جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

سیکولر بھارت اور بھارت کے مسلمان ایک استدراک

الیاس نعمانی | جولائی۲۰۰۷ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

’’سیکولر بھارت اور بھارت کے مسلمان‘‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) از ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی نظر نواز ہوا۔ ایک بھارتی مسلمان کی حیثیت سے یہ عاجز محترم ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہے کہ ان کو سرحدپار کے مسلمانوں کی فکر اور ان کا خیال ہے۔ آخر بقولِ اقبال  ع

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

بھارتی مسلمانوں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کی دل سوزی، خلوص اور ملی درد مندی صاف عیاں ہے۔ لیکن انھوں نے جن باتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ان کے سلسلے میں کچھ عرض کرناضروری محسوس ہوتا ہے۔ در حقیقت دور رہتے ہوئے صرف میڈیا کی مدد سے اگر کوئی رائے قائم کی جائے تو حالات کی سنگینی کا حقیقت سے کہیں زیادہ ادراک ہوجاناکوئی بعید نہیں‘ بالخصوص اس وقت جب دل میں ہمدردی کے جذبات ہوں توایسا ہوہی جایا کرتاہے۔ یہاں بھارت میں بھی جو لوگ صرف اخبارات پڑھ کر پاکستان کے بارے میں اظہار خیال کیا کرتے ہیں‘  ان کی باتوں میںبھی شدتِ احساس کا وہی حال دیکھنے کو ملتا ہے جو اس مضمون میں نظر آرہا ہے۔

مضمون کے آغاز میں پنجاب اور اترا کھنڈ میں بی جے پی کی کامیابی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حالانکہ درحقیقت سکھ اکثریت کے پنجاب میں بی جے پی کی نہیں‘ سکھوں کی سیاسی جماعت اکالی دل کی حکومت بنی ہے۔ بی جے پی تو اس کی بس ایک اتحادی ہے۔اسی لیے وہاں کے وزیر اعلیٰ بھی اکالی دل کے سردار پرکاش سنگھ بادل ہیں۔ رہا اتراکھنڈ‘ تو چونکہ وہ بڑی ذات کے ہندوؤں کی واحد ریاست ہے‘ اس لیے وہاں بی جے پی کی حکومت بن جانا کوئی زیادہ حیران کن نہیں۔ اس کے قیام کے پہلے دن سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں کانگریس اور بی جے پی باری باری اپنی حکومتیں بنائیں گی۔ جب یہ صوبہ بنا تھا تو بی جے پی کی حکومت بنی تھی، پھر الیکشن ہوئے تو کانگریس آئی اور اس مرتبہ پھر بی جے پی برسر اقتدار ہوئی ہے۔مستقبل میں بھی اس ریاست سے اسی طرح کی امید ہے۔

جن باتوں پر فاضل مضمون نگار نے بڑی تشویش کا اظہار کیا ہے‘ ان میں بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا پارٹی کی قومی کونسل میں دیا گیاایک بیان بھی ہے‘ جس میں انھوں نے     بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیرکے لیے ایک قانون بنائے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن یہ قانون کہاں بنے گا؟ پارٹی کی قومی کونسل یا کوئی پریس کانفرنس تو قانون ساز نہیں ہوا کرتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اکیلے اپنے دم پر پارلیمنٹ میںصرف اکثریت ہی نہیں‘ دو تہائی اکثریت لے کر آئیں۔ ایسا مستقبل قریب تو کیا غالباً مستقبل بعید میں بھی کبھی نہ ہوسکے کیونکہ اب بی جے پی کے لیے مستقبل میںکبھی سیاسی ماحول اتنا ہموار نہ ہو گاجتنا بابری مسجد کی شہادت کے بعدتھا۔ لیکن اس وقت بھی بی جے پی برسر اقتدار نہ آسکی، بعد میں کرسی ملی بھی تو اس کے لیے تقریباً ۲۰ دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا۔ اس ’جمبوجٹ‘ محاذ کو بھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سواے بی جے پی اور شیوسینا کے کوئی پارٹی اس طرح کے قانون کا سوچ بھی    نہیں سکتی۔ راج ناتھ کا یہ بیان اپنی نوعیت کا نیا بیان نہیں ہے، ایسے بیانات الیکشن کے زمانے میں ہر صبح وشام سننے کو ملتے ہیں۔

حیرت ہوئی کہ فاضل مضمون نگار نے وشوا ہندو پریشد (ورلڈ ہندو کونسل) اور اس کے سیکرٹری پروین توگڑیا کو بھی قابلِ اعتنا جانا۔ یقینا یہ لوگ ماضی میں ہندو معاشرے کے اندراپنا ایک مقام رکھتے تھے لیکن اب تو ع ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ ثبوت کے لیے صرف ایک واقعے کا ذکر کافی ہے۔

چند ماہ قبل الٰہ آباد میں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی میلے (کمبھ) میں ۲کروڑ عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ اس پریشد نے بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہا، اور اپنا ایک اجلاسِ عام وہاں رکھا۔ بے چارے توگڑیا جی اپنی کارکے بونٹ پر کھڑے ہوکر لوگوں کو بلاتے رہے، تب بھی کوئی قابلِ لحاظ تعداد جمع نہ کرسکے۔

ان شاء اللہ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ان کے ماضی سے بہتر ہوگا۔ ہندو شدت پسندی ،جو رام مندر تحریک کے زمانے سے اپنے عروج پر تھی ،غالباً گجرات کے فسادات کے بعد اس کے غبارے سے ہوا نکلنی شروع ہوچکی ہے۔ان فسادات کے چند مہینوں کے بعدہی پچھلے پارلیمانی الیکشن ہوئے تھے جس میں اندرونی اور بیرونی ہر طرح سے مدد کے باوجود ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے واجپائی جی اور بی جے پی کو شرم ناک شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔ درحقیقت بھارت کا مضبوط جمہوری نظام مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ اسی نے مسلمانوں کو یہ طاقت بخشی ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف مرکز میں کوئی مضبوط حکومت نہیں بن سکتی۔ جو کچھ لکھا گیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے سامنے کچھ مسائل نہیں ہیں۔ مسائل ہیں ، یقینا ہیں، ان میں سے کچھ سنگین بھی ہیں ، لیکن ان شاء اللہ مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔


تصحیحات اشاعتِ خاص

صفحہ

سطر

غلط

درست

۲۸

۸

یوسف مغایریف

یوسف مقریف

۹۸

۲۴

دسمبر ۱۹۴۹ء

دسمبر ۱۹۴۶ء

۱۱۹

۱۰

مسلم افواج

مسلح افواج

۱۲۹

۸

غاتینا

غایتنا

۲۱۴

۲۱

میں جس شخص کا ذکر ہے

یہ آیت کس شخص کے بارے میں نازل ہوئی

۲۱۵

۱۴

ابوبکر انصاری

ابوبکر الانباری

۲۲۲

۲۱

القصص الفنی فی القرآن

الفن القصصی فی القرآن

۲۲۵

۱

علی طنطاوی

طنطاوی جوہری

’غض بصر نہ کرنے کے نقصان‘ (ص ۳۸۳) میں حدیث کو اس طرح پڑھیں: لَعَنَ اللّٰہ…