جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ

رضی محمد ولی | جنوری۲۰۰۶ | تذکیر

Responsive image Responsive image

موسمِ حج کی آمد آمد ہے‘ چمنستانِ مکہ میں کرۂ ارض کے ہر قریے‘ ہر بستی سے رنگ برنگے‘  خوشبوؤں سے معطر ‘رنگ و نسل کی تفریق سے عاری لاکھوں پھول کھلنے والے ہیں۔ ان پھولوں میں کالے بھی ہیں گورے بھی‘ عربی بھی ہیں‘ عجمی بھی‘ چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی‘ گویا کہ پھولوں کا ایک میلہ لگنے جارہا ہے۔ ایک ایسا میلہ جوہر دیکھنے والی آنکھ کو بھلا لگتا ہے اور محوِ حیرت کردیتا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی اس میلے میں شرکت کے متمنی اپنی حسرتِ نا تمام کو سینے سے لگائے اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے‘ اور ان گنت ایسے ہیں جو آج بھی ماہیِ بے آب کی مانند تڑپ رہے ہیں ۔ ایسے میں یقینا خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں ربِّ کائنات نے اپنا مہمان ہونے کا شرف بخشا۔

اللہ کا یہ ہر مہمان جب رخت سفرباندھتا ہے تو بے ساختہ ‘فرطِ جذبات سے پکار اُٹھتا ہے کہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں)۔ لوگ بڑے چاؤ سے اس در پر آتے ہیں‘ ساری توجہ مرکوز کرلینے کے لیے‘ زندگی کے چند لمحات کو انمول کرلینے کے لیے۔ یہاں کچھ بھی اہم نہیں اگر اہم ہے تو فقط ایک حاضری‘ حضوری کا احساس۔ لیکن ہم حاضر ہو کر بھی غیرحاضر رہتے ہیں۔ اُمت وسط کے شہسوارو!  ذرا ٹھیرو …اور لمحے بھر کو سوچو کہ تم جو پکار رہے ہوکہ حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!!! کیا اس کا ادراک رکھتے ہو؟ کیا تمھیں پتا ہے تم اپنے معبود کے  حقیقی معبود ہونے کا اقرار کررہے ہو؟ کیا یہ بھی جانتے ہو کہ تم تمام باطل معبودوں کی نفی کررہے ہو؟

اگر تمھارا جواب نہیں میں ہے‘ تو سنو!

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!

لفظ اللہ جس کی مالا جپتے جپتے تمھارے منہ نہیں تھک رہے‘ یہ لفظ اِلٰہ سے نکلا ہے۔ الٰہ کے معنی معبودِ کے ہوتے ہیں‘ وہ معبود جس کی پرستش کی جائے‘ جسے پوجا جائے۔ وہ خدا پوری کائنات کا مالک ہے۔ خالق وہ ہے‘ رزاق وہ ہے‘ موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے‘ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے‘ جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ ڈرنا چاہیے تو اس سے‘ مانگنا چاہیے تو اس سے ‘ سرجھکانا چاہیے تو اس کے سامنے‘ عبادت اور بندگی کی جائے تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی کے بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا نہیں۔  ہمارا اصل فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔ یاد رکھو! اگر ہم اس کے قانون کی خلاف ورزی کریںگے توہماری زبان‘ ہمارے ہاتھ پاؤں‘ اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ‘ ہمارے خلاف اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا۔ ایسی بے بسی ہوگی کہ ایک گواہ بھی صفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل پیروی کرنے والا نہیں ہوگا۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویزات پیش کردی جائیں اور فیصلہ اپنے حق میں کرالیں۔ وہاں رشوت بھی نہیں چلتی‘ اس لیے ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اللہ سورۂ تین میں خود کہتا ہے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنِ(التین ۹۵:۸)’’کیا اللہ سب حاکموں (انصاف کرنے والوں) سے بڑا حاکم (منصف) نہیں ہے‘‘۔

مگر تم نے تو کہیں اپنی نفسانی خواہشات کو معبود بنا رکھا ہے‘ کہیں مال و متاع کو‘ کہیں اپنے سے طاقت ورکو‘ کہیں اپنی مصلحتوں کو۔ خود غور کرو‘ کس معبود سے مخاطب ہو؟ اُس سے جو ہروقت تمھارے ساتھ ہے۔ اس سے جوتمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘ یا اس سے جس کا نبیؐ ہجرت کے موقع پر اپنے ساتھی (ابوبکرؓ) کی پریشانی دیکھ کر کہتا ہے: ابوبکرؓ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے‘ جن کا تیسرا اللہ ہے۔

آج تک جس نے بھی اُس کی حاضری کا دم بھرا ہے اُس کے لیے یہ زمین کانٹوں کا بچھونا ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف اس سفرِ مقدس میں حاضر نہیں ہے بلکہ ہماری حاضری تو وہ روز بلکہ ہرلمحے لگواتا ہے ۔ دن میں پانچ بار مؤذن اس کے دربار میں حاضری کی یاد دلاتا ہے۔ جب وہ اپنی اذان میں پہلا لفظ کہتا ہے اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)‘ یعنی اس نے بلا یا ہے جو سب سے بڑا ہے۔ اُس سے بڑا اس کائنات میں کوئی نہیں ہے‘ لہٰذا سب کام کاج چھوڑ دو‘ سب کھیل کود چھوڑ دو‘ سب سے ملنا جلنا چھوڑ دو‘ بڑے نے بلایا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی کمپنی میںکوئی شخص کام کررہا ہو اوربہت زیادہ مصروف ہو‘ ایسے میں کچھ دوست آجائیں تو کہتا ہے: یار! بعد میں آجانا مصروف ہوں‘ بہت ضروری کام ہے آج ہی ختم کرنا ہے۔ اگر گھر سے بیوی یا بچے فون کرلیں تو ان سے بھی وہی کہتا ہے جو دوست سے کہاتھا کہ بعد میں فون کرلینا کیونکہ ابھی بہت مصروف ہوں۔ لیکن ایسی مصروفیت میں اگر کوئی پیغام دے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو یا مینیجنگ ڈائرکٹر‘ یا جنرل مینیجر بلا رہا ہے‘ تو ایسے میں کام کرنے والا سب کچھ ویسے ہی چھوڑ دیتا ہے جیسا کہ رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنا انتظار بھی نہیں کرتا کہ اپنی چیزوں کو تو سمیٹ کررکھ جاؤں ‘ اور بھاگ کر جاتا ہے۔ اور ایسے ہی نہیں جاتا بلکہ اپنا حلیہ درست کرتا ہے‘ بالوں میں جلدی سے کنگھی کرتا ہے‘ نہ ہو توہاتھوں سے درست کرتا ہے‘ کپڑوں کی سلوٹیں درست کرتا ہے اور فوراً حاضر ہوجاتا ہے۔

بالکل اسی طرح جب مؤذن اذان دیتاہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنا دربار سجا لیا ہے اور اب تمھاری حاضری کا وقت ہے۔ بڑے نے بلا لیا ہے۔ پھر جب تم اپنے کاروبار میں لین دین کررہے ہوتے ہو اور کبھی ناپ تول میں ڈنڈی مار رہے ہوتے ہو تو وہ اُس وقت بھی حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کا حق دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کام کے عوض رشوت سے اپنے ہاتھوں کو ناپاک کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم بات کرنے میں جھوٹ بول کر اپنی زبان کو گندا کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی سے وعدہ کرکے جان بوجھ کر پورا نہیں کررہے ہو تے ہو‘وہ تب بھی حاضر ہوتا ہے۔جب تم کسی قسم کی خیانت کررہے ہوتے ہو چاہے مال میںہو یا شہادت دینے میں‘ تب بھی وہ موجود ہوتا ہے۔ جب تم سود کو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جائز کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ دیکھ کر تمھاری عقل پر مسکرا رہا ہوتا ہے۔ جب تم کسی کو اپنے سے حقیر جان کرتکبر کے نشے میں مست ہوتے ہو اور اپنی اناکے بُت کو ٹوٹنے نہیں دیتے‘ اُسی طرح جس طرح ابلیس‘ فرعون‘ نمرود اور ان جیسے بہت سوں نے اپنی انا کو قائم رکھا تھا‘ وہ اُس وقت بھی تمھاری نادانی پر افسوس کررہا ہوتا ہے۔غرض زندگی کے ہر ہر قدم پر وہ تمھارے ساتھ سائے سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا حاضری کے تصور کو آج کی طرح ہمیشہ تازہ رکھنا‘ تب ہی کامیاب رہوگے۔

لَبَّیْکَ لَا شَریِکَ لَکَ لَبَّیْکَ ،حاضر ہوں‘ نہیں کوئی شریک تیرا ‘میں حاضر ہوں!

رب کے لا شریک ہونے کا یہ اقرار صرف زبان سے نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے    ہو۔ اگر صرف زبان سے ہوا تو تمھیں منافقین کی صفوں میں لاکھڑا کرے گا‘ اور پھر ایک دن      اسفل السافلین میں ٹھکانا پاؤ گے۔  وہ تو بلند ہے اور بلندی کے اس درجے پر ہے کہ کسی کو بھی ہم پلہ برداشت نہیں کرسکتا اور نہ اپنی ذات کے شرک کو برداشت کرتا ہے۔ وہ تو لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ (ہے)‘ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا (الاخلاص ۱۱۲ : ۳)۔ گویا نہ اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہی ہے۔ وہ اپنی صفات کے شرک کو بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ وہی اس کائنات کو تنہا تخلیق کرنے والا ہے بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ (الانعام ۶: ۱۰۱) ’’وہ تو آاسمانوں اور زمین کا موجد ہے‘ اُس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے‘ جب کہ کوئی اُس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے‘ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘‘۔ وہی رزق فراہم کرتا ہے‘  وہی غریب نواز ہے‘  وہی داتا ہے ‘  وہی  حاجت روا اور مشکل کشا ہے‘ وہی دُعاؤں کا سننے والا ہے۔ وہ خود کہتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِـیْبُ دَعْوَۃَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا (البقرہ ۲: ۱۸۶)’’جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں تو کہہ دے کہ میں بہت ہی قریب ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں قبول کرتا ہوں‘‘۔ لہٰذا یہ اُس کا حق ہے کہ اس کے احکامات میں کسی کو شریک نہیں کیا جائے۔ اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق انفرادی‘ خانگی اور اجتماعی زندگی گزاری جائے ۔ وہ جس چیزسے کہہ دے رُک جاؤ تو رک جایا جائے اور جس کام کے کرنے کا وہ حکم دے دے تو بے چوں و چرا کر گزرا جائے‘ چاہے اس کے لیے پوری دنیا کی مخالفت ہی مول لینی پڑے۔ اگر اس کے احکامات سے تم روگردانی کرو گے تو گویا تم نے اس کو لا شریک نہیں مانا۔ اگر مصلحتوں کے تحت اس کی حکم عدولی کی تو سمجھو اپنی مصلحتوں کو اللہ مانا‘ اپنی خواہشات کے آگے ہتھیار ڈال کر اس کی حکم سے رو گردانی کی تو گویا خواہشات کو شریک بنا یا ‘ کسی سے ڈر کے اس کے حکم کو پسِ پشت ڈالا تو جان لو تم اس کے سوا جس سے ڈرے‘ چاہے وہ کوئی شخص ہو یا اقوام‘ اسے اللہ کا شریک بنایا۔

وہ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کا بتایا ہوا کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرو کیونکہ بظاہر تو وضع قطع یا حرکات و سکنات سے نظر یہ آتا ہوکہ اس کے بتائے ہوئے حکم کی پابندی کررہے ہو‘ لیکن دراصل اس کے پیچھے مقصد یہ کارفرما ہو کہ فلاں دیکھ کر میری تعریف کرے‘ مجھے پارسا کہے‘ متقی کہے‘ شجاع کہے‘ سخی کہے یا بہادر کہے‘ تو یاد رکھو تم نے جس کو دکھانے کے لیے وہ کام کیا‘ مثلاً نماز پڑھی کہ لوگ مجھے نمازی کہیں‘ خیرات دی کہ لوگ مجھے سخی کہیں‘ حج اس لیے کیا کہ لوگ حاجی صاحب کہیں ‘ زکوٰۃ اس لیے دی کہ جس کو دی وہ مرعوب رہے‘ جہاد میں حصہ اس لیے لیا کہ فوج میں ترقی ہو یا محلہ‘ گاؤں‘ قصبہ یا شہر میں بہادری کا عنوان کہلاؤ یا حکومتِ وقت سے کوئی تمغہ ملنے کی امید تھی‘ کوئی درس و تدریس کا کام محض اس لیے کیا کہ لوگ عالم کہیں‘ مفتی کہیں‘ سادہ لباس اس لیے  زیبِ تن کیا کہ لوگ متقی کہیں‘  اللہ والا کہیں‘ یا اسی طرح کا کوئی اور بظاہر نیک کام کیا تو فعلاً جسے دکھانے کے لیے وہ کام کیے انھیں اس کی خدائی میں شریک کیا ور ایسے لوگوں کے لیے اُس نے ایک حدیث کے مطابق فیصلہ کردیا ہے کہ منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں داخل کردوں گا۔

اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ،بلا شبہہ تمام تعریفیںتیرے ہی لیے ہیں اور نعمتیں سب تیری ہیں!

اللہ کو وَحدہٗ لَاشَرِیْکَ ماننے کے اقرار کے بعداب تم اس بات کا اقرار کررہے ہو کہ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں‘ یعنی ساری بڑائی اسی کے لیے ہے اور جو بھی نعمتیں اس کائنات میں پائی جاتی ہیں سب اس ہی کی جانب سے ہیں۔ تھوڑی دیر رک کر انسان خود اپنی ہی مثال لے لے۔ اس کو زندگی کے لیے ہوا‘ پانی‘ روشنی‘ آگ ‘ غذا‘ شفا‘ غرض اس طرح کی اور    بے شمار چیزیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا‘ عطا کیں۔ پھر اس کے علاوہ انسان اپنے جسم کو دیکھے۔ اللہ نے اس کو کام کرنے لیے دو ہاتھ‘ چلنے کے لیے دو ٹانگیں‘ سونگھنے کے لیے ناک‘ دیکھنے کے لیے آنکھیں‘ چکھنے اور بولنے کے لیے زبان‘ جسم کی مضبوطی قائم رکھنے لیے ہڈیوں کا ایک مکمل ڈھانچا عطا کیا۔ اگر صرف ہڈیاں ہوتیں ‘ اور اس جسم پر گوشت اور کھال نہ ہوتی تو اس کے اندر جو مشینری لگی ہوئی ہے اس کی موسمی اثرات اور دھول مٹی سے حفاظت ممکن نہیں تھی۔ رگوں میں زندگی کی رمق قائم رکھنے والا خون‘ اور اس خون کی پمپنگ کے لیے دل‘ فاضل پانی جسم سے خارج کرنے کے لیے گردوں اور مثانے کا نظام‘ خون کی پیدایش کے لیے جگر‘ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدہ اور آنتوں کا جال‘ غرض جس جس چیز کی بھی ضرورت ایک جان دار کو ہوسکتی تھی سب اس نے مہیا کردیں۔ وہ فرماتا ہے:  الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَo  (الانفطار ۸۲: ۷-۸) ’’(اے انسان) جس (اللہ) نے تجھے پیدا کیا‘ تجھے نِک سُک سے درست کیا‘ تجھے متناسب بنایا‘ اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین۹۵: ۴)’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔

اُس پروردگار نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ انسان کو بنادیا اور بس‘ بلکہ اُس کے لیے نباتات اُگائیں تاکہ ان سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرے‘  ان سے خارج ہونے والی آکسیجن سے روح کا رشتہ جسم کے ساتھ قائم رکھ سکے‘ اس سے حاصل ہونے والی لکڑی سے اپنی ضروریات اور آسایش کے لیے فرنیچر تیار کرسکے‘ اس کے تنے کی چھال سے کاغذ تیار کرسکے تاکہ علم کی پیاس بجھانے میں معاون و مدگار بنے‘ اس میں سے کچھ کو دوا بنادیا ۔ پھر حیوانات اس کی خدمت کے لیے بنادیے جن سے وہ اپنی غذا کے لیے گوشت میں شامل پروٹین اوروٹامن حاصل کر سکے‘ ان جانورں کی جلد سے اپنے لیے لباس تیار کرسکے ۔ آوارہ بادلوں کا ایک وسیع نظام قائم کیا جو ہر موسم میں اس انسان کے لیے سمندر سے پانی جمع کرکرکے لاتے اور برساتے ہیں۔ پھر سمندر ‘ دریا‘ پہاڑ ‘ آسمان‘ سورج‘ چاند ستارے‘ آسمان پر اوزون کی تہہ‘ غرض اسی طرح پوری کائنات میں بے شمار خزانے اس کے لیے جمع کردیے اور چیلنج کردیا کہ فبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّ بٰنِo(الرحمٰن ۵۵: ۱۳) ’’پس تم اپنے پرودگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘۔ اور ایک اور جگہ انسان کو اس کی حیثیت یاد دلادی کہ تو ایک انسان ہی ہے‘ میرا بندہ ہے‘ میرا محتاج ہے‘ میں نے علم بھی تجھ کو دیا لیکن اتنا ہی جتنا تو برداشت کرسکے۔ تو دعوے تو بڑ ے کرتا ہے لیکن ابھی تو تیرا حساب بھی اس قابل نہیں کہ اس کی نعمتوں کو گنتی کرلے۔ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط (ابراھیم۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم اُن کا پورا شمار نہیں کرسکتے‘‘۔

اے ضیوف الرحمن! تمھارا فرض ہے اتنے اعلیٰ رب کا شکر اپنے قول وفعل سے خود بھی اداکرو اور اس کی تلقین دوسروں کو بھی کرو۔ اگر تم انے ایسا نہ کیا تو  وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (العصر : ۱-۲)’’زمانے کی قسم! یقینا انسان خسارے میں ہے ‘‘کی تفسیر بن جاؤ گے اور اللہ نہ کرے تم اس کی تفسیر بنو کیونکہ اس کی تفسیر بننے والوں کے بارے میں فیصلہ لکھ دیا گیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِیَھْدِیَھُمْ طَرِیْقًا o اِلَّا طَرِیْقَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط  (النساء ۴: ۱۶۸-۱۶۹) ’’بے شک جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اُتر آئے‘ اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور انھیں کوئی راستہ بجز جہنم کے دکھائی نہ دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

لَکَ وَالْمُلْک ، ساری بادشاہی تیری ہے!

لہٰذا یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس رب نے بے حساب نعمتوںسے نوازا وہی بالآخر تعریف کا مستحق ہے‘ وہی اس لائق ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور وہی بادشاہی کا اصل حق دار ہے۔ بادشاہ وہی ہوتا ہے جس کا قانون چلتا ہے‘ جو نظام کا بنانے والا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی کوئی نظام بنائے وہ سب اس کے نظام میں ترامیم و اضافے ہوتے ہیں۔ عقل کو دیکھیں کیا کہتی ہے؟ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب بھی کوئی کمپنی نئی مصنوعات بناتی ہے‘ جیسے الیکٹرونکس‘ میکینکل مصنوعات وغیرہ تو اس کو فروخت کرتے وقت ہر خریدار کو ایک عدد کتابچہ فراہم کرتی ہے۔ اس میں اس کے استعمال کی تمام ہدایات درج ہوتی ہیں۔ جب تک ہم بنانے والے کی ہدایت پر عمل نہیں کریں گے کوئی بھی چیز ہمارے لیے بے کار ہے۔

اسی پر قیاس کریں کہ ایک انسان جس کو عقل بھی اللہ نے دی ‘ کام کرنے کی صلاحیت بھی اللہ نے دی‘ کار اور اس جیسی اربوں مصنوعات بنانے کا انداز اور وسائل بھی اسی نے فراہم کیے تو کیا وہ رب اتنی بڑی دنیا بناکر انسان کو اندھیرے میں چھوڑ دے گا‘ اور اس کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس دنیا کو کس طرح استعمال کرے‘ یہاں کس طرح رہے۔ یقینا ہمارا جواب نفی میں ہوگا ۔ اُس رب نے جو دانا ہے ‘ بینا ہے‘ سب جہانوں کابادشاہ ہے‘ اسی نے اتنی بڑی کائنات کو بنایا اور اس کائنات کے چھوٹے سے حصے دنیا میں انسان کو بسایا اور اس کو اس میں رہنے کے آداب سکھانے کے لیے‘ اس دنیا کو درست انداز میں استعمال کرنے کے لیے ‘ اس سے فائدے حاصل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انسانوں ہی میں سے اپنے نمایندے بھیجتارہا جس طرح دنیاوی حکمران اپنے سرکاری افسروں کو بھیجا کرتے ہیں۔ یہ نمایندے مختلف اوقات میں ضرورت اور حالات کے مطابق اس وقت تک مختلف شریعتیں لاتے رہے۔ بالآخر اس نے اپنا آخری ہدایت نامہ انسانوں کو عطا کیا جسے آج دنیا ’قرآن‘ کے نام سے جانتی ہے۔

یہ قرآن رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل دستور قرار پایا۔ اس میں انسانوں کے لیے چھوٹی بڑی تمام ہدایات درج کردی گئیں۔وہ تمام قانون وضع کردیے گئے جن کی ضرورت انسان کو پڑ سکتی تھی‘ جیسے اخلاقی قوانین‘ معاشی قوانین‘ عائلی قوانین‘ جنگ کے قوانین‘قانونِ شہادت‘ قانونِ قصاص ودیت‘ قانونِ وراثت ‘ قانونِ عدل‘ غرض یہ کہ جس قسم کی ہدایت اور راہنمائی انسان کو درکار تھی اس نے اپنے اس آخری دستور میں تفصیلی وضاحت کردی اور زندگی کا ایک گوشہ بھی ایسا نہیں رہنے دیا جس میں تشنگی چھوڑی ہو۔ اسی لیے اسے قرآنِ مبین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے‘ یعنی ایک کھلی کتاب۔ جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی اس کے قانونی نمایندے نے ان دفعات یا شقوں کی وضاحت کر دی اور اس وضاحت کو اسلامی اصطلاح میں حدیثِ نبویؐ کہا گیا۔ پھر حدیث بھی دو طرح کی ہوئی۔ ایک تو قانونی نمایندے حضرت محمدؐ نے قولاً تشریح کردی اور انسان کو یہ بتانے کے لیے کہ ان قوانین پر عمل ناممکن نہیں‘ عملاً قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر دکھایا۔

یہ اس رب نے اس لیے کیا کہ وہ اس دنیا کا بنانے والا ہے‘  لہٰذا اس پر حکمرانی بھی اسی کی ہونی چاہیے‘ حاکمِ بالا وہی ہے ۔ اگر کوئی اور اس کی دنیا کے قانون کو بنانے کی کوشش کرے گا وہ  فطرت سے ٹکرائے گا اور فساد کا سبب بنے گا کیونکہ وہ دنیا کے تمام پیچ و خم سے واقف نہیں ہوگا۔چاہے وہ دنیاکا کوئی بادشاہ ہو‘ پارلیمنٹ ہو‘ سینٹ ہو یا کچھ اور۔ اس لیے آج لَکَ وَالْمُلْک کی گردان کرنے والو! یہ بات اچھی طرح اپنے ذہنوں میں رکھو کہ تمھارا یہ کہنا کہ بادشاہی بھی تیری (اللہ کی) ہے‘ اسے عملی طور پر اپنے اوپر نافذ کرکے دکھاؤ اور جہاں جہاں خودساختہ ربّ اس کے قانونِ فطرت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوں‘ تمھارا فرض ہے کہ ان کا راستہ آگے بڑھ کر روک دو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو اپنے منہ اور قلم کی حد تک اس ہجت کو ضرور تمام کرو ‘اور تم ایسا بھی نہیں کرسکتے جو کہ آج کے دور میں مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں تو کم از کم ان کے ہم نوا نہ بن جاؤ اور دل سے برا جانو‘ تب ہی تم ایمان کا آخری درجہ پاسکو گے۔

اگر تم ایسا نہ کرسکے تو اللہ کو تمھارے دُور دراز سفر کرنے کی ‘ تمھاری مشقت برداشت کرنے کی‘ تمھارے مال خرچ کرنے کی ‘ بھاگ دوڑ کی کوئی حاجت نہیں وہ تو الصمد (بے نیاز) ہے۔ تمھارے اعمال کی قبولیت کی اولین شرط تمھاری نیتوں کاخالص ہونا ہے۔ جس کی نیتیں خالص نہ ہوں ان کا ابدی ٹھکانا جہنم کا بھی سب سے نچلا اوربھیانک درجہ قرار پاتاہے۔  اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج وَلَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًاo (النساء ۴ :۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پاؤگے‘‘۔ غور کرتے رہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم تو کہہ رہے ہو لَا شَرِیْکَ لَکَ ۔ تیرا کوئی شریک نہیں (اس بادشاہی میں) لیکن عملی دنیا میں اس کے دین کی دھجیاں بکھرتے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہے ہو___ خدارا لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… موت کی آخری ہچکی سے پہلے لوٹ آؤ ‘اور یقین کر لو کہ وہ تَوَّابُ الرَّحِیْمْ ہے۔