جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

محاسبۂ نفس : چند غور طلب پہلو

سلیم شاکر | جون ۲۰۱۰ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ پس اگر آپ اپنے نفس کی خبر نہ لیں تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اسے ملامت کرتے رہیں گے تو وہ نفسِ لوامہ بن جائے گا، اور راہِ راست پر لانے کی یہ کوشش جاری رہے تو رفتہ رفتہ نفسِ مطمئنہ بن جائے گا اور آپ ان بندگانِ خدا میں شامل ہوجائیں گے جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔

اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ صرف وہی کرسکتا ہے جس میں اپنے نقائص کو جاننے، اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور ساتھ ہی وہ اتنا اصلاح پسند بھی ہو کہ اپنے نقائص کو دُور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی تڑپ بھی رکھتا ہو۔ ایسے ہی شخص سے توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے۔

انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے میں سب سے بنیادی سبب اس کی غفلت ہے۔ انسان کو جب ضروریاتِ زندگی بآسانی اور کثرت سے مل رہی ہوں تو وہ آہستہ آہستہ دنیا میں کھو جاتا ہے اور دین سے غفلت برتنے لگتا ہے اور دنیا کی ہوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی غفلت کے نتیجے میں وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس غفلت سے انسان کو بیدار کرنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا ناگزیر ہے۔

انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بھی اسی وجہ سے ہے کہ انسان اخلاق کے پیمانے پر اپنے آپ کو پرکھ سکے، اچھے اخلاق اپنا لے اور بُرے اخلاق سے اجتناب کرے۔ انسان اخلاق کے بل بوتے پر دوسروں کے دلوں پر حکومت کیا کرتا ہے۔ اخلاق سے دشمن، دوست بن جاتا ہے۔ اخلاق ہی وہ شے ہے جس سے پتھر دل موم ہو جایا کرتے ہیں۔ اخلاق ایک دوسرے کے اندر  انس و محبت پیدا کرتا ہے۔ اخلاق سے انقلاب آجاتا ہے۔ اخلاق سے بڑی بڑی جنگیں سر کرلی جاتی ہیں۔ جس انسان میں اخلاق جیسی کوئی صفت نہ ہو تووہ اکھڑمزاج، بدتمیز اور کھردرا کہلاتا ہے۔ اس کے رویے سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے، تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ انسان تو انسان حیوان بھی خوف کھانے لگتے ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ بداخلاقی سے گریز کرسکیں اور لوگوں کی نظروں سے گرنے سے بچے رہیں۔

بعض لوگوں کی خودپسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے طرزِعمل پر کسی کے ذرا سے جائز اعتراض کو بھی اپنی عزتِ نفس پر حملہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت نفس اور غیرت کا مفہوم یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو اگر زندگی میں اپنی کسی غلطی پر معافی مانگنا پڑ جائے تو ان کے لیے یہ مرحلہ موت سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے دینی اور دنیوی نقصان کو گوارا کرلیں گے مگر معافی مانگنے کی ذلت کو گوارا نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو غلطیوں سے بالا نہیں سمجھتے اور جھوٹی آن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہاں معاف کرا لینا قیامت میں سزا پا لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی خطا ہوتی ہے تو وہ بآسانی معافی مانگ لیتے ہیں، اور معافی مانگنے کے بعد کافی راحت محسوس کرتے ہیں۔

نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے مگر نفس کے ساتھ جہاد کرنا بڑا جہاد ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا جائزہ لیا وہ نفع میں رہا، اور جس نے غفلت برتی وہ گھاٹے میں رہا، اور جو اللہ سے ڈرا وہ بے خوف ہوگیا۔ سورئہ شمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن آدم علیہ السلام کے بیٹے کے پائوں اس وقت تک سرک نہیں سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے: ۱-عمر، کن کاموں میں صرف ہوئی؟ ۲- جوانی، کن مشاغل میں گزری؟ ۳-مال، کن طریقوں سے کمایا؟ ۴- مال، کن مصارف میں خرچ کیا؟ ۵- جو علم حاصل کیا تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟

محاسبۂ نفس کے سلسلے میں ایک اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب انسان یہ عمل شروع کرتا ہے تو اسے کچھ مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ذرا سی بھی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کے بجاے محاسبۂ نفس کے عمل کو صبر سے برابر جاری رکھنا چاہیے اور مایوس ہوکر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

محاسبۂ نفس کے حوالے سے چند اہم تقاضوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:

  • کبر اور خود پسندی: انسان کا بدترین عیب کبر و غرور اور خودپسندی ہے جو ایک سراسر شیطانی فعل ہے۔ جو شخص یا گروہ اس بیماری میں مبتلا ہو، وہ اللہ کی تائید سے محروم ہوجاتا ہے۔ کبریائی صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اُکساہٹ اسے تکبر اور خودپسندی میں تبدیل کردیتی ہے۔
  • تنگ دلی: مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری تنگ دلی ہے، جسے قرآن پاک میں شُح نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میں انسان خود جتنا بھی پھیلتا چلا جائے، اسے اپنی جگہ تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتا۔ یہ رویہ ان صفات سے بالکل برعکس ہے جو اسلامی زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔
  • غصہ اور اشتعال انگیزی:کچھ لوگ غصے میں آکر بے قابو ہوجاتے ہیں اور اشتعال میں آکر ایسی حرکت کربیٹھتے ہیں جس پر انھیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غصے کی وجہ سے جھگڑا اور فساد برپا ہوجاتا ہے۔ نصیحت کی گئی ہے کہ انسان کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا یقین کرلے کہ وہ غصے کی حالت میں نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’طاقت ور شخص وہ نہیں ہے جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے اُوپر قابو پالے‘‘۔ گویا غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہو۔
  • وقت کی قدر: عموماً لوگ وقت کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ انسان کے ہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے۔ جس نے وقت کو ضائع کیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔ وقت ایک گراں قدر دولت ہے۔ اس کی مثال ایک برف فروش کی سی ہے۔ اگر دکان دار نے برف کے پگھلنے سے پہلے اسے فروخت کر دیا تو نفع کما لیا، ورنہ گھاٹے میں رہا۔ اسی طرح ایک ضرب المثل مشہور ہے ’’تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کرے اور غفلت سے دُور رہے۔
  • قرآن سے تعلّق: ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو اہم چیزیں اپنی اُمت کے لیے چھوڑ گئے: ایک قرآن اور دوسری آپؐ کی سنت۔ قرآنِ مجید، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ ہم اس مقدس کتاب سے صرف اسی وقت مکمل طور پر مستفید ہوسکتے ہیں، جب اس کا صحیح حق ادا کریں۔ اس کا حق صرف اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہم اس کی صحیح تلاوت کرسکیں، اس کے معنی و مطلب کو سمجھ سکیں، اس کے ایک ایک حکم پر سختی سے عمل پیرا ہوں، اور اس پیغام کو اپنے بیوی بچوں، پڑوسیوں، دوست احباب اور رشتہ داروں اور غیرمسلموں کو پہنچائیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرکے یہ جانیں کہ ان تمام ذمہ داریوں کو ہم کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کے لیے تجوید کا خصوصی اہتمام ضروری ہے اور اس کے بغیر تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔
  • نماز اور محاسبۂ نفس: نمازوں کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت کسل مندی اور سستی ہے۔ یہ بیماری جب کسی شخص کو لاحق ہوتی ہے تو نہ وہ وقت کی پابندی برقرار رکھ سکتا ہے،  نہ جماعت کا اہتمام قائم رکھ سکتا ہے اور نہ نماز میں حضور قلب کی کیفیت رکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ نماز سے غفلت برتنے لگتا ہے اور اگر پڑھتا بھی ہے تو بالکل بے جان اور بے روح نماز۔

نماز کی دوسری عام آفت وسوسہ ہے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی آدمی کے ذہن پر وسوسوں اور پراگندہ خیالات کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی نماز سے جتنی محبت ہے شیطان کو اس سے اتنی ہی دشمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ نماز ابلیس کے کارندوں کا حملہ سب سے زیادہ سخت انھی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے مقابل میں قوتِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تین باتیں مفید ہیں:

  • جس وقت یہ کیفیت ہو کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے اور ذہن کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا جائے
  • نماز کے کلمات صرف دل میں نہ پڑھے جائیں بلکہ زبان سے اس طرح پڑھیں کہ خود ان کو سن سکے
  •  روزہ مرہ زندگی میں اپنے خیالات کو پاکیزہ اور بلند رکھنے کی کوشش کیجیے۔

نماز میں ایک حادثہ چوری کا بھی پیش آیا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض لوگ وضو اور نماز میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ وہ ان کے کسی بھی رکن کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ وضو اور نماز کے ارکان اطمینان سے ادا کرنے چاہییں، ورنہ وضو اور نماز فاسد ہوجائیںگے۔

نماز کی سب سے عام اور زیادہ خطرناک آفت ریا ہے۔ ریاکاری یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے نماز ادا کی جائے تو اس طرح گویا کوئی بہت متقی اور پرہیزگار ہے، اور جب اکیلے میں نماز پڑھی جائے تو بس دوچار ٹھونگیں مار لی جائیں۔

حضرت احنف بن قیس تابعیؒ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت کا خاص وقت رات کو ہوتا تھا۔ جب سب لوگ میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے تو وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اظہارِ بندگی کرتے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے۔ وہ چراغ جلا کر اس کی لَو پر اپنی انگلی رکھتے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کے کہتے کہ فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے تجھے آمادہ کیا تھا۔

  • روزہ اور محاسبۂ نفس: روزے کا محاسبہ انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ روزے کے دوران اس نے جانے اور انجانے میں کتنے ایسے اعمال کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہوسکتا تھا۔ سب سے پہلے ہرمومن کو اپنے ذہن میں روزے کے مقصد کو رکھنا چاہیے اور سختی سے روزوں کی پابندیوں پر عمل کرے اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور ایسے میں جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے (سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے)۔ (بخاری ، مسلم)

اکثر لوگ روزے کے مقصد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ماہِ رمضان خاص طور پر کھانے پینے کا مہینہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس مہینے میں کھانے پینے پر جتنا بھی خرچ کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اس خیال کے لوگ اگر خوش قسمتی سے کچھ خوش حال بھی ہوں تو پھر تو فی الواقع ان کے لیے روزوں کا مہینہ کام و دہن کی لذتوں سے متمتع ہونے کا موسم بہار بن کے آتا ہے۔ وہ روزے کی پیدا کی ہوئی بھوک اور پیاس کو نفس کشی کے بجاے نفس پروری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ صبح سے لے کر شام تک طرح طرح کے پکوانوں کے پروگرام بنانے اور ان کو تیار کرانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور افطار سے لے کر سحر تک اپنی زبان اور اپنے پیٹ کی تواضع میں وقت گزارتے ہیں۔

آدمی جب بھوکا اور پیاسا ہوتو اس کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کوئی بات ذرا بھی مزاج کے خلاف ہوئی تو فوراً اس کو غصہ آجاتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ جن کے مزاج میں غصہ زیادہ ہو، وہ روزے کے ذریعے سے اپنی اصلاح کریں اور غصہ کرنے سے پرہیز کریں۔

روزے کی ایک عام آفت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جن کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی کھانے پینے اور زندگی کی بعض دوسری دل چسپیوں سے علیحدگی کو ایک محرومی سمجھتے ہیں، اور اسی محرومی کے سبب سے ان کے لیے دن کاٹنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل کا حل وہ یہ نکالتے ہیں کہ بعض ایسی دل چسپیاں تلاش کرلیتے ہیں جو ان کے خیال میں روزے کے مقصد کے منافی نہیں ہوتیں، مثلاً تاش کھیلنا، ڈرامے دیکھنا، گانے سننا اور بے مقصد مطالعہ کرنا۔ دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں جس میں وہ جھوٹ اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ خیال رہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

  • انفاق اور محاسبۂ نفس: انفاق کے محاسبے سے ریا، تکبر اور احسان فراموشی وغیرہ جیسے گناہوں سے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنا محاسبہ نہ کریں تو ہمیں کبھی یہ پتا نہ چلے گا کہ ہم نے جو انفاق کیا ہے آیا وہ پاکیزہ بھی ہے یا نہیں، اور اس سے اللہ راضی بھی ہے یا نہیں۔

بہت سے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ تو کرتے ہیں لیکن دل کی فیاضی اور حوصلے کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے پیش نظر صرف ایک مطالبے کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دینا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ حکومت کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اسی بددلی اور افسردگی کے ساتھ کسی دینی و مذہبی کام کے لیے بھی  کچھ مال نکال دیتے ہیں۔ اس بددلی کے سبب سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں دیتے ہیں جن کا دینا ان کے دل پر گراں نہ گزرے، جو ان کی ضرورت سے بالکل فاضل ہوں یا جس سے کم از کم ان کو کوئی بڑا فائدہ اُٹھا سکنے کی توقع نہ ہو۔ اگر قربانی کریں گے تو ایسے جانور کی جو کم قیمت اور      بے حیثیت ہو۔ اس طرح کا انفاق نہ صرف یہ کہ کوئی خیر و برکت پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ سرے سے   اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت ہی نہیں پاتا۔ اس کی تائید سورۂ بقرہ کی یہ آیت کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّـآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o (البقرہ ۲:۲۶۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو۔ تمھیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔

انفاق کو برباد کرنے والی ایک بہت بڑی آفت لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ وہ مانگنے والوں کو دے تو دیتے ہیں مگر اتنی جھڑکیاں اور ایسا توہین آمیز سلوک کرتے ہیں کہ جتنی نیکیاں کماتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گناہ اپنے سر مول لے لیتے ہیں۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح کرکے انفاق کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اہلِ ایمان تو دوسروں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے شرفِ قبولیت بخشے نہ کہ کسی پر احسان جتاتے ہیں۔

  • حج اور محاسبۂ نفس: ہر مسلمان کی زندگی میں حج ایک بار اس وقت فرض ہوتا ہے جب کہ وہ صاحبِ استعداد ہو۔ حج کے لیے دنیا کے ہرملک اور ہرکونے سے مسلمان جمع ہوجاتے ہیں تو بھیڑ کی وجہ سے کئی دقتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حج کے ہر رکن کو ادا کرنے میں حاجیوں کو کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں صبروتحمل کے مظاہرے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آدمی حج کے ارکان ادا کرتے وقت اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے تو اس کو ارکان ادا کرنے میں آسانی بھی ہوگی اور انجانے میں ہونے والی گناہوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہے گا۔

روز مرہ زندگی میں جو لوگ شریعت کے احکام و آداب کی پابندیوں کے عادی نہیں ہوتے وہ حج کے موقع پر کچھ زیادہ ڈھیلے ڈھالے ہوجاتے ہیں، اور قدم قدم پر ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو اس فسق کے تحت آتی ہیں جسے قرآن پاک نے حج کے سلسلے کی ایک آفت قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ بے تکلفی میں گالی گلوچ کرتے ہیں اوراپنے ساتھیوں کو اذیت دیتے ہیں۔ ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حج کے سلسلے کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ حج کے شعائر اور مناسک کی روح اور حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ بس لوگ عقیدت کے جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اور معلم حضرات ان سے جو رسوم ادا کرواتے ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کو ادا کیے چلے جاتے ہیں۔ نہ حج اور عمرے کا فرق معلوم، نہ طواف کی حقیقت کاپتا، نہ حجراسود کو بوسا دینے کا مدعا واضح، نہ معلوم کہ سعی کیوں کی جاتی ہے۔قربانی کی اصلی روح کیا ہے، رمی جمرات سے ہمارے اندر کس روح کو زندہ رکھنا اور بیدار رکھنا مقصود ہے وغیرہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔

  • ایک قابلِ تقلید مثال: حضرت حنظلہ اسید رضی اللہ عنہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے، کہتے ہیں: ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انھوں نے پوچھا: اے حنظلہ! تم کیسے ہو؟ میں نے عرض کیا: حنظلہ منافق ہوگیا۔ ابوبکر صدیقؓ نے کہا: سبحان اللہ، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا: جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت و جہنم کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہمیں اس کا عین الیقین حاصل ہے، مگر جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اُٹھ جاتے ہیں تو بال بچے اور دنیاوی مشاغل میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اکثر باتیں بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہی حال میرا بھی ہے۔ پھر ہم دونوں رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں گویا ہوا: اے اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہوگیا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: ہم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت جہنم کے بارے میں بتلا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، مگر جوں ہی آپؐ کی مجلس سے اُٹھ کر جاتے ہیں۔ بیوی بچوں اور دیگر مشاغل میں پھنس جاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم لوگ سدا ویسے ہی رہو جیسے میرے پاس رہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو تو فرشتے تمھارے بچھونوں پر اور تمھارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں گے۔ یاد رکھو    اے حنظلہ! ایک وقت کاروبار کے لیے اور ایک وقت پروردگار کی یاد کے لیے ہے۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔

محاسبۂ نفس کے یہ مختلف پہلو ہیں جن سے اس کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ محاسبۂ نفس    نہ صرف تزکیۂ نفس کے لیے ناگزیر ہے بلکہ ذاتی اصلاح اور خود احتسابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ انسان چونکہ ضعیف العقل ہے اس لیے وہ بہت جلد شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے محاسبے کی وجہ سے انسان اپنی عاقبت سنوارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے سے محفوظ رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے خالق و مالک کی رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہمیں محاسبۂ نفس اور خود احتسابی کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔