جون ۲۰۱۶

فہرست مضامین

بنگلہ دیش کی سیاست اور مطیع الرحمن نظامی کی شہادت

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۱۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

۱۱مئی بھی ہماری زندگیوں میں ایک یادگار دن بن گیا!

اچھی زندگی پر رشک تو زمانے کا چلن ہے لیکن کامیاب زندگی وہ ہے جس کا اختتام اس موت پر ہو جس پر ہر صاحب ِ دل بے ساختہ رشک کرے__!!

میرے عزیز بھائی مطیع الرحمن نظامی کی شہادت ایک ایسی ہی یادگار موت بن گئی ہے جس نے ان کو بہترین انسانوں کے اس قافلے کا شریکِ سفر بنا دیا ہے جس میں ہمیشہ زندہ رہنے والے ہی سرگرم اور سرفراز رہیں گے۔

جس وقت ان کا جسد ِ خاکی بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے قصبے پبنہ میں، جو ان کا مولد ہے، سپردِ خاک کیا جارہا تھا اور اس بستی میں کرفیو کی کیفیت کے باوجود ہزاروں افراد شریکِ جنازہ تھے اور ان کے لیے مغفرت اور بلندیِ درجات کی دعائیں کر رہے تھے، تو ان دعائوں کی بازگشت بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سے لے کر استنبول، نیویارک، سری نگر، دہلی، اسلام آباد، لاہور، لندن، ٹوکیو اور  مشرق و مغرب کے بیسیوں مقامات پر سنی جاسکتی تھی۔ جہاں ایسے ہزاروں افراد کی آنکھیں اَشک بار لیکن زبانیں مصروفِ دعا تھیں جن کی اکثریت نے زندگی میں کبھی ان کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی تھی    ؎

ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر

یہ اس کی دین ہے، جسے پروردگار دے

مطیع الرحمن نظامی نے اللہ کی بندگی ، اس کے دین کی وفاداری، اور اسلام کی دعوت اور تحریک ِ اسلامی کی سربلندی کا جو عہد اپنے رب سے نوجوانی کے آغاز میں کیا تھا، اسے آخری لمحے تک صبرواستقامت کے ساتھ نبھایا، اللہ کی نافرمانی اور طاغوت سے سمجھوتے کے ہر دام سے اپنا دامن بچاتے ہوئے صرف اپنے خالق کی رضا کے حصول اور اس کے فیصلے پر اعتماد اور شکر کا راستہ اختیار کیا اور آخری چال ’رحم کی اپیل‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور اس طرح    اللہ سے اپنے عہد کو سچا کر دکھایا:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo(احزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

برادرم مطیع الرحمن نظامی نے اللہ پر بھروسا اور صرف اس کی خوشنودی کی طلب اور اپنے اہلِ خانہ کے جذبے اور عزم کے ساتھ تمام تحریکی رفقا اور ساتھیوں کے لیے اور تمام ہی اہلِ وطن کے لیے صبرواستقامت اور راہِ حق سے وفاداری کی وصیت کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے کی طرف جس اعتماد اور شوق کے ساتھ پیش قدمی کی، اس کا تصور ایمان افروز ہی نہیں بے ساختہ دل سے یہ پکار نکالنے کا وسیلہ بھی بنتا ہے کہ نئی زندگی میں فرشتوں نے بھی اسی شوق اور انبساط سے ان کا استقبال کیا ہوگا:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔

میرے لیے مطیع الرحمن چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ۱۹۶۵ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن بنے۔ البتہ خرم بھائی ان کا ذکر اس سے پہلے کرچکے تھے۔ جن افراد کا خرم بھائی سے خصوصی تعلق تھا، ان میں مطیع الرحمن نمایاں تھے۔  اسلامی جمعیت طلبہ میں شرکت سے بھی پہلے انھی کے ایما پر انھوں نے جمعیت طلبہ عربیہ کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ پروفیسر غلام اعظم اور مطیع الرحمن نظامی دونوں ہی کا خرم بھائی سے بہت گہرا تعلق تھا اور مجھے بھی دونوں سے خصوصی تعلق رہا۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، دونوں نے اپنے اپنے انداز میں جو مثال قائم کی ہے، وہ مدتوں تحریک ِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے روشن چراغ کی مانند رہے گی۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب سے میرے تعلقات تقریباً ۶۰برس اور مطیع الرحمن نظامی سے ۵۰برس پر پھیلے ہوئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے دونوں کو اچھا انسان ، تحریک ِ اسلامی کا مخلص اور صاحب ِ بصیرت، خادم و قائد، وفادارپاکستانی اور دل و جان سے بنگلہ دیش کی خدمت اور ترقی اور اسلامی تشکیل و تعمیر کے لیے جان اور مال کی بازی لگادینے والا پایا۔

پروفیسر غلام اعظم ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۱ء تک جماعت اسلامی مشرقی پاکستان اور پھر ۱۹۷۸ء سے ۲۰۰۰ء تک جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر رہے اور مطیع الرحمن بھائی ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۶ء تک امارت کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ میں اس تاریخی حقیقت کو پوری دیانت اور پوری قوت سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح وہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے وفادار تھے اور ان کی پوری کوشش تھی کہ جس بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور جو اس کی اصل پہچان ہے، اس کی حفاظت کے لیے وہ سردھڑ کی بازی لگاد یں، اسی طرح جب بنگلہ دیش قائم ہوگیا تو پھر دل کی گہرائیوں سے انھوں نے اسی جذبے کے ساتھ اس کی آزادی، ترقی اور اسلامی تشکیل کے لیے اپنا سب کچھ لگادیا۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب ۱۹۷۲ء کی اس مرکزی شوریٰ میں شریک تھے جس میں مولانا مودودیؒ نے امارت سے فارغ ہونے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور پھر جماعت میں یہ طریقِ انتخاب رائج ہوا کہ شوریٰ امارت کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے اور ارکان ان تینوں میں سے کسی ایک کو، یا جسے   وہ مناسب سمجھیں اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ میں کوئی راز فاش نہیں کر رہا ہوں لیکن اسی وقت جو تین نام آئے تھے، ان میں سرفہرست پروفیسر غلام اعظم ہی کا نام تھا اور اغلب تھا کہ وہ امیرجماعت منتخب ہوں لیکن پروفیسر صاحب نے جن الفاظ میں معذرت کی وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ  میرا مرنا اور جینا پاکستان کے لیے تھا لیکن اب زمینی حقائق کی روشنی میں میرا اصل میدانِ کار بنگلہ دیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے چند ماہ بعد ہی مشرق وسطیٰ اور پھر انگلستان منتقل ہوگئے اور بنگلہ دیش کے تحریکی معاملات سے اپنے کو وابستہ کرلیا۔ بالآخر ۱۹۷۸ء میں بنگلہ دیش آگئے۔ اپنی شہریت کے لیے قانونی اور سیاسی جنگ مردانہ وار لڑی اور بالآخر ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ان کی شہریت بحال کی گئی۔

جسٹس انوار چودھری نے اپنے فیصلے میں پروفیسر صاحب کے بنگلہ دیش سے وفاداری کے تعلق کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

درخواست گزار کا ایک طرزِ عمل بالکل واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب وہ بنگلہ دیش کی شہریت کے بغیر تقریباً ایک بے ریاست فردتھے، اور ایک بحرانی لمحے سے گزر رہے تھے، نہ وہ پاکستان گئے اور نہ پاکستان کا انتخاب کیا، جب کہ وہ ایسا کرسکتے تھے جیساکہ دیگر نااہل (disqualified)افراد نے کیا۔ یہ طرزِعمل اور ان کا یہ ارادہ کہ ایک بنگلہ دیشی  کی حیثیت سے انھیں شناخت کیا جائے، اصل ڈومیسائل سے محض رہایشی ہونے کے مقابلے میں زیادہ متعلق ہے۔ (بحوالہ جسٹس انوارالحق چودھری، قطعی فیصلہ دیتے ہوئے ۱۰۳، ۱۰۴ اور ۱۲۲ رٹ پٹیشن نمبر ۱۲۱۶)

جنگی جرائم کے الزام کی حقیقت

اس امر کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان سے وفاداری، اس کے تحفظ کی جدوجہد اور آخری لمحے تک جدوجہد ایک چیز ہے، اور زمینی حقائق کے نتیجے میں سیاسی نقشے کی تبدیلی کے بعد نئی مملکت سے تعلق اور وفاداری ایک دوسری شے۔ اول الذکر کو دوسرے پہلو سے دشمنی یا مخالفت کی دلیل بنانا، بدنیتی اور خلط مبحث ہی نہیں، تاریخی حقائق کا بھی مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کانگریس، خدائی خدمت گار، احرار اور جمعیت علماے ہند نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان کے قیام کے بعد جب انھوں نے پاکستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تو وہ قومی زندگی کا حصہ بن گئے اور کانگریس کے ارکان نے پارلیمنٹ میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کی پوری قیادت نے پاکستان کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی مگر تقسیم کے بعد ہندستان کا حصہ بننے والے علاقوں کی مسلم لیگ کی قیادت بھارت کی وفادار شہری بنی اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپنا کردار ادا کرنے لگی۔ یہی معاملہ ان ۱۵۰ سے زیادہ ممالک کی سیاسی قوتوں کے بارے میں رہا جنھوں نے تحریکاتِ آزادی میں حصہ لیا تھا یا اس کا مقابلہ کیا تھا لیکن آزادی کے بعد آزادی سے پہلے کی سیاسی صف بندیوں کو قصۂ ماضی بناکر نئے دروبست میں نیا کردار ادا کیا۔

مجھے خوشی ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کے فیصلے پر بحث کرتے ہوئے اس نکتے کو واضح کردیا ہے اور بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے کے دور کے    سیاسی موقف اور جنگ کے دوران یا اس کے بعد انسانی جان، مال اور عزت کے باب میں جرائم کو     دوالگ الگ ایشوز تسلیم کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلے میں جہاں پروفیسر صاحب کے بارے میں یہ بات صاف الفاظ میں کہی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء تک پاکستان سے وفادار ہونے، ۱۹۷۱ء کے بعد بنگلہ دیش سے باہر رہنے، ۱۹۷۳ء میں ان کو شہریت سے محروم کردینے اور ۱۹۷۸ء میں بنگلہ دیش واپس آکر شہریت سے محرومی کے علی الرغم بنگلہ دیش میں رہنے سے ان کے حقِ شہریت اور بنگلہ دیش کی آزاد مملکت سے وفاداری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ رہا معاملہ جنگی جرائم یا کسی دوسرے پہلو سے کسی ایسے جرم کا جسے وارکرائم یا Collaborators Act میں جرم قرار دیا گیا ہو تو ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے تک بھی پروفیسر صاحب کو کسی ایسے جرم میں ماخوذ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت واضح ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ۲۰۱۰ء سے جو محاذ کھولا ہے، وہ طبع زاد ہے اور ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۸ء تک پروفیسر صاحب یا جماعت اسلامی کی قیادت پر قتل و غارت اور اخلاقی جرائم کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جو کچھ گذشتہ چھے سات سال سے کیا جارہا ہے، وہ حکومت کی صریح دروغ بیانی ہے۔ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نے جو کچھ کیا ہے، وہ انصاف کا قتل ہے۔ غضب ہے کہ ان بے داغ سیاسی قائدین پر ایک سے ایک کریہہ اتہام لگایا جارہا ہے اور ظلم کی انتہا ہے کہ ان ناکردہ گناہوں پر ان کو پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے ۱۹۹۲ء کے فیصلے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کے بارے میں جسٹس بدرالعالم چودھری نے اپنے فیصلے کے پیراگراف ۷۴ میں لکھا ہے:

ان افراد کے مقدمے اور سزا کے لیے، جنھوں نے جنگ ِ آزادی کے دوران افواجِ پاکستان سے خفیہ تعاون کیا اور یہ کرتے ہوئے دیگر مجرمانہ افعال کے لیے ایک خصوصی قانون بنا: Bangladesh Collaboration (special tribunal) Order 1972 (PO No.89 1972) بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت کچھ لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی۔ لیکن بعد میں سزایافتہ اور ان افراد کو جو مقدمات کے لیے مطلوب تھے، معافی دے دی گئی، سواے ان لوگوں کے جو سنگین جرائم، مثلاً قتل، عصمت دری، آتش زنی وغیرہ میں سزا یافتہ تھے یا مطلوب تھے۔ بالآخر یہ قانون منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن نہ تو ۱۹۷۲ء کا PO No.8 اور نہ PO No.149 میں کوئی ایسی دفعہ ہے جو کسی کی  بنگلہ دیش کے شہری ہونے کی اہلیت ختم کردے۔

بھارتی فوج کے ساتھ جنگ ِ آزادی کے دوران تعاون کرنے اور قتل، عصمت دری یا آتش فشانی کرنے یا اس میں مدد دینے یا آزادی کے بعد بنگلہ دیش دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینا، اس قسم کے کسی جرم کا ارتکاب درخواست گزار کے خلاف کسی بااختیار عدالت میں ابھی تک رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی آگے بڑھ کر درخواست گزار کے خلاف کریمنل لا کے تحت پولیس میں ایف آئی آر درج کرواکر یا کسی مجسٹریٹ کے سامنے درخواست دائر کر کے کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ کے جسٹس انوارالحق چودھری نے اپنے فیصلے کے پیراگراف ۱۲۶ میں پروفیسر صاحب کے بارے میں ان تمام الزامات کوغیرمتعلق اور غیرمؤثر قرار دیا جو اٹارنی جنرل نے اخباری تراشوں کی مدد سے پیش کیے اور جن پر ۱۹۹۲ء کے عدالت ِ عالیہ کے اس فیصلے کے علی الرغم جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے فیصلے صادر فرمائے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

مزید یہ کہ درخواست گزار نے بعد کی مطبوعات میں درج کیے گئے واقعات کی سچائی کو چیلنج کیا ہے۔ سواے چند خبروں اور ایک تصویر کے جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ درخواست گزار جنرل ٹکا خان یا جنرل یحییٰ سے ملا ہے، کوئی چیز بھی نہیں ہے جو درخواست گزار کو ان مظالم میں ملوث کرے جن کا پاکستانی فوج اور ان کے حلیفوں البدر اور الشمس کے رضاکاروں پر الزام لگایا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز درخواست گزار کو براہِ راست ملزم ثابت نہیں کرتی سواے اس بات کے کہ درخواست گزار آزادی کی اس جنگ کے دوران فوجی جنتا کے ساتھ ملتاجلتا تھا۔

بنگلہ دیش کی عدالت ِ عالیہ کے ۱۹۹۲ء کے فیصلے سے تین باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں جن کا تعلق اصولی طور پر ان تمام افراد اور اُمور سے بھی ہے جن پر ۲۰۱۰ء کے جنگی جرائم کے ٹریبونل نے انصاف کاخون کرتے ہوئے فیصلے صادر فرمائے ہیں۔

۱- بنگلہ دیش جنگ ِ آزادی کے دوران جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی، وہ کسی جنگی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ ایک نظریاتی اور سیاسی پوزیشن تھی۔ اس کے برعکس اگر کوئی فرد کسی غیرقانونی حرکت کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر متعلقہ قانون کے تحت گرفت ہونی چاہیے اور قانون اور  مجاز عدالت میں ہونی چاہیے۔ دونوں کو الگ الگ رکھنا ضروری ہے۔

۲- محض جنگ ِ آزادی میں عدم شرکت یا اس کی مخالفت کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی شہریت سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جس نے اس سے وفاداری کا عہد کیا ہے، اس کے اس عہد کو چیلنج کیا جاسکتا ہے یا مشتبہ بنایا جاسکتا ہے۔ البتہ آزادی کے بعد اگر کسی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ قانون کے مطابق مجاز عدالت سے ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر گرفت ہوسکتی ہے۔

۳- جہاں تک پروفیسر غلام اعظم صاحب کا تعلق ہے، ۱۹۹۲ء تک ان پر کوئی الزام بھی کسی مجاز عدالت میں نہیں لگایا گیا اور ۷۳-۱۹۷۲ء میں جن افراد پر الزامات لگائے گئے تھے، ان میں پروفیسر صاحب کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ محض اخباری اطلاعات اور سنی سنائی باتوں (heresy) کی بنیاد پر ایسے سنگین الزامات لگانے کی کسی ایسے معاشرے میں کوئی گنجایش نہیں جو قانون کی حکمرانی کا دعوے دار ہو۔

انصاف کا خون اور عالمی ردعمل

گو یہ تینوں باتیں پروفیسر صاحب کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے میں آئی ہیں لیکن یہ ان تک محدود نہیں اور برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسرے تمام افراد جنھیں اس وقت ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان کے بارے میں بھی اتنا ہی لاگو (applicable) ہے، لیکن  اب عدالت اور پوری انتظامی مشینری جس بے دردی اور بے شرمی سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے، اس نے پورے نظامِ حکومت کو غیرمعتبر بنادیا ہے۔ اس کھلے کھلے ظلم میں سب ہی شریک نظرآرہے ہیں اور اب اس کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جانے لگا ہے بلکہ وہ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں جو حسینہ واجد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند آرا حقائق کو واضح کرنے کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔

دی اکانومسٹ اپنی ۱۴مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں ’بنگلہ دیش __ یک جماعتی آمریت کی پھسلن پر‘(Bangladesh is sliding into one party dictatorship) کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بنگلہ دیش کا اصل مسئلہ عدم برداشت اور مخالفت کی آواز کو قوت سے دبانا ہے جسے وہ بنگلہ دیش کا ’پیدایشی مرض‘ قرار دیتا ہے۔ اور وہ مرض کیا ہے؟ ___ ’’ایک سیاسی کلچر جو اختلاف کو برداشت نہیں کرسکتا اور جو اقتدار کو اسے کچلنے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے‘‘۔

نظامی صاحب کی پھانسی پر تبصرہ کرتے ہوئے دی اکانومسٹ لکھتا ہے:

بہت سے بنگلہ دیشیوں کو اس پر غصہ تھا کہ اتنے طویل عرصے تک ۱۹۷۱ء میں کیے گئے جرائم کا کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھیرایا گیا۔ اس لیے جب عوامی لیگ کی شیخ حسینہ کی حکومت نے ۲۰۱۰ء میں ٹریبونل قائم کیا تو اس اقدام کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ عمل انصاف کے ساتھ ایک مذاق ثابت ہوا۔ یہ دراصل عوامی لیگ کی مخالفت کو کمزور کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈکر پکڑنے کی ایک کارروائی تھی۔ نظامی صاحب اپنی پارٹی جماعت اسلامی کی چوتھی سینیرشخصیت ہیں جن کو سزاے موت دی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی حکومت میں اس کی اتحادی تھی، اس کی پاداش میں شیخ حسینہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے۔ نظامی صاحب نے اس کے وزیرصنعت کی حیثیت سے کام کیا۔ جماعت اسلامی رُوبہ زوال ہے لیکن بنگلہ دیش کے بعض حصوں میں اب بھی ایک طاقت ہے…

حسینہ واجد صاحبہ کی موجودہ حکومت کے بارے میں اکانومسٹ کا فتویٰ بہت واضح ہے اور مغرب کے بیش تر اخبارات اور تجزیہ نگار اس سے مکمل اتفاق کا اظہار کر رہے ہیں:

اپوزیشن کنارے لگا دی گئی ہے اور عوامی لیگ پریس کو دبائو میں لے آئی ہے اور   زبان بندی کردی ہے اور سرکاری ملازموں کو بہت زیادہ تنخواہیں بڑھا کر خرید لیا ہے۔ عدالتیں، سول سروس، فوج اور پولیس، سب پوری طرح سیاست زدہ ہیں۔

اسی طرح نیویارک ٹائمز حالیہ جنگی ٹریبونل کے تازہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے صاف الفاظ میں لکھتا ہے:

یہ ٹریبونل جماعت اسلامی کے قائدین کو ہدف بنانے کے لیے حکومت کا ایک سیاسی حربہ بن گیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۲مئی ۲۰۱۶ئ)

بھارت کا روزنامہ دی ہندو اس سے پہلے برادرم علی احسن محمد مجاہد اور محترم صلاح الدین  قادر چودھری کو پھانسی دیے جانے کے اس ٹریبونل کے فیصلے کے بارے میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کرچکا ہے۔ سزاے موت کے باب میں دی ہندو کا کہنا یہ تھا کہ:

اس نے مقدمے کی کارروائی کو بجاے انصاف کے حصول کے، جو کسی ریاست کے قانونی نظام کی بنیاد ہونی چاہیے، انتقام کا رنگ دے دیا ہے۔ (Crime and Penalty in Bangladesh، دی ہندو، ۲۵نومبر ۲۰۱۵ئ)

بھارتی صحافی اور سابق سفارت کار کلدیپ نائر جو جماعت اسلامی کا سخت ناقد اور مذہبی قوتوں کا مخالف ہے اور ان کو غیرمؤثر دیکھنا چاہتا ہے وہ بھی اپنے syndicated مضمون میں جو پاکستان ٹوڈے (۱۹ جنوری ۲۰۱۵ئ) میں شائع ہوا ہے اور جس کا عنوان ’بنگلہ دیش کا المیہ ‘ ہے، میں لکھتا ہے:

یہ بات کہ شیخ حسینہ آمرانہ مزاج رکھتی ہے کوئی نئی بات نہیں۔ شیخ حسینہ کی حکومت ایک فردِ واحد کی حکومت ہے۔ حتیٰ کہ عدلیہ بھی ایسے فیصلے دینے سے ہچکچاتی ہے جو اسے ناراض کریں۔ رہی نوکرشاہی ،تو وہ محض ربڑاسٹامپ ہے۔

انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز کے ایک حالیہ شمارے (۲۰مئی ۲۰۱۶ئ) میں امریکا کے ایک سابق سفیر اور واشنگٹن کے مشہور تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر کے اسکالر ولیم میلام کا مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان Bangladesh's Real Terror ہے۔ اس میں وہ اعتراف کرتا ہے:

عوامی لیگ کا سیاسی مخالفین اور سول سوسائٹی کے خلاف عدلیہ اور پولیس کو استعمال کرنا ایک معمول کی کارروائی ہے۔

جنگی جرائم کا ٹریبونل یا سیاسی انتقام

یہ وہ کرب ناک صورتِ حال ہے جس نے پوری عدلیہ اور انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے اور سیاسی آمریت کے سایے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن انتقام اور ظلم کا سب سے مؤثر ذریعہ جنگی جرائم کا نام نہاد بین الاقوامی ٹریبونل بن گیا ہے جو اب تک ۱۳؍افراد کو سزاے موت دے چکا ہے جن میں سے پانچ کو سولی پر چڑھایا بھی جاچکا ہے۔ برادرم مطیع الرحمن نظامی اس کا تازہ ترین شکار ہیں۔ ان کے سلسلے میں انصاف کا کس طرح خون کیا گیا ہے، اس کی داستان انگلستان کے مشہور قانون دان بیرسٹر ٹوبی کاڈمین نے اپنے حالیہ مضامین میں پیش کی ہے۔ ہم اس تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے ان کی تحریر کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جو مشہور آن لائن مجلہ The Huffington Post میں ۱۴مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے:

آج بین الاقوامی انصاف کے لیے ایک افسوس ناک دن ہے۔ ۱۱مئی ۲۰۱۶ء کو ایک بجے شب مطیع الرحمن نظامی کو ڈھاکہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔یہ پھانسی دیے جانے والے پانچویں شخص ہیں جنھیں انتہائی ناقص بین الاقوامی کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی بی) کے حکم پر پھانسی دی گئی۔ یہ ٹریبونل بین الاقوامی جرائم کی جواب دہی اور فراہمیِ انصاف کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کی کارروائی کے جواز کو بے ضابطگیوں، مقدمات کو سیاسی طور پر حسب موافق و منشا بنانا اور قانونی ناانصافی نے مجروح کردیا۔ سپریم کورٹ اور  آئی سی ٹی بی کے فیصلوں کا ایک سادہ مطالعہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ ان دوسرے افراد کی طرح جن کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا نظامی کے مقدمے کی کارروائی بھی بین الاقوامی انصاف کے معیارات کے مطابق نہیں ہوئی۔ متعدد بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ایک عام بیان میں جو پھانسی کی سزا سے دو دن پہلے جاری کیا گیا تھا یہی موقف اپنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: جو لوگ آئی سی ٹی بی میں پیش ہونے والے تھے، ان کو دستوری اور منصفانہ ٹرائل میں جو تحفظات حاصل تھے انھیں حکومت نے واضح طور پر ختم کرکے اس کی اثرپذیری اور قانونی استحقاق کو شروع ہی سے ختم کردیا۔ اور مزید جو کچھ بعد میں  ہونا تھا، اس کے لیے زمین ہموار کر دی۔ اس بیان پر آزاد اور نام وَر وکلا، جج اور ماہرین کے ایک گروہ کے دستخط ہیں۔

استغاثے کے مطابق نظامی ’البدر‘ کے جو پاکستان آرمی کی نیم فوجی فورس تھی، چیف تھے  لیکن بکثرت ریسورسز تک رسائی کے باوجود سرکاری وکیل کوئی ایسی شہادت پیش کرنے سے قاصر تھا جو اس تنازعے سے متعلق ہو اورجس سے یہ ظاہر ہو کہ نظامی اس منصب کے حامل تھے۔ اس کے بجاے انھوں نے اشاروں (innuendo) اور نتیجہ نکالنے  (inferences) کو ترجیح دی۔

فیصلے کی زبان اور بیان فنی کے بجاے لفظی اور یک رُخی ہے لیکن قانونی نقطۂ نظر سے جو بات اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرائم سے متعلقہ عناصر کے مکمل تجزیے سے محروم ہے۔ گو کہ اپیل کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نسل کشی کی سزا کو برقرار رکھا لیکن کورٹ نے نہ تو مطلوبہ تقاضوں (subjective)، یعنی نسل کشی کی تعریف کے مطابق متعلقہ گروہ کا تعین کیا ، نہ جرم کا ذہنی عنصر کو جو اس قسم کے جرم کا ایک لازمی خاصہ (فیچر) ہوتا ہے، فیصلے میں بیان کیا گیا۔

بہرحال مقدمے کی ناانصافی متعلقہ شہادتوں اور قانونی تجزیہ نہ ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ اساسی بنیادی حقوق کو بھی متاثر کرتی ہے۔ نظامی کے خلاف مقدمہ اسلحے کی خوف ناک عدم مساوات سے متاثر (infect) تھا۔ استغاثے کو تفتیش کے لیے ۲۲ماہ دستیاب تھے، جب کہ دفاع کے لیے مقدمے کی تیاری کے لیے محض تین ہفتے دیے گئے۔ استغاثہ نے ۲۶ گواہ بلائے، جب کہ مستغیث کو چار سے زیادہ گواہ بلانے سے روکا گیا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن یہ حقیقت ہے کہ گواہوں نے یہ قبول کیا کہ انھوں نے رشوتیں قبول کرنے کے بعد ایک خاص بیان دینے کی مشق کی اور جھوٹی گواہی دی ہے۔

اس حقیقت کے خلاف بڑی آراستہ و پیراستہ بیان بازی کے باوجود اس سے مفر نہیں ہے کہ آئی سی ٹی بی سیاسی طور پر ایک ساختہ پرداختہ ٹریبونل ہے۔ اسکائپ گیٹ اسکینڈل جس میں آئی سی ٹی بی کے ججوں اور ایک تیسرے فریق کے درمیان گھنٹوں گفتگو کا تجزیہ کیا گیا تھا، اس نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ آئی سی ٹی بی کے جج بیرونی احکامات کی پیروی کرتے ہیں بلکہ مقدمے کا سامنا کر نے والوں کا جرم پہلے ہی سے طے ہے۔

متعدد بین الاقوامی انسانی حقوق کی انجمنوں کی جانب سے آئی سی ٹی بی اور بنگلہ دیش پر پہلے ہی تنقید کی جارہی ہے کہ مقدمے کا سامنا کرنے والوں کو دستوری حقوق سے محروم کیا گیا ہے اور ایک جانب دار موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ٹریبونل کے قانونی اختیارات تنازعے کے ایک فریق کے کیے گئے جرائم تک محدود ہیں۔

اس مرتبہ نظامی کی پھانسی کو روکنے کے لیے عوام کا احتجاج پہلے کے مقابلے میں بہت مضبوط اور بہت زیادہ تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ، ٹام لنٹس ہیومن رائٹس کمیشن، دی بار ہیومن رائٹس کمیشن آف انگلینڈ اینڈ ویلز اور سابق سفیر امریکا براے وارکرائمز نے بیانات دیے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے نظامی کی سزا کو روکنے کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ ٹریبونل نے جن مقدمات کو سناہے، وہ بدقسمتی سے منصفانہ مقدمے اور مقررہ قانونی کارروائی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت بنگلہ دیش نے ان تمام مطالبات اور تنقید کو بالکل نظرانداز کر دیا جس سے آدمی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے لیے زیادہ مضبوط اقدام کرنے کا وقت ہے۔

انصاف کی ضرورت کو مسخ کردیا گیا ہے اور وہ ایک انتقام کی تلاش میں تبدیل ہوگیا۔ بغیر مقررہ قانونی کارروائی، بغیر حقوق کے اور یہ قانونی کارروائی محض ایک دکھاوے کا مقدمہ ہے اور موت کا فیصلہ آمرانہ قتل قرار پاتا ہے۔

برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسری تحریکی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ جنگی جرائم پر گرفت کے نام پرجو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے قانونی، عدالتی پہلوئوں اور عالمی اداروں کے اس ڈھونگ پر ردعمل کے اس مختصر جائزے کے ساتھ یہ امر بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے اسلامی تحریکات، انسانی حقوق کے نام وَر اداروں اور کچھ اہم سیاسی اور علمی شخصیات نے ان پر بھرپور احتجاج کیا ہے اور ترکی کے صدر اور وزیراعظم نے سب سے مؤثر انداز میں اس ظلم کو برملا ظلم کہا ہے اور بنگلہ دیش سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا ہے، وہیں بیش تر مسلم ممالک کی قیادتیں خاموش تماشائی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی نمایشی ردعمل سے ہٹ کر کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا اور مغرب کی وہ تمام قیادتیں اور تجزیہ نگار جو جانوروں اور درختوں کے تلف کیے جانے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں اور سیاسی اور معاشی پابندیوں (sanctions) کے تیرونشتر حرکت میں آجاتے ہیں، وہ بالکل منقار زیر ہیں بلکہ چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی تحریکات اور شخصیات پر ظلم کے پہاڑ بھی توڑے جائیں تو ان کے ضمیر میں کوئی کسک نہیں ہوتی۔ یہی وہ منافقت اور دوغلاپن ہے جو مغرب کی سیاسی اور فکری قیادت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور اگر عام انسان اس گندم نما جوفروشی پر اپنے اضطراب اور غصے کا اظہار کرتے ہیں تو معصوم چہرہ بناکر فرمایا جاتا ہے Why do they hate us? (وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟)

برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسرے مظلوم رہنمائوں اور ساتھیوں کی پاک دامنی کا ثبوت یہ ہے کہ عدالت متعصب ہے، قانون بددیانتی پر مبنی ہے، انصاف کے ہرتقاضے کا خون کیا جارہا ہے، ملزموں کو دفاع کے حق اور کم سے کم مواقع سے بھی محروم رکھا جارہا ہے، گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، حتیٰ کہ اغوا کیا جارہا ہے اور عدل کی فراہمی کے عمل میں کھلے کھلے مداخلت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ وزرا، سرکاری مشیر، بیرونی افراد ججوں کو ہدایات دے رہے ہیں اور آخری حد یہ ہے کہ جب کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت میں کھلے الفاظ میں یہ تک کہہ دیا کہ ملزموں کے خلاف نہ کوئی قابلِ اعتماد گواہی اور شہادت ہے اور نہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرسکا ہے تو بھارت کا ہائی کمشنر فیصلے کے اعلان سے ایک دن پہلے کھلے بندوں چیف جسٹس سے ملتا ہے اور وہی چیف جسٹس صاحب اس شخص کو جس پر اس کے اپنے بقول استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکا، نہ صرف موت کی سزا دے دیتے ہیں بلکہ یہ بھی فرما دیتے ہیں: ’’جنگی جرائم کا ثابت ہونا ضروری نہیں، بلکہ جنگ ِ آزادی کی مخالفت بھی ایک کافی ’جرم‘ ہے ‘‘ اور اس طرح معصوم انسانوں کو تختۂ دار پر چڑھایا جارہا ہے۔

ایک طرف حکمرانوں، عدالتوں اور قانون کے محافظوں کا یہ کردار ہے اور دوسری طرف  ان افراد کی پوری زندگیوں کو دیکھا جائے جن کو اس ظلم و سفاکیت اور انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو ایک بالکل دوسری ہی تصویر سامنے آتی ہے۔

آیئے کچھ جھلکیاں تصویر کے دوسرے اور اصل رُخ کی بھی دیکھ لیں۔ وہ حضرات جن کو  ظلم اور عدالتی قتل کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان کا اصل کردار کیا ہے اور معاشرے میں ان کے لیے کیا جذبات ہیں، یہ سب ایک کھلی کتاب کے مانند ہے۔

مطیع الرحمن نظامی ضلع پبنہ کے گائوں منحت پور میں ۳۱مارچ ۱۹۴۳ء کو ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی اور پھر ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شعیب پور کے مدرسے کی طرف رجوع کیا جس سے فارغ ہوکر ڈھاکہ کے مدرسۂ عالیہ سے ۱۹۶۳ء میں کامل کی سند حاصل کی۔ دینی علوم کے ساتھ آپ نے جدید تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ڈھاکہ سے ۱۹۶۴ء میں انٹر اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ۱۹۶۶ء میں بی اے کی سند لی۔

مدرسیہ عالیہ ہی کے دور میں تحریک اسلامی سے رشتہ جوڑا اور خرم بھائی کی تحریک پر جمعیت طلبہ عربیہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ ۱۹۶۳ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے اور ۱۹۶۵ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان جمعیت کے ناظم رہے اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اس طرح مشرقی پاکستان سے پہلے ناظم اعلیٰ منتخب ہونے کی سعادت پائی۔ یہ ذمہ داری ۱۹۷۱ء تک ادا کی اور اس طرح متحدہ پاکستان کی جمعیت کے آخری  ناظم اعلیٰ ہونے کا تاج بھی ہمیشہ کے لیے ان کے سر کی زینت بن گیا۔

۲۰ویں صدی میں اسلامی تحریکات کے قائدین کو طرح طرح کی آزمایشوں سے سابقہ رہا ہے اور شہادت اور عدالتی قتل ان کا حصہ رہے ہیں لیکن جہاں تک میرا حافظہ ساتھ دیتا ہے، برادرم مطیع الرحمن نظامی کسی ملک کے پہلے امیرجماعت ہیں جنھیں امیرجماعت ہوتے ہوئے عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں شہادت کی سعادت نصیب ہوئی ہے   ع

یہ رُتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا

نظامی صاحب پر الزامات کی حقیقت

میں اپنے۵۰ سال سے زیادہ پھیلے ہوئے ربط و تعلق کی بنیاد پر پورے وثوق سے یہ گواہی دینے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ان کا جو اَخلاق، جو مزاج، جو جذبات و احساسات میں نے دیکھے اور ان کی ذاتی زندگی، تحریکی معاملات، ملکی اور سیاسی اُمور کو انجام دینے کے طریقے کا جتنا مجھے تجربہ ہے، اس کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ جن جرائم کو ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے ان کے بارے میں قرآن کے الفاظ میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ o (النور ۲۴:۱۶)

ان الزامات کے بارے میں نظامی بھائی نے ٹریبونل کو جو بیان دیا ہے اس کے یہ اقتباسات میرے احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں:

’’میرے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں انھیں تاریخ کا بدترین جھوٹ کہوں گا۔ یہ مقدمات مخالفین کے سیاسی قدکاٹھ کو کم تر بناکر پیش کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ میں عرصۂ دراز سے کارزارِ سیاست میں ہوں۔ صرف سیاسی بنیادوں پر کسی کو عدالتوں کے حوالے کر دینا کوئی کمال نہیں ہے۔ میری جو سرگرمیاں بھی رہی ہیں، سیاسی کارکن کے طور پر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہیں۔

’’جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں کبھی کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔ کوئی بھی حکومت آخری حکومت نہیں قرار دی جاسکتی، نہ دنیاکی کسی عدالت کو آخری عدالت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس عدالت کے بعد ایک اور عدالت ہے اور تمام افراد کو اس عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

’’۱۹۷۱ء میں، مَیں ایک سیاسی کارکن تھا اور میرا کسی غیرقانونی سرگرمی سے تعلق نہ تھا۔  میرا مطالبہ یہ تھا کہ مقامی طور پر جو نمایندے منتخب ہوئے ہیں، ان کو اقتدار منتقل کیا جائے۔  جماعت اسلامی بھی یہی مطالبہ کر رہی تھی کہ اقتدار منتخب نمایندوں کو منتقل کیا جائے۔ اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) بھی یہی مطالبہ کر رہی تھی۔ اگر اقتدار منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جاتا تو موجودہ کریہہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔

’’تاریخ گواہ ہے کہ کس نے اقتدار کی منتقلی کے لیے زور دیا اور کس نے رکاوٹ پیدا کی؟ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ثبوت دے سکے کہ اقتدار کی منتقلی میں جماعت اسلامی نے رکاوٹ پیدا کی۔ بھٹو کی تقریر کی مخالفت سب سے پہلے میں نے کی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جنھوں نے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ پیدا کی۔ ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان کے بل بوتے پر اقتدار سے لطف اندوز ہورہے تھے یا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس سوال پر تحقیق ہونی چاہیے۔ نہ ہمارا کوئی ایسا رابطہ تھا،  نہ ایسی کوئی بنیاد تھی جس کی بنیاد پر ’نسل کشی‘ کا ارتکاب ہوتا۔

’’اتفاقیہ طور پر میں اُس وقت متحدہ پاکستان کی ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ [اسلامی جمعیت طلبہ] کا ناظم اعلیٰ تھا اور میں ستمبر کے آخری ہفتے تک اس ذمہ داری پر رہا۔ ۲۹ ستمبر تا یکم اکتوبر کو ایک کانفرنس [۲۰واں سالانہ اجتماع] ملتان میں ہوئی اور مجھے اس ذمہ داری سے فارغ کر دیا گیا۔

’’بعدازاں ایک دینی ریسرچ سنٹر کے ممبر کے طور پر میں نے کام شروع کر دیا۔ مجھ پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُن میں الزام نمبر۱۶ یہ ہے کہ میں اُس وقت عہدے دار تھا اور چھاتروشنگھو کا مرکزی صدر تھا،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں اکتوبر کے بعد اُس کا عام کارکن بھی نہیں تھا، بلکہ اُس وقت میں جماعت کا رُکن بھی نہیں تھا۔ اس حوالے سے یہ سوال اُٹھانا بے بنیاد ہے کہ جماعت اسلامی کے صدر کے طور پر میری کیا سرگرمیاں تھیں۔

’’میرے بارے میں کہا گیا کہ میں ’البدر‘ کا سربراہ تھا۔ اس سلسلے میں جو شہادتیں پیش کی گئی ہیں، اُن میں کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں البدر اور رضاکاروں کا کمانڈر تھا۔      بطور ثبوت جو کتاب پیش کی گئی ہے، اُس میں تحریر ہے کہ ’انصار باہنی کو رضاکار باہنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ انصارباہنی کا سازوسامان، البدر باہنی کے حوالے کر دیا گیا۔ انصارباہنی کے ذمہ دار، رضاکار کے اعلیٰ عہدے دار بن گئے۔ انصار باہنی کے نمایاں لوگ، البدر کے اہم ترین اور نمایاں ترین عہدے دار بن گئے۔ تب میرے لیے کون سا موقع تھا کہ میں رضاکاروں کا کمانڈر یا سربراہ بن جاتا۔ آپ کی جانب سے پیش کی جانے والی کتاب سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ میرے رضاکاروں کے سربراہ بننے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

’’میرے خلاف کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انھیں کریمنل پروسیجر ۱۸۹۸ء کے تحت پیش کیا گیا ہے، لیکن میرا ضمیر صاف ہے اور میں اپنے رب کے حضور سرخ رو ہوں کہ ایک سیاسی کارکن کے سوا میرا کوئی کردار نہ تھا۔ میرا کسی بھی غیراخلاقی، جنگی یا انسانیت کے خلاف جرائم میں کوئی کردار نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی کسی بھی شرم ناک حرکت اور سرگرمی سے بچائے رکھا۔

’’میرے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی جرم میری موجودگی میں کبھی نہیں ہوا، نہ میری رضامندی سے ہوا اور نہ میں ایسے کسی جرم سے واقف ہوں۔ میں جن جن جگہوں پر گیا ہوں، اُن کے نام اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں، لیکن میں اپنے والدین سے ملنے کے لیے ایک روز بھی نہیں گیا۔ جن علاقوں میں جرائم کا ارتکاب ہوا، نہ میں وہاں گیا، نہ میں نے جرائم کا ارتکاب کیا تو میں کس طرح ان جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہوں؟ میں اسے تاریخ کا بدترین جھوٹ ہی کہہ سکتا ہوں۔

’’مجھ پر الزامات کے دوران جن علاقوں کے ناموں کا تذکرہ ہے، ان میں سے کئی نام میرے لیے نئے ہیں، مثلاً ’کورموجا‘۔ مجھ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ میں نے کورموجا کے لوگوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کیں، کیونکہ انھوں نے مجھے ووٹ نہیں دیے تھے۔ لیکن ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں مَیں اُمیدوار ہی نہیں تھا، تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مجھے ووٹ نہیں دیے تھے۔

’’اسمبلی کا اُمیدوار پہلی بار ۱۹۸۶ء میں بنا۔ ۱۹۸۸ء میں میرے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بننے کی خبر شائع ہوئی تو میری اہلیہ کو گمنام شخص کی طرف سے فون کال موصول ہوئی، جس میں کہا گیا کہ اگر میں نے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو میری اہلیہ بیوہ ہوجائے گی۔ میری اہلیہ سے کہا گیا کہ اگر بیوہ ہونے سے بچنا چاہتی ہو تو اپنے شوہر کو جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دو۔

’’جب میں وزیر بنا، میں نے واضح کیا کہ میں نے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا جس سے ملک کو نقصان پہنچا ہو۔ جب میں وزیرزراعت تھا تو ملک کی پیداوار بڑھانے کے لیے کئی بنیادی اور مؤثراقدامات کیے گئے۔

’’کوئی عدالت آخری عدالت نہیں ہے اور کوئی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ ایک اور عدالت آئے گی جس میں ہم سب کو پیش ہونا ہوگا‘‘۔

رحم کی درخواست سے انکار

۵مئی ۲۰۱۶ء کو اپیل کے فیصلے سے پہلے ان کی ملاقات قاسم پور جیل میں اپنے اہل خانہ سے ہوئی۔ اپنی اہلیہ عزیزہ شمس النہار صاحبہ اور بچوں کو مخاطب کرکے فرمایا:

میری شہادت مجھے نظر آرہی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو عطا فرماتا ہے۔ میری شہادت پر کسی کو رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ میں سب کو صبر کی تلقین کرتا ہوں [پھر قرآنِ حکیم کی یہ آیت پڑھی: وَ اصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo انفال ۸:۴۶]۔ میرا دل بالکل مطمئن ہے، میں اپنے تمام چاہنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی پُرامن جدوجہدجاری رکھیں اور اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ میرے وطن عزیز بنگلہ دیش میں اللہ تعالیٰ اسلامی نظام کے لیے فضا ہموار فرمائے۔

۱۰ مئی ۲۰۱۶ء کی شب آٹھ بجے سے پہلے ان کو ڈھاکہ سنٹر ل جیل منتقل کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کا ریویو پٹیشن پر فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔ ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے نو بجے شب اہلِ خانہ سے آخری ملاقات ہوئی۔ خاندان کے ۲۶؍افراد نے مطیع الرحمن بھائی کے ساتھ ایک گھنٹے سے   کچھ زیادہ وقت گزارا۔دن کے دوران دو وزرا نے رابطہ کیا اور اطمینان دلایا کہ اگر رحم کی اپیل کردیں تو سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن نظامی بھائی نے صاف انکار کر دیا کہ یہ خسارے کا سودا ہے۔ شہادت تو مومن کے لیے مقصود و مطلوب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے اتنے قریب آنے کے بعد اس سے محروم رہنے کا کون سوچ سکتا ہے؟ ان کا جواب  بڑا نپاتلا تھا:

 میرے لیے میرے رب کا رحم کافی ہے۔ اس کے علاوہ میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔

آٹھ بج کر ۵۸ منٹ پر دو منٹ کے لیے ڈیلی اسٹار کے نمایندے کو آخری بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کال کوٹھڑی میں لایا گیا۔ مطیع الرحمن نظامی نے ایک جملے میں پوری داستانِ حیات بیان کردی:

میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ عمر کے اس حصے میں شہادت نصیب ہو، اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہوگی۔

اہلِ خانہ سے ملاقات ساڑھے نو بجے شب ختم ہوئی جس کی تفصیل نظامی بھائی کے صاحب زادے شاہد نظامی نے کچھ یوں بیان کی ہے:

خاندان کے ہم ۲۶؍افراد ان سے ملنے کے لیے جیل کے بلاک راجن ایگندھا میں داخل ہوئے۔ والد صاحب اس بلاک کے آخری کمرہ نمبر ۸ میں تھے اور سبزرنگ کی جاے نماز پر قبلہ رُو دُعا میں مشغول تھے۔ ان کے پوتے نے دادا کو متوجہ کیا جس پر انھوں نے خود دروازہ کھولا اور یوں آخری ملاقات شروع ہوئی۔ موسم بے حد گرم تھا ۔ وہ اور ہم سب ہی پسینے میں شرابور تھے لیکن ان کا چہرہ پُرسکون اور روشن تھا۔

اس ملاقات میں نظامی صاحب نے اہلیہ اور بچوں کو رحم کی درخواست کے بارے میں بھی بتایا اور واضح کیا کہ ’’میں نے زبانی ہی نہیں، لکھ کر بھی دے دیا ہے کہ مَیں اللہ کے سوا کسی سے رحم کی درخواست نہیں کرتا۔ زندگی اور موت کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور میں کسی انسان سے رحم کی درخواست کر کے اپنے ایمان کو تباہ نہیں کرنا چاہتا۔

۱۰مئی ۲۰۱۶ء سہ پہر کے وقت جیل کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کو لکھ کر دے دیا ہے کہ: I would not seek any mercy or clemency

اس ملاقات میں عجیب سماں تھا، جذبات موجزن تھے۔ میرے والد نے ہم سب کو صبر کی تلقین کی اور بار بار کی۔ والد صاحب پُرسکون تھے۔ ان کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک نفس مطمئنہ اپنے رب سے ملنے کا منتظر ہے۔

پھر کچھ دیر کے لیے ہم سب کمرے سے باہر چلے گئے اور صرف والدہ، والد صاحب کے ساتھ رہ گئیں۔ میری والدہ نے بتایا کہ ہم نے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے کو اتنا قریب دیکھ کر رب کا شکر ادا کیا۔

میری والدہ نے اپنے شریکِ حیات کو مخاطب کر کے فرمایا:

ہم اللہ کے سامنے بھی گواہی دیں گے کہ آپ ایک نیک اور دیانت دار شخص تھے اور آپ نے کبھی کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔

اس کے جواب میں میرے والد نے والدہ کو یہ نصیحت کی کہ اب آپ کو صرف ماں ہی نہیں بچوں کے لیے باپ کا کردار بھی ادا کرنا ہے۔ آپ مجھے میرے بیٹوں اور بیٹیو ں کی شخصیت میں پائیں گی۔

ہم سب ایک بار پھر کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس موقعے پر والد صاحب نے سب کو مخاطب کر کے جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے:

تم سب آیندہ بہت ہم آہنگی کے ساتھ رہو۔ اللہ اور رسول کے راستے کی پیروی کرو اور اپنی والدہ کا خیال رکھو۔ تم مجھے اپنی ماں میں پائو گے۔ یہ بھی یقینی بنائو کہ تمھاری والدہ مجھے تم میں پائیں۔ تم لوگوں کو میرے بارے میں بتائو جیساکہ تم نے مجھے دیکھا ہے، مبالغہ مت کرو۔ اب میری عمر ۷۵برس ہوگئی ہے۔ میرے بیش تر رفقاے کار اور ساتھیوں کو اتنی طویل زندگی نہیں ملی۔ تمھیں اپنا باپ بہت طویل مدت کے لیے زندہ ملا۔ زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی ہے کہ میں آج رات مرجائوں تو اگر میں اپنے گھر پر ہوتا جب بھی مجھے موت آجاتی۔ ہمیشہ اللہ کے بارے میں پُرامید رہو اور اللہ کے شکرگزار بھی رہو۔

اس کے بعد ہم نے اپنے بچوں اور بچیوں کو پیار اور دُعا کے لیے ان کے سامنے پیش کیا، خصوصیت سے چھوٹے بچوں کو۔ ان کا ارشاد تھا:’’میں ان کے لیے دُعائیں کررہا ہوں تاکہ وہ مجھ سے بھی بڑے ہوجائیں، رسولؐ اللہ کے صحابہ کی طرح‘‘۔

والد صاحب نے خصوصیت سے ہمیں پیغام دیا کہ تحریک اسلامی کے تمام قائدین اور کارکنوں تک ان کا سلام اور دُعاپہنچا دیں اور یہ درخواست بھی کی کہ سب سے درخواست کریں کہ ان کے لیے، خصوصیت سے ان کی شہادت کے قبول کیے جانے کی دُعا کریں۔

میری والدہ نے وفور جذبات سے کہا:

اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں عزت دی ہے اور ان شاء اللہ آنے والی زندگی میں بھی آپ کو عزت دے گا۔

میرے والد نے جواب میں کہا:

میں دیہات سے آنے والا ایک عام سا آدمی تھا۔ یہ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے علما میرے بارے میں اپنی پریشانی اور فکر کا اظہار کر رہے ہیں اور میرے لیے دُعائیں کر رہے ہیں۔

شیخ حسینہ او آئی سی کانفرنس میں اس لیے نہیں گئی کہ اسے یہ اندیشہ تھا کہ وہاں میری رہائی کے بارے میں گفتگو ہوگی۔ یہ تمام چیزیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بہت زیادہ رحم اور رحمتیں ہیں۔

ہم نے والد صاحب سے استدعا کی کہ اللہ کے دربار میں ہمارے لیے بھی دُعا کریں کہ جنت میں ہم سب کو ملوائے۔

والد صاحب نے فرمایا: نیک عمل کرو کہ جنت تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے۔ ان شاء اللہ پھر اللہ تعالیٰ بھی کرم فرمائیں گے اور ہمیں جنت میں رفاقت نصیب ہوگی۔ پھر انھوں نے بڑی رقت کے ساتھ یہ دُعا کی جو ہمارے دلوں پر نقش ہوگئی۔

انھوں نے پھر اپنے دونوں ہاتھ ہمارے ساتھ دُعا کے لیے اُٹھائے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور رسولؐ اللہ پر درود و سلام بھیجا۔پھر ۲۰منٹ تک رسولؐ اللہ کی سکھائی ہوئی دُعائیں کرتے رہے جیساکہ وہ اپنی پوری زندگی میں کیا کرتے تھے۔

پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی: اے اللہ! میں ایک عام گناہ گار شخص ہوں۔ ازراہِ کرم میرے ان تمام اچھے کاموں کو قبول کرلیجیے جن کی آپ نے مجھے اپنے دین کی خاطر کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مجھے ایمان اور اسلام کے راستے پر موت تک استقامت عطا فرما اور مجھے شہادت عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے اور میری آیندہ نسلوں کو اقامت صلوٰۃ کی توفیق عطا فرمائے اور میری اور تمام اہلِ ایمان کی فیصلے کے دن مغفرت فرما۔ اے اللہ! ہمیں مضبوط ایمان کی برکت عطا فرما اور صرف اپنے پر ہی سچا توکل عطا فرما۔ ہماری زبانوں کواپنے ذکر سے ہمیشہ تر فرما۔ ہم ایسے زندہ قلب کے لیے آپ سے التجا کرتے ہیں جو ہمیشہ آپ سے ڈرے، علم نافع، حلال روزی اور اسلام کے صحیح فہم کی توفیق دے۔ ہم آپ سے اس کی التجا کر رہے ہیں ۔ اے اللہ! ہمیں موت سے پہلے پچھتانے کی توفیق دے۔ موت کے وقت ہمیں آرام دے اور موت کے بعد ہمیں اپنی مغفرت عطا کر اور دوزخ کی آگ سے بچا۔

یااللہ! ہم کو حلال پر قانع رہنے کی توفیق عطا فرما اور حرام سے بچنے کی توفیق دے۔ ہمیں پوری زندگی اپنا مطیع بنا اور ہمیں اپنی معمولی سی نافرمانی سے بھی دُور رکھ اور ہمیں اپنی ذات کے علاوہ کسی کا محتاج نہ کر۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنے نور (قرآن) سے ہدایت دے۔ تو ہمارے گناہوں کو پورا کا پورا جانتا ہے اس لیے ہم تیرے سامنے نادم ہوتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ یاحنّان!  یامنان!

انھوں نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ! اس ملک کو اپنے دین کے لیے قبول کرلے اور اس ملک کو پُرامن بنا دے اور قتل و غارت، غنڈا گردی، اغوا اور سامراجیت سے محفوظ کردے۔ انھوں نے ملک کی ترقی کے لیے بھی دعا کی۔ اس جذباتی دُعا کے دوران میں میری بیٹی نے جیل کے اہل کاروں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجہو

یہ منظر، یہ جذبات، یہ دُعائیں، یہ تمنائیں عزیزی مطیع الرحمن نظامی کی کُل کائنات اور سرمایۂ حیات ہیں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے کبھی اپنے دشمنوں کو بھی تکلیف نہیں دی یہ الزام کہ اس نے درجنوں افراد کے قتل اور دسیوں محصنات سے جنسی زیادتی کا حکم دیا، ایک ایسا جھوٹ ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ اور یہ سب ایک چھوٹے سے قصبے میں جس کے باسی رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اس کے جنازے میں شرکت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں    جمع ہوگئے۔ پہلے دوانتخابات میں اسے کُل ڈالے جانے والے ووٹوں کا ۵۴ فی صد سے زیادہ حاصل ہوا اور ۲۰۰۸ء میں جب تاریخی دھاندلی، جعلی ووٹ اور سرکاری مداخلت کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے، اس انتخاب میں بھی ووٹوں کا ۴۵ فی صد اسے حاصل ہوا۔

کیا کسی قاتل اور زانی سے بھی اس کے اہل محلہ اور اہلِ شہر ایسا پیار کرتے ہیں؟ بنگلہ دیش سے آنے والی خبریں چشم کشا ہیں۔ نظامی صاحب کی شہادت کے بعد سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جب کہ شہید کے اہلِ خانہ کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ تحریک کے کارکنوں اور حامیوں پر    عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے لیکن شہید کے گھر اور قبر پر ایسے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ وہ شہید کے احسان مند ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہیں جنھیں انھوں نے ہرقسم کی مدد دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کیا اور ان میں بیش تر افراد وہ بھی ہیں جن کا جماعت سے باقاعدہ کوئی تعلق نہ تھا۔   ان میں سے متعدد نے جنازے کے بعد ان کے احسانات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کتنی دُور سے چل کر آئے ہیں تاکہ ان کے جنازے میں شرکت کرسکیں۔ روایت ہے کہ جنازے کے بعد ایک کلین شیو شخص نے جس کا جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا، بہ آوازِ بلند اعلان کیا:

میں گواہی دیتا ہوں کہ مطیع الرحمن نیک، بلند کردار شخصیت کے حامل ہیں جو کسی کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کو پھانسی دینے والے دنیا اور آخرت میں ذلیل و رُسوا ہوں گے۔(روزنامہ اُمت، ۱۳مئی ۲۰۱۶ئ)

مطیع الرحمن نظامی کے دوسرے صاحب زادے ندیم طلحہ نے اخباری نمایندے سے بات کرتے ہوئے کہا:

ہمیں اپنے والد کی شہادت اور قربانی پر فخر ہے۔ حکمرانوں نے بنگلہ دیش اور اُمت مسلمہ کے سب سے بڑے خیرخواہ اور محب وطن کو پھانسی دی ہے۔ میرے والد نے تاریخ رقم کردی ہے۔ سزاے موت کے خلاف رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ انھوں نے بہت پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ریکارڈ کی درستی اور حکمرانوں کی بدنیتی کو ظاہر کرنے کے لیے عدالتوں سے تو رجوع کیا جائے گا تاکہ حقائق کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے،  مگر کسی حکمران سے رحم کی اپیل نہیں کی جائے گی۔ شہید مطیع الرحمن نظامی کل بھی عوام کے مقبول رہنما تھے اور آج بھی مقبول رہنما ہیں۔

ان کی بیٹی فاطمہ محسنہ نے کہا:

میرے والد اکثر کہتے تھے کہ ہمارے تمام آنسو صرف اللہ کے لیے ہیں۔ میرے والد نے اپنی پوری زندگی ہم وطنوں کی فلاح و بہبود اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں  صرف کی۔ جن لوگوں کا ان سے قریبی تعلق رہا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ پروفیسر مطیع الرحمن نے اپنی زندگی، دولت، جان و مال سمیت سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دیا تھا۔ ان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک بہترین انسان تھے اور آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی آفاقی تحریک سے منسلک نہ ہوتے اور اسلام کی آبیاری کے لیے کام نہ کر رہے ہوتے تو ان کی موت کے بعد یہ دنیا اندھیر ہوجاتی۔ مگر اسلام کے رشتے کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ہمیں اللہ کی جانب سے روشنی ملتی ہے۔ آج ہم انسانوں سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔ صرف اپنے رب سے رحم اور بخشش کا سوال کرتے ہیں۔ ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔

اس کی عزت پر حسینہ واجد کے حواری کیا دھول پھینک سکتے ہیں؟ الحمدللہ اپنے اور غیر جس کے بارے میں جو گواہی دے رہے ہیں وہ دلوں پر نقش ہی نہیں فضا کو بھی معطر کیے ہوئے ہے۔  جوشخص آٹھ سال وزیر اور وہ بھی زراعت اور صنعت کا وزیر رہا ہو، لیکن اس کے دامن پر کوئی داغ   نہ ہو، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے ۱۹۷۱ء میں یہ اور یہ کیا یا کروایا، اللہ کے عذاب کو  دعوت دینے کا باعث تو ہوسکتا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ قانونی سقم جو بھی ہوں، اور وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اس پورے مقدمے کو اسقاطِ عدل (miscariage of justice) کی بدترین مثال ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن مسئلے کو جانچنے کا ایک پیمانہ اخلاق اور معاشرے میں شہرت بھی ہے۔ اہلِ خانہ، پڑوسیوں، محلہ داروں، اہلِ شہر، دُور و نزدیک کے آشنائوں کی گواہی بھی ہے۔ بلاشبہہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے اور اس کے فرشتے ہرہرلمحے کا حساب محفوظ کیے ہوئے ہیں لیکن زبانِ خلق بھی نقارئہ خدا کی حیثیت رکھتی ہے کہ ’بھلا کہے جسے دنیا اسے بھلا سمجھو!‘

اس سلسلے میں قرآنِ پاک میں استدلال کا ایک عجیب و غریب پہلو بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ سورئہ یونس میں قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کی دلیل کے طور پر قریش کو چیلنج کرکے کہا جاتا ہے کہ کیا تم اس شخص سے واقف نہیں ہو جس کے اُوپر یہ کلام نازل کیا گیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرا کلام نہیں اللہ کا کلام ہے۔ کیا اس شخص نے پوری زندگی تمھارے درمیان نہیں گزاری؟ کیا تم نے اس کو صادق اور امین کے لقب سے نہیں نوازا؟ جس کی زندگی ایسی ہو، وہ ایسے عظیم معاملے کے باب میں کوئی غلط دعویٰ کرسکتا ہے؟

فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo(یونس ۱۰:۱۶) آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور۔قیمت:-/۱۵ روپے، سیکڑہ:۱۰۰۰ روپے)