جنوری ۲۰۱۴

فہرست مضامین

نبی اکرمؐ بحیثیت داعی الی الحق

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۱۴ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

انسان بنیادی طور پر دو ایسی ضروریات کا محتاج ہے جن سے وہ ایک لمحے کے لیے بھی صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ ایک طرف اسے ان اشیا و وسائل کی ضرورت درپیش ہے جو اس کی مادی احتیاجات کو پورا کریں، جن کے ذریعے وہ اپنے جسم اور روح کے رشتے کو قائم و استوار کرے اور بقاے حیات کے مادی تقاضوں کو پورا کرے۔ دوسری طرف وہ اس ہدایت اور رہنمائی کا محتاج ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند بنیادوں پر کرسکے اور  اس طرح انسانیت کے حقیقی مقاصد کی بوجہِ احسن تکمیل کرسکے۔

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ِ عامہ کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرے۔ پہلی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس نے زمین و آسمان میں وسائلِ معیشت کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ودیعت کر دیا ہے اور انسان ان وسائل کے ذریعے اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ پوری کائنات انسان کے لیے اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہے اور اپنے سینے سے وہ وسائل اُگل رہی ہے جو انسانیت کی بے شمار اور ہر آن بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو بحسن و خوبی پورا کررہے ہیں    ؎

دما دم رواں ہے یمِ زندگی

ہر اِک شے سے پیدا رمِ زندگی

انسان کی دوسری بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور اپنے نبی مبعوث فرمائے تاکہ وہ انسان کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کرائیں۔ انھیں زندگی کے معنی اور اس کے مقاصد سے آشنا کریں، انھیں جینے کے طریقے سکھائیں اور اُن اصولِ تمدن کی تعلیم دیں جو زندگی کو اس کے اصل مقاصد سے ہم کنار کردیں، اور خدا کی زمین پر ایک صحت مند نظام قائم کریں جس میں زمین اپنی نعمتیں اُگل دے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرنے لگے۔

انبیا ؑ کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور بندے کے تعلق کو توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کی بنیادوں پر استوار کرائیں اور دعوتِ دین اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے تاریخ کی رو کو موڑ دیں اور الہامی ہدایت کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر کریں۔ سورئہ حدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسول ؑ واضح نشانیاں دے کر بھیجے اور ان کے ساتھ قرآن (یعنی قانونِ حیات) اور میزانِ عدل اُتاری تاکہ انسانوں پر انصاف قائم کریں۔

سورئہ صف میں رب السمٰوات والارض کا ارشاد ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ(الصف ۶۱:۹) وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام نظام ہاے زندگی پر غالب کردے۔

یہ ہے انبیا ؑ کا مشن اور یہی وجہ ہے کہ نبی کی جو حیثیت اس کی تمام حیثیتوں سے نمایاں اور ممتاز ہے وہ داعی الی الحق کی حیثیت ہے۔ اسلام کا اصل مقصد انسانی زندگی کو ایک خاص نہج پر چلانا ہے۔ اسلام کوئی پوجاپاٹ کا جامد نظام نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک تحریکِ فکروعمل ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہدایت الٰہی کا پابند بناتی ہے۔ اسلام ایک دعوت ہے جو انسانوں کو خدا کے دین کی طرف بلاتی اور ان کی زندگیوں کو نورِ الٰہی سے منور کرتی ہے۔ اسلام ایک مکمل دین، ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور اس کی تمام وسعتوں پر حاکمیت ِ الٰہی قائم کرنے کا دعوے دار ہے۔ انبیا ؑ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جو اس دعوت کے داعی اور اس تحریک کے قائدین ہیں اور جن کی رہنمائی میں یہ اصلاحی جدوجہد برپا ہوئی اور جس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

قرآن پاک آپؐ کی بعثت کا مقصد اس چیز کو قرار دیتا ہے:

ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیـّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعہ ۶۲:۲) وہی تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے (یعنی حضرت محمدؐ کو) پیغمبر بناکر بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے، ان کا تزکیہ کرتے اور خدا کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ صریح گمراہی میں تھے۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط (المائدہ ۵:۶۷) اے رسولؐ، جو حق تم پر تمھارے رب کی جانب سے اُتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ط وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج (شورٰی۴۲:۱۵) پس اسی راہ کی دعوت دو اور اس پر استقامت کے ساتھ جمے رہو جس طرح کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے۔

ان آیاتِ ربانی سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی حیثیت داعی کی حیثیت ہے۔ آپ کا اصل مشن یہ تھا کہ خدا کی ہدایت لوگوں تک پہنچا دیں، انھیں خدا کی کتاب اور حکمت و دانش کی تعلیم دیں اور انھیں دعوت دیں کہ وہ دین کو اپنی پوری زندگی پر غالب کردیں۔ پھر جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہیں انھیں ایک تحریک اور ایک اُمت میں منظم کریں، ان کے اخلاق کا تزکیہ کریں، ان میں کردار کے جوہر پیدا کریں اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اپنی قیادت و رہنمائی میں وہ تہذیب و تمدن قائم کریں جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام فکرونظر اور علم و عمل میں ایک ہمہ گیر  انقلاب کا داعی ہے۔ وہ انسان کو غیراللہ کی ہرغلامی سے نجات دلا کر اس کی زندگی کو خدا کے لیے خالص کرنا چاہتا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ زندگی کے ہرشعبے پر، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، سماجی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی، قومی ہو یا بین الاقوامی، خدا کی حاکمیت قائم کرو۔ ہراطاعت پر  خدا کی اطاعت اور ہرقانون پر خدا کا قانون مقدم ہے    ؎

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حاکمیت ِ الٰہی کی دعوت تھی اور آپؐ  کی سیرتِ پاک کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ نے دعوتِ اسلامی کے کام کو باقی تمام کاموں پر مقدم رکھا اور ہر دور اور ہرحالت میں اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ آپؐ  اوّل بھی داعی تھے اور آخر بھی داعی__ اور صرف داعی الی اللہ!

آیئے! آپؐ  کی دعوتی زندگی کے چند اہم پہلوئوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ادا کرنے کی کوشش کرسکیں۔ اس لیے کہ داعی الی الحق کی جو ذمہ داری آپؐ  کے مبارک شانوں پر تھی، اب وہ پوری اُمت مسلمہ کے کندھوں پر ہے:

لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔

یعنی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی شہادت اور گواہی دی اب اسی طرح پوری اُمت کو تمام انسانیت کے سامنے اس حق کی شہادت دینی ہے۔

۱- آپؐ  کی دعوتی زندگی کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جو تعلیم آپؐ  نے دنیا کو دی اس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے آپؐ  خود تھے۔

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسولؐ کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔

آپؐ اس ہدایت پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور اپنی زندگی کو سب سے پہلے اس کے تابع کرنے والے تھے۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ’’میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں‘‘۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ’’میں سب سے پہلا مسلم ہوں‘‘۔

جو دعوت آپؐ نے دی آپؐ کی پوری زندگی اس کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، آپؐ کی زندگی سراپا قرآن تھی۔ دنیا میں بے شمار مُصلح اور فلسفی آئے جو گفتار کے غازی تو ضرورتھے مگر کردار کے غازی نہ تھے۔ جو تعلیم انھوں نے دی وہ خود اس پر عامل نہ تھے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپؐ  نے اپنی دعوت کے ہرپہلو پر خود عمل کرکے دکھا دیا اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ پیش فرمایا، تاکہ لوگ صرف آپؐ  کے ارشادات ہی سے ہدایت حاصل نہ کریں بلکہ آپؐ  کے افعال و اعمال کی بھی پیروی کریں اور زندگی کا کوئی گوشہ اور قلب و دماغ کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے جس پر آپؐ کے سیرت و کردار کی گہری چھاپ موجود نہ ہو۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

۲- دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ آپؐ نے جزوی اصلاح کے مقابلے میں کلّی انقلاب کی جدوجہد کی۔ آپؐ  کا مقصد چند جزئیات میں تبدیلی پیدا کرنا نہ تھا بلکہ پوری زندگی کو ہدایت ِ الٰہی کے مطابق استوار کرنا تھا۔ آپؐ  نے لوگوں کے خیالات اور نظریات کی اصلاح کی اور انھیں ایک ایمان دار جوشِ زندگی بخشا۔ آپؐ  نے ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا اور ایک نیا انسان پیدا کیا۔ آپؐ  نے تمدن و معاشرت کی اصلاح فرمائی اور ایک نئی سوسائٹی کی تعمیر کی۔ آپؐ  نے طاغوت کو زندگی کے ہرمیدان میں شکست فاش دی اور پھر وہاں حاکمیت ِ الٰہی کے تخت بچھائے۔ یہ ایک ہمہ گیر انقلاب تھا اور انسانی تاریخ کا وہ واحد انقلاب ہے جس نے انسانیت کی پوری زندگی کی اصلاح و تعمیر کی۔

پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات کو دین کی فتح و کامرانی اور اس کی سربلندی پر ہمیشہ گہرا اور غیرمتزلزل یقین رہا۔ عین اُن پُرآشوب حالات میں جب مسلمانوں کی کشتی مخالفتوں کے طوفانوں میں گِھری ہوئی تھی اور دُور دُور ساحل کا کہیں نام و نشان نہ ملتا تھا اور روشنی کی کوئی رمق موجود نہ تھی، آپؐ اُس وقت بھی قطعاً مایوس نہ ہوئے۔

مکّی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ مسلمان قریش کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہرمسلمان کی جان خطرے میں تھی۔ صبح ہوتی تھی شام کا بھروسا نہ تھا اور شام ہوتی تھی تو صبح کا اعتبار نہ تھا۔ بظاہر اسلام کا کوئی مستقبل نظر نہ آرہا تھا اور جو دن گزرتا تھا غنیمت معلوم ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں ایک مظلوم مسلمان حضرت خبابؓ آپؐ  کے پاس آئے۔ آپؐ  بیت اللہ کے سامنے بیٹھے تھے۔ حضرت خبابؓ نے کہا: یارسولؐ اللہ! اب تو پانی سر سے گزرا جارہا ہے،آپؐ  ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آنحضرتؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ  نے فرمایا: بس خبابؓ! گھبرا گئے؟ پہلی اُمتوں میں تو یہ ہوا کہ مومن کو گڑھا کھود کر گاڑدیا گیا اور سر پر آرا چلایا گیا یہاں تک کہ اس کے بدن کے دو ٹکڑے ہوکر گرگئے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا گوشت ہڈیوں سے جدا کیا گیا مگر اُس کے پاے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ خدا کی قسم! اللہ اپنے دین کو مکمل کرے گا یہاں تک کہ (اس دین کی عمومیت اور غلبے) کا یہ حال ہوگا کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک سیکڑوں میل کی مسافت طے کرتا چلا جائے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا کھٹکا نہ ہوگا سواے اس کے کہ اس کو بھیڑیئے سے خطرہ ہو کہ وہ اس کی بکریوں پر حملہ کرے۔ لیکن تم جلدی بہت کرتے ہو۔

یہ واقعہ کئی حیثیت سے بڑا اہم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو اپنی دعوت پر کتنا اعتماد ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل اور آزمایش کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی عمومیت اور غلبے کا مقصد اپنے تمام تضمنات کے ساتھ اس کے سامنے اس وقت بھی تھا جب غلبہ و حکمرانی بظاہر ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی استقامت کے اس مقام پر ہوتا ہے جہاں سے کوئی چیز اس کے ارادے کو متزلزل نہیں کرسکتی۔

۳- تیسری چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ آپؐ   نے بعثت سے لے کر اپنی آخری سانس تک دین کی دعوت کو پھیلانے کی کوشش اس انہماک اور تندہی سے کی کہ اس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؐ  کا ہرلمحہ اسی فکر میں بسر ہوتا تھا کہ کس طرح خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک پہنچائیں اور ان کو جہنم کی آگ اور دنیا کے خسران سے بچائیں۔

یہ فکر آپؐ  کو اس درجہ دامن گیر رہتی تھی کہ ایک مرتبہ آپؐ  دن بھر کی تبلیغی جدوجہد اور دشمنوں کی اذیت رسانی سے چُور ہوکر رات کو تھکے ہارے گھر واپس آئے۔ بدن بخار سے تپ رہا تھا اور آپؐ  چند منٹ کے لیے لیٹ گئے۔ اتنے میں اطلاع ملی کہ مکہ سے چند میل پر ایک پہاڑی کے نیچے ایک قافلہ آکر رُکا ہے۔ یہ سنتے ہی آپؐ  فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان تک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  بہت تھکے ہوئے ہیں۔ قافلے والوں سے کل صبح مل لیں۔ آپؐ  نے فرمایا: کیا معلوم صبح تک مجھے موت آجائے یا وہ قافلہ راتوں رات کہیں اور چلاجائے اور اس صورت میں میرا فرض نامکمل رہ جائے___ دیکھیے دعوتِ اسلامی کے کام کو حضوؐر کتنی اہمیت دیتے ہیں اور فرض کی بجاآوری کو کیا مقام آپؐ  نے دیا۔ فرض شناسی کی یہ مثال ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔

۴- پھر آپؐ  کی دعوتی زندگی کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو ہے کہ آپؐ  نے ہرمرحلے اور ہردور کے حالات کے مطابق دعوتِ دین کی راہیں نکالیں اور ہرزمانے میں نہایت حکمت و دانش مندی کے ساتھ کلمۂ حق کا اظہار کیا اور بالآخر دینِ حق کو قائم کیا۔ بعثت کے فوراً بعد خاموشی کے ساتھ آپؐ  نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا اور قریبی حلقوں میں دین کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ بعثت کے تیسرے سال جب دعوتِ عام کی اجازت ملی تو آپؐ  نے تمام قریش کو فاران پر جمع کیا اور اسلام کی دعوت ان تک پہنچائی۔ پھر معززین قبیلہ کو خصوصی دعوت دی اور کھانے پر بلاکر ان کو خدا کے کلام سے آگاہ کیا۔ آپؐ  ایک ایک قبیلے، ایک ایک خاندان، ایک ایک گروہ اور ایک ایک فرد تک پہنچے اور ان کو اسلام سے روشناس کرایا۔ نجی گفتگوئیں، مکالمات و مذاکرات، تقریرو وعظ، الغرض ہرممکن طریق سے اسلامی تعلیمات اُن کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ جب تک دعوت کی راہیں کھلی رہیں آپؐ  برابر حق کی طرف برملا بلاتے رہے اور جب کھلے بندوں تبلیغ کا امکان نہ رہا تو خاموشی سے نجی ملاقاتوں کے ذریعے اپنے مشن کی تبلیغ کرتے رہے۔ جب آپؐ  کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تو آپؐ  خاموشی کے ساتھ جن جن مقامات پر جاسکتے تھے، اس زمانے میں بھی ان مقامات پر دعوت پہنچانے سے آپؐ نہ رُکے۔ پھر جب مکہ میں دعوت کے مزید پھیلانے کا امکان نہ رہا تو آپؐ  نے مکہ سے باہر جاکر دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا۔ میلوں اور جلسوں کے موقع پر باہر کے قبائل سے ملے، طائف کا سفر کیا اور دوسرے بیرونی قبائل کو اپنی دعوت کی طرف بلایا حتیٰ کہ بیرونی قبائل میں اس کوشش ہی کے نتیجے میں اسلامی دعوت کا نیا مرکز مل گیا، اور اہلِ مکہ کی سختی اور ان کا تشدد ذریعہ بنے دین حق کے نئے مرکز___ مدینۃ الرسولؐ ___کے قیام اور اس کے ذریعے بالآخر دعوتِ اسلامی کے غلبے کا!

پھر مدینہ میں جب اسلام کو قوت و اقتدار حاصل ہوگیا تو آپؐ  نے ریاست کی تمام طاقتیں دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے وقف کردیں۔ ایک طرف مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی اور دوسری طرف اس ریاست کے ذریعے تمام عرب اور بالآخر پوری دنیا کو اسلام کی دعوت دی۔

۵- پھر آپؐ  کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کا لازمی تقاضا ہے کہ ہرکونے اور جہت سے اس کی مخالفت کی جائے اور مخالفت کی نت نئی صورتیں نکالی جائیں۔ آپؐ  کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ آپؐ  کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپؐ  کو سبّ و شتم کا نشانہ بنایا گیا۔ آپؐ  کے گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا۔ عین حالت ِسجدہ میں آپؐ  کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھڑی تک رکھ دی گئی۔آپؐ  کے ساتھیوں کو آگ پر لٹایا گیا، ریت پر گھسیٹا گیا، پتھر کی سلوں کے نیچے دبایا گیا، اتنا مارا گیا کہ وہ شہید ہوگئے__لیکن ہرحال میں آپؐ  ثابت قدم رہے، آپؐ  نے دعوتِ اسلامی کا کام جاری رکھا اور راہ کی کوئی مشکل اور مصیبتوں کا کوئی طوفان آپؐ  کی پیش قدمی کو نہ روک سکا۔ اسی طرح کوئی لالچ اور کوئی ترغیب خواہ وہ دولت کی ہو یا سرداری کی یا بادشاہت کی، آپؐ  کو اپنے مشن سے ہٹا نہ سکی اور ہرحالت میں آپؐ  نے کہا تو یہی کہا:

خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں تبلیغ دین کا کام ترک کردوں تو مجھے منظور نہیں۔ اگر اس راہ میں مجھے ہلاکت نظر آئے تب بھی مَیں پیچھے نہ لوٹوں گا__ حتیٰ کہ یہ مشن کامیاب ہو یا مَیں اس میں کام آجائوں…

یہ تھا داعی کا عزم! اور سچ ہے کہ داعی اگر اپنے مشن میں سچا اور اپنی دھن کا پکا ہو تو انھی مشکلات سے کامیابی کی راہیں پھوٹیں گی اور دینِ حق فاتح و کامران ہوگا۔ جس طرح کلی کی موت ہی کے بعد پھول خندہ زن ہوسکتا ہے، اور جس طرح آگ کے جلے بغیر روشنی اور حرارت ممکن نہیں___ اسی طرح آزمایش اور ابتلا کے بغیر دعوتِ حق کی کامیابی کا امکان نہیں۔ فتح مکہ کی منزل  شعب ابی طالب کی گرفتاری، طائف کی ہزیمت اور بدر و اُحد کی خوں پاشی کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے اور یہی فطرت کا قانون ہے۔

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلً ا o (الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم خدا کے طریقے میں تبدیلی نہ پائو گے۔                        (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۲ء)