزم کے خلاف قانون حرکت میں آگیا ہے۔ اس طریقۂ کار میں ملزم پولیس کی تحویل میں آجانے سے قاتلانہ حملے یا وارداتِ قتل سے بھی محفوظ ہو جاتا تھا۔ علاقے یا ملک سے اس کے فرار ہونے کے راستے بند ہوجاتے کیوں کہ جرائم کے انسداد اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے تھانے اور چوکیاں شہر کے اندر  قریب قریب اور دیہاتوں اور قریہ قریہ میں ہمہ وقت موجود ہیں‘ یا ان کے افسر گشت کرتے ہوئے فریادیوں کو مل جاتے ہیں۔

دفعہ ۸-۱۵۶ ضابطہ ء فوجداری میں اضافی ترمیم کے ذریعے توہینِ رسالتؐ کے جرم سی-۲۹۵تعزیرات کی تفتیش کا اختیار صرف پولیس کے اعلیٰ افسر ایس پی کو دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایس پی کو اپنے ہیڈ کوارٹر آفس سے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے تھانوں کے اندر لاکر تو بٹھایا نہیں جا سکتا۔ ایس پی صاحبان تو صدرمملکت‘ گورنر‘ قطار اندر قطار وزیروں‘ مشیروں اورافسرانِ سرکار کے جان و مال کے تحفظ کے لیے شب و روز مصروفِ کار ہوتے ہیںکیوں کہ

انھی کے دم قدم سے اس ملک کی بقا اور استحکام وابستہ ہے۔ مزیدبرآں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کی روک تھام بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ایسے ہمہ مصروف اعلیٰ پولیس افسروں کو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے خلاف رپورٹ کی تفتیش اور انکوائری کی مہلت کہاں؟ ان حالات میں توہینِ رسالتؐ کا مدعی‘ جس کے دل میں رسول اکرمؐ کی عزت اور حرمت اس کی جان ومال‘ ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر ہوتی ہے‘ ایس پی صاحبان کی تلاش کے سلسلے میں ان کے دفتروں کے چکر لگانے کے لیے صبرایوب کہاں سے لائے گا۔

تاریخ کے واقعات کا تسلسل ہمیں بتلاتا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کا قانون موجود نہ ہو تو پھر جس کسی مسلمان کے سامنے اس گھنائونے جرم کا ارتکاب ہوگا‘ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مجرم کو موقع واردات پر ہی سزا دے گا۔ توہینِ رسالتؐ کا قانون ہونے کے باوجود ایسے سرفروش لوگوں کی بھی کمی نہیں جو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے مقدمات میں تاخیر بھی برداشت نہیں کرتے۔ چنانچہ لاہور کی جیل کے اندر ہمارے ہی مقدمہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم یوسف کذاب کے متعلق ایک قیدی کو معلوم ہوا کہ گستاخ رسولؐ قیدی کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد یورپ کی ایجنسیاں پاکستان سے باہر اپنے ملک میں لے جانے کے لیے منتظر ہیں تو اس قیدی نے اسے جیل کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اقرارِ جرم بھی کرلیا۔ اس گستاخِ رسولؐ کو مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی۔

چند ماہ قبل لبنان کی ایک گلوکارہ نے حضوؐر اکرم کے خلاف توہین آمیز گانے گائے تو اس کے شوہر نے اس کا گلا کاٹ دیا۔ نیوزویک کے ماہ نومبر۲۰۰۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ہالینڈ کے ایک بدقماش فلم ساز تھیووان گوخھ نے قرآنِ ناطق صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات وحی کی ایک نیم برہنہ اداکارہ کے ذریعے تضحیک اور بے حرمتی کرائی تو ایک مراکشی نوجوان نے اس کا کام تمام کر دیا۔

ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں قانون توہینِ رسالتؐ کے ضابطہ ٔ کار میں ترمیم کے ذریعے اسے غیرمؤثر بنانے کی کوشش ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ اس سے مسلمانوں کے برانگیختہ جذبات کا طوفانی بند (flood gate)کھل جائے گا جسے بند کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے ایسی مجوزہ ترمیم کو روبہ عمل لانا‘ کسی بھی لحاظ سے حکومت کا دانش مندانہ اقدام نہیں ہوگا۔