جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

کتاب نما

| جولائی۲۰۰۷ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قرآنِ کریم کا اعجازبیان ‘ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی ٔ۔مترجم: محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: دارالکتاب‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

نزولِ قرآن کے بعد کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں قرآن کے اعجاز بیان کے موضوع پر علمی مباحث کی گرم بازاری نہ رہی ہو۔زیرنظر کتاب عالمِ اسلام کی ایک محقق استاذہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن کی عربی تالیف الاعجاز البیانی للقرآن الکریم کا اُردو ترجمہ ہے۔مصنفہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں قرآنی موضوعات پر مقالات پیش کرچکی ہیں اور ان کے زیرنگرانی متعدد پی ایچ ڈی اسکالر قرآنی موضوعات پر ریسرچ کرچکے ہیں۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ منکرین‘ قرآن کے ہر چیلنج کے سامنے عاجز آگئے۔ وہ عرب قوم جو اپنی فصاحت و بلاغت اور خطابت و زبان آوری پر فخر کرتی تھی‘ اس کے شاعر و خطیب اس قرآن کی معجزبیانی کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آخر وہ قرآن کی مثل ایک سورت بھی لاسکنے سے کیوں عاجز رہے؟ جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ  زبان و بیان پر پوری طرح قادر تھے‘ اس سوال کا جواب مصنفہ نے کتاب میں دینے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اہلِ عرب نے قرآن کے اعجاز بیان کا ادراک کرلیا تھا جس نے انھیں کسی بھی ایسی کوشش سے مایوس کردیا کہ وہ قرآن کے کسی بھی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لاسکیں یا کسی آیت کو دوسرے انداز میں پیش کرسکیں۔ (ص ۱۵)

قرآن کا اعجاز کیا تھا؟ اس سوال کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے دلائل اور تذکروں سے تاریخ ادب کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے علماے سلف کی عبارات کے حوالے سے یہ دل چسپ حقیقت بیان کی ہے کہ ہرزمانے کے محققین نے یہ دعویٰ کیا کہ اعجاز قرآن پر جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں‘ وہ حرف آخر ہے۔  حافظ ابن قتیبہ سے ابوبکرالسجستانی تک‘ رمّانی و قاضی عبدالجبار سے باقلانی تک‘ یحییٰ علوی وابن رشد سے ابن سراقہ و برہان الدین بقاعی تک‘ جرجانی سے رافعی تک‘ انھی دعووں کی بازگشت سنائی     دیتی ہے۔ لیکن ایک صدی بھی نہ گزر پاتی تھی کہ ان کے دعوے پر خط تنسیخ کھینچنے والا نیا دعوے دار اُٹھ کھڑا ہوتا اور قرآن کے اعجازِ بیان کو اپنی عقل و فکر کی محدودیتوں کا پابند کرنے کی کوشش کرتا حالانکہ قرآن کا اعجازبیان ان کی قائم کردہ حدبندیوں سے بالاتر تھا۔

اعجاز اور تحدی (چیلنج) میں فرق کیاہے؟ اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ماہرین بلاغت کی عبارات و اقتباسات کے ذریعے اعجاز قرآن کی بابت ان کا نظریہ بیان کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحقیقات کو تین فصول ’’اعجاز قرآن (۱) حروف میں (۲) الفاظ میں (۳) اسالیب میں‘‘ تقسیم کرکے ہر ایک کی وضاحت کے لیے آیات و سورتوں سے مثالیں دی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے کہ قرآن کا ہر لفظ‘ ہر حرف اور ہر اسلوب اپنی جگہ بھرپور بلاغت رکھتا ہے اور یہی اعجازِ قرآن ہے۔ کسی بھی قرآنی لفظ کے معانی کا تعین یا حرف کی وضاحت ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر کی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے  ثقیل ہونے کے باوجود مترجم نے جملوں کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


قائداعظم جناح، برصغیر کا مردِ حریت، شریف فاروق۔ناشر: مکتبہ اتحاد‘ اسلامیہ کلب بلڈنگ‘ خیبربازار‘ پشاور۔ صفحات: ۵۳۲۔ قیمت مجلد: ۹۲۵ روپے۔

قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنی زندگی میں متحدہ ہندی قومیت کے علَم برداروں کی تنقید کا سامنا تھا‘اور انتقال کے بعد پاکستان کے کانگرسی عناصر اور بالخصوص ’روشن خیال اور ماڈریٹ‘ دانش وروں کی مخالفت بلکہ کردار کشی کی مہم کا نشانہ بننا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری  قسم کے لکھنے والوں کے جارحانہ رویے میں وسعت آئی‘ جب کہ قائداعظم کے بارے میں  حقیقت پسندی اور ہمدردی سے لکھنے والے اہلِ قلم میں ویسا عزم اور ویسی قوت سے نظر نہیں آتی۔ اس فضا میں پاکستان کے معروف صحافی اور دانش ور شریف فاروق کی زیرنظر کتاب متعدد حوالوں سے ایک گراں قدر کاوش ہے۔

مؤلف نے قائداعظم پر ولی خاں کی الزام تراشی کا مسکت جواب دیا ہے (ص ۲۳‘ ۲۸۵)۔ انھوں نے بجاطور پر یہ گلہ کیا ہے کہ: ’’پاکستانی مصنفین نے قائداعظم کے برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی رول [کو نمایاں کرنے] کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘‘ (ص ۲۰۵)‘جب کہ اس کتاب میں اس موضوع پر بہت سے چشم کشا حوالے درج ہیں۔ بھارتی اسکالر ڈاکٹر اجیت جاوید کی کتاب سے اس ضمن میں نہایت دل چسپ حقائق پیش کیے ہیں (ص ۳۳۹-۳۷۹)۔ قائداعظم کی اسلامی یا سیکولر سوچ کے موضوع پر بڑی سیرحاصل بحث پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح سٹینلے ولپرٹ کی جانب سے قائد کی سوانح پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔

اسلوبِ بیان کسی خشک تحقیقی کتاب کا سا نہیں ہے‘ بلکہ صحافتی اسلوبِ نگارش میں     تحقیقی حقائق کو عام فہم انداز میں ’جوشِ پاکستانی‘ (بروزن جوشِ ایمانی) کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر پریشان خٹک‘ شریف الدین پیرزادہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی تقاریظ نے کتاب کے   داخلی حسن کو نمایاں کیا ہے۔ کتاب مختلف اوقات میں مذکورہ بالا موضوع پر لکھے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہماری نئی نسل کو اس طرح کی کتابیں پڑھنا چاہییں۔ (سلیم منصور خالد)


Religion and Politics in America [امریکا میں مذہب اور سیاست]‘ ڈاکٹر محمد عارف ذکاء اللہ۔ ناشر: مرکز الزیتونہ براے تحقیق و مشاورت‘ بیروت‘ لبنان۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ مذہب و سیاست کی حدود کیا ہیں؟ کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ متحرک ہونا چاہیے یا دونوں کے اہداف و دائرہ کار مختلف ہیں‘ اس لیے ایک کو دوسرے کے امور میں دخل نہ دینا چاہیے۔ جدید تہذیب کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ مذہب کو کاروبارِ زندگی سے بالکل الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ اس موضوع پر بحث جاری ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘کوالالمپور‘ ملایشیا میں شعبہ اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد عارف ذکاء اللہ کی کتاب Religion and Politics in America: The Rise of Christian Evangaelists and Their Impact فروری ۲۰۰۷ء میں منظرعام پر آئی ہے۔ کتاب کا بنیادی خیال امریکا میں مذہب اور سیاست کا باہمی تعامل اور اس کی جہات کا تعین ہے۔ اس کتاب میں مسیحی ایوینجیلیکل (بنیاد پرست) مذہب کے تاریخی پس منظر اور نشوونما کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے دلائل اوراعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں لیکن اس تحقیق کا مقصد کسی ملک یا اس کے عوام کو موردالزام ٹھیرانا نہیں ہے بلکہ بین التہذیبی مکالمے کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔

کتاب کا آغاز مسلم دنیا اور امریکا کے درمیان پائے جانے والے موجودہ حالات کے جائزے سے کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے پہلے ۱۰برسوں میں دونوں اطراف کے انتہاپسندوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت غلط فہمی اور بداعتمادی کی خلیج زیادہ گہری ہوگئی۔ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام دونوں کی اکثریت امن سے محبت کرنے والی ہے۔ مغرب کے شاطروں نے تہذیبی کش مکش اور اسلامی فوبیا جیسے نظریات پیش کرکے سارا الزام مسلمانوں اور اسلام کے سرمنڈھ دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کا یہ عالم ہے کہ مسائل کے حل کے لیے جو ماڈل پیش کیے گئے ہیں ان سب میں ہر الزام مغرب پر جاتا ہے یا اسرائیل پر۔ مصنف کا خیال ہے کہ ایک مختلف اپروچ کی شدید ضرورت ہے۔

مسلم دنیا کو اس بات کی قدر کرنا چاہیے کہ مغربی معاشروں میں عوامی راے کو غیرمعمولی قدروقیمت حاصل ہے۔ وہاں صدر‘ وزیراعظم اور کابینہ کی خواہشات کو راے عامہ پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کتاب میں امریکا میں مسیحیت کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ ذکاء اللہ نے ان اقتصادی و معاشرتی اسباب کا جائزہ بھی لیا ہے جن کی بدولت امریکی معاشرہ ’موجودہ مسیحی بنیاد پرستی‘ کی طرف راغب ہوا اور قدامت پسند اقلیت بن گئے۔یہ ’بنیاد پرست مسیحیت‘ فکری، تعلیمی اور تنظیمی میدانوںمیں سرگرم ہوگئی۔ اس کا زیادہ انحصار ذرائع ابلاغ پر رہا‘ تاہم اس نے ’سیاست میں    عدم شرکت‘ کی پالیسی پر بھرپور عمل کیا‘یہاں تک کہ ۱۹۷۶ء کے صدارتی انتخابات نے مسیحی بنیاد پرستی کا راستہ ہموار کیا اور اسے سیاسی قوت کا راستہ مل گیا۔

آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلیمی و فکری حلقوں میں نئی تہذیبی اپروچ اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مسلمان دانش وروں‘ ذرائع ابلاغ اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنا چاہیے کہ مغرب میں معاشرہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انھیں مغرب کی راے عامہ سے تعمیری انداز میں معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کے درمیان ایک حقیقی‘ بامعنی اور بین التہذیبی مکالمے کا آغازہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے کئی مسائل کے حل کے لیے پرامن اور باہمی طور پر   فائدہ مند فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ کتاب کا عربی میں ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


ایک دلِ ناصبور‘ محمود عالم۔ ناشر: اُردو بک ریویو‘ ۳/۱۷۳۹‘ نیو کوہ نور ہوٹل‘ پٹودی ہائوس‘ دریاگنج‘ نئی دہلی-۱۱۰۰۰۲۔صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

محمودعالم (م: ۲۴ مارچ ۲۰۰۷ء) ایک حساس دل کے مالک تھے۔ ان کے زیرنظر مجموعے میں شامل ۱۶کہانیوں کے موضوعات بالکل منفرد ہیں۔ ادگھڑ‘ خواجہ سراڈائسٹی‘ تماشا میرے آگے‘ اب کوئی گلشن نہ اُجڑے‘ صاحب کا کتا‘ برمردار‘ ایک دوست کا مرثیہ‘ سونامی اور اصیل مرغ۔ بعض افسانوں میں کہانی پن تو بہت کم ہے لیکن احساسات و جذبات کا ایک سیلِ رواں ہے۔ ان کے ہاں اُمت مسلمہ کی حالتِ زار اور اس کی وجوہ کی بنیادیں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش دکھائی دیتی ہے۔ سپرطاقتوں کے ہاتھ میں بنے کٹھ پتلی مسلم حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر کس طرح وحدت ملّی کو پارہ پارہ کردیا‘ اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوگئی اور یہود و نصاریٰ کے اشاروں پر اپنے ہی بھائی بندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

محمودعالم کی ان کہانیوں میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت ملتے ہیں۔’انوکھا تجربہ‘ میں اخلاق کی تبلیغ خاص طور پر بوڑھوں کے ساتھ برتائو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خدا کے ہاں اس عمل کا کیا درجہ ہے۔ ’خوشبو‘ اور ’طائران حرم‘ میں سچے اور پاک جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ’دیدۂ تر‘ ایک معصوم خوب صورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت کے پاکیزہ جذبات رکھتی ہے اور فطرت کی طرح نہایت ہی سادہ و معصوم اور مادیت پرستی سے بے گانہ ہے۔ ’سفید جھوٹ‘ اور ایک ’دل ناصبور‘ میں بھی محبت کے پاکیزہ جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی کہانی ’پشیمانی‘ کے نام سے ہے جو اگرچہ بچوں کے لیے ہے لیکن اس میں ایک بھائی کی محبت کا قصہ ہے خاص طور پر جب انسان کسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے تو عمربھر اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔

محمودعالم کی یہ کہانیاں تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں‘ بلکہ ایک ایسے شخص کی آواز ہیں جو اپنے گھر کو جلتا ہوا دیکھتا ہے اور بے اختیار چلّاتا ہے۔چلّانے کے اس عمل میں اگرچہ فنی تقاضوں کا خیال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ’ازدل خیز دبر دل ریزد‘ یعنی دل سے  یہ جذبات اُٹھتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


بتول (افسانہ نمبر) مدیرہ: ثریا اسماء۔ ادارہ بتول‘ کمرہ ۱۴-ایف‘ سید پلازا‘ ۳۰-فیروزپور روڈ‘ لاہور- فون: ۷۵۸۵۴۴۹۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

ماہ نامہ بتول گذشتہ ۶۰ سال سے شائع ہو رہا ہے۔ ’اشاعتِ خاص‘ بتول کی روایت رہی ہے۔ زیرنظر ’افسانہ نمبر‘ اسی کا تسلسل ہے۔ اس میں افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ادب کی ماہیت و مقاصد اور اسلامی ادب کی بنیادی اقدار کی وضاحت پر سیدامجدالطاف‘ عمادالدین صدیقی اور ماہرالقادری کے خاص مضامین‘ بتول کی قلم کاروں کے بارے میں    فرزانہ چیمہ کا سروے‘ شاہدہ ناز قاضی سے ایک ملاقات‘ سلمیٰ اعوان کے سفرِاستنبول کی ایک جھلک‘طویل اور مختصر افسانے۔ کلاسیکی ادب سے پریم چند کا معروف اضافہ ’حج اکبر‘ اور امریکی افسانہ نگار کیٹ چوپن کا شاہ کار افسانہ ’پچھتاوا‘ جسے خاص نمبر کی بہترین تحریر کہا جاسکتاہے۔

بتولکے نئے پرانے لکھنے والوں کے یہ افسانے‘ اس خاص ذوق اور ذائقے کے آئینہ دار ہیں جو بتولکا نصب العین اور اس کی پہچان ہیں‘ یعنی حسنِ معاشرت کا وہ اسلوب اور وہ طریقہ جس میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان افسانوں میں ایک پاکیزہ اور   صالح زندگی کے نمونے ملتے ہیں اور یوں یہ افسانے ایک مثبت اور تعمیری فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  •  اسلامی تمدن کے ۱۴ اساسی اصول و ضوابط‘ ڈاکٹر ایچ بی خاں۔ ناشر: الحمد اکادمی ‘ ۱/۱۸-جے-۲‘ ناظم آباد کراچی‘ پوسٹ کوڈ ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[سورۂ بنی اسرائیل کے تیسرے چوتھے رکوع میں وہ ۱۴ احکامات بیان کیے گئے ہیں جو اللہ کے رسولؐ کو معراج کے موقعے پر دیے گئے تھے۔ کسی اسلامی معاشرے کے یہ بنیادی اصول ہیں جن پر جدید دور میں ایک متمدن معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ایچ بی خان نے انھی ۱۴ اساسی اصولوں کو اس ضخیم کتاب میں سیرت و تاریخ کی روشنی میں بیان کیا ہے جس سے آج کے دور میں عملی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔]
  •  کرۂ ارض کے آخری ایام ‘ محمد ابومتوکل‘ ترجمہ: رضی الدین سید۔ ناشر: دارالاشاعت، اُردو بازار‘ایم اے جناح روڈ‘کراچی۔فون: ۲۲۱۳۷۶۸۔صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [مصنف کی انگریزی کتاب Milestones To Eternity کے تیسرے حصے میں قیامت کی لاتعداد چھوٹی بڑی نشانیوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اورتذکیر کے لیے قرآن کی آیات سے استدلال بھی کیا ہے‘ نیز ان نشانیوں کا کئی مقامات پر سائنسی تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ رضی الدین سید نے اس کا عمدہ ترجمہ کیا ہے جو دارالاشاعت نے عمدگی سے شائع کیا ہے۔ قیامت توآج یا کل آنا ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ ہم نے اس کی تیاری کیا کی ہے!]
  •  اسلام کا نظامِ حیات‘ عبدالوہاب ظہوری۔ ناشر: شرکۃ الامتیاز‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[مصر کے دانش ور محمد احمد جاد مولیٰ کی کتاب المثل الکامل کی بنیاد  پر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔ اس میں فرد کی اصلاح و تربیت‘ جماعتی تنظیم ‘ اجتماع کے آداب‘ عقائد‘ اخلاق وعادات‘ معاشی ذرائع‘ حکومت الٰہیہ کا قیام‘اسلامی ریاست‘ اقوامِ عالم کی اصلاح جیسے موضوعات پر اسلامی نظامِ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک جامع اور مفید کتاب اچھے معیار پر پیش کی گئی ہے۔]
  •  شریعت یا جہالت‘ تالیف : محمد پالن حقانی گجراتی۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ST/9E ‘ بلاک ۸‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔صفحات: ۸۵۳۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔[معاشرے میں ایسی بہت سی چیزیں رائج ہیں جنھیں لوگ دینی سمجھ کر کرتے ہیں‘ جب کہ دین میں ان کی کوئی اصل نہیں ہوتی بلکہ وہ دین کے خلاف ہوتی ہیں۔ ۸۵۰ صفحے کی اس کتاب میں اسی شرک اور بدعت سے بچانے کے لیے ۱۴۰ سے زیادہ عنوانات کے تحت قرآن و سنت کی روشنی بہم پہنچائی گئی ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے تحسین فرمائی ہے۔]
  •  تحفظ نسواں یا تحفظ عصیاں بل‘ تالیف: سمیحہ راحیل قاضی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ۳۵-ڈی‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘کراچی۔فون: ۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[اس مجموعے میں   متعلقہ موضوع پر مؤلفہ کے اپنے مضمون کے علاوہ مفتی محمد تقی عثمانی‘ قاری محمد حنیف جالندھری‘اسداللہ بھٹو‘ مفتی منیب الرحمن اور حافظ حسن مدنی کے مقالات یک جا کردیے گئے ہیں۔]
  • حقیقت معاد‘ محبوب سبحانی۔ناشر: دارالتذکیر۔ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[آخرت کے لیے معاد کا لفظ عام نہیں۔ امین احسن اصلاحی صاحب کے ہاں ملتا ہے۔ اس کتاب کو مولانا کی حقیقتِ شرک‘ حقیقتِ توحید‘ حقیقتِ نماز اور حقیقتِ تقویٰ کے سلسلے میں سمجھنا چاہیے کہ انھیں حقیقتِ معاد اور حقیقتِ رسالت لکھنے کی ارادے کے باوجود مہلت نہ ملی۔   محبوب سبحانی نے ایک شاگرد کی طرح تدبر قرآن کے ۶ہزار سے زائد صفحات سے معاد کے مضامین کو جمع کردیا ہے۔ اسی لیے یہ ایک تالیف ہے کہ جس میں اصلاحی صاحب کے پیرے کے پیرے نقل کیے گئے ہیں۔ آخرت کے مختلف پہلوئوں پر قرآن کی روشنی میں گفتگو آگئی ہے۔]
  •  تحقیق نامہ (۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء)۔ مدیر: سہیل احمدخان‘ شعبۂ اُردو‘ گورنمنٹ کالج‘ یونی ورسٹی روڈ‘ لاہور۔ پاکستان۔ ص ۴۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔[جی سی یونی ورسٹی کا خصوصی شمارہ‘ جو معاصر نام ور ادیبوں‘ شاعروں اور اکابر ادب کے مکاتیب بنام محمدطفیل مدیرنقوش لاہور پر مشتمل ہے۔ جاویدطفیل نے یونی ورسٹی کو ۵ہزار خطوط کا عطیہ دیا ہے۔ لائبریری میں محفوظ‘ اس ذخیرے سے یہ منتخب خطوط‘ شعبہ اُردو کے استاد محمد سعید نے مختصرحواشی اور ایک مفصل مقدمے کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ ایک دل چسپ ادبی دستاویز۔]
  •  سہ ماہی الٰہیات، جھنگ۔ مدیرہ: آسیہ پروین۔ اسلامائزیشن انسٹی ٹیوٹ‘ حویلی بہادرشاہ جھنگ۔ [حقوقِ نسواں کا علَم بردار سہ ماہی الٰہیات ان معنوں میں ایک منفرد تجربہ ہے کہ اسلامی الٰہیات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے خواتین کے بارے میں جملہ مسائل کو زیربحث لانے کا اہتمام کر رہا ہے۔ صفحات کا دامن محدود ہے مگر مجلسِ ادارت کا عزم اور تصور بڑا واضح ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ مسلم خواتین کے نام پر طرح طرح کے فتنے جگائے جارہے ہیں‘ یہ رسالہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔]
  •  تحفہ حرم‘ مولانا مرغوب احمد لاجپوری۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ST/9E ‘ بلاک ۸‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۲ مجلد۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔[یہ کتاب آٹھ مقالات کا مجموعہ ہے۔ پہلا آبِ زم زم ۱۰۰ صفحات اور آخری عجوہ کھجور ۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے موضوعات حجراسود‘ رکن یمانی‘ مقامِ ابراہیم اور ملتزم ہیں۔   ان موضوعات پر ضروری اور دل چسپ معلومات سلیقے سے جمع کردی گئی ہیں۔]
  •  اَساں نیں نبی پاک ؐ اَؤر [ہمارے نبی مکرمؐ] محبت حسین اعوان۔ ناشر: ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان، ۵۰۸ یونی شاپنگ سنٹر‘ عبداللہ ہارون روڈ‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات: ۲۲۴۔قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [ڈھونڈی کڑریالی (پہاڑی زبان) میں نبی کریمؐ کی سیرت مبارکہ پر دنیا بھر میں لکھی جانے والی پہلی کتاب۔ یہ زبان دریاے جہلم کے اطراف مری‘ کہوٹہ اورمظفرآباد وغیرہ میں بولی جاتی ہے۔ ڈھونڈی زبان کے ارتقا پر مفصل مقدمہ۔]

اشاعت خاص حسن البنا کا دوسرا حصہ جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کتاب ہوگی۔ اشاعت کے بارے میں آیندہ شمارے میں اطلاع ملاحظہ فرمایئے۔ (ادارہ)