جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

فتح بیت المقدس کا جشن

عبد الغفار عزیز | جون ۲۰۱۰ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

اُردن، سعودی عرب اور فلسطین کے سنگم پر واقع تاریخی شہر عقبہ میں قدم رکھا تو مقامی وقت کے مطابق رات کے آٹھ اور پاکستان میں گیارہ بج رہے تھے۔ عقبہ اُردن کے دارالحکومت عمان سے تقریباً ۳۵۰ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ جونہی شہر کی روشنیوں پر نگاہ پڑی تو نسبتاً راحت کا احساس ہوا کہ بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچے۔ لیکن عمان سے ہمراہ آنے والے ساتھیوں نے حسرت بھری آواز میں کہا کہ یہ اُردن کا شہر عقبہ نہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین، یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کا شہر اِیلات ہے تو دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ سوال کیا: کیا ہم عقبہ نہیں، اِیلات جا رہے ہیں؟ جواب دینے کے بجاے فلسطینی رفیق سفر نے اسٹیئرنگ گھمایا، دائیں جانب مڑتے ہی ذرا مختلف اور نسبتاً پرانی عمارتوں اور روشنیوں کا ایک اور علاقہ شروع ہوگیا اور کہا: ’’نہیں، یہ عقبہ ہے‘‘۔

رفیق سفر ڈاکٹر محمود برکات نے بتایا، عقبہ اور اِیلات اصل میں ایک ہی شہر تھا۔ تاریخ میں اس کا نام اَیلہ ملتا ہے۔ یہودیوں نے شہر کے آدھے اور بالائی حصے پر قبضہ کرکے اسے اپنا ایک سرحدی سیاحتی شہر بنا لیا ہے۔ پوچھا: اصل فلسطینی آبادی بھی ہوگی؟ ڈاکٹر محمود نے کہا: اب یہاں ایک بھی فلسطینی باقی نہیں رہنے دیا گیا، البتہ سیاح کثرت سے آتے ہیں۔

عقبہ میں تھوڑا سا آگے بڑھے تو بڑے بڑے بینر اور اشتہارات دکھائی دینے لگے: مـہرجان الـفتح الـعمری لـبیت الـمقدس، ’’حضرت عمرؓ کی فتح بیت المقدس کا جشن‘‘۔ پانچ سات منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہم عقبہ جاپہنچے۔ میدان کھچاکھچ بھرا تھا۔ منتظمین کے بقول اس شہر کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا اجتماع تھا۔ پورے ملک سے لوگ شریک تھے۔ یہ جشنِ فتح عین اس جگہ منایا جا رہا تھا جہاں خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے فتح پانے کے بعد بیت المقدس جاتے ہوئے رات کا پڑائو ڈالا تھا۔ یہ ۲مئی کادن تھا، اسی دن اسی جگہ اور اسی وقت پروگرام کے انعقاد نے شرکا میں خصوصی جوش و جذبہ پیدا کر دیا تھا۔

پروگرام کی دوسری نمایاں انفرادیت یہ تھی کہ فلسطین کے کنارے پر واقع اہم عرب ملک اور اس کے تاریخی شہر میں منعقد ہونے کے باوجود اس کا کوئی مقرر عرب نہیں تھا۔ اخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید پوری قیادت کے ہمراہ موجود تھے لیکن انھوں نے بھی چند منٹ کے رسمی اور خیرمقدمی کلمات کے علاوہ کچھ نہ کہا۔ اس جشن فتح بیت المقدس کے صرف چار مقرر تھے اور چاروں عجمی۔ ملایشیا، ترکی، جنوبی افریقہ اور پاکستان سے ایک ایک مقرر کو بلایا گیا تھا، البتہ سعودی عرب سے معروف شاعر ڈاکٹر عبدالرحمن العشماوی آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عشماوی کے ۲۵انقلابی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہمارا ان سے پہلا باقاعدہ تعارف سانحۂ بابری مسجد کے وقت ہوا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر دہشت گرد ہندوئوں کی مذمت کرتے ہوئے شہید    بابری مسجد کا مرثیہ لکھا تھا، جو اَب ان کے دیوان میں شامل ہے۔

عمان ایئرپورٹ سے سیدھا عقبہ چلے آنے کے باوجود ہم چونکہ قدرے تاخیر سے پہنچے تھے، اس لیے پروگرام سے ترکی کے ذمہ دار خطاب کر رہے تھے۔ یہ وہی ترک رفاہی تنظیم ہے جس نے چند ماہ قبل غزہ جانے والے امدادی قافلۂ ’شہ رگِ حیات‘ کا اہتمام کیا تھا۔ چند ہی منٹ بعد  ان کا خطاب ختم ہوا اور راقم کو یہ کہہ کر تقریر کی دعوت دے دی گئی کہ یہ پورے برعظیم پاک و ہند کی نمایندگی کریں گے۔ سفر کی طوالت، ابھی چند لمحے پہلے مقبوضہ فلسطین کے یہودی شہر اِیلات کو دیکھنے کا صدمہ اور ایک پُرجوش جشن فتح… اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد شاملِ حال رہی۔ تقریر ختم کر کے   بیٹھا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد اسٹیج سیکرٹری نے اپنا موبائل فون کان سے لگائے ہوئے اعلان کیا کہ ہمارا بالکل کوئی پروگرام نہیں تھا کہ کسی عرب مقرر کا خطاب ہو۔ لیکن جشن فتح کی پوری کارروائی براہِ راست کئی عرب  ٹی وی چینلوں پر دکھائی جارہی ہے۔ غزہ سے وہاں کے محصور فلسطینیوں کے قائد، فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے خود فون کر کے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں۔ مجمعے میں پھر ایک تلاطم برپا ہوگیا اور اسماعیل ھنیہ نے مختصر لیکن جامع خطاب کیا۔ انھوں نے بھی اس بات کو خاص طور پر سراہا کہ عرب مقررین کے بجاے عالمِ اسلام کے نمایندوں کو بلایا گیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کسی قومیت یا علاقے کا نہیں، پوری اُمت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس پر قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا سنگین جرم اور خیانت ہے۔

پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے جایا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو افراد شریک تھے۔ کھانے کے بعد شرکا کے مابین مختصر گفتگو ہوئی۔ لوگ پاکستان کے حالات بھی جاننا چاہتے تھے۔ میں نے جب پرویز مشرف کے افلاطونی فلسفے ’سب سے پہلے پاکستان‘ پر بات کی تو سب شرکا خصوصی طور پر متوجہ اور متبسم ہوئے۔ اُردن میں نوجوان بادشاہ عبداللہ بن حسین کی قدآدم تصویریں لگی ہیں اور اکثر کے ساتھ یہ ’قولِ زریں‘ تحریر ہے: الاردن أولا ’سب سے پہلے اُردن‘۔ گویا پورے عالمِ اسلام کو ایک ہی تعویذ گھول گھول کر پلایا جارہا ہے۔

رات تقریباً ایک بجے (پاکستانی وقت کے مطابق صبح کے چار بجے) کمروں میں پہنچایا گیا اور ساتھ یہ حکم نامہ بھی کہ صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد، یعنی پانچ بجے ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کرنا ہے اور آج کا دن بہت یادگار دن ہوگا۔ عین فجر کے بعد ہمارے میزبان اور اخوان کی مرکزی قیادت ہماری رہایش گاہ پر موجود تھی اور سفر کا آغاز ہوگیا۔ نکلتے ہوئے عقبہ شہر کی کچھ مزید جھلکیاں دیکھیں۔ جدھر سے گزرے دوسری جانب اسرائیلی آبادی منہ چڑا رہی تھی۔ اِیلات نسبتاً بلندی پر واقع ہے۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں، اس لیے عقبہ کے تقریباً ہر موڑ سے نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس صدمہ خیز منظر میں خیرواُمید کا یہ پہلو بار بار ذہن میں آیا اور اس کا اظہار بھی کیا کہ سرزمین فلسطین یہاں آنے اور رہنے والوں کو بار بار اور ہرلمحے یاد دلاتی ہے کہ میں تمھاری منتظر ہوں!

صہیونی قید میں گرفتار سرزمین اقصیٰ سے سرگوشیاں اور عہدوفا کی تجدید کرتے عقبہ سے روانہ ہوئے تو یہ ایک آرام دہ بس میں اجتماعی روانگی تھی۔ بتایا گیا کہ آج ہمیں تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا ہے۔ اس میں ہم اُردن کے جنوب مغربی کونے سے چلیں گے اوردارالحکومت عمان سے گزرتے ہوئے شمال مغربی کنارے پہنچیں گے۔ عقبہ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے ہاتھوں فتح بیت المقدس کی یاد تازہ ہوئی تھی۔ یہاں کے باسی بتا رہے تھے کہ اہلِ عقبہ نے ۱۶ہجری میں  حضرت عمر بن خطابؓ کی سفر بیت المقدس میں بھی معاونت کی تھی اور جب ۱۸ ہجری میں مدینہ منورہ میں شدید قحط پڑا تو ریاست اسلامی کے دیگر علاقوں کی طرح اہلِ عقبہ نے بھی امیرالمومنین کی اپیل پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

ہمارا قافلہ کہیں توقف کیے بغیر چلتا رہا۔ ایک جگہ رُک کر نمازیں پڑھیں۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا، سڑک کنارے فروخت ہونے والے تازہ کھیرے خرید لو اور اسی کو آج دوپہر کا کھانا شمار کرلو… موسم انتہائی خوش گوار، رفقاے سفر ایک سے بڑھ کر ایک اور گفتگو بے حد مفید تھی۔ سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا کسی پر بھی گراں نہ گزرا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا ذکر چلا تو ان کے سفر بیت المقدس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے سے ہی حضرات خالد بن ولید، ابوعبیدہ بن الجراح، عمرو بن العاص، شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم جمیعا جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رومیوں سے جہاد میں مصروفِ کار تھے۔ ایک سے ایک بڑا معرکہ اہلِ ایمان کی شان دار کامیابی پر منتج ہوا اور بالآخر ایلیا (بیت المقدس) کے دروازوں تک جا پہنچے اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ جب اہلِ ایلیا کی ہرکوشش ناکام ہوگئی اور انھیں یقین ہوگیا کہ اب شکست یقینی ہے تو انھوں پیش کش کی کہ اگر تمھارا امیر خود آجائے تو ہم بیت المقدس کی چابیاں ان کے حوالے کرتے ہوئے شکست تسلیم کرلیںگے۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع دی گئی تو مشاورت کے بعد وہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ سے نکلتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو اپنا قائم مقام مقرر کرگئے۔ ۴۱راتوں کے سفر کے بعد بیت المقدس پہنچے۔ محصورین نے آکر معاہدہ کیا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے معاہدے کی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ عہد ہے جس کی رُو سے اللہ کے بندے،امیرالمومنین عمرؓ نے اہلِ ایلیا کو امن کی ضمانت دی۔ اس نے ان کی جان، مال، عبادت گاہوں، کلیسائوں اور صلیبیوں کو امان دی۔ ان کے بیماروں، صحت مندوں اور تمام باشندوں کو امان دی۔ اس نے عہد کیا کہ نہ تو ان کے کلیسائوں میں کوئی دوسرا رہایش پذیر ہوگا، نہ انھیں ڈھایا جائے گا۔ ان میں سے ان کا کوئی سامان یا ان کی صلیبیں نہیں نکالی جائیں گی۔ ان کے اموال سے کچھ نہ لیا جائے گا، نہ انھیں ان کا دین بدلنے پر مجبورکیا جائے گا، نہ ان کے ساتھ بیت المقدس میں یہودیوں میں سے کسی کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اہلِ ایلیا کو اس کے مقابل اسی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح کی چند مزید عبارتوں سے معاہدے کا متن مکمل ہوا اور اس پر امیرالمومنین کے علاوہ ان کے سپہ سالاروں خالد بن ولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے دستخط ثبت ہوگئے۔ اس معاہدے کی عبارت کے ایک ایک لفظ میں مسلمانوں اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں اور سبق ہیں۔

عصر سے کچھ پہلے ہم ’ساکب‘ نامی ایک قصبے سے گزرے جس کے بعد کا راستہ نسبتاً تنگ اور چڑھائی کا تھا۔ گاڑیاں اور سواریاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں، البتہ کہیں کہیں بورڈ کے ذریعے رہنمائی کی گئی تھی۔ کچھ مشکل چڑھائیاں چڑھنے کے بعد ہم ایک بلنداور ہموار پہاڑ کے اُوپر تھے، جس کے ہر طرف، ڈھلوانوں کے دامن میں لہلہاتے کھیت تھے۔ پہاڑ کے کنارے پر پہنچے تو عجیب وغریب ناقابلِ بیان اور دل کی دنیا میں ہیجان پیدا کردینے والا منظر تھا۔ عقبہ میں فلسطین، اُردن اور سعودی عرب کی تکون کے بعد، اب ہم ایک اور تکون کے کنارے پر تھے۔ ہم جہاں کھڑے تھے۔ یہ اُردن کی سرحد کا آخری کنارا تھا۔ وادی میں بہنے والے دریاکے دوسرے کنارے پر صہیونیوں کے جابرانہ قبضے میں سسکتی سرزمین فلسطین تھی اور ہمارے دائیں ہاتھ شام کی سرزمین تھی۔ اس وادی اور میدان میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کی زیرقیادت تاریخ کا انوکھا معرکہ یرموک برپا ہوا تھا۔

ہمارے پروگرام کے نگران ڈاکٹر سعود ابومحفوظ نے پہلے سامنے پھیلی سرزمین فلسطین اور اس پر دُور تک تعمیرشدہ یہودی بستیوں پر نگاہ دوڑائی اور پھر وادیِ یرموک اور یہاں روپذیر ہونے والے واقعات بتانا شروع کیے۔ کہنے لگے: وہ سامنے ٹیلے پر خالد بن ولیدؓ کا خیمہ تھا۔ اس ٹیلے پر کھڑا ہونے سے پوری وادی نظروں میں رہتی ہے۔ مسلمان لشکر نے یہاں پڑائو ڈالا، ان کی تعداد ۳۸ہزار کے لگ بھگ تھی، جب کہ بعض صحیح روایات کے مطابق دشمن کی تعداد ۴ لاکھ تھی۔ لڑائی شروع ہوئی تو اس ٹیلے سے خالدؓ نے قیادت کی۔ مسلسل چھے روز تک وہ اسی ٹیلے پر رہے۔ مسلمان بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔ کچھ لوگوں نے راے دی کہ لشکر کو بچاکر یہاں سے نکل جانا چاہیے لیکن حضرت ابوسفیانؓ نے راے دی کہ اگر آج اس سرزمین سے نکل گئے تو پھر کبھی اِدھر واپس نہ آسکوگے۔ ساتویں روز پورے لشکر نے اپنی تمام قوت صَرف کر دی، ساتھ ہی ساتھ سب نے مزید دعائوں اور تلاوتِ قرآن کا اہتمام کیا۔ پورے لشکر سے تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان غالب آئے اور اس شکست کے بعد پھر پورے خطے سے دشمن کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح کا اصل آغاز یہاں سے ہوچکا تھا۔

ڈاکٹر ابومحفوظ کہنے لگے کہ بیت المقدس اپنی تاریخ میں ۲۷بار فتح ہوا ہے۔ ان میں ۲۶مرتبہ اسی راستے سے فتح ہوا ہے۔ بتانے لگے وہ اُوپر جو پہاڑ نظر آ رہا ہے صلاح الدین ایوبی نے اس کے اُوپر اپنا قلعہ تعمیر کیا اور پھر اس پورے علاقے میں ایسے ۱۵ قلعے بنائے۔کہنے لگے: ان میں سے کئی قلعے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں تعمیر کیے گئے۔ معرکۂ یرموک کے ساتھ ساتھ اب صلاح الدین ایوبی کا ذکر شروع ہوگیا تھا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس عظیم تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ پوری وادی یرموک یہاں سے کھلی کتاب کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ ایک ہی مسلم ریاست کو کس طرح تین ٹکڑیوں میں فلسطین، شام اور اُردن میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن اس اہم مقام پر جوایک لمبوترا پتھر نصب کیا گیا تھا، اس پر نقشے کے ذریعے جولان، جبل طور، طبریا جھیل اور دریاے یرموک واضح کیے گئے تھے۔

اس وادی کی بہت سی تفصیلات باقی تھیں بالخصوص طبریا جھیل کے اس پار ہرپہاڑ کے پیچھے کوئی نہ کوئی اہم فلسطینی شہر ہے اور سامنے دائیں ہاتھ جو پہاڑ ہے اس کے دامن میں بیت المقدس کی بہاریں پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید کی منتظر ہیں!

حضرت معاذ بن جبلؓ ان معدودے چند صحابہ کرامؓ میں سے ہیں کہ جن سے رسول اکرمؐ نے خصوصی طور پر اظہارِ محبت کیا۔ آپؓ کی قبر بھی یہیں ہے اور اس پر حدیث کے یہ الفاظ درج ہیں: ’’معاذ مجھے آپؓ سے محبت ہے‘‘۔ محبوبِ نبیؐ معاذ بن جبلؓ کے ساتھ ہی ان کے صاحبزادے عبدالرحمن بن معاذؓ کی قبر ہے۔ یقینا آس پاس اور بھی کئی صحابہ کرامؓ کی قبریں ہوں گی۔ رات گئے واپس پہنچے۔واقعی ایک تاریخی دن کا اختتام ہوا۔ آج کے دن تین تاریخی فتوحات کی سرزمین دیکھنے کی سعادت ملی، فتح عُمری، معرکۂ یرموک اور معرکۂ حطین۔

اگلے روز بھی کئی اہم پروگرام اور ملاقاتیں تھیں۔ اخوان کے ہم خیال ایف ایم ریڈیو پر انٹرویو، دو اسلامی پروڈکشن سنٹرز کا دورہ، جب کہ اخوان المسلمون اُردن کے قائدین پاکستان اور افغانستان کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھے۔ اگر وقت بچا توعصر کے بعد دنیا کا سب سے کڑوا اور سب سے انتہائی نشیب میں واقع سمندر بحرمُردار دیکھنا شامل تھا۔ سطح سمندر سے ۴۵۰فٹ گہرا، البحر المیت (Dead Sea) بھی عجیب و غریب روایات کا امین ہے۔ اسی علاقے میں   حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اللہ کا عذاب ٹوٹا۔ کچھ روایات کے مطابق یہی سمندر وہ جگہ ہے کہ جہاں پہلی قوم بستی تھی۔ بدکاری میں تمام حدیں پھلانگ گئی تو آسمان تک لے جاکر اوندھے منہ زمین پر پٹخ دی گئی اور اُوپر سے پتھروں کی بارش کر دی گئی۔ افسوس کہ اس جاے عبادت کو تفریح و عیاشی کا اڈا بنایا جا رہا ہے۔ بحرمُردار تقریباً ۷۱کلومیٹر لمبا ہے۔ اس کا مشرقی کنارہ اُردن ہے اور سامنے دکھائی دینے والا مغربی کنارہ صہیونیوں کے زیرتسلط فلسطین، حکومت اُردن تقریباً پورے مشرقی کنارے پر بڑے بڑے ہوٹل اور تفریح گاہیں تعمیر کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہاں اُردنی شہری تو زیادہ دکھائی نہیں دے رہے، نہ دارالحکومت سے صرف ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود یہاں ٹریفک کا کوئی رش ہے تو یہ اتنے ہوٹل کیوں بنائے جارہے ہیں؟ رفیق سفر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ان میں زیادہ تر غیرملکی لیکن بنیادی طور پر خود اسرائیلی شہری آکر ٹھیرتے ہیں۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے مزید بتایا کہ یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین سے اُردن آنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں بغیر پاسپورٹ کے یہاں آتے ہیں۔ ان تفریح گاہوں میں ان کی زیادہ تر مصروفیت جوے بازی اور دیگر محرمات کا ارتکاب ہے۔ انھیں یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ اگر وہ اُردن کے دوسرے علاقوں میں جانا چاہیں تو اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لیے  سرحد پر پہنچ کر اسرائیلی نمبرپلیٹ اُتاریں، اُردنی نمبرپلیٹ لگائیں اور سکون سے جہاں چاہیں، جائیں۔ ان کی تمام تر حفاظت کی ذمہ داری حکومت اُردن کے سر ہے۔

بحرمُردار اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب انتہائی زیادہ ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس میں کوئی سمندری مخلوق بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ چکھنے پر اندازہ ہوا کہ کھاری پن کڑواہٹ کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ بحرمُردار کی سطح مزید اور مسلسل نیچے جارہی ہے جس کا اندازہ اس کے کنارے دیکھنے سے بھی ہوتا ہے۔ جگہ جگہ پانی کی سابقہ سطح کے نشان جمے ہوئے ہیں۔ نمکیات کی سطح اس قدر بڑھی ہونے اور بڑھتی چلے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یہ سمندر اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں کوئی آبی دھارا آکر نہیں ملتا۔

یہاں قدرتِ خداوندی کا ایک معجزہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سڑک کے ایک کنارے پر تقریباً تین منزلہ عمارت جتنا گہرا بحرمُردار ہے اور سڑک کے دوسرے کنارے چھوٹے بڑے پہاڑ۔    ان پہاڑوں سے جگہ جگہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ رفیقِ سفر نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور ہم  ایک مختصر سی آبشار کے پاس چلے گئے۔ پانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو سخت گرم… اتنا گرم کہ زیادہ دیر ہاتھ اندر نہ رکھا جاسکے۔ ویسے وہ انتہائی شفاف اور میٹھا پانی ہے اور زمین کے اندر سے راستہ بناتا ہوا بحرمُردار میں جا ملتا ہے۔ خالق نے ہر چیز کو ایک مخصوص مقدار و حساب سے بنایا ہے کہ بحرمُردار کو متعینہ موت تک باقی بھی رکھنا ہے لیکن روز بروز کم بھی کرنا ہے۔

عشاء کے بعد وہاں سے واپس آرہے تھے اور رفیق سفر مختلف موڑوں پر رُکتا ہوا چلاجارہا تھا۔ ایک موڑ پر گاڑی رُکی اور سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر وہ دکھانے لگا: دیکھو! وہ دُور جو روشنیاں نظر آرہی ہیں وہ بیت المقدس کی ہیں۔ حیرت، خوشی اور صدمے کے ملے جلے جذبات نے پھر قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ رب ذوالجلال نے محبوب کو عرش پر بلایا تو مکہ مکرمہ سے سیدھا آسمان پر نہیں لے گیا بلکہ یہاں سے مسجداقصیٰ لے کر آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ اور آپؐ کی سجدہ گاہ یہودیوں کے نرغے میں ہے اور مسلم ممالک آزادی اقصیٰ کے بجاے اقصیٰ کی اسیری مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

فلسطین و اُردن کا ایک ایک کونہ اور ایک ایک پتھر اپنے اندر صدیوں کی آپ بیتی لیے ہوئے ہے، اسے مسلسل دہراتے رہنے کی ضرورت ہے۔ عمان ایئرپورٹ سے رخصت کرتے ہوئے میزبان نے بتایا کہ ہم نے مشاورت کے بعد آپ کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کا جشن ہر سال منایا جائے اور دنیا بھر میں منایا جائے تاکہ اس کے اسباق و حقائق کے منظر کی تبدیلی کے عمل کو تیز تر کرسکیں۔