جنوری ۲۰۱۴

فہرست مضامین

امریکا افغان دو طرفہ سیکیورٹی معاہدہ

عالم گیر آفریدی | جنوری ۲۰۱۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

 امریکا اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا معاہد ہ بنیادی طور پر مئی ۲۰۱۲ئمیں ان دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے تزویراتی معاہدے کا تسلسل اور چربہ ہے جس میں زیادہ تر زور امریکا کی افغانستان میں فوجی موجودگی اور اگلے ۱۰سال تک افغانستان کے اندرونی اور بیرونی حالات پر اثرانداز ہونے پر دیا گیا ہے ۔ اس دو طرفہ سیکیورٹی کے معاہدے کے مندرجات پر شق وارجائزے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کے تحفظ اور اس خطے میں آیندہ برسوں میں امریکی عزائم کی نشان دہی کرتا ہے، نیز جس طرح سے افغانستان کی خودمختاری اور مفادات کو مجروح کیا گیا ہے وہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو یہ آیندہ برسوں میں خطے میں ایک نئی جنگ، خوں ریزی اور فساد کا سبب بنے گا۔ ذیل میں معاہدے کا شق وار جائزہ پیش ہے۔

یہ معاہد ہ۲۶ آرٹیکلز(شقوں) پر مشتمل ہے ۔اس کے ابتدایئے میں امریکا اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دیگر نکات میں اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس معاہدے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مئی ۲۰۱۲ء میں طے پانے والے تزویراتی شراکتی معاہدے کے تسلسل میں طے کیا گیا ہے۔ نیز یہ معاہدہ امریکا اور افغانستان کے درمیان دیر پا امن ، حفاظت ، استحکام اور ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد پر طے پایا ہے جس کا مقصد افغانستان کی سماجی ترقی اور علاقائی تعاون کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہے ۔ یہ معاہدہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوگا۔ اس معاہدے کے پہلے آرٹیکل میں معاہدے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے ۔ آرٹیکل (۲)میں اس معاہدے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان اغراض و مقاصد کے مطابق فریقین بہتر تعاون کے ذریعے امن و استحکام اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ طور پر بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے کام کریں گے ۔ آرٹیکل(۲ )کی ذیلی شق (۴) میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کی شکست دونوں فریقوں کا مشترکہ ہد ف ہوگا۔

 امریکا ایک نہیں کئی بار اس بات کا فخر یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس نے افغانستان سے القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کا صفایا کر دیا ہے ۔ اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما اپنی کئی نشریاتی تقریروں میں امریکی عوام کو افغان جنگ میں کامیابی اور وہاں سے القاعدہ کے خاتمے کی نوید سنا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان سے القاعدہ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر اگلے ۱۰برسوں تک افغانستان میں کون سی القاعدہ کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کرنا چاہتا ہے ۔ اس شق سے امریکی عزائم کا صاف پتا چلتا ہے کہ القاعدہ محض بہانہ ہے۔ امریکا کا اصل ہدف کچھ اور ہے۔

اس معاہدے کے آرٹیکل(۳) میں قوانین کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ جس کی ذیلی شق (۱)میںکہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے داروں پر افغان آئین اور قوانین کی پابندی لازمی ہو گی ۔آرٹیکل (۳) کی ذیلی شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے دونوں فریق افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھیں گے۔ ان شقوں سے متعلق یہ سوال ہر افغانی کی زبان پر ہے کہ کیا امریکا نے اب تک کسی بھی موقع پر افغانستان کے آئین اور خودمختاری، نیز بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے، جو وہ اب ان کی پابندی کرے گا۔ کیا امریکا اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں اب تک ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان شہری جن میں کم سن بچے ، خواتین اور بزرگ شامل ہیں امریکی بمباری اور ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔مساجد ، مدارس، حتیٰ کہ بارات اور جنازے بھی امریکی درندگی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رہے ۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغانستان میں اگلے ۱۰ سال تک متعین ہونے والی ہزاروں امریکی افواج کے ہاتھوں عام افغانیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ رہے گا۔

 زیر بحث امریکی افغان دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا آرٹیکل( ۴)، افغان افواج اور سیکیورٹی فورسز کی استعداد کاری اور ان کی تربیت اور ترقی سے متعلق ہے ۔یہ اس معاہدے کا سب سے طویل اور بصراحت بیان ہونے والا حصہ ہے جس میں زیادہ تر زور افغان نیشنل آرمی جسے امریکا گذشتہ کئی برسوں سے تیار کرنے میں مصروف ہے کی تربیت اور اس کی عسکری وحربی صلاحیتوں کے فروغ پردیا گیا ہے ۔ امریکا کی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کی اصل حقیقت آئے روز پوری دنیا پر ان خبروں کے منظر عام پر آنے کی صورت میں عیاں ہوتی رہتی ہے کہ آج فلاح مقام پر اتنے افغان فوجی طالبان سے آملے ہیں اور آج فلاں محاذ پر افغا ن فوجیوں نے امریکی حکام کا حکم ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ اسی طرح یہ خبریں بھی کئی دفعہ منظر عام پر آچکی ہیں کہ کسی افغان فوجی کے ہاتھوں اتنے امریکی جہنم واصل ہوئے ۔ باگرام ، قندہار ، گردیز ،جلال آباد اور ہلمند میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں افغان فوجی اہل کاروں کے ہاتھوں امریکی افواج پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں ا س بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج امریکا کے زیر تربیت افغا ن فوجی کل کو امریکا کے مکمل انخلا کی صورت میں طالبان اور حزب اسلامی کے منظم اور تربیت یافتہ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سر شار مجاہد ین کے سامنے ٹک سکیں گے ۔

اس معاہدے کا آرٹیکل (۶) بیرونی جارحیت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۱) میں افغانستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی اطراف سے حملہ آورمسلح افراد کی شورش کو قرار دیا گیا ہے جسے افغانستان کی سیاسی اور علاقائی سا  لمیت کے لیے سب سے بڑے چیلنج سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ یہی وہ شق ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر صدر حامد کرزئی کو سب سے زیادہ اختلا ف ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صدر حامد کرزئی اس شق میں افغانستان کے خلاف برا ہ راست مداخلت یا مسلح شورش کے ساتھ ساتھ افغانستان کے خلاف بیرونی سرزمینوں سے افغانستان میں لڑی جانے والی پراکسی جنگوں میں مبینہ طور پر ملوث افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کو بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کے زمرے میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بعض رپورٹس کے مطابق حامد کرزئی اس شق کی امریکی افغان معاہدے میں شمولیت کی آڑ میں نام لیے بغیر، جب کہ بعض رپورٹس کے مطابق نام لے کر پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کو نشان ز د کرنا چاہتے ہیں ۔ گو حامد کرزئی کی یہ خواہش تو ان کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوئی لیکن وہ اس معاہدے پر اب تک دستخط نہ کر کے ہر ممکن طور پر اپنی بات منوانے کے لیے امریکا پر دبائو ڈال رہے ہیں۔

 زیر بحث معاہدے کے آرٹیکل (۷)میں سہولیات اور استعمال ہونے والے علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۳)میں بصراحت کہا گیا ہے کہ افغان حکومت امریکی افواج کو متفقہ سہولیات اور علاقوں کے استعمال کا حق دیتی ہے ۔ ان مخصوص علاقوں میں امریکا کا اپنا حفاظتی انتظام ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ مقامات معاہدے کی حدتک تو افغان سرزمین پر واقع ہوں گے لیکن عملاً یہاں امریکیوں کا راج ہوگا اور یہاں کسی افغانی باشندے کو تو کجا پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ امریکا کی نظر میں افغانستان کی خود مختاری کا اندازہ اس شق میں ان الفاظ سے ہوتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اگر چاہے تو پیشگی درخواست کے ذریعے ان مخصوص علاقوں کا معائنہ کرسکتی ہے، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقۂ کار کا پور ا پورا احترام کرے گی ۔ گویا افغان حکومت کسی بھی شکایت کی صورت میں امریکا کے زیر استعمال کسی بھی افغان علاقے کے معائنے کے لیے نہ صرف امریکا سے پیشگی درخواست کی پابند ہو گی بلکہ اسے امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقہ کار کا بھی پور ا پورا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ اس شرط کی توثیق کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتاہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھا گیا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔

آرٹیکل(۷)کی ذیلی شق (۶) میں یہ مضحکہ خیز بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امریکی افواج افغانستان کی ماحولیاتی اور صحت سے متعلق اصولوں کا احترام کریں گی ۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت کا سر شرم سے جھکا دینے والے انسانیت سوز مظالم کے تناظر میں امریکا کا اس دو طرفہ معاہدے میں صحت اور ماحول سے متعلق شق کے شامل کرنے کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے اور ویت نام ، کو ریا ، عراق اور افغانستان میں کیمیائی ہتھیارو ں کے ساتھ ساتھ نیپام اور ڈیزی کٹر بموں کے بے دریغ استعمال کے بعد امریکا کا افغانستان میں اپنے اگلے ۱۰ سالہ قیام کے دوران وہاں کے ماحول اور صحت کے اصولوں کا پاس رکھنے کا وعدہ دنیا کی آنکھوں میں دھول کے بجاے ریت اور بجری جھونکنے کے مترادف ہے ۔

امریکا افغان سیکیورٹی معاہدے کا ایک اور مضحکہ خیز آرٹیکل (۸)ہے جس کے ذیلی شق (۳) میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین پر امریکی افواج ا س کے ٹھیکے داروں کی خریدی ہوئی ، درآمد کی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ تنصیبات کی ملکیت امریکا کی ہوگی۔ ان تنصیبات کی کسی بھی ممکنہ انتقال کے لیے امریکی قوانین کو مدنظر رکھا جائے گا، یعنی امریکا کے زیر استعمال ہر طرح کی تنصیبات بشمول زیر استعمال اڈوں پر حق ملکیت امریکا کا ہوگا اور اگر امریکا ان تنصیبات کو کہیں اور منتقل کرنا چاہے گاتو وہ ایسا افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت کر سکے گا۔ گویا افغان سرزمین پر افغان قانون کے بجاے امریکی قوانین لاگو ہوں گے جو امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کی خودمختاری کے دعوے کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے ۔ آرٹیکل (۹)جو آلات اور اشیا کی سٹوریج کے بارے میںہے کی ذیلی شق (۳)میں یہ خوش کن نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکا اپنے کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار افغان سرزمین پر ذخیرہ نہیں کرے گا۔ یہ شق اور جملہ اپنے معنی کے اعتبار سے تو بہت خوشنما نظر آتا ہے لیکن امریکی طینت اور اپنے مفادت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی اس کی روش اور تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا کون امریکا سے یہ پوچھ سکے گا کہ اس نے افغانستا ن میں اپنے درجن بھر اڈے یہاں سبزیاں اُگانے کے لیے حاصل کیے ہیں اور یہاں جمع شدہ مہلک ترین اسلحہ اور گولہ بارود کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی مواد سے پاک ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں موجود امریکا کے خطرناک ہتھیار وں اور بلسٹک میزائلوں سے لیس بحری جہا ز ،  ایٹمی آبدوزیں اور زمینی اڈے امریکا نے کس بین الاقوامی قوانین کے تحت بنا رکھے ہیں۔ اس کا جواب امریکا بہادر خود ہی د ے سکتا ہے، باقی دنیا اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں فی الحال یقینا نہیں ہے ۔

آرٹیکل( ۱۰)گاڑیوں اور جہازوں کے نقل و حرکت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی شق (۱) میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے فوجی اور سول جہازوں کو افغانستان کی فضائی حدود میں پرواز ،لینڈنگ، افواج کی نقل و حمل اور فضا میں ری فیولنگ کی مکمل اجازت ہو گی ۔نیز فضائی حدود کے استعمال اور جہازوں کی پارکنگ کے لیے امریکا کسی بھی قسم کے ٹیکس یا اخراجات ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگا ۔اس آرٹیکل میں یہ قابل شرم نکات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ امریکی جہاز ،کشتیوں اور گاڑیوں کو افغانستان میں داخل ہونے ،نقل و حرکت کرنے اور افغانستان سے بلاروک ٹوک اور بلا پوچھ گچھ نکلنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔اس آرٹیکل کی ذیلی شق(۴)میں افغانستان کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام امریکی جہاز ،کشتیاں اور گاڑیاں افغان حکام کے معائنے سے مستثنیٰ ہوں گے ۔ امریکی افواج کو افغانستان میں داخلے، وہاں نقل وحرکت اور بلاروک ٹوک نکلنے کی اجازت، نیز امریکی گاڑیاں اور جہازوں کے معائنے کی اجازت افغان حکام کے پاس نہ ہونے کے باوجود جو لوگ اس معاہدے کو دو طرفہ معاہدہ قرار دے رہے ہیں، ان شقوں کی موجودگی میں ان کا دعویٰ خودفریبی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔

آرٹیکل( ۱۱)میں ٹھیکے داروں سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ اس آرٹیکل کی شق(۱) میں کہا گیا ہے کہ زیر استعمال علاقوں میں تعمیرات اور دیگر کاموں کے ٹھیکے امریکی خریداری قوانین کے تحت دیے جائیں گے ۔ امریکی خریداری قوانین کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ حد تک افغان اشیا کی خریداری کو ترجیح دی جائے گی ۔ شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ ٹھیکے دار امریکا کے ساتھ لین دین کے وقت دیگر افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے، یعنی تعمیرات اور دیگر کاموں کے سلسلے میں ٹھیکے افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت دیے جائیں گے، جب کہ ان ٹھیکوں کی مد میں امریکی ٹھیکے دار ہرطرح کے افغان ٹیکسوں سے بھی مبرا ہوں گے۔ گویا ان تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سے افغانستان کے عوام کو رتی برابر بھی فائد ہ نہیں ہوگا بلکہ ان کا تمام تر فائدہ امریکی کمپنیوں اور خود امریکی حکومت اور بالواسطہ طور پر امریکی عوام کو ہوگا۔

مواصلات اور دیگر سہولیات کے عنوان کے تحت آرٹیکل (۱۲)میں امریکا کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ امریکا افغانستا ن میں مواصلات کا اپنا نیٹ ورک نہ صرف بنا سکے گا بلکہ اسے اس کے استعمال کا بھی بلا روک ٹوک اور بلا شرکت غیرے حق حاصل ہوگا۔ نیز مواصلاتی نیٹ ورک بنانے کے لیے اسے افغان سرزمین مفت استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوگی ۔ افغان فضا اور زمین کو اپنے مواصلاتی تصرف میں لانے کی امریکا کو اس شق کے ذریعے نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی ہے بلکہ یہ چھوٹ اسے پلیٹ میں رکھ کر مفت بھی پیش کی گئی ہے جو افغانستان کی خود مختاری کے دعوے کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق ہے ۔

آرٹیکل (۱۳)جو کہ اہل کاروں کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے، میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہل کاروں کے خلاف ا نضباطی کاروائیوں کا مکمل اختیار صرف امریکا کے پاس ہوگا۔ اگر کسی امریکی اہل کار سے افغان سرزمین پر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو امریکا متعلقہ قوانین کی روشنی میں خود اس کا ٹرائل کرے گا۔ افغان حکام کی طرف سے کسی بھی امریکی اہل کار کی گرفتاری کی صورت میں متعلقہ سویلین یا فوجی کو امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا، جب کہ معاہدے کے اس آرٹیکل کے تحت افغانستان اور امریکا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی یا سویلین کو کسی بھی بین الاقوامی عدالت ، ادارے یا تنظیم کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام شرائط کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کے مفادات کا خیال بھی رکھا گیا ہے اور   امریکا نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان کی خود مختاری کو تسلیم کیا ہے تو ایسا کہنے والے کو اپنی عقل کا علاج کرالینا چاہیے، کیونکہ ان شقوں کی موجودگی میں امریکی فوجی اہل کار اپنے آپ کو     نہ صرف ہرطرح کی قانونی گرفت سے مبرا سمجھیں گے بلکہ ایسی صورت میںان کے ہاتھوں افغان شہریوں کے ساتھ امتیازی اور انتقامی سلوک روز مرہ کا معمول ہوگا۔

آرٹیکل (۱۵)میں افغانستان میں امریکی اہل کاروں کے دخول اور خروج کے حوالے سے شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ اس آرٹیکل کے تحت امریکی اہل کار کسی بھی وقت افغانستان میں داخل اور خارج ہو سکتے ہیں۔ ایساکرتے وقت انھیں کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نیز امریکی اہل کار افغانستان میں غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن قوانین سے بھی مستثنیٰ ہوں گے ۔ ویزے اور پاسپورٹ اور غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کی شرائط ساقط کر کے امریکا واضح طور پر افغانستان کو اپنی باقاعدہ کالونی ڈکلیئر کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ بعض لوگ اس شق کی روشنی میں افغانستان کو امریکا کی ۵۳ویں ریاست بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ایسا اس لیے نہیں ہے کیونکہ امریکا اس نام نہاد دوطرفہ معاہدے کے ذریعے افغانستان پر تو اپنا حق تسلط تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن اس کے بدلے میں نہ تو افغان سرزمین اور نہ ہی افغان عوام کو رتی برابر بھی کوئی اہمیت دی گئی ہے ۔

آرٹیکل (۱۶)میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی استعمال کے لیے برآمد یا درآمد ہونے والی اشیا ہر قسم کے معائنے اور پابندی سے مبرا ہوں گی۔ یعنی امریکا کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ افغانستان میں جو بھی اشیا برآمد یا درآمد کرنا چاہے اس سے افغان حکام پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے اور اس حوالے سے امریکا کو کھلی آزادی ہوگی ۔ آرٹیکل (۱۷)میں ٹیکسیشن پر بحث کرتے ہوئے افغان سرزمین پر امریکی اہل کاروں کے استعمال کے لیے خریدی گئی تمام اشیا افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں ۔ اسی طرح امریکی افواج اور ٹھیکے دار بھی ہر طرح کے افغان ٹیکسوں کی ادایگی سے مبرا ہوں گے ۔ یعنی جو لوگ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کو اقتصادی نفع اور افغانوں کی اقتصادی حالت کے بہتر ہونے کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی یہ خوش فہمی اس شق سے دُور ہو جانی چاہیے کہ افغانستان میں ۱۰سالہ قیام کے دوران امریکا یہاں جتنے وسائل اپنے استعمال کے لیے لائے گا وہ ہر طرح کے ٹیکسوں سے آزادہوں گے اور ان کا ذرہ برابر فائدہ بھی افغانوں کو نہیں پہنچے گا۔

اس معاہدے کے آرٹیکل (۱۸)میں امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے دار وں، حتیٰ کہ ان کے ملازمین کوبھی جاری کیے گئے ڈرائیونگ ، ہواباز ی اور کشتی رانی کے لائسنس افغانستان میں موثر ہوں گے اور انھیں افغان لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ اسی طرح آرٹیکل (۱۹)میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ٹھیکے داروں کے زیر استعمال گاڑیاں افغانستان کی رجسٹریشن سے آزاد ہوں گی اور ان گاڑیوں کو امریکی رجسٹریشن پر پورے افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہو گی ۔ خدمات سے متعلق آرٹیکل ۲۰میں امریکیوں کو اپنی افواج کی سہولت کے لیے افغانستان میں اپنے بنک ، ڈاک خانے ، تفریحی مقامات اور نیوز چینل قائم کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے، جب کہ ان خدمات تک رسائی کے اصول و ضوابط پر امریکی قوانین لاگو ہوں گے۔ امریکا کو ان خدمات کی فراہمی کے لیے افغانستان سے کسی لائسنس لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ، نیز امریکی نظام ڈاک کے تحت بھیجے جانے والے تمام خطوط (ڈاک) معائنہ ،تلاشی اور ضبطی سے مستثنیٰ ہوں گے ۔

 آرٹیکل( ۲۲)میں جایداد کے نقصان، مجروحین اور مقتولین کو زر تلافی کی ادایگی سے معاف تصور کیا جائے گا۔تنازعات کے ضمن میں آرٹیکل ۲۴میں قرار دیا گیا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی بھی مشکل پیش آنے کی صورت میں فریقین باہمی گفت و شنید سے فیصلے کریں گے اور ایسے مسائل کو کسی ثالث ، بین الاقوامی عدالت یا کسی اور فورم پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ یہ معاہدہ چونکہ دنیا کے دو طاقت ور ترین اور کمزور ترین ممالک کے درمیان طے پایا ہے لہٰذا آرٹیکل( ۲۴)میں ا س بات کو بہ صراحت شامل کر دیا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی زیادتی، دست اندازی اور ظلم و جبر پر افغانوں کے پاس سواے صبر و تحمل اور برداشت کے کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہوگا۔انھیں امریکی افواج کا تابع مہمل بن کر رہنا ہوگا۔ انھیں کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف داد رسی تو کجا، آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی ۔

زیر بحث معاہدے میں دو ضمیمہ جات بھی شامل ہیں۔ جسے آرٹیکل(۲۳)کے تحت اس معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ضمیمہ -۱،ان مقامات سے متعلق ہے جنھیں امریکی افواج استعمال کرسکیں گی ۔ یہ مقامات کا بل ، باگرام ،مزار شریف ،ہرات ،قندہار ، شور آب (ہلمند) گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ کے علاقوں پر مشتمل ہیں ، جب کہ ضمیمہ۲،میں آمدو رفت کے مقامات ظاہر کیے گئے ہیں ۔ ان مقامات میں باگرام ائر بیس ، کابل انٹر نیشنل ائیر پورٹ،قندہار ایئر بیس،    شین ڈھنڈ ایئر بیس،ہرات انٹرنیشنل ایئر پورٹ ،مزار شریف ایئر پورٹ اور شورآب (ہلمند)کے علاوہ سپین بولدک(قندہار)، طورخم(ننگرہار) تورغنڈی (ہرات) حیرتان(بلخ) اور شیرخان بندر (کندوز) کے زمینی مقامات( سرحدی علاقے) بھی شامل ہیں ۔

یہ معاہدہ افغانستان کے لویہ جرگہ میں منظور کیا جاچکا ہے۔ اب صرف صدرکرزئی کے دستخط کی دیر ہے کہ یہ رُوبہ عمل آجائے گا۔ صدرکرزئی شرائط بہتر کرنے کے لیے تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بلکہ امریکا سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں ان کے بھائی عبدالقیوم کرزئی کی حمایت کرے۔
٭مضمون نگار کا ای میل پتا:  alamgir_afridi@yahoo.com