جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

علامہ اقبال اور مسئلۂ فلسطین

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | جون ۲۰۱۰ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت ِعثمانیہ کے سوا، عالم اسلام کے تمام خطوں پر غاصب استعماری مسلط تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی خلفشار اور کمزوریوں میں گرفتار تھی، اس لیے اس کے مغربی دشمن اسے The sick man of the Europe کہتے تھے، اور اس پر دندانِ آز تیز کیے بیٹھے تھے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندستان میں خلافت کی بقا اور بحالی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی، اقبال اس کے پوری طرح مُویّد تھے۔ یہی زمانہ تھا جب یہودی سر زمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگر مجموعی حیثیت سے ’مسئلہ فلسطین‘ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔

یہود، فلسطین کے اصل باشندے (son of the soil) نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اورخود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے (یہ حرکت بالکل ویسی ہی ہے جیسے یورپ کے سفید فاموں نے ماردھاڑ کرکے امریکا کے قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کی نسل کشی کی اور خود امریکا پر قابض ہوگئے)۔ آیندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اُنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکم رانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھرسقوطِ غر ناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں کھدیڑ کر وہاں سے نکالا تو وہ: ’’نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہوئے، ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں اماں ملی توعثمانی ترکوں کے ہاں۔ یہود مؤرخ سلطان سلیم عثمانی(۱۵۲۴ئ-۱۵۷۴ئ) کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کر کے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔

احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے ۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اُنھوں نے پر پُرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانش ور اور راہ نما ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل (Theodor Herazl) نے سلطان عبدالحمید ثانی کو مالی امداد کا لالچ دے کر ’یہودی وطن‘ کے لیے ارضِ فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرا دیا (فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا)۔ اس پر یہودی انتقام پر اُتر آئے۔ سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا، جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۱۶ء میںوہ بر طانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔ برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور (دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔

انگریزوںکی ’بد دیانتی کے شاہ کار‘ اعلان بالفور کو، جنگِ عظیم اوّل کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ جنگِ عظیم اوّل (۱۹۱۴ئ-۱۹۱۸ئ) کے خاتمے پر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے تمام تر وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔جس مجلسِ اقوام (League of Nations) کے بارے میں اقبال نے کہا تھا  ع

بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند

اس نے بھی ۱۹۲۲ء میں یہ خطہ برطانیہ کے اِنتداب (mandate) میںدے دیا۔ یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا، کیوں کہ انگریزو ں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔

اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لیے ایک رائل کمشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیرِ غور تھی۔ ایک مسلمان ممبر کے طور پر علامہ اقبا ل کو کمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگر انھوں نے بوجوہ ،معذرت کر لی۔

انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کر کے ، فلسطین پہنچ رہے تھے اور ’آبادکاروں‘ کی حیثیت سے مختلف حیلوں بہانوں سے اور زور زبر دستی سے بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۱۹ئ، ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں یہودیوں اور مقامی فلسطینی آبادی کے درمیان متعدد خون ریز تصادم ہوئے۔

فلسطین ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی اور خطّہ ،اقبال افرادِ ملت کوپیش آمدہ کسی بھی مصیبت یا آزمایش کی خبر سنتے تو بے چین اور پریشان ہو جاتے۔خنجر کہیں بھی چلتا، وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ جاتے۔فلسطین تو انبیاؑ کی سر زمین تھی، اقبال وہاں کے باشندوں کے الم ناک مصائب پر رنجیدہ کیوں نہ ہوتے۔مسلمانانِ لاہور نے ۷ ستمبر ۱۹۲۹ء کو انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے ا لم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ’’ہولناک سفاکی‘‘کی مذمت کی۔ علامہ نے یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمرؓ نے کی تھی اور یہ ان پر حضرت عمرؓکا احسان ہے ۔ پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے بقول اقبال: ’’یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا‘‘۔

یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظِ اقبال: ’’فلسطین میں مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں‘‘۔ دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے زور زبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو اسے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔

سفرِ انگلستان (۱۹۳۱ئ) کے دوران میں ، جہاں بھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیں کیا، مثلاً: ایک موقع پر انگریزوں کو اہلِ فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی ،اور فرمایا کہ اعلان ِ بالفور بالکل منسوخ کر دینا چاہیے۔ علامہ اقبال پر مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور اہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انھوں نے بذاتِ خود فلسطین کا سفر کیا۔

دسمبر ۱۹۳۱ء میں فلسطین کے نو روزہ سفر کا اصل مقصد مؤتمر عالمِ اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔ کانفرنس کے داعی سید امین الحسینی تھے۔ اس میں تقریباً ۲۷ ملکوں اور علاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں اربابِ علم و فضل بھی تھے اور سیاسی او رملی راہ نما بھی۔ اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات او رمجاہدینِ آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبرانِ پارلیمنٹ بھی۔ گویا قبلہ اوّل کے شہر میں عالمِ اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔

یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کا احساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف    اتحادِ عالمِ اسلام کی تدابیر پر غور کیا جائے۔ کانفرنس کے دنوں میں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ   غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ ایک نشست میں علامہ اقبال کو نائب صدر بناکر سٹیج پر بٹھایا گیا۔ انھوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مدد کی۔

قیامِ فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کوجتنا بھی وقت اور موقع ملتا، وہ مقاماتِ مقدسہ اور آثارِ قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انھوں نے بیت اللحم میں کلیسا ے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میں متعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انھوں نے بہت سے قابلِ دید مقامات، عمارات اور آثار دیکھے۔ ایک دن موقع پا کر انھوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔

کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی، مگر وہ سب جگہ نہیں جا سکے۔ قیام کے آخری دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک مؤثر تقریر کی، جس میں عالمِ اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادِ مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے، لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کا خاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کو واپس جاؤ تو روحِ اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور اپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو۔

اقبال کے سفرِ فلسطین کا شعری ماحصل وہ معرکہ آرا نظم ہے جو ’ذوق شوق‘کے عنوان  سے بالِ جبریل میں شامل ہے ۔ نظم کے ساتھ اقبال نے یہ توضیح لکھنا ضروری سمجھا کہ ’’ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘:

قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں

حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب

گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھل گئے

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں!

کوہِ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!

ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں!

یہ اشعار لکھتے ہوئے فلسطین کے مختلف علاقوں کے خوب صورت مناظر اقبال کے ذہن میں تازہ ہوں گے۔ سر سبز و شاداب علاقہ، پھلوں اور پھولوں کے قطار اندر قطار درخت اور پودے، دُوردُور تک پھیلے ہوئے سبزیوں کے کھیت، انگور، انجیر اور مالٹوں کے باغات اور پھر موسم بہار کا۔ بقول غلام رسول مہر: عرب دنیا میں اس سے زیادہ حسین خطہ اور کوئی نہ تھا، مگر فلسطینی اپنے ہی خطے میں اور اپنے ہی گھر میں اجنبی بنتے جا رہے تھے۔ آج سر زمین فلسطین دھواں دھواں ہے ۔

سفر فلسطین سے واپس آنے کے بعدبھی اقبال وائسرائے ہنداور برطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔ اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور اعلان بالفور واپس لیا جائے۔ اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانانِ ہند میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ اُسی کا نتیجہ تھا کہ ۲۴، ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء کو کلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔ علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اور بیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے    ؎

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

اسی زمانے میں انھوں نے کہاـ:

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

یہ ’’مقصد ہے … کچھ اور‘‘ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لیے برطانیہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل اڈا یا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا مگر علامہ اقبال اسے عالمِ اسلام کے لیے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اور اس کے سدّباب کے لیے وہ بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے  کے لیے بھی تیار تھے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام ۷؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں:  ’’ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے‘‘۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال آزادیِ فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لیے بھی پُرجوش اور پُرعزم تھے۔

مسئلۂ فلسطین کے ضمن میں علامہ اقبال کا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کی بتدریج بڑھتی ہوئی پیش رفت اور اس کے مضمرات اور خطرناک نتائج کو سمجھا اور اہل ہند کو ان سے آگاہ کیا بلکہ اس وقت مسلمانان ہند کی نمایندہ جماعت مسلم لیگ اور اس کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح (۱۸-۱۹۴۸ئ) کو بھی مسئلہ فلسطین کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اقبال کی وفات کے بعد بھی مسلم لیگ اور قائداعظم نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی۔

علامہ اقبال کی وفات کو پون صدی ہو چلی ہے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی آج بھی جاری ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی تک، ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ضربِ کلیم میں ’فلسطینی عرب سے ‘کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ،نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ء یہود میں ہے!

سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات

خودی کی پرورش و لذت ِنمود میں ہے!

فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت حماس، فلسطینیوں کی موجودہ تحریک آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے، اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزِ جاں بنا لیا ہے اور وہ یہود کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی سی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ غزہ فی الوقت ایک محصور علاقہ ہے۔ ۴۰کلو میٹر طویل اور ۱۰ کلو میٹر عریض اور صرف ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل یہ آبادی تین اطراف سے دشمنوں سے اور ایک طرف سے ’دوستوں‘ سے گھری ہوئی ہے۔ ظلم، زیادتی، گرفتاری،جیل، تعذیب، تشدد، ناکہ بندی، بم باری، مکانوں کا انہدام، غرض کون سا حربہ ہے جو ان کے خلاف نہیں آزمایا گیا۔ ان پر فاسفورس بم تک برسائے گئے۔ شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور اس طرح کے چوٹی کے فلسطینی دانش ور اور راہ نما شہید کردیے گئے مگر وہ صہیونیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں اور ان کے غیرمتزلزل عزم جہاد و مزاحمت میں کمی نہیں آئی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان سلامت ہے۔ اس کے برعکس ۵۰ سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الا ماشا اللہ (الا ماشا اللہ= ایران، شام، سوڈان، لبنان اور ترکی) صہیونیوں اور امریکیوں کے سامنے جھک چکے ہیں یا پھر کچھ بک چکے ہیں۔ یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان کمزور ہے۔ علامہ اقبال کی چشمِ بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ عرب بادشاہتوں پر ہرگز اعتماد نہ کریں، کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پر کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پون صدی، اقبال کی بصیرت پر گواہی دے رہی ہے۔

اور آخر میں ،صرف فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں،عالمِ اسلام کی تمام اقوام کے لیے، وہ کشمیری ہوں یا افغانی، عراقی ہوں یا شیشانی، اقبال کا پیغام یہ ہے کہ    ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اہلِ ایران تو ربع صدی پہلے ظلمت ِشب کی گریز پائی اور نورِ سحر کے طلوع کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اُنھیں علامہ اقبال کی بات پر یقین کرنا چاہیے کہ     ؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے


وضاحت: یہ مضمون شعبۂ اُردو، تہران یونی ورسٹی کے تحت ۵؍مئی ۲۰۱۰ء کو منعقدہ     ایک روزہ بین الاقوامی اقبال سیمی نار میں پڑھا گیا۔ اس کی تیاری میں حسب ذیل کتابوں اور رسائل سے مدد لی گئی ہے:

۱-            اقبال اور جدید دنیاے اسلام، ڈاکٹر معین الدین عقیل، مکتبہ تعمیرانسانیت، لاہور، ۲۰۰۸ء

۲-            اقبال کی طویل نظمیں، رفیع الدین ہاشمی، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء

۳-            (ماہ نامہ) ترجمان القرآن، لاہور میں عبدالغفار عزیز کے مضامین: فروری ۲۰۰۹ئ، نومبر ۲۰۰۹ء

۴-            خطبات، چہارم، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۸۵ئ۔

۵-            سفرنامہ اقبال، محمد حمزہ فاروقی (مرتب)۔ مکتبہ اسلوب، کراچی، ۱۹۸۹ئ۔

۶-            کلیاتِ اقبال اُردو، علامہ محمد اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۳ء

۷-            گفتارِ اقبال، علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل)، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۶۹ئ۔

۸-            مکاتیب اقبال بنام گرامی،علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد عبداللہ قریشی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۱ئ۔

۹-            Letters of Iqbal، علامہ محمد اقبال (مرتب: بی اے ڈار)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۸ئ۔

۱۰-         Speeches, Writings and Statements of Iqbal ، علامہ محمد اقبال (مرتب: لطیف احمد شروانی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔